29/2/16

اردو ادب وسط انیسویں صدی تک/سید احتشام حسین

تیرہویں صدی کے اختتام تک بابا فرید گنج شکر اور ہمہ گیر شاعر امیر خسرو کی نظمیں اردو ادب کی داغ بیل ڈال چکی تھیں۔ امیر خسرو کی زبان دہلی کے قرب و جوار کی بولی کا ایک نیا روپ تھی۔ انھوں نے اس بولی کو دہلوی کا نام دیا۔ لیکن بعد میں اس کا نام کھڑی بولی پڑگیا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ جنوبی ہند کے دہلی راج کے تحت چلے جانے سے دہلی کے راج دربار سے فوجی، صوفی، فقیر، تاجر اور آفیسر وہاں گئے اور شمالی ہندوستان کی بول چال کی زبان بھی اپنے ساتھ لیتے گئے۔ کئی تاریخی قوتوں نے دہلی کے علاقے میں بولی جانے والی زبان کا مرکز جنوبی ہند کو بنا دیا۔ آہستہ آہستہ یہ دکن اور گجرات میں پھیل گئی۔ شمال میں یہ صرف بول چال کی زبان رہی لیکن جنوب میں اس کا ادبی روپ نکھرنے لگا اور اسے مختلف نام مثلاً ہندی، ہندوی، دکھنی اور گجری وغیرہ دیے گئے۔ بہمنی سلطنت اور بعد میں گول کنڈہ اور بیجا پور کی ریاستوں میں اس کی خوب نشوونما ہوئی۔ صوفی امن و عبادت کا پیغام عام فہم زبان میں دیتے تھے۔ بادشاہ اس کی سرپرستی کرتے تھے اور اس زبان میں نظمیں کہتے تھے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ قدیم اردو دکن میں بہت مقبول ہوئی اور دہلی کے مشہورصوفی بزرگ خواجہ گیسو دراز نے، جو گلبرگہ چلے گئے تھے 1420 سے قبل، تصوف پر اپنا مشہور رسالہ ’’معراج العاشقین‘‘ لکھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بیجا پور، گول کنڈہ اور احمد نگر میں صوفیوں نے پندرہویں اور سولہویں صدی میں صوفیانہ نظمیں اور کتابیں لکھیں۔ یہ سب کچھ شمال میں اردو کی جاے پیدائش سے بہت دور مقامات پر ہورہا تھا۔
دکھنی اردو نے 1600 کے قریب بیجا پور اور گول کنڈہ میں خوب ترقی کی۔ بیجا پور کے ابراہیم عادل شاہ نے 1599کے لگ بھگ اپنا مجموعۂ کلام ’’نورس‘‘ تیار کیا۔ انھیں نہ صرف قدیم اردو بلکہ برج بھاشا پر بھی دسترس تھی۔ یہ کتاب ہندوستانی موسیقی کی بہترین روایات سے خوشہ چینی کرتی ہے۔ ان کے دور میں فارسی زبان کے عالموں اور شاعروں کے علاوہ اردو کے شاعروں مثلاً مقیمی اور امین نے خوب ترقی کی۔ بعد میں بیجا پور میںبہت سے اردو شاعر ہوئے جن میں ہاشمی، رستمی اور نصرتی کے نام اہم ہیں۔ گول کنڈہ میں بھی حالات اس سے مختلف نہ تھے۔ وہاں محمد قلی قطب شاہ نے، جنھوں نے 1611 تک حکومت کی، ایک لاکھ سے زیادہ شعر کہے جن میں انھوں نے اپنے مذہبی اور روحانی حالات کا اظہار کیا۔ ان کی نظموں میں ہمیں ایک حقیقی ہندوستانی بادشاہ کے دل کی دھڑکنوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔انھیں ہندوستان کے موسم، پھول پھل اور تیوہار جیسے بسنت، ہولی اور دیوالی بہت پسند تھے۔ ان کے دربار میں اردو کے کئی اچھے شاعر موجود تھے۔ جن میں ملا وجہی کا نام، جنھیں نظم اور نثر دونوں پر عبور حاصل تھا، درخشاں ہے۔ ان کی نثر کی کتاب ’’سب رس‘‘ اور نظم ’’قطب مشتری‘‘ کے مقابلے میں کتابیں آج بھی نہیں ملتیں۔ محمدقلی قطب شاہ کے بھتیجے عبداللہ، ان کے پوتے محمد اور محمد کے صاحبزادے ابوالحسن اچھے شاعر تھے اور شاہی خاندان کے باہر غواصی اور ابن نشاطی جیسے اعلیٰ شاعر ہوئے۔
سنہ1687 میں اورنگ زیب نے دکن کی سلطنتوں کو ختم کردیا۔ لیکن ادبی ترقی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت تک اردو میں نہ صرف اعلیٰ درجے کی صوفیانہ اور مذہبی شاعری تھی بلکہ ’’نورس‘‘، محمد قلی قطب شاہ کی تصانیف ، ’’سب رس‘‘،’’ قطب مشتری‘‘، ’’پھول بن‘‘، ’’سیف الملوک‘‘،’’ طوطی نامہ‘‘،’’ علی نامہ‘‘،’’ گلشن عشق‘‘ اور’’ یوسف زلیخا‘‘ جیسی بلند پایہ غیر مذہبی کتابیں بھی لکھی جاچکی تھیں۔
اٹھارویں صدی کے آغاز میں جب کہ ولی دکنی کا طوطی بول رہا تھا، شمالی ہند میں بھی اس زبان میں شعر و شاعری ہونے لگی جو کہ پانچ سوسال سے وہاں نشو و نما پارہی تھی۔ فارسی کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور ایسا وقت آنے لگا تھا جب کہ شاعر محسوس کرنے لگے کہ انھیں عام بول چال کی زبان میں اپنے ادبی خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔ دکن کے شاعروں کی مثال اردو میں شعر کہنے کے لیے ان کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ اردو شاعری کا مرکز جنوبی ہند کے بجاے شمالی ہندوستان بن گیا۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس وقت دہلی کی اہمیت بڑھ رہی تھی، اس وقت بھی دکن میں ولی، بحری اور سراج جیسے عظیم شاعر موجود تھے اور صوفیانہ اور عشقیہ اور بیانیہ شاعری میں ان کی کامیابیوں کا شمالی ہندوستان میں اردو شاعری پر گہرا اثر پڑا۔
دہلی کے ابتدائی دور میں جان جاناں، خان آرزو، فائز، آبرو، ناجی، مظہر، یک رنگ، انجام اور مضمون کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں آرزو، مظہر اور فائز نئے مکتب خیال کے روح و رواں تھے۔ نادر شاہ کے ہاتھوں دہلی کی لوٹ کھسوٹ کے باجود شاعروں کی پوری نسل وہاں مقیم رہی اور انھوں نے ہندوستان میں پھیلتی ہوئی زبان کو مالا مال کیا۔ جاگیردارانہ دور ختم ہورہا تھا اور مغلوں کی عظیم سلطنت چھوٹی چھوٹی نیم آزاد ریاستوں میں بٹ رہی تھی۔ اس صورت حال نے ان شاعروں کو ، جنھیں تاریخ کے دھارے کا علم نہیں تھا، الجھن میں ڈال دیا۔ اس لیے اس دور کی تخلیقی نگارشات میں الم ناک خلوص جھلکتا ہے۔ دہلی کے مکتب خیال کے ابتدائی دور میں یہ شاعر اہم تھے لیکن اسی دور میں اردو کے عظیم ترین شاعر پیدا ہوئے جنھوں نے کئی ادبی اصناف کی نشو ونما کرکے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔ وہ ہیں خواجہ میر درد، مرزا محمد رفیع سودا اور میر تقی میر۔
اردو کے صوفی شعرا میں سب سے زیادہ اہم شاعر خواجہ میر درد نے زیادہ تر غزلیں کہیں۔ انھیں زبان پر کامل عبور حاصل تھا۔ سودا کو کئی اصناف پر عبور حاصل تھا۔ وہ اردو کے ہمہ گیر شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا شمار اب بھی بہترین طنز نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ افراد، سماجی افراتفری، اور اخلاقی بے راہ روی پربھرپور طنز کرتے ہیں۔ انھوں نے مرثیے کو بھی ادب کا ایک حصہ بنا دیا۔ اس طرح سودا کا مقابلہ فارسی کے بڑے شاعروں سے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے جنھوں نے کچھ اصناف میں مشعل راہ کا کام کیا۔
میر تقی میر کا تعلق اکبر آباد کے ایک عالم صوفی خاندان سے تھا۔ بچپن سے ہی ان پر صوفیوں کی انسان دوستی اور عقیدے کی پابندیوں سے آزاد رہنے کی روایات کا گہرا اثر تھا۔ ابھی وہ گیارہ سال کے ہی تھے کہ ان کے والد وفات پاگئے اور انھیں سوتیلے بھائیوں اور رشتے داروں سے ٹھوکریں کھانے کے لیے تنہا چھوڑ گئے۔ اس لیے انھوں نے مشکلات کی گود ہی میں تعلیم و تربیت پائی۔ جو کوئی بھی تنقیدی نگاہ سے ان کی شاعری پڑھے گا وہ اس میں انسان کی مشکلات کو سر کرنے کے لیے جدو جہد اور ناکامی کے جذبات کو بھانپ لے گا۔ میر نے اپنی نظموں میں انسان کے ظلم اور قدرت کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری کا بہترین حصہ غزلیں ہیں جن میں مٹھاس، خلوص، فن، اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ فارسی تصانیف کے علاوہ ان کے خود نوشت سوانح حیات اور اردو کلام کے چھ دیوان ہیں۔
اس وقت تک دہلی کی سلطنت کا شیرازہ بھی بکھر گیا تھا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن گئی تھیں جن کے والیان عالموں، شاعروں اور فن کاروں کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ان ریاستوں میں فرخ آباد، ٹانڈہ(ضلع بریلی)، اودھ، عظیم آباد( پٹنہ)، حیدرآباد اور بعد میں رام پور کے نام قابل ذکر ہیں۔
دہلی میں حالات خراب ہوجانے کی وجہ سے کچھ شاعروں نے دوسرے مقامات کا رخ کیا۔ فغاں، میر ضاحک، سودا، میر سوز، میر اور چند سال بعد مصحفی، جرأت اور انشا لکھنؤ گئے اور وہاں انھیںبہت عزت ملی۔ ان شاعروں کے لکھنؤ چلے جانے سے وہاں علم و ادب کا ایک نیا مرکز بن گیا۔ انشا (جنھیں زبانوں اور ادبی روایات کا علم تھا) کی شاعری میں نادر نمونے ملتے ہیں۔ مصحفی بھی بہت بڑے عالم تھے اور انھوں نے تنگ دستی اور غربت کے باجود آٹھ شعری مجموعے لکھے۔ انشا پہلے عالم تھے جنھوں نے اردو زبان کی لسانی خوبیوں اور ادائیگی کی خصوصیتوں پر فارسی زبان میں’’ دریاے لطافت‘‘ نام کی کتاب لکھی۔ اسی زمانے میں میر ضاحک کے بیٹے میر حسن کا خوب بول بالا تھا۔ انھوں نے بیانیہ نظموں اور غزلوں کے مجموعوں کے علاوہ بہترین اردو مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ لکھی۔
لکھنؤ کے مکتبۂ خیال کے نئے شاعروں کے تذکرے سے پیشتر عوام کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کا ذکر ضروری ہے، جن کی شاعری میں ہندوستان کی روزمرہ کی زندگی کی جھلکیاں دکھائی اور دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ حیدر آباد، بھرت پور اور اودھ کے شاہی درباروں کے دعوت ناموں کو ٹھکرا کر نظیر نے ایک معمولی معلم کی حیثیت سے آگرے کے لوگوں کے درمیان رہنا ہی گوارا کیا۔ نظیر آدرش وادی نہیں تھے۔ ہمیشہ ان کی نظر زندگی کی حقیقتوں پر رہتی تھی۔ انھوں نے عام لوگوں کے مسائل بھوک، عشق، اور اقتصادی ضروریات وغیرہ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ وہ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے تیوہاروں میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے کرشن جی، مہادیو جی، نرسی بھگت اور گرونانک پر درجنوں نظمیں کہی ہیں۔ ان کی زبان لکھنؤ اور دہلی کے شاعروں کی زبان کی طرح شستہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ان کے موضوعات اور زبان میں مطابقت ضرور تھی۔ ان کی زبان عوام کے ذوق کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی۔
اب تک لکھنؤ، ادب کا اہم مرکز بن چکا تھا اور ناسخ و آتش لکھنؤ کے اس دور کے مشہور ترین شاعر تھے۔ زبان اور علم عروض پر عبور حاصل ہونے سے ناسخ کی ادب کے میدان میں ڈکٹیٹر کی سی حیثیت تھی اور انھوں نے دہلی کے شاعروں پر بھی اثر ڈالا۔ اس دور کی بہترین تخلیقات میں سے آتش کے شاگرد پنڈت دیا شنکر نسیم کی ’’مثنوی گلزار نسیم‘‘ ہے۔ جنھوں نے لکھنؤ کے طرز بیان اور محاورے کو فنکارانہ چابک دستی سے استعمال کیا۔
لکھنؤ کی کامیابیوں کا بیان نامکمل رہ جائے گا اگر انیسویں صدی کے وسط کے دوعظیم مرثیہ گو شاعروں میر انیس اور مرزا دبیر کا ذکر نہ کیا جائے۔ میر انیس نے زبان پر عبور، تخیل کی بلند پروازی اور وسیع علم کو مرثیہ نگاری میں خوب استعمال کیا اور ان کے مرثیوں میں رزمیہ اور المیہ کا عجیب امتزاج ملتا ہے۔ مرزا دبیر جو کہ اتنے ہی مشہور تھے، ان کی بلندیوں کو نہ چھو سکے۔
امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ نے اوپیرا کی صورت میں شاعری میں اضافے کیے۔اگرچہ لکھنؤ کی شان و شوکت نے کچھ عرصے کے لیے دہلی کو پس پشت ڈال دیا تھا لیکن 1857 کے انقلاب میں تباہ و برباد ہونے سے پہلے دہلی نے اردو کے عظیم ترین شاعروں میں چند کو جنم دیا۔ ذوق، مومن، بہادر شاہ ظفر، شیفتہ اور غالب تمام اسی دور کے ہیں۔ یہاں ان تمام شعرا کی کامیابیوں پر تفصیل سے بحث کرنا ممکن نہیں، لیکن پھر بھی اردو شاعری کے سب سے بیش بہا اور تاب ناک موتی مرزا غالب کا ذکر ضروری ہے۔ انسان کے دل کی گہرائیوں پر نظر، اس کے مسائل کے متعلق فلسفیانہ رویے، زندگی اور موت کے اسرار کے علم اور خیالات کو چابکدستی سے فن کا جامہ پہنانے کی صلاحیت کی وجہ سے وہ اردو ادب کے عظیم ترین شاعر ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں اردو ادب کا جدید دور شروع ہونے سے پیشتر اردو شاعری میں غزل، مثنوی، قصیدہ اور مرثیہ جیسے کلاسیکی اصناف میں کمال حاصل کیا جاچکا تھا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے اردو نثر کی پہلی کتاب پندرہویں صدی میں خواجہ گیسو دراز کی تصنیف ’’معراج العاشقین‘‘ تھی۔ بعد میں دکن میں اردو نثر کی اور کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں ملا وجہی کی تصنیف اعلیٰ ترین مانی جاتی ہے۔ قدرتی طور پر ابتدا کی زیادہ تر تصانیف مذہبی تھیں لیکن 1775کے آس پاس اٹاوہ کے میر حسین عطا تحسین نے’’ نوطرز مرصع‘‘ نام کی کتاب لکھی۔ اس کتاب میں فارسی کی کتاب سے ماخوذ چہار درویش کا قصہ بیان کیا گیا تھا۔ اسی اثنا میں عیسائی مشنریوں، یورپی تاجروں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں نے اردو کی گرامر پڑھ لی تھی۔  انھوں نے اس زبان کو انڈک، انڈوستانی یا ہندوستانی کا نام دیا اور وہ اسے ہندوستان کی عوامی زبان سمجھتے تھے۔ انھوں نے اس زبان کے متعلق کچھ کتابیں لکھیں اور اسے مقبول بنانے کی کوشش کی۔
انگریزوں نے سمجھ لیا تھا کہ اس وسیع ملک کی زبان سیکھے بغیر گذارہ کرنا مشکل ہے اور اپنے افسروں کو اردو پڑھانے کے لیے انھوں نے 1800 میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ اس کالج نے اپنے قیام کے پہلے دس سال میں اردو کی کچھ اہم کتابیں شائع کیں۔ اگر چہ اس کالج سے عام لوگوں کا کوئی تعلق نہ تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات اورزبان میں اضافے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘، شیر علی افسوس کی ’’آرائش محفل‘‘، حیدربخش حیدری کی’’ حاتم طائی‘‘، کاظم علی جو ان کی ’’سنگھاسن بتیسی ‘‘اور’’ شکنتلا ‘‘اور نہال چند کی’’ مذہب عشق‘‘ وغیرہ آج بھی اردو ادب کے خزانے میں بیش بہا موتی ہیں۔
انشا نے، جن کا ذکر پہلے بطور شاعر کیا جاچکا ہے، ہندوستانی نثر میں ایک کتاب’’ رانی کیتکی کی کہانی‘‘ لکھی، جس میں عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس کتاب پر ہندی اور اردو دونوں زبانیں اپنا حق جتاتی ہیں۔ انیسویں صدی کے پہلے تیس سال میں چھاپے خانے قائم ہوجانے کی وجہ سے اردو نثر نے کافی ترقی کی۔ 1824 میں رجب علی بیگ سرور نے اردو نثر کی مشہور ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ’’فسانۂ عجائب‘‘ مرصع طرز پر لکھی۔ اسے اردو نثر میں لکھنؤ کا پہلا قابل قدر اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے پس منظر میں لکھنؤ کے اس دور کی زندگی نمایاں ہے اور اس کتاب کی سماجی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مرزا غالب نے وفات پانے سے قبل بیس سال تک شستہ اور خوبصورت نثر لکھی۔ دوستوں، شاگردوں ، مداحوں اور سرپرستوں کو لکھے ہوئے ان کے خطوط میں مختلف ادبی، فلسفیانہ، مذہبی، سماجی اور تاریخی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ کچھ نقاد انھیں جدید اردو نثر کا پیش رو مانتے ہیں۔
اس مختصر بیان سے ظاہر ہے کہ قدیم اردو نثر میں مغربی ٹکنیک کے مطابق لکھے ہوئے ڈرامے، ناول اور افسانے کے علاوہ ادب اور علم کے ہر شعبہ پر تصانیف موجود ہیں۔ جہاں تک سائنٹفک نثر کا تعلق ہے، 1844 میں قائم شدہ دہلی کالج کی ورناکیولر ٹرانسلیشن(Vernacular Translation Society) سوسائٹی نے سائنس، علم ریاضی، قانون، تاریخ اور جغرافیہ پر ایک سو پچاس سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔ اردو ادب کے جدید دور کے آغاز سے قبل اردو ادب تاریخ کے دھارے کے زیر اثر ترقی پذیر رہا۔ اس دور کے اردو ادب میں انسان کی اخلاقی اصلاح، انسانیت کی وحدت اور علم کی ترویج پر زور دیا گیا۔

4/1/16

شعر شور انگیز/شمس الرحمٰن فاروقی

میر کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان کے یہاں لہجے کا دھیماپن، نرمی اور آواز کی پستی اور ٹھہرائو ہے۔ یہ خیال اس قدر عام ہے کہ اسے ہمارے یہاں نقد میر کے بنیادی تصورات میں شمار کیا جاتا ہے۔ میر کے کلام میں سکون وسکوت ہے، ان کے آہنگ میں شوکت اور گونج کے بجائے دل کو آہستہ سے چھولینے والی سرگوشی ہے، وغیرہ۔ یہ بیانات اس لیے بھی مقبول ہیں کہ یہ میرکے اس stereotype یعنی مقبول ، لیکن غیر حقیقی پیکر کو منعقد اور مستحکم کرتے ہیں جس کی رو سے میر سراپا یاس وحرماں ہیں، ان کی شخصیت منفعل اور شکست خوردہ نہیں تو شکست چشیدہ ضرور ہے۔ اور یہ شکست چشیدگی ان کے لہجے میں گونج اور صوت میں بلندی کی جگہ دھیماپن، سادگی، اور محزونی پیدا کر دیتی ہے۔ ان چیزوں کو میر کی خاص صفت کہا گیا ہے اور یہ فرض کیا گیا ہے کہ غزل کے مثالی شاعر کا لہجہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔
ان تصورات کے پیچھے مغربی رومانی تصورات شعر کا دھندلکا ہے۔ دھندلکا میں نے اس لیے کہا کہ یہ تصورات بھی براہ راست اور بے واسطہ ہم تک نہ پہنچے تھے، بلکہ ہم نے انھیں وکٹوریائی نقادوں کے توسط سے حاصل کیا تھا۔ اور وکٹوریائی نقاد بھی وہ جو بیسویں صدی کے شروع میں ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تھوڑے بہت پڑھائے جاتے تھے۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ شاعری دراصل ذاتی تجربے اور داخلی احساس کا اظہار ہے جو شاعر پرخود گذرتی ہیں۔ پھر ہم نے یہ فرض کر لیا کہ میر کی زندگی یاس و حرمان و شکست کا مرقع ہے۔ لہٰذا ان کی شاعری بھی اسی یاس و حرمان دبے نصیبی کا اظہار ہوگی۔ ہم نے مغربی رومانی تصورات کے زیر اثر یہ بھی فرض کر لیا کہ ’’سوز و گداز‘‘ متغزلانہ شاعری کی خاص صفت ہے۔ شیلی کی ایک نظم کا ایک مصرع ہمارے یہاں بہت ہی مقبول ہوا:
Our sweetest songs are those  that tell of saddest thought  
اس کے سیاق و سباق اور مضمرات پر غور کئے بغیر ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ چونکہ غزل بھی ہجر اور نارسائی کی شاعری ہے (جو یقینا بڑی حد تک درست ہے) لہٰذا یہ سب ذاتی سچائیاں ہیں جو شاعری میں بیان ہوتی ہیں۔ اور شعر کو sweet اور sad  ہونا چاہئے، یعنی اس کے آہنگ میں وہی دھیماپن، وہی دبا دبا سریلاپن ہونا چاہئے جو sweet اور sadاور songتینوں شرائط کو پورا کر سکے۔
مولوی عبدالحق باباے اردو نے اپنے ’’انتخاب میر‘‘ کا جو دیباچہ لکھا ہے اس میں وہ میر کے اشعار کو ’’سوز و گداز اور درد کی تصوریں‘‘ قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں ’’شگفتگی اور زندہ دلی میر صاحب کی تقدیر میں نہیں تھی۔ وہ سراپا یاس و حرماں تھے۔ یہی حال ان کے کلام کا ہے۔‘‘ باباے اردو میر کے کلام میں ’’ملائم، دھیمے، سلیس اور سادہ‘‘ الفاظ کی کار فرمائی دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ظرافت کی چاشنی میر کے کلام میں مطلق نہیں‘‘، بلکہ ان کے یہاں ’’سلاست اور سادگی کے ساتھ سوز و گداز‘‘ ہے۔ باباے اردو کا خیال ہے کہ انیس کا کلام ’’دھوم دھام اور بلند آہنگی‘‘ کا آئینہ دار ہے اور میر کا کلام سکون اور خاموشی‘‘کی تصویر ہے۔
آل احمد سرور نے میر کے ’’لہجے کی خوش آہنگی اور شیرینی‘‘ پر زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر کے ’’الفاظ میںگرج اور کڑک کہیں نہیں ملتی۔‘‘ سرور صاحب کے خیال میں میر کی زبان ’’اپنی حزنیہ لے کے باوجود بڑی جاندار زبان ہے۔‘‘ یعنی ان کو اس بات کا احساس تو ہے کہ میر کا آہنگ انفعالی اور پست نہیں، لیکن وہ میر کے stereotype سے اس درجہ متاثر ہیں کہ پھر بھی کہتے ہیں کہ میر کے یہاں ’’گونج اور گرج کے بجائے نرمی پر اصرار‘‘ ملتا ہے۔ وہ میر کے لہجے کی ’’دلکشی، دلآسائی اور دلآویزی‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ لیکن انھیں اس بات کا بھی خیال آتا ہے کہ میر کا آہنگ اتنے معمولی لفظوں میں نہیں بیان ہو سکتا، لہٰذا وہ رچڑڈس کا شعوری یا غیر شعوری تتبع کرتے ہوئے شعر کے آہنگ کو معنی کا حصہ قرار دیتے ہیں اور میر کے آہنگ کو بیان کرنے کے لیے ’’مترنم معنی آفرینی‘‘ کی اصطلاح وضع کرتے ہیں، اس کی وضاحت میں مختصراً وہ کہتے ہیں کہ ’’یہاں ترنم کے ساتھ معنی کا رابطہ بھی ہے۔ اگر معنی میں ترنم نہیں تو اشعار ذہن میں ہلچل نہں پیدا کرتے۔‘‘
یعنی سرور صاحب کو اس بات کا بھی احساس تو ہے کہ میر کے آہنگ کو شیرینی، نرمی وغیرہ سے نہیں تعبیر کیا جا سکتا، لیکن چونکہ وہ بھی انگریزی کے رومانی نظریۂ ادب کے پروردہ ہیں، اس لیے وہ بہر حال میر کے یہاں یاس و حرماں کا ذاتی اظہار اور اس لیے ان کے کلام میں ’’گونج اور گرج‘‘ کے بجائے ’’حزنیہ لے‘‘ اور ’’نرمی‘‘ ہی دریافت کر کے رہ جاتے ہیں۔
فراق صاحب کو میر کے یہاں ’’لہجے کی نرمی ’’بطور خاص اہم معلوم ہوتے ہیں۔ مجنوں صاحب نے کوشش تو بہت کی ہے کہ میر کے کلام کا مجموعی تاثر ایسا بیان کریں جس میں انفعالیت کم سے کم ہو، لیکن وہ پھر بھی لہجے کی نرمی کے اندر جال سے خود کو آزاد نہ کر سکے اور لکھا کہ ’’میر کے بیان میں ایک ٹھہرائو ہے۔ ’’یعنی ان کا آہنگ تلاطم، بلندی کے پیچ و خم اور کثرت اصوات سے عاری ہے۔ بس ایک ہی لہجہ میر کے یہاں ہے، وہی دھیما دھیما نرم لہجہ جو (رومانی تصور کے خیال سے) کسی حرمان نصیب، سوزوگداز والے سچے ’’عاشق‘‘ کا ہونا چاہئے۔ چنانچہ ڈاکٹر سید عبداللہ بار بار میر کے کلام میں ’’گھٹی ہوئی گلو گرفتہ فضائوں‘‘ کی تاثیر دیکھتے ہیں۔ وہ میر کی شخصیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’گھٹے ہوئے افسردہ و مکدر آدمی جس کے دل کی کلی کبھی نہ کھلی ہو اور ماتھے کی تیوری کبھی نہ ہٹی ہو۔‘‘ ڈاکٹر سید عبداللہ کو غالب کے آہنگ میں ’’سرعت و شوکت‘‘ نظر آتی ہے۔ اس کے بر خلاف میر کے یہاں ’’دھیما لہجہ اور نرم آہنگ‘‘ ہے۔
اور تو اور، قاضی افضال حسین، جن کی کتاب’’میر کی شعری لسانیات‘‘ گذشتہ چند برسوں میں میر پربہترین کتاب ہے، اس stereotypeسے آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ بعض لوگوں کے بارے میں خیال ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کلیات میر نہیں، بلکہ مولوی عبدالحق کے انتخاب میر (یا حسرت موہانی کے انتخاب میر) کو اپنے مطالعے کی بنیاد بنایا ہے۔ لیکن قاضی افضال کی کتاب میں جس کثرت اور تنوع سے میر کے حوالے ملتے ہیں اس کی روشنی میں یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے میر کا پورا کلام بڑی توجہ سے پڑھا ہے۔ اس کے باوجود قاضی افضال بار بار میر کے یہاں ’’لہجے کی نرمی اور تاکید کا فقدان‘‘، ’’دھیما لہجہ‘‘، ’’ٹھہرائو اور دھیماپن‘‘ دریافت کرتے ہیں۔
میر، بلکہ تمام کلاسیکی شعرا کے آہنگ کا مطالعہ کرنے والے ہمارے نقاد اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ان لوگوں کے یہاں شاعری بہت بڑی حد تک زبانی چیز تھی، یعنی شاعری گھر پر بیٹھ کر چپ چاپ پڑھنے کے بجائے محفلوں، مشاعروں اور بازاروں میں سننے کی چیز تھی۔ یہ لوگ جب شعر کہتے تھے تو اس بات کا احساس انھیں رہتا تھا کہ یہ کلام محفل یا مشاعرے میں سنانے کے لیے ہے۔ لہٰذا اس کلام کا آہنگ ایسا ہونا چاہئے جو بلندخوانی کے لیے مناسب ہو، بلکہ بلند خوانی کا تقاضا کرتا ہو۔ اس کلام کا آہنگ وہ نہیں ہو سکتا جو خود کلامی اور سرگوشی پر قائم ہوتا ہے اور جس سے ہم (مثلاً) میرا جی کی بعض نظموں سے دو چار ہوتے ہیں۔ وہ کلام جو زبانی سنانے کے لیے ہو اس کے آداب کچھ اور ہوتے ہیں، اور خود زبانی خواندگی کے بھی آداب کچھ اور ہوتے ہیں۔ مثلاً زبانی خواندگی میں قافیہ بہت صفائی اور وضاحت اور زور کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ نیر مسعود نے ’’مرثیہ خوانی کا فن ’’نامی اپنے طویل مضمون میں جگہ جگہ ایسے ہدایت ناموں کے حوالے دیے ہیں جن میں قافیے کی واضح اور پر زور ادائیگی کی بطور خاص تاکید کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس کلام میں قافیہ اتنا اہم ہو، اور جسے خاص زور و قوت کے ساتھ ادا کرنا ہو، اس میں ’’دھیمے پن‘‘، ’’نرمی‘‘، ’’سرگوشی‘‘، ’’ٹھہرائو‘‘ وغیرہ آہنگ نہیں ہو سکتا۔
                قاضی افضال کو اس بات کا دھندلا سا احساس ہے۔ چنانچہ   ؎
یک قطرہ خون ہوکے پلک سے ٹپک پڑا
قصہ یہ کچھ ہوا دل غفراں پناہ کا
                                                                                (دیوان اول)
پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہو لکھتے ہیں کہ یہاں ’’غفراں پناہ‘‘ کو زور دے کر اور تیزی سے پڑھنا چاہئے۔ لیکن وہ اس نکتے سے جلد گذر گئے۔ وہ معاشرہ جو زبانی ہوتا ہے اس کے لوگ کلام کو وضاحت اور قوت سے ادا کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں قافیہ، الفاظ کے بیچ میں وقفہ اور کلام کا آخری لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر آخری لفط کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ دیکھنا ہو تو ریڈیو پر کسی وقت اردو یا ہندی خبریں سن لیجئے۔ جملے کے اختتام پر ہمیشہ ایک طرح کی طوالت یا اچانک رکنے کا احساس ہوگا، اختتام کی قطعیت نہ ہوگی۔ کلاسیکی شاعری کو بآواز بلند پڑھنا اور اس کے آہنگ کو سمجھنا ہم لوگوں کو سکھایا ہی نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ٹھیک سے بولنا بھی نہیں جانتے۔
وہ معاشرہ جو میر کے معاشرے کے مانند پوری طرح زبانی ہوتا ہے، یا بڑی حد تک زبانی ہوتا ہے، اس میں الفاظ کی تجسیم اور ان کا تصور اس معاشرے سے مختلف ہوتا ہے جو پوری طرح، یا بڑی حد تک تحریرہو، جیسا کہ آج کا مغربی معاشرہ ہے۔ مغربی مفکروں نے شعر کے آہنگ کے بارے میں جو لکھا ہے ہماری شاعری پر اس کا اطلاق بڑی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ ژاک دریدا (Jacque Derrida) کا قول ہے کہ تحریر سے پہلے کوئی نشان (بمعنی (sign  نہیں تھا۔ اس پر والٹر اونگ (Walter Ong) لکھتا ہے کہ تحریر کے بعد بھی کوئی نشان نہیں ہیے۔ اگر لفظ کی ملفوظی(یعنی غیر تحریری) حیثیت کو لفظ سے الگ نہ کیا جائے۔ رچرڈس (I.A. Richards) بھی اس نکتے سے واقف تھا، اس لیے جس جگہ اس نے شعر کے آہنگ کی بات کی ہے وہاں ’’لفظ یا صوت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
عروض کی بحث میں ہمارے یہاں ہمیشہ حرف ملفوظ معتبر رہا ہے، نہ کہ حرف مکتوبہ یعنی عروضی اعتبار سے یہ بات اہم نہیں ہے کہ کوئی لفظ لکھا کس طرح جاتا ہے؟ بلکہ یہ بات اہم ہے کہ کلام کے ماحول میں وہ زبان سے ادا کس طرح ہوتا ہے؟ آج مغرب کے بھی بہت سے مفکرین حرف ملفوظہ کی تقدیم کو سامنے رکھتے ہوئے شعر کے آہنگ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اس طرح ’’آہنگ کی مظہریات‘‘ (phenomenology of rhythm) کا تصور پیدا ہو رہا ہے۔ یہ تصور ہمارے لیے بہت زیادہ اہم نہیں ہے، لیکن اس کا بنیادی نکتہ ہمارے لیے کارآمد ہے۔ اس نکتے کی رو سے شعر کا آہنگ نہ صرف شعر میں ہے اور نہ صرف شاعر میں، یا قاری میں۔ بلکہ یہ تینوں کے باہم رد عمل اور امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی بقول ہاروی گراس (Harvey Gross) مطالعۂ آہنگ میں تخلیقی عمل، کلام کی وضع (structure) اور قاری کے تجربے کو یکساں اہمیت دی جانی چاہئے۔ ہماری کلاسیکی شاعری کی رو سے کلام کی وضع میں اس کا قافیہ اور بحر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قافیے کی ادائیگی کو ہمارے یہاں قرأت شعر میں مرکزی مقام دیا گیا ہے۔ قاری کا تجربہ دراصل کلام کی وضع کا پابند ہوتا ہے، بشر طیکہ قاری کو کلام کی وضع کے بارے میں بنیادی معلومات ہو۔ ہمارے گذشتہ نقادان فن اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ ہماری کلاسیکی شاعری ایسے معاشرے کی پیداوار ہے جو بڑی حد تک زبانی تھا۔ اس کلام کا زبانی پن اس کی وضع کا بنیادی اور اہم ترین حصہ ہے۔
بیدل نے لکھا ہے کہ لفظ اور معنی میں وہی رشتہ ہے جو پانی اور تری میں۔ اس باریکی تک مغرب کے نقاد بہت دیر میں پہنچے، لیکن جب پہنچے تو انھوں نے اس پر تفصیل سے کلام بھی کیا۔ میر کے بارے میں چونکہ یہ مفردضہ عام تھا کہ ان کا کلام بہت حزن انگیز ہے، اس لیے یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ ان کا آہنگ بھی بہت دھیما اور نرم ہوگا۔ چونکہ پہلا مفروضہ غلط ہے، لہٰذا دوسرا بھی غلط ہوا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شعر کا آہنگ اس کے معنی سے الگ ہوتا ہے۔ رچرڈس کہتا ہے کہ ’’کسی صوت یا لفظ کا کوئی مخصوص اور منفرد تاثر نہیں۔ کوئی ایسا مخصوص اور منفرد تاثر نہیں ۔ کوئی ایسا مخصوص اور منفرد تاثر نہیں جو صرف و محض اس صوت یا لفظ سے متعلق ہو۔ الفاظ میں فی نفسہٖ کوئی ادبیت نہیں ہوتی۔ کوئی لفظ ایسا نہیں جو بذات خود بدصورت یا خوبصورت، یا فی نفسہٖ تنفر انگیز یا مسرت خیز ہو۔‘‘ وہ مزید کہتا ہے کہ اصوات جس طرح ہمارے محسوسات پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کو ان کے معنی یا جذباتی اثر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اس بحث کا مطلب یہ نکلا کہ میر کے کلام میں جو آہنگ ہمیں ملتا ہے وہ اس کلام کے معنی سے الگ نہیں۔ لیکن جو معنی اس کلام میں ملتے ہیں وہ اس آہنگ سے بھی الگ نہیں جو میر کے کلام میں ہے۔ لہٰذا اگر میر کا آہنگ دھیما، انفعالی اور نرم رو نہیں ہے (اور ہر گز نہیں ہے) تو ان کے کلام میں جو معنی ہیں ان کو بھی ہم دھیما، انفعالی اور نرم رو نہیں کہہ سکتے۔ اور یہ بات خود مجنوں صاحب کے قول سے ثابت ہے کہ میر کو جو لوگ ’’شکست خوردہ اور یاس پرست سمجھتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں۔ ‘‘ مجنوں صاحب کو میر کے یہاں ’’ایسا پندار محسوس ہوتا ہے جو تہذیب اور شائستگی کی تمام منزلوں سے گذر چکا ہو اور جو عام طور سے ایک مجاہد ہی کو زیب دیتا ہے۔‘‘ میر کو مجاہد سمجھنے میں مجھے کوئی خاص خوبی نظر نہیں آتی، اور نہ میں اسے کسی شاعر کا طرۂ امتیاز گردانتاہوں کہ اس میں مجاہدانہ صفات ہوں۔ لیکن میں یہ بات ضرور کہتا ہوں کہ میر کا کلام کسی شکست خوردہ، حرماں نصیب اور منفعل شخص کا نہیں، بلکہ ایسے شخص کا پتہ دیتا ہے جو تجربہ احساس کی ہر منزل سے گذر چکا ہے اور جس نے جہل و عرفان، گم کردہ راہی اور منزل رسی کے تمام مدارج طے کر لیے ہیں۔ اس کے یہاں محدود اور لامحدود، دونوں ہیں۔ وہ اس بات سے واقف ہے کہ بے انتہا و سیع (infinitely large) اور بے انتہا مختصر (infinitely small) ایک ہی شے ہیں۔
اس مختصر جملۂ معترضہ کے بعد آہنگ کی بحث پر پھر راجع ہوتے ہیں۔ شعر کا آہنگ وہ شے ہے جسے ہم اس کا مجموعی موسیقیاتی تاثر یعنی total musical effect کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ صوت اور معنی دونوں کا تابع ہے۔ اس کو ومزٹ(W.K. Wimsatt) نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دال (signifier) اور مدلول (signified) میں جو رشتہ ہے وہ سرد اور اکہر ا نہیں ہے۔ مانا کہ دال محض بے اصولا (arbitrary) ہوتا ہے، لیکن چوں کہ دال کے ذریعہ ہم مدلول کو پہچاننے کی سعی کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں میں کئی طرح کے تعلق ان باتوں کی بنا پر پیدا ہو جاتے ہیں جو دال اور مدلول سے ہم منسوب کرتے ہیں۔ مثال میں وہ کہتا ہے کہ ایک سکہ ہے جسے ہم مشین میں ڈال کر اپنی مطلوب شے (مثلاً سگرٹ کا پیکٹ) نکالتے ہیں۔ اب سکے کی دو مختلف حیثیتیں ہیں۔ ایک تو وہ دھات کا کسی مخصوص وزن اور شکل کا بے جان ٹکڑا ہے جسے مشین قبول کر لیتی ہے۔ (یعنی اگر سکہ جعلی بھی ہو، لیکن اس کا وزن اور شکل بالکل صحیح ہوں تو مشین اسے قبول کر لے گی۔) دوسری حیثیت میں وہ سگہ زر نقد ہے جس کی اپنی بھی کوئی قدر و قیمت ہے اور جس سے ہم طرح طرح کے کام لے سکتے ہیں۔ لہٰذا بطور دال (signifier)سکہ محض دھات کا ٹکڑا ہے۔ لیکن زر نقد کی حیثیت سے وہ مدلول بھی ہے۔ یہی حال الفاظ کا ہے۔ ومزٹ(W.K. Wimsatt) کہتا ہے کہ ’’شاعری کبھی کبھی ایسی شے نہیں ہوتی جس سے ہم منظوم کلام کے معنی سے الگ، آزادانہ طور پر دو چار ہوتے ہیں۔‘‘
میر کے آہنگ میں نرمی، ٹھہرائو دھیمے پن، وغیرہ کے بارے مین نقادوں کی آراہم دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے اوپر یہ بھی دیکھا کہ آہنگ کو معنی سے الگ نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میر کے معنی محض محزدنی بے چارگی اور حرماں نصیبی جیسے الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کئے جا سکتے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ اپنے کلام کے آہنگ کی ضمن میں میر کی رائے کیا ہے؟
خود شاعر اپنے کلام کے بارے میں جو بیانات دیتا ہے ان پر تکیہ کرنا عقل مندی نہیں۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شاعر کا خیال ہے کہ میرے کلام میں فلاں فلاں صفات ہیں۔ ہاں اگر وہ صفات اس کے کلام میں واقعی موجود ہوں تو اس کے وہ بیانات معتبرقرار دیے جائیں گے اور ان سے نتائج کا استنباط ہو سکے گا۔ دوسری بات یہ کہ اگر شاعر بار بار کہے کہ میرے کلام میں فلاں بات ہے، تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم غور کریں کہ اس نے ایسا کہا کیوں؟ اور یہ نتیجہ نکالنے میں تو یقینا ہم حق بجانب ہوں گے کہ اگرکسی صفت سے متصف ہونے کا دعویٰ شاعر بار بار کر رہا ہے تو وہ اس صفت کو قیمتی ضرور سمجھتا ہے۔ اور چونکہ شاعر نے بار بار کسی صفت سے متصف ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو ہمیں یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ اگر وہ صفت ہمیں نظر نہیں آ رہی ہے تو یہ ہماری بصارت کا قصور تو نہیں ہے؟
اٹھارویں صدی کے اردو شعرا نے شعر کی نوعیت کے بارے میں کثرت سے بیانات نظم کئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شعرا کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ وہ ایک نئی شعریات یعنی نئی  Poetics  ترتیب دے رہے ہیں۔ ان شعرا میں بھی میر بہت نمایاں ہیں کہ انھوںنے شعر کی نوعیت اور ماہیئت اور خوبی کے بارے میں پچاس سے زیادہ شعر کہے ہیں۔ یہ ان شعروں کے علاوہ ہیں جو صاف صاف تعلّی پر مبنی اور ان میں سے کسی تصور (concept)یا نظریے کو نہیں پیش کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ بھی میر کے بہت سے شعر ایسے ہیں جن میں انھوں نے اپنے شعر (یا محض شعر) کے آہنگ کا ذکر کیا ہے۔ ان اشعار کا مطالعہ ہمیں شعر میر کے آہنگ، یا میر کی نظر میں شعر کے مستحسن آہنگ کے بارے میں ہمیں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ سہولت کی خاطر ان شعروں کو حسب ذیل مضامین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱) وہ جن میں کوئی نظریاتی بات ہے اور ساتھ ساتھ شعر کے آہنگ کے بارے میں بھی ان سے کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔
(۲) وہ جو محض آہنگ کے بارے میں ہیں۔
(۳) وہ شعر جن میں میر نے براہ راست اپنے شعر کے آہنگ کا ذکر کیا ہے۔
(۴) شعر کی قرأت، یا اس کا بہ آواز بلند پڑھا جانا۔
اب اس بیان کی روشنی میں حسب ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔ بعض میں ایک مضمون ہے، بعض میں سے ایک سے زیادہ۔ وہ اشعار کثرت سے ہیں جن میں ’’شور‘‘ اور بہ آواز بلند قرأت کا ذکر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے دوسری طرح کے، یا دوسرے مضامین پر مبنی اشعار منہا کر دیے ہیں۔ میر نے شاعری کے بارے میں عموماً اور اپنی شاعری کے بارے میں خصوصاً شور اور شور انگیزی اور بآواز بلند قرأت کا ذکر اس کثرت سے کیا ہے کہ یہ نتیجہ نکالے بغیر چارہ نہیں کہ شعر کے آہنگ کے سلسلے میں یہ باتیں میر کے یہاں مرکزی اہمیت بھی رکھتی ہیں   ؎
                دیوان چہارم:           ہے اپنے خانوادے میں اپنا ہی شور میر
                                                بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ
                ’’شور‘‘ کے معنی پر غور کرنے کے لیے دو شعر اور سینے    ؎
                دیوان سوم:                             کیا کوئی اس کے رنگوں گل باغ میں کھلا ہے
                                                شور آج بلبلوں کا جاتا ہے آسماں تک

                دیوان پنجم:                               اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی
                                                           شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے پڑے ہے بول کوئی
                لہٰذا ’’شور‘‘ سے ’’غوغا‘‘ نہیں، بلکہ بلند آہنگ نغمہ مراد ہے۔
                دیوان اول:                             اگرچہ گوشہ نشیں ہوں میں شاعروں میں میر
                                                            پہ میرے شور نے روے زمیں تمام لیا
  
                دیوان اول:                             جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہر گز
                                                            تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
ظاہر ہے کہ یہاں ’’شور‘‘ سے مراد صرف شہرت نہیں (بلکہ ممکن ہے شہرت بالکل ہی مراد نہ ہو۔) دونوں اشعار میں ’’شور‘‘ کا لفظ صاف صاف کلام کے آہنگ، اس کی بلند گونج، اور دور دور تک پھیلتی ہوئی آواز پر دلالت کرتا ہے۔ ’’گوشہ نشینی‘‘ کے باوجود متکلم کا ’’ شور‘‘ تمام روے زمین کو فتح کر لیتاہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دھیما لہجہ، ٹھہری ہوئی آواز اور آہنگ کی نرمی نہیں ہو سکتی۔
                دیوان سوم:                             جہاں سے دیکھئے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
ٍ                                                        قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

                دیوان پنجم:                               ہر ورق ہر صفحے میں اک شعر شور انگیز ہے
                                                           عرصۂ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا

                یہاں ’’شور انگیز‘‘ بطور اصطلاح ہے۔ (اس پر بحث متن کتاب میں ملاحظہ ہو۔) لیکن ’’شور‘‘ کے لفظی معنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میر نے دونوں شعروں میں قیامت کے ہنگامے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ہنگامہ اس وجہ سے تو ہے ہی، کہ شعر کو سن یا پڑھ کر سب سر دھن رہے ہیں۔ لیکن یہ ہنگامہ اس وجہ سے بھی ہے کہ کلام کا آہنگ بلند اور گونجیلا ہے۔ ملحوظ رہے کہ دونوں شعروں میں دیوان کے اندر قیامت کا ہنگامہ یا محشرکا عالم ہے۔ یہ عالم دیوان کے باہر نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ گفتگو بنیادی طور پر کلام کے آہنگ کی ہورہی ہے۔ مزید دلیل درکار ہو تو اگلے شعر دیکھئے   ؎

                دیوان دوم:                یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
                                                انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا
                                                جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا
                                                منھ تکئے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا
                                                افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
                                                آندھی تھی بلا تھا کوئی آشوب جہاں تھا

مطلع میں اس بات کا ذکر ہے کہ میر کا انداز سخن لوگوں پر کیا اثر کرتا تھا۔ یہ سب لوگوں کے لیے سبب شور و فغاں تھا۔ یعنی لوگ کلام کو دیکھ یا سن کر وجد میں آ جاتے اور سر دھنتے اور ’’آہ‘‘ کے نعرے بلند کرتے تھے۔ (لیکن لفظ ’’شور‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے میر اپنے کلام کے لیے ’’شور‘‘ کا لفظ کلیدی استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔) دوسرے شعر میں شعر کی قرأت اور شعر کے اندر بھرے ہوئے فن و ہنر کا تذکرہ ہے کا غذ پر لکھے ہوئے اشعار گویا جادو کی پڑیا ہیں، اور جب میر (یا کوئی اور شخص) ان اشعار کو پڑھ کر سناتا ہے تو لوگ مبہوت ہوکر اس کا منھ دیکھتے ہیں۔ تیسرا شعر اس مفردضے کی حتمی اور قطعی نفی کر دیتا ہے کہ میر کی مخرونی اور مایوسی (یا ان کے کسی بھی تجربۂ حیات) کا اظہارمنفعل، ٹھہری ہوئی، نرم، یا دھیمی آواز میں ہوا ہے ع
افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
میر (یاوہ شخص جسے اس غزل میں میر کہا جا رہا ہے) افسردہ رہا ہوگا، لیکن ایسا نہیں جیسی کہ پانی سے نم مٹی ہوتی ہے۔ خاک یا گرد پر پانی پڑے تو وہ زمین پر بیٹھ جاتی ہے۔ یعنی اس کی ساری شورش، اس کا سارا تحرک و ارتعاش، اس کا سارا ہیجان و اہتزاز ختم ہو جاتا ہے۔ (دوسرے معنی میں، آب زدہ خاک کا حال وہی ہوا ہے جو دھیمے، افسردہ، ٹھہرے ہوئے، نرم آہنگ کے شاعر کا مثلاً میر اثر، میر سوز یا ایک حد تک میر درد کا ہوتا ہے۔) ان کے برخلاف وہ شخص جس کا اس شعر میں تذکرہ ہیع
آندھی تھی بلا تھا کوئی آشوب جہاں تھا
یعنی اس کے شور نے تمام روے زمین کو فتح کر لیا تھا۔ میر کے کلام کا آہنگ ایسا تھا کہ نہیں، اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خود میر اپنے کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسا کہ ان شعروں میں میر نامی شخص بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ اشعار میر کا self- image پیش کرتے ہیں اور مجھے ان کے کلام میں کوئی چیز ایسی نہیں ملی جو اس self -image کو جھٹلاتی ہو۔ مزید دو شعر دیکھئے، ان میں شعر خوانی کا بیان ہے   ؎

                دیوان چہارم:           اے میر شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
                                                یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آ گیا ہے

                                                شاعر نہیں جو دیکھا تو تو ہے کوئی ساحر
                                                دو چار شعر پڑھ کر سب کو رجھا گیا ہے

                ان شعروں میں بلند خوانی کا ذکر تو ہے ہی، اس بات کی بھی طرف اشارہ ہے کہ شعر کہنا کمال انسان ہے، اور یہ کہ شعر کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔
                اب چند شعر ایسے دیکھتے ہیں جن میں اشعار کی دھوم کا، اور اس بات کا ذکر ہے کہ لوگ اس کلام کو پڑھتے پھرتے ہیں یا پڑھتے پھریں گے   ؎

                دیوان دوم:                              سر سبز ہند ہی میں نہیں کچھ یہ ریختہ
                                                ہے دھوم میرے شعر کی سارے دکن کے بیچ

                دیوان پنجم:                  طبیعت سے جو فارسی کی میں نے ہندی شعر کہے
                                                سارے ترک بچے ظالم اب پڑھتے ہیں ایران کے بیچ
                دیوان دوم:               شعر پڑھتے پھرتے ہیں سب میر کے
                                                اس قلمرو میں ہے ان کا دور اب

                دیوان ششم:             رونق و آبادی ملک سخن ہے اس تلک
                                                ہوں ہزاروں دم الٰہی میر کے اک دم کے بیچ

                دیوان سوم:               شعر کچھ میں نے کہے گالوں۱؎ کی اس کے یاد میں
                                                سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں

                دیوان اول:               پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
                                                مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

                دیوان ششم:               باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئے گا
                                                پڑھتے کسو کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا

ظاہر ہے کہ اگر معاشرہ بڑی حد تک زبانی (oral) نہ ہوتا، اور شعر کی ترسیل زیادہ تر حرف ملفوظ پر نہ ہوتی تو شعر کو بہ آواز بلند پڑھنے اور دوسروں کی زبان سے اس کے سننے کا اتنا ذکر نہ ہوتا، اور نہ ہمارے لیے اس کی اتنی اہمیت ہوتی۔
لہٰذا شعر کا زبانی پڑھا جانا اور خود میر کا اصرار، کہ ان کا کلام پر شور ہے، اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کلام ٹھہرے ہوئے اور نرم آہنگ کا نہیں ہے۔ میر کے آہنگ میں قصیدے والی شوکت ورفعت نہیں ہے۔ اور ہونا بھی نہ چاہئے۔ آل احمد سرور نے ٹھیک لکھا ہے کہ میر کی غزل کبھی قصیدہ نہیں بنتی۔ نہ ہی میر کے یہاں وہ خم ٹھونکنے اور معمولی بات کو بڑی دھوم دھام سے کہنے کا جارحانہ آہنگ ہے جو آتش اور یگانہ کا خاصہ ہے۔ ان کا آہنگ گونجیلا اور پیچیدہ اور روزمرہ کی سطح سے بہت زیادہ بلند ہے۔ میر کے یہاں روانی بہت ہے، اور انھوں نے روانی کو شعر کی بنیادی خوبیوں میں شمار بھی کیا ہے   ؎
                دیوان دوم:                میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
                                                اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

                دیوان دوم:               دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میر
                                                در سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں اب

                دیوان اول:                 دریا میں قطرہ قطرہ ہے آب گہر کہیں
                                                ہے میر موجزن ترے ہر یک سخن میں آب
ــ’’روانی‘‘ شعر کا بنیادی وصف ہے، اور محض سلاست وصناعی کا نام نہیں ہے۔ یہ تصور ہمارے یہاں کم سے کم خسرو اور حافظ کے وقت سے عام ہے۔ چنانچہ خسرو نے اپنے دیباچۂ کلیات میں لکھا ہے کہ میری وہ غزلیں میرے بہترین کمال کا نمونہ ہیں جو ’’مانند آب لطیف رواں تر‘‘ ہیں اور’’ مرتبۂ ہوائیت‘‘ سے’’ مرتبۂ مائیت‘‘ کو پہنچی ہوئی ہیں، اور وہ میرے دیوان ’’غرۃ الکمال‘‘ میں ہیں۔ حافظ سے منسوب مشہور شعر ہے   ؎
آں راکہ خوانی استاد گر بنگری بہ تحقیق
صنعت گراست اما شعر رواں نہ دارد
یہاں ’’روانی‘‘ کے مسئلے پر گفتگو کا موقع نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ’’روانی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کلام کا ہر جنرو، یعنی ہر لفظ، ایک دوسرے سے اس طرح ہم آہنگ ہو کہ کوئی لفظ صوتی اعتبار سے اجنبی نہ محسوس ہو۔ بلکہ ہر لفظ کا آہنگ دوسرے لفظ کے آہنگ کی پشت پنا ہی کرے۔روانی کی دوسری شرط یہ ہے کہ کلام پر بحر حاوی نہ ہو، بلکہ بحر پر کلام حاوی ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی مخصوص بحر کی بعض صفات فرض کر لی جائیں، اور تقاضا کیا جائے کہ جو کلام اس بحر میں ہو، اس میں وہ صفات ضرور ہوتی ہیں۔ روانی کا تفاعل یہ ہوتا ہے کہ وہ بحر کے مشینی آہنگ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتی ہے، یعنی شاعر جس قدر روانی پر قادر ہوگا، اسی قدر وہ بحر کے مشینی آہنگ کا تابع نہ ہوگا۔ روانی کی تیسری شرط یہ ہے کہ کلام میں اصوات نہ زیادہ معلوم ہوں اور نہ کم معلوم ہوں۔ الفاظ کی زیادتی کمی سے بحث نہیں، بلکہ اصوات کا معاملہ ہے۔ بعض کلام ایسا ہوتا ہے جس میں اصوات کی مجموعی تعداد ضرورت سے کم یا ضرورت سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں روانی کم ہوگی۔
حسرت موہانی نے ’’معائب سخن‘‘ میں ’’نقص روانی‘‘ اور ’’ضعف خاتمہ‘‘ کے عنوان سے جو بحث کی ہے وہ ہمارے لیے زیادہ کارآمد نہیں۔ لیکن ’’نقص روانی ‘‘ اور ’’ضعف خاتمہ‘‘ دونوں میں وہ میرے آخری بیان کردہ نکتے تک ضرور پہنچ گئے ہیں کہ بعض کلام میں آہنگ کے اعتبار سے کچھ خلا محسوس ہوتا ہے یا کچھ رکاوٹ سی معلوم ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان تو چنداں لائق تو جہ نہیں کہ نقص روانی سے مراد یہ ہے کہ شعر میں الفاظ یکے بعد دیگرے ایسے جمع ہو جائیں کہ ان کا زبان سے روانی کے ساتھ نکلنا ممکن نہ ہو۔ کیونکہ بعض الفاظ یا بعض لفظوں کے مجموعے، کا زبان سے بہ آسانی نکلنا ممکن ہو نا محض داخلی بات ہے۔ممکن ہے کہ جو الفاظ میری زبان سے بہ آسانی ادا نہیں ہوتے، وہ کسی اور کی زبان سے بخوبی ادا ہو جائیں۔ لیکن حسرت موہانی نے مندرجہ ذیل مثال کے ذریعہ ایک نکتہ بڑی خوبی سے واضح کیا ہیع
شغل خود بینی تھا شان بزم آرائی نہ تھی
(نظم طباطبائی)
حسرت کا کہنا ہے کہ ’’بزم آرائی‘‘ میں ’’بزم‘‘ کے بعد غیر ضروری ساوقفہ محسوس ہوتا ہے، اگر مصرع یوں کر دیا جائے تو روانی زیادہ ہو جائے ع
شغل خود بینی تھا شان محفل آرائی نہ تھی
اسی طرح، حسرت موہانی نے مندرجۂ ذیل شعر میں ضعف حاتمہ کا عیب بیان کیا ہے    ؎
شیشہ خالی نہیں ہوتا ہے نہ تھمتے ہیں اشک
کیسے روتے ہیں دل خوں شدہ کو بیٹھے ہم
(میر حسن)
کوئی شک نہیں کہ میر حسن کا شعر روانی سے عاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مضمون اور الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ شعر میں کوئی تبدیلی بھی ممکن نہیں۔ بہر حال یہ بات ظاہر ہے کہ دونوں مصرعوں میں اصوات ضرورت سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔
لہٰذا روانی کا فقدان ایسا عیب ہے جو مضمون کی خوبصورتی کو بھی گہنا دیتا ہے۔’’روانی‘‘ جن شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہے انھیں کلام کے آہنگ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ یعنی ’’روانی‘‘ تو اصل الاصول ہے، اور ’’آہنگ‘‘ اس کا عملی اظہار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آہنگ مختلف طرح کے ہو سکتے ہیں، جب کہ روانی نرگن(neutral) ہوتی ہے اور کسی کیفیت کی حامل نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کلام کا آہنگ پر شکوہ ہو سکتا ہے، کسی کلام کا آہنگ بلند اور باریک ہو سکتا ہے، کسی کلام کا آہنگ بلند اور گونجیلا ہو سکتا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا ہر طرح کے آہنگ کے ساتھ روانی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ یا ممکن ہے کسی کے بلند آہنگ کلام میں روانی کم ہو، لیکن کسی اور کے بلند آہنگ کلام میں روانی زیادہ ہو۔ جس طرح ہر کلام میں نامطبوع یا مطبوع، کسی نہ کسی طرح کا آہنگ ہوتا ہے، اسی طرح ہر کلام میں تھوڑی یا زیادہ روانی بھی ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوگا کہ کلام میں روانی کی صفت واضح ہو لیکن اس کا آہنگ کوئی نہ ہو۔ لہٰذاہم یہ کہہ کستے ہیں کہ کلام کی روانی اس میں آہنگ پیدا کرتی ہے لیکن خود کوئی آہنگ نہیں رکھتی۔ روانی کا پتہ لگانے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ کلام کو بہ آواز بلند پڑھا جائے اور دیکھا جائے کہ اس میں اصوات کی ہم آہنگی اور ان کی کمیت مناسب ہے کہ نہیں۔ آہنگ کا پتہ لگانے کے لیے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کلام کو کس طرح ادا کیا جائے، اور وہ کون سی ادائیگی ہے جس کے ذریعہ کلام کی روانی پوری طرح بروے کارآسکتی ہے اور واضح ہو سکتی ہے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ میر کا کلام نہ صرف یہ کہ روانی کی تقریباً معراج کے درجے کو پہنچا ہوا ہے، بلکہ یہ بھی اس کی روانی کے پورے اثر و قوت کو بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ شعر کو بلند اور گونجیلے لہجے میں ادا کیا جائے۔ میر کا کلام خاص طور پر بہ آواز بلند قرأت کے لیے مناسب ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو پست، دھیمے یا نرم لہجے میں نہ پڑھا جائے۔ لوگوں نے اکثر میر سوز اور میر کا مقابلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’میر کے یہاں شدت جذبات ہے اور سوز کے یہاں محبت کے سرسری معاملات کا اچٹتا ہوا تذکرہ۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ۔) واقعہ یہ ہے کہ سوز کے یہاں شدت جذبات کی کمی نہیں۔ نہ ہی میر سوز محبت کے ’’سرسری معاملات‘‘ پر سرسری بات کہہ کر گذر جاتے ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل دو چار اشعار ہی اس رائے کی تردید کے لیے کافی ہیں    ؎
میں کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
کہ میرا دیکھنا مجھ پر بلا تھا

ہوئی ہے عمر کہ ہم لگ رہے ہیں دامن سے
جھٹک نہ دیجیو اس کو غبار کے مانند

الٰہی خزانوں میں تیرے کمی تھی
کہ بھیجا ہے مجھ کو گدائی کی خاطر

یہ چاک جیب نہیں جس کو یارسی دیں گے
نہ کر سکے گا تو ناصح رفو مرے دل پر

بے نیازی تو میاں کی دیکھو
گل کو بھی چاک گریباں بخشا
عشق کو خلق میں دی رسوائی
حسن کو غمزۂ پنہاں بخشا

مجھ سے مت جی کو لگائو کہ نہیں رہنے کا
میں مسافر ہوں کوئی دن کو چلا جائوں گا
ان اشعار کو عشق کے سرسری معاملات کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ میر بہت بڑے شاعر ہیں اور میر سوز چھوٹے شاعر۔ لیکن بنیادی بات جس کی بنا پر میر سوز کا کلام ہمارے دل دماغ پر حاوی نہیں ہوتا، یہی ہے کہ ان کا آہنگ البتہ بہت دھیما اور پست ہے۔ میر کی طرح بلند اور گونجیلا نہیں، اور نہ میر کی طرح پیچیدہ ہے۔
آہنگ کی پیچیدگی کے اعتبار سے صرف غالب کو میر کا ہم پلہ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی ان دونوں کے کلام میں یہ صفت ہے کہ کسی غزل کے بارے میں ایک فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کس طرح پڑھی جائے کہ اس کی روانی کے پورے امکانات بردے کار آجائیں۔ ان کی ہر غزل کو ادا کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ ان کی کوئی غزل ’’نرم‘‘ اور ’’شیریں‘‘ لہجے میں ادا نہیں ہو سکتی۔ سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر غالب اور میر کے آہنگ اس قدر مختلف کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ غالب کا آہنگ پرشکوہ اور بلند ہے، جب کہ میر کا آہنگ گونجیلا اور بلند ہے۔ میر کے یہاں روی شنکر کے ستار کی وہ کیفیت ہے جب وہ محض کھرج (Bass) کے ذریعہ راگ کو ادا کرتے ہیں۔ غالب کے یہاں ولایت خان کے ستار کی وہ کیفیت ہے جب وہ راگ کو تیز لے میں ادا کرتے ہیں۔
روانی کے اعتبار سے میر انیس اور اقبال کے علاوہ میر کا ہم پلہ کوئی نہیں لیکن ان دونوں ہی کے یہاں آہنگ میر جیسا پیچیدہ نہیں ہے۔غالب کی روانی میر سے کچھ کم ہے، لیکن ان کے آہنگ میں پیچیدگی انیس و اقبال سے زیادہ ہے۔ آتش کا آہنگ بلند اور تیز ہے، لیکن ان کے یہاں روانی کم ہے۔ ناسخ کاآہنگ سادہ اور متوسط تیزی کا ہے، لیکن روانی کا تاثر دیتی ہیں، جب کہ ناسخ عام طور پر معمولی ردیفیں استعمال کرتے ہیں، لیکن ناسخ کو بہ آواز بلند پڑھئے تو پتہ چلتا ہے کہ ظاہر ی کھردرے پن اور بھونڈے پن کے باوجود ان کا کلام بے حد رواں ہے۔ قائم کے یہاں روانی یقین اور تاباں سے زیادہ ہے۔ ان کا آہنگ میر سے مشابہت رکھتا ہے، اسی لیے لوگوں نے قائم اور میر میں مشابہت محسوس کی ہے۔ سودا اور آتش کے آہنگ میں مشابہت ہے، لیکن سودا کے یہاں روانی آتش سے بہت زیادہ ہے۔ ذوق کا کلام مومن کے کلام سے زیادہ رواں ہے۔ لیکن مومن کا آہنگ ذوق سے بہتر ہے، کیونکہ ذوق کا آہنگ اکہرا اور بڑی حد تک یکسانیت لیے ہوئے ہے۔
یہ بات، کہ میر اپنے کلام کے بارے میں ’’شور‘‘ اور ’’شورانگیز‘‘ کے لفظ اکثر استعمال کئے ہیں، کلام میر کے آہنگ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ زبانی خواندگی، اور اس کے تقاضوں کی حد تک تو تمام کلاسیکی شعر کے آہنگ میں بعض اقدار مشترک ہیں، فرق صرف کم و بیش کا ہے۔ لیکن اس کے آگے آہنگ کا تعین خود شعرا کے کلام اور ان کے کلام اور ان کے عمل کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ میر کے بارے میں جو بات میں نے بار بار کہی ہے کہ ان کا لہجہ آہنگ نرم اور مدھم نہیں، بلکہ بلند اور گونجیلا ہے، تو اس کا ثبوت اصلاً تو اسی وقت مل سکتا ہے جب میر کے کلام (نہ کہ نمونۂ کلام یا انتخاب کلام) کے ساتھ خاصا وقت گذارا جائے اور ان کے اشعار بہ آواز بلند، طرح طرح کی ادائیگی میں پڑھے جائیں۔ ظاہر ہے کہ میری تحریر یہ شرط پوری نہیں کر سکتی۔ لیکن بعض مثالوں کے ذریعہ بات ایک حدتک واضح ہو سکتی ہے۔
(۱) میر کے چند اشعار پیش کئے جائیں، جن میں (روایتی نقادوں کے نقطۂ نظر سے) ’’سوزوگداز‘‘، ’’غم نصیبی‘‘، ’’حرماں زدگی‘‘ وغیرہ واضح ہے، اور پھر غور کیا جائے کہ یہ اشعار کس طرح کی خواندگی کا تقاضا کرتے ہیں؟ (یہ بات بھی ملحوظ رکھی جائے کہ ہمارے مراثی کے وہ بند جو بطور خاص ’’دردناک‘‘ ہیں، اگر انھیں بہ آواز بلند اور دور تک گونجتی ہوئی آواز میں نہ پڑھا جائے تو ان کا مقصود ہی حاصل نہ ہوگا۔)
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ میرکی کوئی ایک غزل کہیں سے اٹھالی جائے اور غور کیا جائے کہ اس غزل کو کس طرح پڑھنا بہترین نتائج پیدا کرے گا۔
میرا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلے گا کہ یہ اشعار نرم اور پست آواز کا تقاضا نہیں کرتے۔ ان کو پڑھ یا سن کر ممکن ہے کہ ہمارے اوپر بے انتہا رنجیدگی طاری ہو جائے اور ہم اشک بار بھی ہو جائیں (خاص کر اگر ہم ’’تغزل‘‘ کے دلدادہ ہیں،) لیکن ان اشعار کو سرگوشی کے لہجے میں پڑھنا ممکن نہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ میر کے یہاں تخاطب کے اتنے رنگ ہیں، اور مکاملے کے اتنے طریقے ہیں، کہ یہ بات یوں ہی غلط معلوم ہوتی ہے کہ ایسے بوقلموں کلام کو ایسے یک رنگ انداز میں پڑھا جائے کہ سب شعر ’’ملائم، دھیمے، سلیس اور سادہ‘‘ معلوم ہوں اور وہ اس نشتر کی طرح ہوں ’’جس کی دھار نہایت باریک اور تیز ہے اور اس کا اثر اسی وقت ہوتا ہے جب وہ دل پر جاکر کھٹکتا ہے۔‘‘ (باباے اردو۔) بہر حال یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں روایتی تنقید کی رو سے ’’سوز و غم کی صحیح اور سچی تصویر ہے۔‘‘
                دیوان اول:                             آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر
                                                             دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا

                دیوان اول:                             سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
                                                               لیکن اے داغ دل سے تو نہ گیا
    
               دیوان اول:                             دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
                                                              یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

                دیوان اول:                             بہت آرزو تھی گلی کی ترے
                                                            سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

                دیوان اول:                             پاس ناموس عشق تھا ورنہ
                                                            کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

                دیوان اول:                             آگ تھے ابتداے عشق میں ہم
                                                            اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ

                دیوان اول:                             ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
                                                             نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سو گواراں
                چلئے دیوان اول کے بس اتنے شعر کافی ہوں گے۔ میں نے صرف دیوان اول کو اس لیے اٹھایا کہ اسی کو لوگوں نے زیادہ پڑھا ہے، اور اکثر مشہور ترین شعر اسی دیوان کے ہیں۔ ان سب اشعار کو بہ آواز بلند پڑھئے، اور یہ خیال رکھئے کہ قافیہ ہمیشہ معمول سے زیادہ زور اور بلند آہنگی سے ادا ہو۔ اس کے بعد ان کو دھیمی آواز میں سرگوشی کے لہجے میں( خاص کر شعر ۵) پڑھئے۔ اب شعر ۵ میں لفظ ’’پلک‘‘ کو زور دے کر ادا کیجئے اور آہنگ کا کرشمہ دیکھئے۔ ممکن ہی نہیں کہ ان شعروں کو مدھم اور ’’میٹھے‘‘ سروں میں پڑھا جائے اور پھر بھی ان کی پوری قوت واضح ہو جائے۔
دوسری شرط بھی آزماکر دیکھ لیتے ہیں۔ عباسی کے کلیات کو آنکھ بند کر کے بالکل بے منصوبہ و تجویز کھولنے پر صفحہ ۲۲۵ کھلا اور غزل ۳۰۲ پر نگاہ پڑی (دیوان اول)۔ غزل حسب ذیل ہے   ؎
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں
تیغ جفاے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم
زخم بدن ہمارے تفسیدہ ماہیاں ہیں
مسجد سے مے کدے پر کاش ابر روز برسے
واں روسفیدیاں ہیں یاں روسیاہیاں ہیں
جس کی نظر پڑی ہے ان نے مجھے بھی دیکھا
جب سے وہ شوخ آنکھیںمیں نے سراہیاں ہیں
 غالب تو یہ ہے زاہدرحمت سے دور ہو وے
درکار واں گنہ ہیں یاں بے گناہیاں ہیں
یہ ناز و سرگرانی اللہ رے کہ ہر دم
نازک مزاجیاں ہیں یا کج کلاہیاں ہیں
شاہد لوں میر کس کو اہل محلہ سے میں
محضر پہ خوں کے میرے سب کی گواہیاںہیں
یہ میر کی بہترین غزلوں میں سے ہرگز نہیں ہے۔اس کا صرف ایک شعر (مقطع) میرے انتخاب میں شامل ہو سکا ہے۔ (ملاحظہ ہو  ۱/۲۶۹) لیکن پھر بھی اس غزل میں مضمون کی اتنی تازگیاں اور فن کی اتنی چالاکیاں ہیں کہ ان کو بیان کرنے کے لئے صفحات درکار ہوں گے۔ فی الحال یہی کہنا ہے کہ روانی کے اعتبار سے یہ غزل بھی میر کے کمال فن کا نمونہ ہے۔ ’’تفسیدہ ماہیاں‘‘جیسا لفظ بھی میر نے اس قدر سہولت سے کھپا دیا ہے کہ انھیں خداے سخن کہتے ہی بنتی ہے۔ لیکن بات آہنگ کی ہو رہی تھی۔ یہاں بھی وہی طریقہ اختیار کیا جائے کہ غزل کو بلند آواز سے اس طرح پڑھنے کی کوشش ہو کہ اس کی روانی کے تمام تقاضے اور اس کے آہنگ کے تمام پہلو ممکن حد تک حاصل ہو سکیں۔ میرا کہنا ہے کہ ’’ملائم‘‘ اور ’’دھیمے‘‘ لہجے کا کسی شعر میں گذر نہیں۔ مقطعے میں فریاد کا رنگ ضرور ہے، لیکن سرگوشی یا خودکلامی نہیں ہے۔ ایسے اشعار، جن کو لوگ گلیوں میں پڑھتے ہوں ( یا جنھیں شاعر نے اس بات کو خیال میں رکھ کر کہا ہو کہ انھیں گلیوں شہروں میں پڑھا جائے گا)، اپنی فطرت کے اعتبار سے ہی بلند آہنگ ہوتے ہیں اور پھر میر نے معنی، مضمون اور کیفیت کی وسعتوں اور گہرائیوں کو جس طرح اپنے شعر میں سمویا تھا، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ انفعالی آہنگ کو قبول کر سکے۔ خاص کر وہ شخص جو’’افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک‘‘، بلکہ جو شعر گوئی کو ’’کمال انساں‘‘ سے تعبیر کرتا تھا، اس کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ سب سے کم امکانات والے غیر پیچیدہ آہنگ میں اپنا اظہار کرے۔
ہم جس طرح میر کی شاعری کے بارے میں بعض مفروضوں کی بھول بھلیاں میں گم رہے ہیں اور میر کے شاعرانہ مرتبے کی تعئین میں ہم سے کئی کوتاہیاں اس وجہ سے سرزد ہوئی ہیں کہ اسی بھول بھلیاں کے دوچار راستوں پر ہم بار بار گذرتے ہیں اور خود کو دھوکا دے لیتے ہیں کہ ہم نے میر کو گرفتار کر لیا، اسی طرح میر کے آہنگ اور ان کی موسیقی کے بارے میں بھی بعض مفروضوں نے ہمارے کان بند کر دیے ہیں۔ کیا عجب کہ جس دیدۂ نازک کا میر ہم سے تقاضا کر گئے تھے اس کا استعمال کرنا ہم بھول گئے ہوں۔ کیوں کہ میر نے حسب معمول پیچیدہ بات کہہ دی، اور ہم سہل انگار ہیں   ؎
بے تامل کے شناسی طرز گفتار مرا
دیدہ نازک کن کہ فہمی حرف تہ دار مرا
یعنی میر کے طرز گفتار کو پرکھنے کے لیے تامل، اور ان کے حروف تہ دار کو سمجھنے کے لیے باریک بینی درکار ہے۔ میرا نیسویں صدی کے شروع میں مرے تھے۔ ایسا نہ ہو کہ اکیسویں صدی کے شروع ہوتے وقت بھی ان کا شعر ہمیں ملامت کرتا رہے۔ دیوان اول،جس کا یہ شعر ہے، اٹھارویں صدی کے وسط ہی میں مکمل ہو گیا تھا   ؎
گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میر جی بھی کمال رکھتے ہیں
اتنا تو ہم سب مانیں گے کہ ڈھائی سو برس کا انتظار بہت ہوتا ہے۔ اگر میر کے دیوان میں ہر جگہ شعر شور انگیز کے باعث قیامت کا سا ہنگامہ ہے تو اس شور قیامت کی ایک ٹھوکر ہم کو بھی لگ جائے تو اچھا ہو۔

کتاب کا نام: شعر شور انگیز
مصنف: شمس الرحمٰن فاروقی
مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
کتاب حاصل کرنے کا پتہ:
وزرات ترقی انسانی وسائل،حکومت ہند
فروغ اردو بھون،ایف سی۔33/9،
انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ،نئی دہلی۔110025
فون نمبر: 011-26109746