18/5/23

اردومیں تحقیق کی روایت: زبیر شاداب خان


 


تلخیص

اردو میں تحقیق کی روایت کا آغاز اٹھارہویں صدی میں تذکروں سے ہوا۔ یہ مبہم اور بڑی حد تک ذاتی پسند وناپسند پر مشتمل تحقیقی نمونے ہیں، جن میں تذکرہ نگاروں نے اپنے معاصر شعرا کے مختصر سوانحی خاکے اور منتخب کلام کو شامل کرلیا۔ تحقیق کی کسوٹی ان پر یقین نہیں کرتی۔ اس نوع کی تحقیق کا سلسلہ میرتقی میر کے تحریر کردہ’’ تذکرہ نکات الشعراء‘ (1752)سے محمدحسین آزاد کی تصنیف’آب حیات‘ (1880)تک قائم رہا۔ اس دوران پچاسوں تذکرے قلم بند کیے گئے جن میں روایت پر یقین کرتے ہوئے درایت وتوقیت سے کم ہی سروکار رکھاگیا۔ انیسویں صدی کے نصف آخرمیں سرسیداور ان کی تحریک نے اردو زبان وادب کو کئی لحاظ سے متاثر کیا۔ اردو میں باقاعدہ تحقیق کا آغاز سرسید کی تاریخی تحقیق’آثار الصنادید‘ (1847)سے ہوا۔ سرسید کے علاوہ ان کے رفقا ومعاصرین میں محمدحسین آزاد، الطاف حسین حالی اورشبلی نعمانی نے اردومیں باقاعدہ تحقیق یا تحقیقی تصانیف کی بنیاد رکھی۔ آزاد کی’آب حیات‘ اپنی تمام تر تحقیقی خامیوں کے باوجود اہم تصنیف ہے۔ تاریخی تسامحات اور ذاتی پسند وناپسند اس کے عیب ہیں لیکن اس کتاب نے اردو تحقیق کے چلن کو فروغ دینے میںمعاونت کی۔ آزاد کے بعد حالی نے تاریخی شخصیات کی سوانح لکھ کر تحقیق کو وسعت بخشی۔ ’یادگارغالب‘ (1897) ’حیات سعدی‘ (1882)اور ’حیات جاوید‘ (1901) ان کے اہم کارنامے ہیں، جن میں تحقیق وتخلیق کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ’یادگارغالب‘ میں اسداللہ خاں غالب (1797-1869)،’حیات سعدی‘ میں فارسی کے مشہور شاعر سعدی شیرازی (1210-1292)اور’حیات جاوید‘ میں سیداحمدخاں (1817-1898) کی شخصیت او ران کے عہد کو قلم بند کیا گیا ہے۔ علی گڑھ تحریک میں شبلی نعمانی حقیقتاً تحقیقی مزاج کے مالک تھے۔ شبلی نے تحقیقی بردباری کے سلسلے میں اپنے پیش رو اورمعاصرین کے مقابلے زیادہ اعتبار حاصل کیا۔’المامون‘ (1887)، ’سیرت النعمان‘ (1892) ’الفاروق‘ (1898)،’الغزالی‘ (1902)،’سوانح مولانا روم‘ (1906)ان کی تصنیف کردہ سوانح عمریاں ہیں، جن میں تحقیق کا اعلیٰ مذاق استعمال ہوا ہے۔’شعرالعجم‘ کی چاروں جلدیں (1908-1910) بھی تحقیق وتنقید کے مستحکم امتزاج کے نمونے ہیں۔ شبلی کا انتقال 1914 میں ہو گیا تھا، ان کے بعد اس کام کو سیدسلیمان ندوی نے مکمل کیا، لہٰذاسیرت النبی1918 میں شائع ہوئی۔ شبلی نے اورنگ زیب عالمگیر پر بھی نہایت عمدہ تحقیقی کام کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موضوع کی مناسبت سے شبلی بھی غیرجذباتی نہیں رہ سکے۔ جس طرح آزاد نے آب حیات میں اپنے استاد ابراہیم ذوق پر لکھتے ہوئے تشکیک ومنطق او راستدلال کو عقیدت پر قربان کردیا اسی طرح حالی نے اپنے استاد اسداللہ خاں غالب اورمربی سیداحمدخان کی سوانح قلم بند کرتے ہوئے مسلسل مداحی سے کام لیا۔ بڑی حد تک اسی طرح روایت کا پاس ولحاظ شبلی نے بھی رکھا۔ باوجود اس کے آب حیات، یادگارغالب اورحیات سعدی کی طرح سیرت النبی، الفاروق اور شعرالعجم کی تاریخی اہمیت اب بھی برقرارہے۔ ہرچند کہ’آب حیات‘ اور’یادگار غالب‘ کا تعلق ادبی تحقیق سے ہے لیکن اردو میں ادبی تحقیق کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی سے ہوا۔ اس دور میں نہ صرف یہ کہ تحقیق کے اصول مرتب کیے گئے بلکہ ادبی تحقیق کے اعلیٰ نمونے بھی پیش کیے گئے۔ اس سلسلے میں مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور، عبدالستار صدیقی اور حافظ محمودشیرانی نے کلیدی کردار اداکیا۔ دراصل انہی محققوں سے اردو میں جدید ادبی تحقیق کا آغازہوتا ہے۔ اس عہد کو جدید تحقیق وتدوین کا سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں تحقیق نے تنقید سے قربت حاصل کی لیکن تنقید کی طرح نتائج کے اظہار میں اختلافِ رائے کی گنجائش پر راضی نہیں ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کی تحقیق نے کسی موضوع پر پہلے کی تحقیق کو وسعت دی یا اسے باطل قرار دیا لیکن تعبیری نتیجے کی بنیاد پرنہیں، دلائل اور منطق کی بنیاد پر۔ گویا اس عہد کی تحقیق نے غیرمتعین حقائق کے تعین پر اختلاف کااظہارکیا۔ محققوں نے نقادوں کی طرح تحقیق کے نتائج کے بغیر فیصلہ نہیں سنایا۔ انھوں نے قیاس، تعبیر اور تاویل جیسے تنقیدی اجزا سے اپنا دامن پاک رکھا۔ بیسویں صدی یعنی جدید تحقیق کے دور کا سب سے اہم رجحان تشکیک وشبہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ شبہ، تحقیق کے لیے مفید ہوتا ہے۔ اس تشکیک یا شبہے کی بنیاد پر تلاش وجستجو کا جو سلسلہ چلا تو ان سابقہ تحقیقات پر سوالیہ نشان قائم ہوئے جن میں آسانی کے ساتھ کام کیا گیا تھا یا سادگی سے نتائج برآمد کرلیے گئے تھے۔ گویا اس عہد نے روایت پرستی کے بجائے دعوے پر دلیل کا تقاضہ کیا۔ سابقہ تحقیقات پر یا نئی تحقیق میں سوالات قائم کرنے، شک کی نگاہ ڈالنے،منطقی دلائل سے کام کرنے کو بدتہذیبی نہیں سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ محمودشیرانی،امتیاز علی عرشی، قاضی عبدالودود،  اور رشیدحسن خاں کی تحریریں ثبوت و دلائل کے بغیر دعوؤں کو قبول نہیں کرتیں۔ یہ تحریریں تحقیق کے آداب سکھاتی ہیں، شک وشبہے کو تحقیق کا لازمی جز ثابت کرتی ہیں۔ جرات انکار بخشتی ہیں، منطقی اور استدلالی انداز نظر سے تعارف کراتی ہیں۔ اور جرح وباز احتساب کی اہمیت بتاتی ہیں۔

کلیدی الفاظ

        تحقیق، تدوین، دلائل و براہین،  منطق واستدلال،تفتیش، تجزیہ، حوالہ جات، تحقیقی طریقہ کار، تاریخی تحقیق، تصحیحی تحقیق، تجزیاتی تحقیق،  مسودہ، متن، تقابل متن، قلمی نسخے، نتائج

اردومیں تحقیق کی روایت

ہر چند کہ اردو میں ادبی تحقیق کا آغاز شمالی ہند سے ہوا لیکن دکن کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اردو میں باقاعدہ ادبی تحقیق کا آغاز وہیں سے ہوا۔ قادری،ہاشمی، زور اور سروری دکنی زبان وادب کی تحقیق میں ستونِ اربعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان محققوں کی اہم خوبی یہ ہے کہ انھو ںنے تحقیق کا آغاز کیا اور جدید تحقیق کے نہ صرف یہ کہ اصول مرتب کیے بلکہ تحقیقی معیار کو بھی بڑی حد تک اعتباربخشا۔ ان محققوں کے یہاں جو تحقیقی روایت قائم ہوئی اس میں سب سے بڑی کمی یہ رہی کہ تحقیق میںباز تفتیش (Cross Verification) اور تدوین میں مختلف قلمی نسخوں کے اختلافات کو خاطرمیں نہیں لایا گیا۔ باوجود اس کے دکن میں انجام دی گئی تحقیق کی اہمیت سے حتمی انکار ممکن ومناسب نہیں ہوگا۔

 شمس اللہ قادری (1885-1953) دکنیات کے پہلے محقق ہیں۔ گو کہ ان کی تفتیش وتحقیق سے اختلاف کی بڑی حد تک گنجائش ہے، بلکہ اختلاف کیے جاچکے ہیں، باوجود اس کے ان کی تحقیقی تصنیف ’اردوے قدیم‘ (1926)کی تاریخی اہمیت وحیثیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ قادری نے اس کتاب کا بیشتر مواد مضمون کی صورت میں رسالہ’’لسان العصر‘ اپریل، مئی اور جون 1917میں’قدیم شعراے اردو‘ کے عنوان سے شائع کرایا تھا۔یہی تحریر 1926میں کتابی صورت میں تاریخ زبان اردو یعنی’اردوے قدیم‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بہمنی، قطب شاہی اورعادل شاہی سلطنت کے علاوہ اورنگ زیب اور گجرات کے شعرا وادبا کے حالات اور ادبی کارناموں کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ یہ دکنی ادب کی پہلی تاریخ ہے۔ دکن کے مشہور شاعر سیدمحمد والہ اوران کی مثنوی’طالب وموہنی‘ پر بھی قادری صاحب نے قابل قدر تحقیقی کام کیا۔قادری نے عین الدین گنج العلم اور شاہ میراں جی شمس العشاق کے رسالوں ـ’جل ترنگ‘ اور’گل باس‘ کو اردو دنیا سے متعارف کرایا۔

نصیرالدین ہاشمی (1895-1965) کو دکنی زبان وادب کی تحقیق میں اولین معتبر محقق کی حیثیت حاصل ہے۔ ’دکن میں اردو‘ (1925) ان کا اہم ترین تحقیقی کارنامہ ہے۔ ان کے دیگر تحقیقی کاموں میں ’مدراس میں اردو‘ اور’یورپ میں دکنی مخطوطات‘ اہمیت کی حامل مستقل تحقیقی تصانیف ہیں۔ ہاشمی صاحب کی دیگر نگارشات میں’خواتین دکن کی اردو خدمات‘ (1929)، ’سلاطینِ دکن کی ہندوستانی شاعری‘ (1932) ’دکنی کے چند تحقیقی مضامین‘ (1963) دکنی ہندو اور اردو (1956)اور’مقالاتِ ہاشمی‘ (1979) بعض تحقیقی سہو کے باوجود تاریخی اہمیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے نظامی کی مثنوی’کدم راؤ پدم راؤ‘ کی دریافت کی۔ قطب مشتری، کلیات، شاہی، تذکرۂ ریاضِ حسینی، خاورنامہ اور چندربدن ومہیار کے سلسلے میں ان کی فراہم کردہ معلومات نے ان تصانیف پرمزید تحقیق کے درکھولے۔ہاشمی صاحب کو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد نے 1929میں اعلیٰ تحقیق کے لیے یورپ بھیجا تھا۔ انھوں نے برطانیہ اورپیرس کا سفر کیا اور برٹش میوزیم، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، آکسفورڈ اور کیمبرج اور اڈانبرا یونیورسٹی کے کتب خانوںمیں موجود دکنی مخطوطات کی 1932میں اشاعت کرائی۔ انھوں نے مشہور کتب خانہ سالارجنگ اور کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں موجودمخطوطات کی وضاحتی فہرست بھی مرتب کرکے بالترتیب 1957اور 1961میں مرتب کی۔ دکنی ادب پر تحقیق کرنے والے محققوں او ر ریسرچ اسکالرس کی یہ فہرستیں رہنمائی کرتی ہیں۔ صاحب کو اردو تحقیق میں ان کے تحقیقی کاموں، بالخصوص’دکن میں اردو‘ کے لیے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔

محی الدین قادری زور (1905-1962) نہ صرف دکنی اردو کے بلندپایہ محقق ہیں بلکہ اردو کے پہلے باقاعدہ ماہرلسانیات بھی ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے لسانیاتی تحقیق کے تحت علم اصوات اور اردو کے صوتیاتی نظام کو متعارف کرایا۔ زور صاحب نے 1930میں لندن یونیورسٹی سے’اردو کے آغاز وارتقا‘ پرڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ ان کی کتابیں’ہندوستانی لسانیات‘ اور ’ہندوستانی صوتیات‘ اسی مقالے کے حصے ہیں۔ جن میں ترمیم وتوسیع کرکے شائع کیا گیا۔’اردو شہ پارے‘ (1928) عہدعثمانیہ میں اردو کی ترقی (1934) داستان ادب حیدرآباد(1951) اور’دکنی ادب کی تاریخ‘ (1960)  ان کی اہم تحقیقی تصانیف ہیں اور ان کے دیگر اہم تحقیقی کاموں میں ادارۂ ادبیات اردو کے مخطوطات کی فہرست بھی اہمیت کی حامل ہے۔ پانچ جلدوں پرمشتمل یہ کام محققوں اور ریسرچ اسکالرس کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔’گلزار ابراہیم مع گلشن ہند‘ (1934)، ’مکتوبات شاد عظیم آبای‘ (1939)، ’کلیات قلی قطب شاہ‘ (1940)،’ابراہیم نامہ، ارشاد نامہ‘ (1940)، قطب شاہی سلطنت کے پیشوا محمد مومن کی سوانح حیات’سلطان میر محمد مومن‘(1941) کے علاوہ طالب موہنی والہ کی مثنوی بھی ان کی تحقیقی وتدوینی کاوشیں ہیں۔زور صاحب کی شخصیت ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے ماہنامہ’سب رس‘ جاری کیا۔ وہ ادارۂ ادبیات اردو، حیدرآباد کے بنیادگزار بھی تھے۔دکنی زبان وادب کی تحقیق وتدوین کے تعلق سے انھوںنے بے مثال کام کیے۔ ان کے لسانیاتی کاموں سے اختلاف کیاجاسکتا ہے لیکن ان کی اہمیت سے انکار قطعی مناسب نہیں۔ زور صاحب کے تحقیقی خطوط پر ہی شوکت سبزواری اورمسعودحسین خاںنے لسانیاتی تحقیق کو وسعت دی۔

زور صاحب نے ایک اشاعتی سلسلے کا آغاز بھی کیا تھا جس کے تحت’کیفِ سخن، رمزِ سخن، فیضِ سخن، بادۂ سخن اورمتاعِ سخن‘ جیسی تصانیف منظرعام پر آئیں۔ یہ اشاعتیں تذکرہ اور تنقید کی امتزاجی صورت رکھتی ہیں، مثلاً’کیفِ سخن‘ میں رضی الدین حسن کے حالات او رنمونۂ کلام نیز حیدرآبادکے ادبی پس منظر کی تفصیل ہے۔ اسی طریقے سے’بادۂ سخن‘ میں احمدحسین سائل اور’رمزِ سخن‘ میں بہاری لال رمز اور ان کے کلام پر گفتگو کی گئی ہے۔’فیضِ سخن‘ مشہو رصوفی شاعر میرشمس الدین فیض کے حالات وکلام کے انتخاب سے تعلق رکھتی ہے البتہ’مرقعِ سخن‘ (1937) میں عہدِ آصفیہ کے پچیس شاعروں کا تذکرہ ہے، جو میرعثمان علی خاں کی سلور جبلی کے موقع پر شائع کی گئی تھی۔ اگر کوئی محقق صرف’داستانِ ادب حیدرآباد‘ جیسی ایک تحقیقی کتاب لکھ دے تو اس کی اہمیت تاریخ میں مسلم ہوجائے گی۔ یہ کتاب حیدآباد کی نہ صرف تین سو سالہ عربی،فاررسی اور اردو شاعری کا جائزہ لیتی ہے بلکہ متعلقہ عہد کی ادبی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کے تعلق سے ایک مستند دستاویز کا مرتبہ بھی رکھتی ہے۔

عبدالقادر سروری (1906-1971) دکنی تحقیق کے چوتھے ستون ہیں۔ ان کی دلچسپی تحقیق وتدوین، دونوںمیں تھی۔ انھوںنے صنعتی کی مثنوی قصہ بے نظیر (1937) نشاطی کی مثنوی’پھول بن‘ کی ترتیب وتدوین (1938)،’کلیات سراج‘ کی ترتیب (1940)اور شاہ صدرالدین کی تالیف’مرآۃ الامرا‘ کو 1940میں ترتیب دے کر شائع کرایا۔ سراج اورنگ آبادی پر ان کا مقدمہ نہ صرف سراج کی شاعری کو سمجھنے میں معاون ہے بلکہ ان کے عہد اور دکن کی شعری روایت کی تفہیم کا اعلیٰ ذریعہ بھی ہے۔ سروری صاحب نے’اردومثنوی کا ارتقا‘ میں دکنی مثنویوں کا تاریخی مطالعہ کیا ہے۔ تحقیق کے لحاظ سے یہ بہت عمدہ کام نہیں ماناجاتا۔ البتہ’اردو کی ادبی تاریخ (1976)اور’کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ‘ بنیادی نوعیت کی اہم تصانیف ہیں۔ سروری صاحب کی کتاب’زبان اور علم زبان‘ کے علاوہ’ کشمیر میں اردو ادب کی تاریخ‘ لسانیاتی مطالعے کا ہم نمونہ ہے۔ سروری صاحب نے جامعہ عثمانیہ میں موجود مخطوطات کی فہرست 1929میں مرتب کی تھی۔یہ فہرست بھی تحقیق میں آسانیاں پیداکرتی ہے۔

مذکورہ چاروں اہم ترین محققوں کے علاوہ صوفی عبدالجبارخان ملکاپوری براری، محمدبن عمر، سیدمحمد، سعادت علی رضوی، مبارز الدین، اکبرالدین صدیقی، حفیظ قتیل،سیدہ جعفر، ظہیرالدین مدنی، رئیسہ خاتون، یوسف سرمست، مجید بیدار اورنسیم الدین فریس نے دکنی زبان وادب میں اہم تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں۔ عبدالجار ملکاپوری نے’تذکرہ اولیائے دکن‘،’محبوب التواریخ‘ اور’’محبوب الزمن‘ (1911) جیسی اہم تصانیف میں دکن کے صوفیا اور سلاطین کا تاریخی مطالعہ کیا۔’تذکرہ اولیائے دکن‘ کی دوجلدیں ہیں جو بالترتیب 1912اور 1913میں شائع ہوئیں۔ اسی طریقے سے تین حصوں پرمشتمل تذکرہ سلاطین دکن کی پہلی جلد 1910میں منظرعام پر آئی۔ دوسری اور تیسری جلد سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ یہ کتابیں نواب حیدرآباد میر محبوب علی خاں کی مالی امداد سے شائع ہوئی تھیں۔ اس لیے ہر ایک کے ساتھ ’محبوب ‘ کا استعمال ہوا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ ملکاپوری کی تحقیقات میں بڑی حد تک تصحیح کی گنجائش ہے، دوسری بات یہ کہ ان کی زیادہ تر تحقیقات کا تعلق تاریخ اورتصوف سے ہے نہ کہ زبان وادب سے۔ دکن کے دیگرمحققوں میں محمدبن عمر اورسیدمحمد صاحبان نے بھی دلجمعی سے تحقیق کا فریضہ انجام دیا۔ محمدبن عمر نے غواصی کا کلیات 1959میں مرتب کیا جس کا مقدمہ نہایت وقیع ہے۔ جس میں سیف الملوک وبدیع الجمال، طوطی نامہ اورغواصی کے معاصر شعرا سے متعلق معلوماتی گفتگو کی گئی ہے۔ حالانکہ سیف الملوک وبدیع الجمال کو 1939میں سعادت علی رضوی نے مقدمے کے ساتھ شائع کردیا تھا۔  مقدمے میں غواصی سے متعلق تمام تر ضروری اطلاعات درج کی گئی تھیں۔ رضوی صاحب نے’طوطی نامہ‘ کی ترتیب کا کام بھی بڑی دلجمعی سے کیا ہے۔ سیدمحمد نے، حمیداورنگ آبادی کا’تذکرہ گلشن گفتار‘  (1939)’’دیوان عبداللہ قطب شاہ‘ (1939)،’’مثنویات میر‘ (1956)فائز کی مثنوی’رضوان شاہ روح افزا‘ (1956)اوروجدی کی’پنچھی باچھا‘ (1959)کومرتب کیا۔’ارباب نثر اردو‘ (1927)ان کی مشہور تحقیقی تصنیف ہے، جس میں فورٹ ولیم کالج کے مصنفوں اور ان کی تصانیف کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔’’قصہ رضوان شاہ و روح افزا‘ کو سروری صاحب  نے بھی فائز کی مثنوی تسلیم کیا ہے جبکہ جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق’قصہ رضوان شاہ و روح افزا‘ اور آگاہ کی مثنوی’گلزار عشق‘ ایک ہی ہیں۔ جالبی صاحب نے’گلزار عشق‘ کے دیباچے میں آگاہ کے عہد، اس عہد کی شاعری اور اس زمانے کے لسانی مسائل پربھی مفصل اظہارخیال کیا ہے۔ اسی دیباچے میں انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ’قصہ رضوان شاہ و روح افزا‘، گلزار عشق ہی ہے۔ سروری صاحب کو یہ مغالطہ ہوا کہ یہ دونوں الگ الگ قصے ہیں۔

دکنی زبان وادب کے ایک اورمحقق مبارز الدین رفعت ہیں جنھوں نے علی عادل شاہ ثانی شاہی کا کلیات مع مقدمہ 1962میں مرتب کرکے شائع کرایا۔ کلیات شاہی کے علاوہ انھوںنے’شکار نامہ‘ کی تدوین کا کام بھی 1962میں مکمل کرلیا تھا لیکن انھوں نے اس کو خواجہ بندہ نواز گیسودراز کی تصنیف بتائی ہے، جس پر محققین نے شبہے کا اظہار کیا ہے۔ اسی طریقے سے مولوی عبدالحق نے معراج العاشقین کو بندہ نواز کی تصنیف قرار دیا تھا لیکن حفیظ قتیل نے اس پر تحقیق کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہ مخدوم شاہ حسینی کی تلاوت الوجود کا خلاصہ ہے۔قتیل کی تحقیقی کتاب ’معراج العاشقین کا مصنف‘ 1968میں منظرعام پر آئی۔ ان کے دیگر تحقیقی کاموںمیں ہاشمی بیجاپوری کے دیوان ریختی (1961)اور میراں جی خدانما کے نثری رسالے کی تدوین بھی اہمیت کے حامل کام ہیں۔مرزا افضل بیگ کا تالیف کردہ’تذکرۂ تحفۃ الشعرا‘ اور قیس کے دیوان کی ترتیب وتدوین کا کام بھی قتیل نے بڑی محنت سے کیا ہے۔ مذکورہ محققوں کے علاوہ اکبرالدین صدیقی نے برہان الدین جانم پرمحی الدین قادری زور کی تحقیق کو حتمی صورت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے جانم کی’کلمۃ الحقائق‘ (1961)کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔’مشاہیر قندھار ودکن‘، دیوان عشق از جمال الدین عشق اور’کشف الوجود‘ کی ترتیب وتدوین بھی قتیل نے کی۔ صدیقی صاحب نے نشاطی کی پھول بن (1978)، مقیمی کی مثنوی’چندربدن ومہیار‘ کی ترتیب وتدوین میں قتیل عجلت کے شکار ہوئے جسے بعد میں سیدہ جعفر نے اپنے بسیط مقدمے کے ساتھ شائع کرایا۔ سیدہ جعفر نے’ماسٹررام چندر اور اردو نثر کا ارتقا‘ (1960)’من سمجھاون‘ (1964)’دکنی رباعیاں‘ (1966)’سگھ اگن ‘(1967)مثنوی’ماہ پیکر‘ (1968)’اردو ادب میں مضمون کا ارتقا‘ (1972)’یوسف زلیخا‘ (1973)’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘ (1985)مثنوی’جنت سنگار‘ (1997)’’دکنی ادب میں قصیدے کی روایت‘ (1999)اور گیان چند جین کے اشتراک سے تاریخ ادب اردو کی مولفہ، مصنفہ اورمحققہ ہیں۔ سیدہ جعفر نے ماقبل کی تحقیقات پر سوالیہ نشان بھی لگائے اور ان سے متعلق معلومات میں اضافہ بھی کیا لیکن ان کی تحقیقات میں بھی ترمیم واضافے کی گنجائش باقی رہی۔ دکنی محققوں میں رئیسہ شوکت نے بھی’شکارنامہ‘ کی تدوین کے علاوہ چندولال شاداں، مہ لقا بائی چندا اور لطف پر تحقیقی کام کیا۔ حسینی شاہد کی امین الدین اعلی اورشاہ معظم پر کی گئی تحقیق کو اعتبار کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ جنوبی ہند میں دکنی زبان وادب پر دکن کی قدیم ادبی تصانیف کی تحقیق میں جن دیگر محققوں نے گراں قدر تحقیقی خدمات انجام دیں ان کی تفصیل فہرست کی صورت میں نقل کی جارہی ہے۔ حسین شاہد سید’شاہ امین الدین اعلیٰ حیات او رکارنامے‘ (1973)محمد حفیظ سید’کلیات بحری‘ (1939)زینت ساجدہ،’کلیات علی عادل شاہ ثانی شاہی‘ (1962)اشرف بیابانی کی’نوسرہار کا تحقیقی مطالعہ‘، رفیعہ سلطانہ، کلمۃ الحقائق از برہان الدین جانم (1961)اردو نثر کا آغاز وارتقا دیوی سنگھ چوہان نے پرت نامہ، پنچھی باچھا،  کلمۃ الحقائق، مینا ستونتی، ابراہیم نامہ اورنصرتی پر معلومات افزا تحقیقی مضامین قلم بند کیے۔ افضل الدین اقبال، مدراس میں اردو ادب کی نشوونما (1969)محمد علی اثر، غواصی شخصیت اور فن (1993)غلام عمر خاں، مینا ستونتی از غواصی (1981)لیلیٰ مجنوں (1967)دکنی اردو لغت بہ اشتراک مسعودحسین خاں، حبیب النسا،  میسور میں اردو کی نشوونما (1962)نذیراحمد’نورس‘ از ابراہیم عادل شاہ (1955)طیب انصاری ’عہد آصفیہ میں اردو نثر کا ارتقا‘(1999)،نورالسعید اختر’تاج الحقائق‘ بہرام و گل اندام، مجید بیدار ’دیوانِ لطف‘ از اکبرعلی بیگ، دیپک پتنگ از عقیل ہاشمی، لئیق صلاح ’میرشمس الدین فیض‘ زینت ساجدہ ’حیدرآباد کے ادیب جلد اول 1958))، جلد دوم (1962)اورحمیرہ جلیلی نے’سب رس‘ (1983) منظر عام پر لاکر اپنی تحقیقی لیاقت کا ثبوت دیا۔ظہیرالدین مدنی کی کتابوں میں’سخنوران گجرات‘ اردو غزل ولی تک، نورالمعرفت اور ولی گجراتی اورعبدالمجید صدیقی کی مرتبہ’علی نامہ‘ ازنصرتی (1959)اہمیت کے حامل تحقیقی کارنامے ہیں اور اسی وجہ سے دکن اردو کی ادبی اور لسانی تحقیق کا اہم ترین مرکز رہا ہے۔

دکنی مخطوطات کے اولین تحقیق نگاروں او ردکن نیز اردو کے لسانیاتی جائزہ کاروں  میں شمس اللہ قادری، نصیرالدین ہاشمی، محی الدین قادری زوراور عبدالقادر سروری نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ قادری، ہاشمی، زور اور سروری کی تحقیق میں ہرچند کہ کسی متن کے مختلف قلمی نسخوں کے تقابل اور ان میں پائے جانے والے اختلافات کی تلاش وجستجو پر کم توجہ دی گئی لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر ان محققوں نے اپنی تحقیقی خدمات نہ دی ہوتیں تو اردو تحقیق میں تصحیح واضافے کی رفتار سست رہتی۔ انھوں نے اپنی تحقیقات سے نہ صرف یہ کہ دکنی ادب بلکہ مجموعی طور پر اردو کی ادبی تحقیق کے لیے راہیں ہموار کیں۔ اردو زبان وادب کے لسانیاتی مطالعے کی بنیاد رکھی۔ اردو کے قدیم ترین سرمائے کو بڑی حد تک اس کی صحیح صورت میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ گویا ایک ایسی روایت کی بنیاد رکھ دی کہ جس پر بعد کے محققوں نے اپنی عمارتیں تعمیر کیں۔ اگر ان کی تحقیقی نگارشات منظرعام پر نہیں آئی ہوتیں توبعد کے محققوں کا تحقیقی سفر بہت دشوار ہوتا۔ ان چار اہم محققوں کے بعد ملکاپوری، سیدمحمد، حفیظ قتیل، اکبرالدین صدیقی، سیدہ جعفر، رئیسہ خاتون، ظہیرالدین مدنی، یوسف سرمست، مجید بیدار وغیرہ نے بڑی حد تک ماقبل کی تحقیقی نگارشات کا نہ صرف یہ کہ احتساب کیا بلکہ  ان سے روشنی حاصل کی اوران کی توسیع وتصحیح کی ممکنہ حد تک کوششیں کیں۔ دکنی تحقیق کا سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ البتہ مولوی عبدالحق، مسعودحسین خاں اور جمیل جالبی وغیرہ کے دکنی ادب پر تحقیقی کاموں کا جائزہ ان کے دیگرتحقیقی کاموں کے ساتھ لیاجائے گا۔ دکنی زبان وادب اور دکن میں کی گئی تحقیق، اردو تحقیق کی روایت کا ایک معلومات افزا اورسنہرا باب ہے۔

دکن کے علاوہ شمال میں بھی اردو تحقیق کی ایک نہایت ثروت مند روایت رہی ہے۔  اس روایت کے امین مولوی عبدالحق (1870-1961) ہیں۔  اردوتحقیق میںمولوی عبد الحق کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انھوں نے نہ صرف انفرادی طور پر تحقیق کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے بلکہ انجمن ترقی اردو کی بنیاد ڈال کراجتماعی تحقیق کو بھی فروغ دیا۔انھوں نے اپنی بے لاگ اور مخلصانہ کوششوں سے اردو کی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کیں اور نئی نسل کے علمی شغف اور تحقیقی ذوق کی تربیت کی۔ ان کی تحقیقی سر گرمیاں کسی ایک شعبے تک محدود نہیںہیں۔انھوں نے وسیع پیمانے پر مختلف موضوعات سے متعلق تحقیقی کام کیے۔تذکرہ،دکنیات،کلاسیکی ادب اور قواعدولسانیات ایسے موضوعات ہیں جن پر ان کی خاص توجہ رہی ہے۔مولوی صاحب نے نایاب قدیم مخطوطات دریافت کیے،ان سے ادبی دنیا کو متعارف کرایا،ان کی ترتیب و تصحیح کی،ان پر اپنے مقدمات لکھ کر متعلقہ موضوعات پر اپنی تحقیقی رائے پیش کی اور ان کی اہمیت کو واضح کیا۔مولوی عبدالحق نے باقاعدہ طور پر ادبی اور لسانی تحقیق کی طرف توجہ کی۔ان کی ان کامیاب کوششوں سے اردو زبان و ادب کے ارتقا کا ایک صحیح تصور سامنے آ سکا۔گویا تحقیق ان کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔زبان و ادب کے ہمہ جہت پہلوئوں کو انھوں نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔قدیم تذکروں اور دواوین کو دریافت کر کے مرتب کیا،دکنیات سے متعلق اہم حقائق تک پہنچ کر قدیم ادب کی گمشد ہ کڑیاں تلاش کیں۔لسانی مباحث چھیڑے،قواعد کے اصول وضع کیے اورلغت ترتیب دی۔ ان کی تصنیف و تالیف میں درج ذیل کی اہمیت مسلم ہے

’اردو زبان میں علمی اصطلاحات‘ (1961)،’اردو صرف و نحو‘(1934)،’اردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘ (1949)،’اردو انگریزی لغت‘ (1977)،’باغ وبہار‘(ترتیب و تدوین)،’انتخاب کلام میر بمع مقدمہ‘۔

مولوی عبدالحق نے بحیثیت مرتب 8تذکروں پر کام کیا۔یعنی’نکات الشعرا‘(1751)،’تذکرہ ریختہ گویاں‘  (1752)، ’چمنستان شعرا‘  (1761)، ’گل عجائب‘ (1779)،’’عقد ِ ثریا‘ (1784)،’تذکرہ ٔہندی‘ (1785-1794)، ’ریاض الفصحا‘(1806-1820)،’’مخزن شعرا‘(1851)۔ تذکروں کی تدوین کے علاوہ دکنی زبان و ادب کی تحقیق مولوی عبدالحق کا خاص میدان رہا ہے۔دکنی زبان کے قدیم مخطوطات کی دریافت،دکنی شعراکے تذکروں کی ترتیب و اشاعت،  دکنی فن پاروںکی تدوین، دکنیات سے متعلق تحقیقی مقالات و مضامین مولوی صاحب کے اہم تحقیقی کارنامے ہیں۔ انھوں نے جن دکنی متون کو مرتب کیا ان میں سب رس، قطب مشتری، گلشن عشق، چمنستان شعرا، گل عجائب ‘کا نام سرفہرست ہے۔مولوی عبد الحق نے سب سے پہلے مقدمے میں سب رس کے ماخذ سے تحقیقی بحث کی ہے۔ وہ وجہی کے ا س دعوے کوکہ سب رس اس کی طبع زاد داستان ہے رد کرتے ہیں۔ان کے مطابق اس قصے کا ماخذ یحییٰ ابن سیبک فتاحی نیشاپوری کا  ’قصہ حسن و دل ‘ہے جو کہ ان کی مثنوی ’دستور العشاق‘ کا خلاصہ ہے۔ان کے خیال میں وجہی کے سامنے فتاحی کا قصہ حسن و دل موجود تھا لیکن دستور العشاق تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی تھی۔ دکنیات میں اپنی علمی ذہانت اور تحقیقی بصیرت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ہی مولوی عبد الحق نے شمالی ہند کے قدیم فن پاروں کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ایسی معلومات فراہم کی جس سے شمالی ہند میں اردو کے ارتقا پر روشنی پڑتی ہے۔اس سلسلے میں ان کا ایک اہم کارنامہ ’باغ و بہار ‘کی تدوین ہے۔اس کتاب میں تحقیقی و تنقیدی مباحث پر مشتمل ان کا ایک بصیرت افروز مقدمہ شامل ہے۔ میر امن نے کتاب کے دیباچے میں اس قصہ چہار درویش کو امیر خسرو سے منسوب کیا ہے لیکن مولوی عبدالحق نے اس امر پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ شمالی ہند کے کلاسیکی شعرا میں میر تقی میر مولوی عبد الحق کی تحقیق کا خاص موضوع رہے ہیں۔انھوں نے 1921 میں میر کے کلام کا انتخاب اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔میر کی سوانح عمری ’ذکر میر‘ مرتب کی اور میر کے تذکرے نکات الشعرا کو تحقیق و تصحیح کے بعد منظر عام پرلائے۔ میر اثر کے دیوان اور ان کی مثنوی ’خواب و خیال‘ کو ادبی دنیا سے متعارف کرایا۔انھوں نے اپریل 1926 میں رسالہ ’اردو‘ اورنگ آباد میں خواب و خیال اور جولائی 1926میں ان کے نمونۂ کلام(غزلیات) سے متعلق معلومات پیش کی۔اس کے بعد مثنوی خواب و خیال کو اپنے مقدمے کے ساتھ اسی سال دو نسخوں کی مدد سے شائع کیا اور دیوان اثر کو مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ سے 1930میں شائع کروایا۔

 مولوی عبدالحق کو اردو زبان و قواعد سے خاص دلچسپی تھی۔اردو حروف تہجی،افعال اور اردو صرف و نحو کا مطالعہ انھوں نے اپنی کتاب’ قواعد اردو ‘میں جس طرح کیا اس سے اردو میں علم لسانیات کے لیے امکانات کی نئی راہیں کھلیں۔مطالعۂ  زبان کے سلسلے میں ان کی مستقل کتاب’ قواعد اردو‘، ’اردو صرف نحو‘ اور’ فارسی کا اثر مرہٹی زبان پر‘ اہمیت کی حامل ہیں۔اس کے علاوہ لسانی اور قواعدی مباحث پر مشتمل ان کے مقدمات مطالعہ ٔ زبان کے اعتبار سے بہت کارآمد ہیںخصوصاً مقدمہ دریائے لطافت،مقدمہ فرہنگ اصطلاحات علمیہ اور مقدمہ مطبوعات دارالترجمہ عثمانیہ وغیرہ چشم کشا مقدمات ہیں۔ مولوی عبدالحق حقیقی معنی میں تحقیقی وتدوینی ذہن کے مالک تھے۔بقول رشیدحسن خاں

’’حالی وشبلی کے اثرات کے بعد، سب سے طاقتور اثر تھا بابائے اردومولوی عبدالحق مرحوم کا… انھوں نے تحقیق کی طرف بھی توجہ کی اور تدوین کا کام بھی کیا اور یہ واقعہ ہے کہ انھوں نے نہایت اہم تذکروں اور قدیم مثنوی کو شائع کیا اور اس طرح کا کام کرنے کا ڈول ڈالا کہ لوگوں کو ان امور سے دلچسپی پیداہوئی۔لیکن بات وہی ہے کہ تحقیق، شرک کو گوارانھیں کرتی۔ آدمی اگر چومکھی لڑے گا تو اور موضوعات کا حق چاہے ادا ہوجائے تحقیق کا حق ادا نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے جس انہماک، یکسوئی اور ڈوب جانے والی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگامہ آلود زندگی اس کے منافی ہے۔‘‘ 1؎

محمودخاں شیرانی (1880-1946)شیرانی کو اردو تحقیق کامعمار اول کہاجاتا ہے۔ وہ اردو اور فارسی زبان وادب کے ممتاز عالم اور محقق تھے۔ شیرانی نے مختلف موضوعات پر تحقیق کی۔ تاریخی لسانیات، لغت وقواعد، عروض وبلاغت، شعروادب اورتذکرے ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ شیرانی کی سنجیدگی اور سختی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ ان کی تحریروں نے اردو تحقیق کا نہ صرف یہ کہ ایک سخت اور اعلیٰ معیار قائم کیا بلکہ بعد کی تحقیق کو دقتِ نظر اور معتبریت کا قائل بھی بنادیا۔

ان کی تحقیقی کتابوں اور ان کے مقالات کے مجموعے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ’تنقید شعر العجم، فردوسی پر چارمقالے‘، ’مقالاتِ حافظ محمودشیرانی‘،ــ’ خالق باری ــ‘(تدوین)۔ ان کے علاوہ قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ’مجموعہ نغز‘ (ترتیب) اہمیت کے حامل کام ہیں، ان میںسب سے مقبول ومعروف تحقیقی تصنیف’پنجاب میں اردو‘ہے۔ رشیدحسن خاں نے شیرانی صاحب کی تحقیقی بصیرت پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’اردو میں ادبی تحقیق کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے اور کسی تکلف کے بغیر، شیرانی صاحب کو اردومیں تدوین وتحقیق کا معلم اول کہاجاسکتا ہے۔ شیرانی صاحب نے قدیم مشرقی انداز تعلیم اورجدید مغربی اندازِنظر دونوں سے فیض پایا تھا۔ مزاجاً ان کو تحقیق سے مکمل مناسبت تھی اوران کے یہاں وہ منطقی انداز نظر موجود تھا جس کے بغیرا ندازِ گفتگو میں صحت اور استخراجِ نتائج کا سلیقہ آہی نہیں سکتا۔ زودیقینی، آسان پسندی اور کم نظری سے انھیں گویاعلاقہ نہیںتھا۔ نہ پرستاریِ وہم سے سروکار تھا۔ تحقیق او رتدوین دونوں موضوعات پر ان کا بیشتر کام، مثال ومعیار کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘2؎

عبدالستار صدیقی(1885-1973) کی شناخت ماہر املا وصرفیات کی حیثیت سے مسلم ہے۔ حقیقی معنی میں وہ  ہفت لسانی عالم اورالہ آباد یونیورسٹی کے اولین پروفیسر ایمریٹس تھے۔ وہ عربی، فارسی، سنسکرت، عبرانی، پہلوی، اردواورانگریزی زبانوں اوران کے لسانیاتی امورسے گہری واقفیت تورکھتے ہی تھے،سریانی اورترکی سے بھی اچھی طرح آشنا تھے۔ ان کا خاص میدان انشا واملا، صرفیاتی تحقیق اور مطالعۂ زبان تھا۔ 1912سے1919 کے دوران ان کاقیام یورپ میںرہا ان سات برسوں میں انھوں نے اپنا زیادہ تروقت جرمنی میں گزارااور اس درمیان’کلاسیکی عربی میںفارسی کے مستعار الفاظ‘ پر پی ایچ ڈی کی سند کے لیے مقالہ لکھا،جو1919 میں انگریزی زبان میں"Studies of Persian Loan-words in Classical Arabic" کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کے تحقیقی مقالات کا مجموعہ’مقالات صدیقی‘ کے نام سے مسلم صدیقی نے اردو اکیڈمی لکھنؤ سے شائع کرایا ہے۔ اس مجموعے میں صدیقی صاحب کی 1910 سے 1961تک کی منتخب تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان مقالات کے مطالعے سے ان کی وسعتِ علمی کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ان کا ایک اورقابلِ قدرکام عربی، فارسی کے مشہور ماہرصرفیات ابنِ دُرَید پرانگریزی میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان ــ"Ibn Duraid and his Treatment of loan words" ہے۔ بہرحال’مقالات صدیقی‘ میں شامل ان کے مضامین اردو میںتحقیقی مقالات کے چشم کشانمونے ہیں،وہ املا کے مسائل ہوں کہ’مکاتیبِ غالب‘ یا پھر’وضعِ اصطلاحات‘ از وحیدالدین سلیم۔ان کا مطالعہ عالموں کے علم میںبھی اضافہ کرتا ہے۔سیدسلیمان اشرف نے کتاب’المبین‘ جُرجی زیدان کے لغت’فلسفۃاللغۃ العربیہ‘ کے جواب  میں لکھی تھی۔’المبین‘ پرصدیقی صاحب کاتبصرہ قابلِ رشک ہے۔ معلوم نہیں کیوں اسے مقالاتِ صدیقی میں شامل نہیں کیا گیا۔ بہرحال ان کے سبھی مقالات تحریک دیتے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کے مقالات کو بنیاد بناکر بہت سے لوگ محقق، قواعد نویس، ماہرِاملا اور صاحبِ کتاب ہو گئے۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے تحریر کردہ مضامین ان کے اعلیٰ پایہ محقق ہونے کی دلیل ہیں۔

مسعودحسن رضوی ادیب (1893-1975)اردو کے نمایاں عالموں میں شمار کیے جانے والے ادیب ومحقق ہیں۔ انھو ں نے تحقیق، تاریخ، لسانیات،قواعد اوربدیع وبیان کے علاوہ مرثیے اور ڈرامے کی تحقیق و تنقید پر خاصا کام کیا ہے۔ان کا اہم ترین کارنامہ اردو کے رثائی ادب کی تحقیق وتنقید ہے۔ اودھ کی تاریخ اور لکھنوی تہذیب ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ اردو ڈرامے کی تحقیق سے ڈرامے کے متعلق انھوں نے بہت سی معلومات فراہم کیں۔ اردو رسمِ خط کی تحقیق بھی ان کے اہم ترین تحقیقی کاموں میں سے ایک ہے۔

آب حیات کا تنقیدی مطالعہ (1913)،روح انیس (1926)، فیض میر(1929)، متفرقاتِ غالب (1947)، شرحِ طباطبائی اورتنقید کلام غالب (1973)، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج (1956)، لکھنؤ کا شاہی اسٹیج(1957)، اندرسبھا ترتیب وتدوین(1968)، مراثیِ ریختہ (1984)، شاہکار انیس (1943)، رزم نامہ انیس(1957)، شاعر اعظم انیس(1966)، اسلاف میرانیس(1970)، انیسیات (1976)

میروغالب سے مسعودحسن رضوی ادیب کی خاصی دلچسپی تھی لیکن انیس اور کلام انیس ان کی روح کا حصہ تھے۔ لہٰذا مسعودصاحب نے انیس پر کم وبیش آدھ درجن کتابیں ترتیب وتخلیق کیں۔ ان کتابوں میں ’روح انیس‘ تحقیقی نقطۂ نظر سے ان کی اہم ترین تصنیف ہے۔ اس کتاب کے پانچ مقدمے مسعودحسین کی تحقیقی بصیرت کے ثبوت ہیں۔ کتاب میں شامل انیس کے سات نمائندہ مرثیے، پندرہ سلام اور پینتیس رباعیات شامل ہیں۔ کتاب میں شامل مقدموں سے واقعۂ کربلا اور انیس کے حالات نیز مرثیے اور انیس کے محاسنِ شعری سے متعلق حیرت انگیز معلومات حاصل ہوتی ہے۔’رزم نامۂ انیس‘ کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ سانحاتِ کربلا کو ربط وتسلسل کے ساتھ سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ترتیب وتنظیم کے سلیقے سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔’اسلافِ میرانیس‘ بھی تحقیق کا عمدہ نمونہ ہے۔ یہ کتاب انیس کے آباواجداد، لکھنؤ کی رثائی شاعری کے آغاز وارتقا میں ان کے تخلیقی کردار اور مرثیے کی تاریخ کا تحقیقی محاکمہ کرتی ہے۔ مسعودحسن رضوی ادیب کومحمدحسین آزاد سے خاصی عقیدت تھی۔ وہ آزاد کے اسلوب کے گرویدہ تھے۔ انھوں نے’آب حیات کاتنقیدی مطالعہ‘ (1953)میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو آب حیات پر کیے گئے تھے۔ اس کتاب میں تحقیقی سہو کا محاکمہ کرنے کی بجائے عقیدت مندانہ وکالت سے کام لیا گیا ہے۔متفرقات غالب اور شرح طباطبائی اور تنقید کلامِ غالب اور 36صفحات پرمشتمل متفرقات غالب کامقدمہ، غالب تحقیق میں اضافے کا سامان ہے۔ البتہ ظفراحمدصدیقی کی مدونہ’شرح طباطبائی‘ کے مطالعے کے بعدمسعودحسن صاحب کی تحریر پھیکی لگنے لگتی ہے۔ مسعودحسن رضوی ادیب کے دیگر تحقیقی موضوعات میں لکھنؤ کی تہذیب وتاریخ، ڈراما اور اسٹیج، امانت لکھنؤ کی اندرسبھا کی تدوین، منشی خادم حسین کا ڈراما’بزم سلیمان‘ کی تحقیق وتدوین بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مسعودحسن رضوی ادیب نے مرزاکلب حسین خاں کے’تذکرۂ نادر‘ کی تدوین 1975میں کی۔ میرکاظم کے تذکرہ گلشنِ سخن کی تدوین 1965میں، سعادت یار رنگین دہلوی کی’مجالس رنگین‘ کی تدوین 1929 میں، رجب علی بیگ سرور کی’فسانۂ عبرت‘ کی ترتیب 1975میں، دیوان فائز دہلوی کی تدوین 1945 میں مکمل کرکے 1946میں شائع کرایا۔ دیوان فائز کی تدوین میں مسعودحسن رضوی نے بڑی جانفشانی کا ثبوت دیا ہے۔ 48ماخذوں کے استعمال سے تیار یہ دیوان تحقیق وتدوین کا معیاری نمونہ ہے۔

مسعودحسن رضوی مطالعۂ زبان و قواعد او ررسمِ خط سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ ’اردو زبان اور اس کا رسمِ خط‘ کے عنوان سے 1946میں انھوں نے ایک خطبہ دیا تھا جو 1948میں اضافے کے ساتھ شائع ہوا۔ اس کتاب کے دوحصے ہیں۔ پہلے حصے میں اردو کے آغاز وارتقا، تمدنی اہمیت اور زبان کے مدارج پر مختصراً بات کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ رسمِ خط کی اہمیت او ررموز ونکات پر مشتمل ہے۔’فرہنگ امثال‘ (1937) عربی فارسی کی امثال کے ترجمے اور شرح پرمشتمل کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ اردو دانی اور کلاسیکی اردو کی تفہیم میں نہایت مفید ہے۔مسعودصاحب نے آرزو لکھنوی کی تصنیف’نظام اردو‘ کی ترتیب وتقدیم کا کام کیا۔ یہ کتاب یوپی اردو اکادمی سے 1979میں شائع ہوئی۔ انھوں نے عہدِ عالم گیر کی قواعد سے متعلق ایک فارسی کتاب’تحفۃ الہند‘ ازمرزاخاں کا ترجمہ کرکے تعارف کے ساتھ رسالہ نقوش لاہور 1944میں شائع کرایا تھا۔ یہ مقالہ 1968میں نظامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ یہ کتاب بھاکا (ہندی اوربرج) کی قواعد ہے جو’قواعد کلیہ بھاکا‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔

قاضی عبدالودود (1896-1984)قاضی عبدالودود اردو کے کھرے اور سخت محقق تھے۔ ان کی نظر خوبیوں سے زیادہ خامیوں پر ٹھہرتی تھی۔’زبان شناسی‘ (1995) قاضی صاحب کے تحریر کردہ تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں نومضامین شامل ہیں۔ انھوںنے اس میں’دیوان قائم‘ مرتبہ خورشید الاسلام، کلیات جعفر علی حسرت،مرتبہ نورالحسن،’دیوان ناجی‘ مرتبہ فضل الحق کی بہت سی غلطیوں کو صحیح کیا ہے۔ اس کے علاوہ لسانیات کے زیرعنوان فارسی الفاظ کی صحت پر تحقیق کی ہے۔ ایک مضمون’فرہنگ آصفیہ‘ پر ہے جس میں سیداحمددہلوی کی شخصیت کے علاوہ آصفیہ پر تحقیقی نظر ڈالتے ہوئے اس کی غلطیوں کو ظاہر کیا ہے۔

قاضی صاحب کو غالب سے خاص دلچسپی تھی۔ غالب پر ان کی چار کتابیں’کچھ غالب کے بارے میں‘ (دوجلدیں) جہانِ غالب، غالب بحیثیت محقق، اور مآثر غالب اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کتابوں میں غالب سے متعلق قاضی صاحب کے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ گویا انھیں مضامین کا مجموعہ بھی کہاجاسکتا ہے لیکن کیفیت کے لحاظ سے ان میں یکسانیت یہ ہے کہ سبھی مضامین تحقیق کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ قاضی صاحب نے میر سے دلچسپی کی بنیاد پر ان کی شاعری وسوانح سے متعلق مضامین بھی قلم بند کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے’مولوی عبدالحق بحیثیت محقق‘،’کلام شاد‘ اور’کچھ شاد عظیم آبادی کے بارے میں‘،’مصحفی اور ان کے معاصرین‘،’درد وسودا‘،’آوارہ گرد اشعار‘ کے عنوان سے اہم تحقیقی نگارشات پیش کیں۔ قاضی صاحب نے ابن امین اللہ طوفان کے تالیف کردہ’تذکرۂ شعراء‘ کی ترتیب وتدوین کا فریضہ انجام دیا۔ قاضی صاحب کے متفرق مضامین کو یکجا کرکے’تحقیقات ودود‘ کے نام سے شائع کیاجاچکا ہے۔ان کی ایک بڑی اہم کتاب’فارسی شعروادب چند مطالعے‘ ہے۔ اسی طریقے سے ’اردوشعروادبچند مطالعے‘ بھی ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں زیادہ ترکتابیں خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ سے شائع ہوئیں۔ اس لائبریری سے ان کے تبصروں پرمشتمل کتاب بھی ’تبصرے‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔یہ تبصرے اردو کے عمدہ ترین اور سخت ترین تحریری نمونے ہیں۔ ابوالکلام آزاد، گارساں دتاسی، اردومیں ادبی تحقیق اور چند اہم اخبارات ورسائل، بہار کے اخبار ’بہار‘کی روشنی میں‘ قاضی صاحب کی چند دیگر تحقیقی کتابیں ہیں۔’اردو میں ادبی تحقیق‘ ان کے پانچ بے حد اہم مضامین کامجموعہ ہے۔اصول تحقیق، ادب اور تحقیق، صحت متن، رہبر تحقیق کے عنوان سے یہ چاروں مضامین آپس میں نظری تحقیق کی بنیاد پر ربط رکھتے ہیں۔ پانچواں مضمون نورالحسن ہاشمی اور ابواللیث صدیقی کے تحقیقی مقالوں ’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘ اور’دلی کا دبستانِ شاعری‘ کے تحقیقی وتنقیدی جائزے پرمشتمل ہے۔

قاضی عبدالودود نے اپنی تحریروں کے ذریعے تحقیق کا جومعیار قائم کیا، ا س کی مثالیںبہت کم ملتی ہیں۔ حالانکہ ان کے سخت اور منفی رویے کی بنیاد پر کچھ محققین ان کی تحریروںکو تخریبی یا تنقیصی تحقیق کے زمرے میں رکھتے ہیں جب کہ قاضی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی شخصیت کے بجائے تحریر یا متن کو نظرمیں رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تصحیح کے لیے خوبیوں سے یادہ خامیوں پر ہی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اپنی سخت گیری کے باوجود انھوںنے تحقیق کے معیار کو معتبر وبلند کیا۔ وہ تحقیق کو حق کی تلاشی کہتے تھے اور عملی سطح پر انھوںنے ہمیشہ حق کو ہی تلاش کرنے کی سعی کی۔ قاضی صاحب تحقیقی مضامین/مقالات میں رنگین پیرائے یا دلکش اسلوب کے قائل نہیں تھے۔ وہ خشک اندازمیں دوٹوک بات کہنا مستحسن سمجھتے تھے۔ حالانکہ حقیقت پر مبنی شگفتہ اسلوب تحقیقی تحریر کا عیب نہیں ہے۔ قاضی صاحب نظری تحقیق یا دوسرے محققوں کی تحقیق پرتبصرہ کرتے ہوئے جس Mathametical Stylistics کی وکالت کرتے تھے وہی روکھا، دوٹوک، غیردلچسپ انداز ان کی تحقیقی تحریروں میں بھی موجود ہے۔ غالباً اسی وجہ سے گیان چندجین نے ان کے اندازِ تحریر پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’قاضی عبدالودود کے یہاں ناخواندنی اسلوب کی معراج ہے،  وہ اس اندازمیں لکھنے کے ماہر ہیں کہ قاری اسے سمجھ نہیں سکتا۔‘‘3؎

 بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تحریریں تحقیق کے اعلیٰ معیار پرکھری اترتی ہیں۔ حقیقت پرمبنی باتیں، غیرجذباتی انداز،تجزیاتی رویہ، استدلالی مباحث او رمنطقی نتیجہ قاضی صاحب کی تحقیقات کی خوبیاں ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک مثالی محقق ہیں لیکن اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیاجاسکتا ہے کہ

’’قاضی صاحب کی تحریروں کا سب سے بڑا اور نمایاں نقص ان کی حد سے بڑھی ہوئی خشکی وبے کیفی اور ان کا’روکھاپھیکا، بے رس اوربے رنگ اندازِبیان‘ ہے۔ تحقیق وتلاش سے غیرمعمولی دلچسپی رکھنے والے چندمخصوص لوگوں کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ان کی کسی تحریر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکے۔ یہ بات محقق بلکہ کسی بھی مصنف کے منصب کے منافی ہے کہ وہ شعوری اور ارادی طو رپر اپنی تصانیف سے استفادے کا دائرہ اپنی پسند کے چند لوگوں تک محدودرکھے۔‘‘ 4؎

امتیاز علی عرشی(1905-1981) کا شمار اردو تحقیق کے میرِکارواں میں ہوتا ہے۔ ا ن کی ذات اور تحقیق‘ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی تقریباً ڈھائی درجن کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ عرشی صاحب بھی مالک رام کی طرح ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے تحقیق وتنقید میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ جسے نسخۂ عرشی کے نام سے جاناجاتا ہے، وہ غالب کا معتبرترین دیوان ہے۔ ان کا شمار ایسے محققوں میں سرفہرست ہے، جنھوں نے اردو میں تحقیق وتدوین کے معیار کومعتبر وبلند کیا۔ ان کے مقدمے،دیباچے اور حاشیے ادبی تحقیق کے بیش قیمتی سرمائے ہیں۔ غالب ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔

’مکاتیب غالب‘(1937)،’دیوان غالب‘ (1958)،’فرہنگ غالب‘(1947) ان کی تحقیقی تصانیف ہیں۔ جن میں تحقیق وتدوین کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ہے۔دیوان غالب نسخہ عرشی کو غالب کے کلام کا معتبر ترین نسخہ ماناجاتا ہے۔اس میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب دے کر تین حصوں/عناوین یعنی’گنجینۂ معنی‘،’نوائے سروش‘ اور’یادگارِ نالہ‘ کے تحت شائع کیا گیا ہے۔

عرشی صاحب نے’مکاتیبِ غالب‘ (1937) کو بھی مدون کیا۔ ان کے اس مرتب کردہ مجموعے میں غالب اور یوسف علی خاں ناظم (نواب رام پور) کے خطوط شامل ہیں۔ ادبی تحقیق میں’کہانی رانی کیتکی اور کنوراودے بھان کی‘ بھی ان کا اہم تحقیقی کارنامہ ہے جس میں انھوں نے مولوی عبدالحق کے مدونہ نسخے کی تصحیح کی ہے۔ عرشی صاحب کے بہت سے تحقیقی کاموں کا براہِ راست تعلق اردو ادب سے نہیں ہے۔

عرشی نے غالب کے خطوط کے مجموعوں’عودِہندی‘ اور’اردوئے معلی‘ کے علاوہ’انتخاب غالب، دستنبو، قاطع برہان، پنج آہنگ‘ اور’تیغ تیز‘ کی ترتیب وتدوین کا کام بڑی عرق ریزی اور دقت نظر سے کیا۔ صحت متن کے لحاظ سے’دیوان غالب‘ کے ساتھ ساتھ یہ کتابیں بھی مثالی کام ہیں۔’دیوان غالب‘ کا نسخۂ عرشی، ڈاکٹر عبداللطیف، شیخ محمداکرام، مالک رام کے مرتب کردہ دیوان یا نسخۂ حمیدیہ اور دیگر نسخوں سے زیادہ معتبر تسلیم کیاجاتا ہے۔ البتہ عرشی صاحب نے غالب کی جو فرہنگ تیار کی تھی، رشیدحسن خاں کی مرتب کردہ فرہنگ اس پر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عرشی کے دیگر تحقیقی یا تدوینی کاموں میں’دستورالفصاحت‘ از سید احمدعلی یکتا کی ترتیب بھی ہے۔ انھوںنے شاہ عالم ثانی کے فارسی، اردو کلام کو’نادراتِ شاہی‘ کے عنوان سے اپنے معلوماتی دیباچے کے ساتھ شائع کرایا۔ انشاء اللہ خاں انشاء کی’سلک گوہر‘ کو مرتب کرنے کے علاوہ’محاوراتِ بیگمات‘ کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے خان آرزو کی لغت’نوادراللغات‘ اور رنگین کے دیوان ریختی سے بھی مدد لی۔

مالک رام (1906-1993) کا شما راردو کے معتبر نقادوں میں ہوتا ہے۔ غالبیات اور اپنے معاصر شاعر وادیب اور محقق ان کے محبوب موضوعات رہے ہیں۔ انھوں نے غالب کی مستند ترین سوانح’ذکرغالب‘ (1938) کی تصنیف کے علاوہ غالب کے فارسی کلام’سبدچین‘ اور’دستنبو‘ کی تدوین واشاعت کا کام بھی بہت خوش اسلوبی سے کیا۔’گل رعنا‘ اور’خطوط غالب‘ بھی اہمیت کے حامل تدوینی کام ہیں۔ مالک رام اپنی تحقیق کا بازاحتساب کیا کرتے تھے۔ اسی سلسلے کی ایک کاوش’ذکرغالب‘ کے تعلق سے بھی دیکھنے کوملتی ہے۔ مالک رام مسلسل اس کی تصحیح پر کام کرتے رہے۔’ذکرغالب‘ کا پانچواں ایڈیشن 1976، اس کتاب کی آخری اورمستند ترین اشاعت مانی جاتی ہے۔ انھوںنے غالب پرانگریزی میں بھی 1918میں "Mirza Ghalib" کے عنوان سے کتاب لکھی جس کی متعدد اشاعتیں منظرعام پر آتی رہیں۔ اسماعیل پانی پتی نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ غالب اور عہدغالب کے علاوہ ان کے 146 تلامذہ پر مشتمل مالک رام کی کتاب’تلامذۂ غالب‘ (1958) کا مطالعہ ان کے تحقیقی میلان کی پختگی کا ثبوت ہے۔ 1984میں’تلامذۂ غالب‘ کا دوسرا ایڈیشن منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے غالب کے ان 35 شاگردوں کو بھی شامل کیا جو ان سے وقتاً فوقتاً اصلاح لیا کرتے تھے۔ انگریزی میں ان کے دو تحقیقی وتنقیدی مضامین بھی غالب پر عمدہ تحریریں ہیں۔ جن کے عنوانات بالترتیب "Ghalib man and Poet" اور" Works of Ghalib" ہیں۔’عیارِ غالب‘ ان کے 13مضامین کا مجموعہ ہے۔’فسانۂ غالب‘ (1977) اور’نگارِ غالب‘ (1985) ان کی دیگر تحقیقی تصانیف ہیں۔ مالک رام نے غالب کا دیوان بھی مرتب کیا۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کی تحریروں سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے آزاد کے’تذکرہ‘،’غبارِ خاطر‘ اور’ترجمان القرآن‘ کی تدوین کا فریضہ بھی انجام دیا۔’تذکرۂ معاصرین‘ (1967-1976) پانچ جلدوں میں ہے، جس میں تقریباً 214 ادیبوں کے تعلق سے مستند معلومات درج ہیں۔ انھوں نے مختارالدین آرزو کے اشتراک سے’کربل کتھا‘ کی ترتیب وتدوین کاکام بھی کیا۔

پروفیسر نذیر احمد(1915-2008)کا شمار فارسی اور اردو کے نامور محققوں میں ہوتا ہے۔وہ ایک قابل محقق،متنی نقاد، ماہر لغات اور ماہرِغالبیات ہیں۔غالب سے متعلق ان کا سب سیـ’ اہم کام’ نقد برہان قاطع ‘ہے جس میں انھوں نے محمد حسین تبریزی کی تالیف ’برہان قاطع‘ پر غالب کے اعتراضات کا تنقیدی و تحقیقی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ان کا یہ مقالہ پانچ ضمائم کے ساتھ نقد قاطع برہان کے نام سے غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی سے 1985میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان کی تحقیقی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مخطوطہ شناسی،تحقیق و تدوین متن،غالب اور لغت شناسی ایسے خاص موضوعات ہیں جن کو نذیر احمد نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔وہ بنیادی طور پر فارسی کے عالم ہیں۔ مگر ان کی تحقیق کے دائرے میں فارسی ادبیات کے ساتھ اردو زبان و ادب بھی شامل رہا۔انھوںنے فارسی کے قدیم متون اور لغات کی تحقیق و تدوین کے ساتھ اردو کے قدیم سرمائے خصوصاََ دکنی متون کی بازیافت اور ان کی تصحیح و ترتیب کا کام انجام دیا۔ نذیر صاحب نے دکن کے قدیم مخطوطات کی تلاش کی،ان کا مستند متن تیار کیا اور دنیا سے متعارف کرایا۔ظہوری پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری کے دوران انھیں عادل شاہی دور کے سیاسی،سماجی،تاریخی اور ادبی صور ت حال کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس دور کے بعض شعرا و ادبا کی تصانیف کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔اس سلسلے میں ان کا سب سے اہم کام ابراہیم عادل شاہ ثانی کی تصنیف’’کتاب نورس‘ کی تدوین  (1955)ہے۔کتاب نورس کا تعلق موسیقی سے ہے۔پروفیسر نذیر احمد نے ایک اور دکنی متن فیروز بیددری کی ایک مختصر مثنوی ’پرت نامہ‘ کو بھی اپنے مقدمے اور حواشی کے ساتھ 1955 امیں مرتب کیا۔’’پرت نامہ‘ بنیادی طور پرحضرت عبد القادر کی مدح اور عقیدت میں لکھی گئی ہے لیکن ضمناََ اس میں فیروز کے پیر و مرشد شیخ ابراہیم مخدوم جی کی مدح بھی شامل ہے۔ نذیر احمد نے اپنے مقدمے میں داخلی شواہد کی بنیاد پر فیروز سے متعلق ڈاکٹر زور کی پیش کردہ تفصیلات کی تصدیق و تصحیح بھی کر دی ہے۔ نذیر احمد اپنی تحقیق میں عجلت کے بالکل بھی قائل نہیں ہیں۔ انھوں نے اردو تحقیق کے معیار کو بلند کیا ہے۔

 مسعود حسین خاں(1919-2010)اردو زبان و ادب میں بحیثیت ماہر لسانیات مسعود حسین خاں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔لسانیاتی تحقیق میں ان کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔اردو کے تاریخی سفر،ہیئتی ارتقا،صوتی نظام اور سماجی اور اسلوبیاتی لسانیات سے متعلق ان کی تحریریں اردو زبان کے مطالعے میں قابل قدر حد تک اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی سب سے اہم تصنیف’مقدمۂ تاریخ ِزبانِ اردو‘ ہے جس نے انھیں ماہر ین ِلسانیات کی صفِ اوّل میں اعلی مقام عطا کیا۔ در اصل یہ ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس کے لیے1945میںانھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند تقویض کی گیٔ۔کچھ اضافے اور ترمیم کے بعد 1948میں یہ مقالہ پہلی مرتبہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ یہ اردو کے آغاز و ارتقا پر معتبر ترین اور کثیرالاشاعت کتاب ہے۔مقالات کا مجموعہ’اردوزبان و داب‘ (1952)، ’شعروزبان‘(1966)کے علاوہ انھوں نے غلام محمد عمر کے اشتراک سے’ دکنی لغت‘ (1968) بھی ترتیب دیا۔’اردو کا المیہ‘(1973)’اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ‘ (1981)’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘ (1986)’مقالات مسعود‘ (1989)’اردوزبان کی تاریخ تشکیل تقدیر‘ (1989) ان کی اہم لسانیاتی تصانیف ہیں۔ مسعود صاحب کی مدونہ کتابوں خصوصاََ دکنی متون کی تدوین میں ان کے لسانیاتی شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ان کے دیگر مدونہ متون میںفیروز بیدری کی’پرت نامہ‘ (1965)،افضل جھنجھانوی کی’بکٹ کہانی‘ (1965)بہ اشتراک نورالحسن ہاشمی،عبدل کی ــ’’ابراہیم نامہ‘ (1966)،عیسوی خاں کی ـ’قصہ مہر افروز دلبر‘ (1966)،ظہوری کی’عاشور نامہ‘  (1972)بہ اشتراک سفارش حسین رضوی وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے ان متون کو مرتب کرتے ہوئے تدوین کے اصول کو ملحوظ رکھا ہے۔ ہر متن کے شروع میں مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں متن اور متعلقات متن پرتحقیقی معلومات پیش کی ہیں اور تدوین کے دوران پیش نظر نسخو ں کی مکمل کیفیت بیان کی ہے ساتھ ہی متعلقہ متن کا لسانی نقطہ نظر سے جائزہ بھی لیا ہے۔

گیان چند جین (1923-2007) اردو کے معروف و مستند محقق تھے۔ان کامطالعہ نہایت وسیع تھا۔ جین صاحب نے’اردو کی نثری داستانیں‘ (1945)پر الہ آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔1954 میں یہ کتاب انجمن ترقی اردو، پاکستان سے شائع ہوئی۔ اس کی ترمیم شدہ اشاعت 1969 میں منظر عام پر آئی۔ ا ن کی دیگر تحقیقی تصانیف میں’تفسیرِغالب‘ (1972)،تحقیقی مضامین کا مجموعہ ’تحریریں‘ (1964)،’تجزیے‘ (1973)،’رموزِ غالب‘ (1976)،’حقائق‘ (1978)، ’لسانی مطالعے‘  (1079) ’تحقیق کا فن‘ (1990)،’عام لسانیات‘(1985) ’کھوج‘،’پرکھ اورپہچان‘،’قاضی عبدالودودبحیثیت مرتبِ متن‘ اہمیت کی حامل تحقیقی تصانیف ہیں۔ جین صاحب سختی کے اس قدر قائل بھلے نہ تھے جتنے کہ عرشی صاحب یا قاضی صاحب تھے لیکن ان کی تحقیق اکثر ماقبل کی تحقیقات میں درآنے والے تسامحات کی نشاندہی کرتی ہے۔ تحقیق میں وہ استنباط ودلائل کے استناد، شہادتوں کی پڑتال اورمتن کی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے کمزور تحقیقی کاموں میں’تاریخِ ادبِ اردو 1700تک (1998) اور’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ (2012) کا شمار ہوتا ہے۔ اول الذکر کے مقابلے انھوں نے جو’اردو کی ادبی تاریخیں (2000) کے عنوان کے تحت تاریخوں کا جائزہ لیا ہے،وہ اہمیت کی حامل تحقیقی کاوش ہے۔ اس میں جین صاحب نے تقریباً 27مشہور ادبی تاریخوں اور تقریباً17نسبتاً کم معروف تاریخوں کا جائزہ لیا ہے، وہ تبصرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔آخرالذکر تو ان کو متعصب محقق کے دائرے میں شامل کرنے والی کتاب ثابت ہوئی۔ بہرحال نثری داستانوں، مثنویوں، عام لسانیات اور تحقیق کے فن پر ان کی تحقیق‘ مستند ترین تحقیقی تحریروںمیں شمار ہوتی ہیں۔

مختار الدین احمدآرزو(1924-2010)عربی اور اردو زبان و ادب میں ایک نامور محقق،مخطوطہ شناس اور ماہر غالبیات کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔جن موضوعات پر ان کی خاص توجہ رہی ہے ان میں نادر مخطوطات کی دریافت،ان کی تحقیق و تدوین اور مطالعات غالب نمایاںاہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہیر کے خطوط کی جمع و ترتیب بھی ان کا اہم علمی مشغلہ رہا ہے۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا، ایک سچے محقق کی طرح اس سے متعلق تمام امور کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ مختار الدین احمد کے مرتبہ متون میں کربل کتھا،تذکرہ ٔ گلشن ہند اور تذکرہ ٔ آزردہ نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی دریافت سے قبل فضل علی فضلی کی ’ کربل کتھا‘ کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں تھا۔البتہ مولوی کریم الدین نے اپنے تذکرے’طبقات الشعرائے ہند‘ (1848) میں اس کتاب سے متعلق کچھ تفصیلات درج کی ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس کتا ب کا کوئی نسخہ ان کے پاس تھا۔ آرزو صاحب جب یورپ گئے تب انھوں نے1956 میں اس کو نسخئہ اشپرنگر،ٹوبنگن سے حاصل کیا۔شمالی ہند کے اس قدیم ترین نثری متن کی دریافت ایک بڑی تحقیقی کامیابی تھی۔تقریباََ چار سال بعد مختار الدین احمد نے مالک رام کے تعاون سے کربل کتھا کے متن کو ترتیب دیااور ادارۂ تحقیقات اردو، پٹنہ کے زیر اہتمام 1965میں اس کتاب کو شائع کروایا۔ کربل کتھا کے علاوہ مختارالدین احمد کے تدوینی کارناموں میں حیدر بخش حیدری کا تذکرہ ’گلشن ہند‘ بھی شامل ہے۔مختار الدین احمد سے قبل اشپرنگر اور مولوی کریم الدین کے تذکرے میں اس کتاب کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں تھا۔اس تذکرے کی ترتیب و تدوین میں مختار الدین احمد نے اپنی محققانہ دقت نظر اور دیدہ ریزی کا ثبوت دیا ہے۔اس کتاب کی ترتیب کے وقت ان کے سامنے دو نسخے تھے۔اس کے علاوہ بعض دوسرے تذکروں اور کتابوں سے بھی انھوں نے استفادہ کیا ہے۔متن کے ساتھ ساتھ مرتب نے ذیلی حواشی دینے کا بھی اہتمام کیا ہے۔یہ تمام حواشی معلوماتی اور تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ مختارالدین احمد نے مفتی صدر الدین آزردہ کے تذکرے کو بھی اپنے تحقیقی مقدمے اور معلوماتی حواشی کے ساتھ مرتب کر کے1974 میں انجمن ترقی اردو، کراچی سے شائع کروایا۔ مفتی صدر الدین آزردہ غالب کے ہم عصروں میں تھے۔ان کا شمار اس زمانے کے نامور علماء و مشائخ میں ہوتا تھا۔ مختار الدین احمد کی تدوینی خدمات کے علاوہ غالب سے متعلق ان کی تحقیقی کاوشیں بھی قابل ذکر ہیں۔اس سلسلے کی پہلی کڑی علی گڑھ میگزین کا غالب نمبر ہے جس میں مدیر کی حیثیت سے غالب سے متعلق تحقیقی مضامین جمع کر کے انھوں نے 1948-49میں شائع کیا۔ بعد ازاں 1953 میں چند اضافوں کے ساتھ اسے ’احوالِ غالب‘ اور 1956 میں’ نقدِ غالب‘ کے نام سے انجمن ترقی اردو(ہند) سے شائع کرایا۔

رشیدحسن خاں (1925-2006) اردو کے اعلیٰ پایہ محقق او رماہراملا ہیں۔ انھوں نے تدوینِ متن کی نہایت معتبر مثالیں پیش کی ہیں۔ خان صاحب نے تحقیق میں مستند ماخذوں، بنیادی حوالوں اورصحیح نتائج حاصل کرنے کے لیے غیرشخصی دلائل سے کام لیا۔ تدوین پرانھیں کامل عبور حاصل ہے۔ وہ تحقیق وتدوین کے اصول وضوابط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ ان کی تصحیحی تحقیق کو تخریبی تحقیق سے منسوب کرنا مناسب نہیں۔ بزرگوں کے تحقیقی تسامحات کی گرفت بے ادبی نہیں بلکہ حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کا ایک مستحسن عمل ہے۔ لہٰذا کسی محقق کے احتسابی عمل میں نرمی تلاش کرنا کارِ فضول ہے۔ ان کے تدوینی کاموں میں’فسانۂ عجائب‘ (1990)،’باغ و بہار‘ (1992)،’گلزار نسیم‘ (1995)،’مثنویات شوق‘ (1998)،’سحرالبیان‘  (2000) اہمیت کے حامل کام ہیں۔رشید حسن خاں نے طلبا کے لیے مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی سے انتخاب و ترتیب کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جس کے تحت’انتخابِ نظیراکبرآبادی‘ (1970)،’انتخاب مراثیِ انیس‘ (1971)،’انتخاب مضامین شبلی‘ (1971)،،’انتخاب سودا‘ (1972) بہت مقبول ہوئے۔ اردو املاوانشا، علمِ ہجا، انشا و تلفظ اور تحقیق پر ان کی کتابوں کو استفادے کا مستند ترین ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کتابوں کے نام’اردو املا‘ (1974)،’انتخاب ناسخ‘ (1972)، دیوانِ خواجہ میر درد‘ (1971)’اردو کیسے لکھیں‘ (1972)،’زبان اور قواعد‘ (1976)،’ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ‘ (1978)، ’تعبیر و تفہیم‘ (1993)،’عبارت کیسے لکھیں‘ (1994)،’انشا، تلفظ‘(1994) ’دیوانِ حالی‘ (1987)،’کلیاتِ جعفر زٹلی‘ (2003)،’کلاسیکی ادب کی فرہنگ-جلد اول‘ (2003)،’گنجینۂ معانی کا طلسم‘ تین جلدیں (2017,18,19)،’انشائے غالب‘(1994)،’تدوین، تحقیق او رروایت‘ (1999) ہیں۔

رشیدحسن خاں نے دو طرح سے، دومقاصد کے تحت کتابوں کی ترتیب وتدوین کا کام کیا ہے۔ ایک تومکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی سے طلبا کے لیے دوسرے انجمن ترقیِ اردو (ہند) سے ادیبوں اور محققوں کے لیے۔ طلبا ایڈیشن کی خوبی یہ ہے کہ اس کا متن معتبر ہے اورجو تدوینی کام انجمن سے شائع ہوئے، ان کے مقدمے، ا عراب، رموزِ اوقاف، فرہنگ اور حاشیے معلومات کے خزانے ہیں۔ انھوں نے جس باریک بینی اور صداقت سے ادبی تحقیق کے مسائل پر اظہار کیا ہے وہ اردو کی نظری اورعملی تحقیق کے بیش بہا خزانے ہیں۔ ’ادبی تحقیق مسائل اورتجزیہ‘ میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ نظری تحقیق پر چشم کشا نکات پیش کیے ہیں بلکہ اس کے دوسرے حصے میں اپنے وہ مضامین شامل کیے ہیں جو اردومیں تحقیقی وتصحیحی تنقید کی عمدہ مثالیں ہیں۔ علی گڑھ تاریخِ ادبِ اردو، فیض اوراقبال وغیرہ پر ان کے مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ا ن کا علم کتنا وسیع اور ان کی نظر کتنی باریک تھی۔ رشیدحسن خاںبلاشبہ اردو تحقیق کے میرکارواں تھے۔

تنویراحمدعلوی (1927-2013) ایک مستند محقق، تدوین کار، تاریخ نویس اور کلاسیکی نوعیت کے نقاد تھے۔مختلف موضوعات پر 40سے زائد ان کی تحریرکردہ، مرتبہ اور مدونہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔’ذوق سوانح اورانتقاد‘ (1963) ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو ذوق پر اولین تصنیف شمار کی جاتی ہے۔ انھوں نے خطوط غالب کی روشنی میں ان کی سوانح عمری بھی مرتب کی تھی جسے غالب اکیڈمی نے 2003میں شائع کی۔ غالب پر انھوں نے تقریباً آدھ درجن نہایت پُرمغز مقالے تحریر کیے۔’تحقیقی تنقید‘ بھی ان کا معرکۃ الآرا مضمون ہے۔ انھوں نے’کلیات ذوق‘ (1969) دو جلدوں میں شائع کرایا۔ اس تحقیقی تدوین پر انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔ علوی صاحب نے دوجلدوں میں کلیاتِ شاہ نظیر کی ترتیب کا کام بھی بڑی دلجمعی سے کیا۔ یہ جلدیں 1971میں مجلس ترقیِ ادب، لاہور سے شائع ہوئیں۔ ان کی کتاب’ اصولِ تحقیق و ترتیبِ متن‘ پہلی مرتبہ دہلی یونیورسٹی سے 1978 میں شائع ہوئی۔  یہ نظری تحقیق وتدوین پر عمدہ ترین تصنیف ہے۔ علوی صاحب نے امام بخش صہبائی کے دواوین کا انتخاب بھی دہلی یونیورسٹی سے 1987میں شائع کرایا۔ اردو میں بارہ ماسہ کی روایت (1988) بھی ان کی اہم تحقیقی تصنیف ہے۔ انھوںنے خطوطِ غالب فارسی کا اردومیں’اوراقِ معانی‘ کے نام سے 1992میں ترجمہ کیا، جو دہلی اردو اکادمی سے شائع ہوا۔ ذوق دہلوی کامونوگراف (1992) اور’انتخاب ذوق‘ (2011)  ان کے مطالعۂ ذوق کی دلائل ہیں۔انھوں نے’آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق (2009)  اور’فن تذکرہ نگاری اورعصری رجحانات‘ (2010) کی ترتیب کا کام بھی کیا۔

نثار احمدفاروقی (1934-2004)نثاراحمدفاروقی بنیادی طو رپر عربی کے استاد تھے۔ انھوں نے عربی،فارسی، انگریزی اور اردومیں تحقیق کی۔ دراسات، غالبیات،میریات اور دینیات پر تحقیقی کام کرنے کے علاوہ انھوں نے تدوین کا فریضہ بھی انجام دیا۔ نثارصاحب نے عربی فارسی کی تاریخی حیثیت رکھنے والی تصانیف کا اردومیں ترجمہ بھی کیا۔

’میراحوال وآثار‘(1964)،’میرتقی میرانتخاب کلام دیوان اول‘ (1984)،’غالب کی آپ بیتی‘ (1969)،’تلاش غالب‘ (1969)،’تلاش میر‘ (1974)کے علاوہ تصوف و ملفوظات پر’نقد ملفوظات‘ (1989)، ان کی مشہور تحقیقی تصانیف ہیں۔ انھوںنے تدوین کاکام بھی کیا۔’کلیات مصحفی‘ حصہ اول اور حصہ دوم (1968)، قدرت اللہ شوق کا تذکرہ’طبقات الشعراء‘ (1965)، قیام الدین اکبرآبادی کا’تذکرہ مقالات الشعراء‘ (1968) کے علاوہ تین تذکرے یعنی’مجمع الانتخاب‘،’طبقات الشعراء‘ اور’گل رعنا‘ کی تلخیص ومقدمہ بھی ان کے اہم تحقیقی کام ہیں۔ انھوں نے میرتقی میر کی فارسی آپ بیتی کو’میر کی آپ بیتی‘ کے عنوان سے  1957میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔’’تاریخ طبری‘ اور’عربوں کی تاریخ نویسی‘ بھی ان کے اہم تاریخی کام ہیں۔ انھوںنے آزادبلگرامی کی فارسی تصنیف کا اردو ترجمہ’روضۃ الاولیا‘ کے نام سے کیا۔ اردو کے علاوہ انھوں نے انگریزی،عربی اورفارسی میں متعدد مضامین اور کتابیں قلم بند کیے۔ اسلامی تاریخ، قرآنیات، تصوف اور کلاسیکی ادب ان کے دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ ان کی تحریریں صاف گوئی کا نمونہ ہیں۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے مداح بھی تھے اورسخت ترین نقاد بھی۔’دراسات‘ ان کی مقبول ترین تصنیف ہے، جو تعلیم وتعلم کے کلاسیکی نظریات کا احاطہ کرتی ہے۔

خلیق انجم (1935-2016)آزادی کے بعد ارد ومحققوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے عمربھر تحقیق، تدوین اور ترتیب کا کام کیا۔ مرزامحمد رفیع سودا پر تحقیق اور خطوط غالب کی ترتیب کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں اعتبار کے حامل محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ خلیق انجم اردو میں متنی تنقید کا بھرپور تعارف کرانے والے نقاد ومحقق ہیں۔ انھوں نے گوپی چند نارنگ کے اشتراک سے’کربل کتھا‘ کا لسانی مطالعہ شائع کیا۔’دلی کی تہذیبی تاریخ‘ ان کی دلچسپی کاموضوع ہے۔ ان کے تدوینی کاموں میں سرسید کی تحریر کردہ کتاب’آثار الصنادید‘ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ ان کی تحقیقی وتدوینی نیز ترتیب کردہ کتابیں درج ذیل ہیں

تصنیف:


 مرزا محمد رفیع سودا(1965)، متنی تنقید (1967)، حسرت موہانی (1994)

 ترتیب معراج العاشقین (1957)،غالب کی نادر تحریریں (1961)، کربل کتھا کا لسانی مطالعہ (1970)، بہ اشتراک گوپی چند نارنگ، اصناف ادب (1970)، غالب کے خطوط (چار جلدیں) (1984-93)، رسوم دہلی (1985)، مولانا ابوالکلام آزاد (1906)، دلی کی درگاہ شاہ مرداں (1988)، دلی کے آثار قدیمہ (1988)، محی الدین قادری زور (1990)، آثارالصنادید (تین جلدوں میں 1990)، مولوی عبدالحق (1992)، مرقع دہلی (1993)، فرخانی فتح پوری (1992)، آل احمد سرور (1992)، خواجہ احمد فاروقی (1993)، جگن ناتھ آزاد (1993)، مولوی عبدالحق (جلد دوم 1993)، سرسید (1995) کی تحقیق و ترتیب کا فریضہ انجام دیا۔تقریباً 85کتابوں کی ترتیب وتصنیف ان کے نام سے منسوب ہے۔ بسیار نویسی کی وجہ سے ان کے نسبتاً معیاری کاموں کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔

انصاراللہ نظر(1936-2001) کاشمار اردو کے کم مشہور لیکن معتبر نقادوںمیں ہوتاہے۔انصاراللہ نظر نے تحقیق وتدوین سے متعلق تقریباً چاردرجن تصانیف کی تکمیل کی۔وہ زبان اور قواعد کے معمولی امور کو بھی اہمیت دیتے تھے۔ اسی طریقے سے تدوین میں انھوں نے نسبتاً کم معروف تصانیف کو بھی منظرِعام پر لانا لازم سمجھا۔اس طرح کے کام کسی زبان کی تاریخ یااس کی تحقیقی و تدوینی روایت کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتے ہیں۔ اکثر محققین بڑے ادیبوں کی تخلیقات کی ترتیب وتدوین پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور گوشہ نشین ادیبوں کونظراندازکرجاتے ہیں، جس سے کسی زبان کے بتدریج ارتقا کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ انصار اللہ نظر نے انھیں کڑیوں کو ملانے کا کام کیا۔قواعداورزبان ولغات اورتاریخ سے متعلق ان کی کتابوں میں’’اردو کے حروف تہجی‘ (1972)،’قاعدۂ ہندیِ ریختہ عرف رسالہ گلکرسٹ‘(1973)،’اردو صرف‘ (1975)،’اردونحو‘ (1975)،’رسالہ زبانِ ریختہ‘ مولفہ نساخ (1977)، ’اصطلاحاتِ جمالیات‘(1987)،’تاریخِ اقلیمِ ادب‘ (حصہ اول) (1979)(حصہ دوم) (1980)، ’اردوپرتمل کے اثرات‘ (1988)،’’سنسکر ت اردو لغت‘ (1983)’’پدماوت کی فرہنگ‘ (1972)،’غالب ببلیوگرافی‘ (1972)،’جامع التذکرہ‘ تین جلدیں(2006-2007)کے علاوہ’برہن کی کہانی یا مقصود بارہ ماسہ‘(1974)،’شعرائے اردو کے اولین تذکرے‘ (1978)،’’شعرِکبیر‘ (1979)اور’داتادیال مہرشی شیوبرت لال ورمن‘ (1991)ان کی اہم تصانیف ہیں۔انصار اللہ صاحب نے رغمی اوررشک کے کلام کا انتخاب’انتخابِ رغمی‘ (1981)اور’انتخابِ رشک‘ (1981)کے نام سے کیا۔ان کے تحقیقی وتدوینی کاموں کو اہلِ نظر بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حنیف نقوی (1938-2011)کا شما ربھی اردو کے معتبر اور سخت بلکہ صداقت پسندمحققوں کے صفِ اول میں ہوتا ہے۔ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ ان کے تحقیقی رویے میں عرشی صاحب اور قاضی صاحب والا انداز ملتا ہے۔ دقتِ نظر، ذہانت، تفتیش، تلاشِ حق، اغلاط وتسامحات کی گرفت اور کھرا اندازِ اظہار ان کے تحقیقی اوصاف ہیں۔ ان کا اہم ترین کارنامہ’شعرائے اردو کے تذکرے‘ (1972) ہے، جس پرانھیں بنارس ہندویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند ملی۔ عرشی صاحب،مالک رام، کالی داس گپتا رضا وغیرہ کی طرح نقوی صاحب کو بھی غالب اورکلامِ غالب سے عشق تھا۔ انھوں نے ’غالب احوال وآثار‘ (1990)، ’غالب کی چند فارسی تصانیف‘ (2005)،’غالب اور جہان غالب‘ (2012)، ’غالب کے فارسی خطوط‘ (2015)جیسی تحقیقی نوعیت کی کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ’رجب علی بیگ سرورچند تحقیقی مباحث‘ (1991)،’رائے بین نرائن دہلوی‘ (1997) اور’’تحقیق وتدوین مسائل ومباحث‘ (2010) ان کی دیگر تصانیف ہیں۔ نقوی صاحب نے انتخاب و ترتیب پر بھی توجہ مرکوز کی تھی۔ ’رجب بیگ سرور‘ (1988)، ’کربل کتھا‘(1991)،’دیوان ناسخ‘ (1997)،’پنج آہنگ‘ (1997) اور ’تذکرۂ شعراے سہسوان‘ (2010) ا ن کی مرتبہ کتابیں ہیں۔’تحقیق و تعارف‘ (2013) ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان کی ایک کتاب ’میرومصحفی‘ (2003) بھی ہے۔ نقوی نے قاضی عبدالودود کی مرتبہ کتاب’مآثرغالب‘ (1949) کی تصحیح وتدوین کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ وہ ایک صاف گو اور معقولیت کے قائل محقق تھے۔

ظفر احمد صدیقی(1955-2020)ایک اعلی پائے کے محقق اور ایک قابل استاد تھے۔عربی،فارسی ادبیات کے ساتھ ہی قرآن و احادیث سے متعلق ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔اردو کے کلاسیکی ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔وہ ان چند محققین و ناقدین میں سے ہیں جنھوں نے اردو کے کلاسیکی ادب کی تفہیم کے لیے عربی و فارسی ادبیات سے براہ راست استفادہ کیا۔علمی و ادبی حلقے میں ان کا پہلا تعارف شبلی شناس کی حیثیت سے ہوا۔شبلی شناسی ان کا خاص میدان رہا ہے۔انھوں نے شبلی پر کئی تحقیقی کتابیں لکھیں۔’مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار‘ (2001) شبلی پر ان کا سب سے اہم کام ہے۔ظفراحمد صدیقی کا دوسرا اہم تحقیقی و تدوینی کارنامہ’شرح دیوان غالب از نظم طباطبائی‘ (1900)کی تدوین ہے۔ دیوان غالب کی شرحوںمیں سید حیدرنظم طباطبائی کی شرح اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ یہ غالب کے متداول کلام کی اوّلین مکمل شرح ہے۔ظفر احمد صدیقی نے اسے 2012میں مرتب کر کے شائع کیا۔ان کے ایڈیشن کی خاص بات یہ ہے کہ مرتب نے تحقیق و تدوین کے اصولوں کی حتمی پابندی کرتے ہوئے اسے تدوین کا ایک جامع اور معیاری نمونہ بنا دیا ہے۔جسے ہم امتیاز علی عرشی، نذیر احمد،رشیدحسن خاں اور حنیف نقوی جیسے محققین کی تدوینی روایت کی ایک کڑی کہہ سکتے ہیں۔ ظفر احمدصدیقی کے تحقیقی کارناموں میں ان کی کتاب ’قصیدہ اصل،ہیئت اور حدود، بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔کلاسیکی شاعری اور اس کی تاریخ و تنقید سے ان کی واقفیت کا اندازہ اس کتاب کے مطالعے سے ہوتا ہے۔یہ کتاب قصیدہ پر لکھے گئے ان کے مضامین اور اہم ترین قصائد کی شروح کا مجموعہ ہے۔اس کتاب میں قصیدہ کے بنیادی ماخذ سے متعلق مباحث اٹھائے گئے ہیں۔ عربی و فارسی میں قصیدے کی روایت کا مدلل انداز میں تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے عربی کے کلاسیکی ناقدوں اور شاعروں کی تحریروں کی مثال دے کریہ ثابت کیا گیا ہے کہ قصیدہ عربی میں کوئی صنف نہیں بلکہ طرزِاظہار ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے’انتخاب کلام آبرو‘(1997) یوپی اردو اکادمی سے شائع کرایا۔ اس کا مقدمہ نہ صرف آبرو کی شاعری کا احاطہ کرتا ہے بلکہ ان کے عہد کے شعری رجحانات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

 اردو میں عملی تحقیق کے علاوہ نظری تحقیق پر کتابیں لکھی گئیں، ان میں چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں:

  1.       ادبی تحقیق:مسائل و تجزیہ، رشید حسن خاں،اتر پردیش اردو اکادمی
  2.       اصولِ تحقیق و ترتیبِ متن، تنویراحمدعلوی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
  3.       ادبی تحقیق، جمیل جالبی، ایجو کیشنل بک ہاؤس دہلی
  4.       تحقیق کا فن، گیان چند جین، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
  5.       اردومیں اصول تحقیق(منتخب مقالات)، ڈاکٹر سلطانہ بخش(مرتبہ)، لاہور       
  6.       اردو تحقیق وتدوین کا تاریخی جائزہ، رؤف پاریکھ(مرتبہ)، کراچی
  7.       تحقیق وتدوین:سمت ورفتار، محمدموصوف احمد (مرتبہ)،علی گڑھ

تذکروں کے بعد ادبی تحقیق میں تاریخ ادب پر کام کیے گئے اردو میں تاریخِ زبان و اداب کی تحقیق کی بھی بڑی ثروت مند روایت رہی ہے۔علما کا اتفاق ہے کہ’آب حیات‘ (1880) کی چار حیثیتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ ایک تذکرہ ہے، دوسری یہ کتاب اردوزبان کا لسانیاتی محاکمہ کرتی ہے، تیسری یہ اردو زبان پر تنقیدی تصنیف ہے اور چوتھی یہ کہ یہ اردو شاعری کی تاریخ ہے۔یحییٰ تنہا کی تالیف ’سیرالمصنفین‘ (1924)اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں سرسید،آزاد، حالی، نذیر اورشبلی وغیرہ کے بارے میں مفصل وجامع معلومات واطلاعات درج ہیں۔ اسی طریقے سے بہت سے نقادوں اور محققوںکاماننا ہے کہ احسن مارہروی کی کتاب’تاریخ نثر اردو‘ (1930) اردونثر کی پہلی تاریخ ہے۔جس میں نثرنگاروں کے حالات مختصراً اورنثری نمونے تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ بعد ازاں عبدالسلام ندوی کی’شعر الہند‘ (1938)اہمیت کی حامل قرار دی گئی۔ زیادہ ترمذکورہ کتابیں شاعری کی تحقیقی و تنقیدی تاریخ تک محدود ہیں۔’سیرالمصنفین‘  کے بعد حامدحسن قادری نے’داستانِ تاریخِ اردو‘ (1941)تالیف کی جس میں اردو ادب کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس عہد میں رام بابوسکسینہ کی’تاریخِ ادبِ اردو‘ انگریزی میں 1927 میں مکمل ہوئی جس کا اردو ترجمہ اوراس میں اضافہ محمدعسکری عظیم آبادی نے 1929میں کیا۔ یہ کتاب اب بھی جامع تسلیم کی جاتی ہے حالانکہ اس میں تاریخ کے اندراج میں سہودرآئے ہیں۔ تاریخ ادب کے سلسلے میں مذکورہ کتابوں کے بعد علاقائی تاریخ نگاری کے نمونے بھی سامنے آئے۔ مولوی عبدالحق کی’اردوئے قدیم‘ (1925)اورمحی الدین قادری زور کی’اردو شہ پارے‘ (1929)اہمیت کی حامل تحقیقی تصانیف ہیں۔ ہاشمی کی دکن میں اردو نے ایسا رجحان پیداکیا کہ علاقائی تاریخ نگاری کا سلسلہ چل پڑا۔ ہمیں معلوم ہے کہ عبدالسلام ندوی نے شعرالہند میں دبستان کا تصور پیش کیا تھا۔ انھیں کے خطوط پر نورالحسن ہاشمی نے’دلی کا دبستان شاعری‘ (1943) اور ابواللیث صدیقی نے’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘ (1944)کے عنوان سے شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تحقیق کی۔ یہ دونوں تحقیقی کام نہ صرف یہ کہ سندی تحقیق کے اولین نمونے ہیں بلکہ جدید تحقیقی طریقہ کار کے مطابق تالیف کیے گئے ہیں۔’علی گڑھ تاریخِ ادبِ اردو‘ (جلد اول1962) اور’تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان وہند‘  پہلی کتاب کی خوبیوں سے واقف ہونے کے لیے کتاب کا مطالعہ لازم ہوگا لیکن خامیوں سے باخبرہونے کے لیے رشیدحسن خاں کے تفصیلی تبصرے کوملاحظہ کرلینا کافی ہوگا۔ دوسری کتاب 16جلدوں پرمشتمل ہے۔ پہلی کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی منصوبے کے تحت تالیف کی گئی اوردوسری تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور کامثالی منصوبہ تھی۔ اس کی چھٹی سے دسویں جلد اردو زبان وادب سے متعلق ہے۔ ان دونوں تحقیقی کاموں کے مدیران بڑے بڑے عالم اورپروفیسر تھے لیکن ان میں درآنے والی خامیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ ارد وکے پروفیسروں کا مزاج اجتماعی تحقیق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ ان میں باہمی موافقت کا فقدان پایاجاتا ہے۔حتیٰ کہ دو تاریخ نگار، محقق پروفیسر بھی ایک ساتھ سلیقے سے کام نہیں کرسکتے۔ اس کی مثال گیان چند جین اورسیدہ جعفر کی مشترکہ طورپر تحریر کردہ اردو ادب کی تاریخ ہے جو پانچ جلدوںپر مشتمل ہے۔

ذاتی طور پر اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوںمیں رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اردو کا ذکر کیاجاچکا ہے۔ اس کے بعد سیداعجاز حسین کی’مختصر تاریخِ ادبِ اردو‘ (1940)ہے۔ اس میں تاریخ کی غلطیاں در آئی ہیں۔ جنھیں بڑی حد تک صحیح کرکے سیدعقیل رضوی نے1955 میں شائع کرایا۔ اردو ادب کی تاریخ پر تحقیق کرنے والوں میں پروفیسر عبدالقادر سروری، پروفیسر عبدالقیوم، عظیم الحق جنیدی، نسیم قریشی، نورالحسن نقوی اور مجید بیداروغیرہ کی کاوشیں بھی طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ حالانکہ ان میں زیادہ تر تاریخوں کی نوعیت تقلیدی ہے اور کچھ ایک تاریخی اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ تفصیلی اورجامع تاریخ لکھنے والوں میں وہاب اشرفی اور جمیل جالبی کے نام آتے ہیں۔ وہاب اشرفی نے اپنی تالیف کردہ تاریخِ ادبِ اردومیں ابتدا سے 2000 تک اردو ادب کے سفر کو شامل کیا ہے۔ یہ تاریخ چار جلدوں پرمشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد بڑی حد تک مستند ہے۔ بعد کی جلدوں میں تحقیق کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی آخری جلد کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بھی محمدحسین آزاد کی طرح متعلقہ ادیبوں اور شاعروں سے اپنے بارے میں لکھنے کی فرمایش کی تھی۔ اردو ادب کی جامع اور مفصل تاریخ جمیل جالبی کی تاریخِ ادبِ اردو ہے جو پانچ جلدوں پرمشتمل ہے۔ جالبی کی تاریخ اب تک کی مستند ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔اردو ادب کے دیگر تاریخ نگاروں میں سیداحتشام حسین کی کتاب’اردو کی تنقیدی تاریخ‘ ہے، جس میں تحقیق سے زیادہ تنقید کا پہلو نمایاں ہے۔ گذشتہ پچاس برسوں میں اردو ادب کی جو تاریخیں لکھی گئیں ان میں انورسدید، سلیم اختر اور تبسم کاشمیری کی تالیف کردہ تاریخیں اہمیت کی حامل ہیں حالانکہ ان میں بھی تحقیقی سے زیادہ تقلیدی رویہ ہی اپنایا گیا ہے۔

زبان و ادب کی تاریخ نگاری کا ایک سلسلہ علاقائی تاریخیں بھی ہیں۔ یعنی اردو میں عہد اور علاقے کے لحاظ سے بھی تاریخیں قلم بند کی گئی ہیں۔اردو ادب کی علاقائی تاریخ نگاری کا سلسلہ نصیرالدین ہاشمی کی معرکۃ الآرا تحقیق’دکن میں اردو‘ (1925)سے شروع ہوا۔ اسی نہج پرانھوں نے’مدراس میں اردو‘ تالیف کی اورپھر علاقائی تاریخ نگاری کی ایک روایت قائم ہو گئی۔ اس نوع کی تحقیق میں وفاراشدی نے’بنگال میں اردو‘، اقبال عظیم نے’مشرقی بنگال میں اردو‘، سالک لکھنوی نے’بنگال میں اردونثر کی تاریخ‘، شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے’آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو‘ اور’بنگال میں اردو زبان وادب‘، عبدالرؤف نے’مغربی بنگال میں اردو کا لسانیاتی ارتقا‘ اختراورینوی نے’بہار میں اردو زبان وادب‘، سیدمظفراقبال نے’بہار میں اردو نثر کا ارتقا‘، آغا غیاث الرحمن نے’برار میں اردو زبان وادب کا ارتقا‘، حبیب النساء بیگم نے’ریاست میسورمیں اردو کی نشوونما‘، محمدعبدالخالق نے’میسور میں اردو‘، حفیظ اللہ نیول پوری نے’اڑیسہ میںاردو‘، محمد افضل الدین اقبال نے’مدراس میں اردو ادب کی نشوونما‘،علیم صبانویدی نے’تمل ناڈومیں اردو‘ اورنسیم احمدنسیم نے’نیپال میں اردو‘ لکھی۔ محمدحسن نے’قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ اور’’اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ‘ لکھی ہے۔ یہ دونوں کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ حالانکہ ان میں تحقیقی دقت نظر کے مقابلے تنقیدی نظریے کا استعمال زیادہ ہوا ہے۔ ایسا ہی رویہ طیبہ خاتون کی’اردو میں ادبی نثر کی تاریخ‘ اور ابواللیث صدیقی کی’اردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ‘ میں بھی اپنایا گیا ہے۔ انیس ناگی نے’پاکستانی اردو کی تاریخ‘ لکھی، جس میں پاکستانی نقطۂ نظر سے تاریخ سازی کی کوشش کی گئی ہے۔شمس الرحمن فاروقی کی کتاب’ ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ گو کہ ایک مخصوص عہد کا احاطہ کرتی ہے لیکن یہ اس عہد کے تعلق سے ایک اہم تفتیشی تاریخ ہے۔

حواشی

  1.      اردو میں اصول تحقیق،مرتبہ ڈاکٹر سلطانہ بخش، 2012 اردو اکیڈمی لاہور، ص138
  2.      تدوین وتحقیق کے رجحانات،اردومیں اصولِ تحقیق،مرتبہ ڈاکٹر سلطانہ بخش، 2012 اردو اکیڈمی لاہور، ص137
  3.      تحقیق کا فن، گیان چند جین، 2008،قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، ص267
  4.      تحقیق و تدوین: مسائل اور مباحث،حنیف نقوی 2010، اسکرین پلے، وارانسی، ص155


Zubair Shadab Khan
CPDUT (Urdu Academy)
Aligarh Muslim University
Aligarh- 202002 (UP)
Mob.: 7892803619
Email.: zubairk73@gmail.com 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں