31/8/23

اردو بارہ ماسہ: ایک جائزہ:عمران احمد


بارہ ماسہ ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں عورت اپنے شوہر سے جدائی اور ہجر کو موسم کے بدلتے مزاج کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ابتدا میں یہ صنف منظوم عشقیہ داستانوں کا ایک جز ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں اپنی مقبولیت کی وجہ سے اس نے ایک مستقل صنف کی حیثیت اختیار کر لی۔ بارہ ماسہ ایک عوامی صنف شاعری ہے۔اس کے ابتدائی نقوش ہمیں گیارہویں اور بارہویں صدی میں لکھے جانے والے جین بارہ ماسوں میں ملتے ہیں،جس میں برہ ورنن، رتو ورنن اور شرنگار رس کی شاعری کے بعض لوازمات کے ساتھ ماحول کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ان بارہ ماسوں میں تشبیہ و استعارے، تلمیح اور تمثیل کا جو اسلوب بروئے کار لایا گیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔اس تعلق سے ڈاکٹر پرکاش مونس لکھتے ہیں :

’’بارہ ماسوں کی باقاعدہ ابتدا جین سادھوؤں کی شعری تصنیفات سے ہوتی ہے، جن میں لوک کتھائیں، عوامی روایتیں اور نیم تاریخی قصے بیان کیے گئے ہیں،جن کے ضمن میں بارہ ماسے آئے ہیں۔‘‘

)تنویر احمد علوی کا جہان ِمعانی جلد اول ص 495(

بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس صنف شاعری کی ابتدا سنسکرت سے ہوئی ہے۔کیونکہ رامائن جیسی اہم تصنیف میں چار موسموں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بسنت، برسات، جاڑا ا ور جاڑے کے بعد کا موسم اہم ہے۔ اسی طرح کالی داس نے اپنی تصنیف میں چھے موسموں کا ذکر کیا ہے۔ان کا بارہ ماسہ گرمی سے شروع ہوکر بسنت پر ختم ہوتا ہے۔ جب کہ بیسل دیوراس کا بارہ ماسہ کارتک سے شروع ہو کر کنوار پر ختم ہوتا ہے۔ پندرہویں صدی میں گنپت کوی کا لکھا ہوا بارہ ماسہ پھاگن سے شروع ہوکر چیت پر ختم ہوتا ہے۔ہندی ساہتیہ کوش میں بارہ ماسے کے ابتدائی نقوش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے :

’’سنسکرت میںچھ موسموں کا بیان عظیم شاعروں کا ایک ضروری حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن ہر ایک ماہ کی الگ الگ نشاندہی کر کے شوہر کے فراق میں جھیلے جانے والے دکھوں کو بیان کرنا ہندی بارہ ماسوں کی نجی خصوصیت ہے۔‘‘(متاع بارہ ماسہ ص41)

 شمالی ہندمیں کئی مختلف زبانوں میں صنف بارہ ماسہ رائج اور مقبول ہوئی۔مثلاً پنجابی، گجراتی، راجستھانی، بنگالی، مراٹھی،اودھی اور ہندی میں عمدہ بارہ ماسے لکھے گئے ہیں۔ بھگتی کال کے شعرا نے خاص طور پر اس جانب توجہ دی۔ اودھی زبان کے اہم شعرا میں قطبن، جائسی اور منجھن شمار کیے جاتے ہیں۔ پندرہویں صدی کے ہندستانی شعر و ادب میں اس پایے کی ادبی تصانیف کے نقوش ملتے ہیں۔

اردو میں عوامی شعر و ادب کی جو روایت رہی ہے ان میں بارہ ماسے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔افضل کی بکٹ کہانی کو عموماََ اردو کا پہلا بارہ ماسہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ شمالی ہند کے اس شاعر کا پورا نام محمد افضل اور تخلص افضل تھا۔ بکٹ کہانی کا زمانۂ تصنیف1625 ہے جس کا ذکر اردو کے قدیم تذکروں میں بھی موجود ہے۔افضل کے اس بارہ ماسے کو حافظ محمود شیرانی، پروفیسر نورالحسن ہاشمی اور مسعود حسین خاں نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ اردو میں جتنے بھی بارہ ماسے لکھے گئے ہیں وہ سب کے سب ـ’لوک ساہتیہ‘ کے گیت کی روایت سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو بارہ ماسہ ایک مستقل صنف کی صورت میں سامنے آیا۔اردو کے یہ بارہ ماسے مختصر گیت ہی نہیں بلکہ طویل اور اپنی جگہ پر ایک مکمل عشق نامے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جیسا کہ لفظ بارہ ماسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق بارہ مہینوں سے ہے۔یہ ایک مرکب ہندی لفظ ہے اور حرفی طور پر یہ لفظ مذکر ہے اور دو اجزا پر مشتمل ہے۔ اسی نسبت سے اسے بارہ ماسہ کہا جاتا ہے۔ اس نظم میں سال کے بارہ مہینوں کے درد جدائی کی تفصیل ہوتی ہے۔ دراصل بارہ ماسہ ایک پریم کہانی ہے۔ یہ درد و غم میں مبتلا منظوم عشقیہ داستان ہے۔ بارہ ماسے میں ایک مہجور عورت اپنے محبوب کے درد جدائی و ہجر کو بیان کرتی ہے۔بارہ ماسے میں عورت کے جذبات اس کی اپنی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب کے فراق میں تڑپتی ہے اور سال کے ہر مہینے میں موسم کے مزاج کے ساتھ اپنے دل کے احوال بیان کرتی ہے۔وہ اپنی سہیلیوں پر رشک کرتی ہے کہ انھیں اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے اوروہ درد جدائی سے انجان ہیں۔وہ اپنے عاشق کو بلانے کے لیے کبھی کسی ملّا تو کبھی کسی پنڈت اور جیوتشی کے پاس جاتی ہے کہ شاید وہ کوئی ایسا نسخہ بتا دے جس سے اس کا بچھڑا ہوا محبوب واپس آجائے۔ یہی کرتے کرتے سال کے گیارہ مہینے بیت جاتے ہیں۔بارہویں مہینے میں اس کی دعا قبول ہو تی ہے اور اس کا محبوب پردیس سے واپس آجاتا ہے۔اس طرح اس کا درد و غم خوشی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اردو زبان کی مشہور لغت ’فرہنگ آصفیہ‘ میں بارہ ماسے کا مفہوم اس طرح سے پیش کیا گیا ہے:

’’وہ نظم جس میںہندی کے بارہ مہینوں کی تکلیف اور کیفیت، فراق زدہ عورت کی طرف سے بیان کی جاتی ہے۔‘‘( فرہنگ آصفیہ جلد اوّل مطبوعہ لاہور)

ہندی ساہتیہ کوش میں بارہ ماسے کی ادبی اصطلاح کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے:

’’بارہ ماسہ لوک گیتوں کی وہ قسم ہے جس میں کسی مہجور عورت کے سال کے ہر ایک ماہ میں محسوس کیے ہوئے دکھوں اور دل گداز حالتوں کی تفصیل پائی جاتی ہے۔‘‘

(متاع بارہ ماسہ ص15)

بارہ ماسہ ایک بیانیہ صنف ہے اور صنف کے اعتبار سے بارہ ماسہ نظم میں داخل ہے۔یہ بیانیہ ایک کرداری ڈرامے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں قدرتی مناظر کی مصوری اور موسیقی کی اصطلا حیں بھی موجود ہوتی ہیں۔بارہ ماسہ بارہ ٹکروں یا بندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔بارہ ماسے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر ماہ کے جذبات اور محسوسات ہندی مہینوں کی ترتیب کے مطابق الگ الگ پیش کیے جاتے ہیں۔ تمام بارہ ماسوں میں جدائی کے کرب کے ساتھ ساتھ موسموں کے اثرات،تہواروں کا ذکر اور قدرت کے مناظر کا بیان ملتا ہے۔ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو بارہ ماسہ ایک روحانی تجربہ بھی ہے اور سادھنا بھی ہے۔ اس کے اندر بدلتے موسم میں عورت کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔بارہ ماسے میں ہر مہینہ حد درجہ رومانی ہوتا ہے۔فراق کے لمحوں میں گرفتار عورت کی ذہنی کیفیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موسم کی رومانیت کتنی گہری ہے  ؎

نہ مجھ کوں بھوک دن، نا نیند راتا

برہ کی درد سوں سینہ پراتا

پیا کی یاد میں روتی پھروں ہوں

جدائی کی اگن میں نیت جڑوں ہوں

بارہ ماسے کے اقسام کے حوالے سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انجام کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ایک قسم وہ جس میںشروع سے لے کر آخر تک فراق و اضطراب کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں سال کے اختتام پر بھی عاشق کی حالتِ زار اُسی طرح برقرار رہتی ہے۔دوسری قسم وہ ہے جس کا اختتام وصل یار پر ہوتا ہے۔ بارہ ماسے کی ان دونوں اقسام میں پہلی قسم کو المیہ اور دوسری قسم کو طربیہ کہا جا سکتا ہے۔ بارہ ماسہ خواہ المیہ ہو یاطربیہ اس کی تکمیل چند اہم لوازمات سے مل کر ہوتی ہے۔ان عناصر میں یاد محبوب، غم ہجراں اور تمنائے وصل اہم ہیں۔اردو بارہ ماسے میں ان تینوں حالتوں کی سچی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔یہ ترکیبی عناصر بارہ ماسوں کے لیے اہم خیال کیے جاتے ہیں۔

بارہ ماسے میں زبان و بیان اور اسلوب نسوانی انداز میںپیش کیے جاتے ہیں۔ جس طرح ریختی میں عورتوں کے جذبات کا اظہار خود عورتوں کی زبان میں کیا جاتا ہے اسی طرح اس صنف میں بھی جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے نسوانی زبان کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔مگر اس مماثلت میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ بارہ ماسے کا دامن ابتذال اورسوقیت سے بے داغ نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں :

’’ریختی میں صرف عورتوں کی زبان کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ پیشہ ور عورتوں کے مبتذل جذبات، بازاری اور عامیہ زبان میں ادا ہوتے ہیں۔‘‘( متاع بارہ ماسہ ص38)

اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو فنی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ریختی کے لیے فارسی بحروں کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا تھاجب کہ بارہ ماسے میں ایسی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ بارہ ماسے کی کائنات کافی رنگا رنگ اور متنوع ہے۔ اس میں عشقیہ جذبات کی کامیاب تصویر کشی کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ سماج اور تمدن اور قدرتی مناظر کی عکاسی بھی کی جاتی ہے۔مثلاً  ؎

ہوا میں ہووے نیرنگی نہ کیوں کر

ہزاروں رنگ اڑیں جب یو ں ہوا پر

بارہ ماسے کے لیے کوئی خاص یا مخصوص ہیئت متعین نہیں کی گئی ہے۔اس میں شاعر کو اس بات کی پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے محسوسات اور جذبات شوق کے لیے جس شکل کو مناسب سمجھے اس کا استعمال کر سکتا ہے۔شاعر کے لیے کم و بیش یہی آزادی بحر و وزن کے سلسلے میں بھی نظر آتی ہے۔بحر و وزن کا استعمال شاعر کی طبیعت پر منحصر ہوتا ہے جس کے نتیجے میںیہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف بارہ ماسے مختلف ہیئت اور بحرمیں لکھے گئے ہیں۔قدیم شعرا نے اپنے بارہ ماسوں میں ہندی دوہا، دوہرے کو شامل کیا ہے۔ یہ طریقۂ کار اس عہد میں بے حد مقبول تھا۔اردو شاعروں نے زیادہ تر بارہ ماسے مثنوی کی شکل میں لکھے ہیں۔اودھی کے عموماً سبھی شاعروں نے بارہ ماسے کو دوہا اور چوپائی کی ہیئت میں لکھا ہے۔ لیکن بعض دیگر شعرا نے خصوصاًمحمد عبد اللہ علم مستزادادی اور ترجیع بند کی صورت میں لکھا ہے، جب کہ عبد اللہ نے غزل کی ہیئت میں لکھا ہے۔قطبی، جائسی، عثمان اورقاسمی شاہ کے بارہ ماسے چوپائی کے وزن میں لکھے گئے ہیں۔ وہاب اور افضل کے بارہ ماسے بحر ہزج مسدس مخدوف میں لکھے گئے ہیں۔اسی طرح منشی ڈوری لال کاایک مختصر بارہ ماسہ ترجیع بند کی شکل میں ملتا ہے جو صرف آٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں کنوار، کارتک اور اگہن کا حال ایک ہی بند میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے  ؎

کنوار نند کے کنوار نہ آئے

کارتک سیج نہ سہاتی

اگہن بِسر گئی سدھ تن من کی

بَن بَن ڈھونڈھن جاتی

من موہن سوہن بِن ہے نہ چلن دن راتی

( متاع بارہ ماسہ،ص43)

درج بالا اشعار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بارہ ماسہ لکھنے کے لیے شاعر کوکسی مخصوص ہیئت کی پابندی کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو بارہ ماسے کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کے بارہ ماسوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میںزبان، ہیئت اور جذبات و احساسات میں یکسانیت نظر آتی ہے لیکن شاعر اپنے لب و لہجے اور ذاتی اظہار کی انفرادیت سے ان میں تنوع پیدا کر دیتا ہے۔بارہ ماسے کی بنیاد درد و غم اور جستجو و آرزو پر قائم ہے۔اس کے خاص موضوعات ہجر اور فراق کی واردات ہیں۔ مشرقی معاشرہ شوہر پرست تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرقی عورتوں کے لیے اپنے شوہر کی جدائی سے زیادہ اور کیا کرب ہو سکتا ہے؟ مشرقی عورتیں اپنا حسن وشباب، زیب و زینت اور خلوص و محبت سب کچھ اپنے شوہر کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ برہن کوجب اپنے شوہر کے فراق کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس کا برملا اظہار اپنی زبان میں کرتی ہے۔ ہجر میں عورت کی اس کیفیت کی ترجمانی میر حسن نے کچھ اس طرح سے کی ہے  ؎

محبت میں سودا سا ہونے لگا

جنوں، تخم، وحشت کا بونے لگا

ہجرو فراق میں جنسی نزاکت کے لطیف جذبات اور درد انگیز محسوسات اور باطنی اضطراب کو شاعروں نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اس کی عکاسی بھی کی ہے۔لیکن ایسی صورت کی بھر پور ترجمانی ہمیں صرف بارہ ماسے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔بارہ ماسے میں عورت کی اس بے قراری اور تڑپ میں اس کی شگفتگی اور اس کا انتہائی خلوص پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس کے بیان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہوتا جو نفرت اور بے زاری کی غمازی کرتا ہو۔ بارہ ماسے میں عورت اپنے جمالیاتی تجربے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس کے کلام میں محبوب کے کھو جانے کا نہ صرف احوال ملتا ہے بلکہ جدائی کا کرب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔بارہ ماسوں میں حسّی جذباتی قدریں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اس میں عورت اپنی سکھیوں سے مخاطب ہو کر اپنے کرب کی عکاسی کرتی ہے۔بارہ ماسوں میں موسم کے ذکر کے ساتھ اپنی باطنی کیفیتوں کے بیان کا احساس ملتا ہے۔ عورت اپنے درد و بے چینی اور کشمکش کو رومانی انداز میں پیش کرتی ہے۔بارہ ماسوں میں مہینوں اور موسموں کی کیفیت بنیادی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے۔بارہ ماسے کے انھی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:

’’تمام بارہ ماسوں کا مزاج ایک جیسا ہے اس لیے کہ ایک ہی جذبہ اپنے مختلف رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش ہوتا رہتا ہے۔ہر موسم کی کیفیت عورت کے پورے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ مختلف موسم گہرے احساس کے آہنگ کو چھیڑتے رہتے ہیں، اس قدر کہ ہر موسم کی رومانیت اتنی شدّت اختیار کر لیتی ہے کہ عورت شیریں دیوانگی کا پیکر بن جاتی ہے۔

(بارہ ماسہ کی جمالیات،ص 10)

بارہ ماسے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میںعورت کے دل گداز، جدائی میں اس کے دل کی کسک، حیا کے ساتھ محبت کی بے خودی، اس کی وفا سپردگی اور اس کی حرماں نصیبی کی تفصیلات ملتی ہیں۔بارہ ماسے میں عورت کی وفا شعاری اور مرد کی بے اعتنائی کی روداد بیان کی جاتی ہے۔اس میں پیار اور جلن کی داستان سنائی جاتی ہے۔بارہ ماسے میں برہن کی تمام جسمانی، ذہنی اور عملی کیفیات کی گہری عکاسی ملتی ہے۔غم زدہ برہن کے اس صدمۂ جاں کا اظہار سال کے گیارہ مہینے تک مسلسل ہوتا رہتا ہے۔جب بارہواں مہینہ بھی ختم ہونے کے قریب آتا ہے تو اس کے آنسوؤں کا تار ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کا بچھڑا ہوا محبوب واپس آجاتا ہے۔اور آخر میں اس برہن کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔افضل کے اس شعر میں اس کیفیت کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے   ؎

جو آیا ماہ پھاگن کیا کروں ری

سجن پردیس نت دکھ بھروں ری

ارے ظالم ترے پیاں پڑوں رے

دل و جان تجھ اوپر قرباں کروں رے

کہے برہن کہ پھاگن مانس آیا

سبھوں نے روپ رنگا رنگ بنایا

ہندی کے بارہ مہینے بالترتیب چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادو، کنوار، کارتک، اگہن، پوس، ماگھ اور پھاگن ہیں۔ان بارہ مہینوں کو برہن شوہر کی جدائی میںرو رو کر گزارتی ہے۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ گزارے لمحات کو یاد کرکر کے اسے واپس بلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ بارہ ماسوں میں فرقت کے احوال کا آغاز عام طور پر اساڑھ ماہ سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ بعض شعرا کے یہاں اس کی ابتدا چیت سے اور کسی کے یہاں ساون سے بھی ہوئی ہے۔اردو ادب میں زیادہ تر بارہ ماسے اساڑھ یا ساون کے مہینوں سے شروع کیے گئے ہیں۔

ہندی کے پہلے ماہ چیت میں چہار جانب جشن کا ماحول ہوتا ہے، خوشیاں منائی جاتی ہیں۔لیکن برہن داخلی طور پر تنہا محسوس کرتی ہے کیوں کہ اس مہینے میں محبوب اس کے ساتھ نہیں ہوتاہے۔بیساکھ مہینے میں عورت اپنے محبوب سے گزارش کرتی ہے کہ تم واپس آجاؤ تو زندگی میں رونق آجائے۔جیٹھ اور اساڑھ کے مہینے میں گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔محبوب کے آنے کی آس میں برہن تڑپتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اساڑھ کے بعد ساون کا مہینہ آتا ہے جس میں خوب بارش ہوتی ہے۔عورت کا دل اپنی تمام تر نسوانی خصوصیات کے ساتھ دھڑکتا ہے۔مگر وہ اس موسم میںبھی محبوب کے ملنے کی امید میں تنہا رہتی ہے۔بھادو ماہ میں بھی برہن کی کیفیت ویسی ہی رہتی ہے۔اس موسم میں فطرت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے نینوں سے آنسو برستے ہیں۔بجلی کی چمک اور کڑک سے اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے۔ کنوار کا مہینہ کم جان لیوا نہیں ہے۔ چاندنی راتیں اس کے لیے دکھ درد کا پیغام لے کر آتی ہیں۔کارتک میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ یہ لمبی راتیں برہن کو ڈستی ہیں۔ اگہن اور پوس کی راتوں کا لطف محبوب کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ماگھ مہینے میں برہن کو اپنے محبوب کے ملنے کی آس بڑھ جاتی ہے۔پھاگن مہینے میں ہر طرف رنگوں کی برسات ہوتی ہے۔بالآخر اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کا محبوب واپس آتا ہے۔

جس طرح شعری اصناف کی تکمیل کے لیے ہیئت اور بحر و وزن جیسے ترکیبی عناصرناگزیر ہیں اسی طرح بارہ ماسے کو دلچسپ اور اثر انگیز بنانے کے لیے چند بنیادی لوازمات کی پابندی ضروری ہے۔یہاں پر چند اہم لوازمات کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے:

الف:برہن کے داخلی جذبات اور اس کی باطنی کیفیات محض قیاس اور تخیل پر مبنی نہ ہوں۔

ب: سال کے بارہ مہینوں کا ذکر بالترتیب ہو۔ ہر ماہ کی موسمی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس میں ہونے والے تہواروں،میلوں کا بیان کیا جانا چاہیے۔

ج: قدرتی مناظر اور موسموں کا ذکر اس طور سے کیا جائے کہ اس کے ذریعے شعلۂ ہجر اور درد فراق میں شدت پیدا کی جاسکے۔

د: مناظر فطرت اور کوائف موسم کی تصویر کشی کرتے وقت ضرورت سے زیادہ تخیل اور مبالغے سے کام نہ لیا جائے بلکہ ان کی مصوری اس انداز میںکرنی چاہیے کہ وہ فطری اور حقیقی معلوم ہوں۔

س: بارہ ماسے میں پرُ اثر و عام فہم زبان و بیان کا استعمال کرنا چاہیے۔جہاں تک ممکن ہو شاعر کو چاہیے کہ وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرے جس سے برہن کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہو سکے۔

ص: بارہ ماسہ لکھتے وقت شاعر کے لیے لازمی ہے کہ وہ الفاظ تکرار اور طول طویل کلام سے پر ہیز کرے۔

 ل: ہر ماہ کی جدائی اور بے قراری کا احوال اس ماہ کی قدرتی خصوصیات اورتہواروںکی رنگا رنگی اور مناظر کی مرقع نگاری کے ساتھ کی جانی چاہیے۔

اردو میں بارہ ماسہ نگاری کا آغاز تقریباً 17 ویں صدی کے ربع اوّل سے ہوتا ہے اور اب سے سو سال قبل اس صنف کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ لیکن بارہ ماسے نے اپنی اس مختصر سی مدّت میں اردو شاعری میں کئی اہم نمونے چھوڑے ہیں۔اردو میں بارہ ماسہ لکھنے والوں کی فہرست بہت مختصر ہے۔راقم الحروف نے اپنے اس مضمون میں اردو ادب میں دستیاب چند اہم بارہ ماسوں کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

بِکٹ کہانی- افضل: افضل کی بکٹ کہانی اردو کا پہلا بارہ ماسہ ہے۔اردو ادب میں بارہ ماسہ لکھنے کی روایت کا آغاز انھی کے سر جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بکٹ کہانی کو اردو ادب کی تاریخ کا پہلا بارہ ماسہ تسلیم کیا گیا ہے۔ شمالی ہند کے اس شاعر کا نام محمد افضل تھا اور تخلص افضل۔ افضل کا شمار ہندی کے اہم شاعروں میںبھی ہوتا ہے۔ ہندی زبان میں انھوں نے کئی اہم کار نامے انجام دیے ہیں۔انھوں نے اپنی اس تخلیق کے آخری شعر میں خود کو افضل کے ساتھ گوپال بھی لکھا ہے  ؎

بیادِ دل رُبا خوش حال می باش

گہے افضل گہے گوپال می باش

بکٹ کہانی پہلی دفعہ 1625 میںشائع ہوئی جب کہ اس نادر شعری تخلیق کی طبع ثانی ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ شعبۂ اردو، عثمانیہ یونی ورسٹی کے علمی و تحقیقی مجلے ’’قدیم اردو ‘‘ کے جلد اوّل میں 1965میں کی۔بکٹ کہانی بارہ ماسہ ہے جسے مثنوی کے انداز میں لکھا گیا ہے۔پروفیسر نورالحسن نے بکٹ کہانی کے اشعار کی تعداد321 بتائی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ پہلے 325 اشعار تھے۔ بعد میں چار اشعار نکال دیے گئے ہیں۔یہ چار اشعار دو بار شامل ہو گئے تھے جس کی بنا پر اسے خارج کردیا گیا۔ بکٹ کہانی بحر ہزج مسدس الآخر میں لکھی گئی ہے۔اگر زبان و بیان کے تعلق سے بات کی جائے تو یہ بارہ ماسہ کسی ایک زبان اور بولی تک محدود نہیںبلکہ اس میں دہلی اور اس کے نواح میں بولی جانے والی کھڑی بولی،اودھی، مگدھی، بھوجپوری کی بولی ٹھولی کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ بکٹ کہانی کو جدید اردو کا پہلا ادبی و لسانی نقش بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔دوسرے بارہ ماسوں کی طرح بکٹ کہانی کے موضوعات میں برہن کے درد جدائی کی عکاسی ملتی ہے۔بکٹ کہانی کا پہلا شعر   ؎

سنو سکھیوں! بکٹ میری کہانی

بھئی ہوں عشق کے غم سوں دوانی

افضل کی بکٹ کہانی کا آغاز ساون کے مہینے سے ہوتا ہے اوراساڑھ کے مہینے پر ختم ہوتا ہے۔پہلے ماہ کے آغاز سے پہلے 57 اشعار پر مشتمل عشق نامہ پیش کیا گیا ہے۔ ماہ ساون کا بیان دس اشعار پر مشتمل ہے جب کہ دوسرے ماہ بھادو میں پندرہ اشعار ہیں۔بکٹ کہانی میں ہر مہینے کے اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ بارہ ماسہ بکٹ کہانی کے اسلوب کی بات کی جائے تو یہ اپنے عہد کی ریختہ گوئی کی عکاسی کرتی ہے۔ بکٹ کہانی کے بہترین حصوں میں ماہ ساون، بھادو اور پھاگن ہیں جو خارجیت اور داخلیت کا ربط و آہنگ ہے۔یہ بارہ ماسے کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔

بارہ ماسہ عزلت:بکٹ کہانی کے بعد اردو کے اہم بارہ ماسوں میںاس کا شمار ہوتا ہے۔اس شعری کلام کے تخلیق کار میر عبد الولی عزلت ہیں۔عزلت گجرات کے رہنے والے تھے۔عزلت اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی شعر کہتے تھے اور نرگن تخلص کرتے تھے۔ ان کے اردو دیوان میںبارہ ماسے کے علاوہ کہہ مکرنیاں، کبت دوہرے، چھند، سورٹھا، جیسے شعری کلام پائے جاتے ہیں۔افضل کی بکٹ کہانی کے بعد اردو میں بارہ ماسہ عزلت کوزیادہ قدیم قرار دیا جا سکتا ہے۔ سبھی بارہ ماسوں کاموضوع ایک جیسا معلوم ہوتا ہے مگرشاعر کی فنکارانہ صلاحیت اورتحریری انداز سے یہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔بارہ ماسہ عزلت کا آغاز اساڑھ کے مہینے سے ہوتا ہے  ؎

اساڑھ آیا ہے لے بادل کی فوجیں

کہ تیغیں برق کی ماریں ہیں موجیں

عزلت کے اس بارہ ماسے میںبرہن کے درد و غم کی کیفیت کا بہت ہی تفصیلی بیان ملتا ہے۔البتہ اس کے برعکس اس میں مو سم کا حال مختصر ہے۔عزلت نے ہر مہینے کے بیان کو چار سے پانچ اشعار میں قلم بند کیا ہے۔اس بارہ ماسے میں پورا زور برہن کے بیان پر دیا گیا ہے جو اپنے معشوق کی یاد میں تڑپتی ہے۔اس بارہ ماسے کی بحر وہی ہے جو افضل کی بکٹ کہانی کی ہے۔اس میں جس طرح برہن کے ساتھ ساتھ مہینوں اور تہواروں کی عکاسی کی گئی ہے اس سے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عزلت نے اپنی واردات عشق کی تصویر پیش کی ہے۔

بارہ ماسہ وحشت: میر بہادر علی وحشت نے بارہ ماسہ وحشت لکھ کر اس صنف میں طبع آزمائی کی۔اردو کے قدیم بارہ ماسوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔اس بارہ ماسے کے متعلق معلومات سب سے پہلے میر حسن کی تحریروں میںملتی ہیں۔ اس بارہ ماسے کا ایک قلمی نسخہ رضا لا ئبریری رامپور میںمحفوظ ہے۔وحشت نے اس بارہ ماسے کو اردو کے پہلے بارہ ماسہ نگار افضل کی تقلید اور اپنے دوستوں کی فرمائش پر لکھا تھا   ؎

عزیز کچھ نہ پوچھو حال میرا

برا ہے ان دنوں احوال میرا

بارہ ماسہ وحشت کا فکری پس منظر،طرز تحریر اور انداز افضل کی بکٹ کہانی سے مختلف ہے۔یہ بارہ ماسہ تو ہے ہی ساتھ ہی اس میں ساقی نامے کا عکس بھی نظر آتا ہے کیوںکہ اس میں شروع سے لے آخر تک ایک ساقی سے خطاب کا سلسلہ رہتا ہے۔ اس بارہ ماسے کی ایک خوبی اور ہے جو دوسرے بارہ ماسوں سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ اس میں برہن کے درد جدائی کو کسی نسوانی زبان کے بجائے مرد کی زبان سے پیش کیا گیا ہے۔اس میں شاعر نے عورت کے احساسات و جذبات کے ساتھ موسمی کیفیت کی عکاسی بہت ہی پر اثر طریقے سے کی ہے۔اس کی اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے اسے اردو بارہ ماسوں میں بہترین نمونہ خیال کیا جاتا ہے۔

بارہ ماسہ رباّنی: عبد اللہ انصاری کے اس بارہ ماسے کو اردو کے اہم بارہ ماسوں میں شمار کیا جاتاہے۔عبد اللہ انصاری کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات سے تھا۔ اس بارہ ماسے کا طبع اوّل احمدی علی گڑھ کی جانب سے 1323 ھ میں ہوا۔یہ تصنیف 84 صفحات پر مشتمل ہے۔ آخری صفحے پر کوئی نشان یا شمار موجود نہیں ہے۔ اس کا سرورق سادہ ہے۔ اس بارہ ماسے کے شروع میں پہلے حمد باری تعالیٰ اور پھر نعت رسول پیش کی گئی ہے۔حمد اور نعت رسول کے بعد مناجات عبد اللہ انصاری کے عنوان سے لکھی گئی ہیں۔ تنویر احمد علوی نے ان کی تعداد 27 لکھی ہے جب کہ ان کی تصنیف میں30 اشعار درج ہیں۔ دعائیہ کلمات کے بعد سبب تالیف لکھا ہے جو 224 اشعار پر مشتمل ہے۔اسی طرح نول کشور کی جانب سے شائع بارہ ماسہ صرف 12 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے سرورق پر ’بہ عون صناع مکیںو مکان و فضل خلاّق زمیںو زماں سبحانہ تعالیٰ‘ درج ہے۔عبد اللہ انصاری بارہ ماسے کی تالیف کے محرکات کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’ افضل اور مفتی الٰہی بخش کی بکٹ کہانی سے وہ گہرے متاثر ہوئے۔ اسی تاثر کے تحت انھوں نے یہ تالیف تصنیف کی ہے۔‘‘

(اردو میں بارہ ماسہ مطالعہ اور متن ص136)

دوسرے بارہ ماسوں کی طرح اس میں بھی درد و غم کی تمام کیفیات موجود ہیں۔بارہ ماسے کی ابتدا اساڑھ ماہ سے ہوتی ہے۔اس میںہر ماہ کے اشعار کی تعداد مختلف ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز خواب دیکھنے کے ذکر سے ہوتا ہے جس میں داستانی قصوں اور روایتی کہانیوں کے انداز پر کسی انجان آدمی کودیکھ کر مجازی عشق میں مبتلا ہو جانے کی بات کی گئی ہے۔اس بارہ ماسے کی زبان میں اردو کے کھرے پن کی عکاسی موجود ہے۔اس میں عربی و فارسی کے الفاظ کے علاوہ ہندی الفاظ کو ایک ہندستانی عورت کے روایتی کردار میں پیش کیا گیا ہے جواس بارہ ماسے کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔

بارہ ماسہ بکٹ کہانی ازعبد اللہ انصاری:اس بارہ ماسے کا ذکر سب سے پہلے مسعود حسین خاں نے کیا ہے۔انھوں نے لکھا کہ عبد اللہ انصاری نے نہ صرف افضل کی بکٹ کہانی کی تقلید کی ہے بلکہ انھوں نے اسی عنوان سے بکٹ کہانی بھی لکھی ہے۔انھوں نے اس کا زمانہ تصنیف 1823 کے قریب درج کیاہے۔اس بارہ ماسے کی بحر وہی ہے جوافضل کی بکٹ کہانی کی ہے۔

بارہ ماسہ بکٹ کہانی از مفتی الٰہی بخش کاندھلوی:بکٹ کہانی کا نام آتے ہی افضل کے بارہ ماسہ کی طرف ذہن جاتا ہے لیکن تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیف میں اس بارہ ماسے کا تذکرہ کیا ہے۔مفتی صاحب نے اپنی اس تصنیف کی تخلیق افضل کے بارہ ماسے کو سامنے رکھ کر کی جس کا برملا اظہار انھوں نے کیا ہے  ؎

سنی ہوگی بکٹ تم نے کہانی

سب اوس کے خامہ کی آتش فشانی

ولیکن میں جو دیکھا اوس کو سارا

طبیعت نے مری اک جوش مارا

یہ آیا دل میں کہیے اک کہانی

بیاں ہو جس میں سوزِ دل نہانی

زبان و بیان اور موضوع کے لحاظ سے دونوں میں یکسانیت نظر آتی ہے۔مگر ایک بنیادی فرق ضرور نظر آتا ہے۔ افضل کی بکٹ کہانی میں حمد و نعت کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے جب کہ مفتی صاحب نے اپنی بکٹ کہانی میں ابتدا میں پہلے حمد اور پھر نعت تحریر کی ہے۔ ایک دوسری بات یہ کہ اس میں ہریانوی اور برج بھاشا سے زیادہ کھڑی بولی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس بارہ ماسے کی مدد سے کھڑی بولی کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملتی ہے جو اردو کا اصل روپ تسلیم کی جاتی ہے۔

بارہ ماسہ مرد بیوگ:اس بارہ ماسے کے مصنف کا نام لالہ ممِن لعل ہے۔اس کی اشاعت گیان پریس سے 1895 میں ہوئی۔ممِن لعل کا تعلق مراٹھا علاقے سے تھا۔راقم الحروف کی معلومات میں یہ اب تک کے بارہ ماسوں میں سب سے کم اشعارپر مشتمل ہے۔ یہ کتاب کل آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز ہندی کے چوتھے مہینے اساڑھ سے شروع ہوتا ہے اور جیٹھ کے مہینے پرا ختتام پذیرہوتا ہے۔ہر ماہ کے بیان کے پہلے ایک دوہا اور آخر میں چوپائی شامل ہے۔اس بارہ ماسے میں برہن کے جذبات و احساسات کے ساتھ موسمی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ لالہ ممِن لعل کا تعلق چوںکہ مراٹھا علاقے سے تھا اس لیے اس میں مراٹھاعلاقے کی بولی کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔اس بارہ ماسے کے مطالعے سے اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور بولی ٹھولی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

بارہ ماسہ نیہہ:اس بارہ ماسے کے تخلیق کار مولوی حفظ اللہ قادری ہیں۔ مولوی صاحب کا شمار اپنے عہد کے اہم شعرا میں کیا جاتا تھا۔وہ نہ صرف اردو کے شاعر تھے بلکہ فارسی اور اودھی زبان کے شعرا میں بھی شمار کیے جاتے تھے۔ وہ ان تینوں زبانوں میں اپنا تخلص الگ الگ استعمال کرتے تھے۔اردو شاعری میںان کا تخلص بندہ، فارسی میں حفیظ اور اودھی میںنیہہ تھا۔مولوی صاحب کی پیدائش کی کوئی مستند تاریخ تو نہیں ملتی، البتہ تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیف میںلکھا ہے کہ وہ پچاس سال کی عمر میں1860 میں انتقال کر گئے۔یہ بارہ ماسہ کب لکھا گیا اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی مگر ان کی تاریخ انتقال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قدیم بارہ ماسوں کا ایک اہم نمونہ ہے۔اس بارہ ماسے کی ابتدا میں ہر ماہ کے نمبر درج کیے گئے ہیںاور اسی نسبت سے ابتدائیہ اشعار بھی لکھے گئے ہیں۔ اس بارہ ماسے کی ابتدا اساڑھ مہینے کے بیان سے ہوتی ہے  ؎

آیا ماس اساڑھ کا پیتم ناہیں پاس

گھٹا گھٹائے ویت ہے سوپی درش کی ہیں ناہیں

 بارہ ماسہ نیہہ کی فنی خوبیوں کا ذکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ہر ماہ کے بیان کے لیے اشعار کی تعداد متعین نہیں کی گئی ہیں۔یہ ایک ایسا بارہ ماسہ ہے جس کی شروعات کسی تمہید کے بغیر کی گئی ہے۔ اس بارہ ماسے کو سید نذر الحسن قادری نے مرتب کیا ہے۔ اس کی اشاعت مکتبہ قادری رام پور سے 1975 میں ہوئی۔

بارہ ماسہ سندر کلی:اس کا شماراردو کے اہم بارہ ماسوں میں ہوتا ہے۔یہ بارہ ماسہ راج رتن کنور اور سندر کلی کی داستان پر مبنی ہے۔ابتدا میں حمد باری تعالیٰ اور اس کے بعد نعت شریف پیش کی گئی ہے۔اس بارہ ماسے کا آغاز اساڑھ مہینے سے ہوتا ہے۔بارہ ماسہ سندر کلی کو ایک ہی زمین میں پیش کیا گیا ہے لیکن اشعار کی تعداد مختلف ہے۔اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر ماہ کا بیان ہندی دوہرے سے شروع ہوتا ہے اور اختتام فارسی کے شعر پر ہوتا ہے۔اس بارہ ماسے میں ہر ماہ کا بیان بے ترتیب ہے۔ہر مہینے کے بیان سے پہلے باقاعدہ اس ماہ کا عنوان درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ دوہرے میں ہی اس مہینے کا نام پیش کر دیا گیا ہے۔مثلاً ؎

اساڑھ آیا نپٹ گرمی پڑے ری

نپٹ گرمی ستی دیہی جرے ری

اس بارہ ماسے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ہد ہد کو بطور پیغام لانے لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میںبارہ مہینوں کے بیان کے بعد آخر میں تاریخ اسلام کا ذکر کیا گیا ہے خصوصاً حضرت خضر کا بیان شامل ہے۔البتہ اس بارہ ماسے میں قصے پن کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔مگر ہدہد کا کردار انفرادیت کا حامل ہے۔ سندرکلی کو اس کی شعری خوبیوں کی وجہ سے اردو کے معروف بارہ ماسوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

بارہ ماسہ کنول دی:اس بارہ ماسے کے مصنف بہار کے صوفی بزرگ حضرت شاہ آیت اللہ جوہری ہیں۔یہ شعری تخلیق ان کے مجموعہ کلام گوہر جوہری میں داستان کے عنوان سے شامل ہے۔تنویر احمد علوی نے اپنی تصنیف ـمیں اس بارہ ماسے کو اس کی ہیروئن کی مناسبت سے کنول دی لکھا ہے۔دوسرے بارہ ماسوں کی طرح یہ بارہ ماسہ بھی اساڑھ سے شروع ہوتا ہے اور جیٹھ کے مہینے پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں بھی برہن کے ورنن کے ساتھ ساتھ موسمی کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ماہ اساڑھ کا بیان شروع کرنے سے پہلے تمہیدی اشعار پیش کیے گئے ہیں جن کی تعداد 34 ہے۔پہلا مہینہ اساڑھ کا بیان 21 اشعار پر مشتمل ہے مگر اساڑھ ماہ کا عنوان درج نہیں کیا گیا ہے۔جوہری نے اپنی اس شعری تخلیق میں برہن کے درد و غم اور احساسات و جذبات کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے۔ مگر اس کے برعکس انھوں نے آنے والے مہینوں میں موسمی کیفیات اور میلوں ٹھیلوں کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا ہے۔زبان و بیان کے لحاظ سے یہ بارہ ماسہ توجہ طلب ہے۔ اس بارہ ماسے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر ماہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ایک پنچھی کو قاصد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ہر ماہ میں الگ الگ پنچھیوں کا ذکر ملتا ہے۔مثلاََاساڑھ میں بہنگم کو قاصد بنایا گیا ہے،جب کہ ساون میں کوکلا، بھادو میں کوئل اور ماگھ میں کبوتر کو قاصد کے طور پر استعمال کیا ہے۔اسے اردو کے اہم بارہ ماسوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

بارہ ماسہ نجیب:اس بارہ ماسے کے مصنف کا نام میاں نجیب ہے۔وہ اپنے عہد کے معروف شاعروں میں شمار کیے جاتے تھے۔اس بارہ ماسے کا قلمی نسخہ ـ ’’ادارۂ تحقیقات عربی و فارسی، نذر باغ،ٹونک، راجستھان‘‘ میں محفوظ ہے۔اس کا آغاز بھی اردو کے دوسرے اہم بارہ ماسوں کی طرح ماہ اساڑھ سے ہوتا ہے جس کا عنوان ’ساون کا آیا مہینہ‘ کے نام سے درج ہے۔اس بارہ ماسے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ مصنف نے ہر ماہ سے متعلق اشعار کے آخر میںاپنا تخلص پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شعر پیش خدمت ہے  ؎

نجیب اس طرح سے اساڑھ بیتا

نجا نو کیوں نہ آیا میرا میتا

اس بارہ ماسے میں بھی ایک فراق زدہ عورت اپنے محبوب کی یاد میںبرہ ورنن کرتی ہے کہ اس کا شوہر واپس آجائے۔میاں نجیب نے جتنی دلچسپی سے برہن کے درد جدائی کی عکاسی کی ہے اتنی موسمی کیفیات کی مصوری نہیں کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس بارہ ماسے کا نسبتاََ یہی پہلو کمزور ہے۔مصنف نے اس بارہ ماسے کی تخلیق کے وقت لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہادوغیرہ جیسی عشقیہ داستانوں کے فراق و دردکوذہن میں رکھا ہے۔اس کے علاوہ اردو ادب کا یہ واحد بارہ ماسہ ہے جس میں راجستھان کی مقامی بولیوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس بارہ ماسے کی فضاہندستانی ہے جس میں لو ک گیتوں کی اہمیت کو پیش نظرر کھا گیا ہے۔ شمالی ہند کے بارہ ماسوں میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔

بارہ ماسہ وہاب:اس کے مصنف کا نام وہاب ہے جن کا تعلق بھوجپوری علاقے سے تھا۔وہ علاقائی بولی اور لوک گیتوں سے بخوبی واقف تھے۔اس بارہ ماسے کا آغاز اساڑھ مہینے سے ہوتاہے۔اس کی ابتدا حمد و نعت کے بغیر سیدھے ماہ اساڑھ سے ہوتی ہے۔ اس میں فراق زدہ برہن کے جذبات و احساسات کی عکاسی منفرد انداز میں کی گئی ہے۔ ساتھ ہی موسمی کیفیات کی منظر کشی نمایا ں ہے۔اس کے علاوہ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اس علاقے کی ریت و رواج کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بارہ ماسہ اردو شاعری کے اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جسے اردو لوک ساہتیہ کی روایت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

بارہ ماسہ رنج:اس بارہ ماسے کے مصنف کا نام کیا ہے اس کی تصدیق نہیں ہوتی، البتہ ان کا تخلص رنج تھا۔اس بارہ ماسے کی شروعات حمد و نعت سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماہ اساڑھ کے درد و غم کی کیفیت کا بیان ملتا ہے۔ کچھ دوسرے بارہ ماسوں کے مصنفین کی طرح رنج کو بھی موسمی منظر نامے پیش کرنے میں اتنی دلچسپی نہ تھی جتنی انھیں ایک برہن کے جذبات کی عکاسی کرنے میں تھی۔موضوعات سبھی بارہ ماسوں کے ایک جیسے ہیں لیکن ہر ایک کا پیش کرنے کا انداز مختلف ہے۔ اس میں ایک لڑکی جس کی شادی نو عمری میں کر دی جاتی ہے لیکن جب جوان ہوتی ہے تو اس کا پیا پردیس میں ہوتا ہے۔ اسی کی تلاش میں وہ’اک تارا‘ لے کرنکل پڑتی ہے۔اگر زبان و بیان کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اردو کے نئے پن سے بہت قریب ہے۔رنج کو ہندی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس کلام میںہندی اور فارسی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھی تمام خوبیوں کی وجہ سے بارہ ماسہ رنج کوا ردو کی بہترین ادبی کاوشوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

بارہ ماسہ مقصود:اس بارہ ماسے کاتعارف مصحفی نے اپنے تذکرے’ تذکرۂ ہندی‘ میں کیا ہے جس میں انھوں نے مقصود کو ایک بازاری شاعر لکھا ہے۔ مصحفی کے علاوہ اردو ادب میں مقصود کا ذکر بہت کم شعرا نے کیا ہے۔مقصود نے اپنا یہ بارہ ماسہ اپنے دوستوں کی فرمائش پر لکھا ہے۔مقصود کا یہ بارہ ماسہ برہن کی جذبات نگاری، معاشرتی حقیقت پسندی اور موسم کی منظر کشی کے لحاظ سے ایک بہترین شعری کارنامہ ہے۔اس کے علاوہ اس میں عام فہم زبان و بیان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر بارہ ماسے کے ادبی محاسن کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم کارنامہ ہے۔

اردو ادب میں بارہ ماسہ لکھنے والوں کی فہرست مختصر ہے۔ درج بالا بارہ ماسوں کا اختصار سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے اہم بارہ ماسوں کے نقوش ملتے ہیں ان میں’بارہ ماسہ دین محمد سنگھ‘، ’بارہ ماسہ سید محمد یاسین احمد‘، ’ بارہ ماسہ خیر شاہ‘ اور’بارہ ماسہ سادھن‘ اہمیت کے حامل ہیں۔اس کے علاوہ کچھ ایسے بارہ ماسوں کا پتا چلتا ہے جن کے متن دستیاب نہیں ہیں۔ان میں بارہ ماسہ اکرم رہتگی، بارہ ماسہ ریحان اہم ہیں۔اردو محققین کی تحقیقی کاوشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے بارہ ماسے بھی دستیاب ہوئے ہیں جن کی زبان و بیان اردو کے بارہ ماسوں سے قدرے مختلف ہے۔ ان میں بارہ ماسہ خیرا شاہ، بارہ ماسہ عاشق رسول، بارہ ماسہ الٰہی بخش، بارہ ماسہ قاصد، بارہ ماسہ رام چندر، بارہ ماسہ بینی مادھو اور بارہ ماسہ ظالم سنگھ اہم ہیں۔ عہد حاضر میں اگر دیکھا جائے تو چند بارہ ماسے ہی تحریر کیے گئے ہیں۔اردو میںعوامی شاعری کی جو روایت رہی، ان میں بارہ ماسے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس روایت کے مطالعے سے علاقائی تہذیبوں،روایتوں اور مقامی بولیوں سے سماجی رشتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ انھی تمام خوبیوں کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترویج وترقی میں بارہ ماسے کا اہم کردار رہا ہے مگر عہد حاضر میں اس صنف کی طرف بہت کم توجہ دی گئی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

کتابیات

  1.       اردو میں بارہ ماسہ کی روایت: مطالعہ و متن، ڈاکٹر تنویر احمد علوی نئی دہلی، 1988
  2.     شمالی ہند کی بولیوں اور بھاشاؤں میںبارہ ماسہ کی روایت: ڈاکٹر تنویر احمد علوی، نئی دہلی، 2005
  3.      تنویر احمد علوی کا جہانِ معانی جلد اول: ڈاکٹرثمر جہاں، نئی دہلی       2017
  4.      بارہ ماسے کی جمالیات : شکیل االرّحمن،نئی دہلی ، 2012
  5.      متاع بارہ ماسہ: الطاف حسین ندوی، علی گڑھ ، 1979
  6.      بارہ ماسہ نیہہ: سید نذرالحسن قادری، رامپور یو پی، 1974  
  7.      بارہ ماسہ مرد بیوگ: لالہ ممن لعل، نئی دہلی، 1895
  8.      افضل کا بارہ ماسہ جدید تحقیق کی روشنی میں:نظامی پریس لکھنؤ، لکھنؤ،1989
  9.      بارہ ماسہ سندر کلی

Dr. Imran Ahmad

Lecturer, Dstrict Institute of Education and Training Ikauna, Shrawasti

District Shrawasti-271845

Mob-9652559916, 9511435693

Email-imranhcu13@gmail.com

قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ‘اردو فکشن میں تقسیمِ ہند کا بیانیہ’ کے عنوان سے آن لائن مذاکرہ

 

سماجی منافرت کو دور کرنے میں ہمیشہ تخلیق کاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے:پروفیسر شیخ عقیل احمد

 نئی دہلی:قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ‘اردو فکشن میں تقسیم ہند کا بیانیہ’ کے عنوان سے آن لائن مذاکرے کا اہتمام کیا گیا،جس میں ملک کے اہم فکشن نگاروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔مذاکرے کے آغاز میں کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے شرکائے مذاکرہ اور  مہمانوں کا استقبال کیا اور موضوع کا تعارف کرواتے ہوئے تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی منافرت اور ادب اور فکشن میں اس کی عکاسی پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے موقعے پر جو نفرت مختلف قوموں کے درمیان پیدا ہوئی تھی اس کا سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر  آج بھی جاری ہے۔ایسے میں جس طرح ماضی میں ہمارے فکشن نگاروں اور تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کی رہنمائی کی کوششیں کی تھیں، اسی طرح آج بھی ملک کے تخلیق کاروں اور دانشوروں کی ذمے داری ہے کہ وہ بہتر  اور انصاف پرور سماج کی تشکیل کے سلسلے میں غور و خوض کریں اور اپنی تخلیق و تدبیر کے ذریعے اس حوالے سے مطلوبہ کردار ادا کریں۔ شیخ عقیل نے کہا کہ آج کا موضوع گرچہ بہت پرانا ہے، مگر بعض اعتبار سے اس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے، اسی لیے ہم نے اس پر مذاکرے کا فیصلہ کیا ہے۔آج  کے ہمارے مہمانوں میں ہندوستان کے نمایاں فکشن نگار اور فکشن کے ناقدین شامل ہیں،اس لیے مجھے امید ہے کہ ان حضرات کی گفتگو  سے موضوع کو سمجھنے اور ہندوستان ہی نہیں، تمام برصغیر میں وسیع تر سماجی ہم آہنگی کے قیام میں ہمیں رہنمائی ملے گی۔

مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے پروفیسر خالد اشرف  نے کہا کہ تقسیم ہند ایک سدا بہار موضوع ہے،جس پر  ناول اور افسانے دونوں بڑی تعداد میں لکھے گئے ہیں۔البتہ جو بڑے تخلیق کار ہوئے ہیں انھوں نے اس سانحے کو وسیع تر تناظر میں دیکھا اور اس کے تمام تر سماجی و سیاسی اسباب و عوامل کو پیش نظر رکھ کر اس موضوع کو برتا ہے،جبکہ چھوٹے تخلیق کاروں نے اپنے خاص مقصد و جذباتیت کے تحت کہانیاں لکھی ہیں۔ ناول نگار شبیراحمد نے کہا کہ یہ درست ہے کہ تقسیم ہند کے سانحے پر اردو میں بہت سے ناول اور افسانے لکھے گئے، مگر یہ سانحہ جتنا بڑا تھا اور اس کا دائرہ جتنا وسیع تھا،اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے تقسیم ہند کے تمام پہلووں کا احاطہ کرلیا ہے،اب بھی اس کے بعض گوشوں پر اچھا فکشن لکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح نئی نسل سابقہ تخلیقی نمونوں کو سامنے رکھ کر نئی راہ اختیار کرسکتی ہے اور پرانے موضوعات و مسائل کے ساتھ نئے مسائل کا بہتر تخلیقی اظہار کر سکتی ہے۔ سینئر تجزیہ نگار شمیم طارق  نے  کہا کہ یہ موضوع غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اگر عنوان  اردو فکشن کا بیانیہ کے بجائے المیہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیوں کہ اردو فکشن میں تقسیم ہند کے واقعات المیہ کے طورپر ہی بیان کیے گئے ہیں،مثال کے طورپر بیدی کے افسانے لاجونتی میں انسانی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے۔ معروف فکشن نگار پروفیسر غضنفر علی نے کہا کہ تقسیم ہند کے سانحے پر لکھے گئے فکشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے اس کی مدد سے تقسیمِ ہند  کی پوری تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔ہمارے ناول نگاروں نے تقسیم کے اسباب و محرکات اور اثرات کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔جہاں تک بیانیے کی بات ہے تو زیادہ تر اردو ناولوں کا بیانیہ مستحکم اور اچھا ہے، جبکہ کچھ ناولوں کا بیانیہ کمزور ہے ۔انھوں نے اس کی کچھ مثالیں بھی پیش کیں۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم ہند کے سانحے کو جن لوگوں نے  بذات خود جھیلا اور بعد میں انھوں نے اس پر لکھا انھوں نے اسے المیے کے طورپر پیش کیا،جبکہ جو لوگ اس واقعے سے خود نہیں گزرے انھوں نے اسے محض ایک تاریخی واقعے کے طورپر پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ  ہجرت کے پچاس سال بعد ان مہاجروں کی  نفسیات کیا ہے،اس پر بھی ہمارے فکشن نگاروں کو توجہ دینا چاہیے۔انھوں نے زوردیا کہ سماجی اعتبار سے تقسیم سے پہلے ہم جس طرح مشترکہ قدروں سے بندھے ہوئے تھے،خطے میں اس احساس کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں پروفیسر شیخ عقیل احمد کے اظہارِ تشکر کے ساتھ یہ مذاکرہ اختتام پذیر ہوا۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر زین شمسی نے انجام دیا۔ مذاکرے میں  کونسل کے اسٹاف کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم و ادب نے فیس بک لائیو کے ذریعے شرکت کی۔

 (رابطہ عامہ سیل)

30/8/23

اردو فکشن پر بہار کے علاقائی اور تہذیبی اثرات: شہاب ظفر اعظمی

 اردو تنقید کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ ادب کے لیے کوئی موضوع نہ پرانا ہوتاہے اور نہ مقامی۔ہر موضوع اپنے برتاؤکے اعتبار سے نیا اور ہر مسئلہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے عالمی ہوسکتاہے۔لیکن اکائی کی صورت میں کسی خاص علاقے کی اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت ہوتی ہے۔ اس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جن کے تار وہاں بسنے والے ہر فرد کی سانسوں کے تار سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ زمانۂ قدیم سے صوبہ بہار تہذیب وتمدن،عظیم ثقافتی وراثت، علوم وفنون اور عرفان وآگہی کا سرچشمہ رہا ہے۔ بدھ،سیتا اور شرف الدین یحییٰ منیری کی یہ دھرتی جہاں عالم انسانیت کو امن و عدم تشدد کا پیغام دیتی رہی،وہیں یہاں کے باشندے غربت،افلاس،بھیک،بے روزگاری، بیماری،جہالت اور توہم پرستی کی دھند میں گم اپنے وجود کی تلاش میں سرگرداں رہے۔یہ دلچسپ اور متضاد صورت حال اردو ادیبوں بالخصوص فکشن نگاروں کے لیے موضوع و مواد کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ رہی ہے۔اردو کی پہلی خاتون ناول نگار ’رشیدۃالنسا ‘ ہوں یا جدید دور میں اردو ناول کو نشاۃ ثانیہ سے ہم کنار کرنے والے سہیل عظیم آبادی، عبدالصمد،غضنفر اور ذوقی۔ان سب کی تحریروں میں بہار کے معاشرتی،تہذیبی اور ثقافتی امتیازات کو بہ آسانی محسوس کیا جاسکتاہے۔زبان وبیان،انداز رہائش،طرز معاشرت، رسوم ورواج اور مسائل کے اعتبار سے بہار ملک کے دوسرے صوبوں سے بہت حد تک الگ دکھائی دیتاہے جسے آزادی کے بعد سے آج تک ہر سروے میں ایک پسماندہ اور پچھڑا ہوا صوبہ بتایا گیاہے۔معاشی اور تعلیمی پسماندگی نے اسے ایسے مسائل سے دوچار کیاہے جو اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی اسے حیرت انگیز طور پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔اردو فکشن نگاروں نے جن میں اکثریت کا تعلق اِسی پسماندہ صوبے سے رہا ہے، بہار کے مسائل پر کہانیاں لکھتے ہوئے یہاں کی معاشرتی، تہذیبی اور علاقائی خصوصیات کو مدنظر رکھاہے۔ آزادی سے قبل رشیدۃ النسا   اپنے ناول ’اصلاح النسا ‘ اور شاد عظیم آبادی اپنے ناول ’ولایتی کی آپ بیتی ‘ میں بہار کی تہذیبی اور معاشرتی تصویریں اگرچہ بڑی تفصیل سے پیش کرچکے تھے مگر آزادی کے بعد سہیل عظیم آبادی، اختر اورینوی، شین مظفر پوری وغیرہ کے ذریعے جس طرح سے مقامی مسائل و موضوعات پر کہانیاں لکھی گئیں اُن میں بہار کے ثقافتی اورتہذیبی شیڈس زیادہ تنوع اور رنگارنگی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔مثلاً سہیل عظیم آبادی کے ناولٹ’بے جڑ کے پودے‘ یا افسانوی مجموعوں ’الاؤ‘ اور ’چارچہرے‘ کو نگاہ میں رکھیے۔ الاؤ اور چار چہرے کے متعدد افسانوں میں سہیل عظیم آبادی نے بہار کے گاؤں کے سیدھے سادے ماحول اور کرداروں کو نہایت چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ اُن کے شاہکار افسانے ’الاؤ‘ کی ساری فضا، اس کا نقطۂ عروج اور انجام ایک الاؤ سے مشابہ ہے۔ گاؤں کے سیدھے سادے کسان، ہندو اور مسلمان  زمیندار اور پٹواری کے ظلم اور ان کی گھناؤنی سازشوں سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ الاؤ کے گر د بیٹھ کر اس سے نجات کی تدبیر سوچتے ہیں۔لیکن دھیرے دھیرے الاؤ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور ان کی قوت مقاومت بھی دم توڑ دیتی ہے۔سہیل نے اس افسانے میں بغیر کسی اخلاقی اپدیش یا رنگ آمیزی کے بہار کے گاؤں کے دکھ سکھ کی کہانی بیان کی ہے۔ گاؤں کی فضا اور ماحول میں جو حقیقت نگاری کی گئی ہے وہ اسے ایسا دائمی رنگ دے دیتی ہے کہ آج بھی وہ رنگ بہار کے گاؤں میں دکھائی دیتاہے۔ناولٹ’بے جڑ کے پودے‘ میں اگرچہ شہر رانچی اور عیسائی مشنری کی فضاہے مگر وہاں بھی سہیل نے ایسی ٹوپو گرافی کی ہے کہ نہ صرف چھوٹا ناگپور کی تہذیب بلکہ عیسائی طبقے کی معاشرت اوران کی تہذیب و ثقافت کے متعدد پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ چرچ کا میدان، ڈورمیٹری،مشن کا یتیم خانہ،مشن کمپاؤنڈ، عیسائیوں کی تہذیبی و تمدنی زندگی،چرچ اور کمیونٹی کے مسائل،عیسائی مذہب کی تبلیغ واشاعت، رومن کیتھولک فیملی اور عیسائی کردار صوبہ بہار میں رچے بسے ایک مخصوص طبقے کی سائیکی،زندگی اور تہذیب کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں۔

سہیل عظیم آبادی کی طرح ہی اختر اورینوی نے بھی اپنے افسانوں اور بالخصوص ناول ’حسرت تعمیر‘ میں آدی باسیوں کی زندگی اور چھوٹا ناگپور کی ٹوپو گرافی کرکے ایک خاص معاشرت سے اردو فکشن کو آشناکیاہے۔ چھوٹا ناگپور مشترکہ بہار کا ایک سرسبز وشاداب حصہ ہے جہاں فطرت حسین مناظر، خوبصورت جھرنے،سرسبز پہاڑیاں قدرتی حسن کا لاجواب نمونہ پیش کرتی ہیں۔ اختر اورینوی نے وہاں کے قدرتی حسن کے ساتھ آدی باسیوں کی قبائلی تہذیب،ان کی غربت و افلاس،رسم و رواج،رہن سہن اور پسماندگی کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہاں کی تہذیب و ثقافت کی تصویر کشی کے لیے جزئیات کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے وہ اردو کے کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔حسرت تعمیر کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے اندر اپنے عہد کی بہت سی دھاراؤں،رجحانوں اور تحریکوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔اس میں جہاں روس اور چین کے انقلاب اور مسولینی کے زوال کے تذکرے ہیں وہیں بھارت چھوڑو تحریک کے لوازمات،چرخہ اور کھدر کی بحث،گاندھی جی کا نقطۂ نظر، انگریزوں کے اکھڑتے قدم،ان کی سازشیں اور تقسیم ہند کی باتیں بڑے حقیقی اور فطری انداز میں پیش کی گئی ہیں۔

اختر اورینوی کی اہلیہ شکیلہ اختر کا نام بھی اس سلسلے میں اہم ہے کہ ان کاپورا افسانوی کینوس بہار اور اس کے تہذیبی اور ثقافتی منظرنامے پر محیط ہے۔’بہار‘ کو مرکز میں رکھ کر شکیلہ نے جتنے افسانے تحریر کیے ہیں کسی اور افسانہ نگار نے نہیں کیے۔ان کا سب سے مشہور افسانہ ’ڈائن‘ ہی اگر غور سے پڑھا جائے تو یہ اپنے دور کے کئی مسائل اور معاملات سموئے ہوئے ہے۔صوبہ بہار ایک پسماندہ اورپچھڑے علاقے کے طور پر جانا جاتا رہاہے،جہاں تعلیمی پسماندگی نے توہم پرستی،ضعیف الاعتقادی، دوچہرگی، غربت و افلاس اور طبقاتی کشمکش جیسی برائیوں کو سماجی زندگی کا حصہ بنادیاہے۔اِس کہانی کی نائکہ ایک بوڑھی عورت اور نہایت کریہہ شکل و صورت والی مچھوائن ہے جس کا پختہ رنگ اسے مزید خوفناک بنادیتاہے۔بڑھیا اپنی دیورانی کے کہنے پر ایک دن گاؤں کے رئیس کے گھر صبح صبح اْسے بقایا پیسے مانگنے آدھمکتی ہے۔حویلی کی مالکن کا چند ماہ قبل انتقال ہو چکا ہے۔گھر کی بیٹیوں کو اس حساب کتاب کا علم نہیں، لہٰذا وہ اسے نہ صرف دھتکار دیتی ہیں بلکہ اس پر پیسہ اینٹھنے کا الزام بھی عائد کردیتی ہیں۔اسی درمیان گھر کی نوکرانیاں یہ انکشاف کرتی ہیں کہ یہ عورت ڈائن ہے اور ابھی تک نہ جانے کتنے لوگوں کا کلیجہ بھون کر کھاچکی ہے۔دوسری جانب بڑھیا ان سب سے بے پروا مسلسل اپنی فریاد رکھے جارہی تھی:

’’بی بی مچھلی کے دام۔دام باکی ہے۔اوہی لا ایلی ہے۔اِگارہ آنہ پیسہ اور پہیلے کے سواگو  روپیہّ‘‘

بالآخر اس کی دیورانی کو بلایا جاتاہے جو بتاتی ہے کہ بڑی مالکن نے چند ماہ قبل پٹنہ جانے سے پہلے ڈیڑھ سیر مچھلی خریدی تھی اور عجلت میں پیسے نہ دے سکی تھی۔ اس کی تصدیق گھر کی ملازمہ کھلائی بوا بھی کرتی ہیں۔ اس پورے تماشے کے بعد گھر کی عورتیں سوا روپیہ بڑھیا کے آگے پھینکتے ہوئے قصہ ختم کرنے کی بات کہتی ہیں۔لیکن اْس بڑھیا کو جیسے ہی یہ علم ہوتا ہے کہ بقایا بڑی مالکن کے ہاتھوں کا ہے،فوراً پیسہ واپس کردیتی ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود واپس نہیں لیتی۔اْسی کے الفاظ سنیے:

’’نا بیٹی نا۔ہائے اب دوسر کے ہاتھ سے ان کر باکی پیسہ نا تو لیب اور نا لیوے دیب۔ہائے ہمر مالکینی تو ہمر مائی باپ تھے لا۔ای سوا گو روپیہ سے دن نا کٹ جائی‘‘

خاص بہار کی دیہی معاشرت کی عکاسی کرتا یہ افسانہ نصف صدی کے بعد بھی اپنی معنویت کے اعتبار سے تروتازہ ہے کیوں کہ ڈائن نام دینا،کلیجہ بھون کر کھانے کا الزام لگانا،ایک خاص طرز کی زبان بولنااور طبقاتی تفریق جیسے عناصرآج بھی بہار کے دیہی سماج کا حصہ ہیں۔بہار کے ایسے بہت سارے مسائل پر شکیلہ اختر نے خاص بہاری اسلوب اور بہار ی پس منظر میں افسانے لکھے ہیں جنھیں ایک دن، نفرت، دھندلکا، موسی اور شاید جیسی کہانیوں میں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔نوجوان ناقد ڈاکٹر ابوبکر رضوی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ’’جس نے شکیلہ اختر کے افسانے نہیں پڑھے اس نے بہار نہیں دیکھا۔‘‘

ذات پات، طبقاتی کشمکش اور چھواچھوت جیسی سماجی برائیوں کی جڑیں بہار میں گہری پیوست ہیں۔ اس مسئلے پر شکیلہ اختر،شین مظفرپوری،ذکی انور سے موجودہ عہد کے عبدالصمد،صغیر رحمانی،غضنفر اور احمد صغیر تک مسلسل کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ میں یہاں مثال کے طور پر صرف شین مظفرپوری کے ایک افسانے ’کسی سے کہنا نہیں‘ کا ذکر کرناچاہتاہوں۔

یہ افسانہ ’بہار‘ کے موجودہ سماج کی ایک تلخ حقیقت کی بھر پور عکاسی کرتاہے اور یہ حقیقت بہار کی زمین میں اس قدر مضبوط جڑیں پیوست کرچکی ہے کہ ہندوؤں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ذات پات کی تفریق نے پاؤں پسار لیے ہیں۔شین مظفر پوری جو زمینی سچائیوں سے باخبر تھے انھوں نے بہاری معاشرے میں موجود اس برائی پر کھل کر اظہار کیاہے۔

شکیلہ اخترکی طرح ہی شین مظفرپوری نے بھی اپنے افسانوں میں بہار کی معاشرت اورتہذیب کو کھل کر برتا ہے۔ اسی لیے بہار کی سماجی زندگی میں پھیلی ہوئی بہت ساری برائیاں ان کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔مثلاً حلالہ، طلاق، عقدبیوگاں پرافسانہ’حلالہ‘،جہیز کے موضوع پرافسانہ ’جہیز ‘،کثرت ازدواج پر’سکنڈ ہینڈ وائف‘،کثرت اولاد پر ’بھگوان کی اِچھا‘ ملاوٹ اور کالابازاری پر ’ ثبوت‘ جیسے افسانے بہار کوزندہ تصویروں کی شکل     میں ہمارے سامنے پیش کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔

تعلیم ہر معاشرے کاایک اہم جزو ہے جو اُس معاشرے کی  تہذیبی، ثقافتی اور دانشورانہ پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔بہار کے تعلیمی نظام اورصورت حال کو موضوع بناکر کئی افسانوں اور ناولوںمیں گفتگوکی گئی ہے مگر خصوصی طور پر دوناول ایسے لکھے گئے ہیں جن کا موضوع ہی بہار کا تعلیمی نظام ہے۔بولومت چپ رہو از حسین الحق اور مہاتما از عبدالصمد۔حسین الحق کے ذریعےبولومت چپ رہو‘ میں پرائمری و مڈل اسکول کی تعلیم اور سکنڈری لیول پر ایجوکیشن افسران کی نوکر شاہی سے بہار میں تعلیمی بدنظمی اورتعفن زدہ تعلیمی نظام کواکسپوز کیا گیا ہے جوبڑی حدتک حقیقت پرمبنی ہے۔ اس لیے اس ناول کو ہم بہاری سماج کاآئینہ یاسماج کانقیب کہہ سکتے ہیں۔پہلے اچھا عہدہ پانے کے لیے علمی صلاحیت اورقابلیت کی شرط تھی اوربعدمیں پیسے کی ضرورت پڑی اوراب کسی محکمے میں کام کرانے کے لیے یاجگہ پانے کے لیے نہ علمی صلاحیت کی ضرورت ہے اورنہ قابلیت کی۔کچھ دنوں تک پیسے کی ضرورت پڑی۔ پھر پیسے کے ساتھ سفارش کی اور اب جب سے ذات پات کی لعنت آئی تو اس شخص کی سفارش چاہیے جس ذات کا حاکم ہو۔گویاتعلیمی نظام کے بہانے ناول نگارنے بہار میں کرپشن، رشوت خوری، اقرباپروری  اورتعلیمی زبوں حالی کی ایسی تصویرپیش کی ہے کہ اس میں ہمارا پوراسماج برہنہ نظر آتا ہے۔ عبدالصمد کا ناول ’مہاتما‘ بہارمیں اعلیٰ تعلیم کی صورت حال کاعکاس ہے۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ بہار میں اعلیٰ تعلیم اقتدار پرستوں، تجارتی ذہن رکھنے والوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس صورت حال کا ذمے دارکون ہے؟ سیاستداں، والدین یاخود اساتذہ؟ ناول اس تشویشناک صورت حال کاکوئی حل پیش نہیں کرتابلکہ اس کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے اور مسئلے کی شدت کا احساس دلات اورا ذہنوں پر ایک سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔ ناول کاعنوان ’مہاتما‘ بے ایمان، ضمیرفروش،گھناؤنے کردار کے حامل اساتذہ کے لیے طنز کے طورپراستعمال کیا گیاہے۔

بہار میں فرقہ وارانہ فسادات یہاں کے سماجی اسٹرکچر کو وقتاًفوقتاً مجروح کرتے رہے ہیں۔ یہ بہار کی معاشرت اورتہذیب پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ بہارسے تعلق رکھنے والے اکثرفکشن نگاروں نے اس موضوع پراپنے کرب کا اظہارکیا ہے۔ شکیلہ اختر، شین مظفرپوری، سہیل عظیم آبادی ہوں یا دور حاضرکے عبدالصمد، ذوقی اور حسین الحق۔ سب نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں مشترکہ تہذیب کو تار تار کرنے والے ایسے فسادات اور ان کے پس پشت کارفرما عناصرکواظہارکا حصہ بنایاہے۔ عبدالصمد کا ناول ’مہاساگر‘ ذوقی کا ’بیان‘ کوثرمظہری کا ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ علی امجد کا ’کالی ماٹی‘ اور محمدعلیم کا ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ بالخصوص آنکھ جو سوچتی ہے، اور میرے نالوں کی گمشدہ آواز، مکمل طور پر بہار کے دوشہروں کے فسادات پرمبنی ہیں۔ ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ہر چندکہ بہار کے شہرسیتامڑھی میں برپاہندومسلم فساد اورفرقہ وارانہ منافرت کے پس منظر میں لکھاگیاہے مگرفکری طورپر ایسے سوالات اٹھاتا ہے کہ فساد کامسئلہ پورے عالم انسانیت کامسئلہ بن جاتاہے۔دنیا کی ہر بڑی طاقت کمزور طاقت کوروند رہی ہے،حیوانیت کاننگا ناچ عروج پرہے۔بہار جیسے صوبے کا عام سچا اورسیدھا سادانوجوان انتشار اور کسادبازاری  کے کنارے بدلتی زندگی کودیکھ کھڑا سسک رہاہے۔کوثرنے فسادات کی تفصیلات اورمناظر بڑی محنت اورخوش اسلوبی سے پیش کیے ہیںجوحواس پرچھاجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ محمدعلیم کاناول ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘ اِسی موضوع پرنسبتاً بڑے کینوس پر لکھا گیا ہے۔ کہانی بہار کے ایک شہر سے شروع ہوتی ہے مگر اس کادائرہ اتنا وسیع ہو جاتاہے کہ وہ پورے ہندستان پر منطبق ہوجاتی ہے۔یہ ناول زندگی کااحتجاج ہے، ظلم بربریت اورخوف کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد کی آوازہے۔ ناول کادوسرا پہلو بہار کی معاشرت، گاؤںکی زندگی اور بہاری باشندوں کی نفسیاتی پیش کش ہے۔ان کامشاہدہ ہے کہ بہار میں تعلیمی پسماندگی اورمعاشی بدحالی حددرجہ ہے۔ خاص کرمسلمانوں کے یہاں تو اس کا فیصدصفرکے برابر ہے۔ یہ پسماندگی نہ صرف ان کے اجتماعی مسائل کو ہوا دیتی ہے بلکہ انھیں استحصال کاشکار بھی بناتی ہے۔یہ طبقہ کھانے پینے اورکھیتوںمیںمزدوری کوہی زندگی کا اولین مقصد سمجھتا ہے۔ یہ پسماندہ طبقہ بدلتی زندگی اور انقلاب سے دوچار سماج سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتا تو خود کو مختلف برادریوں، بولیوں، مسلکوں اور رسموں میں محبوس کرکے مذہب اور تہذیب وثقافت کی گمشدگی کا رونا روتاہے۔

آخر میںمشترکہ بہارکے تین ناولوں کا ذکر ناگزیر سمجھتا ہوںجو مکمل طور پر علاقائی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔اول ’فائر ایریا‘دوم ’ تخم خوں ‘ اور سوم ’کالی ماٹی‘۔ ’کالی ماٹی‘ علی امجد کا ناول ہے جس میں انھوں نے صنعتی شہر جمشید پور کے کارخانے اور اس سے متعلق افراد کی زندگی کو موضوع بنایاہے۔کارخانے میں مختلف جگہوں سے آکر بسنے والے افراد سے کام کرتے ہیں اس لیے فرقہ واریت،طبقاتی کشمکش اور مختلف تہذیبی و ثقافتی اقدار کے نقوش اس ناول میں نظرآتے ہیں۔ناول سے پہلے علی امجد کی پیش کردہ تحریر کا یہ حصہ دیکھیے جس سے موضوع کی ثقافتی و تہذیبی اہمیت کا اندازہ ہو پائے گا:

’’اِس شہر کے ارد گرد سیکڑوں میل میں آدی باسی، سنتھال، ہو، منڈاری، لوہے میگنیزتانبے اور سونے کی زمین میں دفن خزانوں کے امین اب بنگالی، بہاری، اڑیہ، مدراسی، پنجابی، پٹھان، ہندواور مسلمانوں کے ساتھ جمع ہو کر ایک نئے معاشرے کا تانا بانا بن رہے ہیں۔اپنی محبتوں، اپنی نفرتوں، اپنی علاحدہ علاحدہ انفرادی اور اجتماعی پہچان ا پنے ساتھ لیے قدیم قبائلی نظام سے براہ راست صدیوں کی جست لگا کر بیسویں صدی  میں صنعتی زندگی زندگی کی گہما گہمی اور افراتفری میں کھوئے ہیں۔‘‘ 

(ایک قرض ماضی کا)

یہ ایک ایسے مخلوط معاشرے کی کہانی ہے جس میں مختلف مذاہب اور مختلف زبان کے لوگ محبت اور محنت کے بل بوتے پر خوشی اور غم بانٹتے ہیں اور شہرآہن کو ایک منفرد تہذیبی و ثقافتی شناخت عطا کرتے ہیں۔

الیاس احمد گدی کا ناول ’فائر ایریا ‘ بھی ایک ایسے ہی کارخانے کو مرکز میں رکھ کر لکھا گیا ہے مگر ’کالی ماٹی‘ کے مقابلے میں زبان وبیان،علاقائی تہذیب اور موضوع کے لحاظ سے زیادہ ہمہ گیر اور حقیقت پسندانہ ہے۔کوئلے کے کارخانے میں کام کرنے والے مزدوروں، اس سے وابستہ ٹھیکے داروں، سیاست دانوں اور غنڈے بدمعاشوں کی زندگی اور ان کے اعمال کے علاوہ آدی باسیوں، پسماندہ طبقوں اور بہار کے مختلف شہروں سے کام کی تلاش میںآئے غریبوں کے استحصال کا قصہ الیاس احمد گدی نے بڑی سچائی کے ساتھ ناول کی شکل میں پیش کردیاہے۔

فائر ایریا‘کا محور جس صنعتی و سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہے وہاں کے مزدور منظم سیکٹر کے زمرے میںآتے ہیں اس لیے ٹریڈ یونینزم ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ناول کا یہ پہلو ایسا ہے جو اب تک کہیں پیش نہیں ہوا تھا۔ الیاس احمد گدی نے ٹریڈ یونین کی سیاست کی مختلف شکلیں، اس کے مختلف رْخ اور اس کے زندگی و سماج پر اثرات کو بڑی مہارت سے پیش کیاہے۔اس پیش کش میں انھوں نے کرداروں کی تشکیل،پلاٹ کی بنت اور زبان وبیان کو پوری طرح بہار کے مختلف علاقوں سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ چونکہ ناول کے کردار آرہ، چھپرہ، بلیا، دربھنگہ، مگدھ، متھلا اور بھوجپور جیسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں،ناول نگار نے نہ صرف ان کے عادات و اطوار،طرز رہائش میں فرق دکھایا ہے بلکہ ان کی زبان،لب و لہجے اور محاورات میں بھی حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ فائر ایریا کی تخلیق وہ شخص کررہا ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود،زبان،ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے۔علاقائی زبان کی چند مثالیں دیکھیے:

’’سنلا ہودلری کے مائی اب تو املی کے پیڑ میں آم لاگی‘‘

دوسری بولی۔ ’’ہاں بہن نالی میں گنگا بہے لاگل ای کلجگ ما‘‘ (ص28)

’’میاں کے گھر کا بھات بھکوس کر واپس ہوا تو من ایک دم ہلکا ہو چکا تھا‘‘ (93)

’’چار اکشرکیا پڑھا دیے کہ ایکدم سے پنڈت ہوگئے مطلب یہ کہ گروگڑرہ گیا اور چیلا چینی ہوگیا۔‘‘  (ص79)

’’کاہو کو لیری میں کام کرے کے من با کہ نا؟ کول وری کے گینتا جھوری تک ہم کو پہچانتا ہے کتنا دن ہو گئیل ہو؟ جب کچھ نیکھے جانت تو اوچِھنری کے بھائی سنگ دوستی کیسے ہو گئیل۔‘‘  (ص48)

ایسے مخصوص علاقائی الفاظ اور محاورے کثرت سے استعمال ہوئے ہیں جو مخصوص معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دونا، ماں للوری، بھات، چوکھا، جھورا، پوکھر، گمٹی، کامِن، ملکٹا، گانٹھ کا پورا، دیہہ جرا کے پوت، ڈھبری، بھکوسنی، بترو،منہ جھونسا،مہارو وغیرہ بہت سے الفاظ و تراکیب ہیں جن کا مطلب سیاق وسباق سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔یہ الفاظ مکمل طور پر بہار کے مختلف علاقوں کی زبان اور تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔

صوبہ بہار کا ایک بڑا حصہ طبقاتی جنگ یعنی دلت اور اعلیٰ ذات کی سماجی جنگ لڑتا رہا ہے۔ گذشتہ تین چار دہائیوں میں اس جنگ نے صورت حال خاصی حدتک بدل دی ہے۔ بہار میں ’دلت تحریک ‘ اور دلت صورت حال کو مدنظر رکھ کریوں تو سبھی فکشن نگاروں نے لکھا ہے مگر جن لوگوں نے اس پر زیادہ لکھا ہے ان میں جابر حسین، غضنفر، احمد صغیر اور صغیر رحمانی کے نام قابل ذکر ہیں۔جابر حسین کی ڈائری ’سن ائے کاتب‘ میں اکثر واقعات بہار کی دلت آبادی اور اس کے درد و کرب کی عکاسی کرتے ہیں۔مالن مائی،کلوا کہار،رام سینہی،گاڑھو رام،رام روپ، مرنی،مالتی،جمنا نائی،شانتی دیوی وغیرہ ایسے کردار ہیں جو بہار کی اْس معاشرتی سطح کو اجاگر کرتے ہیں جس پر ہماری نگاہ بھی نہیں جاتی۔

احمد صغیر نے بھی دلتوں کے ساتھ ہونے والے اشرافیہ طبقات کے سوتیلے سلوک کو شدت سے محسوس کیا ہے اس لیے اردو  میں شاید پہلا ایسا مجموعہ انھوں نے پیش کردیا جو مکمل طور پر دلت کہانیوں پر مشتمل ہے۔احمد صغیر کی نگاہ میں بہار کے مگدھ،بھوجپور،متھلا وغیرہ کے علاقے رہے ہیں جہاں یہ تفریق نسبتاً زیادہ نظرآتی ہے۔

مکمل طور پر دلت مسائل کو موضوع بنا کر اردو میں دو ناول لکھے گئے ہیں۔ایک غضنفر کا ’دویہ بانی‘ اور دوسرا ’صغیر رحمانی کا ’تخم خوں‘۔دویہ بانی کا تعلق بظاہر صوبہ بہا رسے نہیں ہے مگر جس طرح کے مناظر،لفظیات اور جزئیات سے ہمارا واسطہ پڑتاہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی نگاہ میں بہا ر کے ہی علاقے اور گاؤں رہے ہیں۔

مگر ناول کی شاعرانہ زبان اور قدیم روایت پر مبنی کہانی کی وجہ سے یہ دلتوں کی معاصر صورت حال کا عکاس نہیں ہو سکاہے۔اس کے مقابلے میں صغیر رحمانی کا ناول ’تخم خوں‘ بہار کے دلت سماج اوران کی معاشرت کو زیادہ حقیقی انداز میں پیش کرتاہے۔جنوبی بہار میں شاہ آباد کا علاقہ بھوجپور ہے جو دھان کی زبردست پیداوار کی وجہ سے ’چاول کا کٹورا‘ بھی کہلاتاہے۔ اِس علاقے میںنکسل موومنٹ اور دلت تحریک کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ صغیر رحمانی نے اس تاریخ کا مطالعہ گہرائی سے کیاہے اور ماضی قریب کے دلت جدوجہد،طبقاتی احتجاج اور اس سے وابستہ سیاست کا مشاہدہ بغور کیاہے۔اس لیے تخم خوں کا ہر صفحہ ان کے مطالعے اور مشاہدے کا عکاس ہے۔انھوں نے دلت معاشرے کو اخباروں او ر کتابوں سے نہیںجانا ہے بلکہ دلت کرداروں کے ساتھ جی کر ان کی سائیکی میں اترنے کی کوشش کی ہے۔

آل احمد سرور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری میں ہوتاہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں اجاگر ہوتی ہے۔‘‘ بہار کی تہذیب و ثقافت کی روح بھی وہاں لکھے گئے فکشن کی مدد سے بہتر طور پر سمجھا جاسکتاہے۔گویا بہار کی ایک ذہنی اور سماجی تاریخ اِس فکشن میں محفوظ ہو گئی ہے۔یہ ناول صرف بہار کا نام استعمال نہیں کرتے بلکہ ان میں ہم صدیوں سے جوجھتے، جدوجہد کرتے انسانوں کی پوری تاریخ دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ طوالت کے خوف سے ایسے بہت سارے ناولوں اور افسانوں کا ذکر نہیں ہو سکا ہے جن میں بہار کے علاقائی اور  تہذیبی اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں ذکی انور، انور عظیم، ظفر اوگانوی، کلام حیدری، قاسم خورشیدوغیرہ کا بھی ذکر کرنا چاہتا تھااور خواتین کے مسائل کے ذکر کے لیے آشا پربھات، ذکیہ مشہدی، قمر جہاں، اشرف جہاں اور نوشابہ خاتون وغیرہ پر بھی گفتگو کرنا چاہتا تھا، اخترآزاد، مجیر احمدآزاد اور خورشید حیات وغیرہ کے نئے موضوعات و مسائل کو بھی گرفت میں لینا چاہتاتھا اور چاہتا تھا کہ شوکت حیات، پیغام آفاقی، ذوقی وغیرہ کے فکشن سے بہار کا عطر کشید کروں، اور بھی باتیں تھیں، اور بھی نکات تھے جنھیں وقت اور صفحات کی تنگی کے سبب چھوڑدینا پڑا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ جائزہ اس کا اعتراف کروانے کے لیے کافی ہے کہ بہار کی علاقائی اور تہذیبی زندگی مذکورہ افسانوں اور ناولوں میں پوری طرح واضح ہوکر سامنے ا ٓتی ہے۔یہ فکشن بہار کی خارجی حقیقتوں اور تجربوں کاہی احاطہ نہیں کرتا بلکہ خارجی وسیلے سے یہاں کے باشندوں کی ذات کے نہاں خانوںمیں اتر کر ان کی خوابیدہ حِس کو بیدار کرنے اور ان کے ساکت وجدان میں تحرک پیدا کرنے کی بھی سعی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے اردو فکشن کا ایک بڑا حصہ فکری و موضوعاتی سطح پر بہار کی زندگی اور معاشرے کے مختلف النوع گوشوں اور جہتوں کا بخوبی احاطہ کرتاہے اوردونوں سطح پر اردو ناول نگاری کے دامن کو وسعت و تنوع سے ہمکنار کرتاہے۔

Dr. Shahab Zafar Azmi

Associate Professor & Head

Department of Urdu

Patna University Patna 800005

drshahabzafar.azmi@gmail.com

Mob;8863968168