نئے ادبی نظریہ سازوں نے ادب کے ان تمام
سکّہ بند معیاروں پر سوالیہ نشانات قائم کیے ہیں جن کے سبب، بالادست فکری اور ادبی
طبقات کو ماضی کے ادبی اظہار(Discourse) میں
مرکزیت اور مثالی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ادب کی روایت میں آفاقی اصولوں کا تصور ہو یا
جاگیر دارانہ مسلمات کی قطعیت ، غالب سماجی اداروں کی اجارہ داری ہو یا پدرانہ نظام
پر قائم سماجی تصورات اور جنسی تفریق کی بالادستی ، اس نوع کے سارے معیارات گزشتہ برسوں
میں شدت کے ساتھ زیربحث آئے ہیں۔ ان مباحث کے ماحصل کے طور پر لسانی، ثقافتی اور جنسی
اکائیوں کی طرف سے روایتی طور پر تسلیم شدہ اصول و معیار کی نفی پر اصرار بڑھ گیا ہے
اور اپنی شناخت کا مسئلہ بنیادی اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ بسا اوقات یہ اصرار تشخص کی
تلاش کے حوالے سے مسلّمہ اقدار پر خطِ تنسیخ کھینچنے کی صورت میں سامنے آیا ۔ تشخص
کی تلاش و جستجو کی اس کوشش نے جنسی تفریق پر قائم معاشرے کے فکری اور ادبی اظہارات
کی بحث کو ادبی مباحث کے مرکز میں لاکھڑا کیا ہے ۔ اس طرح تانیثیت کا مسئلہ نظری اعتبار
سے ایک اہم مابعد جدید مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ ورجینیا وولف سے لے کر سیمون دی بوائر
تک کے درمیانی وقفے میں ادبی درجہ بندی کے جو مباحث سامنے تھے ان کی حیثیت کہیں طبقاتی
اور کہیں نفسیاتی درجہ بندی کی تھی۔مگر ان دونوں دانش ور خواتین کی تحریروں نے معاصر
تانیثی تصورات کی تشکیل جدید کے لیے نئی بنیادیں فراہم کیں۔ یہی سبب ہے کہ مسئلہ، نسائی
شناخت کا ہو، تانیثی نظریے کا یا تانیثی تنقید کا ان کی تحریروں سے کسب ِ فیض کرنے
کی کوشش تقریبا ً ہر نئی کتاب اور تحریر میں دکھائی دیتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو کے حوالے
سے تانیثی ادب کی شناخت کے مسائل من و عن وہ نہیں ہوسکتے جن سے مغرب کے تانیثیت پسند
مصنّفین دوچار ہیں ۔ اس لیے کہ ان کی گفتگو کی اساس نمایاں طور پر مغربی زبانوں کے
فکشن اور شاعری کے نمونوں پر قائم ہے ۔ تاہم کچھ موازنے کی سہولت کی خاطر اور بڑی حد
تک نظریاتی بنیادوں کے تعیّن اور تفہیم کی غرض سے مغربی تانیثیت کی مبادیات سے رجوع
کرنا موضوع گفتگو کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا ۔
اس تفصیل میں جانا سردست غیر ضروری ہے
کہ ورجینیا وولف کی کتاب "A Room of ones own" اور
سیمون دی بوائر کی کتاب "The Second sex" نے
کیوں کر تانیثی نقطۂ نظر کی ضرورت کا احساس دلایا اور اس بات کی اہمیت واضح کی ، مغرب
میں ادبی تخلیق اور تنقید کس طرح صدیوں سے رائج پدری نظام کی بنیاد پر قائم تہذیب کی
عکّاسی کرتی ہے ۔ اس پس منظر میں اُردو کے حوالے سے بھی اس وقت تک تانیثیت پسند نقطۂ
نظر کو سمجھنا مشکل ہوگا، جب تک ہم پدری نظام میں مرد کی مرکزیت اور عورت کو غیر سمجھنے
کے رویّے کو نشان زد نہ کرلیں اور یہ اندازہ نہ لگالیں کہ جنسی ثنویت کی نشان دہی جن
تحریروں کے وسیلے سے کی جاسکتی ہے ان کو مغرب میں کس تجزیاتی طریقِ کار کے ذریعے زیرِ
بحث لایا گیا ہے ۔ ڈیل اسپنڈر اور ٹورل موئی نے تانیثی ادبی نظریات کو جس طرح مرتّب
کیا ہے اس کی رو سے مغرب ، مرد کی مرکزیت کے تصور کا ایسا عادی ہے کہ اس میں عورت اپنے
آپ محکوم یا غیر بن کر رہ جاتی ہے ۔ چنانچہ بیش تر ادبی تحریروں میں اس تفریق کا عکس
اس طرح منتقل ہوا ہے کہ مرد کرداروں کے مقابلے میں عورت کا کردار نصف بہتر کے بجائے
نصف کہتر کے نمونے پیش کرتا ہے۔ اس صورتِ حال میں مردانہ رویّوں کی بالادستی کے سبب
مرد ادیبوں کی تحریریں صرف مردوں کے لیے لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے اس رویّے
کی مزاحمت کی خاطر ایک ایسے زاویۂ نظر کی شدید ضرورت محسوس کی گئی جو جنسی عدم توازن
اور افراط و تفریط کو نشان زد کرسکے اور قدیم و جدید ادب کی قرأت ثانی یا قرأت مختلف
پر اصرار کرسکے۔ اس طرز ِ مطالعہ کو مزاحمتی قرأت کا بھی نام دیا گیا ہے ۔ اس تبدیل
شدہ طرز ِ مطالعہ نے واضح کیا کہ ہم نے اب تک مرد کے ساتھ متحرک ، بہادر اور تعقّل
پسند جیسے اوصاف اور عورت کے ساتھ مجہول ، کمزور اور جذباتی جیسی منفی صفات وابستہ
کر رکھی ہیں —اس طریق تنقید نے تانیثی زبان کے مسئلے کو از سرِ نو بحث کا موضوع بنایا
ہے اور جملوں کی ساخت ، ڈسکورس کی مختلف اقسام اور تانیثی زبان اور اسلوب کے عناصر
کی تلاش کو گزشتہ برسوں میں ایک طاقت ور رجحان کی صورت میں تبدیل کردیاہے — رولاں بارتھ
کی معنیات اور دریدا کی لاتشکیل کی مدد سے تانیثیت پسند مصنّفین کے ایک حلقے نے لسانیاتی
مطالعہ کی نوعیت تبدیل کردی ہے ۔ ان نظریہ سازوں کا بنیادی مسئلہ ایسی نسائی زبان کی
اختراع ہے جو پدری بنیاد پر قائم نظام کی توثیق نہ کرے ۔
تاہم یہ بات وضاحت کی محتاج ہے کہ تانیثیت
ادبی قدر کانعم البدل کیسے بن سکتی ہے؟ ادب کے قاری کے لیے تانیثی رجحان یا طریق تنقید
سے تانیثیت کی شناخت تو بڑی حد تک قائم ہوجاتی ہے ، مگر ادب کو ادب کی حیثیت سے پڑھنے
اور اس کی پرکھ کی معیار بندی کرنے کا مسئلہ ہنوز اپنی جگہ برقرار رہتا ہے ۔ اس لیے
کہ دوسری طرح کی موضوعاتی شناخت کی طرح تانیثی نقطۂ نظر کو بھی بجائے خود فنّی معیار
کا نام تو نہیں دیا جاسکتا ، البتّہ اس طرز مطالعہ سے موضوعاتی اور تہذیبی توازن کا
نظام ضرور قائم کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک ادبی قدر کی معیار بندی کا سوال ہے تو اس کا
تعیّن بہر حال شعریات کے عمومی اصول و ضوابط ہی کریںگے ۔
تانیثی نظریے کے اس پس منظر کو یوں تو
مغرب اور مشرق کی کسی بھی زبان کے ادب کے مطالعہ کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ۔ ویسے اگر
اُردو کے خصوصی حوالے سے تانیثی ادب کی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو مغرب کی
زبانوں کے مقابلے میں اُردو کا معاملہ زیادہ افراط و تفریط کا شکار دکھائی دیتا ہے
۔ ہمارے معاشرتی نظام کے زیرِ اثر ادب میں بھی پدری نظام کی بالادستی شعوری سے کہیں
زیادہ تحت الشعوری گہرائیوں میں پیوست ہے کہ خود عورتیں بھی عموما ً جنسی تفریق پر
قائم اپنے ادبی سرمایے پر قانع ہیں ، اور ان کے رویّے اپنی محکومیت کے رجحان کو تقویت
دینے میں کچھ کم معاون نہیں۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خواتین اپنے نسائی رویّوں
سے بلند ہو کر فلسفیانہ یا دانش ورانہ سطح پر ان ہی ذہنی اور فکری مسائل اور واردات
کو اپنے ادب کا موضوع بنائیں جن سے مرد و زن یکساں طور پر دوچار ہیں ۔ مگر جس سماج
میں طبقاتی کش مکش ، زیر دستوں کی حمایت اور معاشرے کی پس ماندہ اکائیوں کے مسائل کا
احساس ، ادب کے اہم موضوعات بن سکتے ہیں وہاں جنسی تفریق کے مسئلے کو نشان زد کرنے
سے چشم پوشی مقام حیرت ہی نہیں مقام غیرت بھی معلوم ہوتی ہے ۔
مطالعہ کی سہولت اور ارتکاز کی خاطر اگر
شاعری کے حوالے سے اُردومیں تانیثی رجحان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا
ہے کہ گزشتہ کئی صدیاں اُردو میں نسائی اظہار کے وجود سے ہی بڑی حد تک عاری ہیں ۔ ظاہر
ہے کہ جس معاشرے میں عرصے تک خواتین علمی و ادبی سرگرمیوں کا حصّہ ہی بن پائی ہوں اس
میں نسائی مسائل اور تانیثی نقطۂ نظر کی تلاش زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ لیکن
گزشتہ چند دہائیوں میں خاتون ادیبوں اور شاعروں کی معتدبہ تحریریں کچھ اس تنوع کے ساتھ
سامنے آئی ہیں کہ ہم ان کی بنیاد پر نسائی رویّوں کی نوعیت کا تعیّن ضرور کرسکتے ہیں۔
جہاں تک مرد ادیبوں کی تحریروں میں عورت کی امیج کا سوال ہے تو اس سلسلے میں طبقاتی
سماج کی ناہمواریوں کی نشان دہی کے دعوے دار شاعروں تک کے یہاں طبقہ اُناث سے ناانصافی
کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں ۔ اس ضمن میں باقر مہدی کی یہ رائے عبرت ناک صورت حال کو
نمایاں کرتی ہے کہ :
’’خود
ترقّی پسند اور جدید ادیبوں اور شاعروں کی تحریریںعورت کی جذباتی اور معاشرتی کش مکش
کو مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہیں ۔ خواہ وہ راشد کی نظم میں ہم رقص ہو یا مجاز کی ’آنچل
کو پرچم بنانے والی باغی لڑکی ‘ ہو، عورت کے جسم و ذہن کی اتنی ہی اہمیت ہو جتنی مرد
کی ، کہیں نظر نہیں آتی، اور غزل کی حکمرانی نے عورتوں پر تغزل کے دروازے اس طرح بند
کیے تھے کہ وہ جان غزل تو بن سکتی تھی مگر خود غزل گو نہیں بن سکتی تھی ۔‘‘
اُردو شاعری کے معاصر منظرنامے میں جن
شاعرات کی کاوشوں کو سنجیدہ مطالعہ کا موضوع بنایا جاسکتا ہے، ان کی اکثریت بھی جنسی
بنیاد پر قائم تفریق کے مسائل کو بالعموم قابلِ اعتنا بھی نہیں سمجھتی۔ بعض شاعرات
، نسائی جذبات و احساسات کی پیش کش یا کسی حد تک اعترافی شاعری کی حدوں کو چھوتی ہوئی
نظر آتی ہیں اور معدودے چند ایسی ہیں جن کی نظموں میں اپنی صورت حال سے بے اطمینانی،
قدرے انحراف اور مساوی حقوق کی طلب کا واضح رجحان ملتاہے ۔ مثال کے طور پر شفیق فاطمہ
شغریٰ دانشورانہ موضوعات ، مذہبی اور روحانی محرکات سے دلچسپی اور گہری بصیرت کے سبب
، ایک ایسی شاعرہ کا تاثر قائم کرتی ہیں جس کے لیے جنسی بنیاد پر قائم معاشرہ کوئی
قابلِ توجہ مسئلہ نہیں محسوس ہوتا۔ تاہم شغریٰ نے اپنی بعض نظموں میں نسائی امیج کو
مذہبی حوالوں کے ساتھ نمایاں کرنے کی طرف توجہ دی ہے ۔ اس نوع کی نظموں میںان کی ایک
قدرے طویل نظم ’’اے تماشا گاہ عالم روئے تو‘‘ کا ایک ذیلی عنوان ’دعائے بانوئے فرعون
‘ ہے۔ انھوں نے اس حصّے سے متعلق حاشیے میں ’بانوئے فرعون ‘ کی تلمیح کے مضمرات بیان
کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں عورت کی حیثیت پر بھی گفتگو کی ہے ۔ نظم کے متعلقہ مصرعے
کچھ اس طرح ہیں :
’’اب
تو میرا گھر وہی گھر / جس کا تو بانی بنے/ اب تو تیرے ہی جوارِ قرب کے باغات میں /
یارب بسیرا ہو مرا / —رستگاری دے مجھے فرعون سے ارتفاعِ بیت کے اُس دور کا آغاز ہو
/ جس میں اسوہ / بانو ئے فرعون کا اسوہ وہ پہلا سنگ میل / جس پہ اتری تابشِ اُمّ الکتاب
۔‘‘
شفیق فاطمہ شغریٰ ’’بانوئے فرعون‘ ‘ کے
کردار کی وضاحت میں اس کی معنویت یوں نمایاں کرتی ہیں
:
’’ بانوئے
فرعون کا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی دعا کے الفاظ سے یہ عقیدہ ختم ہوجاتا ہے کہ سربراہ
خاندان ، خاص طور سے شوہر سے غیر مشروط ہم آہنگی کا نام ’وفا ‘ہے ، اور عورت ایک ایسی
مخلوق ہے جو اس وفا کی بنا پر باشرف ہے۔ فرعونی جلال و جبروت کو ٹھکراتے ہوئے صرف عائلی
نظام ہی سے نہیں، بلکہ ناکسوں کے اہتمام خشک و تر سے بھی غیر مشروط ہم آہنگی کے وفادارانہ
عقیدہ کو وہ مسترد کرتی ہیں جس کو آج سے ہزاروں برس پہلے مسترد کرنا، جان کا زیاں
تھا۔‘‘
اس حاشیے میں وہ سماجی نابرابری کی تحریکات
کے ساتھ جنسی نابرابری کی عالمی تحریک کا بھی ذکر کرتی ہیں اور اسے آزادیٔ اظہار کی
بوکھلاہٹ کا نام دیتی ہیں اور ان الفاظ میں اپنے موقف کی مزید وضاحت بھی کردیتی ہیں :
’’ یہ
ضروری نہیں کہ ان خیالات کی بناء پر ، میں اُناثی تحریک کی گردِ کارواں سمجھی جاؤں
، سچ بات تو یہ ہے کہ اس تحریک کے رطب و یابس کا بوجھ اُٹھانا میرے بس کا روگ نہیں
۔‘‘
شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اپنی نظم
کے بین السطور میں ایک نسائی امیج کو مثالی اور انحرافی قرار دینے کے باوجود ، شغریٰ
آزادیٔ اظہار کی ان سرحدوں کو چھونا نہیں چاہتیں جہاں مذہبی قدغن سے سابقہ پڑنے کا
اندیشہ ہو ۔
کم و بیش یہی صورت حال شاعرات کی غزل گوئی
کی ہے۔ غزل گو شاعرات کا عام رویّہ تانیثی نقطۂ نظر کے اظہار کے برخلاف غزل کے مروجّہ
موضوعات سے دلچسپی اور جنسی تفریق پر قائم ثنویت سے صرف نظر کرنے کی صورت میں سامنے
آیاہے۔ البتّہ بعض شاعرات نے اپنے عشقیہ جذبات کو خواب ناک محبوبیت کے ساتھ یا خود
سپردگی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کی غزلوں
کے تسلسل کے طور پر پروین شاکر ، رفیعہ شبنم عابدی اور عشرت آفریں کے اشعار میں حسّی
اور جذباتی نسائیت کے عناصر ملتے ہیں ۔ مگر چوںکہ ان حسّی اور جذباتی مسائل کو کبھی
نابلوغت سے وابستہ جذبات کا نام دیا گیا اور کبھی ان پر ناپختہ کار تجربے کا الزام
عائد کیا گیا ، اس لیے تنقیدی دہشت گردی کی ہیبت نے اس رجحان کو بھی زیادہ پنپنے کا
موقع نہیں دیا۔ حالاںکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر عمر کا سچّا تجربہ ، سچّے اظہار سے ہم آہنگ
ہوسکتا ہے اور اپنے مخصوص تناظر میں جینون تخلیقی رویّے کی حیثیت سے پہچانا جاسکتاہے
۔ اس لیے صرف نمونے کے طور پر یہ چند اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جو فکری دبازت کی
نفی ہی نہیں کرتے بلکہ خواب ناک نسائی احساس اور جذبے کی صداقت کی نمائندگی بھی کرتے
ہیں :
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں
کشور ناہید
کچھ یوں ہی زرد ، زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
کشور ناہید
اب ایک عمر سے دُکھ بھی کوئی نہیں دیتا
وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رُلاتے تھے
کشور ناہید
ہرلمس ہے جب تپش سے عاری
کس آنچ سے میں پگھل رہی ہوں
فہمیدہ ریاض
وہ خواہشِ بوسہ بھی نہیں اب
حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں
فہمیدہ ریاض
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں
گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
پروین شاکر
بارش سنگ ملامت میں وہ میرے ساتھ ہے
میں بھی بھیگوں ، وہ بھی پاگل بھیگتا ہے
ساتھ ساتھ
پروین شاکر
ان
اشعار میں سے بیش تر کو اعترافی شاعری کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا ۔ تانیثی نظریۂ
ادب کے نقطۂ نظر سے اس رویّے کی اہمیت اس لیے بھی قابلِ توجہ بن جاتی ہے کہ احتجاج
اور انحراف کی منزلوں تک پہنچنے والوں کے لیے ان مرحلوں سے گزرنا بڑی حد تک ناگزیر
ہوتا ہے ۔
غزل کے مقابلے میں شاعرات کی نظموں کو
نسائی رویّوں کی تفہیم کا زیادہ بہتر وسیلہ بنایا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ غزل ہی کی
طرح نظموں میں بھی اگر ہم ان رویّوں کو ارتقائی صورت میں دیکھنا چاہیں تو پتہ چلے گا
کہ عورت کی حیثیت سے اپنے وجود کا احساس ، نسائی جذبات کا اظہار یا اعتراف اور جنسی
ثنویت پر قائم معاشرے سے انحراف جیسے مراحل اُردو میں تانیثی رویّے کے مختلف مدارج
ہوسکتے ہیں ۔ جہاں تک نسائی منصب کے احساس کا سوال ہے تو ہمیں بعض ایسی نظمیں ملتی
ہیں جو تخلیق کے تجربے کے مختلف مراحل کو کچھ اس انداز سے موضوعِ گفتگو بناتی ہیں کہ
ان میں تخلیق کے مطلق عمل کے ساتھ تنقیدی اصطلاح میں ’تخلیقی عمل ‘ کے اسرار بھی کھلتے
ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس نوع کی ایک نظم کا حوالہ شاید یہاں خارج از بحث نہ ہو :
’’ وہ
حرف ، جو فضائے نیلگوں کی وسعتوں میں قید تھا / وہ صوت ، جو حصار خامشی میں جلوہ ریز
تھی / صدا ، جو کوہسار کی بلندیوں پہ محو خواب تھی / روائے برف سے ڈھکی / وہ حرف جو
ہوا کے نیلے آنچلوں سے چھن کے / جذب ہورہا تھا ریگ زار ِ وقت میں / وہ ذرّہ ذرّہ منتشر
تھا / دھندلی دھندلی ساعتوں کی گرد میں / وہ معنی گریز پا ، لرز رہا تھا جو رگِ حیات
میں / وہ رمزِمنتظر کہ جوابھی نہاں تھا بطن کائنات میں / بس ایک جست میں حصار خامشی
کو توڑ کر / پگھل کے میرے درد و آرزو کی آنچ میں / وہ میرے بطن کی صباحتوں میں ڈھل
گیا / وہ آبشار نغمہ ونوا ، کہ کوہسار سرد سے گرا/ کہ گونجتی گپھاؤں سے ابل پڑا
/ وہ جوئے ذات ، نغمۂ حیات ، جو رواں دواںہے بحر بے کراں کی کھوج میں ۔ (زاہدہ
زیدی)
تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کی گرفت اور
شعوری اور لاشعوری محرکات کی دریافت خود شاعر کے لیے ایک مشکل عمل رہی ہے۔ اس نظم میں
زاہدہ زیدی نے تخلیقی عمل کو صرف شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک خاتون شاعر کی حیثیت
سے جس طرح موضوع گفتگو بنایا ہے ، وہ وسیلۂ تخلیق کی حیثیت سے نسائی سرشت کا عمدہ
اظہار بھی ہے اور داخلی سرگزشت کا اعتراف بھی ۔ اسی موضوع کی دوسری جہت ہمیں ایک مکمل
اعترافی نظم میں ملتی ہے ، جس میں جنس کو ایک تخلیقی تجربہ بنایا گیا ہے:
یہ کون سا مقام ہے / کہ چاروں سمت منتشر
ہیں /ریزہ ریزہ آبگینۂ ہائے شوق / یہیں توحسرتوں کے بیج بو کے / فصلِ درد اُگائی
تھی / یہیں تو آرزو ، نقیب وقت بن کے آئی تھی / وہ کوہِ درد سینۂ حیات پر / وہ بوجھ
بھی سبک سبک/ وہ جرعہ ہائے آتشیں / لہو میں جذب آگ سی / یہ کائنات ٹوٹ کر بکھر گئی
/ کہ چور چور ہیں نشاطِ جاں کے آئینے /کہ ریگ ریگ نشۂ بدن ہے / ذرّہ ذرّہ جستجو کی
راکھ ہے / فضائے ذہن بے اذاں / تصوّرات رائیگاں / تلاش ذات جوئے خوں/ یہ کوہِ جرم حادثات
/ یہ قطرہ ہائے انفعال/ برجبین کائنات/ چٹخ رہی ہیں ہڈیاں وجود کی ۔ (فشار : ساجدہ زیدی)
ساجدہ زیدی نے نظم کے ان مصرعوں میں جس
طرح بالواسطہ انداز میں نسائی تجربے کو اعترافی شاعری میں تبدیل کردیا ہے وہ فنّی نقطۂ
نظر سے بھی استعارہ سازی کی عمدہ مثال ہے۔ اس نظم کی امیجری میں تانیثی رویّوں کو خیال
اور فکر کے بجائے حواس کے حوالے سے شعری پیکروں میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ یہ انداز ایک
خاتون شاعر کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت متعیّن کرتا ہے اور فنّی تدبیر کاری کی بھی
قابلِ توجہ مثال پیش کرتا ہے ۔
تاہم ساجدہ زیدی اور زاہدہ زیدی کی اس
نوع کی گنتی کی چند نظمیں ان کی شاعری کے عام رجحان کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ ان کی
شاعری کا عمومی رجحان ، فکری اور دانش ورانہ سطح پر ایسی عام شعری فضا کی عکاّسی کرتا
ہے جس میں مرد و زن ، دونوں طرح کے شاعر ، یکساں طور پر شریک ہیں۔ ان شاعرات کے برخلاف
فہمیدہ ریاض کی شاعری کا غالب رویّہ نسائی احساس کی ترجیح پر قائم ہے ۔ پدری نظام پر
قائم سماج کی ناہمواریوں کی نشان دہی ان کی نظموں کاطاقت ور رجحان ہے ۔ انھوں نے ماں
بننے کے تجربے کو جس فن کاری اور حسّی ارتعاشات کے ساتھ اپنی ایک ابتدائی نظم ’’ لاؤ
، ہاتھ اپنا لاؤ ذرا ‘‘ میں پیش کیا تھا ، وہی دراصل ان کی شاعری کی مخصوص شناخت بن
گیا ۔ تانیثی رویّے کے بعض اور پہلو ، جن میں اپنے سماج میں ثنویت کا احساس مرکزی حیثیت
رکھتاہے ، بعد کی ، ان کی بیش تر نظموں کا پس منظر ہے ۔ اس ضمن میں ان کی متعدد نظموں
میں سے محض ایک مختصر نظم کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ، جس میں ثنویت کا یہ احساس نمایاں
طور پر موجود ہے :
مگر آہ اس میں نئی بات کیا ہے / وہ عورت
ہے ہم جنس سب عورتوں کی / سدا جس پہ چابک برستے رہے ہیں / وہ ہر دور میں سربریدہ مسانوں
میں لائی گئی ہے / کبھی بھینٹ بن کر/ پَتی کی چتا پر چڑھائی گئی ہے / کبھی ساحرہ کا
لقب دے کر زندہ جلائی گئی ہے / یہ عورت کا تن ہے / قبیلوں کی نسلیں
بڑھانے کا آلہ ہے / ان کی حمیت کی بس
اک علامت / جو چاہو تو تم اس علامت کو روندو / اسے مسخ کردو / اسے دفن کردو ۔ (فہمیدہ ریاض)
اس نظم کی بلند آہنگی اور اس کا براہِ
راست انداز ، فنّی نقطۂ نظر سے البتّہ معرض بحث میں آسکتے ہیں ، مگر فکری اور ادبی
موقف کے اعتبار سے فہمیدہ ریاض کی اس نوع کی نظموں سے ان کی تانیثی شناخت ضرور متعیّن
ہوتی ہے —
فہمیدہ ریاض کے مقابلے میں کشور ناہید
نے اوّل و آخر ایک تانیثیت پسند ادیب اور شاعرہ کی حیثیت سے معاصر شاعرات میں فکری
، فنّی اور عملی طور پر اپنی شناخت قائم کی ہے ۔ ان کی تحریریں ، خواہ نثر کی صورت
میں ہوں یا شاعری کی شکل میں ، تانیثی تحریک کو اس کے سارے لوازم کے ساتھ برتنے کی
کوشش کرتی ہیں ۔ انھوںنے طبقاتی طریق کے ترقّی پسند نقطۂ نظر سے اپنے ادبی سفر کا
آغاز کیا تھا ، مگر وقت کے ساتھ ساتھ جنسی تفریق کے مسئلے کو نمایاں کرنے کو اپنی
تحریروں کا محور بنالیا —ان کے مضامین کا مجموعہ ’’ عورت ، خاک اور خواب کے درمیاں
‘‘ تانیثی نظریے کو ریسرچ ، تجزیہ اور فنّی اظہار سے متعلق مسائل کو منضبط اور مدلل
انداز میں پیش کرنے کی اُردو میں ایک اہم کوشش ہے ۔ انھوںنے سیمون دی بوائر کی کتاب
کا ترجمہ تلخیص کے ساتھ پیش کرکے ’عورت‘ کے نام سے شائع کیا ہے ، اور اپنی توضیحات
کے ذریعہ اُردو دنیا سے تانیثی نظریے کو متعارف کرانے کی علمی بنیادیں فراہم کی ہیں۔
لیکن ایک تانیثیت پسند فن کار کے طور پر ہمارے لیے اگر ان کی کوئی تحریر قابلِ مطالعہ
ہوسکتی ہے تو وہ ان کی نظمیں ہیں ۔ اپنی نظموں میں ، ان کی بلند آہنگی نظریاتی وابستگی
کی شدت کو ظاہر کرتی ہے ۔ انھوںنے اپنے تانیثی نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے بالعموم دو
طرح کے اسالیب کا انتخاب کیا ہے ۔ ایک تو ان کی نثری نظمیں ہیں جن میں وہ اپنی نظریاتی
وابستگی کو چھپا نہیں پاتیں اور دوسرے ان کی آزاد نظمیں ، جن کی لفظیات ، علائم اور
فنّی لوازم کا اہتمام اس بات کا وافر ثبوت فراہم کرنے کا وسیلہ ہیں کہ انھوںنے خود
کو محض ایک تانیثیت پسند مفکّر کے طور پر ہی متعارف نہیں کرایا بلکہ قابلِ توجہ شاعرہ
کی حیثیت سے بھی اپنی اہمیت تسلیم کرائی ہے ۔ نیلام گھر، جاروب کش، میں کون ہوں اور
انٹی کلاک وائز ، جیسی نظمیں ان کے تانیثی رویّوں کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ ’’انٹی
کلاک وائز ‘‘ میں انھوںنے طبقۂ اناث کے لیے درپیش
صورت حال کو نسبتاً زیادہ صراحت کے ساتھ
پیش کیا ہے :
میرے ہونٹ تمہاری مجازیت کے گن / گا گا
کر خشک ہو بھی جائیں تو بھی تمہیں یہ خوف نہیں چھوڑے گا /کہ بول تو نہیں سکتی ، مگر
چل تو سکتی ہوں/ میرے پیروں میں زوجیت اور شرم و حیا کی بیڑیاں ڈال کر/ مجھے مفلوج
کرکے بھی / تمہیں یہ خوف نہیں چھوڑے گا کہ میں چل تو نہیں سکتی / مگر سوچ سکتی ہوں
/ آزاد رہنے ، زندہ رہنے اور مرے سوچنے کا خوف / تمہیں کن کن بلاؤں میں گرفتار رکھے
گا ۔ (کشور
ناہید )
اس نظم کے مقابلے میں آزاد نظم کی ہیئت
میں ان کی متعدد نظمیں فنّی لوازم کو زیادہ بہتر طریقے پر اپناتی ہیں اور صحیح معنوں
میں اسی نوع کی نظمیں نسائی جمالیات کے ضمن میں ان کی کاوشوں کا منفرد ثبوت پیش کرتی
ہیں۔ نمونے کے طور پر یہاں ایک نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
مجھے
سزا دو کہ میں نے اپنے لہو سے تعبیر خواب لکھی / جنوں بریدہ کتاب لکھی/ مجھے سزا دو
کہ میں نے تقدیسِ خواب فردمیں جاں گزاری / بہ لطفِ شب زادگاں گزاری / مجھے سزا دو
/ کہ میں نے دو شیزگی کو سودائے شب سے رہائی دی ہے / مجھے سزا دو /کہ میں جیوں تو تمہاری
دستار گر نہ جائے/ مجھے سزا دو / کہ میں تو ہر سانس میں نئی زندگی کی خوگر / حیات بعد
ممات بھی زندہ تررہوںگی / مجھے سزا دو / کہ پھر تمہاری سزا کی میعاد ختم ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو’ ’نصف بہتر‘‘
قرار دینے کا مشفقانہ اور ترحم آمیز رویّہ اس وقت بے نقاب ہوتا نظر آتا ہے جب کشور
ناہید جیسی کوئی شاعرہ اس رویّے کے مضمرات پر اپنے شدید ردّعمل کا ایسا اظہار کرتی
ہیں جس میں فکری بغاوت کے ساتھ اس نظم کی طرح شعریت کا بھی اہتمام کیا گیا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تانیثی تحریک کے
تناظر میں کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کو اُردوشاعرات کے مابین نمائندہ ترین ترجمان
شاعرات کی حیثیت دی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسا بھی
نہیں ہے کہ ان کے بعد کی نسل میں اس رجحان پر مبنی شاعری
کی کوئی توسیع نہیں ہوئی ۔ بعض نسبتاً نووارد شاعرات کی نظموں میں اس رویّے کی گونج
اس طرح سنائی دیتی ہے ، گویا وہ ابھی اپنی شناخت اور آواز کی دریافت میں مصروف ہیں
۔ ایسی شاعرات میں نمونے کے طورپر شہناز نبی اور عذرا پروین کے نام لیے جاسکتے ہیں
۔ شہناز نبی کی نظم ’بھیڑیں ‘ میں طنزیہ طریقِ کار اور علامتی معنویت کے سبب تانیثی
اظہار کے قدرے مختلف اسلوب کو اپنانے کی کوشش ملتی ہے
:
اک چرا گا ہ / سو چراگاہیں / کون ان ریوڑوں
سے گھبرائے/ پڑگئیں کم زمینیں اپنی تو / کچھ سفر ، کچھ حضر کا شغل رہے / کچھ نئی بستیوں
سے ربط بڑھے / ان کو آزاد کون کرتا ہے / یہ بہت مطمئن ہیں تھوڑے میں / اک ذرا سا گھما
پھرا لاؤ / کچھ اِدھر ، کچھ اُدھر چرالاؤ / بھیڑیں معصوم بے ضرر سی ہیں/ جس طرف ہانک
دو چلی جائیں ۔ (شہناز
نبی)
ردّ عمل اور طنز کی شدّت پر مبنی اس نظم
سے قدرے بدلے ہوئے اسلوب ، سے اس وقت ہمارا واسطہ پڑتا ہے ، جب ہم عذرا پروین کی نظمیں
پڑھتے ہیں ۔ ان کی نظموں میں بالواسطہ طریقِ کار کے بجائے براہِ راست لب و لہجہ ملتا
ہے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی شاعری مرکزی حیثیت سے جنسی تفریق
کے موضوع کو زیرِ بحث لاتی ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ فنّی طور پر ان کا منصب کیا متعیّن
ہوتا ہے ۔ ان کی ایک نظم ہے :
’’
میں اور ہی کوئی ہندسہ ہوں
‘‘
میں اب نیا کوئی حادثہ ہوں / میں اور ہی
کوئی ہندسہ ہوں / تمہارے پہلو میں کل سے اب تک جو اک بہ صورت صفر ، صفر تھی ، وہ میں
نہیں تھی/ وہ میں نہیں ہوں / جو تجھ میں تیرے سفر کی دھن تھی/ جو خود مسافر نہ ہوکے
بس تیری رہ گزر تھی / وہ میں نہیں تھی/ وہ میں نہیں تھی/ سنو تذبذب کی برف پگھلی/ میں
ایک نشچت اڑان ہوں اب/ جو اک انشچت اگر مگر تھی/ میں وہ نہیں تھی / وہ میں نہیں ہوں
/ میں اب، نیا کوئی حادثہ ہوں / میں اب نئی کوئی انتہا ہوں/ میں اور ہی کوئی ہندسہ
ہوں ۔ (عذرا پروین)
شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معاصر شعری
منظر نامے میں اور جن شاعرات کی نظمیں اور غزلیں ادبی جرائد میں شائع ہوتی ہیں ، ان
کو بالعموم نسائی شناخت کے نقطۂ نظر سے مطالعہ کا موضوع ہی نہیں بنایا جاسکتا ۔ پاکستان
میں پروین فنا سیّد اور عذرا عبّاس اور ہندوستان میں شبنم عشائی جیسی معدودے چند شاعرات
ایسی ہیں جو اپنی ذات کے اظہار کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔ لیکن ان کی شاعری کسی طاقت
ور نسائی رجحان کی نمائندگی نہیں کرتی ۔
نسائی رویّوں اور تانیثی رجحان کی پہچان
اور تعیّن قدر، کے اس جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ادبی اور تنقیدی اظہار میں
تانیثیت کی شمولیت کے بعد ادبی فکر و فن کے تناظر کے افق میں کیوں کر وسعت پیدا ہوئی
ہے ؟ اُردو میں چوں کہ تانیثی نظریے کو کسی طاقت ور رجحان کی صورت میں ابھی پنپنے کا
موقع نہیں ملا ، اس لیے انفرادی کوششوں کی اہمیت کے باوجود ابھی نسائی جمالیات کی تشکیل
ہونا باقی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نسائی جمالیات میں تانیثی نقطۂ نظر کے ساتھ ادب کی تفہیم
، ہئیت و مواد کے توازن اور تخلیقی فن پاروں کے تعیّن قدر کے مسائل نئے سرے سے مرتّب
ہوں گے اور اسی صورت میں ہم تانیثیت کو نظریے کی سطح سے بلند کرکے فنّی سطح تک لاسکتے
ہیں۔ (2000)
***
کتاب
کا نام: شاعری کی تنقید
مصنف:
پروفیسر ابولکلام قاسمی
مطبوعہ
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
کتاب
حاصل کرنے کا پتہ:
وزرات
ترقی انسانی وسائل،حکومت ہند
فروغ
اردو بھون،ایف سی۔33/9،
انسٹی
ٹیوشنل ایریا، جسولہ،نئی دہلی۔110025
فون
نمبر: 011-26109746