31/5/23

اردو صحافت کی تین بھولی بسری خاتون اور قومی تحریک آزادی:اسعد فیصل فاروقی


اردو صحافت کی تین بھولی بسری خاتون اور قومی تحریک آزادی

اردو میں نسائی صحافت کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوتا ہے،جب آگرہ سے’مفید عام‘ نام کا پندرہ روزہ اخبار فروری 1869 میں احمد خاں صوفی کی ملکیت میںجاری ہوا۔ایک عام معلوماتی اخبار ہونے کے باوجود، مفید عام اپنے دیگر ہم عصروں سے اس لیے منفرد تھا کہ اس نے اپنے آٹھ نکاتی مقاصد میںنسائی مضامین کو بھی ترجیحی بنیاد پر شائع کرنے کا اعلان کیا۔ پندرہ روزہ ’مفید عام‘ کاتذکرہ اختر شاہنشاہی میں بھی درج ہے نیز علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بابت 19مارچ 1869کے پرچہ میں بھی اس کا اشتہار شائع ہوا۔ اختر شاہنشاہی (1888) کے مطابق ’’ مدارس دختراں کے واسطے بہت عمدہ عمدہ مطالب و مضامین مفید عام میں لکھے جاتے ہیں،جس سے فی الواقع یہ اخبار اسم بامسمی ہورہا ہے۔‘‘ مفید عام کی اشاعت کے پندرہ برس بعد 5مارچ 1884 کولکھنؤ سے مسیحی مشنری،پادری کریون نے’رفیق نسواں‘ کے نام سے ایک نسوانی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کی مدیرہ مسز ہیڈلی تھیں اور یہ میتھوڈسٹ پبلشنگ ہائوس سے شائع ہوتا تھا۔

 اردو میں نسائی صحافت کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک پورے ملک(ہندو پاک) سے جاری ہونے والے نسائی رسائل و جرائد کی تعداد جہاں صرف نو تھی، وہیںبیسویں صدی کے آغاز (1901)  سے ملک کی آزادی (1947) تک یہ تعداد سو سے زائد تجاوز کرچکی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کامقصد خواتین میںتعلیم کو فروغ دینااور ان کی علمی،ادبی اورسماجی اصلاح کرنا تھا۔ اس زمانے کے چند اہم نسائی رسائل وجرائد جنھوںنے خواتین کونہ صرف متاثر کیا بلکہ سماج پر مثبت اثر ڈالا اور تبدیلی کی  ایک روش ڈالی،ان میں شریف بیویاں(لاہور، 1893)، معلم نسواں(حیدرآباد دکن، 1894)، تہذیب نسواں(لاہور، 1898)، خاتون (علی گڑھ، 1904)، پردہ نشیں (آگرہ، 1906)، عصمت (دہلی، 1908)، ظل السلطان (بھوپال، 1913) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جرائد خواتین کے اندر سے اندھی تقلید اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے میں بھی معاون بنے۔ ان جرائد نے خواتین قلم کاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا، ان کے اندر بیداری پیدا کی، ان کی ادبی تخلیقات کو جگہ دی اور،ان کے خیالات کو شائع کیا۔ ایسا نہیں کہ اس دور میں خواتین سے متعلق جو جرائد جاری ہوئے، وہ سب کے سب مو ضوعاتی طور پر صرف تعلیمی، سماجی، مذہبی اور اصلاحی ہی تھے، بلکہ ا ن کے علاوہ بھی،بیسویں صدی کے پہلے نصف میں چند ایسے اختصاصی تحریکی جرائدجاری ہوئے، جو موضوع کے اعتبار سے کلی طور پر سیاسی تھے اور جن کا مقصد خواتین میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور قومی تحریک آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانا تھا۔ البتہ ایسے جرائد اور ان کے مالکان اور مدیروں کو حکومت کا عتاب ضرور جھیلنا پڑا۔

ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں جہاں مردوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں خواتین نے بھی شانہ بہ شانہ ان کا ساتھ دیا۔ بیگم حضرت محل(1820-1829) ہوں یا رانی لکشمی بائی (1828-1856) یاپھر بی اماں (1850-1924)  ہوں یا نشاط النساء بیگم (1884-1937) ایسی خواتین مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے مردانہ وار طریقے سے ہندوستانی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ تاریخ صحافت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ اردو کی ایسی خاتون صحافیوں، قلم کاروں اور ادیبوں کا بھی حصہ رہا ہے،جنھوں نے اپنے قلم سے مختلف اردو اخبارات اور رسائل میں سیاسی و سماجی مسائل اور جنگ آزادی کے تناظر میں قومی سیاست پر مضامین تحریر کیے اور اپنے تخلیقی فن پاروں میں بھی انگریزی راج کے ظلم و ستم اور استبدادی رویے کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ ان میں چند اہم نام نذر سجاد حیدر (1894-1937)، زخ شروانیہ(1894-1922) ، رشید جہاں (1905-1952)، عصمت چغتائی (1951-1991) وغیرہ ہیں۔ اس طرح ان خواتین قلم کاروں اور صحافیوں نے ہندوستانی جنگ آزادی کی تحریک میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔

تحریک آزادی کے دوران چند خواتین مجاہدین آزادی ایسی بھی تھیں، جنھوں نے خود کے ا پنے سیاسی اور تحریکی جرائد جاری کیے اور ان کے وسیلے سے خواتین کے اندر تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعور اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن عام طور پر لوگوں کو ان کے اور ان کی خدمات کے بارے میں واقفیت نہیں ہے یا کم ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں ایسی ہی تین بھولی بسری مسلم خواتین مجاہدین آزادی اور ان کی صحافت پر گفتگو کی جائے گی، جن کی ادارت میں سیاسی جرائد اردو میں جاری ہوئے۔ ان جرائد کے وسیلے سے انھوں نے تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھایا، عورتوں میں خود اعتمادی پیدا کی، ان کے اندر سماجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا شعور بھی پیدا کیا،ان کو قومی یکجہتی اور امن کا پیغام دیا اور ان کو ان کی قومی ذمے داری اور فرائض کا احساس دلایا۔ ان اخبارات و رسائل نے آزادی کے بعد کے نئے ہندوستان میں خواتین کو کس طرح کی ذمے داری اداکرنی ہے اس پر بھی گفتگو اورمباحثہ کیا۔ ان خواتین میں بیگم خورشید خواجہ (1894-1921)  جو معروف کانگریسی لیڈر عبدالمجید خواجہ (1885-1964) کی زوجہ تھیں،نے علی گڑھ سے 1920 میں ہفت روزہ ’ہند‘ جاری کیا۔ کلثوم سایانی (1900-1987) کی ادارت میں 1942 میںبمبئی سے ہفت روزہ ’رہبر‘ نکلا۔ اور ہاجرہ بیگم(1910-2003)  نے 1945 میں ماہنامہ’روشنی‘ اپنی ادارت میں بمبئی سے جاری کیا۔

 یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ تاریخ ا ردو صحافت کے متعلق اب تک جو تحقیقی کام ہوئے ہیں، ان میںمذکورہ تینوںجرائد و رسائل کے بارے میں تذکرہ نہیں ملتا۔ تاریخ اردو صحافت کے محققین بشمول امداد صابری، عتیق صدیقی، اورڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی اپنے تحقیقی کاموں میںان جرائد کو موضوع گفتگو نہیں بنایا ہے۔ البتہ پروفیسر عابدہ سمیع الدین ( ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، پٹنہ 1990) اور ڈاکٹر جمیل اختر(اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، 2016) نے ثانوی ماخذ کو بنیاد بناکر ہفت روزہ ’ ہند‘کا رسمی تذکرہ تو کیا ہے، لیکن ان کے یہاں ’رہبر‘ اور’روشنی‘ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ ذیل کی سطور میں ان تین گمنام خواتین مجاہدین آزادی کی قومی اور صحافتی خدمات کا معروضی محاکمہ ان کی ادارت میں جاری ہوئے جرائد کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین کوان خواتین صحافیوں کی جنگ آزادی میں کردارکے بارے میں معلوم ہوسکے۔

بیگم خورشید خواجہ اور ان کا اخبار ہفتہ وار’ ہند

بیگم خورشید خواجہ ہماری جدوجہد آزادی کا ایک نمایاں چہرہ تھیں۔ وہ 1894 میں نواب سربلند جنگ حمیداللہ خاں کے یہاں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ممتاز آزادی پسند اور قوم پرست رہنما عبدالمجید خواجہ سے ہوئی تھی۔عبدالمجید خواجہ نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف گاندھی جی کی عدم تشدد کی مزاحمت کی فعال حمایت کی تھی۔ بیگم خورشید خواجہ نے اپنے شوہر کے ساتھ جدو جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔انھوں نے علی گڑھ سے ایک اردو ہفتہ وار ’ہند‘ جاری کیا تاکہ مسلم خواتین کو جدوجہد آزادی میں حصہ لینے اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ علی گڑھ میں انھوںنے آزادی کی جدوجہد، خاص طور پر سودیشی تحریک میں بھی جوش و خروش سے حصہ لیا، اور1920 میں علی گڑھ میں کھادی بھنڈار بھی قائم کیا تھا۔  انھوں نے مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی انتھک کوششیں کیں اور 1932 میں الہ آباد میں حمیدیہ پرائمری اسکول قائم کیا، جو 1975 میں حمیدیہ ڈگری کالج بن گیا۔ بیگم خورشید خواجہ کا انتقال جولائی 1981 کو ہوا۔

ہفتہ وار ہند کی ادارت

ہفتہ وار’ہند‘ایک اہم قوم پرست اردواخبار تھا، جو جدوجہد آزادی کے پس منظر میں شائع ہوتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سیاسی اخبار تھا، جسے ایک مسلمان خاتون بیگم خورشید خواجہ نے ایڈٹ کیا تھا۔اس ہفتہ وار نے خواتین میں علمی بیداری کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہندوستانی مسلم خواتین کی رائے کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اس اخبار کے وسیلے سے مسلم خواتین کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا اور یہ بتایا کہ وہ اس اخبار کے وسیلے سے اپنے قومی احساسات اور جذبات کو پیش کر سکتی ہیں۔ اس اخبار میں خواتین کی تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے پر بھی توجہ دی گئی۔ یہ 16 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا،اور اس میں مضامین اور خبریںتین کالم میںدرج ہوتی تھیں مطبع ملیہ میں بہ اہتمام علی محمد خاں چھپتا اور دفتر ہند سے سعید الدین خاں پبلیشر شائع کرتے تھے۔ اس اخبار کی قیمت سالانہ چھ روپیہ اور سہ ماہی دو روپیہ تھی۔

 ہفتہ وار’ہند‘ کا سرورق دو حصوں میں منقسم ہوتا تھا، اوپر کا  نصف حصہ یعنی ماسٹ ہیڈ ٹائٹل سے مزین ہوتا تھا۔ ٹائٹل میں ہندوستان کا نقشہ اور دائیں بائیں (گجرات اور آسام ) حصے میں کانگریس کانقشہ مع چرخہ چھپا ہوتا تھا نیز پیٹ میں جلی حروف میں اخبار کانام ’ہند ‘ اور اس کے اوپر’ اللہ اکبر‘ درج ہوتا تھا نیز اس سے اوپر سورج کی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ا وپر دائیں اور بائیں دونوں کناروں پریہ اشعار درج ہوتے تھے۔ع

خدا نے آج تک  اس قوم کی حالت نہیں  بدلی

 نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

مذہب  نہیں  سکھاتا  آپس میں  بیر رکھنا

 ہندی ہیں ہم  وطن  ہے ہندوستاں   ہمارا

 سرورق کے نیچے کے حصے میں آزادی کے متوالوں کی نظم پیش کی جاتی تھی،دراصل ہفتہ وار ہندایک سیاسی اخبار تھا جس کا مقصد خواتین میں سیاسی اور علمی بیداری کو تحریک دینا اور ان کو عالمی طور پر ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا تھانیز ان کے اندر جدوجہد آزادی کے تئیں جذبہ بیدارکرنا تھا۔ اخبار کے صفحات پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سیاسی قلمی کاوشیں جابہ جا دیکھنے کو ملتی تھیں، جن کو’’ عالم نسواں‘‘ کے عنوان سے ایک علیحدہ گوشے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ نیز یہ اخبار دیگر قومی اخباروں اور رسائل سے بھی سیاسی مضامین اخذ کرتا تھا مثلاًمسلم آئوٹ لک، لاہور، جوہر، زمانہ،کانپور،ہمدم، وکیل وغیرہ۔

ہند‘ کی اولین جلد کے شمارہ نمبر 16بابت27 ستمبر1922 میں جو مشمولات درج ہیں ان میں افادات آزاد ( نظم مولانا آزاد سبحانی)،ایڈیٹوریل مشرق قریب، انور پاشا، انگورہ کی فوجی مدد، اکالی سکھ، ہمارے اعتدال پسند، مولانا رشید احمد صاحب کی وفات(خورشید خواجہ)، کوائف، عالم نسواںبہنوں سے دو دو باتیں، زنانہ دعا و نماز شکریہ سولن میں(نذر سجاد حیدر)، سوراج کب ملے گا (رضویہ خاتون )،’اوبرا مرگائو‘ یوروپ کی عیسائیت سے وابستگی کا خلوص (م ح ف )، اصلی اور نقلی مجنوں، باسفورس اور درہ دانیال کی آزادی، رئیس وفد عرب فلسطین کا خط عالی جناب سیٹھ چھوٹانی کے نام،ایڈیٹر چہرہ نما (فارسی اخبار )سے ملاقات( مسلم آئوٹ لک لاہور، بحوالہ کانگرس )، یونانی مظالم کی دردناک داستاں (ایک فرانسیسی جریدہ نگار کے قلم سے، بحوالہ زمانہ )، غازی مصطفے کمال پاشا اور درہ دانیال و شا ح زریں( بحوالہ ہمدم)،  ہندوستان کی مشہور درسگاہیں( جناب سعید متعلم تاریخ،  بحوالہ جوہر)، بعد از انکشاف ( بحوالہ وکیل )صلح جویوں کی آزمائش،انقلاب امریکہ پر ایک اجمالی نظر مصطفے کمال پاشا، تازہ خبر، بلوہ ملتان مراسلات،مکتبہ جامعہ ملیہ علی گڑھ، اشتہارات:

اسی طرح جلد ۱شمارہ 28 بابت20 دسمبر1922 میں درج تحریروں کے عناوین یہ ہیں نظم(رشحات جو ہر )، اڈیٹوریل، برقیات، عالم نسواں، شری متی پاربتی ہندوستانی خاتون پرزور،شری متی پاربتی جی کا پر جوش تحریری بیان، مسئلہ مشرق قریبہ، ہندوستان کا دور جدید، اقتباسات:

 ہفتہ وار’ہند‘کے27ستمبر 1922کے پرچے میں ’افادات آزاد‘ کے عنوان سے مولانا آزاد سبحانی کی نظم شائع ہوئی،جس کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے        ؎

کبھی یہ گھر بھی تھا آباد یعنی عشق کا گھر تھا

تمھیں تم دل میں تھے او ر غیر یعنی میں بھی باہر تھا

خوشا  ایام  وصل  و  کامرانی جب کہ جان من

ترا  در  تھا  میر ا سر  تھا  ترا سر  تھا  مر ا د ر  تھا

گرا  قصر  تمنا  ایک  آہِ    نامرادی    میں

 جو  قصر  آہنیں سمجھا  گیا  تھا  ریت کا گھر  تھا

حر یفو  خوش  نہ  ہو  یہ گردش  چشم زمانہ ہے

کبھی  اس  آ ستان  ناز  پر  اپنا  بھی بستر  تھا

مبارک تم کو  عیش  و  کامرانی  اہل  خوش بختی

گوارا  کرلیا  ہم نے  بھی  جو  اپنا  مقدر  تھا

گل افتادہ رکھ کر سامنے بلبل یہ کہتی تھی

ابھی یہ نو بلادیدہ ذرا پہلے گل تر تھا

ہوس کاری  نے کھودی آبروئے عشق  دنیا سے

 یقین  مانو  مقام عشق  اس  سے  پہلے  برتر تھا

جہان دل کی قطع راہ  اک تفسیر  وحدت  تھی

کہ  دل ہی راہ  تھا  رہرو تھا  اور رہرو کا رہبرتھا

کہاں تک کوئی سنتا سننے والے تھک اٹھے آخر

   ترا  آزاد  اک  حرف الم  طو مار  دفتر تھا

 پرچے کے اڈیٹوریل اور مضامین کو پڑھ کر مدیرہ کے سیاسی فہم وادراک کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ خورشید خواجہ نہ صرف ایک قوم پرست بلکہ ایک منجھی ہوئی سیاست داں تھیںاوراپنے وقت کے قومی اور بین الاقوامی واقعات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔

جیسا کہ اس ہفت روزہ کا ایک مقصد خواتین کے اندربھی سیاسی فہم وشعور اورجدوجہد آزادی کا جذبہ بیدار کرنا تھا اسی وجہ سے مدیرہ ’ عالم نسواں‘ کے گوشے کے تحت ’بہنوں سے دو دو باتیں ‘ کے عنوان سے خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کرتی اور ان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے شوق اور حوصلہ دلاتیں تاکہ ہماری خواتین قومی سیاست سے متعلق مضامین لکھنے کے لیے آمادہ ہو سکیں، مدیرہ 27 ستمبر 1922 کے پرچے میں ’دو دو باتیں‘ کے تحت رقمطراز ہے:

’’اس عرصہ میں اگرچہ عدم موجودگی کی وجہ سے اخبار اور بالخصوص عالم نسواں پر اس قدر توجہ نہ کرسکی جیسی کہ ضرورت تھی لیکن یہ سمجھتی تھی کہ فتح سمرنا کی خوشی میں اکثر مضامین بہنوں کے موصول ہوں گے اور بالخصوص نظمیں اس لیے کہ اس سے قبل خلاف توقع اکثر نظمیں آتی تھیں لیکن اس مرتبہ ایسانہ ہوا۔

آئندہ ہفتہ میں ملک کے مسلمہ لیڈر مہاتما گاندھی کے سالگرہ اگرچہ میری غیر حاضری کے سبب خاص نمبر کا انتظام دشوار ہے لیکن چاہتی ہوں کہ بہنیں ضرور اپنے صفحات کے لیے مہاتما کی سالگرہ کی تقریب میں خاص مضامین عنایت کریں اگرچہ مہاتما گاندھی کے احسانات تمام عالم پر ہیں اور ہندوستان کا توکہ دمہ ان سے واقف ہے لیکن طبقہ نسواں بالخصوص ان کا ممنون احسان ہے۔

اخبار انڈپنڈنٹ الہ آباد کی حق پسندی نے شیخ مبشر حسین صاحب قدوائی کی تجویز حمایت انگورہ کو عملی جامہ پہنایا ہے اور اخبار موصوف نے تجویز کیا ہے کہ ایک مختصر فوج ہندوستانی مسلمانوں کے ترکوں کی مدد کے لیے روانہ کی جائے،اس سلسلہ سے بڑی مسرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ ہماری دو بہنوں یعنی بیگم قدوائی اور ان کی صاحبزادی نے بھی اپنے نام اس فوج میں بہ حیثیت نرس دیے  ہیں۔ اس اعلان کو بلا شبہ ہماری جدید قومی تاریخ میں ایک نایاب سمجھنا چاہیے۔ ‘‘  (مدیرہ) (ص6)

ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘میں’ ہند‘ کو  ہفت روزہ اخبار کے بجائے ماہانہ جریدہ لکھا ہے جو غلط ہے، دراصل ان کی رسائی اصل اخبار تک نہ ہو سکی تھی بلکہ ان کی اس معلومات کا ماخذ پروفیسر جمال خواجہ کا خط تھا۔ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین رقمطراز ہیں:

’’انھوں نے علی گڑھ میں ایک کھادی بھنڈار بھی قائم کیااور1921 میں علی گڑھ سے ہی ’ہند‘ نام کا ایک ماہانہ جریدہ بھی شروع کیا جس کی ادارت کے فرائض بھی انھوں نے خود ہی انجام دیے اپنے ایک پوسٹ کارڈ میں گاندھی جی نے انھیں لکھا تھا کہ وہ انھیںاردو میں اپنا سب سے پہلا خط لکھ رہے ہیں۔‘‘

(ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ، ص161)

امۃ الحمید خانم مرزا اپنے مضمون ’ زنانہ اخبارات ورسائل ‘ میں اس اخبار کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں

’’ہند سیاسی ہفتے وار اخبار محترمہ خورشید خواجہ صاحبہ کی ایڈیٹری میں علی گڑھ سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ سال بھر بعد اشاعت کا انتظام ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ سنا تھا پھر جاری ہوگا۔ معلوم نہیں کہاں تک ٹھیک ہے۔ سالانہ چندہ چھ روپے۔ خبریں، ایڈیٹوریل اور مضامین زیادہ ہوتے تھے۔ دوصفحے عالم نسواں کے عنوان سے نسوانی مضامین کے لیے مخصوص تھے جو خواتین کی عنایت سے بہ مشکل پر ہوتے تھے۔‘‘

تہذیب نسواں، لاہور 20 دسمبر1923، ص 839،)

قومی جنگ آزادی سے متعلق علی گڑھ سے جاری ہونے والے رسائل و اخبارات میں  ہفت روزہ ’ہند‘ کا شمار ایک اہم نیشنلٹ کے اخبار کے طور پر ہوتا ہے جس نے گاندھی جی کی سرپرستی میں آزادی کی تحریک کے لیے عوامی رائے بنانے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ خواتین کی حصے داری کو بھی ممکن بنایا اور ان کے خیالات اور آراکو بھی فوقیت سے شائع کیا۔

کلثوم سایانی اور ان کا پندرہ روزہ اخبار’رہبر

ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی گمنام خواتین میں کلثوم سایانی(1900-1987) کا نام بھی شامل ہے۔ وہ گاندھی جی کے قریبی رفیق اور ذاتی معالج ڈاکٹر رجب علی پٹیل کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر رجب علی پٹیل کا تعلق مسلمانوں کے سنی خوجہ جماعت سے تھا۔ کلثوم سایانی کی پیدائش 21اکتوبر 1900کو ہوئی۔ ان کا خاندان قومی سرگرمیوں کے لیے ممتاز تھا اس وجہ سے وہ بھی بچپن سے ہی قوم پرستانہ اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ان کی شادی ڈاکٹر جان محمد سایانی سے ہوئی تھی جو کہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رحمت اللہ سایانی (1847-1902) کے بھتیجے تھے۔ڈاکٹر سایانی خود بھی قومی تحریک میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے معالج خصوصی بھی تھے۔ انھوں نے کلثوم سایانی کو بھی قومی، سیاسی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔ کلثوم سایانی نے تعلیم خصوصی طور پر تعلیم بالغان میں اپنی دلچسپی کی وجہ سے اپنا زیادہ تر وقت بمبئی کے لوگوں کو چرخہ کلاسس میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے وقف کیا۔ وہ 1930 میں یونٹی کلب کی سکریٹری مقرر ہوئیں، جس کا مقصد عوامی شعور کو بیدار کرنا تھا۔انھیں 1938 میں کانگریس حکومت کی جانب سے قائم کردہ پہلی قومی پلاننگ کمیٹی کی خاتو ن رکن کے طور پر نامزد کیا گیا، انھوں نے اس موقع کا بہترین استعمال کیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت  اہم اقدامات اٹھائے۔انھوں نے گھریلو تعلیم کی اسکیم تیار کی اور مسلم خواتین کے درمیان کام کرنا شروع کیا۔ بیگم کلثوم سایانی نے بمبئی میں بی جی کھیر(1888-1957) کی قیادت میں قائم  1937  کی حکومت میں تعلیم بالغان کی جو کمیٹی بنی تھی وہ پہلے اس کی رکن کے طور پر نامزد کی گئیں اور بعد میں اس کی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔ وہ ہنسہ مہتا (1897-1995)کی گرفتاری کے بعد آل انڈیا ویمنس کانفرنس کی 1943 میں ایکٹنگ جنرل سکریٹری مقرر ہوئیں اور 1944 تا 1946 کے درمیان انھوں نے باقاعدہ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن،نئی دہلی کی آغاز سے ممبر تھیں۔اس کے علاوہ وہ ہندوستانی پرچار سبھا کی بھی شروع سے ہی ممبر رہیں، جس کے تحت انھوں نے متعدد تعلیمی لیکچر اور سمیناروں کا انعقاد کیا۔اور اس طرح  انھوں نے گاندھی جی کے مشن کو آگے بڑھایا۔

کلثوم سایانی نے آزادی کے بعدنئے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو کئی کمیٹیوں اور اداروں میں ممبر کی حیثیت سے جگہ دی، مثلاً جسٹس آف پیس، بچوں کی عدالت کی آنریری مجسٹریٹ، سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن، قومی یکجہتی کانفرنس، ریڈیو ایڈوائزری بورڈ، بمبئی اور فلم سنسر بورڈ بمبئی۔اس کے علاوہ انھوں نے تعلیم بالغان سے متعلق کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت کی۔وہ یونسکو کی تعلیم بالغان کی مشاورتی کمیٹی میں ہندوستانی کی نمائندہ تھیں۔ بیگم سایانی کو  1959 میں حکومت ہند نے پدم شری ایوارڈسے نوازا اور 1969 میں انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن کی جانب سے ان کو نہرو لٹریسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بیگم سایانی کا انتقال 28مئی 1987کو چھیاسی برس کی عمر میں ہوا۔

رہبر کا اجرا

1940 میں انھوں نے سادہ ہندوستانی میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’رہبر‘ جاری کیا۔ رہبر کے زیادہ تر مضامین سماجی، تعلیمی، اصلاحی اور سیاسی ہوتے تھے اس کا مقصد وہ لوگ جو نئے پڑھے لکھے ہیں، ان کو ہندوستانی زبان میں تعلیم دینا تھا۔یہ ایک قوم پرست اخبار تھا اور یہ اردو کے علاوہ دیو ناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی شائع ہوتا تھا۔ 16جنوری 1945 کو لکھے گئے خط میں گاندھی جی نے سایانی کو بیٹی کلثوم کے نام سے مخاطب کیا اور ان کے پندرہ روزہ اخبار کی تعریف کی۔ انھوں نے لکھا ’’ مجھے رہبر کا ہندی اور اردو کو متحد کرنے کا مشن پسند ہے، میں اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں‘‘۔ 1942 میں سیکڑوں مجاہدین آزادی جو کہ سیاسی قیدی کے طور پر ملک بھر کے جیلوں میں بند تھے، رہبر کا مطالعہ کرتے تھے۔  اس زمانے میں اس نے مختلف زبان بولنے والے سیاسی قیدیوں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم دی۔کلثوم سایانی نے پندرہ روزہ رہبر کو 20 برس 1940 تا 1960تک جاری رکھا اور وہ پوری طرح اس کی ادارت سے منسلک رہیں۔ رہبر کے وسیلے سے انھوں نے گاندھی جی کے ہندوستانی زبان کے نظریے کو فروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیم بالغان کے مشن کو بھی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

راقم الحروف کو پندرہ روزہ ’رہبر‘ کی جلد7 نمبر 15,15 فروری 1947 کے پرچے کا پہلا صفحہ ردی کی دوکان سے حاصل ہوا۔ اس کے سرورق کا جائزہ لینے پر یہ معلومات حاصل ہوتی ہے کہ یہ رسالہ دو کالموں میں ٹیبلائیڈ شکل میں چھپتا تھا۔ جس کی قیمت فی پرچہ ڈیڑھ آنہ تھی۔  سرنامے پر ’بالغوں کا پندرہ روزہ اخبار‘ اورپھر اس کے ذیل میں جلی حروف میں ٹائیٹل ’رہبر‘ درج ہے۔ اس کا مقصد نو آموز بالغوں میں تعلیمی اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانا تھا۔ رہبر کے مضامین ہلکے پھلکے ہوتے تھے اور ان کی زبان آسان ہندوستانی ہوتی تھی۔

 مذکورہ پرچے کا جائزہ لینے پر یہ پتا چلتا ہے، کہ اخبار کا آغاز’ نیک بات‘ کی سرخی سے ہوتا ہے، جس کے تحت یہ حدیث درج ہے’ عالم کی سیاہی کی بوند شہیدوں کے خون کے برابر ہے‘۔ اس کے بعد اپنی باتیںکے تحت قومی، سیاسی، اور سماجی خبریں درج ہیں۔ بیرسٹرآصف علی کے امریکہ میں پہلا سفیر مقرر ہونے کی خبر ہے نیز مولانا ابوالکلام آزاد کے وزیر تعلیم مقرر کیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک خبر سبھاش چندر بوس کے جنم دن پر لوگوں کی ہلڑ بازی پر ہے اور اس پر سخت اعتراض جتایا گیا ہے۔ بمبئی میں  ہوئے فساد پر بھی ایک خبر ہے، جس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اخبار میں خواتین کی اصلاح کے لیے مضامین بھی شامل ہیں۔

ہاجرہ بیگم اور ان کا ماہنامہ’ روشنی

ہاجرہ بیگم (1910-2003) کا تعلق رامپور کے ایک معروف خانوادے سے تھا۔ ان کی پیدائش سہارنپور میں 24دسمبر 1910 کو ہوئی۔ والد ریاست رام پور میں نائب تحصیلدار تھے۔ والدہ کا  انتقال بچپن میں ہوا۔ ابتدائی روایتی تعلیم گھر پر ہوئی1926 میں کوئنیز میری کالج، لاہور سے میٹری کولیشن کیا۔ پہلی شادی خاندان میں ہوئی لیکن شوہر سے نبھی نہیں اور انھوں نے 1932 میں طلاق لے لی۔ 1933 میں وہ اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ لندن گئیں جہاں انھوں نے مانٹی سوری کالج ٹیچرس کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ لندن میں وہ سجاد ظہیر(1899-1973) اور دیگر ہندوستانی طلبا کے ساتھ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئیں۔  واپس آنے کے بعد وہ کرامت حسین کالج، لکھنؤ میں ٹیچر انچارج کی حیثیت سے منسلک ہوگئیں جہاں ان کا تقرر ٹیچر انچارج جونیئر اسکول ہوا۔لکھنؤ میں ہی انھوں نے سجاد ظہیرکے ساتھ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے انعقاد کے لیے کام کیا۔اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کے لیے پی سی جوشی (1907-1980) کے ساتھ بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہی تھیں۔ 1935 میں ہی انھوں نے معروف کمیونسٹ لیڈر زیڈ اے احمد(1908-1999) کے ساتھ دوسری شادی کی۔یہ شادی سجاد ظہیر کے مکان پر ہوئی۔شادی کے فوراً بعد دونوں نے الہ آباد میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ ہاجرہ احمد نے پارٹی کے حکم سے انڈین نیشنل کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت بھی حاصل کی۔ اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرم ممبر کے طور پر بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہیں۔ اس خفیہ کام کرنے والوں کی ٹیم میں زیڈ اے احمد اور کنور محمد اشرف(1903-1962)بھی شامل تھے۔1936  میں انھوں نے کانگریس کے ماس کانٹیکٹ پروگرام کے تحت خصوصی طور پر خواتین کے لیے کام کیا اور 1937 کے ضمنی انتخابات میں سرگرم رول ادا کیا۔وہ کانگریس کے فیض پور، ہری پور اور رام نگر کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوئیں۔ 1940 میں ہاجرہ بیگم اور زیڈ اے احمد کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ہاجرہ بیگم نے 1940 میں آل انڈیا وومینس کانفرنس کی آرگنائزنگ سکریٹری کے طور بھی خدمات انجام دی۔و ہ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار’قومی جنگ‘ کی مستقل مضمون نگار تھیں۔ انھوں نے اس دوران ٹریڈ یونین تحریکوں اور خواتین کی تنظیموں میں نمایاں کام کیا،قومی یکجہتی اور امن پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا نیز پنڈت سندر لال کی رہنمائی میں امن دستوں میں شامل ہوکر فرقہ وارانہ فسادات ختم کرانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ آزادی سے قبل اور بعد میں ملک میںپیدا ہوئے فرقہ وارانہ حالات کا انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور پنجاب اور سرحدی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تدارک کے لیے دیگر خواتین کے ساتھ دورے کیے، علاقائی امن کمیٹیاں قائم کیں اور آپسی بھائی چارے کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران انھوں نے ہندوستان اور پاکستا ن میں پھنسی ہوئی خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے ساتھ بازیابی کروائی اور ان کو ان کے خاندان والوں تک بحفاظت پہنچایا۔ 1949 میں حکومت کے کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈائون میں ان کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ پانچ برس لکھنؤ جیل میں قید رہیں۔ ہاجرہ بیگم کا انتقال 20جنوری 2003 کو ہوا۔

 ماہنامہ روشنی کا اجرا اور اس کی ادارت

ماہانہ روشنی ہاجرہ بیگم نے بمبئی سے 1946میں جاری کیا تھا۔یہ انجمن خواتین ہند( آل انڈیا وومین کانفرنس) کا ماہانہ رسالہ تھا اور یونائیٹیڈ فائن آرٹ لیتھو، مازگائوں، ممبئی سے چھپتا تھا۔ یہ رسالہ 34 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس رسالے کا مقصد خواتین کو معاشی طور پرخود اختیار بنانا تھا اور اس کی اصلاح کی تدابیرکرنا تھا نیز ان کے اندر قومی معاملات سے متعلق سوجھ بوجھ پیدا کرنا تھا۔ تاکہ وہ بعد آزادی  ہندوستان کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔اس کی مجلس ادارت میں لیڈی راما رائو، بیگم معصومہ حسین علی خاں، مسز وجے لکشمی پنڈٹ، مسز رامیشوری نہرو، بیگم کلثوم سایانی اور راج کماری امرت کور شامل تھیں۔  ریختہ کی ویب سائٹ پر راقم الحروف کو روشنی کے تین پرچے دستیاب ہوئے ہیں، جن میں دو آزادی سے قبل کے اور ایک آزادی کے بعد کا ہے۔ان تینوںپرچوں کا معروضی جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ا س رسالے نے آزادی سے قبل اور بعد میں فرقہ وارانہ حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور خواتین کو سیاسی طور پر بیدار کر نے میں بھی اس کی کوششیں بہت نمایاں تھیں۔ ان شماروں کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف خواتین قلم کاروں کے مضامین ہی شامل ہوتے تھے۔

ہمارے سامنے جلد 1 کا شمارہ چار بابت اگست 1946  موجود ہے جس کا اداریہ ’کانفرنس کی نئی تجویزیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر نے انجمن خواتین ہند کی کانفرنس میں جو تجویزیں پاس کی ہیں ان پر گفتگو کی ہے نیز ہندوستان کے سماجی وسیاسی منظرنامے پر جو تبدیلی آرہی تھی، اس پر بھی روشنی ڈالی، اداریے کا یہ اقتباس دیکھیں:

’’آج ہندوستا ن میں صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی ہل چل نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں بھی ایک نئی بیداری پائی جاتی ہے جو ابھی تک آزادی کی لڑائی سے بہت دور رہتے تھے۔کارخانوںکے ضروری نہیں بلکہ کلرک،ڈسٹرکٹ بورڈ کے ٹیچر میونسپلٹی کے مہتر حتیٰ کی اینگلو انڈین اور عیسائی لڑکیاں، پولس اور فوج کے سپاہی تک نڈر ہوکر اپنی حالت بہتر کرنے کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ اسی طرح ایسی ریاستوں کے رہنے والے جو ابھی تک باقی ہندوستان کے رہنے والوں سے الگ رکھے جاتے تھے ایسا راج اپنی ریاستوں میں قائم کرنے کی تحریک کررہے ہیں۔جس میں ان کی بھی شنوائی ہو۔ جہاں ان کو اختیار دیے جائیں اور جہاں صرف راجہ اور نواب کی نادر شاہی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کے صلاح مشورے سے کام کیا جائے۔‘‘

 ایک مضمون ’ہماری غلہ کی دوکان‘ کے عنوان سے بھی اس شمارے میں شامل ہے، جس میں بڑودہ میں انجمن خواتین نے غریب لوگوں کے لیے راشننگ کا جو نجی طورپر انتظام کیا تھا اس کی تفصیل درج کی گئی ہے۔اسی طرح ایک مضمو ن صوبۂ بمبئی کی کوآپریٹو سوسائٹی کی تجویز پر ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی کوآپریٹو سوسائٹیوں سے خواتین کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور خواتین کو امپاور کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں کس طرح مدد کی ہے۔ اسی شمارے میں ایک مضمون معروف سماجی کارکن رامیشوری نہرو (1886-1966)  اور ان کے خواتین کے لیے اصلاحی کارناموں پر ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت اور ان کی تربیت پر بھی کالم ہے۔ خبروں کے تحت ریاست سانگلی میں میونسپلٹی اور دوسری چنی ہوئی کمیٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی پر بات کی گئی ہے۔ایک مضمون ’اٹلی کی عورتیں‘ کے عنوان سے بھی شامل ہے۔

روشنی کے جلد2 نمبر1، 2 بابت مئی جون 1947 کے پرچے میں اداریہ پنجاب میں فساد پر ہے جس میں انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہ جس طرح خواتین کو زود کوب کیا گیا ہے وہ ہندوستانیوں کے لیے افسوس ناک بات ہے۔ تقسیم کے وقت فسادات میں سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوئے۔ہاجرہ بیگم اس سے بہت متاثر تھیں۔ وہ اپنے اداریے میں لکھتی ہیں

’’جو نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ تو یہی کہ آج کی سیاست ہماری ترقی،تعلیم، سماج سدھار، قومی ایکے اور سیاسی آزادی کی سب ہی سوالوں کودن بہ دن زیادہ مشکل بنائی جارہی ہے اور ہمارا عزم کہ ہم ہندوستان کی عورتوں کو ایک مضبوط کڑی کی باندھ دیں گے اور اس کا سلسلہ دنیا کی عورتوں کی تحریک سے ملادیں گے۔روز بروز زیادہ دشوار ہوتا جارہاہے۔ مگر ہماری انجمن نے عورتوں کی خدمت اور امداد،ان کی تنظیم اور آزادی کا کام جو ہاتھ میں  لیا ہے۔اس کو ہم نہ چھوڑیں گے ہندوستان ہو یا پاکستان ہو۔عورت ذات کی مجبوریاں اور ضرورتیں بدستور قائم ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش ہم جاری رکھیں۔

پنجاب کی دکھی عورتوں کے ساتھ ہماری گہری ہمدردی ہے ساتھ ہی ہم اپنی ان بہادر بہنوں کو مبارک باد دیتے ہیں جو کہ نفرت اور انتقام کے جذبوں سے بالاتر ہیں۔وہ سیکڑوں مسلمان بہنیں جنھوں نے اپنی جان پر کھیل سکھ عورتوں اور بچوں کو پناہ دی اور ان کی امداد کی، وہ ہمت والی سکھ اور ہندو عورتیں جنھوں نے مسلمان مرد اور عورتوں کی جان اور عزت کو بچایا۔

ہماری انجمن کی بہنیں پنجاب میں اب بھی پوری تند ہی سے کوشش کررہی ہیں کہ پنجاب کی عورتیں سمجھ جائیں کہ آپس میں لڑوانے والا کون ہے اور ہندو مسلمان اور سکھ کی لڑائی سے کس کی طاقت مضبوط ہوتی ہے، تاکہ ان کا غم اور غصہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردینے کی بجائے مل کر اپنے دشمن سے لڑنے پر تیار کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش نؤبے کار نہ جائے گی اور پنجاب اور ہندوستان بھر میں وہ اس ایکے کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جس کے بغیر ہم اپنے پیروں پرکھڑے نہیں ہوسکتے اور ملک کوصحیح معنوں میں آزاد نہیں کرواسکتے۔‘‘

 اسی پرچے میں معروف سماجی مصلح اور مجاہد آزادی کملا دیوی چٹوپادھیا (1903-1988) کا ایک مضمون بعنوان ’انجمن کو کیا کرنا ہے؟‘شامل ہے، جس میں انجمن کے مقاصد کے بارے میں درج کیا گیاہے اور اس کو عملی طور پر فعال بنانے کے لیے اقدامات بتائے گئے ہیں۔ ’پنجاب کے فساد اور ہمارا کام‘ کے عنوان سے ایک تحریر پورن مہتا کی بھی ہے۔ چوڑیاں بنانے والی کے عنوان سے ایک مضمون حسنہ بیگم انصاری کا ہے، جس میں انھوں نے ان خواتین کی حالت زار اور ان کی غربت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو اس صنعت سے وابستہ ہیں نیز ا ن کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی جانب اقدام کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا جائزہ ہے۔ ایک مضمون ’کرناٹک میں کستوربا فنڈ کا کام‘ اومابائی کنڈا دیوی کا ہے۔ آخیر میں تھیٹر کی معروف شخصیت اور پنجابی زبان کی معروف شاعرہ شیلا بھاٹیہ (1916-2008) کی ایک طویل پنجابی نظم ’ہندیو !بے خبرو‘ پیش کی گئی ہے۔

روشنی ‘آزادی کے بعد لکھنؤ سے شائع ہونے لگا۔ اس کا شمارہ 10، جلد 2 بابت فروری 1948 گاندھی جی کی شہادت پر خصوصی شمارہ تھا۔ جس میں مدیرہ ہاجرہ بیگم نے 8 صفحات پر مشتمل ایک طویل تعزیتی اداریہ گاندھی جی کی یاد میں تحریر کیا۔ مدیرہ نے اپنی اس تحریر میں گاندھی جی کی خواتین کو بیدار کرنے کی سمت میں جو خدمات رہی ہیں، اس پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی ہے۔مدیرہ اپنے اس اداریے میںرقمطراز ہیں:

’’ہندوستان کی عورتوں کو آزادی کی تحریک میں شریک کرنے میں گاندھی جی کا بڑا ہاتھ تھا۔ہر تحریک میں انھوں نے ملک کی رہنما خواتین کو اپنے مشوروں میں شریک کیا اور ان کے لیے خاص کام اور خاص جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔پہلی ستیہ گرہ کمیٹی میں مسز سروجنی نائیڈو اور انسوما بہن ان کی شریک تھیں۔ ہریجن کام میں مسز رامیشوری نہرو اور راجکماری امرت کور کو انھوں نے اپنے ساتھ رکھا،خلافت تحریک میں ہزاروں مسلمان عورتیں ان کا پیغام سن کر آگے بڑھیں اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوئیں کستوربا کے مرنے پر ان کی یادگار میں انھوں نے دیہاتی عورتوں اور بچوں کی امداد کا ادارہ قائم کیا۔ ہندوستان کی عورتوں کو انھوں نے سپاہی بننا سکھایا، دیش سیویکا بنا یا، وردی پہنوا کر میدان عمل میں لاکھڑا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی عورتیں رورہی ہیں کہ ان کا ایک بڑا سرپرست اور معاون دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘

 ایک ایسے دور میں جب عام طور پر ہندوستانی مسلمان خواتین کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ وہ گھریلو ہوتی ہیں نیز ان کا کام خاندان کوسنوارنا اور ان کی خدمت کرناہوتا ہے،اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بیگم خورشید خواجہ، بیگم کلثوم سایانی اور ہاجرہ بیگم کی زندگیاں قومی آزادی کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔انھوںنے ا پنی روشن خیالی، اپنی قوت ارادی، اپنے عمل سے پرانی دقیانوسی رسوم وروایات کو توڑا اوراپنے جرائد اور اپنی صحافت کے وسیلے سے جدوجہد آزادی کی تحریک میںروشن مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف آزادی کی لڑائی میں پیش پیش رہیں بلکہ انھوں نے صنف نسواں میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری، اور شعور پیدا کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

 

 ماخذ ات و حوالے

  1. نقوی،سید محمد اشرف، اختر شاہنشاہی، لکھنؤ، 1888
  2. صابری، امداد، تاریخ صحافت اردو، حصہ دوم، حصہ سوم،حصہ چہارم، حصہ پنچم، دہلی1953،1974، 1983
  3. خورشید، ڈاکٹر عبدالسلام، کاروان صحافت، انجمن ترقی اردو، کراچی، 1966
  4. ارشد، محمد(مرتب)،ہندوستانی صحافت۔ محمد عتیق صدیقی کے صحافتی مضامین، 2001
  5. فاروقی،محبوب الرحمن اور کاظم، محمد(مرتبین)، آج کل اور صحافت، پبلی کیشن ڈویزن، دہلی، 2000
  6. سمیع الدین، ڈاکٹرعابدہ،ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ،  ادارہ تحقیقات اردوپٹنہ1900
  7.  اختر،ڈاکٹر جمیل،اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، جلد اول، دہلی، 2016
  8. چندن، جی، ڈی، اردو صحافت کا سفر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی، 2007
  9. فاروقی، اسعد فیصل، علی گڑھ میں اردو صحافت، علی گڑھ،2016
  10. دہلوی، انور علی، اردو صحافت، اردو اکاڈمی، دہلی، 1987
  11.  ماہنامہ، تہذیب نسواں، لاہور 20 دسمبر 2913
  12. ہفت روزہ ’ہند‘، علی گڑھ( جلد۱،شمارہ نمبر 16 بابت27 ستمبر1922 )
  13. پندرہ روزہ ’’رہبر‘‘، بمبئی(جلد7 نمبر 15، بابت 15 فروری 1947 )
  14. ماہنامہ ’’روشنی‘‘، بمبئی، لکھنؤ( جلد ۱، شمارہ4،اگست 1946، جلد 2، شمارہ 1، 2، مئی جون 1947، جلد 2، شمارہ10، فروری 1948)
  15. https://www.s-asian.cam.ac.uk, interview Kulsum Sayani

 

Dr. Asad Faisal Farooqui

Dept of Mass Communication

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 9412595891

Email.: asadfaisalamu@gmail.com 

30/5/23

ترسیل اور عوامی ترسیل کا معنی ومفہوم:واثق الرحمن





 ترسیل عربی زبان کا لفظ رسل سے ماخوذ ہے،جس کا معنی بھیجنا یا پہنچانا ہے۔ انگریزی زبان میں ترسیل کو Communicationکہتے ہیں، جو بنیادی طور پر لاطینی لفظ ’کمیونی کیئرCommunicareسے ماخوذ ہے۔جس کا معنی اشتراک کے ہیں۔ 1

بقول پروفیسر محمد شاہد حسین:

’’جب ہم کسی جذبے، خیال، معلومات یا محسوسات کو دوسرے تک بھیجتے ہیں تو اسے مشترک کر تے ہیں گویا اس میںدوسروں کو شریک کر تے ہیں لہٰذا خیالات اور تجربات ومحسوسات میں دوسروں کو شریک کر نے کا عمل ترسیل کہلاتا ہے۔‘‘2

ویربالا اگر وال اور وی ایس گپتا نے ترسیل کو تصورات، خیالات، عقائد، معلومات اور نظریا ت کے باہمی تبادلے سے تعبیر کیا ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے :

’’ترسیل اطلاع بھیجنے یاحاصل کر نے کا عمل ہے۔ یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم انسانی رشتوں کو ہموار کر تے ہیں اور فروغ دیتے ہیں۔‘‘3

دراصل ترسیل تقریر، تحریر اور اشاروں کے ذریعے رائے، خیالات اور معلومات کے تبادلے کا نام ہے۔ ترسیل وہ عمل ہے جس سے فرد کو اجتماعیت حاصل ہوتی ہے۔  یہ شخصی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور اسے نئی سوچ عطا کرتی ہے۔ اس سے انسان کو غور وفکرکرنے کے نئے انداز مہیاہوتے ہیں جس کا اثر پورے سماج پرہوتاہے۔ جس طرح ایک انسان کے پھلنے پھولنے کے لیے غذا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح معاشرتی ترقی کے لیے ترسیل اور عوامی ترسیل بھی ضروری ہے۔ ترسیل سماج کے بنیادی ڈھانچے میں اسی طرح پیوست ہے جس طرح انسان کی نسوں میں خون۔ یہ انسان پر ایسا تاثر چھوڑتی ہے جس سے انسان اپنی شخصیت میں نمایاں تبدیلی لاکر خود سماجی تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔

 ترسیل ایک فطری عمل ہے۔ یہ انسانی زندگی اور سماج کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کے بغیر معاشرتی زندگی اور سماجی چہل پہل نا ممکن ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ترسیل کے بغیر انسان کا وجود رہنا ہی مشکل ہے تو ہر گز بے جا نہ ہو گا۔ ترسیل کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی تخلیق۔ ترسیل انسان کی تاریخ کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے۔ انسان کی تاریخ کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ترسیل کی تاریخ بھی پروان چڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کی ترقی کے ساتھ ترسیل کے اقسام اور ہیئت میں بھی دن بہ دن وسعت ہوتی رہی ہے۔

کلام اور غیر کلام کے اعتبار سے ترسیل کو کلامی اور غیر کلامی ترسیل میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔ کلامی ترسیل میں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جبکہ غیر کلامی ترسیل میں اشارے، کنایے میں پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں۔ اس میں باڈی لینگویج کا بڑا دخل  ہے۔ چہرے کے تاثرات، آنکھوں کے اشارے، ہاتھوں اور پیروں کی حرکات وسکنات، سر کی جنبش وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

عمومی طور پر ترسیل کی پانچ قسمیں، اندرون ذاتی ترسیل، شخصی ترسیل، جماعتی ترسیل، طبقاتی ترسیل اور عوامی ترسیل بیان کی جاتی ہیں۔ ’اندرون ذاتی ترسیل‘ ترسیل کی سب سے قدیم قسم ہے۔ اس کی تاریخ اس وقت سے مانی جائے گی جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ’اندرون ذاتی ترسیل‘ میں ایک انسان بذات خود اندرون میں اپنے حواس کے مطابق ضرورت کی چیزوں کو طلب کرتا ہے۔ حسیاتی نظام کے تحت دماغ کسی پیغام کو پورے جسم میں پھیلاتا ہے اور اس کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔

بین شخصی ترسیل میں دو لوگ آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ مگر کبھی کبھار دو سے زائد لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ دو سے زائد کے حلقے میں بھی بروقت دوہی لوگ بات چیت کرتے ہیں۔ لوگوں کے اس حلقے میں سورس اور رسیور(مرسل اور مرسل الیہ) میں فور ا  تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

جماعتی ترسیل میں جماعت کا اعتبار ہوتا ہے اس میں دو سے زائد افراد کے درمیان ترسیل کا عمل انجام پاتا ہے۔ ترسیل کی اس قسم میں سورس اور رسیور کے درمیان ایک واضح رشتہ ہوتاہے۔ اس ترسیل میں رسیور کی تعداد گنتی کی جا سکتی ہے۔ جبکہ طبقاتی ترسیل ایک بڑے مجمع کے درمیان ہوتی ہے۔ اس میں رسیور کی تعداد کی گنتی نہیں کی جا سکتی ہے مگر ان کا تخمینہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کی ایجاد سے پہلے اس ترسیل کو عوامی ترسیل کے نام سے بھی جا نا جاتا تھا۔ مگر جدید سائنسی ایجادات کے بعد اس ترسیل کا نام طبقاتی ترسیل اورجد ید دور کے ذرائع ابلاغ کو عوامی ترسیل میں شمار کیا گیاہے۔

’عوامی ترسیل‘ ترسیل کی سب سے جدید ترین قسم ہے۔ عوامی ترسیل کو انگریزی میںMass Communication کہتے ہیں۔ اس ترسیل میں رسیور کی تعداد کی گنتی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ عوامی ترسیل میں اخبار، رسائل وجرائد، پمفلیٹ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا وغیرہ شامل ہیں۔

’شرلی بیاگی ‘کہتے ہیں:

’’عوامی ترسیل مواصلات کے مختلف ذرائع جیسے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا وغیرہ کو کسی ایک وقت میں استعمال کرکے متنوع آبادی کے ایک بڑے حصے تک معلومات پہنچانے اور ان کا تبادلہ کرنے کا ایک عمل ہے۔‘‘4

اسٹڈی ڈاٹ کام کے تحت:

’’ عوامی ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک شخص یا لوگوں کا ایک گروپ یا کوئی ادارہ مواصلات کے ایک چینل(ذرائع) کے ذریعے گمنام اور متضاد لوگوں اور تنظیم کے ایک بڑے گروپ کو پیغام بھیجتا ہے۔5

محمدشاہد حسین اور اظہار عثمانی کی کتاب ’اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ‘ میںعوامی ترسیل کی تعریف یوں ہے کہ:

’’عوامی ابلاغ کے ذریعے اطلاعات، خیالات، تجربات، فکرونظریات،علوم وفنون، تفریحی مواد، حالات حاضرہ،عوامی مسائل اور دیگربہت سی چیزوں کو ایک بڑے اور مختلف النوع انسانی گروہ تک بیک وقت کسی ایسے ذرائع سے پہنچایا جائے جو اس کے لیے اختراع کیا گیا ہو۔ 6

ان تمام تعریفوں کا لب لباب یا پھر یوں کہیے کہ مرکزی خیال یہ ہے کہ عوامی ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس میں بیک وقت پیغام کو چینل کے ذریعے بڑے پیمانے پرمعلوم یا نا معلوم متعدد لوگوں تک پہنچایا جا ئے۔ عوامی ترسیل کے چینل میںاخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر محمد شاہد حسین کہتے ہیں :

’’مختصر یہ ہے کہ ہم ان ہی چیزوں کو عوامی ابلاغ کے ذرائع مانتے ہیں جو فنی اور تکنیکی طور پر پیغامات کو عوام کے بڑے گروہ تک بیک وقت پہونچانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔‘‘7

عوامی ذرائع ابلاغ کے اجزائے ترکیبی میں سورس، میسج (پیغام)، چینل، رسیور، فیڈبیک اور بریئر(رکاوٹ) شامل ہیں۔ 

ٹیکنالوجی کا معنی ومفہوم

ٹیکنالوجی کی تعریف میں ماہرین کی مختلف آرا رہی ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق :ٹیکنالوجی سائنسی علم سے تیارکردہ مشینیں اور آلات ہیں۔ جبکہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا گیا ہے:

’’ ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے عملی مقاصد کے لیے سائنسی علم کا استعمال ہے۔یہ انسانی ماحول اور سرگرمی کی تبدیلی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔‘‘8

دراصل ٹیکنالوجی سائنس اور معلوما ت کے فنی اور عملی استعمال کو کہا جا تا ہے۔ اس شعبۂ علم کے دائرے میں وہ تمام آلات،تمام دستور العمل یا طریقۂ کار بھی آجاتے ہیں جو علمی استعمال سے متعلق ہو تے ہیں۔ عوامی ترسیل کے تعلق سے ٹیکنالوجی سائنس اور معلومات کے اس فنی اور علمی استعمال کو کہیں گے جسے ترسیل کے تعلق سے عمل میں لایا جا تا ہے۔ اس ضمن میں وہ تمام مشینیں اورآلات ٹیکنالوجی میں شامل ہوں گے جو ترسیل کے عمل میں ضروری ہیں۔

ترسیل کے تعلق سے جہاں تک نئی ٹیکنالوجی کی بات ہے توہر زمانے میں عوامی ترسیل کے لیے جو جداگانہ طریقۂ کار، نئے آلات اور مشینیں استعمال کی گئیں ہیں اسے ترسیل کے عمل میں نئی ٹیکنالوجی کہیں گے۔پرنٹ مشین آجانے کے بعد1609 سے مطبوعہ صحافت کی شروعات ہوئی یا پھر 1780میں ہکی (Hicky)نے بنگال گزٹ اخبار نکالاتو یہ اپنے اپنے وقت میں عوامی ترسیل کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی تھی۔ اسی طرح جب ٹیلی ویژن ایجاد کیا گیا اور اس سے عوامی ترسیل کا کام لیاجانے لگا توترسیل کے لیے یہ بھی ایک نئی ٹیکنالوجی تھی۔ آج کے دور میںعوامی ترسیل کے لیے جدید ترین کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویب ایپلی کیشن، سافٹ ویئروغیرہ جو استعمال ہو رہے ہیں آج سے پندرہ،بیس سال پہلے ہم ان سے واقف نہیں تھے۔ بلا شبہ یہ ہمارے دور میں ایک نئی ٹیکنالوجی ہے۔

عوامی ترسیل اور نئی ٹیکنالوجی کا باہمی ربط

چینل(ذرائع) کا تعلق مشینوں سے ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کا تعلق بھی مشینوں سے ہے۔ بذات خود ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے جبکہ عوامی ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں عوامی ترسیل نئی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ منحصرہے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر عوامی ترسیل کا وجود ناممکن ہے۔ عوامی ترسیل کو وسعت دینے اور تیز رفتار کرنے میں نئی ٹیکنالوجی نے فعال کر دار نبھایا ہے۔ پہلے عوامی ترسیل میں کوئی خاطر خواہ وسعت اور تیزی نہیں تھی۔ریڈیو،ٹیلی ویژن اور اخبارات سے عوامی ترسیل کا کام انجام دیاجا رہا تھا۔ اس ترسیلی نظام میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا اور کئی بار خبروں کے حقائق تک پہنچنابھی ایک مشکل کام تھا۔

بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جہاں ہر میدان میں انقلاب آیا وہیں عوامی ترسیل کے ذرائع (چینل) پر بھی اس کا اثر نمایاں ہو ا۔ گذشتہ تین چار دہائیوں میںسائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی (حالانکہ دوسرے ممالک میں اس سے قبل ترقی شروع ہوگئی تھی)۔  اس دوران انسانی تاریخ میں ترقی کا پہیابڑی تیزی سے گھوما اور پھر نئی ٹیکنالوجی کے راستے ہموار ہوئے۔ آج کا دورتو یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجی عوامی ترسیل کا ایک لازمی جز یا پھر یو ںکہیے کہ پورے جسم میں انھیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ جدیددور میں سماجی تبدیلی اور ارتقا میں نئے حرفیاتی نظام کا اہم رول رہا ہے۔ مارشل میک لوہان نے اپنی کتاب  Media' Understanding  'میں لکھا ہے کہ:

’’ سماج کو نئی شکل دینے میں فکر سے کہیں زیادہ میکانیکی ذرائع کا ہاتھ ہے جو فکر کی نشرواشاعت کو ممکن بناتے ہیں۔ الیکٹرونک انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی گراف، ٹیلی فون، ریڈیو،ٹیلی ویژن فلم اور کمپیوٹر ہماری تہذیب کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ اس سے قبل پرنٹ میڈیا نے یہ اہم رول ادا کیاتھا۔‘‘9

میڈیا کے اقسام

میڈیا کے اقسام یوں تو دو یعنی ’پرنٹ میڈیا‘ جیسے کتاب، اخبار، رسائل اور ’الیکٹرونک میڈیا‘ جیسے ٹیلی ویژن، ریڈیو، ٹیلی فون وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں مگر دور جدید میں میڈیا کو ’روایتی میڈیا‘  (Traditional Media) اور ’نیا میڈیا‘ (New Media)میں تقسیم کیا گیا ہے:

µ      روایتی میڈیا میں عوامی ترسیل کے وہ تما م ذرائع ہیںجو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے پہلے رائج تھے۔اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، پرنٹ میڈیاجیسے اخبارورسائل وغیرہ شامل ہیں۔

µ      نیا میڈیاعوامی ترسیل کے ان ذرائع کو کہتے ہیں جس میں کمپیوٹرٹیکنالوجی کے ذریعے الیکٹرونک مواصلات کی مختلف قسم کو بروئے کار لایا جائے۔ اسے ڈیجیٹل میڈیا کے نام سے بھی موسوم کیا جا تا ہے۔ اس میں ویب ایپلی کیشن ہائبرڈ(web application hybrid)،انٹرنیٹ آرٹ،ملٹی میڈیا سی ڈی رومس (Multimedia CD-ROMs)، سافٹ ویئر، ویب سائٹس جیسے بروشروائر، بلاگ اور ویکیز، ای میل اور اٹیچمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔

سوشل میڈیا اور نیو میڈیا میں فرق

سوشل میڈیا نیو میڈیا کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہ آن لائن کمیونٹی کے مابین بات چیت کا ایسا ذریعہ ہے جس میں معلومات اور خیالات کے تبادلے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ عوامی ترسیل میںرسیور (مرسل الیہ) مجہول (Passive position) ہو تا ہے جبکہ سوشل میڈیا میں رسیورسینٹر یعنی معروف ہو تا ہے۔ فیس بک، ٹیوٹر،انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ(Snapchat)، یوٹیوب، اور وی میو(Vimeo)، سوشل میڈیا کے اہم پلیٹ فارم ہیں۔

عوامی ترسیل کی زبان

ابلاغ وترسیل میں زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔ ترسیل کی تمام قسموں میں یوں تو زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے مگر عوامی ترسیل میں زبان کی اہمیت اور ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ زبان کے بغیر موثر طور پر عوامی ترسیل کا عمل ناممکن ہے۔ حالانکہ عوامی ترسیل کے اجزاء ترکیبی ’سورس (مرسل )چینل (ذرائع) پیغام، رسیور (مرسیل الیہ) فیڈبیک اور بریئر(رکاوٹ )‘ میں ’زبان‘ کو جگہ نہیں دی گئی ہے مگر پھر بھی ہمیںعوامی ترسیل میں زبان کو اہمیت دینی ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیر عوامی ترسیل کا عمل پتھر میں جونک لگانے کے مترادف ہے۔ انجم عثمانی کہتے ہیں:

 ’’ترسیل صرف بات کہہ دینا(چاہے وہ تصویرکی زبانی ہو،لفظ کے ذریعے ہویاعمل وحرکت کے ذریعے) نہیںہے، بلکہ بات کا پہنچنا بھی ضروری ہے۔جہاں بات دوسرے تک منتقل نہ ہو پائے وہاں ترسیل نہیں ہوگی۔‘‘10

بسااوقات اشارے،کنایے اور حرکات وسکنات وغیرہ کے ذریعے بھی ترسیل کا کام لیا جاتا ہے مگر ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔

عوامی ترسیل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی ترسیل کی زبان کے کوئی خاص اور متعین اصول وضوابط نہیںہیں جس کی روشنی میں پیغام آسانی سے مرتب کیا جاسکے۔ اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاہر ایک کی الگ زبان، حدود اور تقاضے ہیں۔

عمومی طورپر عوامی ترسیل کی زبان سادہ اور آسان ہونا چاہیے۔ اس میں الفاظ وجملوں کی تکرار نہیں ہونی چاہیے۔ اضافت اورمترادفات کے استعمال سے بچنا چاہیے۔ تحریر و تقریر میں ربط اور جملے کے اختصار کے ساتھ ان کی ساخت وتراکیب سہل ہونا چاہیے۔ مروجہ اصطلاحات کے استعمال کے ساتھ عربی،فارسی،سنسکرت اور انگریزی کے ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے جو نامانوس اور مشکل ہوں۔ اخبار کی زبان آسان اور روز مرہ کی زبان ہونی چاہیے تاکہ رسیور کو پہلی نظر ہی میں بات سمجھ میں آجائے۔کتابی زبانوں سے بچنا چاہیے۔ سہل اور آسان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ غیر معیاری ہونی چاہیے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی زبان میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر اخبار کا قاری تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہوتا ہے مگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے رسیور (مرسل الیہ)ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بالکل بھی پڑھے لکھے نہ ہوں۔یہاں ایک بار بات نکل جانے کے بعد اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔اس لیے یہاں زبان کے ربط اور منطقی ترتیب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

سماج پرعوامی ترسیل اورنئی ٹیکنالوجی کے اثرات

بلاشبہ نئی ٹیکنالوجی ہماری معاشرتی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔ اس نے ہماری سماجی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ سماجی تبدیلی،رائے عامہ کی تشکیل اور اسے ہموار کرنے میں نئی ٹیکنالوجی کا بڑا دخل ہے۔افراد کی ذہنی نشوونما،سیاسی بصیرت،سماجی شعورکی بیداری اور کر دار سازی میں ٹیکنالوجی کا اہم رول ہے۔آج پوری دنیا مارشل میکلوہان(Marshall McLuhan) کے بقول ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ہمارے ملک کی بات چھوڑیے ہم سکنڈوں میں دوردراز ممالک اور جگہوں کی حالت سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ ایک کلک میں ہم ان کی معاشرتی زندگی، سیاسی خدوخال، بازاروں میں اشیا کی قیمتوں اور اتارچڑھائوکے بارے میں آسانی سے جان سکتے ہیں۔ وہاں موجود لوگوں سے ویڈیو اور آڈیو کالنگ کے ذریعے بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ 

تعلیم کی تحصیل وترسیل اور فروغ میں نئی ٹیکنالوجی ایک جزء لاینفک ہے۔ تعلیمی میدان میں انقلاب نئی ٹیکنالوجی کا ہی مرہون منت ہے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر آج تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ نئی ٹیکنالوجی سے ہمارے سماج پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت غلط اور گمراہ کن چیزوں نے ایک مہذب سماج کا تانابانااور عظمت کو مجروح کیا ہے۔ غلط بیانی، جھوٹ اور افواہوں کی تشہیر وترسیل کرکے آپسی بھائی چارے اورقومی یکجہتی کو تار تارکیا ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی دو دھاری تلوارہے یا پھر ایک ایسا چاقو ہے جس سے اچھے اور برے دونوں طرح کے کام لیے جا سکتے ہیں۔ گویا یہ ایک آگ ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو سلامت رکھ سکتے ہیں اور ان کا غلط استعمال کرکے زندگی کے نشیمن کو خاکستر بھی کر سکتے ہیں۔

نئی ٹیکنالوجی اپنے دامن میں روشنی اور تاریکی دونوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ ان کا استعمال انھیں اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والوں کے اوپر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ان کی روشنی سے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک ا ورسماج سے بھی اندھیرے کو مٹا کر تعمیری کام انجام دے سکتے ہیں وہیں ان کے منفی استعمال سے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ملک ا ورسماج کو گمراہ بھی کرسکتے ہیں۔

نئی ٹیکنالوجی سے ہمارے سماج میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ایک طرف اگر اس سے نئی نسل میں اخلاقی گراوٹ،اقدار کی پامالی اور جرائم میں اضافہ ہو اہے تو دوسری طرف اس نے سماج کا ایک آئینہ بن کر اس کا تحفظ بھی کیا ہے۔ مستقبل کے مسائل سے نبر دآزما ہونے کے راستے بھی ہموار کیے ہیں۔یہ صرف ہمیں باخبر کرکے نئی فکر،نئے شعور سے ہم آہنگ ہی نہیں کراتی بلکہ تجربات میں وسعت پیدا کرکے نئے چیلنجز قبول کرنے کے لائق بھی بناتی ہے۔ معاشرتی،سیاسی اور اقتصادی حالات کی صحیح تصویر کشی کرکے معاشرے کا عکس عوام کے سامنے پیش بھی کرتی ہے،تاکہ عوام صورت حال کے مطابق لائحہ عمل تیار کر سکے۔

غرض کہ نئی ٹیکنالوجی عوامی ترسیل کے ساتھ انسانی زندگی کے لیے ایک لازمی شے بن چکی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ٹیکنالوجی کے بغیر آج عوامی ترسیل کا وجود ناممکن ہے۔ اس کی اہمیت وافادیت موجودہ دور میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔نئی ٹیکنالوجی کے نقصانات کومدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی شخص شترمرغ بن کر اپنا سر ریت میں چھپا لے کہ آندھی نہیں آئے گی تویہ اس کی خام خیالی ہے۔ ٹیکنالوجی انسانی زندگی پراپنی گرفت مضبوط کر چکی ہے اور آگے بھی اس کے دائرے پھیلتے جائیں گے۔بل گیٹس نے’ انٹرنیٹ از دی فیچر‘ میں لکھا ہے کہ:

’’انٹرنیٹ ایک تلاطم خیز لہر ہے جو کمپیوٹر انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے اس میں ڈوب جائیں گے۔‘‘11

حواشی

  1.   اردو میڈیا: پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین،مضمون: او پی ورما، این سی پی یو ایل،2014، ص 1
  2.       ابلاغیات/پروفیسر محمد شاہد حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی، 2020، ص 3
  3.        اردو میڈیا، ص 37
  4. Media/Impact: An Intoduction to Mass Media By Shirley Biagi, Belmont, CA: Wadsworth,1988, Page No:7/8, 
  5.       اسٹڈی ڈاٹ کام،لفظ:’ماس کمیونی کیشن ‘
  6. ,7   اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ/محمد شاہد حسین،اظہار عثمانی، اردو اکادمی دہلی،2007، ص 8-9
  7.          انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا،لفظ ’ٹیکنالوجی ‘
  8.       عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیر وترقی، دیویندر اسر،مترجم : شاہد پرویز،،این سی پی یو ایل، 2012، ص 14
  9.     ٹیلی ویژن نشریات: تاریخ، تحریر، تکنیک: انجم عثمانی، فیصل انٹر نیشنل، 2008، ص 18
  10.     عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیر وترقی: دیویندر اسر،مترجم : شاہد پرویز، این سی پی یو ایل،2012، ص

 

Wasiqur Rahman

Research Scholar
Delhi UIniversity
Delhi- 110007
Mob.: 9113704556