28/4/23

ڈاکٹر منشا کی گل افشانی کردار: محمد اسداللہ

مہاراشٹر کے شہر ناگپور کے بعض تخلیق کاروں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برصغیر میں بھی خوب جانے جاتے ہیں۔ ان میں دو قلم کار ایسے بھی ہیں جن کی شہرت ان کے گھر کی دہلیز پار کر کے شہر کے چوک تک جاپہنچی اس بیان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انھیں اس قدر شہرت حاصل ہوئی کہ بعد وفات شہر کے کسی چوک کو ان کے نام سے موسوم کیاگیا۔ یہ شعرا ہیں۔ناطق گلاوٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا۔ ناگپور میں ان مرحومین کے نام پر پائے جانے والے چوک کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ضرور ابھر تا ہے کہ آ یا یہ یادگار اس شاعرکی عظمت کی دلیل ہے یا اس چوک کی عزت افزائی۔

ودربھ (مہاراشٹر) کے علاقۂ برار کے ایک قصبے پیپل گائوں راجہ کا ایک نوجوان معلم ناگپور کی اعلیٰ تعلیم گاہ اولڈ مارس کالج کے صدر شعبۂ  اردو و فارسی تک کا سفر طے کرتا ہے، اس میں اس کی تگ و دو،ذہانت،زندہ دلی اور خوش گفتاری کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ڈاکٹر منشاالرحمن خان منشا ناگپور کے ایک اہم شاعر ہی نہیں تھے،انھیں سماجی طور پر جو حیثیت،مقبولیت اور عزت حاصل ہوئی اس دیار کے شایدہی کسی اردو شاعر کے حصے میں آ ئی ہوگی۔ وہ  عام آدمی کے علاوہ شہر کے مشاہیر،صنعت کاروں،ادیبوں شاعروں سے لے کر مہاراشٹر اور ملک کی اہم شخصیات میں خاص طور پر سیاسی لیڈروں میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ ان کی پر اثر شخصیت، گل افشانی گفتار اور لگن نے انھیں اس مقام تک پہنچایا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے اور کتابیں شائع ہوئیں جن میں آ ہنگِ حیات، نوائے دل، آئینہ ٔ  اقبال، مطالعہ میر ممنون دہلوی اور عکسِ دوراں قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نگرانی میں لکھے گئے کئی تحقیقی مقالوں کو ناگپور یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی۔ کئی مرتبہ مہاراشٹر اردو اکادمی کے رکن بنے اور دیگر کئی علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہے۔ ملک بھر کے مشاعروں کے علاوہ ا نھیں دہلی میں لال قلعے کے مشاعروں میں بھی شرکت کے مواقع نصیب ہوئے تھے۔

ناطق گلاؤٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا اپنی ادبی اور سماجی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ان کی شاعری کی گونج اب بھی ذہنوں میں موجود ہے۔ ناطق گلاؤٹھی کا ایک مشہور شعر ہے          ؎

ناطق نہ ہو جو بات، تو بولے نہ آ دمی

بولے تو اس میں بات بھی پیدا کرے کوئی

جن لوگوں کو ڈاکٹر منشا صاحب کی پر لطف محفلوں میں حاضری کا شرف حاصل تھا وہ اس بات کی تائید ضرورکریں گے کہ مرحوم نہ صرف ناطق گلاؤٹھی کے معیارِ نطق سے زیادہ ناطق تھے بلکہ قدرت نے انھیں گفتگو اور سخن گوئی میں خوش کلام ہونے کی سعادت عطا کی تھی۔حسِ مزاح ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو دورانِ گفتگو اور ادبی محفلوں میں اچھل اچھل کر باہر آ تی تھی۔ان میں بات کرنے کا سلیقہ اور باتوں باتوں میں مخاطب کے دل میں اتر جانے کا ہنرتھا۔ جہاں بات نہ بنتی ہو وہاں بات بنانا اور بات سے بات پیدا کرنا انھیں خوب آ تا تھا۔ ایک مشاعرے میں ناطق گلاؤٹھی موجود تھے۔منشاء الرحمن صاحب جب اپنا کلام سنانے مائیک پر آ ئے تو ناطق صاحب نے ان کے تخلص پر اعتراض جڑ دیا کہ منشا تو مونث ہے۔ اس پر منشا صاحب نے برجستہ جواب دیا یہ شخص جو آپ کے سامنے کھڑا ہے،کیا آ پ اسے بھی مونث کہیں گے۔

ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری میں لذت، سوز و گداز لطف اور زبان کا چٹخارہ ہے،وہ ان کے بعد نہ صرف ان کی شاعری میں محفوظ ہے بلکہ ان کے نام سے موسوم چوک،واقع جعفر نگر،ناگپور کے آ س پاس بھی پھیلا ہوا ہے۔ اس چوک کو اس علاقے کی چٹوری گلی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کی طرح دور دور تک لذتِ کام ودہن کا سامان مہیا کرتی ہوئی دکانوں کی قطاریں ہیں۔

ڈاکٹر منشا الرحمن خان کی شاعری یوں تو روایتی انداز لیے ہوئے تھی مگر ان کا ذہن نئی ہوائوں میں اڑنے اور جدھر کی ہو اہو ادھر چلنے کا تھا اسی لیے ان کے یہاں جدید شاعری کا رنگ و آ ہنگ موجود ہے۔ ایک مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے انھوں نے کہا  ’ادھر میں نے جدید رنگ میں بھی کچھ کہا ہے۔‘ اس پر ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب نے جملہ چست کیا آ دمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔

نئی سمتوں میں سفر کی تمنا کے باوجود روایتی شاعروں کی طرح بات بات پر شعر سنانے کی ان کی عادت آخر تک قائم رہی۔ ان کے اعزاز میں ناگپور میں’ جشنِ منشا‘ منایا گیا جس میں مشہور اداکار دلیپ کمار نے شرکت کی تھی۔ اس سلسلے میںبات کرنے کے لیے جب وہ دلیپ کمار کے گھر گئے تو ان کے ایک ہمسفر کے بیان کے مطابق انھوں نے وہاں بہت وقت گزارا اور اس دوران دلیپ کمار کو اپنی شاعری سنانے کی  بھر پور کوشش کر ڈالی مگر اس باکمال اداکار کی یہ ادا بھی قابلِ داد ہے کہ وہ ہر بار بات بدل دیتا،اس نے انھیں ایک بھی شعر سنانے کا موقع نہیں دیا۔

سنا ہے ایک مرتبہ ڈاکٹر منشا اپنے چار شاگردوں سمیت ٹرین میں سفر کررہے تھے۔منزل تک کا پورا ٹکٹ نہ ہونے کے سبب ٹی سی نے ان چاروں کو پکڑ لیا اور جرمانہ عائد کر نا چاہا۔ وہ اسے ڈاکٹر منشا کے پاس لائے۔ موصوف نے اس سے کہا  میں شاعر ہوں اور یہ چاروں میرے شاگرد ہیں۔ جرمانہ بھرنے میں کوئی مشکل نہیں مگر ہماری ایک شرط ہے، آپ کو ہماری شاعری سننی پڑے گی۔ ٹی سی نے کہا میں ذرا اور لوگوں کی ٹکٹ چیک کر لوں پھر آتا ہوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا، بے فکر ہوجائو اب وہ واپس نہیں آ ئے گا اور ویسا ہی ہوا۔

ایک مرتبہ سفر کے دوران چند نوجوان ٹرین میں منشاصاحب کی ٹوپی ڈاڑھی اور شیروانی دیکھ کر مذاق اڑانا چاہتے تھے۔ ایک نوجوان نے پوچھا آ پ کیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہا،شاعر ہوں تو اس نے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ انھوں نے اسے فوراً اپنا ایک شعر سنا دیا جسے سن کر و ہ چوکڑی بھول گیا        ؎

خدا نے آ پ کی صورت ہی کچھ  ایسی بنائی ہے       ٹکٹ ہوتے ہوئے بھی بے ٹکٹ معلوم ہوتے ہو

بات سے بات پیدا کرنے کی اپنی اس خدا داد صلاحیت کو انھوں نے نہ صرف منھ توڑ جواب دینے اور ذاتی کاموں کے لیے استعمال کیا بلکہ وہ اوروں کے کام بھی آ تے رہے۔ یہ ان کی وسعت قلبی، زندہ دلی اور لوگوں کے لیے محبت و خلوص کا جذبہ تھا جو لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ منشا صاحب کے اندر چھپا شاعر ان کی سخن طرازی ہی تک محدود نہ تھا وہ ان کی گفتگو میں ہمیشہ حاضر رہتا تھا۔ ان کی خیال آ رائی اور نکتہ آ فرینی دلوں کو جیت لیتی تھی اور ماحول کو پر لطف بنادیتی تھی۔ اگر چہ وہ کام کی باتیں نہ کرتے ہوں تب بھی ان کی باتوں سے کتنے ہی رکے ہوئے کام بن جایا کرتے تھے۔ منشا صاحب جس ماحول اور دنیا میں جی رہے تھے وہاں اکثر لوگ صرف اپنے کام بنانے پر اکتفا کرتے تھے یا دوسروں کے کام بگاڑ نے پر تلے رہتے تھے۔ منشا صاحب اپنے یا اپنے متعلقین کے بہت کام آ ئے۔ خواہ مخواہ دوسروں کا بلکہ اپنے دشمنوںکا بھی کھیل بگاڑنے کا شوق انھیں نہیں تھا۔

ایک مرتبہ جب وہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے ممبر تھے،جدید شاعر اور ناقدڈاکٹر صفدر نے انھیں بتایا کہ وہ انعام کے لیے اپنی کتاب اکادمی کو نہیں بھجواپائے ہیں۔ منشا صاحب نے کہا مجھے دے دیجیے میں ممبئی جارہا ہوں وہاں پہنچا دوں گا۔ اس وقت وہ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے اسی کام کے لیے اردو اکادمی کے دفتر پہنچے۔ وہاں لیڈی کلرک جس کا نام دیو بائی تھا اس نے کہا۔ کتاب داخل کر نے کی تاریخ تو گزر چکی ہے۔ منشا صاحب نے اس سے کہا۔ دیکھو میں حج کو جا رہا ہوں،دیو کے کام سے جا رہا ہوں، تمہارا نام بھی دیو بائی ہے، ہمارا اتنا کام کر دو۔یہ سن کر وہ خاتون خوش ہوگئیں اور اس کتاب کو قبول کر لیا۔ معروف محقق اور ادیب ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن صاحب نے ڈاکٹر منشا صاحب پر لکھے گئے  اپنے خاکے ’ برف کے لڈّو ‘ میں کئی دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی کے سفر میں وہ ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب اور ڈاکٹر منشا صاحب  کے ساتھ تھے۔ واپسی میں کسی وجہ سے ٹرینوں کا آ نا جانا بند ہوگیا تو انھیں احمد آ باد ہوتے ہوئے ناگپور آ نا پڑ ا۔ ٹکٹ کا مسئلہ در پیش تھا سب پریشان ہوگئے مگر ڈاکٹر منشا تو استقلال کے ہمالیہ تھے۔ وہ ٹکٹ کی لائین میں چلتے ہوئے کھڑکی تک پہنچے درمیان میں لائین میں کھڑے ہوئے ایک  نوجوان نے انھیں سلام کیا۔بس کام بن گیا۔ وہ نوجوان بھی ناگپور جارہا تھا۔اس کے ذریعے ٹکٹوں کا انتظام ہوگیا۔اس کے ساتھ کچھ زنانہ سواریاں بھی تھیں۔ منشا صاحب ان کے سر پرست بن گئے اور انھیں سوار کرواتے ہوئے اپنے لیے بھی اوپر والی برتھ پرجگہ بنالی۔ آغا صاحب لکھتے ہیں کہ ہم لوگ ڈیڑھ پائوں پر کھڑے رہے کہ پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ ددچار اسٹیشنوں کے بعد منشا صاحب اپنی نیند پوری کر نے کے بعد نیچے اتر آ ئے اور ہمیں از راہ ِ مہر بانی اوپر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد ہم نے جو نیچے نظر کی تو  حضرت کو مسافروں کے ساتھ ناشتے میں مصروف پایا۔ہمارا یہ حال تھاکہ ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم۔

چند ادبی نشستوں میں مجھے ڈاکٹر منشا صاحب کی صدارت میں اپنے انشائیے پیش کر نے کا موقع ملا اور ہر بار ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات اس جملے سے شروع کی کہ ابھی آپ نے اسدا اللہ صاحب سے انشائیہ سنا اور اب اس ناچیز سے منشائیہ سنیے۔ کسی مجلس میں ایک صاحب کے متعلق ڈاکٹر منشا صاحب کو یہ بتایا گیا کہ وہ شادی کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ منشاصاحب نے انھیںآ مادہ کرنے کے لیے کہا اگر آ پ شادی کے لیے تیار ہوں تو میں آپ کے لیے دوکام کر دوں گا۔ ایک تو یہ کہ مناسب رشتہ تلاش کر دوں گا اوردوسرے سہر الکھ دوں گا۔ ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری اور اسے پیش کرنے کا ان کا انداز دلوں کو لوٹ لینے والا تھا۔وہ جہاں جاتے اپنی باتوں سے محفل کو گر مادیتے اور جب شعر پڑھتے تو سماں بندھ جاتا۔  ان کی شخصیت کے اس متاثر کن پہلو اور سخن پر وری کے پیش ِنظر ان کے مداح ہندی کے ایک شاعرنے ان ہی کے رنگ میں دو مزیداراشعار کسی محفل میں سنائے        ؎

گر میوں کے گرم دنوں میں

ٹھنڈا کلیجہ کرنا ہوتو

شاعری سننا منشا کی

آئسکریم کھانا ڈنشا کی

ایک مشاعرہ جس میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی موجود تھے، منشا الرحمن صاحب اپنا کلام پیش کررہے تھے۔  اتفاق سے جو اشعار اس وقت سنائے وہ سنگین حد تک رنگین تھے۔ بیدی صاحب نے انھیں ٹوکاکہ شیر وانی داڑھی اور یہ اشعار اس پر ڈاکٹر منشا صاحب نے اپنی حاضر جوابی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ شعر پڑھ دیا          ؎

 رنگین طبیعت ہے تو اشعار ہیں رنگین

ڈاڑھی ہے میرے چہرے پہ دل پہ تو نہیں ہے

ایک وقت تھا کہ ناگپور میں باٹا کے جوتوں کا کاروبار خوب چل رہا تھا۔ اس کمپنی کے منیجر نے منشا صاحب کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔موصوف نے حسبِ معمول مشاعرہ لوٹ لیا۔مشاعرے کے بعد بات چیت کے دوران ان کے کلام پر سامعین کی جانب سے جو داد ملی اس کا ذکر ہورہاتھا۔ منشا صاحب نے کہا کیا اچھا ہوتا اگر داد و تحسین کے بجائے باٹا کی جوتیوں کی جوڑیاں مل جاتیں۔ان کے حاسدین کی بھی کمی نہ تھی کسی نے اس واقعے کو ا س سرخی کے ساتھ چھاپ دیا کہ ڈاکٹر منشا کو داد نہیں جوتے چاہیے۔

ا س زمانے میں ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن نے اسکول جانے کے لیے ایک لونا خریدی تھی اوروہ اپنی طبیعت کے مطابق ہر ایک کے کام آ تے رہتے تھے۔ اس خدمت گزاری میں ان کی لونا شریک تھی۔ اسی پر اکثر وہ حضرت سید عبدالرحیم صاحب کو سوار کر کے لے جاتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر منشا صاحب نے ان سے کہا آ پ کی یہ لونا زبردست کارِ خیر انجام دے رہی ہے،یہ سیدھی جنت میں جائے گی۔ ڈاکٹر غیاث الرحمن صاحب نے کہا حضرت، دعا کیجیے کہ جب یہ جنت میں جائے تو میں بھی اس پر سوار رہوں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہا ضرور اور میں یہ دعا کروں گا کہ میں بھی آ پ کے ساتھ اس پر پیچھے بیٹھا رہوں۔

ڈاکٹر منشا صاحب اپنی گفتگو میں لفظوں اور ناموں پر بہت جلد گرفت کیا کرتے اور ان سے نئے معنی بر آ مد کر کے سننے والوں کا دل خوش کر دیا کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ناگپور کے سانے گروجی ہائی اسکول و جونیئر کالج کی کسی تقریب میں انھوں نے شرکت کی۔اس میں کامٹی کے ایک مہمان عبدالرحیم صاحب موجود تھے، شعبہ اردو کے ڈاکٹر آ غا غیاث الرحمن میز بان تھے اور اردوکالج کے پرنسپل کا نام تھا کڑوے۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا اس تقریب نے تو رحمٰن اور رحیم کو ملادیا، پرنسپل صاحب کا نام حالانکہ کڑوے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت میٹھے ہیں۔ناگپورمیں ایک تقریب میں ڈاکٹر منشاصاحب موجود تھے جس کی صدارت کے فرائض انجام دے رہی تھیں، ناگپور کارپوریشن کی میئر محترمہ پانڈے صاحبہ۔ کسی نے قومی یکجہتی کی موافقت میں برار کے ایک قدیم شاعر غالبا شاہ غلام حسین ایلچپوری کا ایک شعر سنایا            ؎

ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈے

بعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی ملا کوئی پانڈے

جب ڈاکٹر منشا اپنا کلام سنانے مائک پر تشریف لائے تو کہا  قدیم شاعر کے اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں            ؎

ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈے

بعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی منشا کوئی پانڈے

ڈاکٹر منشا صاحب خود تو ادب کے ڈاکٹر تھے مگر ڈاکٹر کے نام سے موسوم دیگر شعبوں کو بھی انھوں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اپنے بیٹوں کو چن چن کر ان ہی شعبوں میں ڈالا،ادب میڈیسین حتیٰ کہ ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہ چھوڑا۔ ان کی رہائش گاہ کے گیٹ پر لگی تختی پر سارے ڈاکٹروں کے ناموں کی تختی دیکھ کر کسی نے ’ہمہ خانہ ڈاکٹر است‘ کی طرف ان کی توجہ دلائی تو منشا صاحب نے فر مایا اگلی باریہاں صرف ایک تختی لگواؤں گا جس پر لکھا ہوگا۔ ’دواخانہ

اس قسم کے ایک نہ دو بے شمار واقعات ہیں جن سے مرحوم کی زندہ دل اور شگفتہ بیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی خوبی کے سبب وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے۔جہاں جاتے لوگوں کے دلوں میں خوشی کی لہر اور چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ع

حق مغفرت کرے عجب آ زاد مرد تھا

n

Muhammad Asadullah

30-gulistan colony,
Near Pande Amrai Lawns
Nagpur - 440013 ( MS)
Mob.: 9579591149

27/4/23

اردو میں ادب اطفال: آمنہ فاروقی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خاندان، قوم اور ملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔آج کا بچہ کل کا شہری ہے،اس لحاظ سے بچے ’قومی امانت ‘ ہوتے ہیں اور اس امانت کا تحفظ معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔یہ ذمے داری تقاضا کرتی ہے کہ معاشرے،قوم وملک کا مفید خادم بنانے کے لیے اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ اس کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی متوازن نشوونما پر بھی توجہ دی جائے۔اس مقصد کے حصول میں ’ادب ‘ ایک اہم اور مؤثر وسیلہ ثابت ہوا ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اس ’مؤثروسیلے ‘ کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی اسے دینا چاہیے تھی۔ ہمارے اکثر ادیبوں، ناقدوں اور محققین نے ادب ِ اطفال سے بے اعتنائی بر تی اور اسے بچکانہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔

بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کے لیے لکھنا کسرِ شان سمجھا۔ اسی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں بچوں کے ادب کا سرمایہ کیا کیفیت اور کیا کمیت دونوں اعتبار سے ناقص و کمزور ہے۔ یا یو ں کہا جا سکتا ہے کہ ادب اطفال کا کو ئی معیا ر مقر رنہیں ہو سکا۔ بیشتر ایسا سرمایہ ہے جن میں بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی سطح، ان کی ضرورتوں اور دلچسپیوں کا مطلق خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ اردو کی ٹریجڈی ہے کہ جس ادب پر اردو زبان کی بقاء اور بچوں کے مستقبل کا انحصار ہے اسی کو ہم نے اکثر نظر انداز کیا ہے۔ مقام شکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ادیبوں، شاعروں،نقادوں اور محققین نے اس ادب پر توجہ دینا شروع کیا ہے۔

بچوں کی طرح ان کا ادب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ادبِ اطفال کے اثرات دیر پا اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف بچوں کی مسرت میں اضافہ کرتا ہے،بلکہ ان کے اعمال و اقدار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کے کردار کی تخلیق میں ادب ہی اہم  ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کا ادب کسے کہتے ہیں؟  ایک عرصے تک بچے کی شخصیت نظر انداز کی جاتی رہی ہے لیکن نفسیاتی تحقیقات و انکشافات سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ

’’بچہ ایک جامد تختی نہیں بلکہ ایک زندہ متحرک اور باشعور ہستی ہے ‘‘    1

بچوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے،ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے، ان کی اپنی ضرورتیں اور دلچسپیاں، احساسات، سوجھ بوجھ، شعور اور عادتوں میں تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں۔ غرض بچوں کے شعور احساس اور فہم و ادراک کی دنیا بڑوں سے بالکل الگ ہوتی ہے اس لیے

’’وہ ادب جس کے ذریعے بچوں کی دلچسپی اور شوق کی تسکین ہو اور جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات، ضرورتوں، دلچسپیوں، میلانات اور ان کی فہم وادراک کی قوت کو پیش نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو صحیح معنوں میں ’بچوں کا ادب ‘ کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘   2

اس اعتبار سے جب ہم اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ معیاری ادب کی کمی کا یہ نتیجہ ہے کہ بچوں کی صحیح ڈھنگ سے ہمہ جہتی نشوونما نہیں ہوپارہی ہے۔ خواندگی اور اکتساب علم کے ابتدائی مراحل میں بچوں کے لیے زائد از نصاب لٹریچر بے حد ضروری ہے۔اس لٹریچر کی بدولت جہاں مطلوبہ لسانی مہارتوں کا حصول سہل ہوتا ہے،وہاں اس سے ان کی ذہنی و جذباتی نشوونما میں بھی بڑی مدد ملتی ہے اور تعلیم کے اعلیٰ مراحل طے کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

اردو میں ادب ِاطفال کی ابتدا اور نشوونما شاعری ہی سے ہوئی اور دکنی دور نیز شمالی ہند کے ابتدائی دور میں بچوں کے ادب کے تحت منظومات کا ہی اضافہ ہوتا رہا۔ نثر میں اٹھارہویں صدی کے اواخر تک کوئی قابل ذکر تصنیف ایسی نہیں ملتی جس کو ہم بچوں کے ادب سے تعبیر کر سکیں۔  پروفیسر مظفر حنفی کی تحقیق کے مطابق1793 میں سب سے پہلے لکھنؤ کے اِنشاء اللہ خاں اِنشا نے بچوں کے لیے نثری تصنیف ’رانی کیتکی کی کہانی ‘ پیش کی۔بقول ڈاکٹر مظفر حنفی

’’ اِنشاء اللہ خاں اِنشا کی یہ کہانی نہ صرف بچوں کے لیے سب سے پہلی نثری کہانی ہے،بلکہ ہندی اور اردو دونوں کے افسانوی ادب (Fiction)کی ابتدا ہی اِنشاء اللہ خاں اِنشا کی اس تخلیق سے ہوتی ہے اور اس کو بچوں کے ادب کا سنگِ بنیاد کہا جاسکتا ہے۔‘‘  3

مولانا الطاف حسین حالی ،علامہ شبلی،اسماعیل میرٹھی، نذیر احمد دہلوی، سورج نارائن مہراور محمد حسین آزاد نے بچوں کے لیے خوب لکھا۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور الطاف حسین حالی  پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے قصّے کو باقاعدہ اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کیا۔ مولانا محمد حسین آزاد واحد بزرگ ہیں جنھوں نے بچوں کے قواعد زبان وبیاں اور اِملا کی درستگی پر خاصا زور دیا اور اس سلسلے میں کئی کتابیں لکھی۔

جنوری 1802 میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی زیر نگرانی فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے شعبۂ تصنیف و تالیف کا آغاز ہوا اور جان گلکرسٹ نے اردو لغت مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ چند نامور اہل قلم کی خدمات حاصل کیں۔ چونکہ یہ ادارہ انگریز فوجیوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے قائم ہوا تھا۔ چنانچہ اس وقت میر امن دہلوی، رجب علی بیگ سرور،حیدر بخش حیدری، للو لال جی، اور دیگر ماہرین نے عربی، فارسی اور ہندی ادب کو جن میں داستا نیں بھی شامل تھیں اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔یہ داستانیں روانی اور سلاست کے اعتبار سے بچوں کے ادب کے لیے انتہائی مناسب کرداروں، بہادری، سچائی، دانائی اور سبق آموز تحریروں و واقعات سے مزین ہیں۔

فورٹ ولیم کالج کے زیرسایہ اردو ادب کا بہترین سرمایہ یکجا کیا گیا اور اس کالج کی تصانیف سے برصغیر میں بچوں کے ادب کا دامن مالا مال ہوا۔ ابتدائی اٹھارہویں صدی عیسوی میں ولی دکنی اور ان کے دیوان کی دہلی میں آمد کے بعد سے شمالی ہند میں بھی لکھنے والے اردو میں ادبی تخلیقات پیش کرنے کی جانب مائل ہوئے،جن میں بچوں کا ادب بھی شامل ہے۔چنانچہ میر تقی میر جیسے عظیم المرتبت غزل گو کی کلیات میں بھی بچوں کے لیے مثنوی نما نظمیں مل جاتی ہیں۔یہ اپنے موضوع اسلوب اور زبان ہر اعتبار سے بچوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ان میں بطور خاص موہنی بلی،بکری اور کتے،مور نامہ،مچھر، کھٹمل،وغیرہ ایسی ہی نظمیں ہیں جن کو ہم ادب ِاطفال میں شامل کر سکتے ہیں۔

میر تقی میر کے بعد بچوں کے شاعر کی حیثیت سے نظیر اکبر آبادی کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔نظیر نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادہ زبان ہے، جو عربی، فارسی اورسنسکرت کے ثقیل الفاظ سے پاک ہے۔ نظیر اکبر آبادی  کی نظمیں بچوں میں حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں اخلاقی اقدار اور قومی تشخص کے نقوش کو ابھارتی ہیں۔محمود الرحمن نے نظیر اکبر آبادی کی ایسی شاعری کے بارے میں لکھا ہے

’’ اردو میں بچوں کے لیے جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں نہ صرف پند و نصیحت کار فرمائی ہے بلکہ مذہبی عناصر کی جلوہ گری بھی ہے۔صحیح معنو ں میں نظیر اکبر آبادی  وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بچوں کے ادب کو مذہب اور لغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کے بزم میں پہنچادیا ہے۔جہاں ان کے اپنے جذبات اور احساسات نمایاں ہیں۔‘‘   4

ان کی کلیات میں ایسی بہت سی نظمیں مل جاتی ہیں جو بچوں کے ادب میں قیمتی سرمایہ ہیں۔اس ضمن میں نظیر اکبر آبادی  کی ایام ِ طفلی،معصوم بھولے بھالے،تربوز، کن کوے اور پتنگ،گلہری کا بچہ،ریچھ کا بچہ،تل کے لڈو،ہرن کا بچہ،واہ کیا بات کورے برتن کی، وغیرہ بچوں کی پسندیدہ نظمیں ہیں۔ بچوں کے لیے جتنا کچھ نظیر اکبر آبادی  نے لکھا ہے، ان سے قبل اردو میں کسی دوسرے شاعر نے نہیں لکھا۔ ان کی نظموں کی خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں اخلاقی اقدار پر زور دیا گیا ہے یہ نظمیں اپنے پر لطف پیرایہ بیان اور طرز ادا کی وجہ سے خشک اور بے کیف محسوس نہیں ہوتی۔

میں نے ابھی عرض کیا کہ بچوں کے ادب کی ہم بات کرتے ہیں تو خیال سب سے پہلے اسماعیل میرٹھی اور محمد حسین آزاد کی نظم و نثر کی طرف ہی جاتا ہے،لیکن دراصل اس کی اولیت کا سہرا مرزا غالب کے سر ہے۔ ’قادر نامہ‘ میں ان کے اس طرح کے اشعار          ؎     

وہ چراوے باغ میں میوہ جسے

پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ

ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

واہ بے لڑکے پڑھی اچھی غزل

شوق بھی سے ہے تجھے اشعار کا

یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ غالب بچوں کے ادب کی ضرورت سے غافل نہ تھے،یہ الگ بات ہے کہ غالب  کی پرواز بہت اونچی تھی اور اس سطح پر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے تھے۔یہی بات ہم اقبال  کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اقبال کے یہاں بھی اس نوع کی نظمیں بہت ہیں جنھیں ہم بچوں کی نظمیں کہہ سکتے ہیں۔ایسی نظمیں ’بانگ درا‘ میں بھی شامل ہیں اور اقبال  کے دیگر کلام میں بھی۔ بچوں کے لیے لکھی ہوئی اقبال کی بعض نظمیں بعض انگریزی نظموں کے ترجمے ہیں۔اقبال  نے خود اس بات کا ذکر کیا ہے،لیکن یہ ایسے خوبصورت ترجمے ہیں کہ ان پرطبع زاد شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ عبدالقوی دسنوی رقمطرارہیں

اقبا ل بچے کے ذہن کی تعمیر اس طرح کر نا چاہتے تھے۔جس سے وہ ایسا انسان بن سکے جو خداآگاہ ہو، صداقت شعار ہو، حریت پسند ہو، ہمد رد مجسم ہو، غرور و تکبر کی لعنت سے پاک ہو،محسن شناس ہو خدمت گزار ہو، غریبوں کا مدد گارہو، کمزورو ں کا حامی ہو، وطن پرست ہو انسان دوست ہو برائیوں سے  پاک ہو اور پیکرعمل ہو۔ 5

محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ وغیرہ نے اردو میں مختلف اصناف اور موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ ان لوگوں کی تحریروں میں بچوں کے لیے بھی بہت سی تخلیقات نظم و نثر میں موجود ہیں۔شفیع الدین نیرنے بچوں کے ادب کے جس وافر ذخیرے کا ذکر کیا ہے وہ محمد حسین آزاد ،حالی، ڈپٹی نذیر احمد، اور سر سید احمد خاں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔حقیقت یہ کہ اردو ادبِ اطفال میں سنہ 1857 کی جنگ آزادی ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، جس کے زیر اثر شعر و ادب کی قدیم اور فرسودہ روایات میں ایک تغیر رونما ہوا۔ تخیل سے کنارہ کشی کر کے حقیقت آرائی کی طرف توجہ مبذول کی گئی۔معاشرے اور پوری ادبی دنیا میں بدلتے ہوئے ان حالات نے بچوں کے ادب کو بھی متاثر کیا۔یہ وہ سیاسی اور سماجی ماحول تھا جس میں حالی ،شبلی ، نذیر احمد،اور آزاد کی پیشروی میں چکبست، اقبال، سرورجہاں آبادی، اسماعیل میرٹھی، تلوک چند محروم جیسے شعرا نے بچوں کے اخلاق عادات اور ان کی ذہنی نشوونما سے متعلق مفید اور ادبی حسن سے آراستہ نظموں اورکہانیوں کی تخلیق کی اور اپنی تخلیقی کاوشوں کے ذریعے ادب ِاطفال کی بنیادیں مستحکم کیں۔ ان فنکاروں نے بچوں کے جذبات اور خیالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی تخلیقات پیش کی جن میں نہ صرف بچوں کی دلچسپی کا سامان بکثرت تھا بلکہ یہ ان کے سن و سال اور مذاق و مزاج سے مطابقت و موافقت بھی رکھتی تھیں۔آزاد کی مرتب کردہ کتابیں بچوں کی اخلاقی تربیت اور زبان کی درس و تدریس کے مطالبات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف مضامین کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔اس طرح صحیح معنوں میں ہمارے یہاں بچوں کے ادب کی شیرازہ بندی کرنے اور درسی کتب کو جدید تقاضوں کے مطابق منظم کرنے کا ابتدائی معرکہ محمدحسین آزاد  نے ہی سر کیا۔ڈاکٹر اسد اریب نے محمد حسین آزاد کو بچوں کی درسی کتب کا بانی قرار دیاہے۔  6

محمد حسین آزاد نے اردو کی پہلی کتاب، اردوکی دوسری کتاب اور بچوں کے لیے نظمیں سلام علیک،جیسا چاہو سمجھ لو، ہے امتحاں سر پرکھڑا، زمستان، شبِ سرما، شبِ ابر، ہمتِ مرداں، جاڑا جیسی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ ان میں ہمتِ مرداں مقبول ترین نظم ہے۔اس نظم کا ایک بند بطور نمونہ         ؎

ہے  سامنے  کھلا  ہوا  میداں چلے چلو

 باغِ  مراد  ہے  ثمر افشاں چلے  چلو

دریا ہو  بیچ میں کہ  بیاباں  چلے   چلو

ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو

چلنا ہی مصلحت ہے مری جاں چلے چلو

منظومات کے علاوہ محمد حسین آزاد نے نثر میں بھی بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے۔ان کی نثری تصانیف میں آئینہ صحت،قصص الہند،اور نصیحت کا کرن پھول وغیرہ خاص طور پر لائق ذکر ہیں۔ بلا شبہ آزاد اردو ادب ِ اطفال کے معماروں میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں۔مولانا حالی نے قوم کے نو نہالوں کی فلاح و بہبود اور ان کی بہترین ذہنی اور جسمانی تربیت پر ہمیشہ زور دیا۔حالی ایک ماہر تعلیم تھے،ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ محکمۂ تعلیم میں گذرا،یہی سبب ہے کہ حالی بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی پیچیدگیوں،ان کی ضروریات اور مسائل سے بخوبی واقف تھے۔حالی کی بیشتر تحریروں میں بچوں کے لیے بہت سی تخلیقات نظم و نثر میں موجود ہیں۔حالی کو لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کی بڑی فکر رہتی تھی۔اپنے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے حالی نے ’مجالس النساء‘ لکھی۔ یہ کتاب لڑکیوں کے لیے سب سے پہلی درسی کتاب ہے۔اگر چہ ’مجالس النساء‘ سے قبل ڈپٹی نذیر احمد کی ’مراۃ العروس‘ آچکی تھی،لیکن ’مراۃالعروس ‘ اور ’مجالس النساء‘ میں بڑا فرق یہ ہے کہ نذیر احمد نے ’مراۃالعروس ‘ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے لکھی تھی۔جبکہ حالی  نے ’مجالس النساء ‘ لکھتے وقت پوری قوم کی بچیوں کی تعلیم وتربیت پیش نظر رکھی تھی۔

’ مجالس النساء‘ کے ذریعے حالی نے لڑکیوں کی تعلیم عام کرنے پر زور دیا ہے، ساتھ ہی ان میں سماجی بیداری، اپنی ذمے داری اور اپنے حق کو پہچاننے کا جذبہ بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالی  نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ زبان اسلوب اور موضوع ہر اعتبار سے حالی    کی ایسی نظمیں صرف بچوں کے لیے ہیں،یہی سبب ہے کہ اسماعیل میرٹھی نے اردوزبان کی پانچویں کتاب میں حالی کی نظمیںامید،علم کی ضرورت، راست گوئی اور اپنی ترقی آپ کروشامل کی ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ  خداکی شان، غوث اعظم، جواں مردی کا کام، میں کسان بنوں گا، سپاہی، موچی، پیشہ، دھان بونا، نیک بنو، بلی اور چوہا،نیکی پھیلاؤ،مرغی اور اس کے بچے، شیر کا شکار، لاڈلا بیٹا،ایسی نظمیں ہے جو حالی نے خاص بچوں کے لیے لکھی ہیں۔اپنی نظم ’کہنابڑوں کامانو‘میں کہتے ہیں         ؎

ماں باپ اور استاد  سب  ہیں  خدا کی  رحمت

 ہے روک ٹوک ان کی حق  میں تمھارے زحمت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

دنیا میںکی جنھوں نے ماں باپ کی اطاعت

دنیا  میں  پائی  عزت عقبی میں پائی راحت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

ماں باپ کی اطاعت دونوں جہاں کی دولت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

اِسماعیل میرٹھی  جو ادب ِ اطفال کے شہنشاہ کہلائے جاتے ہیں،اردو ادب میں ادبِ اطفال کی بہترین کتابیں وہ مانی جاتی ہے جو اسماعیل میرٹھی  نے مرتب کیں۔ان درسی کتابوں کے لیے میرٹھی  نے جو حکایات خود لکھی ہیں ان میں بیشتر کے ماخذ سنسکرت کی ’پنچ تنتر‘اور فارسی کی ’بستان ِ حکمت ‘ اور ’انوار ِ سہیلی‘ ہیں یہ حکایات اخلاقیات،مذہب کی تعلیم پر مبنی ہیں۔ ان میں بہادروں کے کارنامے بھی شامل ہیں، باجے کا بھوت،ایک شیر اور چیتا،سرکشی کا انجام، محمود غزنوی اور بڑھیا،محنت سونے سے بہتر ہے وغیرہ اِسماعیل کی نمائندہ کہانیاں ہیں۔

ان درسی کتابوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتابیں بچوں کو جہاں زبان سکھاتی ہیں، وہاں ان کو سائنس، عام معلومات، تاریخ جغرافیہ اور زراعت پر مفید مواد فراہم کرتی ہیں۔ ایسے معلوماتی اور سائنسی مضامین میں پانی کی شکلیں، پلاٹینم، سونا، چاندی، پارہ، انسان کا بدن، ہوا اور پانی، کوئلے کی کان، چھاپے کی ایجاد، ریلوے انجن کا موجد جارج، قوس قزح، وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ اِسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے تاریخی مضامین بھی لکھے۔ ان مضامین کے ذریعے تاریخی شخصیتوں  سے روشناس کرایا ہے۔جلال الدین اکبر، نورجہاں، ارسطو، راجا بکرما جیت، شیر شاہ سوری، محمود غزنوی اور بڑھیا، نوشیروانِ عادل، تیمور، راجہ بیربل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

اقبال کی ان تخلیقات کو ادبِ  اطفال میں شاہکار نظموں کا درجہ حاصل ہے، جو’ بانگ درا‘ کلام میں شامل ہیں۔ ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا، ہمدردی، ایک پرندہ اور جگنو، پرندے کی فریاد، ہندوستانی بچوںکا گیت (میراوطن ) ان نظموں میں پہلی چھ انگریزی سے ماخوذ ہیںاور آخری دو نظمیں اقبال کی طبع زاد تخلیقات ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ اقبال کی فلسفیانہ نظمیں عہد طفلی، بچہ اور شاعر، بچہ اور شمع، طفل شیر خوار، ماں کا خواب وغیرہ اس بات کی شاہد ہیں کہ ابتدا ہی سے اقبال بچوں کے بارے میں غوروفکر کرتے رہے تھے۔

بچوں کے شاعر کی حیثیت سے تلوک چند محروم کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔جنھوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی ذہنی نشوونما کے لیے صحت مند شعری ادب تخلیق کیا۔محروم کی ایسی نظموں کے مجموعے ’بہارِ طفلی‘ اور ’بچوں کی دنیا‘ کے نام سے منظر عام پرآچکے ہیں۔ صرف ’بہار ِ طفلی‘ میں پچیس نظمیں ہیں،جس میں خدا کا شکر،ہمارا دیش،سویرے اٹھنا،اچھے کام، محنت، صفائی، دشمنی،ہم ہر گز جھوٹ نہ بولیں گے،جھوٹ بڑا پاپ ہے،اچھا آدمی،پھول برسات وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔ بچوں کی دنیا کی نمائندہ نظموں میں دعا، خدا کی قدرت، بچوں کا نیا سال، اچھا بچہ،صبح ہولی،پہلے کام پیچھے آرام، میری کتاب، جھوٹ، استاد کی چھڑی، ورزش، قرض، بارش، گنگا،وقت کی پابندی، ان کی ایسی نظمیں ہیں جو اپنی افادیت اور معنویت کے سبب بچوں کی درسی کتب میں بھی شامل ہیں۔

تلوک چند محروم بچوں کے نمائندہ شاعر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے صرف نظمیں ہی لکھی ، ایسی تمام نظمیں اردو ادبِ اطفال کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور زمانے کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں موسم، آب وہوا اور انسان تک۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج بھی بچہ اسی صدیوں پرانے اس زمانے میں موجود ہے۔ اس کا بچپن آج بھی دادی،نانی کی کہانیوں کے لیے ہمک رہا ہے۔اور میں تو یہاں تک وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کہانی نے اگر جنم لیا ہوگا تو وہ پہلی کہانی کسی بچے کے لیے اس کی نانی یا دادی کے ذریعے سنائی گئی کہانی ہی ہوگی۔

اردو ادبِ اطفال کی کہکشاں میں کئی بڑے ادیب ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ ان سب کا احاطہ کرنا دشوار طلب ہے، لہٰذا جن ادیبوں کاادب مطالعے سے گزرا اسے قرطاس پر لکھ لیا۔میں جانتی ہوں کہ میں تمام ادیبوں کے ساتھ انصاف نہ کرپائی۔اگر تمام کاذکر کروں تو مقالہ طویل ہو جائے گالہٰذا اپنے مضمون کو مختصر اور جامع کرتی ہوں تاکہ عنوان سے ہٹ نہ جائے اور مضمون کی اہمیت واضح ہوجائے اور قصہ مختصر ہوجائے۔

حواشی

1      اردو میں ادبِ اطفال ایک جائزہ،پروفیسر اکبررحمانی1991،  ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ جلگائوں، ص 68

2      ایضاً ، ص68

3      ڈاکٹر مظفر حنفی اردومیں ادبِ اطفال، مشمو لہ جہا ت و جستجو مکتبہ جا معہ لمیٹڈ،نئی دہلی، ص84

4      محمود الرحمن ’آزادی کے بعد بچوں کا ادب‘ ماہنامہ کتاب لاہو ر بچو ں کا ادب نمبر جنوری 1979،ص9،  مدیر ذوالفقار احمد تابش

5      عبدالقوی دسنوی’بچوں کے اقبا ل ‘  نسیم بک ڈپو لکھنؤ،ص 38-39

6      ڈاکٹر اسد اریب بچوں کا ادب، کاروانِ ادب1982، ص48

n

Amena Farooqui Mohd Imamuddin

Pramila Devi Patil Arts & Science College

Neknoor,

Distt: Beed- 431122 (Maharashtra)

Mob.: 9834249968

 

 

 

 

 

 

 

 

26/4/23

ملک التجار کالی داس گپتا رضا کی ادبی خدمات: رؤف خیر

مشرقی افریقہ ہم جیسے بیشتر لوگوں کے لیے ایک خواب ناک بلکہ خوفناک علاقے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔مگر بعض جیالوں نے ایسے ’بے ادب‘ مقام کو بھی اپنی ذات سے سیراب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تجارت کے سلسلے میں جناب کالی داس گپتا رضا نے اسے چنا۔ نیروبی۔کینیا میں ہیرے جواہرات سے کھیلنے والے رضا صاحب مشرقی افریقہ کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ کی ایک تحقیقی کتاب ’ہندوستانیمشرقی افریقہ میں‘ دسمبر 1977 میں منظر عام پر آئی۔

کالی داس گپتا رضا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق ان کا جنم 25اگست 1925کو مکند پور ضلع جالندھر کے مشہور اگروال خاندان میں ہوا۔ آپ کا خاندانی پیشہ ساہو کاری رہا ہے۔ تجارت ہی کی غرض سے رضا صاحب جون 1949میں مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں نیروبی میں 4اگست 1956کو آپ کی شادی ساوتری دیوی سے ہوئی جو لاجپت رائے گپتا کی صاحب زادی ہیں۔ رضا صاحب کے خسر تنزانیہ کے شہر اروشا میں مقیم تھے۔ مشرقی افریقہ سے کالی داس گپتا رضا 1970میں ہندوستان لوٹ آئے اور بمبئی میں اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔

آپ نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے۔ظاہر ہے حضرت جوش ملسیانی جیسے ماہر زبان و بیان کے شاگرد تھے اور خود بھی عروض و زبان میں درجۂ استناد رکھتے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف ادبی موضوعات پر داد ِ تحقیق بھی دی۔نہ صرف یہ کہ جناب کالی داس گپتا رضا نے خود بے شمار تحقیقی کارنامے انجام دیے بلکہ کوئی اللہ کا بندہ میدانِ تحقیق میں سرگرداں ہے تو جہاں تک ہو سکے دامے درمے سخنے اس کی مدد کرنے پر بھی ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔مشہور و معروف محقق و مدوّن و نقاد رشید حسن خان صاحب مثنوی سحرالبیان کی تدوین میں مصروف تھے مختلف کتب خانوں سے اس کے ممکنہ نسخے منگوار ہے تھے۔ انھیں ایک ایسا مخطوطہ بھی چاہیے تھا جو حیدرآباد کے ایک ادارے میں موجود تھا مگر اس کے سربراہ اس کی نقل دینے پر راضی نہیں تھے کہ اس سے مخطوطہ کم زور ہوجاتا ہے۔ جناب کالی داس گپتا رضا نے رشید حسن خان کی فرمائش مجھے لکھ بھیجی۔ میں نے اپنے ذرائع کام میں لاکر مثنوی سحرالبیان کے مخطوطے کی نقل کروائی اور گپتا رضا صاحب کو بھیج دی جو انھوں نے رشید حسن خان تک پہنچادی۔

کالی داس گپتا رضا صاحب ہر قسم کے انعام سے بے نیاز تحقیق و تخلیق و تنقید میں شاہ کار پیش کرنے میں مصروف رہے تاہم اپنی خدمات کے اعتراف کیے جانے کی خواہش کسے نہیں ہوتی۔وہ ایک زمانے تک شکوہ سنج بھی رہے کہ کوئی قابلِ ذکر انعام سے انھیں نوازا نہیں گیا پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 2001میں پدم شری جیسے اعزاز کے لیے منتخب کیا گیا اور کالی داس جی صدرِ جمہوریہ سے یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے ممبئی سے دہلی پہنچ بھی گئے تھے مگر 22مارچ 2001کو اس تقریب کے انعقاد سے صرف تین گھنٹے پہلے ان کے قلب پر حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ افسوس          ؎

قسمت تو دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند

دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

ہندوستانی مشرقی افریقہ میں‘ تقریباً ایک سو چالیس سال کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جزائر زنجبار پیمبا کے ساحلی علاقے پر سید سعید ملک التجارتھا جو اباضیہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ سلطان زنجبار انتہائی راسخ العقیدہ مسلمان تھا مگر حیرت کی بات یہ کہ وہ اتناہی سیکو لر مزاج بھی تھا۔ اس کی تمام کروڑ گیری کا مختار Customs Masterجے رام شوجی ہے جو پکا ویشنو ہند و تھا یہ سلطان کا دستِ راست تھا۔اس کی جے رام شوجی کمپنی مشرقی افریقہ کی معتبر کمپنی شمار ہوتی رہی ہے۔

تجارت کا دارو مدار ذرائع حمل و نقل پر ہوتا ہے چنانچہ ریل گاڑیاں ممبا سا سے نیروبی اور وکٹوریہ جھیل کے کنارے کسمو تک چلنے لگیں۔ کالی داس گپتا رضا نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ بیسیوں ہندوستانی بھائی ریلوے لائن بچھاتے وقت شیروں کے منہ کا نوالہ بھی بنتے رہے۔ رضاصاحب نے بے شمار مصدقہ کتابوں کے حوالے سے مشرقی افریقہ کی تاریخ بیان کردی۔ وہاں آپ نے شعر و ادب کی محفلیں بھی برپا کرکے اردو ادب کو بھی زندہ رکھنے کے جتن کیے۔

(بحوالہ ’ہندوستانی مشرقی افریقہ میں‘  جلد اول مطبوعہ و مل پبلی کیشنز چرچ گیٹ بمبئی 20، 1977)

مشرقی افریقہ میں مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ سن کر کالی داس گپتا رضاکو بڑی خوشی ہوئی۔ ان شاعروں سے ان کی عقیدت میں اضافہ ہوا۔ بعد میں ’دیوانِ غالب‘ کی تاریخی اعتبار سے ترتیب کے علاوہ غالبیات کے سلسلے میں بے شمار تصنیفات و تالیفات نے جناب کالی داس گپتا رضاکو ماہر غالبیات بناکر دم لیا۔ آپ نے ’غالب اور اقبال مشرقی افریقہ میں‘ لکھ کر اس دور کے ارباب ِ ذوق کی نشان دہی کی جنھوں نے مشرقی افریقہ جیسے صحرا میں بھی غالب و اقبال کے نخلستان سجائے رکھے تھے۔ یہاں کالی داس گپتا رضاکی تحقیق پیش کی جاتی ہےسبد گل‘ نمبر 2صفحہ 17مطبوعہ 1938پر مقدمے میں درج ہے

دوسرے مشاعرے میں بزم کا موضوع بحث غالب تھا۔ چنانچہ اس ایشیا کے امام الشعرا کی نہ صرف زندگی بلکہ اس کے کلام کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی‘‘۔

آگے گپتا رضانے ایک ماہ نامے کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ماہ نامہ’الادب‘کے تیسرے شمارے جون 1945میں ایک مضمون باسط مسقطی کا ’غالب کی صحبتیں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں سید غوث علی شاہ قلندر اور غالب  کی صحبتوں کا بالتفصیل ذکر کیا گیا تھا‘‘۔

ممباسا (کینیا) کے ایک سکول کے پرنسپل مہدی صاحب نے 1968میں چونسٹھ صفحات کی ایک کتاب ’بزم غالب‘ کے نام سے چھاپی جو صدسالہ جشنِ غالب کے سلسلے میں مشرقی افریقہ سے غالب کے ایک پرستار کا ہدیہ عقیدت ہے۔

اس کے علاوہ 1969میں غالب صدی تقاریب کے سلسلے میں خود کالی داس گپتا رضا کے دولت خانے پر ایک محفل نیروبی میں 15مارچ 1969کو کینیا ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس چانن سنگھ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ چالیس سے کچھ اوپر افراد جمع تھے۔مشاعرے کے دو دور ہوئے پہلا طرحی اور دوسرا غیر طرحی۔ دونوں مشاعروں کے درمیان آدھے گھنٹے کے وقفے میں جناب کالی داس گپتا رضانے تمام حاضرین کی چائے کیک وغیرہ سے تواضع فرمائی۔

(اس تقریب کی رپورٹ ماہ نامہ صبح امید ممبئی کے شمارے بابت جولائی 1969میں شائع ہوئی تھی)

اس محفل میں غالب کو خراج عقیدت کی چند مثالیں پیش ہیں          ؎

اشعارِ نو کا روح و قالب غالب

ہر طور نئی بات کا طالب غالب

شاعر تھا ضرور وہ نرالا ورنہ

یوں ہوتی نہ شہر شہر غالب غالب

بالا ہے بلند ہے مقام غالب

مشہور ہے آفاق میں نام غالب

پوچھا کہ ہے اس وقار کا کیا باعث

آواز یہ آئی کہ’کلام ِ غالب

(کالی داس گپتا رضا)

پرکیف اثر خیز، خرد مند، مدبر

غالب سے سخن سنج کا مذکورہے گھر گھر

برسی پہ لطیف اس کی میں اتنا ہی کہوں گا

سو سال میں پیدا نہ ہوا ایسا سخنور

(محمدلطیف لطیف)

نیروبی کینیا میں برسوں گزارنے والے اردو ادب کے خدمت گزار جناب ساحرشیوی نے بھی اس محفل میں یوں غالب کو خراج عقیدت پیش کیا تھا         ؎

غالب ِ نکتہ داں اے امام غزل

کھِل اٹھے تیری یادوں کے دل میں کنول

شعرِ اردو میں ہے تو ہی یکتا ئے فن

نام تیرا ہی ہونٹوں پہ ہے آج کل

اس قدر خوب صورت ترے شعر ہیں

چاند تارے بھی ان کا نہیں ہیں بدل

(ساحرشیوی)

کالی داس گپتا رضا نے مشرقی افریقہ میں علامہ اقبال کی مقبولیت کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔25دسمبر 1937 کو یوم اقبال منایا گیا تھا۔شیدائی اقبال محترم جناب چانن سنگھ شفق نے حضرت علامہ (اقبال) کے سوانح حیات بیان فرمائے، محترم سعید مرزا نے اقبال اور ان کا فلسفہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ صاحبِ صدر نے اقبال اور مذہبیات کے موضوع پر تقریر فرمائی۔(صدر کا نام نہیں دیا گیاتھا۔خیر)

اپریل 1938میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو کینیا کالونی کے دارالحکومت نیروبی میں فوراً ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں اقبال کے پر ستار جناب چانن سنگھ شفق نے مقالہ پڑھا تھا۔ (بحوالہ سبد گل نمبر 2جون 1938)

کالی داس گپتا رضا 1949میں نیروبی کینیا (مشرقی افریقہ)پہنچے تھے۔یہاں احبابِ ذوق نے مل بیٹھنے کی ایک صورت نکالی کہ حلقۂ ’گفتوش‘ قائم کیا جو دراصل (گفت) اور( نوش)کا مخفف تھا۔ اس حلقۂ گفتوش کے زیر اہتمام 21اپریل 1950کو یوم اقبال کی تقریب منائی گئی۔ اس تقریب میں کالی داس گپتا رضا نے گیارہ اشعار پر مشتمل خراج عقیدت پیش کیا۔ چند شعر ملاحظہ فرمائیے      ؎

یہ جو اپنی قوم کا ہر دم شریک ِ حال تھا

شاعرِ ملت سراپا شعر سر اقبال تھا

اس نے چند اور اق ہی میں ایک دفتر رکھ دیا

مٹ نہیں سکتی ہے شان وندرت بانگ ِ درا

بالِ جبریل اور جب ضربِ کلیم انساں پڑھے

ہر قدم پر زندگی سو منزلیں آگے بڑھے

اس کے نغمے حشرتک گو نجیں گے  ہفت اقلیم میں

اے رِضا جھکتا ہے سر اقبال کی تعظیم میں

سر علی مسلم کلب ہال میں 23اپریل 1953کو پھر یوم اقبال منایا گیا جس میں ہندو ستان و پاکستان کے ہائی کمشنرس رونق افروز ہوئے تھے۔شیدائیان ِ اقبال سے ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر بھی جناب کالی داس گپتا رضا نے نظم سنائی جو بہت پسند کی گئی دس اشعار پر مشتمل اس خراجِ عقیدت کا مقطع تھا        ؎

رضا یہ ہماری طبیعت نے مانانگاہوں نے دیکھا ذہانت نے جانا

کہ اقبال کی مشعل ِشاعری میں نئی روشنی ہے نئی زندگی ہے

رضا صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے ’پیغام ِ اقبال‘ پر بہترین مضمون پر انعام کا اعلان کیاتھا۔ 12اپریل 1953کو رضا صاحب نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور انعام انہی کے حصے میں آیا۔

اس طرح مشرقی افریقہ میں بھی کالی داس گپتا رضا نے غالب و اقبال سے اپنی ذہنی وابستگی کا ثبوت دیا۔

(بحوالہ ’اسد اللہ خان غالب مرد اور سلسلہ ء غالبیات کے دوسرے مضامین ‘ از کالی داس گپتا رضا پہلا ایڈیشن 1991، ساکار ببلشر پرائیویٹ لمیٹڈ، جولی بھون، نیو مرین لائنز۔ممبئی 400020)

1949سے 1970تک آپ مشرقی افرقیہ نیروبی، کینیا میں تجارت میں مصروف رہے۔ آپ نے اردو ہندی انگریزی کتابیں شائع کرنے کے لیے کسی پبلشر کے در پر دستک نہیں دی۔ بلکہ اپنے اشاعتی ادارے خود قائم کیے۔ جیسے ومل پبلی کیشنز بمبئی اور ساکار پبلشرز پرائیویٹ لمیٹڈ بمبئی 40020جس کے زیر اہتمام کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔خاص طور پر دیوانِ غالب کامل (نسخہء گپتا رضا۔تاریخی ترتیب سے) جناب رضا کا ایسا کارنامہ ہے جو مرزا غالب کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یوں تو کئی دیوان ِ غالب شائع کیے گئے مگر یہ ایسا نسخہ ہے جو بڑی عرق ریزی کے ساتھ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1988میں شائع ہوا تھا۔ہاتھوں ہاتھ بک جانے کی وجہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن 1990میں شائع ہوا پھر ترمیم و اضافے کے ساتھ غالب صدی تقاریب کے موقع پر 15فروری 1995کو اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا گیا۔

اپنے استاد جوش ملسیانی کے فکرو فن،حالات ِ زندگی اور منتخب کلام پر مشتمل کتاب 1991میں شائع کرکے انھوں نے حق شاگردی ادا کیا ورنہ عام طور پر جوش ملسیانی کی ایک غزل جس کی ردیف ’دو بٹاتین‘ تھی پڑھنے میں آتی تھی۔ انھوں نے جوش ملسیانی کی اصلاحوں کا بھی ذکر کیا جو انھوں نے گپتا رضا کے کلام پر دی تھیں۔

اس مرحلے پر جوش ملسیانی کی ایک کتاب ’اقبال کی خامیاں‘ کا تذکرہ بھی نامناسب نہ ہوگا۔ یہ تنقید لالہ کرم چند کے ہفتہ وار اخبار ’پارس‘ میں 1927میں جراح کے نام سے قسط وار شائع ہوتی رہی۔1928میں یہ کتابی شکل میں چھپ کر آئی تو جوش ملسیانی کے ایک شاگرد نوہر یارام درد نکودری (نریش کمار شاد کے والد)اسے لے کر علامہ اقبال کے پاس آگئے۔اقبال نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پیشانی پر بل لائے بغیر کہا ’’جوش میرے خواجہ تاش ہیں۔ ان سے میری طرف سے شکریہ ادا کیجیے اور کہیے گا کہ میں اس کتاب سے استفادہ کروں گا۔ یہ واقعہ 1928کا ہے۔(اقبال کی خامیاں۔تعارف)

یہ کتاب کالی داس گپتا رضا نے 1994میں اپنے ساکار پبلی کیشنز بمبئی 400020سے پھر شائع کی۔ اس تیسرے ایڈیشن پر ماہ نامہ ’شب خون‘ الہ آباد میں محترم شمس الرحمن فاروقی نے ’اقبال کی خامیاں ‘ کو رد کرتے ہوئے مدلل جواب اگست 1995میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کے اعتراضات کو مختلف اساتذہ اردو فارسی کے حوالے سے فاروقی نے ناقابلِ اعتنا ٹھہرایا۔ خود علامہ اقبال نے بھی اس کتاب کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ کالی داس گپتا رضا نے اپنے استاد جوش ملسیانی کے دفاع میں شمس الرحمن فاروقی کا جواب الجواب لکھا جسے فاروقی صاحب نے بڑی فراخ دلی اور اعلی ظرفی کے ساتھ اپنے رسالے شب خون ستمبر 1996میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کی نشان زدہ اقبال کی خامیاں، ان کا شمس الرحمن فاروقی کی طرف سے مدلل رد اور پھر کالی داس گپتا رضا کا دفاعی مضمون بجائے خود ایک مبسوط جائزے کا متقاضی ہے جس کی فی الحال اس مضمون میں گنجائش نہیں۔

اردو ادب شروع ہی سے غیر مسلموں کامرہون ِ منت رہا ہے۔ ابتدا ڈاکٹر جان گل کرسٹ اور ان کے رفقا کی دلچسپی کی و جہ سے اردو پھولتی پھلتی رہی۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو فروغ پاتی رہی۔ منشی نول کشور کے احسانات سے بھی اردو کبھی انکار نہیں کرسکتی،وہ چاہے شعر و ادب کا معاملہ ہو کہ مذہب کا،منشی نول کشور نے قرآن اور حدیث بھی اسی احترام سے شائع کی جتنی شعر و ادب کی کتابیں زیور طبع سے آراستہ فرمائیں۔ حضرت مالک رام ہوں کہ دتاتریہ کیفی،رتن ناتھ سرشار ہوں کہ فراق گورکھپوری، حکم چند، پریم چند،گیان چند اور گوپی چند نارنگ جیسے نیر نگ ِ زمانہ محسنوں کی وجہ سے آج اردو ادب دیگر زبانوں کے ادب سے آنکھ ملانے کے قابل ہو سکا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک اہم نام اعلیٰ حضرت کالی داس گپتا رضا رہے ہیں۔

ماہر غالبیات کی حیثیت سے انھوں نے غالب کی زندگی اور فکر و فن کے بے شمار گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ تاریخی ترتیب سے مرتب کردہ دیوانِ غالب کامل (نسخہ گپتا رضا) ان کا ایسا کارنامہ ہے جو انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت غالب کے علاوہ کئی ادیبوں شاعروں کو زندہ رکھنے کے جتن کرتے رہتے تھے۔ رائے سرب سنگھ دیوانہ ہوں کہ کھیم نرائن رند، جواہر سنگھ جوہر ہوںکہ رتن سنگھ زخمی،کیول رام ہوشیار ہوں کہ آفتاب رائے رسوا، بنسی دھر ہمت ہوں کہ احمد رضا خاں بریلوی،ہر قابل ذکر شاعر کا آپ نے مدلل جائزہ لے کر اس کی اہم تخلیقات کے حوالے سے اسے زندہ رکھا۔ انھوں نے قدیم شعرا کے ساتھ ساتھ جدید دور کے اہم تخلیق کاروں کی کھلے دل سے پذیرائی کی۔ ش ک نظام،عبداللہ کمال، رزاق افسر، نذیر فتح پوری، فیاض فیضی اور مخمور سعیدی وغیرہ کے فکر و فن کو سراہتے ہوئے اعلیٰ حضرت نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ بھی ان کی اعلیٰ ظرفی ہے ورنہ غالب و اقبال کی قد آوری کا جائزہ لینے والے کی آنکھوں میں جدید شاعر بھلا کیا سماسکتے لیکن اعلیٰ حضرت نے ان نئے فنکاروں کے اندر چھپے ہوئے کمال کی قدر افزائی کرکے اردو کے روشن مستقبل کی ضمانت دی۔

میںنے علامہ اقبال کے فارسی قطعات ’لالۂ طور‘ کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ یہ’قنطار ‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپنے والا تھا تو میں نے اعلیٰ حضرت سے پیش لفظ کی گذارش کی۔ آپ نے حرفے چند کے عنوان سے میری کوششوں کو سراہا اور میرا دل بڑھایا۔ اعلیٰ حضرت کا یہ پیش لفظ میرے لیے سرمایہء افتخار ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مجھے جو آخری خط لکھا تھا اس میں ترجمے کے علاوہ کوئی طبع زاد کا رنامہ دکھانے کی ترغیب دی۔ ان کا خط میں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔

محبی رئوف خیر۔۔۔ عمر دراز

خط ملا اور حکم نامہ بھی۔ آپ کے تمام قطعات رجسٹری سے واپس بھیج رہا ہوں۔ ایک صفحہ بڑھا بھی دیا ہے۔جہاں کہیں مناسب ہو بڑھالیں۔

میں ایک عرصے سے محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اس ترجمے پر بڑاناز ہے۔ اپنے کام پر ناز کرنا قطعی غلط نہیں ہے مگر یہ ترجمہ ہے۔

ترجمہ کبھی آپ کی تصنیف نہیں بن سکتا۔ یہ محض ترجمہ ہی رہے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا کوئی کام کریں جو قابل رشک ہو۔

 قابل ِ رشک کام ہمیشہ نہیں کیا جا سکتا لیکن کبھی کبھار پرما تما ایسا کام مصنف سے کرادیتا ہے جو قابل رشک ہوتا ہے اور میں آپ جیسے ذہین شخص سے ایسے ہی کام کی امید رکھتا ہوں۔زندہ باشید۔

مخلص کالی داس گپتا رضا  (خط پر تاریخ انگریزی میں یوں درج ہے25/1/2001)

اعلیٰ حضرت کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ان کی وہ تخلیقات بھی ہیں جو انھوں نے نازشِ کائنات و خیر خلقہِ ؐ کی تعریف و توصیف میں بہ صد احترام پیش کی ہیں۔ ایک چھوٹا سانعتیہ انتخاب ’احترام‘ ان کی عقیدت کی دستاویز ہے۔اعلیٰ حضرت نے کینیا مشرقی افریقہ میں تقریباً پچیس سال گزارے۔ وہاں بے تعصب ماحول میں آپ نے حضور اکرمؐ کی شان میں مختلف اوقات میں نعتیہ کلام کہا اور بیشتر کلام نقل مکانی کے دوران گم بھی ہوگیا۔ بہر کیف جو کچھ دستیاب ہو ا وہ سب ’احترام‘ میں شامل کر لیا گیا ہے       ؎

کس کس کو گنائوں میں برکات محمد ؐ کی

دن ہی کی سی روشن ہے ہرر ات محمد ؐ کی

بڑھ کر ہے فضیلت میں، بہتر ہے فضیلت میں

ہر کام محمد ؐکا،ہر بات محمد ؐ کی

اعلیٰ حضرت کالی داس گپتا رضا کی نعت گوئی کا مقصد خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے        ؎

شعر کہتا ہے وہ شہرت کا طلبگار نہیں

درم و دام کا،دولت کا طلبگار نہیں

اے نبی ؐ آپ کے اکرام و شفاعت کے سوا

یہ سخنور کسی نعمت کا طلبگار نہیں

نعت کے علاوہ آپ نے روایتی کربلائی واقعات کے زیر ِ اثر کچھ مرثیے بھی کہے جو ’شعورِ غم ‘ کے عنوان سے کتابچے کی شکل میں موجود ہیں۔ ہمارا بیشتر اردو ادب کربلائی علامات سے بھرا پڑا ہے۔ اعلیٰ حضرت گپتا رضا نے کربلا کے واقعات کے ساتھ ساتھ سبطِ رسول حضرت حسین ؓ سے اپنی عقیدت کا جو اظہار فرمایا ہے وہ بھی انھیں اعلیٰ حضرت کہنے پر اکساتا ہے۔

ان کی غیر جانبداری اور بے لوث عقیدت و محبت بھی مجھے ان کا گرویدہ بناگئی۔ انھوں نے ایک رباعی میں کیا خوب فرمایا           ؎

بے کارکی باتوں نے ابھارا ہم کو

عیسیٰ بھی محمد ؐ بھی ہے پیارا ہم کو

تقسیم مذاہب سے نہیں کچھ بگڑا

انسان کی تقسیم نے مارا ہم کو

شعور ِ غم‘نامی کتابچہ آل رسول پر ہونے والے کربلائی واقعات کے اظہار پر مبنی ہے۔

بہرحال تحقیق، تنقید، نعت و منقبت وغیرہ ہر میدان میں آنجہانی نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ انھیں اعلیٰ حضرت کہنا ہر لحاظ سے حق لگتاہے۔ ان کا وصال۔  اردو ادب کا بہت بڑا داغ ہجر ہے جو ہر صاحبِ ذوق کے دل سے مشکل سے مٹے گا۔ کم سے کم میرے دل سے تویہ داغ نہ جائے گا کہ اس سانحے کو میں اپنا شخصی نقصان سمجھتا ہوں۔

ماخذ

  1.       ہندستانی مشرقی افریقہ میں (جلد اول) کالی داس گپتا رِضا، ومل پبلی کیشنز بمبئی 20۔(دسمبر1977)
  2. ا     سد اللہ خانِ غالب مرد اور سلسلۂ غالبیات کے دوسرے مضامین از کالی داس گپتا رِضا۔ساکار پبلیشرز پرائی ویٹ لمیٹڈ، بمبئی 20  (1991)
  3.     علامہ کالی داس گپتا رِضانمبر سہ ماہی اسباق پونہ مرتبین نذیر فتح پوری،امین حزیں،سنجے گوڑبولے۔(جولائی 2001 سے مارچ 2002 تک
  4.       اقبال کی خامیاں از جوش  ملسیانی (تعارف از کالی داس گپتا رِضا)۔ساکار پبلشرز پرائی ویٹ لمیٹڈ۔بمبئی 20۔( تیسرا ایڈیشن 1994)


Dr. Raoof Khair
9-11-137/1, Moti Mahal,
Golconda
Hyderabad- 500008
Cell: 9440945645
Email.: raoofkhair@gmail.com