30/6/23

کوچۂ نرگسیت کا والہ و شیدا: ریاض خیرآبادی

ریاض خیر آبادی اردو ادب کے ایک ایسے شاعر گزرے ہیں جنھوں نے اپنے منفرد اور مخصوص شاعرانہ خصائص اور کمالات سے اردو ادب میں اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت قائم کی۔ ناقدین ادب نے ان کے کلام کو سراہتے ہوئے انھیں کئی اہم القابات سے نوازا ہے۔ کہیں انھیں ’خیام الہند‘کا خطاب دیا گیا تو کہیں ’خمریات کا امام‘۔ریاض خیر آبادی کی شاعری کو مجموعی طور پر تین اہم ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔پہلے دور میں ان کے یہاں مشکل پسندی کا رجحان اور سنگلاخ زمین میں غزلیں کہنے کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس دور میں وہ غالب کے نقش قدم کے شیدائی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تب کی بات ہے جب آپ آشفتہ تخلص رکھا کرتے تھے۔ تاہم وہ زیادہ دیر تک اس فضا میں سانسیں نہ لے سکے۔ دوسرے دور میں انھوں نے مشکل پسندی سے اعراض کرکے بلند خیالی کی طرف سفر کیا۔ اس دور میں ریاض اپنے استاد کی پیروی میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کے مابین ایک پُل بننے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس دور کی شاعری کا مطالعہ کرکے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخیل بہت سرگرم عمل ہے۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس دور کی شاعری میں ان کے یہاں نشاطیہ رنگ غالب ہے۔

تیسرے دور کی شاعری میں ان کے یہاں صوفیانہ رنگ ملتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے حاجی علی شاہؒ (دیوہ شریف بارہ بنکی) کے مرید کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا۔شاید اسی کے پیش نظراس دور کی شاعری میں ان کے یہاں اخلاقی مضامین کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ریاض کی شاعری میں جس خمریات کا بار بار ذکر ملتا ہے وہ دراصل کچھ اسی صوفیانہ خیالات کی مرہون منت کہا جاسکتا ہے ورنہ یہ بات تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ ریاض خیر آبادی بادہ خواری کو کسی شجر ممنوعہ سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ عشق و مستی کے پروردہ ضرور تھے لیکن مے نوشی کے دلدادہ کبھی نہیں تھے۔ لہٰذا ان کی شاعری میں جو خمریات کے جلوے دیدنی ہیں وہ یا تو رسمی اور روایتی ہیں یا اسی دورِ ثالث کے شاعرانہ رجحان اور مزاج کے طفیل ہیں۔کیوں کہ صوفی شعرا نے خمریات کے پس پردہ عشق و مستی کے کئی متنوع رنگ بکھیرے ہیں۔

تنقیدی سطح پر ان کے کلام کا صوفیانہ، خمریاتی، حسن و عاشق، رومانوی وغیرہ سطحوں پر کافی کچھ مطالعہ ہوچکا ہے۔ تاہم ان سب پہلوؤں سے پرے ان کے کلام میں جو عنصر بار بار قارئین کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے اور جس کے ساتھ بہت محدود تنقیدی مکالمہ قائم کیا جاچکا ہے وہ ہے نرگسیت کا پہلو۔ سلام سندیلوی کی کتاب ’اردو شاعری میں نرگسیت‘ میں اس حوالے سے چند نگارشات کے سوا یہ پہلو ہنوز تشنہ ہے۔اس سے پہلے کہ ہم اس مقالے میں ریاض خیر آبادی کے کلام کے ساتھ نرگسیت کے تحت کچھ خامہ فرسائی کریں، یہاں پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نرگسیت کے بنیاد مبادیات سے آگاہی حاصل کرلیں۔

نرگسیت دراصل علم نفسیات کی ایک بسیار البحث اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال ماہر نفسیات معالج فرائڈ نے دوران پیشہ اپنے مریضوں کی تشخیص کے حوالے سے کیا۔نرگسیت کے موضوع کے حوالے سے ان کی کتاب "Collected Papers"سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ اصطلاح ان مریضوں کے لیے استعمال کی گئی جوایک مخصوص ذہنی خلل کے نتیجے میں اپنے جسم سے جنسی محبت کے شکار ہوگئے تھے۔ ایسے اشخاص مختلف طریقوں سے اپنے جسم سے جنسی لذت حاصل کرتے تھے۔ فرائڈ کے بعد اس کے مقلدین نے بھی ہلکی سی معنوی توسیع کے ساتھ اس اصطلاح کو تقریباً ان ہی معنوں میں پیش کیا۔ نرگسیت کے موضوع کے تمام حدود کو چھونے والی جامع اور مدلل کتاب کیرن ہارنی کی "New Ways In Psychoanalysis"تسلیم کی جاتی ہے۔تمام تر لغوی مباحث اور ماہرین فن کی آرا سے قطع نظر آیئے سیدھے طور پر اسی کتاب سے نرگسیت کی جامع اورمدلل تعریف پیش کرتے ہیں

’’ان کا قول ہے کہ نرگسیت کے دائرے میں خود ستائی(Vanity)، غرور (Conciet)، طلبِ جاہ (Craving for Prestige)، جذبۂ محبوبیت (Desire to be Loved)، دوسروں سے کنارہ کشی (Withdrawal from Others)، خودداری (Normal Self Esteam)، تصوریت (Ideal ion)، تخلیقی خواہشات (Creative desire)، شدید فکر صحت (Anxion Concern about Health)، شکل و شباہت(Apperance)، اور ذہنی صلاحیت… شامل ہیں‘‘1

 یہاں یہ بات واضح رہے کہ نرگسیت کی اصطلاح کے پیچھے ایک طویل تاریخی سیاق و سباق بھی کارفرما ہے ہم نے طوالت سے بچنے کے خاطر ان سب عوامل سے گریز کیا ہے۔

نرگسیت کی مذکورہ بالا توضیح کے تناظر میں اگر ہم ریاض خیر آبادی کی شاعری کا بہ غور مطالعہ کریں گے تو صاف اور واضح طور پر ریاض نرگسیت کے شکار نظر آتے ہیں۔ نرگسیت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے، وہ اپنی خامیوں سے بے نیاز ہوکر صرف اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مدح خواں بن جاتاہے۔ نرگسیت کا شکار انسان اپنی تمام تر غلطیوں سے صرف نظر کرکے اپنی عظمت کے ترانے گاتا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی کمزوریوں اور عیبوں سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے، البتہ نرگسیت کے شکار انسان کو اپنے وجود سے بہت زیادہ پیار ہوتا ہے جس کا اظہار وہ کچھ اس سطح پر کرتا ہے کہ اس کی آواز کی گونج کے میں دیگر پہلو ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ریاض خیر آبادی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو بیسیوں مقامات ایسے ہیں جہاں شاعر نے اپنے آپ کو لاکھوں میں ایک قرار دیا ہے         ؎

لاکھوں ہی جوانوں میں ریاض ایک جواں ہے

کمبخت حسینو، اسے چاہو اسے چاہو

ان کی شاعری میں اسی طرح کے موضوعات پہلو بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ شاید اسی قسم کی شاعری کا مطالعہ کرکے ڈاکٹر عبد السلام سندیلوی نے ریاض خیر آبادی کو اردو شاعری کا نرگس قرار دیا ہے۔ وہ ڈاکٹر خلیل اللہ خان کی کتاب’’ ریاض خیر آبادی حیات و خدمات‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں

’’ریاض خیر آبادی کو ہم اردو شاعری کا نرگس قرار دے سکتے ہیں۔ یونان کے نرگس میں خودبینی اور خودپسندی کی جو خصوصیت موجود تھی اُس کا مکمل پرتو تو ریاض خیر آبادی کے یہاں رقصاں نظر آتا ہے۔ اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ ریاض بذات خود نہایت حسین و جمیل انسان تھے۔ اس لیے دوشیزگان گورکھپور خود ان پر جان چھڑکتی تھیں… دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے مشہور و معروف شاعر اور انشا پرداز تھے، اس لیے اہل ذوق، ’نازت بکشتم کہ نازنینی‘کو مدِ نظر رکھ کر ان کی قدر کرتے تھے۔‘‘ 2

مذکورہ بالا حوالے کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ نرگسیت کے دلدادہ گزرے ہیں۔ ریاض خیر آبادی کو اپنی شکل و صورت اور وضع قطع پر ناز تھا۔ انھیں اپنی جسمانی بناوٹ اور ساخت بہت محبوب تھی۔وہ کسی دوشیزہ کے شباب کا گرویدہ ہونے کے بجائے اپنے شباب کو محبوب رکھتا ہے۔ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا آس پاس ان کے حسن و جوانی کو دیکھ کر رشک کرتا ہے ؎

دنیا کی پڑرہی ہیں نگاہیں ریاض پر

کس نوک کا جوان ہے کس آن بان کا

اسی نرگسیت کی دین ہے کہ ریاض اپنے محبوب کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے مایوس اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی خود پسندی انھیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ انھیں چھوڑ کر محبوب نے جس شخص کا پلو تھاما وہ شکل و صورت میں ان سے گیا گزرا ہے۔سر پیٹنے کے بجائے انھیں ترس آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غم و غصے کا اظہار کرنے کے بجائے محبوب کے اس عمل کو اس کی نادانی اور بیوقوفی سے تعبیر کرکے ان پر افسوس کا اظہار کرتے  ہیں         ؎

کیا جانے کیوں رقیب بنا تھا گلے کا ہار

صورت میں وہ ریاض سے اچھا تو کچھ نہ تھا

 

ریاض اچھی نہیں صورت تو کچھ پروا نہیں اس کی

ہماری وضع میں کیا ان سے کم کافر ادائی ہے

اردو شاعری میں تصور عشق کا جو ماڈل فارسی شاعری کے زیر اثر سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک معشوق ہے جس کی ادائیں بے مثال، جس کا حسن لازوال، جس کی وضع قطع توبہ شکن اور ایک قسمت کا مارا ہے جو اس پر فریفتہ ہوکر اپنی جان چھڑکتا ہے، اسے منانے کی ہمہ وقت بے مثال کوششیں کرتا ہے، اسے اپنا بنانے کے لیے اپنی دنیا بھی تیاگ سکتا ہے۔ لیکن ایک معشوق ہے جسے ان سب چیزوں کی کوئی پروا نہیں۔ عاشق واویلا کرتا ہے منتیں کرتا ہے، ہجر کا درد سہتا ہے۔ من جملہ طور پر اس روایتی تصور عشق میں محبوب سراپا ناز ہے اور عاشق سراپا نیازہوا کرتا تھا۔ لیکن ریاض کی نرگسی شاعری کے سامنے ہمیںروایتی تصور عشق کا یہ بت چکنا چور نظر آتا ہے۔ انھیں خود پسندی کا ایسا نشہ سوار ہے کہ جہاں انھیں اپنا سراپا اور اپنی ادائیں محبوب کے مقابلے ہر سطح پر عزیر ہیں۔ روایتی تصور عشق کے نمونے میں جہاں مرکزیت ایک عورت کو حاصل تھی وہیں ریاض کی نرگسیت کی وجہ سے یہاں عورت کے مقابلے میں ریاض کو مرکزیت حاصل ہے۔وہ محبوب کی اداؤں کے مقابلے میں اپنی اداؤں کے گرویدہ نظر آتے ہیں   ؎ 

چاہتے ہیں تجھے معشوق طرحدار ریاض

تجھ میں کم بخت کہاں سے یہ ادائیں آئیں

 

کمسنی پہ ترس آیا نہ شب وصل ریاض

اُف رے بیدرد حسینوں کے ستانے والے

روایتی تصور عشق کے برعکس یہاں ریاض ناز ہے اور ان پر جان فدا کرنے والی تمام حسینائیں نیاز ہی نیاز۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نرگسیت کے شکار کسی انسان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ غمخواری اور ہمدردی کے اظہار میں بہت بخیل ہوتا ہے اور دوسروں کے احساسات مجروح ہونے سے بالکل نابلد۔ ریاض خیر آبادی کے یہاں جو حسیناؤں کے تئیں بے التفاتی کا رویہ ملتا ہے وہ اسی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔  اس ضمن میں سلام سندیلوی کا درجہ ذیل اقتباس اس حقیقت پر صداقت کی مہر ثبت کرتا ہے

’’حقیقت یہ ہے کہ ریاض کے یہاں جذبۂ محبوبیت عروج پر نظر آتا ہے، وہ بذات خود حسین ہیں اس لیے حسیناں و مہوشاں ان کی نظر میں نہیں جچتے ہیں، اسی بنا پر وہ ان کے سامنے عشوہ و غمزہ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ان کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی تمنا ہے کہ دوشیزگان گورکھپور ان سے محبت کریں۔ دراصل ریاض خیر آبادی اردو شاعری کے یونانی نرگس ہیں۔‘‘3

حسینوں اور دوشیزاؤں کے تئیں بے نیازی کا یہ رویہ اور برتاؤ رکھنا ایسے ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے شباب پر بے انتہا اعتماد اور فخر ہے۔ ان کے یہاں اسی شباب کواگر نرگسیت کی بنیادی دین قرار دیا جاسکتا ہے تو کوئی بے جا نہیں ہوگا۔ اپنے شباب اور اپنی جوانی پر انھیں اعتماد اور یقین ہے۔ انھیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی جوانی سے نوازا گیا ہے جو واقعی میں قابل رشک ہے       ؎       

پیری میں ریاض اب بھی جوانی کے مزے ہیں

یہ ریش سفید اور مئے ہوش ربا سرخ

 

وہی شباب کی باتیں وہی شباب کا رنگ

تجھے ریاض بڑھاپے میں بھی جواں دیکھا

 

جوانی خود آتی ہے سو حسن لے کر

جواں کوئی ہو ہم حسین جانتے ہیں

اپنے شباب کا یہ نشہ اور اپنے شباب کا یہ غرور ان کے یہاں آخری عمر تک قائم رہا۔ بڑھاپے کی جھریوں نے ان کے خیالات کو پست اور ان کے جذبات کو سرد ہونے نہیں دیا۔ وہ اپنے تازہ تر اور نو آموز خیالات، کیفیات، احساسات کے بل بوتے سدا بہار کی طرح ہمیشہ جواں رہے۔ اپنی جوانی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی خوش باش طبیعت اور شخصیت سے بھی کافی زیادہ انسیت تھی     ؎

خوش ہوکے ریاض سے بھی ملنا

کیا باغ و بہار آدمی ہے

اپنی اس باغ و بہار طبیعت اور دلکش و دلفریب شخصیت کی وجہ سے وہ کسی بھی عورت کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ اس حوالے سے ان کی شاعری پرڈاکٹر اعجاز حسین کا یہ نظریہ بالکل بجا معلوم ہوتا ہے

’’ریاض نے دنیائے عشق میں عاشق ستم رسیدہ بن کر رہنا پسند نہیں کیا۔ دل پر اگر کبھی گہری چوٹ لگی ہے تو اس کا اظہار آہ و فغاں سے نہیں کیا بلکہ ایک معنی خیز تبسم سے اور ایک ایسی ادا سے کہ معشوق کو خود پیار آجائے۔وہ معشوق کی خوشامد بہت کم کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو خود روٹھ جاتے ہیںکہ کوئی گُدگدا کے ہنسا کے منائے۔‘‘4

اپنے جسمانی خدوخال کے علاوہ ریاض کا اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا خودہی شیدائی بن جانا بھی نرگسیت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ اس تناظر سے بھی اگر ریاض کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نرگسیت کے صف اول میں کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔انھیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا نہ صرف ادراک و احساس ہے بلکہ وہ اس معاملے میں خود کو بلند قامت استاد سے کسی طرح کم تصور نہیں کرتے۔ وہ اپنی سخن دانی کو موتیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اسی خود پسندی کے جذبے کے تحت اپنے آپ کو شعر و سخن کے تناظر میں زمانے بھر میں اہل کمال وفن میں یکتا تصور کرتے ہیں۔        

ہر شعر بلند کا یہ رتبہ ہے ریاض

چوٹی ہیں طور کی پڑا ہے موباف

 

قدرداں گو ہر سخن کے ریاض

منہ مرا موتیوں سے بھرتے ہیں

میرے سوا زمانے میں کوئی نہیں ریاض

اہل کمال شاعر یکتا کہیں جسے

 

شعر تو میرے چھلکتے ہوئے ساغر ہے ریاض

پھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے مے پی کہ نہیں

اردو رباعی کا غالب موضوع اخلاقیات اور آفاقی قدریں رہا ہے۔ اس میں شاعرانہ تعلی اور اظہار خودپسندی کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن ریاض کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی رباعیوں میں بھی نرگسیت کے واضح نقوش چھوڑ دیے ہیں۔کئی ایک رباعی میںاپنی فنکارانہ صلابت کی شان و شوکت یوں ظاہر کرتے ہیں          ؎

موزوں جو کیے ہیں شاہ دیں کے اوصاف

بندش ہے چست اور مضمون ہے صاف

 

سچ ہے اے حضرت ریاض یہ بات

کہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگ

انھیں نہ صرف یہ کہ اپنی جوانی، شباب و شہرت اور حسن و جمال پر فخرہے بلکہ بایں ہمہ انھیں اپنے فن اور اسلوب پر بھی ناز ہے۔ ان کی نرگسی صفت انھیں یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ میں ایک عظیم تخلیق کار ہے۔ وہ اس احساس سے اندر ہی اندر مچل اٹھتا ہے کہ ان کی شاعری کے چرچے نہ صرف خاص و عام میں ہیں بلکہ اس فن کے استاد بھی اس معاملے میں ان کی داددہی کرتے ہیں         ؎

مری افسوں طرازی کی ریاض اتنی جو شہرت ہے

سبب یہ ہے کہ ساحر سا ملا ہے قدر داں مجھ کو

ان کے یہاں جابجا ایسے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں انھوں نے اپنی پاکدامنی اور اپنی تقوی شعاری کے گن گائے ہیں۔ وہ بزم میخانہ سے جام و سبو اٹھائے جانے کا ذکر جب کرتے ہیں تو اس کی علت یہ پیش کرتے ہیں کہ اب وہاں ریاض جیسے پاکباز بزرگ آنے والے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اس قدر خودستائی کے مراحل سے گزرتے ہیں کہ انھیں زمانے بھر میں کسی اور کی پاکدامنی اپنے مقابل میں ایک آنکھ نہیں جچتی۔

بڑے پاک طینت، بڑے صاف باطن

ریاض آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں

آنے کو ہے ریاض سا اک پارسا بزرگ

مینا و جام بزم سے اٹھوائے جاتے ہیں

مری بت پرستی بھی ہے حق پرستی

مرا مرتبہ اہل دیں جانتے ہیں

انھوں نے اپنی نظموں میں بھی اپنے تقدس اور بزرگی کے گیت گائے ہیں۔نظم چونکہ کسی ایک خاص موضوع کی پابند ہوتی ہے لیکن ریاض کی نرگسیت اس موضوع کے حدود کو چیرتی ہوئی اس کے بین السطور میں اپنا جلوہ کہیں نہ کہیں ضرور دکھاتی ہے۔ ریاض رضوان میں ایک نظم موسوم بہ ’عقد ثریا‘ کہی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا خوب مذاق اڑایا ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات پر بھی طنز کے زہر آلودہ تیر چلائے ہیں۔ لیکن اس موضوع کے پس پردہ بھی غیر ارادی طور پراس کے آخری شعر میںاپنی نرگسیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے          ؎

بڑھاپے میں ریاض افشا نہ کر راز سیہ کاری

مجھے ڈر ہے تقدس کو ترے رسوائیاں ہوں گی

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حسن و جوانی کو کبھی زوال کی ہوا بھی نہ لگے۔ جو چیز انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے وہ اس کے تئیں بہت فکر مند رہتا ہے۔ ریاض کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ انھیں اپنی جوانی اس قدر عزیز ہے کہ وہ اس پر بڑھاپے کی خزاں دیکھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔یہی نرگسیت انھیں اللہ کے حضور یوں دست سوال دراز کرنے کے لیے اکساتی ہے        ؎

جواں کردے الٰہی صحبتِ پیر مغاں مجھ کو

پرانے میکدے والے بھی جانے نوجواں مجھ کو

من جملہ طور پر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ریاض کے اندر نرگسیت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان کے اندر کی یہ نرگسیت بعد از مرگ بھی زندہ رہی۔

انھیں اپنی خوبصورتی اور قاتلانہ ادا پر کچھ اس قدر ناز ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ موت بھی اس کو مات نہیں دے سکتی۔ وہ تو حشر کے دن بھی اپنی رندانہ وضع ترک کرنے پر تیار نہیں           ؎

کفن سرکا کے حسن نوجوانی دیکھتے جاؤ

ذرا افتادِ مرگ ناگہانی دیکھتے جاؤ

اہل محشر سے نہ الجھو تم ریاض

حشر میں دیوانگی اچھی نہیں

دہن گور میں جاتے ہوئے کہتے تھے ریاض

اے لبِ گور سمجھ موجِ تبسم مجھ کو

ہم اپنی وضعِ رندانہ کریں کیوں ترک محشر میں

یہی ہوں گے وہاں بھی اہل دنیا  دیکھنے والے

غرض ان کے کلام میں خود پسندی، خودستائی، اناپرستی، شاعرانہ تعلی، جیسے عناصر نرگسیت کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔


مراجع ومصادر

  1. بحوالہ ڈاکٹر سلام سندیلوی، اردو شاعری میں نرگسیت،نسیم بُک ڈپو، لاٹوش روڈ، لکھنو1974،ص29-30
  2. ڈاکٹر جلیل احمد خان، ریاض خیر آبادی حیات اور ادبی خدمات، یونائیٹڈ پریس، لکھنؤ،1974،ص 7
  3. ایضاً
  4. ڈاکٹر اعجاز حسین، مختصرتاریخ ادب اردو،جاوید پبلشرز، الہ آباد،ص 245

 

Dr. Mohd Younus Thokar

Asst Professor, (C), Dept of Urdu

Kashmir University

Kashmir -190006 (J&K)

27/6/23

مجنون گورکھپوری اور افسانے کی تنقید: ظفر انصاری


 

مجنوں گورکھپوری اور افسانے کی تنقید

پروفیسر احمد صدیق مجنوں گورکھپوری کا شمار اردو کے عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے تخلیقی ادب میں بھی گراں قدر نقوش ثبت کیے ہیںاور ان کے افسانے اور ان کی شاعری بھی معیار و اقدار کے لحاظ سے قابل اعتنا ہے اور ادب میں ان کی حیثیت بھی مسلم ہے، لیکن ایک نقاد کے طور پر ان کو جو شہرت حاصل ہوئی اس نے ان کی ادبی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کو پس ِپشت ڈال دیا اور ایک نقاد کی صورت میں ہی ان کی شناخت قائم ہوئی۔ مجنوں گورکھپوری نے اردو کی مختلف اصناف کو اپنی تنقید کا موضوع بنایاجن میں غزل،مثنوی اور افسانے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

مجنوں گورکھپوری اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے باریک بیں اور نکتہ رس نقاد ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے۔انھوں نے مشرقی اور مغربی دونوں ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے جس کا ثبوت ان کی تنقید ی تحریریں بجا طور پر پیش کرتی ہیں۔ مجنوںگورکھپوری سے متعلق اردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے جو خیالات پیش کیے ہیں وہ ان کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ کلیم صاحب اپنی معر کۃ الآرا تصنیف ’اردو تنقید پر ایک نظر‘میں مجنوں گورکھپوری کی علمی بلند قامتی اور تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’صحیح معنوں میں نقاد وہی ہو سکتا ہے جس کے دماغ میں ہزاروں دماغوں کی صلاحیتیں یکجا ہوں۔مجنوں پر یہ خیال صادق آتا ہے۔ان کے دماغ میں ایک بڑے نقاد،ایک بڑے افسانہ نگار،ایک بڑے شاعر اور ادیب کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔‘‘

(اردو تنقید پر ایک نظر،کلیم الدین احمد،بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ،1983،269)

جیسا کہ ہم جانتے ہیں مجنوں گورکھپوری بذات خود ایک فکشن نگار بھی ہیں اور انھوں نے ایک ناولٹ اور خاصی تعداد میں افسانے بھی لکھے ہیں۔اردو کے رومانی افسانہ نگاروں میں ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ انھوںنے اردو کے افسانوی ادب سے متعلق بھی اپنی تنقیدی آرا پیش کی ہیں جو ’افسانہ ‘کے عنوان سے ایک مبسوط کتاب کی شکل میں منصہ شہود پر آئیں۔ علاوہ ازیں چند افسانہ نگاروں سے متعلق بھی انھوں نے اپنے دیگر تنقیدی مجموعوں میں مضامین لکھے جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ مجنوں گورکھپوری فکشن تنقید سے گہرا شغف رکھتے تھے۔اردو فکشن کی تنقید میں ان کی کتاب ’افسانہ‘ خاصی اہمیت کی حامل ہے جو 1935کی تخلیق ہے اور جس میں ان کے دو طویل مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے توسط سے انھوں نے فکشن سے متعلق اہم نکات پیش کیے ہیں۔انھوں نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ان کی نظر میں افسانے سے مراد صرف مختصر افسانہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں ہیں جو فکشن  Fictionکے ذیل میں آتی ہیں۔ان میں طویل داستانیں بھی شامل ہیں اور مختصر افسانے،قصے اور حکایتیں بھی۔بلکہ انھوں نے اردو افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے محض نثری تحریروں کو ہی افسانہ نہیں مانا ہے بلکہ ان منظوم تحریروں کو بھی افسانہ ہی سمجھا ہے جن میں افسانوی عناصر یعنی قصہ پن پایا جائے۔ اس طرح انھوں نے اردو مثنویوں کو بھی فکشن ہی کے زمرے میں رکھا ہے،کیونکہ ان میں بھی پلاٹ یعنی واقعات کی منطقی ترتیب پائی جاتی ہے۔

مجنوںگورکھپوری نے فکشن سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ قصہ کہنے اور سننے کی روایت کا آغاز اس لیے ہوا کہ اس کے ذریعے انسانوں کو تفریح طبع کا سامان بہم پہنچایا جا سکے۔اس لیے اس میں دلچسپی کے عناصر کا پایا جانا ضروری ہے۔اگر کسی افسانے میں دلچسپی کے عناصر نہ ہوں گے تو اسے کامیاب افسانہ نہیں مانا جاسکتا ہے۔وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں

’’زائرین کنٹر بری مالک سراے کے مشورے سے قصے کہنا صرف اس لیے شروع کیے کہ راستہ خوش وقتی کے ساتھ کٹ جائے اور تکان میں کمی رہے،لیکن ہم اس تخلیق محض کے معصوم دور سے گزر کر تخلیق و تنقید کے معقول کو سمجھ گئے ہیں۔اب ہم کسی ایسی چیز کی حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکتے جس کا تجزیہ نہ ہو سکے اور جس پر تنقید نہ کی جاسکے۔افسانہ کو بھی اسی میزان ِ منطق پر پورا اترنا ہے اور افسانہ نگار کو بھی اپنی حمایت میں کچھ نہ کچھ کہنا ہے،لیکن اس نکتے کو کبھی نہ بھولیے کہ افسانہ در اصل افسانہ ہے اور اس کی غایت جی بہلانا اور تکان دور کرنا ہے۔‘‘

(افسانہ،مجنوں گورکھپوری مکتبہ ایوان اشاعت گورکھپور1935، ص5-6)

محولہ اقتباس سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ فکشن میں دلچسپی اور تفریح طبع کے عناصر موجود ہونا چاہیے تاکہ یہ انسان کے تھکے ہوئے ذہن اور درماندہ جسم کو راحت اور آرام پہنچا سکے۔فلسفیانہ خیالات کی پیش کش اور نقطۂ نظر کا اظہار افسانوی ادب میں دوم درجے کی چیز ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک افسانہ نگار کو اپنے نظریے کی اشاعت پر ہی اپنا تمام تخلیقی زور صرف نہیں کر دینا چاہیے بلکہ اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے افسانے سے اس مقصد کو حاصل کر رہا ہے کہ نہیں۔ یعنی افسانے کی غایت اصلی تفریح طبع ہے اور یہی اس کا فنی امتیاز و اختصاص ہے اور یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

مجنوںنے افسانے کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے اس کے اجزائے ترکیبی پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ان کے مطابق ایک افسانے میں چار اجزا کا ہونا ضروری ہے۔پہلا ماجرا یا ترتیب واقعات،دوسرا افراد اور کردار نگاری،تیسرا نقطۂ خیال اور چوتھا اسلوب۔انھیں چاروں اجزا کے ذریعے کوئی افسانہ وجود میں آتا ہے،جس طرح چار عناصر کے ذریعے انسان کا وجود تشکیل میں آیا ہے۔ بقول چکبست          ؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

 موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشان ہونا

یعنی کہ مذکورہ چار اجزا کا معتدل و متوازن انداز میں ایک افسانے میں ہونا اشد ضروری ہے،اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی افسانہ افسانہ نہیں رہ پائے گا بلکہ فنی نقطۂ نظر سے اس کی موت ہو جائے گی۔اس لیے بغیر پلاٹ یا بغیر کردار کے افسانہ لکھنے کا رواج جو ایک زمانے میں عام ہوا،اسے مجنوں گورکھپوری کے نظریے کے مطابق مستحسن عمل نہیں مانا جا سکتا،کیوں کہ ایسے افسانوں میں دماغی کسرت اور فکری ورزش کے لیے تو جگہ تھی،لیکن ان میں وہ خوبیاں موجود نہ تھیں جن کا تعلق تفریح طبع سے ہے۔یہ افسانے دماغی الجھن اور جسمانی تھکاوٹ مٹانے کے بجائے دماغ کو مزید الجھن میں مبتلا کرنے اور جسم کو اور زیادہ در ماندہ بنا دینے والے تھے۔

بہرحال،انھوں نے ان چاروں اجزا کے تعلق سے فرداً فرداً بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے۔وہ پلاٹ سے متعلق لکھتے ہیں

’’کسی افسانے میں سب سے پہلے جو چیز ہمارے ذہن کو اپنی طرف منتقل کرتی ہے وہ چند واقعات ہوتے ہیں جن پر اس افسانے کی بنیاد ہوتی ہے۔انھیں کی ترتیب کو ماجرا یا پلاٹ کہتے ہیں۔افسانہ اور کچھ ہو یا نہ ہو اس کو افسانہ تو ہونا ہی ہے۔اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو حالات و واردات اس میں بیان کیے جائیں عام اس سے کہ وہ فرضی ہوں یا واقعی ان کے اندر بجائے خود اتنی صلاحیت ہو کہ پڑھنے اور سننے والے کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کر لیں۔افسانے کی کامیابی کی پہلی شرط یہی ہے۔‘‘

(افسانہ،مجنوں گورکھپوری مکتبہ ایوان اشاعت گورکھپور،1935،ص 7ــ)

اس اقتباس سے پلاٹ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے پلاٹ سازی پر بھی اصولی گفتگو کی ہے،ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’افسانہ نگار کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ جن واقعات کو وہ اپنے افسانہ کے لیے منتخب کرے وہ عوام کے لیے کوئی اجنبیت تو نہ رکھتے ہوں لیکن ان کے اندر ایک ندرت و تازگی ضرورہو اور ان کی اہمیت مسلم ہو ورنہ جو اثر افسانہ نگار پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پیدا نہ کرسکے گا۔اس کے یہ معنی ہوئے کہ افسانے میں واقعات کا زمانہ،ماحول اور معاشرے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔‘‘[ایضاً، ص 7-8)

پلاٹ کی اہمیت کے مد نظر مجنوں گورکھپوری نے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے کہ افسانے میں کس طرح کے واقعات کو جگہ دی جانی چاہیے اور ان واقعات کا بیان کس انداز میں کرنا چاہیے تاکہ افسانے کا معیار بلند ہو جائے اور فنی اعتبار سے وہ افسانہ کامیابیوں سے ہمکنار معلوم ہو۔ کیونکہ یہ مرحلہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اس مرحلے کو بہ حسن و خوبی طے کر لینے کے بعد ہی کوئی افسانہ فن کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔واقعات کے انتخاب اور ان کے بیان کے تعلق سے مجنوں گورکھپوری رقم طراز ہیں

’’افسانہ نگار کو واقعات کے انتخاب اور ان کے بیان میں بڑے تفحص اور بڑی تمیز سے کام لینا چاہیے۔ انسان کی زندگی میں ہر قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعی غیر اہم اور غیر دلچسپ ہوتے ہیں جن سے بڑی خوبی کے ساتھ تجاہل برتا جا سکتا ہے، لیکن بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی باد ی النظر میں کوئی قدر و اہمیت معلوم نہیں ہوتی مگر جو در اصل اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ زندگی کو دور تک متاثر و متعین کر دیتے ہیں اور ہم ان کی طرف سے ایسے غافل رہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ افسانہ نگار کی نگاہ سانحات پر گہری پڑنا چاہیے۔اس کو نہ صرف ان واقعات کو لینا چاہیے جو سب کی نظر میں اہم اور مقتدر ہیں بلکہ ان واقعات کو بھی چھوڑنا نہ چاہیے جو در اصل اہم اور پر تاثیر ہوتے ہیں مگر عوام کی نگاہیں ان پر نہیں پڑتیں۔افسانہ نگار کو اس کی بھی پوری کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ حن واقعات و حالات پر افسانہ کی بنیاد ہو ان کے تمام میلانات و امکانات کو جو بالعموم نگاہوں سے پو شیدہ رہتے ہیں پڑھنے والے پر اظہرمن الشمس کردے۔‘‘(ایضاً، ص 9-10)

پلاٹ کے تعلق سے مجنوں گورکھپوری نے اس اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ افسانے کی بنیاد چوں کہ واقعات پر ہوتی ہے،اس لیے افسانہ نگار کو واقعات کی ترتیب پر بھی خاص طور سے توجہ دینی چاہیے۔اسے واقعات کو منطقی ربط کے ساتھ اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ ان کے درمیان کسی طرح کے خلا کا احساس نہ ہو اور افسانے کے پلاٹ سے قاری حتی الوسع لطف و انبساط حاصل کر سکے۔وہ لکھتے ہیں

’’واقعات کو ترتیب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ربط و تسلسل ہاتھ سے جانے نہ پائے اور پڑھنے والا کہیں کوئی خلا محسوس نہ کرے۔افسانہ کی ترتیب میں اگر ایسا توازن و تناسب نہ ہوا تو پڑھنے والے کی طبیعت بد مزہ ہو جائے گی۔افسانہ نگار کو اس کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں سے یہ احساس پیدا نہ ہونے پائے کہ واقعات کی ترتیب میں کسی قسم کی زبر دستی کو راہ دی جارہی ہے۔ہر واقعے کا ذکر ٹھیک وقت اور ٹھیک موقع سے ہونا چاہیے اور مختلف واقعات کے درمیان ایک لازمی نسبت قائم کر دینا چاہیے۔‘‘ (ایضاً، ص 13-14)

پلاٹ کے سلسلے میں مجنوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانے کے فن پر وہ عمیق نظر رکھتے ہیں۔

افسانے کا دوسرا جزو افراد اور کردار نگاری ہے اور افسانے میں اس کی اہمیت اور معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔افسانے کے ارتقا ئی سفر پر ایک سر سری نگاہ ڈالنے کے بعد ہی اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ افسانے میں داخلی کیفیت پیدا ہوتی گئی جس کے باعث پلاٹ پر انسان کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور یہی وجہ ہے کہ افسانے میں کردار نگاری کو لازمی تصور کیا جانے لگا۔مجنوں گورکھپوری نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ افسانے میں کردار نگاری کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ وہ اس کے قائل ہیں کہ افسانہ نگارکو اپنے افسانے میں ایسے کردار خلق کرنے چاہئیں جن میں واقعیت پائی جائے او ر جو قاری کے فہم و ادراک کے مطابق ہوں تاکہ وہ ان سے ذہنی وابستگی قائم کرنے میں کسی طرح کی دقت محسوس نہ کرے۔

مجنوں اس سلسلے میں لکھتے ہیں

’’شخصیت اور کردارکی اہمیت کو تسلیم کر لینے کے بعد اب ہم کو یہ فیصلہ کرناہے کہ کردار نگاری کس قسم کی ہونی چاہیے اور اس کے شرائط کیا ہیں۔سب سے پہلے افسانہ نگار کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے افراد کو کس حد تک واقعی بنا سکا ہے اور وہ کہاں تک پڑھنے والے کی سمجھ میں آتے ہیں... اب انسانیت اور مدنیت کا تقاضا یہ ہے کہ جو افرادکسی افسانے میں پیش کیے جائیں وہ ہماری آپ کی طرح اسی دنیا کے انسان ہوں اور اسی گوشت پوست کے انسان ہوں۔اب رجال داستان عجیب الخلقت ہوئے تو ہم ان کو زیادہ دلچسپ نہیں پائیں گے۔افسانہ کے اشخاص کو تو ایسا ہونا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص ان کو اپنا ہی سا پائے۔اگر افراد قصہ انوکھے ہوئے اور بجائے پاؤں کے سر کے بل کھڑے نظر آئے تو ہم کو ان سے کوئی موانست پیدا نہ ہو سکے گی۔افسانہ کے کردار جتنا ہی زیادہ ہم سے قریب ہوں گے اتنا ہی زیادہ ہم ان کو واقعی سمجھیں گے اور اتنا ہی زیادہ ان سے اثر قبول کریں گے۔‘‘ (ایضاً، ص 24-26)

مجنوں گورکھپوری کے مطابق افسانے کا تیسرا لازمی جزو نقطۂ خیال ہے۔وہ اس سے متعلق لکھتے ہیں

’’افسانے کا موضوع چوں کہ حیات انسانی ہے اس لیے ہم کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ جس زندگی کو افسانہ نگارپیش کر رہا ہے اس کے متعلق اس کی اپنی کیا رائے ہے۔ظاہر ہے کہ افسانہ نگار غیر ذی شعور آلہ نہیں ہوتا۔زندگی کے متعلق اس کے اپنے کچھ خیالات ہوں گے جن کا عکس اس کے افسانے میں نظر آئے گا... افسانے کی بنیاد محض تجربات و واقعات پر نہیں ہوتی۔افسانے کی اصل جان وہ رائے ہوتی ہے جو افسانہ نگاران واقعات و تجربات کے متعلق رکھتا ہے۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ افسانے کا کام صرف زندگی کی نقل اتارنا نہیں ہے بلکہ اس کو از سر نو پیدا کرنا ہے۔‘‘

(ایضاً، ص 38)

یہ اقتباس اس نکتے کی وضاحت کرتا ہے کہ افسانے میں کسی افسانہ نگار کی زندگی سے متعلق اپنی رائے کا بھی اظہار ہونا چاہیے لیکن یہ اظہار محض نقل کی صورت میں نہ ہو بلکہ اس میں اس کا اپنا وژنVision بھی منعکس ہونا چاہیے۔کسی بھی فن کار کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ حیات و کائنات کی محض نقالی نہیں کرتا بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے بھی کچھ ترمیم و اضافہ کرتا ہے جس کے باعث اس میں تخلیقی شان پیدا ہو جاتی ہے۔

افسانے کا آخری جز و اسلوب ہے اور اس کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے اسلوب کے ذیل میں زبان، لب و لہجہ،سوز وگدازاور طنز و تمسخر سبھی کچھ آتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’افسانے کی کامیابی کا را زاسلوب ہی میں مضمر ہوتا ہے۔اس لیے کہ واقعات کی ترتیب ہو یا افراد کی کردار نگاری یا کسی نقطۂ خیال کی اشاعت کے لیے کوئی دلکش پیرایہ اختیار نہیں کیا جائے گا تو کسی پر کوئی اثر نہ ہوگا۔‘‘ (ایضاً، ص 50-51)

افسانوی تخلیق میں اسلوب یا طرز کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں

’’دنیا کے جس بڑے افسانہ نگار کا مطالعہ کیجیے آپ کو اس کے اندراور کوئی بات ملے یا نہ ملے ایک بات ضرور ہی ملے گی۔وہ صاحب طرز ضرور ہوگا۔ورنہ ادبی افسانہ کی تاریخ میں اس کو کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔اور بعض افسانہ نگاروں کا طرۂ امتیاز یہی ہوتا ہے۔‘‘

 (ایضاً، ص 51-52)

محولہ بالا اقتباس سے افسانے میں اسلوب یا طرز کی اہمیت بہ حسن و خوبی واضح ہو جاتی ہے۔عالمی ادب کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی جتنے افسانہ نگار ہوئے ہیں وہ اپنی طرز تحریر اور اسلوب نگارش کے نقطۂ نظر سے بھی انفرادی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔اس سے یہ شق ابھرتی ہے کہ افسانے میں طرز یا اسلوب بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہی کسی افسانہ نگار کا اختصاص و انفراد قائم ہوتا ہے اور وہ امتیازی شناخت کا حامل بنتا ہے۔

المختصر یہ کہ مجنوں گورکھپوری نے فکشن کے تعلق سے جو باتیں کی ہیں وہ اصولی نوعیت کی ہیں۔ ان باتوں سے یہ انداز ہ لگانا کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ اور ذی شعور نقاد تھے۔اس کے باوجود یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی نقاد کی تمام آرا سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،لیکن اس کے دلائل سے اتنا تو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ اس کی تنقید کا معیار کتنا بلند یا پست ہے۔

n

Dr Zafrullah Ansari

Assistant Professor,  Dept of Urdeu

Allahabad University

Prayagraj - 211002  (UP)

Mob.: 8853579247

Email:zafrullahansari@gmail.come

26/6/23

حکیم مومن خان مومن کے فارسی خطوط کا تنقیدی جائزہ:نیلوفر حفیظ

خط فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نشان، لکیر، فرمان، مکتوب اورپیغام وغیرہ کے ہوتے ہیں عموماً دو لوگوں کے درمیان ہونے والی تحریری گفتگو کو خط کہا جاتا ہے خطوط نویسی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کہ اس فن کی تاریخ اس قدر قدیم اور کہنہ ہے کہ بعض مواقع پر تو ہمارے محققین ومورخین کی دور رس نگاہیں بھی اس کا احاطہ کرنے سے قاصرنظرآتی ہیں کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل خطوط نویسی کی ابتدا ہو چکی تھی لیکن افسوس کہ پختہ اور حتمی ثبوت ہماری دسترس میں نہ ہونے کے سبب وثوق کے ساتھ کوئی بھی رائے قائم کرنا قدرے دشوارمحسوس ہوتا ہے البتہ اگر فارسی زبان وادب میں خطوط نگاری کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تویہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قدیم ایران کی تاریخ کے جو خطوط آج ہماری دسترس میں ہیں وہ ایران کے مشہورومعروف ساسانی بادشاہ نوشیروان عادل کے زمانے میں تحریر کیے گئے تھے بعد میں انھیں تمام خطوط کو’ توقیعات‘ کے نام سے یکجا کردیاگیاجو آج بھی ہماری دسترس میں ہےں اورفارسی ادب کا قیمتی سرمایہ تصور کیے جاتے ہیں۔یہ مجموعہ فارسی خطوط کے اولین نقوش کے زمرے میں رکھاجا سکتا ہے کیونکہ اس کے بعدسے ہی اس فن کی باقاعدہ اور با ضابطہ شروعات ہوئی اور فارسی زبان میںخطوط نویسی کا یہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتاچلا گیانہ صرف یہ کہ ایرانی بادشاہوں نے اعلیٰ ترین خطوط لکھے ہیں بلکہ ہر خاص وعام میں یہ افادی فن اپنے تمام تر لوازمات اور طمطراق کے ساتھ رائج رہاہے اور ایران پر عربوں کا تسلط قائم ہوجانے کے بعد تو اس فن نے عام وخاص کے درمیان مزید وسعت، کشادگی اور مقبولیت حاصل کی اور مختلف ادوار میںتاریخی، ادبی اور سیاسی اعتبارسے بے پناہ اہمیت کے حامل خطوط مسلسل منظر عام پر آتے چلے گئے جو تا عصر حاضر بھی مورخین ومحققین کے لیے مورد استفادہ اورقابل تفکرنظرآتے ہیں۔

کشورہندوستان کی فارسی زبان وادب کی تاریخ میں جب بھی فارسی خطوط نویسی کاذکرکیاجاتاہے تومرزا غالب کے بعد حکیم مومن خان مومن کا نام سر فہرست نظر آتا ہے اس دانشور عالی نے فن مکتوب نگاری کو جو عروج اور رونق عطا کی وہ ہمارے ملک کے فارسی داں طبقے سے پوشیدہ نہیں ہے۔کے فارسی داں طبقے سے پوشیدہ نہیں ہے۔

 حکیم مومن خان مومن ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اپنے عہد کے تقریباً تمام مروجہ علوم وفنون پر ان کو دسترس حاصل تھی انھوں نے اردو اور فارسی دونوں ہی زبانوں کواپنے احساسات دروں اور جذبات صادقانہ کی ترجمانی کاوسیلہ بنایاحالانکہ مومن کو زیادہ تر لوگ اردو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان وادب پر بھی پوری دسترس حاصل تھی گو کہ انھوں نے مرزاغالب کی طرح اپنی فارسی دانی کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اپنے لیے کبھی باعث فخر اور نشان عالی توتصورنہیں کیا ہے اورغالباًیہ ان کی طبیعت کی بے پناہ سادگی اور انکساری ہی تھی کہ فارسی زبان کا بڑا ادیب اور شاعر ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی دعوائے یکتائی نہیں کیا بلکہ اس معاملے میں ہمیشہ میانہ روی اورعاجزی اختیار کی ان کی فارسی دانی کا لوہا بڑے بڑے اساتذئہ فن نے مانا ہے اور ان کو فارسی کا ایک عظیم شاعر اور نثر نویس گرداناہے شواہد سے تو یہاں تک ثابت ہوتاہے کہ خود اہل زبان بھی ان کی غیر معمولی فارسی دانی کی صلاحیتوں کے سبب ان کو ایرانی سمجھتے تھے اوران کی قدرومنزلت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے اس سلسلے میں عبدالغفور نساخ لکھتے ہیں:

مومن کو فارسی میں وہ دستگاہ حاصل تھی کہ اہل ایران ان کو ایرانی سمجھتے تھے“1

مومن کی بے پناہ فارسی صلاحیتوں کی اہمیت وارزش کو ہر دورمیں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے اورصرف ان کے معاصرین ہی نہیں بلکہ متاخرین نے بھی ان کو دنیائے فارسی کا ایک عظیم شہہ سوار قرار دیاہے ’مومن شخصیت اور فن‘ کے مصنف نے اردو کے ساتھ ساتھ ان کی فارسی خدمات کا بھی گہرائی وگیرائی سے مطالعہ ومحاسبہ کیا ہے اور ان کو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی نظم ونثر کا بھی ایک استاد بزرگ بتاتے ہوئے لکھاہے:

وہ جہاں اردو کے ایک بلند پایہ شاعر تصور کیے جاتے ہیں وہاں فارسی میں بھی ان کے استادانہ کمال سے انکار کرنا غیر ممکن ہے جس کے ثبوت میں فارسی دیوان مومن اور انشائے مومن دو شاہد عادل پیش کیے جا سکتے ہیں۔“ 2

مومن خان مومن کے اردو دیوان کے ساتھ ساتھ ان کا فارسی دیوان بھی ان کے پھوپھی زاد بھائی اور دہلی کی قدآور شخصیت سمجھے جانے والے شاہی طبیب جناب حکیم احسن اللہ خاں نے ترتیب دیا تھااس کے علاوہ حکیم مومن خان مومن کے فارسی خطوط اور تقویموںکے دیباچوں وغیرہ کو بھی ’انشائے مومن‘کے عنوان سے احسن اللہ خاں نے ہی مرتب کیااور عام لوگوں کی دسترس میں پہنچایا اور اسی مرتب شدہ خطوط کو بعد میں ڈاکٹرظہیر احمد صدیقی نے بڑی محنت ومشقت کے بعد اردو ترجمے کے ساتھ کتاب کی شکل میںشائع کیاہے جس کو عام وخاص میں خصوصی مقبولیت اوراہمیت حاصل ہوئی اوران کی مومن خان مومن کے لیے اختیار کی گئیں مساعی جمیلہ کو خوب خوب سراہا گیا آقائے ظہیر احمد نے بھی مومن خان کو فارسی زبان کا ایک بڑا شاعر اور نثر نویس قرار دیا ہے اور مختلف شواہد کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ فارسی دانی کے معاملے میں ان کا مرتبہ کسی ایرانی شاعر اور ادیب سے کمتر قرارنہیں دیا جا سکتاہے ان کے فارسی خطوط کی اہمیت وارزش پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

فارسی انشا پردازی کا جو دورہندوستان میں ظہوری، فیضی اور نعمت خاں عالی سے شروع ہواتھاوہ غالب اور مومن پر ختم ہو گیایہ درست ہے کہ مومن کی نثر سرتاپارنگینی سے معمور اور تصنع سے بھرپورہے لیکن ا س میں بھی انھوں نے اپنی طباعی اورنکتہ سنجی سے وہ انفرادیت پیداکی ہے کہ ہراہل نظر کو ایمان لانا پڑتا ہے علمی اصطلاحات، مشکل تلمیحات، نازک استعارات اور نادر تشبیہات نے اس کی نثر کو گنجینہ معنی کا ایک طلسم بنا دیا ہے اس میںبلا ارادہ مصنف کی ذات اور ماحول کی نسبت کچھ ایسے اشارے بھی آ گئے ہیں جن سے ہمیںاس عہد کی معاشرت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا ہے “3

مومن خان کی فارسی نثر انشا پردازی کاایک اعلیٰ نمونہ اورمنہ بولتاثبوت یہ ہے ان کی تحریروں میں وہ اثر آفرینی اور سحر بیانی ہے جس کی وجہ سے ہر بار پڑھنے سے کوئی نہ کوئی نکتہ روشن ہو کر اذہان وقلوب کو جلا بخشتاہے ان کے خطوط اعلیٰ فارسی نثر کا بہترین نمونہ کہے جا سکتے ہیں ان کے بیشتر خطوط (کچھ کو چھوڑ کر جو انھوں نے بعض ایسے عزیزوں اور دوستوں کو لکھے ہیں جو فارسی زبان و ادب سے کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتے تھے ان کی فارسی کم فہمی اور کم علمی کے سبب انھوں نے ان کو سادہ اور سلیس انداز میں خط لکھے ہیں ) ان کی فارسی دانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں انھوں نے خط لکھتے وقت عبارت آرائی اور مشکل بیانی کو بروئے کار لانے میں کوئی تردد نہیں کیا ہے اور یہ مشکل بیانی اورعبارت آرائی ان کے دور کی ضرورت بھی تھی کیونکہ اس عہدمیں کشور ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا سورج اپنے عروج کی انتہائی منازل کو طے کر چکا تھا فارسی داں طبقہ سبک ہندی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے مسلسل ترقی کے راستے پر گامزن تھا اور بہترین ادبی فارسی اور اشارے کنایوں کی زبان استعمال کرنا ہی شاعر یا مصنف کی ذہانت وذکاوت کا ثبوت ہوتا تھا،تمام تر حالات کی نامساعدی اورناسازگاری اور دشمنوں کی حیلہ پروری وسازشوںکے باوجودبھی لوگ ابھی بھی فارسی زبان کو ہی زیادہ قابل اعتناتصور کرتے تھے یہی سبب ہے کہ عہد مومن میں مشکل پسندی کا رحجان بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اور زیادہ تر شعرا وادبا تازہ گوئی اور معانی آفرینی کی طرف اپنی توجہ مبذول کیے ہوئے تھے ظاہر ہے مومن بھی اپنے زمانے کے عام رحجان سے مستثنیٰ کیسے رہ سکتے تھے لہٰذا انھوں نے وہی رحجان اپنایا جو اس وقت مستعمل تھا اور بلاشبہ وہ اس میں معاصرین میں سبقت لے گئے ہیں۔

حکیم مومن خان کے خطوط کی سب سے بڑی انفرادیت اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے زیادہ تر فارسی خطوط میں علم طب اورعلم نجوم وغیرہ کی اصطلاحات کو بڑی روانی اور فراوانی کے ساتھ استعمال کیا ہے جو ان کا سا انداز ان کے معاصرین نثر نگاروں اور شاعروںکی تحریروں میں کسی اور کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتاہے ہمارا یہ یگانہ عصر فنکارعلم طب اور علم نجوم میںہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ فن موسیقی اورعلم فلکیات پر بھی گہری دسترس تھی اس کے علاوہ وہ اپنے عہد کے شطرنج کے کھلاڑیوں میں بھی سب سے بلند درجہ رکھتے تھے اس کے ساتھ بھی اور نہ جانے کون کون سے علوم وفنون تھے جن سے حکیم مومن خان کوبڑی گہری واقفیت اور دلچسپی تھی اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سب علوم وفنون سے گہری آگاہی کا اظہار ان کی فارسی تحریروں میں بڑی شدت کے ساتھ کیاگیاہے جس کے سبب زمانہ دراز تک ان کی فارسی تحریریں عام فہم لوگوں کے لیے چیستاں بنی رہیںاور عام وخاص کی عدم توجہی کے سبب ان کی زندگی میں فا رسی خطوط وشاعری کو وہ قبول عام حاصل نہیں ہو سکا جو ان کی اردو شعروشاعری کو حاصل ہو گیاتھاکیونکہ ان کے فارسی خطوط کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو فارسی زبان وادب سے کماحقہ واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں رائج مختلف علوم وفنون کے متعلق بھی جانکاری رکھتے ہوںان کے اس مشکل اورپیچیدہ اسلوب نگارش کی وجہ سے عام فہم اور سہل پسندلوگ عرصہ دراز تک ان کے اس انفرادی وعظیم ادبی کارنامے سے واقفیت ہی حاصل نہیں کر سکے اور اگر اس کے متعلق کوئی بات کی بھی گئی تو بات چند سطروں سے متجاوزنہ ہو سکی:

اسی طرح بعض خطوط میں طب اور نجوم کی اصطلاحیں ایسی بر محل استعمال کی ہیںکہ وقائع نعمت خان کا اسلوب نگاہوں میں پھر جاتاہے“ 4

 جیسا کہ قبلا ذکرکیا گیا کہ مومن کے فارسی خطوط کو بہت زیادہ قبول عام نہیں مل سکا ایک تو ان کے مشکل انداز بیان کے سبب دوسرایہ کہ بعض دانشوروں کا ماننا ہے کہ ان کے خطوط میں ان کی ذاتی زندگی اور معاشرقی حالات کی تلاش صدا بہ صحراثابت ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ان خطوط میں اپنی ذاتی زندگی اوراپنے معاشرے کے متعلق کوئی خاص معلومات بہم نہیں پہنچائی ہےں کیونکہ ان خطوط کو لکھنے سے ان کا مقصد اپنے معاصرین کے درمیان اپنی بے پناہ فارسی دانی کا اظہار کرنا مقصود تھا تاریخی یا سماجی صداقتوں کو منظرعام پر لانا نہیں تھا پروفیسر نذیر احمد مکاتیب مومن کے متعلق لکھتے ہیں:

مومن کے خطوط سے ان کے حالات زندگی اور شخصیت وغیرہ پر بہت زیادہ روشنی نہیں پڑتی ہے کیونکہ وہ زیادہ تر محمد شاہی طرزمیں لکھے گئے ہیں اور عبارت آرائی، مشکل پسندی اورغیر معمولی تصنع سے بھر پور ہیں“ 5

مذکورہ بالا سطور کی روشنی میںمومن کے خطوط کے متعلق حتمی طور پر یہ نظریہ قائم نہیں کیا جا سکتاہے کہ انھوں نے اپنے ان خطوط میںاپنے عہد کی عکاسی نہیں کی ہے بھلے ہی انھوں نے شعوری طورپر اس طرف توجہ نہ کی ہو البتہ لاشعوری طور پر ان کے خطوط میں ان کی ذاتی زندگی اور سماجی حالات کا ذکر جا بجا موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ مومن کے بعض خطوط تو ان کی ذاتی زندگی کی بھی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ذیل میں ان کے خطوط سے کچھ اقتباس نقل کیے جا رہے ہیں جو ان کی ذاتی زندگی کے متعلق معلومات یکجا کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں ان کے متعدد فارسی خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ مومن کوبھی دیگر لوگوں کی طرح زندگی کے بے شمار نشیب وفراز سے سابقہ پڑا اور بہت سے تلخ وتندحالات سے گزرنا پڑا لیکن ان کی وضع داری اور خاندانی شرافت نے کبھی ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب کی تاب نہ لا کر واویلا کریں ان کو تنگدستی، مفلسی اور غربت کے کوہ گراں کا بار اپنے ناتواں شانوں پر اٹھانا پڑا حالانکہ والدہ کی طرف سے ان کو تھوڑی بہت زمین وراثت میں ملی تھی البتہ اپنوں وبیگانوں کی سازشوں نے وہ بھی ان سے چھین لی جس کے بعد وہ زبردست مالی مصائب میں گرفتار ہو گئے اپنے ایک خط میں احسن اللہ خان کو اپنی مالی پریشانیوں اوردلی کیفیات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

زمانے کی ناقدری اور نافہمی کے باعث کوئی میرا خریدار نہیں ہے اور میرے آبدار موتیوں کا بازار تاریکی میں بھی مندا ہے، میرا بسامان جو بند پڑا ہے اس پر کساد بازاری کی گرد اس قدر بیٹھ گئی ہے کہ طوفان نوح سے بھی نہین دھل سکتی اور میرے آئینہ پر کسمپرسی کی زنگار اس قدر جم گئی ہے کہ صرصرکا غبار بھی اس کو جلا نہیں سکتا میرے یوسف مراد کلام کو بڑھیاکے سوت کی انٹی کے بدلے بھی لوگ نہیں خریدتے اور اس کو چاہ کنعاںسے کھوٹے سکوں کی عوض بھی نہیں نکالتے، ید بیجا کے معجزے کے باوجود میں خالی ہاتھ ہوں اور دم عیسیٰ کے ہوتے ہوئے بیماری میں مبتلا ہوں ۔ سامری کیش میرے صحیفہ کمال کو پسند نہیں کرتے خواہ قلم قدرت کا لکھا ہوا کیوں نہ ہو۔اس کے برخلاف نااہلوں کو جو عجلاً جسدًالہ خوار کے مصداق ہیں سونے میں تولتے ہیں۔میری موشگافی فرعون کے موتیوں میں پروئی ہوئی داڑھی پر رشک کرتی ہے اور میری باریک بینی سرمہ شدادکی حسرت میں اشک خون برساتی ہے اس ناقدری کے باوجود میں نے کبھی ہنر کی آبرو نہیں بیچی اور امراءکی آستین سے توقعات وابستہ نہیں کیں ۔میں نے جو ک روٹی پر قناعت کی اور آسمان کی خوشہ گندمپر کبھی نظر نہیں ڈالی۔ میری خرقہ پوشی کبھی آسمان کے اطلس کی طرف راغب نہیں ہوتی اور میری خاک نشینی ذات الکرسی (ستاروں کی ایک شکل جو کرسی نشین عورت سے مشابہ ہے) کا سہارا نہیں لیتی لیکن کیا کیا جائے ،اگر نا انصاف دنیایہ بھی نہ دیکھ سکے اور ناقدری زمانہ بستر خاک سے بھی ایک درجہنیچے بٹھائے ایک نیا ظلم جو پرانے دشمن مراد آسمان نے کیایہ ہے کہ تھوڑی سی زمین جو مجھے والدہ سے ورثہ میں ملی تھی وہ بھی زبردستی چھی لی۔“6

مومن خان مومن اپنے عہد کے ایک بارسوخ، غیرت مند اور خود دارگھرانے کے چشم وچراغ تھے ان کی خاندانی شرافت، غیورطبیعت اورخوددارانہ مزاج نے کبھی کسی کے در پر ناصیہ فرسائی کا گناہ گوارا نہیں کیا حالانکہ ان کو انگریزوں کی طرف سے کئی بار ان کا ندیم خاص بننے کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نے ہر بار اس کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایسی کوئی بھی ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے جو ان کے مزاج اور طبیعت کے موافق نہ ہو یہی سبب تھا کہ ان کوطویل وقت تک مالی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑا چونکہ آمدنی کا کوئی مضبوط وسیلہ ان کے پاس نہیں تھا لہٰذا اکثر ان کومقروض بھی ہونا پڑتا تھا حالانکہ وہ مالی لحاظ سے ایک خوشحال متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اوران کی خاندانی پنشن ایک ہزار روپے سالانہ تھی لیکن انگریزی حکومت کی حیلہ پروری اور مکاری کے سبب وہ پنشن بھی ان کو پوری یا وقت پر نہیں ملتی تھی جس کے سبب وہ اکثر مالی مسائل کاسامنا کرنے پر مجبور رہتے تھے اپنی تنگدستی اور مالی پریشانیوں کا شکوہ ان کے کئی فارسی خطوط میںبڑے واضح اندازمیں دیکھنے کو ملتا ہے ان کے فارسی خطوط کے مجموعے میں بہت سے ایسے شواہد ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ پریشانی اور مالی مسائل کو فرو کرنے میں گزارااور بعض اوقات توایسے مواقع بھی آئے کہ ان کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی اوران کو اپنوں وبیگانوں کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑا۔ ذیل میں ان کے ایک خط کی چند سطور نقل کی جا رہی ہیں جن کو پڑھ کربا آسانی اندازہ ہوجاتاہے کہ مومن خان کی تنگدستی اور غربت نے ایک دو بار نہیں بلکہ متعدد مرتبہ ان کی عزت نفس کو سربازار رسوا اور ذلیل کیااوران کو اپنی بے عزتی اور رسوائی کوزندگی کے ایک تلخ گھونٹ کی طرح برداشت کرنا پڑا:

ایک بقال جس سے نان ونمک زر سالانہ کے وعدے پر لیاتھااس سے وعدہ پختہ تھاکہ زر سالانہ وصول ہونے والا ہے رقم ادا ہو جائے گی، اس کے تقاضے پر میں سختی سے ڈانٹااورگالیاں دیں، وہ بھی لپٹ پڑا اورعزت آبروپر ہاتھ ڈالاچیخ پکار بلند ہوئی اور بال بھی کھینچاتانی میں آئے“ 7

مومن خان کو بھی اپنے عہد کے دیگر شاعروں اور ادیبوں کی طرح ہمیشہ اس بات کا شکوہ رہا کہ اہل زمانہ نے ان کے ہنر وکمال کے مطابق ان کی قدر افزائی نہیں کی اورفلک کج رفتارنے ہمیشہ ان پر پریشانیوں کے کوہ گراں کو مسلط رکھا حتیٰ کہ ان کی ازدواجی زندگی میں بھی ان کو بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ان کی پہلی شادی 1823میں ہوئی تھی لیکن افسوس کہ ان کی بیوی ان کی مزاج آشنا اور ہمدرد ثابت نہیں ہو سکی اور دونوں میں ہمیشہ ان بن رہی اور آخر کار دونوں میں علیحدگی ہو گئی اس سلسلے میں انھوں نے اپنے ایک عزیزبنام غلام ضامن کو خط لکھ کر اپنی قسمت کی نارسائی اور ناکام ازدواجی زندگی کا ذکر کیا ہے اوراس برائے نام رشتے کے ختم ہو جانے پر خدا کا شکر اداکیاہے کہ خدا کا بڑاکرم اور احسان ہے کہ انھیں اپنی بد دماغ بیوی اور اس کے جاہل خاندان سے نجات حاصل ہو گئی وہ اس خط میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس رشتے کو چلانے کے لیے ان کو سخت ترین آزمائشوں اور ذہنی اذیتوں سے گذرنا پڑا اوراس برائے نام رشتے کو چلانے کی ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیںچنانچہ وہ لکھتے ہیں:

خدا لگتی کہنا۔ مومن کا جہنم میں جا پڑناخوشی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ گاں گاں ذلت وخواری اٹھا کر دنیا میں کوئی مشہور نہیں ہوتا۔ میں نے دو تین مہینے نادانی اور سادہ دلی سے نا اہلوں کے ساتھ نباہنے کی غلطی کی تھی جس پر سب سے ملامتاور نفرین سننی پڑی اب جبکہ میں فارغ البال اور خوش حا ل ہوں خدا نہ کرے کہ پھر اپنے آپ کو مصیبت میں پھنساں اورنادانوں کی مجلس میں شریک ہوں... چونکہ میںنےنابکارجاہلوں سے تکلیف اٹھائی ہے اوربد اطوار گنواروں سے رشتہ کرنے میں مصیبتیں جھیلی ہیں اس لیے ارادہ ہے کہ کسی عالی خاندان سے قرابت کروں۔“8

مذکورہ بالا خطوط کے اقتباس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ مومن کے یہاں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ان کی زندگی سے متعلق خاصی اہم اور بیش قیمت معلومات فراہم ہوتی ہیں جو تفہیم مومن میں ہماری بڑی مددگارثابت ہو سکتی ہیں محض یہ کہہ کر گزر جانا کہ مومن کی ذاتی اور معاشرقی زندگی کے متعلق یہ خطوط ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے ہیںکسی بھی طور پردرست قرارنہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے خطوط کے مجموعے کے سرسری مطالعے سے ہی سے پتہ چلتاہے کہ ان کے یہاں اپنے عہد اوراپنی زندگی کے متعلق واضح نظریات موجود تھے لہٰذا ان کے بہت سے ایسے خطوط مل جاتے ہیں جو ان کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت ہی اہم اور خاص جانکاری فراہم کرتے ہیں اور جن کا ذکر ان کے عہد کی کسی بھی تاریخی کتاب اور تذکرے وغیرہ میں نہیں کیا گیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان کو قلم انداز کیا جاتاہے خطوط مومن کا مطالعہ کرنے والے لوگ ان کے ان خطوط سے ان کی ذاتی زندگی کے متعلق عمدہ نتایج اخذ کر سکتے ہیں حالانکہ مومن خان کے خطوط کے مطالعے سے سے یہ اندازہ تو ضرور ہوجاتاہے کہ ان خطوط سے ان کا مقصد آپ بیتی یاکوئی سر گذشت لکھنے کا ہرگزبھی نہیں تھا وہ صرف اپنے عزیز و احباب اور دوستوں وشاگردوں وغیرہ کو یہ خطوط لکھتے اور اپنے محسوسات وجذبات کو قلم وقرطاس کے سپرد کر دیتے تھے

حکیم مومن خان مومن نے بھلے ہی شعوری طور پراپنے دور کے حالات پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش نہ کی ہو اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ان خطوط میں اپنے عہد کی سماجی اور ذاتی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اس عہد کی تاریخ کو جاننے کے لیے خاصا اہم مواد ہماری دسترس میں آجاتاہے اور یہ سب کچھ انھوں نے اس خوبصورت اور دلکش اندازسے لکھا ہے کہ اگر ان کے خطوط میں موجود مواد کو سلیقے اور سنجیدہ طریقے سے تشکیل وترتیب دیا جائے توبلا شبہ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ان کے خطوط میں موجود بیش قیمت مواد کی مدد سے مومن خان مومن کی نہ صرف آپ بیتی تیار کی جا سکتی ہے بلکہ اس عہد کے سماجی حالات کو جاننے وسمجھنے کا بھی بڑا ذخیرہ فراہم ہونے میں ہماری خاصی مدد ہو سکتی ہے جو تفہیم مومن اور عہد مومن میں کلیدی اہمیت کی حامل ثابت ہوگی یہی سبب ہے کہ زیادہ تر دانشور اس بات پر متفق الرائے نظر بھی آتے ہیں کہ خطوط مومن کی مدد سے ان کے عہد اور خود ان کی زندگی کے بارے میں قدرے سود مند اور منفعت بخش اطلاعات فراہم کی جا سکتی ہیں میں یہاں صرف ایک دانشور آقائے کبیر احمد جائسی کی رائے کو نقل کر رہی ہوں اس دور اندیش اور ذی فہم دانشور نے مومن خان مومن کی فارسی نثرنویسی کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے عہد غالب کی تاریخ کو جاننے کا ایک اہم اور بڑا ماخذقراردیاہے وہ کہتے ہیں:

مومن کی فارسی نثر نگاری ہمارے عمیق مطالعے کی مستحق ہے یہ مطالعہ صرف مومن کی ادبی کاوشوں ہی کی تفہیم کے لیے مفید ومعاون نہ ہوگا بلکہ عصر غالب کے ادبی رحجان کا عرفان حاصل کرنے کا بھی وسیلہ بنے گا“ 9

جیسا کہ قبلا بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان کے یہاں بعض مواقع پر بہت زیادہ مشکل پسندی کو بروئے کار لایا گیا ہے جس کے سبب عام فہم فارسی داں طبقہ ان سے بھرپور طریقے سے مستفیض نہیںہو سکا ہے انھوں نے اپنی تحریروں میں آیات قرآنی کا خوب استعمال کیاہے اور اتنے سلیقے وقرینے سے ان کو بروئے کا لایا گیاہے کہ ان کی ذہانت کی داد دےے بغیرنہیں رہا جا سکتا حالانکہ بعض دانشوران ادب کا کہنا ہے کہ مومن نے اپنی نثر کو بہت مسجع و مقفیٰ اور عربی آمیز بنا کر یہ ثابت کرنے کی سعی تمام کی ہے کہ فارسی دانی میں ان کا مرتبہ معاصرین میں کسی سے بھی کم تر نہیں ہے جیسا کہ جناب رشید حسن خان نے خطوط مومن میں ان کے علم وفضل کے بے دریغ اظہار کے متعلق اپنی آرا کو قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس مشکل پسندی اور مغلق نویسی کے پیچھے جذبہ وہی کارفرما ہے یعنی فارسی دانی اور انشا پردازی کی نمود... وہ بار بار یہ جتانا چاہتے ہیں کہ طاہر وحیداورظہوری ونعمت خان عالی کے اندازمیں لکھنا تومجھے بھی آتاہے وہ ان خطوط کے واسطے سے اپنی علمیت اور کمال کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں... اس زمانے میں فارسی کے باکمال کی حیثیت سے دہلی کے علمی حلقوں میں جو منزلت مرزا غالب اور مولانا صہبائی کو حاصل تھی وہ ان کے حصے میں نہیں آسکی تھی اس کا شدید احساس ان کی فارسی تحریروں میں نمایاں ہے اپنے آپ کو منوانے کا احساس ان کے یہاں مشکل پسندی اور غرابت پسندی کے عنصر کو بڑھاتارہا“ 10

حکیم مومن خان مومن کے یہ فارسی خطوط صرف ہمارے محققین اور مورخین ہی کے لیے لائق توجہ قرارنہیں دےے جاسکتے ہیںبلکہ دیگر علوم سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے لیے بھی یہ خطوط یکساں اہمیت وافادیت کے حامل ہیں خاص طور پر سماجیات وغیرہ جیسے موضوعات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ خطوط خصوصی غوروفکر کے طالب ہیں آقائے کبیر احمد جائسی مکاتیب مومن کی اہمیت وارزش کے متعلق اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اس سلسلے میں ان تقویموں کے وہ حصے خاص طور سے سماجیات کے طالب علموں کے لیے قابلِ مطالعہ ہیں جن میں مومن نے یہ حکم لگایا ہے کہ اس سال جنسی کج روی کا فلاں طریقہ ترقی کرے گا اور یہ کجروی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی مومن کا کوئی دیباچہ اس طرح کے احکام سے خالی نہیںاس طرح مومن کی فارسی نثر کا مطالعہ صرف ادب کے طالبِ علموں ہی کو نہیں بلکہ تاریخ اور سماجیات کے طالبِ علموں کو بھی دعوتِ نظر دیتا ہے“ 11

مختصر یہ کہا جا سکتاہے کہ خطوط مومن انسانی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں انھوں نے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے گوناگوں پہلوں کو بیان کرنے میں جس انداز بیاں کو اختیار کیا ہے وہ ان کا بے پناہ علمی تبحر ہی ہے انھوں نے اپنے فارسی خطوط میں عبارت آرائی کا خاصااہتمام کیاہے جو بعض اوقات قاری کے ذہن کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے بعض اوقات تو ان کی نثر حد سے زیادہ مسجع ومقفیٰ، پر تصنع وپرتکلف اورمصنوعی حسن کی چہار دیواری میں قید نظرآتی ہے جس میں سادگی وسلاست کا فقدان ہے بایں ہمہ ان کی ادبی، تاریخی اورسماجی اہمیت وارزش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ان کے تمام فارسی خطوط منظر عام پر نہیں آسکے ہیں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے اس سلسلے میں بڑی محنت اور جانفشانی سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کے بعض اہم خطوط کا ہی ترجمہ کر کے منظر عام پر لایا گیاہے اگر ان کے خطوط کی مزید دریافت وتحقیق کی جائے تو بہت ممکن ہے کہ ان کی زندگی کے دیگر پہلو نمایاں ہوکر منظر عام پر آسکیں اوراس کی مدد سے مزید تلاش وتحقیق کے نئے باب وا ہو سکیں۔

مآخذومنابع

  1. سخن شعرا، مولوی عبدالغفور نساخ، چاپ شدہ ازمنشی نولکشور، لکھنو، 1921،ص141
  2. مومن شخصیت اور فن، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، یونین پرنٹنگ پریس،دہلی، 1972، ص31
  3. دیباچہ انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی،جمال پریس دہلی، 1977، ص1
  4.  انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی، ترجمہ از حکیم احسان اللہ خان، جمال پریس دہلی، 1977، ص15
  5. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص24
  6. انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی، ترجمہ از حکیم احسان اللہ خان، جمال پریس دہلی، 1977، ص224
  7. ایضاً، ص45
  8. ایضاً، ص282
  9. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص151
  10. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص46
  11. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص152

 

Dr.Neelofar Hafeez

Assistant Professor (Persian)

Department of Arabic & Persian,

University of Allahabad

Prayagraj- 211002 (UP)

Mob.: 7500984444