31/3/20

مشرقی خاندیش کے موجودہ نثرنگار مضمون نگار: وسیم عقیل شاہ



مشرقی خاندیش کے موجودہ نثرنگار
وسیم عقیل شاہ

اگرچہ اردو میں مشرقی خاندیش (ضلع جلگاؤں) کا ادبی مقام اوسط درجے کا مانا جاتا ہے لیکن یہاں کی ادبی سرگرمیاں شروع سے ادبی حلقوں کو ملک گیر پیمانے پر متاثر کرتی رہی ہیں۔بات بھساول کے تاریخی مشاعروں کی ہو یا جلگاؤں، راویر،یاول اور مارول کی شعری و نثری نشستوں کی یا پھر یہاں سے جاری ہونے والے ’کہکشاں‘  اور ’ساحل‘  جیسے معیاری ادبی رسائل کی۔غرض کہ خاندیش کے ادبا و شعرا نے ہرطور، ہر وسیلے اس علاقے کو ادبی سطح پر اعلی معیار کے ساتھ گامزن رکھا۔ ایک طرف سلطان نقشبندی، اطہر جلگانوی، مجاہد جلگانوی، قمر بھساولی اور ذاکر عثمانی جیسے شعرا نے شاعری کی زمین کو چمن زار کیا تو دوسری طرف تحقیق و تنقید اور صحافت کے حوالے سے ناظر انصاری، اکبر رحمانی،شمس اعجاز،تنویر عالم اور رصابر زاہد جیسے نثاروں نے علم و ادب اور آگہی کے دفتر کھولے۔اسی طرح فکشن کے حوالے سے پی من باسی، سریا بشیر،خورشید نکہت اور رفیق عادل کے علاوہ بھی مزید چند نام برجستہ طور پر ذہن میں آتے ہیں،جن کے فن پارے اچھے موضوعات، مختلف اسالیب، زبان کی ندرت اور معنی و مفہوم کی اثر آفرینی سے مزین ہیں۔ خاندیش کا یہی تخلیقی و تنقیدی اختصاص موجودہ قلمکاروں میں فطری طور پر پایا جاتاہے۔ لیکن خاندیش نے کبھی خود کو نہیں دہرایا۔ یہاں کے قلمکار نے ہر عہد میں نئے امکانات اور نئے اسالیب کے ساتھ قلم کو جنبش دی۔ اس ضمن میں بطور خاص نثر نگاروں نے اپنی قلمی صلاحیتوں کا مظاہرہ انھی خوبیوں سے کیا ہے جن خوبیوں نے ماضی میں اس علاقے کو جہان ادب سے متعارف کرایا تھا۔
یہاں مشرقی خاندیش کے انھی موجودہ نثر نگاروں کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اردو ادب میں شہر عزیز(جلگاؤں) کے قاضی مشتاق کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ موصوف اب پونہ میں سکونت پذیر ہیں تاہم ان کا دل جلگاؤں ہی میں بستا ہے۔آپ کا شمار اردو کے نمایاں ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔ افسانہ،ناول، ڈرامہ، ترجمہ اور تنقید وغیرہ مختلف الاصناف ادب میں آپ کی تقریباً چالیس کتابیں منظر عام پر آ کر مقبول عام کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ تین سو سے زائد افسانے ہندوپاک کے ادبی ر سائل و جرائد کی زینت بنے۔انھوں نے اپنی بیباک کالم نگاری سے بھی قارئین کے دلوں پر راج کیا۔ نیز سفر نامے،شخصی مضامین،خاکے اوربچوں کے لیے تحریر شدہ فن پارے ان کے گراں قدر کارنامے ہیں۔ موصوف کی ادبی خدمات کو دنیا ئے ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا ہے۔ ہندوستان بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری ادبی،سماجی اور فلاحی تنظیموں نے انھیں مختلف باوقارانعامات و اعزازات سے نوازا۔ آج بھی ان کا قلم پوری آب و تاب سے قرطاس ادب پر جلوے بکھیر رہا ہے۔ان کی مشہور کتابوں میں ’صحبت کی خوشبو‘، ’درد کی زباں‘،’ایک دل ارمان بھرا‘ اور ’جس نے یوروپ نہیں دیکھا‘،خاص اہمیت کی حامل ہے۔
جلگاؤں ہی سے فاروق اعظمی کا نام علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔سرزمین علم و ادب اعظم گڑھ سے تعلق ہونے کی بنا پر علمی وادبی ورثہ لے کر جلگاؤں وارد ہوئے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر اہل جلگاؤ ں کو علمی وادبی طور پر سرفراز کیا۔ انھوں نے دینی و عصری علوم اور ادب کے جس باب کو موضوع قلم بنایا اسے اپنی فکر اور دانشمندی سے جاودانی بخشی، جو آئندہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا اور یقینا آج بھی ان کی قلمی کاوشوں سے بے شمار تشنگان علم و ادب سیراب ہورہے ہیں۔ ’نقوش حرم (سفر نامہ حج)‘ اور سوانح پر مبنی ’یادو ں کے چراغ‘ جیسی تصانیف لکھ کر علمی و ادبی دنیا میں تہلکہ مچایا۔ موصوف گزشتہ پچاس برسوں سے فعال ہیں اور عمر کے آخری پڑاؤ پر ہونے کے باوجود آج بھی ان کا قلم دینی،علمی اور ادبی اعتبار سے مسلسل جاری ہے۔حالیہ ان کی کتاب’مسلمانوں کے تعلیمی مسائل‘ کو مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔
دیار غیرمیں رہنے کے باوجود جلگاؤں کا نام روشن کرنے والوں میں محسن جلگانوی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ موصوف عرصہ سے حیدرآباد میں مقیم ہیں اور وہیں سے ارود زبان و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کرنے کے باوجود آپ نثری میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جادو جگاتے رہے۔ یہ انھی کا خاصہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں انصاف کیا ہے۔شاعری کی طرح نثرمیں بھی ان کا قلم خاصا رواں اور اثر انگیز ہے۔ ادب میں ان کا نثری اثاثہ معیاری ادب کے خانے میں رکھا جاتا ہے، خاص طور سے نظمیہ شاعری پر ان کا تحقیقی مقالہ اردو ادب میں ایک نئے باب کو وا کرتا ہے۔
بھساول سے احمد کلیم فیض پوری کانام افسانے کے حوالے سے بے حد اہم ہے بلکہ آپ کی شناخت اردو ادب میں خاندیش کے افسانے کے چہرے سے ہے۔ احمد کلیم فیض پوری کا شمار اردو کے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے پچاس سالہ قلمی سفر میں اردو ادب کو صرف ایک ہی افسانوی مجموعہ دیا۔ ہر چند کہ ان کا تخلیقی عمل ادب کی دوسری اصناف میں بھی جاری ہے لیکن افسانے کے حوالے سے ان کی پہچان زیادہ مستحکم ہے۔ آپ نے جس صنف میں طبع آزمائی کی وہاں اپنی صلاحیتوں کاسکہ جمایاخواہ طنز ومزاح ہو یا منی کہانیاں یا پھر نثری نظمیں، غرض کہ ہر طور انھوں نے خاندیش کی ادبی روایتوں کی پاسداری کی۔ احمد کلیم فیض پوری کا افسانوی مجموعہ’ساگوان کی چھاؤں میں‘ سنہ 2012میں شائع ہوکر خوب دادو تحسین حاصل کر چکا ہے۔
ایف۔ایم۔ پرویز پونہ میں مقیم ہیں اور سردست خاندیش کے سب سے سینئرافسانہ نگار ہیں۔وہ علاقے کے ایسے واحد قلم کار بھی ہیں جن کے تمام تر افسانوی فن پارے شہرہئ آفاق رسالہ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہوئے۔ پرویز صاحب کے طرز و اسلوب میں رومانیت کی فضا قائم ہے تاہم ایک قسم کی فکر بھی متن کی زیریں لہروں میں چلتی ہے اور قاری پر غیر محسوس طریقے سے اپنا کامیاب تاثر چھوڑجاتی ہے۔ان کا افسانوی مجموعہ ’ڈوبتی شام‘ اسباق پبلکیشن پونہ نے شائع کیا تھا اوراسی برس بہاراردو اکیڈمی کے انعام کا حق دار بنا۔
رشید قاسمی خاندیش کے سنجیدہ قلمکار ہیں اور اردو ادب میں معیاری افسانہ نگار کی حیثیت سے مشہور ومقبول ہیں۔ شستہ و دلکش زبان سے سجا ان کا معنویت سے پر اور تہہ دار افسانوی اثاثہ نہ صرف جلگاؤں اور پورے خاندیش کے لیے باعث افتخار ہے بلکہ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بھی ہے۔ اگرچہ انھوں نے کم کم ہی لکھا لیکن کم لکھ کر بھی اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ آج خاندیش کا ادب ان کی تحریروں سے مالامال تصور کیا جاتا ہے۔ ’کمپیوٹر مین‘ اور ’بلڈوزر‘ خاندیش کی جانب سے جدید طرز کی اولین کہانیاں ہیں جسے آپ ہی نے خلق کی تھیں۔ اسی لیے انھیں خاندیش کے جدید طرز کے اولین افسانہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آج بھی ان کاقلم بلا کسی صلے و ستائش کے قرطاس ادب پر جادو بکھیر رہا ہے۔ انھوں نے مقالات ومضامین رقم کرتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا نیز اردو سے مراٹھی اور مراٹھی سے اردو ترجمہ نگاری پر بھی ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ قاضی مشتاق کا مشہور اردوناول ’فٹ پاتھ کی رانی‘ کا مراٹھی ترجمہ کرنے کے ساتھ ہی انھوں نے درجنوں صحافتی مضامین کا اردو سے مراٹھی اور مراٹھی سے اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔موصوف کو مہاراشٹر ساہتیہ اکادمی نے سنہ 2012 کا صحافتی ایوارڈ تفویض کیا تھا۔
 بھساول سے تعلق رکھنے والے بزرگ ادیب رشید عباس کا طنز ومزاح میں خاندیش کی سطح پر کوئی ثانی نہیں ہے۔موصوف بہت کم لکھتے ہیں مگر جو بھی لکھتے ہیں وہ دنیائے ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے تخلیقی اظہاریے میں کاٹ دار لہجے کے ساتھ معاشرے کی کج روی پر طنز کے ساتھ گد گدانے کا سامان بھی بڑے پیمانے پر برآمد ہوا ہے۔ قیوم رازمارولوی یاول تحصیل کے ادبی دیہات مارول سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا شمار خاندیش کے استاد شعرا میں سر فہرست ہے۔شاعری سے غیر معمولی واقفیت کے ساتھ ہی مبادیات نثر اور اس کی سلیقہ مندی کے بھی علیم ہیں۔ ان کے تبصرے،تاثرات اور تقریظ کے نمونے ہندوستان بھر کے شعرا کے مجموعوں پر بطور سند ثبت ہیں۔آپ کی تنقیدی بصیرت موجودہ شاعری کے حوالے سے اہم مانی جاتی ہے۔
اردو میں خاندیش کی ادبی ترجمانی کرنے والوں میں جلگاؤں کے معین الدین عثمانی کو خاص مقام حاصل ہے۔ ہر مہینے دو مہینے میں ملک و بیرون کے متعدد ادبی رسالوں اور مجلوں میں معین الدین عثمانی کے مضامین یا تخلیقات پڑھ کر یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ فی العصر ادبی حوالے سے آپ خطہ خاندیش کی عمدہ نمائندگی کر رہے ہیں۔ موصوف بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں،ترجمہ سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ادھر دو تین برسوں میں ان کے قلم سے درجن بھر سے زائد تبصرے، تجزیے اور شخصی و تنقیدی مضامین بر آمد ہوئے ہیں۔ ’نجات‘، ’متحرک منظر کی فریم‘ وغیرہ آپ کی اہم تصانیف مانی جاتی ہیں۔ معین الدین عثمانی کا شمار خاندیش کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھیں مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی نے اعزاز سے نوازا ہے۔ صغیر احمدسر جلگاؤں سے ہیں اور خاندیش کے صاحب علم اور خوب سلجھے ہوئے قلمکار ہیں۔ موصوف کی فکر اور حساسیت صنف افسانہ کے توسط سے ادبی حلقوں میں گزشتہ تین دہوں سے آشکار ہوتی رہی ہے۔ ان کے حیطہ اظہار میں اصلاحی و سماجی موضوعات بے حد اہم ہیں تو نفسیاتی سطح پر انھوں نے اپنی افسانوی دنیا کو طرح طرح کے رنگوں سے سجایا ہے۔ صغیر سر نے کم لکھا ہے لیکن بر وقت اور بر محل لکھا ہے۔
شاہد لطیف کاتعلق مشاعروں کی سرزمین بھساول سے ہے لیکن ان کی زندگی کے ادبی شب وروز ممبئی میں گزر رہے ہیں۔ ادب میں ان کی شناخت ایک معیاری شاعر کی ہے جبکہ اردو صحافت میں شاہد لطیف کی شخصیت سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ مشہو ر روزنامہ اخبار ’انقلاب‘ کے مدیراعلی ہیں۔انقلاب میں روزانہ شائع ہورہے آپ کے اداریوں کو بلا مبالغہ اخبار کی روح کہا جاسکتا ہے۔اردوادب پڑھنے لکھنے والوں میں مشہور علمی،سماجی و سیاسی شخصیت ڈاکٹر عبدالکریم سالار کا نام نیا نہیں ہے البتہ ان کی گرانقدر تالیف ''خاندیش کے بے لوث سپاہی'' ان دنوں ان کی ادبی شہرت کا سبب ہے۔ تاہم انھوں نے بھی نثری میدان میں اپنے قلمی جوہر دکھائے ہیں،ان کے تحریر کردہ تعلیمی مضامین اخبارات میں شائع ہوکر مقبول ہو چکے ہیں۔ متذکرہ تالیف جو مرحوم اکبر رحمانی کی ’خاندیش کی ادبی تاریخ‘کے بعد کئی حوالوں سے سب سے زیادہ اہم اور مستند گردانی جا رہی ہے۔
میر ساجد علی قادری،جلگاؤں سے ایک کہنہ مشق قلمکار ہیں وہ فی الوقت ممبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ سوانحی کتاب’متاع سفر‘ان کی اہم تصنیف ہے۔ اسی طرح عزیز رحیمی بھی عرصہ دراز سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار خاندیش کے ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کے افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔’رات کا آخری پہر‘  عزیز رحیمی کا افسانوی مجموعہ ہے جو سنہ 2015 میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح جلگاؤں سے قیوم اثر میدان علم وادب کے بے لوث قلمکار ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے تو کیا تھا لیکن جلد ہی اپنے قلم کو موڑ کر افسانہ نگاری کے حوالے کر دیااور اپنے تخیل اور فنی چابکدستی سے خاندیش کے لازوال تخلیق پاروں میں قابل قدر اضافہ کیا۔افسانچہ نگاری میں ان کی کاوشیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
عبدالرؤف شیخ یاول سے علمی و ادبی سطح پر سرگرم ر ہنے والوں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔آپ نے اپنی واحد کتاب ’اجالے اپنی یادوں کے‘ لکھ کر نثر لکھنے والوں میں اپنا مقام محفوظ کر لیا ہے۔یاول سے ایک اور اہم نام ایم رفیق کا ہے جو علاقہ خاندیش کے خاص قلمکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے قلمی اظہار میں نثری اصناف خاص طور سے شامل ہیں۔ ان کی کئی تصنیفات اور تالیفات شائع ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔افسانے کے حوالے سے ان کی ہرطرح کی کاوشیں قابل قدر ہیں، خاص کر موصوف کی تازہ تالیف’خاندیش کے افسانہ نگار‘ دستاویزی اہمیت رکھتی ہے۔ا ن کی مزید مشہور کتابیں ’تذ کرہ شعرائے خاندیش‘ اور ’ذہنی آزمائش‘ بھی اہم اور علمی و ادبی ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ راغب بیاولی خاندیش کے بلکہ مہاراشٹر کے نمائندہ شاعر ہیں۔ شاعری کی طرح ان کے قلم سے نثر پارے بھی پوری ستھرائی سے ظاہر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کم و بیش پچاس افسانچے لکھ کر خود کو کہانی کاروں کی صف میں شمار کروایا ہے۔اسی طرح رفیق احمد نے حکایات شیخ سعدی کے ذریعے نثری ادب میں اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ مالیگاؤں کے جاوید انصاری فی الوقت جلگاؤں آکاشوانی میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ شاعری کی طرح نثری ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں اور تحریری طور پر فعال رہتے ہیں۔انھوں نے درجنوں علمی و ادبی مضامین لکھے۔ خاص طور سے شگفتہ تحریروں سے سجے ان کے شخصی و تنقیدی مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
فیض پور سے سلیم خان خاندیش کے جانے مانے افسانہ نگار ہیں۔موصوف اپنے تخیل کے سلجھے ہوئے خطوط قرطاس پر اتارنے کا فن احسن طریقے سے جانتے ہیں، وہ عرصے سے اس صنف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ بچوں کے ادب پر ان کی تحریریں لازوال ہیں۔ ’نیم چندن اور کوئل‘ بچوں کی کہانیوں کا مقبول عام مجموعہ ہے تو ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’لہو لہو منظر‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے اور فی الحال اردو حلقے میں خوب خوب بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ہی راویر سے سید شیر افگن، عبدالقدیر عشرت،نصرت راویری تو یاول سے شکیل احمد، خلیق  بسمہ اللہ وغیرہ قلمکار بھی میانہ روی سے لکھ رہے ہیں البتہ کسی زمانے میں ان کی قلمی طبیعت میں تیزی و شور انگیزی رہی ہے۔ بہر کیف جو بھی تحریریں ان صاحبان کی منظر عام پر آئیں و ہ قا بل قدر ہیں۔ شکیل سعید کی کتاب ’ادھوری نظم‘ کا ذکر یہاں ضروری ہے جس کے بعد اس قبیل کے قلمکاروں سے مزید امکانات روشن ہوتے ہیں۔ شکیل انجم نے بھی اردو نثر میں اپنی بساط بھر طبع آزمائی کی۔اس کے علاوہ سید لیاقت،صالحہ قادری،صبیحہ قادری،شیخ غفار،لیلی خالد، عارف شیخ،ساحر فاروقی بھی قلمی طو ر پر اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں نیز اب بھی نثری حوالوں سے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
خاندیش کے ادبی خطے یاول سے رحیم رضا کا نام خاندیش کے صاف گو قلمکاروں میں لیا جاتا ہے۔ رحیم رضا گزشتہ تین دہوں سے اردو ادب میں پوری کامیابی سے طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں۔ افسانوی رنگ ان کے قلم کی ندرت ہے، بچوں کے ادب پر بھی ان کی نظر گہری اورگرفت مضبوط ہے۔ان کے نثری تخلیقی مجموعوں کی مجموعی تعدادپانچ ہے جن میں افسانوی مجموعہ ’رنجش ہی سہی‘ نے ان کو استحکام بخشا۔ ان کی ایک اہم تالیف جو حالیہ منظر عام پر آئی’افسانے کی تلاش میں‘ہے جسے حلقہ ادب میں خوب خوب سراہا جا رہا ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کی کتاب’سواری بادل کی‘پر انھیں مہاراشٹرساہیتہ اکیڈمی نے ا نعام سے سرفراز کیا ہے۔ مشتاق کریمی صحافی کی حیثیت سے پورے مہاراشٹر میں شہرت رکھتے ہیں، وہ ایک طرح سے جلگاؤں کی صحافتی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مگر انھوں نے مختصر افسانہ نگاری کا دامن بھی ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں دیا۔ وہ خاص طو ر سے منی افسانے تواتر لکھ رہے ہیں۔ موصوف نے بچوں کے ادب میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ ’اپنی مٹی‘ بچوں کے لیے لکھی گئیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کے دو ایڈشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کو مہاراشٹرا ردو ساہتیہ اکیڈمی نے انعام تفویض کیا۔ ’بتائے نہ بنے‘ مشتاق کریمی کے صحافتی و اصلاحی مضامین کا مجموعہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔سید ذاکر حسین ایرنڈول سے اپنا قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افسانوی طرز ان کے خانوادے کا اختصاص ہے اس لیے صنف افسانہ میں تندی سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ تقریباً پینتیس برسوں سے سرگرم ہیں اور تواتر سے معروف ادبی رسائل میں شائع ہورہے ہیں۔ ’راستے بند ہیں‘ ان کا فسانوی مجموعہ سنہ2013  میں شائع ہوا تھا جسے ادبی گلیاروں میں خاصا سراہاگیا۔ جلگاؤں سے مزید ایک نام وحید امام سر کا ہے۔ وحید امام سر گزشتہ تیس پینتیس برسوں سے ادب میں سرگرم ہیں۔انھوں نے بچوں کے لیے خوب لکھا مگر بنیادی طور پر وہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں پر مشتمل کتاب’لخت لخت زندگی‘  کے عنوان سے شائع ہوئی اور داد و تحسین کی مستحق قرار پائی۔اسی طرح بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کی کتاب ’معصوم احتجاج‘ نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
اسی طرح سے مزید کچھ نام جو اردو ادب و صحافت میں نثر نگارکی حیثیت سے فعال ہیں،ان میں جلگاؤں سے آفاق ا نجم نے مقالہ نگاری پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ گاہے گاہے ان کے مضامین مختلف سمینار وں اور رسالوں میں سننے پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔شفیق ناظم شاعری  کے حوالے سے شہر جلگاؤں اور خاندیش کا  نمائندہ نام ہے اور افسانہ نگاری میں بھی ان کی شناخت بہت پہلے ہی قائم ہوچکی ہے،آپ نے کئی سارے یادگار افسانے خلق کیے۔ شاہ ایازکا تعلق بنیادی طور پر انشائیہ نگاری سے ہے، انھوں نے اچھے انشائیوں کے علاوہ اچھی کہانیاں بھی لکھیں۔ صحافت کے میدان میں جلگاؤں سے انجم رضوی کا بے باک قلم اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف  اپنی قلمی ابتدا ہی سے سماجی مسائل کے ساتھ علمی موضوعات پر بھی قلم طراز رہے نیز افسانہ نگاری میں بھی اپنے کاٹ دار قلم کے جوہر دکھائے۔سعید پٹیل بھی جلگاؤں سے متعلق ہیں اور سینئر صحافیوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سنجیدہ اد ب کے اچھے قاری ہونے کے ساتھ ہی موصوف اچھے قلمکار بھی ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری اور بطور خاص افسانچہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ عقیل خان بیاولی ایک عرصے سے صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں،اسی طرح ادبی حوالوں سے بھی ان کے قلم میں کسی طرح جنبش رہی ہے۔ انھیں بھی شہر جلگاؤں کے سینئر لکھنے والوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ سہیل رحمانی نثری ادب میں اپنی لازوال وراثت کے امین ہیں لیکن انھوں نے بہت کم لکھا ہے تا ہم جو لکھا ہے اچھا ہی لکھا ہے۔ عارف خان تدریسی میدان کے سرکردہ سپاہی ہیں، مختلف درسی مضامین کے علاوہ اصلاحی،مذہبی اور سماجی موضوعات پر ان کی تقریباً 30 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ’قرآن اور سائنس‘، ’مسلم سائنسدانوں کے کارنامے‘، ’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘  جلگاؤں سے عارف خان کی مشہور کتابیں ہیں۔شیخ احمد حسین جلگاؤں کے ماہر اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ انگریزی کے استاد ہیں لیکن اردو نثر نگاری میں انھوں نے اپنی خداد صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سید احمد حسین نے درجنوں مذہبی، اصلاحی اور تعلیمی مضامین لکھے۔’دعوت‘ جیسے صحافتی ترجمان میں شائع ہونے کا شرف انھیں بھی حاصل ہے۔ بھساول سے ایک نام حاجی انصار کا بھی ہے وہ رسالہ تزئین ادب کے اعزازی مدیر ہیں اور ان کا بھی قلمی سفر کسی طور جاری ہے۔ نوجوانوں کی جانب سے سجاد حیدر عمدہ نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی خاص تنقیدی بصیرت اور شگفتہ تحریروں کے لیے جانے جا تے ہیں اور معیاری رسائل میں مسلسل چھپ کر وطن عزیز جلگاؤں کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ارتکاز صابر نے مغل شہنشاہ شاہجہاں کو موضوع بناکر ایک دلچسپ کتاب ترتیب دے کر اپنے ادبی ورثے کی پاسداری کی لیکن خاندیش کو ان سے مزید توقعات ہیں۔ 
 اس کے علاوہ مشرقی خاندیش کے موجودہ نثر نگاروں میں زبیر علی تابش، سرفراز خان، ڈاکٹر انیس خان، زیان شیخ، شرجیل، صدام اشرف، ایم صدام، عروج فاروقی، ساجد مرزا، اسید گلاب، شاہ سروش اور راقم الحروف کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔جو کسی طور نثری اصناف میں مشق کر رہے ہیں اور چند ایک گاہے گاہے اردو رسائل و اخبارات میں شائع ہو تے ہیں۔کچھ مہینوں سے زیان شیخ کی تحریک پر قلمدان فاؤنڈیشن کے ممبران نے ماہانہ نثری محفلیں سجانا شروع کی ہیں، جن میں ہر ماہ مشترکہ طور پر طے شدہ عنوان کے تحت قلمی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان نثری محفلوں میں حصہ لینے والے نئے قلم کاروں کی تعداد دس کے قریب ہے۔

Wasim Aqueel Shah
15 Shahkar, Salar Nagar
Jalgaon - 425001 (MS)



ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020

30/3/20

2019 کا فکشن: ایک جائزہ مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری


2019 کا فکشن: ایک جائزہ

اسلم جمشیدپوری
ادبی تاریخ کا ایک ورق (2019) اور تبدیل ہوا۔ 365 حروف والا ورق اب ماضی کا حصّہ بن چکا ہے۔ یہ سلسلہ روز ازل سے جاری ہے۔ لمحات، مہ وسال میں اور پھر برس صدیوں میں تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ زمانہ اسی طرح بیکراں سمندر بنتا رہتا ہے۔ گذرتے وقت میں یاد گار لمحات، روشن ذروں کی طرح اپنی موجودگی درج کراتے رہتے ہیں۔ 2020  کا استقبال ہے۔ کبھی گذشتہ برس بھی نیا تھا، آج ماضی کے سمندر میں ضم ہو چکا ہے۔ ادب کے وسیع وعریض اور عمیق سمندر میں 2019 کے نشانات کا پتہ لگاتے ہیں۔ یہ2019 کے فکشن یعنی افسانہ، ناول اورفکشن پر تحریر کردہ تنقید کے علاوہ فکشن کے میدان میں ہونے والی سرگرمیوں کا ایک عالمی جائزہ پیش کرنے کی کوشش ہے۔

2019 میں اردو افسانہ
2019 میں افسانے کا سفر پورے طمطراق کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ متعدد افسانہ نگاروں کے نئے مجموعے منظر عام پر آئے۔ پرانے افسانہ نگاروں کے مجموعے بھی شائع ہوئے۔ مجموعوں کے دوسرے ایڈیشن بھی سامنے آئے۔ فکرت(بشیر مالیر کوٹلوی)،کوچہئ قاتل کی طرف (شموئل احمد)، مور کے پاؤں (کہکشاں پروین)، جب چیخا اندر کا منظر(سیف الرحمان عباد)، خوابوں کا قیدی (عشرت ظہیر)، کیاحال ہے جاناں اور قبر میں زندہ آدمی (مشتاق احمدوانی)، سہ شب کاقصہ (ناصر راہی) گریز پا(لالی چودھری) کیابدن میرا تھا (صبا ممتاز بانو)، وصل میں مرگِ آرزو(رخشندہ کوکب)، چھتری نما کہانیاں (شعیب خالق) خوابوں کے بند دروازے (امین الدین بھایانی) اک چپ، سودکھ (آدم شیر)  شیر کا احساس (اویناش امن) مجسموں کا شہر (محمد حنیف خان)، میں (خالد فتح محمد) مجمعے کی دوسری عورت (بشریٰ اقبال ملک)، کتبوں کے درمیان (حمیرا اشفاق) یوسف جمال (اور پتھر ٹوٹ گیا)، غیاث اکمل (بیاباں سے پہلے)، جاوید نہال حشمی (کلائڈوسکوپ) ماں (محمد مجیب احمد) اباجان (رونق جمال) سرگذشت (عبدالقاسم علی محمد) وغیرہ نے سال بھر ایوانِ افسانہ میں ہنگامہ بپا رکھا۔ کچھ افسانوی مجموعوں کا جائزہ حاضر ہے۔
معروف فکشن نگار شموئل احمد کا تازہ افسانوی مجموعہ ’کوچہئ قاتل کی طرف‘ کی اشاعت نے فکشن شائقین میں ہلچل مچا نے کا کام کیا ہے۔ دراصل شموئل احمد کسی نہ کسی تحریر سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ لنگی کا شور جب تھمنے لگاتو ’کوچہ ئ قاتل کی طرف‘ عصری مسائل پر بے باکانہ تخلیقی اظہارلیے حاضر ہیں۔ مجموعے میں 11 افسانے اور ان کا نیا ناولٹ ’چمراسر‘ شامل ہے۔ (جسے بعد میں الگ کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے)۔
بشیر مالیر کوٹلوی اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ ان کے افسانے نہ  صرف موضوع اور زبان کے اعتبار سے اپنے معاصرین میں مختلف ہوتے ہیں بلکہ وہ افسانے کے فن پر بھی زبر دست دسترس رکھتے ہیں۔ چار دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے سے افسانے کی زلفیں سنوار رہے ہیں۔ گذشتہ برس ایک ناول ’جسّی‘ کے ذریعے ادبی حلقوں میں دھوم مچا چکے ہیں۔ اس سال ان کا تازہ مجموعہ ’فکرت‘ عرشیہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا ہے۔ اس سے قبل ان کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
فکرت‘ میں ان کے 18 افسانے اور 12 افسانچے شامل ہیں۔ ان کے افسانوں اور افسانچوں میں عصری حسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ یوں بھی وہ تازہ ترین واقعات کو عمدگی سے افسانے کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مجموعے کے کئی افسانے فکرت، مجبور، خطا وار، آسیب، تائی لاجونتی، حویلی والا، بامشقت، واویلا، جھوٹا سچ، انفردیت کے حامل ہیں۔ اس مجموعے میں ایک ڈراما ’ایک لڑکی پاگل سی‘ بھی شامل ہے۔ ان کے کئی افسانچے جنت مکیں، پہچان، نوازش، جاں کنی، مشورہ،بھی بہت اہم ہیں۔
عشرت ظہیر کا شمار جدید افسانے کے عہد کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔لیکن عشرت ظہیر نے خود کو پورے طور پر جدید ہونے سے بچایا بھی اور افسانے میں جدت کو روا بھی رکھا۔ ’خوابوں کا قیدی‘ ان کا تازہ مجموعہ ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا ہے۔ اس سے قبل ان کے کئی مجموعے ’اُبھر تی ڈوبتی لہریں‘، ’خوشبوؤں کا جال‘ وغیرہ شائع ہو چکے ہیں۔
عشرت ظہیر کے افسانے گہری فکر اور فلسفے کو عمدگی سے لفظوں کا پیراہن عطا کرتے ہیں۔  ’خوابوں کا قیدی‘ ان کابھر پورا فسانہ ہے۔ افسانے میں تجسس و تحیر کی فضا کثیف ہوتے ہوتے خواب ناک ہو جاتی ہے، لیکن دراصل یہ حقیقت کا ایک پرتو ہے جو قاری کے ذہن پر خواب جیسی کیفیت طاری کرتا ہے۔ پورا افسانہ خواب، سنہرے خوابوں کو سچ کرنے کی تگ و دو میں زندگی سے آنکھیں چار کرنے کی کہانی ہے۔
 معروف افسانہ نگار سیف الراحمن عباد کا پانچواں مجموعہ ’جب چیخا اندر کا منظر‘ شائع ہو کر مقبول ہوا۔ تقریباً 20-25 برس قبل ایک ایسا زمانہ تھا جب اُردو کے ادبی رسائل میں سیف الرحمن عباد کے افسانے تو اتر کے ساتھ شائع ہوا کرتے تھے۔ پھر ایک زمانہ ایسا آیا جب سیف الرحمن عباد نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ بہت دنوں بعد ان کا تازہ مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔
سیف الرحمن عباد کے افسانے ہمارے آس پاس کے واقعات و حادثات کا فنکارانہ بیان ہوتے ہیں۔ عصری حسیت، ان کے افسانوں کا خاص وصف ہے۔ زندگی کی معنویت اورفلسفہ بیان کرتے ہوئے وہ ہنر مندی سے افسانے تخلیق کرتے ہیں۔
مجموعے میں ایک درجن افسانے شامل ہیں جب چیخا اندر کا منظر، دو ہاتھ پال کے، بٹ گئی جب زمین، خود پہ ہی ٹوٹا طلب کا آسمان، رات ڈھلی شبنم روئی، مجموعے کے اہم افسانے ہیں۔ شیطان کون، ایک افسانچہ بھی مجموعے کی زینت ہے۔
مور کے پاؤں‘  جھارکھنڈ کی معروف افسانہ نگار ڈاکٹر کہکشاں پروین کا تازہ مجموعہ ہے۔ اس سے قبل اُن کے چار افسانوی مجموعے ’ایک مٹھی دھوپ‘ دھوپ کا سفر، سرخ لکیریں اور ’پانی کا چاند‘شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں میں جھارکھنڈ کے مسائل خصوصاً خواتین کے مسائل کی گونج صاف سنا ئی دیتی ہے۔ مور کے پاؤں، میں ان کے 31 افسانے شامل ہیں۔
کہکشاں پروین کا یہ مجموعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے عمدہ کا غذ اور کور پیج کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ مجموعے کے کئی افسانے ایک مٹھی دھوپ، دھوپ کا سفر، آسمان کا چاند، دائرہ، اڑان، کھیل کھیل میں، ٹھنڈی چائے، دھوپ چھاؤں،بہت اچھے ہیں۔
جڑوں کی تلاش‘ جموں وکشمیر کے مقبول فکشن نگار، دیپک بدکی کے افسانوں کاتازہ مجموعہ ہے۔ دیپک بدکی نئے افسانے کاایک منفرد نام ہے۔کشمیر کے حالات، زمین سے جڑاؤ اور فن پر دسترس سے ان کے افسانوں میں  ایک خاص کشش پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی مکالموں اور بیانیہ میں مقامی رنگ کی موجودگی، انھیں دوسروں سے الگ کرتی ہے۔ادھورے چہرے، زیبرا کراسنگ، اب میں وہاں نہیں رہتا، جیسے افسانوی مجموعے ان کی شناخت ہیں۔  ’جڑوں کی تلاش‘ میں ان کے بیس افسانے اور ایک ڈرامہ ’روح کے زخم  بھی شامل ہے۔ ’جڑوں کی تلاش‘ ہجرت کا افسانہ ہے۔اپنی زمین میں اپنی جڑوں کی تلاش کا افسانہ ہے۔افسانے میں زندگی کا ایک ایسا دردہے جو ہر لمحے انسا ن کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمدوانی کا تازہ افسانوی مجموعہ ’کیا حال ہے جاناں‘ ابھی شائع ہوا ہے۔ یہ ان کا پانچواں افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے چار افسانوی مجموعے ہزاروں غم 2001، میٹھازہر  2008، اندر کی باتیں  2015، قبر میں زندہ آدمی 2019 شائع ہو چکے ہیں۔ مشتاق احمد وانی کے افسانوں کا مجموعی وصف کشمیری عوام کے  مسائل، ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی عکاسی ہے۔ تانیثیت کے حوالے سے بھی ان کے کئی افسانے منظر عام پر آچکے ہیں۔مجموعہ ہٰذا کا ٹائٹل افسانہ بھی خواتین کے مسائل کے پیشِ نظررلکھا گیا ہے۔ افسانے میں زندگی کے فلسفے کا بیان ہے تو میاں بیوی کے درمیان اولاد نرینہ کو لے کر پیدا ہونے والی پیچید گی بھی موجود ہے۔
ایجوکیشنل پبلشنگ  ہاؤس سے مطبوعہ اس مجموعے میں کئی افسانے سماج، غشی، ڈراؤنی آوازیں،، انو کھا رشتہ، ریٹ لسٹ، وغیرہ اچھے افسانے ہیں۔
جموں وکشمیر کے نوجوان افسانہ نگار ڈاکٹر ریاض توحیدی کے دو افسانوی مجموعے ’کالے پیڑوں کا جنگل‘ اور ’کالے دیووں کا سایہ‘ ایک ساتھ ایک ہی جلد میں شائع ہوئے۔ یہ ان دونوں مجموعوں کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 2019 میں میزان پبلشرز، سری نگر سے شائع ہوا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ ریاض توحیدی نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے زیادہ تر افسانوں میں کشمیری عوام کی دردناک زندگی، تشدد، افواج کے ظلم و ستم اور بے بس و مجبور افراد کے قصے ملتے ہیں۔ ان کے یہاں علامتیں اور تشبیہات و استعارات کا بھی ایک نظام ملتا ہے۔
ریاض توحیدی کی اس کتاب میں دیگر کئی افسانے توجہ کے مستحق ہیں۔ مثلاًنا کہ بندی،نشیب و فراز، قتل، قاتل اور مقتول، ڈپریشن، ہائی جیک، بہشت کی پکار، جنازے، دوشالہ، گلہ قصائی، کالے دیووں کا سایہ، خوف وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن کے عنوانات ہی ایک پس منظر پیش کرتے ہیں۔ کتاب میں تقریباً 39 افسانے شامل اشاعت ہیں۔
سہ شب کا قصہ‘جمشید پور سے تعلق رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار ناصر راہی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ ناصر راہی 1980 کے بعد اُبھرنے والی نسل کے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ کافی زمانے سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ شاعر بھی ہیں، اس لیے پہلے نظموں کا مجموعہ 2006 میں لائے، بعد میں افسانوں کویکجا کیا۔
ناصر راہی کے افسانوں میں جدیدیت کا رنگ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں میں متعدد تہیں ہوتی ہیں۔ تجسس اور تحیر سے بھر پور افسانوں کا ایک خاص وصف ان کی زبان ہے۔
کتاب دار، ممبئی سے شائع ہونے والا مجموعہ ’سہ شب کا قصہ‘ بشمول سرورق، بہت دیدہ زیب ہے۔ مجموعے میں کل 13 افسانے شامل ہیں، ٹائٹل افسانہ ’سہ شب کا قصہ‘ اہم افسانہ ہے جس میں ناصرراہی نے جنسی لذت کی شکار بہو کی اندھیروں کی حرکات و سکنات کے دھندلے مناظر اور سر گوشیوں سے پیچ و تاب کھانے والے سسر کی نفسیات کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مجموعے کے کئی افسانے مرد ِ خدا، بلی لوٹن، القصہ، رات کا آخری پہر، چھومنتر، آدمی نامہ ایسے افسانے ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہیے۔
گریز پا‘ یو ایس اے کی معروف افسانہ نگار، سفر نامہ نگارلالی چودھری کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جسے موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا ہے۔لالی چودھری کا یہ دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’حد چاہیے سزا میں‘ ہندو پاک میں خاصامقبول ہوا۔ ان کے مختلف سفر نامے بھی افسانوی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ جو ’لالی چودھری کے سفر نامے‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رفیعہ سلیم نے مرتب کیے ہیں۔
لالی چودھری کے افسانے بھی ان کے سفرناموں کی طرح بہت مختلف و منفرد ہیں۔ وہ اپنے محصوص لب و لہجے میں کہانیاں بیاں کرتی ہیں۔ ان کے موضوعات عصمت چغتائی کی طرح متوسط طبقے کی زندگی کے مسائل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ، یورپ وغیرہ میں ہندو پاک کے مہاجرین کی زندگی کو بھی خصوصیت کے ساتھ موضوع بناتی ہیں۔ یہی نہیں ان کی زبان بھی عصمت چغتائی کی طرح بیگماتی زبان کی یاد دلاتی ہے۔
گریزپا‘ میں ایک درجن افسانے شامل اِشاعت ہیں۔ ہر افسانہ موضوع، ٹریٹمنٹ اور اسلوب کے اعتبار سے الگ نوعیت کا ہے۔ کئی افسانے خاصا متاثر کرتے ہیں۔ گریزپا، تھینک گڈنیس، کھٹ مٹھا رشتہ، پابہ زنجیر، کوگر، بدلت مراسم وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو دیار غیر میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ تھینک گڈنیس او ر کھٹ مٹھا رشتہ پڑھ کر آپ عصمت چغتائی کو یاد کریں گے۔ کھٹ مٹھا رشتہ میں، ٹیڑھی لکیر، کی طرح گرلز ہاسٹل کے رومان، کزنس کی شوخیاں اور بے تکلف زبان کا استعمال ملتا ہے۔
مجسموں کا شہر‘ نودارد افسانہ نگار محمد حنیف خان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ انھوں نے موجودہ صدی کی دوسری دہائی سے ہی افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ محمد حنیف خان کے بیانیہ کا کمال ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف باندھ لیتا ہے بلکہ اپنے ہمراہ لیے چلتا ہے۔ ان کی متعدد کہانیوں میں قصّے کا طلسم، اساطیر اور حیرت انگیزی ملتی ہے۔ ان کو زبان پر دسترس ہے اور واقعہ بیان کرنا بھی جانتے ہیں۔ ’مجسموں کا شہر‘ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا ہے، جس میں کل 17 افسانے شامل ہیں۔ نمائندہ افسانوں میں منگل مکھی،کوڑے والی، کھنڈر سے آتی آوازیں، مجسموں کا شہر، دوسمتوں کے مسافر، گل رخ اور مارزنداں کا شمار ضرور ہونا چاہیے۔ ان میں سے کئی ایک میں کردار نگاری بھی عمدہ ہے۔
 اڑیسہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، افسانہ نگار یوسف جمال کا پہلا افسانوی مجموعہ ’اورپتھر ٹوٹ گیا‘، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا ہے۔ مجموعے میں کل تیس افسانے بشمول افسانچے شامل ہیں۔ان میں ابتدائی 12 افسانے یوسف جمال کے اپنے طبع زاد ہیں اور دو افسانچے بھی، بقیہ افسانے اور افسانچے ترجمہ شدہ ہیں۔ جنھیں یوسف جمال نے عالمی زبانوں اور ہندوستان کی مقامی زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ہے انھوں نے  انگریزی سے یا ہندی کے توسط سے یہ ترجمے کیے ہیں۔
یوسف جمال خود پرانے افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے  اپنے ادبی سفر کا آغاز 1964 میں کیا تھا۔ متعدد ناول اور بے شمار افسانے تحریر کیے، لیکن مجموعے کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب ان کے افسانوں کے انتخاب کا ایک مجموعہ ’اور پتھر ٹوٹ گیا‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
دسترس پبلی کیشنز دھنباد سے معروف افسانہ نگار غیاث اکمل کا دوسرا مجموعہ ’بیایاں سے پہلے‘ شائع ہوا ہے۔ غیاث اکمل ہمارے سینئر افسانہ نگار ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ 2015 میں ’ڈھلان پر رکے ہوئے لوگ‘ منظر عام پر آچکا ہے۔ غیاث اکمل، فائرایریا والے الیاس احمد گدی کے علاقے جھریا کے رہنے والے ہیں۔ الیاس احمد گدی کے ناول کی طرح غیاث اکمل کے افسانوں میں بھی کوئلہ کانوں کے سماجی اور معاشی مسائل، مزدوروں کی زندگی اور انتہائی پسماندہ افراد کی آواز کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ اس مجموعے میں ان کے تقریباً 17 افسانے شامل ہیں۔ ان میں سے زبادہ تر افسانوں میں کولیری انتظامیہ کی سیاست، ایجنٹ حضرات کی تگڑم، مزدوروں کا استحصال، زہریلی گیس کا رساؤ اوردم توڑتے انسان جا بہ جا نظر آتے ہیں۔
مجموعے کے کئی افسانے اہم ہیں۔ خصوصاً وہ ایک سیاہ لمحہ، خوف، رام اوتار، احساس کی صلیب، قصّہ تمام، دردِ لا دوا، وِش پان، حنوط شدہ سچ، ایسے افسانے ہیں جو خود کو پڑھوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
کلائیڈوسکوپ‘ مغربی بنگال کے معروف نوجون افسانہ نگار جاوید نہال حشمی کے افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ جسے انھوں نے خود شائع کیا ہے۔ آج افسانچہ نگاری اپنے زریں دور سے گذر رہی ہے۔ جاوید نہال حشمی نئی نسل کے ایسے فن کار ہیں جنھوں نے عمدہ افسانے قلم بند کیے ہیں تو افسانچوں میں بھی روح پھونک دی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے فن پاروں میں بڑے بڑے مسائل، سلگتے ہوئے عصری معاملات، سماجی تانے بانے کا بکھراؤ، رشتوں کے تقدس کی پامالی، حب الوطنی، دہشت گردی، فرقہ پرستی، جیسے موضوعات کامیابی سے پروئے گئے ہیں۔
یوں تو مجموعے کا ہرافسانچہ کسی نہ کسی زاویے سے اہم ہے لیکن 82 افسانچوں میں مجھے چند افسانچے بہت اچھے لگے۔ جن میں نوبیف، کالا دھن، سرابوں کے قیدی، آگ، اس پار، فرقہ پرست، مارکیٹ ویلو، عکس، محافظ، غدار دیش بھگت، کچلی ہوئی زندگی، چراغ تلے، گھڑی کی چین، شفٹ ڈیلیٹ، بے جوڑ، کلائیڈوسکوپ،اجازت نامہ، ننگی تصویر، آہٹ وغیرہ اچھے افسانچوں کے زمرے میں رکھے جاسکتے ہیں۔
ماں‘ محمد مجیب کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے جسے مجیب پبلیکشنز، حیدرآباد نے شائع کیا ہے۔اس سے قبل محمد مجیب کے کئی افسانوی مجموعے ’ممبئی حملوں کے مظلومین‘ 2012، دل سے 2014، ہم ہندوستانی 2015، میرے دکھ کی دوا کرے کوئی2017، کوئی چارہ ساز ہوتا 2018، محبت زندگی ہے2018 میں شائع ہو چکے ہیں۔ ’ماں‘ مجموعہ ایک معنی میں بہت انوکھا اور منفرد ہے کہ اس میں محمدمجیب احمد نے اپنے ایسے تمام افسانے یکجا کیے ہیں، جو ماں کے موضوع پر تحریر کردہ ہیں۔ محمد مجیب مبارک باد کے مستحق ہیں یہ شاید ’ماں‘ کے موضوع پر اردو میں کسی ایک مصنف کا پہلا مجموعہ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں ادھر یک موضوعی افسانے بھی مجموعے کی شکل میں آرہے ہیں۔
ابا جان‘ رونق جمال کی بچوں کے لیے لکھی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔رونق جمال معروف افسانہ نگار اور بچوں کے ادیب ہیں۔ان کے متعدد مجموعے، بچوں کی کہانیوں کی  کتابیں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔’ابا جان‘ مجموعے میں رونق جمال نے ساٹھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں شامل کی ہیں۔ یہ بچوں کے لیے ہیں۔
شیر کا احساس اوردیگر فسانے‘ تازہ کار افسانہ نگار اونیاش امن کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے بڑے طمطراق سے شائع کیا ہے۔ دراصل اونیاش امن ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ شاعری تو وہ بہت پہلے سے کرتے ہیں۔ افسانے کی شروعات انھوں نے 2017 سے کی ہے یعنی اردو افسانے کی روایت میں شامل ہونے والا سب سے کم عمر افسانہ نگار جس کے افسانوں کا مجموعہ دو سال میں ہی منظر عام پر آگیا۔ اونیاش کے افسانوں نے اردو افسانے کے ایوان کو متزلززل کرنے کا کام کیا ہے۔ اسلوب کی پختگی، نئے موضوعات اور پھر قصہ بیان کرنے کے سلیقے سے اونیاش امن نے بہت جلد اردو افسانے میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔
اونیاش امن کے اس مجموعے میں کل پندرہ افسانے ہیں۔ ہر افسانہ اپنے آپ میں مکمل، منفرد اور معیاری ہے۔ کتاب کا ٹائٹل افسانہ بہت عمدہ ہے۔ کئی اور افسانے خصوصی قرأت کے متقاضی ہیں مثلاً قلی گاڑی، عقرب، پُل صراط، طوطے کی فطرت، مداری، صبح کیوں نہیں ہوتی وغیرہ۔ عقرب جیساا فسانہ تو اِدھرمیری نظر سے نہیں گذرا، اونیاش نے کس عمدگی سے عقرب یعنی بچھو کی جسمانی ساخت کی تعریف لفظوں میں کی ہے۔ بہت دنوں بعد اردو افسانے میں ایک اچھے مجموعے کا اضافہ ہوا ہے۔
سرگذشت‘ ماریشس کے مقبول ادیب عبدالقاسم علی محمد کی چھوٹی بڑ ی کہانیوں، یاداشتوں اور سوانحی و اقعات سے پُر کتاب ہے۔ کتاب کو انجمن فروغ اردو، ماریشس نے شائع کیا ہے۔ عبدالقاسم علی احمد ماریشس میں چالیس برس اردو کی تعلیم و تدریس سے وابستہ رہ کر سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ’سر گذشت‘ میں عبدالقاسم علی محمد نے بچپن کے واقعات اور یادگار لمحات کو اتنے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ان میں کہانی کا رنگ غالب ہے۔ ہاں کہیں کہیں سوانحی اورناصحانہ انداز بھی در آیا ہے۔ کتاب میں 37 ایسی تحریریں شامل ہیں جن میں سے کچھ کو افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ کچھ دلچسپ واقعات ہیں۔ کچھ سفر کی روداد ہیں تو بعض مضمون کی نوعیت کی تحریریں ہیں۔ دراصل ماریشس جیسے بعض ممالک میں اُردو کا سفر نصف صدی قبل کا ہی ہے۔ ایسے میں وہاں نہ صرف زبان بلکہ ادب بھی تشکیلی دور سے گذر رہا ہے۔ ہمیں تشکیلی دور کی ان تحاریر کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔
باہم دگری‘ ہندی کی منتخب کہانیوں کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ نگار عبدالباری ایم کے ہیں۔ کتاب ممبئی کے نیوز ٹاؤن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ عبدالباری ایم کے کی اس سے قبل بھی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ انھوں نے ’بھیروں کبھی مرا نہیں‘ جیسے ہندی ناول کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ ’باہم دگری‘ میں عبدالباری نے تقریباً 13/ ہندی افسانوں کے تراجم شامل کیے ہیں۔ منتخب کہانیوں میں ہندی کے معروف افسانہ نگار جئے نیندر، ہری شنکر پرسائی، موہن لال، کملیش، منوہر کاجل، رمیش اُپادھیائے، سُشانت سُپریہ، ہیمنت کمار، ودیا شکلا، سبطین شہیدی کی کہانیوں کا عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ ان کہانیوں کے مطالعہ سے اردو کے نئے افسانہ نگار وں کو مختلف قسم کی کہانیاں ملیں گی۔ تو ہندی کے طرزِ تحریر سے بھی واقفیت ہوگی۔
گوکھرو‘ معروف ہندی شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار محترمہ پشپتا اوستھی کی منتخب کہانیوں کا ترجمہ ہے، جسے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ نوجوان ناقد توصیف بریلوی نے ان کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ گوکھرو، میں ڈاکٹر پشپتا اوستھی کی آٹھ کہانیوں کا انتخاب اور ترجمہ شامل ہے۔ دراصل ڈاکٹر پشپتا ہندی کی معروف شاعرہ (11 مجموعے) افسانہ نگار(2مجموعے)ناول نگار (ایک ناول) ہیں جو تخلیق کے علاوہ تنقید، ادارت،انٹر و یوز وغیرہ پر بھی خاصا کام کر چکی ہیں۔ 2001 سے نیدر لینڈ میں مقیم ہیں۔ توصیف بریلوی نے کہانیوں کے ترجمے میں تخلیقیت کا بھی خیال رکھا ہے۔ یہ صرف لفظی ترجمہ نہیں بلکہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتاہے گویا یہ اصلاً اردو کی کہانیاں ہیں۔
معروف افسانہ نگار سلمیٰ صنم کے افسانوں کاانتخاب ’قطار میں کھڑے چہرے‘ کا پاکستانی ایڈیشن، دستاویز پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا ہے۔ سلمیٰ صنم نے گذشتہ 10-15 برسوں میں اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ تانیثیت سے بھر پور کہانیاں انھیں معاصرین میں الگ کرتی ہیں۔ انتخاب میں ان کی تقریباً ڈیڑھ درجن کہانیاں شامل ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں ان کی شناخت ہیں۔ جن میں، طور پر گیا ہوا شخص، مٹھی میں بند چڑیا، پانچویں سمت، پت جھڑ کے لوگ، یخ لمحوں کا فیصلہ، آرگن بازار، سورج کی موت کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔
صُبح بہاراں‘ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اپنی شناخت بطور افسانہ نگار بنانے والی رمانہ تبسم کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ جسے اِرم پبلشنگ ہاؤس، پٹنہ نے شائع کیا ہے۔ ’صُبح بہاراں‘ میں رمانہ تبسم کے تقریباً 17 افسانے شامل اشاعت ہیں۔ ساتھ ہی ان کی افسانہ نگاری پر پروفیسر محمود نہسوی، اشتیاق احمد، محمد مجیب احمد، بے نام گیلانی اور غلام علی اخضر کے مضامین بھی شامل ہیں۔ رمانہ تبسم کے افسانے تازہ ترین واقعات اور ہمارے آس پاس کے حادثات کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے چراغ، جال، عکس، داغ، انصاف، صُبح بہاراں، دو کلیاں سنجیدہ قرأت کی متقاضی ہیں۔
پسِ دیوار‘ رخسانہ نازنین کا افسانوی مجموعہ ہے جسے کرناٹک اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔ رخسانہ نازنین موجودہ صدی کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نئے نئے موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالنے میں کامیاب ہیں۔ ’پسِ دیوار‘میں اُن کے تقریباً 40 افسانے شامل ہیں۔ جن میں سے کئی ایک بہت اچھے افسانے ہیں۔ مثلاً دوغلہ پن، سہاگن، سزا، برف کی دیوار، سراب، بدلتے چہرے، گیلے پروں کی پرواز، ثبوت، فرض کو ان کے اچھے افسانوں کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔
دوحہ قطر میں مقیم محترمہ فریدہ نثار احمد انصاری کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’گوہر قلزم‘ بھی اسی سال شائع ہوا ہے۔ فریدہ نثار صاحبہ اچھی افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے ہند و پاک کے اہم ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔اس سے قبل ان کا افسانوی مجموعہ ’شنگرفی آنچل کے سائے‘ شائع ہو چکا ہے۔ ’گوہر قلزم‘میں فریدہ نثار صاحبہ کے 16 / افسانے اور ان کی افسانہ نگاری پر بھی کئی مضامین شامل ہیں۔ فریدہ  نثار صاحبہ کے افسانے عام فہم اور ہمارے سماج کے افسانے ہوتے ہیں جو قاری کو پڑھتے ہوئے اپنے افسانے لگتے ہیں۔

 2019  میں اردو ناول
خوشی کی بات ہے کہ 2019  میں افسانوی مجموعوں کی طرح ناول بھی خاص تعداد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر عصری صورتِ حال کو بڑی فنکاری سے پیش کرتے ہیں۔ اس سال جو اہم ناول شائع ہوئے ان میں مشرف عالم ذوقی کا ’مرگِ ابنوہ‘، احمد صغیر کا آسماں سے آگے، رینو بہل کا نجات دہندہ، صادقہ نواب سحر کا راجدیو کی آمرائی، آصف زہری کا زبان بریدہ، عمران عاکف کا جے این یو کمرہ نمبر 259 (دوسرا ایڈیشن)، عزیز الدین احمد کا دہشت گرد، فضل رب کا سمندر منتظر ہے، امتیاز غدر کا علی پور بستی، حسن منظر کا اے فلک ناانصاف اسد محمود خن کاپیشی، تنویر سیٹھی کا راہ وفا کی مسافتیں، شاعر علی شاعر کا خواب گاہ، محمدشیراز دستی کا ساسا، شموئل احمد کا چمر اسر جیسے دو درجن سے زائد ناول شائع ہوئے ہیں۔ چند ناولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عمران عاکف خان،جے این یو کے ایک ذہن طالب علم ہیں۔ ان کا ناول ’جے این یو کمرہ نمبر 259‘ گذشتہ برس یعنی 2018 میں شائع ہوا تھا۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ سال بھر بعد ہی ناول کا دوسرا ایڈیشن 2019 میں شائع ہوا ہے۔
مشرف عالم ذوقی اردو ناول نگاری کی روایت میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہمعصر ناول نگاروں میں سب سے منفرد ہیں۔ وہ اکثر. ایسے موضوعات پر قلم اُٹھا تے ہیں، جن پر ہمارے بعض ناول نگار سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا ناول بیان ہویامسلمان، پوکے مان کی دنیا ہو یا لے سانس بھی آہستہ،ان سب نے اردو دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ مشرف اب ایک نیا ناول مرگِ انبوہ  (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس)لے کر آئے ہیں۔ناول کا خاصا چر چا ہے۔ دراصل یہ ناول آج کے کمپیوٹرائزڈعہد میں قدروں کے ختم ہونے اور نت نئی وحشیانہ جنسی حرکات وسکنات میں گرفتار نئی نسل کی خود کشی کے دردناک زندہ مناظر کی تصویر کشی ہے۔ ایک طرف سماج میں بڑھتے فرقہ پرستی کے زہر سے نیلے ہوتے اکثریتی طبقے کے اجسام ہیں تو دوسری طرف جسم کی لذتوں سے بور ہوتے ہوئے وحشیانہ اور جان سوز ویڈیو گیمز کی شکار نئی نسل کے نوجوان ہیں۔
نجات دہندہ‘ محترم رینو بہل کا تازہ ترین ناول ہے۔ رینوبہل اردو فکشن کی منفرد فکشن نگار ہیں ان کے متعدد افسانوی مجموعے اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔ گذشتہ برس ان کے ناول ’میرے ہونے میں کیا بُرائی ہے‘ نے خاصی دھوم مچائی تھی۔ دراصل رینو بہل نئے موضوعات پر قلم اُٹھا نا پسند کرتی ہیں۔ ’نجات دہندہ‘ بنارس کے ڈوم ذات کی اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر کی کہانی ہے۔ بنارس میں گنگا کے گھاٹ پر مردے جلانے کا کام کرنے والی ذات کے نوجوان جب چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں تو ابتداء میں اپنی ذات پوشیدہ رکھ کر زندگی گذارتے ہیں۔ یوں بھی آج کل نئے فیشن کے شہر وں میں ذات پات کی زیادہ اہمیت نہیں خاص کر طالب علمانہ زندگی میں۔چندی گڑھ سے علم اور زندگی کی روشنی لے کر دوا کر اور بھاسکر جیسے ڈوم کردار، اپنی ذات اور خاندان کے لیے نجات دہندہ بن جاتے ہیں۔ رینو بہل نے عمدگی سے ذات پات کے سماج پر اثرات کو ناول کیا ہے۔
زباں بریدہ‘ڈاکٹر آصف زہری کا پہلا ناول ہے۔ ڈاکٹر آصف بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں۔ تنقید و تحقیق بھی ان کا میدان ہے لیکن ’زباں بریدہ‘ لکھ کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نثر پر بھی یکسا ں عبور رکھتے ہیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں ترود نہیں کہ انہوں نے ایک منجھے ہوئے ناول نگار کی طرح بہترین اسلوب میں ناول تحریر کیا ہے۔ زمانے کے بعد گاؤں دیہات کے پس منظر میں، وہیں کی بولی میں کوئی ناول پڑھنے کو ملا ہے۔ ناول کا موضوع بھی ملک میں خودکشی کرتے کسان اور ان کے مسائل ہیں۔
سمندر منتظر ہے‘ ڈاکٹر سید فضل ِرب کا تحریر کردہ ناول ہے، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر سید فضل ِ رب نے سمندر منتظر ہے، میں موجودہ سماجی رسہ کشی، فرقہ وارانہ ذہنیت اور دن بہ دن عقائد کی بڑھتی دوریوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔ ناول میں بعض ایسے واقعات کا بیان ہے جسے پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے۔ خوں ریزی کے ایسے واقعات فرقہ وارانہ تشدد کی دین ہیں۔ متعدد کرداروں کی ذہنی حالت، وطن سے محبت، زمین کی طرف واپسی، اپنوں سے جدائی کا غم، ناول کو پُر تا ثیر بناتا ہے۔
دہشت گرد‘ احمد عزیز کا خوبصورت ناول ہے۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع یہ ناول بھی عصری حسیت کا اچھا نمونہ ہے۔ گذشتہ 25-30 برسوں سے دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
آسماں سے آگے‘ احمد صغیر کا نیا ناول ہے۔ اس سے قبل ان کے تین ناول جنگ جاری ہے، دروازہ ابھی بند ہے اور ایک بوند اُجالا، شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے ناولوں میں عصری مسائل اورسیاسی حالات کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ عشقیہ قصے بھی ان کے ناولوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ’آسماں سے آگے‘ ان کا رومانی ناول ہے جس میں ایاز، صنوبر اور سعدیہ مثلث کی شکل میں ہیں۔  ایاز اورسعدیہ میاں بیوی ہیں، صنو بر شادی شدہ ایاز احمد سے یک طرفہ پیا رکرتی ہے۔ ایاز اُسے ہمیشہ سمجھاتا رہتا ہے لیکن ہلکا پھلکا پیار، شدید ہوتے ہوتے جنون کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ممبئی کی مصروف سماجی زندگی کے درمیان عشقیہ قصے کو احمد صغیر نے عمدگی سے ناول کیا ہے۔
صادقہ نواب سحر کا تازہ ترین ناول ’راجدیو کی آمرائی‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،سے شائع ہواہے۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نئی صدی کی معروف فکشن نگار ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اوردو ناول ہیں۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا، ان کا مقبول ناول ہے۔ ’جس دن سے‘ کو بھی کافی سراہا گیا۔ ’راج دیو کی آمرائی‘ میا ں بیوی کے رشتے کی نزاکت کے پیش نظر لکھا گیا ناول ہے۔ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی اپنی اپنی دنیا ئیں آباد ہو جاتی ہیں، ایسے میں شوہر کو بیوی کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور اکثر ایسے اوقات بیوی بچوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ یہی وہ نازک وقت ہوتا ہے جب رشتے خراب ہوتے ہیں۔ راج دیو اور اونتکا کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ عمر کے آخر ی حصّے میں راج دیو اور اونتکا کے درمیان بچے، دولت اور آمرائی (یعنی آم کا باغ) آجاتی ہے۔ معاملہ ساری حدیں پاکر جاتا ہے اور عدالت کا رُخ کر لیتا ہے۔  بیوی کے اصرارکے باوجود راج دیو طلاق نہیں دیتا۔ بیوی، بچے، بہو سب راج دیو سے الگ اور خلاف ہیں۔ جبکہ دولت، پیسہ سب کچھ راج دیو کے پاس ہے۔ بالآخر عدالت خرچے کے پیسے باندھ دیتی ہے راج دیو اپنی دولت میں سے کچھ حصہ غریبوں میں دان کر دیتا ہے۔ باقی ماندہ  دولت لے کر دنیا کی سیر کو نکل جاتا ہے۔ صادقہ نواب نے ایک حقیقی کہانی کو لفظ عطا کیے ہیں۔ مقامی زبان کا بھی اچھا استعمال ہے۔
علی پوربستی‘ نئی نسل کے نوجوان افسانہ نگار امتیاز غدر کا پہلا ناول ہے۔ جسے حالی پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیاہے امتیاز غدر افسانے اور افسانچے کے لیے مشہور ہیں۔ ’علی پور بستی‘ ناول آنے کے بعد لوگ حیران تھے۔ زیادہ تر لوگ اسے متن بر متن کا ہی کوئی معاملہ تسلیم کر رہے تھے کہ شاید یہ ناول ممتاز مفتی کے مقبول ناول ’علی پور کا ایلی‘ کی ہی (Extention) توسیع ہے، لیکن امتیاز غدر نے ناول کو ایک عصری مسئلے سے جوڑ کر لکھا ہے۔ مردم شماری میں اندراج سے لے کر لسٹ شائع ہونے تک مردم شماری میں کیا کیا کھیل ہوتا ہے۔ کیسے یہ ملک کی تعمیر و ترقی کی اساس ہوتی ہے۔ امتیاز غدر نے مردم شماری کے عمل اور اس کی پیچیدگیوں اور ان سے سامنے آنے والی مشکلات کو عمدگی سے لفظوں میں ڈھالا ہے۔
فائرنگ رینج: کشمیر 1990‘ شفق سوپوری کا تازہ ناول ہے جو ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا ہے۔ شفق سوپوری منفرد قسم کے ناول نگار ہیں۔ وہ آس پاس کے ماحول اور سامنے کے موضوعات کو بڑے سلیقے سے ناول کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔اس سے قبل ان کا ناول ’نیلیما‘ خاصی دھوم مچا چکا ہے۔ ’فائرنگ رینج: کشمیر 1990‘ کئی دہائیوں سے کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات کی آواز ہے۔
آخری ایشور‘ اڑیہ کی معروفکشن نگارڈاکٹر پرتبھا رائے کا مقبول ناول ہے۔ ڈاکٹر پرتبھا رائے اڑیسہ کی ہی نہیں،ہندوستان کی مقبول ادیبہ ہیں۔ان کے تقریباً22 ناول اور 250 کے قریب افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ان کا ایک ناول سوایڈیشن شائع ہو کر ایک رکارڈ بنا چکا ہے۔ ناول کا اردو ترجمہ عبد المتین جامی  نے کیا ہے،جو خود اڑیسہ کے معروف شاعر، ناقداور مترجم ہیں۔اس سے قبل بھی وہ اڑیہ اور ہندی سے متعدد تخلیقات کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ ’آخری ایشور‘ایک یتیم بچے کی کہانی ہے۔ اس کا بچپن، تعلیم، پرورش وغیرہ میں آنے والے نامساعد حالات، سماجی اورسیاسی اتار چڑھاؤاور فرقہ پرستی کو ڈاکٹر پرتبھا رائے نے عمدگی سے ناول کیا ہے۔

Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu
CCS University, Meerut (UP)
aslamjamshedpuri@gmail.com
09456259850
ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020

26/3/20

دکنی منظومات میں نقدِ شعر کی روایت مضمون نگار: آصف مبین




دکنی منظومات میں نقدِ شعر کی روایت

آصف مبین
دکن کا تنقیدی سرمایہ
دکن کا شعری تصور اردو تنقید کی خشتِ اوّل ہے۔ اس باب میں دکنی شعرا کا کلام بنیاد کا وہ پتھر ہے جس پر اردو تنقید کی پوری عمارت قائم ہے۔  اردو تنقید ی روایت کی تلاش   پر ہونے والی تمام بحث عموماً  ملا وجہی اور اُس کے شعری تصور کے اردگرد گھوم کر رہ جاتی ہے۔ بہت خیال رکھا تو کسی نے ابنِ نشاطی کے ایک آدھ شعر کا ذکر کردیا۔ جبکہ نقدِ شعر کا یہ تصور یکجا نہیں جا بہ جا بکھرا پڑا ہے۔ اس سلسلے میں بڑی آزمائش مواد کا بکھراؤ ہے۔ مثال کے طور پرمثنوی  ‘چندر بدن و مہیار’ میں مقیمی نے ‘وانصاف دادنِ شعر و ترتیب کردنِ سخن’ کی سرخی قائم کرکے سخن اور کلام کے اوپر  آٹھ شعر کہے ہیں            ؎
زباں کا اتا ہوں سچا جوہری
کروں نِت سخن سوں گہر گستری
قصا یک کہوں میں گہربار کا
سو چندر بدن اور مہ یار کا
سنے کوئی مج کوں دعا یاد کر
رہیں گے تعجب سوں دل شاد کر
تتبع غواصی کا باندیا ہوں میں
سخن مختصر لیا کے ساندیا ہوں میں
عنایت جو اس کی ہوئی مج اُپر
یو تب نظم قصّہ کیا سر بسر
ولے میں اپس کوں سرایا نہیں
شعر میں کسی کا پھرایا نہیں
سرانا پھرانا ننھا کام ہے
کرے اُن عمل یو کہ جو خام ہے
شعر کا تلازم گہردار ہے
سنورنا طبیعت کوں ناچار ہے
(مثنوی چندَربَدن و مہیار از مرزا محمد مقیم مقیمی بیجاپوری، مرتب: محمد اکبرالدین صدیقی ایم اے: مجلس اشاعت دکنی مخطوطات اور دکھنی ساہتیہ پرکاشن سمیتی1956)
 اِس سے ذرا پہلے ایک عنوان ’بیان ابتدائے عشق و تالیف کتاب‘ کے آخری دو شعر میں کہتا ہے      ؎
ہوادل پویوں کر تفکر قریب
کہوں شعر موزوں، حکایت عجیب
بچن دُرہو دل تھے اُبلنے لگے
نوے طرز خوش تب نکلنے لگے
مثنوی کے خاتمے پر آخری سے پہلا شعر کچھ اس طرح کہا:
دنیا تو فنا ہے مقیمی سہی
رہے گی بچن کی نشانی یہی
اِس طرح پوری مثنوی اور تین سرخیوں میں ’نقدِ شعر‘  پر گیارہ بیت ملتی  ہیں۔
دکنی منظومات میں تنقیدشعر
 دکنی ادب میں  ‘تنقیدِشعر’کے نمونے ‘تصوّرِ شعر’ کی شکل میں ملتے ہیں۔
(کلیات محمد قلی قطب شاہ،  مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی1998)
دکنی شعرا نے ’تعریف سخن‘،’درباب سخن‘ جیسے عنوانات کے تحت  شعر کے سلسلے میں اپنے نقطۂ نظر کااظہار کیا ہے۔ مثلاً غواصی نے مثنوی 'سیف الملوک و بدیع الجمال' میں کلام کے امتیازات کے لیے ‘تعریف سخن’ کی سرخی استعمال کی ہے۔ مقیمی نے ’چندربدن و مہیار‘ میں ’وانصاف دادنِ شعر و ترتیب کردنِ سخن‘  کے عنوان سے شعری خصوصیات کا بیان  کیا ہے۔اِس کے علاوہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ملّا وجہی  کی  مثنوی قطب مشتری’ میں ‘درشرح شعر گوید’ اور‘وجہی تعریف شعرخود گوید’ جیسی سرخیوں کے تحت دکن کی تنقیدِ شعر کا سب سے اہم اور تفصیلی بیان پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات  شاعر کی’تعلّی‘ سے بھی -جو عموماً اپنے کلام کی خصوصیات، قادرالکلامی کے اظہار اور فنی برتری کے افتخارپر مشتمل ہوتی تھی- شعر کے بارے میں شاعر کی رائے کا علم ہوتا ہے۔
عربی و فارسی کے ادبا و نقاد کے حوالے سے شعر کی اصل پر بحث کرنے کے بعد شبلی نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ‘‘جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔’’ شعرالعجم کی چوتھی جلدمیں شبلی نے شعر کے عناصر متعین کرنے کی کوشش کی تھی اور ایک عنوان بنام ‘شاعری کے اصلی عناصر کیا ہیں؟’ قائم کیا تھا۔
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلد چہارم، انوارالمطابع، لکھنؤ،  ص6)
اسی سے متصل دوسرے باب ’ایران میں شاعری کی ابتدا کیونکر ہوئی؟‘ کے تحت شبلی نے کئی عنوانات مثلاً؛ صحتِ الفاظ کی پروا نہ تھی، عروض کے قواعد کا چنداں لحاظ نہ تھا، تشبیہ کی سادگی، مدح میں سادگی، عاشقانہ خیالات میں سادگی، پر بات کی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیں شعرالعجم، جلد چہارم، صفحات 104-89)
شبلی کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ شاعری کا دریا ابتدا میں بیان کے خارجی قواعدسے آزاد ہوتا ہے۔دکنی شعرا کے تصورِ نقد پر بات کرتے ہوئے، یہ پہلو اہمیت کا حامل ہے کہ اپنے تنقیدی شعور میں یہ شعرا مشرقی تصورِ نقد کے کتنے دُور یا پاس رہے ہیں۔
دکن کے دستیاب متن کو تاریخی طبیعت  کے سانچے میں دیکھا جائے تو وجہی جیسے شعرا سے قبل بھی اُردو تنقید کی روایت کا سراغ ملتا ہے۔ بہمنی دَور میں نظامی کے علاوہ فیروز بیدری، لطفی اور مشتاق کے نام ملتے ہیں۔فیروز (قطب الدین قادری)، سید محمود اور ملا خیالی قطب شاہی دور کے اّولین شاعروں میں ہیں اور چوتھے قطب شاہی حکمراں ابراھیم قطب شاہ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس بات کی دلیل وجہی اور ابن نشاطی جیسے شعرا کے وہ اعترافات ہیں جو انھوں نے اپنے پیش رَوشعرا کی تفہیم و تنقیدِ فن کے سلسلے میں کیے ہیں۔  چنانچہ وجہی کہتا ہے        ؎
کہ فیروز و محمود اجیتے جو آج
تو اس شعر کوں بہوت ہوتا رواج
(مثنوی:قطب مشتری1018ھ از اسد اللہ وجہی، مرتبہ: ڈاکٹر حمیرا جلیلی: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی-جون 1992)
طیب انصاری نے بہمنی سلطنت کے عروج اور محمود گاواں کے دورِ وزارت کی ترقیوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ”اب اُردو کے قدیم ادب میں جسے آپ دکنی ادب بھی کہتے ہیں مذہبی عقائد کے علاوہ علمی اور خالص ادبی و رومانی افکار بھی در آئے۔ چنانچہ دبستانِ بیدر میں نظامی، نظیری، آذری، ہاشمی، فیروز اور محمود جیسے اساتذہئ سخن پیدا ہوئے۔“ (ص:15:نصرتی کی شاعری از طیب انصاری: مطبوعہ اعجاز پرنٹنگ پریس، حیدرآباد-1984)
ابن نشاطی اِن استادانِ فن کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے       ؎
نہیں وو کیا کروں فیروز استاد
کہ دیتا شاعری کا کچ مرا داد
اَہے صد حیف جو نیں سیدمحمود
کتے پانی کوں پانی دوٗد کوں دوٗد
نہیں اس وقت پر وو شیخ احمد
سخن کا دیکھتے باندیا سو میں سد
حسن شوقی اگر ہوتا تو الحال
ہزاراں بھیجتا رحمت منجہ اُپرال
اچھے تو دیکھتا مُلّا خیالی
یو میں برتیا ہوں سو صاحب کمالی
(مثنوی:پھو ل بن از ابن نشاطی-1076ھ:مرتبہ:اکبرالدین صدیقی: مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی2008(طبع اول-1978)
تنقید کا پہلا وجود فن کار کی اُس نظر اور رائے سے وابستہ ہے، جو فن کے متعلق اس کے ذہن میں جاکرتی ہے۔ میں یہاں اس سلسلے کی صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔  دکنی شعرا میں وجہی پہلا شاعر ہے جس نے شعر کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا۔  مثنوی ‘قطب مشتری’ میں اُس نے اپنے نقطۂ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔   وجہی نے  اس مثنوی میں ‘درشرح شعر گوید’ اور ‘وجہی تعریف شعرخود گوید’ سرخیوں کے تحت کل ستانوے اشعار معیارِ سخن کے طور پر درج کیے ہیں۔ سادگی، معنی آفرینی اور لفظ ومعنی کے بیچ ربط و تعلق؛  وجہی کے شعری نظریے کے تعلق سے یہ تین باتیں اکثر سامنے آتی ہیں        ؎
جو بے ربط بولے توں بیتاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
سلاست نہیں جس کیرے بات میں
پڑیا جائے کیوں جز لے کر ہات میں
کھیا ہے توں یو شعر ایسا سرس
کہ پڑنے کو عالم کرے سب ہوس
(سلاست و روانی)
جسے بات کے ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں
وو کچ شعر کے فن میں مشکل اچھے
کہ لفظ ہور معنی یو سب مل اچھے
جو معنی ہے معشوق بھود ھات کا
پنایا ہوں کسوت اسے بات کا
      (لفظ و معنی کے بیچ ربط)
اگر فام ہے شعر کا تجکوں چھند
چنے لفظ لیا ہور معنی بلند
رکھیا ایک معنی اگر زور اھے
ولے بھی مزا بات کا ھور ھے
     (معنی آفرینی)
وجہی کے تنقیدی خیالات کا ذکر کرتے ہوئے سید مسعود سراج نے اپنے مقالے ’دکنی ادب میں تہذیب اور سماج‘ میں لکھا ہے”وجہی شاعری میں ندرت، جدّت، ذاتی اُپج کا قائل ہے۔ روشِ عام پر چلنا یا پامال مضامین کو باندھنا اسے پسند نہیں۔ شعر میں جدّت ہونی چاہیے۔ دوسروں کا تتبع کرنا آسان ہے۔ ان خیالات کو پیش کرنا جن کو پیش رَو شعرا ادا کرچکے ہیں سہل ہے۔ لیکن نئی بات پیدا کرنا مشکل ہے۔ حقیقی شاعر وہی ہے جو اپنے دل سے نئی بات پیدا کرتا ہے       ؎
جو کرتا یکس کا ہنر دیک کر
ہنروند اسے نیں کتے ہیں ہنر
ہنروند اس کو کھیا جائے گا
جکوئی اپنے دل سے نوا لیائے گا
فرق ہے اول ہور آخیر میں
تفاوت اہے نیر ہور شیر میں
سخن گو وہی جس کی گفتار تے
اچھل کر پڑے آدمی ٹھار تے
نکو بول مضمون توں ہور کا
کہ کالا ہے دو جگ میں منہ چور کا''
(ص:76-77: دکنی ادب میں تہذیب اور سماج، مقالہ نگار: ایس مسعود سراج:یونیورسٹی آف میسور، میسور-1984)
وجہی نے’قطب مشتری‘ میں اس موقعے (عنوان:وجہی در شرحِ شعر گوید) پر مذکورہ باتوں کے علاوہ کلام کی اہمیت، کلام کا شیریں ہونا، صنائع کا استعمال اور کلام میں ندرت کا پایا جانا جیسی باتیں بھی بیان کی ہیں۔ لیکن اس نے کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں، جو شعروسخن کے تعلق سے اہم ہیں اور وجہی کی وُسعتِ قلبی اور علوِّ نظر پر دلالت کرتی ہیں۔ یہاں اِن عنوانات کو  مثالوں کے ساتھ ذکر کرنا بیجا نہ ہوگا۔
اِتباعِ قدما      ؎
اسی لفظ کوں شعر میں لیائیں توں
کہ لیایا ہے استاد جس لفظ کوں
شناسانِ فن کی اہمیت     ؎
کہ فیروز و محمود اجیتے جو آج
تو اس شعر کوں بھوت ہوتا رواج
یا            ؎
جو عاقل ہے یو بات مانے وہی
قدر اس ادا کی پچھانے وہی
‘دودھ اور چھاچھ ایک نہیں ہوسکتے’ بتانے کے بعد کہتا ہے کہ‘فن فنکار کے پاس ہوتا ہے’         ؎
نہ یو بات ہرایک کے سات ہے
جکوی عارف ہے اس سوں یو بات ہے
شاعری جزویست از پیغمبری ہم سنتے آئے ہیں۔ وجہی نے بھی کہا تھا کہ یہ خداداد چیز ہے، زور لگا کر حاصل نہیں کی جاسکتی           ؎
اپی ہوکے لیانا، سو ہے جھوٹ سب
خدا غیب تے دیوے تو کیا عجب
اور آخر میں اُردو زبان کا یہ سخنور کہتا ہے کہ؛ گرچہ شعرگوئی کمال ہے لیکن شعر فہمی اس سے بھی بڑا کمال ہے:
شعر بولنا گرچہ اَپروپ ہے
ولے فامنا کہنے تے خوب ہے
('قطب مشتری'  عنوان:وجہی در شرحِ شعر گوید)
اِبن نشاطی:
ابن نشاطی بنیادی طور پر ایک انشا پرداز تھا۔ مثنوی ’پھول بن‘ پر لکھے اپنے مقدمے میں اکبرالدین صدیقی نے لکھا ہے کہ ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھول بن سے قبل ابن نشاطی نے شعر کہنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انشا پردازی کی طرف ہی زیادہ مائل رہا ہے۔“ (اَکبرالدین صدیقی: مقدمہ مثنوی ’پھول بن‘) شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی تعلّی کی بنیاد انشاپردازی اور صنعت گری پر رکھی ہے         ؎
مری ہے نظم میں انشا کے دھاتاں
رہے انشا کے دھاتاں اور باتاں
اس بات کو ذہن میں رکھ کرجب ہم مثنوی  ’پھول بن‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ گو، اُس کا درجہ انشاپرداز کا سہی، لیکن وہ معنی کی اہمیت اور نصیحت کے وزن سے انکاری نہیں۔ ابنِ نشاطی زبان کے خارجی حسن  اور معنی کی گیرائی؛ دونوں کی اہمیت سے واقف اور اُن کا قائل ہے۔ ابن نشاطی نے  شاعری کے دواصول بتائے ہیں۔ پہلا، یہ کہ صنائع بدائع؛ صحت قافیہ اور خوبصورت تشبیہات شاعری کی جان ہیں۔ دوسرا،فن شاعری عالی فن ضرور ہے لیکن 'خالی بات' سے کام نہیں چلتا جب تک کہ اس میں کوئی نصیحت نہ پوشیدہ ہو۔ نصیحت اور صنعت کے مل کر ایک بن جانے سے بلند شاعری وجود میں آتی ہے         ؎
اگرچہ شاعری کا فن ہے عالی
ولے کیا کام آوے بات خالی
طیب انصاری نے کتاب ’نصرتی کی شاعری‘ میں ابن نشاطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”لانگی نس نے ایک صدی بعد وہی بات کہی جو ابنِ نشاطی (پھول بن) نے ایک صدی قبل کہی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر شعر میں نصیحت نہ ہو تو کم از کم صنعت تو ہو- اگر شعر میں نصیحت ہو نہ صنعت تو ایسا شعر ہیچ ہے۔“  (نصرتی کی شاعری،ص:37) ’پھول بن‘ میں ابن نشاطی نے سرخی  ’دربیان آواز دادنِ ہاتف‘  کے تحت سخن، عبارت آرائی، طرزِ موزوں اور طبعِ رواں کے بارے میں شعر کہے ہیں          ؎
سخن کا آج ہوکر تو گہر سنج
سخن کا کھولتا نیں کیا سبب گنج؟
سخن کے پھول کی تاثیرتے توں
معطّر کرجگت یک دھیر تے توں
سخن کوں فہم سوں کرتا ہے توں خوب
سلاست بات کا دھرتا ہے توں خوب
سخن کوں توں سنگارن جانتا ہے
سخن کوں تیرے ہر کئی مانتا ہے
سخن کا طرز تجہ آتا ہے تازا
سخن کا سٹ توں عالم میں آوازا
خدا تج کوں دیا ہے فہم عالی
سخن کے تج کوں بخشا ہے لوالی
تجے معلوم ہے سارے صنائع
نکو اوقات کر توں اپنا ضائع
کہاں مشکل عبارت کس کوں سجتا
عبارت سب کسے وو نیں سمجتا
لگاکر طبع کی موتیاں سوں ڈورا
بچن کا جگ منے ماریا ڈھنڈورا
عَلم کو بات کے اُنچا اُچایا
اپس کی طبع کی زوری دکھایا
نہ تھا جس ٹھار بل، پھرنے کوں تازی
کریا اُس ٹھار میں چوگان بازی
  مثنوی کے آخری حصے میں بھی تقریباً چوالیس شعر اس مضمون سے متعلق پائے جاتے ہیں جس میں کہتا ہے       ؎
جو کوئی صنعت سمجھتا ہے سو گیانی
وہی سمجھے مری یو نکتہ دانی
ہنر کوئی نیں دکھاے سو دکھایا
صنائع ایک کم چالیس لایا
ہرایک مصرعہ اوپر ہوکر بیحد خوب
رکھا میں قافیہ لامستند خوب
یہ دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی کہ غزل کا جادو اُس اولین دور میں ہی لوگوں پر چڑھ رہا تھا چنانچہ غزل کی مقبولیت اور مرتبے کا اعتراف اور اپنی شاعری سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے       ؎
غزل کا مرتبہ گرچہ اول ہے
ولے ہربیت میرا ایک غزل ہے
دکنی تنقیدکی بنیاد
 دکن کے اس ‘تصورشعر’ سے قبل اُردو میں تنقیدِ شعر کی  روایت موجود نہ تھی۔ تنقید شعر کی جو روایت ان تک پہنچی تھی وہ عربی اور فارسی ورثے پر مشتمل تھی۔ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ:
 ‘‘عربی ادب میں اگرچہ مواد اور اسلوب دونوں کی اہمیت مسلم ہے لیکن ہیئت کو موضوع پر فوقیت اس لیے حاصل ہے کہ شاعر کا تصور ان کے ذہن میں فنکار کا نہیں بلکہ مرصع کار یا دستکار کا ہے۔’’
(اردو تنقید کی تاریخ:ڈاکٹر مسیح الزماں:اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ-1983، پہلا اکادمی ایڈیشن:ص22)
 شعری روایت کا یہ شعور صنائع بدائع اور طرزِ اظہار کی برتری پر مبنی تھا۔ تنقیدِ شعر کا جو سرمایہ اِن لوگوں تک پہونچا وہ مشرقی تنقیدی تصورات پر مبنی تھا جس کا بڑا حصہ عربی اور فارسی ادب کے تصور شعر پر مشتمل تھا۔ عہدِ وسطیٰ میں اِن دونوں (عربی و فارسی) زبانوں میں شعری ادب کے تعلق سے تقریباً ایک جیسے معیارات  ملحوظ خاطر رہے ہیں۔ اُس دور کے علمائے ادب لفظ کو معنی پر ترجیح دیتے تھے۔ شاعری کو پرکھنے کے لیے معانی، بیان، بدیع، عروض اور علم قافیہ کی طرف رجوع کیاجاتا تھا۔ ڈاکٹرمسیح الزماں کے مطابق ‘‘ اُردو میں جب باقاعدہ شاعری شروع ہوئی تو اس کے شاعروں کے آگے فارسی ادب کا پربہار چمن لہلہا رہا تھا۔ کانوں میں فارسی نغمہ سنجوں کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ مذاق اسی صنعت گری کی داد دے رہا تھا۔ اس لیے یہاں بھی وہ تمام چیزیں لائی جانے لگیں جو فارسی میں رائج تھیں۔’’ (اُردو تنقید کی تاریخ: مسیح الزماں خاں، ص:41) دکنی شعرا نے انہی معیارات کو سامنے رکھا۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ دکنی ادب اور شمالی ہند میں بارہ ماسہ کی روایت کے حوالے سے، اُردو پر شمالی ہند کی زبانوں؛ اَودھی، برج بھاشا اور بھوج پوری کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور اس کی شعریات کا اثر رہا ہے۔ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے دکنی کی نشوونما میں علاء الدین خلجی کے دَور میں افواج اور فیروزتغلق کے وقت میں شہریوں کے ساتھ آئی ’دہلی و پیرامنش‘کی زبان نیز اکبر کے ذریعے فتحِ گجرات  کے بعد گجری کے ’بقیۃ السلف‘ کے علاوہ برج بھاشا کا بھی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں ”دکنی ہندوستانی کے ارتقا کی بحث میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی ہی کے عہد میں گجرات کے علاوہ دوآبہ کے بھی اربابِ علم و فضل دکن پہنچے کیونکہ اس بادشاہ کو موسیقی اور ہندوؤں کے علوم سے دلچسپی تھی۔ اس کے دربار میں اِن علوم و فنون کے جو ماہر ہندوستان خاص سے آئے تھے وہ یا تو برج بھاشا کے شاعر اور موسیقی دان تھے۔ یا اُن کی زبان پر برج بھاشا کا بہت اثر تھا۔ چنانچہ خود ابراہیم نے برج بھاشا سیکھی اور اس کی کتاب ’نورس‘ اسی زبان میں ہے۔“ (’ہندوستانی لسانیات‘ از ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور،پبلشر: نسیم بک ڈپو، لکھنؤ،سنہ اشاعت: 1975،صفحہ110)
اِسی طرح نظامی کی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کے بارے میں شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے ”کدم راؤ پدم راؤ‘ کی زبان مغلق اور کٹھن ہے...اس کی وجہ یہ ہے کہ نظامی نے فارسی پر تکیہ کرنے کے بجاے تیلگو، کنڑ، کسی قدر مراٹھی اور پھر سنسکرت کے تت سم الفاظ کو کثرت سے راہ دی ہے۔“ (فاروقی، اُردو کا ابتدائی زمانہ، مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ و قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، دہلی سنہ اشاعت 2011 صفحہ 74)
 عبدالقادر سروری، ڈاکٹر زور وغیرہ کی تحقیقات اور ماضی قریب کی تصنیفات مثلاً 'اُردو کا ابتدائی زمانہ' سے پتا چلتا ہے کہ دکنی شعرا کا شعور نہ صرف گذشتہ تنقیدی روایت کے مطابق بلکہ منظم بھی تھا۔ اِن میں اوّلین دَورکے بعض شعرا کا نہایت طاقتور ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ اُنھیں اپنے کلام کی اہمیت اور افادیت کا بھرپور احساس بھی تھا اور اُس پر فخر بھی۔ نصرتی کے چند شعر جو فارسی شعر کی معیار بندی، اس کی مقبولیت اور اس کے بالمقابل دکنی کلام کے تعین قدر کے ضمن میں آئے  ہیں        ؎
معانی کی صورت تے ھو آرسی
کیا شعردکھنی کوں جوں فارسی
فصاحت میں گر فارسی خوش کلام
دھرے فخر ہندی بچن پر مُدام
میں اس دوہنر کے خلاصیاکوں پا
کیا شعر تازہ دونو فن ملا
اَدیکھیا اگرہو حسد سوں کباب
رکھے بول اتنا کہ دکھنی کتاب
سمج دار کو خوب سودے سوں کام
نہ دوکان کا دیکھنا سقف و بام
(مثنوی:گلشنِ عشق-1068ھ،  مرتب: سید محمد یم۔اے: مجلس اشاعت دکنی مخطوطات، حیدرآباد)
نصرتی نے اس نظریہئ شاعری کے مطابق کلام کو طاقِ گردوں پر لے جاکر رکھا ہے۔ سخن کی بیل کو یہاں تک بڑھایا کہ وہ فلک کے منڈوے پے جاچڑھی ہے چنانچہ کہتا ہے   ؎
کیا میں بچن بیل کو یوں پڑی
پڑی سو فلک کاچ منڈوا چڑھی

Asif Mubeen
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007
Mob.: 9990289656