26/3/20

دکنی منظومات میں نقدِ شعر کی روایت مضمون نگار: آصف مبین




دکنی منظومات میں نقدِ شعر کی روایت

آصف مبین
دکن کا تنقیدی سرمایہ
دکن کا شعری تصور اردو تنقید کی خشتِ اوّل ہے۔ اس باب میں دکنی شعرا کا کلام بنیاد کا وہ پتھر ہے جس پر اردو تنقید کی پوری عمارت قائم ہے۔  اردو تنقید ی روایت کی تلاش   پر ہونے والی تمام بحث عموماً  ملا وجہی اور اُس کے شعری تصور کے اردگرد گھوم کر رہ جاتی ہے۔ بہت خیال رکھا تو کسی نے ابنِ نشاطی کے ایک آدھ شعر کا ذکر کردیا۔ جبکہ نقدِ شعر کا یہ تصور یکجا نہیں جا بہ جا بکھرا پڑا ہے۔ اس سلسلے میں بڑی آزمائش مواد کا بکھراؤ ہے۔ مثال کے طور پرمثنوی  ‘چندر بدن و مہیار’ میں مقیمی نے ‘وانصاف دادنِ شعر و ترتیب کردنِ سخن’ کی سرخی قائم کرکے سخن اور کلام کے اوپر  آٹھ شعر کہے ہیں            ؎
زباں کا اتا ہوں سچا جوہری
کروں نِت سخن سوں گہر گستری
قصا یک کہوں میں گہربار کا
سو چندر بدن اور مہ یار کا
سنے کوئی مج کوں دعا یاد کر
رہیں گے تعجب سوں دل شاد کر
تتبع غواصی کا باندیا ہوں میں
سخن مختصر لیا کے ساندیا ہوں میں
عنایت جو اس کی ہوئی مج اُپر
یو تب نظم قصّہ کیا سر بسر
ولے میں اپس کوں سرایا نہیں
شعر میں کسی کا پھرایا نہیں
سرانا پھرانا ننھا کام ہے
کرے اُن عمل یو کہ جو خام ہے
شعر کا تلازم گہردار ہے
سنورنا طبیعت کوں ناچار ہے
(مثنوی چندَربَدن و مہیار از مرزا محمد مقیم مقیمی بیجاپوری، مرتب: محمد اکبرالدین صدیقی ایم اے: مجلس اشاعت دکنی مخطوطات اور دکھنی ساہتیہ پرکاشن سمیتی1956)
 اِس سے ذرا پہلے ایک عنوان ’بیان ابتدائے عشق و تالیف کتاب‘ کے آخری دو شعر میں کہتا ہے      ؎
ہوادل پویوں کر تفکر قریب
کہوں شعر موزوں، حکایت عجیب
بچن دُرہو دل تھے اُبلنے لگے
نوے طرز خوش تب نکلنے لگے
مثنوی کے خاتمے پر آخری سے پہلا شعر کچھ اس طرح کہا:
دنیا تو فنا ہے مقیمی سہی
رہے گی بچن کی نشانی یہی
اِس طرح پوری مثنوی اور تین سرخیوں میں ’نقدِ شعر‘  پر گیارہ بیت ملتی  ہیں۔
دکنی منظومات میں تنقیدشعر
 دکنی ادب میں  ‘تنقیدِشعر’کے نمونے ‘تصوّرِ شعر’ کی شکل میں ملتے ہیں۔
(کلیات محمد قلی قطب شاہ،  مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان نئی دہلی1998)
دکنی شعرا نے ’تعریف سخن‘،’درباب سخن‘ جیسے عنوانات کے تحت  شعر کے سلسلے میں اپنے نقطۂ نظر کااظہار کیا ہے۔ مثلاً غواصی نے مثنوی 'سیف الملوک و بدیع الجمال' میں کلام کے امتیازات کے لیے ‘تعریف سخن’ کی سرخی استعمال کی ہے۔ مقیمی نے ’چندربدن و مہیار‘ میں ’وانصاف دادنِ شعر و ترتیب کردنِ سخن‘  کے عنوان سے شعری خصوصیات کا بیان  کیا ہے۔اِس کے علاوہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ملّا وجہی  کی  مثنوی قطب مشتری’ میں ‘درشرح شعر گوید’ اور‘وجہی تعریف شعرخود گوید’ جیسی سرخیوں کے تحت دکن کی تنقیدِ شعر کا سب سے اہم اور تفصیلی بیان پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات  شاعر کی’تعلّی‘ سے بھی -جو عموماً اپنے کلام کی خصوصیات، قادرالکلامی کے اظہار اور فنی برتری کے افتخارپر مشتمل ہوتی تھی- شعر کے بارے میں شاعر کی رائے کا علم ہوتا ہے۔
عربی و فارسی کے ادبا و نقاد کے حوالے سے شعر کی اصل پر بحث کرنے کے بعد شبلی نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ‘‘جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔’’ شعرالعجم کی چوتھی جلدمیں شبلی نے شعر کے عناصر متعین کرنے کی کوشش کی تھی اور ایک عنوان بنام ‘شاعری کے اصلی عناصر کیا ہیں؟’ قائم کیا تھا۔
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلد چہارم، انوارالمطابع، لکھنؤ،  ص6)
اسی سے متصل دوسرے باب ’ایران میں شاعری کی ابتدا کیونکر ہوئی؟‘ کے تحت شبلی نے کئی عنوانات مثلاً؛ صحتِ الفاظ کی پروا نہ تھی، عروض کے قواعد کا چنداں لحاظ نہ تھا، تشبیہ کی سادگی، مدح میں سادگی، عاشقانہ خیالات میں سادگی، پر بات کی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیں شعرالعجم، جلد چہارم، صفحات 104-89)
شبلی کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ شاعری کا دریا ابتدا میں بیان کے خارجی قواعدسے آزاد ہوتا ہے۔دکنی شعرا کے تصورِ نقد پر بات کرتے ہوئے، یہ پہلو اہمیت کا حامل ہے کہ اپنے تنقیدی شعور میں یہ شعرا مشرقی تصورِ نقد کے کتنے دُور یا پاس رہے ہیں۔
دکن کے دستیاب متن کو تاریخی طبیعت  کے سانچے میں دیکھا جائے تو وجہی جیسے شعرا سے قبل بھی اُردو تنقید کی روایت کا سراغ ملتا ہے۔ بہمنی دَور میں نظامی کے علاوہ فیروز بیدری، لطفی اور مشتاق کے نام ملتے ہیں۔فیروز (قطب الدین قادری)، سید محمود اور ملا خیالی قطب شاہی دور کے اّولین شاعروں میں ہیں اور چوتھے قطب شاہی حکمراں ابراھیم قطب شاہ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس بات کی دلیل وجہی اور ابن نشاطی جیسے شعرا کے وہ اعترافات ہیں جو انھوں نے اپنے پیش رَوشعرا کی تفہیم و تنقیدِ فن کے سلسلے میں کیے ہیں۔  چنانچہ وجہی کہتا ہے        ؎
کہ فیروز و محمود اجیتے جو آج
تو اس شعر کوں بہوت ہوتا رواج
(مثنوی:قطب مشتری1018ھ از اسد اللہ وجہی، مرتبہ: ڈاکٹر حمیرا جلیلی: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی-جون 1992)
طیب انصاری نے بہمنی سلطنت کے عروج اور محمود گاواں کے دورِ وزارت کی ترقیوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ”اب اُردو کے قدیم ادب میں جسے آپ دکنی ادب بھی کہتے ہیں مذہبی عقائد کے علاوہ علمی اور خالص ادبی و رومانی افکار بھی در آئے۔ چنانچہ دبستانِ بیدر میں نظامی، نظیری، آذری، ہاشمی، فیروز اور محمود جیسے اساتذہئ سخن پیدا ہوئے۔“ (ص:15:نصرتی کی شاعری از طیب انصاری: مطبوعہ اعجاز پرنٹنگ پریس، حیدرآباد-1984)
ابن نشاطی اِن استادانِ فن کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے       ؎
نہیں وو کیا کروں فیروز استاد
کہ دیتا شاعری کا کچ مرا داد
اَہے صد حیف جو نیں سیدمحمود
کتے پانی کوں پانی دوٗد کوں دوٗد
نہیں اس وقت پر وو شیخ احمد
سخن کا دیکھتے باندیا سو میں سد
حسن شوقی اگر ہوتا تو الحال
ہزاراں بھیجتا رحمت منجہ اُپرال
اچھے تو دیکھتا مُلّا خیالی
یو میں برتیا ہوں سو صاحب کمالی
(مثنوی:پھو ل بن از ابن نشاطی-1076ھ:مرتبہ:اکبرالدین صدیقی: مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی2008(طبع اول-1978)
تنقید کا پہلا وجود فن کار کی اُس نظر اور رائے سے وابستہ ہے، جو فن کے متعلق اس کے ذہن میں جاکرتی ہے۔ میں یہاں اس سلسلے کی صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔  دکنی شعرا میں وجہی پہلا شاعر ہے جس نے شعر کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا۔  مثنوی ‘قطب مشتری’ میں اُس نے اپنے نقطۂ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔   وجہی نے  اس مثنوی میں ‘درشرح شعر گوید’ اور ‘وجہی تعریف شعرخود گوید’ سرخیوں کے تحت کل ستانوے اشعار معیارِ سخن کے طور پر درج کیے ہیں۔ سادگی، معنی آفرینی اور لفظ ومعنی کے بیچ ربط و تعلق؛  وجہی کے شعری نظریے کے تعلق سے یہ تین باتیں اکثر سامنے آتی ہیں        ؎
جو بے ربط بولے توں بیتاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
سلاست نہیں جس کیرے بات میں
پڑیا جائے کیوں جز لے کر ہات میں
کھیا ہے توں یو شعر ایسا سرس
کہ پڑنے کو عالم کرے سب ہوس
(سلاست و روانی)
جسے بات کے ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں
وو کچ شعر کے فن میں مشکل اچھے
کہ لفظ ہور معنی یو سب مل اچھے
جو معنی ہے معشوق بھود ھات کا
پنایا ہوں کسوت اسے بات کا
      (لفظ و معنی کے بیچ ربط)
اگر فام ہے شعر کا تجکوں چھند
چنے لفظ لیا ہور معنی بلند
رکھیا ایک معنی اگر زور اھے
ولے بھی مزا بات کا ھور ھے
     (معنی آفرینی)
وجہی کے تنقیدی خیالات کا ذکر کرتے ہوئے سید مسعود سراج نے اپنے مقالے ’دکنی ادب میں تہذیب اور سماج‘ میں لکھا ہے”وجہی شاعری میں ندرت، جدّت، ذاتی اُپج کا قائل ہے۔ روشِ عام پر چلنا یا پامال مضامین کو باندھنا اسے پسند نہیں۔ شعر میں جدّت ہونی چاہیے۔ دوسروں کا تتبع کرنا آسان ہے۔ ان خیالات کو پیش کرنا جن کو پیش رَو شعرا ادا کرچکے ہیں سہل ہے۔ لیکن نئی بات پیدا کرنا مشکل ہے۔ حقیقی شاعر وہی ہے جو اپنے دل سے نئی بات پیدا کرتا ہے       ؎
جو کرتا یکس کا ہنر دیک کر
ہنروند اسے نیں کتے ہیں ہنر
ہنروند اس کو کھیا جائے گا
جکوئی اپنے دل سے نوا لیائے گا
فرق ہے اول ہور آخیر میں
تفاوت اہے نیر ہور شیر میں
سخن گو وہی جس کی گفتار تے
اچھل کر پڑے آدمی ٹھار تے
نکو بول مضمون توں ہور کا
کہ کالا ہے دو جگ میں منہ چور کا''
(ص:76-77: دکنی ادب میں تہذیب اور سماج، مقالہ نگار: ایس مسعود سراج:یونیورسٹی آف میسور، میسور-1984)
وجہی نے’قطب مشتری‘ میں اس موقعے (عنوان:وجہی در شرحِ شعر گوید) پر مذکورہ باتوں کے علاوہ کلام کی اہمیت، کلام کا شیریں ہونا، صنائع کا استعمال اور کلام میں ندرت کا پایا جانا جیسی باتیں بھی بیان کی ہیں۔ لیکن اس نے کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں، جو شعروسخن کے تعلق سے اہم ہیں اور وجہی کی وُسعتِ قلبی اور علوِّ نظر پر دلالت کرتی ہیں۔ یہاں اِن عنوانات کو  مثالوں کے ساتھ ذکر کرنا بیجا نہ ہوگا۔
اِتباعِ قدما      ؎
اسی لفظ کوں شعر میں لیائیں توں
کہ لیایا ہے استاد جس لفظ کوں
شناسانِ فن کی اہمیت     ؎
کہ فیروز و محمود اجیتے جو آج
تو اس شعر کوں بھوت ہوتا رواج
یا            ؎
جو عاقل ہے یو بات مانے وہی
قدر اس ادا کی پچھانے وہی
‘دودھ اور چھاچھ ایک نہیں ہوسکتے’ بتانے کے بعد کہتا ہے کہ‘فن فنکار کے پاس ہوتا ہے’         ؎
نہ یو بات ہرایک کے سات ہے
جکوی عارف ہے اس سوں یو بات ہے
شاعری جزویست از پیغمبری ہم سنتے آئے ہیں۔ وجہی نے بھی کہا تھا کہ یہ خداداد چیز ہے، زور لگا کر حاصل نہیں کی جاسکتی           ؎
اپی ہوکے لیانا، سو ہے جھوٹ سب
خدا غیب تے دیوے تو کیا عجب
اور آخر میں اُردو زبان کا یہ سخنور کہتا ہے کہ؛ گرچہ شعرگوئی کمال ہے لیکن شعر فہمی اس سے بھی بڑا کمال ہے:
شعر بولنا گرچہ اَپروپ ہے
ولے فامنا کہنے تے خوب ہے
('قطب مشتری'  عنوان:وجہی در شرحِ شعر گوید)
اِبن نشاطی:
ابن نشاطی بنیادی طور پر ایک انشا پرداز تھا۔ مثنوی ’پھول بن‘ پر لکھے اپنے مقدمے میں اکبرالدین صدیقی نے لکھا ہے کہ ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھول بن سے قبل ابن نشاطی نے شعر کہنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انشا پردازی کی طرف ہی زیادہ مائل رہا ہے۔“ (اَکبرالدین صدیقی: مقدمہ مثنوی ’پھول بن‘) شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی تعلّی کی بنیاد انشاپردازی اور صنعت گری پر رکھی ہے         ؎
مری ہے نظم میں انشا کے دھاتاں
رہے انشا کے دھاتاں اور باتاں
اس بات کو ذہن میں رکھ کرجب ہم مثنوی  ’پھول بن‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ گو، اُس کا درجہ انشاپرداز کا سہی، لیکن وہ معنی کی اہمیت اور نصیحت کے وزن سے انکاری نہیں۔ ابنِ نشاطی زبان کے خارجی حسن  اور معنی کی گیرائی؛ دونوں کی اہمیت سے واقف اور اُن کا قائل ہے۔ ابن نشاطی نے  شاعری کے دواصول بتائے ہیں۔ پہلا، یہ کہ صنائع بدائع؛ صحت قافیہ اور خوبصورت تشبیہات شاعری کی جان ہیں۔ دوسرا،فن شاعری عالی فن ضرور ہے لیکن 'خالی بات' سے کام نہیں چلتا جب تک کہ اس میں کوئی نصیحت نہ پوشیدہ ہو۔ نصیحت اور صنعت کے مل کر ایک بن جانے سے بلند شاعری وجود میں آتی ہے         ؎
اگرچہ شاعری کا فن ہے عالی
ولے کیا کام آوے بات خالی
طیب انصاری نے کتاب ’نصرتی کی شاعری‘ میں ابن نشاطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”لانگی نس نے ایک صدی بعد وہی بات کہی جو ابنِ نشاطی (پھول بن) نے ایک صدی قبل کہی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر شعر میں نصیحت نہ ہو تو کم از کم صنعت تو ہو- اگر شعر میں نصیحت ہو نہ صنعت تو ایسا شعر ہیچ ہے۔“  (نصرتی کی شاعری،ص:37) ’پھول بن‘ میں ابن نشاطی نے سرخی  ’دربیان آواز دادنِ ہاتف‘  کے تحت سخن، عبارت آرائی، طرزِ موزوں اور طبعِ رواں کے بارے میں شعر کہے ہیں          ؎
سخن کا آج ہوکر تو گہر سنج
سخن کا کھولتا نیں کیا سبب گنج؟
سخن کے پھول کی تاثیرتے توں
معطّر کرجگت یک دھیر تے توں
سخن کوں فہم سوں کرتا ہے توں خوب
سلاست بات کا دھرتا ہے توں خوب
سخن کوں توں سنگارن جانتا ہے
سخن کوں تیرے ہر کئی مانتا ہے
سخن کا طرز تجہ آتا ہے تازا
سخن کا سٹ توں عالم میں آوازا
خدا تج کوں دیا ہے فہم عالی
سخن کے تج کوں بخشا ہے لوالی
تجے معلوم ہے سارے صنائع
نکو اوقات کر توں اپنا ضائع
کہاں مشکل عبارت کس کوں سجتا
عبارت سب کسے وو نیں سمجتا
لگاکر طبع کی موتیاں سوں ڈورا
بچن کا جگ منے ماریا ڈھنڈورا
عَلم کو بات کے اُنچا اُچایا
اپس کی طبع کی زوری دکھایا
نہ تھا جس ٹھار بل، پھرنے کوں تازی
کریا اُس ٹھار میں چوگان بازی
  مثنوی کے آخری حصے میں بھی تقریباً چوالیس شعر اس مضمون سے متعلق پائے جاتے ہیں جس میں کہتا ہے       ؎
جو کوئی صنعت سمجھتا ہے سو گیانی
وہی سمجھے مری یو نکتہ دانی
ہنر کوئی نیں دکھاے سو دکھایا
صنائع ایک کم چالیس لایا
ہرایک مصرعہ اوپر ہوکر بیحد خوب
رکھا میں قافیہ لامستند خوب
یہ دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی کہ غزل کا جادو اُس اولین دور میں ہی لوگوں پر چڑھ رہا تھا چنانچہ غزل کی مقبولیت اور مرتبے کا اعتراف اور اپنی شاعری سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے       ؎
غزل کا مرتبہ گرچہ اول ہے
ولے ہربیت میرا ایک غزل ہے
دکنی تنقیدکی بنیاد
 دکن کے اس ‘تصورشعر’ سے قبل اُردو میں تنقیدِ شعر کی  روایت موجود نہ تھی۔ تنقید شعر کی جو روایت ان تک پہنچی تھی وہ عربی اور فارسی ورثے پر مشتمل تھی۔ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ:
 ‘‘عربی ادب میں اگرچہ مواد اور اسلوب دونوں کی اہمیت مسلم ہے لیکن ہیئت کو موضوع پر فوقیت اس لیے حاصل ہے کہ شاعر کا تصور ان کے ذہن میں فنکار کا نہیں بلکہ مرصع کار یا دستکار کا ہے۔’’
(اردو تنقید کی تاریخ:ڈاکٹر مسیح الزماں:اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ-1983، پہلا اکادمی ایڈیشن:ص22)
 شعری روایت کا یہ شعور صنائع بدائع اور طرزِ اظہار کی برتری پر مبنی تھا۔ تنقیدِ شعر کا جو سرمایہ اِن لوگوں تک پہونچا وہ مشرقی تنقیدی تصورات پر مبنی تھا جس کا بڑا حصہ عربی اور فارسی ادب کے تصور شعر پر مشتمل تھا۔ عہدِ وسطیٰ میں اِن دونوں (عربی و فارسی) زبانوں میں شعری ادب کے تعلق سے تقریباً ایک جیسے معیارات  ملحوظ خاطر رہے ہیں۔ اُس دور کے علمائے ادب لفظ کو معنی پر ترجیح دیتے تھے۔ شاعری کو پرکھنے کے لیے معانی، بیان، بدیع، عروض اور علم قافیہ کی طرف رجوع کیاجاتا تھا۔ ڈاکٹرمسیح الزماں کے مطابق ‘‘ اُردو میں جب باقاعدہ شاعری شروع ہوئی تو اس کے شاعروں کے آگے فارسی ادب کا پربہار چمن لہلہا رہا تھا۔ کانوں میں فارسی نغمہ سنجوں کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ مذاق اسی صنعت گری کی داد دے رہا تھا۔ اس لیے یہاں بھی وہ تمام چیزیں لائی جانے لگیں جو فارسی میں رائج تھیں۔’’ (اُردو تنقید کی تاریخ: مسیح الزماں خاں، ص:41) دکنی شعرا نے انہی معیارات کو سامنے رکھا۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ دکنی ادب اور شمالی ہند میں بارہ ماسہ کی روایت کے حوالے سے، اُردو پر شمالی ہند کی زبانوں؛ اَودھی، برج بھاشا اور بھوج پوری کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور اس کی شعریات کا اثر رہا ہے۔ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے دکنی کی نشوونما میں علاء الدین خلجی کے دَور میں افواج اور فیروزتغلق کے وقت میں شہریوں کے ساتھ آئی ’دہلی و پیرامنش‘کی زبان نیز اکبر کے ذریعے فتحِ گجرات  کے بعد گجری کے ’بقیۃ السلف‘ کے علاوہ برج بھاشا کا بھی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں ”دکنی ہندوستانی کے ارتقا کی بحث میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی ہی کے عہد میں گجرات کے علاوہ دوآبہ کے بھی اربابِ علم و فضل دکن پہنچے کیونکہ اس بادشاہ کو موسیقی اور ہندوؤں کے علوم سے دلچسپی تھی۔ اس کے دربار میں اِن علوم و فنون کے جو ماہر ہندوستان خاص سے آئے تھے وہ یا تو برج بھاشا کے شاعر اور موسیقی دان تھے۔ یا اُن کی زبان پر برج بھاشا کا بہت اثر تھا۔ چنانچہ خود ابراہیم نے برج بھاشا سیکھی اور اس کی کتاب ’نورس‘ اسی زبان میں ہے۔“ (’ہندوستانی لسانیات‘ از ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور،پبلشر: نسیم بک ڈپو، لکھنؤ،سنہ اشاعت: 1975،صفحہ110)
اِسی طرح نظامی کی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کے بارے میں شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے ”کدم راؤ پدم راؤ‘ کی زبان مغلق اور کٹھن ہے...اس کی وجہ یہ ہے کہ نظامی نے فارسی پر تکیہ کرنے کے بجاے تیلگو، کنڑ، کسی قدر مراٹھی اور پھر سنسکرت کے تت سم الفاظ کو کثرت سے راہ دی ہے۔“ (فاروقی، اُردو کا ابتدائی زمانہ، مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ و قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، دہلی سنہ اشاعت 2011 صفحہ 74)
 عبدالقادر سروری، ڈاکٹر زور وغیرہ کی تحقیقات اور ماضی قریب کی تصنیفات مثلاً 'اُردو کا ابتدائی زمانہ' سے پتا چلتا ہے کہ دکنی شعرا کا شعور نہ صرف گذشتہ تنقیدی روایت کے مطابق بلکہ منظم بھی تھا۔ اِن میں اوّلین دَورکے بعض شعرا کا نہایت طاقتور ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ اُنھیں اپنے کلام کی اہمیت اور افادیت کا بھرپور احساس بھی تھا اور اُس پر فخر بھی۔ نصرتی کے چند شعر جو فارسی شعر کی معیار بندی، اس کی مقبولیت اور اس کے بالمقابل دکنی کلام کے تعین قدر کے ضمن میں آئے  ہیں        ؎
معانی کی صورت تے ھو آرسی
کیا شعردکھنی کوں جوں فارسی
فصاحت میں گر فارسی خوش کلام
دھرے فخر ہندی بچن پر مُدام
میں اس دوہنر کے خلاصیاکوں پا
کیا شعر تازہ دونو فن ملا
اَدیکھیا اگرہو حسد سوں کباب
رکھے بول اتنا کہ دکھنی کتاب
سمج دار کو خوب سودے سوں کام
نہ دوکان کا دیکھنا سقف و بام
(مثنوی:گلشنِ عشق-1068ھ،  مرتب: سید محمد یم۔اے: مجلس اشاعت دکنی مخطوطات، حیدرآباد)
نصرتی نے اس نظریہئ شاعری کے مطابق کلام کو طاقِ گردوں پر لے جاکر رکھا ہے۔ سخن کی بیل کو یہاں تک بڑھایا کہ وہ فلک کے منڈوے پے جاچڑھی ہے چنانچہ کہتا ہے   ؎
کیا میں بچن بیل کو یوں پڑی
پڑی سو فلک کاچ منڈوا چڑھی

Asif Mubeen
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007
Mob.: 9990289656

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں