24/3/20

مثنوی اور داستان کی مشترک تہذیب مضمون نگار: توقیر عالم




مثنوی اور داستان کی مشترک تہذیب
توقیر عالم
تلخیص
مثنوی اور داستان دونوں ہی اہم اصناف ہیں۔ مثنوی کی اہمیت کے حوالے سے شبلی نے لکھا تھا کہ ’’انواعِ شاعری میں یہ صنف (مثنوی) تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہے۔  اسی لیے اردو میں بہت ساری مثنویاں تحریر کی گئی ہیں اور ان کی خوبی یہ ہے کہ ان میں تہذیب و ثقافت کی مکمل عکاسی ملتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ داستانوں کا بھی ہے کہ داستانوں کا کینوس بھی مثنوی کی طرح کافی وسیع اور بسیط ہے اور ان دونوں اصناف میں مشترکہ تہذیب کی بڑی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ تہذیبی نقش کے علاوہ عہد کی مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی تمناؤں کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ داستان گو ہوں یا مثنوی نگار دونوں سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے اپنے زمانے کی تہذیب کی عمدہ عکاسی کی ہے۔
کلیدی الفاظ
مثنوی، داستان، الف لیلہ، بوستانِ خیال، طلسمِ ہوش ربا،  سحرالبیان، گلزارِ نسیم، مشترکہ تہذیب،  باغ و بہار، نہال چند لاہوری، دیاشنکر نسیم، میر حسن، لکھنؤ، آرائش محفل، حسن بانو، قصہ حاتم طائی، نسوانی حسن،  قصہ مہر افروز و دلبر، رسومات، طبقاتی کشمکش، سماجی ناہمواری، داستانِ عشق، مذہب، اخلاق، جنسیات، نفسیات۔
———————
ادب کو سماج کا آئینہ کہا گیا ہے۔ یہ عکس بھی ہے اور تنقید بھی ہے۔ کوئی بھی ادب پارہ اپنی عصری حسیت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ چاہے یا ان چاہے، اس میں زمانہ کے حالات شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہر ادب اپنی تہذیب کی آئینہ داری کرتا ہے۔ مثنوی اور داستان میں یہ صورت حال کچھ زیادہ رونما ہوگئی ہے۔ غزل، مرثیہ، قصیدہ، ناول، اور افسانہ سب کا یہی حال ہے۔ جب غالب نے کہا   ؎
رومیں ہے رخش عمرکہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
تو ان کی مراد اس تہذیب کی افرا تفری ہے۔ میر انیس نے مرثیہ کہتے وقت خاک کر بلا اور اس عہد کے لوگوں کو پیش نظر رکھا۔ پھر بھی لکھنوی تہذیب دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی مرثیوں میں آگئی۔ اردو، فارسی جیسی ادبیات میں مثنوی کی روایت انتہائی قدیم ہے۔ بیانیہ شاعری کے لیے یہ صنف کافی موزوں ہوتی ہے۔داخلیت کے بجائے خارجیت کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔مثنوی مختصر بھی ہو سکتی ہے اور طویل بھی۔ اقبال کے دیوان میں صرف دو اشعارکی مثنوی موجود ہے تو دوسری جانب شاہنامہ فردوسی بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے جس میں ساٹھ ہزار اشعار ہیں۔  رستمی کی خاور نامہ میں اسّی ہزار اشعار ہیں ٖٖٖٖضخامت کی طرح موضوعات کی بھی قید نہیں۔ مذہب،تاریخ، فلسفہ،اخلاق، جنسیات، نفسیات، تصوف، عشق، بوالہوسی، طنزو مزاح، ترک دنیااسی طرح کے دیگر عناصر کو مثنوی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ملا وجہی نے اپنی مثنوی قطب مشتری میں نظریاتی تنقیدکو بھی پیش کیا ہے
جو بے ربط بولے تو بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
جسے بات کی ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں
ہنر ہے تو کچ ناز کی برت یاں
کہ سوٹانئیں باندتے رنگ کیاں
زمین و زماں اور مکین و مکاں سے آگے بڑھ کر لامکاں کی گنجائش بھی مثنوی کی صنف میں موجود ہے۔ شوق نیموی نے کہا    ؎
کرو حمد و ثنائے شاہد پاک
گرہ بند نقاب سنت افلاک
محمد سے کہے راز نہانی
کلیم اللہ ؑسے کی لن ترانی
عطاکر مجھ کو وہ دل یا الٰہی
جو ہو دم ساز آہ صبح گاہی
کچھ ایساہی حال داستانوں کا ہے۔ الف لیلہ،بوستان خیال،طلسم ہوش رباجیسی ضخیم داستانیں ہمارے ادب میں موجود ہیں۔ داستان گو حضرات نے طوالت کو ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا۔  بات سے بات پیدا کرنے کے سلسلے میں وہ مختلف قسم کے بیانات پیش کرتے چلے گئے۔ نتیجے کے طور پر یہاں بھی مذہب، اخلاق، تصوف،فلسفہ،جنسیات، نفسیات، اور دیگر انسانی علوم کی آمیزش ہوتی چلی گئی۔ انسان کے سارے جذبات اور سارے علوم کو سمونے کی گنجائش داستانوں میں ہے۔ قصہ گوئی کے لیے مختلف علوم پر قدرت کا ہونا لازمی شرط ہے۔ اسی خوبی کی بنا پر انگریزی نقاد ای ام فارسٹر نے ایشائی ہیروئن شہزاد کو اعلیٰ مرتبت قصہ گو تصور کیا ہے۔
انسانی ضرورتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ عہد بدلنے سے ضرورت بھی بدل جاتی ہے۔ یعنی انسان کی ضرورت ایک خاص تہذیب کی پروردہ ہوتی ہے۔ ہوا، پانی، غذا، نیند، تخلیقیت، طاقت، عہدہ، محبت، سر آوری،سرفروشی اور نہ جانے کتنی طرح کی ضرورتیں تہذیب کی پروردہ ہیں۔ تنفس تو خالق کائنات کی جانب سے مفت میں ہیں۔ داستان اور مثنوی میں یہ ضرورت شاذونادر ہی بیان ہوتی ہے۔پیدائش بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ ہر انسان کو اس مرحلے سے گذرنا پڑتاہے لیکن اسے یاد نہیں اسی طرح موت بھی اہم ضرورت ہے لیکن مرنے والا اس تجربے کو اوروں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے اہم ضرورت محبت کی ہوتی ہے۔ اگر اسے سمیٹا جائے  تو عاشق دل میں اس کی سمائی ہو سکتی ہے اور پھیلایا جائے تو ارض و سما وات کی وسعت بھی اس کے لیے کم پڑ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس ضرورت میںیعنی محبت کو داستان اور مثنوی میں ایک اہم تہذیبی ضرورت کے طور پر پیش کیا گیا۔
مثنوی اور داستان کے اجزائے ترکیبی لگ بھگ ایک جیسے ہوتے ہیں
                (1)         حمدو ثنا       (2)         نعت         (3)         منقبت      (4)         حاکم وقت کی تعریف
                (5)         اپنی تعریف               (6)         سبب تصنیف            (7)         قصہ         (8)         خاتمہ
کوئی ضروری نہیں کہ ہر مثنوی اور ہر داستان میں یہی ترتیب برقرار رکھی جائے پھر بھی غالب رجحان ایساہی ہو رہا ہے۔ صنف مثنوی کا دائرہ  بڑا کشادہ ہے۔ داستان عشق، مہم جوئی، جنگ کے واقعات، بزم کی تفصیل، کسی معاشرہ یا انسان کی تعریف یا تنقیص، اخلاق، نصیحت، مذہب، فلسفہ، نفسیات اور اس طرح کے دیگر مضامین یہاں آسانی سے پیش کیے جاسکتے ہیں جب سب کچھ مفروضہ کی بنیاد پر ہے تب دشواری کیسی۔ آن واحد میں مشرق و مغرب کی سیر کی جا سکتی ہے۔ حقیقی زندگی میں جو آرزوئیں پوری نہیں ہو پائی وہ آرزوئیں داستان اور مثنوی میں تکمیل پاتی ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقی زندگی کے سارے کام مفروضے کی بنیاد پر مکمل ہوتے ہیں زمین پر عالی شان عمارت بعد میں بنتی ہے۔ اس سے پہلے کاغذ پر عمارت ساز ی ہوتی ہے۔ اس سے بھی قبل ذہن میں خاکہ تیار ہوتا ہے۔ دائرہ، زاویہ، ربعہ، مستطیل،  قطر،  وتر، ضلع وغیرہ کی بنیاد ایک خیالی نقطے پر ہوتی ہے جس میںلمبائی، چوڑائی، موٹائی، حجم، کثافت، رقبہ کچھ بھی نہیں۔ اقلیدس کا یہ خیالی نقطہ ساری تعمیرات کی بنیاد ہے۔ ریاضی کے سارے مسائل مفروضے کی بنیاد پر حل کیے جاتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں ائمہ اربعہ کے پیش کردہ بیش تر مسائل مفروضے کی بنیاد پر ہیں۔ یعنی مفروضہ ایک اہم ضرورت ہے انسانی تہذیب کی جس کی بڑی شاندار تصویر کشی داستان اور مثنوی میں مل جاتی ہے۔
مثنوی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مولانا حالی نے مقدمہ شعروشاعری میں لکھا ہے :
’’اردو شاعری کی تمام اصناف میں سب سے کار آمد یہی صنف  (مثنوی )ہے کیونکہ غزل یا قصیدے میں اس وجہ سے کہ اول سے آخر تک ایک ایک قافیہ کی پابندی ہوتی  ہے ‘  ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے مثنوی میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے بلند پایہ شاعری کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘ 
کچھ ایسا ہی خیال مولانا شبلی نعمانی کا بھی ہے۔ شعرالعجم کی چوتھی جلد میں رقم طراز ہیں :
’’انواع شاعری میں یہ صنف (مثنوی )تمام انواع شاعری کی بہ نسبت  زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہے۔ شاعری کے جس قد ر انواع ہیں سب اس میں نہایت خوبی سے ادا ہو سکتے ہیں۔ جذبات انسانی ‘مناظر قدرت ‘  واقعہ نگاری‘ تخیل ان تمام چیزوں کے لیے مثنوی سے زیادہ کوئی میدان ہا تھ نہیں آسکتا۔‘‘
اردو کے دونوں نقاد اس بات پر متفق ہیں کے مثنوی کا دائرہ وسیع ترین ہوتا ہے۔ انسانی تہذیب کی وسعت لامتناہی ہے۔ ادب کی دیگر اصناف میں اتنی سکت نہیں کہ اس عظیم الشان وسعت کا احاطہ کر سکے۔ داستان اور مثنوی کے دامن میں انسانی تہذیب کی وسعت کو پناہ مل سکتی ہے۔
داستان میں عام طور پر ایک طویل قصہ ہوتا ہے جس میں واقعات پر کشش انداز میں بیان کیے جاتے ہیں تاکہ سننے والوں کی دل چسپی اور تجسس بر قرار رہے۔ سامعین یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اب کیا ہوگا۔ مافوق الفطر ی عنا صر  سے بھی داستان گو کو پرہیز نہیں۔ دنیا جہان کی سیر، حسن و عشق کی باتیں، بہادری کے کارنامے  اور زبان و بیان کی دل کشی وہ لازمی اجزا ہیں جو داستانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سارے عناصر مثنوی میں بھی مل جاتے ہیں۔انسانی تہذیب کی ایک اہم ضرورت قصہ گوئی بھی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کا آغاز سب سے پہلے دادا آدم ؑ اور دادی حوا  ؓ نے اپنے بچوں یا بچوں کے بچوں کو کہانی سے ہوتا ہے۔ تب سے آج تک کہانی کا شوق انسان کے بچوں کے دل و دماغ میں جا گزیں ہے۔ دادی اور نانی کی کہانیاں بچے کافی ذوق سے سنتے ہیں۔سمجھتے تو بہت کم ہیں لیکن ان کا اپنا تخیل واقعات کی کڑی ملانے میں معاون ہوتا ہے۔ کچھ کہانیاں بے سرو پا بھی ہوتی  ہیں۔  پھر بھی انسانی شخصیت پر اس کے اثر ات سے انکار ممکن نہیں۔ بچپن کی سنی ہوئی اوٹ پٹانگ کہانیاں تا عمر انسان کو زندگی کی تاریک راہوں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ داستان اور مثنوی دونوں سے یہ تہذیبی ضرورت پوری ہوتی ہے۔
اردو کی بیشتر طویل مثنویاں منظوم داستان کہلانے کی زیادہ حقدار ہیں۔ گلشن عشق، قطب مشتری، سحرالبیان، گلزار نسیم وغیرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے داستانیں ہیں جو نظم کی صورت میں لکھی گئی ہیں نثر میں بھی کئی داستانیں لکھی گئیں۔ بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، گل بکائو لی، سب رس، الف لیلہ، چہار درویش، باغ وبہار، وغیرہ میں بھی ایک بنیادی کہانی اور چند ذیلی کہانیاں ہیں جنہیں نثر کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اظہار ذات کی بہت ساری شکلیں ہیں اشارہ، کنایہ، استعارہ،اور سمبل کے علاوہ زبان بھی اہم ذریعہ ہے۔ عام گفتگو عموماً  نثر میں ہوتی ہے۔ شاعری بھی ایک طریقہ ہے۔ نثر کی بہ نسبت نظم میں موزونیت، موسیقیت، ہم آہنگی اور پردہ داری زیادہ ہوتی ہے۔ عہد قدیم میں کئی قصے شعری پیکر میں پیش کیے گئے جب کہ نثر میں پیش کرنے کی بھی گنجائش تھی، شاہنامہ فردوسی میں کئی قصے ہیں جنھیں شاعری کی صورت میں پیش کیا گیا۔ ان ہی قصوں کو  نثر میں لکھنے کی گنجائش تھی۔ کئی نثر نویسوں نے ناول یا داستان کی صورت میںانھیں قلم بند کر ڈالا۔ ڈیوائن کا میڈی، ایلیڈ، اوڈیسی، جیسی شاعری میں جو قصے شامل ہیں انھیں نثری شکل کئی مصنفین نے دے ڈالی ہے، مثنوی سحرالبیان کی مکمل روداد داستان بے نظیر میں موجود ہے۔ اسی طرح قصہ گل بکائولی کو پنڈ ت دیا شنکر نسیم نے مثنوی گلزار نسیم اور نہال چند لاہوری نے داستان مذہب عشق کے طور پر لکھا۔یہاں آکر داستان اور مثنوی کی تہذیب مشترک ہو جاتی ہے۔
داستان کا کینوس بھی مثنوی کی طرح کافی بڑا ہوتا ہے رجا ئیت اس کا خاص وصف ہے ناکامی کو کامیابی اور نا آسودگی کو آسودگی میں تبدیل کرنے کا فن داستان گو کو بہ خوبی آتا ہے۔ داستان جیسے جیسے اپنا سفر طے کرتی ہے، اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ داستانوں میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔ خواہش، تمنا، آرزو، خواب، امید، ارمان سب کی تکمیل اس صنف میں ممکن ہے سچائی کی اپنی طاقت ہوتی ہے نیک لوگوں کے مدد گار بہت سارے ہوتے ہیں اپنی عقل، ہمت، محنت، جرات اور پرو گرام تو ہر کسی کے ساتھ ہیں جن کی مد د سے بہت سارے کام ممکن ہیں۔اگر دشواری ہوتی تو اتفاقات کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی کام نہیں بن پڑا تو نظر افروز سرمہ اور سلیمانی ٹوپی موجود ہے پھر دیگر مخلوقات سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔  مباداکوئی تلسی داس نے بھالو اور بندر سے بھی کام لے لیا۔ پالتو جانور تو اپنے ہوتے ہیں، ان سے تو ہمیشہ اپنا پن کی امید ہے۔ گیدڑ، لومڑی، ہرن، سانپ، طوطا،مینا سیمرغ بھی تو اسی خالق کائنات کی مخلوق ہیں جن سے مدد ممکن ہے اگر یہاں بھی کامیابی ممکن نہیں ہو سکی تو جن، دیو، پری،  ہمزاد وغیرہ سے مددلے لی یا پھر کوئی بزرگ نمودار ہوگئے ان کے دست محرم نے ساری مشکلات کو آسان کر دیا۔ ان سارے عوامل کے علاوہ بھی سب سے بڑی قوت موجود ہے۔ تائید ایزدی ہمیشہ اچھوں کے ساتھ رہتی ہے تہذیب کی فکری اور عملی پہنچ پر جتنی بھی دشواریاں ہو سکتی ہیں سب کامل داستان اور مثنوی میں موجود ہیں۔
داستان اور مثنوی دونوں اصنا ف میں مشترکہ تہذیب پائی جاتی ہے۔ سماجی رسم ورواج رہن سہن اور ثقافت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ انسانی تمنائوں کی بھر پور عکاسی بھی ان میں ملتی ہے۔ تہذیبی نقش کے علاوہ عہد کی مشکلات کابھی بھر پور اندازہ ان اصناف ادب سے ہوجاتا ہے۔ نامراد اور تنگ دامنی کے دور میں داستانوں اور مثنویوں کی زیادہ ترقی کی تمنائیں اور آرزوئیں تھیں لیکن وسائل محدود تھے۔ حقیقی زندگی میں جو ممکن نہیں ہو پایا اس کی تکمیل خیالی دنیا میں کی گئی۔ جب آرام و سکون میسر نہ ہو ںتو ذہنی آسودگی کے لیے کچھ نہ کچھ سامان چاہیے۔ یہی ہے وہ مشترکہ تہذیب جو داستان اور مثنوی دونوں میں ملتی ہے۔ سماجی نا ہمواریوں کی تصویر بھی یہاں صاف دکھائی پرتی ہے۔ اہالیان، موالیان، بے شمار نوکر چاکر، غلام، کنیز، سب کا وجود داستان اور مثنوی میں ملتا ہے۔ کلاس کنفلکٹ کی واضح تصویر مثنوی اور داستان میں نہیں پھر بھی تہذیب کا ہر طبقہ یہاں موجود ہے اور اپنی حدود میں رہ کر یا کبھی کبھی باہر جاکر بھی اپنا رول پورا کرتا ہے۔ عہد جدید کے ناول اور افسانوں میں جس طرح کے حقیقی کردار ملتے ہیں،  ویسی کردار سازی کی توقع مثنوی اور داستان سے نہیںکی جاسکتی۔ زیادہ تر فلیٹ کردارملتے ہیں جن کے عمل کو قاری یا سامع پہلے ہی سے بھانپ لیتے ہیں، ایسے کردار دیر تک اور دور تک ذہنوں میں باقی رہ جاتے ہیں۔ آج بھی شہزاد، ملا نصرالدین، حاتم طائی، حسن بانو، سند باد جہازی، علاء الدین، آزاد بخت  جیسے کردار پڑھنے والوں کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ داستان اور مثنوی کی یہ مشترکہ تہذیبی صفت ہے۔
 داستان گو حضرات یا مثنوی نگار شعرا نے اپنے عہد کی تہذیب کو پیش کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی پھر بھی غیر ارادی طور پر انھوں نے اپنے زمانہ کے عکاسی کر دی۔ تہذیب کے مفہوم میں ایسی بہت ساری باتیں آجاتی ہیں جن کاتعلق کسی زمانے کے فکری اور عملی نظام سے ہوتا ہے۔ اس نظام میں کتابی علوم سے زیادہ روایات کو دخل ہوتا ہے۔کوئی اصل ہو یا نہ ہو پھر بھی سماج میں کئی طرح کی رسمیں رائج رہتی ہیں ۔ہمارا ملک ہندستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ انیکتا میں ایکتا اس کی خاصیت بتائی گئی ہے۔کافی حد تک اس ملک کو عجائب کدہ کہہ سکتے ہیں۔ اس عجائب کدہ کے نقش ونگار داستان اور مثنوی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ تہذیب کے مختلف پہلوئو ں کی بازیافت ان اصناف ادب سے کی جاسکتی ہے۔ تہذیبی مسائل اوران مسائل کے حل بھی داستان اور مثنوی میں موجود ہیں۔
                امرت سے مرے تو زہر کیوں دو                گلزار نسیم
                جادووہ جو سر پر چڑھ کر بولے      گلزار نسیم
                سدا نائو کاغذ کی چلتی نہیں           سحر البیان
                مسافر سے بھی کوئی کرتا ہے پیت
                مثل ہے کہ جوگی ہوئے کس کے پیت        سحرالبیان
                سچ کہنے والے کو ہمیشہ راحت ہے                 آرائش محفل
                بہن کے گھر بھائی کتا اور ساس کے گھر جنوائی کتا            باغ وبہار
                حق تعالیٰ نے آدمی کو انسانیت کا جامہ عطاکیا ہے           باغ وبہار
                شوخ دل، کا سانپ اورصلح دشمن کایقین نہیں کرنا چاہیے               بیتال پچیسی
                نیک عورت شوہر کے عیوب کی پردہ داری کرتی ہے      بیتال پچیسی
                بنی آدم کو ہر ایک پہلو سے بزرگی حاصل ہے اور وہ
                فہم و فراست میں دیووں سے کہیں زیادہ ہے               قصہ گل بکائولی
                 خدا کی قدرت پر ہی بھروسہ ہے۔
                سازوسامان بہت دور تک ساتھ نہیں دیتے   قصہ گل بکائولی
پنڈ ت اور جیوتشی کی خد مت لینے کا رواج پہلے بھی تھا آج بھی ہے میر حسن نے مثنوی سحرالبیان میں لکھا ہے    ؎
کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار
تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار
جنم پترا شاہ کا دیکھ کر
تلا اور بر کشیک پر کر نظر
کہا رام جی کی ہے تجھ پر دیا
چندرما سا بالک ترے ہووے گا
نکلتے ہیں اب خوشی کے بچن
نہ ہوگی خوشی تو نہیں برہمن
اسی سے ملتا جلتا ماجراعیسوی خان نے قصہ مہرافرزو دلبر میں لکھا ہے :
ـ’’بادشاہ سے فقیر نے کہا کہ اے بادشاہ !تیرے یہاں بیٹا ہو گا۔اور بہت قابل ہوگا۔ تین جا خاطر جمع سے بیٹھو اور جب تیرے بیٹاہوئے تب تو شہر میں داخل ہو جو اوراس بیٹے کا نام مہر افروزرکھیے۔ یہ کہہ کر فقیر رخصت ہوا بادشا ہ بہت خوش ہوا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بادشاہ کے پری چہرہ نام بیگم تھی تس کے پیٹ رہا۔ کیتیک دنوں میں ساعت نیک میں بادشاہ کے بیٹا ہوا۔‘‘
میر امن کی تصنیف با غ و بہار میں بھی ایسی روایت موجود ہے۔ اولاد نرینہ کی خواہش عموماً ہر شادی شدہ جوڑا کو رہتی ہے۔ یہ ہندستان کا فکری پہلو سے جس کی عکاسی دانستہ یا نا دانستہ طوپر داستان گو اور مثنوی نگار نے کر دی ہے۔ قطب مشتری میں ایسی تفصیل و جہی نے پیش کی ہے     ؎
لگا دیکھنے فال ابرز رمال
سورج چاند کو پھانسے نیت سوں گھال
کہا علم میں دیکھوں دو آب کے
کہ فرزند یوں بخت ور یاب کے
مثنوی سحرالبیان لکھنؤ میں لکھی گئی۔ میر حسن اپنے سادہ طرز بیان کی مناسبت سے دلی اسکول کے نمائندہ مانے جاتے ہیں۔ ان کے عہد میں مغلیہ سلطنت کا جاہ و جلال  ختم ہو چکا تھا پھر بھی شان باقی تھی۔ ہندستانی تہذیب پراس کے گہرے اثرات ہوئے۔ اس مثنوی میں جو تفصیل ملتی ہے وہ نمائش کا انداز ہے جس سے ساری تہذیب متاثر ہو چکی تھی۔ آلات موسیقی میں رباب، طبلہ، بین، طنبورہ، چنگ، ستار، قرنا، جھانجھ، مردنگ سب کچھ موجود ہے پھر بھی کوئی ساز بے موقع نہیں بجتا۔خادمائوں کی کھیپ کی کھیپ اس مثنوی میں دکھائی پڑتی ہے۔ ان کا نام چنبیلی، رنگیلی کیتکی، ماہتاب، ہنس مکھ، دل لگن، چت لگن وغیرہ وغیرہ یوں ہی نہیں دے دیا گیا بلکہ یہ ان کی خاصیت ہے صرف پیار کے نام یا عرفیت نہیں۔
مولانا جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلق میں لکھا ہے کہ خاندان عباسیہ کے بیشتر خلفا کنیز زا دہ تھے۔ ایسی روایت دیگر مقامات پر بھی ملتی ہے۔ ملا وجہی نے مثنوی قطب مشتری میں بڑی مہارت سے بھاگ متی کو پیش کر دیا جو بنیادی طور پر ایک رقاصہ تھی۔ شہزادہ کا دل اس پر مائل ہو گیا وہ بیگم حیدر محل ہو گئی اور اسی کی خاطر گول کنڈہ کے قریب ایک شہر بسایا گیا جسے آج حیدرا ٓباد کہا جاتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے اپنے شعر میں اس کا ذکر کیا ہے    ؎
ٹیلا سو حج پشانی ات بھاگ کی نشانی
کن موتی ہے نورانی زہرا، مشتری
واضح طور پر نہیں پھر بھی اشارتاً وجہی نے بھاگ متی کا نام اپنی مثنوی میں لکھ دیا ہے       ؎
میں راضی ہوں اپنے بھاگ سو
سمندر کو نین خوف کچ آگ سو
خدا عاشقاں کے لکھا بھاگ میں
کہ جلتا رہے عشق کے آگ میں
بھاگ متی سے حیدر پیاری یا حیدر محل بننے والی وہ تنہا نہیں ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی ماں بھاگ وتی بھی ہندو تھی۔
شاہان وقت نے اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کی۔ ہندوستان کے بیشترمسلم فرماں روا سیکولر ذہنیت کے تھے پھر بھی اپنے اخلاق اور طرز عمل سے انھوں نے اسلام کو عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کی ملا وجہی نے بادشاہ وقت کی مد ح میں لکھا ہے      ؎
کیا شاہ، پادشاہی عجب
مسلماں ہوا یوں تلنگانہ سب
انسانی شرافت کا دارو مدار توفیق الٰہی پر ہے ورنہ ہر کوئی گنہگار ہے۔ رحمت ایزدی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ وہ جو کرے بہ سرو چشم       ؎
                                گنہگار ہمیں سب گنہگار ہے
                                جکچ توں کرے سب سزاوار ہے
یہ دنیا تو صرف دارالعمل ہے۔ ٹھہر نے کی جگہ نہیں۔ عیش وطرب سب کچھ بے معنیٰ      ؎
کہ دائم رہن کا نئیں ٹھاریاں
نئیں کوئی آیا ہے دو بار یاں 
مومن کی شناخت شاعر نے کچھ اس انداز میں پیش کی ہے     ؎
جے مومن مسلمان دل نرم ہے
نشاں اس کے ایماں کا شرم ہے
انسانی تہذیب کی عام سوچ کو وجہی نے اپنے اشعار میں پیش کردیا۔ مثنوی قطب مشتری کے مطابق عاشق کو باہمت، شجاع، خوددار، غیرت مند، عالی حوصلہ، صاحب علم اور بے باک ہونا چاہیے اور محبوبہ کو شیریں زبان، غنچہ دہن، دراز زلف، سرو قد، منحنی کمر، بڑی بڑی آنکھوں والی، ابھری ہوئی چھاتی والی، نیچی نگاہوں والی، اور پاک دامن ہونا چاہیے۔ نسوانی حسن کی صرف ایک جھلک ملاحظہ ہو   ؎
دے پتلی یوں نار کی آنک میں 
کہ بیٹھا بھنورا نب کی پھانک میں 
جب وہ نسوانی حسن کا ذکر کرتاہے تو پردۂ خیال جاتا رہتا ہے    ؎
کہ ہیں کو دکھاتی سینہ کھول کر
جہاں قطب شاہ اور مشتری کے وصل کا ذکر آیا ہے شاعر ساری پابندیوں در کنار کر مزہ لے لے کر واقعے کا ذکر کرتا ہے    ؎
 گھنگھٹ کھول بو سے لیے ذوق سوں
سوچولی کے بند توڑ سب شوق سوں
 نہا ل چند لا ہوری کی داستان مذہب عشق اور پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم میں آغاز قصہ ایک جیسا ہے۔ ممکن ہے دونوں کا ماخذ ایک ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ نسیم نے نہال چند سے استفادہ کیا ہو مذہب عشق کا آغا ز داستان اس طرح ہے :
ــ’’پورب کے شہر یاروں میں سے کسی شہر کا ایک بادشاہ تھا زین الملک نام۔ جمال اس کاجیسے ماہ منیر اور عدل و انصاف اور شجاعت میں بے نظیر۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ ہر ایک علم وفضل میں علامئہ زماں اور جواں مردی میں رستم دوراں۔ خدا کی قدرت کاملہ سے ایک بیٹا آفتاب کی طرح جہان کو روشن کرنے والا اور چودھوی را ت کی طرح اندھیرے کا دور کرنے والا پیدا ہوا۔‘‘
با لکل یہی تفصیل دیا شنکر نسیم نے بھی اپنی مثنوی میں پیش کی ہے     ؎    
پورب میں تھا ایک شہنشاہ
سلطان زین الملک ذی جاہ
لشکر کش و تاجدار تھا وہ
دشمن کش و شہر یار تھا وہ
خالق نے دیے تھے چار فرزند
دانا، عاقل، ذکی، خردمند
نقشہ ایک اور نے جمایا
پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا
نسیم کے عہد کا لکھنؤ عشر ت کدہ تھا۔ ایک عام ہندو یا عام مسلمان کو مذہب سے زیادہ قربت نہیں تھی (آج بھی وہی حال ہے) تہوار، عرس، کتھا، میلا، دکشنا، چڑھاوا، نیاز، فاتحہ، اور اسی قبیل کی رسموں کو مذہب سمجھ لیا گیا، عوام کا حال تو بے حال تھا لیکن امراء کا طبقہ عیش میں منہمک تھا۔ نسیم نے ان سارے عوامل کو دائر ۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو وہ تفصیل سے گریز کرتے ہیں لیکن جہاں عریانیت کا مقام آتا ہے تو وہ عوام کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے تفصیل پیش کر دیتے ہیں    ؎
پردہ جو حجاب سا الٹا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی
چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی
برجوں پہ سے تھی چاندنی تھی سرکی
لپٹے تھے جو بال کروٹوں میں
بل کھا گئی تھی کمر لٹوں میں
شب و صل کی تفصیل پیش کرنے میں انھیں دشواری ہوئی تو آسانی سے کہہ دیا      ؎
کیا آگے لکھوں کہ اب سر دست
ہو تا ہے دوات میں قلم مست
سوئمنگ پول کی تصویر ملاحظہ ہو    ؎
بے ننگ یہ سب نہا رہی تھیں
موجیں باہم اڑا رہی تھیں
آرائش محفل میں حیدر بخش حید ری نے جن سات سوالوں کو پیش کیا ان میں ہر ایک کا براہ راست تعلق ہماری تہذیب سے ہے۔ انسانی زند گی میں مشکلات آتی رہتی ہیں جن کا حل ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشر ہ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ مان لیا ہے کہ سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے۔ اچھے کا انجام اچھا اور برے کا انجام برا ہوتا ہے۔ ایسا تہذیبی شعور لگ بھگ ساری داستانوں اور مثنویوں میں ہے۔ ایک ہندوستانی لڑکی اپنے لیے کیسا شوہر پسند کرتی ہے ؟  اس سوال کا جواب قصہ حاتم طائی کی ہیروئن حسن بانو کے اشتہار میں دیکھ لیجیے۔
(1)         ایک با ر دیکھا ہے، دوسری بار کی ہوس ہے۔
(2)         نیکی کر دریا میں ڈال
(3)         کسی سے بدی نہ کر، اگر کرے گا تو وہی پاوے  گا۔
(4)         سچ کہنے والے کو ہمیشہ راحت ہے۔
(5)         کوہ ندا کی خبر لا دے۔
(6)         وہ موتی جومر غابی کے انڈے کے برابر ہے اور موجود ہے، اس کی جوڑی کا موتی پیدا کرے۔
(7)         حمام باد گرد کی خبر لا دے۔ 
یہ کوئی معمولی سوالات نہ تھے۔ علم، ہمت، محنت، دور اندیشی،ترکیب، پروگرام سب کچھ چاہیے اور بھر پور چاہیے۔ لیکن اس دو شیزہ کے خوابوں کا کیا ہوا؟  خواب کو خواب ہی رہنے دو، کوئی نام نہ دو۔ حاتم  نے سارے جہان سے مروت کی، اس نے کسی کا دل نہیں توڑا۔ اگر توڑا تو صرف حسن بانو کا دل۔حاتم کی مہارت دیکھ کر پہلے تو حسن آرا نے سمجھا کہ ملا ہے کوئی جیالا نوجوان۔ لیکن ملا کون؟  ایک نکما انسان۔ سوالات کے پرچے حاتم نے حل کردیے اور گولڈ مڈل مل گیا منیر شامی کو۔ پھر بھی داستان اور مثنوی کی مشترکہ تہذیب کہتی ہے ستیہ میو جیتے۔
Prof. (Dr.) Md. Tauquir Alam
Maulana Mazharul Haque Arabic & Persian University
Harding Road, Near Haj Bhawan
Patna - 800001
Mob.: 09934688876
Email.: proftauqiralam@gmail.com

سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...