24/3/20

ہندوستانی عہدِ وسطیٰ کا قانونی منظرنامہ مضمون نگار:۔ صالح امین




ہندوستانی عہدِ وسطیٰ کا قانونی منظرنامہ
صالح امین
تلخیص
ہندوستان میں جو حکومتیں قائم ہوئیں ان میں عہد وسطیٰ کی دہلی سلطنت بھی ہے۔ یہ ہندوستان میں قائم ہونے والی پہلی مسلم حکومت تھی۔ اس حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس کے حکمرانوں نے یہاں عوام کی خوشحالی، نظم وضبط کے قیام اور قانون وانصاف کی بالا دستی کے لیے عملی کوششیں کیں، اور اس سلسلے میں مسلم وغیر مسلم یا ملکی وغیر ملکی وغیرہ کی کوئی تفریق نہیں کی۔ چنانچہ انھوں نے جہاںمسلم عوام   کی مذہبی رہنمائی کے لیے مسلم قاضیوں اور مفتیوں کی تقرریاں کیں، وہیں غیر مسلم شہریوںاور رعایا کے تنازعات فیصل کرنے کے لیے غیر مسلم ماہرین قانون بھی مقرر کیے۔
سلاطین دہلی کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نو پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ماہرین قانون کی محفلیں اور مجلسیں آراستہ کیا کرتے تھے، جن میں وہ خود بھی شریک ہوتے تھے، ان مجلسوں کو محضر کہا جاتا تھا۔ بعض حکمراں کھانے کے دستر خوان پر بھی ماہرین قانون کے ساتھ مختلف قانونی مسائل پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں قانون دانوں کی ایک جماعت ان کے دربار میں مستقل طور پر موجود رہتی تھی جو بہ وقت ضرورت ان کو قانونی مشورے دیا کرتی تھی۔  دہلی سلطنت کے حکمرانوں نے قانونی مسائل میں رہنمائی کے لیے آسان اور عام فہم انداز میں قانونی کتابیں بھی مرتب کرائی تھیں۔ ایسی کچھ کتابیں انسان کی عملی زندگی میں قانونی رہنمائی کے ساتھ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ سے متعلق ہدایات فراہم کرتی ہیں۔ ان کتابوں کی تالیف وترتیب کے پیش نظر بھی یہی مقصد کارفرما تھا کہ عوام قانونی احکام ومسائل سے واقف ہوں اور ان کی روشنی میں پرامن زندگی گذاریں۔
زیر نظر مقالے میں دہلی سلطنت میں قانون کی بالا دستی، سلاطین دہلی کی انصاف اور قانون کے تئیں دلچسپی اور ماہرین قانون کی قدر دانی کے واقعات اور مثالوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دور کے ماہرین قانون، قاضیوں اور مفتیوں کی تقرری اور ان کے کاموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دور میں مرتب کی جانے والی قانونی کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ان میں مذکور مسائل کی نوعیت کا جائزہ لینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
کلیدی الفاظ
دہلی سلطنت، سلاطین دہلی، ماہرین قانون، مفتی، قاضی، قانونی کتاب، غیر مسلم رعایا، سماجی مسائل
ہندوستان میں 1206 کے اندر جب دہلی سلطنت قائم ہوئی اور اس نے بتدریج یہاں ایک مستحکم حکومت فراہم کی، تو ان کے سامنے نظم و انتظام اور فوجی و معاشی میدانوں میں بہتر فیصلے کرنے کے ساتھ یہ بات بھی درپیش تھی کہ وہ یہاں کے عوام کے لیے عدلیہ اور قانون کی بہتر حکمرانی قائم کریں۔ ان کے لیے یہ بات اور بھی اہم تھی کہ وہ خودایک ایسی  مذہبی اقلیت کی شکل میں تھے، جن کے چاروں طرف بھاری اکثریت دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی تھی۔ اس صورت حال میں انھوں نے جہاں اس بات کی کوشش کی کہ اکثریتی طبقے کی عوام کو ہر طرح کی آزادی اور خوشحالی فراہم کرکے ان کا اعتماد اور تعاون حاصل کریں اور ایک پرامن حکومت فراہم کرسکیں، وہیں انھوں نے حکومت کی اپنی کارکردگی کے لیے قوانین تیار کرائے، اور اس سلسلے کی کتابیں تصنیف کرائیں۔ چنا نچہ ہم د یکھتے ہیں کہ اس عہد میں مختلف حکمرانوں کی سرپرستی میں قانون اور فتاویٰ کی کتابیں لکھی گئیں۔
یہ مطالعہ بڑا دلچسپ ہوگا کہ قانون کے میدان میں انھوں نے کیا انتظامات کیے ؟ خود ان حکمرانوں کے اپنے قانونی رجحانات کیا تھے؟ اور ان کی نگرانی و سرپرستی میں کس طرح کی قانونی کتابیں اور فتاویٰ کے مجموعے تیار کیے گئے؟ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ایسی متعدد کتابیں آج یا تو مطبوعہ شکل میں یا مخطوطات کے طور پر دستیاب ہیں، اور ان کا مطا لعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جہاں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کے حکمرانوں کا قانونی میدان میں کیا رجحان رہا ہے، وہیں یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس دور میں لکھی جانے والی ان کتابوں کے موضوعات کیا رہے ہیں؟ اس سے اس دور کا سماجی منظر نامہ بھی ہمارے سامنے ابھر تا ہے۔
قوانین میں سلاطین دہلی کی دلچسپی:
دہلی سلطنت کا پہلا حکمراں قطب الدین ایبک تھا، وہ خود بڑا عالم اور علماء نواز تھا۔ وہ جب دہلی سلطنت کے تخت پر متمکن ہوا تو اس نے علماء اور قانون دانوں کے لیے مشاہرے اور روزینے مقرر کیے۔ اس کے علاوہ بڑی مقدار میں مال واسباب اور غلہ وغیرہ ذاتی طور پر ان کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا۔ چنانچہ محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے کہ ’’قطب الدین ایبک باقاعدہ علما وفقہا اور قرا ومشائخ کو مشاہرے اور روزینے عطا کرتا اور ان کی خدمت کے لیے کوشاں رہتا‘‘۔ 1؎ قطب الدین ایبک ایک مسلم حکمراں ہونے کی وجہ سے فطری طور پر اس بات کے لیے کوشاں ہوا کہ اس کا نظام حکومت اسلامی قانون کے مطابق ہو، چنانچہ اس نے تخت نشینی کے ساتھ ہی اپنی حکومت اسلامی احکام وقوانین کی بنیاد پر قائم کرنے کی کوشش کی،اور اس کے لیے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ ایسے تمام ٹیکسس اور محصولات جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کو یکسر روک دیا جائے اور صرف اسلام کی متعین کردہ مقدار ہی میں وصول کی جائے۔ 2؎
ناصر الدین قباچہ، قطب الدین ایبک کا داماد تھا اور اس کی جانب سے اوچ کا حاکم متعین تھا۔ جب قطب الدین کی وفات ہوئی تو وہ  وہاں کا حکمراں ہو گیا تھا۔ اس کی یہ حکومت ملتان سے دیبل تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے بائیس سالوں تک اس وسیع علاقے پر حکومت کی۔ اس دوران ملتان علم کا بڑا مرکز بنا رہا اور وہاں علماء وماہرین قانون کی بڑی تعداد موجود رہی۔ چنانچہ اس دور کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ’قبۃ الاسلام‘ کے نام کے ساتھ ملتا ہے۔
خاندان غلاماں کا ہی ایک دوسرا حکمراں شمس الدین التمش تھا، اس کی نظر میں علماء اور قانون دانوں کی قدر ومنزلت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ایک مرتبہ اس کے دربار میں قاضی قطب الدین کاشانی کی آمد ہوئی تو اس نے قاضی صاحب کو اپنے پہلو میں بٹھایا، اسی طرح ایک مرتبہ قاضی حمید الدین ناگوری اس کے دربار میں تشریف لائے، تو اس نے اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر کر ان کا استقبال کیا، اور ایک دوسرے موقع پر ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کے قدموں پر گر پڑا۔ 3؎
سلاطین دہلی میں سے غیاث الدین بلبن وہ عظیم حکمراں ہے کہ جب منگولوں کی ہلاکت خیزیوں سے پریشان ہو کر مختلف اسلامی ممالک کے بے شمار اہل علم ہندوستان کو محفوظ پناہ سمجھ کر یہاں کا رخ کر رہے تھے تو اس نے ان تمام کو پوری فراخ دلی اور عزت وتکریم کے ساتھ پناہ دی۔ جس کی وجہ سے دہلی اور اطراف کے علاقے اہل علم وفضل کی چہل پہل سے علم کا گہوارہ ہو گئے تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کی علم پروری کی یہ بڑی مثال ہے کہ جب تک اس کے دسترخوان پر علماء نہ ہوتے وہ کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ پھر وہ اسی مجلس طعام میں علماء سے قانونی مسائل دریافت کرتا اور علماء اس کی رہنمائی کرتے تھے، خود علماء بھی مختلف مسائل پر آپس میں تبادلہ خیال کیا کرتے تھے اور دلائل پر مباحثے بھی ہوتے تھے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ علاء الدین خلجی کے زمانے میں دہلی اور اس کے اطراف کے علاقے علماء اور قانون دانوں کا گہوارہ بن گئے تھے اور خود اس کے دربار میں ماہرین قانون کی بڑی تعداد موجود رہتی تھی۔ ان میں سے بعض افراد قانونی میدان میں بڑے بلند مقام پر فائز تھے چنانچہ ضیاء الدین برنی نے ان پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے انھیں امام ابو یوسف اور امام محمد سے بھی فائق قرار دیا ہے۔
سلاطین دہلی ایسی مجلسیں بھی آراستہ کیا کرتے تھے جن میں علماء اور قانون دانوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی اور پھر وہ اہم درپیش قانونی مسائل پر تبادلہ خیال اور اس کے احکام کے دلائل پر مباحثہ کرتے تھے۔ محمد تغلق جسے سلاطین دہلی میں نمایاں مقام حاصل تھا، اس کے عہد کی یہ مجلسیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک جانب وہ علوم وفنون کا بڑا شیدائی تھا تو دوسری جانب وہ کئی علوم میں خود مہارت رکھتا تھا اور ان مجلسوں میں جو مباحثے اور مختلف مسائل کے دلائل پر بتادلہ خیال ہوتے تھے ان میں وہ بذات خود حصہ لیتا تھا، چنانچہ خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ اسے ہدایہ جو حنفی مسلک کی اہم اور مرجع کی حیثیت کی حامل قانونی کتاب ہے اس کا ایک حصہ زبانی یاد تھا۔4؎ پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے مسالک الابصار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسے پوری ہدایہ زبانی یاد تھی۔5؎  اس کے دور میں علماء کی تعداد میں معتد بہ اضافہ ہوا، اس دور میں علماء کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف اس کے دستر خوان پر دو سو علماء موجود ہوتے تھے اور وہ اس وقت بھی ان سے قانونی مذاکرے کیا کرتا تھا۔ اس نے مزید اہتمام یہ کیا کہ اس کے دربار میں جو بھی سائل یا فریادی کوئی مقدمہ لے کر آتا تو ان کے معاملے میں مشورے کرنے اور قانونی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے چار ماہرین قانون کو مقرر کر رکھا تھا۔6؎
علماء وقانون دانوں کے ساتھ سلاطین دہلی کے تعلق اور ان کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت کا پتا اس بات سے بھی چلتا ہے کہ وہ مختلف علوم وفنون کے ماہرین کو دور دراز علاقوں سے اپنے یہاں بلا کر سکونت اختیار کرنے کی درخواست کرتے تھے اور ان تمام امور سے متعلق اخراجات کا بار خود اٹھاتے تھے، چنانچہ محمد تغلق کے متعلق پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے ابن بطوطہ اور شہاب الدین عمری وغیرہ کے حوالے سے لکھا  ہے کہ اس نے سمرقند کے معروف عالم دین برہان الدین اور شیراز کے ممتاز ماہر قانون قاضی مجد الدین کو ہندوستان لانے کے لیے اپنے مخصوص سفراء بھیجے تھے اور ان کے اخراجات سفر کے لیے خطیر رقم مختص کی تھی۔وہ آگے مزید لکھتے ہیں کہ سلطان نے دوسری مسلم حکومتوں کی طرح مختلف ممالک سے قانون کی نادر کتابیں منگانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ اس نے مکاتب میں درس وتدریس کے لیے ہزاروں ماہرین قانون مقرر کیے تھے۔ 7؎
سلاطین دہلی میں سے تغلق خاندان کا قابل حکمراں فیروز شاہ تغلق کو اسلامی قانون میں بڑی دلچسپی تھی۔ قانونی کتابیں پڑھوا کر سننا اس کے معمولات میں داخل تھا۔ چنانچہ اسے حنفی مسلک کے قوانین کے علاوہ دیگر مسالک کے بہت سے قوانین سے واقفیت حاصل ہو گئی تھی۔8؎ اس کی اسی دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ اس نے اپنی نگرانی اور سرپرستی میں قانونی احکام ومسائل پر مشتمل کتابیں بھی مرتب کرائی تھیں۔
پھر دہلی سلطنت کے آخری دور میں سکندر لودھی کے دربار میں بھی قانون دانوں کو بڑی قدر ومنزلت حاصل رہی۔ سکندر لودھی کا علماء اور قانون دانوں کے تئیں یہ محبت اور عزت واحترام ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ انھیں اپنے خواب گاہ میں بلا کر بٹھاتا تھا اور ان سے قانونی مسائل میں تبادلہ خیال کیا کرتا تھا۔9؎
سلاطین دہلی نے قانون کی تعلیمات کو عام کرنے اور طلبہ کے اندر اس کی مہارت پیدا کرنے کے لیے بہت سے مدارس بھی قائم کیے تھے، چنانچہ ان مدارس کے بارے میں  سید صباح الدین عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ صرف دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم تھے جن میں سے ایک مدرسہ میں شافعی فقہ کے مطابق قانون کی تعلیم ہوتی تھی اور بقیہ سارے مدرسوں میں فقہ حنفی کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی۔ 10؎
سلاطین دہلی کا یہ پہلو بہت ممتاز اور قابل تحسین ہے کہ انھوں نے جہاں مسلمانوں کے درمیان قیام نظم وضبط اور قانون وانصاف کی بالا دستی کی کوششیں کیں، وہیں غیر مسلموں کے مذہبی معاملات اور عقائد ونظریات سے متعلق امور انجام دینے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ انھوں نے غیر مسلموں کے مقدمات فیصل کرنے اور مذہبی معاملات میں رہنمائی فراہم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں پنڈت اور مذہبی امور کے ماہرین کو بطور منصف اور مذہبی پیشوا مقرر کیا۔ اور غیر مسلم رعایا کو یہ آزادی حاصل رہی کہ وہ اپنے معاملات اور مقدمات اپنے مذہبی ماہرین سے حل کرا ئیں۔
سلاطین دہلی نے اپنی غیر مسلم رعایا کو اس بات کی بھی اجازت دی تھی کہ وہ اپنے مذہبی معاملات سے متعلق قانون سازی کریں اور آزادانہ طور پر ان پر عمل کریں۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے امراء اور گورنروں کو اس بات کی تاکید کر دی تھی کہ وہ ان کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ اس باب کے مسائل کی ایک بڑی تعداد اس دور میں مدون ہونے والی قانونی کتابوں میں موجود ہے۔
دہلی سلطنت کے اہم ماہرین قانون:
سلاطین دہلی نے اپنی سلطنت میں نظم ونسق کو بہتر بنانے اور فطری رجحان کے تحت اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی بڑی کوششیں کیں، ان کی ان کوششوں میں اس دور کے علما اور فقہا کا بھی بڑا رول تھا۔ انھوں نے بادشاہان وقت کی قانونی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا اور سلاطین دہلی نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور انھیں مختلف علاقوں میں بطور مفتی، قاضی اور قانونی استاذ متعین کیا۔ ذیل کی سطروں میں ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
سلاطین دہلی نے جن لوگوں کو عوام کے نزاعات فیصل کرنے کے لیے بطور قاضی مختلف علاقوں میں مقرر کیا تھے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس دور کے قاضیوں میں معروف صوفی بزرگ حمید الدین ناگوری ہیں، جن کا اصل نام محمد بن عطا ناگوری ہے۔ یہ شہاب الدین غوری کے عہد میں تین سالوں تک ناگور کے منصب قضاء پر فائز تھے۔ ان معروف قاضیوں میں وجیہ الدین کاشانی کا نام اہم ہے۔ یہ سلطان قطب الدین ایبک کے دور میں ہندوستان کے قاضی القضاۃ مقرر تھے۔ یہ فقہ، اصول فقہ، علم کلام اور عربی زبان میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ قاضی سعد الدین کردری، شمس الدین ایلتمش کے زمانے کے چوٹی کے قاضیوں میں سے تھے۔قاضی جلال الدین کاشانی ساتویں صدی میں دار الحکومت دہلی میں قضائت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ 639ھ میں معز الدین بہرام شاہ کے دور میں کسی وجہ سے اس عہدہ سے معزول کر دیے گئے تھے، اور اودھ کی قضائت پر مامور ہو گئے تھے، لیکن اس کے بعد پھر 647ھ میں سلطان ناصر الدین محمود کے دور میں دوبارہ دہلی کے قاضی مقرر ہو گئے تھے۔ قاضی شمس الدین بہرائچی، بہرائچ کے قاضی تھے، پھر ناصر الدین محمود شاہ کے دور حکومت میں قاضی الممالک کی ذمے داری پر مامور ہو گئے تھے۔ قاضی شمس الدین مارہروی معز الدین بہرام شاہ کے دور میں مارہرہ کے قاضی مقرر کیے گئے تھے۔
سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد کے قانون دانوں میں قاضی رکن الدین سامانوی کا بڑا مقام تھا۔ان کی زندگی کے بیشتر اوقات درس وتدریس میں گذرتے تھے، اور خود بادشاہ وقت ان کے ساتھ تعظیم وتکریم کے ساتھ پیش آتا تھا۔شیخ سراج الدین ابو بکر بن یوسف سنجری کے مقام علمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر جمعہ کو سلطان بلبن ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور اپنی علمی پیاس بجھاتا تھا۔ ان کے معمولات زندگی کا بھی ایک بڑا حصہ درس وتدریس کے لیے مختص تھا۔
قاضی منہاج الدین بن سراج الدین جوزجانی عہد سلطنت کے نامور مؤرخ گذرے ہیں۔ان کی کتاب ’طبقات ناصری‘ جو آغاز اسلام سے خود ان کے اپنے زمانے (1261) تک کے حالات وواقعات پر محیط ہے، تاریخی مآخذ میں مستند حیثیت کی حامل ہے۔ قاضی منہاج الدین جہاں ایک جانب دہلی سلطنت کے چوٹی کے مؤرخ تھے وہیں سیاسی بصیرت اور انتظامی امور میں بھی مہارت رکھتے تھے، ساتھ ہی قانونی احکام ومسائل پر بھی گہری نظر تھی۔ پھر ان کی زندگی کا تیسرا پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ایک کامیاب استاذ بھی تھے۔ عہد سلطنت میں پہلی مرتبہ قاضی منہاج الدین سراج 630ھ میں سلطان شمس الدین التمش کے دور حکومت میں گوالیار کے قاضی، مفتی، محتسب اور خطیب وامام کی حیثیت سے مقرر کیے گئے تھے۔ اس منصب پر آپ نے چھ سالوں تک بحسن وخوبی خدمات انجام دیں۔ پھر 635ھ میں سلطانہ رضیہ کے دور میں گوالیار کی ذمے داریوں کے ساتھ مدرسہ ناصریہ کے صدر مدرس اور مہتمم بھی مقرر کر دیے گئے۔ اس کے بعد 639ھ میں سلطان بہرام شاہ نے اپنے دور میں پوری مملکت کا قاضی القضاۃ مقرر کر دیا، لیکن سلطان بہرام شاہ کے بعد 639ھ ہی میں کسی وجہ سے آپ نے اس ذمے داری سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر 643ھ میں سلطان علاء الدین مسعود کے دور حکومت میں دہلی واپس بلائے گئے، اور سلطان علاء الدین مسعود نے  مدرسہ ناصریہ کا انتظام، اوقاف کی تولیت، گوالیار کی قضائت اور جامع مسجد دہلی میں وعظ ونصیحت کی اہم ذمے داریاں آپ کو سونپی۔ 649ھ میں دوسری مرتبہ پوری مملکت دہلی کے قاضی القضاۃ بنائے گئے، اور 651ھ تک اس کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد درمیان میں کچھ دنوں کا وقفہ رہا اور اس ذمے داری سے علاحدگی رہی، پھر 653ھ میں تیسری مرتبہ ہندوستان کے قاضی القضاۃ مقرر کیے گئے تھے۔
قاضی منہاج الدین سراج کے بعد آپ کے نواسے صدر الدین عارف جو پہلے قاضی ممالک کے نائب کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے تھے،علاء الدین خلجی کے دور میں قاضی ممالک بنائے گئے۔ ان کے دور میں فقہ حنفی کی مشہور قانونی کتاب ’الہدایہ‘ کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے قانون کی نصابی کتابوں میں بھی شامل کر لیا گیا، جو آج بھی بدستور داخل ہے۔ پھر بعد میں قانون کی درسی کتابوں میں اضافہ بھی ہوا اور ’الہدایہ‘ کے ساتھ بزدوی، قدوری اور مجمع البحرین وغیرہ کو بھی شامل کر لیا گیا۔ الہدایہ کی درس وتدریس میں خاص طور پر مولانا برہان الدین بلخی نے مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ مولانا برہان الدین بلخی کے معاصرین میں ماہرین قانون کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں سراج الدین، ابوظفر سنجری، مولانا شرف الدین ولوالجی، مولانا برہان الدین بزاز، قاضی جلال الدین کاشانی اور قاضی رکن الدین سالونوی وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اس دور میں جن لوگوں نے قانون کے میدان میں قابل ذکر خدمات انجام دیں ان میں قاضی شمس الدین مراخی، شرف الدین ولوالجی، شیخ رکن الدین فردوسی دہلوی، برہان الدین بزاز، رکن الدین سامانوی، فخر الدین ناقلہ، شیخ اسحاق مغربی، مولانا جلال الدین رومی، شیخ حسین بن احمد بخاری (مخدوم جہانیان جہاں گشت)، شیخ داد بن حسین شیرازی، شیخ عثمان چشتی اودھی، شیخ علاء الدین نیلی اودھی، مولانا کمال الدین دہلوی، شیخ محمد بن محمد صغانی، مولانا نجم الدین انتشار دہلوی، مولانا نجم الدین سمرقندی اور شیخ یوسف حسینی ملتانی وغیرہ اہم اور قابل ذکر ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق سلطان غیاث الدین بلبن کے دور سے تھا، بلبن ان کا بیحد عزت واحترام کیا کرتا تھا، اور ان کی علمی مجلسوں میں شریک ہو کر استفادہ کرتا تھا۔
عہد سلطنت میں لکھی گئی قانونی کتابیں:
سلاطین دہلی نے قانون کے میدان میں جو متنوع خدمات انجام دیں ان میں قانونی کتابوں کی تصنیف وتالیف اور فتاویٰ کے مجموعے بہت اہم ہیں، جن میں فتاویٰ تاتارخانیہ، فوائد فیروز شاہی، فتاویٰ غیاثیہ اور فتاویٰ قراخانی وغیرہ شامل ہیں۔ ذیل میں ان کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
1-   فتاویٰ تاتارخانیہ:
’فتاویٰ تاتارخانیہ‘ فیروز شاہ تغلق کے دور میں مرتب ہونے والی قانونی کتاب ہے، جو اس دور کے ایک علم دوست امیر ’’تاتارخان‘‘ کی سرپرستی میں مرتب کی گئی تھی۔ البتہ اس بابت دو رائیں ہیں کہ اس کے مرتب کون ہیں؟ پہلی رائے جس میں گلزار ابرار کے مصنف محمد غوثی شطاری مانڈوی 11؎، نزہۃ الخواطر کے مصنف سید عبد الحی حسنی12؎ اور محمد اسحاق بھٹی شامل ہیں یہ ہے کہ اسے امیر تاتارخان کے ایک درباری عالم اور دوست ’عالم بن علا‘ نے مرتب کیا تھا۔ دوسری رائے کے حاملین میں تاریخ فیروز شاہی کے مصنف شمس سراج عفیف اور پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی ہیں۔ اس رائے کے مطابق عالم بن علا کی سربراہی میں علما وفقہا کی ایک جماعت نے مرتب کیا تھا۔
اس کتاب کے نام کے سلسلے میں بھی مختلف رائیں ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس کتاب کا نام شروع میں ’زاد السفر‘ یا ’زاد المسافر‘ تھا، جسے بعد میں بدل کر امیر تاتارخان کے نام منسوب کرتے ہوئے ’فتاویٰ تاتارخانیہ‘ رکھ دیا گیا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ شروع ہی سے اس کا نام ’فتاویٰ تاتارخانیہ‘ تھا۔ 13؎
اس کتاب کے امتیازی اوصاف میں سے یہ ہے کہ اس میں قوانین کے ساتھ ان کے مآخذ (قرآن وحدیث) نقل کرنے کا التزام نہیں کیا گیا ہے، البتہ مختلف فیہ قوانین میں متعلقہ تمام رایوں کو جمع کر دینے کا التزام ضرور کیا گیا ہے۔ بسا اوقات ایک ہی قانون کو کئی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے۔ مفتی شبیر احمد قاسمی نے اس کتاب سے متعلق اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ اس کے مصادر ومراجع کی تعداد 130 ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس میں قوانین نقل کرنے میں ’’المحیط البرہانی‘‘ کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے، اور ابواب وفصول کی تقسیم میں ’’الہدایہ‘‘ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ فتاویٰ تاتارخانیہ کا یہ بھی ایک نمایاں وصف ہے کہ اِس میں اُس وقت کے نئے پیش آمدہ مسائل سے متعلق بھی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً نماز میں فارسی میںقرأت کرنا، اہل ذمہ سے نکاح کرنا اور والدین واولاد کے مذہب میں اختلاف کی صورت میں نفقہ وغیرہ سے متعلق مسائل میں قانونی رہنمائی پیش کی گئی ہے۔14؎
انہی مسائل میں غیر مسلموں سے متعلق اسلامی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ اس عہد کے علماء اور قانون دانوں نے خاص طور پر اس بات پر توجہ دی تھی کہ مسلم حکومت اپنی رعایا کی جان ومال خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اور خواہ ملکی ہو یا غیر ملکی ہر ایک کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اس کا اہتمام کرے، اور یہ چیز دراصل اس کی ذمے داریوں میں داخل ہے۔15؎
اس کتاب میں غیر مسلم رشتہ داروں کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ مذکور ہے کہ اگر کسی ایسے غیرمسلم کی وفات ہو جائے جس کا مسلم ولی یا سرپرست کے علاوہ کوئی دوسرا غیر مسلم ولی اور سرپرست نہ ہو تو مسلمان سرپرست کی ذمے داری ہوگی کہ اس کی تجہیز وتکفین اور آخری رسومات ادا کرے۔ 16؎
غیر مسلم شوہر وبیوی کی قبولیت اسلام اور ان کے رشتہ ازدواج کے قائم رہنے یا ختم ہو جانے کے سلسلے میں اس کتاب میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ اگر شوہر اسلام قبول کر تا ہے تو بیوی کو اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اگر بیوی دائرۂ اسلام میں داخل ہوتی ہے تو شوہر کو اس کی دعوت کی جائے گی، پھر اگر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو ان کا رشتہ نکاح شرعاً باقی رہے گا ورنہ ان کے درمیان قاضی علاحدگی کرا دے گا۔ 17؎
اس کتاب میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ کسی غیر مسلم کے مذہبی امور میں حکومت یا کسی مسلمان کو دخل اندازی کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی غیر مسلم کے مذہب میں بغیر گواہ مقرر کیے نکاح کا انعقاد ہو جاتا ہو تو اسے گواہ لانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔18؎ اسی طرح اگر کسی مذہب میں اس بات کی اجازت ہو کہ کوئی ایسی عورت جو طلاق شدہ ہو یا اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو اور عدت گذارے بغیر دوسری شادی کی اجازت ہو تو اس پر کوئی مسلمان یا حکومت عدت گذارنا لازم نہیں کرے گی۔19؎
2-   فوائد فیروز شاہی:
یہ کتاب فیروز شاہ تغلق کے دور میں شرف محمد عطائی نے مرتب کیا تھا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ تمام امور سے متعلق احکام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اس کتاب میں عہد سلطنت اور خاص طور پر عہد فیروز شاہی کے سماجی، معاشی، معاشرتی حالات وواقعات، مسائل ومعاملات اور علوم وفنون کی بڑی اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اور چونکہ اس وقت عوام وخواص کی زبان فارسی تھی لہٰذا اس کتاب کو فارسی زبان ہی میں مرتب کیا گیا ہے تاکہ سب کے لیے استفادہ آسان ہو۔
یہ کتاب 115 ابواب پر مشتمل ہے، پھر ان ابواب کو مختلف ذیلی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ شرف محمد عطائی نے اپنی اس قانونی کتاب کو فقہ حنفی کے مطابق مرتب کیا ہے، البتہ مختلف مقامات پر دیگر مسالک فقہیہ سے بھی استفادہ کیا ہے، اور مختلف فیہ آرا کے تذکرہ کے ساتھ ان کے حوالے بھی درج کر دیے ہیں۔ مصنف نے اس کی تیاری میں جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان میں الجامع الصغیر، مبسوط، ہدایہ، شرح طحاوی، فتاوی سمرقندی، فتاوی سراجیہ اور نصاب الاحتساب وغیرہ شامل ہیں۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ فتاویٰ قراخانی، فتاویٰ فیروز شاہی اور فوائد فیروز شاہی کے تعارف میں تذکرہ نگاروں کی رائیں مختلف ہیں۔ ڈاکٹر شیث محمد اسماعیل اعظمی نے اپنی کتاب ’عہد سلطنت کے فقہا، صوفیا اور دانشوروں کی نظر میں ہندو کی حیثیت‘ میں فتاویٰ قراخانی اور فتاویٰ فیروز شاہی کا تذکرہ کیا ہے اور دونوں ہی کا تعارف یکساں درج کیا ہے۔20؎ پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے فتاویٰ فیروز شاہی کا جو تعارف پیش کیا ہے وہ ڈاکٹر شیث محمد اسماعیل اعظمی اور محمد اسحاق بھٹی کے فتاویٰ قراخانی کے تعارف کے بالکل مشابہ ہے۔ 21؎ جبکہ محمد اسحاق بھٹی نے فوائد فیروز شاہی کے نام سے عہد فیروز شاہی کے ایک الگ فتاویٰ کے مجموعے کا تعارف کرایا ہے جو اس دور کے عالم شرف محمد عطائی کی مرتب کردہ ہے، البتہ محمد اسحاق بھٹی نے فوائد فیروز شاہی کے تعارف میں ضمنی طور پر یعقوب مظفر کرمانی کی کتاب ’فقہ فیروز شاہی‘ کا تذکرہ کیا ہے، حالانکہ انھوں نے فتاویٰ قراخانی کے تعارف میں یہ لکھا ہے کہ ’یعقوب مظفر کرمانی‘ فتاویٰ قراخانی کے مصنف ہیں اور ان کا انتقال علاء الدین خلجی کے دور میں ہو گیا تھا۔22؎
تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ محمد اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب ’برصغیر میں علم فقہ‘ میں فوائد فیروز شاہی کا جو تعارف پیش کیا ہے وہ دوسروں کے مقابلہ زیادہ درست اور قابل قبول ہوگی کیونکہ انھوں نے دنیا کی مختلف لائبریریوں کا دورہ کر کے اس کے مخطوطات سے ان کا تعارف خود اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔
عہد سلطنت کی یہ کتاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں مسلم وغیر مسلم تعلقات سے متعلق مسائل کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک استفتاء مذکور ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کو سلام کر دے تو کیا اس کے جواب میں ’وعلیک‘ کہا جا سکتا ہے، اور پھر اس کے جواب میں بلا کراہت اس کے جواز کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ 23؎
ابتدائی عہد میں لوگوں کے پاس اپنے مال واسباب کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ نہ تھا، چنانچہ اس وقت دفینوں کی شکل میں ان کو محفوظ کر لیا جاتا تھا۔اس کتاب میںیہ مسئلہ مذکور ہے کہ اگر کسی شخص کو بیابان میں چاندی کا ایسا دفینہ ملتا ہے جس پر غیر مسلموں کے مذہبی نشانات پائے جاتے ہوں تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس کا خمس حکومت کے حوالے کرے اور پھر اس کا باقی ماندہ حصہ خود لے جائے۔24؎
فوائد فیروز شاہی اس اعتبار سے امتیازی وصف کا حامل ہے کہ اس میں مسلم وغیر مسلم تعلقات وغیرہ سے متعلق بکثرت مسائل مذکور ہیں، چنانچہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کی دعوت کرے تو وہ مسلمان اس کا مہمان ہو سکتا ہے25؎، اگر کوئی غیر مسلم بیمار ہو جائے تو مسلمان اس کی عیادت کر سکتا ہے26؎، غیر مسلم فقیر کو صدقہ فطر بھی دیا جا سکتا ہے27؎، اسی طرح اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر کسی مسلمان شخص کے والدین غیر مسلم ہوں تو بھی اس پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کے حکموں کی تعمیل کرے، ان پر مال ودولت خرچ کرے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر غیر مسلم والدین معصیت الٰہی اور معصیت رسول کا حکم دیں تو اس صورت میں ان کی اطاعت وفرمانبرداری نہیں کی جائے گی۔ 28؎ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بسا اوقات وہ مسلمانوں کے پڑوسی ہوتے ہیںاور اسلامی تعلیمات کی رو سے انھیں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے، یعنی اگر کسی مسلمان کا پڑوسی غیر مسلم ہو  اور مسلمان اپنا گھر فروخت کرنا چاہ رہا ہو تو اس کو خریدنے کا پہلا حق اس کے غیر مسلم پڑوسی کا ہوگا۔ چنانچہ اس سے متعلق فوائد فیروز شاہی میں یہ مذکور ہے کہ اگر کوئی ایسا مسلمان شخص ہو جس کے پڑوس میں کوئی غیر مسلم ہو، اور وہ مسلمان اپنا گھر فروخت کرنا چاہتا ہو تو اس پر اپنے غیر مسلم پڑوسی سے دریافت کرنا لازم ہے، ورنہ بعد میں اس پڑوسی کو حق شفعہ کے تحت اس گھر کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگا۔ 29؎
3-   الفتاویٰ الغیاثیہ:
قانون کی یہ کتاب ہندوستانی مسائل کے پس منظر میں عہد سلطنت میں مرتب ہونے والی غالباً پہلی کتاب ہے جسے اس وقت کے معروف ماہر قانون ’داؤد بن یوسف الخطیب‘ نے فقہ حنفی کے مطابق عربی زبان میں مرتب کیا تھا اور اپنے عہد کے حکمراں ’غیاث الدین بلبن‘ کی جانب منسوب کرتے ہوئے اس کا نام ’الفتاویٰ الغیاثیہ‘ رکھا۔ غیاث الدین بلبن کی جانب منسوب اس کتاب کے نام اور اس کے مشتملات پر نظر ڈالنے سے چند باتیں سامنے آتی ہیں: پہلی یہ کہ اس وقت کے امرا اور حکمراں خود قانونی نظم وضبط کے بڑے قدر داں اور اس کے ماہرین کی تعظیم وتکریم کرنے والے تھے، جس کے نتیجے میں قانون داں طبقہ بھی ان سے قربت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا اور اسی کے پیش نظر ان کے نام اپنی کتابیں بھی منسوب کر دیا کرتا تھا۔ پھر اس کتاب کے مشتملات پر نظر ڈالنے سے دوسری بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے احکام ومسائل میں اس وقت کے حالات کی بھرپور رعایت کی گئی ہے، مثلاً اس عہد میں تاتاری انسانیت کے لیے ابتلاء وآزمائش بنے ہوئے تھے، راستے خطرات سے پر تھے، انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، عزت وآبرو محفوظ نہ تھے۔ ایسے حالات میں داؤد بن یوسف نے حج کی فرضیت کے سلسلے میں مشائخ بلخ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا کہ مشائخ بلخ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانے میں حج فرض نہیں رہا۔30؎ پھر وجوب حج کی شرطوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فی الجملہ بلا کسی اختلاف کے (حج کی) شرائط وجوب میں سے راستوں کا محفوظ ومامون ہونا ہے۔ راستے کے خوف وخطر کی حیثیت بالکل وہی ہے جو زاد راہ اور سواری کے فقدان کی ہے۔ اس باب میں پسندیدہ بات وہی ہے جو فقیہ ابو اللیث نے کہی کہ جب راستے کے امن وامان کا پہلو زیادہ غالب ہو تو حج واجب ہوتا ہے، ورنہ اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔31؎
اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اس زمانے میں بادشاہوں کو سجدہ کرنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ داؤد بن یوسف الخطیب نے جرأت کے ساتھ اس کی سخت مخالفت کی اور لکھا کہ اگر کسی مسلمان سے کہا جائے کہ بادشاہ کے سامنے سجدہ کرو ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے تو افضلیت کا تقاضا یہ ہے کہ سجدہ نہ کرے۔ کیونکہ سجدہ کرنا اسلامی قانون کے مطابق کفریہ عمل ہے، لہٰذا افضل یہ ہے کہ کفر سے بچا جائے، اگرچہ اس کے لیے کتنا ہی مجبور کیا جائے۔ 32؎
اس کتاب میں ایک اہم مسئلہ قرآنی تعلیمات اور دیگر دینی علوم کی تعلیم کے معاوضہ سے متعلق مذکور ہے۔ ابتدائی عہد میں تعلیم وتعلم اور دینی امور سے محبت رکھنے والے افراد یہ کام بلا معاوضہ کیا کرتے تھے، لیکن عہد وسطیٰ اور اس کے بعد جب ایسے افراد میں کمی واقع ہوئی تو لوگوں نے اور خود حکومت نے بھی معاوضہ پر قرآنی اور دینی علوم کے ماہرین سے تدریسی خدمات حاصل کرنی شروع کر دیں۔ یہاں ایک شرعی مسئلہ در پیش ہوا کہ کیا ان علوم کی تعلیم پر ان کے معلمین کو معاوضہ دینا درست ہوگا؟ فتاویٰ غیاثیہ کے مطابق ان معلمین اور اساتذہ کو ان کی تدریسی خدمات پر معاوضہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ وہ اس کام کے لیے اپنا وقت فارغ کرتے ہیں جن میں وہ اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرسکتے تھے۔ پھر اگر اس کے عدم جوازکا فتویٰ دیا گیا تو یہ اندیشہ ہے کہ لوگ دینی اور قرآنی تعلیمات سے محروم رہ جائیں گے، جس سے ان کے دینی اور شرعی معاملات متاثر ہو ں گے۔33؎
ایک مسئلہ پیشگی معاوضہ لینے سے متعلق ہے۔ موت وحیات سے متعلق مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نظریہ کے ساتھ مسلمانوں میں یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی کام یا خدمت کے بدلے متعلقہ شخص سے پیشگی معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں؟فتاویٰ غیاثیہ کی رو سے پیشگی معاوضہ کا تعلق دراصل خدمت حاصل کرنے والے شخص سے ہے، یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ پیشگی معاوضہ دینا چاہتا ہے یا نہیں، لیکن مسلمانوں کے اس مذکورہ عقیدہ کے حامل ہونے کی صورت میں افضلیت کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی شخص پیشگی معاوضہ نہ لے، کیونکہ کسی کو یقینی طور پر نہیں معلوم کہ اس معاوضہ سے متعلق کام یا خدمت کی انجام دہی تک وہ زندہ رہے گا یا نہیں؟34؎
فتاویٰ غیاثیہ میں عاملین اور خراج ومحصولات وصول کرنے پر مامور افراد کی بدعنوانیوں سے متعلق یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی عامل کسی کسان سے حکومت کی متعین کردہ مقدار سے زیادہ محصول وصول کر لیتا ہے تو اس کسان کو یہ اختیار اور حق حاصل ہوگا کہ اس کے خلاف حکومت کے پاس اپنا دعویٰ درج کرائے۔ اور اگر حکومت کی تحقیقات کے نتیجے میں اس کسان کا دعویٰ صحیح ثابت ہو جائے تو اس عامل پر لازم ہوگا کہ زائد وصول کردہ محصول اس کسان کو واپس کر ے۔ 35؎
اس کتاب کے امتیازی اوصاف میں سے تیسری چیز یہ سامنے آتی ہے جو دراصل اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہے کہ اس کتاب کے بعد جو بھی قانونی کتابیں یا فتاویٰ کے مجموعے مرتب کیے گئے ان میں اس کتاب سے بکثرت استفادہ کیا گیا، چنانچہ ان کتابوں میں اس کے حوالے جا بہ جا ملتے ہیں۔
پھر خود اس کتاب کی تیاری میں اس دور کی تمام متداول اور اہم کتابوں سے استفادہ کیا گیا، جن میں فتاویٰ ذخیرہ، فتاویٰ سمرقندی، جامع الفتاوی، مختصر الطحاوی، الہدایہ، الصاعدی، الشامل، فتاویٰ الظہیری، فتاویٰ افتخار اور ادب القاضی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کتابوں کے حوالے فتاویٰ غیاثیہ میں متعدد مقامات پر ملتے ہیں۔
4-   فتاویٰ قراخانی:
عہد سلطنت میں مرتب ہونے والی ایک اور قانونی کتاب ’فتاویٰ قراخانی‘ ہے، جو خلجی خاندان کے حکمراں جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے دور میں مرتب کی گئی۔ اس کتاب کے مصنف یعقوب مظفر کرامی یا کرمانی ہیں۔ مصنف نے اپنی یہ کتاب فارسی زبان میں فقہ حنفی کے مطابق تصنیف کی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مسائل کو ذکر کرنے کا منہج یہ اختیار کیا ہے کہ پہلے ’استفتا‘ کے لفظ کے ساتھ کوئی سوال قائم کرتے ہیں اور پھر اس کے جواب میں متعلقہ مسئلے کی پوری تفصیل فقہ حنفی کے مطابق تحریر کرتے ہیں۔ یہ جوابات حنفی مسلک کے مراجع ومصادر کی کتابوں سے دیے گئے ہیں جن کے اقتباسات اور حوالے متعدد مقامات پر نظر آتے ہیں۔ یہ اقتباسات جس زبان کی کتاب سے اخذ کیے گئے ہیں خواہ وہ عربی ہوں یا فارسی، ان کو بعینہٖ نقل کر دیا گیا ہے۔
اس کتاب کی تیاری کے سلسلے میں کتاب کے مقدمہ میں مذکور ہے کہ جب فیروز شاہ خلجی اس بات کا خواہاں ہوا کہ ایسی کتاب ہونی چاہیے جس میں تمام ملکی امور، اعمال دین ودولت، حقوق کی فراہمی اور حدود وقصاص کے نفاذ سے متعلق تمام احکام ومسائل مذکور ہوں، جو تمام سلطنتوں کے لیے مفید ہو اور جس سے عوام وخواص ہر ایک استفادہ کر سکیں۔ جب فیروز شاہ خلجی کی اس خواہش کا علم اس دور کے ایک بڑے عالم دین ’’قبول قراں خاں‘‘ کو ہوا تو ساتھ ہی ان کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ یعقوب مظفر کرمانی نے قوانین سے متعلق ایک ایسی کتاب تصنیف کی ہے جو فیروز شاہ خلجی کے مطلوبہ تمام امور کو پورا کرتی ہے، اور جو علمائے متقین اور فقہائے معتبرین کی تصنیف کردہ 98 کتابوں کا نچوڑ ہے، جس میں صحیح اور مختار روایات کو درج کیا گیا ہے، لیکن قبل اس کے کہ یہ کتاب منظر عام پر آتی مؤلف کتاب دار آخرت کو کوچ کر گئے۔ پھر ایک عرصہ تک یہ کتاب غیر مرتب شکل میں ان کے ورثا کے پاس رہی۔ اس کے بعد قبول قراں خاں نے مؤلف مرحوم کے ورثاء سے کسی طرح یہ کتاب حاصل کی اور علماء وفقہاء کی ایک جماعت تشکیل دے کر اس کتاب کی مزید ترتیب، تصحیح، تہذیب اور توضیح وتحقیق کی ذمے داری انھیں سونپی، جس کو انھوں نے بحسن وخوبی انجام دیا اور یہ کتاب نئی تحقیق وتہذیب کے ساتھ منظر عام پر آئی۔36؎
عہد سلطنت میں ان مذکورہ قانونی کتابوں کے علاوہ بھی دیگر بہت سی کتابیں لکھی اور مرتب کی گئیں، جن میں سے بیشتر کتابیں اہم قانونی کتابوں کی شروحات وحواشی کے طور پر منظر عام پر آئیں اور بعض کتابیں مستقل طور پر کسی خاص موضوع پر لکھی گئیں۔ یہ کتابیں عموماً اہل علم کی زبان عربی میں یا عوام کے آسان استفادہ کے لیے فارسی زبان میں مرتب کی گئیں۔ ان کتابوں میں مطالب المومنین (بدر بن تاج لاہوری)، فقہ مخدومی (مخدوم علی مہائمی)، طرفۃ الفقہاء (رکن الدین ملتانی)، تیسیر الاحکام (قاضی شہاب الدین دولت آبادی)، عدۃ الناسک فی المناسک (عمر بن اسحاق غزنوی)، کتاب الفرائض (رضی الدین حسن بن محمد صغانی)، نصاب الاحتساب (قاضی ضیاء الدین مستانی)، زبدۃ الاحکام فی اختلاف الائمۃ الاعلام (رضی الدین حسن بن محمد صغانی)، خزانۃ الروایات (قاضی جکن حنفی گجراتی)، الفائق واصول فقہ (صفی الدین محمد بن عبد الرحیم الشافعی) وغیرہ شامل ہیں۔ 37؎
خلاصہ:
اوپر کی سطور میں عہد سلطنت میں اسلامی قانون کے میدان میں ہونے والے کاموں اور خصوصیت کے ساتھ قانونی کتابوں کی تصنیف پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس سے مجموعی طور پر اس دور کا قانونی منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ اس منظر نامہ کے مطالعہ سے جو نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں، وہ درج ذیل ہو سکتے ہیں:
w            دہلی سلطنت کے حکمراں قوانین کے نفاذ اور نظم وانتظام کو بہتر طریقے پر قائم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں ماہرین قانون بطور مفتی اور قاضی مقرر کرتے تھے، جو عوام کی قانونی رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمات فیصل کرنے اور ان میں وعظ ونصیحت کرنے کا بھی فریضہ انجام دیتے تھے۔
w            سلاطین دہلی مختلف معاملات میں قانونی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جس کے لیے وہ ماہرین قانون سے بکثرت مراجعت کرتے تھے۔ پھر اس کے لیے ماہرین قوانین کی ایسی مجلسیں اور محفلیں بھی منعقد کی جاتی تھیں، جن میں حکومت کے نو پیش آمدہ مسائل پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا، اور ان کے دلائل پر بحث کی جاتی تھی۔ یہ مجلسیں اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتی تھیں جب ان میں کوئی حکمراں بذات خود شریک ہوتا اور حصہ لیتا تھا۔
w            سلاطین دہلی نے اپنی سرپرستی اور نگرانی میں قانون کی مختلف کتابیں مرتب کرائی تھیں۔ بہت سی کتابیں اس وقت کے اہل علم نے انفرادی اور ذاتی طور پر بھی لکھیں جو قانون کے کسی مستقل موضوع پر محیط ہوتیں اور کسی اہم قانونی کتاب کی شروحات وحواشی کے طور پر بھی منظر عام پر آئیں۔
w            اس عہد میں جو کتابیں مرتب کی گئیں یا سلاطین دہلی کی جو علمی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں ان میں مختلف النوع مسائل زیر بحث آتے تھے۔ ان میں سماجی، معاشی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ مسلم وغیر مسلم تعلقات سے متعلق احکام ومسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جاتا تھا۔
w            سلاطین دہلی نے قانونی تعلیمات کے لیے بکثرت مدارس قائم کیے اور ان میں ماہرین قوانین کی تقرریاں کیں، تاکہ عوام میں قوانین کے تئیں بیداری پیدا ہو اور وہ اپنی زندگیاں ان کے مطابق گذار سکیں۔
عہد وسطیٰ کے حکمراں اور امراء کی قانونی دلچسپیوں اور اس دور کی قانونی کتابوں کے مطالعے سے جہاں اس دور کے علمی اور سماجی ومعاشی حالات سامنے آتے ہیں، وہیں ہمیں اسلامی قوانین کی روشنی میں رہنما اصول فراہم ہوتے ہیں کہ اِس وقت مسلمان قوانین شرعیہ کی روشنی میں غیر مسلموں کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات اور روابط رکھتے تھے۔
چونکہ یہ قانونی کتابیں ہندوستان کے پس منظر میں مرتب کی گئی ہیں جن سے ہمیں آج کے لیے مفید رہنمائی ملتی ہے، یہ بہت مناسب ہوگا کہ ان میں سے جو کتابیں ابھی غیر مطبوعہ ہیں، ان کی طباعت واشاعت کا اہتمام کیا جائے، اسی کے ساتھ یہ بھی انتہائی مفید اور ضروری ہوگا کہ ان کتابوں کا اردو اور ہندی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے جو بیشتر ہندوستانی عوام کی زبان ہے، تاکہ ان کی افادیت کا دائرہ عوام وخواص سب تک وسیع ہو سکے، اور ہم آج کے حالات میں مسلم وغیر مسلم تعلقات کی استواری میں ان سے روشنی حاصل کر سکیں۔


حواشی وحوالہ جات:
1۔          بھٹی، محمد اسحاق، فقہائے ہند، ج: 1، ص: 29، نئی دہلی، اریب پبلی کیشنز 2014
2۔           صباح الدین عبدالرحمن، سید، بزم مملوکیہ، ص: 6، اعظم گڑھ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی 2016
3۔          صباح الدین عبدالرحمن، سید، ہندوستان کے سلاطین، علماء اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، ص: 98، اعظم گڑھ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی 2001
4۔           نظامی، خلیق احمد،  محمد حبیب، جامع تاریخ ہند، ص: 730-729، دہلی، اعظم پبلی کیشنز 2017
5۔          اصلاحی، ظفر الاسلام، مسائل فقہیہ میں سلاطین دہلی کی دلچسپی، ص: 40، مشمولہ مقالہ: فکر ونظر، اسلام آباد۔ جلد: 39، شمارہ: 2، بحوالہ: عمری، شہاب الدین، مسالک الابصار، ص: 38، دہلی، ندوۃ المصنّفین، (عربی متن مع اردو ترجمہ در: خورشید احمد فاروق، تاریخ ہند پر ایک نئی روشنی۔ عربی کی ایک خطی کتاب سے)
6۔          صباح الدین عبدالرحمن، ایضاً، ہندوستان کے سلاطین، علما اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، ص: 112
7۔          اصلاحی، ظفر الاسلام، اسلامی علوم کا ارتقا: عہد سلطنت کے ہندوستان میں، ص: 92، دہلی، اسلامک بک فانڈیشن، 2012، بحوالہ: ابن بطوطہ، محمد، رحلہ ابن بطوطہ، ص: 456-457، بیروت، دار صادر 1964ء، عمری، شہاب الدین، مسالک الابصار، ص: 45، دہلی، ندوۃ المصنّفین، سنہ اشاعت موجود نہیں     8۔          اصلاحی، ایضاً، ص: 93
9۔          صباح الدین عبدالرحمن، ایضاً۔ ہندوستان کے سلاطین، علماء اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، ص: 9-10
10۔        ایضاً، ص: 12
11۔       مانڈوی، محمد غوثی شطاری، گلزار ابرار (اردو ترجمہ: اذکار ابرار، مترجم: فضل احمد جپوری)، ص: 92، لاہور، سید احمد شہید اکادیمی 1427ھ
12۔        حسنی، عبد الحی، نزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر، ج: 1، ص: 169، بیروت، دار ابن حزم، 1999
13۔       چلپی، مصطفی بن عبد اللہ، کشف الظنون، ص: 268، 947، بغداد، مکتب المثنی1941،حسنی، ایضاً
                بھٹی، محمد اسحاق،بر صغیر میں علم فقہ، ص: 138، نئی دہلی، البلاغ پبلی کیشنز 2012، اصلاحی، ایضاً، ص: 105
14۔        اندرپتی، عالم بن علا، الفتاوی التاتارخانیہ (محقق: شبیر احمد قاسمی)، ص: 30، دیوبند، مکتبہ زکریا 2010
15۔       ایضاً، ص: 47، بحوالہ: اندرپتی، عالم بن علا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ص:254-255، ج: 5،حیدرآباد، دائرۃ المعارف العثمانیہ 1989
16۔       ایضاً، ص: 52-53، بحوالہ: اندرپتی، ایضاً۔ ص: 173، ج:2 ،1984
17۔       ایضاً، ص: 53، بحوالہ: اندرپتی، ایضاً، ص:254-255، ج: 5، 1989
18۔       ایضاً، ص: 51، بحوالہ: اندرپتی، ایضاً،ص :171، ج: 3، 1986
19۔       ایضاً، بحوالہ: اندرپتی، ایضاً، ص:171-173، ج: 3
20۔        اعظمی، ایضاً، ص: 46-54
21۔        اصلاحی، ایضاً، ص: 101-102
22۔        بھٹی، ایضاً، بر صغیر میں علم فقہ، ص: 118-119
23۔        ایضاً، ص: 39، بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ص: 69، مخطوطہ، یونیورسٹی کلکشن، نمبر 360، علی گڑھ، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی
24۔        ایضاً، ص: 17،بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً، ص: 71
25۔        ایضاً، ص: 39-40، بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً، ص: 484
26۔        ایضاً، ص: 40،  بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً۔ ص: 336
27۔        ایضاً، ص: 40، بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً، ص: 76
28۔        ایضاً، ص: 40-41، بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً، ص: 509
29۔        ایضاً، ص: 42، بحوالہ: فتاویٰ فیروز شاہی، ایضاً۔ ص: 454
30۔        بھٹی، ایضاً، ص: 67
31۔       ایضاً
32۔        بھٹی، ایضاً، ص: 70
33۔       اصلاحی، ظفر الاسلام، عہد اسلامی کے ہندوستان میں معاشرت، معیشت اور حکومت کے مسائل، ص: 18، نئی دہلی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، 2009، بحوالہ: داؤد بن یوسف، الفتاویٰ الغیاثیہ، ص: 49، مصر، بولاق، 1909
34۔        اصلاحی، ایضاً، عہد اسلامی کے ہندوستان میں معاشرت، معیشت اور حکومت کے مسائل، ص: 24، بحوالہ: داؤد بن یوسف،ایضاً، ص: 46
35۔       ایضاً، ص: 25، بحوالہ: داؤد بن یوسف، ایضاً، ص: 47
36۔       اعظمی، شیث محمد اسماعیل، عہد سلطنت کے فقہا، صوفیا اور دانشوروں کی نظر میں ہندو کی حیثیت، ص: 48-49، نئی دہلی، اسلامک بک فاؤنڈیشن، 1998
37۔       اصلاحی، ایضاً، مسائل فقہیہ میں سلاطین دہلی کی دلچسپی، ص: 42-43

Saleh Ameen
Guest Faculty, DDE
Maulana Azad National Urdu University
Hyderabad - 500032 (Telangana)
E-mail: salehameen2050@gmail.com

Mob: 8801413157, 9398173477

سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں