23/3/20

اٹھارہویں صدی کا ہندوستانی منظرنامہ اور اردو طنز و مزاح مضمون نگار: روشن آرا




اٹھارہویں صدی کا ہندوستانی منظرنامہ اور اردو طنز و مزاح
روشن آرا

تلخیص
 ہر عہد کے اپنے کچھ خواص ہوتے ہیں، اس کے کچھ امتیازات ہوتے ہیں، جو اسے دوسروں سے ممیز کرتے ہیں۔ ایک زمانے کی صورتِ حال دوسرے زمانے سے مختلف ہوتی ہے لیکن ایک تاریخی کڑی میں یہ تمام حالات اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ ایک زمانے کا اثر دوسرے پر عموماً پڑتا ہے۔ کسی بھی خطّے کی سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی صورتِ حال جب ایک عہد سے دوسرے عہد میںداخل ہوتی ہے تو اس کی یہ منتقلی غیر محسوس طریقے سے وقوع پذیر ہوتی ہے اور فن کار کی زیست بھی انھیں متواتر رونما ہونے والے واقعات میں بسر ہوتی ہے اور اس طرح عصریت کی چھاپ اس کے ذہن و شعور پر بھی پڑتی ہے اور وہ انھیں عوامل کو اپنی شخصیت میں جذب کرکے آفاقیت عطا کرتا ہے۔ اس کے گونا گوں تجربات اس کی تخلیقات سے مترشح ہوتے ہیں۔طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات میں بھی عصری حسیت جلوہ گر ہے۔ مختلف عہد کے طنز و مزاح نگاروں نے وقت اور حالات کے مطالبات کو بخوبی سمجھا ہے اور عہد بہ عہد کی تبدیلیوں کے زیرِ اثر اپنے ذہنی رجحانات میں بھی تبدیلیاں لائیں ہیں۔ تقاضائے وقت کے زیرِ اثر ہر طرح کے موضوعات کو جن سے بے راہ روی عام ہو رہی تھی، طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے ادب پر بالخصوص طنز و مزاح پر اس عہد کے سیاسی، سماجی، تہذیبی،ملکی، اقتصادی، اخلاقی حالات و واقعات کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
کلیدی الفاظ
اٹھارہویں صدی کا عہد، طنز و مزاح، ہجو، شہرِ آشوب، مغل حکومت، اورنگ زیب، سلطنت کا زوال،جعفر زٹلی، ظہور الدین حاتم، فائز دہلوی،نادر شاہ،شاکر ناجی، مرہٹے،قائم چاند پوری،سودا، تضحیکِ روز گار، احمد شاہ ابدالی، میر تقی میر
 —— ——————
ادب زندگی کے متواتر اور مسلسل رونما ہونے والے واقعات و حادثات کا بیش بہا مخزن ہے اور زندگی سماجی محرکات کا لازمی جز ہے۔ جس طرح مجموعۂ افراد ایک منظم اور مربوط سماج کی تشکیل کا باعث ہے اسی طرح فن کار بھی اسی سماج کا ایک اٹوٹ اور سالم حصہ ہے۔ سماج کے اپنے تقاضے ہیں، اس کے مخصوص لوازمات ہیںجن سے افراد کا مفر ممکن نہیں اور اسی کے بیچ رہ کر وہ اپنے تخیلات اور فکری رجحانات کو متشکل کرتا ہے۔ ہر فن کار اپنے عہد سے وابستہ رہ کر ہی اپنی تخلیق میں تخیل کی اڑان بھرتا ہے، اس کی رنگ آمیزی کرتا ہے اور اسے جاذبیت بھی عطا کرتا ہے۔ اس طرح فن کار کا اپنے عہد کے مطالبات اور تقاضائے وقت سے آزادی تقریباً ناممکن ہے۔ وہ پے بہ پے رونما ہونے والے حالات و کوائف میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور پیش آنے والے واقعات و حوادث سے اپنی ذہن سازی بھی کرتا ہے۔ اس کی خود کی آرزوئوں اور امنگوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی نت نئی کروٹیں ایک زیریں لہر کی مانند اس کی تخلیقات میں موجود رہتی ہیں۔ زندگی کے وسیع ترین مسائل اس کے احاطۂ تحریر میں آتے ہیں۔ انسان کی پوری زندگی، محبت ونفرت، بغض و عناد، غریبی و مفلسی،ناچاری و دولت کی فراوانی، جبر و مجبوری، بلندی و پستی غرض زندگی کے مختلف افعال و اعمال اور اس کے نشیب و فراز ادب میں منعکس ہوتے ہیں اور پھر انھیں کے توسط سے ادب نمو پذیر ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی جھلکیاں، ان کا شعور و احساس، ان کا مزاج اور افتادِ طبع، ان کا طرزِ معاشرت، تہذیبی رکھ رکھائو،اخلاقی گراوٹ، سیاسی نظامِ سلطنت، استعماریت و استبدادیت، سماجی ارتباط، معاشی ترقی و تنزلی، مذہبی رواداری، اطوارو عادات، عیش و عشرت، مسرت و شادمانی، رنج و الم اور بھی نہ جانے کیا کچھ ادب میں بکھرے پڑے ہیں۔ فن کار اپنی باطنی زندگی، اپنے تخیلات، جذبات، احساسات اور اپنی داخلی کیفیات کو شعوری و لاشعوری طور پر خارجی مظاہر کے ساتھ ضم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ نتیجۂ کار فن پارہ خارجی حقائق سے مربوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ بقول امِ ہانی اشرف:
’’تخلیقی عمل  تو ایک ذاتی اور انفرادی عمل ہے لیکن یہ کہہ کے رہ جانا کہ فن کار کی تخلیق صرف اس کے ذہنی ہیجان یا کرب کا نتیجہ ہے اور یہ بالکل پرسنل ہے کافی نہیں ہے۔ اس میں خارجی  عوامل کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ تخلیق جو صرف تخیل یا وجدان کی پروردہ کہی جاسکتی ہیں، اس پر بھی کہیں نہ کہیں سماجی حقائق کے انعکاسات جلوہ ریز  ہوتے ہیں۔ داستان  ہو یا  ناول،  افسانہ ہو یا شاعری ہر صنف ِ ادب میں معاشرت کی گوناگوں تصویروںکا عکس نظر آتا ہے۔ ان تمام ادبیات سے بالیدہ یا بوسیدہ  معاشرت اور مخصوص زمانے کی ترجمانی ہوتی ہے۔‘‘ 1؎
ہر عہد کے اپنے کچھ خواص ہوتے ہیں، اس کے کچھ امتیازات ہوتے ہیں، جو اسے دوسروں سے ممیز کرتے ہیں۔ ایک زمانے کی صورتِ حال دوسرے زمانے سے مختلف ہوتی ہے لیکن ایک تاریخی کڑی میں یہ تمام حالات اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ ایک زمانے کا اثر دوسرے پر عموماً پڑتا ہے۔ کسی بھی خطے کی سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی صورتِ حال جب ایک عہد سے دوسرے عہد میں داخل ہے تو اس کی یہ منتقلی غیر محسوس طریقے سے وقوع پذیر ہوتی ہے اور فن کار کی زیست بھی انھیں متواتر رونما ہونے والے واقعات میں بسر ہوتی ہے اور اس طرح عصریت کی چھاپ اس کے ذہن و شعور پر بھی پڑتی ہے اور وہ انھیں عوامل کو اپنی شخصیت میں جذب کرکے آفاقیت عطا کرتا ہے۔ اس کے گوناگوں تجربات اس کی تخلیقات سے مترشح ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سید احتشام حسین ادب اور شعور میں رقمطراز ہیں:
 ’’ادب انسانی شعور  کی وہ تخلیق ہے، جس میں ادیب اپنے ذہن سے باہر کے مادی  اور خارجی حقائق کا عکس مختلف  شکلوں میں فنی قیود اور جمالیاتی تقاضوں کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ عکس فوٹوگراف کی طرح ساکن یا بنا بنایا نہیں ہوتا بلکہ متحرک اور  زندہ  حقیقتوں کا متحرک عکس ہوتا ہے۔‘‘ 
اس طرح ہم مختلف عہد کے شعرا و ادبا کی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں تو شعور و آگہی کا یک گونہ اختلاف ان میں موجود ہوتا ہے۔  مثال کے طور پر اگر کوئی عہد یا کوئی معاشرہ انتشار کا شکار ہو، سیاسی،  سماجی و معاشی  ہر سطح پر تنزلی ہوتو ایسے حالات میں فنکار کی ذہنیت بھی پیچیدہ تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب یا تو وہ ان حالات سے فراریت اختیار کرنے کی کوشش میں تصوف میں پناہ ڈھونڈتا ہے اورتمام حالات کو مشیتِ ایزدی جان کر گوشہ نشینی اختیار کرتا ہے یا پھر اس کے اندر ذہنی ہیجان برپا ہوتا ہے اور وہ بے قابو ہو کر ہر کسی کو بے نقط سنانا شروع کر دیتا ہے۔ بعض اوقات گالی گلوج سے بھی نہیں چوکتا۔ یہ کیفیت ہمیں سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارہویں صدی کے وسط کی ادبی تخلیقات میں ملتی ہے۔ دوسری طرف اگرفارغ البالی میسر ہو، سیاسی خلفشاروں کا زور مدھم پڑچکا ہو، اہلکارِ سلطنت میں کمزوریاں در آئی ہوں تو اس عہد کی تخلیقات میں عیش کوشی کا پایا جانا عام سی بات ہے۔ ایسے حالات میں پست خیالات کے ماسوا کسی دوسری شے کی جستجو ممکن نہیں۔ اس طرح ہم پاتے ہیں کہ جب جب سیاسی، سماجی اور تہذیبی ارتقاء میں کوئی نیا موڑ آیا ہے اس کے زیرِ اثر پیدا ہونے والی ادبی تخلیقات کا مزاج بھی بدلتا رہا ہے۔ ہر عہد کی انفرادیت، اس کا مخصوص مزاج اس عہد کی تخلیقات کی شناخت بن جاتے ہیں۔ یوں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ کسی بھی ادب پارے سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے روحِ عصر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر قاری کے ذہن میں پورا سیاسی نظام، سماج کا ارتقائی عمل اور معاشرتی وسائل موجود ہوں تو تخلیق کے مزاج سے بھی آشنائی ممکن ہے۔ غرض ہر آن بدلتی زندگی، مذہبی تصورات، ملکی قوانین، سماجی جبر، سیاسی تصادم، اقتصادی نظام اس عہد کی تخلیقات میں موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ہمارے تہذیبی سرمائے کا حصّہ بن جاتے ہیں اور ہمیں اپنی تمدنی تاریخ مرقوم کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
متذکرہ بالا خیالات کی روشنی میں جب ہم طنزومزاح کا جائزہ لیتے ہیں تو اس فن میں پیش کی گئی تخلیقات میں پورے طور پر عصری حسّیت جلوہ گر ہے۔ کسی ملک کی ظرافت کا مطالعہ بذاتِ خود اس کے معاشرتی، سماجی، سیاسی، مذہبی، فکری، تمدنی حالات و رجحانات کا آئینہ ہوتا ہے۔ کسی بھی سماج کی ظرافت اور اس کے معیارِ ظرافت سے اس مخصوص سماج کی صحت کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ ظرافت کی بلندی و پستی اس سماج کی بلندی و پستی کے مماثل ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر یعقوب خاور نے بڑی خوب بات کہی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:
 ’’یہ (طنزومزاح) معاشرے کے مجموعی ماحول اور تقاضوں کا تابع ہے۔ اگر معاشرے میں غم و غصّے کی شدت کے  واضح  اظہار پر تہذیبی یا سیاسی سطح پر کوئی قدغن نہیں ہے تو دلوں کا  غبار  اپنے اخراج کے لیے کسی ایمائیت کا محتاج نہیں رہتا اور آسانی سے اپنی واضح شکل میں باہر آجا تاہے۔  یہ صورتِ حال طنز و مزاح کی تخلیق کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ طنز و مزاح کا وسیلہ اپنی بھر پور توانائی اور پوری شدت کے ساتھ وہاں رونما ہوتا ہے جہاں اظہار پر پابندی کی روایت کارفرماہو‘‘۔ 
اردو ادب کا پہلا طنز و مزاح نگار جعفر زٹلی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور زٹلی کا زمانہ مغل حکمراں اورنگ زیب کے دورِ اخیر سے تعلق رکھتا ہے۔ مغلوں کا عظیم الشان دورِ حکومت 1526میں شہنشاہ بابر کی تخت نشینی سے شروع ہوکر اورنگ زیب کی وفات 1707 تک محیط ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے وقت مغلیہ سلطنت ہندوستان میں سب سے بڑی سلطنت تھی، لیکن اورنگ زیب کی وفات کے پچاس سال کے اندر ہی سلطنتِ مغلیہ پر انتشار کے آثار نظر آنے لگے۔ تخت نشینی کی جنگیں مغلیہ سلطنت کے وقار کو طشت از بام کر نے کی وجہ بنیں۔ اس طرح جب ہم اورنگ زیب کی وفات کے بعد زوالِ سلطنتِ مغلیہ سے لے کر 1857 کی بغاوت تک کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ سیاسی صورتِ حال ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ ملکی سیاست کیسے کیسے موڑ لیتی ہے، کس کس ڈگر پر ہچکولے کھاتی ہے اور کہاں ایک حکومت لڑکھڑاتے ہوئے منہ کے بل گر پرتی ہے اور کہاں نئی حکومت اپنی بنیاد مستحکم کرتی ہے۔ جعفر زٹلی وہ پہلا شاعر ہے جس کے یہاں اپنے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کے خلاف نا آسودگی اور ناراضگی کا اظہار احتجاج کی شکل میں سامنے آیاہے اور جس کے پیچھے سماجی اور سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کا جذبہ اور خواہش نظر آتی ہے۔
جعفر زٹلی جس نے اورنگ زیب کا دورِ اخیر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس کی وفات کے بعد اقتدار کی ہوس کی خاطر شہزادگان کی آپسی لڑائیاںدیکھیں۔ آئے دن بادشاہت کی تبدیلی اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے عوام کی پریشانیاں، ان تمام حالات کے اثرات جعفر زٹلی جیسے حساس شاعر پر پڑ رہے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ جعفر زٹلی کے کلام کا بیشتر حصہ فحش، عریانیت اور لغویات پر مشتمل ہے، لیکن اس کی اس عریانیت کے پس پشت وہ سیاسی و سماجی نظام تھے، جس نے اس کی ذہنیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ جب و ہ مملکت کے سر براہوں کی بے عملی، ہوس پرستی، نا اہلی کو دیکھتا تو وہ تڑپ اٹھتا تھا اور یہی تڑپ اسے ان پر طنز و تنقید کے لیے آمادہ کرتی۔ اس کی شاعری اس کے اپنے دور کا المیہ ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
’’ بحیثیت مجموعی اس کی شاعری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زوال پذیر معاشرے کے ڈھیر پر کھڑا ہنس رہا ہے۔ اس کی ہنسی غموں کی اس انتہا سے پیدا ہوئی ہے جہاں انسان ہر چیز سے بے نیاز ہو کر ہنستا ہے۔ اس کی ہنسی اور اس کا طنزاپنے اندر اتنی کڑواہٹ رکھتا ہے کہ آدمی کے لیے اس کا نگلنا دشوار ہوجاتاہے۔ جعفر کو احساس ہے کہ قدریں بدل گئی ہیں..... اور وہ توازن ختم ہوگیا ہے جو ایک صحت مند معاشرہ محنت اور عیش کے درمیان قائم رکھتا ہے.....یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے زوال پذیر معاشرے کو ننگا کر دیا ہے جہاں مربوط تہذیبی رشتے اس لیے بکھر رہے ہیں کہ حاکم و حکمران منفی قدروں کے حمام میں ایک ساتھ نہاتے ہوئے تہذیب کے خاتمے کے بندو بست میںمصروف ہیں۔ اس صورتِ  حال میں جعفر گرتی دیواروں کے ملبے پر کھڑا طنز و ہجو کے تیر برسا رہا ہے۔‘‘ 
اورنگ زیب کی وفات کے بعد ملک بدامنی و انتشار کا شکار تھا۔ سماجی و سیاسی و معاشرتی ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ بہادر شاہ اول کی جعفر نے زبردست تنقیدکی ہے۔ جعفر کے طنز کا وار بادشاہِ وقت،شہزادگان، امرا و رؤسا اور سماج کے مختلف افراد پر یکساں پڑتا ہے۔ ایک طویل نظم میں اورنگ زیب کے بیٹوں کی کس طرح مذمت کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں    ؎
ازیں  تین بیٹے  نپٹ نہ خلف
پسر خود  خلف  با  دگر  نا  تلف
 جہاں ہوئے  ایسا کلچھن کپوت
لگے خلق کے منہ کو کالک ببھوت
جہاندار شاہ کے بعد جب فرخ سیر تخت نشیں ہوا تو خزانہ بالکل خالی ہوچکا تھا اور مغلیہ سلطنت معاشی طور پر کمزور ہو چکی تھی۔ معاشی نظام کے اس دیوالیہ پن نے بادشاہ کو ذہنی طور پر بوکھلادیاتھا، جس کا اثر عوام کو جھیلنا پڑ رہا تھا۔ اس طرح جب فرخ سیر کے نام کا سکہ جاری ہوا تو اس پر یہ شعر کہا گیا     ؎
سکہ   زد  از  فضلِ حق   بر  سیم  و  زر   
 بادشاہِ بحر و بر فرخ سیر
جعفر زٹلی پر چونکہ فرخ سیر کے عہد کی معاشی صورتِ حال اور اس کی حق پرستی عیاں تھی، چنانچہ وہ اپنی طبعی حسّیت کے سبب تملق پسندی کے اس سکے کو گوارا نہ کر سکا اور اس طرح اس کا جواب دیا    ؎
سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر
بادشاہِ تسمہ کش فرخ سیر
جب جب کسی ملک کی سیاست نئے رخ اختیار کرتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر اس عہد کے سماجی و ثقافتی حالات پر پڑتاہے۔ بادشاہ مملکت کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کی کارگزایوں کا ردِ عمل اس کی رعایا جھیلتی ہے۔ اس طرح ان کی سماجی و معاشرتی زندگی نئے موڑ لیتی چلی جاتی ہے۔ جعفر کی شاعری میں بھی اس کے عہد کے سیاسی مظاہر کے ساتھ سماجی و ثقافتی منظر نامہ اپنی جھلک دکھلاتا ہے۔ جعفر کی شاعری میں عصری حقائق کی جلوہ گری کے متعلق ڈاکٹر نعیم احمد کا یہ بیان صداقت کا حامل ہے:
’’جعفر نے اپنے گرد وپیش کے حالات کے مطالعے سے سلطنت کے زوال کا اس وقت اندازہ کر لیا تھا  جب کسی اور کے خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہو گی۔ یہ اس کی سیاسی اور سماجی  فراست  اور ژرف نگاہی کی بہت بڑی اور قابلِ تعریف شہادت ہے۔‘‘  
جعفر اپنی شاعری میں سماجی و ثقافتی منظر نامہ کے ذریعے اپنے دور کے حالات کا نوحہ رقم کرتا چلا گیا۔ جب سر براہِ مملکت کے اخلاق بگڑنے لگے، قدریں پامال ہونے لگیں، حق و انسانیت کی باتیں خواب و خیال سی لگنے لگیں تو پھر عوام کے اطوار و کردار کس طرح مستحکم رہ سکتے تھے۔ سماجی ناہمواریوں کا سایہ ہر سو پھیلتا چلا گیا۔ سماجی نا ہمواریوں کے علاوہ فرسودہ رسم و رواج و روایات اور معاشرے میں اخلاص کے فقدان جیسے مختلف پہلوئوں کو جعفر نے اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری، رشوت ستانی وغیرہ جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ نمونے  کے طور پر ایک بند ماخوذ از’ قطعہ در بیان نوکری‘ ملاحظہ فرمائیں    ؎
پشتون بیان نوکری، جب گانٹھ ہوئے کھڑکھڑی
تب بھول جاوے چوکری، یہ نوکری کا خط ہے
ہر روز  مجرااٹھ کریں،  درکار ایک  سو گرپڑیں
بے شرم ایسی  لڑمریں، یہ نوکری  کا  خط ہے
صاحب عجب بیداد ہے،  محنت  ہمہ برباد ہے
اے دوستاں فریاد ہے، یہ نوکری  کا خط ہے
زمانۂ ناہنجار پر نظم کے اشعار دیکھیے    ؎
ہنر مندان  ہرجائی،  پھریں  در بدر  رسوائی
رزل قوموں کی بن ا ٓئی، عجب  یہ دور آیا ہے
نہ بولے راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اتاری شرم کی لوئی،  عجب  یہ  دور آیا ہے
رشوت خوری کی گرم بازاری کے معاملے میں جعفر نے سبھا چند کی جو ہجو لکھی ہے و ہ اس ضمن میں قابلِ قدر نمونہ ہے۔ مزید بر آں ان کے کئی شہر آشوب اس ضمن میں پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں سماجی و معاشرتی نقشے کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔چند اشعار دیکھتے چلیں    ؎
گیا  اخلاص عالم  سے  عجب  یہ   دور آیا  ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھائی میں وفاداری
محبت  اٹھ گئی ساری عجب  یہ دور آیا ہے
خصم کو جورو اٹھ مارے، گریباں باپ کا پھاڑے
زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے
سماجی ناہمواری،فرسودہ رسم و رواج، اخلاقی گراوٹ، بے عملی، قدروں کی پامالی کے ساتھ ساتھ سلطنتِ مغلیہ کی بکھرتی سامراجیت، امراء و رئوسا کی ظلم و زیادتی و ناانصافی، معاشی ابتری اور اہلِ ہنر کی بے قدری وغیرہ ایسے موضوعات تھے جن پر جعفر نے بارہا قلم اٹھایا ہے۔ البتہ ان کا انداز ذرا جارحانہ ہو گیا ہے۔ جعفر کے متعلق ڈاکٹر امتیاز وحید کا یہ بیان بہت اہمیت رکھتا ہے:
’’جعفر کا عہد، اس کی احتجاجی شاعری اور باغیانہ تیور کا تفصیلی مطالعہ بتاتا ہے کہ طنز و ہجو کی راہ کا یہ سالک فکری طور پر کس قدر راسخ تھا۔ اس کے اس مخصوص ہجویہ زاویۂ نگاہ نے  غیر شعوری  طور پرمستقبل میں سماجی کمیوں اور کوتا ہیوں کے حوالے سے طنز و ظرافت کے لیے وسیع تر امکانات فراہم کردیے۔‘‘ 
اٹھارہویں صدی میں سماجی ناہمواریوں کا نوحہ رقم کرنے والوں میں ایک نام ظہور الدین حاتم کا بھی ہے۔ ان کی نظموں میں ایک شہرِ آشوب بعنوان ’مخمس شہر آشوب در 1141ھ‘ بھی ہے جس میں حاتم اپنے وقت کی اقتصادی زبوں حالی، سیاسی انتشار اور بدلتی تہذیبی اقدار کا نوحہ رقم کیا ہے۔ اس نظم کو مولوی عبد الحق نے عہد آفریں نظم کہاہے۔ان کے مطابق:
’’عصری رجحان و سیاسی انقلاب کی تصویر نگاری کے علاوہ طبقاتی سماج کی کشمکش پر اردو میں پہلی عہد آفریں نظم ہے۔‘‘  7 ؎
معاصر عہد کی تصویر کشی میں حاتم کس حد تک کامیاب ہوئے اس کا مجموعی طور پر ذکر کرتے ہوئے مولوی عبد الحق مزید فرماتے ہیں :
’’حاتم کا کلام درحقیقت اپنے عہد و احساس کا ایک نگارخانہ ہے۔ ان ہمہ رخ اور ہمہ رنگ تصویروں میں حاتم کے فکر و خیال کا وہ سر چشمہ موجود ہے جو نغمہ و نشاط سے فرصتِ ہستی کو خوش گوار بنانے اور زندگی کے سوز و ساز کو انگیز کرنے کا حوصلہ دیتا  ہے۔ قلندر کی یہ بات مائل بہ زوال معاشرے میں ایک الہامی آواز سے کم نہ تھی۔‘‘  
نمونے کے طور پر اس شہرِ آشوب سے دو بند ملاحظہ فرمائیں جس میں ثقافتی نظام کے پر خچے اڑا نے والے عناصر کو اس طرح بے نقاب کیا ہے۔    ؎
 امیر زادے ہیں  حیران  اپنے  حال کے  بیچ
تھے آفتاب پر اب آگئے  زوال  کے بیچ
پھریں ہیں چرخے سے ہر دن تلاشِ مال کے بیچ
وہی گھمنڈِ امارت ہے پھر  خیال کے بیچ
 خدا جو چاہے  تو پھر  ہو  پر اب  تو ہے دشوار
حرام  خور جو  تھے  اب  حلال  خور ہوئے
جو چور تھے سو شاہ ہوئے، شاہ چور ہوئے
جو زیرِ دست تھے سو ان دنوں میں زور ہوئے
جنھوں کو زور تھا  سو اب مثال مور ہوئے
جو خاک چھانتے پھرتے تھے سو ہوئے زر دار 9؎
د وسری طرف فائز دہلوی بھی اس عہد کا اہم شاعر گزرا ہے، جس نے سماجی بے اعتدالیوں اور معاشرتی قدروں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا منظر اپنی شاعری میں پیش کرکے طنز و مزاح کے وقار کو بالا کیا ہے۔ اس کا طنز وہاں کارگر ہوتا ہے جب وہ معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس تصویر میں مرد و زن کی جنسی بے راہ روی بے نقاب ہوجاتی ہے۔ فائز کی اس طرح کی نظموں میں میلوں ٹھیلوں میں تفریح کی مختلف صورتیں اور ان کی پستی و بلندی کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں۔ ان کی ایک نظم بعنوان ’بیان میلہ بہتہ ‘میں معاشرتی قدروں کے انتشار کا نمونہ ملاحظہ کریں      ؎
بہل ورتھ میں  بھر ی  ہیں سب عورت
آشنا  ساتھ   اپنے کرتیں  بات
 سیر کرتی   ہیں  اس طرح   ہر  سو
سب   نظر   میں  چشم   و   ابرو
کلکلاتی  ہے   آب    میں    ہردم
طاق پر دھر  رکھی ہے سب نے شرم
آگے پیچھے کھڑے ہیں ان کے حریف
واںمساوی ہیں سب وضیع و شریف
ہے  سندیسا  لگا   اصیلاں   سات
کہ کہاں  آویں ہم کہو  اس  رات
وعدہ  ہوتا  ہے  ان میں  جب پختہ
جا  اترتی   ہیں   رات  کو  ہر جا
ٹھور ٹھور ان  کے آملیں ہیں  حریف
نذر کرتی  ہیں سب وجودِ شریف
جمع  ہوتی   ہیں   قحبہ  زانی   پاس
خوف  ان کونہیں ہے کچھ  نہ حراس
کارِ بد   میں سبھی   ہیں   آلودہ
فسق   میٹھا  ہے  جیسا    فالودہ
رات اس جا  میں  یوں گذرتی ہے
قحبہ  زن  کام  اپنا   کرتی  ہے
صبح  ہوتی   ہیں  سب  رواں گھر کو
زیب  دیتی  ہیں اپنے  مندر  کو
ہے  یہ   حاصل   تمام   میلے   کا
اس  بجز  کچھ  نہ  نفع  ریلے  کا  10؎
1739 میں نادر شاہ کے لگاتار حملوں نے دہلی کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ مغل حکومت کے لشکر کے لشکر تباہ و برباد کر دیے گئے تھے۔ معاشی طور پر مغلوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ علاوہ ازیں جاٹوں اور مرہٹوں کے پیہم حملوں اور بغاوتوں نے سارے ملک میں ایسی بے چینی کی فضا پیدا کر دی تھی، جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ گردشِ دوراں نے بسی بسائی محفلوں کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا اور ساری سماجی اور سیاسی بساط الٹ چکی تھی۔ اس دور کے حالات کا صحیح نقشہ اورسچی تصویر دیکھنی منظو ر ہوتو ہمیں اس دور میں لکھی گئیں ہجویات اور شہر آشوبیہ نظموں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ دلی کی بربادی، عوام و امراء کی نا اہلی اور بد انتظامی، نادر شاہ کی قتل و غارت گری، مرہٹوں کی خونریزی وغیرہ کے جو نقشے ان قصیدوں، شہر آشوبوں اور ہجویات میں پیش کیے گئے ہیں ان کی مثال کسی بھی ادب میں ملنی مشکل ہے۔ نادر شاہ کے حملوں سے شاہی لشکر کی جس طرح پامالی ہوئی، عوام تو کیا، امراء و شرفا اور سپاہ تک خوار ہورہے تھے۔ ان تمام کیفیات کے اثرات اس عہد کے شاعر شاکرناجیـ پر بھی پڑ رہے تھے اور اس نے بڑی درد مندی کے ساتھ اس تلخ حقیقت کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ناجی کی شاعری میں ان کے عہد کے سماج و معاشرے کی نمودگی کے متعلق افتخار بیگم صدیقی کی مندرجہ ذیل سطور اس بات کے غماز ہیں کہ ناجی نے بہت حد تک اپنی شاعری میں اپنے دور کی سماجی زندگی کی تفسیر پیش کی ہے:
’’ان(ناجی) کی شاعری میں ہمیں اس عہد کی  معاشرت کے  تمام ناسور دکھائی دے جاتے ہیں جنھوں نے دیمک بن کر مغلوں کی شان و شوکت اور اقتدار کی جڑوں کو کھود کر رکھ دیا تھا۔ اس خصوصیت میں  وہ سودا سے کافی قریب دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں کو اپنے  دور کی خامیوں کا  احساس  ہے لیکن چونکہ وہ اس کا کوئی حل  اپنے  پاس نہیں رکھتے  اس لیے اس کامذاق اڑا کر رہ جاتے ہیں۔  11؎
حالانکہ ناجی کی شاعری کا بیشتر حصہ عشق اور اس کی رنگینیوں سے بھرا پڑا ہے اور اس کی شاعری ’’محمد شاہی دور کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے اور اس میں ’تماش بینی‘ اور ’نائونوشی‘ کا وہ ہی رنگ پایا جاتا ہے جو اس دور کا نمایاں وصف تھا‘‘ 12 ؎  اس کے باوجود بھی وہ سماجی مسائل سے نظریں چرا نہ سکا اور اس کا اظہار اس نے اپنی شہرِ آشوبیہ نظموں میں کیا ہے۔
 اس کیفیت کو ناجی کی نظروں سے دیکھیے، جس میں طنز کی مخصوص فضا نمایاں ہے    ؎
لڑتے ہوئے  تو برس بیس  ان کو بیتے تھے
دعا کے زور سے دائی دوا کے جیتے تھے
 شرابیں گھر کی نکالے مزے سے پیتے تھے
نگار و نقش میں  ظاہر گویا کے چیتے تھے
گلے میں ہیکلیں  بازو  اوپر  طلائی نال
چند متفرق اشعار پر بھی غور کیجیے جن میں سماج و معاشرے کی بے راہ روی کے ساتھ حکمرانِ وقت کی ناقدری و نااہلی کا بھی پردہ چاک ہوا ہے۔ جبکہ موخر الذکر شعر میںسلطنت کی ملکہ، جوکہ ایک رقاصہ تھی، کے عزیز و اقارب مل کر کس طرح رعایا کا استحصال کرتے ہیں اور بادشاہ خاموش تماشائی بنا دیکھتا ہے۔ اس شعر سے بادشاہ کی نا اہلی کا بھی ثبوت تو ملتا ہی ہے ساتھ عوام کی کسمپرسی کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ اشعار ملاحظہ  فرمائیں     ؎
بہت غافل ہیں صاحبِ نوبت  اور سب بند کے راجے
 نکلتے  نئیں  علاقوں سیں مگر جب  سر پہ  آ باجے
ہیں خوشامد طلب سب اہلِ دول
غور کرتے  نئیں  ہنر کی  طرف
 جو سالا شاہ کا  ہو کر کرے ظلم  اس کو  مت ٹوکو
  کہ زینت محل کی اس کی ہیں وہ پیاری کا بھائی ہے
اسی عہد کا شاعر قائم چاند پور ی بھی مرہٹوں اور جاٹوں کے مظالم کا چشم دید گواہ ہے، جس نے اپنی شاعری میں اس المیے کے بارے میں نہایت درد مندی سے اپنے جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ درج ذیل اشعار نہ صرف مرہٹوں کے ڈھائے گئے مظالم کی گرہ کشائی کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان میں اس عہد کے مطلق العنان بادشاہوں کے بارے میں بھی غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے  ؎
کیسا یہ شہ، کہ ظلم  پہ  اس  کی  نگاہ  ہے
ہاتھوں سے اس کے ایک جہاں داد خواہ ہے
  لُچا  اک  آپ،  لٹیری   سپاہ  ہے
ناموس خلق  سانے   میں اس کے تباہ ہے
 شیطان کا  یہ ظِل  ہے،  نہ ظلِ الٰہ ہے
لشکر میں مرہٹے  کے جو کوئی ہوئے ہیں  بند
دیکھے ہیں ان کے ظلم کے سب پست و بلند
اب نامِ فوج سن کے وہ بھاگے ہیں جوںپرند
سچ ہے کہ جس کو  سانپ سے  پہنچی کبھی گزند
رسی کو  جانتا  ہے کہ  مارِ سیاہ  ہے13؎
ٹھیک اسی عہد کے دو اہم شعرا میر و سودا ہیں جن کی شاعری میں وہ عہد پورے طور پر جلوہ نما ہے۔ سودا کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس زمانے کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی حقائق موجود ہیں۔ یہ زمانہ بحرانیت کے حد درجہ انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ خاص و عام، تمام کا ایک ہی حال تھا۔ بے چینی کی یہ فضا اس طور ان پر مسلط کر دی گئی تھی کہ شرفاء کو اپنی بگڑی سنبھالنی دشوار تھی۔ صاحبِ عزت و ثروت روٹیوں تک کے محتاج ہو چکے تھے۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ اس انتشار سے محفوظ نہ تھا۔ سودا اپنے سماج و معاشرے کا کتنا گہرا شعور رکھتے تھے اس کا اندازہ محض ایک شعر سے لگا یا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں   ؎   
 دورِ ساغر  تھا  یا   ابھی  چشم پُر آب
  دیکھ سودا گردشِ افلاک سے کیا کیا ہوا
سوداکے کلام میں موجود عصری حسیت کی افادیت کو ڈاکٹر خلیق انجم ان الفاظ میں نمایاں کرتے ہیں:
’’در اصل سودا کی زندگی کے واقعات اور ان کا کلام پڑھتے ہوئے اس مادی و روحانی خلفشار کو ہمارے سامنے عیاں کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ان حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سودا کے کلام کا جائزہ دلچسپ بھی ہوگا اور مفید بھی۔‘‘ 14؎
سودا  نے اپنی ہجویات اور شہرِ آشوب میں اس عہد کے تمام سیاسی و سماجی حقائق کو نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی ہجویات سماجی طنز نگاری کی شاہکار کہی جاسکتی ہیں۔ ان میں اس عہد کا حقیقی عکس نظر آئے گا۔ دہلی کی تباہی و بربادی کا ایک عکس ان اشعار میں دیکھیے  ؎
جہاں آباد تو کب اس ستم کے قابل تھا
مگر کبھو کسی عاشق کا یہ نگر دل تھا
کہ یوں مٹا دیا گویا کہ نقشِ باطل تھا
عجب طرح کا یہ بحرِ جہاں میں ساحل تھا
کہ جس کی خاک سے لیتی تھی خلق موتی رول
سودا نے دہلی کی تباہ حال حکومت اور اس کی مٹی ہوئی تہذیب کا نوحہ رقم کیا ہے۔ سودا کی شاعری میں ہر قسم کی عصبیت پر زبردست تنقید موجود ہے۔ متمول عیاشوں کی رنگ رلیوں، گنواروں کی خرمستیوں، معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں اور سماجی تضادات کو پوری قوت سے طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے جاں بلب مغلیہ سلطنت کی زوال پذیر معیشت، عوامی مسائل سے لا تعلقی، دفاع سے مجرمانہ غفلت اور شرمناک بے حسی پر گرفت کی ہے۔ ان کی نااہلی، بے بضاعتی اور بے ضمیری کو تحقیر کی نظر سے دیکھا۔ ان کی شاعری میں سیاسی و سماجی اور معاشرتی ہر سطح پر شکست و ریخت کا کرب محسوس کیا جاسکتا ہے   ؎
گھوڑا لے کر اگر نوکری کرتے   ہیں کسو کی
تنخواہ  کا   پھر  عالمِ  بالا  پہ  نشاں  ہے
 گذرے ہے سدا  یوں  علف و دانہ کی خاطر
شمشیر جو گھر میں تو  سپر بنیے کے یہاں ہے
——
سنتا  نہیں کسی  کا  کو ئی  دردِ دل کہیں
اب  تجھ سوا  میں جا کے  خدایا کہاں کہوں
اسی طرح تضحیکِ روزگار میں عہدِ مغلیہ کے سیاسی، اقتصادی، عسکری، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی زوال کے بارے میں جو احوال بیان کیا گیا ہے وہ قاری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ان حالات میں سودا کی شاعری ایک ایسے نوحۂ غم کی صورت اختیار کر لیتی ہے جسے پڑھ کر قاری اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا۔ اس ہجویہ قصیدہ میں بظاہر ایک گھوڑے کی ہجو کی گئی ہے لیکن اس کا اصل مقصد مغل سلطنت اور با لخصوص اس کے عسکری نظام کی کمزوریوں پر طنز ہے۔ گھوڑا اور تلوار مغل عسکری نظام کے دو بنیادی حوالے ہیں۔ خصوصاً ’گھوڑا ‘جس کے دم پر مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے مقامی فوجوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی اور جو اس کے بعد بھی ایک طویل مدت تک فوجی خدمات میں مرکزیت کا حامل رہا۔ مغل سلطنت کے سیاسی و تہذیبی زوال کے نتیجے میں ان کا عسکری نظام کمزور ہو کرمنتشر ہونا شروع ہوا۔ افواج بکھر گئیں۔ مغلوں کی معاشی حالت اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ درباروں سے منسلک افراد کو تنخواہ دینے کے لیے شاہی خزانے میں روپیہ نہ رہا۔ لہٰذا تنگ آکر سپاہیوں نے تلواریں کھول دیں اور رزق کی تلاش میں سر گرداں ہوگئے۔ ایک طرف جب خودنواب کے پاس رزق کا کوئی معقول ذریعہ نہ ہو وہ بھلا گھوڑے کو کیا کھلا سکتا تھا۔ چنانچہ شوکت و طاقت کی علامت گھوڑے کی حالت بھی بھوک سے نڈال ہونے کے سبب خستہ ہوگئی تھی۔ اس گھوڑے کی خستگی در اصل استعارہ ہے اس عہد کی سیاسی اور معاشی بد حالی کا۔     ؎
اتنا وہ سرنگوں ہے کہ سب اڑ گئے ہیں دانت
جبڑے پہ بس کہ ٹھوکروں کی نت پڑے ہے مار
 ہے  پیر اس  قدر کہ جو بتلائے  اس کا سن
پہلے وہ لے  کے ریگ  بیاباں کرے شکار
لیکن  مجھے  زروئے  تواریخ   یاد   ہے
شیطان  اس  پہ  نکلا  تھا  جنت  سے ہو سوار
معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں کی ایک مثال بے جوڑ کی شادیاں ہیں۔ ایک ہجویہ قصیدے میں ایک ایسے شخص کی ہجو کی ہے، جو بظاہر بہت بڑا متقی و پر ہیز گار ہے لیکن عمرِ اخیر میں ایک نوخیز حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو کر شادی رچانے چلا۔ سودا نے اس کی خوب خبر لی ہے اور اس متقی فلسفی کو آئینہ دکھانے کی بھر پورسعی کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں     ؎
 القصہ شیخ  جی کی  جو حرمت   خد ا گنوائے
بارہ  برس کی چھوکڑی باجا  بجاتے  لائے
آئے دلہن کے گھر سے جو مقنع میں منہ چھپائے
جیسا ہمارے کہنے کو خاطر میں وہ  نہ لائے
اپنے کیے کو  تیسا ہی  پاتے  ہیں  شیخ  جی
لایا  غضب  میں  شیخ کو گھر کا   یہ   بندوبست
مشکیں  تڑا پہنچ  گئے  جورو سے کر کے  جست
بال اس کے ان کے ہاتھ پہ ریش ان کی اس کے دست
عہدے سے بر نہ آئے تھے از بس ضعیف و پست
پاپوش تب سے جورو کی کھاتے ہیں شیخ جی
احمد شاہ ابدالی نے 29جنوری 1761 کو دہلی پر دھاوا بول دیا اور 20مارچ 1761 تک بے بس اور مظلوم عوام پر جو کوہِ ستم ڈھایا وہ تواریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔اس درد ناک سانحہ کے بارے میں میر تقی میرنے ایک جگہ جو نقشہ کھینچا ہے اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس منظر کا ان تحریروں میںمعائنہ کریں:
’’چھتیں توڑ دیں، دیواریں ڈھادیں، شرفا کی مٹی پلید ہورہی تھی۔ شہر کے عابد خستہ حال ہوگئے بڑے بڑے امیر ایک کھونٹ  پانی کے لیے بھی محتاج ہوگئے۔ چونکہ ان جفا کاروں کی بن آئی تھی۔ لوٹتے، کھسوٹتے،  ایذائیں دیتے، ستم ڈھاتے، عورتوں کی بے حرمتی کرتے، ہر گلی کوچے میں، ہر بازارمیں یہ غارت گر تھے اور ان کی دار وگیر  ہر طرف  خونریزی، ہر طرف ظلم و ستم،ایذائیں بھی دیتے اور طمانچے  مارتے، گھر جل  گئے، محلے ویران ہوگئے، سیکڑوں لوگ  ان سختیوں کی  تاب نہ  لاکر چل بسے، پرانے شہر کا علاقہ جسے رونق او ر  شادابی کے  باعث ’جہانِ تازہ‘  کہتے  تھے، منقش دیوار کے تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی مقتولوں کے سر، ہاتھ، پائوں اورسینے ہی نظر آتے تھے۔ ان مظلوموں  کے گھر  ایسے جل رہے تھے کہ آتش کدہ کی یاد تازہ ہو رہی تھی، جہاں تک آنکھ دیکھ سکتی تھی خاکِ سیاہ  کے  سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔‘‘15؎
 آخری عہدِ مغلیہ کے اس لرزہ خیز، اعصاب شکن صورتِ حال کا پرتو میر کی شاعری میں ہی ملاحظہ فرمائیں      ؎
مشکل  اپنی  ہوئی  جو  بود  و  باش
آئے لشکر میں ہم برائے تلاشِ معاش
آن کے دیکھی یاں کی  طرفہ معاش
ہے   لب   ناں  پہ سو جگہ  پرخاش
 نے  دم  آب  ہے  نہ  چمچۂ  آش
زندگانی  ہوئی ہے سب پر وبال
کنجڑے چھینکیں ہیں، روتے ہیں بقال
پوچھ مت کچھ سپاہیوں کا حال
ایک  تلوار  بیچے ہے  ایک  ڈھال
بادشاہ   و   وزیر سب  قلاش
میر کی شاعر ی میں اس عہد کے سیاسی نشیب و فراز، جذباتی ہیجانات، تہذیبی میلانات اور ذاتی تجربات و مشاہدات بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیے گئے ہیں۔ جبر کے اس ماحول میں جان لیوا تنہائی، مہیب سناٹے اور غربت و افلاس نے معاشرتی زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا تھا۔ میر تقی میرـ نے بر عظیم کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے تناظر میں اپنے خیالات کو نہایت دلسوزی، خلوص اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے   ؎
دلی  میں آج  بھیک بھی  ملتی  نہیں  انھیں
 تھا کل  تلک  دماغ جنھیں  تخت و تاج کا
اس عہد کے حالات ہی کچھ اس قدر تکلیف دہ اور نا گفتہ بہ ہوچکے تھے کہ میر حسن کو یہ تک کہنا پڑا     ؎
 گیا  ہو  جب اپنا  جیوڑا  نکل
کہاں کی  رباعی کہاں کی غزل
بحیثیت مجموعی عہدِ متذکرہ نے شعراء کو ذہنی طور پر بہت حساس بنا دیا تھا اور تمام حالات و واقعات کے اثرات ان پر براہِ راست پڑ رہے تھے۔ اس طرح وہ ان حالات کو اپنی شاعری میں سمونے پر مجبور ہوگئے۔ ان شعراء نے بڑی بے باکی، جرأت اور خلوص کے ساتھ اس عہد کی سیاسی، سماجی، عمرانی، ثقافتی و تہذبی حالات اور اس کی بے اعتدالیوں کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا۔
حواشی
.1        اردو قصائد کا سماجیاتی مطالعہ:  ڈاکٹر امِ ہانی اشرف، ص2،1999، ایجوکیشنل بک ہا ؤس، علی گڑھ
.2         بحوالہ :اردو ادب کا تہذیبی و فکری پس منظر: قاضی جمال حسین، ص13،2012، مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ
.3         بحوالہ:  اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت: مرتب ڈاکٹر خالد محمود،ص229، 2006،  اردو اکیڈمی، دہلی
.4         تاریخ ادب اردو، جلد دوم حصہ اول: جمیل جالبی،ص98، 2002، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی
.5         کلیاتِ میر جعفر زٹلی  مع  مقدمہ و حواشی،مرتبہ: ڈاکٹر نعیم احمد، ص 37، 1979، ادبی اکاڈمی، علی گڑھ
.6         پیروڈی کا فن: امتیاز وحید، ص48، 2012،عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
.7         انتخاب حاتم دیوان قدیم،مرتبہ : ڈاکٹر عبد الحق، ص85، جمال پرنٹنگ پریس، دہلی
.8         ایضاً، ص86                     .9         ایضاً، ص374
.10      فائز دہلوی اور دیوانِ فائز: مرتب: سید مسعود حسن رضوی ادیب، ص236،1965، انجمن ترقی اردو(ہند)۔ علی گڑھ
.11      دیوان شاکر ناجی مع مقدمہ و فرہنگ، مرتبہ: افتخار بیگم صدیقی۔ ص 53، 1989، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی
.12      ایضاً، ص102
.13      کلیاتِ قائم، جلد دوم، از قائم چاند پوری، مرتبہ: اقتدار حسین،  ص56، 1965،مجلسِ ترقی ادب،  لاہور
.14      مرزا محمد رفیع سودا: ڈاکٹر خلیق انجم، ص30، 1966،انجمن ترقی اردو (ہند)، علی گڑھ
.15      ا ٓخری عہدِ مغلیہ کا ہندوستان،ڈاکٹر مبارک علی،ص21، 1986،نگارشات، لاہور

Roushan Ara
Gopinathpur, PO: Sanka, PS: Adra
Purulia - 723121 (WB)
Mob.: 8348750980, 7908126319
E-mail: roushanyashab@gmail.com

 سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں