23/3/20

جدید عربی ادب میں آزادیِ نسواں مضمون نگار: جاں نثار معین




جدید عربی ادب میں آزادیِ نسواں
جاں نثار معین
تلخیص
آزادیٔ  نسواں کے لیے  کی جانے والی کوششوں کو تحریک نسواں کہا جاتا ہے۔جس کا آغا ز مغرب سے ہوا۔  اس تحریک  کے بنیادی مقاصد حقوقِ نسواں، صنفی مساوات ، تعلیم نسواں یا خواتین سے جڑے  دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہے۔   اس تحریک کی ترقی و  ترویج  دیگر ممالک  کے ادبی،  سیاسی، سماجی، معاشی، معاشروں میں پنہاں ہے۔ بین الاقوامی ادب کے مصادر میں اس کے اثرات  نمایاں ہیں۔  راقم نے  آزادیٔ نسواں کو مصر کے عربی مصادر  میں دیکھا ہے۔ جن حالاتِ زار کی پیش کشی  دیگر ادیبوں نے کی  ہے۔ اس  سے منفرد حقائق عربی ادب کے مصادر میں ہیں۔ بالورص  صدیوں سے خواتین کو حقوق سے محروم رکھا گیا۔  چاہے تہذیبی  ہو یا تمدنی  ہر جگہ  بے قاعدگیاں ہو تی رہیں۔ خواتین کو کمتر سمجھا جانے لگا تھا۔ اس تحریک نے خواتین کو اپنے حقوق سے بہرہ مند ہونے کے مواقعے  دیے۔ جب کہ یہ حقوقِ نسواں  اسلام میں  پہلے سے موجود تھے لیکن  پدرانہ نظام خواتین کے ساتھ غیر مساویانہ  روا   رکھا۔ انیسویں صدی میں مصر کی علمی و ادبی فضاؤں میں  جن سیاسی، دینی، ثقافتی، ادبی،  تنقیدی اور لسانی تحریکات کی گونج اٹھی۔ ان میں آزادی نسواں کی تحریک اہم تھی جس کے اثرات نہ صرف علمی و ادبی ماحول پر مرتب ہوے بلکہ اسلامی معاشرہ بھی اس  سے متا ثر ہوگیا۔ نثری ادب ہو یا شعری سرمایہ ہر صنف میں فکرِ آزادیٔ نسواں  ہے۔ مصر میں آزادیٔ نسواں کا یہ مغربی تصور فرانسیسی تہذیب و تمدن کے اثرات کے نتیجہ میں  ابھرا۔ 1971میں  جب  نیپولین بونا پاٹ کی قیادت میں فرانس سے مصر پر حملہ کیا۔ تو  وہاں کی علمی و ادبی،  سیاسی و فکری  اور معاشی زندگی میں انقلاب برپا ہوا۔ جس  سے مصری معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ  اہلِ مصر نے اپنے قلم کو اس فکر کے تحت موڑ  لیا۔ اس مقالہ کابنیادی مآخذ مصری ادب کے مصادر  ہیں۔ اس مواد  کے ذریعہ آزادیٔ نسواں تحریک کی عکاسی کی گئی ہے۔
کلیدی الفاظ
مصری عربی ادب،تحریکِ نسواں، تعلیم نسواں،  مسائلِ نسواں، آگہی، صنفی مساوات۔
————————

آزادی ِ نسواں مغربی اصطلاح ہے۔تحریک آزادیِ نسواں بھی وہیں کی  دین ہے۔اس نقطۂ کا آغاز فرانسیسی ماہرِ قانون خاتون Christine de Pizan (1365-1430) کی کتاب The book of the City of Ladies ہے۔  کیونکہ وہ اس سے قبل کے منتخبہ مواد میں خواتین کی جو حالاتِ زار تھی اس سیاہ تصویر کو دیکھ کر وہ متحیر ہوئی۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تصنیف میں اس طرح اظہارِ خیال کیا ’’جب اس کے بارے میں سوچتی تھی تو میرا دل غم و اندوہ سے لبریز ہوجاتا تھا۔ یہ نہ صرف مجھے بلکہ مجھے طبقۂ  نسواں کو بدمزہ کرتا تھا۔ ایسا لگتا گویا ہم کائنات میں ننگِ انسانیت ہیں...جب میرے ذہن میں مذکورہ خیالات آتے ہیں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے، آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں اور میں اپنی کرسی میں گڑ جاتی ہوں‘‘1؎ Pizan نے خواتین کی قد رو قیمت کو آشکار کیا۔ اسی لیے اس نے اپنی تحریروں میں کامیاب خواتین کی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس طرح اس نے تصور کو باطل ٹھہرانے کی کوشش کی کہ خواتین کسی بھی کام میں مرد سے کم ترہیں۔ ان کی پسماندگی دراصل تعلیم و تربیت کی وجہ سے ہے اور اس کا خیال تھا اگر لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی تمام سہولتیں ہوں گی تو وہ کسی بھی میدان میں لڑکوں سے کم نہ ہوںگی۔ اس طرح ان کے نظریات نے صدیوں سے چلی آرہی فرسود روایت کو ختم کردیا۔ اگلی تمام تحریک نسواں کے علمبرداروں نے پزان کے نظریات کے ساتھ ہی اٹھارویں صدی تک جگہ جگہ مختلف صورتوں میں ان کے خیالات لے کر سرگرم رہیں۔ ان تحریکات Equal rights movement کا دیا گیا۔ جس کے تحت قدیم روایات کو ختم کرکے غیرمساویانہ رویہ کو ختم کیا گیا۔
یورپ کے نشاۃِ ثانیہ کے نتیجے میں خواتین سے جڑے میدانوں میں انقلاب آیا تو خواتین کی حالت میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں۔ اس کوشش کو آزادی نسواں یا تحریکِ نسواں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے تحت خواتین بھی مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی۔ اس طرح یہ تحریک تمام یورپی ممالک میں تیزی سے پھیل گئی۔ بالخصوص اس فکر میں فرانس سب سے آگے تھا۔
دستیاب مواد کا مطالعہ
مصر ی آزادیٔ نسواں  کے چند اہم علمبردار یہ ہیں۔  رفاعہ رافع طہطاوی نے مشرقی تعلیم نسواں کی پہلی آواز بلند کی، وہ محض ایک عالم و ادیب ہی نہیں تھے۔  وہ ایک عظیم مصلح بھی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’المرشد الأمین للبنات البنین‘ میں خواتین کے لیے علم کے دروازے کھولنے کی دعوت دی تاکہ وہ اولاد کی تربیت، شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک اور گھر کے معیار کی بلندی کے سلسلے میں اپنی مطلوبہ ذمہ داریاں ادا کرسکے۔ ساتھ ہی علم کی بنا پر وہ مکارمِ اخلاق سے آراستہ اور معاشرہ کی خدمات پر قادر  ہو سکے۔
احمد فارس الشدیاق نے  اپنی تحریروں میں  انگلینڈ اور فرانس کی تہذیب و تمدن، طرزِ معاشرت ، رسم و رواج اور خاص طور سے خواتین کی آزادی و بے پر دگی کو  پسند یدگی کی نظر سے دیکھا، جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مردوزن کے آزاد اختلاط کے حامی تھے اور پردہ کو فرسودہ قرار دیتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے  اپنی تصنیف میں جگہ  جگہ بر قعہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔
علی پاشا مبارک نے متعدد کتابیں قلم بند کی ہیں۔ ان کی کتاب ’عَلَم الدین‘ سفر نامہ ہے۔ اس میں تاریخ۔ لغت اور  دیگر علوم  و فنون سے متعلق معلومات بھی  جا بجا ملتی ہیں۔  اس کتاب کو غیرمعمولی شہرت  ملی۔ اس  میں انھوں نے کنایہ اور محاکات کے اسلوب میں معاشرتی اصلاح سے متعلق اپنے  خیالات پیش کیے ہیں۔اس  میں یورپی کلچر کی ترقیوں کا ذکر  ہے۔ انھوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ تاکہ مرد و زن دونوں جنس کے درمیان یکسانیت باقی رہ سکے۔ اس طرح انھوں نے  خواتین کے حقوق اور خاص طور پر تعلیم نسواں کی آواز بلند کی اور جہالت  و نا انصافی سے آزادی  دلانے کی کوششیں کرتے رہے۔
محمد عبدہ  نے دیکھا کہ غیر ملکی تسلط نے مصری کلچر کی جڑیں کھوکھلی کر دی تھیں۔  تو انھوں نے تعلیم کے ذریعہ مصر ی خواتین کی اصلاح کی۔  انھوں نے  نصابِ تعلیم میں جدید علوم کا اضافہ کیا۔ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کو ضروری سمجھا اور وہ بھی عزت  و تکریم اور اس کے مقام و مرتبہ کا اعتراف کرتے ہوئے  زندگی کے تمام امور میں اسے مرد کے مساوی قرار دیا۔ جریدہ ’الوقائع المصربہ‘ میں 1881’حلجۃ الانسان الی الزواج‘ کے عنوان سے ایک مقالہ  لکھا۔  جس  میں یہ وضاحت کی کہ شادی کا مقصد محض خواہشات کی تکمیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد ایک خاندان ایک معاشرہ  وجود میں لانا ہے۔ 2؎
عبدالرحمن الکواکبی نے اپنی کتاب’ امّ الصّری‘ میں تعلیم نسواں  اور تربیت پر زیادہ زور دیا ہے۔  اور عورت کی جہالت کو امت کی پسماندگی اور انحطاط کا سب سے بڑاسبب بتایا ہے۔ انھوں نے  حضرت عائشہ اور دیگر صحابیات کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ عہدِ اول میں بڑی بڑی عالمات، فقیہات شاعرات اور محدثات گذری ہیں۔ جو ہمارے لیے اس  بات کا نمونہ ہیں کہ تعلیم خواتین کے لیے بھی ضروری ہے۔ علم عفت اور پاکدامنی کا ضامن ہے۔جب کہ جہالت فقر و فجور کاذریعہ ہے اور اولاد کی تربیت  کے لیے بھی مضر ہے۔  انہو ں نے لکھا ہے۔اردو ترجمہ:
’’ہمارے اخلاق میں فساد پیدا ہونے کا ایک  دوسرا اہم سبب ہے، یہ بھی خواتین سے  متعلق ہے، اور وہ یہ کہ اسلاف کی روایات کے برخلاف انھیں  جاہل  رکھا جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف  میں امّ المومنین عائشہ بھی تھیں جن سے ہم تک نصف علوم دین پہنچے ہیں، احادیث کی روایت نے  والی اور دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والی سیکڑوں صحابیات اور تابعیات ہیں، اور صدرِ اول  میں پائی جانے والی ہزاروں ذی علم اور شاعر خواتین ہیں۔ ان کا  وجود ان لوگوں کے خلاف زبردست دلیل ہے۔ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین کے جاہل رہنے سے ان کی عفت و عصمت کی زیادہ حفاظت  ہوتی ہے۔ جو لوگ اس قسم کی بات کہتے ہین ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جس سے ان کی یہ بات ثابت  ہو سکے کہ علم بے حیائی اور فجور کو دعوت دیتا ہے اور جہالت پاکدامنی کو مستلزم  ہے۔ ہاں بسا اوقات ایک علم رکھنے والی عورت  جاہل عورت کے مقابلے میں برائی کرنے پر زیادہ قادر ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جاہل عورت پڑھی لکھی عورت کے  مقابلے میں اس پر زیادہ حبری ہوتی ہے۔ پھر خواتین کے جاہل رہنے سے لڑکیوں اور لڑکیوں کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے۔ یہ چیز بہت واضح ہے  اور محتاج بیان نہیں  ہے۔‘‘ 3؎
قاسم امین  عالم عرب میں ’محرّرالمراۃ‘  آزادی نسوان کا علبری دار کے لقب سے جانے جاتے  ہیں۔ اگر چہ ان سے قبل بہت  لوگوں نے حقوقِ نسواں پر  بات کی ہے  اور نعرے بلند کیے ہیں۔ قاسم نے دیکھا کہ عورت قدیم روایت میں جکڑی ہوئی  ہے۔  وہ تعلیم اور دیگر معاشرتی حقوق سے تقریباً  بے خبر تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم کے  لیے چند مدرسے قائم بھی کیے گئے ، مگر عموماً  والدین اپنی لڑکیوں کوو ہاں بھیجنا پسند نہیں کرتے تھے۔ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اسے آزادی حاصل نہ تھی۔ اس  کی مرضی معلوم کیے بغیر اس کے متعلق جب اور جیسا چاہا جاتا فیصلہ کر لیا جاتا۔ قاسم امین سے پہلے  اگرچہ متعدد لوگوں نے خواتین کے حقوق کے سلسلہ میں اپنی آواز بلند کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مگر وہ صرف عورت کی تعلیم تک ہی محدود تھی۔ زندگی  کے دیگر مسائل پر اگر انھوں نے کچھ کہا بس سرسری طور  سے  نہایت ہی مدہم آواز میں، لیکن قاسم امین نے تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل  پر بھی خصوصی توجہ دی۔ انھوں نے پوری توجہ کے ساتھ تعلیم اور دیگر معاشرتی حقوق کی بات کہی اور عورت کی آزادی کو ایک تحریک کی شکل دے دی۔ غرض یہ کہ انھوں نے اپنی  پوری زندگی اپنے اس مشن کی تبلیغ میں صرف کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں  ’محرزالمرأۃ‘  یعنی آزادیِ نسواں کا علمبر کہا جاتا ہے۔
سعد زغلول نے 1919میں  ہونے والی آزادیِ نسواں تحریک میں اہم  رول ادا کیا ہے۔یہ قاسم امین کے گہرے دوست تھے۔ وہ خواتین کے حقوق کے حامی تھے۔ انھوں نے ایک موقع پر اظہار  خیال فرمایا ’’ میں آزادیِ نسواں کے  حامیوں اور اس کے قائلین میں سے ہوں۔ اس  لیے کہ آزادی کے بغیر ہم اپنے مقصد کو نہیں پہنچ سکتے میرا یہ یقین آج نہیں بلکہ ایک طویل زمانے سے ہے۔ میرے  مرحوم دوست قاسم امین بک نے اپنی کتاب ’المراۃ الجدیدۃ‘ (جس کا انتساب انھوں نے میری طرف کیا ہے) میں جن خیالات کا اظہار کیا  ہے میں ان سے متفق ہوں مصری عورت نے ہماری وطنی تحریک میں جو کردار انجام دیا ہے۔   وہ  بہت عظیم اور  مفید ہے۔ جس کا م  کا تم نے آغاز کیا ہے۔اس کو جاری رکھو میں تمہاری  پوری کامیابی کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ 4؎
عبدالقادر مغربی عورت کی تعلیم کے حامی اور شرعی حجاب کی قائل تھے۔ انھوں نے  قاسم امین کی آزادیِ نسواں کی دعوت کو سراہا اور اس کی دونوں کتابوں ’تحریر المرأۃ‘، ’المرأۃ الجدیدۃ‘ کو پسند کیا۔  ان کا کہنا تھا کہ شرعی حجاب نہ تو یہ ہے کہ عورت ہمیشہ کے لیے گھر میں قید کردی جائے اور باہر کی دنیا سے اس کا رابطہ بالکل منقطع کر دیا  جائے اور نہ وہ  ہے جس کی دعوت قاسم امین نے دی ہے۔ کیونکہ اس نے شرعی حجاب سے مرا د وہ طرز معاشرت لی ہے جو یورپ اور مریکہ کی خواتین اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بلکہ حجاب شرعی ان دونوں کے درمیان کی راہ ہے۔ انھوں نے  یہ بات زور  دے کر کہی  ہے کہ حجاب کبھی عورت کی ترقی کی راہ  میں رکاوٹ نہیں بنتا:
’’اسلام نے عورت کے لیے علم کو لازم کیا ہے اور اس کی تحصیل کو فرض قرار دیا ہے۔ دوسری طرف اس نے عورت کو ملکیت ، آزادی کا حق اور زیر ِ ملکیت چیزوں میں تصرف کی آزادی دی ہے۔ وہ عورت جو اپنی زندگی  میں اپنے محارم کے علاوہ کسی کو نہیں  پہچانتی اور پنے گھر سے کبھی نہیں نکلتی وہ یقیناً جاہل رہے گی۔ اسے وہ چیزیں نہیں معلوم ہو سکتی جن سے عمومی واقفیت اسے حاصل رہنی چاہیے اور خاص طور سے وہ ایسی چیزیں بھی نہیں  جان سکتی جن سے واقفیت اپنے ملک کی حفاظت اور پنے حقوق کی دفاع کے لیے ضروری ہیں۔ روایتی حجاب کی وجہ سے وہ جاہل رہے گی اور اس طرح ملکیت کے حق اور زیرِ ملکیت چیزوں  میں تصّرف کی آزادی سے محروم رہے گی۔‘‘5؎
آگے صراحت سے اپنا نقطۂ نظریوں بیان کیا ہے۔’ عورت انسان ہے۔ وہ  مرد کے مثل قوتیں  اور صلاحیتیں رکھتی ہے۔ علم کا حصول اس پر فرض ہے، اور اسے حق ہے کہ مکمل آزادی حاصل ہو ، تصرف کا اختیار ہو اور تمام حقوق حاصل ہو۔ 6؎
احمد الطری السید نے  محمد عبدہ کے مکتبِ فکر سے کسبِ فیض کیا تھا اور وہ قاسم امین کی آزادیِ نسواں کی دعوت سے پوری طرح متفق تھے۔ 1897 میں قاسم امین نے جنیوا میں اپنی کتاب’تحریر المرأۃ‘ کے کچھ حصہ سنائے تھے۔ خود بھی ’الجریدۃ‘ میں حقوقِ نسواں کی مدافعت میں متعدد مقالات  پیش کیے۔ انھوں نے باحثہ بادیہ کی کتاب  النسائیات پر مقدمہ لکھا ہے جس  میں حقوقِ نسوان کی ان کی دعوت کی تعریف و تحسین کی ہے۔ 7؎
ولی الدین یکن نے اپنی تصانیف میں خواتین کے مسائل پر  اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی کتاب ’الصحائف السود‘ میں ایک قطعہ’ المرأۃ‘ کے عنوان سے لکھا۔ جس میں انھوں نے  تین خواتین کا قصہ بیان کیا ہے۔ ان  میں سے ایک شوہر کے ظلم و استبداد کا شکار ہوئی ،دوسری جہالت کی بھینٹ چڑھ گئی اور تیسری حجاب کا سختی سے التزام کرنے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ  دھو بیٹھی۔ اس کے علاوہ  ولی الدین جبری شادی کے سخت مخالف تھے، ان کا خیال تھا کہ شادی یک مقدس رشتہ ہے جسے فریقین کی باہمی رضامندی اور ان کے درمیان مکمل اتحاد و اتفاق سے وجود میں آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تعلیم نسواں کو ضروری قرار دیا۔ان لوگوں پر سخت تنقید کی ہے جو  خواتین کو تعلیم سے محروم  رکھ کر اس کی فکری صلاحیتوں کو ختم کر دیتے  ہیں یا  ابتدائی تعلیم دے کر ہمیشہ کے لیے گھر کی چار دیواری میں بند کر دیتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی تنقید کی جو تعلیم کو عورت کے بگاڑ کا سبب سمجھتے  ہیں ’’ وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے سے ان میں بگاڑ آجاتا ہے۔ جو لوگ یہ بات کہتے  ہیں ان میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی ماں نے تعلیم حاصل کی ہو اور اس  میں بگاڑآیا ہو ، یہ تو محض کٹ حجتی کی بات ہے۔ 8؎
ہدیٰ ہانم شعراوی نے دیکھا کہ مصری خواتین جہالت اور مظلومیت کی زندگی گزار رہی ہیں اور حکومت کی توجہ سے محروم ہے۔ اسی لیے انھوں نے  یہ خیال ظاہر کیا کہ تعلیم ہی عورت کو اس تاریکی سے نکالنے کا واحد راستہ ہے۔ انھوں نے حکومت سے خواتین کو تعلیمی مواقع اور سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا، جامعہ الدول المربیتہ کے قیام کے وقت  ہدی شعراوی نے ایک میمورنڈم بھیجاجس میں خواتین کی جانب سے اس کی تائید کا اظہار کیا۔ اس خاتون  لیڈر کا اہم کارنامہ  یہ ہے کہ ا نھوں نے  باصلاحیت  مرد وں اور خواتین کی ہمّت افزائی کی۔ 
باحثہ بادیہ نے  ایک پاکیزہ معاشرہ کو وجود میں لانے کے لیے لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ  دیگر معاشرتی مسائل کو بھی موضوع بحث بنا یا مثلاً نکاح، تعدد ازدواج، پردہ  اور بے پردگی و آزادانہ  اختلاط پر بھی کھل کر بحث کی۔ انھوں نے قلم کے ذریعہ لڑکیوں کو ان کی بہت سی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور جگہ جگہ ان کی معمولی غلطیوں کی نشاندہی کی جن  سے خاندان تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتا ہے۔ انھوں نے لڑکیوں کو  معاشرہ کا ایک اہم حصہ بتا یا ہے۔ ان کی صحیح اسلامی تربیت پر لوگوں کو ابھارا انھوں  نے خواتین کے لیے پردے کو ضروری قراردیا اور  بے پردگی کو  موجب فساد  بتا یا، مرد وزن  کے آزادانہ اختلاط کی سخت مذمت کی اور عورت کا بن سنور کر اور زیب و زینت سے آراستہ ہو کرگھر سے  نکلنا معیوب بتایا۔ انھوں نے  خواتین کے حقوق کی  پرزور طریقہ سے حمایت کی۔ 1911 میں باحثہ بادیہ نے پہلی مصری کانفرنس میں ایک تقریر میں خواتین کے حقوق سے متعلق بحث کی۔ وہ ’’آزادیِ نسواں کے سلسلہ میں روش اعتدال پر قائم تھی اور انھوں نے اسلامی شریعت کو پیش نظر رکھا تھا9؎ اور زیادہ تر ان کی تحریروں میں معاشرتی اصلاح اور آزادیِ نسواں  کے سلسلہ میں خاص مواد موجود ہے۔  انھوں نے عورت کو معاشرہ کا ایک اہم حصہ  بتایا ہے۔ ان کاخیال  ہے معاشرہ کی ترقی عورت کی ترقی پر منحصر ہے۔ خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری  ہے۔ عورت کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے  انھوں نے کہا کہ عورت کی آزادی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی گود میں پروان چڑھنے والی نسل بھی آزادی کی فضا میں سانس لے مزید انھوں نے کہاکہ عورت کی آنکھوں سے اوہام و خرافات کے پردے ہٹائے جائیں تاکہ زندگی کی حقیقت اور عظمت اس کے سامنے  آشکار  ہو سکے۔
طٰہٰ حسین نے آزادیِ نسواں کی پر زور حمایت کی ہے۔ ان کے نزدیک آزادی کا حق جس طرح  مرد کو حاصل  ہے اسی طرح  یہ حق عورت کو بھی ملنا چاہیے۔ ان کے نزدیک حجاب عورت کی آزادی پر  قدغن ہے۔ اس لیے وہ عورت کو اسے اتار پھینکنے کی دعوت دیتے ہیں۔ 1911میں  انھوں نے   مقالات کا  ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں  اسی قسم کے خیالات پیش کیے تھے :
’’آزادی کے معاملہ میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ دونوں کو اچھے اخلاق کا حکم دیا گیا ہے۔ برے اخلاق سے رد کا گیا ہے اور بدحکم دیا گیا ہے کہ بدگمانی کے مواقع سے بچیں ، عورت کو چاہیے کہ کسی اجنبی کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے تنہا سفرنہ  کرے اور جاہیتِ اولیٰ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرے، اس کے بعد اسے آزادی ہے کہ جو چاہے کرے۔کوئی برا یا لغو کام کرنے سے احتراز کرے۔ اسی طرح اسے حق ہے  کہ نقاب اتار پھینکے اور حجاب الٹ دے اور دنیا کی لذتوں سے اسی طرح بہرہ ور ہو جس طرح  مرد لطف اندوز ہوتا ہے۔ پھر کوئی حرج نہیں کہ وہ ایسے کا م انجام دے  جو اس کی اپنی ذات کے لیے، اس  کے شوہر کے لیے اور پوری نوحِ انسانی کے لیے اس پر واجب ہیں۔ یہ ہے اسلام کا حکم عورت کے بارے میں اور یہی ہماری بھی رائے ہے جس سے ہم رد گردانی کریں گے  اور نہ اسے چھوڑ کر کوئی دوسری رائے اختیار کریں گے۔‘‘ 10؎
تصورِ آزادیِ نسواں
 مصر میں آزادیِ نسواں کا نقطۂ عروج عورت کے لیے مردکے مساوی تمام حقوق کا   مطالبہ تھا۔ اس عہد میں علمی اور معاشرتی میدانوں خاص طور پر خواتین کے حقوق پا مال تھے۔ لڑکیوں کے علمی مدارس نہ تھے۔ جب کہ لڑکوں کے  لیے مدارس  موجود تھے۔ اس وقت  یہ تصور عام تھا کہ لڑکیاں علم حاصل کر لیں گی تو علم کا  غلط استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی لیے انھیں صرف گھریلو کام سلائی، کڑھائی اور مردوں کی خدمات کے  کام سکھاتے تھے۔11؎  یہی تصور اگلے دنوں میں باقی تھا۔ اس سلسلہ میں محمدحسین ہیکل نے لکھا  ہے:
’’ عورتوں کی تعلیم  اس زمانے  میں ایک انہونی چیز تھی کوئی شخص جو کہ جمہور کی  رائے  کا احترام کرتا ہو لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلا سکتا تھا۔ جہاں تک  پردے کے عدم التزام اور  عورت  کے بے پردہ نکل نے کی بات ہے اس کا شمار اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو  حلال کرنے میں ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں عورت کے بارے میں   یہ چیز طے شدہ تھی کے اسے تعلیم نہیں حاصل کر نا چاہیے اور اسے گھر سے باہر نہیں  نکلنا چاہیے۔ اگر اسے  کبھی کسی  ناگزیر ضرورت پر  نکلنا ہی  ہوتو چہر ے کو ڈھک کر نکلے۔‘‘ 12؎
ایسی صورتِ حال میں مصر میں فرانسیسیوں کی آمد نے متعدد تبدیلیوں کے ساتھ اپنے اثرات  مرتب کیے۔ جیسے مرد و زن کے درمیان آزادانہ اختلاط کو رواج ملا، ڈرامہ نگاری، تھیٹر کا رواج، رقص و  موسیقی جس میں مرد اور خوتین دونوں شریک ہوتے تھے۔ کچھ تو اسلام قبول کرکے مصری خواتین سے شادیاں بھی کرلیتے تھے۔ اس لیے فرانسیسی ماحول کے  اثرات مرتب ہوئے۔ اس ضمن میں عبدالرحمن  الجبرتی نے لکھا ہے:
’’ مصر میں جب فرانسیسی آئے تو ان میں سے بعض کے ساتھ ان کی عورتیں بھی تھیں۔ وہ لوگ عورتوں کے ساتھ سڑکوں پر ٹہلتے تھے۔ ان عورتوں کے چہرے کھلے ہوتے تھے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے اپنے کندھوں پر کشمیری کپڑے اور  رنگ برانگی کشیدہ کاری کی ہوئی چیزیں  ڈالے ہوتی تھیں۔ گھوڑوں اور گدھوں پر سوار ہوتی تھیں اور ہنسی قہقہے اور اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ان کو  تیز ہانکتی تھی۔ ان کو دیکھ کر خواہشاتِ نفس کی  شکار فاحشہ اور نچلے درجہ کی عورتیں ان کی طرف  مائل ہو گئیں  اور ان  ہی کے جیسے  رنگ ڈھنگ اختیار کر نے لگیں۔‘‘ 13؎
1798 میں نیپولین کی قیادت میں مصر پر حملہ ہوا تو وہاں کی تہذیب پر اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ بالخصوص ادبی، سیاسی، سماجی، معاشی  و معاشرتی اور فکری سطح پر تبدیلیاں مرتب ہوئے ہیں۔ فرانسیسیوں کے لوٹنے کے بعد محمد علی مصر کے حکمراں نے لڑکیوں کی تعلیم پرر زور دیا تاکہ مرد و زن دنوں میں کسی قسم کی کمی  نہ اور انھوں نے  یہ دعوی ٰ کیاکہ بے پردگی اور اختلاط ِ مرد وزن فساد نہیں ہے۔
علی مبارک پاشا نے بھی  زیادہ  زور تعلیم نسواں پر دیا۔ اس کے علاوہ مسائل نسواں میں نکاح و طلاق، حجاب، اختلاطِ مرد وزن اور تعدّد ازدواج  جیسے امور کی  اصلاح کے لیے زور دیا۔ مصر کی سماجی اصلاح   بالخصوص حقوقِ نسواں کی مدافعت میں آواز بلند کرنے  والوں میں شیخ جمال الدین افغانی اور شیخ عبدہ   وغیرہ نے  اہم کردار نبھا یا۔ان سے مصر کے  دیگر دانشوروں نے کسبِ فیض کیا۔ اس طرح  مصر میں آزادیِ نسواں نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک میں سب سے اہم ’ قاسم امین‘ کی خدمات ہیں۔ انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ آزادی نسواں کو اپنی  زندگی کا  نصب العین بنالیا۔ اس فکر پر  ان کی دو کتابیں  ہیں ’تحریر المرأۃ‘ اور ’المرأۃ الجدیدۃ‘ ہیں۔ ان کتب میں قرآن و احادیث کی  روشنی میں حقوقِ تعلیم کی  حمایت کی۔ خواتین کے مساوی حقوق  پر زور دیا اور مصری  خواتین کو  مغربی  تہذیب و تمدن کو اپنانے  کے لیے کہا جس کے لیے  انھیں  مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کاوش کو آگے بڑھانے  میں احمد لطفی السید، سعد ز غلول، طہٰ حسین، عبدالرحمٰن کو اکبی، عبدالقادر مغربی ، عمر بک لطفی اور ولی الدین یکن وغیرہ نے اپنے اپنے طور پر اس تحریک کو آگے بڑھا یا۔ ان اہلِ علم دانشوروں کی  کاوشوں سے باقاعدہ آزادیِ نسواں کے علمبرداروں کی مصری خواتین کا ایک عملہ تیار ہوگیا جس کے بعد  خواتین نے خود اپنے حقوق اور مسائل  دونوں کے حل کا راستہ نکال لیا۔ حتیٰ کہ سیاسی ہو سماجی ہر میدان میں مردوں کی برابری کا دعویٰ کیا۔اس کے لیے  یہ خواتین متعدد تحریکیں چلائیں، کانفرنسس کیں اور  احتجاجی  مظاہرے بھی کیے۔
تحریک آزادیِ نسواں نے مصر میں ایک ہنگامہ بر پا کردیا۔ اس کی حمایت ومخالفت کا بازار گرم ہوا۔ اس تحریک کا ساتھ مصر کے ادیبوں نے  دیا۔ صاتفیوں، شاعروں اورفکشن نگار اپنے اپنے طور پر  اس تحریک کو فروغ دیا۔ نثر نگاروں میں پاشا مبارک، قاسم امین، احمد لطفی السیّد، محمد حسین ہیکل، عبدالرحمن کو اکبی، طہ حسین اور عبد القادر مغربی  جیسے اہم نام ہیں جنھوں نے  اس فکر کو فروغ دیا۔ مصر کے  جدید عربی ادب کے مصادر کی مدد سے آزادی نسواں کو تقویت ملی۔شعرا  میں  حافظ ابراہیم ، احمد شوقی، خلیل مطران اور علی الجارم، رفاعہ رافع طہطاوی، احمد فارس شدیاق،ولی الدین یکن، احمد محروموغیرہ نے اہم  خدمات انجام دیے ہیں۔ ان کے علاوہ علی پاشا مبارک، محمد عبدہ، سعد زغلول،  ہدی ہانم شعراوی اور یاحثہ بادیہ سب نے مل کر آزادیِ نسواں کے موضوع پر تحریریں ضبط کیں۔ آزادیِ نسواں کے ان دانشوروں کی مخالفت میں ادباشعرانے کی۔ ان میں فرید وجدی، طلعت حرب، عبدالمجید جرین، مصطفی اور احمد محرم  وغیرہ ہیں۔
مصر میں آزادیِ نسواں کے لیے  دو اہم شخصیتیں  ہیں جنھوں نے  اہم خدمات انجام دی ہیں۔  محمد علی  نے  لڑکیوں کی تعلیم  کے لیے ایک ’مدرستہ الولادۃ‘  مدرسہ 1830میں قائم کیا۔ اس میں  دس حبشی باندیوں کو خرید کر تعلیم  دی۔14؎  اس  مدرسے  میں  چند مصری  لڑکیوں نے بھی   داخلہ لیا۔  اس کے بعد کچھ کم زیادہ  داخلہ ہوتے رہے۔  اس مدرسہ کی فارغات میں سے ہی چند  وہیں ملازمت کی اور چند نے اسی مدرسہ کے تحت  اسپتال المحاجرالصحّیتہ Health centers میں خدمات انجام دی۔ اس کڑی کو آگے اسماعیل پاشا  نے بڑھائی۔اس نے ایک مدرسہ تعلیم نسواں  کے  لیے قائم کیاجس میں  پانچ سو لڑکیوں کی تعلیم ہوا کرتی تھی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن جاری  نہ رہ سکاکیو نکہ اسماعیل مدرسہ کا مکمل خرچ خود برداشت کرتے تھے۔ انھوں نے تحریک کے لیے سب سے پہلے اپنی بیویوں کو آگے بڑھایا۔ اس کام کے لیے ان کی تیسری بیو ی جسم آفت ہانم آفندی نے   بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس نے سیوفیہ میں  قائم عمارت خریدنے کے لیے کثیر رقم د ے کر ایک  مدرسہ قائم کیاجس میں300 لڑکیاں پڑھ سکتی تھیں۔  اس طرح  ’مدرسۃ السیوفیہ‘ مدرسہ 1873میں قائم ہوگیا۔15؎ ان کی دوسری بیوی طنجہ ہانم افندی  نے  1873 میں دوسرا مدرسہ قائم کیا۔ خدیو اسمائیل کی سرگرمیاں  مدرسہ تک ہی محدود نہ رہی بلکہ انھوں نے ہر بڑے شہر میں تعلیم نسواں کے لیے مدارس کھولنے کی کوشش کی ۔ اسی فکر کے تحت تعلیمی نقشہ   بنایا۔ اس میں بہت حد تک  یہ کامیاب ہوئے لیکن  وقت کے ساتھ ساتھ حالات مشکلات میں تبدیل ہو گئے اور  مدارس بند ہوتے چلے گئے۔
منجملہ مصر میں آزادیِ نسواں کی تحریک کو پروان 19ویں صدی  میں ہوا۔ اس کے نمایاں شخصیات میں  رفا عہ طہطاوی اور علی پاشا مبارک سر فہرست ہیں۔ معاشرتی اصلاح کی جدو جہد اور حقوقِ نسواں کی آواز بلند کرنے والوں میں شیخ جمال الدین افغانی ہیں۔ انھوں نے ایک مجلس میں حقوق نسواں پر   اظہار خیال کیا۔ اردو ترجمہ :
’’افغان کی مجلس میں مرد، عورت، بے حجاب اور پردہ کی بحث چھڑتی تو وہ ان  موضوعات پر لمبی گفتگو کرتے تھے۔ ان کی رائے کا خلاصہ یہ ہوتا کہ عقلی بناوٹ میں مرد و زن  مساوی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد کا سر پورا اور عورت کا سر آدھا ہوتا ہے۔ ان کے درمیان جو تفاوت پایا جاتا ہے۔ اس کا سبب تربیت سے  ہے اور یہ کہ مرد کو گھر سے باہر کے کام انجام دینے ہوتے ہین اور عورت گھر کی ذمہ داریاں اور بچوں کا کام سنبھالتی ہے۔ اس کا یہ کام مرد کی بہت سی ذمہ داریوں سے بڑھ کر اور زیادہ اہم ہے۔ وہ شخص غلطی پر ہے جو  ہر چیز میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا مطالبہ کرتا ہے۔ مرد اور عورت میں سے ہر ایک مخصوص فرائض ہے، اگر عورت خاندان سے محروم ہو اور اس کے حالات تقاضا کریں تو اس کے گھر سے باہر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں بس شرط یہ ہے کہ نیت  پاکیزہ اور اطوار درست ہو۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میرے نزدیک بے حجابی میں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ اس کو فجور کا ذریعہ نہ  بنا لیاجائے۔‘‘ 16؎
اس طرح اس تحریک کا علم بلند کرنے والوں میں مزید نام عبد الحمید حمدی، احمد فتحی زغلول، مصطفی عبدالرازق، علی عبد الرازق، عبد الرحمن کواکبی ، ولی الدین یکن اور طٰہٰ حسین  وغیرہ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس وقت تعلیم نسوان کو فروغ  دینے کی کوششیں کیں۔ کیونکہ تعلیم کے ذریعہ ہی  ایک متمدن قوم کا وجود ہو سکتا  ہے۔ اس فکر میں رفاعہ طہطاوی، علی پاشا مبارک، عبداللہ الندیم ، قاسم امین اور باحثہ بادیہ  وغیرہ خصوصیت سے  ذکر ہیں۔ان کوششوں  سے بیسویں صدی کے ربع، اول میں لڑکیاں صرف ثانوی مدارس میں علم حاصل کرسکتی تھیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے ان کے لیے بند تھے لیکن بہت جلد 1928 میں ایک  یو نیور سیٹی  جامعہ فولاد الاوّل قا ئم کی گئی جس  میں  لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ اس طرح   جامعہ میں 600مصری  طالبات علم حاصل کرنے کا شرف ملا۔ جب طہ حسین وزیر تعلیم ہوئے تو لڑکیوں کو تعلیم کو مزید سہولیات  ملی۔یہاں تک کہ لڑکیوں کو   یورپ اور امریکی جامعات میں  اعلیٰ تعلیم  حاصل کرنے  کے مواقعے فراہم ہوئے۔ 17؎ جو  لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ انھوں نے آزادیِ نسواں کو فروغ دیا۔ اس طرح وہ ہر میدان میں  اپنی خدمات انجام دیں۔بعض خواتین تو  وزارتی مناصب پر بھی  فائزرہی ہیں۔
مصر کی  دانشور خواتین سماجی فلاحی و بہبود تک محدود نہ تھیں۔ انھوں نے رفاہی تنظیمیں اور سوسائٹیاں قائم کیں۔ انھوں نے کئی  اسپتال یتیم خانے اور تعلیم گاہیں قائم کیں تاکہ مریضوں، زخمیوں اور مفلوک الحال عوام کی خبر گیری  اور ان کی دیکھ بھال  ہوسکے۔ 1936  کے آخر میں ’جمعیۃ حسین الصمعۃ‘ کا قیام ہوا۔ اس سوسائٹی کا نصب العین لوگوں کی مدد کرنا تھا۔
L, egypte Et Les Egyptiansکے نام سے فرانسیسی زبان میں ایک کتاب لکھی گئی۔ اس میں اہل مصر کی تہذیب و تمدن پر سختی تنقیدیں کیں اور ان کی پستی اور جہالت کو نمایاں کیا، خاص کر مصری خواتین کے حجاب کا التزام کرنے اپنی سرگرمیاں، بچوں کی نگہداشت، شوہر اور خاندان تک ہی محدود رکھنے اور سماج کے دیرینہ معاملات سے قطع تعلق رہنے پر مذمت کی۔ اس کتاب سے مسلمانوں میں زبردست ردِ عمل  ہوا۔ اس تنقید کے جواب میں قاسم امین نے  ایک تصنیف قلم بند کی۔ جس میں مصر میں اسلامی تہذیب و معاشرت اور مسلمان خواتین کی حیثیت کا دفاع کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد  ایک  عیسائی مرقس فہمی نے ایک کتاب ’المرأۃ فی المشرق‘ پیش کیا۔اس کتاب میں اسلام اور مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ  بنایا۔ اسلامی حجاب کو بالکل ختم کرنے کا مطالبہ کیا، مردوزن کے آزادانہ اختلاط کی حمایت کی طلاق کا  اختیار شوہر سے چھین کر قاضی کے حوالے کرنے، ایک سیزیادہ  بیویاں رکھنے پر پابندی عائد کرنے اور مسلمان خواتین اور قبطیوں کے درمیان رشتہ ازدواج کی اجازت دیے جانے کی تجویز پیش کی18؎ لیکن رفاعہ طہطاوی نے اپنی تصنیف ’تخلیص الابریز فی تلخیص بَاریز‘ میں  خواتین کی حیثیت اور حقوق اور دیگر معاشرتی مسائل سے متعلق  یہ کتاب لکھی۔ بالخصوص یہ  خیال  ظاہر کیا ہے کہ شرافت یا بے حیائی کا تعلق پردے یا بے  پردگی سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق درحقیقت تربیت سے ہے۔  اگر کسی کی  تربیت اچھی  ہوتو اس  سے عفت  شرافت کا مظاہرہ  ہوگا۔ خواہ  وہ پردے  کا اہتمام کرے یا  نہ کرے۔ 19؎
آزادیِ نسواں کی تحریک میں مصطفی فاضل کی بیٹی امیرہ نازلی فاضل نے  اہم کردار ادا کیا ہے۔20؎ اس کی شخصیت پر مختلف نظریات  ہیں کسی اسلام پسند کہا تو کسی نے امریکی ڈاکٹر سے شادی  نے مرتد قرار دیا لیکن اہل مصر کے دانشور حضرات  میں شیخ محمد عبدہ، سعد زغلول، لقانی محمد بیرم اور قاسم امین  وغیرہ اس کی وجہ سے مجلس میں شا مل ہوتے تھے۔ انورالجندی نے لکھا ہے کہ قاسم امین نے جب دوق دار کور کی کتاب کا رد لکھا۔ جس میں مصری خواتین کے اوصاف و فضائل کو سراہا تھا۔ یورپی خواتین کی نقالی پر اعتراضات کیے تھے۔ تو بعضوں نے کہا  قاسم امین کی تنقید کا نشانہ امیرہ نازلی کی شخصیت ہے۔ یہ سن کرا میرہ نازلی غیظ و غضب سے بھڑک  اٹھیں۔ اس نے سخت  باتیں کہیں، تب قاسم امین نے امیرہ نازلی کی  خوش کرنے  کے لیے  ایک کتاب  ’تحریر المرأۃ‘ تک لکھی۔21؎
مصر میں آزادی  نسواں کی تاریخ میں 1919 ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال  خواتین  نے چار دیواری سے نکل کر مردوں کے  دوش بہ دوش برطانوی استعمار  کے خلاف سڑکوں پر  مظاہرے کیے  اور جانوں کی قربانیاں  پیش کیں۔ 9 مارچ1919کو  برطانوی استعمار کے خلاف مصری قوم نے  پہلا احتجاجی جلوس نکالا اس میں طلبابھی شامل تھے اور خواتین کھڑکیوں اور روشن دانوں سے  نعرے لگارہی تھیں۔ اگلے مظاہروں میں خود بھی شریک تھیں۔ اسی طرح 14 مارچ کو بھی ہوا تھا۔ مظاہرین اور برطانوی فوج کے درمیان جھڑپ میں 12 افراد شہید ہوئے جن میں سر فہرست حمیدہ خلیل  خاتون تھی۔ اس کی شدت  نے  مصری خواتین کو مشتعل کر دیا اور28 گھنٹوں کے اندار تین خواتین نے ایک احجاجی جلوس نکالا۔ اس موقع پر جو میمورینڈم پیش کیا گیا۔ ان میں نیوی مظاہرین پربرطانوی  حکومت کی اندھی دھند فائرنگ کی مذمت اور اہلِ مصر کی حق آزادی کی حمایت کی۔ اس مظاہرے کا نقشہ عبدالرحمن الرافعی نے کچھ اس طرح  بیان کیا ہے:
’’ خواتین دو صفوں میں ترتیب سے روانہ  ہوئیں، وہ سب چھوڑی چھوٹی جھنڈیاں لیے ہوئے تھیں۔ ایک بڑے جلوس کی شکل میں شاہراہوں سے گذریں، وہ آزادی انقلاب زندہ باد اور بیرونی اقتدار مردہ باد کے نعرے لگارہی تھیں۔ ان کے جلوس نے عوام کی نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اور ان کے دلوں میں جوش و جذبہ اور پسند ید گی کی روح پھونک دی ، ہرجگہ لوگوں نے تالیاں بجاکر اور نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا، خواتین نے گھروں کی کھڑکیوں اور جھرو کوں سے ان کی حماعت میں نعرے بلند کیے ، قاہرہ کی اکثر آبادی خواہ وہ مردوں کی ہو یا خواتین کی اس عظیم اور بے مثال جلوس کو دیکھنے کے  لیے امنڈ آئی ار انہی کی آواز میں آواز ملا کر نعرے بلند کرنے لگی۔‘‘ 22؎
اس احتجاجی جلوس نے مختلف سفارت خانوں میں پہنچ کر  اپنا احجاجی  میمورنڈم تقسیم کیا۔ واپسی میں اس نے بیت الأمۃ جانے کا قصد کیا۔  برطانوی پولیس نے ان کا راستہ روک لیا، ان پر سختیاں کیے۔ پھر جلوس کافی دیر تک  جاری رہا۔ اسی دوران احتجاجیوں نے بیت الأمۃ تک پہنچ کر وہاں بیرونی ممالک کے نمائندوں کو دوسرا میمو رنڈم دیا جس میں  برطانوی حکومت اور پولیس کی شکایت تھی۔ اس میمو رنڈم  پر بہت سی خواتین  نے دستخط بھی کیے تھے۔اس کے بعد ۷ دسمبرکو ملفر کمیشن (الجۃ ملنر) مصر آنے پر خواتین  نے اس کے خلاف احتجاج کرنے  اور اس کا بائیکاٹ کر نے کا پروگرام بنایا، انھوں نے ایک قومی کانفرنس بھی مندر کی جس میں احتجاجی قرار داد منظور کی گئی۔ اس طرح کی کوششوں کے بعد  احتجاجی خواتین نے مل کر آزادیِ نسواں کی تحریک کو فروغ دیا۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی ممبران ہدی ہانم شعرادی اور دیگر خواتین تھیں۔ اس تحریک کی اہم نمایاںکردارسعد ز غلول ہیں جو1919کے انقلاب کے اعزازی سربراہ تھیں۔23؎  ان احتجاجیوں نے تعلیم نسواں،  حجاب کی پابندی کے خلاف آواز، مقصدِ نکاح تعدّدِ ازدواج، طلاق اور دیگر معاشرتی مسائل  وغیرہ کو سامنے رکھا۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ رکا کہ نابالغ اور کم عمر لڑکیوں کے نکاح پر  پابندی ہونی چاہیے۔ زیادہ بیویاں رکھنے  سے پہلی بیوی کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اسی لیے تعدد ازدواج ممنوع ہونا چا ہیے۔  طلاق کو کم سے کم اور محدود کرنے  کے لیے  اس کا اختیار  مرد سے  لے کر قاضی   کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس تحریک کو فروغ  دینے  کے لیے  قاسم امین نے   ایک کتاب لکھی ’ تحریر المرأۃ‘ جس میں انھوں نے تحریکِ نسواں کی حمایت کی۔ اس پر زبردست رد عمل ہوا۔  اس کی پرواہ کیے بغیر دوسری کتاب  ’المرأۃ الجدیدۃ‘ کے نام سے لکھی۔ اس طرح اس فکر کو آگے بڑھانے والوں میں سعد زغلول، احمد لطفی السید، طہٰ حسین، ہدی ہانم شعراوی، می زیادہ، امینہ السعید اور دریہّ  شفیق کے  نام سر فہرست  لیے جا سکتے ہیں۔ 24؎
آزادیِ نسواں کی حمایت میں مصری صحافت کا بھی اہم رول  رہا ہے۔ 1892میں ماہانہ مجلہ’الاستاذ‘ میں مدرستہ البنات کے عنوان سے ایک کالم  ہوا کرتا تھا۔ جس میں لڑکیوں کی تعلیم  و تربیت پر لکھا جاتا تھا۔ علی یوسف نے  الموید نامی ایک روزنامہ  جاری کیا۔  اس نے آزادیِ نسواں کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ قاسم امین نے خواتین کی اصلاح ، تعلیم و تربیت کے علاوہ معاشرتی حقوق پر متعدد مضامین لکھے۔ احمد لطفی السید کے  مقالات ان کے روزنامے ’الجَریدۃ‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔ اس طرح جب  اس تحریک کو ترقی ملی تو یہ رسائل اسی نام   سے  جاری رہے۔ جیسے عبدالحمید حمدی نے 1915میں قابرہ سے ہفتہ واری جریدہ ، السفور، نکالا، اس مجلہ میں حجاب اور اسلامی آداب ِ معاشرت  کے خلاف مضامین ہوتے تھے۔ بالخصوص اس تحریک کے لیے  دو رسائل اہم تھے ایک  جرجی زیدان کا جریدہ ’الہلال‘ اور محمد حسین ہیکل کا جریدہ ’السیا ستہ‘  میں  بھی  مضامین شائع کرتے تھے۔
1945میں دریہّ شفیق نے  نسائی حقوق  کے لیے ’بنت النیل‘ مجلہ  جاری کیا جس میں مسائلِ نسواں اورآزادیِ نسواں کی فکروں کوآگے بڑھا یا گیا۔ اس مجلہ کی مقبولیت کے بعد انھوں نے ’وراۃ الاجتماعیۃ‘ کے  ذریعے ایک تنظیم قائم کی جس کا تعلق بین الاقوامی تنظیموں سے ہوا۔ تنظیم نے 1951 میں بغیر اجازت  پارلیمنٹ میں گھس کر اپنے مطالبات کا مظاہرہ کیا جس کی بنا پر دریہّ شفیق  پر مقدمہ چلا۔25؎ مصری دستور میں مرد وزن کو دستوری انتخاب کا حق دیا گیا لیکن ارکان پارلیمان کو منتخب کرنے کا حق صرف مرد کو دیا گیا۔ تو  دریہّ شفیق نے 1952 میں ایک تحریک  چلائی۔ لیکن کچھ مخالفین کی وجہ  سے کامیاب نہ ہو سکی۔1954 میں دریہ شفیق نے نیا دستور کی تاسیسی کمیٹی کے قیام کے لیے مسلسل آٹھ دن بھوک  ہڑتال کی جس میں حکومتی سطح کچھ حد تک ہمدردی  ملی۔
بیسویں صدی کے ربع اول تک خواتین کو ممبر شپ نہیں تھی۔ وہ الزیب الحنطی کے پروگراموں میں  شرکت کرتی تھیں۔اس کی کانفرنسوں میں اظہارِ خیال کر تی تھیں اور اس کے تحت ہونے والے مظاہروں میں شامل تھیں۔  بہت جلد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ خواتین خود کمیٹیاں اور سوسائٹیاں تشکیل دینے لگیں۔مصری خواتین کو  1919کے انقلاب سے کافی حد تک دستوری مساوات حاصل ہوئے۔ اور 1923 کے دستور میں مرد و زن کو مساوی حقوق دیے گئیں لیکن بہت  جلد قانون انتخاب ہوا تو خواتین پھر ایک بار پھر حقوق سے محروم ہو گئی۔لیکن اسی سال  ہدی شعراوی کی رہنمائی میں خواتین کی پہلی تنظیم ’الاِتحاد النسائی‘ کے  نام سے قائم ہوئی۔ 26؎ جبکہ اس سے قبل اس طرح کی کئی کوششیں ہو چکی تھیں لیکن اس کا دائرہ محدود  تھا۔ ’الاتحاد النسائی‘ کے قیام کا مدنس خواتین کو امید واری اور ووٹنگ کا حق دلانا تھا جنھیں قانونی انتخاب کے ذریعہ سلب کیا گیا۔ تو یہ تنظیم اپنے  حقوق کے  لیے آواز بلند کی اور کئی تعلیم نسواں کے کئی ادارے قائم  کیے۔ دیگر  ممالک  کے نسوانی تنظیموں سے تعلقات قائم کیے۔   اور معاشرتی مسائل اور لڑکیوں کی شادی کی عمر16 سال  طے ہوئی اور مصری  نو جوانوں کو غیر ملکیوں سے شادی  پر پابندی  عائد کر دی گئی۔ 27؎
احمد فارس شدیاق  نے فرانس کے  مشاہدات و احساسات سے دو کتابیں  ’الساق علی الساق‘  اور  ’کشف المخجا عن فنون اوربا‘ میں حقوقِ نسواں سے متعلق لکھا ہے۔ بالخصوص تعلیم نسواں  پر ان کے نظریات کچھ اس طرح  ہیں:
’’اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس عربی  میں ایسی کتابیں نہیں جو خواتین کے لیے مناسب ہوں تو  میں کہوں گا کہ ہاں یہ بات ٹھیک ہے ، لیکن کیا انگریزوں کے یہاں خواتین  اور بچوں کے لیے ایسی مخصوص کتابیں نہیں ہیں جنھیں ماہرینِ فن اور دانشوروں نے تالیف کیا ہے۔ پھر تم ان سے دیگر سامان تو خریدتے ہو لیکن علم، حکمت اور آداب حاصل کرتے۔ کوئی شخص اس بات کا انکار نہیں کریگا کہ بچپن کی تعلیم پتھر کی لکیر ہوتی  ہے۔‘‘ 28؎
احمد فارس نے مزید  خواتین کو  اس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کیا۔ جس میں اخلاقیات ہوں۔وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں کسی بھی طرح کے فنون لطیفہ سیکھنے کا مطالعہ کریں  تو  اس کا ذہن خرافات سے پاک رہتا ہے:
’’ جہاں تک ہمارے ملک میں خواتین کو پڑھنا لکھنا سکھانے کا سوال ہے تو میرے نزدیک یہ ایک اچھی چیز ہے۔ بشرط یہ کہ اس کا استعمال صحیح طریقے پر ہو۔ اور وہ یہ کہ  وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کرے جس سے کہ اخلاق سنوریں اور املا درست ہو جائے جب خاتون تحصیلِ علم میں مشغول ہوگی  تو سازشوں کا جال بننے اور مکر و فریب اور حیلے تراشنے  سے اس کی توجہ ہٹ جائے گی، شادی شدہ خواتین میری اس کتاب اور اسی جیسی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرسکتی ہیں جس طرح بعض کھانے صرف شادی شدہ لوگ کھا سکتے  ہیں۔ یہی حال کلام  کی بعض قسموں کا ہے۔‘‘ 29؎
اس  اقتباس سے معلوم ہوتا ہے۔لڑکیاں تعلیم  حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن صرف ایک محدود دائرے میں رہنے کی اجازت تھی۔ حالانکہ تعلیم نسواں سے متعلق بات کرنا جرأت کی بات تھی کیونکہ لڑکیاں گھر کی چاردیواری میں بند رہ کر ہی جہالت کی زندگی گزار تی ہیں۔ انھیں گھریلو کام کاج، مردوں کی  خدمات، بچوں کی داشتہ اور مردوں کی مرضی کے مطابق دیگر کاموں میں لگی رہتی ہیںجب کہ پڑھی لکھی خاتون اپنی عزت، عصمت ہو یا  دیگر خود کفالت والے امور میں وہ خو د بہتر فیصلہ لے سکتی ہیں۔ احمد فارس شدیاق نے  اپنی دوسری کتاب ’کشفْ المْخَجَّا عنْ فْنونِ أورْبّا‘ میں  خواتین کے  مساوی حقوق  سے لکھی ہے۔ انگریز خواتین اپنے مردوں کی افضلیت کا اعتراف کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے  کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایک  پہلو  میں امتیاز دیا ہے تو  خاتون کو بھی  دوسرے خصوصیات سے نوازا ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔ مثلاً اگر مرد کو قوت و طاقت دی ہے تاکہ وہ روزی کما سکے، تو عورت کو صبر اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کا  جذباتی ثرو دیا ہے۔  اگر مرد کو مضبوط جسم عطا کیا گیا ہے تو عورت حسن و جمال کی مالک ہوتی ہے۔مرد عزتِ نفس سے بہرہ ور ہے تو عورت کو حیا کی دولت  ملی ہے۔
 علی پاشا مبارک کی تصنیف ’علم الدین‘ جدید عربی ادب کااولین نمونہ ہے۔ جوغیر معوملی اہمیت کی حامل ہے۔  اس کا اسلوب افسانوی ہے۔ اس  میں انھوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت اور ان کے دیگر حقوق پر زور دیا ہے۔مرد و زن کے درمیان پاکیزہ اختلاط کی اجازت دی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے انگریز سیّاق کی زبانی کیا ہے۔ لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے۔اسی قسم کے خیالات خود ان کے بھی ہیں، اور وہ  چاہتے ہیں کہ ان کے ہم وطن بھی انہی خیالات  کے حامل بن جائیں۔ محمود شرقاوی اور عبداللہ المشید  کے خیال  میں تعلیم یافتہ  اور بے پردہ عورت اور با پردہ عورت کے مقابلے میں اپنے آپ کی اور اپنے شوہر اور گھروالوں کی عزت کی حفاظت زیادہ کر سکتی ہے اور ازدواجی لطف و محبت زوجین کے درمیان مساوات کی بنیاد قائم ہو سکتی ہے۔ علی پاشا تعلیم نسواں کے حامی تھے۔ تاکہ خواتین بھی  علم و معرفت  کے اعلیٰ معیار تک پہنچے اور مرد کی برابری کرنے  کی دعوت دیتے ہیں۔
تحریکِ آزادیِ نسواں سے متاثرکتب کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان سب مصادر کا تذکرہ، تعارف یا تجزیہ طول کا  باعث ہوگا۔ بہت سا مواد  دستیاب بھی نہ ہو سکا۔ حاصل شدہ مواد کی روشنی میں  اس  تحریک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خواتین کا صدیوں سے پدرانہ سماج استحصال کرتا آیا ہے۔ وہ ظم وستم کا نشانہ بنتی رہی  ہیں۔ ان کے حقوق غصب کیے گئیں۔ اس کے بر عکس تحریک  نسواں کے جذبۂ حریت نے نہ صرف حقوق حاصل کیے بلکہ با وقار ہونے کا ثبوت دیا۔ قاسم امین نے  اپنی دوسری کتاب ’المرأۃ الجدیدۃ‘ میں کہا خواتین کو آزادی دینے سے ابتدا میں بہت سی غلطیاں ہونے کا  امکان ہے۔ لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی آزادی کا  بخوبی استعمال کر سکیں گی اور اپنی عقلی و ادبی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں گی۔
با حثہ بادیہ کی تصنیف ’النسائیات‘ مقالات کا مجموعہ ہے  جو انھوں نے خواتین کے مسائل پر لکھی تھی۔ وہ لڑکیوں کی  درست تعلیم  و تربیت پر زیادہ زور دیتی  ہیں۔ تاکہ زوجیت کے فرائض، شوہر کی خوشو دی اور بچوں کی صحیح  نگہداشت کر سکیں اور اپنے وطن کی ترقی کے بہترین  خدمات انجام دے سکیں۔  وہ کم سن کی شادیوں کی مخالف تھی۔ اسی طرح وہ عمر رسیدہ شخص کی شادی کمسن لڑکیوں سے  کرنے کی بھی مخالف تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ شادی کے وقت دونوں کی عمروں میں برابری کا خیال رکھا جائے تاکہ دونوں پر سکون زندگی  ہو۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہوں:
’’زوجین کی عمرون میں یکسا نیت پر بڑی حدتک موافقت اور محبت کا دارو مدار ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ لڑکی شادی اس وقت کی جائے جب وہ نکاح کی اہل اور اس کے مسائل برداشت کرنے کے لائق ہو جائے۔ ایسا سولہ سال سے پہلے نہیں ہونا چاہیے۔ کم عمر لڑکیوں کی شادی کھلواڑ ہے۔ اس میں متعدد وجوہ سے امت کی شقاوت ہے، مثلاً اس صورت میں ازدواجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہمیشہ ناموافقت یا علیحدگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔کثرت سے بچوں کی اموات ہوتی ہیں، نسل کمزور ہوتی ہے۔ اور خواتین اعصابی امراض اور دیگر نسوانی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں۔ دو مختلف عمر کے جوڑوں کے باہم نکاح میں  بچے کمزور ہوتے ہیں۔ اور زوجین میں ناموافقت پیدا ہو تی ہے۔ نیز فطرت کا دقیق نظام بدل جاتا ہے۔‘‘ 30؎
اس طرح وہ  تعددِ ازدواج اور طلاق کو بھی  پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ غیر مناسب حرکات سمجھتی تھی۔ چاہے بے جوڑ شادی  ہو یا  مرد ماتحتی ہو۔ اس کی سخت مخلافت کی۔محمد ہیکل کا شاہکار ناول ’ زینت‘ ہے۔  جسے پیرس کے زمانہ طالب علمی میں 1911تا 1910کے درمیان لکھا۔ اس ناول میں جا بجا بہت سے معاشرتی برائیوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً نکاح کے معاملے میں عورت کے حقوق کو نظر انداز کیا  جانا، خاندان کی تشکیل سے متعلق غلط نظریہ رکھانا وغیرہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہے۔منجملہ یہ کہانی خواتین کے بنیادی حقوق کی عکاسی کرتا ہے۔
لطفی السید کی کتاب ’المنتخبات‘  میں حقوقِ نسواں موضوع بنایا گاع ہے۔ خاص کر حجاب اور بے بر پردگی پر،کم سنی کی شادی کے نقصانات بیان کیے ہیں اور طلاق کی کثرت اور تعدد ازدواج کو بھی تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ انھوں نے تحریک نسواں  کے  تعارف میں ’ الحرکتہ النسائیۃ فی مصر‘  مقالہ لکھا۔  جس میں  تحریک کا اولین مقصد یہ تھا کہ عورت تعلیم و تربیت کے زیورسے آراستہ ہوئے۔
عربی ادب کی ہر صنف میں مصنّفین  نے اپنی  اپنی تحریروں سے  اصلاحی معاشرہ کی خدمات انجام دی ہیں۔ اسی طرح سے شعرا  بھی  اس تحریک نسواں کے فروغ میں شاعری کے ذریعہ اپنی خدمات انجام دیے ہیں۔انھوں نے بھی حالات کا مشاہدہ کیا۔  اپنے ارد گرد کے  ماحول کو محسوس کر کے خواتین کی پستی ، جہالت اور دیگر امور کی تشویش پر نظر ڈالی۔  جو کام عربی ادب کے  دیگر اصناف  کے ذریعہ کیا گیا وہی کام شعرا نے بھی کیا۔  جیسے تعلیم نسواں، حجاب، تعدد ازدواج، نکاح و طلاق کے علاوہ  دیگر موضوعات کو شاعری کا  مرکزی خیال بنا یا جس سے تحریک کو  فائدہ  ہوا۔ اس عہد کے نمائندہ شعرا میں رفاعہ رافع طہطاوی، احمد فارس شدیاق،  حافظ ابراہیم، خلیل مطران، ولی الدین یکن، احمد محرم،احمد شوق اورباحثہ  بادیہ وغیرہ کا  نام قابلِ ذکر  ہے جنھوں نے جدید عربی ادب میں شاعری کے ذریعہ تحریک نسواں اور تعلیم نسواں کو  شاعری   کا بنیادی مقصد سمجھا۔
حواشی
        Christine de Pizan, The book of the city of ladies, tans Earl Jeffrey Richards, New York, Persea books, 1982, P. 5
        تاریخ الامام الشیخ محمد عبدہ، سید رشید رضا، ج 6، ص 109-112
        ام القریٰ، عبدالرحمن کواکبی، ص 157
        آثار الزعیم سعد زغلی، ابراہیم الحبزی، ص 73
        کلمتان فی السفر والحجاب، عبدالقادر مغربی، ص 1-11
        ایضاً، ص 13
        النسائیات، باحثہ باریہ مقدمہ از لطفی السید
        ولی الدین یکی، الصحائف السود، ص 11
        النسائیات، مقدمۃ، مقدمۃ از لطفی السید، ص 5
10۔     ادبامحاصرون، رجاء النقاش، ص 27
11۔     رفاعہ طہطاوی نے اپنی کتاب ’المرشد الأمین البنات والبنین‘ میں اعتراضات نقل کیے ہیں۔
12۔     عائشہ تیموریہ (1840-1902) کی تعلیم اسی انداز پر ہوتی تھی۔
13۔     عجائب الآثار، عبدالرحمن الجبرتی، ج3، ص 161
14۔     تطور النہجۃ النسائیۃ فی مصر، درّیہ شفیق وابراہیم عبدہ، ص 29-32
15۔     تطور النہضۃ النسائیۃ، ص 49
16۔     زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، احمد امین، ص 114
17۔     تطور النہضۃ النسائیۃ، ص 8-88
18۔     عورۃ الحجاب، محمد احمد اسماعیل، ص 28-29
19۔     رفاعہ طہطاوی، تخلیص الابریز فی تلخیص باریز، 1821
20۔      مقالہ، صالون نازلی ہانم، ڈاکٹر سید فہمی ثناوی، مجلۃ الحلال، ستمبر 4، 1982، ص 43
21۔     مزید تفصیل ان کتب میں ہیں، المحاقطۃ والنجدید، انور الجندی، ص 131
            بھٹی، ایضاً، بر صغیر میں علم فقہ، ص: 118-119
22۔      الثورۃ 1919، عبدالرحمن الرافعی، ج1، ص 186
23۔      ڈاکٹر سطوت ریحانہ، مصر میں آزادیِ نسواں کی تحریک اور جدید عربی ادب پر اس کے اثرات: ڈکٹر سطوت ریحانہ، علی گڑھ، 2001، ص 67
24۔      قاسم امین کے خیالات کو مزید جاننے کے لیے ان کی کتاب ’تحریر المرأۃ‘ اور ’المرأۃ الجدیدۃ‘ پڑھیں۔
25۔      المرأۃ المصریۃ، ص 221-223
26۔      ایضاً، ص 133-34
27۔      ایضاً، ص 144-45
28۔      احمد قارس شدیاق، الساق لما الساق فیما ہوالفاریاق، احمد فارس شدیاق، الکتاب الثانی، ص 320
29۔      ایضاً، ص 126
30۔      باحثیہ بادیہ، النسائیات، ص 35
v
Md Nisar Uddin (Jan Nisar Moin)
Deptt. of Womens Studies
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli
Hyderabad - 32 (Telangana)
Mob.: 9394578313
E-mail: jannisarmoin1@gmail.com


سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020 


1 تبصرہ:

  1. سلام مسنون
    اس ضمن میں فرید وجدی آفندی اور ان کی کتاب المراۃ المسلمۃ کا تذکرہ نہ ہونے سے ایک کمی کا احساس ہو رہا ہے ، آجاتا تو بہتر تھا ۔

    جواب دیںحذف کریں