یہ بات ہم بحسن و خوبی جانتے
ہیں کہ ’اردو زبان کا تعلق دنیا کے سب سے بڑے لسانی خاندان ’ہندیورپی خاندان
ِالسنہ ‘ کی ’ہندایرانی شاخ‘ (Indic/Indo-Aryan) سے ہے، جو جدید ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی کھڑی بولی سے تعلق رکھتی
ہے۔اس کا رسم الخط مغربی ہند کی کھڑی بولیوں کے برعکس ’سامی‘ خاندان سے تعلق رکھنے
والی عربی زبان سے ملتا ہے۔’املا نامہ ‘کے مقدمہ میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں :
’’اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی
خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔‘‘
(املا نامہ ، مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،مکتبہ جامعہ
لمیٹڈ نئی دہلی، ص 13)
قواعداردو
کے مقدمے میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں:
’’اردو ،ہندی نژاد ہے اورقدیم ہندی پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت
ہے۔‘‘
(قواعدا ردو مرتبہ عبد الحق، مطبوعہ انجمن ترقی اردو
(ہند) نئی دہلی2011، مقدمہ ص 8 )
اردو
زبان طویل عرصے تک فارسی زبان و ادب اور اس کی تہذیب کے زیرِ اثر رہی ہے۔اردو زبان
پر یہ اثرات آج بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ فارسی زبان کے مقابلے میں عربی
زبان جو سامی زبانون کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کے بھی اثرات اردو زبان و ادب
پر پڑے ہیں ۔مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں
:
’’اردو نے اپنے ارتقا کے دوران کئی زبانو ں کے اثرات قبول
کیے ہیں، جن میں عربی، فارسی اور ترکی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔‘‘
(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ، ایجوکیشنل بک
ہائوس علی گڑھ 2012، ص 193)
فارسی زبان چونکہ ہند و ایرانی
زبانوں کے خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے اس نسبت سے اردو اور فارسی زبان میں فطری
رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کی بے شمار زبانوں کے الفاظ و
مرکبات اور اصطلاحات بھی اس زبان میںشامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ احسن معلوم
ہوتا ہے کہ ’اردو زبان نے دیگر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات اور مرکبات کو اس خوش
اسلوبی کے ساتھ قبول کیا ہے گویا یہ تمام الفاظ و اصطلاحات اس زبان کی اپنی ہوں‘ ۔
اس زبان نے دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات کو ’نا‘ کبھی نہیں کہا۔
غالباً اسی اخذ و اشتقاق اور اپنا لینے کی بنیاد پر اردو زبان کو مخلوط زبان یا
ساجھی وِراثت کی زبان کہا جاتا ہے۔ صاحبِ املا نامہ، مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’اردو دنیا کی ان چندانتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن
کا دامن اخذو استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا
ہے۔اس کے ذخیرۂ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت
پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے تو ایک چوتھائی حصہ جو در اصل ہند آریائی
گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز وافتخار کا ضامن ہے، سامی و ایرانی مآخذ یعنی
عربی وفارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔‘‘
(املا نامہ ،مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مکتبہ جامعہ
لمیٹڈ نئی دہلی ، ص 13)
اردو
کی یہی خصوصیات زبانوں کی سطح پر اسے سیکولر شکل عطا کرتی ہے۔ اردو زبان اور
لسانیات کے دیباچے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں
:
’’اردو کا ایک نام سیکولرازم یعنی ’ غیر فرقہ واریت‘ اور
’بقائے باہم ‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اس کی مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ
نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔‘‘
(اردو زبان اور لسانیات: گوپی چند نارنگ، رام پور رضا
لائبریری 2006 ، ص 11 )
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ
اردو زبان نے لسانی، ادبی اور عام بول چال کی سطحوںپر عربی اور فارسی زبانوں کے
اثرات قبول کئے ہیں ۔ اردو زبان نے عربی کے مقابلے میں فارسی زبان کا رنگ اور ڈھنگ
کہیں زیادہ اختیار کیا ہے۔ نیز جہاں تک عربی رنگ و ماحول کی بات ہے تو وہ بھی
بذریعہ فارسی اپنایا ہے۔ اس کی وجہ جگ ظاہر ہے کہ عرب تاجروں کا آنا جانا ہمارے
یہاں برسوں سے ہوتا رہا ہے ،لیکن یہ آنا جانا بس تجارتی سطح تک محدود رہا ہے۔ اس
کے برعکس فارسی زبان بولنے والے ہندستان میںحکومتی سطح تک پہنچے ۔ یہ الگ تاریخی
بحث ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں کس حیثیت سے داخل ہوئے؟ یہاں یہ پہلو دل چسپی سے خالی
نہیں ہے کہ انگریزوں نے کم و بیش دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی لیکن انہوں نے
کبھی اس ملک کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ ’آریوں اور مغلوں‘ نے اس ملک میں
رہائش اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے۔
اردو میں دخیل الفاظ
چونکہ اپنی اور پرائی ہر زبان
سے استفادہ کرنا اردو کا شیوہ رہا ہے ایسے میں یہ بات قدرے آسانی کے ساتھ سمجھی
جا سکتی ہے کہ ’اردو زبان میں مستعار اور دخیل الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہے‘۔ پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :
’’زبان جتنا دوسری زبانوں سے لے گی اتنی ہی سرمایہ دار
ہوگی۔‘‘
(خواب باقی ہیں ، آل احمد سرور، ایجوکیشن بُک ہائوس
یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ 1991، ص 338 )
دخیل الفاظ کی نسبت اردو میں
مستعار الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں: زندگی،
زندہ دلی، شادی اور برات، بالٹی، دال وغیرہ۔
یہ سب الفاظ اردو زبان کے ساتھ ہی بول چال میں اس طرح سے گھل مل گئے ہیں کہ
آج ان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
لسانی سطح پر پڑنے والے اثرات
اردو زبان سنسکرت کی ایک ترقی
یافتہ شکل سورسینی اَپ بھرنش پر پڑنے والے مختلف زبانوں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ یہ
نتیجہ باہر سے آنے والی ترک، عرب، ازبک، ایرانی اور انگریز قوموں کے مقامی لوگوں
سے باہم اختلاط کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ہندوستان میںباہر سے آنے والوںمیں بیشتر
لوگوں کا تعلق عرب، فارس اور ترکی سے تھا۔ جو یہاںکی خوش گوارآب و ہواکی بنا پر
یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حسنِ اتفاق کہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا،جسے
یہ لوگ سیکڑوں برس تک بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلاتے رہے۔ ا ن کے حکومتی طریقۂ
کاراور عوام سے باہم اختلاط کے اثرات یہاں کے ہر شعبے پر پڑے، جس میں اردو زبان
بھی شامل ہے۔ جو مقامی، مضافاتی اورباہر سے آنے والوں کے درمیان رابطے کی بھی
زبان تھی لیکن چونکہ حکومت کی زبان فارسی تھی اس لیے مقامی زبانوں جن میں اردو
فارسی سے نسبتاً قریب تھی اس پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔
صوتی سطح پر فارسی کے اثرات
اردو کا صوتی نظام اگرچہ مختلف
زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اردو چوں کہ ایک ہند آریائی زبان ہے اس
لیے اس میں خالص ہندی نژاد آوازوں کی تعداد زیادہ ہے، مثلاً ٹ، ڈ،ڑ،بھ، پھ، تھ،
دھ۔لیکن اس کے صوتی نظا م پر چار لسانی خاندانوں کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں ۔
الف: عربی و فارسی کے اثرات: خ ،
ز، ف، ق،
غ، خالص عربی و فارسی آوازیں ہیں
،جو ان زبانوں سے براہِ راست مستعار عمل کے ذریعے اردو میں در آئی ہیں ۔ یہ
آوازیں اصل کی رو سے اگرچہ اپنی شناخت یا اپنی آوازیں رکھتی ہیں ، لیکن اردو
زبان میں ان کی ایک ہی آوازیں ہو گئی ہیں ۔اردو نے ایسا ہندوستانی نہج پر کیا ہے۔
ہاں مدارس میں آج بھی ان حروف کی قرات ان کی اصل آوازوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔
ب: ژ،
آواز خالص فارسی ہے، جو اس زبان کے مستعار الفاظ کے ذریعے اردو کے صوتی
نظام کا ایک حصہ بن گئی ہے۔یہ آواز صرف فارسی الفاظ مثلاً مژدہ، مژگاں ، ژالہ،
پژمردہ، اژدہا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ اب یہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔
ج: کوزی آوازیں جیسے ٹ، ڈ،
ڑ، وغیرہ خالص دراوڑی آوازیں ہیں
جو بالواسطہ طور پر اردو میں مستعار الفاظ کے ذریعے در آئی ہیں۔
و: ہا کاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو
کے صوتی نظام کا بنیادی حصہ ہیں ۔
اس کے علاوہ اردو زبان میں بے
شمار فارسی کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات موجودہیں ۔ یہ سب آج بھی اسی روانی کے
ساتھ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند الفاظ بطور مثال پیش کیے جارہے ہیں:
چشم،
اشک، نماز ، بہشت، برزخ، عدالت،اناج، آب پاشی، آرائش، آداب و تسلیمات،انگشتری،
بریانی، مرغ مسلم وغیرہ۔
اردو زبان میں بعض الفاظ اس
طرح سے در آئے ہیں کہ وہ حقیقت میں عربی الاصل تھے ،لیکن ان پر فارسی زبان کے
لاحقے یا سابقے لگا کر انھیں اردو بنا لیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں :
لفظ ’شان ‘
کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ لگایا اور شاندار بنا لیا گیا۔ اسی
طرح لفظ ’نقش ‘ پر خلافِ قاعدہ تائے وحدت لگا کر ’ نقشہ کشی، نقش کشی، نقشہ نویس
اور نقشہ باز‘ بنا لیا گیا۔
یوں تو اردو کے صوتی نظام
پرعربی و فارسی کے علاوہ زبانوں کے بھی اثرات نمایاں ہیں، لیکن یہاں صرف فارسی
زبان کے تعلق سے بات کرنا مقصود ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جیسے حرف
’’ ز‘‘ جو فارسی زبان سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔
صرفی سطح پر اردو زبان پر پڑنے
والے اثرات اس طرح ہیں۔ ذیل میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ دیکھیں:
استاذ سے اساتذہ۔ اخبار سے
اخبارات ۔ مشکل سے مشکلات۔ تخیل سے تخیلات وغیرہ۔
مرکبات توصیفی، اضافی
مرکبات کے معاملے میں بھی اردو
زبان پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جیسے مردُم شماری، شیر خوار اور گرانقدر
وغیرہ ۔
اسی طرح نحوی سطح پر جیسے
اضافت وغیرہ بھی فارسی سے ہی مستعار ہیں ۔ مرکبِ اضافی کی مثالیں جیسے لبِ دریا،
زیرِ لب، زیرِ انتظام ، دردِ دل، چراغِ محفل، شمرِ محفل اور باغِ عدن وغیرہ۔
اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ
کتابت (نستعلیق)
اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ
کتابت’نستعلیق‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ خواجہ میر علی تبریزی
نے ’خطِ نسخ‘ اور ’تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسم ِ خط دریافت کیا جو ’’نستعلیق
کہلایا۔ مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :
’’ایران کے ایک عالم خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے
دورسومِ خط ’نسخ’ اور’ تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسمِ خط ایجاد کیا جو ’نستعلیق‘ کہلایا ۔ اردو کے
لیے آج یہی رسم ِ مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔‘‘
(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل
ہائوس علی گڑھ 2012، ص 196 )
اردو ادب پر فارسی کے اثرات
اردو زبان پر فارسی زبان و ادب
کے اثرات کس طرح یا کس حد تک پڑے ،اس کو قدرے آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم اردو ادب
کو دو زمروں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ شعری ادب اور نثری ادب۔
شعری ادب: دورِ حاضر کے شاعروں
میں یا ماضی قریب کی شاعری میں مغربی یا جدید رجحانات صاف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس
بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان کا شعری سرمایہ مکمل طور سے فارسی زبان
و ادب سے متاثر ہے بلکہ شعری اصناف براہِ راست فارسی سے ہی مستعار ہیں۔ مثال کے
طور پر مثنوی، رباعی، قطعہ،قصیدہ وغیرہ۔
اردو میں مرثیہ لکھنے کا رواج فارسی سے ہی آیا ہے۔ فارسی میں مثنوی کی
روایت بہت مقبول رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی یہ صنف وہیں سے آئی ہے۔ اس کے علاوہ
اصول اور موضوعات کی سطح پر بھی فارسی کے اثرات ملتے ہیں ۔ برِّصغیرہر اعتبار سے خوش نصیب خطہ رہا
ہے۔ یہاں ہر طرح کا موسم، ندیاں اور جھرنے
اورپہاڑ،چرند و پرند اور درند اور انسانوں میں کالے اور گورے، چپٹی ناک سے لے کر
لمبی ناک والے سب کچھ پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ بلکہ ندیوں کے معاملے میں تو یہ
دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی گود میں سب سے زیادہ ندیاں بہتی ہیں ۔ ڈاکٹر
محمداقبال نے اس بات کو اس طرح کہا ہے ؎
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی
ہزاروں ندیاں
لیکن یہاں کے شعرا نے اپنے
کلام میں ’طوطا ، مینا اور کوئل‘ کی جگہ بلبل و عندلیب کا ذکر کیا ہے۔ مقامی
درختوں جیسے ’تاڑ، چنار، نیم، برگد اور لپٹس ‘ کی جگہ سَروکا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح
ندیوں کے معاملے میں ’راوی، جہلم،گھاگھرا، سریوـ‘ یا دیگر ندیوں کی جگہ نیل و فرات اور دجلہ کا
ذکر کیا ہے۔ شاعر نے ہندوستانی پھولوں جیسے ’بیلا، چمپا،، موتیا،گیندا اور رات کی
رانی کی جگہ ایرانی پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ لاجونت کی جگہ نرگس کا ذکر کرتا ہے۔
کوئل و پپیہے کی جگہ بلبل و قمری کا ذکر کرتا ہے۔ ہمالیہ و ہندو کش کی جگہ طور و
کوہِ قاف کا ذکر کرتا ہے۔ عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے تو لیلیٰ و مجنوں کی بات
کرتا ہے۔ اسی طرح اردو شاعروں نے خمریات پر قلم اُٹھایا تو ایرانی شاعر ’عمر خیام‘
کو اپنا ماخذ و مرجع بنایا۔ اس معاملے میں
تو ہندوستان کی دیگر زبانوں نے بھی استفادہ کیاہے۔ ہندی شاعر ’ ہری ونش رائے بچن ‘
کی ’مدھوشالا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔
اس کے علاوہ اردو زبان کے
مشاہیر شعرا نے بزبانِ فارسی سخن بھی فرمایا ہے۔ اردو زبان کا شاعرِ اعظم ’مرزا
غالب ‘ بقول کسے اپنی اردو شاعری کے
مقابلے میں اپنے فارسی اشعار پرکہیںزیادہ نازاں تھا۔ اپنی فارسی دانی پر بھی اسے
کمال درجہ فخر تھا ۔ جبکہ یہ عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ آج اس کا وجود بڑی حد تک اس
کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے۔ کم از کم اردو زبان و ادب کا مجھ جیسا طالب علم غالب
کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے ہی جانتا ہے۔
اسی طرح اردو زبان کے ایک اور
مشہورشاعر ڈاکٹر محمداقبال نے تو فارسی کے کئی دیوان چھوڑے ہیں۔ ’اسرارِ خودی‘ ان کا پہلا فارسی شعری مجموعہ
ہے۔ محمد اقبال کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ اردو زبان و ادب کے مقابلے
میں فارسی زبان وا دب کا دائرۂ کار قدرے وسیع ہے۔ نیز وہ زبان و ادب سے جو کام
لیناچاہتے ہیں اس کے لیے یہی فارسی زبان ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ’ سید
عبد اللہ‘ اپنے ایک مضمون ’تشریحِ
اقبال‘ میں لکھتے ہیں :
’’اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔
عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فگانی، جلال اسیر،سالک یزدی، رضی
دانش،ابو طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ کا بڑا اثر ہے۔ لیکن حکیمانہ مضامین کے
لیے انھوں نے رومی، خاقانی،بیدل ااور طالب کی زبان استعمال کی ہے۔‘‘ ( آثارِ
اقبال ص 267)
اردو کے شعری سرمائے میں درج
ذیل لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے:
رخِ زیبا، چہرہ یار، قامت
زیبا، دراز قامت، دراز گیسو، موجِ تبسم، روبہ قضا، ماہِ نَو، صورتِ طائوس، چشمہ
آتش، چشمِ سوزن، چشمِ آہو، رنگِ یاقوت وغیرہ۔
ایک زمانے تک اردو زبان کا ہر
شاعر فارسی میں ضرور کلام موزوں کرتا تھا ۔ بلکہ فارسی زبان میں سخن کر کے اپنے
شعری کمالات کو پرکھتا تھا۔ سامنے والا بھی اسی سے اس کی لیاقت کا اندازہ کرتا
تھا۔ جس طرح مشاہیر شعرا نے فارسی زبان میں غزلیں کہی ہیں اسی طرح آج بھی لوگ
بزبان فارسی کلام موزوں کررہے ہیں ، اگرچہ پہلے کی طرح نہیں۔ بارہا کہا جاتا ہے کہ اردو زبان و ادب کو
سمجھنے نیز کلاسیکی ورثے کی سُن گُن کے لیے ناگزیر ہے کہ فارسی زبان و ادب سے
واقفیت حاصل کی جائے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ چونکہ اردو زبان و ادب کا بیشتر
سرمایہ عربی و فارسی سے مستعار ہے اس لیے اردو الفاظ اور جملوں کی درست قرأت کے
لیے ان زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔
نثری ادب: شعری سرمائے کے
مقابلے میں اردو کا نثری سرمایا اول روز سے ہی مغربی ادب سے متأثر رہا ہے۔ فورٹ
ولیم کالج ، ورنا کولر سوسائٹی ، علی گڑھ تحریک،
انجمنِ پنجاب کی تحریک اور دہلی کالج سے لیکر مختلف دبستانوں تک مغربی زبان
و ادب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہاں بھی فارسی زبان و ادب کے اثرات
موجود ہیں۔ میر امّن کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ دکنی نثر پاروں میں بھی فارسی کے
اثرات پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام کی تحریریں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس
لیے کلی طور پر فارسی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کا
نمائندہ شاعر میرتقی میر جنھیں اردو شاعری کا خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے
مختلف شاعروں کی سوانح حیات کو ’بزبانِ
فارسی‘ ترتیب دیا۔ اس سے اس زبان
کی مقبولیت اور رواج کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عام بول چال:
عام بول چال میں بھی فارسی
زبان کی لفظیات کا استعمال بڑی روانی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بول چال کے کئی ایسے
الفاظ ہیں جنھیں فارسی لاحقے اور سابقے یا اس کے بغیر بھی عام بول چال میں استعمال
کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند مثالیں دیکھیں:
بہشت،نماز، پنج سورہ، پنج
تن،مشت،ہفتہ، دوشنبہ، بریانی، دسترخوان، باورچی خانہ، غسل خانہ، نعمت خانہ، میز
پوش، سفید پوش، پان دان، سُرمہ دانی، صراحی،بُت، سخن، دندان،ابرو، عارض، گیسو،
نماز پنجگانہ، جائے نماز، نیم جان، نیم گرم، نیم حکیم،نا بینا، پر نوروغیرہ۔ اسی
طرح بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو فارسی کی نسبت سے اردو زبان میں داخل ہوئے
ہیں۔ مذکورہ بالا الفاظ اردو زبان میں اس
طرح رائج ہیں جیسے اس کے اپنے ہوں ۔ ان
لفظیات کو ایک عام آدمی بھی بڑی خوبی کے ساتھ بولتا اور سمجھتاہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے
شعری اور نثری سرمائے کے ساتھ ہی عام بول چال پر بھی فارسی زبان و ادب کے گہرے
اثرات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ تین چار سو سالوں تک عظیم ہندوستان پر فارسی سرکاری
زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ نیز پورا خطہ اس کی تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر رہا ہے۔
مغلیہ سلطنت کی یہ سرکاری زبان تھی ۔ اس کے علاوہ برِ صغیر کے مسلمانوں نے مذہبی
عقیدے کے طور پر عربی زبان کے بعد اسی زبان کو اپنایا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں
بالخصوص مدارسِ اسلامیہ میں فارسی زبان کی باضابطہ تعلیم و تدریس آج بھی ہوتی ہے۔
سعدی کی گلستاں وبوستاں اور گلزارِ دبستاںکئی نسلوں نے پڑھی ہے۔ یہ کتابیں آج بھی
بعض مدارس کے نصاب میں شامل ہیں۔ عدلیہ اور
دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں آج بھی فارسی کی بے شمار لفظیات کا استعمال
ہوتا ہے۔ مثال کے طورپرفردِ جرم، مو قعۂ واردات،عدالت، دفعات، وکیل اور عدالتی
حکم نامہ وغیرہ۔
ایسے میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا
ہے کہ یہاں کی زبان اور یہاں کے ادب پر فارسی زبان کے اثرات نہ پڑے ہوں ۔ بلکہ
حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان ہی نہیں دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ہی یہاں کی طرزِ
معاشرت پر بھی فارسی تہذیب و تمدن کے اثرات پڑے ہیں ۔ فارسی زبان نے اس وقت اپنے
سامنے اردو ہی نہیں، بلکہ کسی بھی زبان کو پنپنے نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ’عربی
زبان‘ جو یہاں پہلے سے موجود مسلمانوں میں مذہبی اعتبار سے مقبول تھی اور فارسی
بولنے والے مغل حکمرانوں کی بھی مذہبی زبان تھی نیز فارسی ز بان بھی اس کے گہرے
اثرات نمایاں ہیں، اسے بھی نہیں پنپنے دیا۔
Dr.
Nusrat Ameen
Room
No. 59, Koyna Hostel, JNU
New
Delhi-110067