8/9/20

اردو زبان و ادب پر فارسی زبان و ادب کے اثرات مضمون نگار: نصرت امین



یہ بات ہم بحسن و خوبی جانتے ہیں کہ ’اردو زبان کا تعلق دنیا کے سب سے بڑے لسانی خاندان ’ہندیورپی خاندان ِالسنہ ‘ کی ’ہندایرانی شاخ‘ (Indic/Indo-Aryan)  سے ہے، جو جدید ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی کھڑی بولی سے تعلق رکھتی ہے۔اس کا رسم الخط مغربی ہند کی کھڑی بولیوں کے برعکس ’سامی‘ خاندان سے تعلق رکھنے والی عربی زبان سے ملتا ہے۔’املا نامہ ‘کے مقدمہ میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں :

’’اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔‘‘

(املا نامہ ، مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، ص 13)

 قواعداردو کے مقدمے میں صاحبِ مقدمہ لکھتے ہیں:

 ’’اردو ،ہندی نژاد ہے اورقدیم ہندی پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت ہے۔‘‘

(قواعدا ردو مرتبہ عبد الحق، مطبوعہ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی2011،  مقدمہ ص 8 )

 اردو زبان طویل عرصے تک فارسی زبان و ادب اور اس کی تہذیب کے زیرِ اثر رہی ہے۔اردو زبان پر یہ اثرات آج بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ فارسی زبان کے مقابلے میں عربی زبان جو سامی زبانون کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کے بھی اثرات اردو زبان و ادب پر پڑے ہیں ۔مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :

’’اردو نے اپنے ارتقا کے دوران کئی زبانو ں کے اثرات قبول کیے ہیں، جن میں عربی، فارسی اور ترکی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔‘‘

(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ  2012، ص 193)

فارسی زبان چونکہ ہند و ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے اس نسبت سے اردو اور فارسی زبان میں فطری رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہند و بیرونِ ہند کی بے شمار زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات بھی اس زبان میںشامل ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ احسن معلوم ہوتا ہے کہ ’اردو زبان نے دیگر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات اور مرکبات کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا ہے گویا یہ تمام الفاظ و اصطلاحات اس زبان کی اپنی ہوں‘ ۔ اس زبان نے دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات کو ’نا‘ کبھی نہیں کہا۔ غالباً اسی اخذ و اشتقاق اور اپنا لینے کی بنیاد پر اردو زبان کو مخلوط زبان یا ساجھی وِراثت کی زبان کہا جاتا ہے۔ صاحبِ املا نامہ، مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’اردو دنیا کی ان چندانتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذو استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے۔اس کے ذخیرۂ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے تو ایک چوتھائی حصہ جو در اصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز وافتخار کا ضامن ہے، سامی و ایرانی مآخذ یعنی عربی وفارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔‘‘

(املا نامہ ،مرتب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ، ص 13)

 اردو کی یہی خصوصیات زبانوں کی سطح پر اسے سیکولر شکل عطا کرتی ہے۔ اردو زبان اور لسانیات کے دیباچے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :

’’اردو کا ایک نام سیکولرازم یعنی ’ غیر فرقہ واریت‘ اور ’بقائے باہم ‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اس کی مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔‘‘

(اردو زبان اور لسانیات: گوپی چند نارنگ، رام پور رضا لائبریری 2006 ، ص 11 )

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اردو زبان نے لسانی، ادبی اور عام بول چال کی سطحوںپر عربی اور فارسی زبانوں کے اثرات قبول کئے ہیں ۔ اردو زبان نے عربی کے مقابلے میں فارسی زبان کا رنگ اور ڈھنگ کہیں زیادہ اختیار کیا ہے۔ نیز جہاں تک عربی رنگ و ماحول کی بات ہے تو وہ بھی بذریعہ فارسی اپنایا ہے۔ اس کی وجہ جگ ظاہر ہے کہ عرب تاجروں کا آنا جانا ہمارے یہاں برسوں سے ہوتا رہا ہے ،لیکن یہ آنا جانا بس تجارتی سطح تک محدود رہا ہے۔ اس کے برعکس فارسی زبان بولنے والے ہندستان میںحکومتی سطح تک پہنچے ۔ یہ الگ تاریخی بحث ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں کس حیثیت سے داخل ہوئے؟ یہاں یہ پہلو دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ انگریزوں نے کم و بیش دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی لیکن انہوں نے کبھی اس ملک کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ ’آریوں اور مغلوں‘ نے اس ملک میں رہائش اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے۔

اردو میں دخیل الفاظ

چونکہ اپنی اور پرائی ہر زبان سے استفادہ کرنا اردو کا شیوہ رہا ہے ایسے میں یہ بات قدرے آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ ’اردو زبان میں مستعار اور دخیل الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہے‘۔  پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :

’’زبان جتنا دوسری زبانوں سے لے گی اتنی ہی سرمایہ دار ہوگی۔‘‘

(خواب باقی ہیں ، آل احمد سرور، ایجوکیشن بُک ہائوس یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ 1991، ص 338 )

دخیل الفاظ کی نسبت اردو میں مستعار الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں: زندگی، زندہ دلی، شادی اور برات، بالٹی، دال وغیرہ۔  یہ سب الفاظ اردو زبان کے ساتھ ہی بول چال میں اس طرح سے گھل مل گئے ہیں کہ آج ان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

لسانی سطح پر پڑنے والے اثرات

اردو زبان سنسکرت کی ایک ترقی یافتہ شکل سورسینی اَپ بھرنش پر پڑنے والے مختلف زبانوں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ یہ نتیجہ باہر سے آنے والی ترک، عرب، ازبک، ایرانی اور انگریز قوموں کے مقامی لوگوں سے باہم اختلاط کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ہندوستان میںباہر سے آنے والوںمیں بیشتر لوگوں کا تعلق عرب، فارس اور ترکی سے تھا۔ جو یہاںکی خوش گوارآب و ہواکی بنا پر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حسنِ اتفاق کہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا بھی موقع مل گیا،جسے یہ لوگ سیکڑوں برس تک بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلاتے رہے۔ ا ن کے حکومتی طریقۂ کاراور عوام سے باہم اختلاط کے اثرات یہاں کے ہر شعبے پر پڑے، جس میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ جو مقامی، مضافاتی اورباہر سے آنے والوں کے درمیان رابطے کی بھی زبان تھی لیکن چونکہ حکومت کی زبان فارسی تھی اس لیے مقامی زبانوں جن میں اردو فارسی سے نسبتاً قریب تھی اس پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔

صوتی سطح پر فارسی کے اثرات

اردو کا صوتی نظام اگرچہ مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اردو چوں کہ ایک ہند آریائی زبان ہے اس لیے اس میں خالص ہندی نژاد آوازوں کی تعداد زیادہ ہے، مثلاً ٹ، ڈ،ڑ،بھ، پھ، تھ، دھ۔لیکن اس کے صوتی نظا م پر چار لسانی خاندانوں کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں ۔

الف:  عربی و فارسی کے اثرات:  خ ،  ز،  ف،  ق،  غ،  خالص عربی و فارسی آوازیں ہیں ،جو ان زبانوں سے براہِ راست مستعار عمل کے ذریعے اردو میں در آئی ہیں ۔ یہ آوازیں اصل کی رو سے اگرچہ اپنی شناخت یا اپنی آوازیں رکھتی ہیں ، لیکن اردو زبان میں ان کی ایک ہی آوازیں ہو گئی ہیں ۔اردو نے ایسا ہندوستانی نہج پر کیا ہے۔ ہاں مدارس میں آج بھی ان حروف کی قرات ان کی اصل آوازوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ 

ب:  ژ،  آواز خالص فارسی ہے، جو اس زبان کے مستعار الفاظ کے ذریعے اردو کے صوتی نظام کا ایک حصہ بن گئی ہے۔یہ آواز صرف فارسی الفاظ مثلاً مژدہ، مژگاں ، ژالہ، پژمردہ، اژدہا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔ اب یہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔

ج:  کوزی آوازیں جیسے ٹ،  ڈ،  ڑ،  وغیرہ خالص دراوڑی آوازیں ہیں جو بالواسطہ طور پر اردو میں مستعار الفاظ کے ذریعے در آئی ہیں۔

و:  ہا کاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو کے صوتی نظام کا بنیادی حصہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اردو زبان میں بے شمار فارسی کے الفاظ و مرکبات اور اصطلاحات موجودہیں ۔ یہ سب آج بھی اسی روانی کے ساتھ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ذیل میں چند الفاظ بطور مثال پیش کیے جارہے ہیں:

 چشم، اشک، نماز ، بہشت، برزخ، عدالت،اناج، آب پاشی، آرائش، آداب و تسلیمات،انگشتری، بریانی، مرغ مسلم وغیرہ۔ 

اردو زبان میں بعض الفاظ اس طرح سے در آئے ہیں کہ وہ حقیقت میں عربی الاصل تھے ،لیکن ان پر فارسی زبان کے لاحقے یا سابقے لگا کر انھیں اردو بنا لیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں :

لفظ  ’شان ‘  کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ لگایا اور شاندار بنا لیا گیا۔ اسی طرح لفظ ’نقش ‘ پر خلافِ قاعدہ تائے وحدت لگا کر ’ نقشہ کشی، نقش کشی، نقشہ نویس اور نقشہ باز‘  بنا لیا گیا۔

یوں تو اردو کے صوتی نظام پرعربی و فارسی کے علاوہ زبانوں کے بھی اثرات نمایاں ہیں، لیکن یہاں صرف فارسی زبان کے تعلق سے بات کرنا مقصود ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جیسے حرف ’’ ز‘‘ جو فارسی زبان سے اردو میں منتقل ہوا ہے۔

صرفی سطح پر اردو زبان پر پڑنے والے اثرات اس طرح ہیں۔ ذیل میں واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ دیکھیں:

استاذ سے اساتذہ۔ اخبار سے اخبارات ۔ مشکل سے مشکلات۔ تخیل سے تخیلات وغیرہ۔

 مرکبات  توصیفی، اضافی

مرکبات کے معاملے میں بھی اردو زبان پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جیسے مردُم شماری، شیر خوار اور گرانقدر وغیرہ ۔

اسی طرح نحوی سطح پر جیسے اضافت وغیرہ بھی فارسی سے ہی مستعار ہیں ۔ مرکبِ اضافی کی مثالیں جیسے لبِ دریا، زیرِ لب، زیرِ انتظام ، دردِ دل، چراغِ محفل، شمرِ محفل اور باغِ عدن وغیرہ۔

اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت  (نستعلیق)

اردو کا طرزِ تحریر اور اندازِ کتابت’نستعلیق‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ’خطِ نسخ‘ اور ’تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسم ِ خط دریافت کیا جو ’’نستعلیق کہلایا۔ مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :

’’ایران کے ایک عالم خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے دورسومِ خط ’نسخ’ اور’ تعلیق‘ کو ملا کر ایک نیا رسمِ  خط ایجاد کیا جو ’نستعلیق‘ کہلایا ۔ اردو کے لیے آج یہی رسم ِ مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔‘‘

(اردو کی لسانی تشکیل: مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل ہائوس علی گڑھ 2012، ص 196 )

اردو ادب پر فارسی کے اثرات

اردو زبان پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کس طرح یا کس حد تک پڑے ،اس کو قدرے آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم اردو ادب کو دو زمروں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ شعری ادب اور نثری ادب۔

شعری ادب: دورِ حاضر کے شاعروں میں یا ماضی قریب کی شاعری میں مغربی یا جدید رجحانات صاف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو زبان کا شعری سرمایہ مکمل طور سے فارسی زبان و ادب سے متاثر ہے بلکہ شعری اصناف براہِ راست فارسی سے ہی مستعار ہیں۔ مثال کے طور پر مثنوی، رباعی، قطعہ،قصیدہ وغیرہ۔  اردو میں مرثیہ لکھنے کا رواج فارسی سے ہی آیا ہے۔ فارسی میں مثنوی کی روایت بہت مقبول رہی ہے۔ اردو زبان میں بھی یہ صنف وہیں سے آئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول اور موضوعات کی سطح پر بھی فارسی کے اثرات ملتے ہیں ۔  برِّصغیرہر اعتبار سے خوش نصیب خطہ رہا ہے۔  یہاں ہر طرح کا موسم، ندیاں اور جھرنے اورپہاڑ،چرند و پرند اور درند اور انسانوں میں کالے اور گورے، چپٹی ناک سے لے کر لمبی ناک والے سب کچھ پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔ بلکہ ندیوں کے معاملے میں تو یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی گود میں سب سے زیادہ ندیاں بہتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمداقبال  نے اس بات کو اس طرح کہا ہے          ؎

گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں

لیکن یہاں کے شعرا نے اپنے کلام میں ’طوطا ، مینا اور کوئل‘ کی جگہ بلبل و عندلیب کا ذکر کیا ہے۔ مقامی درختوں جیسے ’تاڑ، چنار، نیم، برگد اور لپٹس ‘ کی جگہ سَروکا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ندیوں کے معاملے میں ’راوی، جہلم،گھاگھرا، سریوـ  یا دیگر ندیوں کی جگہ نیل و فرات اور دجلہ کا ذکر کیا ہے۔ شاعر نے ہندوستانی پھولوں جیسے ’بیلا، چمپا،، موتیا،گیندا اور رات کی رانی کی جگہ ایرانی پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ لاجونت کی جگہ نرگس کا ذکر کرتا ہے۔ کوئل و پپیہے کی جگہ بلبل و قمری کا ذکر کرتا ہے۔ ہمالیہ و ہندو کش کی جگہ طور و کوہِ قاف کا ذکر کرتا ہے۔ عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے تو لیلیٰ و مجنوں کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح اردو شاعروں نے خمریات پر قلم اُٹھایا تو ایرانی شاعر ’عمر خیام‘ کو اپنا ماخذ و مرجع بنایا۔  اس معاملے میں تو ہندوستان کی دیگر زبانوں نے بھی استفادہ کیاہے۔ ہندی شاعر ’ ہری ونش رائے بچن ‘ کی ’مدھوشالا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔  

اس کے علاوہ اردو زبان کے مشاہیر شعرا نے بزبانِ فارسی سخن بھی فرمایا ہے۔ اردو زبان کا شاعرِ اعظم ’مرزا غالب ‘  بقول کسے اپنی اردو شاعری کے مقابلے میں اپنے فارسی اشعار پرکہیںزیادہ نازاں تھا۔ اپنی فارسی دانی پر بھی اسے کمال درجہ فخر تھا ۔ جبکہ یہ عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ آج اس کا وجود بڑی حد تک اس کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے۔ کم از کم اردو زبان و ادب کا مجھ جیسا طالب علم غالب کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے ہی جانتا ہے۔

اسی طرح اردو زبان کے ایک اور مشہورشاعر ڈاکٹر محمداقبال نے تو فارسی کے کئی دیوان چھوڑے ہیں۔  ’اسرارِ خودی‘ ان کا پہلا فارسی شعری مجموعہ ہے۔ محمد اقبال کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ اردو زبان و ادب کے مقابلے میں فارسی زبان وا دب کا دائرۂ کار قدرے وسیع ہے۔ نیز وہ زبان و ادب سے جو کام لیناچاہتے ہیں اس کے لیے یہی فارسی زبان ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ’ سید عبد اللہ‘  اپنے ایک مضمون ’تشریحِ اقبال‘  میں لکھتے ہیں :

’’اقبال کی زبان حکیمانہ اصطلاحوں اور ترکیبوں سے پُر ہے۔ عام خصوصیات کے اعتبار سے اقبال پر حافظ، فگانی، جلال اسیر،سالک یزدی، رضی دانش،ابو طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ کا بڑا اثر ہے۔ لیکن حکیمانہ مضامین کے لیے انھوں نے رومی، خاقانی،بیدل ااور طالب کی زبان استعمال کی ہے۔‘‘ ( آثارِ اقبال ص 267)

اردو کے شعری سرمائے میں درج ذیل لفظیات کا استعمال خوب ملتا ہے:

رخِ زیبا، چہرہ یار، قامت زیبا، دراز قامت، دراز گیسو، موجِ تبسم، روبہ قضا، ماہِ نَو، صورتِ طائوس، چشمہ آتش، چشمِ سوزن، چشمِ آہو، رنگِ یاقوت وغیرہ۔

ایک زمانے تک اردو زبان کا ہر شاعر فارسی میں ضرور کلام موزوں کرتا تھا ۔ بلکہ فارسی زبان میں سخن کر کے اپنے شعری کمالات کو پرکھتا تھا۔ سامنے والا بھی اسی سے اس کی لیاقت کا اندازہ کرتا تھا۔ جس طرح مشاہیر شعرا نے فارسی زبان میں غزلیں کہی ہیں اسی طرح آج بھی لوگ بزبان فارسی کلام موزوں کررہے ہیں ، اگرچہ پہلے کی طرح نہیں۔  بارہا کہا جاتا ہے کہ اردو زبان و ادب کو سمجھنے نیز کلاسیکی ورثے کی سُن گُن کے لیے ناگزیر ہے کہ فارسی زبان و ادب سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ چونکہ اردو زبان و ادب کا بیشتر سرمایہ عربی و فارسی سے مستعار ہے اس لیے اردو الفاظ اور جملوں کی درست قرأت کے لیے ان زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ 

نثری ادب: شعری سرمائے کے مقابلے میں اردو کا نثری سرمایا اول روز سے ہی مغربی ادب سے متأثر رہا ہے۔ فورٹ ولیم کالج ، ورنا کولر سوسائٹی ، علی گڑھ تحریک،  انجمنِ پنجاب کی تحریک اور دہلی کالج سے لیکر مختلف دبستانوں تک مغربی زبان و ادب کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہاں بھی فارسی زبان و ادب کے اثرات موجود ہیں۔ میر امّن کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ دکنی نثر پاروں میں بھی فارسی کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام کی تحریریں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کلی طور پر فارسی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کا نمائندہ شاعر میرتقی میر جنھیں اردو شاعری کا خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مختلف شاعروں کی سوانح حیات کو ’بزبانِ  فارسی‘  ترتیب دیا۔ اس سے اس زبان کی مقبولیت اور رواج کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عام بول چال:

عام بول چال میں بھی فارسی زبان کی لفظیات کا استعمال بڑی روانی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بول چال کے کئی ایسے الفاظ ہیں جنھیں فارسی لاحقے اور سابقے یا اس کے بغیر بھی عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند مثالیں دیکھیں:

بہشت،نماز، پنج سورہ، پنج تن،مشت،ہفتہ، دوشنبہ، بریانی، دسترخوان، باورچی خانہ، غسل خانہ، نعمت خانہ، میز پوش، سفید پوش، پان دان، سُرمہ دانی، صراحی،بُت، سخن، دندان،ابرو، عارض، گیسو، نماز پنجگانہ، جائے نماز، نیم جان، نیم گرم، نیم حکیم،نا بینا، پر نوروغیرہ۔ اسی طرح بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو فارسی کی نسبت سے اردو زبان میں داخل ہوئے ہیں۔  مذکورہ بالا الفاظ اردو زبان میں اس طرح رائج ہیں جیسے اس کے اپنے ہوں ۔  ان لفظیات کو ایک عام آدمی بھی بڑی خوبی کے ساتھ بولتا اور سمجھتاہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے شعری اور نثری سرمائے کے ساتھ ہی عام بول چال پر بھی فارسی زبان و ادب کے گہرے اثرات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ تین چار سو سالوں تک عظیم ہندوستان پر فارسی سرکاری زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ نیز پورا خطہ اس کی تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر رہا ہے۔ مغلیہ سلطنت کی یہ سرکاری زبان تھی ۔ اس کے علاوہ برِ صغیر کے مسلمانوں نے مذہبی عقیدے کے طور پر عربی زبان کے بعد اسی زبان کو اپنایا۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بالخصوص مدارسِ اسلامیہ میں فارسی زبان کی باضابطہ تعلیم و تدریس آج بھی ہوتی ہے۔ سعدی کی گلستاں وبوستاں اور گلزارِ دبستاںکئی نسلوں نے پڑھی ہے۔ یہ کتابیں آج بھی بعض مدارس کے نصاب میں شامل ہیں۔  عدلیہ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں آج بھی فارسی کی بے شمار لفظیات کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طورپرفردِ جرم، مو قعۂ واردات،عدالت، دفعات، وکیل اور عدالتی حکم نامہ وغیرہ۔

ایسے میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ یہاں کی زبان اور یہاں کے ادب پر فارسی زبان کے اثرات نہ پڑے ہوں ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان ہی نہیں دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ہی یہاں کی طرزِ معاشرت پر بھی فارسی تہذیب و تمدن کے اثرات پڑے ہیں ۔ فارسی زبان نے اس وقت اپنے سامنے اردو ہی نہیں، بلکہ کسی بھی زبان کو پنپنے نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ’عربی زبان‘ جو یہاں پہلے سے موجود مسلمانوں میں مذہبی اعتبار سے مقبول تھی اور فارسی بولنے والے مغل حکمرانوں کی بھی مذہبی زبان تھی نیز فارسی ز بان بھی اس کے گہرے اثرات نمایاں ہیں، اسے بھی نہیں پنپنے دیا۔


Dr. Nusrat Ameen

Room No. 59, Koyna Hostel, JNU

New Delhi-110067

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020  

 

 

 

 

 

 

 

 


7/9/20

معاصر اردو فکشن کا منظرنامہ مضمون نگار: سلمان بلرام پوری

 



آج مشر ق اور مغرب کو (ہر دو اطراف کے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود) قربت نصیب ہوئی لیکن اپنی اپنی مخصوص زندہ روایات کے سبب خارج اور داخل میں کچھ امتیازات بہرحال قائم رہے، جن کے شعور کا فقدان ’جدید تر ‘افسانہ نگاروں کے ریو ڑ کو تقلید محض کی اندھی کھائی تک لے آیا ہے۔ نتیجتاً جدیدترین افسانے کی ایک معقول تعداد میں سے زمین کی بو با س ہوا ہوئی اور کردار اس حد تک بے چہرہ ہوئے کہ خود اپنے چہرے کی پہچان مشکل ہو گئی، بیشتر ’نئے اور جدید تر‘ افسانے میں جن مسائل کا بیان بڑے زور و شور سے ہوا،ان میں اقدار کی شکست اور منظم نظریات کی نا آسودگی نے کئی ہزار صفحات گھیرے، جبکہ میکانکی انداز میں جذباتی سطح پر فرد کے کھوکھلے پن کی عکاسی ہوئی۔ یوں ’صنعتی معاشرت کے ادب کی اندھی تقلید میں نئے افسانہ نگاروں کی ایک معقول تعداد اپنے آپ کو جذبات سے عاری،خیالی معاشرے میں رکھ کر خود تر حمی کا شکار ہوئی اور ایسے افسانہ نگاروں کے ہاں بے سمت جعلی محسوسات اور بے چارگی نے راہ پائی۔ اس کے بر عکس پیش منظر کے تخلیقی افسانے میں اقدار کی شکست اور منظم نظریات کی نا آسودگی کے نتیجہ میں تنہائی کی کونپل پھوٹی، ایسے افسانہ نگاروں کے ہاں معاشرے کے گدلے پن سے مفاہمت کی بجائے ایک خاص قسم کے اکیلے پن نے چہرہ نمائی کی، یا شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ زیست کی ناقابل برداشت جکڑ بندیوں میں رہتے ہوئے باغی طرز زیست نے زندگی گزارنے کا ایک نیا ڈھنگ وضع کیا۔ اس نوع کے تخلیقی افسانے میں معاشرے کا وہ روپ ظاہر نہیں ہوا، جس کا سبب صنعتی آشوب ہے، بلکہ اس میں تیسری دنیا کے شدید موسم ہیں اور مسائل۔یہاں تنہائی، احتجاج، افسردگی اور بے سمتی کے خصوصی محسوسات کے اپنے معنی ہیں۔1

آزادی کے بعد اردو افسانے نے پورے ہندوستان میں ایک الگ طرح کے مزاج کو اپنانا شروع کیا۔ یہ مزاج اردو کے افسانے کاوہ مزاج تھا جو آزادی کے بعد کا تو کہا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم اس کو آزادی کے بعد کے اثرات کا انداز کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آزادی ایک لمحہ تھا جو گزر گیا لیکن افسانے میں اس لمحے کی گونج ہمیں بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔ آزادی کے اثرات سے پاک ہونے کے بعد کا افسانہ اردو کی افسانہ نگاری میں حقیقتاً آزادی کے بعد کا افسانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہندوستان اور پاکستان کے وہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور 47 کے سانحہ کے بعد تک ان موضوعات پر افسانہ نگاری کرتے رہے جن میں ہندومسلم مسائل کے بعد ہجرت کے معاملات، 47 کے فسادات وغیرہ جیسے کئی واقعات شامل ہیں۔ ہماری اردو فکشن کی تاریخ میں جن بڑے افسانہ نگاروں کا شمار ہوتا ہے اور جن میں منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چند اور عینی وغیرہ شامل ہیں انھوں نے ایسے موضوعات پر کئی ایک افسانے تحریر کیے۔ عینی نے تو آزادی کے کئی سالوں بعد بھی ایسی تحریریں لکھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ایسا افسانہ جس کو ہم آزادی کے بعد کے فکشن میں شمار کر سکتے ہیں، وہ بہت بعد میں پوری طرح نمایاں ہو سکا۔

 اردو زبان میں ایسے افسانے کا مندرجہ بالا عناوین کے بعد سب سے بڑا مسئلہ علامت نگاری بنا۔ علامت نگاری پر ہمارے یہاں 60 اور 70 کی دہائی میں جس طرح کے مباحث عمل میں آئے،انھوں نے اردو زبان کے فکشن کو نئے موضوعات کی جانب توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا۔ افسانے میں علامت نے کس طرح اپنی جگہ بنائی، اس کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اردو میں علامت نگاری کے متعلق یہ دو خیالات گردش کرتے نظر آتے ہیں کہ علامت نگاری کا مسئلہ ہمارے یہاں مغرب سے آیا یاعلامت نگاری اردو روایتی افسانہ نگاری کے انحراف کا سبب تھا۔ حالانکہ اگر ہم بغور اردو کی افسانوی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ علامت ہمارے یہاں افسانے میں خواہ کسی بھی طرح سے داخل ہوئی ہو اس کا وجود ہماری شاعری میں بہت قدیم ہے۔ اردو کے کلاسیکل شعرا کے یہاں علامت نے جو جو کارنامے انجام دیے ہیں ان سے ہماری قدیم اردو شاعری کا کینوس تیار ہوا ہے۔ اس باب میں بھی ہم اپنی بات کو ان دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔  علامت نگاری کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئی علامت اور پرانی علامت نے ہمارے ادب میں اس قضیے کو جنم دیا۔علامت نگاری کے مباحث نے اردو افسانے کے حوالے سے جب اپنی بحث کا آغاز کیا تو اردو ادب اس عہد میں داخل ہو چکا تھا جب اس کی اقدار، اس کی معاشرت اور اس کا تمدنی سانچہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نئے عہد میں نئی علامت نے اردو شاعری کے بالمقابل افسانے کو اپنا محرک بنا یا اور یہ اس طرح اردو افسانے کی جڑوں میں اترتی چلی گئی کہ ہمارے نئے ادیبوں کو اس ضمن میں پرانی علامت نگاری کی طرف نگاہ کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ علامت نے اردو افسانے میں کیا کیا کھیل دکھایا، اس پر ہم مزید آگے گفتگو کریں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اردو افسانے نے کس طرح آزادی کے کئی سالوں بعد نئے مسائل کی آنچ پا کر اپنے وجود کو حرارت بخشی۔کس طرح اور کس لیے اس کا نیا رنگ سخن تیا ر ہو ا۔

ہمیں اردو افسانے کے تعلق سے یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس نے علامت نگاری کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی کئی ایک مسائل کو اپنے دامن میں جگہ دے کر اسے وسیع کیا۔ ’شعور کی رو ‘،’داخلی خود کلامی‘، ’منقول خود کلامی‘، وغیرہ ان میں سے چند ہیں، اس حوالے سے ایک اقتباس دیکھیے:

’’اب ساٹھ کے بعد کے افسانے کو ہی دیکھیے۔ میری مراد جدید افسانے سے ہے جس میں شعور کی رو، داخلی خود کلامی، منقول خود کلامی، سولیلوکی اور واحد متکلم کے صیغے میں افسانہ لکھنے کا رواج یا انداز اتنا عام ہو گیا تھا کہ سارے افسانے ایک جیسے لگنے لگے تھے۔ یعنی شعور کی رو وغیرہ امرت کی دھارا بن گئی تھی، جہاں سے چاہیے جس کے یہاں چاہیے دیکھ لیجیے۔ اس طرح افسانہ صرف ایک طرح کی ٹرٹراہٹ بن گئی تھی۔ مابعد جدید افسانے کی نثر وہ نثر نہیں ہے جس میں ہم مضمون لکھتے ہیں یا انشائیہ لکھتے ہیں یا تنقید لکھتے ہیں۔ یہ وہ نثر ہے جس میں ہم افسانہ تخلیق کرتے ہیں جس کا کوئی ایک موڑ نہیں ہوتا۔ جس میں اختصار شاعری کے ہتھکنڈے اپنا کر نہیں پیدا کیا جاتا بلکہ نثر کے پاس جو اعلی ادنی لوازم ہیں ان کے استعمال سے یہ خوبیاں پیدا کی جاتی ہیں، مثلا نحو، تراکیب، محاورہ، تشبیہ، استعارہ، اظہار، کہاوتی اظہار، طویل پیچیدہ اور مرکب جملوں کے درمیان سادہ جملے، پیراگراف، گیپ، کوما،Silences وغیرہ۔‘‘2

اسی طرح تقسیم ہند کے واقعے کے بعد کہانی، بیانیہ، پلاٹ، کردار نگاری، روایتی داستان گوئی اور افسانے کا نیا اسلوب، قاری کی گم شدگی اور افسانے کے نئے اظہاریہ تک نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا نیا افسانہ کھڑا ہوا ہے۔ ایک اہم مسئلہ جو گزشتہ دنوں پوری آب و تاب سے روشن ہوا، وہ مہا بیانیہ کی اصطلاح سے متعلق تھا۔ اردو افسانہ آزادی کے بعد طرح طرح سے اپنے نئے رنگوں میں رنگا ہے، جنھوں نے اس کے اجزائے ترکیبی کو باطنی طور پر ایک نئے انداز میں ترتیب دیا ہے۔ ہمارے اردو افسانے کی جو تاریخ ہے یا جہاں سے وہ شروع ہوا ہے، ایک نظر ہم اگر اس طرف بھی کریں تو ہمیں اپنی روایت کے پیش نظر نئے افسانے میں جن معاملات کا عمل دخل ہوا ہے وہ واضح انداز میں نظر آجائے گا۔ اردو افسانے کا ابتدائی دور، عبوری دور اور ایک عہد جس کو میں عبور ثانی دور کہتا ہوں وہ اور تقسیم کا دور اور مابعد تقسیم یعنی جدید دور کو ترتیب وار دیکھیں تو آزادی کے بعد کے فکشن کے نقوش بڑی آسانی سے واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ راشد الخیری کی کہانیوں سے اردو افسانے کی ابتدا ہوئی ہے، اس بات کو کون نہیں جانتا۔ خط کی صورت میں پائی جانے والی یہ افسانوی تحریر اپنے ابتدائی دور میں داستانوی انداز میں ہی لکھی گئی تھی جس میں بیانیہ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ سر سید کی بعض تحریروں پر اسی داستانی رنگ کے باعث ان پر افسانے کے ابتدائی نقوش کا شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ناصر نذیر فراق اور عشرت لکھنوی وغیرہ کی کہانیاں جن میں ’دہلی کی بیگمات ‘اور’گھنٹہ بیگ ‘جیسی کہانیاں شامل ہیں وہ بھی داستان سے افسانے کے عبوری دور میں شمار ہوتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کہانیوں میں جو تکنیک استعمال کی گئی تھی ہم بغور جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کے عہد میں اسی اسلوب کا اعادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم نے بھی اپنے اپنے طور پر اردو افسانے کو جو اسلوب بخشا وہ بہت کار آمد تھا۔ہم آزادی کے بعد کے فکشن میں ان لوگوں کے لہجہ کو بھی محسوس کرتے ہیں، حالانکہ سماجی موضوعات اور رومانی انداز کا افسانہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے عہد میں بالکل نئے اندازمیں تحریر کیا گیا لیکن اس کی جڑیں ہمیں انھیں افسانہ نگاروں کے یہاں نظر آتی ہیں۔ کہانی کا ایک زور منٹو،بیدی،عصمت اور کرشن چند ر کے عہد میں رہا جب کہ منٹو نے پریم چند کے تعلق سے ایسی باتیں کہی تھیں کہ’ ہم پریم چند سے کچھ بھی نہ سیکھ سکے ‘ اور کرشن چند ر کے تعلق سے یہ کہا جا رہا تھا کہ ’کہانی بنانے کے معاملے میں کرشن چندر کو جتنا سراہا جا رہا ہے، انھیں اتنا بہتر انداز میں کہانی بننا نہیں آتاہے ‘انہی سب معاملات کے درمیان ہمارا افسانہ نئی کروٹیں لے رہا تھا۔ حالانکہ یہ ساری باتیں 50 اور 60 کی دہائی میں ہمارے یہاں کہی گئیں لیکن مندرجہ بالا قول کی روشنی میں آزادی کا دور اپنے اثرات سمیت ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اردو افسانے کی تاریخ سے اگر ہم اس کے متواتر پہلوؤں پر غور کریں تو انگارے اور فحش نگاری بھی ایک ایسا طرز ہے جو ہمیں نئے افسانے میں الگ طرح سے نظر آتا ہے۔

دراصل اس تاریخ کو دہرانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم یہ محسوس کر سکیں کہ اردو افسانہ کن کن راہوں سے گزر کر نئے دور میں داخل ہوا ہے۔ نئے دور سے مراد جو کچھ ہے اس کا ایک پہلو تو میں بیان کر چکاہوں لیکن ایک جو سب سے اہم پہلو ہے اس کی بھی وضاحت یہاں کر دوں پھر باقاعدہ اپنے موضوع پر چند ایک باتیں کہوں گا۔ نیا دور در اصل سائنس کی نئی ایجادات سے متعلق ہے۔ ایسی ایجادات جنھوں نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ادب چونکہ زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اس کو ان ایجادات نے براہ راست متاثر کیا ہے۔ افسانہ جس طرح ایک نئی کروٹ لیتا ہے اس میں ان ایجادات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اکیسویں صدی ایک ایسا عہد ہے جس نے تاریخ کی تمام حقیقتوں کو یکسر نظرانداز کرکے زندگی کی نئی سچائیوں سے ہمیں آشنا کر وا دیا ہے۔ ایسے عہد میں کہانی اور افسانہ نے اپنے آپ کو اس نئی سچائی میں جس طرح ضم کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہمارے نئے عہد کے افسانہ نگاروں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ حالانکہ اگر ہم مغرب کی افسانہ نگاری کو اس حوالے سے دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں افسانہ نے بتدریج ان ایجادات سے اثرقبول کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مشرقی دنیا اور مغربی دنیا کے مبلغ علم سے متعلق ہے، چونکہ مغرب کا افسانہ جس کی ابتدا ایڈگر ایلن پو سے ہوتی ہے اور جس نے انگریزی افسانہ نگاری کے اجزائے ترکیبی وضع کیے تھے، اس سے لے کر اب اکیسویں صدی کے افسانہ نگار تک ہم کو نئی تہذیب کا حیرت انگیز تاثر نظر نہیں آتا۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مغرب میں افسانہ رومانیت،  انتشار، تنہائی کا اضطراب، نئی تاریخیت،سائنسی ایجادات اور روایت شعاری جیسے موضوعات کے درمیان پلتا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جس کے باعث نہ تو ان کے یہاں کسی حیرت کی جھلک نظر آتی ہے اور نہ ہی نئی دنیا کے تعمیر ہونے کا اچھوتا بیان ملتا ہے۔ اس کے برعکس مشرق میں ایک بالکل نئی دنیا کے متعارف ہونے نے اس کے اصل کہانیاتی وجود کو جس کو ہم افسانہ نگاری بھی کہہ سکتے ہیں، براہ راست متاثر کیا ہے۔ سماجی مسائل سے ابھرتے ابھرتے یا پھر عورت کی آزادی اس کے طرز زندگی کے سہارے پروان چڑھتے ہوئے افسانے نے ہمارے یہاں فوری طور پر تقسیم کے مسائل جھیلے تھے۔چونکہ 1857 کے بعد سرسید تحریک نے ہندوستان میں نئی تعلیم کا معیار قائم کرنے کا اور خود سے انقلاب برپا کرنے کا رجحان عام کیا ہوا تھا اور ہندوستانی معاشرہ تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا تھا، اس لیے اس دور کی انشائیہ نگاری سے دھیرے دھیرے افسانہ نگاری نے وجود پایا۔ اس کے علاوہ نذیر احمد کے ناول اور پھر حالی کی اصلاحی کوششیں۔ بتدریج جائزہ لیں تو حالی اور شبلی کی وفات 1941 کے بعد خلافت مومنٹ کے معاملات نے ان سب واقعات پر ہمارے معاشرے کے ادیب اور افسانہ نگار کو بہت زیادہ نہ چونکایا۔ اگر کہیں کسی طرح کی ایک نئی ہلچل نظر آتی ہے تو تقسیم کے لمحات میں ہمیں کچھ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ بھی مغربی قدامت اور جدیدیت کے تاثر جیسی ہی معلوم ہوتی ہے۔ ادھر جس طرح اردو  افسانہ 80 کی دہائی میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد ترقیات کی نئی نئی روشنیوں سے روشناس ہوتا چلا جاتا ہے، اس نے ہمارے نئے ادیب اور افسانہ نگار کو اس حد تک چونکایا ہے کہ ابھی تک وہ نئے آلات زندگی یا یوں کہا جائے کے نئے طرز حیات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمیں جدیدیت کے عہد میں نظر آتی ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جدیدیت کا آغاز تو 60 کے قریب ہو چکا تھا لیکن اس کا اصل شور و غوغا اردو افسانہ کے تعلق سے 70 کے بعد شروع ہوا۔ ہماری نئی تاریخیت اور نئی تمدنی معاشرت نے جدیدیت کے اصولوں  سے دوچار ہو کر نئے افسانہ نگار کو گھبرا دینے کا سامان مہیا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے افسانے میں اگر ہم ایک نئے اسلوب کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے تو ہم کو زندگی کی نئی روشنیوں کو ان میں جذب کرنے کا سلیقہ سیکھنے کی ضرورت تھی،لیکن ہمارے یہاں بالکل اس کے برعکس عمل ہوا۔ نئے آلات جن میں سائنس کی وہ تمام ایجادات شامل ہیں جو زندگی کے الگ الگ شعبوں سے متعلق ہیں وہ اصطلاحی صورت یا علامتی انداز اردو کے 80 کے بعد کے افسانے میں داخل ہی نہیں ہوا۔ ایک دو چھوٹی مثالوں کو لیجئے۔ اسٹیتھو اسکوپ،بلڈ پریشر کی مشین، ڈی وی ڈی، کمپیوٹر کے مختلف پارٹس جن میں ہارٹ ڈرائیو،پین ڈرائیو، مدر بورڈ یا کی بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح موبائل فنکشنس،ایپلیکیشنس جیسی کئی ایک چیزیں ہیں جو افسانہ نگار کے فن میں جذب نہ ہو سکیں۔حالانکہ ہم اس کو صرف نظر کرتے چلے گئے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید کریں گے لیکن یہ ہمارے نئے افسانے کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔یہاں ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سید محمد اشرف نے دبے الفاظ میں خود اس طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو افسانے میں فقدان تک پہنچتے پہنچتے کہیں اور نکل گئے اور مثبت انداز میں اردو افسانہ اور افسانہ نگاروں کی خوبیاں بیان کر دیں :

’’1970 کی دہائی جدید ٹیکنالوجی کو بر صغیر میں عروج پاتا دیکھتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خلائی سر گرمیوں سے لے کر میڈیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ عام انسانوں کی زندگی سے ٹیلی وژن قریب ہوا اور افسانہ نگاری نے اپنی کہانیوں میں ویڈیو تکنیک کی نیر نگیاں دکھائیں۔ فوٹو گرافی تکنیک، فلیش بیک کے نئے انداز، بات کو ادھورا چھوڑ کر ایک نئے سین کے ساتھ دوسری بات شروع کرنا، چہرے کے تاثرات کو بعینہ کاغذ پر اتار دینا، خارجی زندگی کے مظاہر کی مدد سے داخلی زندگی کے معاملات کی ترجمانی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بیانیہ کی تکنیک کے یہ تمام عناصر 1970 کے بعد کی کہانیوں کا طرئہ امتیاز ہیں۔ اب سے بیس، پچیس برس پہلے کے زمانے کا تصور کیجیے۔ میڈیا اس وقت صرف ریڈیو کی حد تک متاثر کرتا تھا۔ ریڈیو کیوں کہ صرف آواز کے ذریعے متاثر کرتا ہے، اس لیے اس زمانے کے افسانوں میں زور دار ڈائیلاگ بہت محنت سے لکھے جاتے تھے۔ ٹی وی کے پھیلائو نے اس زور کو توڑا۔ اور اب چیزیں کیسی نظر آتی ہیں یا ہم انھیں کس نظر میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس پر بیانیہ کی تکنیک کی بنیاد رکھی گئی۔ محسن خان کے افسانے میں 'زہرہ ' دیکھیے۔ لگتا ہے پوری کہانی فلم کی طرح چل رہی ہے۔ خالد جاوید کی کہانی 'برے موسم میں' بھی مثال کے طور پر پیش کی جا رہی ہے جو ابھی حال ہی میں 'شب خون' میں شائع ہوئی ہے۔ اس افسانے میں انسان کے باطن کی جزئیات نگاری بڑے فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ انور خان، سلام بن رزاق اور ساجد رشید نے بھی اس تکنیک کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ طارق چھتاری کی زیادہ تر کہانیوں میں جزئیات نگاری کی تکنیک کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کاش وہ کہانی لکھا کریں اور لکھتے رہیں۔ علی امام نقوی، مقدر حمید اور م ناگ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ نیر مسعود ثقافتی جزئیات نگاری میں اپنے معاصر ین سے بہت آگے ہیں۔ ہر چند کہ انتظار حسین داستانی اسلوب کو کثرت استعمال سے پامال کر چکے ہیں لیکن انجم عثمانی اور ابن کنول نے غالبا اس اسلوب کو اپنی کہانیوں میں اس لیے بھی بر تا کہ اس اسلوب میں ہماری ثقافت کی چمک سب سے زیادہ ہے۔ قمر احسن کی کہانیوں کو دیکھیے تو ان کے تیور بھی بدلے ہوئے ملتے ہیں اور بیانیہ سے زیادہ قریب ہیں۔ جہاں تک مابعد جدید افسانے کے موضوعات کا تعلق ہے تو 1970 تک آتے آتے ہندوستان کی اردوداں آبادی کے نوجوان فن کار ہندی زبان و ادب سے بہ خوبی واقف ہوچکے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسری علاقائی زبانوں کے ادب سے بھی ان کا رابطہ پہلے والی نسل کے مقابلے میں زیادہ استوار تھا، خصوصا بنگالی، مراٹھی، اور کنڑ زبان و ادب سے۔ ہندی ادب اور ان علاقائی زبانوں کے ادب میں لکھی جانے والی کہانی کے موضوعات، چاہے وہ ہندی کی سمانتر کہانی کے موضوعات ہوں یا مراٹھی کی اقتدار مخالف اور دلت تحریک، ان سب سے اردو کے نوجوان افسانہ نگاروں نے فیض اٹھایا۔ اردو ادیبوں کو اقتدار مخالف موضوعات کا فیض اٹھانے کے واسطے ہندی یا مراٹھی ادب سے واقفیت ضروری نہیں تھی۔ اس بارئہ خاص میں ان کے اپنے گھر میں ہی خام مال کثرت سے موجود تھا۔ ‘‘3

 یہ بات ہم فراموش نہیں کر سکتے کہ نئے آلات زندگی جن میں چند ایک کا ذکر میں نے اوپر کیا، وہ ہماری سوسائٹی، ہمارے گھر اور ہمارے احساسات کا کتنا قیمتی حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا پتہ ہم اس کو کیوں کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس کے رد عمل کو بھی محسوس کیجئے کہ اردو افسانہ جو جدیدیت کے حوالے سے نئی راہوں پر چلنا چاہیے تھا، اس نے ہمارے ایسے مسا ئل کو چھیڑا جس نے ہمیں پچھڑے ہوؤں میںشمار کر دیا۔ داستان سے ہمارے شمس الرحمن فاروقی کا جو رشتہ ہے ہم سب اس بات سے واقف ہیں۔ لہٰذا اپنے تجربات کو اردو افسانہ میں ضم کرنے کی خواہش میں انھوں نے نئے اردو افسانہ کو داستان سے یا یوں کہا جائے کہ داستانی اسلوب سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ جیمز جوئس جو نئے افسانہ کا مغرب میں سب سے بڑا آدمی تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرق میں فاروقی صاحب نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے نئے افسانہ کو یا اس کی تکنیک کو اتنا زیادہ غیر ضروری گردانا کہ اردو کے تمام حلقوں میں اس طرز افسانہ نگاری کو غیر اہم تصور کیا جانے لگا۔ ایک مزید جملہ یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمارے فکشن کے نقاد وارث علوی نے فاروقی صاحب کی افسانہ فہمی پر کھلے لفظوں میں افسوس جتا یا مگر ہمارے نئے افسانہ نگاروں کی آنکھ اس تاثر سے یا تو محروم رہی یا انھوں نے اس طرف خاطر خواہ توجہ دینے سے گریز کیا۔فاروقی صاحب کے چند اقتباسات پر میں آگے بات کروں گا،لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم یہ کیوں کر فراموش کر جاتے ہیں کہ نئے معاملات کو ادب یا کسی شعبۂ زندگی میں داخل ہونے کے لیے نئے دروازے درکار ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس نئے راستے نہیں ہو ں گے تب تک ہم ادب یا افسانہ نگاری یا زندگی کے کسی بھی شعبۂ عمل میں نئی راہیں نہیں استوار کر سکتے۔ جیمز جوئس پر فاروقی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے افسانہ کی گزشتہ سو سال پرانی روایت سے اختلاف کیا ہے جس کو اردو والوں نے اپنا رہبر تسلیم کر لیا۔ یہ بات غالباً اتنی بھی بری نہیں جتنا برا اس کو فاروقی صاحب نے بنا دیا۔ حالاں کہ ہمارے یہاں اس کو معیوب نہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جیمز جوئس نے اپنے تئیں افسانہ کی نئی بوطیقا رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا روایت سے انحراف عین نئی روایت کے تشکیل دینے کی طرف پہلا قدم تھا۔ فاروقی صاحب نے اس کے اتبا ع پر مبنی ابن کنول کی افسانہ نگاری اور ابن کنول کی افسانہ نگاری کو سراہنے والے قمر رئیس کی تنقید کو لعن طعن کیا ہے،جب کہ بہ نظر غائر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک مستحسن امر معلوم ہوتا ہے کہ ابن کنول اور قمر رئیس جیسے ناقدین نے اردو کے حوالے سے جیمس جوئس کے ترتیب دیے ہوئے اصولوں کو جانے انجانے میں فروغ دیا ہے۔

نئی علامتوں کے وضع ہو پانے میں بھی اس تنقید کا بڑا حصہ ہے۔ اردو افسانہ جس طرح فاروقی کی تنقید سے متاثر ہوا اور اس نے الٹے پاؤں اپنی راویت سے رشتہ استوار کرنے کی ٹھانی، اس نے نئی اصطلاحوں کو اندھیرے میں رکھنے کا کام انجام دیا۔ اس بات کا ذرا ٹھہر کو جائزہ لیا جائے کہ کیوں ایک افسانہ نگار ماضی کی طرف سفر کر رہا ہے جب کہ اس کا ذہنی ارتقا مستقبل کی طرف ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں سید محمد اشرف جیسے افسانہ نگار موجود ہیں جن کے افسانہ نگاری کے فن پر کسی طرح کا سوال قائم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک افسانہ نگار ہیں اور بے شک ان کے یہاں فن کی جو باریکیاں نظر آتی ہیں، ایسی باریکیاں مشکل ہی سے کسی افسانہ نگار کے یہاں پیدا ہو پاتی ہیں۔ ان کا اسلوب جدا ہے اور طرز تخاطب مختلف ہے اور ان کا کہانی بنانے کا انداز بھی سب سے نیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کیا مسئلہ ہے کہ وہ جانوروں اوران کی زچگی کو تو اپنے فن کے ذریعے نمایاں کر دیتے ہیں مگر نئی سائنسی اصطلاحات کو فروغ نہیں دے پاتے۔کیا وجہ ہے کہ ان کے یہاں کہانی کے لیے لکڑ بگا ہنسا،لکڑ بگا رویا جیسے عناوین استعمال ہوئے ہیں۔ زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کرنے کے لیے جنگل کی زندگی سے مثالیں جمع کی گئی ہیں نمبر دار کے نیلے کو موضوع بنایا گیا، جب کہ ہماری نئی زندگی میں اگر ان کی اہمیت ہے تو حد سے حد 20 سے 30 فی صد،جبکہ نئی تکنیک اور نئے آلات زندگی تو ہمارے یہاں 70 سے 80 فی صد تک کار آمد ہیں پھر بھی ان کو افسانہ کے حوالے سے زندگی بخشنے کا کام نہیں کیا گیا۔ وحشی سعید اپنے افسانوں کے ذریعے کچھ نہ کچھ نیا اور چو نکانے والا کلائمکس چھوڑدیتے ہیں اور قاری دیر تک ان کے اثرات سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ یہ ان کا کارنامہ ہی ہے کہ حالات حاضرہ کو بڑی خوبصورتی سے ایک تلخ حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں، اگر چہ پیرایہ اظہار افسانوی ہی ہوتا ہے لیکن بقول پروفیسر حامدی کاشمیری’’ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے بلکہ حقیقت ہوتا ہی نہیں ہے اور یہی فکشن کی کامیابی ہے اور اسے ہی وہ اکتشافی کہتے ہیں‘‘۔ فکشن اسے ہی کہتے ہیں جو حقیقت نہیں ہوتا، گروہ حقیقت ہوجائے تو پھر فکشن نہیں کہلائے گا۔ فکشن کو فکشن ہی رہنا چاہیے ورنہ اس حقیقی دلچسپی سے ہم محروم رہ جائیں گے جو فکشن پڑھنے یا دیکھنے کے بعد پاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو وحشی سعید کے تقریباً تمام افسانوں اور ناولوں میں اس صفت کو ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کہانیاں حقیقی نہیں ہوتیں لیکن حقیقت کو چھوکر ضرور گزرتی ہیں اور ایسا گمان ہوتا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے یا ایسا ہوا ہوگا۔ اور یہی ایک کامیاب فکشن کی نشانی بھی ہے۔

 ایک سید محمد اشرف اور وحشی سعیدہی کیا، اس ضمن میں حسین الحق، احمد جاوید، خالدہ حسین، احمد ندیم قاسمی،حسن منظر، اسد محمد خان،زاہدہ حنا، سلیم اختر، اسلم سراج الدین، سمیع آہوجا، ظہور الحق، فیروز عابد، مشرف عالم ذوقی، مشرف احمد، یوسف چو دھری، مرزا حامد بیگ، محمد علی ردولوی، الیاس احمد گدی، غیاث احمد گدی، الطاف فاطمہ، خالد جاوید، ساجد رشید، انجم عثمانی، صدیق عالم، طارق محمود، طارق چھتاری، علی تنہا، محمد عمر میمن، محمود احمد قاضی، ناصر بغدادی، نیر مسعود، واجدہ تبسم، قرۃ العین حیدر، آغا بابر، کلام حیدری،منشا یاد، احمد داؤد،ابوالفضل صدیقی،انتظار حسین اور اوپندر ناتھ اشک وغیرہ جیسے کتنے ہی نام شامل ہیں۔ یہ تمام نام جو میں نے گنوائے ہیں، وہ اردو افسانے کے ایسے نا قابل فراموش نام ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو ارتقا کی منزلوں سے ہمکنار کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے افسانہ نگار ہیں جو ان جیسے افسانہ نگاروں سے تحریک پا کر افسانہ نگاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر افسانہ نگاری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان لوگوں کا اسلوب اور روش مستعار لیتے ہیں۔ یہ ایک کتنی بڑی حقیقت ہے کہ اردو کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں کا گروہ نئے افسانہ کی تلاش میں جن منزلوں کو پار کرتا ہوا اکیسویں صدی میں داخل ہوا ہے، اس نے اس صدی کے سب سے بڑے مسئلے کو سلجھانے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ یہ رویہ بھی ہمیں مشرق ہی میں نظر آتا ہے، جبکہ مغرب میں نئے عہد کی تمام اشیا کو عوام الناس سے جوڑنے کے لیے افسانہ نگاری اور اسی جیسی تمام صورتوں سے بھر پور کام لیا گیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نئے فکشن کی جب بات کرتے ہیں تو اس میں کئی  چیزیں سمٹ کے آجاتی ہیں۔ جنسیت اور مذہب کی مخالفت پر کمر بستہ رہنا ہی نئی سوچ کو پروان چڑھانا نہیں ہوتا۔اس کے برعکس میں نئے طرز حیا ت کو ماخذ بنا کر اس کو زندگی سے قریب تر کرنے کو نیا پن گردانتا ہوں،جس سے نئے میں سے اجنبیت ختم ہو اور ہر طرح کا نیا پن زندگی کا ایک نیا رنگ نظر آئے۔ایسانیا ہمارے اردو افسانہ میں خال خال نظر آتا ہے، پھر نئے افسانے میں جو مباحث ہیں ہم ان کا جائزہ لینے کی بھر پور کوشش کریںگے۔

 پچھلے اقتباسات میں علامت نگاری کا ذکر کیا  گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم آگے اس موضوع پر مزید گفتگو کریں گے، اسی طرح فاروقی صاحب نے اردو افسانے کے تعلق سے جو گفتگو کی ہے اور روایت سے منسلک کرنے کے لیے افسانے کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے،ہم بتدریج اس کا یہاں جائزہ لیں گے اور اقتباسات کی روشنی میں اس پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے اردو افسانے کے نئے مسائل پر بات کریں گے، یہاں اردو افسانہ میں علامت نگاری کے عمل دخل پر گفتگو کرکے بحث کو تکمیل کی طرف بڑھاتا ہوں۔ایک بات اور یہاں کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ علامت نگاری کے تعلق سے ابھی تک جس طرح کی گفتگو کی گئی ہے وہ تجزیاتی نوعیت کی تھی۔ اب استدلالی انداز میں اپنے موقف کو ظاہر کرنے کے لیے مشاہیر اردو ادب اور افسانے کے ماہر اور ناقد کا یہاں اقتباس پیش کر رہا ہوں تاکہ بات ثقہ اور معتبر حوالوں کی روشنی میں تسلیم کی جائے، ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’اس قسم کا افسانہ (یعنی علامتی قسم کا )آزادی سے پہلے کے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی ملتا ہے،مثلاً کرشن چندر کا غالیچہ،چوراہے کا کنواں،جہاں ہوا نہ تھی اور چھڑی،احمد ندیم قاسمی کا سلطان اور وحشی اور ممتاز شیریں کا میگھ اور ملہار۔ احمد علی کے بعض افسانے بھی تجریدی افسانوں کے ذیل میں آتے ہیں،لیکن ادھر نئی نسل کے بعض افسانہ نگاروں نے اسے ایک رجحان کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ (الخ) ایسے افسانوں میں اشاریت اور علامتیت کو باقاعدہ فن کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔وزیر آغا نے ایک جگہ صحیح لکھا ہے :’اشاراتی عنصر تمام اصناف ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے اور افسانے نے بھی اسے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔‘‘4

دیکھیے یہاں دو باتیں غور طلب ہیں۔ ایک تو وہ جس کا میں اوپر بھی ذکر کرچکا ہوں کہ علامت نگاری ہمارے یہاں آزادی سے بہت پہلے سے چلی آرہی ہے، لیکن آزادی کے بعد اس کو افسانے کی رو سے باقاعدہ ایک رجحان کی طرح اہمیت حاصل ہوئی، دوسرے یہ کہ وزیر آغا نے یہ کہا ہے کہ تمام اصناف میں یہ اشاریت یا علامت نگاری اپنی جگہ بنا رہی ہے، اس لیے افسانے نے بھی اس کو اہمیت دی ہے۔ میرا گمان ہے کہ وزیر آغا کا اشارہ نئی نظم کی طرف ہے۔ ہم اگر واضح انداز میں دیکھیں تو آزادی کے بعد کے اردو ادب میں ہمیں جہاں افسانے کے حوالے سے باقاعدہ علامت نگاری کو فروغ ملتا نظر آتا ہے، وہیں نئی نظم کے توسط سے بھی علامت کا عروج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں ایک لکیر کھینچنا ہوگی کیونکہ جو علامت اردو نثر یا یہ کہا جائے کہ اردو افسانے کے حوالے سے سامنے آ تی ہے وہ نظم یا آزاد نظم یا پھر اسے نثری نظم کہیے اس حوالے سے منظر نامہ پر ابھرنے والی علامت سے قدرے مختلف ہے اور یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ علامت نے جتنی گہرائی اردو افسانے میں پیدا کی ہے، اتنی وہ نظم میں نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظم میں علامت اپنی کما حقہ ترسیل سے محروم ہے جس کی زندہ مثال میرا جی کی شاعری یا اس طرح کی شاعری ہے۔ وہ جملہ جو سلیم احمد نے میرا جی کے تعلق سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے کہا تھا، و ہی میری بات کی دلیل ہے، فرماتے ہیں۔

’’میرا جی کی شاعری کے بارے میں ایک اعتراف پہلے ہی کر لوں۔ اس سے اپنی ساری دلچسپی کے باوجود میں دعوی نہیں کر سکتا کہ میں نے انھیں پوری طرح سمجھ لیا۔‘‘5

یہ بات سلیم احمد کو اسی لیے کہنا پڑی کیوں کہ حقیقتاً جس طرح کی علامت نگاری سے میرا جی کی شاعری سجی ہوئی ہے، اس کے عقدے کو وا کر نا بہت مشکل ہے اور مشکل اس لیے کہ علامت نگاری یا اشاریت اردو نظم میں اس طرح سے نہیں کھپ سکی ہے ،جس طرح سے یہ افسانہ میں کھپ جاتی ہے۔

آیئے اب اپنی اگلی گفتگو کی جانب چلیں۔ میں نے فاروقی صاحب کے تعلق سے جو بات کہی تھی اب اس بات کی دلیل کے طور پر میں یہاں ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں، آپ اسے ملاحظہ کیجیے:

’’افسانے کی وہ روایات کیا تھیں اور کہاں سے آئی تھیں اور ان کے بنیاد گزار کون تھے، ان سوالات سے ڈاکٹر قمر رئیس کو دل چسپی نہیں معلوم ہوتی۔ شاید اسی وجہ سے ان معاملات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک صرف دھندلا سا تاثر ہے کہ افسانہ اگر کوئی صنف سخن ہے تو اس کی روایت بھی ہوگی۔ عمومی طور پر ــ'افسانے کی روایت' کی اصطلاح سے وہ محض ایسے افسانے مراد لیتے ہیں جو انھوں نے بی اے (اردو ) کے کورس میں پڑھے تھے۔ ڈاکٹر قمر رئیس آگے چل کر ایک نوجوان افسانہ نگار ابن کنول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے افسانے کی بحالی میں نمایاں حصہ لیا ہے، کیوں کہ اردو میں افسانے کی روایت کا شعور وہ اپنے ہم سنوں سے کچھ زیادہ ہی رکھتے ہیں۔ اس وقت میں ابن کنول کی افسانہ نگاری پر اظہار خیال نہ کروں گا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اردو افسانے کی جس نام نہاد روایت کی پاس داری قمر رئیس صاحب اور ان کے ہم نوائوں یعنی ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر محمد عقیل کی طرف سے ہورہی ہے، وہ اردو افسانہ تو کیا، مغربی افسانے کی بھی قدیم اور مستحکم روایت نہیں ہے۔ یہ حضرت جس 'روایت' کی بات کر رہے ہیں، اس کی عمر مشکل سے سو سال ہے اور اس کے آغاز کا سہرا امریکی ناول نگار ہنری جیمس کے سر ہے۔‘‘6

ایک اور اقتباس دیکھ لیجیے تاکہ جو باتیں اوپر عرض کی گئی ہیں، ان کی دلیل مستحکم انداز میں فراہم ہو سکے۔ اپنے اسی مضمون میں وہ آگے فرماتے ہیں:

’’میں نے اوپر ہنری جیمس کا ذکر کیا ہے۔ افسانے میں کردار اور بیانیہ کی کش مکش کا آغاز ہنری جیمس سے ہوتا ہے۔ یہ جیمس ہی تھا جس نے کردار کے اظہار میں اس قدر غلو کیا کہ اس نے اکثر جگہ ناول نگار 'یا فکشن نگار' کا لفظ ہی نہیں استعمال کیا بلکہ 'ڈراما نگار' لکھا۔ یعنی اس کا خیال تھا کہ ناول نگار دراصل ڈراما نگار ہوتا ہے اور جس طرح ڈرامے میں تمام واقعات کا اظہار کردار کے حوالے سے ہوتا ہے، اسی طرح ناول میں بھی ہونا چاہیے۔ ہنری جیمس نے ناول میں واقعات کے اسلوب و اظہار کے لیے منظری اور غیر منظری کی اصطلاحیں وضع کیں۔ 'منظری' سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈرامے سے قریب تر ہو، یا جس میں واقعات اس طرح نمایاں کیے جائیں جس طرح ڈرامے میں ہوتے ہیں۔ 'غیر منظری ' سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈرامے سے دور ہو۔ جیمس نے تقریبا ہمیشہ اس نام نہاد منظری اسلوب کو غیر منظری اسلوب پر فوقیت دی ہے۔‘‘7

جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ہنری جیمس نے اپنی روایت سے اختلاف کیا تھا جس کی بنیاد پر وہ نئے افسانے،ناول اور ڈرامے کو ایک نئے انداز اور نئے اجزائے ترکیبی کے طور پر دیکھنے کا مشتاق تھا، یہ ہنری جیمس کا تجربہ تھا جو اپنے آپ میں افسانے یا نا ول کی تاریخ میں اہمیت کا حامل تھا۔ پھر اردو کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ڈاکٹر قمر رئیس اور محمد حسن وغیرہ نے اس طرز کو یوں ہی اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ انھیں ہنری جیمس کے اجتہاد سے اس لیے اتفاق ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ وہ بھی اردو افسانہ اور ناول میں نئی تکنیک کو جگہ دینے کے قائل تھے۔ ایسی صورت حال میں یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اس تکنیک کو قبول نہ کرے، لیکن ان مشاہیر کو یہ کہہ کر رد کرنا کہ یہ افسانہ اور ناول کی کردار نگاری یا واقعہ نگاری یا اس کی روایت سے نا بلد تھے، اس کی چنداں ضرورت نہیں۔ پھر فاروقی صاحب یہ بھی فراموش کر گئے کہ نیا افسانہ نئے تجربات سے ہی جنم لے گا، اس میں اگر روایتی افسانہ نگاری کو تھوڑی بہت چوٹ پہنچتی ہے تو پہنچا کرے کیونکہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ نئی نظم نے جب اپنے بال و پر نکالے تھے تو ہمارے روایتی نظم نگاروں نے کس قدر ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ لیکن آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس انداز اور کس طرز نے عروج پایا ہے اور کون سی نظم اپنی ایک نئی روایت بناتی چلی جا رہی ہے۔

حواشی:

.1        صفحہ نمبر17، ابتدائیہ :اردو افسانے کی روایت 1903 سے 2009 تک، مرزا حامد بیگ۔

.2         صفحہ 264،معاصر اردو افسانہ ---مابعد جدید رجحانات، مکالمہ، مصنف مولا بخش۔

.3         صفحہ 451 سے 452،اردو میں مابعد جدید افسانے کے تشکیلی عناصر، مکالمہ، مصنف سید محمد اشرف۔

.4         صفحہ نمبر501،اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ،گو پی چند نارنگ،اردو افسانہ روایت اور مسائل۔

.5         صفحہ نمبر51،نئی نظم اور پورا آدمی،مضامیں سلیم احمد۔

.6         صفحہ 144 سے 145،افسانے میں بیانیہ  اور کردار کی کش مکش، مکالمہ، مصنف شمس ارحمن فاروقی۔

.7         صفحہ 147،افسانے میں بیانیہ  اور کردار کی کش مکش، مکالمہ، مصنف شمس ارحمن فاروقی۔


Dr. Mohd Salman Balrampur

Jawahar Navodaya Vidyalaya (JNV)

Aglar Shopian

Pulwama - 192301 (J&K)

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020