7/9/20

معاصر اردو فکشن کا منظرنامہ مضمون نگار: سلمان بلرام پوری

 



آج مشر ق اور مغرب کو (ہر دو اطراف کے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود) قربت نصیب ہوئی لیکن اپنی اپنی مخصوص زندہ روایات کے سبب خارج اور داخل میں کچھ امتیازات بہرحال قائم رہے، جن کے شعور کا فقدان ’جدید تر ‘افسانہ نگاروں کے ریو ڑ کو تقلید محض کی اندھی کھائی تک لے آیا ہے۔ نتیجتاً جدیدترین افسانے کی ایک معقول تعداد میں سے زمین کی بو با س ہوا ہوئی اور کردار اس حد تک بے چہرہ ہوئے کہ خود اپنے چہرے کی پہچان مشکل ہو گئی، بیشتر ’نئے اور جدید تر‘ افسانے میں جن مسائل کا بیان بڑے زور و شور سے ہوا،ان میں اقدار کی شکست اور منظم نظریات کی نا آسودگی نے کئی ہزار صفحات گھیرے، جبکہ میکانکی انداز میں جذباتی سطح پر فرد کے کھوکھلے پن کی عکاسی ہوئی۔ یوں ’صنعتی معاشرت کے ادب کی اندھی تقلید میں نئے افسانہ نگاروں کی ایک معقول تعداد اپنے آپ کو جذبات سے عاری،خیالی معاشرے میں رکھ کر خود تر حمی کا شکار ہوئی اور ایسے افسانہ نگاروں کے ہاں بے سمت جعلی محسوسات اور بے چارگی نے راہ پائی۔ اس کے بر عکس پیش منظر کے تخلیقی افسانے میں اقدار کی شکست اور منظم نظریات کی نا آسودگی کے نتیجہ میں تنہائی کی کونپل پھوٹی، ایسے افسانہ نگاروں کے ہاں معاشرے کے گدلے پن سے مفاہمت کی بجائے ایک خاص قسم کے اکیلے پن نے چہرہ نمائی کی، یا شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ زیست کی ناقابل برداشت جکڑ بندیوں میں رہتے ہوئے باغی طرز زیست نے زندگی گزارنے کا ایک نیا ڈھنگ وضع کیا۔ اس نوع کے تخلیقی افسانے میں معاشرے کا وہ روپ ظاہر نہیں ہوا، جس کا سبب صنعتی آشوب ہے، بلکہ اس میں تیسری دنیا کے شدید موسم ہیں اور مسائل۔یہاں تنہائی، احتجاج، افسردگی اور بے سمتی کے خصوصی محسوسات کے اپنے معنی ہیں۔1

آزادی کے بعد اردو افسانے نے پورے ہندوستان میں ایک الگ طرح کے مزاج کو اپنانا شروع کیا۔ یہ مزاج اردو کے افسانے کاوہ مزاج تھا جو آزادی کے بعد کا تو کہا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم اس کو آزادی کے بعد کے اثرات کا انداز کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آزادی ایک لمحہ تھا جو گزر گیا لیکن افسانے میں اس لمحے کی گونج ہمیں بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔ آزادی کے اثرات سے پاک ہونے کے بعد کا افسانہ اردو کی افسانہ نگاری میں حقیقتاً آزادی کے بعد کا افسانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہندوستان اور پاکستان کے وہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور 47 کے سانحہ کے بعد تک ان موضوعات پر افسانہ نگاری کرتے رہے جن میں ہندومسلم مسائل کے بعد ہجرت کے معاملات، 47 کے فسادات وغیرہ جیسے کئی واقعات شامل ہیں۔ ہماری اردو فکشن کی تاریخ میں جن بڑے افسانہ نگاروں کا شمار ہوتا ہے اور جن میں منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چند اور عینی وغیرہ شامل ہیں انھوں نے ایسے موضوعات پر کئی ایک افسانے تحریر کیے۔ عینی نے تو آزادی کے کئی سالوں بعد بھی ایسی تحریریں لکھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ایسا افسانہ جس کو ہم آزادی کے بعد کے فکشن میں شمار کر سکتے ہیں، وہ بہت بعد میں پوری طرح نمایاں ہو سکا۔

 اردو زبان میں ایسے افسانے کا مندرجہ بالا عناوین کے بعد سب سے بڑا مسئلہ علامت نگاری بنا۔ علامت نگاری پر ہمارے یہاں 60 اور 70 کی دہائی میں جس طرح کے مباحث عمل میں آئے،انھوں نے اردو زبان کے فکشن کو نئے موضوعات کی جانب توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا۔ افسانے میں علامت نے کس طرح اپنی جگہ بنائی، اس کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اردو میں علامت نگاری کے متعلق یہ دو خیالات گردش کرتے نظر آتے ہیں کہ علامت نگاری کا مسئلہ ہمارے یہاں مغرب سے آیا یاعلامت نگاری اردو روایتی افسانہ نگاری کے انحراف کا سبب تھا۔ حالانکہ اگر ہم بغور اردو کی افسانوی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ علامت ہمارے یہاں افسانے میں خواہ کسی بھی طرح سے داخل ہوئی ہو اس کا وجود ہماری شاعری میں بہت قدیم ہے۔ اردو کے کلاسیکل شعرا کے یہاں علامت نے جو جو کارنامے انجام دیے ہیں ان سے ہماری قدیم اردو شاعری کا کینوس تیار ہوا ہے۔ اس باب میں بھی ہم اپنی بات کو ان دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔  علامت نگاری کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئی علامت اور پرانی علامت نے ہمارے ادب میں اس قضیے کو جنم دیا۔علامت نگاری کے مباحث نے اردو افسانے کے حوالے سے جب اپنی بحث کا آغاز کیا تو اردو ادب اس عہد میں داخل ہو چکا تھا جب اس کی اقدار، اس کی معاشرت اور اس کا تمدنی سانچہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نئے عہد میں نئی علامت نے اردو شاعری کے بالمقابل افسانے کو اپنا محرک بنا یا اور یہ اس طرح اردو افسانے کی جڑوں میں اترتی چلی گئی کہ ہمارے نئے ادیبوں کو اس ضمن میں پرانی علامت نگاری کی طرف نگاہ کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ علامت نے اردو افسانے میں کیا کیا کھیل دکھایا، اس پر ہم مزید آگے گفتگو کریں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اردو افسانے نے کس طرح آزادی کے کئی سالوں بعد نئے مسائل کی آنچ پا کر اپنے وجود کو حرارت بخشی۔کس طرح اور کس لیے اس کا نیا رنگ سخن تیا ر ہو ا۔

ہمیں اردو افسانے کے تعلق سے یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس نے علامت نگاری کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی کئی ایک مسائل کو اپنے دامن میں جگہ دے کر اسے وسیع کیا۔ ’شعور کی رو ‘،’داخلی خود کلامی‘، ’منقول خود کلامی‘، وغیرہ ان میں سے چند ہیں، اس حوالے سے ایک اقتباس دیکھیے:

’’اب ساٹھ کے بعد کے افسانے کو ہی دیکھیے۔ میری مراد جدید افسانے سے ہے جس میں شعور کی رو، داخلی خود کلامی، منقول خود کلامی، سولیلوکی اور واحد متکلم کے صیغے میں افسانہ لکھنے کا رواج یا انداز اتنا عام ہو گیا تھا کہ سارے افسانے ایک جیسے لگنے لگے تھے۔ یعنی شعور کی رو وغیرہ امرت کی دھارا بن گئی تھی، جہاں سے چاہیے جس کے یہاں چاہیے دیکھ لیجیے۔ اس طرح افسانہ صرف ایک طرح کی ٹرٹراہٹ بن گئی تھی۔ مابعد جدید افسانے کی نثر وہ نثر نہیں ہے جس میں ہم مضمون لکھتے ہیں یا انشائیہ لکھتے ہیں یا تنقید لکھتے ہیں۔ یہ وہ نثر ہے جس میں ہم افسانہ تخلیق کرتے ہیں جس کا کوئی ایک موڑ نہیں ہوتا۔ جس میں اختصار شاعری کے ہتھکنڈے اپنا کر نہیں پیدا کیا جاتا بلکہ نثر کے پاس جو اعلی ادنی لوازم ہیں ان کے استعمال سے یہ خوبیاں پیدا کی جاتی ہیں، مثلا نحو، تراکیب، محاورہ، تشبیہ، استعارہ، اظہار، کہاوتی اظہار، طویل پیچیدہ اور مرکب جملوں کے درمیان سادہ جملے، پیراگراف، گیپ، کوما،Silences وغیرہ۔‘‘2

اسی طرح تقسیم ہند کے واقعے کے بعد کہانی، بیانیہ، پلاٹ، کردار نگاری، روایتی داستان گوئی اور افسانے کا نیا اسلوب، قاری کی گم شدگی اور افسانے کے نئے اظہاریہ تک نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا نیا افسانہ کھڑا ہوا ہے۔ ایک اہم مسئلہ جو گزشتہ دنوں پوری آب و تاب سے روشن ہوا، وہ مہا بیانیہ کی اصطلاح سے متعلق تھا۔ اردو افسانہ آزادی کے بعد طرح طرح سے اپنے نئے رنگوں میں رنگا ہے، جنھوں نے اس کے اجزائے ترکیبی کو باطنی طور پر ایک نئے انداز میں ترتیب دیا ہے۔ ہمارے اردو افسانے کی جو تاریخ ہے یا جہاں سے وہ شروع ہوا ہے، ایک نظر ہم اگر اس طرف بھی کریں تو ہمیں اپنی روایت کے پیش نظر نئے افسانے میں جن معاملات کا عمل دخل ہوا ہے وہ واضح انداز میں نظر آجائے گا۔ اردو افسانے کا ابتدائی دور، عبوری دور اور ایک عہد جس کو میں عبور ثانی دور کہتا ہوں وہ اور تقسیم کا دور اور مابعد تقسیم یعنی جدید دور کو ترتیب وار دیکھیں تو آزادی کے بعد کے فکشن کے نقوش بڑی آسانی سے واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ راشد الخیری کی کہانیوں سے اردو افسانے کی ابتدا ہوئی ہے، اس بات کو کون نہیں جانتا۔ خط کی صورت میں پائی جانے والی یہ افسانوی تحریر اپنے ابتدائی دور میں داستانوی انداز میں ہی لکھی گئی تھی جس میں بیانیہ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ سر سید کی بعض تحریروں پر اسی داستانی رنگ کے باعث ان پر افسانے کے ابتدائی نقوش کا شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ناصر نذیر فراق اور عشرت لکھنوی وغیرہ کی کہانیاں جن میں ’دہلی کی بیگمات ‘اور’گھنٹہ بیگ ‘جیسی کہانیاں شامل ہیں وہ بھی داستان سے افسانے کے عبوری دور میں شمار ہوتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کہانیوں میں جو تکنیک استعمال کی گئی تھی ہم بغور جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کے عہد میں اسی اسلوب کا اعادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم نے بھی اپنے اپنے طور پر اردو افسانے کو جو اسلوب بخشا وہ بہت کار آمد تھا۔ہم آزادی کے بعد کے فکشن میں ان لوگوں کے لہجہ کو بھی محسوس کرتے ہیں، حالانکہ سماجی موضوعات اور رومانی انداز کا افسانہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے عہد میں بالکل نئے اندازمیں تحریر کیا گیا لیکن اس کی جڑیں ہمیں انھیں افسانہ نگاروں کے یہاں نظر آتی ہیں۔ کہانی کا ایک زور منٹو،بیدی،عصمت اور کرشن چند ر کے عہد میں رہا جب کہ منٹو نے پریم چند کے تعلق سے ایسی باتیں کہی تھیں کہ’ ہم پریم چند سے کچھ بھی نہ سیکھ سکے ‘ اور کرشن چند ر کے تعلق سے یہ کہا جا رہا تھا کہ ’کہانی بنانے کے معاملے میں کرشن چندر کو جتنا سراہا جا رہا ہے، انھیں اتنا بہتر انداز میں کہانی بننا نہیں آتاہے ‘انہی سب معاملات کے درمیان ہمارا افسانہ نئی کروٹیں لے رہا تھا۔ حالانکہ یہ ساری باتیں 50 اور 60 کی دہائی میں ہمارے یہاں کہی گئیں لیکن مندرجہ بالا قول کی روشنی میں آزادی کا دور اپنے اثرات سمیت ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اردو افسانے کی تاریخ سے اگر ہم اس کے متواتر پہلوؤں پر غور کریں تو انگارے اور فحش نگاری بھی ایک ایسا طرز ہے جو ہمیں نئے افسانے میں الگ طرح سے نظر آتا ہے۔

دراصل اس تاریخ کو دہرانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم یہ محسوس کر سکیں کہ اردو افسانہ کن کن راہوں سے گزر کر نئے دور میں داخل ہوا ہے۔ نئے دور سے مراد جو کچھ ہے اس کا ایک پہلو تو میں بیان کر چکاہوں لیکن ایک جو سب سے اہم پہلو ہے اس کی بھی وضاحت یہاں کر دوں پھر باقاعدہ اپنے موضوع پر چند ایک باتیں کہوں گا۔ نیا دور در اصل سائنس کی نئی ایجادات سے متعلق ہے۔ ایسی ایجادات جنھوں نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ادب چونکہ زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اس کو ان ایجادات نے براہ راست متاثر کیا ہے۔ افسانہ جس طرح ایک نئی کروٹ لیتا ہے اس میں ان ایجادات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اکیسویں صدی ایک ایسا عہد ہے جس نے تاریخ کی تمام حقیقتوں کو یکسر نظرانداز کرکے زندگی کی نئی سچائیوں سے ہمیں آشنا کر وا دیا ہے۔ ایسے عہد میں کہانی اور افسانہ نے اپنے آپ کو اس نئی سچائی میں جس طرح ضم کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہمارے نئے عہد کے افسانہ نگاروں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ حالانکہ اگر ہم مغرب کی افسانہ نگاری کو اس حوالے سے دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں افسانہ نے بتدریج ان ایجادات سے اثرقبول کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مشرقی دنیا اور مغربی دنیا کے مبلغ علم سے متعلق ہے، چونکہ مغرب کا افسانہ جس کی ابتدا ایڈگر ایلن پو سے ہوتی ہے اور جس نے انگریزی افسانہ نگاری کے اجزائے ترکیبی وضع کیے تھے، اس سے لے کر اب اکیسویں صدی کے افسانہ نگار تک ہم کو نئی تہذیب کا حیرت انگیز تاثر نظر نہیں آتا۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مغرب میں افسانہ رومانیت،  انتشار، تنہائی کا اضطراب، نئی تاریخیت،سائنسی ایجادات اور روایت شعاری جیسے موضوعات کے درمیان پلتا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جس کے باعث نہ تو ان کے یہاں کسی حیرت کی جھلک نظر آتی ہے اور نہ ہی نئی دنیا کے تعمیر ہونے کا اچھوتا بیان ملتا ہے۔ اس کے برعکس مشرق میں ایک بالکل نئی دنیا کے متعارف ہونے نے اس کے اصل کہانیاتی وجود کو جس کو ہم افسانہ نگاری بھی کہہ سکتے ہیں، براہ راست متاثر کیا ہے۔ سماجی مسائل سے ابھرتے ابھرتے یا پھر عورت کی آزادی اس کے طرز زندگی کے سہارے پروان چڑھتے ہوئے افسانے نے ہمارے یہاں فوری طور پر تقسیم کے مسائل جھیلے تھے۔چونکہ 1857 کے بعد سرسید تحریک نے ہندوستان میں نئی تعلیم کا معیار قائم کرنے کا اور خود سے انقلاب برپا کرنے کا رجحان عام کیا ہوا تھا اور ہندوستانی معاشرہ تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا تھا، اس لیے اس دور کی انشائیہ نگاری سے دھیرے دھیرے افسانہ نگاری نے وجود پایا۔ اس کے علاوہ نذیر احمد کے ناول اور پھر حالی کی اصلاحی کوششیں۔ بتدریج جائزہ لیں تو حالی اور شبلی کی وفات 1941 کے بعد خلافت مومنٹ کے معاملات نے ان سب واقعات پر ہمارے معاشرے کے ادیب اور افسانہ نگار کو بہت زیادہ نہ چونکایا۔ اگر کہیں کسی طرح کی ایک نئی ہلچل نظر آتی ہے تو تقسیم کے لمحات میں ہمیں کچھ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ بھی مغربی قدامت اور جدیدیت کے تاثر جیسی ہی معلوم ہوتی ہے۔ ادھر جس طرح اردو  افسانہ 80 کی دہائی میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد ترقیات کی نئی نئی روشنیوں سے روشناس ہوتا چلا جاتا ہے، اس نے ہمارے نئے ادیب اور افسانہ نگار کو اس حد تک چونکایا ہے کہ ابھی تک وہ نئے آلات زندگی یا یوں کہا جائے کے نئے طرز حیات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمیں جدیدیت کے عہد میں نظر آتی ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جدیدیت کا آغاز تو 60 کے قریب ہو چکا تھا لیکن اس کا اصل شور و غوغا اردو افسانہ کے تعلق سے 70 کے بعد شروع ہوا۔ ہماری نئی تاریخیت اور نئی تمدنی معاشرت نے جدیدیت کے اصولوں  سے دوچار ہو کر نئے افسانہ نگار کو گھبرا دینے کا سامان مہیا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے افسانے میں اگر ہم ایک نئے اسلوب کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے تو ہم کو زندگی کی نئی روشنیوں کو ان میں جذب کرنے کا سلیقہ سیکھنے کی ضرورت تھی،لیکن ہمارے یہاں بالکل اس کے برعکس عمل ہوا۔ نئے آلات جن میں سائنس کی وہ تمام ایجادات شامل ہیں جو زندگی کے الگ الگ شعبوں سے متعلق ہیں وہ اصطلاحی صورت یا علامتی انداز اردو کے 80 کے بعد کے افسانے میں داخل ہی نہیں ہوا۔ ایک دو چھوٹی مثالوں کو لیجئے۔ اسٹیتھو اسکوپ،بلڈ پریشر کی مشین، ڈی وی ڈی، کمپیوٹر کے مختلف پارٹس جن میں ہارٹ ڈرائیو،پین ڈرائیو، مدر بورڈ یا کی بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح موبائل فنکشنس،ایپلیکیشنس جیسی کئی ایک چیزیں ہیں جو افسانہ نگار کے فن میں جذب نہ ہو سکیں۔حالانکہ ہم اس کو صرف نظر کرتے چلے گئے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید کریں گے لیکن یہ ہمارے نئے افسانے کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔یہاں ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سید محمد اشرف نے دبے الفاظ میں خود اس طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ جدید سائنسی اصطلاحات کے اردو افسانے میں فقدان تک پہنچتے پہنچتے کہیں اور نکل گئے اور مثبت انداز میں اردو افسانہ اور افسانہ نگاروں کی خوبیاں بیان کر دیں :

’’1970 کی دہائی جدید ٹیکنالوجی کو بر صغیر میں عروج پاتا دیکھتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خلائی سر گرمیوں سے لے کر میڈیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ عام انسانوں کی زندگی سے ٹیلی وژن قریب ہوا اور افسانہ نگاری نے اپنی کہانیوں میں ویڈیو تکنیک کی نیر نگیاں دکھائیں۔ فوٹو گرافی تکنیک، فلیش بیک کے نئے انداز، بات کو ادھورا چھوڑ کر ایک نئے سین کے ساتھ دوسری بات شروع کرنا، چہرے کے تاثرات کو بعینہ کاغذ پر اتار دینا، خارجی زندگی کے مظاہر کی مدد سے داخلی زندگی کے معاملات کی ترجمانی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بیانیہ کی تکنیک کے یہ تمام عناصر 1970 کے بعد کی کہانیوں کا طرئہ امتیاز ہیں۔ اب سے بیس، پچیس برس پہلے کے زمانے کا تصور کیجیے۔ میڈیا اس وقت صرف ریڈیو کی حد تک متاثر کرتا تھا۔ ریڈیو کیوں کہ صرف آواز کے ذریعے متاثر کرتا ہے، اس لیے اس زمانے کے افسانوں میں زور دار ڈائیلاگ بہت محنت سے لکھے جاتے تھے۔ ٹی وی کے پھیلائو نے اس زور کو توڑا۔ اور اب چیزیں کیسی نظر آتی ہیں یا ہم انھیں کس نظر میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس پر بیانیہ کی تکنیک کی بنیاد رکھی گئی۔ محسن خان کے افسانے میں 'زہرہ ' دیکھیے۔ لگتا ہے پوری کہانی فلم کی طرح چل رہی ہے۔ خالد جاوید کی کہانی 'برے موسم میں' بھی مثال کے طور پر پیش کی جا رہی ہے جو ابھی حال ہی میں 'شب خون' میں شائع ہوئی ہے۔ اس افسانے میں انسان کے باطن کی جزئیات نگاری بڑے فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ انور خان، سلام بن رزاق اور ساجد رشید نے بھی اس تکنیک کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ طارق چھتاری کی زیادہ تر کہانیوں میں جزئیات نگاری کی تکنیک کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کاش وہ کہانی لکھا کریں اور لکھتے رہیں۔ علی امام نقوی، مقدر حمید اور م ناگ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ نیر مسعود ثقافتی جزئیات نگاری میں اپنے معاصر ین سے بہت آگے ہیں۔ ہر چند کہ انتظار حسین داستانی اسلوب کو کثرت استعمال سے پامال کر چکے ہیں لیکن انجم عثمانی اور ابن کنول نے غالبا اس اسلوب کو اپنی کہانیوں میں اس لیے بھی بر تا کہ اس اسلوب میں ہماری ثقافت کی چمک سب سے زیادہ ہے۔ قمر احسن کی کہانیوں کو دیکھیے تو ان کے تیور بھی بدلے ہوئے ملتے ہیں اور بیانیہ سے زیادہ قریب ہیں۔ جہاں تک مابعد جدید افسانے کے موضوعات کا تعلق ہے تو 1970 تک آتے آتے ہندوستان کی اردوداں آبادی کے نوجوان فن کار ہندی زبان و ادب سے بہ خوبی واقف ہوچکے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسری علاقائی زبانوں کے ادب سے بھی ان کا رابطہ پہلے والی نسل کے مقابلے میں زیادہ استوار تھا، خصوصا بنگالی، مراٹھی، اور کنڑ زبان و ادب سے۔ ہندی ادب اور ان علاقائی زبانوں کے ادب میں لکھی جانے والی کہانی کے موضوعات، چاہے وہ ہندی کی سمانتر کہانی کے موضوعات ہوں یا مراٹھی کی اقتدار مخالف اور دلت تحریک، ان سب سے اردو کے نوجوان افسانہ نگاروں نے فیض اٹھایا۔ اردو ادیبوں کو اقتدار مخالف موضوعات کا فیض اٹھانے کے واسطے ہندی یا مراٹھی ادب سے واقفیت ضروری نہیں تھی۔ اس بارئہ خاص میں ان کے اپنے گھر میں ہی خام مال کثرت سے موجود تھا۔ ‘‘3

 یہ بات ہم فراموش نہیں کر سکتے کہ نئے آلات زندگی جن میں چند ایک کا ذکر میں نے اوپر کیا، وہ ہماری سوسائٹی، ہمارے گھر اور ہمارے احساسات کا کتنا قیمتی حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا پتہ ہم اس کو کیوں کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس کے رد عمل کو بھی محسوس کیجئے کہ اردو افسانہ جو جدیدیت کے حوالے سے نئی راہوں پر چلنا چاہیے تھا، اس نے ہمارے ایسے مسا ئل کو چھیڑا جس نے ہمیں پچھڑے ہوؤں میںشمار کر دیا۔ داستان سے ہمارے شمس الرحمن فاروقی کا جو رشتہ ہے ہم سب اس بات سے واقف ہیں۔ لہٰذا اپنے تجربات کو اردو افسانہ میں ضم کرنے کی خواہش میں انھوں نے نئے اردو افسانہ کو داستان سے یا یوں کہا جائے کہ داستانی اسلوب سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ جیمز جوئس جو نئے افسانہ کا مغرب میں سب سے بڑا آدمی تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرق میں فاروقی صاحب نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے نئے افسانہ کو یا اس کی تکنیک کو اتنا زیادہ غیر ضروری گردانا کہ اردو کے تمام حلقوں میں اس طرز افسانہ نگاری کو غیر اہم تصور کیا جانے لگا۔ ایک مزید جملہ یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمارے فکشن کے نقاد وارث علوی نے فاروقی صاحب کی افسانہ فہمی پر کھلے لفظوں میں افسوس جتا یا مگر ہمارے نئے افسانہ نگاروں کی آنکھ اس تاثر سے یا تو محروم رہی یا انھوں نے اس طرف خاطر خواہ توجہ دینے سے گریز کیا۔فاروقی صاحب کے چند اقتباسات پر میں آگے بات کروں گا،لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم یہ کیوں کر فراموش کر جاتے ہیں کہ نئے معاملات کو ادب یا کسی شعبۂ زندگی میں داخل ہونے کے لیے نئے دروازے درکار ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس نئے راستے نہیں ہو ں گے تب تک ہم ادب یا افسانہ نگاری یا زندگی کے کسی بھی شعبۂ عمل میں نئی راہیں نہیں استوار کر سکتے۔ جیمز جوئس پر فاروقی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے افسانہ کی گزشتہ سو سال پرانی روایت سے اختلاف کیا ہے جس کو اردو والوں نے اپنا رہبر تسلیم کر لیا۔ یہ بات غالباً اتنی بھی بری نہیں جتنا برا اس کو فاروقی صاحب نے بنا دیا۔ حالاں کہ ہمارے یہاں اس کو معیوب نہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جیمز جوئس نے اپنے تئیں افسانہ کی نئی بوطیقا رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا روایت سے انحراف عین نئی روایت کے تشکیل دینے کی طرف پہلا قدم تھا۔ فاروقی صاحب نے اس کے اتبا ع پر مبنی ابن کنول کی افسانہ نگاری اور ابن کنول کی افسانہ نگاری کو سراہنے والے قمر رئیس کی تنقید کو لعن طعن کیا ہے،جب کہ بہ نظر غائر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک مستحسن امر معلوم ہوتا ہے کہ ابن کنول اور قمر رئیس جیسے ناقدین نے اردو کے حوالے سے جیمس جوئس کے ترتیب دیے ہوئے اصولوں کو جانے انجانے میں فروغ دیا ہے۔

نئی علامتوں کے وضع ہو پانے میں بھی اس تنقید کا بڑا حصہ ہے۔ اردو افسانہ جس طرح فاروقی کی تنقید سے متاثر ہوا اور اس نے الٹے پاؤں اپنی راویت سے رشتہ استوار کرنے کی ٹھانی، اس نے نئی اصطلاحوں کو اندھیرے میں رکھنے کا کام انجام دیا۔ اس بات کا ذرا ٹھہر کو جائزہ لیا جائے کہ کیوں ایک افسانہ نگار ماضی کی طرف سفر کر رہا ہے جب کہ اس کا ذہنی ارتقا مستقبل کی طرف ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں سید محمد اشرف جیسے افسانہ نگار موجود ہیں جن کے افسانہ نگاری کے فن پر کسی طرح کا سوال قائم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک افسانہ نگار ہیں اور بے شک ان کے یہاں فن کی جو باریکیاں نظر آتی ہیں، ایسی باریکیاں مشکل ہی سے کسی افسانہ نگار کے یہاں پیدا ہو پاتی ہیں۔ ان کا اسلوب جدا ہے اور طرز تخاطب مختلف ہے اور ان کا کہانی بنانے کا انداز بھی سب سے نیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کیا مسئلہ ہے کہ وہ جانوروں اوران کی زچگی کو تو اپنے فن کے ذریعے نمایاں کر دیتے ہیں مگر نئی سائنسی اصطلاحات کو فروغ نہیں دے پاتے۔کیا وجہ ہے کہ ان کے یہاں کہانی کے لیے لکڑ بگا ہنسا،لکڑ بگا رویا جیسے عناوین استعمال ہوئے ہیں۔ زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کرنے کے لیے جنگل کی زندگی سے مثالیں جمع کی گئی ہیں نمبر دار کے نیلے کو موضوع بنایا گیا، جب کہ ہماری نئی زندگی میں اگر ان کی اہمیت ہے تو حد سے حد 20 سے 30 فی صد،جبکہ نئی تکنیک اور نئے آلات زندگی تو ہمارے یہاں 70 سے 80 فی صد تک کار آمد ہیں پھر بھی ان کو افسانہ کے حوالے سے زندگی بخشنے کا کام نہیں کیا گیا۔ وحشی سعید اپنے افسانوں کے ذریعے کچھ نہ کچھ نیا اور چو نکانے والا کلائمکس چھوڑدیتے ہیں اور قاری دیر تک ان کے اثرات سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ یہ ان کا کارنامہ ہی ہے کہ حالات حاضرہ کو بڑی خوبصورتی سے ایک تلخ حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں، اگر چہ پیرایہ اظہار افسانوی ہی ہوتا ہے لیکن بقول پروفیسر حامدی کاشمیری’’ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے بلکہ حقیقت ہوتا ہی نہیں ہے اور یہی فکشن کی کامیابی ہے اور اسے ہی وہ اکتشافی کہتے ہیں‘‘۔ فکشن اسے ہی کہتے ہیں جو حقیقت نہیں ہوتا، گروہ حقیقت ہوجائے تو پھر فکشن نہیں کہلائے گا۔ فکشن کو فکشن ہی رہنا چاہیے ورنہ اس حقیقی دلچسپی سے ہم محروم رہ جائیں گے جو فکشن پڑھنے یا دیکھنے کے بعد پاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو وحشی سعید کے تقریباً تمام افسانوں اور ناولوں میں اس صفت کو ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کہانیاں حقیقی نہیں ہوتیں لیکن حقیقت کو چھوکر ضرور گزرتی ہیں اور ایسا گمان ہوتا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے یا ایسا ہوا ہوگا۔ اور یہی ایک کامیاب فکشن کی نشانی بھی ہے۔

 ایک سید محمد اشرف اور وحشی سعیدہی کیا، اس ضمن میں حسین الحق، احمد جاوید، خالدہ حسین، احمد ندیم قاسمی،حسن منظر، اسد محمد خان،زاہدہ حنا، سلیم اختر، اسلم سراج الدین، سمیع آہوجا، ظہور الحق، فیروز عابد، مشرف عالم ذوقی، مشرف احمد، یوسف چو دھری، مرزا حامد بیگ، محمد علی ردولوی، الیاس احمد گدی، غیاث احمد گدی، الطاف فاطمہ، خالد جاوید، ساجد رشید، انجم عثمانی، صدیق عالم، طارق محمود، طارق چھتاری، علی تنہا، محمد عمر میمن، محمود احمد قاضی، ناصر بغدادی، نیر مسعود، واجدہ تبسم، قرۃ العین حیدر، آغا بابر، کلام حیدری،منشا یاد، احمد داؤد،ابوالفضل صدیقی،انتظار حسین اور اوپندر ناتھ اشک وغیرہ جیسے کتنے ہی نام شامل ہیں۔ یہ تمام نام جو میں نے گنوائے ہیں، وہ اردو افسانے کے ایسے نا قابل فراموش نام ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو ارتقا کی منزلوں سے ہمکنار کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے افسانہ نگار ہیں جو ان جیسے افسانہ نگاروں سے تحریک پا کر افسانہ نگاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر افسانہ نگاری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان لوگوں کا اسلوب اور روش مستعار لیتے ہیں۔ یہ ایک کتنی بڑی حقیقت ہے کہ اردو کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں کا گروہ نئے افسانہ کی تلاش میں جن منزلوں کو پار کرتا ہوا اکیسویں صدی میں داخل ہوا ہے، اس نے اس صدی کے سب سے بڑے مسئلے کو سلجھانے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ یہ رویہ بھی ہمیں مشرق ہی میں نظر آتا ہے، جبکہ مغرب میں نئے عہد کی تمام اشیا کو عوام الناس سے جوڑنے کے لیے افسانہ نگاری اور اسی جیسی تمام صورتوں سے بھر پور کام لیا گیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نئے فکشن کی جب بات کرتے ہیں تو اس میں کئی  چیزیں سمٹ کے آجاتی ہیں۔ جنسیت اور مذہب کی مخالفت پر کمر بستہ رہنا ہی نئی سوچ کو پروان چڑھانا نہیں ہوتا۔اس کے برعکس میں نئے طرز حیا ت کو ماخذ بنا کر اس کو زندگی سے قریب تر کرنے کو نیا پن گردانتا ہوں،جس سے نئے میں سے اجنبیت ختم ہو اور ہر طرح کا نیا پن زندگی کا ایک نیا رنگ نظر آئے۔ایسانیا ہمارے اردو افسانہ میں خال خال نظر آتا ہے، پھر نئے افسانے میں جو مباحث ہیں ہم ان کا جائزہ لینے کی بھر پور کوشش کریںگے۔

 پچھلے اقتباسات میں علامت نگاری کا ذکر کیا  گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم آگے اس موضوع پر مزید گفتگو کریں گے، اسی طرح فاروقی صاحب نے اردو افسانے کے تعلق سے جو گفتگو کی ہے اور روایت سے منسلک کرنے کے لیے افسانے کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے،ہم بتدریج اس کا یہاں جائزہ لیں گے اور اقتباسات کی روشنی میں اس پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے اردو افسانے کے نئے مسائل پر بات کریں گے، یہاں اردو افسانہ میں علامت نگاری کے عمل دخل پر گفتگو کرکے بحث کو تکمیل کی طرف بڑھاتا ہوں۔ایک بات اور یہاں کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ علامت نگاری کے تعلق سے ابھی تک جس طرح کی گفتگو کی گئی ہے وہ تجزیاتی نوعیت کی تھی۔ اب استدلالی انداز میں اپنے موقف کو ظاہر کرنے کے لیے مشاہیر اردو ادب اور افسانے کے ماہر اور ناقد کا یہاں اقتباس پیش کر رہا ہوں تاکہ بات ثقہ اور معتبر حوالوں کی روشنی میں تسلیم کی جائے، ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’اس قسم کا افسانہ (یعنی علامتی قسم کا )آزادی سے پہلے کے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی ملتا ہے،مثلاً کرشن چندر کا غالیچہ،چوراہے کا کنواں،جہاں ہوا نہ تھی اور چھڑی،احمد ندیم قاسمی کا سلطان اور وحشی اور ممتاز شیریں کا میگھ اور ملہار۔ احمد علی کے بعض افسانے بھی تجریدی افسانوں کے ذیل میں آتے ہیں،لیکن ادھر نئی نسل کے بعض افسانہ نگاروں نے اسے ایک رجحان کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ (الخ) ایسے افسانوں میں اشاریت اور علامتیت کو باقاعدہ فن کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔وزیر آغا نے ایک جگہ صحیح لکھا ہے :’اشاراتی عنصر تمام اصناف ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے اور افسانے نے بھی اسے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔‘‘4

دیکھیے یہاں دو باتیں غور طلب ہیں۔ ایک تو وہ جس کا میں اوپر بھی ذکر کرچکا ہوں کہ علامت نگاری ہمارے یہاں آزادی سے بہت پہلے سے چلی آرہی ہے، لیکن آزادی کے بعد اس کو افسانے کی رو سے باقاعدہ ایک رجحان کی طرح اہمیت حاصل ہوئی، دوسرے یہ کہ وزیر آغا نے یہ کہا ہے کہ تمام اصناف میں یہ اشاریت یا علامت نگاری اپنی جگہ بنا رہی ہے، اس لیے افسانے نے بھی اس کو اہمیت دی ہے۔ میرا گمان ہے کہ وزیر آغا کا اشارہ نئی نظم کی طرف ہے۔ ہم اگر واضح انداز میں دیکھیں تو آزادی کے بعد کے اردو ادب میں ہمیں جہاں افسانے کے حوالے سے باقاعدہ علامت نگاری کو فروغ ملتا نظر آتا ہے، وہیں نئی نظم کے توسط سے بھی علامت کا عروج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں ایک لکیر کھینچنا ہوگی کیونکہ جو علامت اردو نثر یا یہ کہا جائے کہ اردو افسانے کے حوالے سے سامنے آ تی ہے وہ نظم یا آزاد نظم یا پھر اسے نثری نظم کہیے اس حوالے سے منظر نامہ پر ابھرنے والی علامت سے قدرے مختلف ہے اور یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ علامت نے جتنی گہرائی اردو افسانے میں پیدا کی ہے، اتنی وہ نظم میں نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظم میں علامت اپنی کما حقہ ترسیل سے محروم ہے جس کی زندہ مثال میرا جی کی شاعری یا اس طرح کی شاعری ہے۔ وہ جملہ جو سلیم احمد نے میرا جی کے تعلق سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے کہا تھا، و ہی میری بات کی دلیل ہے، فرماتے ہیں۔

’’میرا جی کی شاعری کے بارے میں ایک اعتراف پہلے ہی کر لوں۔ اس سے اپنی ساری دلچسپی کے باوجود میں دعوی نہیں کر سکتا کہ میں نے انھیں پوری طرح سمجھ لیا۔‘‘5

یہ بات سلیم احمد کو اسی لیے کہنا پڑی کیوں کہ حقیقتاً جس طرح کی علامت نگاری سے میرا جی کی شاعری سجی ہوئی ہے، اس کے عقدے کو وا کر نا بہت مشکل ہے اور مشکل اس لیے کہ علامت نگاری یا اشاریت اردو نظم میں اس طرح سے نہیں کھپ سکی ہے ،جس طرح سے یہ افسانہ میں کھپ جاتی ہے۔

آیئے اب اپنی اگلی گفتگو کی جانب چلیں۔ میں نے فاروقی صاحب کے تعلق سے جو بات کہی تھی اب اس بات کی دلیل کے طور پر میں یہاں ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں، آپ اسے ملاحظہ کیجیے:

’’افسانے کی وہ روایات کیا تھیں اور کہاں سے آئی تھیں اور ان کے بنیاد گزار کون تھے، ان سوالات سے ڈاکٹر قمر رئیس کو دل چسپی نہیں معلوم ہوتی۔ شاید اسی وجہ سے ان معاملات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک صرف دھندلا سا تاثر ہے کہ افسانہ اگر کوئی صنف سخن ہے تو اس کی روایت بھی ہوگی۔ عمومی طور پر ــ'افسانے کی روایت' کی اصطلاح سے وہ محض ایسے افسانے مراد لیتے ہیں جو انھوں نے بی اے (اردو ) کے کورس میں پڑھے تھے۔ ڈاکٹر قمر رئیس آگے چل کر ایک نوجوان افسانہ نگار ابن کنول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے افسانے کی بحالی میں نمایاں حصہ لیا ہے، کیوں کہ اردو میں افسانے کی روایت کا شعور وہ اپنے ہم سنوں سے کچھ زیادہ ہی رکھتے ہیں۔ اس وقت میں ابن کنول کی افسانہ نگاری پر اظہار خیال نہ کروں گا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اردو افسانے کی جس نام نہاد روایت کی پاس داری قمر رئیس صاحب اور ان کے ہم نوائوں یعنی ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر محمد عقیل کی طرف سے ہورہی ہے، وہ اردو افسانہ تو کیا، مغربی افسانے کی بھی قدیم اور مستحکم روایت نہیں ہے۔ یہ حضرت جس 'روایت' کی بات کر رہے ہیں، اس کی عمر مشکل سے سو سال ہے اور اس کے آغاز کا سہرا امریکی ناول نگار ہنری جیمس کے سر ہے۔‘‘6

ایک اور اقتباس دیکھ لیجیے تاکہ جو باتیں اوپر عرض کی گئی ہیں، ان کی دلیل مستحکم انداز میں فراہم ہو سکے۔ اپنے اسی مضمون میں وہ آگے فرماتے ہیں:

’’میں نے اوپر ہنری جیمس کا ذکر کیا ہے۔ افسانے میں کردار اور بیانیہ کی کش مکش کا آغاز ہنری جیمس سے ہوتا ہے۔ یہ جیمس ہی تھا جس نے کردار کے اظہار میں اس قدر غلو کیا کہ اس نے اکثر جگہ ناول نگار 'یا فکشن نگار' کا لفظ ہی نہیں استعمال کیا بلکہ 'ڈراما نگار' لکھا۔ یعنی اس کا خیال تھا کہ ناول نگار دراصل ڈراما نگار ہوتا ہے اور جس طرح ڈرامے میں تمام واقعات کا اظہار کردار کے حوالے سے ہوتا ہے، اسی طرح ناول میں بھی ہونا چاہیے۔ ہنری جیمس نے ناول میں واقعات کے اسلوب و اظہار کے لیے منظری اور غیر منظری کی اصطلاحیں وضع کیں۔ 'منظری' سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈرامے سے قریب تر ہو، یا جس میں واقعات اس طرح نمایاں کیے جائیں جس طرح ڈرامے میں ہوتے ہیں۔ 'غیر منظری ' سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈرامے سے دور ہو۔ جیمس نے تقریبا ہمیشہ اس نام نہاد منظری اسلوب کو غیر منظری اسلوب پر فوقیت دی ہے۔‘‘7

جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ہنری جیمس نے اپنی روایت سے اختلاف کیا تھا جس کی بنیاد پر وہ نئے افسانے،ناول اور ڈرامے کو ایک نئے انداز اور نئے اجزائے ترکیبی کے طور پر دیکھنے کا مشتاق تھا، یہ ہنری جیمس کا تجربہ تھا جو اپنے آپ میں افسانے یا نا ول کی تاریخ میں اہمیت کا حامل تھا۔ پھر اردو کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ڈاکٹر قمر رئیس اور محمد حسن وغیرہ نے اس طرز کو یوں ہی اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ انھیں ہنری جیمس کے اجتہاد سے اس لیے اتفاق ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ وہ بھی اردو افسانہ اور ناول میں نئی تکنیک کو جگہ دینے کے قائل تھے۔ ایسی صورت حال میں یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اس تکنیک کو قبول نہ کرے، لیکن ان مشاہیر کو یہ کہہ کر رد کرنا کہ یہ افسانہ اور ناول کی کردار نگاری یا واقعہ نگاری یا اس کی روایت سے نا بلد تھے، اس کی چنداں ضرورت نہیں۔ پھر فاروقی صاحب یہ بھی فراموش کر گئے کہ نیا افسانہ نئے تجربات سے ہی جنم لے گا، اس میں اگر روایتی افسانہ نگاری کو تھوڑی بہت چوٹ پہنچتی ہے تو پہنچا کرے کیونکہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ نئی نظم نے جب اپنے بال و پر نکالے تھے تو ہمارے روایتی نظم نگاروں نے کس قدر ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ لیکن آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس انداز اور کس طرز نے عروج پایا ہے اور کون سی نظم اپنی ایک نئی روایت بناتی چلی جا رہی ہے۔

حواشی:

.1        صفحہ نمبر17، ابتدائیہ :اردو افسانے کی روایت 1903 سے 2009 تک، مرزا حامد بیگ۔

.2         صفحہ 264،معاصر اردو افسانہ ---مابعد جدید رجحانات، مکالمہ، مصنف مولا بخش۔

.3         صفحہ 451 سے 452،اردو میں مابعد جدید افسانے کے تشکیلی عناصر، مکالمہ، مصنف سید محمد اشرف۔

.4         صفحہ نمبر501،اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ،گو پی چند نارنگ،اردو افسانہ روایت اور مسائل۔

.5         صفحہ نمبر51،نئی نظم اور پورا آدمی،مضامیں سلیم احمد۔

.6         صفحہ 144 سے 145،افسانے میں بیانیہ  اور کردار کی کش مکش، مکالمہ، مصنف شمس ارحمن فاروقی۔

.7         صفحہ 147،افسانے میں بیانیہ  اور کردار کی کش مکش، مکالمہ، مصنف شمس ارحمن فاروقی۔


Dr. Mohd Salman Balrampur

Jawahar Navodaya Vidyalaya (JNV)

Aglar Shopian

Pulwama - 192301 (J&K)

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2020

2 تبصرے:

  1. بھاءی اس مضمون کا مفروضہ کیا ہے؟ کیا مختلف معلومات کو خواہ وہ علم کے ایک متعین ڈسپلن سے ہوں ایک جگہ جمع کرنا مضمون نگاری کی زیل میں آتا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. مضمون عمدہ ہے۔ لیکن مضمون نگار کا مطمح نظر بہت واضح ہو کر سامنے نہیں آتا

    جواب دیںحذف کریں