بیکل اتساہی: ایک درویش صفت سخن ور
3دسمبر2016کو صبح چار بج کر چالیس منٹ پر دلّی کے رام
منوہر لوہیا ہسپتال میں ہم سب کے شفیق و محبوب اور ہندی و اردو کے ہر دل عزیز شاعر
بھائی بیکل اتساہی (1928-2016) محبت و اخوت اور انسانیت و وطن دوستی کا گیت گاکر
اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اِنا للّٰہ وَاِنَّا الیہ رَاجِعُون۔ اس سانحے کو کئی برس
ہوگئے۔ لیکن ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی ہم سب کے درمیان موجود ہیں۔ ان کی
محبت و شفقت میں ڈوبی ہوئی آواز اب بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔اُن کے
ہندی اردو آمیزلفظوں سے ہمارے کان اب بھی لذت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ مخصوص وضع ، قطع
اور حلیہ و لباس میں ان کی شخصیت اب بھی ہم سب کی نگاہوں میں گھومتی رہتی ہے۔
حضرتِ بیکل اتساہی تھے بھی ایسے کہ انھیں برسوں نہ بھلایا جاسکے۔ اِن شاءاللہ وہ
تا دیر اردو زبان و ادب اور ہندستان کی مشرقی تہذیب وثقافت کو روشن کرتے رہیں گے۔
جناب بیکل اتساہی کا اصل نام
محمد شفیع خاں لودی تھا۔ لیکن پوری اردو دنیا میں وہ صرف بیکل اتساہی کے نام سے
جانے جاتے ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ ان کا اصل نام محمد شفیع
خاں لودی تھا۔وہ کچھ عرصے رہبر بلرام پوری کے نام سے جانے جاتے رہے، پھر بیکل
بلرام پوری لکھنے لگے، کچھ دنوں بیکل وارثی بھی رہے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو نے
اُنھیں بیکل اتساہی کردیا۔ وہ 1928 میں ضلع گونڈہ کی تحصیل اُترولہ کے ایک چھوٹے
سے گاﺅں رمواپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ضلع گونڈہ کا یہ حصہ اب ضلع
بلرام پور میں شامل ہوگیا ہے۔ ان کے والد محترم جناب محمد جعفر خاں اپنے علاقے کے
بڑے زمین داروں میں تھے۔ اپنے زمانے میں پورے علاقے میں ان کا طوطی بولتا تھا۔
بیکل صاحب نے ابتدائی تعلیم
اپنے گاﺅں میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے قریبی شہر بلرام پور کے ایم
پی پی انٹر کالج سے اُنھوں نے انٹر میڈیٹ کیا۔ چونکہ انھیں شعر گوئی کا ذوق فطری
طور پر حاصل تھا اور اللہ نے طبیعت کو موزونی بھی عطا کی تھی، اس لیے بہت کم عمری
میں انھوں نے وادیِ سخن میں قدم رکھ دیا تھا۔وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ الفاظ و
تراکیب کے استعمال پر انھیں کامل دست رس حاصل تھی۔ سلاست و سادگی سے ان کو خصوصی
مناسبت تھی۔ تکلف و تصنع سے وہ اجتناب کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں ہندی و اردو کا
بہترین امتزاج ملتا ہے۔ سماج اور زندگی سے اٹوٹ رشتہ اور محبت ، خیرخواہی اور قومی
و ملّی یک جہتی ان کی شاعری کی پہچان ہے۔
بیکل اتساہی شاعری میں کلاسیکی
قدروں کے پاسدار تھے۔ ان کا شعری خمیر کلاسیکی ادب سے اٹھا تھا۔ انھوں نے اپنی
شاعری سے تلسی، کبیر، ملک محمد جائسی اور نظیر اکبر آبادی کی شعری روایت کو
ارتقابخشاہے۔ہم ان کی غزلیں پڑھیں یا نظمیں یا گیت ہر جگہ ہمیں مذکورہ بالا چاروں
بزرگ شعرا کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
بیکل
اتساہی ایک انسان دوست شاعر تھے۔ انھوں نے جس دھرتی پر جنم لیا تھا، اس سے انھیں
بے پناہ محبت تھی۔ گاﺅں کی صبح و شام کووہ دل سے عزیز رکھتے تھے۔ وہ خالص ہندستانی
شاعر تھے۔ بعض لوگوں نے انھیں شاعری کا سَنت اور درویش بھی کہا ہے۔
بیکل اتساہی نے ترقی پسند ادبی
تحریک کا عروج بھی دیکھا تھا اور اس کا زوال بھی ان کی نگاہوں میں تھا، انھوں نے
جدیدیت کے چمک دار نعروں کو بھی سنا اور اُس کی ذلّت و رسوائی بھی ان کے سامنے
تھی۔ ان سب کے علاوہ بھی انھوں نے بہت کچھ دیکھا، لیکن وہ کبھی کسی مصنوعی چمک یا
نعرے سے متاثر نہیں ہوئے۔انھوں نے ہمیشہ اپنی روایت کو سامنے رکھا اور اسی کو اپنی
شاعری کا محور قرار دیا۔ شگفتہ و شائستہ اور سادہ و دل کش انداز میں اپنی غزلوں،
نظموں اور گیتوں کے وسیلے سے عصری رجحانات و تغیرات کو پیش کرنا ان کا خاص ہنر
تھا۔ ان کے کلام کا قاری ےہ محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ انھوں نے اپنی شاعری کے
ذریعے سے عظمتِ رفتہ کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی ہے اور حالات حاضرہ پر مہذب و
باوقار تبصرے بھی کیے ہیں۔ انھوں نے انسانیت اور باہمی میل ملاپ کے نغمے بھی سنائے
ہیں اور فرقہ واریت اور باہمی تنگ دلی و منافرت پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔
1975میں بیکل صاحب کا ایک شعری مجموعہ ’پروائیاں‘ کے نام سے
شائع ہوا تھا۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا
:
میں بنیادی طور پر نظموں اور
گیتوں کا شاعر ہوں۔ نظمیں تفصیل و توضیح کی متقاضی رہتی ہیں۔ مگر میرے گیتوں سے یہ
فائدہ ضرور ہوا کہ مجھے سبک، شیریں اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے کا انداز حاصل
ہوا۔ یہی شیرینی اور شگفتگی میری غزلوں کے تخلیقی عمل کے لیے مشعلِ راہ بنی۔ میری
تشکیل فکر اس ہندستان میں ہوئی، جو غلامی کی بیڑیوں کو کاٹ چکا تھا، مگر غلامی کی
لعنتوں سے مکمل طور سے آزاد نہیں ہوا تھا۔ میرے سامنے حسن و عشق کے بنیادی جذبات
کے ساتھ ساتھ وہ مسائل تھے، جن سے ہماری انسانیت مجموعی طور پر اس دور میں دو چار
رہی ہے۔“
درج ذیل اشعار سے بیکل اتساہی
کے شعری رویے کی تصویب ہوتی ہے:
بیچ سڑک پر لاش پڑی تھی اور یہ
لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی
لگتی ہے
لباس قیمتی رکھ کر بھی شہر ننگا
ہے
ہمارے گاﺅں
میں موٹا، مہین کچھ تو ہے
لیے کائنات کی وسعتیں، ہے دیار
دل میں بسی ہوئی
ہے عجیب رنگ کی ےہ غزل، نہ لکھی
ہوئی، نہ پڑھی ہوئی
قلم سے نور تو کاغذ سے نکہتیں
پھوٹیں
یہ حرف و لفظ ےہ حسنِ کلام آپ
کے نام
جناب بیکل اتساہی طویل مدت تک
شاعری کے افق پر ستاروں کے مانند رخشندہ و تابندہ رہے۔ وہ شاعری کی اُس روایت کے
بانی و موجد تھے، جو اُن سے پہلے اچھوتی تھی۔کسی نے نہ اس کی ہمت کی اور نہ کسی کو
سوجھی۔
جناب بیکل اتساہی نعت کے راستے
سے وادیِ شاعری میں داخل ہوئے تھے۔ محافلِ میلاد اور سیرت النبی کے جلسوں میں
انھیں بڑے اہتمام سے مدعو کیا جاتا تھا اور جہاں اور جس جلسے میں وہ شریک ہوتے
تھے، عوام کی بڑی تعداد محض ان کی وجہ سے شریک جلسہ ہوتی تھی۔ یہ عجیب اتفاق بلکہ
حسن اتفاق کہےے کہ وہ نعت گوئی کے ذریعے سے شاعری میں آئے اور ان کی زندگی کا آخری
مشاعرہ بھی نعت ہی کا تھا۔ انھوں نے اجمیر کے ایک نعتیہ مشاعرے میں شرکت کی۔ اس کے
بعد کسی مشاعرے یا محفل میں شرکت کی نوبت نہیں آئی۔ اللہ کی طرف سے طلبی آگئی۔گویا
ان کا خاتمہ بالخیر نعت ہی پہ ہوا۔
ایں
سعادت بہ زورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
بھائی بیکل اتساہی نے ایک بار
بتایا تھا کہ جب وہ شاعری کی دنیا میں آئے، ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے اور جلسوں
اور مشاعروں میں ان کی مانگ ہونے لگی تو یہ بات ان کے والد محترم جعفر خاں لودی
مرحوم کے لیے سخت تکلیف دہ تھی۔ انھیں یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ ان کا بیٹا
ایک شاعر کی حیثیت سے شہرت و نام وری حاصل کرے۔ شاعری کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے سے
اس قدر ناراض تھے کہ بیکل صاحب کے قول کے مطابق وہ وقت قریب تھا کہ وہ انھیں عاق
کرکے اُنھیں زمین جائداد سے بے دخل کردیتے۔ اِسی دوران میں خوش قسمتی سے جعفر خان
کو سفرِ حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں انھوں نے مکہ و مدینہ کی مختلف جگہوں پر
زائرین حرمین کی زبانی نعتِ رسول سنی۔ انھیں وہاں کی نورانی فضا میں حمد و نعت کے
نغمے بہت اچھے لگے۔ اِسی دوران میں کسی نے انھیں بتایا کہ یہ نعتیں ہندستان کے ایک
شاعربیکل بلرام پوری کی ہیں۔ یہ سنتے ہی ان کا دل فخر و مسرت سے لبریز ہوگیا۔
انھوں نے وہیں سے اپنے لائق بیٹے کو خط لکھ کر مبارک باد دی۔ اس کے بعد ان کی
محبتوں اور شفقتوں کے سب سے زیادہ مستحق، ان کی اولاد میں محمد شفیع خاں لودی عرف
بیکل اتساہی بلرام پوری ٹھہرے۔
اللہ تعالیٰ نے جناب بیکل
اتساہی کو بے پناہ مقبولیت و محبوبیت سے سرفراز کیا تھا۔ میرے علم کی حد تک بیکل
اتساہی وہ پہلے شاعر تھے، جنھیں ہندستان سے باہر شہرت و ناموری حاصل تھی اور متعدد
ممالک میں انھیں اعزاز کے ساتھ بلایا گیا۔ دوسرے شعرا نے ان کے بعد ہی سرحد کے پار
قدم رکھا۔انھیں ہندستان کے پدم شری، پدم بھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیاتھا۔
راجیہ سبھا کے ممبر بھی نام زد ہوئے تھے۔ حکومتِ اُترپردیش اور ملک کی دوسری اردو
اکادمیوں کی طرف سے بھی انھیں اعزاز و اکرام سے سرفراز کیا گیا۔ ہندستان کے بے
شمار علمی ، ادبی اور تعلیمی اداروں کے وہ سرپرست و سربراہ بھی تھے۔
بیکل صاحب مقبولیت کی حدوں کو
پار کرچکے تھے۔ بڑے بڑے مشاعروں میں ان کی شرکت ناگزیر تصور کی جاتی تھی۔ اللہ نے
کلام کے ساتھ آواز کچھ ایسی دی تھی کہ جو سنتا تھا دیوانہ ہوجاتا تھا۔سنا ہے کہ
کسی نعتیہ مشاعرے میں بیکل صاحب شریک تھے۔ کچھ خواتین چھتوں پر بیٹھ کر ان کا کلام
سن رہی تھیں۔ ان میں ایک عورت ان کے نغمہ و ترنم سے اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ چھت
سے کود پڑی۔ان کی آواز اور ترنم کی دل کشی کی یہ کیفیت ان کی زندگی کے آخری دم تک
رہی۔ ان تمام مقبولیتوں اور ہر دل عزیزیوں کے باوجود میں نے کئی بار یہ بھی دیکھا
ہے کہ بڑے سے بڑے مہنگے سے مہنگے مشاعروں پر وہ چھوٹے اور نہایت کم معاوضے والے نعتیہ
مشاعروں کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ محض ان کی محبت رسول کی بات تھی۔ اس کے علاوہ اس کی
کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔
جناب بیکل اتساہی کے نام اور
کلام سے میرے کان کب آشنا ہوے، قطعیت کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ
نوشت و خواند کی معمولی صلاحیت پیدا ہوجانے کے بعد ہی سے میں نے مختلف حوالوں سے
ان کے چرچے سن لیے تھے۔ ان کی نعتیں اکثر وقفے وقفے سے سننے کو ملتی رہتی تھیں۔
میں خود بھی لحن و ترنم کے ساتھ ان کا مشہور نعتیہ گیت:
ڈولے سنن سنن ، پروائی پون ہائے
کتنی سہانی ہے رات
کملی والے پیا، تمرے لاگوں چرن
آمنہ کے للن، شاہِ دیں سرورِ کائنات
گا گا کر جلسوں اور نجی محفلوں
میں سنایا کرتا تھا۔ وہ نعت بھی میری زبان پہ رہتی تھی،جس کا مطلع غالباً اس طرح
تھا:
ہر نظر کانپ اٹھے گی محشر کے دن
خوف سے ہر کلیجا دہل جائے گا
کملی والے کا ہوگا عجب مرتبہ
حشر کا سارا نقشہ بدل جائے گا
اُس وقت میں کم سنی کی وجہ سے
اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھاکہ یہ بیکل کون صاحب ہیں؟ یا کس مذہب و مسلک سے ان
کا تعلق ہے؟ بس مجھے ان کے اشعار اچھے لگتے تھے، ان کی دھن بھی مست کردینے والی
ہوتی تھیں، اِس لیے میں بھی مست اور مگن ہوکر اُنھیں چھوٹی بڑی محفلوں میں سنایا
کرتا تھا۔ بریلوی دیوبندی کے جھگڑوں سے مجھے بہت بعد میں واقفیت ہوئی۔ اس وقت ہوئی
جب میں نے تعلیم کے سلسلے میں اپنے وطن پرتاب گڑھ سے باہر قدم رکھا اور الٰہ آباد
کے مدرسہ سبحانیہ میں داخلہ لیا۔ لیکن اپنی خواہش بسیار کے باوجود بیکل اتساہی کو
دیکھنے اور ان سے ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ اُنھیں میں نے سب سے پہلے1972
کے اوائل میں اس وقت دیکھا، جب وہ’ جشنِ نازش پرتاب گڑھی‘کے مشاعرے میں پرتاب گڑھ
تشریف لائے ہوے تھے۔ یہ جشن بھی بڑی حد تک بیکل صاحب ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
اِس مشاعرے کی نظامت بھی بیکل صاحب نے کی تھی۔ جب کہ صدارت بیگم حامدہ حبیب اللہ
نے فرمائی تھی۔اِسی مشاعرے میں میں نے سب سے پہلے حضرت شمیم کرہانی، انور مرزا
پوری اور خمار بارہ بنکوی کو قریب سے دیکھا تھا۔ مشاعرے کے آغاز میں بیکل صاحب نے
حضرت نازش پرتاب گڑھی کے سلسلے میں جو جامع تقریر کی اور اُن کی شخصیت اور شاعری
پر تفصیلی روشنی ڈالی، اس سے ان کی ادبی و تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوا اور
نازش پرتاب گڑھی سے ان کی بے غرض گہری محبت و تعلق خاطر کا بھی۔ اِس ملاقات کے بعد
ان سے میری کتنی ملاقاتیں رہیں، کہاں کہاں کی ہم سفری و معیت کا شرف حاصل رہااور
مجھ پر ان کی کیا کیا عنایتیں رہیں،ان سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ اُن کی فکری
بصیرت، شعری ندرت اور خرد نوازی کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔وہ عمر میں مجھ سے بہت
بڑے تھے۔ میرے والدِ محترم کے ہم عمر تھے، لیکن وہ مجھے ہمیشہ تابش بھائی کہہ کر
مخاطب کرتے تھے۔
میری کتاب شفیق جون پوری: ایک
مطالعہ چھپ کر آئی تو میں نے ایک نسخہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ پھر جب استاذِ
محترم علامہ شہباز صدیقی امروہوی سے متعلق میری کتاب ’عرفانِ شہباز‘ شائع ہوئی تو
میں نے ایک عزیز کے ذریعے سے اُسے بھی ان تک پہنچایا۔ ممبئی کی ایک ملاقات میں
تپاک سے ملے۔ بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔ فرمایا: تابش بھائی! آپ نے شفیق جون
پوری- ایک مطالعہ لکھ کر میرے استاذ کو دوبارہ زندہ کردیا تھا اور عرفانِ شہباز
لکھ کر اپنے محترم استاذ کو حیات دوام بخش دیا۔ آپ کتنے اچھے ہیں پیارے بھائی!
اپنا کام بھی کرتے ہیں اوردوسروں کا بھی۔
گرچہ
بیکل اتساہی خالص عوامی شاعر تھے۔ ان کی مقبولیت و محبوبیت زیادہ تر عوام میں تھی۔
لیکن خواص میں بھی ان کی قدرو منزلت کچھ کم نہیں تھی۔
فراق گورکھ پوری نے کسی موقعے
پر کہا تھا:
’بیکل اتساہی کے ہاں جن الفاظ کا تصرف ہے، ان میں علامات
کی بہتات کم اور خیالات کا بہاؤ زیادہ ہے۔ان کے فکر و فن میں کچھ اس طرح کی
وابستگی ہے کہ کلام میں ہندی اور اردو کے حسین سنگم سے یک جہتی کا رنگ پھوٹ نکلا ہے
اور ان کی غزلوں میں بھی زندگی اور کائنات کے تمام محرکات موجود ہیں اور گیتوں میں
بھی۔ ان کے ہاں زندگی اور سماج کے افادی پہلوکی بڑی حسین و دل کش تفسیر ملتی ہے۔“
فراق گورکھ پوری شاعر یا ناقد
جیسے بھی رہے ہوں، لیکن ان کے مزاج میں کچھ ایسی تنگی تھی کہ وہ کسی معاصر کو بہت
کم گردانتے تھے ۔ بیکل صاحب کی شاعری کے سلسلے میں ان کے منقولِ بالا تاثرات غیر
معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ بیکل صاحب کے اِس قسم کے اشعار سے ان کی بلندی فکر،
گہرائیِ خیال اور ندرتِ کلام کا اندازہ ہوتا ہے۔
میں جب بھی کوئی اچھوتا کلام
لکھتا ہوں
تو پہلے ایک غزل تیرے نام لکھتا
ہوں
بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں
پیراہن
میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام
لکھتا ہوں
زمین پیاسی ہے، بوڑھا لگن بھی
بھوکا ہے
میں اپنے عہد کے قصے تمام لکھتا
ہوں
چمن کو اوروں نے لکھا ہے مے کدہ
بردوش
میں پھول پھول کو آتش بہ جام
لکھتا ہوں
دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ
چلتے ہیں
سفر گمان پہ ہے اور یقیں پہ
چلتے ہیں
نہ جانے کون سا نشّہ ہے ان پہ
چھایا ہوا
قدم کہیں پہ ہیں پڑتے کہیں پہ
چلتے ہیں
مری تباہی کا باعث جو ہے زمانے
میں
اُسی کو اب مرا کاہے خیال ہونے
لگا
ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں
کیا کیا
جو میرا حال تھا وہ تیرا حال
ہونے لگا
تمھارے قد سے اگر بڑھ رہی ہو
پرچھائیں
سمجھ لو دھوپ کا وقتِ زوال آنے
لگا
فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل
نہ سکا
میں جسے ڈھونڈ رہا تھا، مرے
اندر نکلا
بیکل اتساہی کی شاعری ایک سمندر
ہے۔ اس میں غوطہ زنی کرنے والے کو طرح طرح کے قیمتی ہیرے جواہر ملیں گے۔ ان کی
شاعری کا احاطہ کسی ایک مضمون یا مقالے میں نہیں کیا جاسکتا۔ وہ 3دسمبر2016 کو اِس
جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اب وہ ہم سے اتنے دور ہوچکے ہیں کہ ان سے ملاقات مشکل
نہیں ناممکن ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے فکر و فن کا جوسمندر دنیا کے حوالے کیا ہے۔اس
کی غوطہ زنی تا دیر ہوتی رہے گی اور ناقدین فن اُس میں حسب توفیق و بصیرت لعل و
جواہر دریافت کرکے علم و ادب کے شائقین کو مالا مال کرتے رہیں گے۔
مرنے والے مر کے بھی مرتے نہیں
اور جیتے جی بھی مرجاتے ہیں لوگ
Dr. Tabish Mehdi
G5/A - Abul Fazl Enclave
Jamia Nagar, New Delhi - 110025 (INDIA)
Ph: 26970736 Cell: 9818327947
E-mail: drtabishmehdi@gmail.com