26/10/18

جوزف کانراڈ: مہم جو، سامراج شکن ناول نگار۔ مضمون نگار: احمد سہیل





جوزف کانراڈ: مہم جو، سامراج شکن ناول نگار
احمدسہیل

میرا جوزف کانراڈ سے تعلق اور تعارف عجیب انداز سے ہوا۔ وہ اس طرح کہ غالبا 1965 میں کراچی کی بیمینو سینما میں ہدایت کار رچرڈ برک کی فلم ’ لارڈ جم‘ دیکھی اور والد صاحب نے بتایا کہ یہ فلم ایک انگریزی ناول پر مبنی ہے۔ اس وقت کراچی میں اس فلم میں طوفان میں گھرے ہوئے بحری جہاز کے عرشے پر با جماعت نماز کا منظر بہت مشہور ہوا تھاجس میں پیٹر وٹول نے معرکے کی اداکاری کی تھی۔کچھ دنوں بعد ہم اس فلم کو بھول گئے۔ ستر (70) کی دہائی میں جب ہماری دلچسپیاں ادبی نظریات کے مطالعوں میں بڑھیں تو ایک دن پڑھتے پڑھتے یہ معلوم ہوا کہ مشہور فلسطینی نژاد امریکی دانشور، ادیب اور نقار ایڈورڈ سعید نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’جوزف کانراڈ اور فکشن کی سوانح عمری‘ پر لکھا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ جوزف کانراڈ کے جتنے بھی ناول میسر آئے پڑھ ڈالے۔ ایڈورڈ سعید کو کانراڈ کا سامراج شکن نظریہ پسند تھا۔

جوزف کانراڈ پولستانی نژاد انگلستانی ناول نگار اور کہانی کار ہیں۔ ان کو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا اہم فکشن نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 3؍ دسمبر 1857 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 3، اگست 1924 کو ہوا۔ ان کا نام رومانیت پسند پولش ناول نگار ہنرک سینکوچ، لیو ٹالسٹائی اور دوستفسکی کے بعد لیا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں بیسویں صدی کی فنکارانہ حسیت اور جمالیات تو ہے جو حقیقت پسند ’ جدیدیت‘ سے قریب ہے۔
جوزف کانراڈ برڈیچیو کے قصبے ’کریں‘ میں پیدا ہوئے۔ نجیب الطرفیں زمیندار کنبے سے تعلق تھا۔ ان کے والد محب وطن شاعر تھے۔ انھوں نے 1861 میں روسی حکومت کے خلاف پولینڈ کی بغاوت میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جب وہ چار سال کے تھے تو ان کی والدہ تپ دق میں مبتلا ہوکر دینا سے رخصت ہوئی۔ اور کچھ ہی دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ کانراڈ نے آٹھ برس کی عمر میں انگریزی پڑھنا شروع کیا اور کچھ ہی دنوں بعد والٹر اسکاٹ، ڈکنس اور تھیکرے کے ناولز انگریزی اور ان کے پولش تراجم کے ساتھ پڑھیں۔ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے ایک فرانسیسی جہاز ران کمپنی میں ملازمت کرلی۔ اسی دوران انھوں نے غرب الہند، انگلستان، آسڑیلیا، سنگاپور، فلسطین، افریقہ، جاوا اور سماترا کا بھی سفر کیا۔ کانراڈ نے مارچ 1978 میں بیس (20) سال کی عمر میں ایک ریوالور کی مدد سے اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ 9؍ اگست 1886 میں کانراڈ نے برطانوی شہریت اختیار کی۔ 38 سال کی عمر میں۔۔’جنیی جارج‘ سے رشتہ ازدواج مین منسلک ہوئے۔ ان سے ان کے دو (2) بچے پیدا ہوئے۔ 1919 میں وہ کینٹری بری کے قریب ’اوسالڈز‘ بشپ بورن میں رہائش پزیر ہوئے۔ 1924 میں ایک امریکی ناشر کی دعوت پر نیویارک گئے۔ مارچ 1924 میں کانراڈ گھٹیا کے مرض کا شکار ہوئے اور تیزی سے ان کی صحت گرنے لگی۔ انگلستان کی وزیر اعظم نے ان کو ’سر‘ کے خطاب سے نوازنا چاہا جسے انھوں نے ٹھکرا دیا۔ مشہور فلسفی اور ماہر ریاضیات براندڈرسل ان کی تحریروں سے بہت متاثر تھے اور رسل نے اپنے ایک صاحبزادے کا نام کانراڈ رکھنے کے لیے کانراڈ سے اجازت چاہی تھی۔
ممتاز ناول نگاروں میں جوزف کانراڈ (Joseph Conrad) اپنی نوعیت کے فکشن نگار ہیں۔ ان کی طویل مختصر کہانی ’تاریکی کا قلب‘ (Heart of Darkness) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابتدائی ناولوں میں ’ال میئرس فولی‘ (Almayer's Folly 1898) نیگر آف نارسی سس (The Niger of Nareissus) اور ’لارڈ جم‘ (Lord Jim 1900) ہیں۔ سیاسی ناولوں میں ’مغربی آنکھوں کے تلے‘ (Under The WesternEyes 1991)، خفیہ کار پرداز (The Secret Agent) ہیں۔ اس کا شاہکار ’نسٹروم‘ (Nostrom 1904) ہے۔ کانراڈ کے بیشتر ناولوں کا پس منظر بحری زندگی ہے۔ جہاں انسان قدرت کی سفاکی سے براہِ راست متصادم ہوتا ہے۔ اور مہم جوئی کے جذبے کی تشفی بھی ہوتی ہے۔ اور اس کی آزمائش بھی۔ کانراڈ کو اس زندگی کا براہ راست تجربہ تھا۔ اس کے ناولوں کی تکنیک کا نمایاں وصف یہ ہے کہ ان میں علت و معلول کی ترتیب و تسلسل ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے یہاں کہانی کا آغاز عمل یعنی (Action) کے درمیان سے ہوتا ہے اور آگے بڑھنے اور پیچھے لوٹ آنے اور پھر آگے بڑھنے کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ کیونکہ زندگی ایک خط مستقیم نہیں بلکہ پرپیچ راہوں سے عبارت ہے۔ اگست 1924 کو کانراڈ کا حرکت قلب بند بونے کے سبب انتقال ہوا۔ وہ سینٹ تھامس رومن کیتھولک چرچ کنٹری کے قبرستان میں رزق خاک ہوئے۔
کانراڈ نے مغربی سامراج سے اپنی ناگواری کا اظہار کیا ہے اور انھوں نے مغربی ممالک سے باہر سامراجی عزائم کا داخلی نوعیت کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے جو ان کی ‘ مہم جوئی اور سیاحی تحریروں میں نمایاں ہے۔ انھیں انگریزی نثر کے بیانیہ کو استعمال کرتے ہوئے اخلاقی شعور سے پردہ اٹھایا اور کرداروں کی ڈرامائی اظہاریت کو نیا رنگ دیا۔ ان کے انتہا پسندانہ اور خطرناک قسم کے کرداروں کو مشہور نقاد ایف آر لیوس نے بھی سراہا ہے اور اسے عظیم روایت کا حصہ قرار دیتے ہوئے جین آسٹن، جارج ایلیٹ اور ہنری جیمس کا تسلسل قرار دیا۔ کانراڈ کا فکش اعصابی تناؤ، خود کلامیہ قنوطیت کے خمیر سے گوندھا ہوا ہے۔ جس میں رومانویت اور اخلاقی فیصلے پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا ان کے رویوں میں اظہاریت کی مصوری اور بعض دفعہ نثری نظموں کا شائبہ ہوتا ہے جس کی مثال ان کی ناول ’لارڈ جم‘ میں۔ ’پٹنہ‘... ’کمرہ عدالت‘ میں اداسی اور یاسیت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ یہی ان کا ’تصور دنیا‘ہے۔ 1975 میں ایک نائیجیرین نقاد ’چینوا اچپ پی‘ نے کانراڈ کو ’ نسل پرست‘ ادیب کہا ہے۔ منور آکاش کانراڈ ادب کی شرط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’آرٹ کی شرط ہے کہ وہ ہونے والے کام کی ہر سطر میں اپنا جواز پیش کرے اور فن کی تعریف ایسے کی جا سکتی ہے جو واحد ذہن کی نظر آنے والی کائنات میں اعلیٰ سطح کے جواز پیش کرنے کی کوشش کرے ، سچ کی روشنی کو برو ئے کار لاتے ہوئے گوناگوں اور ہر بنیادی سطح کو مد نظر رکھتے ہیں۔ یہ ایک کاوش ہے اس کی ہیئتوں، اس کے رنگوں ، اس کی روشنی ، اس کے سایوں کو تلاش کرنے کی ، زندگی کے حقائق اور معاملات کے پہلوؤں میں جس میں سے ہر عنصر بنیادی ہے ، پائیدار ہے اور ضروری ہے یہ ایک روشن اور متاثر کن خصوصیت ہے سچ اور اس کے وجود کی فنکار مفکر اور سائنسدان کی طرح سچائی کی تلاش کرتا ہے اور اسے اپنے لیے پرکشش بناتا ہے دنیا کے مفکروں نے جو اپنے نظریات کے غوطے لگائے اور سائنسدانوں نے جو حقائق دریافت کیے۔ایک فنکار ان کے ہر پہلو سے متاثر ہوتا ہے۔ کہیں موجود اور اجاگر ہونے والی ہمارے ہونے کی یہ خصوصیات پر کشش انداز میں جینے کے خطرات اور ہمت پربہترین انداز میں فٹ ہوتی ہیں وہ حاکمانہ انداز میں ہماری عمومی حس ، ہماری ذہانت ، ہماری امن کی خواہش اور ہماری بد امنی کی خواہش پر بات کرتے ہیں ، ہمارے تعصبات پر کبھی نہیں ، کبھی کبھی ہمارے خوف پر اور کبھی کبھار ہماری انا پر ، لیکن ہمیشہ ہماری خوش فہمی پر۔ ان کے الفاظ تعظیم سے سنے جاتے ہیں ان کا نقطہ نظر بھاری معمولات ہیں جیسے ہمارے ذہن کی نشوونما ، ہمارے جسموں کی مکمل دیکھ بھال ، ہمارے اداروں کا اخلاق، ہمارے عظیم اور قیمتی اہداف کی تکمیل ، دوسری صورت میں یہ فنکار کے ساتھ ہے۔ ایسی ہی چیستانی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے فنکار اپنے اندر اتر جاتا ہے اور اس تنہائی ، دباؤ اور تناؤ کی کیفیت میں وہ حقدار ہوتا ہے یا خوش قسمت ، وہ اپنے پر کشش ضوابط کو تلاش کرتا ہے۔ اس کی یہ تلاش ہماری کم گنجائش سے بنتی ہے۔ ہماری فطرت کا یہ حصہ ، جو بقا کی جنگ جیسی حالت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لازمی طور پر یہ مزاحمتی اور مشکل خصوصیات آنکھ سے اوجھل رکھی جاتی ہیں۔ جیسے خطرے سے دو چار جسم زرہ بکترر کھتا ہے یہ تلاش سست رو ہے ، زیادہ گہری ، کم منفرد ، زیادہ فعال اور جلد فراموش کر دی جانے والی۔ مگر اس کے اثرات ہمیشہ رہیں گے۔ کامیاب نسلوں کی تبدیل ہوتی ہوئی ذہانت ، برطرف خیالات، سوالیہ حقائق، ختم ہوتے نظریات ، مگر فنکار کی ہمارے ہونے کی یہ تلاش ذہانت پر منحصر نہیں ہے یہ جو ہمارے اندر فطری صلاحیت ہے نہ کہ جو ہم نے حاصل کی ہے ، جو زیادہ پائدار ہے اور مستقل۔ وہ ہماری خوشی اور حیرانی کی صلاحیت پر بات کرتا ہے اس اساطیری حس پر جس سے ہماری زندگی گھری ہے ہماری رحم دلی ، دکھ اور خوبصورتی کی جس سے ہمارے ساتھیوں کے اندرونی احساسات سے تمام مخلوق کے ساتھ ، ٹھیک ٹھیک لیکن نظر نہ آنے والی سالمیت کا احساسِ جرم جو بے شمار تنہا دلوں کو ایک ساتھ جوڑ کے رکھتا ہے۔ اس سالمیت سے جو خوابوں میں ہے ، خوشی ، غم میں، تنہا ، دھوکے میں ، امید میں ، خوف میں ، جو انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہے ، جو تمام انسانیت کو جوڑتی ہے ، مرے ہوؤں کو زندوں سے اور زندوں کو پیدا ہونے والوں سے۔ ‘‘ کانراڈ کی ناولز میں کئی جدید ادبی اور تنقیدی نظریات چھپے ہیں۔ ان کی مختصر کہانیاں بھی طویل ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’اے پرسنل ریکارڈ‘ میں لکھا ہے: ’’وہ لوگ جو میری تخلیقات کو پڑھتے ہیں، دنیا کے متعلق میرے عقائد کو جانتے ہیں۔، یہ مادی دینا تھوڑے سے سیدھے سادے تصورات پر قائم ہے، یہ خیالات اتنے سادہ ہیں۔ کی پہاڑوں کی طرح قدیم معلوم ہوتے ہیں ان میں ایک تصور وفاداری کا ہے۔‘‘ ... جدید فکشن نگاروں ایندی مارلو، ولیم فاکنر اور گراہم گرین پر جوزف کانراڈ پر خاصا اثر ہے ان کا خیال ہے کہ فرد کو برائیاں آہستہ آہستہ اندر سے کھائے جارہی ہیں۔ 

Mr. Ahmed Sohail
225, Trail Hollow Lane 
Palestine, TX 75801 (USA)
Cell: 9037290786





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

25/10/18

خواجہ میر درد کے اردو دیوان کا تنقیدی جائزہ۔ مضمون نگار سید تالیف حیدر






خواجہ میر درد کے اردو دیوان کا تنقیدی جائزہ
سید تالیف حیدر
خواجہ میر درد اردو کے دور اول کے شاعر ہیں ، جن کا اردو دیوان بہت مختصر ہے، درد ، میر تقی میر اور سودا کے معاصر تھے جن کو اردو شاعری میں سب سے اہم اور بڑے شاعروں میں شمارکیا جاتا ہے ، خواجہ صاحب کی شاعری ، میر اور سودا کی شاعری کے زمانے میں اگر اپنا ایک الگ رنگ سخن نہ رکھتی تو غالباً ہم اب تک کب ان کی شاعری کو بھلا چکے ہوتے، اگر آج خواجہ میر درد کے زمانے کے گزر نے کے تقریباً دو، ڈھائی سو سال بعد بھی ہم ان کی شاعری پڑھ رہے ہیں ، اس سے محظوظ ہو رہے ہیں ، اپنی شعری اور ادبی محافل میں ان کا تذکرہ کر رہے ہیں تو یہ بات مسلمات میں سے ہو جاتی ہے کہ ان کی شاعری میں کچھ تو ایسی بات تھی جس کی بنیاد پر اردو شاعری سے متعلق اشخاص ان کو آج تک فراموش نہیں کر سکے، خواجہ میر درد کے تعلق سے یہ بات تاریخی شواہد سے ظاہر ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب اردو شاعری کے علاوہ علم تصوف کے بھی ماہر تھے، ان کے کلام میں بھی اس کی نشانیاں ملتی ہیں اور تصوف پر جو ان کی مستقل کتابیں ہیں اس سے بھی اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے، تاریخی شواہد سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب کا خاندان اپنی متصوفانہ حیثیت کی وجہ سے اپنی ایک شناخت رکھتا تھا ، ان کے جد اعلی تو بڑے صوفی تھے ہی ،لیکن ان کے والد خواجہ ناصر عندلیب اس حیثیت سے شاہ عبدالعزیز کے عہد میں کافی مشہور تھے، اس حیثیت کا ان کی شاعری پر سیدھا اثر پڑا ہے، جس کا اردو کے کئی ایک ناقدین نے اعتراف کیا ہے، خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف کی جو تلمیحات نظر آتی ہیں یا جو اصطلاحیں اور استعارات دکھائی پڑتے ہیں اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ خواجہ صاحب کا تصوف سے گہرا رشتہ تھا۔
خواجہ میر درد، میر تقی میر اور سودا نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا اس سے اردو شاعری میں نئے مضامین کی آمد ہوئی ، اس کی لغت کا میدان وسیع ہوا اور اس زبان میں نئے نئے محاورات ، تشبیہات اور استعارات نے اپنی جگہ بنائی ، ان ارباب ثلاثہ کی شاعری میں کتنا فرق ہے ،اس سے ہمیں بحث نہیں بلکہ ان میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے یہ دیکھنے کی چیز ہے، میر اور درد کی شاعری میں زیادہ مماثلت نظر آتی ہے جس کے بر عکس سودا نے اپنی شاعری میں ایک الگ ہی جہان معنی تعمیر کیا ہے، حالانکہ سودا کے یہاں بھی کم تعداد میں ہی صحیح ایسی چیزیں موجود ہیں جن کو میر کی شاعری سے مماثل قرار دیا جا سکتاہے، لیکن اس کے باوجود سودا ان دونوں کے مقابلے الگ کھڑے نظر آتے ہیں، میر اور درد کے یہاں جو مماثلت نظر آتی ہے وہ تصوف کی بنیاد پر قائم ہے، مثلا میر صاحب کے یہاں ایسے بہت سے صوفیانہ مضامین ہیں جو درد کے یہاں بھی بندھے ہیں ، اس کے بر عکس درد کے یہاں تصوف کی ایسی کئی اصطلاحیں نظر آتی ہیں جو میر صاحب نے بھی استعمال کی ہیں، علاوہ ازیں تاریخی تناظر میں اس عہد کی دہلوی فضا اور ماحول کونظر میں رکھا جائے تو اس کیفیت پر بھی میر صاحب اور درد کے بہت سے مماثل اشعار مل جاتے ہیں ، یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ میر صاحب کی شاعری میں تغزل کا جو مختلف رنگ ہے اس کی ایک ادنی مثال درد کے یہاں اسی طرح موجود ہے جس طرح میر نے اسے بڑے کینوس پر بر تا ہے ، یہ درد کی کمزوری نہیں ہے کہ وہ میر صاحب کی مانند اس تغزل کی بو قلمونی کو اپنے اردو دیوان میں نہیں پرو پائے بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ بڑی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ خواجہ صاحب نے اردو شاعری کے مقابلے میں تصوف اور فارسی شاعری کو زیادہ اہمیت دی ، حالاں کہ جس طرح کی شاعری دردنے کی ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ درد اگر میر کی طرح اس امر کو لائق توجہ سمجھتے تو آج غالباً ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ ان دو معاصرین میں سے ہم کس کی شاعری کو زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھیں۔
میر صاحب اور سودا کی شاعری میں کم درجے پر جو مباحث اردو شاعری میں نظر آتے ہیں، اور ناقدین نے ان دونوں کے تعلق سے جو آہ اور واہ کے شگوفے چھوڑے ہیں درد نے اگر اس کثرت سے اردو شاعری کی ہوتی تو گمان غالب ہے کہ سودا کو میر کے مقابلے میں نہ لا کر ناقدین درد کا میرسے موازنہ کرتے ، سودا ، میر اور درد کا ہم عصر ہونا ایک واقعے سے کم نہیں ، درد کی شاعری میں جو لوازمات ہیں وہ کیا وجہ ہے کہ اس کثرت سے درد کے کسی ایسے معاصر کے یہاں نہیں جس کو ان دونوں اکابرشاعروں کے ساتھ گنا جاتا ہو، حالاں کہ تاریخ شاہد ہے کہ اس عہد میں درد کے دیگر کئی ایک معاصرین شمال سے دکن تک ایسے تھے جن کا نام میر اور سودا کے ساتھ لیا جا سکتا تھا، پھر بھی یہ مقام صرف درد کو ہی ملا کہ وہ سودا اور میر کی طرح دور اول کے ایک اہم اور مختلف المزاج شاعر ٹھہرائے گئے اور تاریخ میں ان کو اپنے عہد کے دو بہت بڑے شعرا کے ساتھ شمار کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ درد حقیقتاً اپنے تمام معاصرین کے مقابلے میں بالکل الگ شاعری کر رہے تھے ، جس میں شاعری کے وہ تمام عنصر موجود تھے جس سے کسی کی شاعری آفاقی شاعری بنتی ہے۔ درد نے اپنی پوری زندگی میں جتنی اردوشاعری کی ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے کبھی زبر دستی کسی مضمون کو شعر کے قالب میں نہیں ڈھالا ، یہ بات میں اتنے وثوق سے اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا دیوان جس نوعیت کا ہے اس میں بہت مشکل سے کوئی ایسا شعر ملے گا جس میں لفظوں کی ایسی ترتیب ہو جو شعر کے حسن کو مجروح کر رہی ہو یا جس سے شعر کی صوتی فضا متاثر ہوئی ہو، دیگر عروضی نقص ہونا تو خیر ایک بے کار سی بات ہے، لیکن کہیں ہمیں ایسا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ خواجہ صاحب نے کسی معنی کو ظاہر کرنے کے لیے لفظیات کو گھما پھرا کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا ہو۔ ان کے دیوان میں بہت سے ایسے اشعار تو مل جائیں گے جن میں شعریت کی کمی ہو یا جو قاری کو کسی طرح متاثر نہ کرتے ہوں ، پر شعر میں اضافی چیزیں یا دوسرے لفظوں میں ملفوظی یا معنوی حشو و زوائد نا کے برابر نظر آتے ہیں۔ 
خواجہ صاحب کی شاعری کایہ کمال ہے کہ انھوں نے اپنے چھوٹے سے دیوان سے ایک بڑے حلقے کو متاثر کیا جس کی ضد میں ان کے کئی ایک معاصرین آئے ، یہ ایک لمبی بحث ہے کہ میر اور سودا خواجہ صاحب سے کس حد تک متا ثر تھے یہاں ان دونوں معاصرین نے ان کے رنگ سخن سے کتنا فیض اٹھا یا ، لیکن اس کے بر عکس اس عہد کے دیگر کئی ایک بڑے شعرا ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے خواجہ صاحب کی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا ہے، جس میں ایک سب سے اہم نام خواجہ میر اثر کا ہے ، جن کے کلام میں خواجہ صاحب کا بڑا رنگ جھلکتا ہے، دہلی میں ان کے معاصرین میں شاہ عالم ثانی تک ان کے رنگ سخن سے متاثر تھے، اور اودھ کے علاقوں میں بھی فیض آباد اور لکھنو تک خواجہ صاحب کے بہت سے معاصرین نے ان کی شاعری سے اکتساب کیا تھا، دہلی میں خواجہ میر درد کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد تھی اور یہ ایک واقعہ ہے کہ ان کے ہندو شاگردوں نے ان کے رنگ میں بہت زیادہ شاعری کی ہے جس پر ابھی تک خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے، بہر کیف خواجہ صاحب کے معاصرین میں ہمیں دکن میں ایک ایسا بڑا شاعر سراج اورنگ آبادی نظر آتا ہے جس کے لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خواجہ صاحب کے دیوان سے متاثر ہوا اور اس کے بعد اس نے تصوف کے اعلی مضامین کو اپنے اشعار میں باندھا ، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ سراج کے بہت سے استعارات اور تشبہیں معنوی اعتبار سے خواجہ صاحب سے بہت ملتی ہیں، حالاں کہ سراج عمر میں خواجہ صاحب سے بڑے تھے، ان کا سنہ پیدائش 1712 ہے ، اور سنہ وفات 1763 جبکہ خواجہ صاحب 1721 میں پیدا ہوئے اور 1785 میں ان کا وصال ہوا۔ ان دونوں کے دیوان کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب کو کسی طور سراج سے متاثر نہیں گردانہ جا سکتا ، جس کی ایک معقول وجہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنے جن متصوفانہ خیالات کو اپنے اشعار میں باندھا ہے وہ لفظی اور معنوی ہر دو لحاظ سے اتنے Originalنظر آتے ہیں کہ ان کو کسی کا تتبع نہیں کہا جا سکتا ،جہاں تک ولی کی بات ہے تو اس میں بھی یک گنا تشکیک کا پہلو ہے کہ آیا ولی کے دیوان کی دہلی آمد سے ان کے معاصرین کا کون سا حلقہ ان کے رنگ میں شعر کہنے پر مصر ہوا، اگر تاریخی شواہد سے یہ بات مان بھی لی جائے کہ اٹھارویں صدی کی ابتدا میں دہلی میں جو اساتذہ شعر کہہ رہے تھے انھوں نے ولی کے دیوان سے استفادہ کیا تو بھی یہ بات اپنی جگہ مسلم نظر آتی ہے کہ ان اکابرین کی شاعری سے بعد کے شعرا نے کچھ نہیں لیا۔ آرزو ، آبرو ، سعد اللہ گلشن اور یقین وغیرہ کا عہد میر یا خواجہ میر درد کے عہد سے پہلے کا سہی لیکن ان کو میر اور درد کا عہد بھی کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان چالیس ، پینتالیس برسوں میں جب کہ ولی دہلی میں پہلی بار آئے اور ان کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی اور سعداللہ گلشن نے انہیں چند معقول مشوروں سے نوازہ پھر اس کے چند برسوں بعد ولی کا دیوان دہلی پہنچا اور شمال میں اسے سر آنکھوں پر بٹھایا گیا ، یہ تمام واقعات اردو شاعری میں شعریت کی تاریخ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتے ہیں ، ولی کی شعری جمالیات سے اگر درد کی شعریات کا موازنہ کیا جائے یا میرکی شعریات کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ میر اور ان کے یہ دونوں اہم معاصر ولی سے کچھ اکتساب نہیں کرتے ہیں ، بلکہ ان کی Originalityاس بات کی شاہد ہے کہ انھوں نے اپنے دہلوی پیش رووں سے بھی کچھ خاص فیض نہ حاصل کرتے ہوئے اردو شاعری میں ایک نئی راہ نکالی اور اردو کے رنگ سخن کو اپنے اپنے انداز میں ایک مختلف ڈھرے پر ڈالا۔
خواجہ میر درد کا جہاں تک معاملہ ہے ان کے معاصرین میں صرف مظہر جان جاناں واحد ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری میں خواجگانی عنصر نظر آتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خواجہ میر درد اور مرزامظہر جان جاناں کا صوفیانہ طریق ایک تھا ، یہ دونوں اصحاب نقشبندیہ سلسلے کے بڑے صوفی تھے اس لیے یہ مماثلت کچھ بے معنی بھی نہیں، لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ اس عہد میں نقشبندیہ سلسلے کا دہلی پر راج تھا ، چوں کہ بادشاہ وقت کی پوری نسل اس سلسلے میں مرید تھی اس لیے نقشبندیہ سلسلے کو دہلی میں بہت اعلی مقام حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ درد کے کئی ایک معاصر نقشبندی صوفیا ایسے تھے جو اس عہد میں شاعری بھی کر رہے تھے مگر ہر کسی کا درد کے رنگ سخن سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ، جس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعری پر جہاں جہاں تصوف کا عنصر اس حد تک غالب آجاتا ہے کہ شاعری میں کچھ اثر باقی نہیں رہتا وہاں وہاں شاعری دم توڑتی چلی جاتی ہے، اور یہی درد کے معاصرین نقشبندی صوفیا کے ساتھ ہوا کہ انھوں شاعری پر تصوف کو اتنی فوقیت دی کہ شاعری کے حوالے سے ان کا نام درد کے ساتھ کسی طور نہیں لیا جا سکتا، اس ضمن میں اگر دو ایک لوگ اس رویہ کے بر عکس امتیازی حیثیت رکھتے ہیں تو ان میں مرزا مظہر جان جاناں اور خواجہ ناصر عندلیب شامل ہیں۔
ایک اہم نکتے کی طرف اور اشارہ ضروری ہے کہ تصوف کا جو رنگ خواجہ میر درد کی شاعری میں نظر آتا ہے اس سلسلے کی تکمیل کہا ں ہوتی ہے ، یہ ایک غور طلب بات ہے کہ معاصرین درد یا شاگردان درد یا سلسلہ درد کے تلامذہ میں کیا کوئی ایسا نظر آتا ہے جس کے کلام کا مطالعہ کر کے یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکے کہ اس کلام میں خواجہ میر درد کے کلام کا وہ رنگ نظر آتا ہے جس پر خواجہ صاحب کے کلام کے تکملہ کی مہر لگائی جا سکے۔ میر اثر نے جس طرح کی شاعری کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے خواجہ صاحب کی شعری روایت کو آگے بڑھانے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے،لیکن موضع سکندر پور ضلع بلیامیں 1250ھ میں پیدا ہونے والے ایک شاعر آسی غازی پوری نے ایسے صوفیانہ مضامین اپنی غزلوں میں باندھے ہیں کہ جن کے مطالعے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کلام پر خواجہ میر درد کی شعری روایت کی تکمیل ہو گئی ہے، عین المعارف جو کہ آسی غازی پوری کا مجموعہ کلام ہے اس کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ ناسخ کے اسکول کا یہ شاعرلکھنوی مزاج اور ناسخیت کی ملفوظی جلوہ گری سے کس حد تک دور ہے ، اور دہلی کے میر تقی میر اور خواجہ میر درد کے رنگ سخن کو کس تواتر سے جلا بخشتا چلا جاتا ہے، آسی غازی پوری کے تعلق سے طیب ابدالی ( ریڈر شعبہ اردو ،مگدھ یونی ور سٹی)نے کیا خوب کہا ہے کہ:
آسی دبستان ناسخ کے میر ہیں۔
ان کے اس جملے سے اتفاق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آسی تغزل میں میر اور تصوف میں درد کی مانند نظر آتے ہیں اور اگر ان کی بات کو آگے بڑھایا جائے تو یہ کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں کہ آسی جس طرح دبستان ناسخ کے میر ہیں اسی طرح سلسلہ رشیدیہ کے درد۔ آسی کے دیوان سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں تصوف کا ہی رنگ ہے جو شاہ ولی اللہ کی دہلی میں اٹھارویں صدی کی ابتدا میں رائج تھا، جس میں گہری معنویت ، تغزل اور تنازعہ یہ تینوں چیزیں اتنی گڈ مڈ ہو کر سامنے آتی تھیں کہ شعر میں ایک عجیب وغریب لطف پیدا ہو جاتا تھا ؂
اپنی عیسی نفسی کی بھی تو کچھ شرم کرو
چشم بیمار کے بیمار ہیں بیمار ہنوز
اس خیال کو آسی سے پہلے درد نے کس طرح باندھا ہے وہ بھی ملاحظہ کیجیے پھر دوسرے اشعار کی طرف چلتے ہیں ؂
کر چکا اپنی سی عیسی بھی تو ،پر کیا حاصل
ہیں گے ویسے ہی تری چشم کے بیمار ہنوز
درد نے بات کو جس سلیقے سے کہا تھا وہ خیال جب آسی غازی پوری کے یہاں پہنچتا ہے تو اور زیادہ نکھر جاتا ہے، حالاں کہ خیال ایک ہے پر آسی کی انفرادیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ انفرادیت آسی کو درد سے ورثے میں ملی ہے ، یہ معاملہ اور اشعار کے ساتھ بھی ہے، اب آسی کے چند اور اشعار دیکھیے ؂
نہ ستاری کو شرم آئے نہ غفاری کو غیرت ہو 
قیامت میں ترا بندہ ترے آگے فضیحت ہو
کوئی تو پی کے نکلے گا اڑے گی کچھ تو بو منہ سے
در پیر مغاں پر مے پر ستو چل کے بستر ہو
آنکھیں تجھ کو ڈھونڈتی ہیں دل ترا گرویدہ ہے
جلوہ تیرا دیدہ ہے صورت تری نا دیدہ ہے 
اسی طرح ان کی نعت کے بھی کئی ایک شعر ایسے ہیں جن پر علما وفقہا نے جم کر بحثیں کی ہیں۔ خواجہ میردرد کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں کئی مقامات پر ایسے اشعار ملتے ہیں جن کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسی غازی پوری نے ان خیالات کو اٹھایا ہے اور بات کو مکمل کر دیا ہے ، یا جہاں خواجہ صاحب نے بات ختم کی ہے اسی نکتے سے بات شروع کر کے آسی غازی پوری نے اس خیال کو مزید آگے بڑھا کر بالابلند کر دیا ہے۔ 
بہر کیف خواجہ صاحب نے اپنے عہد ،اپنے معاصرین کو متاثر کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اس عہد سے اب تک ہنوز جاری ہے ، اس عہد میں خواجہ صاحب کے کلام کی تحلیل کس انداز میں کی جا سکتی ہے اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے اور جس کا ایک ادنی نمونہ اس باب کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے۔ 
[ب]
اس عہد میں خواجہ میر درد کی شاعری کی تحلیل کس طرح کی جا سکتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے، مثلاً خواجہ صاحب کی شاعری کے عہد سے اس عہد تک اردو زبا ن نے جتنی ترقی کی ہے یا اس میں جتنے نظریات شامل ہو گئے ہیں ان کے پیش نظر ہمارے پاس خواجہ صاحب کے دیوان کی تحلیل کے لیے کافی کچھ موجود ہے ، اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا دیوا ن جیسا کہ ہمارے کئی ایک ناقدین نے کہا ہے کہ صرف تصوف کے مضامین سے ہی نہیں بھرا ہوا ہے ، بلکہ اس میں رنگ تصوف کے ساتھ رنگ تغزل، حالات زمانہ ، عرض حال، باطنی کیفیات (جو تصوف سے قطع نظر مختلف نوعیتوں کی ہیں۔) اورمشرقی شعری روایات جیسی کئی ایک چیزیں موجود ہیں ، اس لیے ان کے کلام کی تحلیل کرتے وقت صرف مضامین تصوف کو ہی فوقیت نہیں دی جا سکتی، ہاں ان اشعار میں جن میں یہ نکتہ غالب ہے یا جس میں تصوف کی معنویت سے رمزیا گیرائیت پیدا ہو رہی ہے وہ اس تناظر میں دیکھے جانے کی متقاضی ہے، اس عہد میں جبکہ مارکسیت ، جدیدیت ، مابعد جدیدیت، تشکیلیت ، مظہریت، ساختیاتی اور پس ساختیاتی فکر جیسی کئی ایک باتوں سے ہم آشنا ہو چکے ہیں خواجہ میر درد اور میر تقی میر جیسے آفاقی شعراکو ایک تناظر تک محدود رکھنا کور چشمی کی علامت ہے۔ خواجہ میر درد نے جو عہد دیکھا یا جیا ہے اس عہد میں ہندوستان میں Imperialismہوتے ہوئے Non Imperialismغالب تھا ، ایک مستحکم حکومت کی بنیادیں 1707 میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ہل چکی تھیں اور Dictatorshipبرائے نام رہ گئی تھی، حالاں کہ شاہی محلات موجود تھے اور شاہی نظام کا غلبہ بھی تھا لیکن اندورنی انتشار سے خواجہ میر درد جیسے بصیرت افروز لوگ بخوبی واقف ہو چکے تھے اور انہیں حکومت کے ختم ہونے کا منظر بھی نظر آ رہا تھا ، ان تمام خیالات کے پیش نظر خواجہ صاحب کے دیوان کو اگر کھنگالا جائے تو ان کے دیوان سے بہت سی باتیں مل جاتی ہیں۔خواجہ صاحب کے تعلق سے ایک بات اور نظر میں رکھنی چاہیے کہ ان کے دیوا ن میں ظاہری مسائل پر بہت کچھ ملتا ہے ، خواہ وہ ظاہری محبوب کا مسئلہ ہو یا ظاہری سوسائٹی کا ، ایسا نہیں ہے کہ خواجہ صاحب صرف عالم بالا کی سیر کرتے ہوے ہی اپنے دیوان کو رقم کر گئے ایسا ہوتا تو شاید ان کا دیوان حدائق بخشش کے زمرے میں رکھا جاتا ، لیکن اس کے برعکس انھوں معاصر معاملات عشق اور مسائل بوالہوسی کو بھی اپنے دیوان میں جگہ دی اور احاطہ شاہجہاں آباد کے سیاسی اور سماجی مسائل کو بھی نظر میں رکھا۔ اس کی واضح تصویر ان کی غزلیات اور رباعیات میں ملتی ہے۔ 
خواجہ صاحب کو پہلے درجے میں چند خانوں میں بانٹ لینا ضروری ہے تاکہ ان کے اشعار کی تحلیل اسی تناظر میں کی جائے،لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس ضمن میں صرف وہ اشعار پیش کیے جائیں گے جن میں کچھ گہری معنویت پوشیدہ ہواوراس کی تقسیم کچھ اس طرح ہو گی کہ پہلے حمدیہ پھر صوفیانہ پھر متغزلانہ اورپھر متفرق اشعار کا جائزہ۔ اب یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے جو خواجہ صاحب کی حمدیہ شاعری سے منتخب ہیں ؂
ماہیتوں کو روشن کرتا ہے نور تیرا

اعیان ہیں مظاہر ، ظاہر ظہور تیرا
یاں افتراق کا تو امکاں سبب ہوا ہے

ہم ہوں نہ ہوں ولے ہے ہونا ضرور تیرا
ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت

یاں ہے شہود تیرا وا ں ہے حضور تیرا
ہوگیا مہماں سرائے کثرت موہوم آہ

وہ دل خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا
جلوہ تو ہر اک طرح کا ہر شان میں دیکھا

جو کچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دیکھا
آئینے کی طرح غافل کھول چھاتی کے کواڑ

دیکھ تو ہے کون بارے تیرے کاشانے کے بیچ
اے درد کر ٹک آئینہ دل کو صاف تو

پھر ہر طرف نظارہ حسن و جمال کر
کچھ اور مرتبہ ہے وہ فہمید سے پرے

سمجھے ہیں جس کو یار وہ اللہ ہی نہیں
تیرے سوا نہیں کوئی دونوں جہان میں

موجود ہم جو ہیں بھی تو اپنے گمان میں
جب سے تو حید کا سبق پڑھتا ہوں

ہر حرف میں کتنے ہی ورق پڑھتا ہوں
اس علم کی انتہا سمجھنا آگے 
ق
اے درد!ابھی تو نام حق پڑھتا ہوں
اے بحر علوم سب کو باری باری

ہے تجھ سے ہی اب حصول فیض باری
تاحشر تری مریدی و پیری کا
ق
جوں موج یہ سلسلہ رہے گا جاری
حمد کے یہ تمام اشعار ا ن کے کئی ایک حمدیہ شعروں سے منتخب ہیں جو خواجہ صاحب کے دیوان میں ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں ، حمد کہنے کاسلیقہ جس طرح خواجہ صاحب نے سکھا یا ہے اگر اس طرح سے متواتر حمد کہی جاتی تو یہ صنف اردو کی دیگر اصناف کے بالمقابل اتنی کمزور نہ ہوتی، اردو میں حمدیہ کلام کا معیار بہت پست ہے ، خواجہ صاحب نے اپنے ایک ایک شعر سے حمد کی رمزیت میں اضافہ کیا ہے، حمد کے معنی لغت کی رو سے صرف اللہ کی تعریف کے ہیں ، لیکن اس معنی میں جتنے معنی پوشیدہ ہیں ان سب کو نظر میں رکھ کر خواجہ میر درد نے حمد کہی ہے، اٹھارویں صدی میں اس ڈکشن اور اس طرز کی حمد کہنے والے ہمیں خال خال ہی نظر آتے ہیں، ان اشعار پر اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنے عہد کی لفظیات کو کتنے متنوع معنی میں استعمال کیا ہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خواجہ صاحب کے عہد میں اردو کی لفظیات میں تصوف کی معنویت کا یک رخی پہلو پایا جاتا تھا، اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو خواجہ صاحب کے ہنر کی داد دیتے نہیں بنتی کہ انھوں نے حمد کہتے وقت کس حسن و خوبی سے ان لفظیات کو دو طرفہ انداز میں استعمال کیا ہے ، جس سے نہ صرف یہ کہ حمد کا مفہوم بھی ادا ہو گیا ہے، بلکہ بلا کی گیرائیت ان اشعار میں پیدا ہو گئی ہے، ایک لفظ کو اپنے لغوی معنی کے ساتھ اصطلاحی معنی میں استعمال کرنا میر تقی میر کا خاصہ نظر آتا ہے ، کیوں کہ ان کے کلام میں بھی ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے لفظ کی دو طرفہ معنویت متر شح ہوتی نظر آتی ہے، لیکن حمد اور صوفیانہ خیالات کے اظہار میں خواجہ صاحب کا پلہ میر سے بھاری دکھائی پڑتا ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے یہ ہو سکتی ہے کہ میر کے بر عکس میر درد نے حمد اور وحدت کے نکتے پر میر سے زیادہ غور کیا ہے۔ 
خواجہ صاحب کے حمدیہ اشعار کا اس عہد میں مطالعہ کیا جائے اور ان میں کسی نوع کی مختلف المزاجی یا عصری اظہار یے کی تکینک کو تلاش کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب کے بعض اشعار ایسے مل جاتے ہیں جن کے متن کو کسی طور اس عہد کے متن سے قدیم نہیں گردانا جا سکتا۔ جس Deconstruction کی تھیوری کو جدید مباحث کے زیر اثر بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اس تناظر میں اگر میر درد کے ا ن چند حمدیہ اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو درد کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ، مثلاًپرانے متن کی جدید تفہیم کے آئینے میں اگر اردو کا کوئی قدیم متن کھرا اترتا ہے تو وہ درد کے حمدیہ اشعار ہیں ، حالاں کہ دریدا کے رد تشکیل کی معنویت چونکہ بہت ہی پیچیدہ ہے اور اس میں اس نے ما بعد الطبیعیا ت کا رد بھی کیا ہے جس سے قدیم متن اور لسانیات کے نئے مباحث نے جنم لیا ہے ، لیکن ان سب کے درمیان معنی آفرینی کی جتنی بحث ہے اس پر خواجہ صاحب کے حمدیہ اشعار کو رکھ کر دیکھنا چاہیے، یہاں جتنے اشعار حمد کے حوالے سے پیش کیے گئے ہیں اس کے ڈکشن پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ کس طرح خواجہ صاحب نے اپنی جدیدیت کو آج سے دو صدی قبل رقم کر دیا تھا ، مثلاً اعیان، افتراق، شہود، موہوم، کاشانے، آئینہ اورفہمیدجیسے الفاظ کا استعمال جو کہ بہت زیادہ متنازعہ الفاظ ہیں اس نے درد کے کلام میں ایسی معنویت کا رمز پیدا کر دیا ہے کہ یہ اشعار آج سے مزید دو سو سال بعد تک یک گونہ جدید ہی رہیں گے، یہ خواجہ صاحب کی بصیرت کا ثبوت ہے کہ انھوں نے حمد جیسے سیدھے مفہوم کو اتنے معنی عطا کر دیے جس سے نہ صرف یہ کہ ان کا خدا کی تعریف کرنے کا منشا پورا ہو گیا، بلکہ لسایات کی ایک الگ دنیا بھی آباد ہو گئی، یہی وجہ ہے کہ ان اشعار کی تفہیم میں کسی ایک تعریف پر اکتفا کرنا عجیب لگتا ہے، یہ ایسا ڈکشن ہے جو وقت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ بدلتا ہے بلکہ نئے جہان معنی کو خلق کرتا چلا جاتا ہے۔ 
خواجہ صاحب کے اشعار کے لفظی مباحث سے قطع نظر اگر ان کی معنوی تہہ داری پر غور کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب اپنے رب کو کتنےDimensional انداز میں محسوس کرتے ہیں ، مثلاً کبھی وہ اسے خلوت میں دیکھتے ہیں تو کبھی جلوت میں ، کبھی اس کا پرتو انھیں ہر طرف دکھائی دیتا ہے تو کبھی کسی طرف بھی جلوہ جاناناں نہ نظر آنے کا قلق رہتا ہے، کبھی وہ اس کو اپنے باطن میں پاتے ہیں تو کبھی ظاہر میں ، حتی کے انھوں نے رب کی تعریف میں ان چیزوں تک میں اس کے حسن و جمال کے دکھائی دینے کا دعوی کیا ہے جہاں اس کے ہونے کے امکان تک پہ عوام الناس غور نہیں کر پاتے۔ خواجہ صاحب نے وحد ت کو بھی حمد کے معنی ہی میں استعمال کیا ہے اور اگر غور کرو تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہلو بھی خوب ہی ہے کہ اس کا ایک ہونا کوئی خبر نہیں لیکن جب اوصاف خدا وندی گناتے ہوئے اس کے وحدت کے نکتے کو اٹھایا جائے تو یہ عام سا تصور بھی حمد باری تعالی کے مفہوم میں ظاہر ہوتا ہے، خواجہ صاحب کا یہ منفرد انداز نظر ہے کہ انھوں نے اللہ کی تعریف میں اللہ کے لیے ، اللہ کی طرف سے اور اللہ کو ایک ہی خیال میں پرو دیا ہے۔ مثلاً ایک شعر میں کہتے ہیں کہ :
ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت 
یاں ہے شہود تیرا وا ں ہے حضور تیرا
حالانکہ اس شعر میں درد نے تصوف کی ایک معروف اصطلاح استعمال کر کے اس کو دو طرفہ معنی عطا کر دیے ہیں ، لیکن اصلاً یہ حمد کا ہی شعر ہے جس میں ہر ذرہ میں اللہ کے نور کے پرتو کو پوشیدہ قرار دیتے ہوئے شہود اور حضور سے بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس پرتو سے تیرے ہونے کی شہادت ملتی ہے جبکہ تیرا حضور جو کہ وجود کے معنی میں استعمال ہوا ہے وہ عالم بالا میں ہے، جو لوگ تصوف کے معروف وحدت الوجودی اور وحدت الشہودی مباحث سے واقف ہیں وہ اس شعر سے مزید لطف اندوز ہو ں گے۔ ایک مزید نکتہ یہاں یہ بھی سجھائی دیتا ہے کہ وہ طریقہ محمدیہ جو درد کے والد ناصر عندلیب کو امام حسین سے ورثے میں ملا تھا اس طریقے کی معنویت یہ تھی کہ اس نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی ایک درمیانی راہ نکالی تھی اور اسی پر درد کا ایما ن تھا۔ اس شعر کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ میر درد اور ان کے والد نے کس بصیرت سے اپنے اس طریق کو مزین کیا تھا کہ تصوف کے اتنے متنازعہ مسئلے کواتنے راست طریقے سے حل کرنے کے نکتے نکالے تھے۔ 
حمد کہنا اسی لیے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ خواجہ میر درد جیسے بصیر ت افروز اشخاص اس میدان سخن میں خامہ فرسائی کر چکے ہیں ، حالاں کے بعد کے عہد میں چند ایک ایسے متون وجود میں آئے ہیں جس نے خواجہ صاحب کے متن سے بھی زیادہ بالیدگی سے حمدیہ کلام کہنے کا مظاہرہ کیا ہے ، لیکن ان حضرات کی جو کلاسکل اہمیت ہے اس سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
اب صوفیانہ اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
اے درد منبسط ہے ہر سو کمال اس کا 
نقصان گر تو دیکھے تو ہے قصور تیرا
کبود چرخ دیکھا تو سواری کے نہیں قابل
مہ نو سے ہے پیدا عیب اس کی بد رکابی کا
اے آنسونہ آوے کچھ دل کی بات منہ پر
لڑکے ہو تم ابھی مت افشائے راز کرنا
مانند فلک دل متوطن ہے سفر کا
معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کدھر کا
کھل گیا جو کچھ کہ تھا اے نیستی
ہستی موہوم کا یاں افترا
آگاہ اس جہاں سے نہیں غیر بے خوداں
جاگا وہی ، ادھر سے جو منہ ڈھانک سو گیا
حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
چلیے کہیں اس جاگہ کہ ہم تم ہوں اکیلے
گوشہ نہ ملے گا کوئی میدان ملے گا
گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں
یہی بساط میں ہم خاک سار رکھتے ہیں
وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے
پردے تعینات کے جو تھے اٹھا دیے
ان اشعار میں تصوف کی معنویت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتاجس کی ایک واضح دلیل ان میں سے زیادہ تر میں تصوف کی اصطلاحوں کی موجود گی سے فراہم ہوتی ہے، بہر کیف ان کی معنویت پر آنے سے قبل تصوف کے نکتے پر غور کرلینا زیادہ اہم ہے۔ تصوف کیا ہے؟ اس کا ایک براہ راست جواب تو اس کے لغوی اور اصطلاحی دونوں معنی سے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اشخاص جو دنیا سے کنارہ کر کے اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاتے ہیں ان کے طریق کو تصوف کہا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس اردو زبان و ادب کی شعری بساط پر آتے آتے یہ لفظ اپنے جتنے کثیر الجہات معنی میں استعمال ہونے لگتا ہے ، اس کی تشریح دو ایک سطروں میں نہیں کی جا سکتی، تصوف ایک کیفیت ہے جس کیفیت کی بو قلمونی سے آراستہ جتنے بھی متون دریافت ہوتے ہیں وہ سب صوفیانہ متون کے ذیل میں آجائیں گے۔ یہ ایک نظریہ نہیں ہے ، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تصوف کو ایک نظریہ سمجھنے والے اس کی معنویت کو محدود کر کے اسے صرف نام نہاد خانقاہوں میں تلاش کرتے ہیں، پر تصوف کی ایسی تعریف اس آفاقی لفظ کو بہت ہلکا اور چھوٹا بنا دیتی ہے، جن احباب نے تصوف سے متعلق چند ایک اہم کتابوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے وہ اس کی معنویت سے بخوبی واقف ہوں گے، مثلاً جب تک کتاب اللمع، مجمع السلوک، کشف المحجوب، مکتوبات صدی، مکتوبات دو صدی، مکتوبات امام ربانی، فوائد الفواد ، ہشت بہشت، مثنوی مولانا روم ، اور احیاے علوم الدین جیسی کتب کا مطالعہ نہ کیا جائے یا امام اعظم ، جنید بغدادی،منصور حلاج، امام غزالی، امام رازی ، امام شعرانی، امام ابن تیمیہ ، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ وغیرہ کی تصنیفات اور حالات زندگی کو نہ دیکھا جائے تب تک اس کے رموز و اوقاف سمجھ میں نہیں آتے۔ تصوف ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کے اکتساب کے لیے اعلی بصیرت اور عمیق مطالعہ شرط ہے۔
خواجہ میردرد کے اشعار میں جن ناقدین نے تصوف کے ہونے سے انکار کیا ہے وہ تو کسی طور حق بہ جانب نہیں ہیں ،ہاں جنہوں نے ان کی شاعری میں کم ہی اشعار میں اس عنصر کے ہونے کا خیال پیش کیا ہے وہ میری دانست میں بالکل صحیح ہیں۔ خواجہ صاحب کی اردو شاعری میں تصوف کے اعلی اور معیاری اشعار کم ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ واردات کے نام سے خواجہ میر درد کی فارسی رباعیات کا جو مجموعہ موجودہے اس میں درد نے تصوف اور واردات قلبی کے علاوہ کچھ نہیں رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اردو میں انھوں نے تصوف کے بالمقابل دیگر انداز کی شاعری زیادہ کی ہے۔ یہ چنداشعار جو یہاں پیش کیے گئے ہیں ان کے علاوہ بھی اس نوع کے کئی اشعار خواجہ صاحب کے دیوان میں موجود ہیں ، لیکن یہاں انتخاب کے طور پر انھیں پیش کیا گیا ہے۔ ان اشعار میں تصوف کے بعض اتنے پیچیدہ شعر ہیں جن کی شرح میں راقم نے بڑے بڑوں کو الجھتے ہوئے دیکھا ، مثلاً خواجہ صاحب کا یہ شعر کہ ؂

کبود چرخ دیکھا تو سواری کے نہیں قابل
مہ نو سے ہے پیدا عیب اس کی بد رکابی کا
اتنا ژولیدہ ہے کہ اس کی تشریح کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، مثلاً کبود جو کہ فارسی کا لفظ ہے اور ساتھ میں تصوف کی بھی ایک اصطلاح ہے اس کے استعمال سے یہ شعر کافی پیچیدہ ہو گیا ہے، اگر سیدھے طور پر اسے سمجھنے کی کوشش کرو تو لگتا ہے کہ خواجہ صاحب ایک مبہم مقدمہ پیش کر رہے ہیں ، کیونکہ اس میں کیا بات ہوئی کہ نیلا آسمان سواری کے قابل نہیں ہے ، اس مقدمے پر استفسار کی یہ صورت بنتی ہے کہ صاحب کیوں نہیں ہے ؟تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ نئے چاند کی وجہ سے جو اس آسمان کے حق میں ایسا مضر ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے اس گھوڑے کی پیٹھ پر کوئی سواری نہیں کر سکتا۔ اس کے یہ راست معنی بڑے عجیب ہیں ، کوئی بھی شعراپنے بالکل راست معنی میں جب اتنا مبہم ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ بات کچھ اور بھی ہے، مثلاً اگر غالب یہ کہتا ہے کہ ؂
نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب 
پائے طاوس پئے خامہ مانی مانگے
اس میں مانی کے وجود سے جب تک کوئی شخص واقف نہیں ہوگا کہ مانی کوئی لفظ نہیں بلکہ ایران کے ایک مصور کا نام ہے تب تک یہ شعر اس پر کھلنے سے رہا،اسی طرح متذکرہ بالا شعر میں تصوف کی اصطلاحوں سے جب تک کوئی شخص واقف نہیں ہوگا یا خواجہ صاحب کے طریقہ محمدیہ کا اس نے مطالعہ نہیں کیا ہوگا اس وقت تک اس پر یہ شعر کھلنے سے رہا۔ میری دانست میں لفظ کبود سے خواجہ صاحب اپنے طریقہ محمدیہ یا بھر اپنا سلسلہ طریقت نقشبندیہ مراد لے رہے ہیں جس کی معنویت کو ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے کبود جو تصوف کی اصطلاح ہے اور جس کے معنی نیلا لبادہ یا نیلا رنگ یا نیلا کوئی اور ایسا کنایہ ہے جس سے ان دو میں سے کسی ایک کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے اور یہ بات کہی جارہی ہے کہ یہ دونوں طریق اتنے پیچیدہ اور شریعت و طریقت کے معاملے میں اتنے سخت ہیں کہ ا ن طریقوں کو اپنانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں اس طریقے کی پیچیدگی اور اس کے ساتھ سفر کرنے کی مشکلات کو درد نے مہ نو کی پل صراطی صفت اور بدرکابی جیسی تراکیب کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔ تصوف کے ایسے اشعار کو سمجھنے کے لیے تصوف کے ان پیچیدہ مباحث پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اکابرین صوفیا نے تصوف کا اصطلاحی نظام وضع کیا ہے۔ 
صرف ایک یہی شعر نہیں بلکہ دوسرے بھی جتنے اشعار یہاں پیش کیے گئے ہیں ان سب میں ایک عجیب و غریب معنویت پوشیدہ ہے، مثلاً ان اشعار میں ایسے متنازعہ الفاظ کو دیکھیے: منبسط،لڑکے، متوطن،سفر،منہ،حجاب،پردہ،میدان،گلیم اوروحدت یہ تمام الفاظ اپنے لغوی معنی کے ساتھ اپنے اصطلاحی معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں ، اور بعض تو صرف اصطلاحی معنی میں ہی مستعمل ہیں جس کی بہترین مثال لفظ لڑکے ہے جو کہ آنسو کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ سب خواجہ صاحب کا علم تصوف سے واقفیت کا ثبوت ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے کس طرح شاعری اور تصوف کو گوندھ کر ایک نیا جہا ن معنی آباد کیا ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری میں تصوف کے عنصر کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک خاص نکتے کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ سلسلہ نقشبندیہ میں مرید تھے ، اس کے باوجود ان کے مزاج میں اتنی موزونیت اور غنائیت تھی جبکہ یہ سلسلہ ان سب چیزوں سے اپنے سالکین کو دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ خواجہ صاحب کے صوفیانہ اشعار کا معاملہ دیگر شعرا کے مقابلے اس لیے بھی زیادہ متاثر کن ہے کیو ں کہ انھوں نے اپنے صوفیانہ اشعار میں بھی متغزلانہ رنگ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے، ان کی شاعری اسی لیے میر تقی میر سے مماثل ہے کیوں کہ اس تناظر میں میر صاحب بھی خواجہ میر درد کے متبع نظر آتے ہیں، ایک عمیق خیال کو اس آسانی سے رقم کر جانا جس میں وحدت کی تفکیر پو شیدہ ہو ، اتنا آسان نہیں، وحدت ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کی تعریف میں صوفیا نے کئی مباحث قائم کیے ہیں، وحدت کی ایک ایسی ہی تعریف احمد بن رویم کے حوالے سے قاضی جمال حسین نے اپنی کتاب خواجہ میر درد میں بیان کی ہے کہ :
’’توحید یہ ہے کہ جس نے توحید کے بارے میں کوئی تصور باندھا ،مشاہدہ معانی کیا،علم الاسماء پر عبور حاصل کیا ،اسماء الہیٰ کی اللہ کی طرف نسبت کی اور صفات کو اس سے منسوب کیا اس نے تو حید کی بو تک بھی نہیں سونکھی ،مگر جس نے یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اسے منفی کردیا وہی موحد ہے مگر رسمی طور پر حقیقتاًنہیں۔‘‘
اس تشریح کو پیش کرنے والا ایک بڑا صوفی ہے ،اب اس تشریح کو مد نظر رکھ کر خواجہ صاحب کا یہ شعر دیکھیے کہ ؂
وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے
پردے تعینات کے جو تھے اٹھا دیے
اس وحدت سے کس نوع کی وحدت خواجہ صاحب مراد لے رہے ہیں کہ جس وحدت کا جلوہ وہ عالم شہود میں ہر جانب دیکھ رہے ہیں جبکہ وحدت کا جلوہ اگر ہر طرف ہوگا تو وہ وحدت، وحدت ہی کیوں کر رہے گی وہ تو کثرت میں تبدیل ہو جائے گی ، پھر وحدت سے تعینات کے پردوں کا اٹھنا بھی خوب ہے کہ اس سے یہ مفہوم مترشح ہے کہ اس جلوے ہی نے میری وحدت کی اس تعریف کو مجروح کیا ہے جس وحدت کے تناظر میں میں تجھے عالم حضور میں تصور کرتا تھا۔ خواجہ میر درد کے ایسے بہت سے اشعار ہیں جو اسی طرح ایک دوسرے سے متصادم ہیں، لیکن اس میں درد کا کوئی قصور نظر نہیں آتا کہ تصوف ہے ہی ایسا موضوع کہ اس میں خیال کی گرہیں روز کھلتی ہیں اور روز ایک نیا تصوربندھتا ہے اسی لیے اس مشرب سے وابستہ اشخاص کو راہ سلوک کا مسافر کہا جاتا ہے ،کیوں کہ سالک روز ایک نئے درجے میں داخل ہوتا ہے اور مستقل سفر میں رہتا ہے اس لیے اس کے تعینات بھی اسی طور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ 
اب متغزلانہ اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
مدت سے وہ تپاک تو موقوف ہو گئے
اب گاہ گاہ بوسہ بہ پیغام رہ گیا
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
جفا سے غرض امتحان وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا؟
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور تھا
رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور 
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
رکھتا ہوں ایسے طالع بیدار میں کہ رات
ہمسایہ میرے نالوں کی دولت نہ سو سکا
محبت نے ہم کو ثمر جو دیا
سو یہ ہے کہ سب کام سے کھو دیا
یوں تو عاشق بہت ہیں لیکن
اس طور کے کتنے یار ہیں ہم
مجنوں، فرہاد، درد، وامق
ایسے یہ دو ہی چار ہیں ہم
مدت کے بعد خط سے یہ ظاہر ہوا کہ عشق
تیری طرف سے حسن کے دل میں غبار تھا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
بھڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
درد کے وہ اشعار جن میں بلا کا تغزل پایا جاتا ہے اس کو ان کے صوفیانہ اشعار بنا کر پیش کرنا کسی طرح درست نہیں۔ کیونکہ درد ایک صوفی کے ساتھ ایک شاعر بھی تھے ، شاعری درد کے وجود کا حصہ تھی جبکہ تصوف ا ن کے مزاج کا۔ اس لیے انھوں نے جو غزلیں خالص عشق مجازی کے رنگ میں کہی ہیں اس میں حقیقت کا رنگ تلاش کرنے سے ان اشعار کی تفہیم میں وہ لطف باقی نہیں رہتا۔ مثلاً ؂
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
بھڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
یہ خالص غزل کا شعر ہے ،پر اردو کے بعض ناقدین نے اس کی صوفیانہ شرح کی ہے جس سے اس شعر کا حسن مجروح ہو گیا ہے۔ درد کے صوفیانہ اشعار اور متغزلانہ اشعار میں یہ واضح فرق موجود ہے کہ ان کا عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ شعر میں پوری طرح نکھر کے سامنے آجاتے ہیں ، اس میں سے اگر ایک کا اطلاق دوسرے پر کیا جائے تو درد کے مقصود معنی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے مترادف ہوگا۔ویسے بھی اگردرد کے اردو دیوان کا مطالعہ بغور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں غزل کے اشعار کی تعداد صوفیانہ اشعار کے بالمقابل بہت زیادہ ہے، درد نے مختلف غزلیہ مضامین کو مختلف اندازسے اپنے کلام کے ذریعے پیش کیا ہے۔ ان کے غزلیہ اشعار حالاں کہ میر کے مقابلے میں کچھ ہلکے ہیں ، لیکن بعض اشعار میں الفاظ و تراکیب کے مناسب استعمال سے درد نے ایسا لطف پیدا کر دیا ہے کہ منہ سے بے ساختہ داد نکل جاتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؂
رکھتا ہوں ایسے طالع بیدار میں کہ رات
ہمسایہ میرے نالوں کی دولت نہ سو سکا
اس مفہوم کے اشعاراردو کے کلاسکل شعرا کے یہاں بھرے پڑے ہیں ، شعر شور انگیز میں شمس الرحمن فاروقی نے میر کے ایک اسی مفہوم کے شعر کا دیگر شعرا سے موازنہ کیا ہے جس میں انھوں ایک مختصر مکالمہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر اتفاق سے فاروقی صاحب نے درد کے اس شعر کو اس بحث میں شامل نہیں کیا ، اس موضوع پر راقم نے اپنے ایک مضمون ’شعر شور انگیز :جلد اول کے چند ابتدائی اشعار ایک مطالعہ‘ میں جو بحث کی تھی وہ ملاحظہ کیجیے تاکہ اس شعر کی معنویت کا ادراک ہو سکے ؂
شب ہجر میں کم تظلم کیا
کہ ہمسایگاں پر ترحم کیا
اس شعر کی سب سے اہم بات ہے کہ جہاں زیادہ تر شعرا نے اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے ’رات‘ اور ’رونے‘ کے الفاظ کا استعمال کیا ہے، وہیں میر نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ’شب‘اور ’تظلم‘ جیسے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ شب تو بہر حال ادائے مطا لب کے لیے عام ہے لیکن تظلم جیسے الفاظ کو غزل کے شعر میں اس خوبی سے استعمال کرنا میر کا ہی خاصہ ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس شعر میں میر نے تظلم یا آہ و زاری کا جواز پیش کیا ہے کہ ’شب ہجر ‘ہے اس لیے تظلم کی نوبت آن پہنچی اور اس پر بھی یہ طنطنہ کہ اس حالت میں بھی مجھے ہمسائگاں کا خیال ہے۔بقول فاروقی صاحب ’بے چارگی میں بھی اپنی وقعت دیکھنا میر کا ہی کرشمہ ہے۔‘ یہ میر کی بڑی خاصیت ہے جس جانب فاروقی صاحب نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔فاروقی صاحب نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے خاقانی کا ایک شعر رقم کیا ہے ؂
ہمسایہ شنید نالہ ام گفت
خاقانی را دگر شب آمد
(ترجمہ: پڑوسی نے میرا نالہ سنا تو بولا، خاقانی پر ایک اور رات آ گئی۔)
نیچے لکھتے ہیں ’اس شعر اور میر کے شعر پر مزید بحث ’شعر، غیر شعر، اور نثر‘ میں ملاحظہ کریں۔‘ جس سے گمان گزرتا ہے کہ فاروقی صاحب نے خاقانی کے شعر اور میر کے ’تظلم‘والے شعر پر اپنے مضمون میں بحث کی ہے۔جس کے بر عکس فاروقی صاحب نے میر کے مندرجہ ذیل شعر جس کا مفہوم کچھ حد تک اس شعر سے مشابہ ہے پر بحث کی ہے ؂
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
فاروقی صاحب نے اپنی بحث میں مصحفی اور میرحسن کے یہ اشعار بھی شامل کیے ہیں ؂
جو تو اے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووے گا
تو میری جان پھر کیوں کر کوئی ہمسایہ سوئے گا
پھر چھیڑا حسن اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم
افسوس کہ فاروقی صاحب نے خاقانی کے شعر کا موازنہ میرکے’تظلم‘ والے شعر سے نہ کرتے ہوئے اسی مفہوم کے ایک ہلکے شعر سے کیا،اسی طرح درد کے اسی مفہوم سے متعلق اس لا جواب شعر کو اپنی بحث میں شامل نہ کیا کہ ؂
رکھتا ہوں ایسے طالع بیدار میں کہ رات
ہمسایہ میرے نالوں کی دولت نہ سو سکا
رعایت لفظی کا کھیل دیکھیے کہ سونا اور بیدار کا تضاد سوائے درد کے کسی نے قائم نہیں کیا۔ دولت جو بمعنی بدولت استعمال ہوا ہے اس میں بھی شاعر نے یہ خیال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ میرے نالے ہی حقیقتاً میری دولت یا میرا کل اثاثہ ہیں۔اس سے یہ احتمال بھی ہوتا ہے کہ آہ و زاری کوئی نقصان کا سودا نہیں بلکہ منفعت بخش عمل ہے۔درد اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ میری طالع بیداری یا میری خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس نالوں کی دولت ہے۔لیکن ساتھ ہی انھیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ میری اس دولت کی بدولت میرا ہمسایہ سو نہیں پاتا تو یہ دولت کس کام کی کہ میں ایذا رسانی کا سبب بن رہا ہوں ،کتنی عمدگی سے متضاد کیفیت پیدا کی ہے کہ جو سرمایہ باعثِ افتخار ہے حقیقتاً وہی وجہ افسوس۔ طالع بیدا ر کے ایک معنی ’معشوق‘ بھی ہیں، جس سے شعر کی صورت مختلف ہو جاتی ہے۔پھر بھی درد کا شعر کسی طرح میر کے’ تظلم‘والے شعر سے کمتر نہیں معلوم ہوتا۔ جبکہ خاقانی ، حسن اور مصحفی کے ساتھ میر کے ’جو اس شور سے میر روتا رہے گا‘ کے اشعار سے بڑھا ہوا ہے۔
درد کا یہی کمال ہے کہ جب وہ کسی معنی کو شعر میں پروتے ہیں تو پہلی نظر میں اس کی ترسیل سے قاری کوسوں دور رہتا ہے ، درد کا شعر زیادہ تر تیسری قرات میں کھلتا ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ قاری شعر کے منظر نامہ الٹ کر دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسی لیے درد ایک مشکل شاعر ہیں جن کے کلام سے شعر کے تشکیلی عناصرکو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، درد کی غزل میں عاشق اور معشوق کا براہ راست رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی جرات ہمارے یہاں درد جیسے صوفی صفت شاعروں نے بہت کم کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنی صوفیانہ حیثیت کے مجروح ہونے کا اندیشہ ستاتا رہتا ہے۔ لیکن درد اس معاملے میں بہت بے باک اور Transparentنظر آتے ہیں ،مثلاً اگر انہیں محبوب کے منہ سے منہ بھڑانا ہے تو وہ ان اشکالات پر غور نہیں کرتے کہ اس کے اظہار سے ان کی صوفیانہ حیثیت پر کیا اثر پڑے گا،اس تصنع سے درد ان نام نہاد خانقاہیو ں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں، جس سے دردکی Originalityکا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ درد نے اپنے غزلیہ اشعار میں ایسے کئی ایک Boldنکتے بیان کیے ہیں جو ہمیں جرات کی شاعری میں مل جاتے ہیں۔ مثلاً ان اشعار پر ہی اگر غور کیا جائے کہ ؂
مدت سے وہ تپاک تو موقوف ہو گئے
اب گاہ گاہ بوسہ بہ پیغام رہ گیا
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
بھڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
یہ درد کے ایسے اشعار ہیں جن سے ان کے کلام کی Versatilityکا ثبوت ملتا ہے۔ ایسے واضح اور صاف Eroticاشعار کو اگر کوئی صوفیانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کرے تو اس سے درد کی وقعت میں کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ درد ایک بالغ نظر شاعر تھے جن کے تعلق سے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے حافظ ، سعدی ، خسرو اوربیدل وغیرہ کو نہ پڑھا ہو۔ ان کے کلام میں جس نوع کی بے باکی پائی جاتی ہے انہیں علم تھا کہ اس سے کہیں زیادہ ان کے پیش رو صوفیا کے یہاں اس بے باکی کی علامتیں ملتی ہیں۔ حافظ صوفیانہ روایت کے ایک ایسے محترم شاعر ہیں جن کو اہل تصوف ایک زمانے سے سر آنکھو ں پر بٹھائے پھر رہے ہیں، ایسے صوفی صفت شاعر کے کلام کا جن احباب نے مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ حافظ نے اپنے کلام میں جنسی مضامین کو کس حسن و خوبی سے باندھا ہے۔ لہذا درد کو ایک جاہل صوفی کی مانند سمجھ کر ان کی شاعری کے نمایاں پہلووں کی تاویل کرنا کسی طرح درست نہیں۔ 
درد کے متغزلانہ اور صوفیانہ اشعار کے بالمقابل بھی ان کی شاعری میں بہت ایسے اشعار موجود ہیں جن سے درد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے،مثلاً ان کے مشہور اشعار میں ؂
واے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
اکسیر پر مہوش اتنا نہ ناز کرنا
بہتر ہے کیمیا سے اپنا گداز کرنا
ایسے نہ جانے کتنے اشعار ہیں جن میں درد نے الگ الگ طرح کے مضامین کو چابک دستی سے باندھا ہے ، درد کی شاعری میں جتنی غنائیت ہے اس سے ان کی موسیقی دانی کا بھی ثبوت ملتا ہے ، درد ایک ماہر موسیقار تھے اس بات کے شواہد اردو کے قدیم تذکروں اورتاریخ کی کتابوں سے ملتے ہیں ، لیکن اس کے علاوہ ان کے دیوان میں بھی بعض ایسے اشعار ہیں جس سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ مثلاً ان کا ایک شعر ہے ؂
بلند و پست سب ہم وار ہیں یا ں اپنی نظروں میں
برابر ساز میں ہوتا ہے جوں سر زیر اور بم کا
ساز کی اس سمجھ کو درد نے یوں ہی نہیں بیان کر دیا ہے ، بلکہ واقعتاً انہیں اس کا علم تھا کہ زیر اور بم کے سرو ں میں کیا فرق ہے۔ درد نے اپنے اشعا میں اسی طرح کے مختلف مضامین کے ذریعے اپنی مختلف النوع استطاعت کا اظہار کیا ہے۔ انھیں جس طرح اپنے موسیقار ہونے کا احساس تھا اسی طرح اپنے شاعر ہونے کا بھی بھر پور ادارک تھا۔اس کی دلیل سودا کے اس واقعے سے ملتی ہے کہ جب سودا نے درد پر ہجو لکھی تو درد نے اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے اس کا جواب تو نہ دیا پر اتنا ضرور کہہ دیا کہ ؂
سودا اگرچہ درد تو خاموش ہے ولے
جوں غنچہ سو زبان ہیں اس کے دہن کے بیچ
درد نے اپنی صلاحیت کے اعتراف میں کئی شعر کہے ہیں جس کی ایک اعلی مثال یہ شعر بھی ہے کہ ؂
درد تو کرتا ہے معنی کے تئیں صورت پذیر
دست رس رکھتے تھے کب بہزاد و مانی اس قدر
درد کے کلام سے اس بات کاواقعتاً احساس ہوتا ہے کہ ان کو معنی آفرینی کا ہنر آتا تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے بہت سے اشعار میں اپنی اس صلاحیت کا اعتراف کیا ہے۔ درد کے یہاں کچھ مضامین ایسے بھی ہیں جن مضامین کو درد نے لوٹ لوٹ کر الگ الگ انداز میں بیان کیا ہے۔مثلاً یہ دو شعر دیکھیے؂
دنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا
پر منہ پھر اس طرف نہ کیا اس نے جو گیا
شیوہ نہیں اپنا تو عبث ہرزہ یہ بکنا
کچھ بات کہیں گے جو کوئی کان ملے گا
اس طرح کے مضامین ان کے کلام میں کئی جگہو ں پر نظر آتے ہیں۔ درد ایک اچھے غزل گو تو تھے ہی ساتھ ہی رباعیات کہنے کے فن سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اردو میں ان کی بہت کم رباعیات ملتی ہیں لیکن فارسی میں انھوں بہت زیادہ رباعیاں کہی ہیں۔ ان کی اردو رباعیات میں بہت کم رباعیاں ایسی ہیں جو متاثر کن قرار دی جا سکتی ہیں۔ زیادہ تر رباعیات میں عام سے مفاہیم و مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ جس میں کچھ زیادہ گیرائیت نہیں ،پر ان کی کچھ رباعیاں بڑی عجیب و غریب ہیں، جن میں ایک عجب سا لطف ہے۔مثلاً یہ رباعی دیکھیے ؂
پیدا کرے ہر چند تقدیس بندا
مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل کندا
جنت میں بھی اکل و شرب سے نہیں ہے نجات
دوزخ کا بہشت میں بھی ہوگا دھندا
ایک صوفی کے کلام میں اس طرح کے پر لطف اشعار اس وقت تک نہیں پائے جا سکتے جب تک اس کی شخصیت میں تنوع نہ پایا جائے۔ در اصل درد کی ذات میں ہمارے زیادہ تر اناقدین نے صرف ایک آدمی کو ہی تلاش کیا، جبکہ یہ ایک کلیہ ہے کہ اک آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔ درد میں دس بیس نہ بھی ہوں تو بھی ان کی شخصیت کے کچھ نمایاں پہلو ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان پہلووں کو نظر میں رکھ کر درد کے اشعار کو سمجھنے کی سعی کرنا چاہئے ، تاکہ ان کی ہر بات کو تصوف کے رنگ میں رنگنے کی غلطی نہ سر زد ہو۔ درد اردو کے ایک عظیم شاعر ہیں جن کی ذات میں ہمیں ایک طرف بہاو الدین نقشبندی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف امر القیس، ایک جانب مولانا روم نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حافظ شیرازی، وہ اگر نظام الدین اولیا کی طرح صاحب کشف ہیں تو امیر خسرو کی طرح صاحب کمال بھی ہیں اور اگر ناصر عندلیب کی طرح متقی ہیں تو میر کی طرح قادر الکلام شاعر بھی۔ ان کے جہان معنی کا ستارہ بہت روشن ہے ، جس کی روشنی سے اردو زبان اور ادب کوجلا نصیب ہوتی ہے۔ ا ن جیسے شاعر کی تفہیم کے لیے ہمیں انھیں مسلسل پڑھتے رہنے کی ضرورت ہے کہ درد کے مفاہیم کی ترسیل میں کامیابی نصیب ہو سکے۔
v
Sayyed Taleef Haider
R. No. 326, Satluj Hostel, 
JNU, New Delhi-110067
Mobile : 9540321387

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

23/10/18

مضمون:۔ مہاتما گاندھی کا تصور امن و آشتی۔ مضمون نگار ڈاکٹر نیلوفر حفیظ







مہاتما گاندھی کا تصور امن و آشتی
ڈاکٹر نیلوفرحفیظ




موہن داس کرم چند گاندھی ہمارے ملک وقوم کی ان عظیم، قدآور اورلافانی شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی جگہ آج تک ہندوستانی سیاست وقیادت کے میدان میں کسی اورکو نصیب نہیں ہو سکی ہے اس بیدار ذہن،عدل پرست اور دوراندیش سیاست دان کو جو زمانہ میسر ہواوہ ہندوستان کے لوگوں کی زندگی کے ہر شعبے میں انتشار،پراگندگی اور بدحالی کا دور تصور کیاجاتاہے عوام و خواص دونوں ہی پریشان اورزبون حال تھے اپنے ہی وطن عزیز کی سیاست ومعیشت کی باگ ڈور غیرا قوام کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی،مذہب،اخلاق،شرافت اور انسانیت جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدارکی کوئی اہمیت وحیثیت باقی نہیں رہ گئی تھی،امن وآشتی،اخوت وانسانیت اور محبت وشرافت جیسی بہترین انسانی صفات محض خواب وخیال کی باتیں بن کر رہ گئیں تھیں انگریزی حکومت کی حیلہ پروریوں، فریب کاریوں،سفاکانہ سازشوں اور جابرانہ فیصلوں نے ہندوستانیوں کی صفات دانشمندانہ اورجرات مردانہ کو گویا سلب کرلیا تھا ایسے نازک اور پر آشوب دور میں مہاتما گاندھی نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کی بیداری کے لیے جو سیاسی حکمت عملیاں اختیار کیں اور کارہائے گرانقدر انجام دیے اس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں کہیں اور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے یوں تو کشور ہند کے عظیم جیالوں نے اس ملک کو آزاد وخود مختار بنانے میں کسی قسم کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیااوراپنے وطن عزیزکی آزادی کے لیے نہ صرف اپنا تمام تر سرمایہ داؤ پر لگا دیا بلکہ اس ملک پر اپنی جانوں کو قربان کردینے میں بھی کبھی کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
گاندھی جی کا نظریہ سیاست وعمل ہمیشہ اپنی آزادی خواہ معاصرین کے طریقہ اظہاروعمل سے قدرے مختلف اور جداگانہ رہا اور ان کے یہ انفرادی نظریات وافکارہی تھے جن کی وجہ سے اس عبقری شخصیت کے سامنے بڑے بڑے سیاست دان اور دانشوران سر تسلیم خم کرتے رہے ہیں ذیل میں ان کے ایک معاصر قومی کارکن مسٹر اندولال یاجنک کی مشہور کتاب ’گاندھی ایز آئی نو ہم‘کے اردو ترجمہ کا ایک اقتباس نقل کیا جا رہا ہے جس کی روشنی میں مہاتماگاندھی کے ایک بہترین سیاسی رہنما ہونے ہی کی نہیں بلکہ شخصی اعتبار سے بھی ایک عظیم انسان ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے اوریہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے عہد میں گاندھی جی کی سیاسی اور عملی زندگی کے متعلق لوگوں کی کیارائے تھی :
’’وہ گاندھی جو بیک وقت درویش بھی تھا اور سیاست دان بھی دیکھنے میں سیدھا سادا اورخاکسارانہ اطوار کا حامل لیکن ایک ایسے عظیم الشان پیغام کا علمبردار جس کے بارے میں ہم سب کا خیال تھاکہ وہ ملک کی سیاسی زندگی میں ایک بہت بڑے انقلاب کا باعث ہوگا۔‘‘1 
مہاتماگاندھی ہندوستان کوانگریزی حکومت کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے انقلاب کے زبردست خواہشمند اور حامی تھے لیکن اس انقلاب کے نہیں جس میں غصہ،نفرت، خونریزی، بغاوت، لوٹ مار کو فروغ دیا جاتاہے اور ایک دوسرے کوجانی دشمن،سفاک قاتل اورظالم تصور کیاجاتاہے بلکہ یہ دردمند سیاسی رہنما اور مصلح قوم اس انقلاب عظیم کا منتظرو متمنی تھا جس کی بنیاد سچائی وایمانداری،صلح وآشتی اور انسانیت واخوت پر رکھی گئی ہو۔ گاندھی جی نے ہی اس ملک کی آزادی کے حصول کے لیے صلح وامن اورستیہ گرہ واہنسا کا راستہ اختیار کیا اور بغیر کسی خون خرابے یاقتل وغارت گری کے آزادی حاصل کرنے کی نہ صرف پرزوروپرجوش وکالت کی بلکہ اس ملک کے لوگوں کے دلوں میں اس بات کی تشویق بھی پیدا کی کہ وہ امن وآشتی اور صداقت ودیانت کے راستے پر چل کر اپنے تمام حقوق کو حاصل کریں کیونکہ لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کا خاتمہ صرف اور صرف ستیہ گرہ اور اہنسا کے ناقابل شکست ہتھیاروں کی مدد سے ہی ممکن ہے اور یہی وہ ہتھیارہے جو ہندوستانیوں کو ان کی محکومیت اور تذلیل سے آزاد کرا سکتے ہے۔
یہ درست ہے کہ گاندھی جی انقلاب کو ہندوستانی عوام کا حق سمجھتے ہیں ان کے نزدیک حرکت وعمل، انقلاب کا دوسرا نام ہے لیکن یہ حرکت وعمل کسی کی دل آزاری، بربادی اور خونریزی کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی دل سازی، غمگساری اورملک کی ترقی کے لیے ہونا چاہیے، مہاتماگاندھی کواس بات کابھی پوری طرح احساس تھا کہ جب تک ہندوستان میں رہنے والے لوگ فرقوں اور ذاتوں میں خود کو تقسیم کرتے رہیں گے قومیت،مذہبیت اور وطنیت کی اہمیت کو اس کے حقیقی معنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک اس ملک وقوم کی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے قول وعمل کے ذریعے وہ ملک میں اتحاد پیداکرنے اورآپس میں مل جل کر زندگی گزارنے کی جابہ جا تلقین وتشویق دلاتے نظر آتے ہیں وہ کسی مخصوص فرقے،جماعت یامذہب کی سیاست وقیادت میں یقین نہیں رکھتے بلکہ مایوسی وقنوطیت کے دشمن،امن وسلامتی کے حمایتی اورملک وقوم کے سچے رہنمااور مخلص دوست نظرآتے ہیں اس سلسلے میں گاندھی جی کے متعلق جواہر لال نہرو کی ایک رائے نقل کی جا رہی ہے۔ نہرو جی گاندھی جی کی عظمت واہمیت کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہوئے ا ن کو کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
’’اس نے تمام ملک کو زیروزبر کر کے رکھ دیاجو کسی بڑے سے بڑے انقلابی سے نہ ہو سکا... اس نے اپنے مخصوص اندازمیں بے اندازہ قوتوں کاخزانہ کھول دیاجو سطح سمندرکی ہلکی ہلکی، موجوں کی طرح پھیلتی چلی گئیں اور اپنے ساتھ کروڑوں آدمیوں کو بہا کر لے گئیں وہ رجعت پسند ہو یا انقلابی ہو لیکن یہ اسی کی ذات ہے جس نے ہندوستان کا نقشہ بدل دیاایک پست اوربودی قوم کو عزم ووقار بخشابیداری اور قوت پیداکی اور ہندوستان کے مسئلے کو دنیا کا مسئلہ بنا دیا ‘‘ 2 
ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں گاندھی جی پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے آزادی کے حصول کی جدوجہد کے لیے ’ستیہ گرہ‘اور’اہنسا‘ جیسے نظریات کا کافی بڑے پیمانے پر استعمال کیا ان کا ماننا تھاکہ سچ اور اہنسا کو چھوڑ کر اگر ہم کو سوراج جیسی نعمت ملے تو وہ نعمت نہیں بلکہ ایک زحمت ہے اور اس کا حاصل ہو جاناکوئی تعریف کی بات نہیں ہے اور اس طرح سوراج حاصل کرنے کے بجائے اس سے کنارہ کشی ہی زیادہ بہتر ہے’ ستیہ گرہ‘کا مطلب ہے دل سے،زبان سے اور عمل سے ہر حال میں سچائی کی پابندی کرنا اور اس کاحصول اسی وقت ممکن ہے جب انسان نہ صرف یہ کہ خود سچائی کا پابند ہو بلکہ دوسروں کو بھی سچائی کے راستے پر چلنے کی تشویق وترغیب دلائے اور اہنساکی اصل حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر کوئی ایسا کام انجام دینے کی کوشش نہ کی جائے جس کی وجہ سے دوسروں کو کسی قسم کی تکلیف یا رنج پہونچے یا کسی کی زندگی میں کوئی غیرضروری رکاوٹ پیدا ہواور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں یعنی سچائی کی پابندی بغیر’ اہنسا ‘کے راستے کو اختیار کر پانا ممکن ہی نہیں ہے اوریہ ستیہ واہنساہی وہ نسخہ کیمیا ہیں جن کی مدد سے ناممکن کاموں کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے ان اصولوں کو ہر انسان اپنی زندگی کے عملی اصول بنا لے توپورے دعوے کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کے مختلف انسانوں،جماعتوں اور قوموں کے مابین ہونے والے اختلافات واعتراضات، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فرو کیا جا سکتا ہے گاندھی جی کے ان امن پسندانہ نظریات وافکارنے نہ جانے کتنے لوگوں کوزندگی جینے کا قرینہ وسلیقہ بخشااور بڑے بڑے سرکشوں،ظالموں،تند خو اور تنفر پھیلانے والے لوگوں کی فکرمیں انقلاب عظیم برپاکر کے رکھ دیا:
’’مہاتماگاندھی نے سچ اور اہنسا دونوں کو اپنی زندگی کااصول بنایاتھاجوصرف منہ سے ہی نہیں بلکہ اپنی ساری زندگی کے ہر ایک کام سے انھوں نے اس کا سبق ہندوستانیوں اور ہر ایک انسان کو سکھایا‘‘3
گاندھی جی کے نزدیک سچائی وایمانداری،صلح وآشتی اورانسانیت وشرافت کی اہمیت وافادیت سب سے بڑھ کرتھی انھوں نے ہندوستانیوں کو صرف انگریزی حکومت سے ہی آزادی دلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ شخصی، معاشرقی اور قومی زندگی کی آزادی کی اہمیت سے بھی لوگوں کو روشناس کیاان کا ماننا تھا کہ شخصی، سماجی اورقومی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو وہ سماج اور قوم کے حق میں بھی غلط ہی ہے جو چیز کسی انسان کے لیے انفرادی طور پر نقصان دہ ہے تو وہ چیز معاشرے اور قوم کے لیے بھی ہرگز فائدے مند نہیں ہو سکتی اس لیے ہر انسان کو پہلے انفرادی طور پر صادق، دیانتداراور صلح جوہونا چاہیے اس کے بعد سماج وملک کی فلاح وبہبود کی جانب توجہ کرنا چاہیے اگر انسان کا عمل خلوص،محبت اور ایمانداری جیسے جذبات سے عاری ہے تو پھر ایک بہترین معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے ان کے نزدیک انسانی محبت وشرافت اور سچائی وعدل کی کتنی اہمیت تھی اس کااندازہ ان کی سوانح عمری ’حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی‘کی اس عبارت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’جب میں مایوس ہوتاتومیں یاد کرتاکہ پوری تاریخ میں سچ اورمحبت کے راستہ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے دنیا میں بڑے بڑے قاتل اورظالم ہوئے ہیں جوایک وقت میں ناقابل شکست لگے لیکن آخر میں وہ ہار گئے‘‘4
ہندوستان کی ناسازگار فضا کو سازگار بنانے کے لیے جو دانشمندانہ،مفکرانہ اورامن پسندانہ حکمت عملیاں مہاتما گاندھی جیسے عظیم مفکر قوم وملت کے سچے رہنماکی طرف سے پیش کی گئیں اس کی مثال ہندوستان تو کیا دیگر اقوام کی تاریخی کتابوں میں بھی شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے گاندھی جی ہراس کام کو کرنے سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں جس کے ذریعے کسی دوسرے کو معمولی سی بھی روحانی یا جسمانی تکلیف پہونچنے کا امکان ہواور حق تو یہ ہے کہ اہنساکا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ انسان کی طرف سے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کی وجہ سے دوسرے رنج وغم میں گرفتار ہوں گاندھی جی نے اس زمانے سے جبکہ وہ سیاست کے میدان میں عملی طور پر داخل بھی نہیں ہوئے تھے،تبھی سے اس پر یقین رکھتے تھے کہ لڑائی جھگڑے اورخون خرابے سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوا ہے اورنہ ہی مستقبل میں کبھی ہوسکتاہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ انسانیت کو تباہ کرنے والی تباہ کاریوں سے خود کو دور رکھا جائے اور سچ وشانتی کے راستے پر چلنے کی نہ صرف کوشش کی جائے بلکہ کسی بھی حال میں اس راستے کو نہ چھوڑا جائے،اور دوسروں کو بھی اس کی افادیت واہمیت کے بارے میں بتایا جائے اور ان کو عمل کرنے کی جانب مائل ومتوجہ کیا جائے گاندھی جی اپنے عدم تشددکے اس فلسفے پر کس حد تک یقین رکھتے تھے اس کا اندازہ ان کی اس گفتگو سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے شمال مغربی سرحد کے جنگجو پٹھانوں کے متعلق کی تھی یہ پٹھان اکثروبیشترہندوستانیوں پر حملہ آورہوتے اور بے دریغ ان کا خون بہاتے تھے ان پٹھانوں کی سرکوبی کرنے یا ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے متعلق جب گاندھی جی سے ان کی رائے دریافت کی گئی تو انھوں نے ان ظالم لوگوں سے مقابلہ کرنے کی جو انوکھی تدبیر پیش کی اس کو سن کر سب لوگ متعجب ہو گئے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا اس طرح بھی دشمنوں سے جنگ جیتنا ممکن ہے ان کی کہی ہوئی یہ باتیں آج کی دنیا کے حکمرانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس انسان کے لیے توجہ وفکر کی متقاضی ہے جو امن وآشتی،ایثار وشرافت اورانسانیت ومحبت کو گزرے ہوئے وقت کی باتیں کہہ کربے فکری بلکہ بے حسی کے ساتھ اپنے شانے جھٹک دیتا ہے وہ ان پٹھانوں کے خلاف بغیر کسی نازیبا کلمات کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’ہمیں عدم تشدد پر عمل ایک ایسی فوج تیار کرنی ہوگی جو رضاکارانہ طور پرپٹھان قبائل کے غیظ وغضب کا نشانہ بننے کے لیے آمادہ رہے اور ہندوستان کی سرزمین میں قدم رکھنے کے لیے ان پٹھانوں کو ان کی لاشوں پر سے ہو کر آنا پڑے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ بہادر لوگ اہنسا پر عامل اور مدافعت نہ کرنے والے ستیہ گروہیوں کو جان سے مارنا اور ان کی لاشوں کو پائمال کرنا پسند نہ کریں گے اور ان کے دل سچائی اور پریم کی زبردست طاقت کے سامنے جھک جائیں گے چنانچہ میری رائے کے مطابق جدید اسلحہ اورمشین گنوں سے مسلح فوج کی بہ نسبت یہی ستیہ گرہ زیادہ بہترطریقہ پر ہندوستان کا بچاؤ کر سکیں گے ‘‘ 5
گاندھی جی حکیمانہ نقطہ نظر سے ملک کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اورمذہبی حالات کامشاہدہ ومحاسبہ کرنے کے عادی تھے اوراس دور اندیش ہمارے سیاسی وقومی رہنما کی دوربین اور دقیق بین نظروں نے بہت جلد یہ محسوس کرلیاتھاکہ کشورہندکوزورزبردستی اورشدت وسختی سے انگریزی حکومت کے ظالم اور بے رحمانہ پنجوں سے نہیں چھڑایاجا سکتاآزادی چاہیے تو تمام ہندوستانیوں کو مل جل کراس کے لیے کام کرنا پڑے گا،گاندھی جی نے انگریزی حکومت کو کمزوربنانے کے لیے ملک کے لوگوں سے غیرملکی سامان کے بائیکاٹ کی خاص طورپربرطانوی اشیا کے استعمال نہ کرنے کی پرزور اپیل کی وہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر تھے کہ کوئی بھی طاقت ور قوم،کسی بھی دوسری قوم پر صرف اسی وقت تک حکومت کر سکتی ہے جب تک کہ محکوم قوم،حاکم قوم کے ساتھ تعاون وہم آہنگی کا جذبہ رکھتی ہے لیکن اگر محکوم قوم حکمرانوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف متحد ومنظم ہو کر صدائے احتجاج بلند کردے اور اس تعاون کو ترک کر دے اور پھر اس پر کتنی بھی سختی اورشدت کیوں نہ کی جائے وہ چپ چاپ ان سب کو برداشت کرتی رہے تو بڑی سے بڑی مضبوط حکومت کو بھی زمین دوز ہونے میں بہت وقت نہیں لگے گا اور واقعی بہت جلد گاندھی کا یہ دعوی سچ بھی ہو گیا عدم تعاون کی اس تحریک نے ہندوستانیوں کے اذہان و دلوں میں برسوں سے قبضہ کیے ہوئے مغلوبیت،قنوطیت اورمحکومیت کے جذبات کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ ساری دنیا کے لوگوں کے سامنے روز روشن کی طرح واضح اورصاف ہے کہ کس طرح اس مہاتما کے امن پسندانہ تصورات نے سرکش اور ظالم انگریزی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہونا پڑااور اس ملک کو چھوڑ کر جاناہی مناسب لگا۔
گاندھی جی نے اپنی تعلیمات وتحریکات کو کسی مخصوص مذہب، ذات یا قوم کے لیے محدود نہیں رکھا انھوں نے ہندوستان میں بسنے والے بہت سے مذہبوں کی تعلیمات کا وسیع النظری اور کشادہ قلبی کے ساتھ مطالعہ کیااور اس نتیجے کو اخذ کیا مذہب کوئی بھی ہو بنیادی تعلیمات تقریباً سب کی ایک ہی جیسی ہیں صرف خالق کائنات کی حمد وثنا کا طریقہ ایک دوسرے سے جدا ہے ان کے نزدیک ہندوستان میں رہنے والا ہر ہندوستانی اپنا دوست اور بھائی تھاان کو اس حقیقت کا بخوبی احساس تھاکہ یہ ملک صرف اسی وقت خودمختار اور آزاد ہو سکتا ہے جب یہاں بسنے والے ہر شخص کوایک ہی گھر اور خاندان کا فرد مان لیا جائے انھوں نے ہندو اور مسلم تہذیب میں یگانگت،ہم آہنگی اور یک رنگی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی انھوں نے دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام مذہب کابھی گہرا ئی وگیرائی سے مطالعہ کیااور آپسی تفریق وتنفر کے جذبات کو مٹانے کے لیے کئی اہم کام کیے انھوں نے کہا کہ دونوں ہی مذاہب کی حقیقی روح بڑی حد تک ایک دوسرے سے مشابہت وہم آہنگی رکھتی ہے اپنے ان خیالات کا اظہارانھوں نے 24جون 1934 میں پونہ میں یوم عیدمیلادالنبی کے موقع پر ایک جلسے میں شرکت کے دوران اپنی ایک تقریرمیں کیا تھاوہ کہتے ہیں:
’’آپ سب لوگ قران کریم کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن تھوڑے ہیں جواس پر عمل کرتے ہیں اگرآپ قران کریم کی تعلیمات پر عمل کریں اور ہندواپنی مذہبی کتابوں کی تعلیم کے عامل ہوں تو فرقہ وارانہ جھگڑے مٹ جائیں‘‘ 6
مہاتما گاندھی مذہبی اعتبار سے بہت وسیع القلب اور صحیح الفکرانسان تھے۔ وہ ہندوستانیوں کے لیے محبت وآشتی اوراخوت وانسانیت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے انھوں نے جو کچھ بھی کہا پہلے اس پر خود عمل کر کے دکھایااس کے بعد لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی تحریک دلائی ان کی شخصیت میں کچھ ایسی سحرانگیزی اورزبان میں ایسی جادو بیانی تھی کہ وہ اپنے حریفوں اور مخالفین کی تلخی ونفرت کو پلک جھپکتے ہی غائب کر دیتے تھے کسی بھی انسان میں چاہے اختلاف،نفرت یا غصہ کتنا بھی شدید کیوں نہ ہو زیادہ وقت تک کے لیے ان سے ناراض نہیں رہ سکتا تھااور یہی انسانیت اور محبت کا سبق وہ تمام ہندوستانیوں کے دلوں میں بھر دینا چاہتے تھے جس میں وہ بہت بڑی حد تک کامیاب بھی تھے چنانچہ آزادی کی لڑائی میں ان کی آواز پر لب بیک کہنے والوں میں بلا تفریق رنگ ونسل ومذہب کے سب لوگ شامل ہوتے تھے۔
گاندھی جی نے مارچ 1930 میں نمک پر ٹیکس لگائے جانے کی شدیدمخالفت کی اورایک تحریک چلائی جس کونمک تحریک کے نام سے یاد کیاجاتاہے اس میں تقریباً 400 کلو میٹراحمدآباد سے گجرات تک کاسفرپیدل طے کیاگیااورہندوستانیوں کواس بات کی تشویق و ترغیب دلائی گئی کہ وہ خودنمک کی پیداوارکریں اس تحریک میں ہزاروں ہندوستانیوں کی طرف سے بڑھ چڑھ کرحصہ لیاگیاانگریزی حکومت کو کمزور بنانے والی تحریکوں میں یہ سب سے زیادہ کامیاب اورطاقتورتحریک تصورکی جاتی ہے۔ گاندھی جی نے ہندوستانیوں کے دل میں جوش وہمت کے ساتھ ساتھ نازک اور پیچیدہ حالات سے مقابلہ کرنے اوراپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں حالانکہ اس تحریک کی شروعات میں لوگوں کی توجہ بہت زیادہ اس طرف مبذول نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ نمک سازی کے قانون کی خلاف ورزی کر کے ملک کی آزادی کے مقصد کو حاصل کر پانا بہت مشکل ہے لیکن گزرتے وقت وحالات نے ان کے معترضین کوبہت جلد یہ احساس کرادیاکہ گاندھی جی کا یہ قدم ایک دم درست اور صحیح تھا جس کو وہ سمجھ نہیں سکے:
’’دوسرے قومی رہنما یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے کہ کہاں قومی جنگ اورکہاں نمک لیکن یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نمک کا لفظ یکا یک جادو کا ایک منتر بن گیا... لوگ اس قومی فوج کے کوچ کے حالات کو روزبروز دیکھ رہے تھے جو گاندھی جی کی رہنمائی میں نمک بنانے کے لیے دھاوا کر رہی تھی ‘‘7
گاندھی جی نے صرف نمک تحریک ہی نہیں بلکہ اپنی ہر تحریک کے ذریعے ملک کے لوگوں کویہی پیغام دیاکہ وہ پرامن طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پوری ہوش مندی اور عقلمندی کے ساتھ ان ابتر حالات پرقابوپانے کی کوشش کریں کیونکہ صرف سمجھداری،محبت اور صلح جوئی کے راستے پر چل کر ہی مشکل جنگوں کو جیتاجاسکتاہے۔
اب میں بیدل عظیم آبادی کے اس فارسی شعر سے اپنے اس عظیم،معتبر اورمفکرقوم کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں ؂
خورشید خرامید فروغی بہ نظر ماند
دریا بہ کنار دگر افتاد گہر ماند
(ترجمہ: آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن اس کی تابانی یادرخشندگی ابھی تک نظروں کو خیرہ کر رہی ہے حالانکہ اب دریا دوسرے کنارے پر پہونچ چکا ہے لیکن ساحل پر گہر چھوڑ گیا ہے)
ماخذ ومنابع
1۔ پیر سابرمتی، مسٹر اندولال۔ کے۔ یاجنک، ترجمعہ محمد ظفر انصاری، دانش محل فیض گنج، دہلی، 1943، صفحہ نمبر4
2۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر365
3۔ باپوکے قدموں میں، راجندرپرشادترجمہ محمد عبدالغفار،انجمن ترقی اردو ہند، 1953،صفحہ نمبر715
4۔ تلاش حق،مہاتما گاندھی مترجم ڈاکٹرعابد حسین،مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ قرولباغ دہلی،صفحہ نمبر40
5۔ پیر سابرمتی، مسٹر اندولال۔کے۔یاجنک، ترجمعہ محمد ظفر انصاری، دانش محل فیض گنج،دہلی،1943، صفحہ نمبر۱۱۔
6۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر419-20
7۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر169
n
Dr. Neelofar Hafeez
Asst Prof. Dept of Arabi wa Farsi
Allahabad University
Senate House, University Road, Old Katra
Allahabad - 211002 (UP)






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے