25/9/18

ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ (تلنگانہ بورڈ کے حوالے سے) مضمون نگار رضوانہ بیگم






ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ
(تلنگانہ بورڈ کے حوالے سے)

رضوانہ بیگم


موجودہ دور کی مادہ پرستی، الکٹرانک سازوسامان اور لامحدود خواہشات نے سماج کے ہر فرد کو ایسی بھاگ دوڑ میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس کے پاس سوچنے اور غور کرنے کا وقت ہی نہیں بچا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ ترقی کی سمت اور منتہا کیا ہے؟ تگ و دو کی یہ منزل کہاں ہے؟ نسل نو کا مستقبل کیا ہے؟ مشترکہ خاندان کا تصور بھی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ ہر فرد آزاد ہے اور اپنے عمل کے نتائج کا ذمے دار خود ہے۔ ایسے حالات میں نو عمر بچوں کی تربیت اور شخصیت سازی ایک چیلنج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس چیلنج کو قبول کرنے کی ذمے داری خاندان کے ساتھ ساتھ اسکول کی بھی ہے۔ عہد قدیم میں تو خاندان کے شانہ بہ شانہ اسکول اس ذمے داری کو نبھاتا تھا۔ اسکول کا پورا تعلیمی نظام اخلاقی اقدار کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کیا جاتا تھا۔ تعاون، ہم آہنگی اور امن پسندی جیسے اوصاف کو علاحدہ طور پر نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اب باقاعدہ طور پر مہارت حیات کے نام سے اسکول کے نصاب میں کچھ ایسی مہارتیں شامل کی گئیں ہیں جو طلبا میں مثبت رویوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوں اور روزمرہ کی زندگی میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ ان مہارتوں میں جذبات پر قابو، باہمی رشتوں کی فہم، آپسی ہم آہنگی، تعاون کو Co-scholastic abilites کی تربیت کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی علوم کے نصاب میں بھی مہارت حیات سے متعلق مختلف صلاحیتوں کو کسی نہ کسی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسکو ل کے درس و تدریس کے عمل میں زبان کی اہمیت مرکزی ہے اسی لیے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اسکو ل کی ساری تعلیم زبان کی تعلیم ہے۔ یوں تو زبان کا اپنا کوئی موضوع نہیں ہے لیکن عرش تا فرش جو موضوعات ہیں وہ زبان کے موضوعات ہیں۔ زبان خیالات کا پیکر ہے، فکر کی تجسیم کرتی ہے، معلومات کا آلہ کار ہے۔ اس لیے طلبا کی ذہن سازی، جذباتی تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں زبان کی تعلیم کا رول اہم ہے لہٰذا اسکول کی کسی بھی سطح کا نظام زبان کی درسی کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
میرے موضوع کا تعلق اردو زبان سے ہے۔ اردو زبان اپنے آغاز سے تا حال ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ کسی خاص علاقے یا ملک تک محدود نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک تہذیبی ورثہ ہے۔ اس کی شیرینی اس کی شناخت ہے۔
ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی تعلیم کی الگ الگ سطحوں کے لیے درسی کتب تیار کی جاتی ہیں۔ یہ درسی کتب ہر سطح کے تدریسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اسکول کے تعلیمی نظام کے یہ تین مدارج یعنی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی در اصل بچوں کی تعلیم اور شخصیت سازی کا ایک تسلسل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن بچوں کی شخصیت کی نشو ونما کے مختلف مدارج کے مطابق ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان کی دلچسپیاں، رویے، رجحانات، سب بدلتے رہتے ہیں جس سے آموزش کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے تعلیم کی ہر سطح کے اپنے علیحدہ اغراض و مقاصد ہیں اور ان اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے درسی کتب کے متون کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 
اسکول کی زندگی میں ثانوی سطح (نہم اور دہم) کی تعلیم طلبا کی زندگی کا بہت نازک اور اہم دور ہے۔ اس دور کے بیشتر بچوں میں ایسی جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں جسے وہ سمجھ نہیں پاتے اور ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے میں دشواریاں محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ ان کے برتاؤ میں بھی واضح طور پر تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لہٰذا ثانوی سطح کی درسی کتب کے لیے موضوعات کا تعین اورمتون کا انتخاب ان حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کیا جاتا ہے۔
اس ضروری پس منظر کے بعد میں تلنگانہ بورڈ کے ثانوی درجات کی درسی کتب کے حوالے سے بات کروں گی۔تلنگانہ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں پر بیشتر سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے بھی رائج ہے۔ یہاں میرا موضوع محدود ہے۔ تلنگانہ بورڈ کے ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ۔ ان درسی کتب کے نام ہیں : نوائے اردو -اول اورنوائے اردو -دوئم جو بتدریج جماعت نہم اور دہم کے لیے تجویز شدہ ہیں۔ اس کی اشاعت حکومت تلنگانہ حیدرآباد نے کی ہے۔ یہ کتابیں سال رواں یعنی 2018-19 کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ نہم اور دہم دونوں کتابوں میں شامل مضامین اور نظموں کی تعداد 28ہے۔
اپنے مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے میں نے دونوں کتابوں سے صرف حصہ نظم کو ہی تجزیہ کے لیے منتخب کیا ہے۔ دونوں جماعتوں میں شعری اسباق کی تعدادمجموعی طور پر 14ہے۔
نظم کے لغوی معنی ترتیب اور آراستگی ہے۔ یہ اردو زبان کی خوش بختی ہے کہ اس نے شعر و شاعری کے لیے ’نظم ‘کا لفظ اختیار کیا۔ اور یہی نظم کی ترتیب اور آراستگی کلام میں حسن پیدا کرتی ہے۔ حسین شے دیکھ کر کس کو خوشی نہیں ملتی؟ کس کو سکون حاصل نہیں ہوتا؟ اس طرح نظم کی تشکیلی ساخت، اس کی ہیئت ہی سکون کا باعث ہوتی ہے۔ ایک روتے ہوئے نوزائیدہ بچے کو یہ ترتیب اور آراستگی خاموش کر دیتی ہے۔ ماں کی آواز میں غنائیت اور نغمگی کا عنصر خواہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ترتیب اور آراستگی سے کہے ہوئے الفاظ خواہ کسی بھی زبان میں ہوں بچے کو پر سکون کر دیتے ہیں۔ یہ موزوں کلام کی خصوصیت ہے جو اردو میں نظم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نظم کے بھی الگ الگ پیرایہ اظہار ہیں جو نظم کے علاوہ غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، گیت اور رباعی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تلنگانہ کی نہم درجہ کی درسی کتاب میں درج ذیل شعری اسباق شامل ہیں:
کب تک میرے مولیٰ(شاذ تمکنت)، اے ابر رواں(اختر شیرانی)، مرغ اورصیاد(پنڈت دیا شنکر نسیم)، غزل(پروین شاکر)، جب کربلا میں عترت اطہار لٹ گئی (مرزا سلامت علی دبیر)، شام رنگین(حفیظ جالندھری) اور شیشہ کا آدمی(اختر الایمان)اس کے علاوہ دعا اور ترانہ ہندی (علامہ اقبال) کو دونوں جماعتوں کی کتب میں فہرست مضامین سے پہلے کے ہی صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔
درجہ دہم کی درسی کتاب کے لیے درج ذیل شعری اصناف منتخب کیے گئے ہیں۔ نعت(خواجہ الطاف حسین حالی)، قصیدہ (ذوق)، البیلی صبح(جوش ملیح آبادی)، غزل (غالب)، عورت (کیفی اعظمی)، غزل(مغنی تبسم)، خون کا رنگ(بیکل اتساہی) ان مذکورہ شعری کلام کو ضمیمہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 
تجزیہ کے لیے دو زاویے مختص کیے گئے ہیں۔ اول متون کا انتخاب، دوئم پیرایۂ اظہار اور الفاظ کا استعمال۔ ان دونوں زاویوں سے درسی کتب کے شعری کلام میں امن کی ترغیب کی نشاندہی مقصود ہے۔
امن ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے، جس کا حصول تعاون، تحمل، ہم آہنگی، جیسے مثبت عوامل سے کیا جا سکتا ہے۔ امن شور و غل کا متضادنہیں بلکہ امن ایک اندرونی ذہنی کیفیت ہے جو محسوس کی جاتی ہے اور اس احساس سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون افراد کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ کوئی ایک عمل، ایک لفظ، صرف ایک لفظ اس سکون کو پامال کر سکتا ہے۔
درسی کتب میں مضامین کی فہرست سے پہلے اقبال کی دونظمیں شامل کی گئی ہیں، دعا اور ترانہ ہندی۔ یہ دونوں نظمیں اکثر اسکولوں میں صبح کے ترانہ کے طور پر گائی جاتی ہیں اور زیادہ تر اساتذہ اورطلبا کو یاد بھی ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں بھی انھیں شامل کیا جاتا ہے۔ بہت خوبصورت اور مترنم آوازوں میں ان نظموں کے ویڈیو کیسیٹس بھی دستیاب ہیں۔ غرضیکہ بچے ان نظموں سے بہت مانوس ہیں۔ درسی کتب کھولتے ہی ان نظموں کو دیکھ کر طلبا کو اپنی کتاب دلچسپ اور آسان لگتی ہے اور یہیں سے ان کے سکون اور تشفی کی منزل شروع ہوتی ہے۔ دونوں نظمیں بہت آسان بحروں میں ہیں، زبان بھی عام فہم ہے۔ بغیرترنم کے بھی اگر پڑھی جائیں تو لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک نفس مضمون کا سوال ہے، ان دونوں نظموں کا انتخاب خصوصی طور پر موضوع کی وجہ سے ہی کیا گیا ہے۔ ایک مثالی طالب علم، مثالی شہری اور مثالی انسان کیسا ہونا چاہیے، اس کے لیے شاعر بچے کی طرف سے دعا کر رہا ہے، دوسروں کے لیے رحم، ہمدردی اور تعاون کے جذبہ کے پیدا ہونے کی تمنا کر رہا ہے۔ اقبال کی دوسری نظم ترانہ ہندی کا موضوع حب الوطنی اور مذہبی رواداری ہے۔ ثانوی سطح کے طلبا میں ان جذبات کی پرورش بے حد ضروری ہے۔ وطن اور ہم وطنوں سے محبت ان میں ہمیشہ مثبت جذبات ہی پید ا کریں گے۔ 
اس کے علاوہ درجہ نہم کی درسی کتاب کی فہرست میں کل سات شعری اسباق ہیں جس میں چار نظمیں، ایک مرثیہ، ایک غزل اور ایک مثنوی شامل ہے۔ ان شعری اسباق کا انتخاب مختلف موضوعات اور پیرایہ اظہار کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے تاکہ طلبا موضوعات کے ساتھ ساتھ اصناف سے بھی روشناس ہو سکیں۔ پہلی نظم مناجات کی شکل میں ہے، دوسری نظم حب الوطنی کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے، تیسری نظم کا تعلق مناظر قدرت سے ہے اور چوتھی نظم کا موضوع سماجی اقدار ہے۔ جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے ایک غزل بھی شامل ہے۔ واقعہ کربلا سے متعلق ایک مرثیہ اور پرندے کی دانائی کے موضوع پر ایک مثنوی بھی شامل ہے۔
سب سے پہلے نظم ’کب تک مرے مولا‘ شاذ تمکنت کی ہے۔ اس نظم کا موضوع اور پیرایہ اظہار قاری میں رقتِ قلب اور ترحم پیداکرتا ہے۔ نظم میں ’کب تک مرے مولا‘ فقرے کی تکرار،صبر و تحمل کی انتہا ظاہر کرتی ہے۔
دوسری نظم اختر شیرانی کی ’اے ابر رواں‘ہے جو بے حد خوبصورت ہے اور غنائیت سے بھرپور ہے۔ بہ ظاہر یہ نظم ایک غریب الوطن کی اپنے وطن کے لیے بے چینی اور تڑپ کا اظہار کرتی ہے۔ شاعر وطن کی خوبصورتی اور عظمت کا اظہار جس بے ساختگی اور درد کے ساتھ کرتا ہے، وہ قابل تعریف اور تقلید ہے لیکن دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وطن سے دور جاکر اپنے وطن کی خوبیوں کا احساس زیادہ ہو رہا ہے۔ اس سے یہ زاویہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ افراد خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنا ’خوب‘ بھی کہیں کھو دیتے ہیں اور تازندگی محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر اسی کوہم اپنا شعار بنا لیں تو پھر تو ’جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں‘ کے مصداق ہو کر رہ جائیں گے۔ مستقبل کی بہتر اور عیش و عشرت کی زندگی کی خواہش اور کوشش میں اپنے حال کو بھی تکلیف دہ بنا دینے میں احساس محرومی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور احساس محرومی مثبت شخصیت کی تعمیر میں منفی رول ادا کرتا ہے۔ اس طرح یہ نظم حب الوطنی کے جذبے کے فروغ کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کی اذیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
درجہ نہم کی اس درسی کتاب کی تیسری مجوزہ نظم حفیظ جالندھری کی ’شام رنگین ‘ ہے جس کا موضوع اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ نظم طلبا میں تحسین کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’اگر طلوع آفتاب کا منظر حسین ہے تو غروب آفتاب کا نظارہ بھی خوبصورت ہے‘‘۔ شام کی کیفیت کی منظر کشی اسی قول کی تصدیق کرتی ہے اور حسن کو دیکھنے سمجھنے اور اس سے محظوظ ہونے کی نظر پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی کیفیت یا شے سے اگر لطف حاصل ہوتا ہے تو بڑے خوش کن جذبات پیدا ہوتے ہیں جو افراد کو پرسکون رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ شام کی کیفیت کی منظر کشی اور خوب صورت تشبیہات کے علاوہ اس نظم کا ایک اور اہم پہلویہ ہے کہ یہ شام کا وقت محنت کشوں کے لیے بڑی نعمت ہے وہ پورے دن کی سخت محنت کے بعد گھر لوٹتے ہوئے آرام کے تصور سے ہی خوش ہیں اور گاتے گنگناتے لوٹ رہے ہیں۔ یہ منظر سماج کے اس محنت کش طبقے کے لیے نرم گوشہ تو ضرور پیدا کرتا ہے۔
کتاب کی چوتھی نظم ’شیشہ کا آدمی‘ اخترالایمان کی ہے۔ اس نظم میں جدید دور کے افراد کی مفاد پرستی، خود پرستی، بے حسی اور سماج سے لاتعلقی کو طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آج کا مادہ پرست انسان اپنے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہتا، وہ ڈرتا ہے کہ کہیں دوسروں کی پریشانیوں کا سامنا نہ ہو جائے اور ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا نہ پڑ جائے۔ اسی جذبہ کو شاعر طنزیہ انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے ؂
زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا
ضمیر جاگتا اور اپنا امتحاں ہوتا
شاعر اس طنز کے ذریعہ تعاون اور ہمدردی کی ترغیب کرتا ہے اور کچھ ا س طرح کا پیغام دینا چا ہتا ہے ؂
ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
غزل کو شاعری کی ایک صنف کی حیثیت سے درجہ نہم میں متعارف کرایا گیا ہے، جس کے لیے پروین شاکر کی ایک مشہوراور خوب صورت غزل کا انتخاب کیا گیا ہے جو بے حد مناسب ہے۔ غزل کو شامل کرنے کا مقصد اگر ایک طرف جمالیاتی ذوق کی تسکین اور تربیت ہے تو دوسری طرف شاعری کی ایک منفرد ہیئت سے بھی روشناس کرانا ہے۔ غزل کا آہنگ، اس کی علامتی زبان، پیکر تراشی، تشبیہات اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کی صفت بذات خود لطف اندوزی کا جواز پیدا کرتی ہے۔ مجموعی طور پہ یہ سارے عناصر اس عمر کے طلبا میں جستجو پیدا کرتے ہیں اور کسی حد تک تشفی بھی دیتے ہیں۔ موضوعات کے تعلق سے اگر بات کی جائے تو اس غزل میں ایک ماحولیاتی و حدت دکھائی دیتی ہے اور ریزہ خیالی کا احساس کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس غزل کو پڑھنے کے بعد طلبا پر ایک مجموعی تاثر مرتسم ہوگا......
نہم جماعت کی درسی کتاب میں صنف مثنوی کو بھی متعارف کرایاگیا ہے، جس کے لیے پنڈت دیا شنکر نسیم کی مشہور مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ کا ایک حصہ منتخب کیا گیا ہے۔ یہ بہت دلچسپ نظم ہے جو مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ ایک صیاد اور طائر کا منظوم قصہ ہے اور اس عمر کے بچے قصہ سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ صیاد نے طائر کو قید کر رکھا ہے۔ طائر کچھ ایسی فلسفیانہ باتیں کرتا ہے کہ صیاد اس سے متاثر ہوکر اسے آزاد کر دیتا ہے، جس سے دراصل یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طائر نے صیاد کو بے وقوف بنایاا ور آزادی حاصل کر لی لیکن طائر کی دلیل سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر کوئی بات سلیقے سے کہی جائے تو انسان اپنے تھوڑے سے فائدے کو ترک کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے پھر اسے بے وقوفی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ 
نہم درجہ کی درسی کتاب کا آخری شعری کلام مرزا سلامت علی دبیر کا مرثیہ ہے جو واقعہ کربلا کے دلدوز منظر کا ایک حصہ ہے، جس کا عنوان ہے ’’جب کربلا میں عترت اطہار لٹ گئی‘‘۔ مرثیہ کے اس حصہ میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے عزیزو رفقائے کار کے جام شہادت نوش کرنے کا بیان ہے۔ درسی کتاب میں مرثیے کو ایک شعری صنف کی حیثیت سے متعارف کرانے کے مقصد کے علاوہ ایک بڑا مقصد اسلامی تاریخ کی عظیم ہستیوں کی قربانیوں سے روشناس کرانا ہے، جنھوں نے سر کٹا دیا لیکن باطل کے آگے سر نہیں جھکایا۔ حق پرستی اور قربانی کی ایک ایسی مثال چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک حق پر چلنے والوں کے لیے مشعل راہ رہے گی۔
دہم جماعت کی درسی کتاب میں بھی کل سات شعری اسباق ہیں جن میں ایک نعت، ایک قصیدہ دو غزلیں اور تین نظمیں شامل ہیں۔ درجہ دہم کے لیے شعری انتخاب میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اصناف کو بھی دھیان میں رکھا گیا ہے۔
محمدؐ کی مدح کے بعد دکن کے صوفی بزرگ حضرت سید عاشق نہال چشتیؒ کی مدح میں ذوق کا شاندار قصیدہ ہے۔ دو غزلیں ہیں اس کے علاوہ مناظر فطرت ’’خواتین کی بااختیاری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ جیسے موضوعات پر دو نظمیں، اس کے علاوہ ایک گیت بھی شامل درسیات ہیں۔
پہلی نظم خواجہ الطاف حسین حالی کا نعتیہ کلا م ہے جو مسدسِ حالی(مدو جزر اسلام) سے ماخوذ ہے۔ حالی نے اس نظم کے ذریعہ محمد ؐ سے اپنی عقیدت کے اظہار کے علاوہ قاری کے سامنے اس عظیم شخصیت کے اوصاف حمیدہ کو اس غرض سے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والوں کے ایمان و عقائد کا احیا ہو سکے اور وہ ان خصائل جمیلہ کی تقلید کرنے کی کوشش کریں۔ نوعمر بچوں کے لیے یہ کردار براہ راست ایک مثال ہے۔ شاید کہ ان کے دل میں کچھ اوصاف گھر کر جائیں۔ نظم میں بہت روانی ہے اور اوزان کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
دوسرا شعری کلام شیخ محمد ابراہیم ذوق کا قصیدہ ہے جو سید عاشق نہال چشتی کی مدح میں لکھا گیا ہے۔دہم جماعت کی درسی کتاب میں قصیدہ کی شمولیت کا مقصد شاعری کی ایک اور صنف اور اس کے لوازمات سے روشناس کرانا ہے۔ لوازمات سے یہاں مراد اس کی ہیئت، اجزائے ترکیبی، پرشکوہ الفاظ، زور بیان، تخیل کی پرواز اور صنائع بدائع کا جابہ جا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مرتبت اشخاص کے تذکرے کے لیے آداب و القاب اور لب و لہجے کے استعمال کا سلیقہ سکھانا بھی مقصود ہے۔ کن اسباب اور پس منظر کے تحت قصیدہ بام عروج تک پہنچا، یہ نکتہ بھی قصیدے کی تدریس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ذوق کے اس قصیدے کی تفہیم قاری میں شعور کی بالیدگی اور ادراک کی وسعت بھی عطا کرتی ہے۔ جو اس عمر کے طلبا کے لیے مطلوب ہیں۔
کتاب میں شامل پہلی نظم جوش ملیح آبادی کی ’البیلی صبح‘ ہے۔صبح کا منظر تو تقریباً ہر ذی روح کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے۔ لیکن جوش کے اظہار بیان نے اس منظر کو مزید رنگین بنا دیا ہے۔ پوری نظم کا لب و لہجہ بہت دلکش اور مترنم ہے۔ جوش کی پیکر تراشیوں اور تشبیہات نے اس نظم کو اتنا موثر بنا دیاہے کہ کوئی بھی قاری اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نظم کا پہلا مصرعہ ہی ’نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے‘ اتنا پرکشش اور معنی خیز ہے کہ قاری پوری نظم پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پوری نظم کو پڑھنے کے بعد قاری کے دل و دماغ پر بہت خوش کن جذبات مرتسم ہوتے ہیں جوایک متوازن شخصیت کے لیے سکون کا جواز ضرور پیدا کرے گا۔ نظم کا نرم و نازک لب ولہجہ مزاج میں نرمی کا باعث ہوگا۔ 
دوسری نظم ’عورت‘ ایسے شاعر (کیفی اعظمی)کی نظم ہے جس نے اپنی شاعری کے ذریعہ ظلم و استبداد کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور سماج کی بدلتی ہوئی اقدار کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ نظم کا پہلا ہی مصرعہ ’’اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے‘‘ جنسی برابری کا پیغام دیتا ہے۔ عورتوں کے تئیں سماج کے غیر منصفانہ رویے کا اظہار نظم کے ہر ایک شعر سے عیاں ہے۔ عورتوں پر ظلم و زیادتی کی روداد بیان کرتے ہوئے شاعر کا لب و لہجہ تند اور باغیانہ ہو گیا ہے جس سے شاعر کے حساس دل کا کرب عیاں ہوتا ہے۔ یہ نظم سماج کی نصف آبادی کے لیے مساوی حقوق کی اہمیت کو صرف واضح ہی نہیں کرتی بلکہ پرزور انداز میں حقوق کو چھین لینے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔
اس طرح یہ پوری نظم نو عمر طلبا کے دل و ذہن پر کاری ضرب لگائے گی اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی شکل میں عورت کا احترام اور اس کے حقوق کی پاسداری کے تئیں بیدار کرے گی۔
دہم جماعت کی درسی کتاب میں شامل دو غزلوں میں سے پہلی غزل مرزا سداللہ خاں غالب کی ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے غالب کی یہ غزل آسان غزلوں میں شمار کی جاتی ہے اور استفہامیہ انداز میں کہی گئی ہے۔ غزل کا چوتھا اورپانچواں شعر قطع بند ہے جس میں وحدت الوجود کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ ساتوں اور آٹھواں شعر صلہ رحمی اور ایثار کی ترغیب پر مبنی ہے۔ کچھ اشعار بہ ظاہر عشق و عاشقی کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں بھی حیات و کائنات کے معمولات کا ذکر معکوسی انداز میں ملتا ہے کیونکہ غالب کا ہی قول ہے ؂
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غرضیکہ دسویں جماعت کے طلبا کے لیے غالب کی اس غزل کا انتخاب نہایت موزوں ہے۔ اس کے آہنگ اور زور بیان سے تو طلبا محظوط ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس غزل کے موضوعات طلبا کی بصیرت کو وسعت بخشیں گے اورحیات و کائنات کے رشتوں کو سمجھنے میں بالغ نظری عطا کریں گے۔
نصاب میں شامل دوسری غزل جدید شاعر مغنی تبسم کی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی غزل ہے جو غزل مسلسل کے زمرے میں آتی ہے۔ اس غزل کا ہر شعر اللہ کی رحمتوں اور نوازشوں پر بندے کا اعتماد ظاہر کرتا ہے اور کسی بھی کیفیت میں مایوسی سے بچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ غزل کا مواد ایمان افروز ہونے کے ساتھ ساتھ راہ راست پر چلنے کے لیے بھی آمادہ کرتا ہے۔ خواہ کتنی بھی مشکلیں راہ میں آئیں، بندے کو اللہ کی ذات سے ناامید نہ ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
اس درسی کتاب کا آخری شعری سبق گیت کی شکل میں ہے جسے بیکل اتساہی نے لکھا ہے۔ گیت ایک منفرد صنف شاعری ہے جس میں غزل کی طرح غنائیت ہوتی ہے اور لہجہ بھی نرم و نازک ہوتا ہے لیکن نظم کی طرح گیت میں بھی ایک ہی موضوع پر مسلسل اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ اس گیت کا موضوع قومی یکجہتی ہے جسے ’خون کا رنگ‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتے دیکھ کر شاعر شدید رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ یہ ملک تو دنیا کے لیے امن کا پیغامبر تھا، محبت، امن اور اخوت کا درس دیتا تھا پھر یہ نفرت کا بازار کیوں گرم ہے؟لیکن شاعر پرُ امیدہے اس لیے وہ اس رویہ سے کنارہ کشی کرنے کے لیے تنبیہ کرتا ہے اور محبت، الفت اور رواداری کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس طرح یہ پوری نظم براہ راست امن و آشتی کا پیغام دیتی ہے۔
تلنگانہ بورڈ کی نہم اور دہم جماعتوں کی اردو کی درسی کتب کا تجزیہ کرتے وقت ایک اور اچھی بات سامنے آئی کہ ان کتابوں کے مجوزہ شعری اسباق کے شروع ہونے سے پہلے دوسرے شعرا کے کچھ منتخب اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں جو ان موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس سے سبق کا بہتر تعارف تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ موضوع کی تفہیم بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زاویہ نگاہ بھی وسیع ہوتا ہے۔
آخیر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ نہم اور دہم کی درسی کتب کے اسباق کے انتخاب میں قدیم اور جدید شعرا کے مناسب امتزاج کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
دونوں جماعتوں کی درسی کتب کے شعری مواد کے مطالعے سے مجموعی طور پر یہ حقائق بھی سامنے آتے ہیں کہ یہ شعری اسباق زبان دانی کے فروغ کے ساتھ صالح عمل کی طرف راغب کرنے کے لیے طلبا کی ذہن سازی بھی کرتے ہیں۔


Rizwana Begum 
179/9, Third Floor, Farhana Manzil
Zakir Nagar, Okhla
New Delhi - 110025




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

24/9/18

پانی پت کی چند مایہ ناز علمی و ادبی ہستیاں۔ مضمون نگار رؤف خیر




پانی پت کی چند مایہ ناز علمی و ادبی ہستیاں
رؤف خیر
پانی پت کی جنگوں کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اس کی ادبی و مذہبی شناخت میں جن شخصیات نے اپنا حصہ ادا کیا ہے وہ بھی تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔ان میں سب سے قد آور شخصیت شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کی ہے۔مرزا غالب کو روشناسِ خلق کروانے میں حالی کی خدمات کے اہل نظر تو معترف ہیں ہی خود غالب کو بھی اس کا احساس رہا خوش گمان غالب یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے تھے ؂
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج 
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں 
شہ کا مصاحب ہونے سے ذوق کا مقام و مرتبہ اس دور میں اونچا تھا۔ مومن اپنی ذہانت و رومانیت کی وجہ سے مقبول خاص و عام تھے۔غالب کے بارے میں عام خیال یہی پایا جاتا تھا کہ اپنا کہا خود سمجھیں یا خدا سمجھے۔اسی لیے غالب گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل کی منزل سے گزررہے تھے۔سچ پوچھیے تو غالب پر حالی کا بڑا احسان ہے جہاں حالی نے ’یادگارِ غالب ‘ کے ذریعے غالب کو یادگار بنادیا، وہیں سر سید احمد خان کو بھی ’حیاتِ جاوید‘ بخشی۔غالب کی طرح سرسید بھی اپنے دور میں سیاسی و مذہبی،سماجی و اصلاحی اعتقادات و اقدامات کی وجہ سے عوام میں نامقبول ہی رہے۔وہ تو خواجہ الطاف حسین حالی ہیں جنھوں نے غالب و سرسید کی بلند قامتی کا احساس کروایا۔سرسیدکی ایما پر ’مدوجزراسلام ‘ (مسدس حالی) جیسا شاہ کار ادب کو دیا اسے سرسید بھی اپنے لیے ’شاہ نیکی‘ خیال کرتے تھے۔جدید نظم اور جدید تنقید کے بنیاد گزاروں میں بھی حالی کا نام لیا جاتا ہے۔ ’مقدمۂ شعرو شاعری‘ کے ذریعے حالی نے شعری منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا۔حالی نے شعر کی خصوصیات میں سادگی،اصلیت جوش کی اہمیت دکھائی وہیں شاعر کے لیے رہنما اصول (بلند تخیل، عمیق مطالعۂ کائنات اور تفحصِّ الفاظ ) کا بے مثال تحفہ دیا۔
پانی پت کی دوسری بڑی شخصیت پروفیسر وحید الدین سلیم پانی پتی کی ہے 1859میں پیدا ہونے والے سلیم1928میں اپنے پیچھے کئی کارنامے چھوڑ گئے۔ پانی پت سے آگے بڑھے تو علی گڑھ میں سرسید احمد خاں کی خدمت میں جٹے رہے۔فرماں رواے حیدرآباد میر عثمان علی خاں بہادر نظام سابع نے حیدرآباد کو مثالی مملکت بنانے میں سرسید کا تعاون چاہا تو انھوں نے اپنے خاص معتمد ومعتبرحضرات جیسے مہدی علی خان اور وحید الدین سلیم کو اپنی سفارش کے ساتھ بھیجا۔مہدی علی خان محسن الملک ہوگئے اور وحید الدین سلیم عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہوگئے۔ دوسرے صدر شعبۂ اردو ہوئے پھر دارالترجمہ میں وضع اصطلاحات کمیٹی کے خاص رکن ٹھہرے۔
خواجہ احمد عباس بھی پانی پت کی خاک سے اٹھنے والے اور حالی کے خاندان کے مشہور و ممتاز فرد تھے۔ان کا ناول ’انقلاب ‘شاہ کار سمجھا جاتا تھا۔وہ پکے سیکولر قلم کار تھے۔گاندھیائی فلسفے کے ہم نوا مگر کمیونسٹ تھے۔جب مرے تو وصیت کی کہ ان کی میت کو ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات ادا کی جائیں۔ہفتہ وار بلٹز میں وہ ’آزاد قلم‘ کالم لکھتے تھے جو ان کی حق گوئی وبے باکی کا ترجمان تھا۔ راج کپور کے لیے کئی فلمیں لکھیں جو کامیاب ثابت ہوئیں۔ ’میرا نام جوکر ‘نے کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ انھوں نے اپنے طور پر جو آرٹ فلمیں بنائیں وہ شاہ کار ٹھہریں۔ان کے افسانے ناول منفرد ہوا کرتے تھے۔ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے تھے اور دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔پانی پت میں موجود ان کی موروثی جائیداد کو ان کے جیتے جی کسٹوڈین نے پاکستان سے آنے والے شرنار تھیوں کو الاٹ کردیا تھا۔ خواجہ احمد عباس نے دس سال تک مقدمہ بازی کرکے کسٹوڈین سے وہ جائیداد بالآخر حاصل کی جس کے وہ یقیناًمستحق تھے مگر چونکہ وہ سیکولر ذہنیت کے حامل ادیب بھی تھے چنانچہ انھوں نے اپنا وہ گھر انہی شرنار تھیوں کو معمولی رقم کے عوض بیچ بھی دیا۔
ڈاکٹر کمار پانی پتی نے اپنی کتاب ’عہد ساز ادبی شخصیتیں ‘حصہ اول میں لکھا :
’’میں سوچتا ہوں کا ش اس گھر میں کوئی لائبریری ہوتی یا کسی اردو ادارے کا کوئی دفتر ہوتا اور یہ اردو گھر خواجہ صاحب کے ادبی وقار کی علامت بن جاتا ‘‘
پانی پت کے ایک اور مشہور و ممتاز نظم گوشاعر بشیشر ناتھ کنول گزرے ہیں اگرچہ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں مگر نظم کی وجہ سے انھیں زیادہ شہرت ملی۔ 
کنول قومی یک جہتی کے علم بردار بھی تھے۔چنانچہ اپنی ایک نظم میں وہ کہتے ہیں ؂
راستہ کیا ہے وہ جس کی منزل نہ ہو
سوے منزل نہ جاؤ قدم روک لو 
ہند و سکھ ہو مسلماں ہوعیسائی ہو
یوں چلو مل کے جیسے سگے بھائی ہو 
میری آواز اگر سن سکو تو سنو 
تم سبھی ایک ہو،ایک ہو، ایک ہو 
افسوس 13فروری 1990کو پانی پت کے اس بے باک شاعر کا کریا کرم کیا گیا۔اسی سال ڈاکٹر کمار پانی پتی نے کنول کے فکروفن کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کتاب ’جام ہاتھوں میں رہا ‘ ترتیب دی۔
پانی پت اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کا بھی گڑھ رہا ہے۔دینی و مذہبی اداروں میں عربی کا بھی زور تھا۔آزادی سے پہلے پانی پت میں سات ہزار کی آبادی تھی جس میں چار ہزار مسلمان اور تین ہزار غیر مسلم تھے مگر جیسے ہی ملک تقسیم ہوا مسلمان بچتے بچاتے پاکستان ہجرت کر گئے۔
ایک زمانہ تھا پانی پت میں غیر مسلم بھی اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں شعر کہا کرتے تھے 1918میں پیدا ہونے والے کندن لال اخگرشاہانی فارسی اور تاریخ میں ایم۔اے تھے۔ دوآبہ کالج جالندھر اور دیال سنگھ کالج کرنال میں وہ لکچرر تھے۔وہ فتح محمد فاتح کے شاگر د تھے۔اردو میں ان کے چھے شعری مجموعے گستاخیاں، رعنائیاں، رنگینیاں، تجلیاں،بے باکیاں اور گل باریاں شائع ہوچکے ہیں۔ ادبی مرکز نے پانی پت سے ان کا ایک مجموعہ ’گلبانگِ پارسی‘ بھی شائع کیا۔اخگر شاہانی کے بعض اردو شعر تو ضرب المثل ہوکے رہ گئے ہیں اور ان کے احباب کی زبانوں پر ہیں۔جیسے ؂
وقت کے ساتھ میں نہیں چلتا 
وقت ہی میرے ساتھ چلتا ہے 
کسی کے دل میں اترنا تو مجھ کو آتا ہے 
کسی کے دل سے اترنا مجھے نہیں آتا
ڈاکٹر کمار پانی پتی سے ان کی مراسلت رہی۔وہ بزم سخن کرنال کے بانی مبانی تھے۔کسی ادبی شخصیت کی آمدپر یا مہینے دو مہینے بزم کی نشستیں ہوتی تھیں تو وہ احباب کو جمع کرتے تھے اور ان کی آمدو رفت کا خرچ برداشت کرتے تھے۔اخگر شاہانی کے بچے کیرل میں ملازمت کرتے تھے اور وہیں Settleہوگئے تھے۔اخگر صاحب کرنال چھوڑ کر کیرل بادلِ نخواستہ گئے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کے فارسی کلام کا مجموعہ گلبانگِ پارسی جلد چھپ جائے جس کی کتابت ہریانہ کے معروف خوش نویس رام نرائن مستانہ پانی پتی کررہے تھے۔اخگر شاہانی نے اپنے فارسی شعری مجموعے کا پیش لفظ فارسی میں لکھا اور اس کا انتساب اپنے استاد فتح محمد صاحب فاتح ساہیوال۔ پاکستان کے نام کیا۔ 9اپریل 1988کو پیش لفظ لکھنے کے چند ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا مگر ان کے وفادار دوست ڈاکٹر کمار پانی پتی نے گلبانگِ پارسی بہت جلد 1989ہی میں شائع کرکے اخگر صاحب کی آتما کی شانتی کا سامان کردیا۔
اخگر شاہانی کی پہلی غزل کا مطلع ہے :
دوش من درخواب دیدم دلبر گلفام را 
بادلِ خودجفت دیدم راحت وآ رام را
جملہ ایک سو غزلوں پر مشتمل گلبانگِ پارسی اخگر شاہانی کی فکری خلاقی کا مظہر ہے۔ان میں بعض غزلیں دس اشعار پر ’بعض نو بعض سات یا پانچ اورتین غزلیں دودو اشعار پر بھی ہیں۔ ان کی چالیسویں غزل کے دوشعر ان کی فکری پرواز کے غماز ہیں ؂
رامش گری کمال بکردہ زِتان سین
اِمروزتاجدار اوو شنود گمبراست 
شب چوں نظر بہ سوے نجوم فضاکنم 
ہراخترایں زند کہ اوتابندہ اخگر است 
کتابت کی غلطیاں دور ہوجاتیں اگر یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوجاتا۔حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ پانی پت جیسے مقام پر رہتے ہوئے اخگر شاہانی نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی مذاق کو بھی زندہ رکھا۔
ہریانہ کے پہلے راج کوی لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی کی حق گوئی وے باکی سے متعلق ڈاکٹر کمار پانی پتی نے ’عہد ساز ادبی شخصیتیں ‘میں لکھا کہ جوش ملیح آبادی نے جب ہندوستان میں شراب کی پابندی کے خلاف نظم کہی تھی کہ ؂
انسان کے لہو کو پیو اذنِ عام ہے 
انگور کی شراب کا پینا حرام ہے!
آفتاب پانی پتی نے جواباً سخت لہجے میں جوشؔ کارد کیا۔اور چوٹ کی ؂
کیا ان سے درس لیں گے مری قوم کے جواں 
عیا شیوں میں کٹ گئیں جن کی جوانیاں 
گویا ’یادوں کی برات‘کی طرف اشارہ ہے۔ویسے شراب بندی کے خلاف جوش نے لال قلعے کے مشاعرے میں پنڈت جواہر لال نہرو کی موجودگی میں وہ گستاخانہ نظم سنائی تھی تو گوپال متل نے فی البدیہہ اس کا جواب دیا تھا۔ لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی گاندھیائی فلسفے کے ہم نوا اور حب الوطنی سے سرشار تھے۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جیسے:
کلام آفتاب۔1915،سیلابِ اشک۔1921، نغمۂ روح۔1921، آفتابِ وطن۔1931، زخم وطن۔ 1934، جذباتِ آفتاب۔1940، جوشِ وطن۔1941، جذبات کی دنیا۔1955، حبِ وطن۔1961 اور شمشیرِ وطن۔1966
پانی پت کی خاک سے اٹھنے والا رام ریاض ایک غیر معمولی ذہین شاعر تھا۔چوتھی دہائی میں پیدا ہونے والا رام ریاض تقسیم ملک کے ہنگاموں میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے جھنگ پاکستان پہنچ گیا۔کچھ دن ٹیچری کرنے والا رام ریاض ایم اے کرچکا تھا بھٹو کے دور میں وہ فیملی پلاننگ محکمے میں PPOکے عہدے پر فائز تھا مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ دیگر ملازمین کے ساتھ ملازمت سے سبک دوش کردیا گیا۔ظاہر ہے نس بندی کو ضیاء الحق نے غیر اسلامی قرار دے دیا ہوگا۔
رام ریاض بڑا اچھا شاعر تھا۔اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ادبی حلقوں اور مشاعروں کا وہ کامیاب باغی شاعر شمار ہوتا تھا۔اس کے چند مشہور شعر ہیں ؂
تیرے او ر میرے ستارے جو نہیں ملتے ہیں 
تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق تو بنیادی ہے 
میں تیری مدح تو کرسکتا ہوں لیکن اس میں 
میرے فن کی ہی نہیں خلق کی بربادی ہے 
اجاڑسڑکوں پہ خاموش بہتا رہتا ہے
ہمارے خون کو عادت نہیں اُبلنے کی 
ہنسی خوشی سے گزارو کہ رُت نہیں آئی
حصارِ حبس سے باہر ابھی نکلنے کی 
سب اپنالہو چاٹ کے ہوجاتے ہیں خاموش 
دیتا ہے یہاں کون دہائی،مرے بھائی 
دشمن تجھے کیسے نظر آنے لگے دشمن 
تونے ابھی دیکھے نہیں بھائی،مرے بھائی 
رام ریاض اپنے مولد پانی پت آنے کا بڑا خواہش مند تھا مگر 1986میں وہ فالج کا شکار ہوگیا اور چارسال بعد ستمبر 1990میں دنیا سے منہ موڑ گیا۔
ڈاکٹر دولت رام صابر پانی پتی ایک پُرگو شاعر تھے وہ مولانا تاجور کے شاگرد تھے۔ڈاکٹر قمر رئیس نے فرمایا تھا:
’’زبان کی دروبست سے سادگی و پرکاری پیدا کرنا اور مصرعوں کو کچھ اس طرح تراشنا کہ وہ برجستہ مکالموں کا مزہ دینے لگیں،مشکل فن ہے مگر مولانا تاجور کا ایک بہترین شاگرد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ڈاکٹر موصوف (دولت رام صابر ) نے اس مشکل کام کو خاصا آسان بنا رکھا تھا ‘‘
ان کا شعر ہے ؂
کس شان کی حامل ہے مری دشت نوردی 
جوتا بھی جو پاؤں میں نہیں ہے تو نہیں ہے 
اس کے دوسرے مصرعے پر باضابطہ طرحی مشاعرہ ہوا جس میں کئی ممتاز شاعر وں نے طبع آزمائی کی جیسے مہندر پرتاپ چاند، ڈاکٹر رانا گنوری، ڈاکٹر جی آرکنول، اخگر پانی پتی، عرش صہبائی، شمس تبریزی، سید ضیاعلوی، مسلم طاہری، سراج پیکر، یعقوب اعظم،محترمہ ممتاز نازاں،پریم لتا اور ڈاکٹرکمار پانی پتی وغیرہ۔
ڈاکٹر کمار پانی پتی کی وجہ سے اردوادب کے نقشے میں پانی پت کا نام زندہ و تابندہ ہے۔ادبی مرکز کا قیام اور اس کے تحت شعروادب کی محفلیں برپا کرنا اور کتابوں کی اشاعت ان کا مشغلہ رہا وہ یہ ساری خدمات اردو کی محبت میں کرتے رہے ہیں۔ان کا ایک شعری مجموعہ’آج انسان بننے کا وعدہ کرو ‘ 2014میں منظر عام پر آیا۔اس کا صرف رسم الخط ہندی ہے ورنہ کمار صاحب تو خالص اردو کے آدمی کہلائے جا سکتے ہیں ؂
بے بسی زندگی کی آس میں ہے
کیا بتاؤں کہ کیا گلاس میں ہے
خود خزاں پوچھتی ہے رہ رہ کر 
فصل گل آج کس لباس میں ہے 
میرے قدموں سے لپٹنے کو ترستی منزلیں 
ڈھونڈتی پھرتی ہیں مجھ کو بستی بستی منزلیں
جانے کس برحق زمانے کا پتہ دیتی رہیں
عزمِ محکم کے اشاروں پر برستی منزلیں
شہرحالی و سلیم کی ہونہار بیٹی کماری رچی ملہوترہ سونو ایم اے انگلش تھی اور اپنے والد ڈاکٹر کمار پانی پتی کی طرح بڑی خوش ذوق اور خوش سخن تھی۔اُسے دکھ تھا تو بس یہ کہ اچھی خاصی قابلیت کے باوجود اسے کسی اچھے ادارے میں اچھی سرکاری ملازمت نہیں مل سکی وہ ایک خانگی اسکول میں معمولی تنخواہ پر ٹیچری کررہی تھی۔ اسی ناکامی نے اسے زندگی ہی سے مایوس کردیا اور اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ 12اکتوبر 1975کو پانی پت میں پہلی سانس لینے والی رچی سونو 11دسمبر 2013کو آخری سانس لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔سارا پانی پت اداس ہوگیا۔ ڈاکٹر کمار نے اپنی چہیتی بیٹی کی شعری تخلیقات کو ’آنسوؤں کے موتی‘ نامی کتاب میں جمع کرکے اُسے بے نام و نشاں ہونے سے بچالیا۔رچی ملہوترہ سونو اپنے شعری رویے کے بارے میں خود لکھتی ہے ؂
شعر لکھتی ہوں کاٹ دیتی ہوں 
کیوں کہ دل کو وہ چھو نہیں پاتے 
چاہتی ہوں کہ ان میں کچھ بھردوں 
آج کے یگ کو جو بدل ڈالے 
دن رات میں پھانسی پہ لٹکتی ہی رہی ہوں 
تقدیر کے جنگل میں بھٹکتی ہی رہی ہوں 
دشمن تو کسی کی بھی نہیں تھی میں مگر کیوں 
ہر شخص کی آنکھوں میں کھٹکتی ہی رہی ہوں 
رچی سونو نے زندگی سے بھرپور رومان پرور زندگی کی عکاسی کی ہے ؂
مجھے پیارسے اپنی بانہوں میں کس کر
کوئی جارہا ہے مرے دل میں بس کر 
میں تیری حقیقت سے واقف ہوں پیارے
نہ مار اتنی شیخی مرے یار بس کر 
میں ناگن ہوں نس نس میں ہے زہر میری 
مزہ دیکھ تو بھی مجھے آج ڈس کر 
رچی ملہوترہ سونو کی جدائی پرا پنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کرنے والوں میں کئی قلم کار ہیں جیسے اخگر شاہانی، ڈاکٹر شباب للت،وکاس پانی پتی،پرنسپل سکھ دیو، پریم لتا USAسمن بجاج،آشا متل اور سب سے بڑھ کر ان کے دکھی پتاجی ڈاکٹر کمار پانی پتی۔
پانی پت میں علما و فضلا کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی جنھوں نے بھید بھاؤ کے بغیر دین و اخلاق کے ذریعے انسانوں کو انسانیت اور بھائی چارگی سے زندگی گزارنے کا درس دیا۔’’یہ گلیاں ہیں مولانا حالی کی گلیاں ‘‘میں ڈاکٹر دھرم دیو سوامی نے ایسی تما م علمی و ادبی شخصیات کا اجمالی ذکر کیا ہے۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی ادھر تو ادھر مولانا ثناء اللہ امرتسری دوٹکرکے علما ئے کرام گزرے ہیں جن کی علمی و مذہبی فتوحات نے تہلکہ مچایا ہے۔ثناء للہ پانی پتی کے فرزند مولوی احمد اللہ پانی پتی بھی اپنی شناخت رکھتے تھے اور نابغۂ روزگار عالم و شاعر مرزا مظہر جان جاناں دہلوی (1698-1780)کے مرید ہوگئے تھے۔حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیا پانی پتی کا سلطان فیروز شاہ تغلق بھی معتقد تھا اور ان کی ملاقات کو پانی پت آیا کرتا تھا۔ شیخ جلال الدین سماع کا اہتمام کرتے تھے اورا ن کالنگر عام تھا۔ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی شمس الاولیا کہلاتے تھے۔ بیشتر صوفیہ کی طرح یہ بھی خاندانِ سادات سے تھے یعنی علوی تھے۔عبدالسلام پانی پتی، عبدالغفور لاری پانی پتی، مولانا عبدالرحمن جانی بھی صاحبِ تصانیف گزرے ہیں۔ فقہ و تصوف میں منفرد مقام کے حامل عبدالقادر پانی پتی، شیخ الجنی کے بیٹے مولانامحمد پانی پتی تھے۔حضرت سید غوث علی شاہ پانی تپی نے مولوی قلندر علی جلال آبادی سے حدیث،فقہ،منطق،دینیات پڑھیں۔وہ بوعلی قلندر کے مزار کے قریب رہا کرتے تھے۔شیخ گدا پانی پتی،شیخ مودودلاری پانی پتی بھی صاحبِ حال بزرگ پانی پت کی رونق رہے۔ ان صوفیہ کے مزارات پر عوام کا ہجوم عرسوں کے مواقع پر دکھائی دیتا ہے۔قوالیاں بھی ہوتی ہیں۔
ان کے علاوہ صاحبِ تصانیف علماء میں امان اللہ پانی پتی،قاضی ثناء اللہ عثمانی پانی پتی،عبدالرحمن پانی پتی،شیخ علی بن محمود پانی پتی،عنایت اللہ خاں راسخ پانی پتی،محمد بن محمود،محمد علی انصاری پانی پتی (مصنفِ تاریخ مظفری) ہیں۔نظام پانی پتی نے سنسکرت کے آثار ’جوگ وششٹ‘ کا فارسی میں ترجمہ کیا اور بادشاہِ وقت جہانگیر کو پیش کیا تھا۔
سعد اللہ مسیحا ے پانی پتی نے رامائن کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔شاہ اللہ پانی پتی نے ’سیرا الاقطاب ‘ لکھی۔ شرف الدین بوعلی قلند ر پانی پتی نے بھی ایک مثنوی اور کلیات یادگار چھوڑیں۔ شاہ جہاں کے دور کے شاعر ملاظاہری پانی پتی نے فارسی شاعری میں اپنا لوہا منوایا۔
قاضی عبدالرحمن تحسین پانی پتی خواجہ الطاف حسین حالی کے گہرے دوستوں میں تھے اور غالب کے شاگرد تھے۔ اردو کی بہ نسبت فارسی میں شعر کہتے تھے 1877میں انتقال کیا۔ پانی پت کے مشہور رسالہ حیاتِ نو میں ان کی ایک فارسی غزل سرنامے کے طور پر شائع کی گئی ہے۔یہ رسالہ حالی مسلم ہائی اسکول پانی پت سے شیخ محمد بدرالاسلام فضلی کی ادارت میں نکلتا تھا۔قادر پانی پتی اور میر قاسم پانی پتی فارسی میں شعر کہا کرتے تھے۔
قلندر بخش ترابی پانی پتی اور قلندر بخش زیرک پانی پتی دونوں فارسی میں شعر کہتے تھے۔ترابی کا انتقال ستر برس کی عمر میں ہوا اور عظیم آباد میں مدفون ہیں۔زیرک کی تعلیم و تربیت شاہ جہاں آباد اور لکھنؤ میں ہوئی۔ان کے بارے میں آیا ہے کہ ان کا دماغ آسمان پر رہتا ہے یعنی وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
(بحوالہ ڈاکٹر دھرم دیو سوامی۔’یہ گلیاں ہیں مولانا حالی کی گلیاں‘ ادبی مرکز پانی پت 1992) 
مختصر یہ کہ پانی پت شروع ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔مشاہیر کے کارنامے قصہء پارینہ ہوکر رہ گئے ہیں اور موجود ہ صورتِ حال دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔

Dr. Raoof Khair
Moti Mahal, Golconda
Hyderabad - 5500008 (Telangana)
Mob.:9440945645
Email: raoofkhair@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

20/9/18

اکیسویں صدی کا سب سے زیادہ وقفہ والا چاند گرہن!! مضمون نگار: انیس الحسن صدیقی





اکیسویں صدی کا سب سے زیادہ وقفہ والا چاند گرہن!!

انیس الحسن صدیقی

27 جولائی 2018 کی دیر رات میں 11بج کر 54 منٹ27 سیکنڈپر چاند گرہن شروع ہوا۔ یہ سب سے زیادہ وقفہ والا چاند گرہن جو 28 جولائی 2018 علی الصبح 3 بجکر 49 منٹ تک جاری رہا۔ یہ چاند گرہن ہماری سر زمین ہندوسان کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ (Middle East) کے کچھ حصوں، مرکزی ایشیا (Central Asia) اور مشرقی افریقہ کے ملکوں میں بھی دکھائی دیا تھا۔ یہ اس صدی کا سب سے زیادہ وقفے والا یعنی پورے 4 گھنٹے 54 منٹ تک جاری رہنے والا چاند گرہن تھا۔ اس کی شروعات 27 جولائی 2018 کو 11 بج کر 54 منٹ 27 سیکنڈ پر بحیثیت جُزوی چاند گرہن کے شروع ہوکر اس کا رنگ پیلا ہو گیااور پھر28جولائی2018 علی الصبح 1 بج کر 15 سیکنڈ پر یہ مکمل چاند گرہن میں تبدیل ہو گیاتب اس کا رنگ لال ہو گیا تھااور پھر 2بج کر 43 منٹ12 سیکنڈ پر یہ پھر جزوی چاند گرہن میں تبدیل ہوا اور پھر اس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور پھر 3 بج کر 49 منٹ پر یہ چاند گرہن کا حسین قدرتی منظر بھی ختم ہو گیا تھا۔ یہ قدرتی آسمانی نظارہ 15جون 2011 کے بعد اب واقع ہوا تھا۔ اُس وقت یہ مکمل چاند گرہن 1گھنٹہ 40 منٹ تک قائم رہا تھا جبکہ اس مرتبہ یہ 1 گھنٹہ 49 منٹ تک رہا۔ یہ تمام جانکاری امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا (NASA) کے گوڈارڈ خلائی فلائٹ سینٹر نے دی ہے۔ یہ چاند کے رنگوں کی تبدیلی کا آسمان میں خوبصورت منظر دیکھنے کا موقع اُن لوگوں کو مل سکا جو سائنس میں شوق اور ذوق رکھتے ہیں۔ ایسا کب سے ہوتا چلا آرہا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ :
’’قدیم زمانہ کی بات ہے، جب چین کے رہنے والے اکثر دیکھا کرتے تھے کہ اژ دہا یا کوئی دیو پیکر جانور آسمان میں نمو دار ہوتا تھا جو سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا نظر آتا تھا۔ چینی عوام سورج کو اس آفت سے بچانے کے لیے ڈھول پیٹتے یا سنکھ پھونکتے تھے۔ یہ حالت کبھی تو جلدی اور کبھی قدرے دیر میں ختم ہوجاتی تھی۔
وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے شور مچا کر سورج کو بچالیا ہے۔ دراصل یہ سورج گرہن تھا جو خود بخود ختم ہو ہی جاتا ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات اور کیفیات مثلاً طوفان، خُشک سالی، سیلاب یا اچھی بارش اور اچھی فصل کا ہونا ظہور میں آئے جنہیں زمانہ ء قدیم کے انسان قدرت کا قہر یا عذابِ الٰہی سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ لوگ ان عذابوں سے بچنے کی خاطر یا خدا کے حضور میں اظہار تشکر کے طور پر عبادت گاہیں تعمیر کرتے یا جانوروں کی قربانیاں دیتے، نیز اُن دیوتاؤں کے حضور میں سر جھکاتے تاکہ وہ اپنے بندوں پر رحم کرتے رہیں۔
اسی زمانے میں ایسے انسان بھی موجود تھے جو اپنے اطراف کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے اور جو کچھ نظر آتا اس کا سبب جاننے کی کوشش کرتے۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے ذہن میں دو سوال پیدا ہوتے تھے، جن کی ابتداء ’کیوں‘ اور ’کیسے‘ سے ہوتی تھی۔ وہ سوچتے کہ ’سورج کیوں طلوع ہوتا ہے اور کیوں ڈوب جاتا ہے؟‘ یا ’بارش لانے والے بادل کیوں کر بنتے ہیں؟‘ یہی ہمارے اوّلین سائنسداں تھے۔ سائنسی ذہن و دانش کی نشو ونما کے لیے لازم ہے کہ چاروں طرف بکھرے ہوئے قدرت کے ’عجائبات‘ کو سمجھیں اور اس کے سر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کرتے رہیں اور یہ ان کے لیے ایک چیلنج تھا، جس کو ہر سائنسی ذہنیت نے قبول کیا۔
آج ہم سائنس کی مدد سے زیادہ تر سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، لیکن اب بھی کتنے ہی قدرتی طور پر واقع ہونے والے حقائق حل نہیں کیے جا سکے ہیں یا اگر حل کر بھی لیے گئے ہیں تب بھی قدرے شک کی گنجائش باقی ہے۔ ظاہر ہے کہ شک و شبہہ دور کرنا ازحد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ بعض بڑے سمندروں میں کہیں کہیں چشمے ملتے ہیں جن کی وجہ سے موسم میں تبدیلی ہوا کرتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لاکھوں برس پہلے بیحد بڑے رینگنے والے جانور (Reptiles) ڈائنو سارس(Dinosaurs) کیوں اور کیسے صفحۂ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ گئے؟ انسان آج اس کوشش میں سرگرداں ہے کہ فضائے بسیط (Space) اور اپنی دُنیا کے وجود اور ارتقاء کو پورے طور پر سمجھ لے لیکن ابھی تک سائنسدانوں کو مکمل کامیابی نہیں ملی۔ چنانچہ ہم مجبوراً ہر ایسے وقوع کو حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔ مثلاً زمین کی کشش یا بجلی کا وجود یا انسانی ذہنوں کے الگ الگ طور پر کام کرنے کے طریقے ایسے مظاہر ہیں۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے، اسی لیے عموماً ان سے چشم پوشی کرنے میں فی الحال مضر ہے۔‘‘ (بحوالہ مضمون ’قدرت کے پُراسرار حقائق‘ مصنف بلقیس موسوی، علی گڑھ شائع رسالہ ’’سائنس کی دنیا، نئی دہلی،شمارہ اپریل۔جون 2011)
اب سوال یہ ہے کہ یہ چاند گرہن اور سورج گرہن کیوں ہوتے ہیں؟
’’قدیم زمانے کے لوگوں نے ان گرہنوں کے مشاہدوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ سورج، چاند اور زمین یہ تینوں خلائی اجرام 18 سال 11مہینوں کے بعد اُسی حالت میں واپس آجاتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کی پیش گوئیاں کرنے لگے تھے لیکن دُوربین کی دریافت کے بعد یہ ہی پیش گوئیاں زمین، چاند اور سورج کے فاصلوں کے حساب کتاب کے ذریعہ ہوتی ہیں۔ دُوربین کے ذریعہ آسمانی اجسام کا مشاہدہ کیا گیا اور کئی بے بنیاد باتوں کا پردہ فاش ہوا۔ پھر لوگوں میں آسمانی اجسام کے بارے میں دریافتوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہو گیا یہاں تک کہ ستاروں و دیگر آسمانی اجسام یا اجرامِ فلکی کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات سامنے آئیں:
1۔ آسمان میں تمام اجسام گول یعنی کُروی پائے گئے۔
2۔ تمام ستارے در اصل سورج پائے گئے اور وہ ننھے ننھے اس لیے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ ہماری زمین کی سطح سے کروڑوں کلو میٹر دور ہیں اور ٹمٹماتے ہوئے اس لیے نظر آتے ہیں کہ سب کی روشنی ہماری زمین کے گرد ہوا کے غلاف میں سے گُزر کر آتی ہے۔
3۔ تمام سورج جیسے ستاروں میں ہائیڈروجن (Hydrogen) گیس جلتی ہے اور ہیلیم (Helium) گیس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو گُداخت یا فیوژن (Fusion) کہتے ہیں۔ اسی عمل سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور ہر قسم کی لہریں جیسے ریڈیائی لہریں، ایکسریز (X-rays) بھی اسی گُداخت یا فیوژن کی وجہ سے سورج میں سے خارج ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے تمام سورج جلتی ہوئی آگ کے بہت ہی بڑے گولے جیسے ہوتے ہیں۔
4۔ تمام سورج الگ الگ سائز، عُمر اور مختلف رنگوں کے دریافت ہوئے ہیں یعنی نیلے، پیلے، لال اور سفید۔
5۔ ہمارے سورج کا رنگ پیلا ہے۔
6۔ ہمارے سورج کا اوسطاً درجۂ حرارت 550 سینٹی گریڈ پایا گیا ہے۔
7۔ ہمارے سورج کا قُطر 14,00,000 کلو میٹر پایا گیا ہے۔ جبکہ ہماری زمین یعنی کُرۂ ارض(Earth) کا قطر 12,756 کلو میٹر پایا گیا ہے۔
8۔ ہمارے سورج کا ہماری زمین کی سطح سے اوسطاً فاصلہ 14,91,00,000 کلو میٹر پایا گیا ہے۔ یہ فاصلہ آسمان میں باقی تمام سورجوں کے مقابلے میں ہماری زمین سے سب سے نزدیک پایا گیا ہے۔ اسی لیے آسمان میں باقی کے تمام ستارے رات میں نظر آتے ہیں کیونکہ اُن تمام ستاروں کی روشنیاں دن میں ہمارے سب سے نزدیکی سورج کی روشنی میں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اس لیے یہ تمام ستارے ہمیں دن کے وقت آسمان میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہاں البتہ سورج گرہن کے وقت جب ہمارا چاند ہمارے سورج کی روشنی کو ڈھک دیتا ہے تب آسمان میں ستارے دن کے وقت دکھائی دیتے ہیں۔
9۔ ہمارا سورج اپنے محور(Axis ) پر گھومتا ہوا پایا گیا ہے اور اپنا ایک چکر یا گردش (Rotation) 24.5 دنوں میں پورا کرتا ہے۔
10۔ ہماری زمین بھی گیند کی طرح گول یعنی ایک کُرہ (Sphere) کی طرح ہے اور اپنے محور پر ایک گردش 24 گھنٹوں میں(یعنی ایک رات اور ایک دن) پورا کرتی ہے علاوہ ازیں ہمارے سورج کے گرد اپنے مدار میں ایک چکر (Revolution) 365.25 دنوں میں پورا کرتی ہے جس کو آپ ایک سال کہتے ہیں۔
11۔ ہمارا چاند بھی گول ہے اور ہمارے کُرۂ ارض کا ایک قُدرتی سیارچہ پایا گیا ہے جو ہمارے کُرۂ ارض کے گرد اپنے مدار میں 27.32 دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔
12۔ ہمارا چاند بھی اپنے محور پر 27.32 دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ یہ حُسنِ اِتفاق ہے اور اسی لیے ہمیں ہمارے چاند کا ایک طرف کا حصہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔
13۔ ہمارے چاند کا قُطر 3,476 کلو میٹر پایا گیا ہے یعنی تقریباً ہمارے کُرۂ ارض کا ایک چوتھائی ہے۔
14۔ ہمارے کُرۂ ارض سے ہمارے چاند کا فاصلہ 3,84,000 کلو میٹر پایا گیا ہے۔ مندرجہ بالا فاصلوں اور سائزوں کی وجہ سے ہمارے کُرۂ ارض کی سطح سے ہمارے سورج اور ہمارے چاند تقریباً ایک ہی سائز کے دکھائی دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ چاند اور سورج گرہن کیا ہیں؟
آج کل گرہن کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ گرہن وہ اثر ہے جب ایک خلائی جرم کا سایہ دوسرے خلائی جرم پر پڑنے سے تیسرے جرم کی روشنی رُک جاتی ہے۔ 
کرۂ ارض، سورج کے گرد مداری سفر کرتا ہے۔ یہ دونوں خلائی اجرام یعنی کُرۂ ارض اور چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔ سورج (ستارہ) روشنی اور گرمی کا ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے رات اور دن بنتے ہیں اور چاند چمکتا ہے۔ کرۂ ارض 23.5 درجہ اپنے عمودی محور پر جھکا ہوا ہے۔
سورج گرہن :سورج گرہن اُس وقت واقع ہوتا ہے جب چاند، کُرۂ ارض اور سورج کے درمیان اس طرح حائل ہوتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو کُرۂ ارض تک پہنچنے سے روک دیتا ہے یعنی چاند کا سایہ کُرۂ ارض پر پڑنے سے دن میں اندھیرا ہوجاتا ہے۔ اُس وقت ہم کو دن کے وقت آسمان میں ستارے دکھائی دیتے ہیں۔
چاند گرہن :چاند گرہن اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کُرۂ ارض، چاند اور سورج کے درمیان اس طرح حائل ہوتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو چاند پر پہنچنے سے روک دیتا ہے یعنی کُرۂ ارض کا سایہ چاند پر پڑتا ہے۔ کُرۂ ارض، سورج کی روشنی کو چاند پر پہنچنے سے روک دیتا ہے اور چاند پر اندھیرا ہوجاتا ہے یا پھر چاند پیلے لال رنگ کی قُرص میں بدل جاتا ہے۔
دونوں قسم کے گرہنوں کو مزید مکمل اور جُزوی گرہنوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ سورج، چاند کے مقابلہ میں 400 گُنا بڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سورج اورکُرۂ ارض کا درمیانی فاصلہ بھی چاند اور کُرۂ ارض کے درمیانی فاصلہ کا 400 گُنا زیادہ ہے۔ اسی لیے کُرۂ ارض کی سطح سے چاند اور سورج ایک ہی سائز کے دکھائی دیتے ہیں اور اسی وجہ سے چاند، سورج کی مکمل روشنی کو کُرۂ ارض پر پہنچنے سے روک دیتا ہے۔ جب وہ سورج اور کُرۂ ارض کے درمیان حائل ہوتا ہے تو اُس وقت چاند اپنے دو قسم کے سائے کُرۂ ارض پر ڈالتا ہے یعنی جُزوی اور مکمل۔ جُزوی سایہ ہلکا ہوتا ہے جبکہ مکمل سایہ گہرا ہوتا ہے۔
جُزوی گرہن : جُزوی گرہن، کُرۂ ارض کی سطح کے اُن علاقوں سے دکھائی دیتا ہے جن علاقوں پر چاند کا سایہ پڑتا ہے۔ جُزوی گرہن میں سورج کٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جُزوی گرہن کے دوران چاند کے کچھ حصوں پر کُرۂ ارض کا مکمل سایہ پڑتا ہے اور باقی حصے پر جُزوی سایہ ہوتا ہے۔ جُزوی سایہ کے تحت چاند پیلا لال دکھائی دیتا ہے۔
مکمل گرہن :مکمل گرہن، کُرۂ ارض کی سطح کے اُن علاقوں سے دکھائی دیتا ہے جن علاقوں پر چاند کا سایہ مکمل پڑتا ہے۔ مکمل گرہن ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ کا ہوتا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ سورج گرہن ہر ماہ نئے چاند کے نمو دار ہونے پر اور چاند گرہن ہر ماہ مکمل چاند ہونے پر کیوں نہیں واقع ہوتا ہے؟
یہ اس لیے کہ چاند کے مدار کی دو سمتی سطح کُرۂ ارض کی دو سمتی سطح کے مقابلے میں پانچ درجہ جھکاہوا ہے۔ اسی لیے چاند زیادہ تر سورج اور کُرۂ ارض کی لائن کے یا تو اوپر ہوتا ہے یا پھر نیچے ہوتا ہے۔ اس لیے ہر ماہ چاند نمودار ہونے پر سورج، چاند اور کُرۂ ارض ایک ہی لائن میں نہیں ہوتے ہیں۔
کُسُفِ چَنبَری (حلقہ نُما) گرہن: جب چاند، کُرۂ ارض سے بہت دور ہوتا ہے تب وہ سورج گرہن کے دوران سورج کی روشنی کو مکمل طور پر نہیں ڈھک پاتا ہے۔ اس لیے مکمل سورج گرہن کی بجائے کُسُفِ چَنبَری (حلقہ نُما) گرہن واقع ہوتا ہے اور جب چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے ہوتا ہے تب سورج کے نُورانی کُرہ کی ایک لائن چاند کے گرد آگ کے حلقہ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ کُسُفِ چَنبَری گرہن 12 منٹ تک دکھائی دیتا ہے۔ انگریزی کے لفظ ا(Annulus) کا مطلب ہے چَنبَر۔
مکمل گرہن کا اثر (کُسُفِ چَنبَری): مکمل گرہن کے واقع ہونے سے ٹھیک تھوڑی ہی دیر پہلے یا بعد میں یعنی سورج کی روشنی کے غائب ہونے سے پہلے یا دوبارہ نمودار ہوتے وقت سورج، چاند کی قُرص پر واقع پہاڑوں کے درمیان میں سورج چمکتا ہے۔ کبھی کبھی تو بہت ہی چمکدار جگہ جو کہ کُسُفِ چَنبَری کے مانند لگتا ہے،کبھی کبھی چمکدار موتیوں کی کمان دکھائی دیتی ہے۔ یہ بائلی بیڈس کے نام سے جانی جاتی ہے۔
وارننگ:سورج گرہن یا سورج کو کبھی بھی اپنی کھُلی آنکھوں یا دوربین یا بائنا کلر کے ذریعہ نہیں دیکھیں ورنہ آپ اپنی بینائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک خاص قسم کا چشمہ آتا ہے جس کو سولر فِلٹر وئیوئینگ گوگل کہتے ہیں یا پھر دوربین پر اچھی قسم کا فلٹر لگا ہوتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے آپ ایک سورج گرہن پروجیکشن کِٹ بھی بنا سکتے ہیں۔
سورج گرہن اور چاند گرہن کے فائدے: برطانوی ہیئت داں جناب نور مین لو کیر (Norman Lockyer) (1836-1920) نے 1868 میں مکمل سورج گرہن کے موقع پر سورج کے رنگین کُرہ (Chromosphere) میں ایک نا معلوم گیس کا پتہ لگایا تھا۔ اُنھوں نے اِس گیس کا نام ہیلیم (Helium) رکھا جو یونانی لفظ ہیلیوس (Helios) سے لیا گیا ہے اور جس کا مطلب سورج ہے۔ 1895 تک ہمارے کُرۂ ارض کی سطح پر ہیلیم گیس دریافت نہیں ہوئی تھی۔
آرتھ ایڈینگٹن(Arthur Eddington) نے 1919 میں مکمل سورج گرہن کے دوران مشہور سائنسداں البرٹ آئین اِسٹائن (Albert Einstein) کا خیال کہ دور دراز کے ستارے سورج کی کَشَشِ ثِقل (Gravity) سے متأثر ہوں گے، ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے آسمان میں سورج کے نزدیک ستاروں کے محل و قوع ناپے اور ثابت کر کے دکھایا کہ سورج گرہن نے سورج کی روشنی کو موڑ دیا ہے۔ آئین اِسٹائن نے اپنا خیال اپنے ایک نظریہ اضافیت (Relativity) میں ظاہر کیا تھا۔
سورج گرہن اور چاند گرہن کے اور بھی فائدے ہیں۔ سائنسدانوں اور فلکیاتی ماہرین نے سب سے بڑا فائدہ یہ اُٹھایا کہ اُس کے ذریعہ سورج، چاند اور زمین کے قُطر کے ساتھ ساتھ اُن کے درمیانی فاصلے بھی ناپ دیے ہیں۔ اُن فاصلوں کو آج بھی آپ سورج گرہن کے عکسی کِٹ کے ذریعے سورج گرہن کے دوران تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو سورج گرہن کے دوران سورج کا عکس کاغذ پر اُتار کر ٹرگنومیٹری کے فارمولے سے حساب لگانا ہوگا۔
اب آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کیا ہیں اور اِن کے فائدے کیا ہیں۔ لہٰذا اب آپ کو اِن سے قطعاً ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک قُدرتی عمل ہے اور ابتدا سے واقع ہوتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ نہ تو قدیم زمانہ میں چاند اور سورج گرہن سے انسانی زندگی پر کوئی بھی اثر ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ ہاں! البتہ اس کا مشاہدہ کرنے میں ضرور احتیاط رکھیں کیونکہ آپ کی آنکھوں کی روشنی بہت ہی نازک ہے جو کسی بھی تیز روشنی یا شعاعوں کے اثر سے فوراً زائل ہو سکتی ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔ اس لیے آج کل سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے احتیاط اور حفاظتی طریقے بھی دریافت کرلیے گئے ہیں۔ اُن کی ہی مدد سے ان قُدرتی نظاروں کا لُطف اُٹھائیں اور کسی بھی بے بنیاد پیش گوئی، سورج گرہن یا چاند گرہن سے متعلق، پر با لکل دھیان نہ دیں بلکہ جو لوگ نہیں جانتے ہیں اُن کو بھی اِن کے بارے میں بتائیں۔‘‘ (بحوالہ کتاب ’گرہن کیا ہے؟‘ مصنف انیس الحسن صدیقی (ایم۔ اے۔)شوقین ہیئت داں، ترمیم شدہ ایڈیشن شائع 2016 ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔6)

A.H. Siddiqui
679, Sector - 22B
Gurugram- 122015 (Haryana)
M: 9654949434
Email: aneessiddiqui2003@gmail.com




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


19/9/18

بلراج کومل :منفردلفظیات کا شاعر مضمون نگار:۔ محمد عارف




بلراج کومل :منفردلفظیات کا شاعر
محمد عارف


بلراج کومل 25 ستمبر 1928 کو ضلع فیروز پور پنجا ب موجودہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ والدکا نام شری حکومت رائے اوروالدہ کا نام کنتی دیوی تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک پرائیوٹ اسکول سے حاصل کی۔ پانچ بھائی بہنوں میں کومل دوسرے نمبر پر تھے۔ بچپن ہی سے آزاد خیال اورپڑھائی لکھائی سے دور رہتے تھے مگر والد کی ڈانٹ ڈپٹ سے کسی طرح ہائی اسکول اور انٹر پاس کرلیا۔ مزاج چونکہ شاعرانہ تھا اسی لیے اکثردوستوں کے ساتھ ایسی محفلوں میں شریک ہوتے جہاں ادب و شاعری کی باتیں ہوتی۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے وہاں انھوں نے انگریزی ادب میں بی اے کیا۔ یہاں ان کی ملاقات انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی کے ادیبوں سے ہوئی۔ ان فنکاروں کی صحبت میں رہ کر کومل کا تخلیقی دائرہ وسیع ہوتا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب تخلیقی ادب میں ان کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ا دبی رسائل وجرائد کا پابندی سے مطالعہ شروع کر دیا تھا۔بی اے کے بعد کومل نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انگریزی کے علاوہ کومل نے دیگرزبانوں کے ادب کا بھی مطالعہ کیا خصوصاً اردو،جاپانی اور فرانسیسی ادب کا چونکہ ان کا ادبی ذوق اردو کے خمیر سے تیار ہوا تھا اس لیے اردو ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ابھی کومل نے اردو ادب میں قدم ہی رکھا تھا کہ تقسیمِ ہند کا سانحہ پیش آگیا۔ اس افرا تفری میں ہجرت کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔تقسیم ہند کے تحت رونما ہونے والے حالات کے زیر اثر کومل نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا ہے۔ خصوصًا ہجرت کے وقت جن مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ بھی محسوس کیا اسے لکھ دیا:

’’فیروز پور پہنچ کر میں ریاضیات میں الجھ گیامیری شامیں اور راتیں پہلے سے زیادہ آزاد ہوگئیں۔ ہر شب ایک لشکر میرے شہر دل پر یلغار کرتا۔ میرے سامنے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے رحمی سے قتل کرتا اور درماندہ ومحروم چھوڑ کر آگے نکل جاتا۔ میرے سامنے روز وشب ایک خوف زدہ برہنہ پامجروح ایک سایہ چلتا۔ ایک لڑکی کا سایہ ہر لمحہ التجاکر تاہوا سایہ، میرے چلتے ہوئے قدموں سے التجا کرتاہوا سایہ۔‘‘ (شعر و حکمت بلراج کومل)
اجنبی ! اپنے قدموں کو روکو ذرا/جانتی ہوں تمہارے لیے غیر ہوں 
پھر بھی ٹھہروذرا/سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسّم فغاں/آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں 
میری امی نہیں، میرے ابا نہیں، میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں /میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندا نہیں جس کے سائے تلے /لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی، گیت گاتی رہی، مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں آج کچھ بھی نہیں/میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے 
میری امی کے، ابّا کے آپا کے اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خوں سے ہیں دہشت زدہ 
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول، میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں ایک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں، بھوک مٹتی نہیں، تن پہ کپڑا نہیں، آس معدوم ہے
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں 
میرے کچھ تو بنو، میرے کچھ تو بنو، میرے کچھ تو بنو۔ 
(لمبی بارش منتخب کلام: بلراج کومل،ص22، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2002)
بلراج کومل نے یوں تو افسانہ، تنقید ی مضامین، تراجم، تبصرے، مباحثے، خاکے اور مضامین وغیرہ سب میں زور آزمایا ہے مگر ان کی بنیادی حیثیت ایک شاعر کی ہے۔ شاعری میں غزل اور نظم دونوں موجود ہیں ان کے نو مجموعے ہیں جن میں نظمیں زیادہ اور غزلیں کم ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں مثلاً انگریزی، فرانسیسی، جاپانی، بنگلہ، پنجابی اور ہندی سے بہت سی نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مثلاًنظم معریٰ، آزاد نظم، نثری نظم، ہائیکو، سن رائی یو، امایو، ٹینکااورسڈوکا، وغیرہ کو اسی کی ہیئت میں بیان کیا ہے۔ یہ جدید شاعری کے وہ تجربے ہیں جو اس زمانے میں رائج تھے۔
کومل نے پاکستان سے ہجرت کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ ان کی ملاقات پرکاش پنڈت، ساحر لدھیانوی، مجاز لکھنوی، وامق جونپوری اور کرشن ادیب سے ہوئی ان ادیبوں کے ساتھ شعر و ادب کی محفلیں آراستہ ہونے لگیں لیکن سب سے اہم مسئلہ معاش کا تھا چنانچہ تلاشِ معاش کا سلسلہ جاری رہا کبھی جالندھر کے اخباروں، ریڈیوکی خاک چھانی اور کبھی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ بلراج کومل نے اپنے تخلیقی سفر کا پہلا موڑ ابچپن کے اس گھر کو قرار دیا ہے جہان وہ پیدا ہوئے پلے بڑھے جوان ہوئے۔ زندگی کے حسین لمحے گزارنے کے بعد وہاں سے فرار ہونے کا خواب دیکھنے لگے۔ ہجرت کا سانحہ اسی خواب کی تعبیر ثابت ہوئی۔ اور لمحۂ موجود میں آکر بس گئی ؂
میں مسکنِ تیرگی سے دہکی ہوئی فضاؤں میں آگیاہوں
یہاں تسلسل ہے دھم دھما دھم کا، ان گنت پاؤں ایک دُھن سے لپک رہے ہیں
یہاں صداؤں کی تیز گامی سے ساری دھرتی لرز رہی ہے
لبوں پہ نغمہ ہے نکہتوں کا، نگہہ میں چشمہ ہے زندگی کا 
یہ کارواں وادیِ مسرت کی آرزو میں رواں دواں ہے
بلراج کومل نے اپنے تخلیقی سفر کا دوسرا موڑ اپنی بیوی گارگی اور بچے مینوں اوربیٹی انیتاکو قرار دیا ہے کومل اپنی زندگی کے اس سرمائے کو کبھی کھونا نہیں چاہتے تھے یہ سرمایہ ان کے لیے کسی لمحہ موجود سے کم نہ تھا۔ وطن سے دوری کے بعد یہی ایک سہارا تھا جس کے لیے کومل نے اپنی تمام خواہشوں کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ ان کی شاعری میں رشتوں کا انہدام بھی ہے مگر ان کا اپنا خاندان ان کی زندگی کا مرکزرہا۔ اس کا عکس ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: 
آج سے کئی برس پہلے بڑے بیٹے مینو نے مجھے کاغذ کی معنویت سے روشناس کرایا تھا۔ اس رات بڑی تیز بارش ہورہی تھی۔ صبح میں بیدار ہوا تو میرے 
سامنے کھل اٹھے چاروں طرف، بچوں کے رنگین قہقہوں اور تالیوں کے شوخ پھول رات بھر کی تیز بارش کی بنائی جھیل میں
ڈگمگائی ڈولتی
چل رہی تھیں چھوٹی کشتیاں
میں نے دیکھا، ان میں ننھے کی بھی تھی پیاری سی ناؤ
نظم کا نقش گریزاں، جانا پہچانا سا کاغذ جانے پہنچانے حروف 
ننھا بولا! آج جو تالی نہ پیٹے بے وقوف
کومل نے آنے والی نسلوں کے لیے اپنے آپ کو زندہ رکھازندگی میں ایسے بھی مراحل آئے جب کومل زندگی سے ناامید ہو چکے تھے ایسے وقت میں ان کی بیوی گارگی نے ان کا حوصلہ بڑھایااور جہاں کہیں بھی وہ جاتے ان کے ساتھ رہتیں وہ ایک تھی ہزار صورتیں اختیار کرتی گئی سولہ برس سے چوسٹھ برس کی عمر تک وہ ہر لمحہ ان کی زندگی کا مرکز بنی رہیں ۔
’’ایک تھی ہزار صورتوں میں میرے سامنے
طلوع جب ہوئی/تو میرا آسمان بن گئی
نئی عظیم لذتوں کے درمیان 
میں اپنے مشتعلِ مقام سے/افق کی سمت پھیلتا چلا گیا 
حصار مرگ وزندگی روند تا چلا کیا‘‘ 
(ایک عورت)
اس طرح کومل نے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادب کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھر ے۔اردو شاعری میں جدید نظم نگاروں کے زمرے میں شامل ہو کر اپنی الگ شناخت قائم کی خصوصاً نظموں میں جدید رنگ و آہنگ اور منفرد لہجے میں نظمیں کہی ہیں۔ اس زمانے میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اور نظموں کا چلن عام تھا۔ اس تحریک سے وابستہ شعرا اجتماعی طور پر سماجی مسائل کو حل کر نے کا طریقہ دریافت کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اشتراکیت کے سماجی تصور پر یقین رکھنے والوں میں اسرارالحق مجاز، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جاں نثا راختر، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی اور پرویز شاہدی وغیرہ تھے۔ اسی کے متوازی حلقۂ اربابِ ذوق سے تعلق رکھنے والوں کا ایک گروہ بھی تیار ہو گیا تھا جس نے نظموں کو ہی اپنا وطیرہ بنایا ان شعرا نے زندگی کو نئے زاویے اور جمالیاتی پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کی۔انھوں نے جدید شاعری کی روایت قائم کی قدیم اثاثے کو تسلیم کرتے ہوئے انھوں نے نئی علامتیں، نئے استعارے، جدید موضوعات، ہیئت واسلوب کو نت نئے طریقے سے پیش کیا۔ ہیئت کے اعتبار سے انھوں نے نظموں میں بہت سے تجربات کیے مثلاً پابند نظم، نظم معریٰ، آزاد نظم اور نثری نظم وغیرہ۔ اس کے متعلق یونس جاوید لکھتے ہیں:
’’حلقے والے اپنے آپ کو پچھلی روایات سے منسلک کیے ہوئے تھے۔ مگر گزشتہ روایات اورادب کے اثاثے کو تسلیم کرتے ہوئے انھوں نے اپنے لیے نئی علامتوں، نئے تلازمات اور نئے موضوعات کو منتخب کیا کہ اگر انھیں رومانی حقیقت پسند کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔‘‘ 
(ص:42-43حلقۂ ارباب ذوق: یونس جاوید، مجلس ترقی ادب لاہور کلب روڈ 1984)
حلقۂ اربابِ ذوق والوں نے فن برائے فن کی بنیاد پر نظموں کا ایک مجموعہ تیار کیا اس میں ان نظم نگار شعرا کی نظمیں شامل تھیں جن کی شاعری حلقۂ اربابِ ذوق کے اغراض و مقاصد کی تکمیل میں کا گر ثابت ہوتی تھیں۔ اس میں بلراج کومل کی نظم ’’اکیلی ‘‘ بھی شامل تھی۔ اس کے بعد ہر برس نظموں کاانتخاب شائع ہونے لگا اس میں کومل کی نظمیں بھی شامل ہوتیں۔ یہ سلسلہ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ چلتا رہا کہ 1955 اور 60 کے درمیان جدیدیت کارجحان فروغ پانے لگا جسے بعض لوگ ترقی پسند تحریک کا ردِ عمل یاتوسیع کہتے ہیں۔ جدیدیت کے علمبرداروں میں منیر نیازی، خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی، عزیز قیسی، بلراج کومل،شمس الرحمن فاروقی،وحید اختر اور عمیق حنفی وغیرہ شامل تھے۔ ان شعرا نے تخلیقی خود آگہی کو اہمیت دی،اجتماعیت سے انحراف کی صورت اختیار کی اور انفرادی مسائل کو اپنا مقصد بنایا۔ایسے وقت میں شعرا نے’جدیدیت‘کا سہارا لیا اور وجود کی بقاو تحفظ کی خاطرزندگی کے باطنی کرب کو بیان کرنا شروع کیا، اس کے لیے علامت اور استعارے کا طریقہ اختیار کیا۔ کومل نے بھی اسی استعارے اور علامت کے سہارے نئی لفظیات کی بنیاد پر اپنی انفرادیت قائم کی۔کومل کی ایک نظم ’ایمبولنس‘ ہے یہ استعارہ معاشرے کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے۔ہر انسان جو جدید زمانے سے نبرد آزما ہے وہ غنودگی کی حالت میں بے کراں مہیب دھندمیں بھٹک رہا ہے۔ بظاہر تو وہ گاڑیوں، بسوں اور کاروں پر سوار نظر آتا ہے مگر اندر سے وہ بیمار ہے۔سائنسی ترقی اور تکنیکی جدیدکاری کے سبب ہم سب الم نصیب ہیں جو بے اماں مکان میں مقیم ہوگئے ہیں۔ان کی ایک مشہور نظم ’کاغذی پھول ‘ بھی اسی عہدکی عکاسی کر رہی ہے: 
تمھارے گلشن میں اس برس اک عجیب دھج ہے
ہر ایک ڈالی پہ جھوم اٹھے ہیں بموں کے خوشے
چمک رہے ہیں گل تر پہ آج تازہ لہو کے قطرے
فضائے مضطر میں سرخ آہیں/جہاز اور چاند کے شکاری
گرج، دھمک، شور، آہ وزاری
روش روش پر ؍ کٹے پھٹے جسم، ہڈیاں اور سردلاشیں
دلوں کی قاشیں؍ یہ موسم گل/ کتابِ فطرت کا اک نیا باب لکھ رہا ہے
یہ کاغذی پھول خوبصورت ہیں؍ دھوپ سے ان کو دور رکھو
بہار کے بعد ان کو اپنے اجاڑ گلشن کی مردہ شاخوں پہ ٹانک لینا
سفوفِ تہذیب پھانک لینا/کھنڈر کی مٹی سے ننھی چڑیا کا بت بناکر
کچھ اپنی کہنا/ کچھ اس کی سننا
اس نظم کا ایک ایک مصرع علامتی پیرائے میں بیان ہوا ہے۔اس کی لفظیات جدیدیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے مثلاً :ہر ایک ڈالی پہ جھوم اٹھے ہیں بموں کے خوشے،گلِ تر پر تازہ لہو کے قطرے دکھائی دے رہے ہیں،دلوں کی قاشیں، سفوفِ تہذیب پھانک لینا،کھنڈر کی مٹی سے ننھی چڑیا کا بت بناناوغیرہ۔ پوری نظم ڈرامائی پیکر کی صورت میں جدید عہد کی عکاسی کر رہی ہے انسانی ترقی کے منفی پہلو ؤں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔کومل نے ماضی کی فرسودہ روایات کے ذریعہ پیدا ہونے والے نتائج کو اپنی نظموں میں بھر پور انداز سے بیان کیا ہے۔ ایک نظم ’’نووارد کی دکان!‘‘میں دکان اس کائنات کا استعارہ بن گیا ہے کہ یہ دنیا ایک بازار کی مانند ہو گئی ہے جہاں ہر چیز اپنی قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ کومل نے اس جذبے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
بتِ سلامت کا ایک پیسہ بتِ شکستہ پہ گاہکوں کا
ہجوم ہم نے نہ دیکھا ایسا قبائے زریں
قبائے زریں پہ گوٹ سے اور گوٹ کی پر بہار قوسیں
مچے نہ کیوں کھلبلی دلوں میں
تہ ترک شہزادیوں کے لہنگے۔ یہ آریاؤں کے سوم رس کے
گھڑے ہیں مہنگے، یہ شیو کی مورت، گنیش کی ہولناک صورت
یہ قائم زاویہ بناتی۔ خدا کی ٹانگیں
یہ راجپوتوں کے (مونچھ) کے بال چارسو ہیں
نہ کھاسکوں گا اور قسمیں
یہ سلطنت کے رموزلے لو۔یہ کرم خوردہ کتاب لے لو
ہزار میں؟ دوہزار میں؟دس ہزار دے دو
یہ سنگ مرمر کا پھول لے لو۔ یہ ایک آنے میں، ایک آنے میں دوٹکے میں
وہ ان سب کو بیچ کر ایک نئی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے جس میں انسانیت کے علمبردار رہتے ہوں جہاں امن و سکون کا بازار لگتا ہو۔ وہ اپنا مذہب، اپنی تہذیب، اپناماضی، سب کچھ قیمتاً فروخت کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب بے معنی اور فرسودہ ہیں۔ کومل نے انسان کے وجودی کردار کے کرب واذیت کا بھر پور اظہار کیاہے۔
کومل کی نظموں میں اجنبی پن کا احساس، زندگی کے تلخ تجربات، جنسی استحصال، رشتوں کا انہدام، جسم و روح کی کشمکش اور وجود کی تلاش استعارے کے پیرائے میں بیان ہوئے ہیں ان کے مجموعے:سفر مدام سفر، نژادِ سنگ، پرندوں بھرا آسمان، شہر میں ایک تحریر اور رشتۂ دل وغیرہ کی نظمیں سنہ60کے بعد کی شاعری میں اہم مقام رکھتی ہیں ان کی مشہور نظمیں جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں ان میں۔ کاغذی پھول،عالمِ کل، نووارد کی دکان،سرکس کا گھوڑا، سائے کے ناخن، ایمبولنس، جزیرے، آخری شہر جل چکا، دھوپ کی قاشیں، موت سے ما ورا صرف انسان، روزن، درختوں کا سلسلہ، الفاظ، حرفِ شیریں، گرتے ستاروں کے دریا،جپسی،نیم شگفتہ روشن،دھوپ برہنہ ہو گئی،آسمان میں آگ،پابستہ، ایک لڑکی،چاپ،آوازوں کا جنگل،ایک بے عنوان تصویروغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
کومل کی نثری نظم میں قدروں کازوال،عہدِ حاضر کا تعفن، گھٹن، خواب، اندھیراپن، موت، بے راہ روی اور رشتوں کے انہدام کا احساس شدید طور پر ظاہر ہوتاہے۔ نثری نظموں میں تاریک سمندروں کی صدائیں،آنکھیں، اگلے برس کا موسم، سوگندھی اور تم نے ایک روزوغیرہ اچھی نظموں میں شمار ہوتی ہیں۔ کومل کا آخری مجموعہ ’اگلا ورق‘ 1996 میں آیا اس مجموعے کی زیادہ تر نظمیں علامتی پیرائے میں بیان ہوئی ہیں۔اس میں خوف، عدمِ تحفظ کا احساس،رشتوں کی بے معنویت،تقدیر اور قسمت کا دھوکہ،موت کا جشن، ماضی کی حسین داستان، جدید معاشرے کی تصویر اور احساسِ جرم وغیرہ کا بیان کیاگیا ہے۔ 
کومل کی انفرادیت ان کی لفظیات، تراکیب اور اندازِ بیان ہے کومل نے روایتی تراکیب اور لفظیات کو جدید پیرائے میں بیان کیا ہے۔ بعض علامتیں ابہام اورما ورائی کیفیت اختیار کر لیتی ہیں، اس کے علاوہ ان کے یہاں غیر مرئی اشیا، ٹھوس اشیا اور اساطیرکا استعمال بھی موجود ہے۔ کومل نے فن سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیاخواہ موضوع کی سطح پر ہو یا اسلوب کی سطح پر وہ ماضی سے بیزار،حال سے ہم آہنگ اور روشن مستقبل کی امید پر اپنے فن کو فروغ دیا ہے۔ 

Mohd Arif
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے