مولانا عبدالماجد دریابادی کی ڈرامانگاری:شہباز ارشد

 

مولاناعبدالماجددریابادی کی ولادت اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کے مشہورقصبہ ’دریاباد‘کے ممتازاورذی علم قدوائی خاندان میں17مارچ 1892 کوہوئی۔ دریاباد ان کاآبائی وطن تھالیکن ان کے خاندان کے اکثر افرادلکھنؤ میں بودوباش کرتے تھے۔عبدالماجددریابادی اچھی تعلیم کے لیے لکھنؤجیسا شہرچھوڑ کر اپنے آبائی قصبے دریابادمیں بس گئے تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعدبھی انھوں نے دریاباد میں رہنا پسند کیااور اپنی زندگی کے تقریباً 55سال دریاباد میں گزارے۔

مولاناعبدالماجد دریابادی بلندپایہ فلسفی، بہترین صحافی، عظیم ادیب، بہترین مصلحِ ادب اورایک قادرالکلام شاعر تھے۔ انھیں شعروشاعری سے خاص شغف تھالیکن انھوں نے کبھی بھی بلاضرورت شاعری نہیں کی۔ اس لیے ان کا بہت زیادہ کلام تونہیں ہے لیکن جو کچھ ہے بہت خوب ہے۔ شاعری سے بھی انھوں نے قوم وملت کی ترقی اور اصلاح کی کوششیں کی۔ مولاناعبدالماجد دریابادی کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن کی شخصیت اپنے ہم عصروں میں مسلم تھی۔ان کے بارے میں مولاناابوالکلام آزادنے اپنے خیالات کااظہاران جملوں میں کیاہے:

’’آج کل کے نوجوان تعلیم یافتہ اصحاب  میں بعض  اشخاص ایسے بھی ہیں جن کو عام حالت میں حق امتیاز  واستثنا حاصل ہے اورہماری مایوسیوں میں وہ اپنے اندر ایک  نشان امیدرکھتے ہیں۔ میں ان کی  وقعت کرتا ہوں۔ انھیں چند لوگوں میں میرے عزیزدوست مسٹر عبدالماجد بی اے بھی ہیں مجھ کو یقین ہے کہ ان کاذوق علمی اردوزبان کو ان شاء اللہ بہت فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

(بحوالہ عبدالماجددریادی، سلیم قدوائی، ساہتیہ اکادمی، پہلاایڈیشن 1998، ص 24)

مولانادریابادی کو صنف ڈراماسے بھی بچپن ہی سے دل چسپی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں انھوں نے خود ڈرا مہ میں حصے لیا۔یہ ذوق جوانی میں بھی باقی رہا۔ ڈرامے سے دل لگی کی وجہ سے وہ تھیٹربھی پہنچے اوریہ ایک بار نہیں باربار ہوا۔ وہ اکثر ڈرامادیکھنے اسٹیج اورتھیٹر کا طواف کیاکرتے تھے۔

جب انھیں لگاکہ ڈرامابینی وقت گزاری کے سواکچھ نہیں تو اپنے قیمتی وقت کو علم وہنرکے حصول میں صرف کرنے کا عزم کیا، لیکن ڈرامے سے دل  چسپی ہمیشہ دل کے ایک گوشے میں باقی رہی۔

انھوں نے بچپن میں اردوڈرامے کو ایسی حالت میں دیکھا تھاکہ نہ اس فن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اورنہ  ہی کسی ادیب کواس صنف ادب کی اصلاح کی پرواہ تھی۔ ایک مدت کے بعدفن ڈراماکی حیثیت میں کچھ تبدیلیاں  ضرورآئی تھیں، کچھ بڑے ادیبوں نے ڈرامے کی زبان و بیان کی اصلاح کے لیے اپنی توجہ بھی اس طرف مبذول کی تھی، لیکن اردوڈراماابھی تک شریفوں کافن نہیں بن سکا تھا۔ اردوڈرامے کی ایسی صورتِ حال دیکھ کر مولانا دریابادی سن شعورہی سے دکھی تھے۔ پھر اردوڈرامے سے بچپن کی دل چسپی نے بھی انھیں مجبور کیاکہ فن ڈراماکی اصلاح ہونی چاہیے اور انھوں نے ایک معاشرتی ادبی اصلاحی ڈراما ’زودپشیماں‘ تصنیف کیا، جس کا اصل مقصد ڈراما کی زبان کی اصلاح تھی۔

ڈراما ’زودپشیماں‘کو انھوں نے بمبئی کے سفرکے دوران ٹرین میں لکھاتھا،جو پہلے ماہنامہ’الناظر‘ میں قسط وار شائع ہوا۔اس کی پہلی قسط جون 1916 میں شائع ہوئی اور پھرمسلسل کئی قسطوں میں شائع ہوتا رہا۔ بعد میں یہ ڈراما کتابی صورت میں بھی منظرِعام پرآیا۔ کتاب میں بھی ڈرامانگار کے نام کی جگہ’ناظر‘لکھاگیا۔خودمولانادریابادی نے ذوالفقاربخاری کو ایک خط میں لکھاہے :

’’ایک نئی چیزآپ کوبتادوں جوآپ کے علم میں نہ ہوگی۔ اپنی نوعمری کے زمانے میں میَں نے ایک ڈراما ’زودپشیمان‘ لکھا۔ ماہنامہ النّاظرلکھنؤمیں 1915 میں قسط وار نکلتارہا، ڈراما  نگاری ا س وقت متانت علم کے منافی تھی۔ اپنانام چھپاکرمحض تخلص ’ناظر‘ بنناپڑاتھا۔‘‘

(مکتوبات ماجدی (جلداول)، ادارۂ انشائے ماجدی،کلکتہ،سنہ اشاعت 1982،ص183)

اقتباس بالامیں مولانادریابادی نے ’زودپشیماں‘ کی اشاعت کاسال 1915لکھاہے جب کہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتاہے کہ زودپشیماں کی پہلی قسط جون 1916 میں منظرِعام پرآئی تھی۔

’ناظر‘، مولانا دریابادی تخلص کرتے تھے۔ ڈراما ’زودپشیماں‘ میں نام کی جگہ تخلص استعمال کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تویہ تھی کہ اس زمانے میں ڈرامے کو  شجرِ ممنوعہ سمجھاجاتاتھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ خودمولانااس کی زبان سے مطمئن نہیں تھے نیز اس میں فنی لوازمات کا فقدان تھا۔ انہی چندوجوہات کی بناپر جب ڈاکٹرمحمد حسن نے مولانا دریابادی کو’زودپشیماں‘کو اسٹیج کرنے کی اجازت کے لیے خط لکھاتو14مئی 1956 کو اس خط کا جواب، مولانا  دریابادی نے اس طرح دیا:

’’آپ کا خط پاکرآپ کی ستم ظریفی کا قائل ہوگیا۔ تھیٹر کو  فروغ دینے کی کوشش  میں ترغیب وتحسین کی تو قع مجھ  دقیانوسی  ملامدیرِصد  ق سے  ع

عشق ومزدوریِ عشرت گہِ خسروکیاخوب!‘‘

’زودپشیماں‘ بالکل نوعمری کی تصنیف ہے  ا ور  وہ بھی  بڑی حد  تک قلم برداشتہ۔ شیکسپیئرکانشہ اس  وقت سوار تھا اوردوچارکتابیں فن پر الٹی سیدھی پڑھ ڈالی تھیں اب اگر کتاب پرنظر ثانی کروں توپچاس فیصدی بدل ڈالوں۔ ایسی کتاب کوآپ یاد ہی کیوں دلاتے ہیں جس کے ذکر ہی  سے شرمندہ ہواجاتاہوں‘‘(ایضاًص182)

مولانادریابادی نے زودپشیماں کواسٹیج کرنے کی اجازت دینے میں شش وپنج کی جو وجہ مذکورہ بالااقتباس میں بیان کی ہے وہ اپنی جگہ یقیناًدرست ہے جس کی طرف ڈاکٹرعشرت رحمانی نے بھی  اشارہ کیاہے،لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں مہذب مسلم معاشرے میں ڈرامااور تھیٹرعزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے؛ اور مولانادریابادی ایک معززگھرانے کے چشم وچراغ تھے؛ اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جگ ہنسائی ہو۔

’زودپشیماں‘جب ماہنامہ الناظرمیں قسط وارچھپ رہا تھا تو اس ڈراماکوکسی نے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی، لیکن جب وہی ڈراماکتابی شکل میں منظرعام پر آیا تو عبدالحلیم شرر،سیدسلیمان ندوی، سجاد حیدریلدرم اور مرزا ہادی رسوا جیسے اردوکے نابغہ روزگارکے دیباچے کتاب میں  موجود تھے۔ سیدسلیمان ندوی مرحوم نے تو زود پشیماں کی تعریف میں یہاں تک لکھاہے کہ:

’’اگرقلت ضخامت وصفحات کوئی عیب نہ ہوتومیں کہہ سکتاہوں کہ اس سے بہترکوئی ڈرامہ علم وفن کی حیثیت سے ہماری زبان میں نہیں لکھاگیا۔‘‘

(بحوالہ عبدالماجددریابادی، سلیم قدوائی،ساہتیہ اکادمی، پہلاایڈیشن 1998، ص 61)

مولانادریابادی نے اس ڈراما میں کم سنی کی شادی کے نقائص اورسماج میں اس سے مرتب ہونے والے مضر اثرات کوبڑی خوبی سے پیش کیاہے۔ یہ ایک اصلاحی ڈراما ہے جس میں فنی لوازمات کافقدان ہے، لیکن مکالموں کی برجستگی اور اندازِبیان بے حددل کش ہے۔مکالمے کی پیشکش میں کہیں کہیں طوالت اورخطاب سے کام لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔زبان وبیان کی اگر بات کی جائے تواس کی زبان صاف اور سادہ ہے، جس کااعتراف تمام ناقدوں نے کیاہے۔

مولانا دریابادی نے ’زودپشیماں‘ کو خالص ادبی پیرایے میں تخلیق کیا تھا۔ اس ڈرامے سے ان کا مقصد شہرت یا واہ واہی نہیں تھی بلکہ اردوڈرامامیں جوخامیاں اور بے راہ رویاں روایتاًچلی آرہی تھیں ان کے سدّباب کی یہ ایک چھوٹی سی کوشش تھی۔زودپشیماں کے دیباچے  میں الناظرکے ایڈیٹرنے لکھاہے کہ:

’’اب ہمارے ایک لائق دوست مسٹر ’ناظر‘نے ان اصلاحی تجاویزکی بناپرجومروجہ ڈراموں کے متعلق ان کے ذہن میں تھیں، ایک ڈرامالکھاہے جس میں اپنے خیال کے مطابق انھوں نے ان تمام معائب کورفع کرنے کی کوشش کی ہے جورائج الوقت ڈراموں میں نمایاں  طورپرنظرآتے ہیں‘‘(عبدالماجددریابادی احوال وآثار،ص 484)

’زودپشیماں‘ کے مطالعے سے ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ڈرامے کی صنف کوادبی حیثیت دینے کے لیے اس زمانے میں صرف عام قلم کار ہی کوشاں نہیں تھے بلکہ عبدالماجددریادی جیسے ماہرادیب اورانشاپردازشخصیت بھی اسے ادبی صنف بنانے کے لیے مستعد تھے۔

مجموعی اعتبار سے یہ کہاجاسکتاہے کہ’زودپشیماں‘فنی اعتبارسے بہت کامیاب ڈراما تونہیں ہے۔تاہم ادبی زاویے سے ان کی حیثیت مسلم ہے۔  پھرمولانادریابادی نے اس ڈرامے کو ادبی حیثیت کے پیش نظرہی لکھا تھا۔ ان کامقصد اسے اسٹیج کرانابالکل نہیں تھا۔اس لیے انھوں نے اس ڈرامے میں فنی لوازمات سے زیادہ ادبی تقاضے کو برتنے کی کوششیں کی ہیں۔

مولانادریابادی کا دوسرا ڈراما ’بدسرشت‘ہے۔ یہ ایک نامکمل ڈراماہے۔ جس کی ایک قسط ماہنامہ ’النّاظر‘ کے اپریل  1917 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نامکمل ڈرامے کاذکرمولانانے کہیں نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی خود نوشت ’آپ بیتی‘ میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے۔ ڈاکٹرتحسین فراقی  پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس  کا مفصل  تذکرہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں :

’’دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد حسن  اور ذوالفقار بخاری صاحبان  کے نام خطوط اور ’آپ بیتی‘ میں ماجد نے محض اپنے ایک  ڈرامے  ’زودپشیماں‘ کا ذکر کیا ہے اور کچھ  اس طرح گویا انھوں نے  دوسرا کوئی  ڈراما  نہیں لکھا جبکہ انھوں نے’زودپشیماں‘ کے علاوہ ’بدسرشت‘ کے نام سے بھی اس کے بعدایک ڈرامالکھناشروع کیاتھاجوبوجوہ مکمل نہ ہوسکالیکن جس کی ایک قسط ماہنامہ ’النّاظر‘ ہی میں اپریل 1917 کوشائع ہوئی۔‘‘(ایضاً،ص 482)

’النّاظر‘ کے ایڈیٹر ’بدسرشت‘ کے دیباچے میں ’نظرے  خوش گزرے‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’ہمارے دوست مسٹر ناظر کا  ایک ڈراما ’زودپشیماں‘ کے نام سے سال ِگزشتہ شائع ہوچکاہے اوراگرچہ جیسی  خواہش تھی ارباب ِذوق نے اس  کے متعلق توجہ کے ساتھ اظہارِخیال نہیں فرمایا،تاہم توقع کے مطابق  اکثر حضرات  نے اسے پسند فرمایا۔ ’بدسرشت‘ کے نام سے دوسرا ڈراما مسٹر  موصوف نے لکھا ہے  جو اس  پرچے کے ساتھ بصورتِ کتاب شائع کیاجارہا ہے تاکہ آئندہ چل کر علٰیحدہ چھاپنے کی زحمت نہ رہے۔ڈراماکے مکمل ہوجانے پرسرورق ان اصحاب کی خد مت میں  بھیج دیا  جائے گا جواس کی خواہش فرمائیں گے۔‘(ایضاًص 490)

مولانا دریابادی کے اس دوسرے ڈرامے ’بدسرشت‘  میں بھی ’زودپشیماں‘ کی طرح ان کی اپنی تین غزلیں شامل ہیں لیکن بہ مقابلہ ’زودپشیماں‘کی غزلوں کے،بہت کمزور ہیں۔ بدسرشت ایک معاشرتی واصلاحی ڈراما ہے۔ جس کی کہانی کاخلاصہ یہ ہے کہ محسن حسین  نام کے کردارکا ایک سابق بہنوئی محمداکرم ہے جومعمرہونے کے باوجود اپنی بڑی بھابی جوچودہ سال  پہلے بیوہ ہوچکی ہے؛ اس کے گھر پیغامِ نکاح بھیجتاہے اور یہ پیغام ِنکاح محض ہوس ِزرپرستی کے سبب ہے کیونکہ اس بیوہ کے نام جائیداد کا ایک بڑا حصہ ہے؛ جس پر قابض ہونے کے لیے شادی ایک آسان ہتھیارہے۔ ڈرامے کے ثانوی کردارمحمداکرم کابیٹا اوربیٹی الفت آراہیں۔ الفت آرانئی نسل کی پڑھی لکھی، باوقار اور مذہب لڑکی ہے لیکن اس کا ہونے والا شوہر ’محمد‘ رشوت دہی اورکم علمی کے باعث بدنام ہے۔

مولانادریابادی کے اس نامکمل ڈرامے کے مکالمے بہت چست اورکرداروں کی شخصیت کے مطابق ہیں۔ تمام کرداروں میں سب سے دلچسپ کردارمحمداکرم کاہے جوایک شاعربے محل ہیں۔ مہمل اوربے محل شعرکہنااس کی فطرت میں داخل ہے۔ اپنا تخلص ’چپیق‘کرتا ہے۔ ڈرامے کے چوتھے سین میں ڈرامانگار نے مشاعرہ کے عنوان سے شاعری کی جو سبھا منعقد کی ہے وہ ا پنی ہیئت، دلچسپی اور طرز سے  فرحت اللہ بیگ کے یادگارمشاعرے ہی کی طرح معلوم ہوتاہے۔ تاہم مولانادریابادی نے اپنی فنی چابک دستی سے اس سبھاکوبے حددل کش اوراثرآفریں بنادیاہے۔

بہرکیف!مولانادریابادی کے یہ دوڈرامے ہی ڈرامے کی دنیامیںان کی یادگارہیں، اس سے زیادہ اس میدان میں گرچہ ان کی خدمات نہیں ہیں لیکن ان دو ڈراموں کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتاہے کہ انھیں اس فن سے مکمل واقفیت تھی۔

 

Shahbaz Arshad

Asst Prof., Dept of Urdu

Khwaja Banda Nawaz University

Gulbarga - 585104 (Karnataka)

Mob.: 6281262057

علامہ سحر عشق آبادی کا ادبی سحر:اسلم جمشید پوری

 

میرٹھ جن ادبا اور شعرا کے حوا لے سے پو ری دنیا میں ایک دبستاں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ان میں ایک معتبر نام سحر عشق آبادی کا ہے۔ سحر عشق آبادی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر لسان و عروض بھی تھے۔ آپ عزیز لکھنوی جن کولسان العصرکے خطاب سے نوازا جا چکا ہے، کے شا گردوں میں سے تھے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس کسی نے بھی عزیز لکھنوی کے شاگردوں کا ذکر اپنی کتابوں اور مضامین میں کیا ہے انھوں نے سحر عشق آبادی کو عزیز کے شاگردوں میں شمار نہیں کیا ہے۔لیکن خود سے سحر عشق آبادی عزیز لکھنوی کا شاگرد ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ عزیز لکھنوی کے وہ شا گرد جن کا خاصا نام ہے انھوں نے بھی کبھی سحر عشق آبادی کو عزیز لکھنوی کے شاگردوں میں شمار نہیں کیا ہے جب کہ وہ سحر عشق آبادی کو عزیز لکھنوی کے پاس آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ سحر عشق آبادی فن شاعری اور زبان کے اپنے عہد کے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور انھوں نے عزیز کے شاگردوں کی شاعری کی اچھی خاصی بخیہ ادھیڑی تھی۔ علامہ سحر عشق آبادی کسی کو خا طر میں نہیں لاتے تھے۔ان کے تعلق سے وریندر پرکاش سکسینہ لکھتے ہیں:

’’سحر عشق آبادی یگا نہ چنگیزی کی طرح اکھڑ بندہ تھا اس لیے ادبی دنیا کے لوگ آپ سے نفرت کا جذ بہ رکھتے تھے۔وہ اردو فن پر اتھا رٹی تھے۔ان سے بڑا اردو فن کا جاننے والا اس دور میں کوئی پیدا نہیں ہوا اس کا اعتراف سبھی اردو حلقوں نے کیا ہے۔‘‘

(سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ)

 سحر عشق آبادی کی پیدا ئش14ستمبر1903 کوعشق آباد(شہر میرٹھ) میں ہوئی تھی۔آپ کا پورا نام بھگوان چند سحر عشق آبادی تھا۔ آپ میرٹھ کے مشہور بھٹناگر کائستھ خاندان سے تھے۔ آپ نے لکھنؤ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہیں عزیز لکھنوی سے اصلاح لینے لگے۔عمر کے آخری پچیس سال آپ نے دہلی میں گزارے۔یہاں آپ ’شان ہند‘ نامی اخبار سے وابستہ تھے اور ظفر ادیب کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔ آپ کا انتقال31؍ مارچ 1978 کو دہلی میں ہوا۔

آپ عروض و زبان کے اپنے عہد کے بڑے عالم مانے جاتے تھے۔ آپ کے سامنے کسی کا طوطی نہ بولتا تھا۔ یوں بھی آپ لسان الہند عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے اور لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کا ذکر آپ کے یہاں اکثر ملتا تھا۔ غلط الفاظ اور محا وروں کے استعمال سے آپ کو بہت چڑ تھی اسی وجہ سے آپ نے ایسے لوگوں کی جن کے یہاں الفاظ یا محا وروں کا غلط استعمال ملتا تھا بہت سخت گرفت کی۔آپ لکھنو ٔ کی زبان کے نہ صرف مداح تھے بلکہ کلمہ بھی پڑھتے تھے۔اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں:

’’میں نے عمر کا بیشتر حصہ علم اور تجدید عروض کی بھینٹ کردیا۔عروض کے باب میں کسی زندہ انسان کازیر بار احسان نہیں۔ اس وقت تک جتنی کتابیں عروض پر لکھی گئی ہیں وہ سب نا مکمل و غیر تسلی بخش ہیں اگر خلیل ابن احمد بصری اور محقق طو سی میری مدد نہ فر ماتے تو میں اس فن کی گرد بھی نہ پاسکتا۔‘‘ 

اتنے بڑے عالم اور شاعری کے فن کے ماہر سحر عشق آبادی کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس میں جہاں ان کے ہم عصروں کی ادبی چشمک نظر آتی ہے وہیں خود علامہ سحر عشق آبادی کا وہ غرور اور تعلّی بھی شامل ہے جس کے سبب آپ کسی کو بھی خا طر میں نہیں لاتے تھے۔ آپ ثروت میرٹھی سے فن شعر پر مشورے کرتے تھے۔ آپ نے زبان اور عروض کی باریکیاں ثروت میرٹھی سے سیکھیں،لیکن افسوس آپ نے کبھی اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ راقم کو  نگار عظیم ( ثروت میرٹھی کی بیٹی)نے بتایا کہ سحر عشق آبادی کے کئی خطوط ہیں،جن میں انھوں نے ثروت میرٹھی سے بہت کچھ سیکھنے کا ذکر کیاہے۔

آپ کی زندگی میں آپ کا ایک مجموعہ ’گل بانگ‘ کے نام سے شائع ہوا جن کو ان کے عزیزشاگرد نند لال پروا نہ نے1965 میں کافی اہتمام کے ساتھ شائع کیا تھا۔ ’گل بانگ‘ میں علامہ سحر عشق آ بادی کی معروف نظمیں، غزلیں اور رباعیاں شامل ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ نظم اور غزل کے ماہر شاعر ہونے کے بعد بھی سحر عشق آ بادی کو اپنے عہد میں نہ غزل گو شاعر کی حیثیت سے اور نہ نظم باف کی حیثیت سے شمار کیا گیا۔ عزیز لکھنو ی کے شاگردوں میں غزل گو شعرا میں اثر لکھنوی، جگر بریلوی، تسکین قریشی اور امن لکھنوی کا نام لیا جاتا ہے جب کہ آپ کی غزلیں آپ کے ہم عصروں سے کسی طور کم نہیں ہیں۔

’ گل بانگ‘ آپ کی نظموں اور غزلوں کا مجمو عہ ہے جو کسی طور اپنے معاصرین کے مجموعوں سے کم تر نہیں ہے۔  غزلوں کے علاوہ نظموں میں بھی آپ کا فیض بولتا ہے۔ مفتون شکوہ آبادی آپ کے مجمو عے کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’میں نے گل بانگ کا لفظ لفظ غور سے پڑھا۔ جس سلاست روا نی سے تمام فنی قیود کو پیش نظر رکھ کر صاحب گل بانگ نے نادر جو ہر پیش کیے دنیائے ادب میں نہ کہیں دیکھے نہ سنے۔‘‘

(سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ، ص11)

علامہ عشق آ بادی کی نظموں اور غزلوں میں ایک طرح کی روا نی اور سلاست پائی جاتی ہے۔ الفاظ کا انتخاب اور محاوروں کا بہترین استعمال آپ کے ماہرفن ہو نے پر دال ہے۔

علامہ سحر عشق آ بادی نے شاعری کے فن اور عروض کے تعلق سے کئی کتابیں تحریر کی تھیں جن میں سے کوئی بھی ان کی زندگی میں شا ئع نہ ہو سکیں۔ آپ کی مشہور کتابوں میں ’عیوب فصاحت ‘کا شمار ہو تا ہے۔ یہ کتاب شعرا اور ادبا کے لیے بہت ضروری ہے۔ بڑے بڑے استاد شعرا کے یہاں ان کے کلام میں فصا حت کے بے شمار عیوب ملتے ہیں۔یہاں تک کہ داغ کے یہاں بھی بہت سے عیوب نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب فصاحت کے عیوب پر کھل کر بحث کرتی ہے۔’’سحر العروض‘‘ یہ کتاب بھی اب تک شائع نہیں ہو پائی۔ لیکن اس کتاب میں عروض کے فن پر مدلل بحثیں اور مضا مین موجود ہیں۔ اس کتاب کے بعض مضامین ادبی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ خود علامہ سحر عشق آ بادی اپنی اس کتاب کے تعلق سے فر ماتے ہیں:

’’تیسری تا لیف سحر العروض ہے۔ اس فن پر مشہور و معروف مؤلفین کی کتابیں پڑھ کر دل بہت کڑھا۔ انہوں نے اس عمل کی گتھی سلجھانے کی کوشش میں اور الجھا کر رکھ دی اور مجھے سحر العروض لکھنے پر مجبور کیا۔ ان کی سعی لا حاصل۔اکثر رسا لوں کے ذریعے نذر ناظرین کر چکا ہوں۔ آپ اس کے مطا لعے سے مستفیض ہو کر فر مائیں گے کہ واقعی ہر تائید یا تردید معقول دلیلوں سے کہی گئی ہے۔‘‘ (سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ، ص14)

سحر عشق آبادی کے ہم عصروں میں میرٹھ کے روش صدیقی، حفیظ میرٹھی، انجم جمالی،حقی حزیں وغیرہ کا شمار ہو تا ہے۔ تسکین قریشی اور جگر بریلوی سے آپ کے دوستا نہ تعلقات تھے۔ جگر بریلوی نے عمر کے آخری حصے میں میرٹھ کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اس کے باوجود علامہ سحر عشق آ بادی کو میرٹھ کا ادبی ما حول پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ عشق آ باد لگایا لیکن اپنے ماہر فن ہو نے کا جو زعم ان کے اندر تھا اس نے آپ کو میرٹھ ہی کیا پوری ادبی دنیا میں الگ تھلگ کردیا تھا۔یہاں تک کہ اسماعیل ڈگری کالج میں ایک بڑا ادبی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت غلام الثقلین نے کی تھی اور جس میں خوا جہ احمد فاروقی، مالک رام اور جگر بریلوی نے اسماعیل میرٹھی کی ادبی خدمات پر مقالات پیش کیے تھے۔ ایسے بڑے جلسے میں بھی علامہ سحر عشق آ بادی کو شامل نہیں کیا گیا۔ دوسرے میرٹھ میں ایک بڑی کائستھ کانفرنس بھی آپ کے زمانے میں ہوئی جس کی صدارت گو پی ناتھ امن نے کی تھی جس میں اس زمانے کے سر کردہ کائستھ شعرا اور ادبا نے شر کت کی تھی،آپ کو اس کانفرنس میں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ ان سب کے باوجود آپ کو میرٹھ سے گہرا لگا ؤ تھا۔ آپ مولا نا محمد حسین شو کت میرٹھی،اسماعیل میرٹھی، قلق میرٹھی اوربیاں میرٹھی کے معتقد تھے جب کہ روش صدیقی اور جگر بریلوی سے آپ کا دوستا نہ تعلق تھا۔ میرٹھ عشق کا ایک ثبوت نظم ’عشق آباد‘ ہے جو آپ کے مجمو عۂ کلام ’گل بانگ‘ میں شامل ہے۔ چند اشعار ملا حظہ ہوں            ؎

عشق آباد

کہتے ہیں دل سے اہل عشق آباد

حسن پائندہ باد عشق آباد

لوگ کہتے ہیں اب جسے میرٹھ

ہاں وہی تھا وہی ہے عشق آباد

عشق خیز ارض ہے بحسن کمال

حسن بار آسمانِ عشق آباد

خاکِ عشاق جم کے مرکز پر

بن گئی سر زمینِ عشق آباد

تتلیاں سی تھرکتی ہیں پریاں

بے خزاں ہے بہارِ عشق آباد

سحر عشق آ بادی کو غزلوں کے ساتھ نظموں پر بھی کا فی دسترس تھی۔ آپ نے متعدد نظموں کے ذریعے نظم نگار شعرا میں الگ مقام پیدا کیا۔ ان کی مشہور نظموں میں عشق آ باد،میں غزل کہتا ہوں،ماں مریم، کے علاوہ کرشن پر لکھی گئی آپ کی متعدد نظمیں آپ کی شناخت ہیں۔آپ کی نظموں میں الگ طرح کی روانی ملتی ہے۔ آپ کی نظموں میں شا عری کا فن بدرجۂ اتم ملتا ہے اور ایک الگ فہم کا والہانہ پن جو آپ کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔

آپ نے بے شمار ربا عیاں بھی لکھی ہیں۔ آپ کی ربا عیوں کا ایک انتخاب گل بانگ‘ میں ’خیام سے پہلے‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ان ربا عیات میںجہاں ان کا اپنا مذہب اور اس کے متعلقات نظر آتے ہیں وہیں اللہ رب العزت اور اس کے تعلق سے مضامین بھی آپ کی رباعیات کا موضوع بنتے ہیں۔ رباعیات کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ سحر عشق آبادی کی رباعیات اپنے معاصرین سے کسی طور کم نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی رباعیات کا کوئی مجمو عہ ان کی زندگی میں شائع نہیں ہو سکا جب کہ ان کے معاصرین کے ربا عیات کے مجموعے شائع ہوگئے تھے۔ چند رباعیاں           ؎

قول عزیز

نقاد ہو منصف تو ہے میرا محبوب

ہو دشمن فن کوئی حاسد مغضوب

بے منت استاد ہو اصلاح بنقد

ہے قولِ عزیز لکھنوی یہ کیا خوب

بر ہم کا سپنا

برھمانڈ ہے کیا برہم کا سپنا زاہد

اس بات پر ایمان نہ لانے کی تھی ضد

کل دیکھا وہ بے نیاز کل سویا ہوا

یہ سچ ہے ترے سر کی قسم اے ملحد

سحر عشق آبادی اپنی غزلوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عزیز لکھنو ی کے معروف غزل گو شعرا میں سحر عشق آبادی کا نام شامل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ ادبی چشمک اور علا مہ سحر عشق آ بادی کے مزاج کاکٹر پن اور خود کو دوسروں سے بر تر سمجھنے نیز معاصرین کی غزلوں میں عیوب تلاش کر نے کے عمل کے سبب ہے۔ نا انصا فی بھی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ سچ اور حق بات کہنا اپنا شیوہ بنا لیا تھا اور وہ ماہر شاعری اور عروض و فن کے سبب اپنے  معاصرین کی غزلوں اور نظموں میں فصاحت اور بلاغت کے عیوب تلاشتے تھے۔ یہ باتیں انہیں ایک اچھا ناقد ثا بت کرنے کے لیے کا فی ہیں۔  یہ ان کی اور اہل میرٹھ کی بد نصیبی ہے کہ ایسے ماہر فن غزل گو شاعر کو مناسب مقام نہیں ملا۔ آپ کی غزلوں میں روا یت کا احترام تو ملتا ہی ہے کہیں کہیں روا یت سے انحراف بھی آپ کی پہچان ہے۔ خاص لفظیات کا استعمال اور ایک الگ قسم کا رو مان آپ کی غزلوں کی شناخت ہے۔ چند اشعار پیش ہیں          ؎

آہ کرتا ہوں تو آتی ہے پلٹ کر یہ صدا

عاشقوں کے واسطے بابِ اثر کھلتا نہیں

رفتہ رفتہ ہی نقاب اٹھے گی رو ئے حسن سے

وہ تو وہ ہے ایک دم کوئی بشر کھلتا نہیں

خرمنِ جاں کے واسطے شعلۂ طور بن گیا

جیسا عطا ہوا مجھے ایسا نہ کوئی پائے دل

سحر وہ حسنِ بے نیاز آئے نہ بے نقاب کیوں

پردہ دوئی کا اٹھ چکا، تھا یہی مدعائے دل

فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا

ٹھکانا ڈھونڈے دورِ زمیں و آسماں اپنا

خدا جبار ہے ہر بندہ بھی مجبو ر و تابع ہے

دو عالم میں نظر آیا نہ کوئی مہرباں اپنا

علامہ سحر عشق آ بادی کے شاگردوں کا جہاں تک سوال ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے درجنوں شاگرد ایسے ہیں جنھوں نے آپ سے شاعری کے فن پر اصلاح لی اور اپنے فن میں کمال حاصل کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ابر گنو ری اور رمز گنوری بھی آپ سے مشورے کیا کرتے تھے۔ سنتوش کما ر کوکب، گو کل چند نارنگ وغیرہ نے بھی آپ سے شعرو شاعری میں اصلاح لی ہے۔لیکن آپ کے شاگرد عزیز نند لال پروا نہ اور رام پرکاش زار علامی نے آپ کا کا فی نام کیا۔ یہ دو علامہ کے ایسے شاگرد ہیں جو فن شاعری سے بھی واقف تھے اور اپنے زمانے کے اہم شعرا میں شمار ہوتے تھے۔خاص کر زار علامی کی بات کی جائے تو وہ عروض کے فن میں یکتا تھے اور ان کا شمار اپنے عہد کے اساتذۂ سخن میں ہو تا تھا۔

علا مہ سحر عشق آبادی کو ادبی دنیا تو ادبی دنیا، میرٹھ نے بھی فرا موش کردیاہے۔ جب کہ عشق آ باد تخلص رکھنے والے اپنے عہد کے اکیلے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے شاعری میں تو کمال حاصل کیا ہی عروض اور زبان کے بھی ماہر کہلائے۔ اپنے زمانے میں علامہ سحر عشق آ بادی بے نظیر تھے۔ ساہتیہ اکا دمی،دہلی نے ہندو ستانی ادب کے معما ر سیریز کے تحت وریندر پرشاد سکسینہ کا مونو گراف سحر عشق آ بادی شائع کر کے جہاں علامہ کو بہتر خراج پیش کیا ہے وہیں ایک عالم اور شاعر کو گمنامی سے بچا لیا ہے۔

 

Prof. Aslam Jamshedpuri

Dept of Urdu

Chaudhary Charan Singh University, Ramgarhi, Meerut- 250001 (UP)


شین مظفرپوری کی افسانوی کائنات:علاؤالدین خان

 

شین مظفرپوری(ولی الرحمن شیدا، پیدائش: جنوری 1920، باتھ اصلی،سیتا مڑھی، وفات:1996) کا ادبی سفر کم وبیش پانچ دہائیوں کومحیط ہے،  اس عرصے میں وہ مسلسل لکھتے رہے۔ عظیم آباد(پٹنہ)، دلی اور لاہور کی مجلسوں میں پیش پیش رہے اور خوب داد وتحسین حاصل کی لیکن گردش ایام اور ناقدین ادب کی بے رخی نے ان کی شہرت اور ادبی کارناموں پر تعصب وجانب داری کی ردا ڈال دی۔ جنھوں نے ان کے افسانوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے افسانوی فکر وفن سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا تعلق شمالی بہار سے تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اس کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ثانوی تعلیم حاصل کی اور میٹرک کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ شین مظفر پوری کی بنیادی تعلیم اور ذہنی تشکیل اردو،فارسی کی مستحکم طرز پر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ زبان وادب کا صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔اس کا اندازہ ان کی تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔

شین مظفر پوری کا تعلق کسی اعلیٰ اور معاشی طور پر مضبوط گھرانے سے نہیں تھا،جس کی وجہ سے تاعمر غم روزگار سے نبردآزما رہے اور اس کا اثر ان کی تحریر پر بھی پڑا۔ اردو ادب میں ان کی پہچان ایک افسانہ نگار، ناول نگار،ڈرامہ نگار، انشائیہ نگار، خاکہ نگار اور صحافی کی حیثیت سے ہے لیکن فکشن نگار اور صحافی کی حیثیت سے زیادہ مقبول ومعروف ہوئے۔

انھوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا ’بے روزگاری ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھ کر کیا جو کلکتہ کے ہفتہ وار اخبار ’ہند‘ میں1938میں شائع ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان سیاسی وسماجی سطح پر کروٹیں لے رہا تھا۔انگریزوں کا زور کم ہورہا تھا اور آزادی کے نعرے ملک کے کونے کونے سے بلند ہونے لگے تھے۔سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف عالمی سطح پر تحریک شروع ہوچکی تھی۔مظلوم وبے کس مزدور اور کسانوں کے حق میں آواز بلند کی جانے لگی تھی،جس نے ہمارے ادب کو بھی متاثر کیا۔داستانوی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا کے مسائل کو ادب میں پیش کیا جانے لگا۔ ترقی پسند تحریک کی شروعات ہوچکی تھی جس نے ادب و حسن کے پیمانے اور معیار کو بدلنے پر غوروخوض کی دعوت دی۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر اردو افسانے نے قبول کیا ا ور دیکھتے ہی دیکھتے اردو افسانہ ادب عالیہ کے مقابل کھڑاہوگیا۔

شین مظفر پوری نے جب افسانہ نگاری شروع کی اس وقت ترقی پسندی اپنے عروج پر تھی اورصوبہ بہارمیں یہ صنف ابتدائی مراحل طے کرتے ہوئے دوسرے دور میں داخل ہوچکی تھی اور یہ دور بہار میں افسانہ نگاری کے اعتبار سے انتہائی اہم تھا۔ کیونکہ اس دورکے اہم لکھنے والوں میں محسن عظیم آبادی،سہیل عظیم آبادی، اختر اورینوی، شکیلہ اختر جیسے بڑے افسانہ نگاروں کا ایک قافلہ سانظر آتا ہے۔لہٰذا ایسے دور میں جب بہار میں افسانہ نگاری اپنے عروج پر تھی شین مظفر پوری نے بھی آہستہ آہستہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا اور یکے بعد دیگرے ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے، جن میں پہلا مجموعہ آوارہ گرد کے خطوط، 1946 میں شائع ہوا۔بعد ازاں اس مجموعے کا دوسرا ایڈیشن’بند کمرہ‘  کے نام سے شائع ہوا۔ساتھ ہی ساتھ ’دکھتی رگیں‘ اور’ کڑوے گھونٹ‘ بھی1946میں ہی شائع ہوا۔

دیگر مجموعے ’لڑکی جوان ہوگئی‘1956،’ دوسری بدنامی‘1965،’ حلالہ‘1976اور’ طلاق طلاق طلاق‘ 1987 میں چھپ کر منظر عام پر آئے۔ ابتدائی تین مجموعے کی اشاعت ایک ساتھ 1946میں ہونے کی وجہ سے کئی سوالیہ نشان کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ تخلیق کار کو ایک ہی سال میں تین تین مجموعے کی اشاعت پر مجبور ہونا پڑا۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ شین مظفر پوری کی ہجرت اور ان کی زود نویسی دونوں شکم کی آگ بجھانے کے لیے تھی۔اگر حالات سازگار ہوتے تو شین مظفر پوری کا فن بھی دوسرے بڑے افسانہ نگاروں کے ہم پلہ ہوتا۔اپنے ادبی سفر کی روداد کا ذکر کرتے ہوئے انشائیے کے مجموعے’آدھی مسکراہٹ‘کی ابتدا میں لکھتے ہیں کہ:

’’سنہ1937عیسوی میں ( عمر 17سال)بے سان وگمان ادب کا چسکا لگا تو ذہنی اور علمی دونوں اعتبار سے میں ناپختہ بلکہ مفلس تھا۔ علمی اعتبار سے تو آج بھی مفلس ہوں اور مفلس ہی مروں گا۔ ہاں تو ادبی دنیا میں جب میں نے آنکھیں کھولیں تو افسانے میں سب سے زیادہ کشش پائی اور ہوتے ہوتے 1940سے باقاعدہ افسانہ نویسی شروع کردی۔ مروجہ رجحانات کے مطابق میں سمجھا کہ افسانے بس حسن وعشق، غریبی، ناداری اور ظالم ومظلوم وغیرہ ہی کے لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ بعض وہبی صلاحیتوں کے طفیل اسی ڈگر پر تیزی سے چل پڑا۔۔۔۔۔ چل پڑا تو چل پڑا۔ مگر کسی خودرو پودے کی مانند۔ قدم بہ قدم کسی بیساکھی کے بغیر چلتے چلتے 1947میں وہ منزل بھی آئی جہاں یکایک محسوس ہوا کہ ع   مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں‘ ذہن وفکر کا انداز، فن کا مزاج اور تحریر کا رنگ روپ اپنے آپ بدلنے لگا۔تب تک صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرچکا تھا۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ صحافت نے بھی میرے فکر وفن کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔ تحریر میں تیکھا پن آنے لگا۔ اخبارات و رسائل میں طنزومزاح لکھنے کے بھی مواقع ملے۔ 1947 کے تقسیم وطن کے بعد ایک دوسری ہی دنیا سے پالا پڑا۔ زندگی اور سماج کا ماحول ہی کچھ سے کچھ ہوگیا۔ قلم کو نشتر اور زبان کو دھاردار بنانے میں مابعد 1947کے سیاسی اور سماجی عوامل، محرکات کی بھی کارفرمائی رہی ہے۔ ذہن وفکر نے نئی نئی کروٹیں لیں۔تاریخ کے بدلے ہوئے دھارے اور کئی سیاسی اورسماجی آب وہوا میں درجنوں افسانے اور کئی ناول لکھے۔‘‘

(آدھی مسکراہٹ،ص5،لیتھو پریس پٹنہ،1980)

مذکورہ بالا اقتباس سے افسانہ نگار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اورادبی سفر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ شین کے زندگی نامہ کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنا ادبی سفرتن تنہا طے کیا اور زندگی کے نشیب وفراز سے گزرے۔ وہ کسی شخصیت یا تحریک سے بھی کلی طور پر متاثرنظر نہیں آتے۔

ان کے افسانو ں کے موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ چہار دیواری کی زندگی، گھریلو زندگی کی ناہمواریاں، سماجی مساوات، تعصب، اخلاقی تنزلی، معاشی بدحالی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی، فرقہ و ارانہ فسادات اور جنسی مسائل پر عمدہ افسانے لکھے، جن کے مطالعے سے ان کے فکری رویے اوروسیع وعمیق مشاہدے کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ان کے افسانوں کے موضوعات شمالی بہار کے دیہات ہیں لیکن علاقائیت کے اثرات کے باوجود اس میں آفاقی رنگ بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کے کردار کا تعلق مفلوک الحال ادرنچلے متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں سے ہے، جن کی نفسیاتی، سماجی، تہذیبی وثقافتی الجھنوں کو انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔ڈاکٹرقیام نیر اپنی کتاب ’بہار میں اردو افسانہ :ابتداء تا حال ‘میں ان کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’چونکہ انھوں نے شمالی بہار کو بہت قریب سے دیکھا ہے، غریب اور نچلے طبقے سے برابر سابقہ پڑتا رہا ہے، مسلم گھرانوں کے معاشرتی ماحول سے کافی لگاؤ رہا ہے اس لیے ان کے یہاں زیادہ تر ان ہی کردار اور ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے یہاں غیر مسلم کرداروں پر افسانے، ڈرامے اور ناول وغیرہ نہ کے برابر ہیں۔‘‘

(بہار میں اردو افسانہ نگاری (ابتدا تا حال)،  قیام نیر،ص154، دی آزاد پریس، پٹنہ،طبع دوم 1996)

اپنے افسانوں کے موضوعات کے حوالے سے قیام نیر کے ایک سوال کے جواب میں شین نے خود ہی اس بات کااعتراف کیاہے کہ:

’’میں کسی خاص موضوع یا مسئلہ پر افسانے نہیں لکھتا۔ میرے افسانے رنگا رنگ ہیں۔ عام طور پر سماجی مسائل، انسانی نفسیات، حادثات، سیاسی غلط کاریاں وغیرہ میرے عام موضوعات ہیں۔۔۔۔ خدا ترسی اور خدا پرستی اور روحانی احساسات میرے فکر وفن میں under currentمحرکات کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ (ایضاً)

افسانہ’آوارہ گرد کے خطوط‘ شین کے پہلے افسانوی مجموعے میں شامل ہے۔یہ افسانہ خط کے فارم میں ہے اور سولہ خطوط پر مشتمل 70صفحے کاطویل افسانہ ہے۔ اس افسانے میں دو کردار ہیں۔ ایک آوارہ گرد اور دوسرا نسیمہ۔ یہ ان کے ابتدائی دورکا افسانہ ہے جس پر رومان پرستی غالب ہے اور یہ افسانہ نگار کے فکر وفن کا امتزاج ہے۔ سبھی خطوط میں زندگی کی نفسیاتی گتھیوں کو پیش کیا ہے۔ ان خطوں کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ آوارہ گرد عورت کے تئیں متعصب اور متنفر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے حاصل کر نہیں پاتا ہے۔ باوجود اس کے وہ عورت ذات پر طنز کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتاہے۔’آوارہ گرد کے خطوط‘کے آخر میں یہ عیاں ہوتا ہے کہ آوارہ گرد کو نسیمہ سے صرف اتنی شکایت ہے کہ اس نے آوارہ گرد کی دوران علالت عیادت نہیں کی۔یہی بے اعتنائی ان خطوط کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنا اورآخری خط میں اعتراف کرتا ہے کہ ’’آج ایک قاہر وجابر شہنشاہ ایک گداگر کے قدموں پر پیشانی رگڑ رہا ہے۔‘‘

(بند کمرے میں، افسانہ آوارہ گرد کے خطوط، پیش لفظ: بلقیس فاطمہ، ص15،رنگین کتاب گھر،دہلی، سنہ ندارد)

بلقیس فاطمہ آوارہ گرد کے خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

’’روزمرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جنسی رجحانات کی کروٹوں کا نفسیاتی تجزیہ اس کے فن کا طرۂ امتیاز ہے۔ متوسط طبقے کا ماحول اس نے اپنی افسانہ نگاری کے لیے تقریباً مخصوص کرلیا ہے کیونکہ یہ درمیانی طبقہ سب سے زیادہ اصلاح اور توجہ کا محتاج ہے۔ اس میں اول وآخر طبقوں کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ انسانیت کی تعمیر اور تخریب کا دارومدار اسی طبقے پرہے۔ اس طبقے کی اخلاقی کمزوری، معاشی کشمکش، مفلس جوانی کی مریضانہ تشنگی اور اس کا ردعمل اس کے افسانوں کے نمایاں موضوع ہیں۔ اور تحلیل نفسی ان سب کا محور۔ پلاٹ اور موضوع کی شیر وشکر جیسی آمیزش کے اعتبار سے اس کے افسانے اردو کے ننانوے فیصد اچھے افسانہ نگاروں کے لیے قابل رشک ہیں۔‘‘(ایضاًص8)

شین کا تعلق ممتاز مفتی، حسن عسکری اور علی باقر کی جماعت سے تھا۔ انھوں نے جنس کے بیان میں کبھی بھی عصمت چغتائی اور منٹو کی پیروی نہیں کی بلکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں کردارکانفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے اس کے ذہنی  رویے کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’نہ جینے دو گے نہ مرنے دوگے‘ اور ’انمول‘میں جنس کا بیان ضمنی ہے اصل مسئلہ میاں بیوی کے درمیان رشتے اور برتاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔

اس افسانے میں شاہد اور رخسانہ کے باہمی محبت، برتاؤ اور تلخی سے ابھرنے والی کیفیت کو انتہائی فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ رخسانہ حسین ہے اور وہ چاہتی ہے کہ شاہد پر اس کی اجارہ داری ہو اور وہ اس کے حکم سے اپنی زندگی گزارے مگر ازدواجی زندگی کا تقاضا کچھ اور بھی ہوتا ہے۔  نتیجتاً روز بہ روز تلخی بڑھتی جاتی ہے اور شاہد رخسانہ کو طلاق دینے کا ذکرپڑوسن سے کردیتا ہے۔اس کے بعد گھر میں ہنگامہ کھڑ اہوجاتا ہے۔معاملہ کسی طرح رفع دفع ہوتا ہے لیکن رخسانہ کو شاہد کے رویے سے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ اس کی بے اعتنائی برداشت نہیں ہوتی۔ا گرچہ رخسانہ نے شاہد کو رجھانے کے لیے سارے حربے استعمال کیے مگر وہ ناکام رہی۔افسانے میں افسانہ نگار نے جس طرح سے رخسانہ کے کردار کو پیش کیا ہے وہ ایک مضبوط کردار کی شکل میں ابھرا ہے۔ نیز افسانے میں واقعات کا تسلسل اور زبان وبیان کی برجستگی قابلِ تحسین ہے۔

افسانہ ’انمول‘ میں بارش نہ ہونے اور قحط کی وجہ سے عوام کی فاقہ کشی، مجبوری و بے بسی کو پیش کیا گیا ہے اور جینے کی تگ ودو میں عوام کس طرح مجبور وبے بس ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود ہوجاتی ہے، اس کی نہایت دردناک تصویر پیش کی گئی ہے۔اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حالات کے ہاتھوں انسان کس قدر لاچار ہوجاتا ہے کہ اناج کی قلت کی وجہ سے انوکھی کا باپ جب پورا علاقہ قحط اور فاقہ کشی سے نبردآزما ہے، اسی دوران اپنی بیٹی کی شادی بڑی سادگی سے کردیتا ہے تاکہ ایک فرد کے بوجھ سے نجات مل سکے۔ انوکھی جوان، حسین اور باکرہ ہے۔اسے اپنی عصمت اور پاک دامنی پر ناز ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بھی خود کو شوہر کے سپرد نہیں کرتی ہے بلکہ دست درازی کرنے پر شور مچانے کی دھمکی دیتی ہے۔انوکھی کے بھولے پن اور معصومیت کی وجہ سے اس کے سسرال والے میکے پہنچا دیتے ہیں۔ شادی سے قبل سکندر انوکھی سے محبت کرتا تھا لیکن انوکھی نہیں۔ انوکھی کو تو اپنی پاک دامنی کی فکر تھی کیونکہ محلے کی لڑکیوں کے کردار سے واقف تھی اسی لیے اپنی دنیا اپنی پاکدامنی تک محدودکر رکھا تھا۔قحط اور فاقہ کشی کی وجہ سے حالات بدتر ہونے لگے جس کا اثر انوکھی پر بھی پڑا اور انوکھی اپنی پاکدامنی کی پرواہ کیے بغیر سکندر سے اپنے پاکدامنی کا سودا کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کو موت کے منھ میں جانے سے بچاسکے:

’’یکایک مایوسی اور ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیارے میں روشنی کی ایک مدھم سی کرن جھلملائی۔ انوکھی کے دل سے ایک آواز نکلی جس کی گونج اس کے دماغ کے گنبد میں بھرگئی۔ ایک نام۔۔۔۔ سکندر، گاؤ ں کے خوش حال مودی کا لڑکا، انوکھی کا وہ مایوس عاشق جس سے ایک بار رات کے اندھیرے میں وہ ملی تھی اور جس کی تمنا کا خون کرکے اس نے فخر محسوس کیا تھا۔ اس کی یاد آتے ہی انوکھی کی آنکھوں میں زندگی کی رمق پیدا ہوگئی۔ بڑی دیر کی کشمکش کے بعد انوکھی نے جی کڑا کرکے ایک فیصلہ کرلیا۔ ایک ایسا فیصلہ جسے کرتے ہوئے وہ کانپ کانپ گئی۔ مگر ماں باپ اور بھائی بہن کی جان بچانے کو وہ سب کچھ قربان کرسکتی تھی۔‘‘

شین مظفر پوری کے تیسرے افسانوی مجموعے ’کڑوے گھونٹ‘ کے افسانے میں دستک، خسارہ،جراثیم اور بے زبان خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں جنس کا ذکر زیریں سطح پر ہے لیکن اصل میں ان کہانیوں میں سماجی ومعاشرتی زندگی کے نشیب وفراز کو بیان کیا گیا ہے۔وہاب اشرفی شین مظفر پوری اور جنس کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ البرٹوموراوِیا کی ’دی وومن آف روم‘ کو فخرسے پڑھنے  والے لوگ ’ش‘ کو فحش نگار کہتے ہیں۔ ش جنس پر لکھتے ہیں تو حصول لذت کے لیے نہیں، وہ ماحول اور سماج کی تمام تر گندگیوں کو ایک فنکار کی طرح دیکھتے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ یہ جراحی ناپسندیدہ ہوسکتی ہے لیکن غیر ضروری نہیں۔‘‘

(بہار میں اردو افسانہ نگاری، مرتب :وہاب اشرفی، افسانہ ’انمول‘، ص234،بہار اردو اکادمی، پٹنہ،1989)

آوارہ گرد کے خطوط‘ اور ’بند کمرے میں‘ ان کے دو افسانے ’بند کمرہ ‘اور’ حق تلفی‘۔ ان افسانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اگر دیانت داری کے ساتھ اردو افسانوں کا انتخاب تیار کیاجائے تو یہ دونوںمنتخب افسانوں کی فہرست میں ہوں گے۔علاوہ ازیں ’دوسری بدنامی‘ اور ’سرد جنگ‘ بھی ان کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

شین مظفر پوری نے افسانوں میں اپنے عہد اور سماج کی بھرپور نمائندگی کی ہے اور عصری مسائل پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ جن مسائل سے دوچار تھے اسے بطور خاص اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔

افسانہ’ دستک‘میں تقسیم ہند اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس افسانے میں مصنف کے مشاہدات، تجربات اور نظریات کی عکاسی واضح طور پرنظر آتی ہے۔ یہ افسانہ دراصل سوانحی افسانہ ہے جس میں شین نے معاشی نابرابری کی وجہ سے سماج میں کس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کی عکاسی کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف دولت پر قابض ساہوکار اور زمیندار ہیں جو غریبوں کا خون چوستے رہتے ہیں، دوسری طرف ایک ایسے فرد کا حال بیان کیا ہے جس کے کاندھے پر بہن کی شادی کی ذمے داری، بیوی بچوں کا بوجھ اور دوسرے مسائل اسے ہر وقت پریشان کیے رہتے ہیں۔ یہ فرد کوئی اورنہیں بلکہ خود افسانہ نگار ہے۔اس طرح افسانہ ’دستک‘ میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک غریب اور متوسط طبقے کا انسان تمام عمر ترس ترس کر جینے پر مجبور ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بیوی  دم توڑ دیتی ہے اور وہ اسے کاندھا بھی نہیں دے پاتا ہے۔ کیونکہ غم روزگار نے اسے در بہ در بھٹکنے پر مجبور کردیا افسانے کا اختتام المیہ ہے جس کے مطالعے سے قاری پر بھی حزن وملال کی کیفیت سی طاری ہوجاتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تمام مال ودولت صرف چند لوگوں کے قبضے میں ہیں جبکہ ایک بڑی آبادی بھوک وافلاس میں پوری زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اوریہ مسئلہ ہر دور میں سر ابھارتا رہا ہے۔ان کے افسانوں کی عصری معنویت کا جائزہ لیتے ہوئے شہاب ظفراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ:

’’بہترین ادب وہی ہوتا ہے جو کسی معین مکانیت اور محدود زمانیت کا قیدی نہ ہو۔ شین مظفر پوری کے افسانے اس لحاظ سے بڑے افسانے کہے جاسکتے ہیں کہ وہ عہد جس سے شین متصادم تھے اس کی ستم کوشیاں اب بھی جاری ہیں اور ان میں پیش کردہ مسائل سے آج بھی ہمارا معاشرہ دوچار ہے۔شین مظفر پوری کی کہانیاں اس عہد کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے مسائل کی بھرپور نمائندگی کررہی ہیں۔‘‘

(شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت، شہاب ظفر، مشاہیر دبستانِ بہار،مرتب: امتیاز احمد کریمی،ص275-76،اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں اپنے عہد کے معاشرے، اس کے مسائل اور مسائل کی چکی میں پستے ہوئے انسان کی بہترین تصویر کشی کی ہے او ر بحیثیت فرد انسان کو موضوع بحث بنانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل پر بھی زور دیا ہے۔ اوریہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ انسان خواہ جس روپ میں بھی ہو یا جو بھی کردار ادا کررہا ہو، کارزار حیات میں اس کا ہر عمل ایک نئے ردعمل کو جنم دیتا ہے اورنئی نئی کہانیوں کو جنم دیتا رہتا ہے۔اس طرح زندگی کا سفرجاری وساری رہتا ہے۔

 

Dr. Allauddin Khan

Department of Urdu

Rajendra College,

Jai Prakash University

Chhapra-841301 (Bihar)

Mob.: 9650663775

اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ دسترس:منصور خوشتر

 

اجتبیٰ رضوی مختلف موضوعات پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سید اجتبیٰ حسن تھا اور تخلص رضوی رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش بہار کے ضلع چھپرہ میں 1908کو ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ ان کے والد سید اظہر حسین بہت مخلص او ر نیک صفت انسان تھے۔ اجتبیٰ رضوی صاحب کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی بہت ذہین و فطین تھے۔ 1925میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1927میں آئی اے بی۔ این کالج پٹنہ، 1929میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1929میں ہی ضلع اسکول چھپڑہ میں ملازمت شروع کردی۔  ملازمت کے تین سال بعد رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے اور چھ سال بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے 1937میں کلکتہ چلے گئے اور وہیں مولانا آزاد کی صحبت میں آگے کی زندگی گذارنے لگے۔ 1960سے قبل اجتبیٰ رضوی صاحب راجندر کالج چھپرہ میں شعبہ اردو کے صدر تھے اور تاریخ و فلسفے کا گہرا علم رکھتے تھے۔اس کے بعد1960میں وہ بحیثیت پرنسپل ملت کالج دربھنگہ میں اپنی خدمات دینے لگے۔ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے ذریعے ملت کالج کی صورت کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ ملت کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام بھی اپنی نگرانی میں کرایا اور کالج کو ایک صورت دی۔ 1975 میں وہ متھلا یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر منتخب ہوئے اور وہیں سے 1984میں سبکدو ش ہوئے۔ ادبی دنیا ڈاکٹر محسن رضا رضوی کی احسان مند ہے کہ انھوں نے ’ذکر اجتبیٰ رضوی‘ کے نام سے کتاب مرتب کرکے ان کی زندگی کے مخفی گوشوں کواجاگر کرنے کی بھرپور سعی کی۔ پروفیسر اجتبیٰ رضوی نے شاعری کا آغاز 1924 میں کیا۔ ان کا 1954 میں پہلا مجموعۂ کلام ’شعلۂ ندا‘ منظر عا م پر آیا۔ اس مجموعے کے چند اشعار ملاحظہ کریں       ؎

قدم بوسیِ ساقی واجب شرع محبت ہے

محبت ہی خدا ہے اور محبت ہی خداخانہ

محبت سوز موسیٰ بھی ہے سحر سامری بھی ہے

یہی وحدت کا افسوں ہے یہی کثرت کا افسانہ

***

ماضی میں حال کو سموتے جانا

سرمایۂ ممکنات کھوتے جانا

ہستی کے مسافرو! یہ کیسا دستور

ساحل پہ اتر کے نائوڈبوتے جانا

***

تماشا کی وہ ارزانی وہ گنگا وہ صنم خانہ

بنارس کی سحرا شنان کی تقریب روزانہ

حرم والے ذرا کاشی کا منظر دیکھتے جائیں

کبھی دیکھیں گے جنت اور ابھی دیکھیں صنم خانہ

اجتبیٰ رضوی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ اپنی تقریر کے ذریعے وہ بے حس دلوں میں جوش و و لولہ بھرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی نظموں کا انداز بھی اوروں سے جداگانہ ہوتا تھا۔

محسن رضا رضوی ’ذکر اجتبیٰ رضوی ‘کو مرتب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ ’شعلۂ ندا‘ 1954 کے اوائل میں ان کے قریب ترین دوست سید حسین احمد رعنا ایڈوکیٹ صدر گلی، پٹنہ سٹی نے لیبل لیتھو پریس پٹنہ سے شائع کیا۔ اس مجموعے میں رباعی، نظم، غزل اور قصیدے کے علاوہ تین عدد مثلث  اور آخر میں ابتدائی غزل گوئی کے کچھ نمونے شامل ہیں۔ رباعیات کے پانچ سلسلوں ’حکمت و حیرت‘ (79 رباعیاں) ’ساقی و مینا‘ (12 رباعیاں )، ’کوزہ و سبو‘ (6 رباعیاں)، ’نذر بارگاہ‘ (4 رباعیاں) اور ’سلک شکستہ‘ (16 رباعیاں) کے تحت کل 117  رباعیاں، منظومات کے تحت 29 پابند نظمیں، غزلیات میں دور اول(1929-1939) کے تحت 17 اور دور ثانی (1946-1954) کے تحت 25 غزلیں شامل مجموعہ ہیں۔

آزاد غزل کے بانی مظہر امام اجتبیٰ رضوی سے بہت قریب رہے۔ اپنے ایک مضمون ’اجتبیٰ صاحب‘ میں لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کو یاد کرنا اپنے ماضی کی راکھ کریدنے کے مترادف ہے۔ ماضی کی یادیں انسانی لاشعور کا بیش قیمت سرمایہ سہی مگر گردش ایام کو ہمیشہ پیچھے کی طرف موڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں بھی زوال عمر کے ساتھ یادوں کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ اس لیے اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ اہمیت کے پہلے تاثر کو یادوں کے دائرے میں لانا خاصا دشوار ہورہا ہے۔

علامہ جمیل مظہری اجتبیٰ رضوی کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی نے مجھے فلسفے اور تصوف کی چاٹ دلائی اور مجھے دشت تحیر میں تنہا چھوڑ کر خانقاہ خودی یا بے خودی میں گوشہ نشیں ہوگئے۔

(ماہنامہ ’آجکل‘ دہلی، مئی 1970)

رشید منظر اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ خصوصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’جہاں تک اجتبیٰ رضوی کی شاعری کا تعلق ہے، آپ کا انداز فکر صوفیانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ بھی ہے۔ ان کے متعلق نقادوں کا یہ خیال کہ ادق الفاظ کی کثرت نے ان کے کلام کو بھونڈا بنادیا ہے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں فارسی اور عربی کے نامانوس الفاظ کی کثرت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہایت عمدہ صاف اور پرتاثیر نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی لکھی ہیں۔ ‘‘(ماہنامہ ’صنم‘ پٹنہ، نومبر، دسمبر 1962)

اجتبیٰ رضوی کی غزلیں ان کی نظموں سے ہیئت اور انداز بیان کے اعتبار سے مختلف نوعیت کی ہیں لیکن تخیل و فکر کے اعتبار سے ان میں بہت حد تک مماثلت ہے۔ انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا ذہنی یکسوئی کے لیے پریشان رہے۔ وہ ایمان بالغیب کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا خود ان کے سامنے جلوہ گر ہوجائے۔ وہ تلاش و جستجو میں منہمک رہتے اور اس طرح کے اشعار کہتے      ؎

غبار بن کے آرزو رواں دواں ہے کو بہ کو

کہیں سے کچھ صدا تو ہو کہاں ہو تم کہاں ہو تم

اجتبیٰ رضوی کی تشکیک بسا اوقات اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ انکار و الحاد تک معاملہ پہنچ جاتا ہے۔ ان کے یہاں اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں جن میں بیزاری کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں:

ہر مذہب بے روح جسد ہے جذبے کی قلاشی ہے

راکھ کے تودے پجتے ہیں یہ کعبہ ہے وہ کاشی ہے

شرع کی قیل و قال سنی افسانہ دجلہ و حال سنا

ذہن کی وہ عیاشی ہے اور روح کی یہ عیاشی ہے

اجتبیٰ صاحب کے تجربات و مشاہدات نے یہ ثابت کیا کہ عقل کبھی کبھی گمراہی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ انھوں نے ایک عرصے تک فلسفہ و نظریات کو جن کی بنیاد عقل و فکر پر ہے اپنے لیے رہنما بنایا مگر ہمیشہ اپنے ضمیر کی تشنہ کامیوں سے الجھتے رہے۔ اس ضمن میں ایک شعر ملاحظہ کریں         ؎

وہ سوزن فکر جس نے اک دن یہ رخت تہذیب سی دیا تھا

اسی کی کاوش سے آج دیکھو یہ پیرہن تار تار بھی ہے

فکر و فلسفے سے مزین ہونے کے علاوہ اجتبیٰ رضوی کی غزلوں کا ایک حصہ غزل کا عام رنگ لیے ہوئے ہے جس میں چلتے پھرتے مضامین شامل ہیں۔ ان شعروں میں بڑی تازہ کاری اور تازہ خیالی ہے۔ ان میں اجتبیٰ صاحب اپنی خوشی اور سرشاری محبت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

مرا ذکر وفا لکھ کر مورخ یہ بھی لکھتا ہے

یہ اک رسم کہن تھی اب کہیں برتی نہیں جاتی

***

نہیں سہی مرے نالوں میں کچھ اثر نہ سہی

نظر کچھ آپ کی بے چین ہے ادھر نہ سہی

***

چمن اسے اتفاق کہہ لے گری تو ہے آشیاں پہ بجلی

نہ دو قدم آشیاں سے پیچھے نہ دو قدم آشیاں سے آگے

اجتبیٰ صاحب اپنی منظومات کی طرح اپنی غزلوں میں بھی ایک مخصوص لب و لہجے کے ذریعے اختصاص اور انفرادیت کے متلاشی ہیں اور انفرادیت کی کھوج نے ان کے یہاں ایسا تیور پیدا کردیا ہے جسے غزل کی نئی آواز کا اضافہ کہاجاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے اشعار میں فکری گہرائیوں اور فلسفیانہ نکتہ سنجیوں سے اس کی تلافی کی ہے۔  ان کے مجموعہ کلام میں بہت سے ایسے اشعار موجود ہیں جو قدیم مزاج کے غماز ہیں۔ چند اشعار        ؎

سر کو سینے پر کھ کے سن لیجے

آپ سے دل کو کچھ شکایت ہے

دل کی دھڑکن جو ہے مدارِ حیات

اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے

***

تم کو بھی بھول جائیں یہ نوبت نہ ہوسکی

واحسر تاکہ ہم کو فراغت نہ ہوسکی

اجتبیٰ رضوی نے بہت سی رباعیاں بھی کہی ہیں۔ ان کی رباعیوں میں کلاسیکی شاعری کا عمدہ عکس موجود ہے۔ عشق کلاسیکی اردو شاعری کا اہم ترین جز ہے۔ اجتبیٰ رضوی نے بھی اس موضوع کو خوبصورتی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں واردات عشق میں زیادہ تنوع نہیں ہے۔ دو رباعیاں ملاحظہ کریں       ؎

وہ دن ہی بدل گئے وہ راتیں بدلیں

وہ حسرت و آرزو کی گھاتیں بدلیں

اب ہم ہیں اور ایک عالم اے دوست

دل کیا بدلا تمام باتیں بدلیں

***

ٹھٹھرے ہوئے دل میں ہے تہیج باقی

یاریت پہ ہے نقش تموج باقی

کب کا ٹوٹا یہ ساز ارماں لیکن

ہر تار میں اب تک ہے تشنج باقی

اجتبیٰ رضوی ہم عصر سیاسی تحریکوں سے خود کو الگ تھلگ رکھا۔ انھوں نے مولانا آزاد، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو پر نظمیں لکھیں لیکن ان کی نوعیت تہنیتی سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی رباعیوں سے گمان ہوتا ہے کہ عملی طور پر علیحدگی اختیار کرنے کے باوجود انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور سماجی شعور کا نچوڑ پیش کیا۔ اس نوعیت کی ایک رباعی ملاحظہ ہو        ؎

یہ دکھ، یہ درد، یہ مصیبت، یہ گناہ

یہ قسمت نسلِ آدم گم شدہ راہ

رہبر جو ملے وہ بن کے انجم چمکے

اور رہ گئی انسان کی تقدیر سیاہ

اجتبیٰ رضوی نے تصوف سے بھی روشنی حاصل کی۔ علم ومعرفت ہی کے ذریعے ان پر خالق و مخلوق کے رشتے کا انکشاف ہوا۔ اس حقیقت کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں         ؎

ہر شمع کو گل تا بہ سحر ہوجانا

ہر قصر کو اک روز کھنڈر ہوجانا

ہر کنگر ئہ سر بہ فلک کی تقدیر

ہے سنگ سر راہ گذر ہوجانا

اس طرح اجتبیٰ رضوی کی رباعیاں ان کی زندگی کے تمام نشیب و فراز، نقش و نگار اور رنگ و بو سے مملو ہیں۔ ان میں ذاتی و کائناتی تجربے اور مشاہدے ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کی غزلیہ، نظمیہ اور رباعیاتی شاعری کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان کی شاعری جہاں ایک طرف زندگی کے گہرے اور پیچیدہ مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہے، وہیں زندگی کے عمومی مسائل بھی پوری فنکارانہ مہارت کے ساتھ اجتبیٰ رضوی کی شاعری کے موضوعات بنتے ہیں۔ وہ حقیقت کو فن اور فن کو حقیقت بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔اجتبیٰ رضوی کی سب سے خاص بات یہی ہے کہ انھوں نے شعری افق پر اپنی ایک الگ شبیہ پیش کی ہے۔ شعرائے ادب کی کہکشاں میں اجتبیٰ رضوی کو ان کی خاص لفظیات اور طرزِ اظہار سے پہچانا جا سکتا ہے۔ یہی ان کا انفراد ہے۔بلاشبہ ان کے اشعار طویل مدتوں تک یاد کیے جائیں گے۔

Mansoor Khushter

Darbhanga Times

Purani Munsafi

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9234772764