26/9/23

تدوین متن میں قرأت کے مسائل:عبدالباری

کسی قدیم متن کو مصنف کے منشا کے مطابق تحقیق و تخریج، تحشیہ و تعلیق اور مقدمے سے مزین کرکے منظر عام پر لانے کا نام تدوین ہے۔تدوین متن کو متنی تنقید اور ترتیب متن سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔تدوین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مخطوطہ یا طبع شدہ کام کو کاتب کی غلطیوں یا ملاوٹ سے پاک و صاف کرکے مصنف کے منشا کے مطابق پیش کیا جائے۔مدون جب کسی مخطوطے یا کتاب کو مرتب کرتا ہے تو اسے بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے اور بہت سے مراحل کو عبور کرنے کے بعد وہ متن کو تحریفات، الحاقات اور سرقے وغیرہ سے پاک کرپاتا ہے۔ مرتب و مدون کو جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ان میں ایک اہم اور بنیادی مسئلہ متن کی قرأت کا ہے۔اگر مخطوطہ شناسی کے فن پر عبور حاصل نہ ہو تو مدون کے لیے مصنف کی خواہش اور اس کے منشا کے مطابق متن کی تدوین مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔قرأت عربی لفظ ہے اس کے معنی پڑھنا ہوتا ہے۔تدوین متن میں اس سے مراد مخطوطات یا مصنف کی تحریر کو پڑھنا ہے مدون جب کسی مخطوطے یاکتاب وغیرہ کو مرتب کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اسی مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اس لیے  مدون متن کے لیے  قرأت کے مسائل سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔

قدیم متون کے متعدد نسخوں میں بعض الفاظ اور عبارتوں کی قرأت کاتب نے غلط کی اور نادانستہ طورپر کچھ کا کچھ لکھ دیا۔اس قسم کی بہت سی مثالیں قدیم متون میں موجود ہیں۔ اس پرمرتب متن کی نگاہ ہونی چاہیے تبھی وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ قرأتوں میں یہ اختلاف عموماً نقل درنقل کی وجہ سے ہوتا ہے کہ مصنف نے تو کچھ لکھا، بعد میں کاتب نے اسے کچھ پڑھا اور پھر وہی اس نے نقل کردیا اور اسی طرح وہ متن چھپتا رہا۔ یہ کبھی کاتب کی غلطی سے ہوتا ہے یا وہ صحیح پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر پڑھ نہیں پاتا پھر جو اسے سمجھ میں آتا ہے وہی لکھ دیتا ہے۔ہرزبان میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اردو، عربی اور فارسی میں تو ایسے لفظوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہے کہ ان زبانوں میں محض نقطوں کے فرق سے الفاظ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کے معنوں میں بھی بڑا فرق واقع ہوجاتا ہے۔قرأت کی نادانستہ غلطیوں کی بہت سی مثالیں قدیم شعری دواوین اور مجموعوں میں موجود ہیں،جیسے انتخابِ میر مرتبہ مولوی عبدالحق (طبع چہارم)میں ایک شعر ہے       ؎

ٹک سن کہ سوبرس کی ناموسِ خامشی کھو

دوچار ’دن‘ کی باتیں اب منہ کو آئیاں ہیں

بعض نسخوں میں’دن ‘ کی ’قرأت‘ دل کی گئی ہے۔خلیق انجم1  نے دل ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔

بعض الفاظ شکل وصورت میں ایک جیسے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے پڑھنے اور نقل کرنے میں غلطی رونما ہوجاتی ہے جیسے کلیاتِ سودا مرتبہ آسی میں ایک شعر ہے        ؎

جیدھر کو جس کا منھ اٹھا اودھر کو چلا

سوجھے‘بغیر یہ کہ فلاں جا کروں قرار

شعر کے سیاق و سباق اور قرینے کے اعتبار سے دوسرے مصرعے میں لفظ’سوجھے‘ غلط ہے، چنانچہ اسی کلیات کے دوسرے نسخے(نسخۂ رچرڈسن) میں اسے ’سوجھے‘ کے بجائے’سوچے‘ پڑھا اور نقل کیا گیا ہے اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔

اسی طرح قرأت کا یہ اختلاف کبھی مرکب لفظوں کے درمیان بے جا فاصلے، کبھی ایک یا اس سے زیادہ لفظوں یا حرفوں کی بے جا تقدیم و تاخیر کی وجہ سے،کبھی شعر کے مصرعوں کی ترتیب بگڑجانے کی وجہ سے،کبھی الفاظ کی تبدیلی کی وجہ سے،کبھی شعر یا مصرعے کے کسی لفظ کے چھوٹ جانے کی وجہ سے،کبھی سہواً کسی لفظ یا فقرے کو مکرر سہ کرر لکھ دینے کی وجہ سے،کبھی اس وجہ سے کہ کاتب جس زبان کا متن نقل کررہا ہے اس سے وہ کماحقہ واقف نہیں،چنانچہ وہ کسی لفظ کو غلط پڑھتا ہے اور وہی لکھ بھی دیتا ہے،کبھی کسی اہم اور خاص اصطلاح کے نقل کرنے میں کاتب سے غلطی ہوجاتی ہے،کبھی اعداد و شمار کی نقل میں غلطی ہوجاتی ہے اورکبھی محاورات و ترکیبات کو مصنف اور شاعر کے منشا کے خلاف نقل کرنے کی وجہ سے قرأت کی غلطیاں رونما ہوتی ہیں۔اسی طرح بسا اوقات کاتب جان بوجھ کر شرارت کرتا ہے اور کسی لفظ کو بدل دیتا ہے،کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے،اپنے زعم میں کسی غلط لفظ کی تصحیح کرنا چاہتا ہے اور مصنف نے جو لکھا ہے اس کی جگہ کوئی اور لفظ لکھ دیتا ہے،تذکیر و تانیث وغیرہ کے سلسلے میں مصنف کی تحریر کے برخلاف کسی لفظ کو نقل کرتا ہے یااسی قسم کی غلطیاں کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے متنی نقاد یا مرتبِ متن کو تدوین کے دوران دشواری پیش آسکتی ہے اور اسے اپنے غور و فکر اور مصنف کے دوسرے مسودوں اور کتابوں کے مطالعوں سے بہت سی چیزوں کو سمجھنا اور زیر غور متن کو اسی کے مطابق مرتب کرنا پڑے گا۔

رسم الخط اور املا کے مسائل

تدوین متن کے مسائل میں جو سب سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ایک مدون کو پیش آتا ہے وہ قدیم مخطوطات کے رسم الخط اور طرز املا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک جبکہ دنیا کی تمام زبانوں کے املا کے قواعد تقریباً متفقہ طورپر طے پا چکے ہیں، اردو میں ایسے قواعد املا کا وجود نہیں جن پر تمام اردو دنیا کا اتفاق ہو اور جنھیں سب مانتے ہوں۔حالانکہ ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر بہت سے علمی و لسانی اداروں نے بھی املا اور قواعد املا پر کام کروایا ہے، اسی طرح متعدد ماہر لسانیات اور محققین نے اپنے طورپر بھی اردو املاکے قواعد مرتب کیے اوراردو والوں کو انھیں اپنانے کی تلقین و تبلیغ کی،مگر پھر بھی کوئی ایسا اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا،جس کی وجہ سے اردو الفاظ کے املا اور رسم خط کے سلسلے میں کوئی حتمی اور تمام اردو دنیا میںمتفقہ موقف پایا جاتا ہو۔جب آج اکیسویں صدی میں یہ حال ہے تو پچھلی صدیوں میں کیا حال رہا ہوگا،اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک اسکالر کسی سو دوسالہ قدیم متن کی ترتیب و تدوین کا بیڑہ اٹھاتا ہے تو اسے جہاں دیگر بہت سی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے،وہیں اس کے لیے متن کی قرأت و تفہیم کے سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ قدیم طرز املا اور لفظوں کے رسم الخط کی وجہ سے پیش آتا ہے، کیونکہ اس مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے اس کے پاس کوئی متفقہ اصول،منظم قاعدہ اور طے شدہ ضابطہ نہیں ہوتا،اسے اس معاملے میں کلیتاً اپنے علم و فہم پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔بہت سے الفاظ تو ایسے ہیں جن کا املا پچاس ساٹھ سال قبل جو تھا اور اب وہ جس طرح لکھے جاتے ہیں،اس کو پہچاننا مشکل نہیں ہے،مگر ایسے الفاظ کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے،جن کے املا کے تعلق سے نہ ماضی میں کوئی اتفاق رائے تھا اور نہ آج کوئی طے شدہ اصول ہے،چنانچہ جس مصنف یا تخلیق کار کو جیسا بہتر سمجھ میں آتا ہے ویسے انھیں تحریر کرتا ہے۔ذیل میں اس اہم ترین مسئلے کے کچھ گوشوں پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

جیسا کہ ماقبل میں ذکر کیا گیا ہے،اردو الفاظ میں نقطوں کی بڑی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے،ان نقطوں کے ہونے اور نہ ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے معنوں میں بھی بڑی غیر معمولی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔مگر ماضی میں کاتب حضرات حروف پر نقطے ڈالنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے،جس کی وجہ سے ان متون کو پڑھنے اور سمجھنے میں بڑی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔جیسا کہ پروفیسر نذیر احمد نے لکھا ہے، ان نقطوں کی وجہ سے ان تمام زبانوں کے متون کے ساتھ یہ مسئلہ لگا ہواہے،جو عربی فارسی رسم الخط میں لکھے جاتے ہیں۔2

رسم الخط اور طرز املا کی وجہ سے متن میں بہت سی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، مثال کے طور پرمتعدد حروف صرف نقطوں کی کمی بیشی یا انھیں اوپر یا نیچے لگائے جانے سے بدلتے ہیں،ان کی شکل مفرد صورت میں کچھ اور ہوتی ہے اور مرکب صورت میں کچھ اور ہوتی ہے، جب ایسے حروف دوسرے حروف سے ملاکر لکھے جاتے ہیں تو بسا اوقات غلط پڑھے جاتے ہیں اور پھر وہی غلطی نقل درنقل چلتی رہتی ہے۔جیسے کہ ب،پ،ت،ث میں فرق صرف نقطوں کا ہے،نقطوں کی تعداد اور انھیں اوپر یا نیچے رکھنے کا،جب یہ حروف ملاکر لکھے جاتے ہیں تو شوشے کی صورت میں تبدیل ہوجاتے ہیں،ایسی صورت میں س، ش، ن،ی اور ے بھی اسی زمرمے میں شامل ہوجاتے ہیں،شوشے اگر درست طریقے سے استعمال کیے گئے ہیں تب تو ان کے درمیان امتیاز کیا جاسکتا ہے لیکن شوشے کم رہ گئے ہیں تو مشکل بڑھ جاتی ہے، جیسے دیوانِ اثر (مخزونہ جامعہ ملیہ اسلامیہ) میں ایک شعر ہے       ؎

حق تری تیغ کا ادا نہ ہوا

اپنی گردن پہ سر ’پہ‘ بار رہا

یہاں سر کے بعد ’پہ‘ کے بجائے ’یہ‘ کا موقع ہے۔ظاہر ہے کہ شاعر نے یہی لکھا ہوگا مگر کاتب کو نقطوں کا صیحح اندازہ نہیں ہوا ہوگا اور اس نے’یہ ‘ کو ’پہ‘ لکھ دیا۔

 کلیات سودا مرتبہ رچرڈسن میں ایک شعر ہے     ؎

سودا اس قوم سے کہہ بھاگیں اب اس پیشے سے

رگڑیں فرہاد صفت سر ’نہ‘ میرے تیشے سے

جب کہ کلیات سودا مرتبہ آسی میں دوسرا مصرع یوں ہے     ؎

رگڑیں فرہاد صفت سر’ یہ‘ میرے تیشے سے

یہاں نقطے کے اوپر نیچے ہونے سے مصرعے میں تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔

تذکرۂ سرور میں ایک شعر ہے:

گر ناقۂ لیلیٰ کے چرانے کی ہے خواہش

مجنوں تجھے لازم ہے لباسِ’سبزی‘ رنگ

یہاں دوسرے مصرعے میں صحیح لفظ ’شتری‘ ہونا چاہیے تھا۔ یہاں بھی شوشے اور نقطے کی وجہ سے لفظ بدل گیا ہے۔

بعض دفعہ پورا لفظ بدل جاتا ہے،جیسے میر اثر کا شعر ہے         ؎

کون پتھر ہے دل ترا ظالم

ایسے ’نالوں‘ سے جو پگھل نہ گیا

دوسرے مصرعے میں ’نالوں‘ کی جگہ کچھ نسخوں میں’باتوں‘ ہے۔

کبھی کبھی کاتب یا ناقل کسی مصرعے میں اپنی طرف سے کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے،جیسے راغب کا ایک شعر ہے       ؎

اے وائے بیٹھتے ہی یہ کیا جی میں آگیا

محفل سے اپنی تو نے ہمیں کیو ں’کر‘ اٹھا دیا

یہاں دوسرے مصرعے میں ’کیوں‘ کے بعد’کر‘ زائد ہے،کیونکہ اس کی وجہ سے مصرعے کا وزن مارا جاتا ہے۔

جب م،ق اور ف کو ملاکر لکھتے ہیں تو اس سے بھی متن کے پڑھنے اور نقل کرنے میں غلطی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے جیسے تذکرہ سرور مرتبہ خواجہ احمد فاروقی میں ایک شعر ہے         ؎

مے کے پینے سے تو ہاں ہم نے نباہی توبہ

پر’فغاں ‘ سے یہ خجل ہیں کہ الٰہی توبہ

یہاں دوسرے مصرعے میں’فغاں‘ کی جگہ ’مغاں‘ ہونا چاہیے تھا۔

یائے معروف و مجہول

اسی طرح اردو کے قدیم رسم الخط میں یائے معروف اور یائے مجہول میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا یعنی دونوں کو گول یا کے ساتھ لکھا جاتا ہے،اس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر کلیات سودا مرتبہ آسی میں ایک شعر ہے       ؎

سودا ’گلی‘ میں یاد کی گوبولتا ہے گرم

پر ہر سخن کے ساتھ دمِ سرد ہے سو ہے

جب کہ پہلا مصرع نسخۂ جانسن میں یوں ہے      ؎

سودا’گِلے ‘میں یار کے گو بولتا ہے گرم

 معلوم ہوا کہ شاعر نے یا اولین کاتب نے یائے مجہول کو گول یا کی صورت لکھا تھا،بعد میں جب آسی نے کلیات سودا مرتب کیا تو اسے یائے معروف سمجھ کر نقل کردیا،جبکہ دوسرے مرتب نے یائے مجہول کے طورپر نقل کیا ہے۔

اس یائے معروف و یائے مجہول میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بعض دفعہ بہت مضحکہ خیز صورت پیدا ہوجاتی ہے،جیسے غالب کا ایک شعر ہے       ؎

آئے‘ ہو کل اور آج ہی ’کہتے ‘ہو کہ جاؤں

مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

پہلا مصرع دیوان غالب کے نسخہ نظامی کانپور مطبوعہ 1863 میں اس طرح لکھا گیا ہے         ؎

آئی‘ ہو کل اور آج ہی ’کہتی‘ ہو کہ جاؤں

تشدید،ترکیب

قدیم متون میں حروف پر تشدید لگانے کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے بھی بہت سی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔اسی طرح قدیم متون میں ایسے بھی بے شمار الفاظ ملتے ہیں جہاں الگ الگ لکھے جانے والے دو یا ان سے زائد لفظوں کو ملاکر لکھ دیا گیا ہے،ایسے الفاظ کو پڑھنے اور سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے، جیسے کربل کتھا میں اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں:

ظلمکی (ظلم کی)

بغلمیں(بغل میں)

آہمارے کو(آہ مارے کو)

بہنکوں(بہن کوں) وغیرہ

لفظوں کو توڑ کرلکھنا

قدیم متون میں دو لفظوں کو ملاکر لکھنے کے ساتھ ایک ہی لفظ کو دو حصوں میں توڑ کر لکھنے کی روایت بھی عام رہی ہے اور اس کی مثالیں بھی بڑی کثرت سے موجود ہیں۔جیسے کربل کتھا میں ہی ’بیٹھتی‘، ’پہنتی‘، ’ٹوٹتا‘، ’ڈھونڈتا‘ اور مردانگی ‘جیسے الفاظ کو ’بیٹھ تی‘،’پہن تی‘،’ٹوٹ تا‘، ’ڈھونڈھ تا‘، ’مردانہ گی‘ لکھا گیا ہے۔ایسے ہی کلیات ناسخ میں ایک شعر ہے      ؎

دے دوپٹہ تو اپنا ململ کا

ناتواں ہوں کفن بھی ہو ’ہل کا

دوسرے مصرعے کے آخر میں ’ہل کا‘ در اصل’ہلکا‘ ہے۔

ہائے مخلوط

قدیم تصانیف میں ہائے مخلوط کا استعمال بھی بہت کم ہواہے،زمانۂ قدیم میں عموماً ایسی جگہوں پرجہاں ہائے مخلوط کا موقع ہوتا تھایاتو ہا استعمال نہیں کرتے تھے یا لٹکن والی ہا ہی استعمال کرتے تھے، اب آج کے زمانے میں ایسے متون کو پڑھتے ہوئے الجھن ہونا فطری ہے کیوں کہ ہم اس کے عادی نہیں ہیں۔ محمود شیرانی نے اپنے مرتبہ ’مجموعۂ نغز‘ کے رسم الخط پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ کی نشان دہی کی ہے جن میں ہائے مخلوط کا استعمال نہیں کیا گیا ہے،جیسے:

مجکو(مجھ کو)

اونگ(اونگھ)

سونگ(سونگھ)

پگلانا(پگھلانا)

ہاتوں(ہاتھوں)

مصوتوں کا مسئلہ

اسی طرح اردو رسم الخط میں بعض مصوتوں کے لیے باقاعدہ حروف نہیں ہیں بلکہ زیر زبر اور پیش سے ان کے تلفظ کا تعین کیا جاتا ہے۔اب پرانے متن میں ایک لفظ مستعمل ہے اور اس پر کوئی حرکت نہیں لگائی گئی ہے تو اس زمانے کے حساب سے اس کے تلفظ کا تعین تقریباً ناممکن ہے۔اردو میں ایسے الفاظ بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کے مصوتے بدل جانے سے ان کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مرتب متن کی ذمے داری ہے کہ وہ بڑی باریک بینی سے متن کو پڑھے اور حسب موقع و محل درست تلفظ طے کرنے کی کوشش کرے۔اعراب بالحروف کا رواج بھی قدیم زمانے میں عام تھاجیسے زیر کی جگہ ’ی‘ اور پیش کی جگہ’و‘ استعمال کرنا،اس پر بھی مرتب متن کی نگاہ ہونی چاہیے۔

عام طرز کے برخلاف املا

بعض دفعہ قدیم تحریروں میں روشِ عام کے برخلاف انفرادی طرزِ املا بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔مثلاً بالخیر، باللہ، بالکل اور بالفعل،بالکلیہ وغیرہ جیسے الفاظ جو عربی سے اردو میں منتقل ہوکر اب اردو ہی ہوگئے ہیں،ان کا املا عموماً اسی طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوایعنی ب اور لام کے درمیان الفِ غیر ملفوظ کے ساتھ، مگر بعض لوگ اس الف کو بھی لکھنے کا اہتمام کرتے ہیں یعنی ’بالفعل‘ کو ’باالفعل‘ لکھتے ہیں اور ’بالکل‘ کو ’باالکل‘ لکھتے ہیں۔آج کل تو اگر کوئی ایسے لکھے تو اسے لاعلمی پر محمول کیا جاتا ہے مگر قدیم عہد میں متعدد مصنفین و شعرا اس طرز املا پر ہی عمل پیرا تھے،جیسے حنیف نقوی کی تحقیق کے مطابق مرزا غالب نے ایسے تمام الفاظ کو الف کے ساتھ ہی لکھا ہے۔3

گول اور لمبی ت

گول اور لمبی ت(تائے قرشت اور تائے مدورہ) میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بھی قدیم متون کو پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔دراصل عربی میں دو قسم کی تائیں ہیں ایک مدورہ یعنی گول تا جو کہ وقفے کے موقعے پر ہا سے بدل جاتی ہے اور ایک ہے تائے قرشت یعنی لمبی تا جو ہمیشہ پڑھی جاتی ہے۔اردو میں جو ’تا‘ پڑھی اور بولی جاتی ہے وہ عموماً لمبی تا کے ساتھ لکھی جاتی ہے،ورنہ ’ہ‘ لکھی جاتی ہے،مگر عربی کی تقلید یا تاثر کے نتیجے میں بہت سے الفاظ مثلاً ’صلوۃ،زکوۃ ‘وغیرہ گول تاسے بھی لکھے جانے لگے ہیں،یہ چیزیں بھی مرتب متن کے ذہن میں ہونی چاہیے۔

کاف اور گاف

قدیم طرز املا میں بعض دفعہ کاف اور گاف کے درمیان فرق و تمیز کا بھی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ سے بھی بعض متون کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے،کیوں کہ اگر گاف کی جگہ کاف پڑھ لیا اور کاف کی جگہ گاف پڑھ لیا تو معنی میں بڑی تبدیلی واقع ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اور لفظوں کی ہیئت پوری طرح بدل جاتی ہے۔جیسے کہ ’باگ‘ اور ’ٹوٹ‘ کی ترکیب سے ایک لفظ بنا ہے ’بگٹٹ‘، اس لفظ کو ’فسانۂ عجائب‘ کے بعض نئے ایڈیشنز میں ’بکٹت‘ لکھا گیا ہے، یعنی یہ بالکل نیا ہی لفظ بن گیا ہے۔ ایک اور لفظ’لگان‘ جس کے معنی دریا کے کنارے کشتیوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ کے ہیں،نئے ایڈیشنز میں ’تکان‘ بنادیا گیا ہے،ظاہر ہے کہ اس سے نہ صرف لفظ بدلا بلکہ اس کے معنی بھی کلیتاً مختلف ہوگئے ہیں۔اس طرح کی بہت سی مثالیں قدیم متون کے نئے پرانے نسخوں میں موجود ہیں۔جیسے شورش عظیم آبادی کے تذکرے میں ایک جگہ میر کا درج ذیل شعر اس طرح منقول ہے      ؎

جو ترے کوچے میں آیا پھر نہیں کاڑھا اسے

تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاک دامن گیر کا

پروفیسر محمود الٰہی کے مرتبہ ایڈیشن میں ’کاڑھا‘ کو ’گاڑھا‘ بنادیا گیا ہے اور اس مناسبت سے ’نہیں‘ کو’یہیں‘ بنادیا گیا ہے۔

کیجیے اور کیجے،ایدھر اور ادھر،یاں اور یہاں

عام طورپر اشعار میں کہیں ’کیجیے‘ کا موقع ہوتا ہے اور کہیں ’کیجے‘ کا۔اس کا تعلق وزن شعری سے ہے،اگر ذرا بے توجہی برتی جائے یا کاتب کو شعر و سخن سے کوئی انسیت نہ ہو تو وہ کیجے کو کیجیے لکھ دیتا ہے اور اس کی وجہ سے شعر کا وزن بگڑ جاتا ہے۔اس کی مثالیں قدیم شاعری میں بھری پڑی ہیں۔یہی حال ایدھر اور ادھر،یاں اور یہاں، واں اور وہاں کا ہے۔ اسی طرح کسی لفظ کے آخر میں اگر ’نون‘ ہے تو اس کو ظاہر کرنا ہے یا نون غنہ کے طورپر پڑھا جائے گا یہ بھی اگر واضح نہ ہو تو شعر کی موزونیت متاثر ہوتی ہے اور بعض دفعہ معنی میں بھی خرابی واقع ہوجاتی ہے۔

املا اور رسم الخط کے اختلاف اور قدامت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ا ن مسئلوں کی وجہ سے ایک ہی متن کے مختلف نسخوں میں بعض الفاظ کی شکلیں بدل جاتی ہیں، عبارتیں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے معنوں میں تبدیلی کا بھی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں مرتب متن کے لیے بڑی آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف قرأتوں والے ایک ہی متن کے متعدد نسخوں میں سے کس کو اختیار کرے یا ان کی تصحیح کا فریضہ کیسے انجام دے۔ایسے موقعے پر علمی وسعت کے ساتھ بڑی گہری بصیرت اور دانش مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلیق انجم نے اس کی مختلف شکلوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقوں کی نشان دہی یوں کی ہے:

  1.      اگر ایک نسخے کی قرأت میں ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جو مصنف کے عہد میں رائج نہیں تھا یا کم رائج تھا یا اس کا تلفظ مختلف تھا اور دوسرے نسخے کی قرأت اس عہد سے زیادہ قریب ہے تو دوسری قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔
  2. ایک بامعنی قرأت کو بے معنی قرأت پر ترجیح دی جائے گی۔
  3. اگر کسی قرأت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ زائد ہیں تو دوسری قرأت قابل ترجیح ہوگی۔
  4. اگر کسی قرأت میں ایک یا اس سے زیادہ الفاظ حذف ہوگئے ہیں تو دوسری قرأت کو ترجیح حاصل ہوگی۔
  5. اگر ایک قرأت با معنی ہے لیکن سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہے اور دوسری ہے،تو دوسری کو ترجیح ہوگی۔
  6. اگر کوئی قرأت کاتب کی غلطی سے مکرر ہوگئی ہے تو اس قرأت کو ترجیح دیں گے جو مکرر نہ ہو۔
  7. یہ ممکن ہے کہ دو نسخوں میں ایک مقام پر ایسی دو قرأتیں آجائیں، جن میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہو تو ایسی صورت میں بنیادی نسخے کی قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔جیسے دیوان تاباں کا ایک شعر ہے    ؎

کس پری رو نے ’چرایا‘ دل مرا معلوم نئیں

ڈھونڈھتا ہوں کیا ہوادل،ہائے دل،افسوس دل

بعض نسخوں میں پہلے مصرعے میں’چرایا‘ کی جگہ’چھپایا‘ بھی منقول ہے اور یہ دونوں ہی لفظ بامعنی اور موقع کے مناسب ہیں،ایسی صورت میں مرتب متن کو چاہیے کہ بنیادی نسخے میں جو قرأت ہو اسی کو ترجیح دے۔ 4

حواشی

  1. متنی تنقید،خلیق انجم،ص64
  2. تصحیح و تحقیق متن،پروفیسر نذیر احمد،ص18
  3. تحقیق و تدوین:مسائل و مباحث،پروفیسر حنیف نقوی، ص150
  4. متنی تنقید،خلیق انجم،ص98

Abdul Bari Qasmi

C-145/1, GF, Tayyab Lane

Shaheen Bagh, Jamia Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

Email.: abariqasmi13@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں