بقول پروفیسر محمد شاہد حسین:
’’جب
ہم کسی جذبے، خیال، معلومات یا محسوسات کو دوسرے تک بھیجتے ہیں تو اسے مشترک کر تے
ہیں گویا اس میںدوسروں کو شریک کر تے ہیں لہٰذا خیالات اور تجربات ومحسوسات میں دوسروں
کو شریک کر نے کا عمل ترسیل کہلاتا ہے۔‘‘2
ویربالا اگر وال اور وی ایس گپتا نے ترسیل کو تصورات، خیالات،
عقائد، معلومات اور نظریا ت کے باہمی تبادلے سے تعبیر کیا ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے
:
’’ترسیل
اطلاع بھیجنے یاحاصل کر نے کا عمل ہے۔ یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم انسانی رشتوں
کو ہموار کر تے ہیں اور فروغ دیتے ہیں۔‘‘3
دراصل ترسیل تقریر، تحریر اور اشاروں کے ذریعے رائے، خیالات
اور معلومات کے تبادلے کا نام ہے۔ ترسیل وہ عمل ہے جس سے فرد کو اجتماعیت حاصل ہوتی
ہے۔ یہ شخصی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور اسے
نئی سوچ عطا کرتی ہے۔ اس سے انسان کو غور وفکرکرنے کے نئے انداز مہیاہوتے ہیں جس کا
اثر پورے سماج پرہوتاہے۔ جس طرح ایک انسان کے پھلنے پھولنے کے لیے غذا ضروری ہے ٹھیک
اسی طرح معاشرتی ترقی کے لیے ترسیل اور عوامی ترسیل بھی ضروری ہے۔ ترسیل سماج کے بنیادی
ڈھانچے میں اسی طرح پیوست ہے جس طرح انسان کی نسوں میں خون۔ یہ انسان پر ایسا تاثر
چھوڑتی ہے جس سے انسان اپنی شخصیت میں نمایاں تبدیلی لاکر خود سماجی تبدیلی کا باعث
بن جاتا ہے۔
ترسیل ایک فطری عمل ہے۔ یہ انسانی
زندگی اور سماج کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کے بغیر معاشرتی زندگی اور سماجی چہل پہل نا
ممکن ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ترسیل کے بغیر انسان کا وجود رہنا ہی مشکل ہے تو
ہر گز بے جا نہ ہو گا۔ ترسیل کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی تخلیق۔
ترسیل انسان کی تاریخ کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے۔ انسان کی تاریخ کے ارتقا کے ساتھ ساتھ
ترسیل کی تاریخ بھی پروان چڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کی ترقی کے ساتھ ترسیل
کے اقسام اور ہیئت میں بھی دن بہ دن وسعت ہوتی رہی ہے۔
کلام اور غیر کلام کے اعتبار سے ترسیل کو کلامی اور غیر
کلامی ترسیل میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔ کلامی ترسیل میں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جبکہ
غیر کلامی ترسیل میں اشارے، کنایے میں پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں۔ اس میں باڈی لینگویج
کا بڑا دخل ہے۔ چہرے کے تاثرات، آنکھوں کے
اشارے، ہاتھوں اور پیروں کی حرکات وسکنات، سر کی جنبش وغیرہ اس میں شامل ہیں۔
عمومی طور پر ترسیل کی پانچ قسمیں، اندرون ذاتی ترسیل، شخصی
ترسیل، جماعتی ترسیل، طبقاتی ترسیل اور عوامی ترسیل بیان کی جاتی ہیں۔ ’اندرون ذاتی
ترسیل‘ ترسیل کی سب سے قدیم قسم ہے۔ اس کی تاریخ اس وقت سے مانی جائے گی جب سے انسان
کی تخلیق ہوئی ہے۔ ’اندرون ذاتی ترسیل‘ میں ایک انسان بذات خود اندرون میں اپنے حواس
کے مطابق ضرورت کی چیزوں کو طلب کرتا ہے۔ حسیاتی نظام کے تحت دماغ کسی پیغام کو پورے
جسم میں پھیلاتا ہے اور اس کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔
بین شخصی ترسیل میں دو لوگ آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ مگر
کبھی کبھار دو سے زائد لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ دو سے زائد کے حلقے میں بھی بروقت دوہی
لوگ بات چیت کرتے ہیں۔ لوگوں کے اس حلقے میں سورس اور رسیور(مرسل اور مرسل الیہ) میں
فور ا تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
جماعتی ترسیل میں جماعت کا اعتبار ہوتا ہے اس میں دو سے
زائد افراد کے درمیان ترسیل کا عمل انجام پاتا ہے۔ ترسیل کی اس قسم میں سورس اور رسیور
کے درمیان ایک واضح رشتہ ہوتاہے۔ اس ترسیل میں رسیور کی تعداد گنتی کی جا سکتی ہے۔
جبکہ طبقاتی ترسیل ایک بڑے مجمع کے درمیان ہوتی ہے۔ اس میں رسیور کی تعداد کی گنتی
نہیں کی جا سکتی ہے مگر ان کا تخمینہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کی ایجاد
سے پہلے اس ترسیل کو عوامی ترسیل کے نام سے بھی جا نا جاتا تھا۔ مگر جدید سائنسی ایجادات
کے بعد اس ترسیل کا نام طبقاتی ترسیل اورجد ید دور کے ذرائع ابلاغ کو عوامی ترسیل میں
شمار کیا گیاہے۔
’عوامی
ترسیل‘ ترسیل کی سب سے جدید ترین قسم ہے۔ عوامی ترسیل کو انگریزی میںMass
Communication کہتے ہیں۔ اس ترسیل میں رسیور کی تعداد کی گنتی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی
اس کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ عوامی ترسیل میں اخبار، رسائل وجرائد، پمفلیٹ، ریڈیو،
ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا وغیرہ شامل ہیں۔
’شرلی
بیاگی ‘کہتے ہیں:
’’عوامی
ترسیل مواصلات کے مختلف ذرائع جیسے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا وغیرہ کو
کسی ایک وقت میں استعمال کرکے متنوع آبادی کے ایک بڑے حصے تک معلومات پہنچانے اور
ان کا تبادلہ کرنے کا ایک عمل ہے۔‘‘4
اسٹڈی ڈاٹ کام کے تحت:
’’ عوامی
ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک شخص یا لوگوں کا ایک گروپ یا کوئی ادارہ مواصلات
کے ایک چینل(ذرائع) کے ذریعے گمنام اور متضاد لوگوں اور تنظیم کے ایک بڑے گروپ کو پیغام
بھیجتا ہے۔5
محمدشاہد حسین اور اظہار عثمانی کی کتاب ’اردو اور عوامی
ذرائع ابلاغ‘ میںعوامی ترسیل کی تعریف یوں ہے کہ:
’’عوامی
ابلاغ کے ذریعے اطلاعات، خیالات، تجربات، فکرونظریات،علوم وفنون، تفریحی مواد، حالات
حاضرہ،عوامی مسائل اور دیگربہت سی چیزوں کو ایک بڑے اور مختلف النوع انسانی گروہ تک
بیک وقت کسی ایسے ذرائع سے پہنچایا جائے جو اس کے لیے اختراع کیا گیا ہو۔ 6
ان تمام تعریفوں کا لب لباب یا پھر یوں کہیے کہ مرکزی خیال
یہ ہے کہ عوامی ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس میں بیک وقت پیغام کو چینل کے ذریعے بڑے پیمانے
پرمعلوم یا نا معلوم متعدد لوگوں تک پہنچایا جا ئے۔ عوامی ترسیل کے چینل میںاخبار،
ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر محمد شاہد حسین کہتے ہیں :
’’مختصر
یہ ہے کہ ہم ان ہی چیزوں کو عوامی ابلاغ کے ذرائع مانتے ہیں جو فنی اور تکنیکی طور
پر پیغامات کو عوام کے بڑے گروہ تک بیک وقت پہونچانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔‘‘7
عوامی ذرائع ابلاغ کے اجزائے ترکیبی میں سورس، میسج (پیغام)،
چینل، رسیور، فیڈبیک اور بریئر(رکاوٹ) شامل ہیں۔
ٹیکنالوجی کا معنی ومفہوم
ٹیکنالوجی کی تعریف میں ماہرین کی مختلف آرا رہی ہیں۔ آکسفورڈ
ڈکشنری کے مطابق :ٹیکنالوجی
سائنسی علم سے تیارکردہ مشینیں اور آلات ہیں۔ جبکہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا
گیا ہے:
’’ ٹیکنالوجی
انسانی زندگی کے عملی مقاصد کے لیے سائنسی علم کا استعمال ہے۔یہ انسانی ماحول اور سرگرمی
کی تبدیلی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔‘‘8
دراصل ٹیکنالوجی سائنس اور معلوما ت کے فنی اور عملی استعمال
کو کہا جا تا ہے۔ اس شعبۂ علم کے دائرے میں وہ تمام آلات،تمام دستور العمل یا طریقۂ
کار بھی آجاتے ہیں جو علمی استعمال سے متعلق ہو تے ہیں۔ عوامی ترسیل کے تعلق سے ٹیکنالوجی
سائنس اور معلومات کے اس فنی اور علمی استعمال کو کہیں گے جسے ترسیل کے تعلق سے عمل
میں لایا جا تا ہے۔ اس ضمن میں وہ تمام مشینیں اورآلات ٹیکنالوجی میں شامل ہوں گے جو
ترسیل کے عمل میں ضروری ہیں۔
ترسیل کے تعلق سے جہاں تک نئی ٹیکنالوجی کی بات ہے توہر
زمانے میں عوامی ترسیل کے لیے جو جداگانہ طریقۂ کار، نئے آلات اور مشینیں استعمال
کی گئیں ہیں اسے ترسیل کے عمل میں نئی ٹیکنالوجی کہیں گے۔پرنٹ مشین آجانے کے بعد1609
سے مطبوعہ صحافت کی شروعات ہوئی یا پھر 1780میں ہکی (Hicky)نے بنگال گزٹ اخبار نکالاتو
یہ اپنے اپنے وقت میں عوامی ترسیل کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی تھی۔ اسی طرح جب ٹیلی ویژن
ایجاد کیا گیا اور اس سے عوامی ترسیل کا کام لیاجانے لگا توترسیل کے لیے یہ بھی ایک
نئی ٹیکنالوجی تھی۔ آج کے دور میںعوامی ترسیل کے لیے جدید ترین کمپیوٹر، انٹرنیٹ،
ویب ایپلی کیشن، سافٹ ویئروغیرہ جو استعمال ہو رہے ہیں آج سے پندرہ،بیس سال پہلے ہم
ان سے واقف نہیں تھے۔ بلا شبہ یہ ہمارے دور میں ایک نئی ٹیکنالوجی ہے۔
عوامی ترسیل اور نئی ٹیکنالوجی کا باہمی ربط
چینل(ذرائع) کا تعلق مشینوں سے ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کا
تعلق بھی مشینوں سے ہے۔ بذات خود ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے
جبکہ عوامی ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں عوامی ترسیل نئی ٹیکنالوجی
پر بہت زیادہ منحصرہے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر عوامی ترسیل کا وجود ناممکن ہے۔ عوامی ترسیل
کو وسعت دینے اور تیز رفتار کرنے میں نئی ٹیکنالوجی نے فعال کر دار نبھایا ہے۔ پہلے
عوامی ترسیل میں کوئی خاطر خواہ وسعت اور تیزی نہیں تھی۔ریڈیو،ٹیلی ویژن اور اخبارات
سے عوامی ترسیل کا کام انجام دیاجا رہا تھا۔ اس ترسیلی نظام میں بہت زیادہ وقت لگتا
تھا اور کئی بار خبروں کے حقائق تک پہنچنابھی ایک مشکل کام تھا۔
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جہاں ہر میدان میں انقلاب
آیا وہیں عوامی ترسیل کے ذرائع (چینل) پر بھی اس کا اثر نمایاں ہو ا۔ گذشتہ تین چار
دہائیوں میںسائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی (حالانکہ دوسرے ممالک
میں اس سے قبل ترقی شروع ہوگئی تھی)۔ اس دوران
انسانی تاریخ میں ترقی کا پہیابڑی تیزی سے گھوما اور پھر نئی ٹیکنالوجی کے راستے ہموار
ہوئے۔ آج کا دورتو یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجی عوامی ترسیل کا ایک لازمی جز یا پھر یو
ںکہیے کہ پورے جسم میں انھیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ جدیددور میں سماجی
تبدیلی اور ارتقا میں نئے حرفیاتی نظام کا اہم رول رہا ہے۔ مارشل میک لوہان نے اپنی
کتاب Media'
Understanding 'میں لکھا ہے کہ:
’’ سماج
کو نئی شکل دینے میں فکر سے کہیں زیادہ میکانیکی ذرائع کا ہاتھ ہے جو فکر کی نشرواشاعت
کو ممکن بناتے ہیں۔ الیکٹرونک انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی گراف، ٹیلی فون، ریڈیو،ٹیلی
ویژن فلم اور کمپیوٹر ہماری تہذیب کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ اس سے قبل پرنٹ میڈیا نے
یہ اہم رول ادا کیاتھا۔‘‘9
میڈیا کے اقسام
میڈیا کے اقسام یوں تو دو یعنی ’پرنٹ میڈیا‘ جیسے کتاب،
اخبار، رسائل اور ’الیکٹرونک میڈیا‘ جیسے ٹیلی ویژن، ریڈیو، ٹیلی فون وغیرہ بیان کیے
جاتے ہیں مگر دور جدید میں میڈیا کو ’روایتی میڈیا‘ (Traditional Media) اور ’نیا میڈیا‘ (New
Media)میں
تقسیم کیا گیا ہے:
µ روایتی میڈیا میں عوامی ترسیل کے وہ تما م ذرائع
ہیںجو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے پہلے رائج تھے۔اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، پرنٹ میڈیاجیسے
اخبارورسائل وغیرہ شامل ہیں۔
µ نیا میڈیاعوامی ترسیل کے ان ذرائع کو کہتے ہیں
جس میں کمپیوٹرٹیکنالوجی کے ذریعے الیکٹرونک مواصلات کی مختلف قسم کو بروئے کار لایا
جائے۔ اسے ڈیجیٹل میڈیا کے نام سے بھی موسوم کیا جا تا ہے۔ اس میں ویب ایپلی کیشن ہائبرڈ(web
application hybrid)،انٹرنیٹ آرٹ،ملٹی میڈیا سی ڈی رومس (Multimedia
CD-ROMs)، سافٹ
ویئر، ویب سائٹس جیسے بروشروائر، بلاگ اور ویکیز، ای میل اور اٹیچمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
سوشل میڈیا اور نیو میڈیا میں فرق
سوشل میڈیا نیو میڈیا کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہ آن لائن کمیونٹی
کے مابین بات چیت کا ایسا ذریعہ ہے جس میں معلومات اور خیالات کے تبادلے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے علاوہ عوامی ترسیل میںرسیور (مرسل الیہ) مجہول (Passive
position) ہو
تا ہے جبکہ سوشل میڈیا میں رسیورسینٹر یعنی معروف ہو تا ہے۔ فیس بک، ٹیوٹر،انسٹا گرام،
اسنیپ چیٹ(Snapchat)، یوٹیوب، اور وی میو(Vimeo)، سوشل میڈیا کے اہم
پلیٹ فارم ہیں۔
عوامی ترسیل کی زبان
ابلاغ وترسیل میں زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔
ترسیل کی تمام قسموں میں یوں تو زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے مگر عوامی ترسیل میں زبان
کی اہمیت اور ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ زبان کے بغیر موثر طور پر عوامی ترسیل کا عمل ناممکن
ہے۔ حالانکہ عوامی ترسیل کے اجزاء ترکیبی ’سورس (مرسل )چینل (ذرائع) پیغام، رسیور
(مرسیل الیہ) فیڈبیک اور بریئر(رکاوٹ )‘ میں ’زبان‘ کو جگہ نہیں دی گئی ہے مگر پھر
بھی ہمیںعوامی ترسیل میں زبان کو اہمیت دینی ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیر عوامی ترسیل کا
عمل پتھر میں جونک لگانے کے مترادف ہے۔ انجم عثمانی کہتے ہیں:
’’ترسیل صرف بات کہہ دینا(چاہے وہ تصویرکی زبانی
ہو،لفظ کے ذریعے ہویاعمل وحرکت کے ذریعے) نہیںہے، بلکہ بات کا پہنچنا بھی ضروری ہے۔جہاں
بات دوسرے تک منتقل نہ ہو پائے وہاں ترسیل نہیں ہوگی۔‘‘10
بسااوقات اشارے،کنایے اور حرکات وسکنات وغیرہ کے ذریعے بھی
ترسیل کا کام لیا جاتا ہے مگر ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔
عوامی ترسیل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں اخبار، ریڈیو،
ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی ترسیل کی زبان کے کوئی
خاص اور متعین اصول وضوابط نہیںہیں جس کی روشنی میں پیغام آسانی سے مرتب کیا جاسکے۔
اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاہر ایک کی الگ زبان، حدود اور تقاضے
ہیں۔
عمومی طورپر عوامی ترسیل کی زبان سادہ اور آسان ہونا چاہیے۔
اس میں الفاظ وجملوں کی تکرار نہیں ہونی چاہیے۔ اضافت اورمترادفات کے استعمال سے بچنا
چاہیے۔ تحریر و تقریر میں ربط اور جملے کے اختصار کے ساتھ ان کی ساخت وتراکیب سہل ہونا
چاہیے۔ مروجہ اصطلاحات کے استعمال کے ساتھ عربی،فارسی،سنسکرت اور انگریزی کے ایسے الفاظ
کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے جو نامانوس اور مشکل ہوں۔ اخبار کی زبان آسان اور
روز مرہ کی زبان ہونی چاہیے تاکہ رسیور کو پہلی نظر ہی میں بات سمجھ میں آجائے۔کتابی
زبانوں سے بچنا چاہیے۔ سہل اور آسان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ غیر معیاری ہونی
چاہیے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی زبان میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ عام
طور پر اخبار کا قاری تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہوتا ہے مگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے رسیور
(مرسل الیہ)ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بالکل بھی پڑھے لکھے نہ ہوں۔یہاں ایک بار بات نکل
جانے کے بعد اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔اس لیے یہاں زبان کے ربط اور منطقی ترتیب
کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
سماج پرعوامی ترسیل اورنئی ٹیکنالوجی کے اثرات
بلاشبہ نئی ٹیکنالوجی ہماری معاشرتی زندگی پر بہت زیادہ
اثر انداز ہوئی ہے۔ اس نے ہماری سماجی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کو بڑے
پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ سماجی تبدیلی،رائے عامہ کی تشکیل اور اسے ہموار کرنے میں نئی
ٹیکنالوجی کا بڑا دخل ہے۔افراد کی ذہنی نشوونما،سیاسی بصیرت،سماجی شعورکی بیداری اور
کر دار سازی میں ٹیکنالوجی کا اہم رول ہے۔آج پوری دنیا مارشل میکلوہان(Marshall
McLuhan) کے
بقول ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ہمارے ملک کی بات چھوڑیے ہم سکنڈوں میں دوردراز ممالک
اور جگہوں کی حالت سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ ایک کلک میں ہم ان کی معاشرتی زندگی، سیاسی
خدوخال، بازاروں میں اشیا کی قیمتوں اور اتارچڑھائوکے بارے میں آسانی سے جان سکتے
ہیں۔ وہاں موجود لوگوں سے ویڈیو اور آڈیو کالنگ کے ذریعے بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔
تعلیم کی تحصیل وترسیل اور فروغ میں نئی ٹیکنالوجی ایک جزء
لاینفک ہے۔ تعلیمی میدان میں انقلاب نئی ٹیکنالوجی کا ہی مرہون منت ہے۔ ٹیکنالوجی کے
بغیر آج تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ نئی ٹیکنالوجی
سے ہمارے سماج پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت غلط اور گمراہ
کن چیزوں نے ایک مہذب سماج کا تانابانااور عظمت کو مجروح کیا ہے۔ غلط بیانی، جھوٹ اور
افواہوں کی تشہیر وترسیل کرکے آپسی بھائی چارے اورقومی یکجہتی کو تار تارکیا ہے۔ گویا
ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی دو دھاری تلوارہے یا پھر ایک ایسا چاقو ہے جس سے
اچھے اور برے دونوں طرح کے کام لیے جا سکتے ہیں۔ گویا یہ ایک آگ ہے جس سے ہم فائدہ
اٹھا کر اپنی زندگی کو سلامت رکھ سکتے ہیں اور ان کا غلط استعمال کرکے زندگی کے نشیمن
کو خاکستر بھی کر سکتے ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی اپنے دامن میں روشنی اور تاریکی دونوں کو
سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ ان کا استعمال انھیں اچھا
یا برا بنا دیتا ہے۔نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والوں کے اوپر ہے کہ وہ کس کا انتخاب
کرتے ہیں۔ان کی روشنی سے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک ا ورسماج سے بھی اندھیرے کو مٹا
کر تعمیری کام انجام دے سکتے ہیں وہیں ان کے منفی استعمال سے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ
ملک ا ورسماج کو گمراہ بھی کرسکتے ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی سے ہمارے سماج میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔
ایک طرف اگر اس سے نئی نسل میں اخلاقی گراوٹ،اقدار کی پامالی اور جرائم میں اضافہ ہو
اہے تو دوسری طرف اس نے سماج کا ایک آئینہ بن کر اس کا تحفظ بھی کیا ہے۔ مستقبل کے
مسائل سے نبر دآزما ہونے کے راستے بھی ہموار کیے ہیں۔یہ صرف ہمیں باخبر کرکے نئی فکر،نئے
شعور سے ہم آہنگ ہی نہیں کراتی بلکہ تجربات میں وسعت پیدا کرکے نئے چیلنجز قبول کرنے
کے لائق بھی بناتی ہے۔ معاشرتی،سیاسی اور اقتصادی حالات کی صحیح تصویر کشی کرکے معاشرے
کا عکس عوام کے سامنے پیش بھی کرتی ہے،تاکہ عوام صورت حال کے مطابق لائحہ عمل تیار
کر سکے۔
غرض کہ نئی ٹیکنالوجی عوامی ترسیل کے ساتھ انسانی زندگی
کے لیے ایک لازمی شے بن چکی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ٹیکنالوجی کے بغیر آج عوامی ترسیل کا
وجود ناممکن ہے۔ اس کی اہمیت وافادیت موجودہ دور میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی
شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔نئی ٹیکنالوجی کے نقصانات کومدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی
شخص شترمرغ بن کر اپنا سر ریت میں چھپا لے کہ آندھی نہیں آئے گی تویہ اس کی خام خیالی
ہے۔ ٹیکنالوجی انسانی زندگی پراپنی گرفت مضبوط کر چکی ہے اور آگے بھی اس کے دائرے
پھیلتے جائیں گے۔بل گیٹس نے’ انٹرنیٹ از دی فیچر‘ میں لکھا ہے کہ:
’’انٹرنیٹ
ایک تلاطم خیز لہر ہے جو کمپیوٹر انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس
لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے اس میں ڈوب جائیں گے۔‘‘11
حواشی
- اردو میڈیا: پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین،مضمون: او پی ورما، این سی پی یو ایل،2014، ص 1
- ابلاغیات/پروفیسر محمد شاہد حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی، 2020، ص 3
- اردو میڈیا، ص 37
- Media/Impact: An Intoduction to Mass Media By Shirley Biagi, Belmont, CA: Wadsworth,1988, Page No:7/8,
- اسٹڈی ڈاٹ کام،لفظ:’ماس کمیونی کیشن ‘
- ,7 اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ/محمد شاہد حسین،اظہار عثمانی، اردو اکادمی دہلی،2007، ص 8-9
- انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا،لفظ ’ٹیکنالوجی ‘
- عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیر وترقی، دیویندر اسر،مترجم : شاہد پرویز،،این سی پی یو ایل، 2012، ص 14
- ٹیلی ویژن نشریات: تاریخ، تحریر، تکنیک: انجم عثمانی، فیصل انٹر نیشنل، 2008، ص 18
- عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیر وترقی: دیویندر اسر،مترجم : شاہد پرویز، این سی پی یو ایل،2012، ص
Wasiqur
Rahman
Delhi UIniversity
Delhi- 110007
Mob.: 9113704556
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں