30/11/23

ناول ’نوحہ گر‘ کا بیانیاتی اسلوب: انجم قدوائی

ذات کا کرب جب سماجی خارزاروں کے درمیان لہو لہان ہوتا ہے تو وہیں کسی درد کی لہر سے ایک روشنی کی کرن بھی پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی سے ہر جانب اجالا پھیلانے کی کو شش میں اپنا  وجود فراموش کر دینا،یہ ہے ''نوحہ گر ''۔

 آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ذوق سخن اور ذوق قلم دونوں کا معیار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور خاص کر اردو زبان کے شیدا  ناپید ہوتے جا رہے ہیں، ایسے پر آشوب دور میں یہ عظیم و ضخیم ناول منظر عام پر آیا ہے جس وقت کسی پختہ اورحقیقی تحریرکی اشد ضرورت ہے۔یہ ناول علم و ادب کے پیاسوں کے لیے ایک میٹھی ندی کے مانند اپنے جملوں اور منظر نگاری سے سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔میں نسترن فتیحی صاحبہ کے نئے ناول’’ نوحہ گر ‘‘ کا ذکر کر رہی ہوں۔ جسے ایجویشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے۔504 صفحات پر مشتمل یہ ناول جب ایک بار آپ پڑھنا شروع کر دیں تو اس طرح اس ناول کی دنیا کا حصہ بن جائیں گے جیسے آپ وہیں کہیں موجود ہیں۔

یہ ناول حاشیے پر رہنے والے ان قبائیلیوں کو موضوع بنا کر لکھا گیا  ایک ایسا بیانیہ ہے جو مظلوموں کی بے کسی کو نشان زد کرتا ہے۔ جن کے مسائل اور جن کی زندگی کو ہمارے نظام نے حاشیے پر چھوڑ دیا ہے۔جو ہمارے ہی درمیان رہتے ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے یا انہیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا ،مگر اس کا موضوع ان قبائیلیوں تک محدود نہیں ہے یہ کہانی بہار کے ایک بے حد پچھڑے ہوئے علاقے سے شروع ہو کر حالیہ سیاست کے دہلی کے منظر نامے تک پہنچتی ہے اور بغیر کسی رپورٹنگ یا تقریر کے ہمیں اس آئینے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں ہر اقلیتی طبقہ خود کو حاشئے پر چھوٹا ہوا محسوس کرتا ہے ۔اس حاشئے پر جہاں سے استحصال کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جو بے لگام ہٹلر شاہی نظام کی سیاست کے مظالم کا شکار ہوتا ہے ۔جہاں ایک طبقے کو شعوری کوشش کے طور پر اتنا پس ماندہ اور مفلس کر دیا جاتا ہے کہ ان پر بلا تردد حکومت کی جا سکے ،ان کا حق اور ان کے املاک پر قبضہ کیا جا سکے ۔ امراء اور غریب کے درمیان اتنی گہری کھایٔ کھودی جا سکے کہ اسے پاٹنے کا تصور بھی نا ممکن ہو۔ لیکن جنگل اور گاؤں میں حاشئے پر موجود ان طبقوں کی کہانی احساس کے ایسے دھاگے سے بنی گئی ہے کہ کویٔ بھی کردار یا جگہ آپ کو اجنبی نہیں لگتی۔ آپ اس درد کے سفر میں خود کو مکمل طور پر شامل پائیں گے ۔ یہ ناول سرسری ورق گردانی کے لیے نہیں ہے نہ ہی ایک نشست میں پڑھی جانے والی کہانی ہے ۔یہ وقت لے کر پڑھنے  والی کتاب ہے ۔جس کی دنیا میں اگر آپ شامل ہو جائیں تو آخیر تک پہنچ کر ہی دم لیں گے۔یہ نہ تو کوئی تاریخی ناول ہے اور نہ ہی سیاسی مگر اس کا موضوع بہت خوبی کے ساتھ ہماری تاریخ اور سیاست کے ایسے اندیکھے گوشے کو مرکز میں لا کر لکھا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو برہنہ کرنے میں کامیا ب ہوا ہے جس سے حکومتیںجان بوجھ کر اور فرد مجبوری میں چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور جن پر گہرائی سے سوچنے اور اس کے سد باب کے لیے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔

برجستہ وبرمحل تخلیقی جملوں سے مزین ناول '' نوحہ گر'' کے الفاظ کا انتخاب،جملوں کی چاشنی اوران کی بنت اور جزئیات نگاری ناول کے طویل ہونے کے باوجود ایسی دلچسپی قائم کردیتا ہے کہ اس طوالت سے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ دریا کی روانی کی طرح الفاظ کا بہاؤ اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔

راحت کے کردار کے ذریعے ایک طرف سنہری روایتوں،ادبی ثقافت ، ہمارا تہذیبی اور مذہبی ماحول  دکھایا جاتا ہے تو دوسری طرف سماجی نابرابری اور نا انصافی ،انسانی نفسیات،غربت اور کسمپرسی کو دیکھنے کا وسیلہ بھی '' راحت'' کا کردار ہی بنتا ہے۔۔۔۔اس کا کردار،ایک عام کردار نہیں بلکہ وہ اپنی ماں کا صبر ضبط دیکھ کر شعور کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے ساری دنیا دو دائروں میں قید نظر آتی ہے۔ایک طرف ہنسی کے آبشار ہیں بے فکری ہے عیش کوشی ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط کی منزل ہے اور ایک سرمئی سی اداسی  ہے۔ یہ اداسی پورے ناول پرمحیط ہے۔

راحت‘ اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو ایک ڈاکٹر ہے ۔ اس کے سامنے مستقبل کی بڑی سنہری راہیں کھلی ہوئی ہیں مگر وہ اپنے آبائی وطن کی کسمپرسی، والد کے خواب اور اپنے عزم کو سامنے رکھ کر اپنے روشن مستقبل کی قربانی دیتی ہے ۔ اس کی یہ قربانی ،اس کا یہ عزم اور اس کی راہ میں حائل تمام مشکلیں راحت کے کردار میں ایسے کئی سوشل ایکٹیوسٹ کی یاد دلاتے ہیں  جو اپنے اپنے وقت میں معاشرے کے لیے ہمیشہ فعال رہے اور ہر طرح کی قربانیاں دیں ۔ اپنے انتساب میں نسترن خود بھی لکھتی ہیں ۔۔۔

’’صفدر ہاشمی، بنائیک سین اور میگھا پاٹیکر جیسے ایکٹیوسٹ کے نام آج کے سماج میںجن کا کردار اس ناول کو لکھنے کی تحریک بنا۔۔۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ راحت کا کرداراس ناول کا ایک ایسا مضبوط مزاحمتی کردار ہے جو ان سارے ایکٹیوسٹ کے شانہ بہ شانہ آکر کھڑا ہو گیا ہے اور اس ناول کو پڑھ لینے کے بعد اسے بھول پانا مشکل ہے ۔ اس طرح اس ناول کے ذریعے نسترن نے ان سماجی کارکنوں کو بہترین خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے ۔ جو اپنی بے لوث خدمت سے معاشرے میں حاشئے پر چھوٹ جانے والوں کی بھلائی کے کام میں خاموشی سے لگے رہتے ہیں اور جس کی وجہ سے بعض دفع انھیں اپنی جان تک کی قربانیاں دینی پڑی ہیں ۔

یہ ناول ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی ہے ۔ جس میں زندگی سے جڑے بڑے گمبھیر مسائل پر بات کی گئی ہے اور حیرت اور خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایسے سنجیدہ اور روکھے موضوع کو واقعات اور کرداروں کے ذریعے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ناول میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنے گرد و پیش سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ناول کے شروع میں ہی وہ اس میں پیش ہونے والے موضوع کا  پس منظریوں بناتی ہیں کہ راحت  زینہ سے ہوتی ہوئی اس چھت پر آتی ہے جہاں ایک طرف سے اسے ایک دائرے کی چکا چوند روشنی نظر آتی ہے دوسری جانب یادوں میں بسا ویران اداس کھنڈر۔اس کا دل اداس ہے مگر پرہمت بھی،اداسیوں کو ختم کرنے  کے سبب کی تلاش بھی اور یہیں سے قاری کے تجسس کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے جو کتاب کے اختتام تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔

پورے ناول میں کھیت کھلیان،جنگل، روشنی،سورج چاند بادل اوراستوں کی خوبصورتی کو لفظوں میں اس طرح ڈھال دیا گیا ہے کہ قدرت کی صناعی نظر آنے لگتی ہے ۔

گاؤں کے راستے،کوئل کی کوک۔خرگوش کی معصومیت، ان سب چیزو ں نے مل کر تحریر کو ایک نرمی اورایک خوبصورت کیفیت سے دوچار کیا ہے۔

آپ مرکزی کردار کی اس کشمکش کو دیکھیں جب اس کی ذات دو متضاد دنیا سے تال میل بٹھانے میں شعور کی منزلیں طے کررہی ہے۔ایک اس کے اندر کی دنیا ہے۔مصالحت پسند،پرسکون، پر محبت اور دوسری حقیقی اورعملی دنیا۔۔ کشاکش سے بھری،پرتصنع اورکرپٹ۔۔۔مثال دیکھیں۔

''بہت شروع سے شاید شعور کی سرحد کے کہیں بہت پہلے سے اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک دنیا تھی جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ تھی۔ اور ہر وقت بڑی خاموشی سے اس کے ساتھ شب و روز کا سفر طے کرتی۔اس دنیا میں کوئی شور نہ تھا کوئی مصروفیت نہ تھی مگر ایک سرگوشی تھی جوہر وقت اس کی توجہ باہر سے اندرکھینچنے کی کوشش کرتی رہتی۔۔۔اندر کی دنیا میں بے پناہ اداسی بھری رہتی۔شاید باہر کی دنیا میں اس کی شمولیت اندر کی دنیا کو پسند نہ تھی۔۔۔۔اندر کی دنیا۔۔۔۔۔ جہاں کے رشتے نرم و نازک جھاڑیوں کی طرح محبت کی ہوا کی خنکی سے ہلکے ہلکے کانپتے،ہلکورے لیتے ہوئے سانس لیتے۔اور جن میں معصوم خرگوش جیسے جذبے اپنی چمکتی سرخ آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے یہاں وہاں پناہ لیتے۔پھدک کرنکلتے اور پھر ان میں ہی جاکر چھپ جاتے۔ ان معصوم جذبوں کو وہ جب چاہے  ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیتی۔ انہیں سہلاتی، پچکارتی اور پھر ان ہی جھاڑیوںمیں چھوڑ دیتی۔ تب اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت اس کے سامنے دونوںدنیاؤں میں تال میل بٹھانے کی اجازت کبھی نہ دے گا۔ باہر کی دنیا کے اپنے اصول تھے۔۔۔اس کا اپنا قانون تھا۔۔''

 (نوحہ گر: صفحہ۔15)

اس باہر کی دنیا کی نا انصافی،نا برابری نے اس کو کم عمری میں ہی بہت دکھ درد دیے،جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کوکیسے تیار کیا۔مثال دیکھیں:۔

’’بعد میں راحت نے بھی خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔اس شوق اور اس جنون کے ساتھ کہ وہ اس زمین پرہمیشہ مظلوموں کے ساتھ نا انصافی کے خلاف کھڑی رہے گی۔اس نے پڑھا تھا کہ دھات کو تپا کر جتنا پیٹا جاتا ہے وہ اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے اور اس کی ہر تہ میں بورک ایسڈ ڈالا جاتا ہے تاکہ پرتوں کے بیچ سے آکسیجن نکل جائے اور اس میں زنگ نہ لگے۔اس نے بھی اپنی زندگی کے اس عظیم حادثے کے دردکو یادوں کے ہتھوڑوں سے اتنا پیٹا تھاکہ اس کا دل کافی پختہ اور مضبوط ہو چکا تھا۔ہر گناہ،جبر اور زیادتی کے خلاف ہمیشہ لڑنے کے لیے اور ہر گزرتے لمحے کی تہ میں وہ محنت شاقّہ کے بورک ایسڈ سے اپنے ارادے کو زنگ لگنے سے بچاتی رہتی تاکہ آرام و آسائش کی آکسیجن کسی تہ میں باقی نہ رہ جائے اور اس کے ارادے کو زنگ نہ لگ جائے۔'' 

(نوحہ گر: صفحہ۔16)

ماحولیات سے محبت اس ناول کی ایک اور خاصیت ہے ۔منظر نگاری میں وقت کا ذکر ہو، گاؤں یا جنگل ندی کا ذکر ہو یاکھیت کا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ۔یہاٖں چند مثالیں پیش ہیں۔

اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کی مشرقی کھڑکی کے سامنے سورج کا گولا بالکل پورے چاند کی طرح ٹھنڈا سیاہی مائل آسمان کی پیشانی پر سہاگن کی بندی کی طرح چمک رہا تھا۔ماں نماز سے فارغ ہو کر اپنے بستر کو درست کر رہی تھیں۔اس نے حیران ہو کر سورج کی طرف دیکھا۔۔ راحت کی آنکھ کھلتی دیکھ کر وہ مسکرائیں۔۔نماز نہیں پڑھی دیکھو طلوع آفتاب کا وقت ہو گیا۔اٹھ جاؤمیں چائے بنانے جا رہی ہوں۔

آج اتنے د نو ں بعد ایسی فر صت  سے امّی کے کمر ے میں سو نا اور جا گنا اُسے کتنا اچھا لگ ر ہا ہے۔ جسم کے پورپور سے جیسے تھکن بو ند بو ند ٹپک کر با ہر نکل گئی ہو اور جسم با لکل ہلکاپھلکا اور د ما غ با لکل پر سکو ن ہے اس و قت، جی چا ہ ر ہا ہے کہ صبح صا د ق کا و قت یو ں ہی تھم جا ئے۔اور کھڑ کی کے چہر ے پر طلو ع آفتا ب کی بند ی یوں ہی ٹنکی ر ہے۔ مگر یہ کیا۔۔ ان چند لمحوں میں سو رج کی بند ی کھسک کر او پر چلی گئی تھی اور اب کھڑ کی سے آد ھی نظر آر ہی تھی۔ اُس کی سرخی کے سا تھ اب اُس کے چہا ر طرف روشنی کی سپید ی کا ایک ہا لہ سا بھی بن گیا تھا۔ را حت غور سے اُدھر د یکھتی ر ہی اور اُسے احسا س ہوا کہ وہ بہت تیزی سے کھسکتا جا ر ہا تھا۔ شا ید اُسے د نیا کو جگا نے کی بہت جلد ی تھی۔ اور ایک پل گنوائے بغیر وہ اپنے سفر پر گا مز ن تھا۔ لو گو ں کی سُستی د یکھ کر اُس کا جلا ل اوربھی فزو ں ہو ر ہا تھا۔ را حت کو یقین تھا جب وہ کمر ے سے با ہر جا کر اُس کی طرف د یکھے گی تو اُس سے نظر یں نہ ملا پا ئے گی۔ اب وہ نظروں سے او جھل ہو چکا تھا مگر کھڑکی کے با ہر اُس نے اپنے و جو د کی روشنی کے  پہرے بٹھا دئے تھے۔ را حت نے کسلمند ی سے انگڑا ئی لی اور کر و ٹ بد ل کر د یوا ر کی طر ف ر خ کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ابھی وہ اس آلسی صبح کو پکڑ ے ر ہنا چا ہتی تھی۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔14۔13)

’’راحت نے دور ندی میں دن کے آخری مدھم اجالے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔پانی پر شام کے سلیٹی رنگ کے سائے پگھل کر پوری ندی پر پھیلتے جا رہے تھے۔جنگل کی طرف سے ایک دہشت بھری سرسراہٹ،ایک بہکی ہویٔ جنگلی خوشبو کے ساتھ، ہوک بن کر اس کے دل میں اتر گئی۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔  295)

 '' جیپ پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی اور راحت گم تھی اپنے ہی خیالوں میں،ہوا راحت کے سائے کو اڑائے لیے جا رہی تھی۔راحت نے جانے پہچانے اس مانوس ماحول میں اپنی روح کو سرشار ہوتے ہوئے پایا۔سورج تمام دنیا کواپنی ضوفشانی کے دائرے میں لیے ہوئے تھا۔ ا س نے تیز ہوا میں اپنا سر اوپر اٹھایا  اوراسے محسوس ہوا کہ زمین کا یہ لا متنا ہی سلسلہ، یہ عظیم الشان آسمان اور آزادی اور مسرّتوں سے مالامال وطن کا یہ تمام علاقہ اس کے دل کی وسعتوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے لگا زمین کا یہ ٹکڑا۔۔۔ دنیا کا سب سے خوبصورت حصّہ ہے، بلکہ بہشت سے مشابہ ہے۔''  

(نوحہ گر: صفحہ۔180)

وہیں آدی واسیوں کے درد کو اس ناول میں اس طرح پیش کیاہے کہ جھکجھورکررکھ دیا ہے۔صاف ہوا پانی بھی میسر نہ ہو تو زندگی کی نمو کہاں ممکن ہے۔آدی واسیوں کی پسماندگی راحت کی حساس طبیعت کو نشتر چبھوتی ہے۔

یہ سارا ماحول کچھ اس قدر فطری انداز میں پیش کیا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ جنگل کا ذکر ہو یا شہر کا،گاؤں ہو یا گھر آپ کی یادداشت میں بس جائے گا۔

کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ راحت کا باغیانہ اند ز اس کی محرومیوں کا بدلا ہے۔اس نے محسوسات اور تخیل کو ایک نئی مضبوط دنیا سے متعارف کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔مظلوم کے لیے طاقت بن کر وہ اس دنیا کو جینے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔

اس ناول میں رشتوں کی پائیداری بھی ہے، محبت کی میٹھی میٹھی کسک بھی۔اب وہ رشتہ انسانیت کا ہو،ماں کا ،چچا کا یا محبوب کا۔

یہ چند اقتباسات دیکھیں۔۔۔۔

’’وہ اس کی نظروں میں اعتماد کے ساتھ اپنے لیے الفت بھی دیکھنا چاہتے‘‘تھے۔۔نہ جانے کب سے۔۔شاید ہمیشہ سے ہی،لیکن احساس بعد میں ہوا۔کیونکہ اس کے دراز سبک بالوں کے درمیان اس کا انتہا سنجیدہ اور متین نظر آنے والا چہرہ ان کی کمزوری بن گیا تھا،وہ یہ بھی نہ کہ سکے کہ مسکرانے سے پہلے اس کے گال پر گہرا سا گڑھا جو رقصاں دکھائی دیتا تھا،وہ دل کی کدورتوں کو دھو کر پاک کر دینے کی طاقت رکھتا تھا  اور اس کے تمام حرکات و سکنات جو شائستگی اور سبکدوشی کا مظہر تھیں،اور اس کا خاموش شرمیلا پن جو بہت ساری دوسری خوبصورتیوں کے معیار سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ ان کے جیسے متین شخص کا دل بھی جیت بیٹھے تھے۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔ 19)

’’ ساری دنیا سے اپنے غم چھپانا کتنا آسان ہے، مگر ایک ماں سے نا ممکن ۔۔۔ وہ جو اتنی دور ہیںمگر اس کی بے چینیاں انہیں وہاں قرار نہیں لینے دیتی۔ ان سے بات کرنے سے پہلے ،اپنی آواز وہ سارے آنسو پونچھ دینا چاہتی تھی جو اس کے دل میں قطرہ قطرہ گر کر اس کی آواز کو گلوگیر کر رہے تھے ۔اس نے کچھ دیر خود کو نارمل کیا ۔ایک گلاس پانی مانگ کر پیا پھر چائے بھی پی لی۔ اب اسے لگا ،وہ ماں سے بات کر سکتی ہے ۔اس نے فون لگایا۔۔۔۔’ ہیلو ۔۔۔کون ‘ عالیہ بیگم کی آواز میں ایک ایسا اضطرار تھا کہ راحت کی ساری تیاری دھری رہ گیٔ۔ نہ جانے کہاں سے آنسوؤں کا سیلاب امڑ آیااور وہ  خاموش رہ گئی ۔’ ہیلو ۔۔بیٹا راحت۔‘کیا انھوں نے صرف اس کی سانسوں سے اسے پہچان لیا تھا، ابھی تو وہ کچھ بول بھی نہیں پائی تھی۔‘‘

(نوحہ گر: صفحہ۔ 364)  

اس دنیا میں شروع سے خیر و شر کے تناسب سے جو خلفشار جاری ہے اور یقینا  قیامت تک جاری رہے گا وہی اس ناول کا بنیادی موضوع ہے اور کہیں نہ کہیں ناول کی یہ کہانی ہمیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ انسانیت اور رشتوں سے محبت یہ دو ایسی طاقتیں ہیںجو  ہمیں ہر حال میں صرف جینے کا حوصلہ  ہی عطا نہیںکرتیں بلکہ بھلائی کو جاری رکھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ شر کی طاقت  چاہے کتنی بھی بڑھ جائے خیر اس کے سامنے کبھی ہار نہیں مانتا۔  اس ناول میں وہ سارے مشاہدات اور تجربات ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آکر حیران کرتے ہیں اوراپنے دلکش اسلوب میں ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔اگر اس ناول میں کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ کہیں کہیں ٹائیپنگ یا پروف کی کمی کھلتی ہے اس کے علاوہ اس کی ضخامت آج کے مصروف دور میں ناول کے مطالعے کے ارادے کو متزلزل کرتی ہے ۔لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جس نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا اسے اس کا بیانیہ پھر باہر نکلنے نہیں دے گا جب تک کہ وہ اسے ختم نہ کر لے ۔کیونکہ نوحہ گر وقت کے صفحات پرلکھا گیا ایک ایسا نوحہ ہے جسے ہر حساس انسان اپنی روح سے محسوس کرسکتا ہے۔

Anjum Kidwai

Flat number B
Ruby Apartment
Badar Bagh
Aligarh - 202002 (U.P)

29/11/23

مشتاق احمد نوری کے افسانوں کا آہنگ: شبانہ عشرت

 

اردو افسانہ نگار کی تاریخ میں نہ صرف ہند و پاک بلکہ خصوصاً بہار کے حوالے سے کئی افسانہ نگار ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو کئی موڑ عطا کیے۔ان افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام مشتاق احمد نوری کابھی ہے۔افسانہ کہنے کا ان کا ایک الگ انداز ہے۔ان کا مخصوص لہجہ، ان کی انفرادیت اور سب سے بڑھ کر ان کا بلند آہنگ دور سے پہچانا جاتا ہے۔مزے کی بات تویہ ہے کہ انھوں نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی سچی کہانیوں کو افسانے کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ مشتاق احمد نوری کے افسانوں کے کردار کوئی ماورائی کردار نہیں ہیں بلکہ اسی دنیا کے باسی ہیں۔

بلاشبہ مشتاق احمد نوری کا شمار ہمارے عہد کے ممتاز مقبول فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افسانوی مجموعوں میں’ ’تلاش‘ ‘،’ ’بند آنکھوں کا سفر‘‘کے علاوہ ایک اہم زیر اشاعت مجموعہ ’’چھت پہ ٹھہری دھوپ‘‘بھی ہے۔

 ’’جن کی سواری‘‘، ’’وردان‘‘، ’’لمبی ریس کا گھوڑا‘‘، ’’خودکشی‘‘، ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘، ’’سچ‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’کیل اندر اندر‘‘، ’’گلاب بابو‘‘، ’’حرف آخر‘‘، ’’کائیں کائیں‘‘، ’’پتھر کی لکیر‘‘، ’’لمبے قد کا بونا‘‘، ’’ترشول پر ٹنگی کہانی‘‘، ’’وہ ایک لمحہ‘‘، ’’شمائلہ‘‘وغیرہ۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ مشتاق احمد نوری نے فکشن کی دنیا میں ایک نئی راہ دکھائی ہے اور ملک اور سماج کے اہم مسائل کو بڑی خوبصورتی اور اثر انگیزی کے ساتھ اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے۔

مشتاق صاحب ایسی سج دھج اور شگفتگی سے کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ داستان کے سحر جیسا احساس ہوتا ہے اور وہ قاری کو اپنی یااپنے جانے پہچانے دیکھے بھالے لوگوں کی روداد معلوم ہوتی ہے۔ان کی بیشتر کہانیاں انسانی شعور و نفسیات کے خمیر سے اٹھی ہیں اور پر اثر انجام تک پہنچی ہیں۔ شکیل ا لرحمن جیسے مشہور ناقد نے اپنی فکشن یاترا میں مشتاق احمد نوری کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

’’مشتاق احمد نوری کئی بہت اچھے افسانے کے خالق ہیں۔یہ افسانے اردو فکشن میں اضافہ ہیں،مثلاً ’’جن کی سواری‘‘، ’’وردان‘‘، ’’لمبی ریس کا گھوڑا‘‘، ’’خودکشی‘‘، ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’کیل اندراندر‘‘، ’’گلاب بابو‘‘، ’’حرف آخر‘‘، ’’کائیں کائیں‘‘، ’’پتھر کی لکیر‘‘ وغیرہ۔ان کے فن کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ افسانہ نگار معمولی واقعات و کردار کے اندر غیر معمولی سچائیوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے اور اسی میں کامیابی ہوتی ہے۔’’لمبے قد کا بونا‘‘ اس بات کی عمدہ مثال ہے ،معمولی واقعات اور معمولی عام جانے پہچانے کردار کے اندر افسانہ نگار نے غیر معمولی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو افسانے میں ایک بونے کی سائیکی (Psycha) میں جھانکنے کی یہ غالباً پہلی کوشش ہے۔فکشن کا اچھا فنکار زندگی اور اس کے مسائل کے تجربے حاصل تو کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی کسی نہ کسی معجزے کی تلاش میں بھی رہتاہے۔معجزہ ہوجاتاہے تو وہ خود حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور اپنے کردار کے باطن کا عطا کیا ہوا تحیر قاری کے حوالے اس طرح کر دیتا ہے کہ وہ معجزہ اور فنکار کا تحیر قاری کا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے۔کہانی کا مرکزی کردار راجن ہے جو بونا ہے۔اسی کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔اس کا تعلق پورنیہ شہر کے ایک دولت مند تاجر گھرانے سے ہے۔تعلیم یافتہ ہے،پورنیہ کالج سے انگریزی ادب میں آنرز ہے۔ بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے، اسے والدین کا پیار بھی نصیب ہے، لیکن وہ ہر وقت یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ والدین پیار سے زیادہ اس پر رحم کھارہے ہیں۔ان کے پیار کے اندر رحم کا جذبہ ہے۔یہ احساس اسے کاٹے کھائے جا رہا ہے۔ والدین کے پیار کو تضحیک سمجھتا ہے، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایسی چمک ہے جو دوسروں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ اچھے لباس کا شوقین ہے، کمر سے اوپر عام آدمیوں جیسا ہے صرف اس کے ہاتھ پائوں چھوٹے ہیں۔تین فٹ کا قد ہے اور اپنے قد کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے۔کالج میں مذاق کا نشانہ بنتا ہے، لیکن جلد ہی اپنی صلاحیتوں سے ساتھیوں کو مرعوب کردیتا ہے۔اس کے باوجود اسے محسوس ہوتا ہے کہ کالج اور کالج کے باہر ہر شخص اس پر رحم ہی کھاتا رہتا ہے۔کوئی اسے مکمل آدمی نہیں سمجھتا۔اسی احساس کی شدت اس کی سائیکی کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے۔‘‘

(زبان و ادب، جون 2016 ،ص 61)

مشتاق احمد نوری کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات میں اتر کر مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں اور ایک ماہر معالج کی طرح علاج پیش کرتے ہیں۔ اس کام میں انھیں مہارت حاصل ہے۔یہ اقتباس دیکھتے چلیں :

’’ایک طرف تو لوگ ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیتے اور دوسری طرف انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس بونے نے ایک ایسی پھانس ان کے دلوں میں چبھودی ہے جس کو آسانی سے نکالا نہیں جا سکتا۔اپنے شو کی کامیابی کے نشے میں کبھی کبھی راجن کو سب بونے نظر آتے اور خود اپنا قد اسے سب سے اونچا نظر آتا ہے۔‘‘

(لمبے قد کا بونا)

مشتاق احمد کی کہانیوں میں ان کا ایک مخصوس انداز فکر نمایاں ہے۔ ان کے بہت سارے افسانوں میں کہیں کہیں ان کی اپنی شخصیت بھی جھلکنے لگتی ہے۔اس میں ان کے شعور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ لاشعوری طور پہ افسانوں کے آئینے میں سے ان کا اپنا عکس جھانکنے لگتا ہے۔جیسے کہ ’’جاڑے کی گلابی رات‘‘، ’’سچ‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’خون کا قرض‘‘وغیرہ۔

مشتاق احمد نوری کا ہر افسانہ متاثر ضرور کرتا ہے، ان کے افسانوں کا مرکزی کردار کوئی بھی ہو سکتا ہے،یہاں تک کہ ایک مچھر کو بھی وہ اپنی کہانی میں پیش کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ معمولی کردار کو بھی غیر معمولی بنا کر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور بہت خوب جانتے ہیں۔مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں موضوعاتی بوقلمونی بھی ہے، اسلوب اور تکنیک کا تنوع بھی ہے البتہ ان کے یہاں نثر کا آہنگ ہر جگہ ایک جیسا نہیں ہے اور نہ ہی کہانی کہنے کا انداز یکساں ہے۔ ان کے  یہاں بیانیہ تکنیک کے کئی طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔بعض افسانے غائب اور ہمہ داں راوی نے بیان کیے ہیں تو بعض میں راوی واحد متکلم ہے۔کسی میں راوی غائب ہے اور واقعات محض ایک شخص کے تاثرات و تجربات کی شکل میں سامنے آئے ہیں تو کہیں پوری کہانی مکالمات کے توسط سے بیان کی گئی ہے۔

ہر فنکار اپنی ایک الگ شناخت قائم کرتا ہے۔ان کے یہاں بھی اظہار کا ایک فنکارانہ شعور موجود ہے۔ان کی بظاہر صاف اورسادہ بیانیہ میں نظر آنے والی کہانیوں میں بھی شعور و آگہی کی ایک زریں لہر کا احساس تو اتر کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔یہی وہ بنیادی خوبی ہے جو ایک فنکار کے تجربے اور مشاہدے کو تہہ دار بناکر پیش کرتی ہے۔تخلیقی عمل شعور سے لا شعور تک کا ایک ایسا سفر ہے جس میں کہانی کار کو کئی انجان راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔باشعور فنکار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان پر خطر راہوں پر بھی اپنی شخصیت کو مسخ اوراپنے فن کو پامال ہونے سے بچالے جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں میں ان کی اپنی شخصیت کا عکس بھی کبھی کبھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔یہاں پر میں اپنی کوئی رائے دینے سے پہلے فکشن کے عظیم ناقد جناب شہاب ظفر اعظمی کی کتاب ’’مطالعات فکشن‘‘ سے چند اقتباس مستعار لے رہی ہوں :

’’مشتاق احمد نوری کی کئی کہانیاں تجربے اور مشاہدے کے امتزاج سے وجود میں آئی ہیں۔ ’شمائلہ‘، ’وردان‘، ’گہن چاند کا‘ وغیرہ ایسی ہی کہانیاں ہیں۔’وردان‘ ایک بدصورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت اور چاہت کی تلاش میں نفسیاتی طور پر ایسی مریض بن جاتی ہے کہ ریپ یا زنابالجبر ہی اس کی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے پروفیسر محمد محسن کے افسانے ’انوکھی مسکراہٹ‘ میں کسی کی موت لڑکی کے لبوں کی زندگی بن جاتی ہے۔’شمائلہ‘ ایک بچی کی معصومیت ، محبت اور جذباتی رشتے کی کہانی ہے، جس نے اپنی معصوم ادائوں ، بے لوث خدمات اور پیار سے گھر کے تمام افراد کے ساتھ ایسا مضبوط رشتہ بنا لیا ہے کہ اس کی موت ہر فرد کو محبت اور معصومیت کی موت محسوس ہوتی ہے۔ ’اعتبار‘ کی کہانی شک و شبہ سے پر موجودہ معاشرے کا قصہ ہے جہاں لوگ مکان بھی کرائے دار کو اس کا مذہب پوچھ کر دے رہے ہیں۔اسی ماحول میں کچھ لوگ ا پنی مذہبی رواداری، انسانیت اور نیک دلی سے امید کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ایسے ہی کردار مسٹر شکلاجن کی زبان بظاہر جتنی تلخ اور نفرت انگیز ہے دل اتنا ہی روشن میٹھا اور شفاف ہے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد اور عصبیت کے نتیجے میں بے گھری اور دربدری کا شکار خاندان کی کہانی ہے،’ترشول پر ٹنگی کہانی‘ کہانی میں گجرات فساد کا شکار ہونے والے ایک خاندان کی دہشت خوف المیے اور سراسمیہ کیفیات کی عکاسی حقیقی انداز میں کی گئی ہے۔یہ بڑی موثرٔ کہانی ہے کیوں کہ اس کی فضا خوف و ہراس ،تہمت، تشدد، عصیبت اور احتجاج ، بغاوت سے پر ہے۔’زاوئیے میں گم کہانی‘ تین مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ایسی کہانیاں جو انسانی بے حسی اور فرد کے منافقانہ رویوں کو بے لاگ انداز میں نمایاں کرتی ہیں۔رکشے والے کی ایمانداری، فنکار کی انا اور غیر ملکی لڑکی کا انسانی درد افسانہ نگار کے لیے متحیر کن ہے،کیوں کہ اسے معلوم ہے موجودہ معاشرے میں یہ چیزیں ناپید ہوچکی ہے۔ زرپرستی، اخلاقیات کے برج الٹا چکی ہے۔اغراض اورذاتی مقاصد رشتوں کی قلب ماہیت کرچکے ہیں۔ ایسے میں افسانہ نگار کو اگر رکشے والے، فنکار اور لڑکی کے رویے پر حیرت ہوتی ہے تو تعجب کیا؟دراصل مشتاق احمد نوری خواب دھند لکوں میں سفر کرتے ہوئے بھی شعور کو ساتھ رکھتے ہیں۔وہ افراد کی نفسیات اور ان کے سلوک کی راہ سے فرد ، خاندان، معاشرے اور قوم کی کج روی پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی زد میں فرد اور جماعت دونوں آجاتی ہیں۔آخر میں ایک احساس کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ مشتاق احمد نوری کی زیادہ تر کہانیوں میں خود ان کا عکس دکھائی دیتا ہے۔سرکاری ملازمت، پورنیہ، کشن گنج،پٹنہ آمد و رفت اور پروفیسر بیوی وغیرہ کے بار بار ذکر سے ہر کردار میں مصنف کا عکس جھلکتا ہے۔اچھا فن پارہ اسے کہا جاتا ہے جس میںParsonol impersonl بھی پرسنل بن جاتا ہے۔یعنی مشتاق احمد نوری دوسروں کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں تو ان میں وہ خود نظر آتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

 )مطالعات فکشن،ص 174۔175)

مشتاق احمد نوری کا افسانہ موجودہ دور میں ایک آئینہ ہے جس میں فرد ہی نہیں سماج کا چہرہ بھی پوری طرح بے نقاب ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ان کی بنائی ہوئی ہر تصویر حقیقت پر مبنی ہے۔آپ کو اگر یہ تصویریں بری لگ رہی ہیں تو اس میں قصور آپ کا ہے۔آپ کو از سر نو اپنے سراپے پہ غور کرنا چاہیے اور اس کی تعمیر و تشکیل نئے سرے سے کرنا چاہیے۔ایک فنکار کا کمال یہی تو ہوتا ہے کہ وہ سماج کی سچی منظر کشی کرتا ہے۔

مشتاق احمد نوری کے کچھ افسانے بار بار مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں اور غور و فکر پہ مجبور کرتے ہیں،ہر بار ایک نیا زاویہ اُبھرکر سامنے آتا ہے۔مثال کے طور پر ’’لمبے قد کا بونا‘‘، ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی، حق تلفی اور استحصال کے بڑھتے ہوئے قیامت خیز واقعات نے ایک دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا ہے۔جس میں ہر شخص خاموش تماشائی ہے، یہاں تک کہ خود مسلم قوم بھی احتجاج کرتے ہوئے گھبراتی ہے۔یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔

مشتاق احمد نوری کا افسانہ ’’کائیں کائیں‘‘ کی بات کریں تو اس کا موضوع کوئی اچھوتا نہیں ہے۔یہاں بھی ان کے فنکارانہ انداز بیاں نے ایک خاص تاثر پیداکر دیا ہے جو قاری کے دل پہ تا دیر قائم رہتا ہے۔یہ بھی ہمارے سماج کا ایک المیہ ہے۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کررہا ہے انسانی معاشرہ پستی کی طرف جا رہا ہے۔اب اپنی سگی اولادیں والدین کو بوجھ سمجھنے لگی ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ہر شہر میں Oldage home تعمیر ہونے لگے ہیں۔سماج کے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش افسانہ ’’کائیں کائیں‘‘ میں کی گئی ہے جو پوری طرح کامیاب ہے۔چونکہ ان کی نظر باریک بینی سے سماج کا مطالعہ کرتی رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ کوئی نہ کوئی غیر معمولی واقعہ ان کے افسانے میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہتا۔

مشتاق احمد نوری یقینا ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ان کی کہانیوں پر ترقی پسندی یا جدیدیت جیسا کوئی لیبل لگادینا آسان نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کسی ازم یا رحجان کے افکار و عقائد کی تاثیر یا اس کی فنی روش اور سفارش سے اپنی افسانہ نگاری کو شعوری طور پر غذا یافتہ نہیں بنایا ہے،بلکہ اپنے وژن ، اپنے مشاہدے، اپنے تجربے اور اپنے احساسات کی رہنمائی میں ہی اس ڈگر پر آگے بڑھتے رہے ہیں اور اپنے اظہار و اسلوب کی دنیا سجاتے رہے ہیں۔وہ فن اور قاری کے مثبت رشتہ پر یقین رکھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ عصری تناظر میں کھوئی ہوئی چیز اگر مل جائے اور اپنی اہمیت و افادیت اور نفسیات رسی کا احساس دلا جائے تو قاری کی پسند کے لحاظ سے یہی کامیابی کی کلید ہے ۔اچھا افسانہ نگاروہی ہوتا ہے جو صرف موضوع کی تلاش تک خود کو محدود نہیں رکھتا بلکہ اپنی کہانی کے ذریعہ قاری کو وہ سب کچھ بھی دکھا جاتا ہے جہاں تک اس کی نظر پہنچنے کا امکان موہوم رہا کرتا ہے۔وہ کرتب نہیں دکھاتا، کرشمات کی کوئی طلسمی دنیا نہیں سمجھاتا اور نہ ہی اس آرزو میں فطرت کے اصولوں سے جا ٹکراتا اور اسے دور کی کوڑی لانا سمجھ لیتا ہے بلکہ وہ فطرت، انسانی زندگی کے تجربے اور عام فکری قماش کے دائرے ساتھ لے کر چلتا ہے۔یہاں تک کہ جب اس کی کہانیوں کی اُٹھان ہوتی ہے، وہ اس کی ترتیب ارتقا و عروج سے گزرتے ہوئے عروج معکوس کے ساتھ اپنے کلائمکس پر پہنچتی ہے تو قاری کو کھلی دھوپ میں آجانے یا کج گلیوں سے گزر کر اچانک کلی شاہراہ پر پہنچ جانے کا وہ احساس دلاجاتی ہے جس میں مسرت بھی پنہاں ہوتی ہے اور بصیرت بھی جس سے نفسیاتی عقدے اچانک کھل جاتے ہیں اور کہانی میں ان کہے بول کا لطف سمٹ آتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں یہ فنی اقدار کسی خصوصی تلاش کی محتاج نہیں ۔میں نے اس مضمون کے عنوان میں ’’بلند آہنگ‘‘ کا ٹکڑا دانستہ استعمال کیا ہے۔دنیا جانتی ہے اور میں بھی جانتی ہوں کہ یہ اصلاح قصیدوں اور نظموں کے لیے مستعمل ہے سوال یہ ہے کہ درباری شاعروں نے اس کا استعمال کیا۔جوش کو یہ طرز کیوں مرغوب رہی۔وجہ یہی ہے کہ ان کا مقصدد ور تک اور دیر تک توجہ کے تعاقب میں تھا،میں یہاں مقصد کی طرف نہیں جارہی ہوں، کہیں مقصد دست زر افشار سے حصہ پانا تھا، کہیں جذبات کو تیزی سے جگانا اور ابھارنا ، مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں جو بلند آہنگی ہے وہ بھی اپنا ایک مقصد رکھتی ہے اور وہ مقصد ہے حقیقت پسندی کی آواز کے وزن و وقار اور اثر و نفوذ کی طرف وقت کی بربادی اور ذہنی سست روی کے بغیر قاری کو لے آنا۔وہ چاہتے ہیں کہ ماجرا دل کو چھولے اور بیان ماجرا ذہن کو بلاتاخیر اہل کرنے میں ہی کامیاب نہ ہو بلکہ بلاتامل اور تعویق اپیل کرتے رہنے میں کامراں ہوجائے کیونکہ فن پارے کی زندگی فکر و ذہن کے گوشوں میں جگہ پالینے سے ہی عبارت ہے اور مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں جو بلند آہنگ ملتا ہے وہ اس عظیم مرتبہ کو پالینے میں یقینا کامیاب ہے۔یہ بلند آہنگی نہ تو محض استعارے کی رہین منت ہے، نہ محض لفظوں سے کھیلنے کا صدقہ یا احتجاج کی صدائے برہم، بلکہ یہ قلبی احساسات سے پیدا ہونے والی صدائے فطرت ہے جو یقینا ان کی کہانیوں کو ایک ایسا امتیاز دے جاتی ہے جو ان کے معاصرین کے افسانوں میں اگر مل بھی جائے تو وہ اونٹ کے منھ میں زیرے والی کہاوت کے مصداق ہی ہوگی۔

 

Shabana Ishrat

C/o Md. Faizan Ahmad
Near Sona Medical, Dargah Road
Pathar Ki Masjid
Patna-800006 (Bihar)
Mob. 8409722347

28/11/23

قدسیہ زیدی کی شخصیت اور ڈرامہ نگاری:ثنا بانو

کسی بھی میدان میں خواتین کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اردو ادب میں جس طرح افسانہ نگار خواتین، ناول نگارخواتین اور شاعرات نے اپنا منفرد مقام حاصل کیا اور اپنی پہچان بنائی ہیں اسی ہی طرح اردو ادب کی اہم صنف ڈرامہ نگاری میں بھی خواتین مردڈرامہ نگاروں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ اس میدان میں مردوں کے دوش بدوش عورتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اردو ادب کی تر قی پسند تحریک نے خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام کیا ہے۔اس تحریک نے نو عمر اور نو مشق ادیبوں کو لکھنے کی ترغیب دی ۔ ترقی پسند تحریک کی متحرک رکن رشید جہاں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ڈرامے بھی لکھے ہیں۔تحقیق کے مطابق اردو کی پہلی ڈرامہ نگار خاتون مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں ہیں۔ رشید جہاں کے ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے عصمت چغتائی، آمنہ نازلی ، صالحہ عابد حسین،ساجدہ زیدی،قدسیہ زیدی، زاہدہ زیدی وغیرہ نے ڈرامے لکھے۔ ان ڈرامہ نگار خواتین میں سے کچھ نے ادب اطفال، کچھ نے اصلاح نسواں اور کچھ نے ذاتی تسکین کے لیے لکھا۔

قدسیہ زیدی ان چند بے مثال ہستیوںمیں سے ایک تھیںجن کو قدرت اپنی بے پناہ فیاضیوں سے سر فراز کرتی ہے اور جس کی سیرت و صورت دونوں کا حسن و جمال دلوں کو تسخیر اور آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ قدسیہ، خان بہادر عبداللہ صاحب کی چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ ہماری زبان کے مشہور مزاح نگار پر وفیسر سید احمد شاہ بخاری پطرس کی بیگم زبیدہ ان کی بڑی بہن تھیں۔عبد اللہ صاحب دراصل کشمیری برہمنوں کے چشم و چراغ تھے۔

 قدسیہ زیدی23دسمبر1914کو دلی میں پیدا ہوئیں، جہاں ان دنوں ان کے والد عبداللہ صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ ان کا اصلی نام ’’امتہ القدوس ‘‘تھا۔ جب یہ کالج میں پہنچیں تو نام کی طوالت کے باعث اسا تذہ اور طلبا سب انھیں سہولت کی وجہ سے ـ’’امتل ‘‘ کہہ کر پکارنے لگے، لہٰذا انھوں نے اپنا نام بدل کر قدسیہ کر لیا۔ قدسیہ دو ڈھائی سال کی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آٹھ نو برس بعد خان بہادر عبداللہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے بعد قدسیہ اپنی بڑی ہمشیر زبیدہ اور ان کے شوہر احمد شاہ بخاری پطرس کے ساتھ رہنے لگیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ وہ خواتین کے کینیڈ کالج کی طالبہ تھیں، جہاں سے انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ خاندان کی یہ سب سے ذہین اور سب کی لاڈ لی تھی۔ اس لیے باپ نے اعلیٰ تعلیم دلانے کا فیصلہ کیاقدسیہ کو کتابی اور اسکولی تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ وہ قہقہے لگ لگا کر سنایا کرتیں کہ ہم نے کبھی امتحان تھرڈ کلاس سے زیادہ نمبروں میں پاس ہی کر کے نہ دیا۔ بقول صالحہ عابد حسین:

 ’’ قدسیہ کا دل کتنا درد مند اور حساس تھا۔ بچپن ہی سے انھیں کتنے صدمے سہنے پڑے، اسے کم ہی لوگ جانتے تھے۔ ان کے کھنکتے قہقہے، باغ و بہار طبیعت، دلچسپ گفتگو اور پھڑکتے فقرے سن کر کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس دل میں کتنے داغ ہیں؟ وہ غم کو ایسی دولت سمجھتی تھیں جس میں کسی کو شریک نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

 قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ زیدی،صا لحہ عابد حسین ص۔31

بچپن میں ماں کی جدائی، نو عمری میں باپ کی مفارقت پھر اکلوتے جو ان بھائی کا داغ، شادی کے بعد اپنے پہلے بچے کا غم انھوں نے بڑے حوصلے سے یہ سب صدمے سہے مگردل اتنا حساس اور درد مند تھا کہ ہر کسی کے دکھ اورغم میں تڑپ اٹھا اور وہ غمزدہ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتیں۔قدسیہ زیدی کے قریبی دوستوںکا ماننا ہے کہ قدسیہ زیدی کی شخصیت کو نکھارنے میں درد مند دل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ قدسیہ زیدی کو بچوں کے ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ ہر ایسے کام میں مدد دینے کے لیے تیار رہتی تھی جس میں بچوں کی ذہنی نشوونمااور جس کا مقصد بچوں کی چھپی صلاحیتوں کو اجا گر کرنا تھا۔قدسیہ زیدی کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے شوہر زیدی صاحب نے محض کتابوںکو عمدہ طریقے سے شائع کروانے کی خاطر کتابی دنیا کے نام سے اشاعتی ادرہ قائم کیا۔ مالک رام کی زبانی:

’’ ـان کے اس خوابیدہ شوق کا اولین مظاہرہ اس وقت ہوا، جب شنکر نے 1954 میں بچوں کے ڈرامہ میلے کا انعقاد کیا۔ قدسیہ نے اس موقع پر بعض ایسے انگریزی ڈراموں کا ترجمہ کیا،جو جانوروں اور جنگل کے متعلق تھے۔سید امتیاز علی تاج نے جیردم کے بعض مزاحیہ کہانیوں کا ترجمہ چچا چھکن کے عنوان سے کیا تھا؛ اور اسی رنگ کی چند طبع زاد کہانیاں بھی لکھی تھیں۔قدسیہ نے ان میں سے بعض کو ڈرامہ کی شکل دے دی،اور انھیں اسٹیج کیااور دیویانی کرشنا سے ان کے لیے تصویریں بنواکر شائع کرادیا۔ قدسیہ سے درخواست کی گئی کہ کے ڈرامہ آگرہ بازار کی سرپرستی قبول فرمائیں۔ اس ڈرامے کا پلاٹ نظیراکبر آبادی کی زندگی کے حالات زندگی سے بنا گیا ہے۔ قدسیہ بیگم نے نہ صرف یہ درخواست قبول کرلی بلکہ اجازت دے دی کہ ڈرامے کی ریہرسل ان کے مکان پر کی جائے۔ اس دن ہے وہ ڈراما اور اسٹیج کے لیے گویا وقف ہو کے رہ گئیں۔ ‘‘

 قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضموں: قدسیہ: ما لک رام، ص۔22

اچھے ڈراموں کے لیے اچھے اسٹیج کی ضرورت ہوتی ہے اور ہندوستان میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قدسیہ زیدی نے ہندوستانی تھیٹر کی بنیاد ڈالی ۔اس تھئیٹر کے لیے انھوں نے بہت ساری قربانیاں بھی دیں۔آل احمد سرور کے مطابق:

’’ہندوستانی تھیٹر کے ذریعے سے وہ ہندوستانی ڈراما کے معیار کو بلند کرنا چاہتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ہندستان میں مغرب کے تجربوں کی اندھی تقلید مضر ہوگی بلکہ ہمیں ڈراما کے لیے ایسے فارم کو اپنا نا ہوگا جس کی روح ہندستانی ہو اور جس میں ہماری روایات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہو۔ اس غرض سے انھوں نے سنسکرت کے شاہکاروں کے ترجمے کی طرف توجہ کی۔ ہندستان تھیٹر کا مقصد ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تربیت تھی جو محض تفریح کام نہ کریں بلکہ ایک طرف ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہوں اور دوسری طرف اس فن کے لیے اپنا سارا وقت دے سکیں۔ ہر بڑے کام میں بتائی منزلیں نہایت صبر آزما ہوتی ہیں۔ انھوں نے جس تن دہی، انہماک، جوش اور جذبے سے کچھ نہیں سے بہت کچھ تک کے مرحلے طے کیے۔ اس کا پورا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے کسی قومی کام کے لیے نہ صرف اپنے آپ کو وقف کرد یا ہو، بلکہ اس وجہ سے اپنی زندگی کو ایک خاص پروگرام کے سانچے میں ڈھال دیا ہو۔ انھوں نے ذاتی آسائش کا خیال نہ کیا، بلکہ اس تھیٹر کے کام کے لیے زمین،دفتر، عمارت، فن کاروں کی تربیت اور سبھی کاموں کی دیکھ بھال کی۔‘‘

 قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:ایسی چنگاری بھی یا رب۔آ ل احمد سرورـ، ص۔50

قدسیہ کے انگریزی سے اردو میں کیے گئے تراجم میں شامل ڈرامے اور کہانیاں کچھ اس طرح ہیں۔

 ٭    گاندھی بابا کی کہانی

پیش لفظ از پنڈت جواہر لال نہرو ۔ اس کے ترجمے ہندی اور انگریزی میں بھی شائع ہوئے

٭     آذر کا خواب -

برناڈ شا کے بگھیلین کا ترجمہ

٭خالد کی خالہ

چار لینز آئنٹ پر مبنی ڈراما

 ٭    گڑیاگھر

 بسن کے ڈائز ہاؤس کا ترجمہ

٭     جان ہار

ڈراما،شکنتلا،کالید اس کے سنسکرت ڈرامے کا ہندستانی میں ترجمہ

٭     مدرا راکشس کا ہندستانی میں ترجمہ

٭     مٹی کی گاڑی شو درک کے مرچھ کٹک کا ہندستانی ترجمہ

قدسیہ زیدی اپنی منفرد شخصیت اور اپنی ذہانت کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ قدسیہ زیدی نے البسن اورشا کے ڈراموں کے تر جمے کااز سرنو آغاز کیا۔ان انگریزی ڈراموں نے اردو میں بیش بہا اضا فہ کیا۔ان کا رجحان پھر سنسکرت کی طرف گیا انھوں نے سنسکرت کے ڈراموں کے بھی اردو اور ہندی میں ترجمے کیے۔انھوں نے خود ظبع زاد ڈرامے نہیں لکھے اس کے باوجود ڈراموں کے اجزائے ترکیبی ، ڈراموں کے نازک لمحات ، مکالموں کے درمیان پیچ و خم سے بخوبی واقف تھیں۔ اردو میں ڈراموں کا شعور کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے غیر زبانوں کے اردو تر جمے کرنے کی ضرورت محسوس کیں۔ اطہر پر و یز لکھتے ہیں:

 ’’بہتوں کو کہتے سنا ہے کہ کام عبادت ہے۔لیکن قدسیہ آپا کو سچ مچ عبادت کرتے دیکھا ہے۔وہ بڑے خشوع و خضوع سے عبادت کرتی تھیں۔ ان کی فطری سادگی اور شخصی پا کیزگی ، تقدس پیدا کر دیتی تھیںـ’۔۔ وہ محض کسی کام کواپنے ذمے لیتی تھیں، انھیں تو دھن سوار ہو جاتی تھی۔ پھر وہ نہ دن دیکھتی تھیں نہ رات۔ سردی دیکھتی تھیں نہ گرمی۔ وہ تو کام میں لگ جاتی تھیں۔ ہر چیز سے بے خبر۔ اور جب تک اسے ختم نہ کرلیتی تھیں، چین سے نہ بیٹھتی تھیں۔

قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ آپا۔اطہر پر ویز ـ، ص۔55

قدسیہ زیدی نے بچوں کے لیے ان گنت کتا بیں لکھیں جیسے:

 ٭    بھن بھن بانو

٭     جانبازسپاہی

٭     بن کے باسی

٭     گلا بوچو ہیا اور غبارے

٭     سرخ جوتے

٭     بجو بھیا کی عقلمندی

٭     گھلا ہوچو ہیا اور پری زاد

٭     جنگل میں شیر

٭     البیلی بچھیا

٭     منی کی مانو

٭     انوکھی دکان

٭     ان تھک جاں

اطہر پرویز کو قدسیہ زیدی میں ،نور جہاں محل، قدسیہ محل،اور قرۃ العین حیدر کی جھلک نظر آ تی ہیں ۔ انھوں نے ڈرامہ ’’انار کلی ‘‘ کو اسٹیج کی ضروریات کی روشنی میں پھر سے ترتیب دیا اور بعض بے حد خو بصورت اضافے کیے۔ ماہر ادیب کے مطا بق’’بیگم قدسیہ زیدی کے کارنامے یقینا آنے والی نسلوں کے لیے بڑی اہمیت رکھیں گے۔آج کی ضرورت ہے کہ ان پر تحقیقی کام کیا جائے،ان کے کارناموں کا جائزہ لیا جائے۔وہ ترجمہ کرتی تھیں۔ ریاضت اور عبادت کا ایک حسین امتزاج تھا۔اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے انھیں عبادت و ریاضت کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘

 اطہر پرویز نے بہت قریب سے قدسیہ زیدی کو دیکھا ان کے ساتھ علمی ادبی کاموں میں ہمہ وقت مشغول رہے۔ عصمت چغتائی بھی قدسیہ زیدی کی شخصیت سے متاثر ہے اور اس کا خود اعتراف انھوں نے خود اپنی ایک تحریر میں کیا۔

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ قدسیہ زیدی، اس وقت شدت سے یاد آئیں گی جب تہذیب، شرافت،نیکی، حسن درد مندی ، انسان دوستی کا ذکر ہوگا۔ قدسیہ زیدی ایسی شخصیت ہے جو اپنے نقوش کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انھوں نے زندگی کو بڑے سلیقے سے برتا ۔اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کو قدسیہ زیدی کے سلسلے میںاپنی ذمہ دار ی کو محسوس کرنا ہے۔قدسیہ زیدی ایک فرد نہیں،ایک تہذیب تھیں۔ قدسیہ زیدی کی وفات 27 دسمبر 1960 کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، اس وقت وہ صرف 46 برس کی تھیں۔شخص فنا ہوجاتا ہے، شخصیت اپنے نقوش کے ذریعہ سے زندہ رہتی ہے۔ قدسیہ زیدی کی شخصیت ان کے کارناموں کی وجہ سے غیرفانی ہے اور ان کے ذریعے سے وہی روشنی کی کرن، وہی کردار کی پاکیزگی اور لطافت جو ان کی ذات میں تھی،کائنات کے لیے ایک متاع عزیزبن جاتی ہے۔

 

حواشی

o                   قدسیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ،اشاعت اول2013

o                   قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی،مضمون:قدسیہ زیدی،صا لحہ عابد حسین ص۔31

o                   مشتاق علی،اردو ادب میں مہاراشٹر خواتین کا حصہ

o                   قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ،مضموں: قدسیہ: ما لک رام، ص۔22

o                   قد سیہ زیدی: مرتب بشیرحسین زیدی،مضمون:قدسیہ زیدی ازصالحہ عابدحسین، ص۔33

o                   رفیعہ سلطانہ،اردو ادب کی ترقی میںخواتین کا حصہ،دہلی:مجلس تحقیقات اردو حمایت نگر

o                   قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:ایسی چنگاری بھی یا رب۔ آل احمد سرورـ، ص۔50

o                   قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ آپا۔اطہر پر ویز، ص۔55

o                    قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:تم زندہ ہو،عصمت چغتا ئی ص۔76

 

Sana Bano

D/o Mohammad Khizar

Add: Madina Masjid Main Road Kamptee,

District Nagpur-441002 (M.S)

Mob: 9021546617/ 9335412491

E-Mail: sanakhizar65@gmail.com    

23/11/23

اخترالایمان کی مختصر نظمیں: درخشاں انجم

 

مختصر نظمیں لکھنا بھی ایک مشکل فن ہے اورہر شاعر اس فن میں ماہر نہیں ہوتا ۔اخترالایمان نے تقریباََ 100 سے زائد مختصر نظمیں لکھی ہیں ۔ یہ نظمیں اپنے انداز بیان کے اعتبار سے بہت دلکش ہیں۔ اخترالایمان نے کافی خوش اسلوبی سے ان نظموں کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے،جوتاثر ان کی طویل نظموں کے ذریعے ذہن پر مرتب ہوتا ہے بالکل ویسی ہی اثر انگیزی ان کی مختصر نظموں میں موجود ہے، ہر چند کہ شاعر کیفیات کی تفصیل پیش نہیں کرتا ۔اس کے باوجود ،جزئیات کی تفصیلات خودبخود ذ ہن میں روشن ہوتی چلی جاتی ہیں ۔مختصر نظموں کے بارے میں اخترالایمان اپنے مجموعہ کلام ’’یادیں‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

’’میری شاعری کا ایک اہم جزو مختصر نظمیں بھی ہیں ۔کئی نقادوں نے ان نظموں کا محرک جاپانی شاعری کو بتایا ہے۔ انھیں ان نظموں میں جاپانی شاعری کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوا مجھے معلوم نہیں مختصر نظم کہنے کی تحریک مجھے جہاں سے ملی تھی، وہ ساودے کی ایک نظم ہے۔ نظم اس وقت میرے ذہن میں نہیں صرف ایک مصرع یاد ہے:

کبھی میرا بھی ایک گھر تھا

یہ چھ سات مصرعوں کی نظم تھی اور تاثر سے بھر پور تھی یامجھے بھرپور نظر آئی تھی یا محسوس ہوئی تھی۔ ایسی نظمیں خالصتاََ احساس کی نظمیں ہوتی ہیں ۔یہ اس قدر مختصر ہوتی ہیںکہ ان میں کسی موضوع کو دخل ہو ہی نہیں سکتا ۔یہ نظمیں دراصل اڑتے ہوئے رنگ پکڑنے والی بات ہے ۔ مجھے یہ صنف اسی لیے بہت اچھی لگتی تھی کہ اس میں تاثر اور احساس بھر پور آتا ہے۔یہ نظمیںدراصل چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ تتلیاں ہیں ،جو ہر طرف اڑتی پھرتی ہیں اور جو کبھی پکڑ میں آجاتی ہیں کبھی نہیں آتی۔‘‘

(یادیں،اخترالایمان،رخشندہ کتاب گھر ،بمبئی،1961،ص۔13)

 اخترالایمان کے یہ جملے بے حد معنی خیز ہیں۔ انھوں نے اپنی مختصر نظموں کا وصف احساس اور تاثر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ہر انسان کے محسوس کرنے کا زاویہ اور پیمانہ مختلف ہوتا ہے ،جو چیزیں ہمارے احساس کے تاروں کو کو چھیڑتی ہیں کوئی ضروری نہیں کہ دو سرے لوگ بھی

انھیں کیفیات سے سرشار ہوں۔تاثر کی سطحیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ہم کچھ کیفیات کا زیادہ اثر قبول کر سکتے ہیں اور کچھ کیفیات کے حوالے سے لاتعلق اور بے پروا بھی ہو سکتے ہیں ۔شاعر کا احساس اور تاثر ،قاری کا احساس اور تاثراسی وقت بن سکتا ہے، جب وہ نفسیات کی باریکیوں سے واقف اور گہرے مشاہدے کی خوبیوں سے متصف ہو ۔ اخترالایمان کے تخلیقی ذہن میں یہ دونوں پہلو شامل تھے اور اسی بنا پر مختصر نظموں میں ان کا انفرادی احساس اور تاثر ،قاری کے اجتماعی احساس اور تاثر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔درج بالا اقتباس میں انھوں نے ایک اور بنیادی بات یہ کہی ہے کہ احساس پر مشتمل ان کی مختصر نظمیں ،دراصل رنگ برنگ چھوٹی چھوٹی تتلیاں ہیں ،جو کبھی تو پکڑمیں آجاتی ہیں اور کبھی نہیں آ پاتیں۔کسی مخصوص کیفیت یا احساس کو گرفت میں لینا بلا شبہ تتلیوں کو پکڑنے جیسا عمل ہے۔اس میں اگر کامیابی مل جائے تو ذہن سرشار ہو جاتا ہے اور ناکامی کی صورت میں ازسرنو جہدوعمل کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔رنگ برنگ تتلوں کے پیچھے بھاگنا از خود سرشاری کا عمل ہے۔ تتلیاں کبھی نگاہوں کی دسترس میں ہوتی ہیں اور کبھی پلک جھپکتے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں،لیکن اپنے آپ کو ان کے تعاقب کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنا بھی، بہرحال ایک خوش گوار تجربہ ہوتا ہے اور اس نوع کے انوکھے تجربے اخترالایمان کی مختصر نظموں میں قدم قدم پر اپنی اہمیت کا احساس کراتے ہیں۔ تخلیقی عمل کے لیے فکر اور فلسفے کی فنکارانہ آمیزش بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور مختلف کیفیتوں کو سلسلے وار طریقے سے ایک لڑی میں پرونا نظم نگار کی تخلیقی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے،لیکن بعض اوقات، لمحاتی سرشاری بھی ہمیں اندر سے نہال کر دیتی ہے۔ بڑی خوشیاں زندگی میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں، لیکن اگر ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں زندگی کا حسن تلاش کریں توہمیں مسرت اور شادمانی کے مواقع زیادہ میسر آ سکتے ہیں ۔ اخترالایمان کی مختصر نظموں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

مختصر نظموں کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کہ کتنے مصرعوں تک کی نظم کو مختصر نظموں میں شامل کیا جائے۔ تاہم یہاں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اخترالایمان کی جو نظمیں 15 مصرعوں تک مشتمل ہیں، ان کو مختصر نظموں میں شامل کیا گیا ہے۔

اخترا لایمان کی ان نظموں میں تنہائی کا احساس ، شہری زندگی کا کرب ، امید کی لو، انسان کی عظمت کا احساس، ماضی وحال کا تضاد،انسان کی حیوانیت اور معصومیت ، زیاں کاری،حالات کی ستم ظریفی،عشق کی ناکامی،فطرت سے دوری ، نئی اور پرانی قدروں کی کشمکش،وقت کی توانائی کا احساس ،سیاسی و سماجی صو رتحال اورزندگی کا تصور ملتا ہے۔

اخترالایمان کے کلیات میں جو سب سے مختصر نظم ہمیں ملتی ہے وہ چار مصرعوں پر مشتمل نظم’’نیاز‘‘ہے۔اس نظم میں معاشرے کے رسم و رواج اور انسان کی عادت وخصلت پر طنز کیا گیا ہے۔انسان اب روحانیت سے دور ہوتا جا رہا ہے اور مادیت کے فریب میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ نظم نیاز ملاحظہ ہو۔

 قرآں کی آیتوں کے ساتھ ارواح اب وجد کو

خمیری روٹیوں اور قورمے کے ساتھ رخصت کر دیا ہم نے

خدا بھی خوش ہوا ہوگا کہ زیبائے جہاں خوش ہیں

عمل سے اپنا منہ کھولے تھے دوزخ بھر دیا ہم نے

(نیاز)

 اخترالایمان کی عشقیہ نظموں میں یاد کا عنصر لازمی طور پر دیکھنے کو ملتا ہے اور اس یاد میں وقت کا جبر کسی نہ کسی صورت میں موجودہے ۔ عشق پر موت،حالات اور وقت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے، جس سے وہ عشق کی ناکامی کا اعتراف بھی کرتا ہے اور محبوب سے اس بات کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وقت اور حالات کے آگے یہ عشق بھی ناپائدار ہو جائے گا ۔ اخترالایمان کی عشقیہ نظموں میں عہد وفا ، تبدیلی،اتفاق ، جب اوراب ،دور کی آواز،شفقی،دو پربت،برندابن کی گوپی،جان شیریں،میں اور تو،آخر شب،اشعار، رابطہ، مرگ نغمات وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 نظم’’ جان شیریں ‘‘میں شاعر براہ راست اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ تم سے سوائے رنج ومصیبت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔تمھارے پیچھے پڑنے سے میرا ہی نقصان ہوگا لیکن اس کے باوجود بھی اس کی خواہش اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہی ۔اب بھی خواہش مجھے یہ کہہ کر تسلی دے رہی ہے کہ ان شب و روز کی زد میں آنے سے جو لمحات بچ گئے ہیں ان کو پائیدار کر لیا جائے ۔

تم سے ہمیں اور کیاملے گا

بر بادی دل خرابی جان

دیکھو تو ذرا تسلیوں کو

تھوڑا سا اگر ہے کوئی امکاں

یہ گردش روزگار و غم سے

لمحے جو بچے ہیں جان شیریں

ہم بھی انھیں پائدار کر لیں

آلام کو داغدر کر لیں

 (جان شیریں)

اخترالایمان نے اپنی نظموں میں ذاتی تجربے کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ذاتی نہ رہ کر آفاقی بن گئے ہیں۔صنعتی نظام کے سبب انسان کا فطرت سے جو رشتہ تھا وہ اب ٹوٹ گیا ہے۔نئے شہروں نے انسان سے اس کی معصومیت چھین لی ہے۔پرانی قدروں اور نئی قدروں میں تصادم کی یلغار ہے۔ انسان خود فریبی اور خوشامد پسندی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے ۔ان نئے شہروں نے انسان سے اس کے رشتوں کی اہمیت کا احساس ختم کر دیاہے۔ وہ مادیت کے فریب میں آکر شہروں میں منتقل ہو رہا ہے۔ ان کیفیات کو ان کی مختلف مختصر نظموں مثلاََ عہد وفا ، تبدیلی، پس وپیس، شیشہ کا آدمی، نیا شہر، مداوا، صبح کاذب، تلاش کی پہلی اڑان، خلاوغیرہ میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

نظم’’خلا‘‘میں انسانی زندگی کا کرب بیان کیا ہے۔یہ خلا وہ کیوں محسوس کر رہا ہے جبکہ اس کے ذہن میں بچپن کی یادیں تازہ ہیں ،فطرت کے وہ خوبصورت مناظر اسے یاد ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنے اندر خلا محسوس کر رہا ہے کیونکہ آج وہ ان سب چیزوں سے محروم ہے ۔اسے اس کیفیت کا لطف لینے کے لیے اپنے ذہن کے دریچہ کو کھولنا پڑتا ہے۔ صنعتی شہر نے فطرت کی رنگینیوں و ررعنائیوںکو مسخ کر دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھرا پرا شہر ہونے کے باوجود بھی انسان ایک خلا محسوس کر رہا ہے۔یہ نظم استفہامیہ انداز میں شروع ہوتی ہے:

خلا کیوں پر نہیں ہوتا

پرندوں کے ہزاروں رنگ

آموں سے بھری ڈالی

لسوڑوں کے ہرے خوشے

لٹکتی جامنیں کالی

میں بھولا تو نہیں پھر کیوں

مسلسل کرب رہتا ہے

خلا کیوں پرنہیں ہوتا (خلا)

 وقت کی کارفرمائی اخترالایمان کی اکثر نظموں میں سیل رواں کی طرح جاری وساری ہے۔کبھی یہ رو بہت تیز ہو جاتی ہے اور کبھی آہستہ۔وقت اخترالایمان کے یہاں انسان کے درد کا درماں بھی ہے اور زخموں پر نمک بھی چھڑکتا ہے۔لمحہ گریزیت کا احساس، شاعر پل پل محسوس کرتا ہے۔جن مختصر نظموں میں وقت کی کارفرمائی براہ راست دیکھی جا سکتی ہیںان میںپکار،سحر، سر راہگزارے،وقت کی کہانی، بنت لمحات،خود فریبی، معمول،میری گھڑی، مہایدھ،بیداد،زیاںکار،کاوش،بے تعلقی، ستترویں سالگرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نظم ’’بے تعلقی ‘‘میں شاعر اپنی گزری ہوئی زندگی کو وقت کے حوالے سے یاد کر رہا ہے ۔وقت جو اس نظم کے متکلم سے خاموش گزر رہا ہے جسے دیکھ کر اسے احساس ہوتا ہے کہ گویا وہ زندگی کی کشمکش میں مبتلا نہیں ہے، جب وہ زندگی کی کشمکش میں شامل تھا تو یہی وقت اس کے لیے کتنا تنگ تھا ۔ اسے اپنی ضروریات کو ایک محدود وقت میں پورا کرنا پڑتا تھا جس کے لیے اسے بہت سی صعوبتیں اٹھا نی پڑتی تھیں۔یہ وقت جو کبھی ہمالہ،عقدہ، سنگ گراں اور اشک بن کر اس پر گزرا ،آج وہ اس شخص سے چپ چاپ گزر کر جا رہا ہے:

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں

جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا

راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر

جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا

اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے

جو کبھی خون جگر بن کے مژہ پہ آیا

آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے

جیسے میں کشمکش زیست میں شامل ہی نہیں

(بے تعلقی)

انسان کی معصومیت اور حیوانیت ،زیاں کاری،زندگی کا تصور، سیاسی و سماجی حالات کی عکاسی بھی اخترالایمان کی مختصرنظموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔انسان کی حیوانیت کو تسلیم کبھی وہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی صورت میں کرتے ہیں۔کبھی قابیل ،کبھی ثمود و عاد کا فرد مان کر تسلیم کرتے ہیں جس سے شاعر کے انداز بیان میں تلخی شامل ہو گئی ہے۔عہد حاضر میں انسان آج جس بر بریت اور ہنگامہ خیزی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کو دیکھ کر شاعر کادل تڑپ گیا ہے۔ وہ اس بات پر یقین کرنے سے گریزاں ہے کہ انسان کیسے ایسی حیوانیت برپا کر سکتا ہے ،جب اس کی تخلیق ایک ہی مٹی سے ہوئی ہے تو وہ کیسے اس قدر وحشیانہ سلوک کر رہا ہے ۔نظم ــ’’تسکین‘‘ میں شاید شاعر نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈھ لیا ہے ۔جو شاعر کا خود کا نہیں بلکہ کسی محقق کا مفروضہ ہے ۔کسی محقق نے جب انسان کو بند ر کہا تو وہ بڑا خوش ہوا کیونکہ آج تک وہ جس لیے شرمندہ تھا ،اس کا جواب اسے مل گیاہے۔

ایک محقق نے انسان کو بوزنہ جب کہا

میں وہیں سجدئے شکر میں گر گیا

اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کے لیے

آفرینش سے اب تک جو شرمندہ تھا

آج وہ بوجھ بارے ذرا کم ہو گیا (تسکین)

 نظم ’’تادیب ‘‘میں خود احتسابی کا عمل ہے ۔انسان اپنے نامۂ اعمال کا جواب دہ خود ہوگا ۔ اس نظم میں جو احساس اور تاثر پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان خود پہلے اپنی اصلاح کر لے اور اگر اس طرح ہر انسان اپنی اصلاح کر لے تو دنیا میں برائی باقی نہ رہے لیکن انسان خود کو چھوڑ کر دوسروں کے تجسس میں لگا رہتا ہے اور یہی اس کی کمزوری کا سبب ہے۔

دوسروں کو سدھارنے مت جاؤ

اپنی اصلاح پر نظر رکھو

لوگ کیا کر رہے ہیں چھوڑو انھیں

اپنے افعال کی خبر رکھو

سر زنش اپنی خوب کرتے رہو

ایک شہدا جہاں میں کم ہوگا (تادیب)

نظم ’’اعتماد‘‘ میں انسان کی عظمت کا احساس تمثیلی ڈرامائی انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔نظم کا آخری مصرعہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔نظم میں قدرتی وسائل کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیاہے ۔ہر چیز اپنی انا اور خود اعتمادی کے آگے انسان کو ہیچ سمجھتی ہے۔ نظم کا ہر مصرعہ ارتقائی شان سے آگے بڑھتا ہوا نظم کو ایک معنوی سطح سے ہم کنار کرتا ہے اور یہی اخترالایمان کی انفرادیت ہے۔ انھوںنے نظم کے اس روایتی تصور کو توڑنے کی کوشش کی ہے جو اس سے پہلے ہماری شعری روایت میں جاگزیں تھی۔نظم کو اخترالایمان نے ایک اکائی اور وحدت کی شکل میں پیش کیا ہے۔

بولی خود سر ہو ا ایک ذرّہ ہے تو

یوں اڑا دوں گی میں، موج دریا بڑھی

بولی میرے لیے، ایک تنکا ہے تو

یوں اڑا دوں گی میں ، آتش تند کی

اک لپٹ نے کہا ،میں جلا ڈالوں گی

اور زمیں نے کہا ،میں نگل جاؤںگی

میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی نقا ب

اور ہنس کر کہا ،میں سلیمان ہوں

ابن آدم ہوں میں ،یعنی انسان ہوں

(اعتماد)

نظم ’’اور اب سوچتے ہیں‘‘ میں زندگی کے آخری موڑ پر ندامت کا احساس ہے کہ انسان اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کو پورا کرنے کی تکمیل میں مسلسل جدوجہد کرتا رہتا ہے اور اس جدوجہد میں انسان اپنی اہمیت کو بھول جاتا ہے کہ اصل میں اس کی منزل مقصود کیا ہونی چاہیے تھی لیکن وہ دنیا اور اس کی آرزوؤںکے فریب میں آکر کرب اور صعوبتوں کو جھیلتا ہوا زندگی کے آخری موڑ پر پہنچتا ہے تو اسے اپنی منزل کا پتا ہی نہیں رہتا ۔گویا اس نے کوئی غلط راہ اختیار کر لی تھیں یا اس نے اتنی جدوجہد کی کہ آخر میں اسے اپنی منزل مقصود بھی یاد نہ رہی۔

دور تھی منزل مقصود مگر چلتے رہے

ہفت خواں طے کیے ، ظلمات سے گزرے بھٹکے

 وسعت دشت تمنا ،سراسیمہ، زبوں، آبلہ پا

 رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے

 راہ کی گرد چھٹے کرب سے مل جائے نجات

 دور تھی منزل مقصود مگر چلتے رہے

 عمر کے موڑ پر آئے تو شش و پنج میں ہیں

 اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا

(اور اب سوچتے ہیں)

 اخترالایمان کی شاعری میں درد مندی اور ایک حزنیہ کیفیت کی فضا چھائی ہوئی ہے ، لیکن انھوں نے اپنی تمام مختصر نظموں میں متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ان نظموں میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے ،معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ نظمیں رمزیت کی حامل ہیں۔ایک دوسرے مصرعے کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ کہیں بھی خلا کا احساس نہیں ہوتا ۔کچھ نظموں کا خاتمہ یعنی آخری مصرعہ کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔بقول یعقوب راہی:

’’اخترالایمان کی مختصر نظمیں بھی منفرد اور دوسروں سے مختلف ہیں۔اگر چہ مختصرنظموں کا چلن اب عام ہو چکا ہے لیکن اخترالایمان کی یہ مختصر نظمیں اردو شاعری میں مختصر نظموں کے باب میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔یہ نہ غزل کے شعر ہیں،نہ دوہا، نہ رباعی، نہ قطعہ ۔ موضوع کے جس پہلو کو بیان کرنا ہوتا ہے یہ نظمیں جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ۔ ان میں وحدت فکر بھی ہے، اشارے کی معنی خیزی بھی ہے، انداز بیان کی ندرت بھی ہے ، چونکا دینے کی صلاحیت بھی اور اخترالایمان کی اپنی پہچان بھی۔‘‘

  (اخترالایمان عکس اور جہتیں،مرتبہ شاہد ماہلی،معیار پبلی کیشنز، 2000، ص۔332)

اخترالایمان کی نظموں کا اسلوب جداگانہ ہے۔ کہیں نثریت ہے ،کہیں خود کلامی، کہیں ڈرامائی انداز، کہیں تمثیل نگاری، کہیں طنزیہ انداز، کہیں تشبیہاتی و استعاراتی پیکر کا استعمال وغیرہ۔یعنی فنی اعتبار سے بیش تر نظمیں مربوط ہیں،جن میں غضب کی اثر انگیزی شامل ہے۔

بحیثیت مجموعی جدید نظم میں اخترالایمان نے نہ صرف متنوع موضوعات و اسالیب کے ذریعے ادب میں اپنی انفرادیت قائم کی ہے بلکہ مختصر نظموں کے ذریعے بھی اردو نظم میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔اخترالایمان کی ان مختصر نظموں کی اہمیت اردو ادب میں ہمیشہ قائم رہے گی۔

 

Darakshan Anjum

Research Scholar

Dept. of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh-202001 (U.P)