30/11/23

ناول ’نوحہ گر‘ کا بیانیاتی اسلوب: انجم قدوائی

ذات کا کرب جب سماجی خارزاروں کے درمیان لہو لہان ہوتا ہے تو وہیں کسی درد کی لہر سے ایک روشنی کی کرن بھی پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی سے ہر جانب اجالا پھیلانے کی کو شش میں اپنا  وجود فراموش کر دینا،یہ ہے ''نوحہ گر ''۔

 آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ذوق سخن اور ذوق قلم دونوں کا معیار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور خاص کر اردو زبان کے شیدا  ناپید ہوتے جا رہے ہیں، ایسے پر آشوب دور میں یہ عظیم و ضخیم ناول منظر عام پر آیا ہے جس وقت کسی پختہ اورحقیقی تحریرکی اشد ضرورت ہے۔یہ ناول علم و ادب کے پیاسوں کے لیے ایک میٹھی ندی کے مانند اپنے جملوں اور منظر نگاری سے سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔میں نسترن فتیحی صاحبہ کے نئے ناول’’ نوحہ گر ‘‘ کا ذکر کر رہی ہوں۔ جسے ایجویشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے۔504 صفحات پر مشتمل یہ ناول جب ایک بار آپ پڑھنا شروع کر دیں تو اس طرح اس ناول کی دنیا کا حصہ بن جائیں گے جیسے آپ وہیں کہیں موجود ہیں۔

یہ ناول حاشیے پر رہنے والے ان قبائیلیوں کو موضوع بنا کر لکھا گیا  ایک ایسا بیانیہ ہے جو مظلوموں کی بے کسی کو نشان زد کرتا ہے۔ جن کے مسائل اور جن کی زندگی کو ہمارے نظام نے حاشیے پر چھوڑ دیا ہے۔جو ہمارے ہی درمیان رہتے ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے یا انہیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا ،مگر اس کا موضوع ان قبائیلیوں تک محدود نہیں ہے یہ کہانی بہار کے ایک بے حد پچھڑے ہوئے علاقے سے شروع ہو کر حالیہ سیاست کے دہلی کے منظر نامے تک پہنچتی ہے اور بغیر کسی رپورٹنگ یا تقریر کے ہمیں اس آئینے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں ہر اقلیتی طبقہ خود کو حاشئے پر چھوٹا ہوا محسوس کرتا ہے ۔اس حاشئے پر جہاں سے استحصال کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جو بے لگام ہٹلر شاہی نظام کی سیاست کے مظالم کا شکار ہوتا ہے ۔جہاں ایک طبقے کو شعوری کوشش کے طور پر اتنا پس ماندہ اور مفلس کر دیا جاتا ہے کہ ان پر بلا تردد حکومت کی جا سکے ،ان کا حق اور ان کے املاک پر قبضہ کیا جا سکے ۔ امراء اور غریب کے درمیان اتنی گہری کھایٔ کھودی جا سکے کہ اسے پاٹنے کا تصور بھی نا ممکن ہو۔ لیکن جنگل اور گاؤں میں حاشئے پر موجود ان طبقوں کی کہانی احساس کے ایسے دھاگے سے بنی گئی ہے کہ کویٔ بھی کردار یا جگہ آپ کو اجنبی نہیں لگتی۔ آپ اس درد کے سفر میں خود کو مکمل طور پر شامل پائیں گے ۔ یہ ناول سرسری ورق گردانی کے لیے نہیں ہے نہ ہی ایک نشست میں پڑھی جانے والی کہانی ہے ۔یہ وقت لے کر پڑھنے  والی کتاب ہے ۔جس کی دنیا میں اگر آپ شامل ہو جائیں تو آخیر تک پہنچ کر ہی دم لیں گے۔یہ نہ تو کوئی تاریخی ناول ہے اور نہ ہی سیاسی مگر اس کا موضوع بہت خوبی کے ساتھ ہماری تاریخ اور سیاست کے ایسے اندیکھے گوشے کو مرکز میں لا کر لکھا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو برہنہ کرنے میں کامیا ب ہوا ہے جس سے حکومتیںجان بوجھ کر اور فرد مجبوری میں چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور جن پر گہرائی سے سوچنے اور اس کے سد باب کے لیے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔

برجستہ وبرمحل تخلیقی جملوں سے مزین ناول '' نوحہ گر'' کے الفاظ کا انتخاب،جملوں کی چاشنی اوران کی بنت اور جزئیات نگاری ناول کے طویل ہونے کے باوجود ایسی دلچسپی قائم کردیتا ہے کہ اس طوالت سے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ دریا کی روانی کی طرح الفاظ کا بہاؤ اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔

راحت کے کردار کے ذریعے ایک طرف سنہری روایتوں،ادبی ثقافت ، ہمارا تہذیبی اور مذہبی ماحول  دکھایا جاتا ہے تو دوسری طرف سماجی نابرابری اور نا انصافی ،انسانی نفسیات،غربت اور کسمپرسی کو دیکھنے کا وسیلہ بھی '' راحت'' کا کردار ہی بنتا ہے۔۔۔۔اس کا کردار،ایک عام کردار نہیں بلکہ وہ اپنی ماں کا صبر ضبط دیکھ کر شعور کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے ساری دنیا دو دائروں میں قید نظر آتی ہے۔ایک طرف ہنسی کے آبشار ہیں بے فکری ہے عیش کوشی ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط کی منزل ہے اور ایک سرمئی سی اداسی  ہے۔ یہ اداسی پورے ناول پرمحیط ہے۔

راحت‘ اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو ایک ڈاکٹر ہے ۔ اس کے سامنے مستقبل کی بڑی سنہری راہیں کھلی ہوئی ہیں مگر وہ اپنے آبائی وطن کی کسمپرسی، والد کے خواب اور اپنے عزم کو سامنے رکھ کر اپنے روشن مستقبل کی قربانی دیتی ہے ۔ اس کی یہ قربانی ،اس کا یہ عزم اور اس کی راہ میں حائل تمام مشکلیں راحت کے کردار میں ایسے کئی سوشل ایکٹیوسٹ کی یاد دلاتے ہیں  جو اپنے اپنے وقت میں معاشرے کے لیے ہمیشہ فعال رہے اور ہر طرح کی قربانیاں دیں ۔ اپنے انتساب میں نسترن خود بھی لکھتی ہیں ۔۔۔

’’صفدر ہاشمی، بنائیک سین اور میگھا پاٹیکر جیسے ایکٹیوسٹ کے نام آج کے سماج میںجن کا کردار اس ناول کو لکھنے کی تحریک بنا۔۔۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ راحت کا کرداراس ناول کا ایک ایسا مضبوط مزاحمتی کردار ہے جو ان سارے ایکٹیوسٹ کے شانہ بہ شانہ آکر کھڑا ہو گیا ہے اور اس ناول کو پڑھ لینے کے بعد اسے بھول پانا مشکل ہے ۔ اس طرح اس ناول کے ذریعے نسترن نے ان سماجی کارکنوں کو بہترین خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے ۔ جو اپنی بے لوث خدمت سے معاشرے میں حاشئے پر چھوٹ جانے والوں کی بھلائی کے کام میں خاموشی سے لگے رہتے ہیں اور جس کی وجہ سے بعض دفع انھیں اپنی جان تک کی قربانیاں دینی پڑی ہیں ۔

یہ ناول ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی ہے ۔ جس میں زندگی سے جڑے بڑے گمبھیر مسائل پر بات کی گئی ہے اور حیرت اور خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایسے سنجیدہ اور روکھے موضوع کو واقعات اور کرداروں کے ذریعے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ناول میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنے گرد و پیش سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ناول کے شروع میں ہی وہ اس میں پیش ہونے والے موضوع کا  پس منظریوں بناتی ہیں کہ راحت  زینہ سے ہوتی ہوئی اس چھت پر آتی ہے جہاں ایک طرف سے اسے ایک دائرے کی چکا چوند روشنی نظر آتی ہے دوسری جانب یادوں میں بسا ویران اداس کھنڈر۔اس کا دل اداس ہے مگر پرہمت بھی،اداسیوں کو ختم کرنے  کے سبب کی تلاش بھی اور یہیں سے قاری کے تجسس کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے جو کتاب کے اختتام تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔

پورے ناول میں کھیت کھلیان،جنگل، روشنی،سورج چاند بادل اوراستوں کی خوبصورتی کو لفظوں میں اس طرح ڈھال دیا گیا ہے کہ قدرت کی صناعی نظر آنے لگتی ہے ۔

گاؤں کے راستے،کوئل کی کوک۔خرگوش کی معصومیت، ان سب چیزو ں نے مل کر تحریر کو ایک نرمی اورایک خوبصورت کیفیت سے دوچار کیا ہے۔

آپ مرکزی کردار کی اس کشمکش کو دیکھیں جب اس کی ذات دو متضاد دنیا سے تال میل بٹھانے میں شعور کی منزلیں طے کررہی ہے۔ایک اس کے اندر کی دنیا ہے۔مصالحت پسند،پرسکون، پر محبت اور دوسری حقیقی اورعملی دنیا۔۔ کشاکش سے بھری،پرتصنع اورکرپٹ۔۔۔مثال دیکھیں۔

''بہت شروع سے شاید شعور کی سرحد کے کہیں بہت پہلے سے اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک دنیا تھی جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ تھی۔ اور ہر وقت بڑی خاموشی سے اس کے ساتھ شب و روز کا سفر طے کرتی۔اس دنیا میں کوئی شور نہ تھا کوئی مصروفیت نہ تھی مگر ایک سرگوشی تھی جوہر وقت اس کی توجہ باہر سے اندرکھینچنے کی کوشش کرتی رہتی۔۔۔اندر کی دنیا میں بے پناہ اداسی بھری رہتی۔شاید باہر کی دنیا میں اس کی شمولیت اندر کی دنیا کو پسند نہ تھی۔۔۔۔اندر کی دنیا۔۔۔۔۔ جہاں کے رشتے نرم و نازک جھاڑیوں کی طرح محبت کی ہوا کی خنکی سے ہلکے ہلکے کانپتے،ہلکورے لیتے ہوئے سانس لیتے۔اور جن میں معصوم خرگوش جیسے جذبے اپنی چمکتی سرخ آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے یہاں وہاں پناہ لیتے۔پھدک کرنکلتے اور پھر ان میں ہی جاکر چھپ جاتے۔ ان معصوم جذبوں کو وہ جب چاہے  ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیتی۔ انہیں سہلاتی، پچکارتی اور پھر ان ہی جھاڑیوںمیں چھوڑ دیتی۔ تب اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت اس کے سامنے دونوںدنیاؤں میں تال میل بٹھانے کی اجازت کبھی نہ دے گا۔ باہر کی دنیا کے اپنے اصول تھے۔۔۔اس کا اپنا قانون تھا۔۔''

 (نوحہ گر: صفحہ۔15)

اس باہر کی دنیا کی نا انصافی،نا برابری نے اس کو کم عمری میں ہی بہت دکھ درد دیے،جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کوکیسے تیار کیا۔مثال دیکھیں:۔

’’بعد میں راحت نے بھی خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔اس شوق اور اس جنون کے ساتھ کہ وہ اس زمین پرہمیشہ مظلوموں کے ساتھ نا انصافی کے خلاف کھڑی رہے گی۔اس نے پڑھا تھا کہ دھات کو تپا کر جتنا پیٹا جاتا ہے وہ اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے اور اس کی ہر تہ میں بورک ایسڈ ڈالا جاتا ہے تاکہ پرتوں کے بیچ سے آکسیجن نکل جائے اور اس میں زنگ نہ لگے۔اس نے بھی اپنی زندگی کے اس عظیم حادثے کے دردکو یادوں کے ہتھوڑوں سے اتنا پیٹا تھاکہ اس کا دل کافی پختہ اور مضبوط ہو چکا تھا۔ہر گناہ،جبر اور زیادتی کے خلاف ہمیشہ لڑنے کے لیے اور ہر گزرتے لمحے کی تہ میں وہ محنت شاقّہ کے بورک ایسڈ سے اپنے ارادے کو زنگ لگنے سے بچاتی رہتی تاکہ آرام و آسائش کی آکسیجن کسی تہ میں باقی نہ رہ جائے اور اس کے ارادے کو زنگ نہ لگ جائے۔'' 

(نوحہ گر: صفحہ۔16)

ماحولیات سے محبت اس ناول کی ایک اور خاصیت ہے ۔منظر نگاری میں وقت کا ذکر ہو، گاؤں یا جنگل ندی کا ذکر ہو یاکھیت کا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ۔یہاٖں چند مثالیں پیش ہیں۔

اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کی مشرقی کھڑکی کے سامنے سورج کا گولا بالکل پورے چاند کی طرح ٹھنڈا سیاہی مائل آسمان کی پیشانی پر سہاگن کی بندی کی طرح چمک رہا تھا۔ماں نماز سے فارغ ہو کر اپنے بستر کو درست کر رہی تھیں۔اس نے حیران ہو کر سورج کی طرف دیکھا۔۔ راحت کی آنکھ کھلتی دیکھ کر وہ مسکرائیں۔۔نماز نہیں پڑھی دیکھو طلوع آفتاب کا وقت ہو گیا۔اٹھ جاؤمیں چائے بنانے جا رہی ہوں۔

آج اتنے د نو ں بعد ایسی فر صت  سے امّی کے کمر ے میں سو نا اور جا گنا اُسے کتنا اچھا لگ ر ہا ہے۔ جسم کے پورپور سے جیسے تھکن بو ند بو ند ٹپک کر با ہر نکل گئی ہو اور جسم با لکل ہلکاپھلکا اور د ما غ با لکل پر سکو ن ہے اس و قت، جی چا ہ ر ہا ہے کہ صبح صا د ق کا و قت یو ں ہی تھم جا ئے۔اور کھڑ کی کے چہر ے پر طلو ع آفتا ب کی بند ی یوں ہی ٹنکی ر ہے۔ مگر یہ کیا۔۔ ان چند لمحوں میں سو رج کی بند ی کھسک کر او پر چلی گئی تھی اور اب کھڑ کی سے آد ھی نظر آر ہی تھی۔ اُس کی سرخی کے سا تھ اب اُس کے چہا ر طرف روشنی کی سپید ی کا ایک ہا لہ سا بھی بن گیا تھا۔ را حت غور سے اُدھر د یکھتی ر ہی اور اُسے احسا س ہوا کہ وہ بہت تیزی سے کھسکتا جا ر ہا تھا۔ شا ید اُسے د نیا کو جگا نے کی بہت جلد ی تھی۔ اور ایک پل گنوائے بغیر وہ اپنے سفر پر گا مز ن تھا۔ لو گو ں کی سُستی د یکھ کر اُس کا جلا ل اوربھی فزو ں ہو ر ہا تھا۔ را حت کو یقین تھا جب وہ کمر ے سے با ہر جا کر اُس کی طرف د یکھے گی تو اُس سے نظر یں نہ ملا پا ئے گی۔ اب وہ نظروں سے او جھل ہو چکا تھا مگر کھڑکی کے با ہر اُس نے اپنے و جو د کی روشنی کے  پہرے بٹھا دئے تھے۔ را حت نے کسلمند ی سے انگڑا ئی لی اور کر و ٹ بد ل کر د یوا ر کی طر ف ر خ کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ابھی وہ اس آلسی صبح کو پکڑ ے ر ہنا چا ہتی تھی۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔14۔13)

’’راحت نے دور ندی میں دن کے آخری مدھم اجالے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔پانی پر شام کے سلیٹی رنگ کے سائے پگھل کر پوری ندی پر پھیلتے جا رہے تھے۔جنگل کی طرف سے ایک دہشت بھری سرسراہٹ،ایک بہکی ہویٔ جنگلی خوشبو کے ساتھ، ہوک بن کر اس کے دل میں اتر گئی۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔  295)

 '' جیپ پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی اور راحت گم تھی اپنے ہی خیالوں میں،ہوا راحت کے سائے کو اڑائے لیے جا رہی تھی۔راحت نے جانے پہچانے اس مانوس ماحول میں اپنی روح کو سرشار ہوتے ہوئے پایا۔سورج تمام دنیا کواپنی ضوفشانی کے دائرے میں لیے ہوئے تھا۔ ا س نے تیز ہوا میں اپنا سر اوپر اٹھایا  اوراسے محسوس ہوا کہ زمین کا یہ لا متنا ہی سلسلہ، یہ عظیم الشان آسمان اور آزادی اور مسرّتوں سے مالامال وطن کا یہ تمام علاقہ اس کے دل کی وسعتوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے لگا زمین کا یہ ٹکڑا۔۔۔ دنیا کا سب سے خوبصورت حصّہ ہے، بلکہ بہشت سے مشابہ ہے۔''  

(نوحہ گر: صفحہ۔180)

وہیں آدی واسیوں کے درد کو اس ناول میں اس طرح پیش کیاہے کہ جھکجھورکررکھ دیا ہے۔صاف ہوا پانی بھی میسر نہ ہو تو زندگی کی نمو کہاں ممکن ہے۔آدی واسیوں کی پسماندگی راحت کی حساس طبیعت کو نشتر چبھوتی ہے۔

یہ سارا ماحول کچھ اس قدر فطری انداز میں پیش کیا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ جنگل کا ذکر ہو یا شہر کا،گاؤں ہو یا گھر آپ کی یادداشت میں بس جائے گا۔

کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ راحت کا باغیانہ اند ز اس کی محرومیوں کا بدلا ہے۔اس نے محسوسات اور تخیل کو ایک نئی مضبوط دنیا سے متعارف کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔مظلوم کے لیے طاقت بن کر وہ اس دنیا کو جینے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔

اس ناول میں رشتوں کی پائیداری بھی ہے، محبت کی میٹھی میٹھی کسک بھی۔اب وہ رشتہ انسانیت کا ہو،ماں کا ،چچا کا یا محبوب کا۔

یہ چند اقتباسات دیکھیں۔۔۔۔

’’وہ اس کی نظروں میں اعتماد کے ساتھ اپنے لیے الفت بھی دیکھنا چاہتے‘‘تھے۔۔نہ جانے کب سے۔۔شاید ہمیشہ سے ہی،لیکن احساس بعد میں ہوا۔کیونکہ اس کے دراز سبک بالوں کے درمیان اس کا انتہا سنجیدہ اور متین نظر آنے والا چہرہ ان کی کمزوری بن گیا تھا،وہ یہ بھی نہ کہ سکے کہ مسکرانے سے پہلے اس کے گال پر گہرا سا گڑھا جو رقصاں دکھائی دیتا تھا،وہ دل کی کدورتوں کو دھو کر پاک کر دینے کی طاقت رکھتا تھا  اور اس کے تمام حرکات و سکنات جو شائستگی اور سبکدوشی کا مظہر تھیں،اور اس کا خاموش شرمیلا پن جو بہت ساری دوسری خوبصورتیوں کے معیار سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ ان کے جیسے متین شخص کا دل بھی جیت بیٹھے تھے۔''

(نوحہ گر: صفحہ۔ 19)

’’ ساری دنیا سے اپنے غم چھپانا کتنا آسان ہے، مگر ایک ماں سے نا ممکن ۔۔۔ وہ جو اتنی دور ہیںمگر اس کی بے چینیاں انہیں وہاں قرار نہیں لینے دیتی۔ ان سے بات کرنے سے پہلے ،اپنی آواز وہ سارے آنسو پونچھ دینا چاہتی تھی جو اس کے دل میں قطرہ قطرہ گر کر اس کی آواز کو گلوگیر کر رہے تھے ۔اس نے کچھ دیر خود کو نارمل کیا ۔ایک گلاس پانی مانگ کر پیا پھر چائے بھی پی لی۔ اب اسے لگا ،وہ ماں سے بات کر سکتی ہے ۔اس نے فون لگایا۔۔۔۔’ ہیلو ۔۔۔کون ‘ عالیہ بیگم کی آواز میں ایک ایسا اضطرار تھا کہ راحت کی ساری تیاری دھری رہ گیٔ۔ نہ جانے کہاں سے آنسوؤں کا سیلاب امڑ آیااور وہ  خاموش رہ گئی ۔’ ہیلو ۔۔بیٹا راحت۔‘کیا انھوں نے صرف اس کی سانسوں سے اسے پہچان لیا تھا، ابھی تو وہ کچھ بول بھی نہیں پائی تھی۔‘‘

(نوحہ گر: صفحہ۔ 364)  

اس دنیا میں شروع سے خیر و شر کے تناسب سے جو خلفشار جاری ہے اور یقینا  قیامت تک جاری رہے گا وہی اس ناول کا بنیادی موضوع ہے اور کہیں نہ کہیں ناول کی یہ کہانی ہمیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ انسانیت اور رشتوں سے محبت یہ دو ایسی طاقتیں ہیںجو  ہمیں ہر حال میں صرف جینے کا حوصلہ  ہی عطا نہیںکرتیں بلکہ بھلائی کو جاری رکھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ شر کی طاقت  چاہے کتنی بھی بڑھ جائے خیر اس کے سامنے کبھی ہار نہیں مانتا۔  اس ناول میں وہ سارے مشاہدات اور تجربات ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آکر حیران کرتے ہیں اوراپنے دلکش اسلوب میں ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔اگر اس ناول میں کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ کہیں کہیں ٹائیپنگ یا پروف کی کمی کھلتی ہے اس کے علاوہ اس کی ضخامت آج کے مصروف دور میں ناول کے مطالعے کے ارادے کو متزلزل کرتی ہے ۔لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جس نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا اسے اس کا بیانیہ پھر باہر نکلنے نہیں دے گا جب تک کہ وہ اسے ختم نہ کر لے ۔کیونکہ نوحہ گر وقت کے صفحات پرلکھا گیا ایک ایسا نوحہ ہے جسے ہر حساس انسان اپنی روح سے محسوس کرسکتا ہے۔

Anjum Kidwai

Flat number B
Ruby Apartment
Badar Bagh
Aligarh - 202002 (U.P)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں