28/2/23

مہاربھارت کے اردو تراجم: شاہ نواز فیاض


 

زبان کے حیرت انگیز کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام الناس کے افکاروخیالات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ دنیا میں تقریباً تمام علوم کی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے، اس کا جو فائدہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سے مذہبی کتابوں کا بھی دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، جس سے مذہب کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ بات صرف مہابھارت کے حوالے سے کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں مہابھارت سے متعلق اور اس کے تراجم کے حوالے سے تقریباً تین درجن کتابیں موجود ہیں۔ میری معلومات کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ طوطا رام نے 1862 میں کیا تھا، جسے نول کشور پریس نے شائع کیا تھا۔اس کتاب پر کہیں سنہ اشاعت درج نہیں ہے، لیکن کتاب کے بالکل آخری صفحے پر تاریخ طبع کتاب درج ہے، جس کامادہ 1862 نکلتا ہے، اسی طرح سے ہجری میں 1278 درج ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مہابھارت کا پہلا اردو ترجمہ 1862 میں شائع ہوا۔ نند کشور وکرم نے عالمی ادب کے دھارمک نمبرمیں اس ترجمے کا سنہ اشاعت 1874 لکھا ہے، جب کہ قطعۂ تاریخ سے کچھ اور واضح ہوتا ہے۔ دھارمک نمبر کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ سی۔ پی۔ کھٹاو نے کیا ہے، جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دوسرا ترجمہ سی پی کھٹاو نے’مہابھارت‘کے عنوا ن سے 1867 میں کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اردو ترجمے کے ابتدائی زمانے میں مذہبی صحائف کے ترجمے کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔

مہابھارت کو بچوں کے لیے بھی پیش کیا گیا، اس سلسلے میں شیو ناتھ رائے کی کتاب’بچوں کے لیے مہابھارت‘ کافی اہم ہے۔ اس طرح کے کام کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے جو کتابیں تیار کی جاتی ہیں، اس کا مقصد صرف کتاب تیار کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرکتاب کچھ اس طرح سے مرتب کی جاتی ہے کہ مکمل طور پر کتاب کا مقصد پوراہوسکے۔ اس طرح کی کتابوں سے بچوں کی ذہن سازی میں بہت مدد ملتی ہے۔

مہابھارت ہندو مت کا ایک بے حد معروف ومشہورر زمیہ ہے۔دراصل مہابھارت ہندوستان کی بہت قدیم اور طویل منظوم داستان ہے، جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں بڑا اعتبار حاصل ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ بے حدمتنوع ہے، کیونکہ اس میں جنگ، راج دربار، محبت اور مذہب سب کچھ شامل ہے یا یہ کہیں کہ مہابھارت چار بنیادی مقصد حیات دھرم، کام، ارتھ اور موُ کش کا مرکب ہے۔ مہابھارت سنسکرت کے مشہور عالم وید ویاس کی تصنیف ہے، البتہ اس سلسلے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ اصل مہابھارت میں بعد کے علما نے اضافہ کیا ہے، جس سے اس کے شلوکوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ اس کے اصل مصنف کے بارے میںسب متفق ہیں۔ مہابھارت کی کہانی کوروؤں اور پانڈوؤں کے خاندان اور ان کے مابین ہونے والی جنگ ہے۔ اس میں حق کی باطل پر جس طرح سے جیت دکھائی گئی ہے،وہی کتاب کے مصنف کا اصل مقصد اور اس کا مرکزی موضوع بھی ہے۔ مہابھارت میں شری کرشن جی کی جو اہمیت ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چونکہ شری کرشن جی ان دونوں کے قریبی رشتے دار ہیں، اس لیے انھوں نے خود کو غیر جانب دار رہنے اور ہتھیار نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ البتہ شری کرشن جی نے ارجن کو جو درس دیا ہے، وہ غیر معمولی اور آفاقی ہے۔ انھوں نے ارجن کو روح کی عظمت اور حق کی حفاظت کے لیے جان تک کی بازی لگادینے کا درس دیا۔ مہابھارت میں ہندو مذہب کے نصائح کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی اعلی خیالات موجود ہیں۔ اردو میں مہابھارت کے کئی تراجم منظر عام پر آئے، جس کا ذکر اوپر کیا گیاہے، اسی سلسلے کا ایک ترجمہ جلال افسر سنبھلی کابھی ہے، جو1989 میں منظر عام پر آیا۔اس ترجمے کے متعلق جلال افسر نے لکھا ہے

’’اس نظم میں نہایت اعلی خیالات اور ہندو نصا ئح کا ذخیرہ موجود ہے اس لیے اس کے ترجمے متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں مگر پھر بھی عوام الناس اس لافانی نظم سے فیض یاب نہیں پائے..... راقم الحروف نے مہابھارت کو سلیس اردو زبان میںمختصر اً پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(مہابھات،مترجم جلال افسرسنبھلی1989، ص، 5-6)

جلال افسر کا اصل نام جلال الدین ہے۔ ان کی پیدائش یکم دسمبر1949 میں ہوئی۔ انھوں نے بیسک ایجوکیشن بورڈ کے جونیئر ہائی اسکول میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے تین مجلوں کی ادارت کی، دوکتاب ترتیب دی اور چھ ایسی کتابیں ہیں جو ان کی باقاعدہ تصنیف اور ترجمے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے۔ مہابھارت کا ترجمہ کرتے وقت انھوں نے کمال کی فنی ہنر مندی کا ثبوت دیاہے۔ جلال افسر نے جس طرح سے اس کا ترجمہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں تخلیق ہے، منظوم تراجم میں تخلیقی ہنر مندی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مہابھارت میں کرشن جی کی نورانی شخصیت ارجن کو جودرس حیات دیتی ہے، وہ آج بھی حیات انسانی کی منزل مقصود ہے۔ کرشن جی نے ارجن کو کس طرح سے درس دیا ہے، اس حصے کو جلال افسر نے کچھ اس انداز میں نظم کیا ہے       ؎

فکر باطل کی نہ کر، بزدل نہ ہو، ناداں نہ بن

موت سے ڈرتے نہیں ہیں رہروِ حق جان من

حق امر ہے اس کا کوئی مارنے والا نہیں

اور باطل اپنی کوئی اہمیت رکھتا نہیں

اس لیے حق کی حفاظت فرض ہے ہر شخص پر

زندگی اور موت کا اس پر نہیں ہوتا اثر

کون ہے وہ جس کو ارجن ایک دن مرنا نہیں

کون ہے جس کو عدم کی راہ طے کرنا نہیں

جسمِ خاکی کی حقیقت کچھ نہیں ہے جان لے

روح صادق ہے حقیقت میں اسے پہچان لے

یہ واقعہ ہے جب ارجن میدان جنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا  اور خون کا پیاسا دیکھتے ہیں، تو وہ جنگ کے مقصد کو لے کر پیش و پیش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جنگ وجدل سے کیا فائدہ؟ مہابھارت کے پورے اخلاقی ڈرامے میں نفسیاتی طور پر یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ اس حصے کا جلال افسر نے جس انداز میں ترجمہ کیا ہے، اس کو اوپر ملاحظہ کیا گیاہے۔ روح کی عظمت اور غیر فانی حیثیت کے بارے جو کچھ کہا گیا ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں            ؎

عنصری قالب کی ناداں فکر کرتا ہے عبث

جنگ سے باطل پرستوں کی توڈرتا ہے عبث

جس طرح انساں بدلتا رہتا ہے اپنا لباس

روح بھی بالکل یونہی اپنا بدلتی ہے لباس

روح آتش سے کسی حالت میں جل سکتی نہیں

آب کیا سیلاب سے بھی یہ تو گل سکتی نہیں

اس پہ بادِ تند کا کوئی نہیں ہوتا اثر

کاٹنے میں روح کو عاجز ہے تیغِ تیز تر

مارنا اس کو الگ ہے دیکھنا بھی ہے محال

ہے وجود اس کا مرے نزدیک ارجن لا زوال

جلال افسرنے جس طرح سے مہابھارت کو اردومیں نظم کیاہے، وہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ انھوں نے اس ترجمے کے ذریعے اردو زبان وادب میںایک گرانقدر اضافہ کیا ہے، لیکن کیا کہا جائے کہ جلال افسر کے اس ترجمے کی جتنی پذیرائی ہونی تھی، وہ ہو نہ سکی۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن زبان وادب میں شاعری کی جو اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ جلال افسر نے بہت ہی عام فہم الفاظ کا سہارا لیاہے، جس سے یقینا خواص کے ساتھ ساتھ عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے کہاں کی اور کس کی کہانی ہے کے ساتھ کیسے چھوٹے بیٹے کو باپ کی جگہ ملتی ہے، اس حصے کو کچھ یوں نظم کیاہے         ؎

ہستِنا پور کی کہانی وہاں دو بھائی تھے

ایک نابینا تھے دیگر صاحب بینائی تھے

دونوں بھائی پرتوِ نورِ نگاہِ شاہ تھے

اور جنتا کی نظر میں دونوں ہی ذی جاہ تھے

شاہ جب رخصت ہوا دنیا سے تو اٹھا سوال

کون کر سکتا ہے ملک وقوم کی اب دیکھ بھال

عالموں کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیا

کافی غور وخوض کرنے پر ہوا یہ فیصلا

اندھا ہونے کے سبب پہلے کو مستثنیٰ رکھو

اور چھوٹے بھائی کو سب لوگ راجہ مان لو

اس طرح پانڈو کو آخر تاجِ والد مل گیا

مژدہ یہ سن کر سبھی کا غنچۂ دل کھل گیا

دِھرِت راشٹربڑے تھے، بنیادی طور پر تاجِ والد ان کا حق تھا، لیکن اندھے پن کی وجہ سے انھیں محروم کر دیا گیااور چھوٹے بھائی پانڈو کو راجہ بنا دیا گیا۔

مہابھارت کے مطالعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے، یقینا اس پر عمل کر کے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہمارا موجودہ سماج بہت سی برائیوں سے دو چار ہے۔ کاش کہ مہابھارت کے درس کو عام کیا جاتا تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لالچ ایک بری عادت ہے، کیونکہ یہ کسی کو بھی تباہ وبرباد کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے نہ صرف وہ خود نقصان اٹھاتا ہے، بلکہ حمایتی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ مہابھارت میں اگر دریودھن لالچ نہ کرتااور یدھشٹر اور اس کے بھائیوں کو اس کا حصہ دے دیتا تو لڑائی ہی ممکن نہ ہوتی اور اپنی جان دے کر لالچ کی قیمت نہیں چکانی ہوتی۔ اس نے روپیوں کا لالچ کیا اور اپنی جان کے ساتھ ساتھ بہت کچھ نقصان کر گیا۔

مہابھارت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ آپسی اتحاد کبھی ختم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ بھائیوں کا اتحاد اور بڑے کو اہمیت دینا بسا اوقات کامیابی کی ضمانت ہے۔ مہابھارت میں پانڈوؤں کو کس طرح سے پیارو محبت سے رہتے ہوئے دکھایا گیاہے، ارجن، بھیم، نَکل اور سہدیو نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی یدھشٹرکی بات مانی اور بڑا بھائی بھی چھوٹوں پر شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرتارہا۔ اس اتحاد کا جو نتیجہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ مہابھارت کے مطالعے سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے، چاہے کتنی ہی مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ دریودھن کے پاس کس چیز کی کمی تھی۔ فوج، ہاتھی، گھوڑے اور جرنیل کتنی تعداد میں تھے، لیکن اسے شکست سے دو چار ہونا  پڑا۔  اسی طرح سے کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، بعض حالات میں مذاق ایک بڑی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سبق اور ملتا ہے کہ عورتوں کی عزت کرنا چاہیے، کبھی کسی عورت پر بری نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے۔ گویا کہ مہابھارت میںعقل وخرد رکھنے والوں کے لیے بہت سے درس ہیں۔

مہابھارت میں دریودھن کے مرنے کے ساتھ ہی جنگ کا خاتمہ ہوا۔جنگ کے خاتمے کے بعد بھیشم نے یدھشٹر سے جو پندو نصائح کیے ہیں، وہ یقینا ایک کامیاب اور باوقار زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس حصے کو جلال افسر نے آسان لفظوں میں کچھ اس انداز سے شعری قالب میں ڈھالا ہے        ؎

 اس کے مرنے پر ہوا جنگ وجدل کا اختتام

اور مضطر پانڈووں کو مل گئی فتح دوام

بھیشم دادا ان دنوں بھی تیروں کے بستر پہ تھے

اس لیے ان سے یدھشٹر پہلی فرصت میںملے

بھیشم نے اس دم یدھشٹر کو بتائے کچھ اصول

اور پھر بخشے ہدایت کے انھیں انمول پھول

جن کی خوشبو سے معطر ہوگیا ان کا دماغ

اور تا وقتِ اجل جن سے رہے وہ باغ باغ

بھیشم کے پند ونصائح کا تھا یہ لب لباب

راہِ حق کے راہرو ہوتے ہیں ہر سو کامیاب

بھیشم نے یہ بھی یدھشٹر کو بتایا تھا تبھی

دھرم کے رستے پہ چل کر ملتی ہے آسودگی

اس لیے کرنا حکومت دھرم اور انصاف سے

اور ہر اک کام کرنا دامن حق تھام کے

یاد رکھنا یہ ہمیشہ دھرم ہوتا ہے جہاں

کامیابی اور ظفر کا راج ہوتا ہے وہاں

سیکھ کر باتیں بہت سی بھیشم سے وہ باوفا

ہستِنا پور کی حکومت اس طرح کرنے لگا

بھیشم جی نے جس طرح سے یدھشٹر کو ایمانداری سے کام کرنے کا درس دیا ہے، اس میں بیک وقت بہت کچھ چھپا ہے۔ ایک کامیاب حکومت کے لیے بھیشم جی کے درس بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو، بصورت دیگر انجام سے بے پرواہ لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔

مہابھارت میں زندگی کے فلسفے کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ جلال افسر کا کارنامہ یہ کہ انھوں نے فلسفیانہ بلاغت کے ساتھ پیش کی گئی اس مثنوی کی روح کو اشعار کی شکل میں کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ مہابھارت میں پوشیدہ رموز ونکات سے عوام مستفید ہوسکیں۔ یقینا جلال افسر اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے قصے کو بہت خوبی سے نظم کیا ہے، جس کو پڑھنے سے تسلسل میں کوئی فقدان نظر نہیں آتا۔ البتہ مہابھارت کے جتنے بھی منظوم تراجم منظر عام پر آئے ہیں، ان سب کا موازنہ ہونا چاہیے، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مترجم کس حد تک کامیاب ہو سکے ہے۔

مذہبی کتابوں کے حوالے سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان صحائف میں انسانیت اور بھائی چارے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حقوق العباد سے صرف نظر کرنے کے لیے کسی بھی مذہب نے تائید نہیں کی ہے۔

n

Dr. Shahnewaz Faiyaz

Guest Faculty, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 9891438766

 

ظہیر دہلوی کی غزل گوئی: حمیرا حیات


 ہنگامہ غدر 1857 کے بعد دہلی کو خیرباد کہنے والے شاعروں میںسید ظہیر دہلوی کا نام قابل ذکر ہے۔ظہیر دہلوی کی ولادت 1835 میں دہلی میں ہوئی۔ان کے والد میر جلال الدین حیدراپنے عہد کے اچھے خوش نویسوں میںشما ر ہوتے تھے۔جلال الدین حیدرکو بادشاہ ابو ظفر نے مرصع رقم صلاح الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ظہیر دہلوی نے ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔دوران تعلیم ہی شعرو سخن کی ابتدا  ہوچکی تھی۔سب سے پہلی غزل حافظ قطب الدین صاحب مشیر شاگرد شاہ نصیر کے منعقد کردہ مشاعرے میں پڑھی۔ تیرہ برس کی عمر میںآپ نے شاہی ملازمت اختیار کی اور بائیس برس کی عمر تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ظہیر دہلوی دہلی کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب دہلی اجڑ رہی تھی۔دہلی کی بزم شعرا دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہی تھی۔ہنگامہ غدر 1857میں ظہیرنے بھی دہلی کو خیرباد کہا۔پانی پت میں کچھ روز قیام کیا پھر بریلی تشریف لے گئے۔لیکن کہیں بھی عافیت نظر نہیں آئی۔آخر نواب یوسف علی خاں والی رام پورکے دربار میں پناہ لی ظہیر تقریبا چار سال کے قریب رام پور ہی میں رہے۔ اس کے بعد پھر دہلی آئے لیکن دوبارہ قیام دہلی ان کے لیے سودمندثابت نہ ہوا۔کیونکہ دہلی میں اب پہلی جیسی نہ رونقیں تھیںنہ آرام،حالات بد سے بدتر تھے۔دہلی بری طرح ویران ہو چکی تھی۔ظہیر دہلوی کو دہلی کے مٹنے کابہت غم تھا۔اس غم کو وہ اپنی غزلوںمیں کچھ یوں بیاں کرتے ہیں         ؎

ہم نشیں قصہ دہلی نہ سنانا ہرگز

زخم نو داغ کہن پر نہ لگانا ہر گز

بھولے ہوئے افسانہ دل یاد کریں گے

اجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کریں گے

بہہ گئے سیل فنا میں شہر والے اے ظہیر

بے کسی آباد ہے اب تو جہاں آباد میں

کچھ دن بلند شہر کے’جلوہ طور‘اخبار میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔لیکن دہلی میں ان کو سکون نہ ملاکوئی نہ کوئی دکھ پریشانی ان کی جاں کے ساتھ لگے رہتے۔فرماتے ہیں        ؎

کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا

ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آہی جاتی ہے

سخت جانی کی بدولت طے ہوئے سب مرحلے

کام جو دشوار تھے آساں سے آساں ہوگئے

   الور کے مہاراجہ شیو دان سنگھ علم دوست اور ادب پرور تھے۔خود بھی عالم تھے اور عالموں کی قدر کرتے تھے۔انھوں نے بہت سے ادبا اور شعرا کو اپنے دربار سے وابستہ کر لیا تھا۔ظہیر کی علمیت و قابلیت سے متاثر ہوکر مہاراجہ نے انھیں الور بلا لیا۔چار سال ملازمت کرنے کے بعد دہلی آگئے۔دہلی میں نواب مصطفی خاں شیفتہ سے مراسم تھے لہذا ان کی سفارش پر ریاست جے پور کے محکمہ پولیس میں تھانیدار ہوگئے۔انیس سال تک ملازمت کی اور پھر سبکدوش ہوگئے۔ریاست ٹونک کے نواب محمد ابراہیم علی خاں نے اپنے پاس بلالیا۔پندرہ سولہ برس ٹونک میں رہے۔شعرو شاعری کے لحاظ سے یہ دور بہت ہی خاص رہا۔ٹونک میں ان کی شاعری بہت مقبول ہوئی۔ایک باوقار شاعر کی حیثیت سے وہاں رہے۔اسی دوران شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔جن میں سے بعد میں کئی شاگرد مقبول ہوئے۔اس کے بعد حیدرآباد بھی گئے آخر کار27مارچ 1911 کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

ظہیر دہلوی کی زندگی کا بڑا حصہ صدموں اور پریشانیوںمیں گزرا۔ان کی غزلوں میں اس داستانِ حیات کی بدحالی کا بیان ملتا ہے         ؎

پھر گئیں چشم زدن میں وہ نگاہیں کیسی

دیکھتے دیکھتے بدلا ہے زمانہ کیسا

یہ طاقت ہے یہ قدرت ہے اسی ناچیز مٹی کو

فلک سے جو نہیں اٹھتا اسے انساں اٹھاتے ہیں

کون بنتا ہے مکیں اس خانہ برباد کا

یہ دل ویراں نمونہ ہے جہاں آبادکا

ظہیر دہلو ی نے غزلیں،قصائد،قطعات،اور رباعیات تقریبا سب ہی اصناف سخن میںطبع آزمائی کی۔لیکن وہ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر تھے۔ان کے شعری سرمائے میں تین دیوان موجود ہیں۔پہلا ’گلستان سخن 1899 ٹونک میںمرتب ہواجس کے انتخاب وترتیب کا کام انھوں نے اپنے شاگرد عزیز عاشق ٹونک کے سپرد کیاتھا۔اس دیوان میں حمدیہ اور نعتیہ غزلیں،شہر آشوب،رباعیات،قصائد،سہرا،تاریخی قطعات بھی شامل ہیں۔لیکن اس میں تاریخی ترتیب نہیں ہے۔باوجود اس کے اس دیوان میں غدر کے بعد اور ٹونک کی ملازمت کے دوران جتنا شعری سرمایہ تھا تقریبا سب ہی جمع ہوگیا ہے۔

بقول عاشق ’’استاد صاحب نے شاگردنوازی فرما کر مجھے عزت بخشی۔میں نے نہایت شرم سے اس کام کو کیا‘‘(ہماری زبان،دہلی شمارہ یکم ستمبر74،ص8)

جگن ناتھ پرشاد فیض تذکرہ ’گلزار سخن ‘ میں لکھتے ہیںکہ

’’آپ کے تین دیوان ریاست ٹونک میں شائع ہوچکے ہیں۔چوتھا بھی قریب اختتام ہے۔‘‘(گلزار سخن از جگن ناتھ پرشادفیض،مطبوعہ1908،ص278)

گلستان سخن کے علاوہ ظہیر دہلوی کے دو دیوان ’شبستان عبرت 1329ھ، دفترخیال 1330ھ ان کی حیات ہی میں حیدرآباد میں ترتیب پائے گئے تھے۔ظہیر نے ان دونوں دواوین اور ایک قلمی مسودے کا ذکر اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔

’’تازمان انطباع دیوان دوم بھی ترتیب پا گیا۔مگر بعد اس قدر استطاعت نہ ہوئی کہ وہ بھی چھپوایا جاتا۔اب عنایت ایزدی سے تین دیوان کا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے اور ایک جلد کے قریب مرثیے،سلام،رباعیات وغیرہ فراہم ہوگئے ہیں۔خداوند تعالی اپنے خزانہ غیب سے کوئی سامان مہیا کردے گا تو وہ بھی طبع ہوجائیںگے۔ظاہرا تو کوئی سامان مہیا نظر نہیں آتا۔(داستان غدر،ص313)

 ظہیردہلوی کے چوتھے دیوان کے متعلق کوئی خاص معلومات توحاصل نہیں ہوتی۔لہٰذا ان کے چوتھے دیوان کے حوالے سے مدبر علی زیدی فرماتے ہیں۔

’’دیوان چہارم شائع نہیں ہوسکا اور 1947 کے ہنگامہ میں ضائع ہوگیا ‘‘

(تنقیدی جائزے،مدبر علی زیدی،ص152)

نثرکے حوالے سے ظہیر دہلوی کی تصنیف’داستان غدر‘ایک اہم کتاب ہے۔جو 1910 میں شائع ہوئی۔داستان غدرایک خودنوشت سوانح حیات ہونے کے ساتھ ساتھ غدر کی مستند تاریخ بھی ہے۔اس کتاب میں ظہیر نے غدر کے چشم دید حالات نہایت روانی و سادگی سے بیان کیے ہیں۔نہ صرف غدر بلکہ وہ واقعات بھی ہیں جو ان کے گھر والوں پر بیتے تھے۔اس وقت کے بیتے ہر منظر کو بیان کرتی ہے جو خودظہیر کی زندگی سے جڑے تھے۔انگریزوں کے سیاسی قانون،عوام اور بادشاہ کے ساتھ کی گئی سیاست، فسادات، وغیرہ کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔علاوہ ازیں دوسری طرف قلعہ معلی کی معاشرت، آداب ورسوم مجلسی اور ان کے ہمعصر شعرا کی زندگی اور شاعری کے حوالے سے مفید اور اہم معلومات کتاب میںپیش کی گئی  ہیں۔علاوہ ازیںوالیان ریاست کے مزاج، فیاضیوں اور ان کے عادت و اطوارکی عکاسی بڑے دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ظہیر دہلوی نے اس دور میںریاستوں کی تہذیب و معاشرت کی سچی تصویر یںپیش کی ہیں۔

جہاں تک شعری دیوان کا تعلق ہے ظہیر دہلوی کے دیوان اول میں جو لطف تغزل ہے وہ باقی دواوین میںنہیں ملتا۔شاید اس کی وجہ دیوان اول کی تکمیل کے زمانے میں ظہیر دہلوی ذہنی و مالی اعتبار سے پریشان حال نہ ہونا تھا۔جبکہ دیوان دوم،سوم کے زمانے میں وہ بہت پریشانیوں میں مبتلا رہے۔خیر وجہ جو بھی رہی ہو لیکن ان کی شاعری اور اندازبیان دبستان دہلی کے صف اول کے شعرا میںبلند مقام دلانے کے لیے کافی ہے۔

ظہیر دہلوی نے شاعری کی ابتدا ایک ایسے دور میں کی جب اردو شاعری میں غالب،مومن،ظفر اور ذوق کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔ ظہیر بھی ان شعرا کی صحبت سے فیضیاب ہو ئے۔ذوق کی شاگردی اختیار کی ساتھ ہی مومن کے رنگ سخن سے متاثر تھے لہذا اس طرز کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔بہادر شاہ ظفر کی سر پرستی میں ہونے والے مشاعروں اور دوسری ادبی و علمی محفلوںمیں ظہیر بھی شرکت کرتے تھے ذوق، غالب، مومن کی صحبتوں سے انھیںخوب فیض حاصل ہوا۔ان صحبتوں سے ظہیر کی علمی تشنگی،ذوق مطالعہ پیدا ہواساتھ ہی ان کی ذاتی صلاحیت نے ان کی شخصیت کوجلا بخشی جس سے ان کے مزاج میں علم وادب کا میلان رچ بس گیا۔

ظہیر دہلوی اپنے عہد کے معیار شعر سے آگاہ تھے۔انھیں معلوم تھا کہ شعر میں الفاظ کی نشست،محاورے کے برجستہ استعمال،روز مرہ کے جادو اور تخیل کی کیا قدرو قیمت ہے۔اس دور کے شعرا کے کلام کی سب سے اہم خوبی لطف زبان ہے۔یہی ان کی غزلوں کی سب سے اہم خصوصیت بھی ہے۔ان کے کلام میں کلاسیکی روایات کا پرتو نظر آتا ہے۔ زبان کی صفائی،روانی اور سلاست ان کے کلام کو پر اثر بناتی ہے۔ظہیر دہلوی نے الفاظ وتراکیب کی بندش و چستی،محاورے،صنائع و بدائع کا استعمال پر خاص توجہ دی ہے۔ ظہیر اپنا مخصوص لب و لہجہ رکھتے ہیں۔تکرار لفظی،رعایت لفظی اور صنعت تضاد کے استعمال سے شعر میں لطف اور حسن پیدا کردیتے ہیں۔روز مرہ اور محاوروں کے برجستہ استعمال میں انھیں ماہرانہ قدرت حاصل ہے۔ان اشعار سے ان کے رنگ سخن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مثلا       ؎

تم تھے جہاں جہاں وہیں دل بھی ضرور تھا

میں بدگمانیوں سے بہت دور دور تھا

دیکھیے کیا گل کھلائے فصل گل آئی تو ہے

ہاتھ ابھی سے دوڑتے ہیں جیب و داماں کی طرف

ظہیر ایک فطری شاعر تھے مشکل زمینوں میںطبع آزمائی کرنا ان کے لیے مشکل نہ تھا۔ یوں لگتا ہے اپنے پیش رو شاعر اور استاد شعرا ذوق،غالب اور مومن کی زمینوں میں شعر کہنے میں انھیںلطف آتا ہے۔اپنے استاد ذوق کی طرح ہی وہ قافیہ پیمائی کا ہنر دکھاتے ہیں۔ان شعرا کے اندازبیان کو بڑی خوبی سے نبھاتے ہوئے اپنا جوہر چمکاتے ہیں۔مثلا         ؎

کیا نباہی طرز مومن اے ظہیر

طاق ہیں لاریب اپنے فن میں ہم

سودائے محبت میں جو سر جائے تو اچھا

یہ بوجھ میرے سر سے اتر جائے تو اچھا

یہ کانٹا بھی نکل جائے شب ہجر

کہ دم کے ساتھ کھٹکا ہے سحر کا

ظہیر دہلوی اساتذہ کی زبان کی تقلید کا دامن تھا مے ہوئے اپنی غزلوں میں روایتی علامتیں،تشبیہات،استعارات کا خوب استعمال کرتے ہیں۔کلام میں زور بیان روانی اور ترنم پیدا کرنے کے لیے تکرار لفظی،رعایت لفظی اور صنعت تضاد بھی جابہ جا مل جاتے ہیں۔ مثلا        ؎

ہوتے ہوتے ہی کہیں صبر کی عادت ہوگی

 رفتہ رفتہ ہی سنبھلتے ہیں سنبھلتے والے

اک اک خطا شعار کو رحمت سے ہے لگائو

الجھا ہے خار خار سے دامن نسیم کا

تمھارے دل میں ہوکس طور سے گزر میرا

نہ شوق ہوں نہ محبت نہ اعتبار ہوں میں

اپنے ہم عصرشعرا مومن و داغ کی طرح ظہیر دہلوی نے شوخی و طنز و تعریض کواس طور برتا ہے کہ یہ رنگ تقلیدی و رسمی معلوم ہوتا ہے۔غور کریں توان کے کلام میں حسن و عشق کی نیرنگیوں اور ان سے متعلق نازک و لطیف جذبات و احساسات کی دلکش عکاسی ملتی ہے لیکن یہ رنگینی،شوخی،طنزو تعریض کا یہ رنگ اس حد تک نہیں ہے جتنا مومن و داغ کے یہاں ملتا ہے۔مثلا         ؎

کب وہ سنتے ہیں کہ ہے کون دہائی دیتا

اونچے لوگوں کو ہے اونچا ہی سنائی دیتا

خوش ہوئے تو کہہ دیا چل دور ہو

واہ کیا اخلاص ہے کیا پیار ہے

ظہیر دہلوی کے رنگ تغزل میںچند ایسی امتیازی خصوصیات ہیں جو انھیں دوسرے شعرا سے منفرد کرتی ہیں۔ان میں سب سے اہم دہلی کی ٹکسالی زبان ہے۔ظہیر دہلوی کواس پر قدرت حاصل تھی۔دہلی کی زبان،صفائی اور سادگی،ترنم اور شیریں بیانی یہ وہ عناصر ہیں جوان کے کلام میں تاثیر پیدا کرتے ہیں۔چونکہ انھوں نے اپنے اسلوب کے لیے ذوق کی زبان،غالب کی بندش اور مومن کی طرز کو مستعار لیتے ہوئے اپنی راہ جدا  نکالنے کی کوشش کی ہے اس لیے روزمرہ محاورے کی صفائی زبان وبیان کی شستگی اور طرز ادا میںایک تاثیرپیدا ہوگئی ہے۔ تغزل کی چاشنی اور سوزوگداز ان کے کلام میں پر اثر انداز میں موجود ہے         ؎

کیوں کسی سے وفا کرے کوئی

خود برے ہوں تو کیا کرے کوئی

موت کا نام بے وفائی ہے

ہائے کب تک وفا کرے کوئی

درد اور درد بھی جدائی کا

ایسے بیمار کی دعا کب تک

جہاں تک بات غزل کے داخلی پیکرکی ہے تواس کو سجانے وسنوارنے میں صنعت گری کے علاوہ رمزو کنایہ، نازک خیالی،جدت ادا،فصاحت و بلاغت،سوزوگدازاور جمالیاتی کیف کی اہمیت زیادہ نظرآتی ہے۔چونکہ تغزل کا تعلق وجدان اور ذوق سے ہے اس لیے اس کی کوئی منطقی تعریف ممکن نہیں ہے۔بعض اوقات الفاظ کے بہترین انتخاب،دلی جذبے کی سچی ترجمانی سے بھی تغزل کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔بہ شرط شعر میں تاثیر ہو اور سیدھا دل میں اتر جائے۔ظہیر دہلوی کے کلام میںجمالیاتی کیفیت اور نازک خیالی کی کمی نہیں ہے۔مثلا       ؎

ہوتی ہے حسن و عشق میں کتنی مناسبت

میرے بیاں کا رنگ تمھاری ادا میں ہے

قیامت پر نہ رکھو فیصلہ دل کا خدا جانے

تمھارے منہ سے کیا نکلے ہمارے منہ سے کیا نکلے

مختصر یہ کہ دبستان دہلی کے شعرا ئے متا خرین میں صف اول کے شعرا میں جن شعرا کو بلند و ممتازمقام حاصل ہوا ان میںظہیر دہلوی کا نام بہت اہم ہے۔ظہیر دہلوی کے معاصرین میںاسد لکھنوی،مضطر خیر آبادی، راقم،قربان علی بیگ سالک،محمد علی تشنہ جیسے اساتذہ فن شامل ہیں۔اردو غزل کو سنوارنے وسجانے اور مقبول عام بنانے میں ان شعرا نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ظہیر کے شاگردوں میں صاحبزادہ احمد علی خاں رونق،مولوی نادر علی برتر،منشی نجم الدین ثاقب بدایونی،صاحبزادہ احمد سعید خاں عاشق ٹونکی اول درجے میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ظہیر دہلوی نے اپنے کلام سے نا صرف دہلی بلکہ الور،جے پوراور ٹونک کی ادبی فضاؤں میں ایک نئی روح پھونکی۔اردو زبان خاص طور پر دہلی کی شیریں زبان کو دوسری ریاستوں میں پھیلانے میں ظہیر دہلوی نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

Humera Hayat

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

27/2/23

نازش پرتاب گڑھی انسانیت اور حب وطن کا شاعر: تابش مہدی


 

حضرتِ نازش پرتاب گڑھی (1924-1984) گزشتہ صدی کے عظیم، کہنہ مشق، مقبول ترین اور استاذ شاعر تھے۔ اُنھوں نے اپنی غیر معمولی وغیر مشروط مشق و مزاولت سے اردو دنیا کے ایک بڑے حصّے کو اپنی شاعری کی طرف متوجہ کرلیا تھا۔وہ ان خوش نصیب و کامیاب شعرا میں تھے، جنھوں نے اپنی شاعری سے مشاعروں کے اہل نظر سامعین کو بھی متاثر کیا اور موقر و قابل ذکر جرائد و رسائل کے قارئین کو بھی۔ وہ جتنی کثرت سے جرائد و رسائل میں چھپتے تھے، اتنی ہی کثرت سے چھوٹے بڑے اور باوقار مشاعروں میںبھی مدعو کیے جاتے تھے۔وہ جس طرح اپنی معیاری شاعری، گہری سوچ اور فکری و فنّی بلندی کے لیے مشہور تھے اور ارباب علم و دانش کے حلقوں میں عزت و توقیر سے دیکھے جاتے تھے، اسی طرح وہ اپنی خاندانی شرافت و نجابت اور سادگی و بے ریائی کے لیے بھی جانے پہچانے جاتے تھے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی غرض کہ انسانی برادری کے ہر طبقے میں انھیں عزت حاصل تھی۔ سب لوگ انھیں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے بھی اہمیت دیتے تھے اور ایک اچھے، بھلے اور بے ضرر انسان کی حیثیت سے بھی۔ ہندستان خصوصاً سر زمین اودھ کا ہر ہندو و مسلمان انھیں فخر و اعتبار کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔کسی نے فخر پرتاب گڑھ کہا تو  کسی نے ’نازش اودھ‘۔

نازش پرتاب گڑھی 14جولائی 1924 کو شہر پرتاب گڑھ سے پچھم کی جانب تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر سٹی پرتاب گڑھ کے نام سے مشہور ایک قصبے میں وہاں کے ایک معزّز، متمول اور زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آج ہم جسے پرتاب گڑھ کہتے ہیں، اسے ان دنوں بیلاکے نام سے جانا جاتا تھا۔ بل کہ آج بھی قرب و مضافات میں اُسے بیلا پرتاب گڑھ ہی کہا جاتا ہے۔ مطلقاً پرتاب گڑھ کے نام سے وہی قصبہ جانا جاتا تھا، جسے ہم اب سٹی پرتاب گڑھ کہتے ہیں اور جو حضرت نازش پرتاب گڑھی کا مولد ہے۔

نازش صاحب نے اپنے وطن ہی میں تعلیم و تربیت پائی۔ ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہ وجوہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ وہ طبعی و فطری طور پر شاعر تھے۔ ان کے خاندان اور اعزہ و اقربا میں بھی کسی نہ کسی درجے میں علم و ادب کا ذوق پایا جاتا تھا۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور خلیفہ اور اپنے زمانے کے استاد شاعر محترم مولوی نجم احسن نگرامی ثم پرتاب گڑھی ان کے سگے پھوپھا تھے، جو تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ وہیں وفات پائی۔ خاندان کے مخصوص ماحول نے ان کے ذوقِ شعری کو پروان چڑھایا اور وہ بہت کم عمری سے شعر کہنے لگے۔ ان کا اصل نام تو شیخ محمد احمد تھا، لیکن اپنے تخلص یا قلمی نام نازش پرتاب گڑھی کے نام سے پوری دنیا میں وہ جانے گئے۔

نازش پرتاب گڑھی شاعری میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شعری و فنّی جانشین علامہ سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔ اپنی اِس نسبت پر وہ ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ جب استاذ نے انھیں فارغ الاصلاح کردیا تو استاذ کے ایما سے انھوں نے چھترپور میں ادارۂ اصلاح و مشورہ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی اور اس کے نظام کے تحت انھوں نے بھی نومشق اور مبتدی شعرا کو اصلاح دینی شروع کردی۔ کافی دنوں تک یہ سلسلہ رہا۔ اپنے زمانے کے مشہور شاعر محسن زیدی، مشتاق پردیسی، حسیب مغموم اور رامش پرتاب گڑھی ان کے مشہور تلامذہ میں ہیں۔ ہمارے زمانے کے مقبول ترین اور بزرگ سخن ور حضرت مہدی پرتاب گڑھی گوکہ ان کے باضابطہ شاگرد نہیں ہیں، لیکن انھوں نے بھی ان سے اِستفادہ کیا ہے۔ اپنے پرتاب گڑھ کے دوران قیام میں میں نے بعد نماز عصر ہمیشہ اُنھیں ان کے پاس پرتاب گڑھ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اے۔ایچ وھیلر بک اسٹال پر بیٹھا دیکھا ہے۔ وہ انھیں وہی عزت و توقیر دیتے تھے، جو کسی استاذ کو دینی چاہیے۔

نازش پرتاب گڑھی نے ہمیشہ اپنے محترم استاد حضرت سیماب اکبر آبادی کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا، ان کے دیے ہوے مشوروں اور ہدایات کا احترام کیا اور انھیں پیش نظر رکھا۔ محترم استاذ کے ادب و احترام کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے کبھی استاذ کی کسی زمین میں غزل نہیں کہی۔ سیماب صاحب کے مصرعوں پر منعقد ہونے والے قومی یا مقامی طرحی مشاعروں میں شرکت سے انکار کردیتے تھے۔

نازش صاحب کو ہمیشہ اپنے وطنی لاحقے پر فخر رہا۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پرتاب گڑھ فلاں و فلاں یا فلاں زمین دار و رئیس کی وجہ سے نہیں مشہور ہوا، یہ بندۂ ناچیز نازش کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ان کا بہت مشہور شعر ہے          ؎

وطن کے ذی حشم لوگوں سے اتنا بھی نہ ہو پایا

اُجالا کم سے کم پرتاب گڑھ کا نام ہی میں نے

ایک موقعے پر انھوں نے اہلِ وطن سے گِلہ کرتے ہوے کہا ہے            ؎

نازش دیار غیر میں مشہور ہوگیا

پرتاب گڑھ کے لوگ اُسے جانتے نہیں

یہ شعر بھی اِسی قبیل کا ہے           ؎

نازش! اِس شہر میں میری کوئی وقعت ہی نہیں

جس کو جانا گیا دنیا میں مرے نام کے ساتھ

اِس سلسلے کا یہ تغزل سے بھرپور شعر بھی سنتے چلیے         ؎

شہروں سے تو ہے شہر کی مٹی اچھی

کم سے کم لپٹی تو رہتی ہے مرے نام کے ساتھ

نازش پرتاب گڑھی ادبی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے میری وابستگی فیشن کے طور پر نہیں ہے، بل کہ اس کے شعری و ادبی رنگ و مزاج سے میں خود کو ہم آہنگ پاتا ہوں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی اخلاقی، سماجی، سیاسی اور اجتماعی شعور کے غیر شخصی اظہار کے ساتھ ایسے اشعار کثرت سے کہے ہیں، جن میں ان کی شخصیت، انفرادیت اور داخلیت کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے جس وقت شاعری شروع کی تھی، ترقی پسند، غیر ترقی پسند، سماجی، اصلاحی اور انقلابی وغیرہ کے عناوین لگاکر شاعری کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش شباب پر تھی۔ لیکن انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ انھوں نے اپنے اشعار میں وہی بات پیش کی، جو ان کے مزاج و طبیعت کا تقاضا تھا۔

جو لوگ غزلیہ شاعری کو محض عشق و عاشقی کی داستان پارینہ سمجھتے ہیں اور نئے زمانے کے لیے اُسے ناموزوں قرار دیتے ہیں، وہ اگر نازش پرتاب گڑھی کی غزلیں پڑھیں گے تو انھیں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ نازش پرتاب گڑھی کا کمال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انھوں نے غزل سے نظم کا بھی کام لیا ہے، لیکن تغزل کی روایت کو پامال نہیں ہونے دیا۔ اس لیے کہ ان پر یہ بات پوری طرح منکشف تھی کہ غزل ہی وہ صنفِ سخن ہے، جس میں خارجی رجحانات، افکار اور خیالات کو اپنے ذاتی احساسات میں تحلیل کرنے کی پوری گنجائش ہے۔ قاری جب ان کے یہ اشعار پڑھے گا تو اُسے میرا ہم خیال ہونا پڑے گا         ؎

بول اے خلوصِ درد! کہاں لے چلوں تجھے

کہتے ہیں اِک ضرورتِ شعری ہے ذکرِ غم

 

کچھ اور کھل کے غم دیگراں کی بات کہی

جب اپنی ذات کے اندر اتر گیا ہوں میں

 

اپنی شکست مان گیا بات بات پر

یاروں سے میری معرکہ آرائی کم ہوئی

 

اجداد کے افسانوں پہ تقریظ بھول جا

اپنے پہ کوئی نقد و نظر کرسکے تو کر

 

لوگوں کا ہے کام بنائیں میری بھلی تصویر ان سے

میں نے تو کاغذ پر نازش! صرف لکیریں کھینچی ہیں

میں نے نمونے کے طور پر چند اشعار نقل کیے ہیں۔ انھیں پڑھ کرقاری اِس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہے گا کہ نازش پرتاب گڑھی بیسویں صدی کے ان شعرا میں تھے، جنھوں نے اردو غزل کو جمالیاتی احساس اور شائستگی سے ہم کنار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے صرف اپنی مخصوص سوچ، وسیع جہت فکر اور لہجہ و اسلوب کی شگفتگی کی بنیاد پر غزل کے عظمت و وقار کو آگے بڑھایا ہے۔ منقولِ بالا اشعار گواہی دیتے ہیں کہ نازش پرتاب گڑھی نے اپنی غزلیہ شاعری کے ایک ایک شعر سے وہ کام لیا ہے، جس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے غزل کی روایت سے انحراف کیے بغیر اپنے عہد کی سچائیوں اور حقیقتوں کی ترجمانی کی ہے۔

ناقدین نے نازش پرتاب گڑھی کی غزلیہ شاعری کو تحسین و پسندیدگی کی نگاہ سے اس لیے دیکھا ہے کہ وہ اپنے حقیقی خط و خال کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس کے حسن و جمال کو کچھ اس طرح سنوارا ہے کہ کہیں اس کا رنگ متاثر نہیں ہوا ہے۔ بل کہ اس میں ایک طرح کا نکھار ہی پیدا ہوا ہے۔ خود انھیں بھی اپنی اس انفرادیت کا احساس تھا۔ کہتے ہیں          ؎

ہمارے دور کے اہل قلم نے

جو کچھ دیکھا ہے وہ لکھا نہیں ہے

نازش پرتاب گڑھی کے کلام کی نمایاں خصوصیت اس کی اثر آفرینی بھی ہے۔ اس میں اپنی پوری شاعرانہ شان و شوکت کے ساتھ جو منظم سا غم گھلا ہوا ملتا ہے، وہ دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔ ان کے اشعار گراں بار یا بوجھل نہیں محسوس ہوتے۔ ان کے کلام میں نہ ان کے مزاج کی تندی ملتی ہے اورنہ ان کی گفتار کی تیزی، جو کہ ایک طرح سے ان کی پہچان بن گئی تھی۔ان کے یہاں ہم ضبطِ غم پاتے ہیں اظہارِ غم خال خال ہی پاسکیں گے۔ اِس ذیل میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ ان کے یہاں جو اظہار غم ملتا ہے، اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انداز نہ ملتجیانہ ہوتا ہے اور نہ داد خواہانہ۔ ان کے الفاظ سے ایسی بے بسی یا بے چارگی سامنے نہیں آتی کہ وہ رحم و کرم کی بھیک کے طالب نظر آئیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں           ؎

یہ مانا آئینہ جھوٹا نہیں ہے

مگر یہ تو مرا چہرہ نہیں ہے

 

لاکھ برہم ہو اپنے ماضی سے

آدمی مڑ کے دیکھتا ہے ضرور

 

جس راہ سے موجِ غم گئی ہے یارو

دنیا کی نگاہ کم گئی ہے یارو

 

تم جس کو سمجھتے ہو غزل کا اک شعر

لفظوں میں کراہ جم گئی ہے یارو

 

اک عمر میں جلاتا رہا ہوں چراغِ دل

جب جاکے روشنی میں مرے دوست آئے ہیں

 

یہ حادثے رونے نہ رلانے کے لیے ہیں

سویا ہوا احساس جگانے کے لیے ہیں

 

ہر صفحۂ تاریخ جنوں اس کا ہے شاہد

دیوانے سبھی صاحبِ افکار رہے ہیں

 

تاوقتے کہ ہاتھوں میں ہے دم لکھتے رہیں گے

گزرے گی جو انساں پہ وہ ہم لکھتے رہیں گے

 

قرطاس نہ پائیں گے تو صد پارۂ دل پر

تاریخ ستم، قصہ غم لکھتے رہیں گے

 

میں چپ رہوں تو اپنی نظر سے گرا رہوں

کھولوں زباں تو دوڑ کے سچّائیاں ڈسیں

نازش پرتاب گڑھی کے شعری ذخیرے میں ایسے اشعار بہ کثرت ملتے ہیں، جن سے ان کی وفاشعاری اور احباب نوازی کا پتا چلتا ہے۔ دلّی میں نازش صاحب کے ایک دوست دیرینہ جناب مشہود مفتی مرحوم رہتے تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی مشاعرے کے سلسلے میں وہ دلّی تشریف لائے اور کئی روز تک ان کے یہاں قیام کیا۔ انھوں نے ایک غزل کے مطلعے میں مفتی صاحب کے خلوص و محبت کو اِس طرح یاد کیا ہے        ؎

نازش! خلوصِ دوست کا مظہر کہیں جسے

دلّی میں جاکے ملتے ہیں، اس آدمی سے ہم

جناب غلام ربانی تاباں سے بھی ان کا دوستانہ تھا۔ ان کے کسی احسان کو اپنی ایک غزل کے مقطعے میں انھوں نے یوں یاد کیا ہے          ؎

نازش! اک انسان سے ملنے کو آئے ہیں یہاں

ورنہ دلّی سے ہمارا واسطہ کوئی نہیں

نازش پرتاب گڑھی نے کم و بیش ساٹھ سال کی عمر پائی۔ انھوں نے پوری عمر شعر و شاعری میں گزاردی۔ وہ گرچہ چھت اڑانے والے یا اسٹیج پر دھوم مچانے والے شاعر نہیں تھے۔ نہ یہ فن اُنھیں آتا تھا اور نہ اِس قسم کی باتوں کو وہ پسند کرتے تھے۔ وہ ان شعرا میں تھے، جو نقیب مشاعرہ کی دعوتِ سخن پر بڑی سنجیدگی سے مائک پر آتے ہیں اور کسی تمہید یا وضاحت کے بغیر کلام سنانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن سامعین انھیں بڑی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ سنتے تھے اور بھرپور داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ افسوس کہ یہ روایت اب تقریباً مفقود ہوچکی ہے۔ مشاعروں میں اُن کی نظمیں خصوصیت کے ساتھ پسند کی جاتی تھیں۔ ان کی نظموں میں اردو کی خدمت متاعِ قلم، لفظوں کا المیہ، زبان سے نفرت کیوں اور آخری بات اپنے دور کی معرکہ آرا نظمیں تھیں۔ مشاعروں میں بہت مقبول تھیں۔ فرمائش کرکے سنی جاتی تھیں۔ ان کی نظم’ آخری بات‘ کا یہ شعر تو آج تک زبان زد ہے          ؎

مرے قلم کو مرے ساتھ دفن کردینا

کہ یہ عذاب نئی نسل تک پہنچ نہ سکے

ہم نازش پرتاب گڑھی کی خواہ غزل پڑھیں، خواہ نظم یا کچھ اور ہر جگہ ان کی حب الوطنی اور انسان دوستی نمایاں رہتی ہے۔ یہ ان کا ایسا امتیاز ہے، جو ان کے کسی ہم عصر کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔ ان کی ایک طویل نظم ہے ’جواب آں عزیزم‘۔ یہ نظم انھوں نے 1964م میں لکھی تھی۔ اِس سال کے اوائل میں ہندستان کے مختلف مقامات پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی اِطّلاعات سے نازش صاحب کے وہ اعزہ و اقربا بہت متاثر تھے، جو تقسیم ملک کے وقت یہاں سے ہجرت کرگئے تھے۔ وہ اِن فسادات کے موقعے پر نازش صاحب اور ان کے خاندان کے سلسلے میں بے حد فکر مند تھے۔ اُنھیں ہر وقت تشویش رہتی تھی۔ ان کا مشورہ تھا کہ نازش صاحب بھی آل اولاد کے ساتھ پاکستان ہجرت کرجائیں۔ اس سلسلے میں ان کے چھوٹے بھائی نے تفصیلی خط لکھا تھا۔ یہ نظم دراصل اسی خط کا منظوم جواب ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی پیش کش اور مشورے کا شکریہ ادا کرتے ہوے لکھا ہے          ؎

مگر عزیز برادر! تمھیں یہ کیا معلوم

کہ میں نہ بے کس و بے بس ہوں اور نہ ہوں مغموم

 

یہ ظالموں کا وطن ہے، لکھا ہے تم نے مگر

مجھے تو صرف دعائیں ملی ہیں ہونٹوں پر

مختلف آسانیوں اور خصوصیات کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے        ؎

یہ میرا ملک ہے، میرا وطن ہے، میری زمیں

یہاں سبھی مرے اپنے ہیں کوئی غیر نہیں

آگے چل کر فرمایا           ؎

ہے واقعہ کہ جگر ہوں کوئی نہ جوش  ہوں میں

پلیٹ فارم پر ادنی کتب فروش ہوں میں

 

مگر خلوص بھی مجھ کو ملا محبت بھی

مجھے نصیب ہے عزّت بھی اور شہرت بھی

کتابی سائز کے گیارہ صفحات پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے اندر حب وطن اور انسان دوستی کا گراں قدر خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ اِس نظم سے نازش پرتاب گڑھی کی حب الوطنی اور انسان دوستی کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اِس کا ایک ایک شعر تاریخ ہندکا اہم سرمایہ ہے۔ وہ خواہ کسی بھی تحریک یا گروہ سے تعلق رکھتے رہے ہوں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک سچے اور پکے محب وطن تھے۔ انھوں نے اپنے حب وطن کے جذبے کو کبھی مغلوب نہیں ہونے دیا۔

نازش پرتاب گڑھی نے اپنی عمر کا بڑا حصہ مشاعروں میں صرف کیا۔ بلکہ یہی چیز ان کے لیے ذریعۂ معاش کے درجے میں آگئی تھی۔ اس لیے کہ ان کا اور کوئی خاص کاروبار بھی نہیں تھا۔  جب کہ مصارف زیادہ تھے۔لیکن انھوں نے خود داری، وضع داری اور اپنی مزاجی و طبعی شرافت و نجابت کو کبھی دائو پر نہیں لگایا۔ ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کی، کسی بڑے یا چھوٹے مشاعرے کے لیے نہ کبھی کسی سے سفارش کرائی اور نہ کسی کنوینر مشاعرہ کی خوشامد کی۔ شرکت کا  دعوت نامہ ملا، منظوری دے دی۔ نہ کبھی دعوت نامے کے جواب میں نذرانے یا اعزازیے کے سلسلے میں کوئی شرط لگائی اور نہ ختم مشاعرہ کے بعد مشاعرے کی کمیٹی والوں سے اعزازیے کی کمی بیشی پر لڑے یا بحث کی۔ جب وہ اسٹیج پر بیٹھتے تھے تو بڑی خاموشی اور متانت کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ اور تمام شعرا کا کلام سنتے تھے۔ مشاعروں میں بیٹھ کر اغل بغل کے لوگوں سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنا یا کسی قسم کی کانا پھونسی انھیں بالکل پسند نہیں تھی۔ اسٹیج پر کسی شاعر کی غیرسنجیدہ حرکت پر اسے پہلے ایک دو بار سمجھاتے تھے پھر ڈانٹ دیا کرتے تھے۔

نازش پرتاب گڑھی کی شاعری کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ کسی ایک صنفِ سخن میں قید نہیں رہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی قصائد بھی کہے اور نعت و مناقب بھی اور قطعات و رباعیات بھی۔ ان کے عہد کے بڑے بڑے ناقدین فن اور ادب فہم دانش وروں نے ان کی قدرتِ کلام اور مہارتِ فن کا اعتراف کیا ہے۔ اِس سلسلے میں نیاز فتح پوری، ماہرالقادری، غلام ربانی تاباں اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ نیاز فتح پوری نے رسکن کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اچھی اور حسین عورت کہیں بھی ہو یا جو بھی ہو میرا اس سے رابطہ ازلی ہے۔‘—پھر لکھتے ہیں ’یہی عقیدہ میرا شاعری کے سلسلے میں ہے کہ اچھا شاعر کہیں بھی ہو، کسی بھی خطہ و دیار سے اس کا تعلق ہو، میں اُسے اپنا رفیق و انیس سمجھتاہوں۔ نازش پرتاب گڑھی کا کلام پڑھ کر میں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔‘

نازش پرتاپ گڑھی 14جولائی 1924 کو اِس جہانِ رنگ و بو میں وارد ہوئے اور 10اپریل 1984 کو تقریباً ساٹھ برس تک شعر و ادب سے بھرپور زندگی گزار کر رخصت ہوگئے۔ان کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے چالیس برس ہونے کو ہیں۔ لیکن اپنے انقلاب آفریں اشعار، معرکہ آرا نظموں اور تغزل و تفکر سے لبریز غزلوں کی وجہ سے وہ اب بھی زندہ ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے، جب تک شعر و ادب کی روایت زندہ  رہے گی۔

Dr. Tabish Mehdi

G5/A - Abul Fazl Enclave

Jamia Nagar, New Delhi - 110025 (INDIA)

Cell:  9818327947

E-mail: drtabishmehdi@gmail.com 

17/2/23

اردو مثنوی میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب: محمد ارشد


 ہندوستانی تہذیب بالخصوص ہندومذہب اور عقیدے کے مطابق بنارس ایک مقدس مقام ہے جہاں بہت سے عقیدت مند ہندوتیرتھ کے لیے جاتے ہیں اردو شاعری میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے دیگر اصناف کی طرح مثنوی میں بھی اس کا بیان اکثروبیشتر ہوا ہے۔ بنارس کی تعریف میں غالب کی مثنوی ’چراغ دیر‘کا شمار  غالب کی بہترین مثنویوں میں کیا جاتا ہے جس میں بنارس کو شنکھ پھونکنے والوں کا کعبہ کہا گیا ہے۔ بے نظیر شاہ نے بنارس کا ذکر بہت خوش اسلوبی سے کیا ہے جس میں ہندو مذہب سے متعلق بہت سی اصطلاحوں کا خوبصورت بیان ملتا ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں           ؎

وہ سیلے وہ جوڑے چمکتے ہوئے

وہ کانوں میں مندرے لٹکتے ہوئے

وہ گھنٹی بجاتے ہوئے برہمن

ہیں بت خانوں میں کس طرح نعرہ زن

وہ تھالی میں سندور چندن لیے

کوئی آرہاہے عجب آن سے

کٹوری میں کوئی لیے پھول پان

کھڑی ہے وہ مندر میں مندر کی جان

چترنی کوئی تو کوئی پدمنی

کوئی ان میں رادھا کوئی جانکی

مہا دیو کو جل چڑھا کر تمام

چلی جاتی ہیں اپنے گھر شاد کام

کارتک کے مہینے میں کڑواچوتھ کے بعدہندوؤں کا اہم ترین تیوہار دیوالی ہے۔ اس موقعے پر گھر کی صفائی کی جاتی ہے اورنئے برتن اورنئی چیزیں خریدی جاتی ہیں اورگھروں کو سجانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اس تیوہار میں عورتیں دیواروں پر تصویریں اور فرش پر رنگولی بھی بناتی ہیں۔ دیوالی کارتک کی تاریک ترین رات کو منائی جاتی ہے اوراس رات چراغ وغیرہ جلاکر ہر طرف روشنی کی جاتی ہے۔ اردو کی متعدد مثنویوں میں دیگر ہندوستانی تیوہاروں کی طرح ہولی کا بھی خوب بیان ملتا ہے۔

بسنت پنچمی کا تیوہار ماگھ کے آخری ہفتے میں آتا ہے یہ بہار کے موسم کا نقیب ہے اورنئے سال کی بشارت دیتا ہے دوسرے مقامی تہواروں کی طرح اس کا تعلق بھی یہاں کے موسموں اورزراعتی اساس سے گہرا ہے۔ بسنت کے تعلق سے اردو شاعری میں جو حوالے ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندوؤں کا خاص تیوہار ہے لیکن ان کے علاوہ ہندوستان کی دیگر قومیں بھی اس میں شریک ہوتی رہی ہیں۔ اس روز مرد عورتیں بچے سب زرد لباس پہنتے ہیں۔

فصل کے باآور ہونے کے لیے دعا مانگی جاتی ہے اورقدیم روایات کے مطابق وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں آم کا بور بھی پوجا جاتا ہے جوسرسبزی اورخوشحالی کا مظہر ہے۔ اردو کی دیگر اصناف کی طرح مثنوی میں بھی اس تیوہار کا بیان ہوا ہے درج ذیل اشعار میں کیا خوب منظر کشی کی گئی ہے          ؎

زن ومرد کرتے ہیں اس دن سنگار

مکانوں میں کرتے ہیں نقش ونگار

پروہت سے پاتے ہیں آموں کے بور

جو ہیں ان کے ججمان تحفہ کے طور

سمجھتے ہیں سب اس کو اچھا شگن

ہے یہ پھلنے اورپھولنا کا شگن

خصوصاً امیروں کے دربار میں

وزیروں کی شاہوں کی سرکار میں

دیا بور پہلے کیا بھر سلام

مبارک سلامت زباں پرکلام

طوائفیں بھی اس روز آموں کا بور لے کر امرا کے یہاں جاتی ہیں اورمبارک سلامت کے بول گاتی ہیں۔ بسنت کے روز خاص شاہی دربار منعقد ہوتا ہے اورحاضرین کی تواضع الائچی چکنی ڈلی، جوز، پھو ل اورپان سے کی جاتی ہے۔ ہندو امرا سے بعض کو خلعت، بعض کو پاندان اوربعض کو دوشالے بطور تحفہ دیے جاتے ہیں          ؎

عطا ہوتا ہے بعض کو پان دان

الائچی ڈلی جوز اورپھول پان

سوا ہوتی ہے خاص کی منزلت

کہ خلعت انھیں ہوتے ہیں مرحمت

دوشالہ بہت تحفہ کشمیر کا

باکرام ہوتا ہے ان کو عطا

جموں وکشمیر کی بسنت کا ذکر خوشی محمد ناظر نے کیا ہے یہاں بھی ہندو اورمسلمان اسے مل کر مناتے تھے، دربار منعقد ہوتا تھا، بازاروں میں ہر طرف رونق دکھائی دیتی تھی اورسب لوگ زرد لباس پہنتے تھے۔ علاوہ ازیں بہت سی مثنوی میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔

بسنت کے کچھ عرصے کے بعد ہولی پھاگن کے مہینے میں آتی ہے۔ بعض ہندو دانشوروں کا کہناہے کہ ہولی دراصل ایک دراوڑی تیوہار ہے جسے بعد میں آریوں نے بھی اپنا لیا۔ پورانک روایتوں کے مطابق وشنو بھگوان نے ہندوؤں کی چار بڑی ذاتوں کے لیے چار تیوہار مقرر کیے تھے۔ راکھی پورنیما برہمنوں کے لیے، دسہرہ کھتریوں یا شہریوں کے لیے، دیوالی ویشوں کے لیے اورہولی شودروں کے لیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرانوں کے زمانے تک ہولی کا رواج صرف شودروں میں نچلے طبقے کی ذاتوں میں تھا۔ یہ تیوہار ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ اس کے آغاز کے سلسلے میں بعض روایتیں مشہورہیں مثلاً بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہولی کا تعلق ’ کامودی تیوہار‘سے ہے جس پر کام دیوتا(کیوپڈ) کی پرستش کی جاتی تھی اورجو بہت کچھ بسنت سے ملتا جلتا تھا۔ ہولی کی ابتدا کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ اس روز شری کرشن نے راکھشسنی ’پوتنا‘ کو شکست دی تھی۔ اس طرح کی اور بہت سی روایتیں ہولی سے متعلق مشہور ہیں۔ مرد عورتوں پر اورعورتیں مردوں پر رنگ چھڑکتی ہیں اورا س سلسلے میں ہر قسم کی پابندیوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ عبیر اورگلال کی بارش ہوتی ہے اورگلی کوچے رنگ میں ڈوبے ہوئے نظرآتے ہیں۔ یہ تیوہار پھلیرا دوج سے شروع ہوتا ہے اوراگلی دوج پرختم ہوجاتا ہے۔ آخری دن کو ہولکا اشٹک کہتے ہیں اوریہی تیوہار کا اہم ترین دن ہے۔ اس روز جگہ جگہ جو آگ روشن کی جاتی ہے وہ دراصل قدیم عقیدوں کے مطابق فصلوں کو بد روحوں کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔

متعدد اردو مثنویوں میں ہولی کا بھرپور ذکر ملتا ہے جس سے اس تیوہار کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ حاتم کی ’مثنوی بہاریہ‘ میں ہولی اوردیوالی کا ذکر ملتا ہے۔ حاتم نے ہولی کے بہترین رنگوں کو یک جاکردیا ہے اورکم سے کم الفاظ میں ہولی کے ایسے جمال افروز اورعشق خیز مرقعے پیش کیے ہیں کہ ہولی کی رنگینیاں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں          ؎

لگی پچکاریوں کی مار ہونے

ہر اک سو رنگ کی بوچھار ہونے

گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی

پکارے یک بیک ہولی ہے ہولی

کوئی لے رنگ پچکاری بھرے ہے

کوئی رنگین لباس اپنا کر ے ہے

کوئی اپنا کھڑی دامن نچوڑے

کوئی آنکھیں لڑاکر منھ کو موڑے

کلال ایسا اڑا از صبح تا شام

ہوا رنگِ زمیں سارا شفق جام

تماشا سا تماشا ہورہاہے

کہ ہراک ہات سے جی دھورہاہے

میر تقی میر کی ہولی سے متعلق دو مثنویاں ملتی ہیں۔ یہ دونوں لکھنؤ میں لکھی گئیں اور ان میں وہاں کا رنگ نمایاں ہے ان میں سے ایک دراصل آصف الدولہ کی شادی کے موقعے پر لکھی گئی تھی اوراس میں ہولی کا ذکر ضمناً آیا ہے۔ ان مثنویوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے بادشاہوں کی طرح لکھنؤ کے نواب بھی ہولی کی رنگ رلیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہولی کے روز جشن ہوتا تھا کلال کے قمقمے بھر بھر کے مارے جاتے تھے اورعبیر میں گلاب کی پنکھڑیاں ملاکر ایک دوسرے پر چھڑکتے تھے اس منظر کو میر  نے بڑے خوبصورت ڈھنگ سے پیش کیا ہے          ؎

قمقمے جو گلال کے مارے

مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے

خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں

گل کی پتی ملاڑاتے ہیں

جشن نوروز ہند ہولی ہے

راگ رنگ اوربولی ٹھولی ہے

میر کے زمانے کے مشہورشاعر قائم چاند پوری نے اپنی ’مثنوی در وصف ہولی‘ میں اس تیوہار کی بہترین منظر کشی کی ہے    ؎

کسی پر کوئی چھپ کے پھینکے ہے رنگ

کوئی قمقموں سے ہے سرگرم جنگ

کسونے لگائی ہے کونے میں گھات

کہ بازی میں خلوت کی ہیں لاکھ بات

ہے ڈوبا کوئی رنگ میں سربسر

فقط آب میں ہے کوئی تربتر

زبس ہر طرف رنگ کی مار ہے

جہاں یک قلم زعفران زار ہے

الٰہی ہے جب تک یہ شوروشر

ہو عالم میں ہولی سے باقی اثر

ہندوستانی تہذیب کے دوسرے اداروں کی طرح ہندوستانی رسم ورواج بھی اپنی رنگا رنگی کے باوجود ایک داخلی ہم آہنگی رکھتے تھے لہٰذا اردو شاعری میں شادی بیاہ کی جن رسوم کا ذکر ملتا ہے۔وہ ہندوؤں اورمسلمانوں میں تقریباً ایک سی ہیں مثلاً دونوں میں شادی کا جلوس برات کی شکل میں نکلتا ہے۔ برات لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے گھر جاتی ہے۔ ہندوؤں میں رواج ہے کہ ایک ورن کی شادی دوسرے ورن میں نہیں ہوتی مثال کے طورپر کھتری کا رشتہ کھتر ی کے یہاں اورویش کا رشتہ ویش کے یہاں کیا جاتا ہے نچلی ذات والوں کے یہاں اعلیٰ ذات کے لوگ میل جول جائز نہیں سمجھتے۔ دونوں مذاہب والوں کے یہاں شادی سے قبل منگنی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں منگنی کے موقع پر دلہن کو چڑھاوے کی رقمیں چڑھائی جاتی ہیں۔ ہندوؤں میں ’’روپ درشن‘‘ ادا کرتے ہیں۔ شاد ی کے کچھ روز پہلے مائیوں بٹھانا ایک رسم ہے مائیوں بٹھانے کے بعد اندر عورتیں اورباہر مردابٹنا گاتے ہیں۔ یہ رسم بہت کچھ ہولی اوررنگ پاشی سے ملتی جلتی ہے۔ شادی سے کچھ روز قبل دولہا دلہن کے گھروں میں ہم عمر لڑکیاں اورجوان عورتیں آپس میں مل کر سہاگ اور گھوڑیاں گاتی ہیں۔ زخمِ چشم سے محفوظ رہنے کے لیے دولہا کے یہاں کوئی ہتھیاریا چاقو دے دیتے ہیں۔ شادی سے کچھ دن پہلے مہندی کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ سہاگ پڑا کاغذ کی ایک بڑی تھیلی میں بنایا جاتا ہے اس میں خوشبودار ادویات ہوتی ہیں جنھیں دولہا اورسہاگنوں سے پسواکر دلہن کی مانگ میں بھرتے ہیں بعد ازاں دلہن کی بہنیں دولہا کے یہاں مہندی لے کر جاتی ہیں۔ سالیاں دولہا کو مہندی لگاتی ہیں اوراپنا نیگ مانگتی ہیں دولہا ان کو حسبِ مقدور نیگ دیتا ہے اورڈومنیاں مبارکبا گاتی ہیں           ؎

گزری شب صبح کا ہوا تڑکا

ہوئی مہندی کی دھوم ہریک جا

تھایہ مہندی کے خوانوں پر جوبن

شمعیں کافوری ان میں تھیں روشن

گہنے پھولوں کے ہار پھولوں کے

خوان تھے بے شمار پھولوں کے

تھی غرض واں عجیب کیفیت

ساری رسموں سے جب ہوئی فرصت

کام کرناتھا جووہ کرآئیں

لے کے مہندی کا نیگ گھر آئیں

ہندومعاشرے میں عورتوں کا لباس زمانہ قدیم سے ساڑی رہاہے جوآدھی کمر سے لپیٹ کر باندھ لی جاتی ہے اورآدھی کندھے یا سر پر پلوکی شکل میں ڈال لی جاتی ہے کمر سے اوپر کا حصہ ڈھانکنے کے لیے بھی ہندوؤں میں ہزاروں سالوں سے ایک لباس رہاہے جو شمالی ہند میں انگیا اوردکنی ہندوستان میں چولی کہلاتی ہے۔ ماتھے پر ٹیکا ہندوسہاگنوں کا خاص نشان ہے دکن کی مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں یہ بہت عام تھا اورہندو عورتوں کے اثر سے بعض مسلمان عورتوں نے بھی اس کا اثر لیا شمالی ہند کی مثنویوں میں اس کا بہت کم ذکر ملتا ہے سحر البیان کا ایک شعر دیکھیے          ؎

وہ ماتھے پرٹیکے کی اس کے جھلک

سحر چاند تاروں کی جیسے جھلک

شمالی ہند کی اٹھارہویں صدی میں لکھی گئی مثنویوں میں عورتیں اکثر بھجند، پہونچی یا چوڑیاں اورکالی بانکیں پہنتے نظرآتی ہیں۔ دکن کا کنٹھ مال شمال میں منت کا طوق بن گیا۔مثنوی سحر البیان میں میر حسن نے جو گن کا حلیہ بیان کیا ہے جس میں لباس سے متعلق خاصی معلومات ہوتی ہے     ؎

پہن سیلی اور گیروا اوڑھ گھیں

چلی بن کے صحرا کو جوگن کا بھیس

پہن ایک لہنگا زری باف کا

وہ پردا ساکر اس تن صاف کا

زمرد کی سمرن کو ہاتھوں میں ڈال

اورایک بین کاندھے پراپنے سنبھال

چلی بن کے جوگن وہ باہر کے تئیں

دکھاتی ہو چال ہر ہر کے تئیں

اردو کی متعدد مثنویوں میں اسلامی کلچر کی جھلکیاں نمایاں طورپر نظرآتی ہیں۔ مسلمان شاعروں کی طرح ہندو مثنوی نگار شعرا نے بھی اپنی مثنویوں کا آغاز اکثر حمد ونعت اورمنقبت سے کیا ہے۔ اردو کے مشہو رمثنوی نگار پنڈت دیاشنکر نسیم گلزار نسیم کے آغاز میں لکھتے ہیں          ؎

ہر شاخ میں شگوفہ کاری

ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر

حمد حق ومدحت پیمبرؐ

پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے

یعنی کہ مطیع پنجتن ہے

ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی

کرتا ہے زباں سے پیش دستی

گلزار نسیم میں جگہ جگہ اسلامی تہذیب کے نمایاں نشانات موجود ہیں عقائد اور روایات کے علاوہ مسلمانوں کی طرز معاشرت اوررسم ورواج کا ذکر بھی جگہ جگہ نظرآتا ہے۔ اس مثنوی کے قصے کے بعض عناصر اسلامی حکایات سے میل کھاتے ہیں مثلاً تاج الملوک کے بھائی اس سے دغا کرتے ہیں یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ پھول کو آنکھوں سے لگانے سے بینائی واپس آجاتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے واقعہ سے ملتا جلتا ہے۔

سحر البیان میں میر حسن نے بادشاہ کے اعتقاد کے سلسلے میں کہا ہے        ؎

خدا پرزبس اس کو تھا اعتقاد

لگامانگنے حق سے اپنی مراد

پردے کا رواج قدیم زمانے سے مسلمانوں میں چلا آرہاہے اس کا مقصد مردوں اورعورتوں میں فاصلہ برقرار رہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حجاب باقی رہے اور کوئی ایسی نازیبا حرکات سرزد نہ ہوں جس سے سماج کا شیرازہ بکھر جائے۔ مسلم معاشرے میں اکثر خواتین گھر میں ہی رہا کرتی تھیں اگر کوئی بہت ضروری کام آپڑا تو باہر نکلنے کے لیے اس طرح کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کسی غیر مرد کی ان پر نگاہ نہ پڑسکے۔

سہرے کا رواج ہندوستان کی مشترکہ معاشرت کی ایک دلچسپ مثال ہے اس کا چلن مسلمانوں میں بھی خوب ہے            ؎

شورصاحب کے بندھا آج جوسر پر سہرا

دوسرا تھا یہ مقدر میں مقرر سہرا

مسلمانوں میں آرسی مصحف شادی کی ایک رسم ہے اسے ’جلوہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دولہا دلہن کوسرجوڑ کر آمنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ بیچ میں تکیہ اورتکیے پر قرآن شریف رکھا جاتا ہے دولہا سورۂ اخلاص پڑھ کر دلہن کو سناتا ہے اورپھر اس پردم کرتا ہے۔ بعد ازاں قرآن پر آئینہ رکھ کر دولہا دلہن کے اوپر کوئی کپڑا ڈال دیتے ہیں تاکہ شرمائی ہوئی دلہن آئینے میں اپنے شوہر کا دیدار کرلے دکن کی مثنویوں میں اس کا ذکر عام طورپر ملتا ہے۔ وجہی نے اس کا بیان یوںکیا ہے      ؎

سوجلوا لگے دینے سب شاہ کو ں

سلکھن سکی مشتری ماہ سوں

مشاطہ ہو حو رآئے جنت تے بھل

کہ پردا ہے اسمان تارے سو پھل

میرحسن نے اس رسم کی منظر کشی یوں کی ہے       ؎

ہوا جب نکاح اوربٹے ہار پان

پلا سب کو شربت دیے خاصدان

ہوا لیکن اس وقت دونا مزا

کہ دولہا دلہن جب ہوئے ایک جا

عروسی وہ گہنا وہ سوہا لباس

وہ مہندی سہانی وہ پھولوں کی باس

ملا سرخ جوڑے پہ عطر سہاگ

کھلے مل کے آپس میں دونوں کے بھاگ

دکھا مصحف اورآرسی کو نکال

دھرا بیچ میں سرپہ آنچل کوڈال

شادی بیاہ کے علاوہ اسلامی کلچر سے متعلق مختلف چھوٹی چھوٹی رسموں، روایتوں اور عقائد وغیرہ کاذکر ملتا ہے اوریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو کی اکثر مثنویوں میں دیگر تہذیبوں کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی بھرپور عکاسی ملتی ہے اگر تلاش کیا جائے تو اردو کی مختلف چھوٹی بڑی مثنویوں میں یہ عناصر مل جائیںگے لیکن یہاں اہم اورمشہور رسوم کا ہی بیان ملحوظ خاطر تھا۔

اردو میں مذہبی مثنویاں کثرت سے لکھی گئی ہیں نیز دیگر موضوعات پرلکھی گئی مثنویوں میں جگہ جگہ اس کا عکس نظرآتا ہے۔ اردو کی مثنویاں کسی ایک مذہب سے متعلق نہیں بلکہ مختلف ومتعدد مذہبوں کے تعلق سے لکھی گئی ہیں۔

ہندوستان وہ ملک ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں اورسب کی اپنی اپنی مخصوص تہذیب اورکلچر ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کا مشترکہ کلچر جس میں سبھی مذاہب اورقوموں کا رنگ نظرآتا ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ جس کی مثال دنیا کے کسی ملک ومعاشرے میں نہیں ملتی۔ اردو شاعری میں یہاں کے مختلف ومتعدد مذاہب کے لوگوں کے عقائد، رسم ورواج، کھان پان اوررہن سہن کا بھرپورذکر ملتا ہے، جس کی بہترین مثال صنف ِمثنوی نے قائم کی ہے۔ اس صنف میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور یہاں کی دیگر تہذیبوں اورمخصوص کلچر کا بیان اکثروبیشتر کیا گیا ہے۔ شمالی اورجنوبی ہند، دونوں مقامات کی مثنویوں میں عکاسی ملتی ہے۔

مآخذ

  1. ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعریگوپی چند نارنگ
  2. دیوان زادہ (ملبی) حاتم ،لٹن لائبریری علی گڑھ
  3. مثنوی عالم
  4. ہندوستان کی تحریک آزادی گوپی چند نارنگ
  5. بیگمات اودھشیخ تصدق حسین
  6. بستن عقد منہر ومدمالتی نصرتی
  7. اردو مثنوی شمالی ہند میں گیان چند جین

n

Dr. Mohd Arshad

Dept of Urdu

Haleem Muslim P G College

Kanpur - 208001 (UP)

Mob.: 6395284531