17/2/23

اردو مثنوی میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب: محمد ارشد


 ہندوستانی تہذیب بالخصوص ہندومذہب اور عقیدے کے مطابق بنارس ایک مقدس مقام ہے جہاں بہت سے عقیدت مند ہندوتیرتھ کے لیے جاتے ہیں اردو شاعری میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے دیگر اصناف کی طرح مثنوی میں بھی اس کا بیان اکثروبیشتر ہوا ہے۔ بنارس کی تعریف میں غالب کی مثنوی ’چراغ دیر‘کا شمار  غالب کی بہترین مثنویوں میں کیا جاتا ہے جس میں بنارس کو شنکھ پھونکنے والوں کا کعبہ کہا گیا ہے۔ بے نظیر شاہ نے بنارس کا ذکر بہت خوش اسلوبی سے کیا ہے جس میں ہندو مذہب سے متعلق بہت سی اصطلاحوں کا خوبصورت بیان ملتا ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں           ؎

وہ سیلے وہ جوڑے چمکتے ہوئے

وہ کانوں میں مندرے لٹکتے ہوئے

وہ گھنٹی بجاتے ہوئے برہمن

ہیں بت خانوں میں کس طرح نعرہ زن

وہ تھالی میں سندور چندن لیے

کوئی آرہاہے عجب آن سے

کٹوری میں کوئی لیے پھول پان

کھڑی ہے وہ مندر میں مندر کی جان

چترنی کوئی تو کوئی پدمنی

کوئی ان میں رادھا کوئی جانکی

مہا دیو کو جل چڑھا کر تمام

چلی جاتی ہیں اپنے گھر شاد کام

کارتک کے مہینے میں کڑواچوتھ کے بعدہندوؤں کا اہم ترین تیوہار دیوالی ہے۔ اس موقعے پر گھر کی صفائی کی جاتی ہے اورنئے برتن اورنئی چیزیں خریدی جاتی ہیں اورگھروں کو سجانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اس تیوہار میں عورتیں دیواروں پر تصویریں اور فرش پر رنگولی بھی بناتی ہیں۔ دیوالی کارتک کی تاریک ترین رات کو منائی جاتی ہے اوراس رات چراغ وغیرہ جلاکر ہر طرف روشنی کی جاتی ہے۔ اردو کی متعدد مثنویوں میں دیگر ہندوستانی تیوہاروں کی طرح ہولی کا بھی خوب بیان ملتا ہے۔

بسنت پنچمی کا تیوہار ماگھ کے آخری ہفتے میں آتا ہے یہ بہار کے موسم کا نقیب ہے اورنئے سال کی بشارت دیتا ہے دوسرے مقامی تہواروں کی طرح اس کا تعلق بھی یہاں کے موسموں اورزراعتی اساس سے گہرا ہے۔ بسنت کے تعلق سے اردو شاعری میں جو حوالے ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندوؤں کا خاص تیوہار ہے لیکن ان کے علاوہ ہندوستان کی دیگر قومیں بھی اس میں شریک ہوتی رہی ہیں۔ اس روز مرد عورتیں بچے سب زرد لباس پہنتے ہیں۔

فصل کے باآور ہونے کے لیے دعا مانگی جاتی ہے اورقدیم روایات کے مطابق وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں آم کا بور بھی پوجا جاتا ہے جوسرسبزی اورخوشحالی کا مظہر ہے۔ اردو کی دیگر اصناف کی طرح مثنوی میں بھی اس تیوہار کا بیان ہوا ہے درج ذیل اشعار میں کیا خوب منظر کشی کی گئی ہے          ؎

زن ومرد کرتے ہیں اس دن سنگار

مکانوں میں کرتے ہیں نقش ونگار

پروہت سے پاتے ہیں آموں کے بور

جو ہیں ان کے ججمان تحفہ کے طور

سمجھتے ہیں سب اس کو اچھا شگن

ہے یہ پھلنے اورپھولنا کا شگن

خصوصاً امیروں کے دربار میں

وزیروں کی شاہوں کی سرکار میں

دیا بور پہلے کیا بھر سلام

مبارک سلامت زباں پرکلام

طوائفیں بھی اس روز آموں کا بور لے کر امرا کے یہاں جاتی ہیں اورمبارک سلامت کے بول گاتی ہیں۔ بسنت کے روز خاص شاہی دربار منعقد ہوتا ہے اورحاضرین کی تواضع الائچی چکنی ڈلی، جوز، پھو ل اورپان سے کی جاتی ہے۔ ہندو امرا سے بعض کو خلعت، بعض کو پاندان اوربعض کو دوشالے بطور تحفہ دیے جاتے ہیں          ؎

عطا ہوتا ہے بعض کو پان دان

الائچی ڈلی جوز اورپھول پان

سوا ہوتی ہے خاص کی منزلت

کہ خلعت انھیں ہوتے ہیں مرحمت

دوشالہ بہت تحفہ کشمیر کا

باکرام ہوتا ہے ان کو عطا

جموں وکشمیر کی بسنت کا ذکر خوشی محمد ناظر نے کیا ہے یہاں بھی ہندو اورمسلمان اسے مل کر مناتے تھے، دربار منعقد ہوتا تھا، بازاروں میں ہر طرف رونق دکھائی دیتی تھی اورسب لوگ زرد لباس پہنتے تھے۔ علاوہ ازیں بہت سی مثنوی میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔

بسنت کے کچھ عرصے کے بعد ہولی پھاگن کے مہینے میں آتی ہے۔ بعض ہندو دانشوروں کا کہناہے کہ ہولی دراصل ایک دراوڑی تیوہار ہے جسے بعد میں آریوں نے بھی اپنا لیا۔ پورانک روایتوں کے مطابق وشنو بھگوان نے ہندوؤں کی چار بڑی ذاتوں کے لیے چار تیوہار مقرر کیے تھے۔ راکھی پورنیما برہمنوں کے لیے، دسہرہ کھتریوں یا شہریوں کے لیے، دیوالی ویشوں کے لیے اورہولی شودروں کے لیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرانوں کے زمانے تک ہولی کا رواج صرف شودروں میں نچلے طبقے کی ذاتوں میں تھا۔ یہ تیوہار ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ اس کے آغاز کے سلسلے میں بعض روایتیں مشہورہیں مثلاً بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہولی کا تعلق ’ کامودی تیوہار‘سے ہے جس پر کام دیوتا(کیوپڈ) کی پرستش کی جاتی تھی اورجو بہت کچھ بسنت سے ملتا جلتا تھا۔ ہولی کی ابتدا کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ اس روز شری کرشن نے راکھشسنی ’پوتنا‘ کو شکست دی تھی۔ اس طرح کی اور بہت سی روایتیں ہولی سے متعلق مشہور ہیں۔ مرد عورتوں پر اورعورتیں مردوں پر رنگ چھڑکتی ہیں اورا س سلسلے میں ہر قسم کی پابندیوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ عبیر اورگلال کی بارش ہوتی ہے اورگلی کوچے رنگ میں ڈوبے ہوئے نظرآتے ہیں۔ یہ تیوہار پھلیرا دوج سے شروع ہوتا ہے اوراگلی دوج پرختم ہوجاتا ہے۔ آخری دن کو ہولکا اشٹک کہتے ہیں اوریہی تیوہار کا اہم ترین دن ہے۔ اس روز جگہ جگہ جو آگ روشن کی جاتی ہے وہ دراصل قدیم عقیدوں کے مطابق فصلوں کو بد روحوں کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔

متعدد اردو مثنویوں میں ہولی کا بھرپور ذکر ملتا ہے جس سے اس تیوہار کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ حاتم کی ’مثنوی بہاریہ‘ میں ہولی اوردیوالی کا ذکر ملتا ہے۔ حاتم نے ہولی کے بہترین رنگوں کو یک جاکردیا ہے اورکم سے کم الفاظ میں ہولی کے ایسے جمال افروز اورعشق خیز مرقعے پیش کیے ہیں کہ ہولی کی رنگینیاں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں          ؎

لگی پچکاریوں کی مار ہونے

ہر اک سو رنگ کی بوچھار ہونے

گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی

پکارے یک بیک ہولی ہے ہولی

کوئی لے رنگ پچکاری بھرے ہے

کوئی رنگین لباس اپنا کر ے ہے

کوئی اپنا کھڑی دامن نچوڑے

کوئی آنکھیں لڑاکر منھ کو موڑے

کلال ایسا اڑا از صبح تا شام

ہوا رنگِ زمیں سارا شفق جام

تماشا سا تماشا ہورہاہے

کہ ہراک ہات سے جی دھورہاہے

میر تقی میر کی ہولی سے متعلق دو مثنویاں ملتی ہیں۔ یہ دونوں لکھنؤ میں لکھی گئیں اور ان میں وہاں کا رنگ نمایاں ہے ان میں سے ایک دراصل آصف الدولہ کی شادی کے موقعے پر لکھی گئی تھی اوراس میں ہولی کا ذکر ضمناً آیا ہے۔ ان مثنویوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے بادشاہوں کی طرح لکھنؤ کے نواب بھی ہولی کی رنگ رلیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہولی کے روز جشن ہوتا تھا کلال کے قمقمے بھر بھر کے مارے جاتے تھے اورعبیر میں گلاب کی پنکھڑیاں ملاکر ایک دوسرے پر چھڑکتے تھے اس منظر کو میر  نے بڑے خوبصورت ڈھنگ سے پیش کیا ہے          ؎

قمقمے جو گلال کے مارے

مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے

خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں

گل کی پتی ملاڑاتے ہیں

جشن نوروز ہند ہولی ہے

راگ رنگ اوربولی ٹھولی ہے

میر کے زمانے کے مشہورشاعر قائم چاند پوری نے اپنی ’مثنوی در وصف ہولی‘ میں اس تیوہار کی بہترین منظر کشی کی ہے    ؎

کسی پر کوئی چھپ کے پھینکے ہے رنگ

کوئی قمقموں سے ہے سرگرم جنگ

کسونے لگائی ہے کونے میں گھات

کہ بازی میں خلوت کی ہیں لاکھ بات

ہے ڈوبا کوئی رنگ میں سربسر

فقط آب میں ہے کوئی تربتر

زبس ہر طرف رنگ کی مار ہے

جہاں یک قلم زعفران زار ہے

الٰہی ہے جب تک یہ شوروشر

ہو عالم میں ہولی سے باقی اثر

ہندوستانی تہذیب کے دوسرے اداروں کی طرح ہندوستانی رسم ورواج بھی اپنی رنگا رنگی کے باوجود ایک داخلی ہم آہنگی رکھتے تھے لہٰذا اردو شاعری میں شادی بیاہ کی جن رسوم کا ذکر ملتا ہے۔وہ ہندوؤں اورمسلمانوں میں تقریباً ایک سی ہیں مثلاً دونوں میں شادی کا جلوس برات کی شکل میں نکلتا ہے۔ برات لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے گھر جاتی ہے۔ ہندوؤں میں رواج ہے کہ ایک ورن کی شادی دوسرے ورن میں نہیں ہوتی مثال کے طورپر کھتری کا رشتہ کھتر ی کے یہاں اورویش کا رشتہ ویش کے یہاں کیا جاتا ہے نچلی ذات والوں کے یہاں اعلیٰ ذات کے لوگ میل جول جائز نہیں سمجھتے۔ دونوں مذاہب والوں کے یہاں شادی سے قبل منگنی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں منگنی کے موقع پر دلہن کو چڑھاوے کی رقمیں چڑھائی جاتی ہیں۔ ہندوؤں میں ’’روپ درشن‘‘ ادا کرتے ہیں۔ شاد ی کے کچھ روز پہلے مائیوں بٹھانا ایک رسم ہے مائیوں بٹھانے کے بعد اندر عورتیں اورباہر مردابٹنا گاتے ہیں۔ یہ رسم بہت کچھ ہولی اوررنگ پاشی سے ملتی جلتی ہے۔ شادی سے کچھ روز قبل دولہا دلہن کے گھروں میں ہم عمر لڑکیاں اورجوان عورتیں آپس میں مل کر سہاگ اور گھوڑیاں گاتی ہیں۔ زخمِ چشم سے محفوظ رہنے کے لیے دولہا کے یہاں کوئی ہتھیاریا چاقو دے دیتے ہیں۔ شادی سے کچھ دن پہلے مہندی کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ سہاگ پڑا کاغذ کی ایک بڑی تھیلی میں بنایا جاتا ہے اس میں خوشبودار ادویات ہوتی ہیں جنھیں دولہا اورسہاگنوں سے پسواکر دلہن کی مانگ میں بھرتے ہیں بعد ازاں دلہن کی بہنیں دولہا کے یہاں مہندی لے کر جاتی ہیں۔ سالیاں دولہا کو مہندی لگاتی ہیں اوراپنا نیگ مانگتی ہیں دولہا ان کو حسبِ مقدور نیگ دیتا ہے اورڈومنیاں مبارکبا گاتی ہیں           ؎

گزری شب صبح کا ہوا تڑکا

ہوئی مہندی کی دھوم ہریک جا

تھایہ مہندی کے خوانوں پر جوبن

شمعیں کافوری ان میں تھیں روشن

گہنے پھولوں کے ہار پھولوں کے

خوان تھے بے شمار پھولوں کے

تھی غرض واں عجیب کیفیت

ساری رسموں سے جب ہوئی فرصت

کام کرناتھا جووہ کرآئیں

لے کے مہندی کا نیگ گھر آئیں

ہندومعاشرے میں عورتوں کا لباس زمانہ قدیم سے ساڑی رہاہے جوآدھی کمر سے لپیٹ کر باندھ لی جاتی ہے اورآدھی کندھے یا سر پر پلوکی شکل میں ڈال لی جاتی ہے کمر سے اوپر کا حصہ ڈھانکنے کے لیے بھی ہندوؤں میں ہزاروں سالوں سے ایک لباس رہاہے جو شمالی ہند میں انگیا اوردکنی ہندوستان میں چولی کہلاتی ہے۔ ماتھے پر ٹیکا ہندوسہاگنوں کا خاص نشان ہے دکن کی مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں یہ بہت عام تھا اورہندو عورتوں کے اثر سے بعض مسلمان عورتوں نے بھی اس کا اثر لیا شمالی ہند کی مثنویوں میں اس کا بہت کم ذکر ملتا ہے سحر البیان کا ایک شعر دیکھیے          ؎

وہ ماتھے پرٹیکے کی اس کے جھلک

سحر چاند تاروں کی جیسے جھلک

شمالی ہند کی اٹھارہویں صدی میں لکھی گئی مثنویوں میں عورتیں اکثر بھجند، پہونچی یا چوڑیاں اورکالی بانکیں پہنتے نظرآتی ہیں۔ دکن کا کنٹھ مال شمال میں منت کا طوق بن گیا۔مثنوی سحر البیان میں میر حسن نے جو گن کا حلیہ بیان کیا ہے جس میں لباس سے متعلق خاصی معلومات ہوتی ہے     ؎

پہن سیلی اور گیروا اوڑھ گھیں

چلی بن کے صحرا کو جوگن کا بھیس

پہن ایک لہنگا زری باف کا

وہ پردا ساکر اس تن صاف کا

زمرد کی سمرن کو ہاتھوں میں ڈال

اورایک بین کاندھے پراپنے سنبھال

چلی بن کے جوگن وہ باہر کے تئیں

دکھاتی ہو چال ہر ہر کے تئیں

اردو کی متعدد مثنویوں میں اسلامی کلچر کی جھلکیاں نمایاں طورپر نظرآتی ہیں۔ مسلمان شاعروں کی طرح ہندو مثنوی نگار شعرا نے بھی اپنی مثنویوں کا آغاز اکثر حمد ونعت اورمنقبت سے کیا ہے۔ اردو کے مشہو رمثنوی نگار پنڈت دیاشنکر نسیم گلزار نسیم کے آغاز میں لکھتے ہیں          ؎

ہر شاخ میں شگوفہ کاری

ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر

حمد حق ومدحت پیمبرؐ

پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے

یعنی کہ مطیع پنجتن ہے

ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی

کرتا ہے زباں سے پیش دستی

گلزار نسیم میں جگہ جگہ اسلامی تہذیب کے نمایاں نشانات موجود ہیں عقائد اور روایات کے علاوہ مسلمانوں کی طرز معاشرت اوررسم ورواج کا ذکر بھی جگہ جگہ نظرآتا ہے۔ اس مثنوی کے قصے کے بعض عناصر اسلامی حکایات سے میل کھاتے ہیں مثلاً تاج الملوک کے بھائی اس سے دغا کرتے ہیں یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ پھول کو آنکھوں سے لگانے سے بینائی واپس آجاتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے واقعہ سے ملتا جلتا ہے۔

سحر البیان میں میر حسن نے بادشاہ کے اعتقاد کے سلسلے میں کہا ہے        ؎

خدا پرزبس اس کو تھا اعتقاد

لگامانگنے حق سے اپنی مراد

پردے کا رواج قدیم زمانے سے مسلمانوں میں چلا آرہاہے اس کا مقصد مردوں اورعورتوں میں فاصلہ برقرار رہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حجاب باقی رہے اور کوئی ایسی نازیبا حرکات سرزد نہ ہوں جس سے سماج کا شیرازہ بکھر جائے۔ مسلم معاشرے میں اکثر خواتین گھر میں ہی رہا کرتی تھیں اگر کوئی بہت ضروری کام آپڑا تو باہر نکلنے کے لیے اس طرح کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کسی غیر مرد کی ان پر نگاہ نہ پڑسکے۔

سہرے کا رواج ہندوستان کی مشترکہ معاشرت کی ایک دلچسپ مثال ہے اس کا چلن مسلمانوں میں بھی خوب ہے            ؎

شورصاحب کے بندھا آج جوسر پر سہرا

دوسرا تھا یہ مقدر میں مقرر سہرا

مسلمانوں میں آرسی مصحف شادی کی ایک رسم ہے اسے ’جلوہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دولہا دلہن کوسرجوڑ کر آمنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ بیچ میں تکیہ اورتکیے پر قرآن شریف رکھا جاتا ہے دولہا سورۂ اخلاص پڑھ کر دلہن کو سناتا ہے اورپھر اس پردم کرتا ہے۔ بعد ازاں قرآن پر آئینہ رکھ کر دولہا دلہن کے اوپر کوئی کپڑا ڈال دیتے ہیں تاکہ شرمائی ہوئی دلہن آئینے میں اپنے شوہر کا دیدار کرلے دکن کی مثنویوں میں اس کا ذکر عام طورپر ملتا ہے۔ وجہی نے اس کا بیان یوںکیا ہے      ؎

سوجلوا لگے دینے سب شاہ کو ں

سلکھن سکی مشتری ماہ سوں

مشاطہ ہو حو رآئے جنت تے بھل

کہ پردا ہے اسمان تارے سو پھل

میرحسن نے اس رسم کی منظر کشی یوں کی ہے       ؎

ہوا جب نکاح اوربٹے ہار پان

پلا سب کو شربت دیے خاصدان

ہوا لیکن اس وقت دونا مزا

کہ دولہا دلہن جب ہوئے ایک جا

عروسی وہ گہنا وہ سوہا لباس

وہ مہندی سہانی وہ پھولوں کی باس

ملا سرخ جوڑے پہ عطر سہاگ

کھلے مل کے آپس میں دونوں کے بھاگ

دکھا مصحف اورآرسی کو نکال

دھرا بیچ میں سرپہ آنچل کوڈال

شادی بیاہ کے علاوہ اسلامی کلچر سے متعلق مختلف چھوٹی چھوٹی رسموں، روایتوں اور عقائد وغیرہ کاذکر ملتا ہے اوریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو کی اکثر مثنویوں میں دیگر تہذیبوں کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی بھرپور عکاسی ملتی ہے اگر تلاش کیا جائے تو اردو کی مختلف چھوٹی بڑی مثنویوں میں یہ عناصر مل جائیںگے لیکن یہاں اہم اورمشہور رسوم کا ہی بیان ملحوظ خاطر تھا۔

اردو میں مذہبی مثنویاں کثرت سے لکھی گئی ہیں نیز دیگر موضوعات پرلکھی گئی مثنویوں میں جگہ جگہ اس کا عکس نظرآتا ہے۔ اردو کی مثنویاں کسی ایک مذہب سے متعلق نہیں بلکہ مختلف ومتعدد مذہبوں کے تعلق سے لکھی گئی ہیں۔

ہندوستان وہ ملک ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں اورسب کی اپنی اپنی مخصوص تہذیب اورکلچر ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کا مشترکہ کلچر جس میں سبھی مذاہب اورقوموں کا رنگ نظرآتا ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ جس کی مثال دنیا کے کسی ملک ومعاشرے میں نہیں ملتی۔ اردو شاعری میں یہاں کے مختلف ومتعدد مذاہب کے لوگوں کے عقائد، رسم ورواج، کھان پان اوررہن سہن کا بھرپورذکر ملتا ہے، جس کی بہترین مثال صنف ِمثنوی نے قائم کی ہے۔ اس صنف میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور یہاں کی دیگر تہذیبوں اورمخصوص کلچر کا بیان اکثروبیشتر کیا گیا ہے۔ شمالی اورجنوبی ہند، دونوں مقامات کی مثنویوں میں عکاسی ملتی ہے۔

مآخذ

  1. ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعریگوپی چند نارنگ
  2. دیوان زادہ (ملبی) حاتم ،لٹن لائبریری علی گڑھ
  3. مثنوی عالم
  4. ہندوستان کی تحریک آزادی گوپی چند نارنگ
  5. بیگمات اودھشیخ تصدق حسین
  6. بستن عقد منہر ومدمالتی نصرتی
  7. اردو مثنوی شمالی ہند میں گیان چند جین

n

Dr. Mohd Arshad

Dept of Urdu

Haleem Muslim P G College

Kanpur - 208001 (UP)

Mob.: 6395284531

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں