16/2/23

اردو شاعرات کی نظموں میں اساطیری کردار: محد حسین


 اردو میں جدید نظم نگاروں نے جدید افکار و نظریات اورجحانات سے سروکار رکھتے ہوئے موضوعاتی سطح پر بھی تخلیقیت کا مظاہرہ کیا ہے۔جدید نظموں کے موضوعات میں حیات و کائنات کے وہ مسائل بھی جگہ پاتے ہیں جو ایک زمانے تک شجر ممنوعہ تسلیم کیے جاتے تھے۔اسی طرح جدیدنظموں میں صارفی زندگی کی کھردری حقیقتیں بھی نظر آتی ہیں۔سماجی حقیقتوں کے تخلیقی وادبی اظہار کے لیے نظم کے سانچے کو ہی مناسب سمجھا گیا۔اس لیے جدید نظموں کے موضوعات میں ہمیں تنوع نظر آتا ہے۔جدید نظم نگاروں میں خواتین کی بھی خاصی تعداد ہے۔لیکن اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جدید نظم نگاروںکی نمائندہ نظموں کا انتخاب شائع کیا جاتا ہے تو شاعرات کے کلام کوشاذ ونادر ہی جگہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ جدید نظم نگار شاعرات بھی اس صف میں ایک مقام رکھتی ہیں۔شاعرات نے بھی اردو شاعری کے میدان میں اپنی منفرد نظموں سے ایک اہم اضافہ کیا ہے۔ شاعرات کی نظموں کے توسط سے اردو میں خواتین سے وابستہ مسائل کا اظہار ہونے لگا۔کیوں کہ اردو نظم نگار شعرا کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی تھی اس طرف خواتین نے ہماری توجہ مبذول کرائی۔ تانیثی مسائل کے اظہار میں خواتین نے سب سے زیادہ نظم کی ہیئت کو قبول کیا ہے۔کیوں کہ نظم میں غزل جیسی ہیئتی اور میکانکی بندش واقعاتی تسلسل کے اظہار میں رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔ خواتین نے جہاں مرد اساس معاشرے کو بے نقاب کرنے والی بے باک نظمیں لکھی ہیں وہیں خواتین سے وابستہ مخصوص جذبات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہیں، اس لیے اردو نظموں میں نسائی شاعری کے ایک الگ رنگ کا اضافہ ہوا۔ادا جعفری سے لے کر پروین شاکر، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض،شفیق فاطمہ شعریٰ،بلقیس ظفیر الحسن، فاطمہ حسن اور شہناز نبی جیسی نمائندہ شاعرات نے جدید نظموں کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔

جدید نظم نگار خواتین نے پدرسری معاشرے میں عورت کے وجود اور مقام و مرتبے کی رد تشکیل کا کام کیا ہے۔ہمارا سماجی نظام جس میں عورت کا وجود ایک ثانوی حیثیت کا حامل تصور کیا جاتا رہا ہے اس کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے شاعرات نے ایسی نظمیں لکھی ہیں جن میں اس حقیقت کا برملا اظہا رملتا ہے۔شاعرات کی نظمیں یہ اعلان کرتی نظر آتی ہیں کہ عورت بھی ایک مستقل بالذات وجود ہے اور اسے بھی اختیارات حاصل ہیں جس طرح آزاد انسان کو حاصل ہیں۔پابندیوں اور ذمے داریوں کا بوجھ صرف اس پر کیوں لادا جائے۔عورت کے ساتھ سماج میں برسوں سے ہورہی ناانصافی کو شاعرات نے اپنی تخلیقات میں نظم کیا ہے۔اسی رجحان کے تحت تخلیق پانے والی نظموں میں سیتا، مریم،عائشہ،دروپدی اور اقلیما جیسے اساطیری کرداروں کو بھی شاعرات نے شاعرانہ تخیل کے ساتھ برتا ہے۔ ان اساطیری کرداروں کو شاعرات نے بڑی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ شاعرات نے ان کرداروں کو نظم کرتے ہوئے واعظانہ انداز اختیار نہیں کیا بلکہ ان اساطیری کرداروں کے بارے میں جو کہانیاں مذہبی صحائف اور مذہبی کتب میں موجود ہیں ان کہانیوں سے ہی عورت کی مظلومی کا نقشہ کھینچا ہے۔شاعرات نے ان اساطیری کرداروں سے ایک نیا معنوی جہان خلق کیا ہے۔

اردو کی ایک بے حد سنجیدہ او ر علمی شاعری کرنے والی شاعرہ شفیق فاطمہ شعریٰ کی ایک نظم ’سیتا‘ کے عنوان سے ہے جس میں سیتا کی کہانی کے ذریعے عہد حاضر کی عورت کی مظلومی کا بھی نقشہ کھینچا ہے۔نظم طویل ہے لیکن اس کا وہ حصہ یہاں درج کرنا لازمی ہے جس حصے میں سیتا کی عفت و پاکدامنی موضوع گفتگو بنی تھی           ؎

سہے جو ستم بن گئے سب فسانے

 تلافی کا  اب  آرہا  تھا زمانہ

 ہوئی آہ لیکن یہ کیسی تلافی

 دوبارہ ملا جنگلوں میں ٹھکانہ

اور آخری بند بھی دیکھیں          ؎

صلیب ایک باقی جو تھی مامتا کی

 اسے بھی تو لازم تھا تنہا اٹھانا

عجب ہیں یہ اسرار وصل و جدائی 

کہ منزل کو پا کر بھی منزل نہ پائی

یہ کیسا ستم تھا کہ عفت کی دیوی 

ثبوت اپنی عفت کا دینے کو آئی

وہ شعلے کی مانند شعلوں سے گزری 

وہ بجلی سی بن کر زمیں میں سمائی

سیتا نے رام کے ساتھ بن باس کی زندگی گزاری، ساری تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں لیکن جب جنگل سے واپسی ہوئی تو لوگوں نے سیتا کی پاکدامنی پر سوالیہ نشان قائم کیا۔کیوں کہ جنگل میں قیام کے دوران راون اپنے مکر کے ذریعے سیتا کو اٹھا لے گیا تھا جس کے بعد لکشمن اور رام مل کر لنکا پر چڑھائی کرکے سیتا کو واپس لائے۔ سیتا کو راون اٹھا لے گیا تھا اس لیے وہ سیتا جو عفت کی دیوی مانی جاتی ہے اس کی عفت وپاکدامنی پر سوالیہ نشان قائم کیا گیاجس کے نتیجے میں بھرے دربار میں سیتا کی اگنی پرکشا لی گئی اور یہ کہا گیا کہ اگر سیتا پاکدامن ہوگی تو آگ اسے ہرگز جلا نہیں سکتی لیکن اگر وہ پاکدامن نہیں ہوگی تو جل جائے گی۔سیتا نے اگنی پرکشا بھی دی۔اس اگنی پرکشا میں پاس ہونے کے بعد سیتا نے دل برداشتہ ہو کر برہما سے دعا کی کہ برہما مجھے اس دنیائے فانی سے اپنی طرف بلا لے۔میں ایسے لوگوں میں کیوں رہوں جنھیں مجھ پر اعتبا رنہیں، جنھوں نے میری پاکدامنی پر شک کیا اور مجھے امتحان سے گزار کر مطمئن ہوئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ برہما نے سیتا کی دعا قبول کر لی اوروہیں بھرے دربار میں زمین پھٹی اور سیتا وہیں زمین میں سما گئی۔تبھی شفیق فاطمہ شعریٰ نے کہا ہے کہ           ؎

یہ کیسا ستم تھا کہ عفت کی دیوی

 ثبوت اپنی عفت کا دینے کو آئی

 وہ شعلے کی مانند شعلوں سے گزری

 وہ بجلی سی بن کر زمیں میں سمائی

عفت کی دیوی سیتا کواپنی عفت کا ثبوت دینے کے لیے شعلوں سے گزرنا پڑا لیکن اس کے بعد وہ بجلی بن کر زمین میں سما گئی اور لوگ دیکھتے رہ گئے۔

 ماضی کے علاوہ آج کے جدید اور متمدن عہد میں بھی بعض مقامات پر عورت کی پاکدامنی کے ٹیسٹ کے لیے Virginity test وغیرہ کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں وہ آج کی ہی پیداوار نہیں ہیں بلکہ عہد قدیم سے ہی پدرسری نظام نے عورت کے کردار کو شکوک و شبہات کے گھیرے میں رکھا ہے، یہاں تک کہ جو شخصیات ان کی نظر میں پوجنے والی اور عظیم ہستیاں رہی ہیں انہیں بھی پاکدامنی کا ثبوت دینے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔

اردو کی ایک اور اہم شاعرہ رفیعہ شبنم عابدی نے بھی اس تھیم پر ایک نظم کہی ہے جس کا عنوان ’گواہی‘‘ ہے۔نظم میں رفیعہ شبنم عابدی نے مختلف مذاہب کے اساطیری کرداروں کے نام شامل کرکے ان کے ساتھ ہونے والی واردات اور اب کی عورت کے ساتھ در پیش معاملات کا موازنہ کیاہے۔ رفیعہ شبنم نے ان اساطیری اور مذہبی کرداروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پرسوال قائم کرنے کے بجائے آج کی عورت کے ساتھ درپیش معاملات پر گفتگو مرکوز رکھی ہے         ؎

وہ کلی تھی

 اس کی قبائے عصمت چاک نہیں ہوئی تھی

 وہ مریم تھی

 اس کے دامن پہ کوئی دھبہ نہ تھا

 وہ زمزم تھی 

 اس کو کسی نے چکھا نہ تھا

 وہ سیتا تھی 

 کوئی شعلہ اس کے جسم تک پہنچا نہ تھا

 وہ میرا تھی

 زہر اس کی رگوں میں اترا نہ تھا

 وہ آئینہ تھی 

 جس پر کوئی عکس ٹھہرا نہ تھا

 میں کہ ایک عورت ہوں

 بے حسوں کی غیرت ہوں

 میں زمین جیسی ہوں

 پھل بھی دوں تو مٹی ہوں

 پاکباز ہوکر بھی 

 دل نوازہوکر بھی

 آزمائی جاتی ہوں 

 میں جلائی جاتی ہوں

 سانس سانس کٹتی ہوں

 بھائیوں میں بٹتی ہوں

 داؤں پر بھی لگتی ہوں

 رات دنسلگتی ہوں۔          (اگلی رت کے آنے تک)

نظم پڑھتے ہوئے کوئی بھی آسانی سے محسوس کر سکتا ہے کہ رفیعہ شبنم عابدی نے سیتا،مریم اور میرا جیسے اساطیری کرداروں کی زندگی میں پیش آئے واقعات کو ویسے ہی خوش اسلوبی سے بیان کیا جیسے ان مقدس ہستیوںکوماننے والے افراد کرتے ہیں۔ کوئی سوال اور کوئی اعتراض قائم نہیں کیا، لیکن آج کی عورت کی دردناک حالت کے لیے انھوں نے جو کہا ہے اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ آج کی عورت نہ سیتا ہے،نہ مریم ہے اور نہ میرا جن کے دامن پہ دھبے نہیں ہوں جو بالکل پاک و صاف مانی جائیں۔کیونکہ آج کی عورت کی حالت یہ ہے کہ پاکباز ہونے کے باوجود ان کی پاکدامنی مشکوک ٹھہرتی ہے اور انہیں طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔بے حسوں کی غیرت،زمین،جو لاکھ پھل دے لیکن اس کا مول تو یہی ہے کہ وہ مٹی ہے۔عورت پاکباز اور دلنوا زہو کر بھی آزمائی اور جلائی جاتی ہیں، کبھی جہیز کے نام پر کبھی غیرت کے نام پر، اس کا وجو دسانس سانس کٹتا ہے بھائیوں میں تقسیم ہوتاہے اور اسے داؤں پر بھی لگایا جاتا ہے۔ عورت کو آزمایا جاتا ہے اور آزمائش کے بعد اگرچہ وہ پاکدامن ثابت ہو جاتی ہے لیکن اس کا وجود ریزہ ریزہ ہوجاتاہے۔ کیوں کہ جس کے لیے وہ سراپا قربان ہے وہ بھی اسے لائق اعتبار نہیں سمجھتا ہے۔اس کسک اور درد کا مداواممکن نہیں ہے۔

بیسویں صدی کی نصف آخر میں ابھرنے والی شاعرات میں ایک اہم سنجیدہ نام شائستہ یوسف کا بھی آتا ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ’سونی پرچھائیاں‘ اور ’گل خود رو‘۔ شائستہ یوسف بڑی شائستگی سے اردو شاعری میں اپنا مقام بناتی ہیں ان کی شاعری میں شائستگی،سنجیدگی اور متانت ہے۔ انھوں نے ایک نظم میںہر عہد کی عورت کا کرب بیان کیا گیا ہے۔ جب عورت کی عفت و پاکدامنی شک کے گھیرے میں آتی ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ نظم کا عنوان ’تطہیر‘ ہے جو ان کے شعری مجموعے ’سونی پرچھائیاں‘ میں شامل ہے         ؎

ان کے مبارک ہاتھوں نے / میرے نام کا قرعہ نکالا/ میں اپنی قسمت پر نازاں / ان کے ساتھ غزوے میں چل دی / صحر اکا سفر،/ اونٹوں کاقافلہ،/ ان کی سرداری،/ میرے عروج کا ستارہ چمکا۔…میر انازک حسین بدن/ لطافت میں اپنی مثال آپ راہ/ وہ سفر میں اپنی سرداری/ اپنی دیانت داری،اپنے فرائض میں مصروف رہے/ قافلہ رکا / میری طبیعت میں بسی آزادی /کھلے میدان میں / اپنی پہچان میں گم ہو ئی/ ان کی محبت،ان کا ساتھ/ دونوں عالم میں اپنا مقام / میں تمام باتوں کو سوچ کر ۔/ لہراتی رہی / جانے کب کو چ کا اعلان ہوا/ میرے ہار کے موتی ٹوٹ کر بکھر گئے / میں ان کو چنتے چنتے جانے کہاں/  نکل گئی / نیند کا غلبہ،صحرا،تنہائی،اندھیرا/ سب نے بے بہرہ اپنا کا م کیا۔/ رات نے دن کا لباس پہن لیا/ تقدیر نے مہربان کو رہبر کیا/ اونٹنی نے اگلے گھٹنے ٹیکے/ میں اس کی پشت پر سوار ہوئی / رہبر مہار تھامے ساتھ چلتا رہا/ سورج سر پر آگیا/ قافلے میں طوفان مچ گیا/ اور میری قسمت کے  چاندکو گہن لگا/ ان کی نظریں / میرا چہرہ پڑھ نہ سکیں/ لطف وا لتفات کی کمی/ مجھے زندہ در گور کر گئی/ بیماری میرا بستر ہوئی / میں دریائے عمیق میں ڈوب گئی/ اندھیرا ہی اندھیرا پھیلا/ میں گہرائی میں اترتی چلی / انگلیوں کی حرکت،دل کی دھڑکن/ دھن کی آواز/ ہر شے کو سیاہی کھا گئی/ میرے دل نے اس نو ر کی تمنا کی / جس کی معمولی سی لکیر/ اس سیاہ دائمی عذاب سے نجات دلاسکتی / میری سمجھ میں کچھ نہ آیا/ میں کیا کروں ؟/ میں کہاں جاؤں؟/ میں اس طاق کو کیسے ڈھونڈھوں / جہان قندیل میں جلتے چراغ سے/ نوربکھر رہاہے / میرے اللہ میں نہیں جانتی / کون سا مبارک تیل / تیرے چراغ کو روشن کرتا ہے ؟/ میں اس اندھیرے سے کیسے نکلوں؟/ کہیں لگاتار بہتے آنسوؤں نے / میری بصارت کا حال/ اولاد سے بچھڑے باپ کا سا تو نہیں ہو گیا!/ محبت اور جدائی کا الم/ مجروح جذبات، سینے سے اٹھتی ٹیس / ذہن میں سسکتی کربناک سلوٹیں/ میں کیسے پکاروں؟/ کہیں کوئی دریچہ کھلے!/ کہیں سے ہوا کا جھونکا آئے / میری بدنامی کے اندھیرے کو / سچ کی روشنی میں دیکھے / میرے بے بس والدین کی گواہی / اتنے بڑے قافلے کے آگے بے بس ہوئی / ان کے مبارک قدم / میری اجڑی زندگی میں/ امید کی ایک کرن لے کر آئے / لیکن مجھ سے حق کا تقاضا نہ ہوا/ دن رات میرے / ساتھ رہنے والوں نے / یقین کی مہر ثبت کردی / مجھے اس کی عدالت اور انصاف پر/ یقین کامل تھا/ ایک ندا،ایک صدا نے میری برأت کردی/ ایک روشن آیت میرے نام کے ساتھ/ تا قیامت جڑ گئی / میری تطہیر ہوگئی/ ان کے لب مسکرائے / بادل چھٹ گئے / رات اور دن پھر/ اپنے دائر ے میں تیرنے لگے /لیکن میرے دل نے کہا/ کاش انھوں نے / میر ی محبت پر یقین کیا ہوتا/ میرے خالق نے ثبوت دیا/ ’’عالم الغیب‘‘ صرف ایک ہے۔

شائستہ یوسف کی یہ نظم ہر عہد کی عورت کا بیانیہ ہے کہ جب اس کی عفت اور پاکدامنی پر تہمت لگتی ہے تو ساری دنیا تو اس کے خلاف ہوتی ہی ہے لیکن سب سے زیادہ تکلیف اسے اس وقت ہوتی ہے جب اس کا ساتھ وہ بھی نہیں دیتا جسے وہ سب سے زیادہ چاہتی ہے۔ اس لیے کسی بھی عورت کی پاکدامنی پر سوال قائم ہو تو اگر چہ اس کی برأت اور پاکدامنی ثابت ہوجائے لیکن اس کے دل میں یہ کسک ضرور رہ جاتی ہے کہ اس سے بے انتہامحبت کرنے والا اسے اس وقت تنہا چھوڑ دیتا ہے جس وقت اسے اس کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔

ان شاعرات کے علاوہ فہمیدہ ریاض کی اقلیما،شفیق فاطمہ شعریٰ کی بانوئے فرعون جیسے متعدد اساطیری کرداروں کے ذریعے عورت کی مظلومی کا نقش اردو شاعری کے صفحے پر ابھارا گیاہے۔ اساطیر ی کرداروں کے ذریعے شاعرات نے عہد جدید کی عورت کو بھی نظم کیا ہے۔ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل،ان کی ثانوی حیثیت اورپدر سر ی سماج میں اس کے مقام و مرتبے اور شناخت کو ظاہر کرنے والی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں اساطیری کرداروں کے ذریعے  عورت کے وجود پر چھائے بادل کی سیاہی کو مزید نمایا ں کیاگیاہے۔


 

Md Hussain

Ward No: 01, Bhewa Chowk Jayanagar

Distt.: Madhubani- 847226 (Bihar)

Mob.: 9811985005

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں