31/5/24

زبان اور اس کے رموز، مضمون نگار: مصطفی ندیم خان غوری

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024


 

انسان زبان کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کرنے اور اپنے مقابل کو کسی خیر سے آگاہ کرنے اور اسے اپنے ارادے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی زبان نہ صرف انسان بلکہ پالتو اور جنگلی جانور تک سبھی سمجھ جاتے ہیں۔ مثلاً جانوروں کو ان کی مرغوب غذا دکھاکر پاس بلانا یا پھر ڈنڈا دکھاکر دور بھگانا۔ مگر یہ میٹھی یا ترش زبان بلکہ اس کے علاوہ سریلی زبان انسان کو کس نے کب اور کہاں سکھائی ہوگی باہمی تجربات نے اس کے اپنے ماحول نے یا پھر اس کے ایجاد کردہ میٹھے سروں، لسانی بحور اور اس ساز و سامان نے یا ان سب نے اجتماعی طور پر۔ انسانی مزاج اور طبیعتیں فرداً افرداً یا ایک فرد میں موقع بموقع جداگانہ ہوتی ہیں۔

زبان سیکھنے کے کئی ذرائع (نظریے)پیش کیے گئے ہیں۔ زبان کے آغاز کے سلسلے میں کچھ بنیادی باتیں اس طرح ہیں:

الوہی نظریہ:  اکثر مذاہب1 اپنے کو قدیم ترین مذاہب گرانتے ہیں۔ ان میں بھارت کا الوہی نظریہ پیش پیش رہا ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہندو دھرم یعنی سناتن دھرم قدیم ترین دھرم ہے۔ ان میں سنسکرت زبان کو دیوبانی کہا جاتا ہے جبکہ بدھ مت کے مطابق پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ چنانچہ انسان آسمانوں میں دیوی دیوتاؤں کے ساتھ سنسکرت زبان میں ہی بات کیا کرتا ہوگا۔ ظاہر ہے جسے دیوتاؤں نے ایجاد کیا ہوگا۔ چنانچہ تمام تر مخلوق بشمول انسان اور جانور باہم سنسکرت میں ہی باتیں کیا کرتے ہوں گے۔ ہندو ازم کے علاوہ کئی مشابہ نظریے بھی دیگر مذاہب میں قائم رہے ہیں۔ مثلاً بدھوں کے قریب پالی پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نے سب سے پہلے یہی زبان سیکھی ہوگی۔ جینیوں کی دانست میں تیر تھنکروں کے اردھ ماگدھی اپدیشوں کو انسان کے علاوہ حیوانات بھی سمجھتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک اصل زبان عبرانی تھی جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد انھیں کئی اشیا کے نام سکھائے گئے جن سے فرشتے ناواقف تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام عربی زبان میں ازبر کرائے گئے ہوں گے۔ اس طرح تو انسان کی پہلی زبان عربی قرار دی جاسکتی ہے۔ وللہ عالم بالصواب۔

فطری نظریہ:اس نظریے کو فیثاغورث چھٹی صدی ق۔م۔ (قبل مسیح) ، ہیراگرٹس 576تا 480ق۔م۔) اور افلاطون (492تا347ق۔م۔)  نے باہمی طور پر پیش کیا تھا کہ فطرت نے کسی جبلی ضرورت کے تحت زبان کو جنم دیا تھا ۔ چنانچہ اشیا اور ان کے ناموں میں کوئی فطری تعلق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک فلسفیانہ خیال ہے۔ اس لیے ماہرین نے اسے علمی اہمیت نہ دی۔

حیوانی آوازوں کی نقل:   اس نظریے کے مطابق انسان نے برّی، بحری اور فضائی آوازوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل میں زبان کے اولین الفاظ اختراع کیے ہوں گے۔ مثلاً میاؤں، میاں، بھوں بھوں، دریا سمندر کے لہروں کی آوازیں، جنگلی اور پالتو پرندوں اور جانوروں کی آوازیں جن سے انسان اپنی زبان کے اولین حروف تراش لیے لیکن اس پر نمایاں اعتراض یہ ہوا کہ ہر آواز اور ہر لفظ کی ہر زبان میں تعمیم ممکن نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انسان جوکہ اشرف المخلوقات ہے وہ کیونکر جانوروں کی زبانوں کا دست نگر ہوگا۔ اس لیے یہ نظریہ لغو ہے۔ مزید اور بھی کئی نظریے تو ہیں لیکن غیر موضوعی بحث بیجا طوالت کا باعث ہوگی۔

بنی نوع انسان کے لیے زبان از بس ضروری ہے کیوں کہ یہ علم کی ترسیل کا بھی مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ یعنی جو سنا وہ سیکھا بولا سنایا لکھا اور اگلی پشتوں تک پہنچایا۔

موجودہ حالات میں زبانیں غیر عسکری تہذیبوں جیسے وادیِ سندھ کی تہذیب، مصری تہذیب، ہڑپہ موہنجودارو وغیرہ میں پروان چڑھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کسی تہذیب یا علاقے میں ان کی اپنی زبان پنپتی ہے جس کے خصائص دوسری تہذیب یا علاقوں سے یکسر جدا ہوتے ہیں۔ مثلاً دراوڑی زبانیں، آریائی زبانیں، یونانی، لاطینی ، انگریزی، فرانسیسی ، فارسی، عربی۔ ذرا غور کریں تو محسوس ہوگا کہ آہستہ آہستہ ان زبانوں پر علاقائی چھاپ واضح ہوتی چلی جائیگی۔ مثلاً انگریزی اور فرانسیسی کو لیجیے۔ ان کے الفاظ اپنے ڈھب کے اعتبار سے انگلستان اور فرانس کو واضح کریں گے۔ ویسے اطالوی ، جرمنی، روسی، چینی وغیرہ۔برصغیر میں آئیں تو پشتو، پنجابی، اودھی، تامل، تیلگو، کنڑی، مراٹھی۔ سب کا مزاج سب سے جدا ۔ اگر یکسانیت کی کوئی جھلک دکھائی تو محض اتفاقی۔ لیکن ہم دو متصل علاقوں کے درمیان یوں خط فاصل بھی تو عائد نہیں کرسکتے کیوں کہ زبانیں بدلتے بدلتے بدلتی ہیں۔

موقع محل کے اعتبار سے زبان کے کئی مفاہیم ہوتے ہیں۔ ایک تووہی زبان جو ہر جاندار کے جبڑوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے زبان برائے اشاعتِ علم جیسے سنسکرت، عربی، فارسی جیسی زبانیں یا پھر وہ بھی زبانیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’بے زبان جانوروں پر رحم کھاؤ‘‘۔ یہ باتیں کئی لوگ سیکھتے اور سکھاتے بھی ہیں جیسے کسی زبان کی قواعد سکھانا۔ اغلاط کی تصحیح، نظم نگاری، مضمون نویسی یا فن خطابت و خوش بیانی۔ ان علوم کے اکتساب سے کئی ایک مقاصد جیسے عمدہ ادیب و شاعر خطیب، خوش گفتارو پیروکار(وکیل) حاصل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں صوت و آہنگ کی کرشمہ سازیاں ہوتی ہیں۔زبان و آہنگ کے منظم مطالعے کو صوتیات کہتے ہیں۔ ماہر صوتیات و سائنسداں ہوتا ہے جس میں انسانی آوازوں کو سمجھنے کی تمیز ان میں تفریق و تجزیہ کی مہارت ہوتی ہے۔ 2یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں زبان سے مراد بولی جانے والی زبان ہے اسے محفوظ رکھنے کا فن فن تحریر کہلاتا ہے۔

اس تمام بیان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو زبانوں کے ترقیاتی دور اور ترمیمی لوازم کی تفصیل کچھ یوں ہوگی کہ کوئی ایک لاکھ سال تا 40 ہزار سال قبل تک سندھ، مصر ، جنوبی افریقہ، چین، وسط ایشیا میں ترقیمی اشیاء، احمرین روغن ، کوئلہ، گوند وغیرہ سے تیار ہوا کرتی تھیں جبکہ سطح ترقیم غیر منقولہ یعنی بھاری چٹانیں،کتبے وغیرہ ہوا کرتے تھے اور منقولہ تعویذ نقوش وغیرہ جن پر ہڈیوں کے نوکدار قلم سے لکھا جاتا تھا۔ پھر 4000(قبل مسیح) تا 400(ق۔م۔) معمولی سی پیش رفت مصر، جنوبی افریقہ ،چین، ہندوستان میں دیکھی گئی ہے۔ جس کے دوران گوند نباتی ہے۔ عرق بطور روشنائی استعمال ہوتے تھے۔ جبکہ سطح ترقیم میں چٹانیں سیپیاں تختیاں کھالیں یا پائرس وغیرہ دستیاب تھے۔ اور قلم کے لیے ہڈیاں سرکنڈ ے بانس مستعمل تھے۔ جو 256ق۔م۔ تک رائج رہے۔ پہلی صدی عیسوی تک ایران ،سندھ ،اسلامی پرتگال کاغذ پر روشنائی کا استعمال ہوا جبکہ 1041ء میں چین میں طباعت شروع ہوچکی تھی۔ 1450ء میں یورپ میں پرنٹنگ پریس شروع ہوچکا تھا اور انیسویں صدی میں کانپور دہلی لکھنؤ کلکتہ میں اُردو کتابوں کی طباعت جاری ہوچکی تھی جن میں 42کتابوں کے کوئی 11458نسخے شائع ہوچکے تھے۔ بیسویں صدی میں کمپیوٹر سے تمام زبانوں میں ایک انقلاب رونما ہوا 3 اور اکیسویں صدی میں تو انٹرنیٹ ، واٹس اپ ، یوٹیوب ،سوشل میڈیا وغیرہ نے تہلکہ مچادیا۔

زبان کی ادائیگی میں دماغ کا حصہ:اب تک ہم نے زبان کا علم لسانیات کی روشنی میں جائزہ لیا جس کے دوران ہمیں ماحولیاتی عوامل کی کار فرمائیاں نظر آئیں۔ اب زبان کی اُپچ اور ادائیگی میں انسانی دماغ کے کردار پر نظر ڈالیں گے ۔ واضح رہے کہ انسانی دماغ کے غیاب میں زبان کا کوئی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس موضوع پر گفتگو سے قبل اگر انسان کی دماغی ساخت پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو معاملے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

انسانی دماغ کا سۂ سر میں ہر جانب محفوظ و محصور رہتا ہے۔ اس کی سب سے اوپری پرت بھورے رنگ کی ہوا کرتی ہے اور جس کی موٹائی کم و بیش 3ملی میٹر ہوتی ہے۔ یہ دماغ کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے اور دماغ کے پیچیدہ ترین امور جیسے اشعار کی موزونیت میں غور وفکر کرنا، تحقیق و تنقید کے مسائل کا حل وغیرہ اسی سے انجام پاتے ہیں۔ جانوروں میں اس کا فقدان ہوتا ہے ۔ البتہ بندروں میں یہ ہلکی سی نشوونما پاتی ہے مگر بے اثر ہوتی ہے۔ انسانی دماغ جسے مغز (Cerebrum) کہا جاتا ہے ایک درز کے ذریعے دو متشاکل ، متوازن و مساوی نصف کروں میں منقسم ہوتا ہے۔ اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دایاں نصف کرہ بدن کے بائیں حصے کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ بایاں نصف کرہ بدن کے دائیں حصے پر اپنا قابو رکھتا ہے۔ ہر نصف کرہ مزید ایک تڑقن کے ذریعہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ اس طرح پورے دماغ کے چار حصہ ہوئے۔ ان میں سے دو حصوں میں زبان و بیان کو کنٹرول کرنے والے حصے ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔

بروکا ایریا(Broca's Area) :دماغ کے اس حصے کا نام نامور نفسیاتی طبیب پال بروکا(1824  تا  1880)  (Paul Broca)  کے نام سے موسوم ہے۔ اپنے معالجہ کے دوران اس کے مشاہدے میں کچھ ایسے مریض آئے جنھیں الفاظ کی اُپچ (Language Production)   میں رکاوٹ اور ادائیگی میں لکنت کے مسائل حائل تھے۔ ان مسائل کے حل کے دوران اس نے غور کیا کہ کہیں اس بگاڑ کا تعلق دماغ یا اس کے کسی حصے سے تو نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے چند مریضوں کے دماغ کی جراحت کی تاکہ ناقص حصوں کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جاسکے۔ اس جراحت کے دوران اس نے پایا کہ مریضوں کے بائیں پیش دماغ لختہ (Left frontal lobe)  5 ناقص و ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح فتور گوئی (Aphasia) 6 کے علاج کے دوران دماغ کے بائیں نصف کرہ (Left hemisphere)   میں اس نے پایا کہ گویائی اُپچ(Speech Production)اور تصویت(Articulation) 7 سے مربوط ہوتا ہے اور دماغ کے اسی حصے کو دریافت کرکے اس نے اپنے نام پر ہی بروکا ایریا کانام دیا۔ بروکا کو اپنے اس نظریے پر یہ شرف حاصل ہے کہ دماغ میں گویائی کے اپچ کا مرکز دماغ کے بائیں جانب قائم ہے۔ اپنے اس ہدف یعنی بروکا ایریا کو بعینہہ متعین کرنے کے لیے بھی اسے ناموری حاصل رہی۔ اس نے دماغ کے اس حصے کو دریافت کیا تھا جو خلل زبان کا باعث تھا یعنی جو قشر (Cerebral Cortex)  کے پیش دماغ لختہ (Frontal Lobe) کی بائیں جانب قائم رہتا ہے۔ اسے یہ کامیابی ضررِ دماغ (Brain damage) اور خلل گویائی(Speech Disorder)  کے متعدد مریضوں کے مشاہدوں کے بعد حاصل ہوئی۔

دراصل ہماری ادائیگی الفاظ، نارمل بات چیت، تصورات، نیز تقریری و تحریری زبان میں صحت الفاظ کی بخوبی ادائیگی دماغ کے اسی اہم ترین حصے سے منسوب ہے۔ بروکا ایریا کو حرکی کلامیہ (Motor Speech)   حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حرکی قشر دماغ(Motor Cortex)   کے قریب درون پیش تلفیف (Inferior Frontal Gyrus)   میں واقع ہوتا ہے۔ یہ حصہ بات چیت اور گفتگو کے دوران سانسوں کے زیر و بم پر قابو رکھتا ہے تاکہ بات چیت نارمل انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ اس ضمن میں مزید پیش رفت ہوتی رہی اور یہ اندازہ لگایاگیا کہ بروکا ایریا اور دماغ کے دیگر حصوں میں مزید کوئی ارتباط تسلسل کے امکانات کی تلاش جاری رہی۔ اس سلسلے میں کارل وِرِنِکی کی تحقیق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔8

کارل وِرِنِکی1848)  تا(1905   (Carl Wernicke):  یہ ایک جرمن طبیب تھا جو بطور عصب نفسی معالج (Neuropsychiatrist)   جیسے پیشے سے عملاً وابستہ تھا۔ نیز اس نے دماغی ترکیب و ساخت (Brain anatomy)   اور امراضیات جیسے میدانوں میں نہایت اہم دریافتیں کیں، اس کا یقین تھا کہ قشر دماغ9  (Cerebral Cortex)   کے حصوں کی خصوصی شناخت کے ذریعے کئی ذہنی فتور کا سدِّباب کیا جاسکتا ہے وار اس طرح دماغ کے ان حصوں کے افعال کا تعین اور درستی کی جاسکتی ہے۔ وہ بطور ایک ماہر کلامیہ زبان (Speech Language Pathologist) کے بڑی شہرت رکھتا تھا کیوں کہ اس نے فتور گوئی(Aphasid) کے مطالعے کے دوران مغز (Cerebrum)  کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور یہ پایا کہ انسانی مغز یعنی دماغ ہی زبان اور گویائی جیسے مظاہر (Phenomena) کا طرف دماغ لختہ (کنپٹی) (Temporal Lobe)   کی دماغی تلفیف (Superior Gyrus)   میں حصول کرتے ہیں۔

ورنکی کا پیش کردہ یہ ماڈل دماغ کے ایسے خصوصی حصص کے درمیان اتصال کو ظاہر کرتا ہے یعنی دماغ کے مختلف حصے الفاظ کی ادائیگی سے قبل ان کی معنویت سے متعلق اطلاعات مجتمع کرنے کی خاطر باہم ربط قائم کرتے ہیں تبھی وہ زبان کے حرکی حصے کو تحریک دے پاتے ہیں۔

بروکا ایریا اور ورنکی ایریا کا فرق: بروکا ایریا اور ورنکی ایریا دماغ کے وہ حصے ہیں جو زبان کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بروکا ایریا زبان کی اُپچ (Language Production)  سے منسوب ہوتا ہے جبکہ ورنکی ایریا زبان و بیان کے افہام و ادراک سے تعلق رکھتاے۔ ورنکی ایریا اس عمل پر بالضرور زور دیتا ہے کہ بیان کردہ زبان بامطلب ہو، جبکہ بروکا ایریا اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ بیان میں روانی و برجستگی پائی جائے۔ ورنکی ایریا زبان و بیان میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عقبی اعلیٰ طرف دماغ لختہ10 (Posterior Superior Temporal Lobe) (یعنی کنپٹی) کو ایک عصبی ردعمل کے ذریعے بروکا ایریا سے مربوط کرتا ہے۔ شہادتوں کی بناپر یہ ایریا تحریری و تقریری زبان کے طریقہ عمل جیسے صحت الفاظ تجدید یا تخلیق نو کا ردّعمل سے وابستہ رہا ہے۔ شکل ملاحظہ کریں:

 


شکل:  دماغ کے وہ حصے جو گویائی کی اُپچ اور گفتگو پر قابو رکھتے ہیں۔

 

ورنکی نے ایک نظریہ تحصیر (Theory of Localisation)  11تجویز کیا تھا ۔ اسے یقین تھا کہ دماغ کے ایسے متعدد حصوں کی شناخت کی جاسکتی ہے جو مختلف انسانی اطوار پر نہ صرف اپنا قابو رکھتے ہیں بلکہ اسے اپنے ردعمل سے مزید کردار و برتاؤ نمودار کرسکتے ہیں۔ بروکا اور ورنکی حصوں کا یہی معاملہ تھا جو باہم ردعمل کے ذریعہ ایک صحت مند زبان کی جانب گامزن تھا۔

حواشی و حوالے

1 -لسانی مطالعے۔ از گیان چند جین، ترقی اُردو بورڈ، نئی دہلی۔ دوسرا ایڈیشن، 1979، ص32

2 -صوتیات اور فونیمیات۔ اقتدار حسین خان۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی2013،ص1

3-سہ ماہی فکر و تحقیق، جولائی ستمبر2015-، قومی کونسل فروئے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص20-23

4 -ایضاً، ص24

5 -فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،  1988،  ص 186

6 -ایضاً، ص 30

7 -ایضاً، ص34

8 -انٹرنیٹ سے برآمد

9 -فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،  1988،  ص55

10-ایضاً، ص186

11ا-یضاً، ص186

 

Mustafa Nadeem Khan Gauri

Zarrin Village

B.11, Green Valley, Roza Bagh

Aurangabad - 431001 (MS)

Mob: 9604957100

استاد راشد خان: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے، مضمون نگار: رضوان الحق

 ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2024

ہندستانی موسیقی کا نہایت تابناک ستارہ استاد راشد خان بالآخر ڈوب گیا۔ اسی کے ساتھ وہ امیدیں بھی ڈوب گئیں، جو ان سے بھارت رتن پنڈت بھیم سین جوشی نے کی تھیں، انھوںنے راشد خان کو سننے کے بعد ایک بار کہا تھا، ’’وہ ہندستانی موسیقی میں گائکی کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں۔‘‘ 1

اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔وہ کافی عرصے سے پروسٹیٹ کینسر سے لڑ رہے تھے اور آخر کار ہار گئے۔ ابھی وہ محض 55 برس کے تھے، موسیقی کو ان سے ابھی بے شمار توقعات تھیں، جو اب پوری نہ ہو سکیںگی۔ لیکن وہ دنیائے موسیقی کو جو کچھ دے کر گئے ہیں، وہ سرمایہ بھی معمولی نہیں ہے، اس کی قدر و قیمت کے تعین میں ایک زمانہ لگے گا۔ ان کے چاہنے والوں کے لیے یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ گونجتی رہے گی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موسیقی کو رکارڈ کرنے کی تکنیک کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز میں ہی ہو سکا۔ اس سے قبل موسیقی کے بڑے سے بڑے اساتذہ کی آوازیں محفل میں گونجتی تھیں پھر ہمیشہ کے لیے دنیا سے فنا ہو جاتی تھیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں کہ فن کار کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اس کی موسیقی سے ہم محروم نہیں ہوںگے۔ غنیمت کی بات یہ ہے کہ راشد خان کی بے شمار رکارڈنگز ہمارے درمیان موجود ہیں اور آگے بھی رہیںگی۔

راشد خان (1 جولائی 1968 تا 9 جنوری 2024) اس وقت ہندستانی موسیقی کے شاید سب سے روشن ستارے تھے۔ تقریباً پچپن سال کی جواں عمر میں انھیں سنگیت ناٹک اکادمی، پدم شری اور پدم بھوشن جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا تھا اور ابھی نہ جانے کون کون سے اعزازات ان کے منتظر تھے لیکن اب وہ تمام امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ دنیائے موسیقی میں رام پور سہسوان گھرانے کا نام بڑے عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ اسی گھرانے میں اتر پردیش کے بدایوں میں پیدا ہوئے تھے، سہسوان بدایوں ضلعے کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس گھرانے کا آغاز محبوب خان نے کیا تھا، لیکن استاد عنایت حسین خان (1849-1919)کے ذریعے اس گھرانے کی بنیادیں مستحکم ہوئیں اور شناخت ملی۔ اس گھرانے کے دیگر معروف اساتذہ میں استاد حیدر خاں (1857-1927) اور پدم بھوشن مشتاق حسین خان (1878-1964) بہت اہم ہیں۔ راشد خان نے استاد نثار حسین خان (1906-1993) سے گنڈا بندھوا کر باقاعدہ شاگردی اختیار کی تھی، وہ ان کے نانا بھی تھے۔ اس گھرانے کی شناخت کسی ایک طرح کی گائکی یا باجے سے نہیں ہے بلکہ اس گھرانے میں الگ الگ زمانے میں کئی طرح کے فن کار پیدا ہوئے ہیں۔ کسی نے خیال گائکی میں نام پیدا کیا تو کسی نے ٹھمری میں اور کسی نے ترانہ میں کمال حاصل کیا۔ پھر بھی کچھ راگ اور بندشیں ایسی ہیں جنھیں اکثر استاد گایا کرتے تھے۔ مثلاً، دیش راگ میں ’’کرم کر دیجے ائو مرے خواجہ موحی الدین،۔۔۔‘‘ یا ’’جھنن جھنن باجے بچھوا ۔۔ باجے۔‘‘ وغیرہ۔

 راشد خان کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی، ان کا بچپن عام بچوں کی طرح ہی کھیل کود میں گزرا، شروع میں انھیں گائکی میں کچھ خاص دلچسپی نہ تھی، لیکن گھر کی روایت کے مطابق انھیں موسیقی میں تربیت دی جاتی رہی، جب تک انھیں کچھ پسند نہ آتا وہ اس کی تربیت میں دلچسپی نہ لیتے، ان کے استاد بھی اس بات کو لے کر پریشان رہا کرتے تھے۔ شروع میں غزل نے انھیں متاثر کیا تو وہ غزل گائکی کی طرف راغب ہوئے، محمد رفیع کے فلمی نغموں نے بھی متاثر کیا تھا۔ اسی زمانے میں گرِجا دیوی کی ٹھمری سن کر ٹھمری میں بھی ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ استاد نثار حسین خان نے ان کی صلاحیت کو پہچان لیا اور ان کی تربیت کو لے کر سنجیدہ ہو گئے۔ وہ راشد خان کو بہت صبح اٹھا دیتے، سخت نظم و ضبط کو ان پر لاگو کرتے، نیند میں ڈوبے راشد خان اس سختی سے گھبرا جاتے اور کئی بار موسیقی کے تئیں بے زاری کا بھی اظہار کرتے۔ مگر موسیقی ان کی سرشت میں شامل تھی، وہ اس کا ریاض ضابطے سے تو کم کرتے پھر بھی چلتے پھرتے اور کھیلتے کودتے راگوں اور ترانوں کا ریاض کر لیا کرتے۔ تان کاری عام طور پر بہت ریاضت کے بعد ہی آتی ہے لیکن راشد خان نے اسے کھیل کھیل میں ہی سیکھ لیا تھا۔ آہستہ آہستہ خود راشد خان کو احساس ہو گیا کہ ان کی آواز میں کچھ خاص کشش ہے اور انھیں اس کے تئیں سنجیدہ ہونا چاہیے۔

راشد خان ابھی محض 11 سال کے تھے کہ استاد نثار حسین خان انھیں کولکاتا کے ایک کلاسیکی موسیقی کے کنسرٹ میں لے گئے۔ اس کنسرٹ میں راشد خان کو سننے والوں میں پنڈت روی شنکر، پنڈت بھیم سین جوشی، علی اکبر خان، امجد علی خان، نکھل بنرجی جیسے دنیائے موسیقی کے آفتاب و ماہتاب موجود تھے۔ راشد خان نے راگ پردیپ میں ایک بندش لگائی ’لاگے توسے نین ائو پریتم۔‘ ایک چھوٹے بچے میں جو ایک ڈر اور جھجک ہوتی ہے وہ ان میں بھی تھی لیکن ایک بار جو گانا شروع کیا تو بس کمال ہی کرتے چلے گئے۔ گائکی کے بعد سب لوگوں نے راشد خان کی خوب تعریفیں کیں۔ 1980 میں کولکاتا کے آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکادمی میں استاد نثار حسین خان کو بطور استاد دعوت نامہ ملا جسے انھوںنے قبول کر لیا۔ اس کے بعد راشد خان کو بھی اکادمی کے ضابطے کے مطابق داخلہ مل گیا۔ یہاں گرو شِشیہ پرمپرا کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی، اکادمی میں بھی استاد نثار حسین خاں راشد خان کے استاد مقرر ہو گئے۔ لیکن راشد خان یہاں نثار حسین خاں کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ سے بھی باقاعدہ موسیقی سیکھنے لگے۔ اس ادارے سے اس زمانے کے بڑے بڑے اساتذہ وابستہ تھے، کئی بار ایسا ہوتا کہ پنڈت روی شنکر، ولایت خاں یا گرجہ دیوی آئی ہوتیں اور وہ کہتیں کہ اس بچے کو بلا کر لائو ’راشد خان‘ کو سننے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے میں راشد خان ہمیشہ ان کی امیدوں پر کھرے اترتے اور خوب داد و تحسین حاصل کرتے۔ ان سب اساتذہ کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ رہتا تھا کہ وہ صرف راشد خان کی پرورش نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس کی شکل میں ہندستانی کلاسیکی موسیقی کے مستقبل کو سنوار رہے ہیں۔ بچے نے بھی سب کی باتوں کو خوب غور سے سنا اور سمجھا۔ ان دنوں سنگیت ریسرچ اکادمی کے ڈائریکٹر وجَے کِچلو تھے، وہ ہر طالب علم کا اس کے استاد کے ساتھ جائزہ لیتے تھے۔ ان کی ہم جماعت رہیں، ریکھا سوریا نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’وہ ہر اسکالر کی ہر ہفتہ مشترکہ طور پر حوصلہ افزائی اور تعینِ قدر کرتے تھے۔ راشد کے بارے میں وہ آپس میں کہتے، ’’ہم اس کا تعینِ قدر کرنے والے کون ہوتے ہیں، وہ ہمارا ہم پایہ اور ہمارے برابر ہے، ہم سے کم نہیں ہے۔‘‘ 2

ان کی تعلیم کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ جب تک یہ بڑی بڑی شخصیتیں اس دنیا میں رہیں وہ ان کے سامنے اسی طرح دو زانو ہو کر سیکھتے رہے اور وہ اساتذہ بھی اپنی شفقت سے انھیں نوازتے رہے۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتے عظیم فن کاروں سے رہنمائی اور مشورہ کرتے، باریکیوں کے بارے میں سوال کرتے۔ اگر رکارڈنگ میں جانے کا موقع ملتا تو وہاں بھی بڑے غور سے دیکھتے سنتے اور رکارڈنگ کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے، وہ سیکھنے کا کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے۔

ایک بار ڈور لین کولکاتا میں پنڈت بھیم سین جوشی کی رکارڈنگ تھی، یہ 1997 کا واقعہ ہے، راشد خان کو معلوم ہوا تو وہ بھی اسٹوڈیو کے رکارڈنگ روم میں ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر دیکھنے لگے، رکارڈنگ کرانے والوں نے ان سے باہر نکل جانے کو کہا۔ وہ لوگ راشد خان کو جانتے بھی تھے لیکن انھوںنے بے رخی سے جب نکال دیا تو راشد خان نے اسی وقت عزم کر لیا کہ وہ اتنی محنت کریںگے کہ ایک دن یہ لوگ ہی مجھ سے رکارڈنگ کے لیے خوشامد کریںگے۔ اور راشد خان نے اتنی محنت کی کہ ایک دن وہ وقت بھی آ گیا جب وہ لوگ راشد خان سے رکارڈنگ کے لیے التجائیں کر نے لگے۔ لیکن راشد خان نے اپنے فن پر کبھی غرور نہیں کیا، ان کے ساتھ رکارڈنگ کو قبول کر لیا۔ وہ اتنی محنت کرتے کہ ہر مشکل سے مشکل بندش اور راگ کو جذبات اور رس سے بھر پور بنا دیتے۔ راگ راگنیوں کا علم رکھنے والے اور تکنیکی طور پر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی جاننے والے تو ان سے لطف اندوز ہوتے ہی تھے لیکن ایک عام انسان جس کے کانوں میں موسیقی کے حسن سے لطف اندوز ہونے کی تھوڑی بھی حس ہوتی، وہ بھی اس موسیقی سے لطف اندوز ہوئے بنا نہ رہ پاتا۔ وہ راگوں کے پیچ و خم کو تو سمجھتے ہی لیکن اس کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ زور دیتے۔ سُمیتا اوجھا نے راشد خان کے ایک پروگرام کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’الاپ کی مدھم آنچ پر دھیرے دھیرے راگداری کی ٹھہرائو بھری آواز پھیلنے لگی تھی اور گائک کی سُردار، خمدار آواز فضا میں گردش کرنے لگی تھی۔ بے شمار خیال کے پیکروں میں تھرک رہی آواز سامعین کو لگاتار حیرت میں ڈال رہی تھی کہ تبھی گائک نے ایک مرکی لی، تھوڑی سی ڈھیل دے کر سر کے تار کو اچانک کھینچ لیا... یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ موسیقی آسمان سے اتر رہی ہو۔‘‘ 3

استاد راشد خان سے میرا پہلا تعارف 2003 کے آس پاس ہوا، ایک بار میں معروف دستاویزی فلم ساز انور جمال کے ساتھ ان کی کار میں سفر کر رہا تھا، کار میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں راگوں کا ایک کیسٹ بج رہا تھا۔ انھوںنے مجھ سے کہا، ’’اس آواز کو پہچانتے ہو؟ میں نے آواز غور سے سنی اور پہچاننے کی کوشش کی، لیکن پہچان نہ سکا، پہچانتا بھی کیسے کیونکہ میں نے دانستہ طور پر کبھی انھیں سنا ہی نہیں تھا۔ جب میں غور سے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا، اس وقت احساس ہوا کہ یہ آواز اور گائکی بہت غیر معمولی ہے۔ انور جمال نے بتایا کہ یہ راشد خان ہیں اور  انھیں غور سے سننا چاہیے۔ اس کے بعد میں نے راشد خان کو انٹرنیٹ پر تلاش کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ زیادہ نہ مل سکا، اس زمانے میں انٹر نیٹ پر اتنے زیادہ آڈیو ویڈیو موجود نہ تھے۔ اس وقت تک یو ٹیوب بھی نہیں آیا تھا۔ ہندوستان میں یہ 2006 میں لانچ ہوا تھا۔ اس لیے انٹرنیٹ پر کچھ زیادہ تو نہ مل سکا لیکن جو بھی ملا اسے سنا۔ میں نے 2007 میں کلاسیکی موسیقی کا ایک سی ڈی البم خریدا، جس میں کلاسیکی موسیقی کی 18 سی ڈی تھیں، جس میں تقریباً تمام اساتذۂ موسیقی کے فن کاروں کے رکارڈز تھے۔ ہندوتانی اور کرناٹک دونوں طرح کی موسیقی کے رکارڈز۔ جس میں ووکل اور انسٹرومینٹل یعنی گائکی اور بجانے والے آلات دونوں طرح کی موسیقی کے استاد تھے۔ میرے لیے یہ بات بڑی خوشی کی تھی کہ اس البم میں جہاں کمار گندھرو، بھیم سین جوشی، پنڈت روی شنکر، گرجہ دیوی اور استاد بسم اﷲ خان جیسے اساتذہ تھے، وہیں میرے پسندیدہ استاد راشد خان بھی موجود تھے۔ میں نے راشد خان کی اس سی ڈی کو بار بار سنا۔

اب جو میں سوچتا ہوں وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے میں راشد خان کو بار بار سنتا تھا؟ میں موسیقی کا کوئی ماہر تو نہیں تھا، وہ ہندوستانی کلاسیکی گائکی میں تکنیکی طور پر کمال تو رکھتے ہی تھے، ان میں اختراع بھی کرتے تھے لیکن وہ موسیقی کی جمالیاتی خوبیوں کا بہت خیال رکھتے تھے، اور یہی وہ کمال تھا جس کی وجہ سے میں راشد خان سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ راشد خان کی ویب سائٹ پر ان کی گائکی کے بارے میں لکھا ہے:

’’راشد خان نے اپنے نانا نانی کی طرح اپنے وِلمبِت خیالوں میں آہستہ رفتار سے تفصیلات کو شامل کیا اور سرگم و سرگم تانکاری کے استعمال میں غیر معمولی مہارت بھی حاصل کی۔ وہ استاد امیر خان اور بھیم سین جوشی کے اسلوب سے متاثر ہیں۔ وہ اپنے استاد کی طرح ترانہ کے استاد ہیںلیکن انھیں اپنے طریقے سے گاتے ہیں، وہ باجوں کے اسٹروک - اساس اسلوب کی بجائے خیال گائکی کے اسلوب کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے لیے استاد نثار حسین مشہور تھے۔ ‘‘ 4

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ استاد راشد خان کا اصل کمال یہ ہے کہ ان کی گائکی اساتذہ کے اسلوب کو اچھے سے سمجھ کر اس میں جدت پیدا کرنے سے بنی ہے۔ یہ موسیقی سخت محنت، صحیح تکنیک اور مشکل راستوں پر چل کر ہی ممکن ہوئی ہے، راشد خان نے ان سب مہارتوں کو کامیابی کے ساتھ پار کیا ہے۔

استاد راشد خان کو یاد کرتے ہوئے مجھے بھوپال کی ایک خوبصورت شام یاد آ رہی ہے، ان دنوں سردیوں کی شدت ختم ہو چکی تھی اور گرمی آنے میں ابھی وقت تھا۔ بھارت بھون کے بہی رنگ اسٹیج میں استاد راشد خان کی گائکی جاری تھی، کھلی فضا کا یہ اسٹیج بھارت بھون کے پچھلے حصے میں ہے جو بھوپال کے معروف ’بڑا تالاب‘ سے متصل ہے۔ اس جھیل میں دور تک موجیں رواں دواں تھیں، شاید جھیل کے ِاس طرف سے اٹھنے والی ایک موج سے جھیل کی موجیں بھی سُر ملانا چاہ رہی تھیں، دور تک پھیلی جھیل کے اُس پار اور کہیں کہیں تالاب میں بھی کچھ دیے یوں ٹمٹما رہے تھے، جیسے راشد خان کی آواز سے ان میں بھی لہریں پیدا ہو رہی ہوں۔ اس سے قبل کہ استاد اپنی پسند کا کوئی راگ چھیڑتے، نئی نسل کے ان کے دیوانوں نے چیخنا شروع کر دیا، ’’آئوگے جب تم ائو ساجنا، انگنا پھول کھلیںگے۔‘‘ لوگ فلم ’جب وی میٹ‘ کا گانا سننا چاہ رہے تھے، استاد خیال گائکی سے شروعات کرنا چاہ رہے تھے لیکن چاہنے والوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے، بڑی خندہ پیشانی سے انھوںنے فلمی نغمے سے پروگرام کا آغاز کیا، اگرچہ مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ راشد خان کے پروگرام کا آغاز ان کے فلمی نغمے سے ہو، بہر حال سننا شروع کیا، لیکن جیسے ہی انھوںنے آلاپ لیا احساس ہو گیا کہ یہ فلمی نغمہ عام فلمی نغمہ نہیں ہے، اور یہ گائکی ان کی کلاسیکی گائکی سے الگ نہیں ہے۔ اول تو فلمی نغمے کے بول بہت اچھے تھے، دوم راشد خان کی گائکی نے اسے ایک نئی بلندی عطا کر دی تھی۔ جب وہ اس بند پر پہنچے تو انھوںنے فلمی نغمے سے تھوڑی آزادی لے کر اسے اپنی آواز سے مزید سنوار دیا۔ ’’نینا ترے کجرارے ہیں، نینوں  پہ ہم دل ہارے ہیں، انجانے ہی تیرے نینوں نے وعدے کیے، کئی سارے ہیں، سانسوں کی لَے مدھم چلے، تو سے کہیں برسے گا ساون۔۔ برسے گا ساون جھوم جھوم کے، دو دل ایسے ملیںگے۔‘‘ اس بند کو وہ ٹھہر کر دیر تک گاتے رہے۔ جیسے کہیں سے کوئی روحانی آواز اتر رہی ہو اور ہم سب اس میں ڈوبتے جا رہے ہوں۔ اس نغمے کے بعد انھوںنے کچھ اور فلمی گیتوں کی فرمائشیں پوری کیں۔ اس کے بعد استاد نے کہا اب جو کلاسیکی موسیقی کے سامعین ہیں، ان کی خواہش کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اب تک نوجوان بھی ان کے اصل کمال سے لطف اندوز ہونے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ اور انھوںنے کلاسیکی گائکی شروع کر دی۔ وہ مختلف راگ راگنیوں کو گاتے رہے، کومل سُروں کو وہ جس کمال سے لگا رہے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی مائورائی آواز ہو اور ان کے گلے سے رقص کرتے ہوئے نکل رہی ہو۔

میری کلاسیکی موسیقی میں تربیت تو نہیں ہے۔ کلاسیکی موسیقی کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھا ہے اور کلاسیکی موسیقی سنتا بھی رہا ہوں، میرے گلے میں سُر تو نہیں ہیں لیکن کانوں میں سُر ہیں، اور جب بھی کوئی سُر ٹوٹتا ہے تو کان بتا دیتے ہیں۔ جب میں نے اردو میں افسانے لکھنے شروع کیے تھے اور کچھ موقر رسالوں میں شائع ہونے لگے تھے تبھی سے میرے ذہن میں ایک بات گھر کر گئی تھی کہ اگر میں ادب میں داخل ہو چکا ہوں تو مجھے دوسرے فنون لطیفہ مثلاً کلاسیکی موسیقی، رقص، مصوری، تھیٹر اور سنیما سے بھی تھوڑی بہت واقفیت ہونی ہی چاہیے۔ سارے فنون میں اظہارِ خیال کی بنیادی باتیں معلوم ہونی چاہیے، فن کار کی طرح نہ سہی قاری یا سامع کی طرح ہی سہی، ان سے لطف اندوز ہونے کا فن تو آنا ہی چاہیے۔ ان تمام فنون لطیفہ میں تھیٹر اور سنیما میں تو کافی حد تک ادب شامل ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان فنون کی فہم آسان تھی، مصوری بھی رنگ، ساخت اور اشیا کے باہمی توازن سے تھوڑا بہت سمجھ میں آنے لگا تھا، اگرچہ جدید مصوری میں کافی مشکلیں آئیں لیکن اردو ادب میں استعاراتی، تجریدی اور علامتی افسانے پڑھنے کے بعد جدید مصوری بھی کسی حد تک سمجھ میں آنے لگی تھی۔ رقص میں تکنیکی باتیں نہ بھی معلوم ہوں لیکن آہستہ آہستہ اس کے جمالیاتی پہلو سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اب مسئلہ موسیقی کا تھا، وہ موسیقی جس میں شاعری یا لفظ نہیں تھے اور ما ہرِ موسیقی اسی کو خالص موسیقی مانتے تھے۔ لفظوں یا شاعری کو اکثر ماہرین موسیقی کی آلودگی مانتے ہیں۔ خالص کلاسیکی موسیقی میں بھی کئی بار ’ٹیپ‘ کے کچھ لفظ یا مصرعے ہوتے ہیں، جنھیں یہ لوگ بار بار دہراتے ہیں۔ لیکن موسیقی میں یہ لوگ ان لفظوں یا مصرعوں کو معنی کے لحاظ سے نہیں گاتے ہیں۔ کہ ہم ان کے معنی میں کھو جائیں بلکہ ان لفظوں کے بہانے وہ کسی اور جہاں کی سیر کراتے ہیں۔ کچھ اور احساس کراتے ہیں، وہ کسی بات یا کسی معنی کے پاس نہیں لے جاتے، بلکہ ایسے احساسات سے تعارف کراتے ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ وہ ہم کو کسی خواب تک لے جاتے ہیں، کسی حقیقت کا احساس کراتے ہیں، جہانِ تخیل کی سیر کراتے ہیں، اور خوف کا احساس کراتے ہیں، موسیقی احساسات کی سرحدیں بلرڈ کر دیتی ہے، جیسے خواب میں زمان و مکاں بلرڈ  (Blurred) ہو جاتے ہیں۔ موسیقی خوشی اور غم کا احساس کراتی ہے۔ خوشی اور غم کا ہی نہیں بلکہ اگر سنسکرت شعریات کی زبان میں کہیں تو موسیقی سبھی نو رسوں کا احساس کراتی ہے۔ راشد خان کی گائکی بھی انھیں رسوں سے روبرو کراتی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز تک راشد خان کلاسیکی موسیقی میں ایک شناخت اور مقام بنا چکے تھے لیکن عوامی حلقوں میں عام طور پر غیر معروف تھے۔ راشد خان نے 2004 میں ’کسنا‘ فلم سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ لیکن انھیں عوامی حلقوں میں 2007 میں ’جب وی میٹ‘ فلم سے شہرت ملی۔ یہ نغمہ ’’آئوگے جب تم ائو ساجنا، انگنا پھول کھلیںگے‘‘ آج بھی بہت مقبول ہے۔ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے اور اس کا شمار فلمی نغموں کے نو کلاسیکی نغموں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل انھیں فلموں میں گانے کے کئی آفر مل چکے تھے مگر وہ ٹھکرا دیتے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ نے بھی انھیں منع کر رکھا تھا کہ اگر فلموں کی طرف گئے تو کلاسیکی موسیقی کے نہیں رہو گے۔ ہوا کچھ یوں کہ اس نغمے کی موسیقی کے ہدایت کار سندیش شانڈلیہ (مجموعی طور پر اس فلم میں موسیقی پریتم کی ہے لیکن اس نغمے کی موسیقی سندیش شانڈلیہ کی ہے) نے فون کیا کہ آپ کو ایک فلم میں گانا گانا ہے، فون پر راشد خان نے منع کر دیا، تو کچھ روز بعد سندیش کولکاتا پہنچ گئے، اور ضد کر لی کہ جب تک ہاں نہیں کہیںگے تب تک واپس نہیں جائوںگا، بڑی بیٹی بھی کہنے لگی کہ اس فلم میں گائیے۔ تب انھوںنے کہا اچھا ٹھیک ہے بتائیے کیا گانا ہے، اس طرح گانے پر کام شروع ہوا، اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں، اس کے بعد یہ نغمہ وجود میں آیا۔ اس فلم کے بعد انھوںنے کئی اور فلمی نغمے گائے، پھر بھی انھوںنے فلموں کی لائن کبھی نہیں لگائی، اول تو صرف وہ نغمے گاتے جو ان کے مزاج کے مطابق ہوتے، دوم سال میں بس ایک دو فلمی نغمے ہی گاتے۔

اس کے بعد موسیقی کے کنسرٹ میں وہ جب بھی جاتے، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جمع ہو جاتے اور ان کے گائے فلمی نغموں کی فرمائش کرتے، وہ ان کی فرمائش کا احترام کرتے لیکن ان کی خواہش ہوتی کہ لوگ ان کی کلاسیکی گائکی کو زیادہ سے زیادہ سنیں اور ایسا ہوتا بھی۔ ان کے فلمی نغموں کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کی کلاسیکی گائیکی سننے کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ وہ دونوں طرح کی گائکی کے درمیان ایک پل بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔ فلموں کے ساتھ ساتھ راشد خان نے غزل گائکی کی طرف بھی توجہ دی اور ان کی غزلوں کا ایک البم ’عشق لمحے‘ رلیز ہوا۔ ’’لبوں پہ عشق کا دعویً ہزار دلوں میں سکوں؍ کیا اس طرح بھی محبت نبھائی جاتی ہے۔ (شاعرہ: امیتا پرسورام ’میتا‘) ان غزلوں سے انھیں بھی کافی شہرت ملی، وہ کولکاتا میں رہتے تھے اور کولکاتا میں رویندر سنگیت کے بغیر بات نہیں بنتی ہے تو انھوںنے رویندر سنگیت میں بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہاتھ آزمائے۔ فلمیں، غزلیں رویندر سنگیت یہ سب تجربے وہ کرتے رہے، لیکن راشد خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا اصل کمال کلاسیکی گائکی میں ہی ہے۔ انھوںنے اپنی توجہ کلاسیکی موسیقی سے کبھی نہیں ہٹنے دی۔

ایک بار مجھے راشد خان سے ذاتی طور پر بھی ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ دہلی میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں آئے ہوئے تھے، جہاں انور جمال نے ان سے میری ملاقات کرائی، انھوںنے بتایا کہ میں این سی ای آر ٹی میں اردو تدریس سے وابستہ ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے، انھوںنے اردو شاعری اور خاص طور سے غزلوں پر کچھ باتیں کیں، پھر انھوںنے بتایا کہ لندن کے معروف رائل البرٹ ہال میں کچھ عرصے بعد ان کا پروگرام ہونے والا ہے۔ اس میں جو لباس پہننے ہیں، اس لباس کی ناپ دینے کے لیے کل لندن جا رہا ہوں۔ خیال آیا کہ اگر لگن سچی ہو تو خدا یہ دن بھی دکھاتا ہے، کہ انسان کپڑوں کی ناپ دینے کے لیے بھی لندن جاتا ہے۔ یہ سب انھوںنے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا تھا۔ اس مقام پر پہنچ کر بھی وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے ملے، شاعری کے بارے میں مزید گفتگو کے وعدے کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ پھر کبھی ملنے کا اتفاق تو نہ ہو سکا، لیکن جس گرم جوشی سے انھوںنے ہاتھ ملایا تھا اور ملنے کا وعدہ کیا تھا وہ آج بھی یاد ہے۔

راشد خان جب ہندوستانی موسیقی کے افق پر ابھر رہے تھے، اس وقت استاد بسم اﷲ خان، پنڈت روی شنکر، بھیم سین جوشی ولایت خاں، گرجہ دیوی، ضیا محی الدین ڈاگر اور پنڈت جسراج جیسے بڑے بڑے اساتذہ حیات تھے لیکن ان سب کی زندگی کی شام ہو رہی تھی، اس وقت راشد خان فن کی اس بلندی پر نہ سہی، لیکن وہ فن میں پوری مہارت حاصل کر چکے تھے۔ ادب اور فنون لطیفہ میں 50-60 سال کی عمر جوانی کی عمر ہوتی ہے، جب فن اپنے عروج پر پہنچتا ہے، ابھی بہت کچھ آنا باقی تھا، فن کی اس جوانی میں ہی وہ ہم سے دور چلے گئے، اب موسیقی کے مداح حیران بھی ہیں اور مایوس بھی کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کون پُر کرے گا؟ کوئی تو ابھر کر آئے گا۔

حواشی

1-         https://en.wikipedia.org/wiki/             

  Rashid_Khan_(musician)

2-         https://thewire.in/the-arts/classical-

  musician-rashid-khan-obituary

3 -سْمیتا اوجھا، استاد راشد خان، لاگی توسے نین پریتم، سمالوچن، 14 جنوری 2024

4 https://ustadrashidkhan.com/# -         

  achievements

 

Dr Rizvanul Haque

MPD, CIET, NCERT

New Delhi-110016

Mob.: 9977006995

E-mail rizvanul@yahoo.com

30/5/24

نیا عہد، نئی نسل اور نئے عنوان

 

نیا عہد، نئی نسل اور نئے عنوان

   (بچوں اور نوجوانوں کے لیے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ادب کی تخلیق و تشکیل)


        ڈاکٹر محمد شمس اقبال

ڈائرکٹر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی



قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، حکومت ہند کا ایک خود مختار ادارہ ہے ،جو اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے  سر گرم عمل ہے۔قومی اردو کونسل کو اردو زبان کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کا دائرۂ کار اردو زبان و ادب کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے بلکہ زبان کے فروغ کے لیےکتابوں کی اشاعت سے لے کر تعلیم و تربیت اور سائنسی و سماجی علوم کے تراجم تک تقریبا تمام جہتوں کا احاطہ کرنا ہے۔ کونسل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے بہتر سے بہتر صورتیں نکالی جائیں جن سے اس زبان کی ترقی کی راہیں ہموار ہوںاور یہ نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی آگے بڑھ سکے۔

 قومی اردو کونسل اردو زبان میں ،جہاں ایک طرف مختلف موضوعات جیسے ادبیات، تاریخ، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تدریس، سوانح، سائنس، تکنیک، جغرافیہ، سیاست، صحافت، طب و معالجات، فلسفہ، فنون لطیفہ، قانون، کتب خانہ داری، معاشیات، تجارت، نفسیات وغیرہ پر کتابیں شائع کرتی ہے وہیں دوسری جانب بچوں اور نوجوان نسل کے لیے بھی کتابیں شائع کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اس ضمن میں ادب اطفال پر مبنی موضوعات پر اب تک کونسل کی تقریبا تین سوستر (370)مطبوعات شائع ہو چکی ہیں۔ اسی کڑی کو مزید فعال اور سرگرم بنانے اور جدید تقاضوں کے پیش نظر بچوں اور نوجوان نسل کی نفسیات اور ترجیحات سے ہم آہنگ ادب کی تخلیق و تشکیل کی شدید ضرورت ہے۔  بچوں کے شعور و ادراک اور ذہنی ارتقا پر مرکوز موضوعات بالخصوص حقوقِ اطفال، تشدد و استحصال، صحت، غذائی قلت، ڈیجیٹل میڈیا کے خطرات، ماحولیات، آرکی ٹیکچر، آرکیالوجی، کیلی گرافی، سنیماٹوگرافی، انفوگرافکس اور دیگر حیات آموز عنوانات پر مبنی ایسی کتابوں کی اشاعت لازمی ہے جو خود شناسی، شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ممد و معاون ثابت ہوں۔

کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کو مستحکم کیا جائے۔ بنیاد اگر مضبوط ہو تو عمارت پائیدار، بلند اور شاندار ہوگی۔ بنیاد سے میری مراد بچوں اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت ہے۔ اگر بچوں کی تعلیم، ان کی کتابوں کے مواد، زبان اور پیشکش پر توجہ مرکوز کی جائے تو بچے اردو زبان کی طرف راغب بھی ہوں گے اور  ان میں اردو کی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔بچوں کے ذہنی افق کو وسیع کرنے اور ان کی تخلیقی و ادراکی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے والی کتابوں کی اہمیت، معنویت اور افادیت کوتخلیق کاروں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ کونسل نے یہ طے کیا ہے کہ اردو کے فروغ کے اس نئے سلسلے کو تخلیق کاروں کے تعاون اور شراکت سے شروع کیا جائے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں آج کے تخلیق کار کس نہج سے سوچتے ہیں؟اس سلسلے میں ہمیں کون سے اقدامات کرنے چاہیے ؟ایسا کون سا طریقۂ کار اختیار کیا جائے جو نئے اذہان کو متوجہ کر سکے۔ اس سلسلے میں ہم نے پہلے سے ہی ایک دائرہ طے کر دیا ہے تاکہ لائحہ عمل کی تشکیل و ترتیب میں آسانی ہو اورکونسل آپ کے خیالات،تجربات،مشورے اور تجاویز کی روشنی میں کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچ سکے۔

قومی تعلیمی پالیسی2020 کے تناظر میں ابھرتے ہوئے سماجی وثقافتی رجحانات کے تحت مختلف عمر کے بچوں، نوجوانوںاور بالغان کے لیے مواد کی ضرورت کے مطابق، کچھ موضوعات کی نشاندہی کی جارہی ہے، جو درج ذیل ہیں:

تاریخی اور ثقافتی وراثت

( Historical and Cultural Heritage)

ہندوستان شاندار فن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے سیاحوں کو ہندوستان کے تاریخی مقامات، کھنڈرات اور آثار قدیمہ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخی عمارتوں کا طرز تعمیر، نقاشی، مختلف تاریخی واقعات کی داستان بیان کرتے ہیں۔

ہندوستان کی زبانیں، مذاہب، فنون لطیفہ میں رقص، موسیقی، فن تعمیر اور طرز معاشرت میں خوراک اور رسم و رواج ملک کے ہر حصے میں مختلف ہیں۔ہندوستانی ثقافت کے بہت سے عناصر، جیسے ہندوستانی مذاہب،روحانی و ثقافتی تصورات، ماکولات و مشروبات، تہوار، میلے زبانیں، رقص، موسیقی اور فلموں نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

عظیم تر ہندوستان کی تاریخ بھی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ اپنے تاریخی و ثقافتی ورثے پر تمام ہندوستانیوں کو ناز ہے۔ ہندوستان کی شاندار تاریخ اور تہذیب سے نئی نسل کو روشنا س کرانے کے لیے مضامین، افسانے اور دیگر اصناف میں اسے موضوع بنایا جاسکتا ہے تاکہ ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کے امتیازی نقوش سے آگہی کی ایک بہتر صورت نکل سکے۔

سائنس فکشن

(Science Fiction)

اردو میں سائنس سے متعلق ادب کا ایک بیش بہا ذخیرہ موجود ہے، لیکن یہ کتابیں زیادہ تر پرانے قارئین کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اس موضوع کا مقصد بچوں کے لیے سائنس کے مختلف تصورات اور ایجادات کو تخلیقی اور دلچسپ نقطہ نظر کے ساتھ متعارف کرانا ہے۔ اس میں کوڈنگ اور اے آئی (Artificial Intelligence)، روبوٹکس، کائنات، فلکیات وغیرہ جیسے ذیلی موضوعات شامل ہوسکتے ہیں۔

 نامور شخصیات

(Eminent Personalities)

ہندوستان زمانۂ قدیم سے ایسی عظیم ہستیوں کا گہوارہ رہا ہے جن کی شہرت اور شناخت عالمی سطح پر ہے مگر بہت سی نامور شخصیات ایسی ہیں جن پر اب تک ہمارے قلمکاروں نے توجہ نہیں دی ہے۔ بہت سےادیب، سائنس داں، داستان گو، صحافی،مورخ ، فنون لطیفہ اور لوک ادب سے جڑے ہوئے فنکارایسے ہیں جن کی شخصیت کو موضوع بنا کر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ان کے علم و فن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ بچوں کے ادب میں ان کی شخصیت کو اس طرح ابھارا جا سکتا ہے کہ بچے ان کو پڑھ کر ان سے متاثر ہوں اور اس شخصیت کے مثالی کردار کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کر سکیں۔ نوبل ، بھارت رتن، گیان پیٹھ ایوارڈ یافتگان اور مختلف شعبہ حیات کی ممتاز شخصیات کے بچپن کے احوال، ان کی زندگی کی جدوجہد، ان کی کامرانیاں اور اَن کہی کہانیاں جیسے موضوعات پر بھی کتابیں تیار کی جا سکتی ہیں۔

تہذیبی و لسانی تنوع

(Cultural and Linguistic Diversity)

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں چند کوس پر زبانیں بدلتی ہیں اور لوگوں کا کلچر الگ ہوجاتا ہے۔ رسم و رواج بدل جاتے ہیں، اس کثیر لسانی اور تہذیبی ملک میں ایسے ادب کو سامنے لانا ضروری ہے جو نوجوان نسل کو ہندوستان کے تہذیبی و لسانی تنوع اور شمولیت (Inclusiveness)کے تصور سے متعارف کرائے۔ اس میں کثیر لسانی شمولیات، امتیازی سلوک، نسلی تنوع، سماجی و ثقافتی دقیانوسی تصورات وغیرہ جیسے ذیلی موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

صنفی مساوات

(Gender Equality)

ہم عصر دنیا میں صنفی مساوات ایک اہم موضوع ہے ۔اس کے حوالے سے جو پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے، اس کی عکاسی نوجوانوں کے پڑھنے والے ادب میں ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس کے بارے میں بنیادی سطح پر بیداری پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ صنفی عدم مساوات کے دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ صنفی مساوا ت کے تصور کو عام کرنا آج کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس میں صنفی دقیانوسی تصورات،صنفی ضابطہ حیات، زندگی کے مختلف شعبوں میں صنفی مساوات وغیرہ کے موضوعات شامل ہوسکتے ہیں۔

انٹرنیٹ سیفٹی یا حفاظتی تدابیر

(Internet Safety)

آج کل انٹرنیٹ گوگل جنریشن کی روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کے جہا ں بہت سے فوائد ہیں وہیں نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ لہٰذا بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے انٹرنیٹ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بچوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس موضوع میں سائبر جرائم، انٹرنیٹ کا مناسب استعمال، انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت بچوں کی نگرانی، ڈیجیٹل ٹریلز، سوشل میڈیا کی خرابیاں، اسکرین ٹائم کا انتظام، آن لائن اجنبیوں سے محتاط رہنا، انٹرنیٹ پر حقائق اور افسانوں میں فرق کرنا وغیرہ جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

مالیاتی خواندگی

(Financial Literacy)

یہ سرمایہ کاری کا عہد ہے۔ اقتصادیات ہمارے عہدکا ایک اہم موضوع ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مالیاتی خواندگی نصاب کا ایک حصہ ہے۔ بچت اور سرمایہ کاری سے متعلق معلومات بچوں اور نوجوانوں کے لیے بہت ضروری ہیں تاکہ مالیاتی نظم و نسق کے بارے میں انھیں پتہ ہو اور بچے اور نوجوان مالی عدم تحفظ کے احساس سے بچ سکیں اور وہ معاشی سطح پر خودمختار بن سکیں۔ اس لیے یہ موضوع موجودہ عہد میں ایک لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کا مقصد بچوں کو مالیاتی خواندگی کے پیچیدہ تصورات کو آسان اور تفریحی انداز میں متعارف کرانا ہے۔ اس موضوع میں مالیاتی انتظام، بچت، سرمایہ کاری، بینک اور ان کی خدمات کا تصور، خطرات مول لینا اور فیصلہ سازی، بجٹ سازی، کنٹرول شدہ اور دانشمندانہ اخراجات، آمدنی اور اسے پیدا کرنے کے طریقے، کاروبار، ٹیکس، اثاثے اور واجبات وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔

جسمانی اثباتیت

(Body Positivity)

جسمانی اثباتیت دورِ حاضر کے اہم تصورات میں سے ایک ہے۔ اب اس نے ایک سوشل تحریک کی صورت بھی اختیار کرلی ہے۔ اس کا مقصد جسمانی ساخت اور سائز کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کے تصو رکو مسترد کرنا ہے اور معاشرے کو بتانا ہے کہ ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرنا غلط ہے۔ اس تصور کے ذریعے معاشرے میں ایک مثبت اندازِ فکر کو فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ نسل، صنف، جنسیت، اور جسمانی اہلیت کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے بلکہ انسانی جسم کی صحت اور فعالیت پر زور دیا جائے اور شکل و صورت کی بنیاد پر پیدا ہونے والے احساسِ کمتری کو دور کیا جائے اور ہر ساخت کے جسم کا احترام کیا جائے۔جسمانی اثباتیت کے بارے میں بات کرنا اور خاص طور پر چھوٹے بچوں میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔اس موضوع میں جسمانی شبیہ،صحت مند غذائیت اور ظاہری شکل کا مقبول ثقافتی نظریہ، غذائیت، حفظان صحت وغیرہ جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

رویہ جاتی مسائل

(Behavioural Issues)

آج کے بچے اور نوجوان ذہنی جذباتی فشار اور انتشار کے شکار ہیں۔ ان کے اندر چڑچڑا پن ، فرسٹریشن، والدین اور اساتذہ کی نافرمانی و سرکشی، منشیات کا استعمال، جارحیت، تشدد، مجرمانہ رویہ، خودکشی کا رجحان، جھوٹ اور ارتکاز کی کمی جیسے رویے عام ہیں اور یہ رویے والدین اور اساتذہ کو بہت سی پریشانیوں میں ڈالتے ہیں اس لیے بچو ںکے ان رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے ادب کی شدید ضرورت ہےجو انھیں ان نفسیاتی، ذہنی امراض سے باہر نکال سکے۔ اس موضوع میں اعصابی بیماریاں، بچوں کی نشوونما اور نفسیات اور بچوں کے درمیان باہمی رشتے جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

ہجرت

(Migration)

ہجرت آج کے عہد کا نہایت اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر سماجیات، سیاسیات میں ہجرت سے جڑے ہوئے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ جلاوطنی، پناہ گزینی، بے گھری آج کے بہت سے لوگوں کا مقدر ہے۔ ہجرت جبری ہو یا اختیاری اس کی وجہ سے انسان اپنی مٹی اور ملک کی جڑوں سے جدا ہوجاتا ہے اور ایک اجنبی اور غیر مانوس فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ فرسٹ جنریشن مائی گرینٹس ہوں یا سیکنڈر جنریشن مائی گرینٹس، سب کے ساتھ بہت سی سطحوں پر دقتیں اور دشواریاں ہیں۔ دیارِ غیر میں انھیں اجنبیت کا احساس ستاتا رہتا ہے اور اس ہجرت کے سب سے زیادہ منفی اثرات بچوں پر پڑتے ہیں کیونکہ ہجرت کی وجہ سے وہ اپنے وطن، خاندان اور اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، میلے ٹھیلے ہر چیز سے دور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی ہجرت کی اذیت سے گزری ہے جس کی وجہ سے وہ ایک طرح سے شناخت کے بحران، بیگانگی اور ناسٹلجیا کے شکار ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہجرت کے حوالے سے جو بھی مثبت اور منفی تصورات ہیں، بچوں تک ان کی ترسیل ضروری ہے۔ ہجرت کے حوالے سے عالمی ادب میں بہت سے افسانے اور ناول لکھے گئے ہیں مگر بچوں پر ہجرت کے اثرات کے حوالے سے لکھے جانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں اپنے ملک کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے آگہی ہو اور اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کا احساس پیدا ہو۔ اس موضوع میں تارکین وطن کے تجربات، ثقافتی جڑوں سے جذباتی وابستگی، کثیر لسانی ریاستوں اور قوموں میں خاندان (دادا دادی اور توسیع شدہ خاندان) کے ساتھ تعلقات وغیرہ شامل کیے جاسکتے ہیں۔

خاندانی نامیات

(Family Dynamics)

مشترکہ خاندانی نظام کی دورِ حاضر میں بڑی اہمیت ہے کیونکہ اسی کے ذریعے روایات و اقدار، یگانگت اور رشتوں کو مستحکم اور مضبوط رکھا جاسکتا ہے۔ خاندانی نظام اگر مضبوط ہو تو بہت سے نزاعی مسائل آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں اور اس طرح زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ جو خاندان رشتوں اور محبتوں سے جڑے رہتے ہیں اور جن کے دکھ درد مشترک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی ضرورت اور مسائل کو سمجھتے ہیں ، وہی خاندانی نظام سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے بچوں کے ذہن پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں کے اندر منفی احساس جنم نہیں لیتا بلکہ وہ ایک مثبت احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے رہتے ہیںاور زندگی میں بھی ایک توازن قائم رہتا ہے۔ مگر اب خاندانی رشتے بھی بکھراؤ کا شکار ہوتے جارہے ہیں جس کا منفی اثر بچوں کے ذہن پر پڑرہا ہے۔ اس لیے مشترکہ خاندانی نظام کی اہمیت اور معنویت کو بچوں کے ذہن میں نقش کیے جانے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ خاندانی نظام بکھراؤ کا شکار نہ ہو اور بچے ایک صحت مند خاندانی نظام سے جڑے رہ سکیں۔ اس موضوع میں والدین اور بچوں پر مشتمل خاندان (Neoclear Family)، بھائی بہن کی رنجشیں عداوتیں، رشتوں میں بکھراؤ، خاندان کے افراد کے درمیان صحت مند مکالمہ، طلاق، شادی سے جڑے ہوئے مسائل و موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

قومی اردو کونسل نئی نسل کی ذہنی نشو و نما اور ان کے خوابوں کو پرواز عطا کرنے کے لیے مندرجہ بالا موضوعات کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ قومی اردو کونسل نے ادب اطفال کے عالمی معیار کے مطابق کتابوں کا فارمیٹ اس طرح طے کیا ہے کہ :

·           8  تا   10 سال کے بچوں کے لیے کتابیں ایک ہزار(1000 )سے پندرہ سو (1500 )الفاظ پر مشتمل ہوں۔

·          10 سے 12 سال کے بچوں کے لیے لائن ڈرائنگ؍ خاکے کے ساتھ ڈیمائی سائز میں کہانیاں؍ معلوماتی کتابیں تین ہزار (3000) سے پانچ ہزار (5000)الفاظ پر مشتمل ہوں۔

·          12 سے زائد عمر کے بچوں کے لیے پانچ ہزار(5000)الفاظ پر مشتمل کتابیں ہوں۔

 

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...