17/5/24

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024


بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے  اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولانا عثمان خاں راغب ہاشمی کا شعری رشتہ خدائے سخن میر تقی میر سے ملتا ہے۔ ان کی ایک نظم بہ عنوان ’فغانِ زندگی‘ ہے۔ یہ بیس اشعار پر مشتمل ہے،جو غزل کے فارم میں قافیہ ردیف کے ساتھ نظمائی گئی ہے۔ اس کا مطلع و مقطع اور تین اشعار درج ذیل ہیں          ؎

تو شریک حال ہے تو شادماں ہے زندگی

ورنہ ایک مجموعۂ آہ و فغاں ہے زندگی

ایک چھلاوا ہے ادھر آئی ادھر چلتی ہوئی

مٹنے والی موج دریاے رواں ہے زندگی

صدمۂ رنج و الم سے مجھ کو کیوں کر ہو نجات

لمحہ لمحہ کے لیے مجھ پر گراں ہے زندگی

در حقیقت زندگی اپنی ہے بیداری کا نام

ہم اگر سوتے رہے تو رائیگاں ہے زندگی

یہ ایک طویل نظم ہے جو زندگی کی مختلف کیفیات کے عکس کو پیش کرتی ہے۔اسی طرح ایک اور نظم ’نوائے وقت‘بہ زبانِ شاعر معاشرتی نظام میں ستیزہ کاری، ظلم و ترہیب کے عناصر کے تدارک کو نوائے وقت بنا کر زبوںحالی کے سد باب کی ترغیب دیتی ہے۔ ملاحظہ کریں         ؎

غم کی دنیا میں محشر خیز شورِ داروگیر

جس کو دیکھوں پنجۂ جوروستم میں ہے اسیر

سر پہ ہر انساں کے اب بھی سایۂ افلاس ہے

مفلسی ہے، تیرہ سامانی ہے بیم و یاس  ہے

بستیاں غم کی نظر آئیں جدھر اٹھی نظر

دل میں ہے ہنگامۂ محشر بپا شام و سحر

اک زمانہ ہے حوادث کے مرض میں مبتلا

جاں بلب سب ہیں کوئی کرتا نہیں اس کی دوا

مولانا موصوف کے تلامذۂ ارشد میں قابل ناز اردو نظم کا ایک ایسا شاعربھی رہا ہے جو اپنے دورحیات میں بے حد معروف و مقبول تھا۔ انھوں نے ایک نظم جو 1846 ناگپور کے عظیم الشان مشاعرہ میں پڑھی تھی۔ اس نظم کو سن کر ’طورِ درخشاں‘کے مدیر طرفہ قریشی بھنڈاروی نے خصوصیت کے ساتھ ’میرا ماحول‘ عنوان دے کر شائع کیا تھا۔ اس طویل نظم کے چند اشعار پیش ہیں          ؎      

کفِ جبرئیل میں تاجِ سعادت ہے جہاں میں ہوں

بشر شایانِ اعزازِ خلافت ہے جہاں میں ہوں

ازل سے فرق پر چترِ فضیلت ہے جہاں میں ہوں

الوہیت بداماں میری فطرت ہے جہاں میں ہوں

ہر شئے سے نمایاں حسنِ فطرت ہے جہاں میں ہوں

حقیقت آئینہ دارِ حقیقت ہے جہاں میں ہوں

کہاں آغاز لے آیا میرا بختِ رسا مجھ کو

شریک قسمتِ عالم مشیت ہے جہاں میں ہوں

واجب التعظیم، مستند استاد راغب ہاشمی کے فرزند برکات احمد خاں جو گروہِ راغب کے جانشین تھے، اور عریضہ نویسی کے پیشے سے لے کرموصوف اپنے والد بزرگ گوار کی ادبی سرگرمیوں میں قدم بہ قدم ہمرکاب رہے ہیں۔ لائقِ تحسین اس فرزند دلبند نے برہان پور کے ادبی محاذ پر اپنی زیرک مزاجی کے مثالی نقوش بنائے ہیں۔ جو کم و بیش 80 سال تک نقشِ نگیں کی طرح نمایاں رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شعر برہان پور کی سرزمین پر یہ فردجلیل راغب ہاشمی کے نام سے معروف رہا ہے۔

ان کی ایک غزل بہ عنوان ’امتحانِ زندگی ‘ کے چند اشعار پیش  ہیں         ؎

صحیفے دے کے بھجوایا گیا ہوں

یہاں آخر میں جھٹلایا گیا ہوں

نیاز و ناز کے ہر امتحاں میں

بہر صورت کھرا پایا گیا ہوں

مولانا راغب ہاشمی کے تربیت یافتہ تلامذہ میں حضرت حمید اللہ خلیق ایک خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ  دارالادب برہان پور کے شعرا میں محمود درانی،شفیق راز، قیصر انصاری، گردوں فاروقی ہیں۔ فنِ سخن گوئی میں ان اصحاب نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے شعری کلام کے طلسمی جمال کے عرصۂ دراز تک اہل قلم، اہل ہنر گرویدہ رہے ہیں۔ نیا ادب اور بدلتی ہوئی ادبی فضا کے باوجود ان تمام نے اپنے ادبی شعری رجحان کو روایتی شعری تہذیب کا پاسدار بنائے رکھا۔ مثال کے طور پر گداز ریشمی لہجے کے ہر دل عزیز شاعر محترم خلیق برہان پور ی نے کثیر تعداد میں نظمیں تخلیق کی ہیں۔ان کی ایک نظم ’رقاصہ‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

دل شکستہ غم سے افسردہ جبینِ تابناک

دامن صبرورضا دست ہوس سے چاک چاک

آمدِ انفاس میں الجھا ہوا تارِ نفس

چتونیں کہتی ہوئی خاموش رودادِ قفس

اُف یہ دیوی اور رقّاصہ کے روپ میں

اک شگفتہ پھول زر کی شعلہ افشاں دھوپ میں

اس کو ملنا چاہیے تھا حورِ دنیا کاخطاب

اس کو ہونا ہی نہ تھا اسٹیج پر یوں بے نقاب

اس رنجور دل شاعر کے تفکر کی یہ سوزش کی رو آگے بڑھ کر ناخواندہ خواتین سے یوں ہم کلام ہوتی ہے    ؎

پاک سیرت محترم خاتون اے عالی صفات

آج کچھ کہنا ہے تجھ سے سن بگوش التفات

عالمِ انسانیت میں تیری ہستی فرد ہے

تیرے کوچے میں شکوہِ شہریاری گرد ہے

در حقیقت ہے تری آغوش ایک تعلیم گاہ

زندگی کی جس میںملتی ہے نئی اک شاہراہ

قوم کی بگڑی ہوئی حالت بنا سکتی ہے تو

قسمتِ خوابیدہ صدیوں کی جگا سکتی ہے تو

علم کی دولت سے تیری روح ہے ناآشنا

تو سمجھ سکتی نہیں نسوانیت کا فلسفہ

خلیقی زمرے سے تعلق رکھنے والے شاعر اور مدرس جناب ناصر شاہی نے دور حاضر کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوکر چند نظمیں، ہائیکو اور سانیٹ بھی تخلیق کیے ہیں، جو ان کے غیر مطبوعہ ذخیرے میں محفوظ ہیں۔یہاں کے مقامی اردو ادبی حلقوں کی فضا میں اس جدید اصنافِ سخن کا رواج عام نہ ہونے کے سبب موصوف نے غزل ہی کے دامن میں پناہ لی، اس کے پیچ و خم سنوارتے رہے۔ آپ ہی کے ہم ذوق، ہم پیشہ، دیرینہ دوست رشید آثار صاحب نے وافر تعداد میں مختلف النوع کیفیات سے مملو نظمیں تخلیق کی ہیں۔ لیکن آپ نے اب تک نظموں کا مجموعہ کتابی صورت میں شائع کرانے کی پہل نہیں کی ہے اور موصوف کے شاگردوں نے آپ کا شعری مجموعہ ( لمس کی خوشبو)نہایت عمدگی سے شائع کیا ہے۔

خلیقی گروہ سے وابستہ خلیل خانقاہی نے بھی اپنی معلمی کی خدمت سے منسلک رہتے ہوئے طفلی نظموں سے دبستانِ اردو میں اضافہ کیا ہے۔ مجموعہ بھی ’سہانے گیت‘ (رحمانی پبلی کیشن ،مالیگائوں مہاراشٹر) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اسی طرح راقم (بسم اللہ عدیم )نے بھی دلچسپ، من موہک معلوماتی نوعیت کی خاطر خواہ نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔’سنہرے خواب، تتلی کے پر‘ جیسے دو مجموعے بھی شائع کرائے ہیں۔ غزلوں کا مجموعہ ’لفظوں کی کائنات‘ بھی منظر عام ہوچکا ہے۔

گہوارۂ ادب برہان پور کا ایک اور ادبی حلقہ ناسخ لکھنوی کے سلسلے سے وابستہ ہے۔ الفاظ کے دروبست، شعری محاس اور نفاست کے معاملے میں سلسلہ ناسخ لکھنوی کے اس مقلد گروہ نے مذکورہ جملہ خوبیوں کو یہاں کے ادبی ایوان میں مقدم رکھا ہے۔  اس اسکول کے نگارخانے میں ہنر غازی پوری کے نقشِ قلم کی جولانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس ادبی نگار خانے کے نغزگو حضرات کے سرپرست، اتفاق رائے سے منشی علیم اللہ خیالی مقرر ہوئے۔

منشی علیم اللہ خیالی صاحب نے متعدد اصناف سخن میں اپنی پختہ گوئی کے جواہر ریزے ہنرمندی سے بکھیرے ہیں۔ آپ نے گراں قدر ادبی و شعری خدمات انجام دی ہیں۔ اپنے دورِ حیات میں جاری ادبی شعری نشستوں کی صدارت کے ساتھ کئی مشاعروں کے ذریعے سامعین کو بھی اپنے کلام بلاغت کی فصاحت سے محظوظ کیا ہے۔ ادبی رسائل و جرائد، اخبارات، گلدستوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔نظموں پر مشتمل ان کا مختصر مجموعہ ’دورِ جدید‘ بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آپ کا زیادہ تر کلام طباعت سے محروم رہا۔ آپ کے شاگرد،تلامذہ کا حلقہ انتہائی وسیع تھا۔ شہر برہان پور کے علاوہ اطراف میں برار، خاندیش اور مختلف شہروں تک آپ کے تلامذہ پھیلے ہوئے تھے۔ اہم شاگردوں میں علی محمد اوج، شکراللہ جلالی، امام علی خاں حاذق بنارسی، میر شجاع الدین، منشی حکیم اللہ حیرت(خلفِ خیالی)،محمد صدیق ذکی، حشمت اللہ ریاضی (جانشین خیالی)، حبیب اللہ شرر، محمد قاسم لطافت، منشی علیم اللہ ہلالی، ظہور حسین رضی، محمد اسماعیل فہمی (مترجم مآثر رحیمی)،منشی عبدالستار مضطر، جاوید انصاری(مصنف تاریخ زرنگار برہان پور) ہیں۔

برہان پور کے دبستانِ اردو ادب میں حشمت اللہ ریاضی(برادرم خرد جانشین خیالی)نے بھی استادی کے درجے پرپہنچ کر اپنی شعری بصیرت کا فنکارانہ ثبوت دیا ہے۔

حشمت اللہ ریاضی کے بعد اس گروہ کی سربراہی میں فاضل انصاری کی ادبی وشعری نگارشات اہمیت کی حامل ہوئی ہیں۔ حضرت ریاضی کی جانشینی اختیار کرنے کے بعد آپ نے علاقے کے نوجوان ابھرتے شاعروں کو ادبی نمائندگی کا اہل بنایا ہے،اور مبتدیوں کے کلام کی تندہی سے اصلاح کرتے ہوئے انھیں نکھارا ہے۔ اس میں اول درجے پر کلاسکی ترنم کے خوش گلو نمائندہ شاعراختر آصف، شعری مجموعہ آزاد پرندے کے خالق اور عزیز انصاری (آکاش وانی مدھیہ پردیش بھوپال کے پروڈکشن اسسٹنٹ )کے علاوہ ایڈوکیٹ سراج انصاری، ہزل گو واحد انصاری، عبدالخالق ساگر،ندیم فاضلی (شعری مجموعہ روشنی )، زاہد وارثی، تفضیل تابش اہم نام ہیں۔ بہر حال مرحوم فاضل انصاری خالص شاعرمزاج فرد تھے۔ نیز پختہ شعور کے ساتھ شعری محاسن اور نئے ادبی نکات پر بحث و تمحیص کرنا انھیں ازحد مرغوب تھا۔ کیونکہ آپ عمیق مطالعے کے حامل سخنور تھے۔

فضل حسین صابر پیشے کے اعتبار سے ایک خطاط اور ماہر سنگتراش تھے۔ آپ نے اردو ادب کے نظمیہ ڈکشن میں قابل قدر لحاظ سے مخمس کا نظمیہ پہلو اپنایاجو روایت کی لکشمن ریکھا کی طرف داری کو نمایاں کرتا ہے۔ اس ریکھا کی حد میں رہ کر جب بارِ الم سے بَولا جاتے ہیں تو تسکین قلب کی خاطر یوں گویا ہوتے ہیں          ؎

دشمن ہے آسماں اُدھر اور اِدھر زمیں

افسوس اس جہاں میں ٹھکانہ کہیں نہیں

اک جان رہ گئی ہے فقط اور کچھ نہیں

باتیں تھیں پیار کی نہ محبت کی تھی نظر

احساس نام کو نہ تھا بے حس تھے اس قدر

لیکن خدا کا شکر، یہ پیدا ہوا اثر

کل تک جو ہنستے رہتے تھے صابر کے حال پر

آج اس کی داستانِ الم سن کے رو دیے

محمد غلام حسین بہ تخلص شمیم اشرفی گردشِ آلام، معاشی فکر کی اذیت کو سہنے کے باوجود سحر دامانی کو تھامے اپنے اکہرے بدن کے ساتھ توانا شعری متاع سے دارالسرور برہان پور کے ادب میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ ان کا شعری سلسلہ شمشاد لکھنوی سے شرع ہوکر اس تاریخی ادبی شہر میں حاذقی گروہ کا فروغ رساں ہوا ہے۔ اس طرح جانشین استاد فضل حسین صابر کے خواجہ تاش علامہ سید مطیع اللہ راشد کے فیضانِ سخن سے جلا پاتے رہے ہیں۔ آپ ہی کے آئینۂ سخن سے اس شہر کا نام اردو ادب کی دنیا میں عظمت کا باعث بنا ہوا ہے۔

شمیم اشرفی کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے لیکن خصوصیت کے حامل صرف چند اشخاص کے نام درج کرتا ہوں۔ جن میں عبدالباقی پیرزادہ، عبداللطیف شاہد ، تسنیم انصاری، نعیم خادمی اور نئے ادبی رجحان، جدید فکر کے شاعر کلام آذر بھی شامل ہیں۔

مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر ضلع برہان پور کی اردو ادب کے لحاظ سے یہ نامکمل، تشنہ اور ایک ہی شعری صنف سے متعلق ایک ہلکی سی جھلک ہے۔

اب سے تقریباً 57-58 سال پہلے ایم عرفان صاحب نے پندرہ روزہ ’شعلۂ حیات‘بھوپال (مدھیہ پردیش) کا اردو نمبر یکم اکتوبر 1964 کو شائع کیا تھا۔ یہ 142 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس میں تقریباً 127صفحات بھوپا ل کے لیے مختص تھے،اوربقیہ 15 صفحات مدھیہ پردیش کے دوسرے شہروں جیسے کھنڈوہ، ساگر اور برہان پور پر نہایت قلیل معلومات تھیں۔ اس نمبرکے بعد ماہنامہ آجکل دہلی نے اگست ستمبر 1972 میں اردو نمبر شائع کیا دوسرے صوبوں کی طرح مدھیہ پردیش میں اردو موضوع پر سید قمرالحسن صاحب نے (22 تا 28 صفحاتی )مضمون لکھا۔ امید تھی کہ آنجناب کا یہ مضمون مدھیہ پردیش کے ادبی تعارف میں بھر پور ہوگا۔ کیونکہ، موصوف مرحوم ایک قابل قدر بھوپال کے صحافی تھے مگر اس مرتبہ بھی مدھیہ پردیش اپنی ادبی خدمات کے ذکر سے محروم رہ گیا۔ کچھ سال گزرنے بعد شاہد ساگری نے ’عکس کہکشاں‘پیش کیا وہ بھی مدھیہ پردیش کا ادھورا ادبی تعارف تھا۔چوتھا موقع مدھیہ پردیش اردو کادمی کو ملا۔کثیر سرمایہ صرف کرکے اکادمی نے ایک ضخیم کتاب (984 صفحات پر مشتمل) ’مدھیہ پردیش میں اردو ادب کے پچیس سال‘ شائع کی تھی جو کچھ معلومات اس میں درج ہوئیں، ان پر اکادمی نے شعوری طور سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی۔  اس طرح مدھیہ پردیش کا ادبی تعارف آج بھی نامکمل ہے۔

جب مدھیہ پردیش صوبے کی تشکیل نہیں ہوئی تھی اس وقت بھی دو ضخیم کتابیں ’تذکرۂ گلزار‘مؤلف جگن ناتھ پرساد مصر فیض (مطبع نول کشور)اور برج کرشن کول بیخبر نے 1931 میں انڈین پریس الٰہ آباد سے شائع کروائی تھیں۔ ان دونوں کتابوں کا ذکر یا حوالہ نہ ہی ’شعلۂ حیات‘ میں آیا اور نہ ہی ’آجکل‘ میں آیا۔ علاوہ اس کے اکادمی کی مطبوعہ کتاب میں بھی درج نہ ہوسکا۔ دورِحاضر میں مدھیہ پردیش سے دو ایسے ادبی جریدے (کاروانِ ادب، بھوپال۔ انتساب،سرونج) شائع ہوتے ہیں جو یہاں کے اردو ادب کا تعارف بہ حسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔

           

Bismillah Adeem Burhanpuri

Sant Kabeer Marg, Juheriwada Mahajnapeth,

Burhanpur- 450331 (M.P)

Mob.: 9630174593, 9754242468


اردو فکشن کی تنقید میں ہندو فکشن نگاروں کا حصہ، مضمون نگار: ابوبکر عباد

اردو دنیا، فروری 2024  


اردو زبان کے تعلق سے یہ شدید غلط فہمی ہے کہ یہ بدیسی یا مسلمانوں کی زبان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان نہ تو بدیسی ہے او رنہ ہی مسلمانوں کی ہے۔اس کے بارے میں یہ غلط بات بھی مشہور ہے کہ اس زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ حد سے زیادہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں ہی پیدا ہوئی، یہیںپروان چڑھی اور اس نے اپنے دامن میں عربی، فارسی، ترکی، پرتگیزی، ہندی، سنسکرت، اور انگریزی زبان کے الفاظ کے ساتھ ہندوستان کے بیشتر علاقائی الفاظ کو بھی جگہ دی۔ اس لحاظ سے یہ خالص ہندوستان اور ہندوستانیوں کی زبان ہے،جو دنیا کے بیشتر ممالک میں بولی، سمجھی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔

اردوزبان و ادب کے دوسرے شعبوں کی طرح فکشن میں بھی ہندو ادیبوں کی لائق افتخار خدمات اور ان کے افسانوی ادب کا ناقابل فراموش سرمایہ موجود ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے۔ جنھوں نے فکشن کی مشرقی روایات سے انحراف کرنے اور انگریزی اصولوں پر اولین ناول لکھنے کا دعویٰ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے فکشن کی تنقید بھی لکھی اس ضمن میں ان کا مضمون ’ ناول نگاری ‘ بے حد اہم ہے۔  اس مضمون میں انھوں نے داستان اور ناول کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ناول کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ یہ مضمون بعد کا ہے۔ اس سے قبل وہ فسانہ ٔ آزاد کے مقدمہ میں اپنے جدید ناول نگار ہونے اور انگریزی طرز پر ناول لکھنے کا دعویٰ کرچکے تھے، لہٰذا فسانۂ آزاد کی جلد چہارم کے مقدمے کو بھی اسی زمرے میں رکھنا چاہیے، کہ یہ بھی ان کے مضمون کی طرح ان کے نظریۂ ناول کی تفہیم کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔

 دعوے کے مطابق سرشار انگریزی طرزمیں جدید ناول کی بنیاد ڈال رہے تھے مگر درحقیقت غیر شعوری طور پر وہ قدیم افسانوی ادب کے اثر سے پوری طرح آزاد نہ ہوپائے تھے، کہ فسانۂ آزاد ایک حقیقی دنیا کا قصہ ہونے کے باوجود اپنی ساخت (مثالی کردار، آرائشی زبان، قصہ درقصہ کی تکنیک اور غیر معمولی مبالغہ) اور کہانی کی تشکیل کے اعتبار سے ناول کے مقابلے داستان سے زیادہ قریب ہے۔کہ اس میں بھی مختلف واقعات کی مدد سے ایک ایسے شخص کی کہانی گڑھی گئی ہے جو داستان کے شہزادوں کی طرح علوم وفنون کا ماہر ہے اور ایک حسینہ کے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے ایما پر ایک بڑی مہم سر کرنے نکلتا ہے اور مختلف مراحل ومنازل طے کرنے اور طرح طرح کی مشکلات سے نبر د آزما ہونے کے بعد بالآخر کامیاب وکامران واپس لوٹتا اور اپنی محبوبہ سے شادی رچاتا ہے۔ فسانۂ آزاد میں واقعات کی کثرت، تنوع اور سنسنی خیزی یقینا کسی داستان سے مختلف نہیں ہے، اس کے باوجود ’فسانۂ آزاد ‘پر داستان کا اطلاق یوں نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا پس منظر تصوراتی عالم کی بجائے حقیقی دنیا ہے۔ جس میںناول کے فن کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جیتا جاگتا شہر، ایک خاص عہد کا معاشرہ اور اس میں رچتے بستے لوگ اپنی اپنی فطرت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔

 ’فسانۂ آزاد‘ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا پہلا ناول ہے اور سب سے زیادہ مشہور بھی یہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں فنی اعتبار سے ان کا ناول ’جام سرشار‘ اپنے مربوط پلاٹ اور کہانی کے ایک آغاز، ارتقا اور انجام کی وجہ سے کافی حد تک ناول کے فارم کو پیش کرتا ہے۔ رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد اور’جام سرشار‘ کے علاوہ اور بھی کئی ناول لکھے ہیں جن میں سیر کوہسار، کامنی،خدائی فوجدار، پی کہاں، ہشو، کڑم دھم،بچھڑی ہوئی دلہن، طوفان بے تمیزی، چنچل نار‘  اور’ گور غریباں،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چنچل نار ’دبدبۂ آصفی‘ میں قسط وار شائع ہوتا تھا لیکن اس کے مکمل ہونے کی نوبت نہیں آئی، جب کہ ’گور غریباں‘ کا مسودہ مکمل ہونے کے باوجود اشاعت کے مرحلے سے بوجوہ نہیں گزر سکاتھا۔ان کی ماخوذ و مترجمہ تصانیف میں ’اعمال نامۂ روس‘ شمس الضحیٰ،اور ’الف لیلیٰ ‘کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔

پنڈت برج نرائن چکبست اچھے شاعر اورنثر نگار تھے اور شاعری، فکشن کے نقاد بھی۔چکبست کا اردو فارسی ادبیات کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ ’گلزارنسیم‘ سے متعلق مباحثے کے سلسلے میں انھوں نے معترضین کے فنی، لسانی، معنوی اور ادبی اعتراضات کے جواب جس خوبی سے دیے ہیں وہ ان کی علمیت کے اعتراف کے لیے کافی ہے۔ ان کی ادبی زندگی کا جب آغاز ہوا اس وقت تک حالی اور شبلی کی تنقیدی نگارشات سامنے آچکی تھیں۔البتہ تب اردوفکشن کی تنقید کا باضابطہ آغازنہ ہوا تھا،لیکن فکشن سے متعلق مرزا محمد ہادی رسوا کے خیالات خطوط اور دیباچوں کی شکل میںاور پنڈت رتن ناتھ سرشار اورمولوی عبدالحلیم شررکے ابتدائی مضامین منظر عام پر آچکے تھے۔چکبست نے پہلی بار اردو کی بعض اہم ادبی شخصیتوں بالخصوص لکھنؤ کے نثر نگاروں مثلاً منشی سجاد حسین، منشی جوالا پرشاد برق، تربھون ناتھ ہجر اور مرزا مچھو بیگ ستم ظریف وغیرہ پر مضامین لکھے،جن میں ان کی نثر کی فنی خصوصیات پر معتبر اور معتدل گفتگو کی۔

فکشن کی تنقید کے تعلق سے ان کا نظریہ ان کے صرف ایک مضمون ’پنڈت رتن ناتھ سرشار‘ میں ملتا ہے، جو رسالہ’ کشمیر درپن ‘ کے مئی 1904 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔اس طویل مضمون کی حیثیت سرشاراور ان کی ناول نگاری کے سلسلے میں متوازن تنقیدی اورتقابلی مطالعے کی ہے۔ مضمون میں چکبست نے سرشار اور فسانۂ آزادپر عائد الزامات اور ان دونوں کی بیجا تعریف سے قطع نظر ناول کے فن، بالخصوص فسانۂ آزادسے متعلق اصولی بحث کی ہے۔ گو کہ مضمون کی نوعیت کسی دفاعی اور انداز ِ بیان مناظرانہ ہے اس کے باوجود انھوں نے بڑی حد تک اس میںاعتدال برتنے کی کوشش کی ہے۔ ’فسانۂ آزاد‘ کی اہمیت اور قدروقیمت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لفظوں کی نئی تراش، ترکیبوں کی خوبصورتی، کلام کی گرمی، مضامین کی شوخی، طرز تحریر کی نزاکت، جواب وسوال کی نوک جھونک، زبان کی پاکیزگی، محاوروںکی صفائی، روز مرہ کی لطافت، ظرافت کی گل کاری، تراشوں کی نئی پھبن، ایجادوں کے بانکپن نے لوگوں کو حضرت سرشار کا والہ وشیدا بنالیا۔۔۔ محض قصہ سمجھ کر فسانہ آزاد کی وقعت کا اندازہ کرنا سراسر نا فہمی ہے، اس فسانہ کا انحصار اس کی داستان کے مسلسل ہونے پر نہیں ہے۔ حضرت سرشار نے اس میںلکھنؤکی مٹی ہوئی تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لکھنؤ اس مٹی ہوئی حالت پربھی ایک عالم ہے۔‘‘ ( مضامین چکبست، لکھنؤ،1344ھ، ص40) 

 فسانۂ آزاد کی خوبیوں کا ذکرکرنے کے بعدوہ اس کے کچھ عیوب بھی گنواتے ہیں اور شرر اور سرشارکے فن کا تقابلی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔پورے مضمون میں چکبست نے فنی معیار، تنقیدی اصول اورگفتگو کی سطح کو برقرار رکھا ہے۔

چکبست نے ناول کے واقعات کے انتخاب، پلاٹ کی تنظیم، واقعات میں سبب اور نتیجے کی منطق، کرداروں کی تخلیق اور ناول کی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا جس طرح اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ناول کا تصور خود سرشار اور شرر (جنھوں نے ناول کے علاوہ ناول کی تنقید یںبھی لکھی ہیں) کے مقابلے میں زیادہ واضح اور فن کے جدید اصولوں سے بے حد قریب ہے۔

منشی پریم چند ہمارے پہلے باضابطہ اہم افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں، ناول لکھے ہیں اور ناول اور افسانے بلکہ یوں کہیے کہ فکشن کی تنقید بھی بہ نسبت زیادہ لکھی ہے۔ ناول سے متعلق،منشی پریم چندکے چار مضامین خاصے اہم ہیں۔یہ مضامین ہیں: ’اردوزبان اور ناول‘، ’شرر و سرشار‘ ،  ’ناول کا فن‘ اور’ناول کا موضوع‘،جن کا زمانۂ تحریر 1910 سے لے کر 1931 تک کے عرصے کو محیط ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جس زمانے میں پریم چند عالمی پیمانے کے ناول لکھ رہے تھے اس زمانے میں ان کی فکشن تنقید کسی حد تک مبتدیانہ نوعیت کی ہے۔ پریم چند کا ذہن در اصل خلاقانہ تھا، ناقدانہ نہیں۔پریم چند اپنے پہلے مضمون’اردو زبان اور ناول‘میں لکھتے ہیں:

’’اردو دنیا کے لیے ناول ایک اچھوتی چیز تھی۔ زبان میں ایک ایسی چیز کا رواج ہورہا تھاجو معمولی افسانوں سے زیاد ہ دلآویز،اور معمولی مثنویوں سے زیادہ پر لطف تھی اس لیے پبلک نے حسب حیثیت ناولوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور برائے چند، ناولوں کی خوب گرم بازاری رہی۔‘‘

(مضامین پریم چند،مرتبہ عتیق احمدانجمن ترقی اردو پاکستان، 1981، ص،228)

دوسرے علوم و اصناف کے مقابلے میں پریم چند ناول کی وکالت کرتے ہوئے اس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بتاتے ہیں کہ تاریخ،پالیٹکس یا فلسفے کا مطالعہ ہر خاص وعام کے لیے اس طور ممکن نہیں کہ دنیا کی بیشتر آبادی جو تلاش روزگاراور کسب معا ش کی فکر میں پریشان رہتی ہے اس کے لیے ایسے علوم کا مطالعہ دلچسپی کے بجائے ایک بے رس مشکل ترین عمل ثابت ہوگا۔ ’’سویہ غریب یا تو ناول پڑھ سکتے ہیں یا کچھ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘ چنانچہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کی طرح یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس فن کے توسط سے دوسرے اہم اور مفید علوم کی تحصیل کہیں زیادہ بہتر اور آسان طریقے سے کی جاسکتی ہے۔

بلاشبہ پریم چند عالمی ادب اور اس کے فنی طریق کار سے آشنا اور اس کے حامی تھے،کہ وہ خود زندگی اور معاشرے کی اصلاح کو ناول کے فرائض میں شامل کرتے تھے،ساتھ ہی وہ اس نزاکت سے بھی واقف تھے کہ ا نسانی فطرت پر اثر انداز ہونے والی یہ لطیف تحریر کب تک فن رہتی ہے اور کب فن کے دائرے سے خارج ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ ناول نگاروںکو استادانِ فن کی تخلیقات کا مطالعہ، انسانی نفسیات کا بغور مشاہدہ،سچے جذبات کی عکاسی اور خیالات میں تازہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔پریم چند کے آخری تین مضامین سے ناول کی تعریف و تقسیم اور اس کے منصب و مقصود کی تعیین ہوتی ہے۔گو کہ انھوں نے ’ناول کا فن‘میںلکھا ہے کہ’’ ناول کی تعریف انتہائی مشکل ہے،آج تک اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہوسکی جس پر سب لوگ متفق ہوں۔‘‘ لیکن اپنے ایک دوسرے مضمون ’شرر وسرشار‘میں اس کی مفصل تعریف یوں کرتے ہیں:

’’ناو ل انگریزی لفظ ہے اور اگر ا س کا ترجمہ ہوسکتا ہے تووہ فسانہ ہے۔لفظی حیثیت سے دونوں میں کچھ فرق نہیںمگر مفہوم کے لحاظ سے البتہ نمایاں فرق ہے۔ ناول اس فسانہ کو کہتے ہیں جوزمانہ کا،جس کا وہ تذکرہ کر رہا ہو،صاف صاف چربہ اتارے۔ اور اس کے رسم و رواج، مراسم و آداب، طرز معاشرت وغیرہ پر روشنی ڈالے اور مافوق العادات کو دخل نہ دے،یا اگر دے تو اس کی تاویل بھی اس خوبی سے کرے کہ عوام ان کو واقعہ سمجھنے لگے،اسی کا نام ہے ناول یا فسانہ۔‘‘(ایضاً، ص، 237-38)

پریم چند ناول کو ناول کے خالق کی شخصیت،اس کے کردار، اس کے فلسفئہ حیات اور اس کے نتائج فکر کا آئینہ قرار دیتے ہیں،چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مصنف اگر رجائی ہے تواس کی تخلیقات میں بھی امیدوں کی روشنی اور حوصلوں کی تازگی نظر آتی ہے،اور اگر وہ قنوطی ہے توہزار کوششوں کے باوجود بھی اپنے کرداروں کو زندہ دل بنانے میںناکام رہتا ہے۔وہ ناول میں طرز بیان کی دلکشی اور اثرانگیزی کو لازمی قرار دیتے اور اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں کہ مصنف الفاظ کا گورکھ دھندا رچاکر قاری کو اس مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرے کہ ناول میں کوئی حسن،خوبی یااعلیٰ مقصد پوشیدہ ہے۔ ان کے نزدیک’’ناول نگار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کے دل میںبھی ان ہی جذبات کو بیدار کردے جو اس کے کرداروں میں رونماں ہوں،اور پڑھنے والا یہ بھول جائے کہ وہ کوئی ناول پڑھ رہاہے۔‘‘

مختصر افسانے کے فن اور اس کی خصوصیات کے تعلق سے بھی پریم چند نے کافی کچھ لکھا ہے۔اس سلسلے میں ایک اہم اور مزے کی بات وہ یہ لکھتے ہیں کہ :’’مذہبی کتابوں میں جو تمثیلی حکایتیں بھری پڑی ہیںوہ مختصر کہانیاں ہی ہیں۔‘‘

(مضامین پریم چند،انجمن ترقی اردو پاکستان،1981، مضمون،مختصر افسانہ،  ص، 252)۔

اس زمرے میں وہ بجا طور پر مہابھارت، اپنشد، بائبل،حکایات لقمان اور بودھ جاتک وغیرہ کو شامل کرتے ہیں۔کردار نگاری سے متعلق ان کا خیال ہے کہ افسانہ نگار کرداروں کی تحلیل نفسی کرنے نہیں بیٹھتا،صرف اس کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔بعض اوقات تو مکالموں میں صرف ایک دو الفاظ ہی سے کام نکالتا ہے۔وہ حقیقت کی بعینہ تصویر کشی کو فن تسلیم نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ’’ اگر ہم حقیقت کی ہو بہو نقل کر بھی لیںتو اس میں آرٹ کہاں؟ فن صرف حقیقت کی نقل کا نام نہیں ہے‘‘۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں’’یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے افسانے سے جو نتیجہ حاصل ہو وہ مقبول عام ہو اور اس میں کچھ باریک نکتے بھی ہوں۔‘‘

 سچ تو یہ ہے کہ رجحانات سے قطع نظرفکشن کی تفہیم ا و رتشریح کے تعلق سے جن مسائل پر گفتگو کی جانی چاہیے ان تمام مسائل کو پریم چند نے موضوع بحث بنایا ہے۔منشی جی نے فکشن کی جڑوں کی تلاش،اس کا ماخذ، افسانہ و ناول کی تعریف وتقسیم، پلاٹ، کردار، کردار کی قسمیں، مکالمے، زبان وبیان، ان کے آغاز وانجام،ان کے منصب ومقصد،  پھر ناول اور افسانہ کے فرق اوراس کے امتیازات پرکسی قدر اختصار سے لیکن کافی حد تک اطمینان بخش گفتگو کی ہے۔

کرشن چندر ہمارے سب سے بسیار نویس ترقی پسند فکشن نگار ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کے تحت لکھے جانے والے فکشن سے وہ خاصے ناراض تھے، بالخصوص انٹی اسٹوری، غیرمربوط واقعات،بے پلاٹ کے افسانوں  اور مبہم کرداروں کی پیش کش سے۔فکشن کی تنقید سے متعلق ان  کاایک اہم مضمون ’ہاتھی دانت کا ٹاور ‘ ہے۔جس میں انھوں نے جدید افسانے کے حوالے سے اپنے خیالات بیباک، تردیدی لہجے اورقدرے جارحانہ اندازسے رکھے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’ادھر کہانی کے میدان میں کچھ نئے لوگ آئے ہیں۔ ۔۔۔۔ آپ جب ان سے بات کریںگے تو ان کی گفتگو بالکل ٹھیک ٹھیک آپ کی سمجھ میں آئے گی۔ مگر جب یہ کہانی لکھیںگے تو آپ کے پلے کچھ نہیں پڑے گا، سوائے ایک مجہول چپستان کے۔ وہ کافی ہائوس جانے کا راستہ تو جانتے ہیں مگر اپنی کہانی کا راستہ انھیںمعلوم نہیں۔ انھیں اپنی ملازمت کا مقصد معلوم ہے اپنی کہانی کا نہیں۔ جب وہ اپنے گھر جاتے ہیں تو دو ٹانگوں کے سہارے قدم اٹھاتے ہوئے جاتے ہیںمگر اپنی کہانی میں سر کے بل رینگتے ہیں اور اسے آرٹ کہتے ہیں۔ میں انھیں کہانی کار نہیں شعبدے باز کہتا ہوں۔ یہ لوگ رنگین الفاظ کے فیتے اپنے منہ سے نکالتے ہیں، اپنی ٹوپی سے خرگوش، آپ کی جیب سے انڈا اور آپ کو حیران و ششدر چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ بعد میں آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی جیب کی آخری چونی بھی شعبدے بازی کی نذر ہوگئی اور ملا کچھ نہیں اور آپ کو کچھ ملے بھی کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ آپ سے کچھ لینے کے قائل ہیں۔ عوض میں کچھ دینے کے قائل نہیں ہیں۔‘‘

(مضمون ہاتھی دانت کا ٹاور، از کرشن چندر، مشمولہ جدیدیت، تجزیہ و تفہیم لکھنؤ، 1985، ص 293)

کرشن چندر کے مذکورہ اقتباس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ بیشتر ادیبوں کے تئیں نئے لکھنے والوں کی یہ شکایت درست ہے کہ وہ اپنے فوراً بعد آنے والی نسل کو جو باغیانہ رویہ رکھتے ہوئے مروجہ ادبی اسالیب سے انحراف کرتی ہے، یکسر رد کردیتے ہیں یا پھر ان کی تحریروں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔

اوپندرناتھ اشک نے اپنے افسانوی مجموعے ’کونپل ‘ میں دیباچے کے طور پر’افسانہ: اس کا فن اور ترقی پسندی‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا ہے،جس میں انھوں نے افسانے، افسانے کی تھیم، اس کے پلاٹ، مقصد اور کردار نگاری سے متعلق اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:

’’… اٹھو، بولو اور بیٹھ جائو۔‘‘

کسی نے مقرر کو یہ قیمتی مشورہ دیا ہے لیکن افسانہ نگار کے لیے بھی یہ کم قیمتی نہیں، جس طرح اچھے مقرر سے امید کی جاتی ہے کہ فوراً اپنی تقریر شروع کرکے جو کچھ کہنا ہے، صاف اور عیاں الفاظ میں کہہ کر بیٹھ جائے، نہ شروع میں فضول اور بے معنی تمہید باندھے، نہ درمیان میں سامعین کو بلاضرورت ادھر سے ادھر لے جائے اورنہ خاتمہ کو غیرضروری طور پر طول دے۔ اسی طرح افسانہ نویس سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک کامیاب مقرر کی طرح پہلے ہی فقرے سے ناظر کی دلچسپی میں اضافہ کرتا جائے حتیٰ کہ کلائمکس پر پہنچ کر اس طرح افسانہ کوختم کردے تاکہ جو اثر وہ اپنے ناظر پر ڈالنا چاہتا ہے، وہ تمام ترشدت کے ساتھ اس کے دل و دماغ پر مسلط ہوجائے۔‘‘

(دیباچہ، ’کونپل‘ مکتبہ اردو لاہور، 1940، ص 9)

اس اقتباس سے افسانے کی تین صفات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اول افسانے میں ’فضول اوربے معنی تمہید سے احتراز‘ دوم خاتمہ کو غیرضروری طور پر طول دینے سے اجتناب اور سوم آغاز سے ہی قاری پر افسانے کی مضبوط گرفت۔ اور یہ سب اس لیے کہ افسانہ نگار اپنا جوتاثر دینا چاہتا ہے، وہ تمام تر شدت کے ساتھ قاری کے دل ودماغ پر مسلط ہوجائے۔ اشک کے خیال میں وہ افسانہ جسے پڑھ کر قاری کو ایک طرح کی تسلی، ایک طرح کا اطمینان ہو،اور یہ احساس کہ اس نے کہانی پڑھ کے وقت ضائع نہیں کیا اور ذاتی طور پر کہانی کے بنیادی خیال سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ یقین کہ افسانہ نگار نے اس بنیادی خیال کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے، کامیاب افسانہ ہے۔ ترقی پسند افسانہ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ افسانہ اب اپنی حد تکمیل کو پہنچ گیا ہے لہٰذا قاری کو اپنے خیال یا نظریے سے متاثر کرنے کے لیے انتہائی احتیاط اور ہنرمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

دوسرے ترقی پسندوں کی طرح اوپندرناتھ اشک بھی افسانہ کو محض لطف و انبساط کے ذریعے کے بجائے زندگی کا ترجمان مانتے ہیں، لیکن وہ مقصد پر فن کو قربان کرنے یا اسے اپنے معیار سے گرانے پر کسی طور راضی نہیں،  لکھتے ہیں:

’’آرٹ، آرٹ کے لیے ہے میں اس میں یقین نہیں رکھتا۔ آرٹ زندگی کے لیے ہے اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہے اور اگر کوئی کہانی زندگی کا مرقع نہیں یا ہمیں زندگی کو سمجھنے میں امداد نہیں دیتی تو وہ دلچسپ ہوسکتی ہے، فن کے لحاظ سے کامیاب ہوسکتی ہے، لیکن نوع انسان کے لیے سود مند نہیں۔‘‘(دیباچہ، کونپل، ص،23)

دیوندر اسر اردو کے معروف فکشن نگار اور فکشن کے اہم ناقد ہیں۔فکشن تنقید کے حوالے سے انھوں نے کافی لکھا ہے۔ ادب اور جنسیات، ادب اور فحاشی، مطالعہ اور نفسیات، ’اردو افسانہ : ایک مطالعہ‘ اور ’ادب اور فرائڈ‘ وغیرہ ان کے اہم مضامین ہیں۔’ادب اور نفسیات‘ اور ’نئی صدی اور ادب ‘فکشن تنقید کے حوالے سے ان کی اہم کتابیں ہیں۔ آخرالذکر کتاب میںا نھوں نے فکشن کے متعدد مسائل، رجحانات، خدشات اور مشرق و مغرب کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ اہم فکشن نگاروں مثلاً پریم چند، قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو اور دیوندر ستیارتھی وغیرہ کے فکر وفن کوبھی زیر بحث لائے ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے تنقیدی مجموعوں میں بھی انھوں نے فکشن کی مختلف جہات پر روشنی ڈالی ہے۔مذکورہ مجموعوں کے علاوہ ’فکر اور ادب‘، ادب اور جدید ذہن‘،’مستقبل کے روبرو ‘ اور ’ادب کی آبرو‘ ان کے اہم تنقیدی مجموعے ہیں۔

 جدید افسانہ نگارسریندر پرکاش اور بلراج مین را بنیادی طور پر جدیدیت کے رجحان کے افسانہ نگار ہیں۔ سریندر پرکاش نے فکشن سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اپنے مضمون ’نیا اردو افسانہ میری نظر میں‘ میں کیا ہے۔ مین را ایک اہم رسالہ ’شعور‘  نکالا کرتے تھے۔ انھوںنے کوئی باضابطہ تنقیدی مضمون تو نہیںلکھا لیکن ان کے تین ایسے مضامین ہیں جن میںفکشن اور فکشن نگاروں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ان کا لہجہ ذرا سخت اور قدرے مبہم ہے۔ ان کے مضامین ہیں ’تنبولا‘، ’ایک ناپسندیدہ کہانی‘ اور ’ایک اور نا پسندیدہ کہانی‘۔ وہ جدیدیت کو نہ تو کوئی تحریک مانتے ہیں اور نہ ہی کسی تحریک کا ردعمل، ان کے مطابق جدیدیت کا اطلاق ایک خاص طرح کے لوگوں کی ایک خاص طرح کی تحریر پر ہوتا ہے جسے نباہنا ان کے مطابق آسان نہیں۔ لکھتے ہیں:

’’جدیدیت جسے ایک رجحان کہا جاتا ہے نہ تو تقسیم وطن کے بعد کسی سماجی تحریک سے پھوٹا ہے اور نہ ہی رجحان کوئی تحریک بن پایا ہے جوصورت حال کو سمجھنے اور سنوارنے کی ناکام یا کامیاب کوشش ہوتی۔ جدیدیت کا آغاز چند ایک حساس، دکھی اور برہم نوجوانوں کی تحریر تھی۔ ان چند لکھنے والوں کی برہمی جو غلط یا صحیح تو ہوسکتی ہے،سچی تھی۔ اس لیے نئی تحریر کا مشکل اور خطرناک کام ہوتا رہا۔‘‘

(مضمون ’تنبولا‘ مشمولہ اردو فکشن، مرتبہ آل احمد سرور، شعبہ اردو علی گڑھ، 1973، ص 412)

گویا بلراج مین را کے نزدیک جدیدیت ایک رویے کا نام ہے جبکہ سریندر پرکاش اسے ایک ایسی اصطلاح مانتے ہیں جس میں اسلوب کے تجربے اور موضوع کی جدت کے ساتھ سماجی رشتوں کے پیچیدہ عمل کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے کرب کو محسوس کرنے اور کرانے کی صفت موجود رہتی ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:

’’ایک بار نئے کی اصطلاح پھر دہرائی جانے لگی اور اس بار نیا ادیب محض اسلوب کے تجربوں کے نئے پن کی بات نہیں کر رہا تھا، مواد کے نئے پن کی بھی بات ہورہی تھی، واقعہ نگاری اور فرد کے سماجی رشتوں کی سطحی بات نہیں ہورہی تھی، بلکہ سماجی رشتوں کے پیچ در پیچ عمل سے جو ہولناک نتائج برآمد ہورہے تھے، ان کے کرب کو محسوس کیا جارہا تھا اور اس کرب کو ایک ذات کے وسیلے سے دوسری ذات تک منتقل کرنے کی بات ہورہی تھی۔‘‘

(سریندرپرکاش، مضمون ’نیا اردو افسانہ میری نظر میں‘ مشمولہ اردو فکشن، ص 360)

یہ ہمارے وہ فکشن نگار ہیں جنھوں نے فکشن اور فکشن کی تنقید میں اہم کارنامے انجام دیے ہیںاور اردو زبان و ادب کو مختلف النوع فکر و خیالات، میلانات و رجحانات اور بیان و اسلوب کے جواہرات سے ثروت مند بنانے میں بھر پور حصہ لیا ہے۔

 

Abu Bakar Abbad

Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

16/5/24

کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری، مضمون نگار:رودرشکتی جی مہاراج


اردو دنیا، فروری 2024


کشمیری لال ذاکر کا شمار اردو کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اس دور میں قلم اٹھایا جب کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، اپندر ناتھ اشک، خواجہ احمد عباس، احمدندیم قاسمی، بلونت سنگھ جیسے ناول نگار اپنی اردو ناول نگاری میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے تھے۔

1950 ذاکرصاحب کی زندگی کا ایسا دور ہے جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل کر رکھ دیا۔ دراصل ایک طویل علالت کے بعد آپ کی بیگم شریمتی شیلا دیوی کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے یہ صدمہ تو برداشت کر لیا لیکن اس تاثر کو کئی سالوں تک فراموش نہیں کر سکے۔ چونکہ ذاکر صاحب اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے جس کا اظہار انھوں نے اپنے پہلے ناول ’سیندور کی راکھ‘ میں واضح طور پر کیا ہے۔ جب یہ ناول منظر عام پر آیا تو اسے ادبی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مکتبہ جامعہ شاہراہ دہلی کے مالک شاہد احمد دہلوی اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’’ذاکر صاحب کا جھکائو ابتدا سے رومان کی طرف رہا اور’ سیندور کی راکھ‘ ان کا پہلا ناول ہے جس میں ان کی اپنی سرگزشت ہے اس میں ان کی اپنی زندگی کا شاید غم ہے اور اسی ناول میں غم جاناں کو غم دوراں پر فوقیت ہے۔ ذاکر صاحب کی رنگین بیانی، منظر نگاری اور ماحول کی عکاسی اس ناول میں پوری تابانی کے ساتھ جلو ہ گر ہے اس جزئیات نگاری پر ذاکر صاحب کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیات یہ ہے کہ وہ قاری کو ابتدا ہی سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ازدو اجی زندگی کے شیریں اور طرب انگریز اسرار و رموز سے آہستہ آہستہ پر دہ اٹھتا ہے۔‘‘ (کشمیری لال ذاکر’سندور کی راکھ‘؛ص8)

’سیندور کی راکھ‘ ذاکر صاحب کا ایسا ناول ہے جو کوئی خیالی یا تصوراتی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی زندگی کی حقیقی ترجمانی کرنے والا ایسا ناول ہے جسے ہم خالص جذباتی اور تاثراتی ناول کہہ سکتے ہیں۔ یہ 1950 میں ادبی دنیا سے شائع ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ذاکر صاحب نے اس تصنیف میں اچھوتی تکنیک کا استعمال کیا ہے یا کم ازکم اس تکنیک کا چلن اس وقت عام نہیں تھا۔انھوںنے اسے سچے و اقعات کو سرگزشت اور ڈائری کے تکنیک کو ملا کر تحریر کیا ہے۔ اس ناول کا اصل موضوع ان کی شریکِ حیات کا دنیا سے گزرجانے کا غم ہے۔

’سیندور کی راکھ‘ کے بعد ناول لکھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آخری سانس تک اسی جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔ انھوں نے 29   ناول تحریر کیے ہیں اور ہر ناول میں موضوع و مسائل کے اعتبار سے ایک نئی روشنی و ندرت پائی جاتی ہے۔ان کے ناولوں کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوںنے جدید موضوعات کو مد نظر رکھ کر اپنے ناولوں کی تخلیق کی ہے۔

انھیں اردو کے ادبی حلقوں میں خاصی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انگوٹھے کا نشان، میرا گانوں میری زندگی ہے، کرماں والی، دھرتی سدا سہاگن، ڈوبتے سورج کی کتھا وغیرہ ایسے لاجواب ناول ہے جن میں ذاکر صاحب کا فن اپنے شباب پر نظر آتا ہے اور یہ ناول کی فنی پختگی اور فنکارانہ چابکدستی کی روشن مثال ہے۔ ان ناولوں میں انھوںنے دیہی زندگی کو بنیاد بنا کر کسانوں، مزدوروں، عورتوں، بوڑھوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول ’کرماں والی‘ اور ’ڈوبتے سورج کی کتھا‘ تقسیم ہند سے متاثر ہے لیکن ان کا مرکز بھی گائوں ہی ہے حالانکہ ان ناولوں میں کہیں کہیں شہر کی کچھ جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اس کے بر خلاف میرا شہر ادھورا سا، اب مجھے سونے دو، لمحوں میں بکھری ہوئی زندگی، ایک شہر ایک محبوب وغیرہ ناولوں میں ذاکر صاحب نے شہر کی چکا چوندھ بھری زندگی کی عکاسی کی ہے۔  Modernity کے نام پر اپنے تہذیب و کلچر سے دور بھاگتے لوگوں کی کہانی کو پیش کیا ہے۔ جدید تمدن نے کس طرح انسانی تہذیب کو متاثر کیا، ان پر غلط اثر ڈالا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نئی نسل کس طرح آزادی کے نام پر اپنے آپ کو تباہ و بربا کر رہی ہے۔ ذاکر صاحب نے ان سبھی پہلوئوں پر غور و فکر کیا اور اپنے ناولوں میں انھیں جگہ دی۔کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری کے ذیل میں عبد المغنی مرحوم یوں رقمطراز ہیں:

’’کشمیری لال ذاکر کے متعد ناولوں میں سے انگوٹھے کا نشان، کرماں والی، دھرتی سدا سہاگن اور ’ڈوبٹے سورج کی کتھا‘ زیادہ پسند ہیں۔ ان سب ناولوں کا تعلق دیہات سے ہے۔ گر چہ ان پر شہری زندگی کی کچھ پرچھائیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ ان میں ’کرماں والی‘ اور ’ڈوبتے سورج کی کتھا‘ تقسیم ہند کے اثرات کے آئینہ دار ہیں۔ ان میں پنجاب کا ماحول اور معاشرہ ہے۔بہ طور خاص ان ناولوں کے نسوانی کردار اپنے عمل اور اپنے کرداروںسے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔‘‘

(عبد المغنی ’کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری‘ مشمولہ ’فن و شخصیت نمبر‘ کشمیری لال ذاکر، ص86)

ذاکر صاحب کے ناولوں میں ایک اور اہم موضوع غربت، بھوک اور افلاس کا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں ان کے ناولوں میں ضرور مل جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے اپنی ترقی پسندی اور اشتراکیت کو اجاگر کیا ہے،  کیونکہ ذاکر صاحب نے اس دور میں قلم اٹھایا جب ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی۔ اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا تھا وہ ادب برائے ادب کے تحت تھا اب ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو کچھ لکھا جا رہا تھا اس میں ادب برائے زندگی کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ذاکر صاحب کے بیشتر ناولوں میں ترقی پسند تحریک کے اثرات نظر آتے ہیں۔

جب ملک تقسیم ہوااور آزادی وجود میں آئی تو اس وقت جو افراتفری کا عالم تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس میں صرف انسان کے جذبات اور دل تقسیم نہیں ہوئے تھے بلکہ اس تقسیم نے ہندو مسلم فرقو ں میں جو نفرت کی آگ بھڑکائی تھی اس کا اثر سماج کے ہر فرد پر پڑا۔ ذاکر صاحب نے 1947  میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا صرف جائزہ ہی نہیں لیا بلکہ اسے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ یعنی ذاکرصاحب تقسیم کے المیے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ناول کرماں والی، ڈوبتے سورج کی کتھا،  لمحوں میں بکھری ہوئی زندگی  میں جو تاثرات اور جذبات بیان کیے ہیں وہ اس دور کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتی ہے۔ جس وقت ملک تقسیم ہوا ذاکر صاحب پشاور میں تھے اور آج بھی وہ علاقہ جسے آپ کا آبائی وطن کہا جاتا ہے یعنی قصبہ کنجاہ ضلع گجرات (پشاور) یہ علاقہ اب پاکستان میں ہے ایسی صورت میں فسادات کا ذکر ذاکرصاحب کے ناولوں میں فطری عمل ہے۔  بقول ذاکر صاحب:

’’1947کی جو نسل چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی اسے محرومی اور جدائی کا جو احساس ہوا، اس میں ایک تیکھا درد، انوکھی کسک اور دم گھونٹ دینے والی تلخی تھی۔یہ تلخی سرحد کے دونوں پار صف باندھے کھڑے ان لوگوں کے دلوں میں رچ رہی تھی جو اپنی آنکھوں میں انتظار کے چراغ جلائے ایک ایسی صبح کے منتظر تھے جب ان کے عزیز دوست رشتہ دار محبوب بنا کسی رکاوٹ کے ان کے قریب آکر ان سے گلے ملیں کے اور خوشی کے بھرپور احساس سے نکلے آنسوؤں سے وہ خلیج بھر جائے گی جو اب تک ان کے درمیان پھیلی تھی۔‘‘

(خلیق انجم’ہمہ جہت شخصیت‘ نند کشور وکرم، کشمیری لال ذاکر فن و شخصیت، دہلی عالمی اردو ادب 2009،ص302)

ذاکر صاحب کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں کا موضوع دور حاضر کے مسائل کو بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک آزادہوااور زمیندارانہ نظام ختم ہو گیا لیکن اس کے باوجود بھی ایک مزدور اور کسان کی حالت نہیں سدھری اور نہ ہی ان کی غربت اور پسماندگی میں خاطر خواہ تبدیلی ہوئی بلکہ غریبی اور مفلسی اسی طرح برقرار رہی تو ذاکر صاحب نے کئی خوبصورت ناول تحریرکیے مثلاً ’انگوٹھے کا نشان‘ بھولے بھالے اور ان پڑھ مزدوروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ تو وہی’بنجر بادل‘ ایسا ناول ہے جس میں انھوںنے گائوں کی پسماندگی، قحط سالی اور طوفان سے رونما ہونے والے مسائل کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ اس کے علاوہ ’سمندر صلیب اور وہ‘، ’بلیک باکس‘ میں انھوںنے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آزادی کے بعد بھی ہمارے گائوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اردو ناول نگاری میں مرد کے مقابل عورت کی سماجی اور نفسیاتی صورت حال پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ لیکن ذاکر صاحب نے عورتوں کو موضوع بنا کر کئی ناول تخلیق کیے ہیں۔ان کا یہ ماننا تھا کہ عورت کا سراپا محبت ہے جو ہر رشتے، ہر روپ میں صرف محبت لٹاتی ہے۔ بیٹی بن کر ماں باپ کو، بہن بن کر اپنے بھائی کو، بیوی کی صورت میں شوہر کو اور ماں بن کر اپنی اولاد کو صرف پیار دیتی ہے۔ عورت نفسیاتی اعتبار سے بھی بہت حساس ہوتی ہے۔ اب مجھے سونے دو، کرماںوالی، لمحوں میں بکھری زندگی، سمندر خاموش ہے، میرا شہر ادھورا سا، پربھات  جیسے ناولوں میں عورتوں کے مسائل اور ان کے مختلف زاویوں کوانھوں نے نہایت فنکاری سے پیش کیا ہے۔ ’اب مجھے سونے دو‘ ذاکرصاحب کا ایک عورت کے جنسی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے عمدہ ناول ہے۔

ذاکر صاحب نے اپنے ناولوں میں زمان اور مکان کے تعلق سے کشمیر، چنڈی گڑھ اور ہریانہ کو برجستہ پیش کیا ہے جس کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ذاکر صاحب کا بچپن اور تعلیم کا زمانہ ریاست جموں کشمیر میں گذرا۔ ملازمت کی ابتدا پنجاب سے کی اور پھر ہمیشہ کے لیے ہریانہ منتقل ہو گئے۔ اس لیے جموں کشمیر کی حسین وادیاں اور وہاں کے واقعات منظر نگاری کی شکل میں آپ کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔ کشمیر ہو، ہریانہ کے گائوںہوں یا پنجاب کے دیہی علاقے ان سب کے مقابلے میں ذاکر صاحب نے چنڈی گڑھ کو بہت ترجیح دی۔آپ نے ہر اعتبار سے چنڈی گڑھ کے ہر پہلو کو ابھارا ہے۔ لہٰذا ’میرا شہر ادھورا سا‘‘ ماڈرن سٹی چنڈی گڑھ پر لکھا گیا بہترین ناول ہے۔

اس طرح ذاکرصاحب نے گائوں اور شہر سے جڑے ہوئے ہزاروں مسائل کو پیش کیا ہے۔ اگران کے ناولوں میں تکنیک کا جائزہ لیا جائے تو ہر ناول میں انھوں نے موضوع کو مدّنظر رکھتے ہوئے تکنیک کا استعمال کیا ہے۔انھوںنے زیادہ تر ناولوں میں شعور کی رو (Stream of Conciousness)  کا استعمال کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے ناولوں میں فلیش بیک کی تکنیک کا بھی استعمال کرتے ہیں اوران کے ناول واحد متکلم سے شروع ہوتے ہیں۔

تقسیم ہند کے موضوع پر لکھا گیا ان کا ناول ’کرماں والی ‘کی کہانی میں واحد متکلم کے صیغے کا استعمال کیا گیا ہے۔  اس ناول کی ابتدا ’میں‘ کے عنوان سے ہوتی ہے اور کرماں والی اپنی پوری داستان سناتی ہے۔ اسی طرح ’میرا شہر ادھورا سا‘ میں رچنا اپنی اور ایک ادھورے شہر کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ’سمندر خاموش ہے‘ میں بھی شکیل اپنی کہانی سناتا ہے۔’لمحوں میں بکھری زندگی‘ میں ارچنا اپنے ماضی اور حال کا جائزہ لیتی ہے کہ آخر اس نے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا۔

جہاں تک ذاکر صاحب کے اسلوب کا تعلق ہے تو اس پران کو مہارت حاصل ہے کیونکہ ان کا اسلوب نہایت ہی سادہ سلیس مگر بڑا ہی معنی خیز ہوتا ہے۔ تو وہی انھوں نے زیادہ ترسادہ سپاٹ زبان کا استعمال کیا ہے جو کرداروں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ذاکر صاحب اپنے ناولوں میں لمبے لمبے جملوں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ چھوٹے اور چست جملوں سے عبارت کو مزین کرتے ہیں اور جو کردار جس طرح کی زبان اپنے معاشرے میں بولتا ہے ذاکر صاحب اسی زبان میں اپنے ناولوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں انگریزی، پنجابی، ہریانوی اور ہندی زبانوں کے جملے برجستہ مل جاتے ہیں اور کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مکالموں کو جبراً عبارت میں جوڑ دیا گیا ہے۔ عبدالمغنی ذاکر صاحب کے اسلوب نگارش پر اپنے خیالات کا اظہار اس انداز میں کرتے ہیں۔

’’جناب کشمیری لال ذاکر کا اسلوب سادہ و پرکار ہے۔ وہ عام طور پر چھوٹے جملوں کا استعمال بڑی سلاست سے کرتے ہیں اور یہ جملے اپنے سیاق و سباق میں بہت معنی خیز اور خیال انگیز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو کرداروں کے مکالمے اشعار کی طرح موزوں چست اور ایسے برجستہ فقروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے مضمرات اور اشارات کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے‘‘۔

(ڈاکٹرعبدالمغنی’کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری‘ فن اور شخصیت (کشمیری لال ذاکر) (ممبئی) شمارہ نمبر (مارچ  1991-92) ص214)

ذاکر صاحب کے پلاٹ مربوط، سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک کہانی میں دلچسپی قائم رہتی ہے اور قاری کا تجسس بنا رہتا ہے جو اسے پورا ناول پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ چاہے وہ اپنے ناولوں میں دو شہروں، دو ملکوں، دو گائوں کی کہانی کہہ رہے ہوں مگر پھر بھی کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا ہاںلیکن کہیں کہیں فنکار کی جدّت نظر آتی ہے جیسے ’ڈوبتے سورج کی کتھا‘ کے پلاٹ میں کہیں کہیں تھوڑا ایہام بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پہلے دو نسلوںکے قصے پھر اس میںبھی دو بھائیوں کی الگ الگ کہانیاں ساتھ ہی کرداروں کے بیچ تقسیم ہند کی لکیر۔ ان سب باتوں سے پلاٹ میں پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی قاری کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی۔

(کشمیری لال ذاکر’فن و شخصیت‘آپ بیتی نمبر بمبئی صابروت جلد 4، شمارہ 7، ستمبر 1978؛ ص277)

کردار نگاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ذاکر صاحب نے اس میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوںنے ایسے کردار تراشے ہیں جو ہماری زندگی کے جیتے جاگتے کردار کہے جا سکتے ہیں۔وہ کرداروں کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور کرداروں کو دلچسپ بنانے کے لیے گرما گرم اور پھڑکتے ہوئے فقرے و محاورے کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔انھوںنے تمام کرداروں کو دلکش بنائے رکھنے کے لیے مرقع نگاری کا خوب سہارا لیا ہے۔ مرقع نگاری اس طور سے کی ہے کہ کہانیوں کا خاص اہم حصہ نظر آتا ہے جیسے بیسویں صدی کی شخصیتوں کی شکل و صورت، حرکات و سکنات، طبیعت کی رنگا رنگی، آواز کی کیفیت وغیرہ کی بہترین مرقع نگاری ذاکر صاحب نے اپنے ناولوں میں کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذاکر صاحب نے انھیں کرداروں کا انتخاب کیا جو آپ کے آس پاس رہتے ہیں یا جن کوانھوںنے قریب سے دیکھا ہے لیکن انھوںنے اپنے ناولوں میں غیر ضروری کرداروں کو اہمیت نہیں دی ہے۔ ذاکرصاحب نے اتنے ہی کردار اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے جن کی ضرورت پلاٹ اور واقعات کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول مختصر اور جامع ہوتے ہیں اور ان میں بلا وجہ کی نہ تو کوئی تکرار ہوتی ہے اور نہ واقعات اور کرداروں کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے۔

ذاکر صاحب کے ناول سادگی سچائی اور حقیقت نگاری کے مرقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس منظر کی عکاسی وہ اپنے ناولوں میں کرتے ہیں تو اس کی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ان کی منظر کشی کا ایک نمونہ پیش نظر ہے:

’’میں نے چاند کی طرف دیکھا۔ وہ تیزی سے افق کی طرف بھاگ رہا تھا جیسے کوئی اس کا انتظار کر رہا ہو اور اسے اشاروں سے اپنے پاس بلا رہا ہو۔ میں تمھارے اور قریب سرک گیا۔ تمہارے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر۔‘‘ (کشمیری لال ذاکر ’دھرتی سدا سہاگن‘؛ ص81)

ذاکر صاحب کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ناولوں میں مذہب کا رنگ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے زیادہ تر انھوںنے سماجی سیاسی اور معاشی مسائل پیش کیے ہیں۔ لیکن مذہب کا رنگ جھلکنے نہیں دیا ہے۔ ان کے ناولوں میں مندروں، مسجدوں، گرجاگھروں اور دوسری عبادت گاہوں کا ذکر ضمنی طور پر آتا ہے۔ ’کھجوراہو کی ایک رات‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں تاریخی مندروں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اس کا ذکر اتنا ہی آیا ہے جتنا کہ ناول کے موضوع کے اعتبار سے ضروری تھا۔

بلا شبہ کشمیری لال ذاکر اردو ادب کے اچھے ناول نگار ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اپنے قارئین کو نئی راہیں دکھائی ہیں اور زندگی کی سچی اور حقیقی تصویر بھی بڑی فنی مہارت سے پیش کی ہیں۔ان کے ناول موضوع کے اعتبار سے اردو ادب میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں جو بدلتے وقت کی آواز ہیں۔انھوں نے نئے نئے اور عصری موضوعات کا انتخاب کیا ہے اور انھیں حقیقت پسندی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ دوسرے ناول نگاروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے کرداروں کے وسیلے سے قارئین کے ایک وسیع طبقے اور حلقے کو متاثربھی کیا ہے۔

n

Rudra Shakti Jee Maharaj

H No. 12, Gali No. 2, Near Wooler Public School, Wazirabad Gaon

Delhi-110084

Mob.: 9140276752

Email: rudrasj2014@gmail.com


تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...