30/5/24

نیا عہد، نئی نسل اور نئے عنوان

 

نیا عہد، نئی نسل اور نئے عنوان

   (بچوں اور نوجوانوں کے لیے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ادب کی تخلیق و تشکیل)


        ڈاکٹر محمد شمس اقبال

ڈائرکٹر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی



قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، حکومت ہند کا ایک خود مختار ادارہ ہے ،جو اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے  سر گرم عمل ہے۔قومی اردو کونسل کو اردو زبان کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کا دائرۂ کار اردو زبان و ادب کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے بلکہ زبان کے فروغ کے لیےکتابوں کی اشاعت سے لے کر تعلیم و تربیت اور سائنسی و سماجی علوم کے تراجم تک تقریبا تمام جہتوں کا احاطہ کرنا ہے۔ کونسل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے بہتر سے بہتر صورتیں نکالی جائیں جن سے اس زبان کی ترقی کی راہیں ہموار ہوںاور یہ نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی آگے بڑھ سکے۔

 قومی اردو کونسل اردو زبان میں ،جہاں ایک طرف مختلف موضوعات جیسے ادبیات، تاریخ، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تدریس، سوانح، سائنس، تکنیک، جغرافیہ، سیاست، صحافت، طب و معالجات، فلسفہ، فنون لطیفہ، قانون، کتب خانہ داری، معاشیات، تجارت، نفسیات وغیرہ پر کتابیں شائع کرتی ہے وہیں دوسری جانب بچوں اور نوجوان نسل کے لیے بھی کتابیں شائع کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اس ضمن میں ادب اطفال پر مبنی موضوعات پر اب تک کونسل کی تقریبا تین سوستر (370)مطبوعات شائع ہو چکی ہیں۔ اسی کڑی کو مزید فعال اور سرگرم بنانے اور جدید تقاضوں کے پیش نظر بچوں اور نوجوان نسل کی نفسیات اور ترجیحات سے ہم آہنگ ادب کی تخلیق و تشکیل کی شدید ضرورت ہے۔  بچوں کے شعور و ادراک اور ذہنی ارتقا پر مرکوز موضوعات بالخصوص حقوقِ اطفال، تشدد و استحصال، صحت، غذائی قلت، ڈیجیٹل میڈیا کے خطرات، ماحولیات، آرکی ٹیکچر، آرکیالوجی، کیلی گرافی، سنیماٹوگرافی، انفوگرافکس اور دیگر حیات آموز عنوانات پر مبنی ایسی کتابوں کی اشاعت لازمی ہے جو خود شناسی، شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ممد و معاون ثابت ہوں۔

کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کو مستحکم کیا جائے۔ بنیاد اگر مضبوط ہو تو عمارت پائیدار، بلند اور شاندار ہوگی۔ بنیاد سے میری مراد بچوں اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت ہے۔ اگر بچوں کی تعلیم، ان کی کتابوں کے مواد، زبان اور پیشکش پر توجہ مرکوز کی جائے تو بچے اردو زبان کی طرف راغب بھی ہوں گے اور  ان میں اردو کی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔بچوں کے ذہنی افق کو وسیع کرنے اور ان کی تخلیقی و ادراکی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے والی کتابوں کی اہمیت، معنویت اور افادیت کوتخلیق کاروں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ کونسل نے یہ طے کیا ہے کہ اردو کے فروغ کے اس نئے سلسلے کو تخلیق کاروں کے تعاون اور شراکت سے شروع کیا جائے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں آج کے تخلیق کار کس نہج سے سوچتے ہیں؟اس سلسلے میں ہمیں کون سے اقدامات کرنے چاہیے ؟ایسا کون سا طریقۂ کار اختیار کیا جائے جو نئے اذہان کو متوجہ کر سکے۔ اس سلسلے میں ہم نے پہلے سے ہی ایک دائرہ طے کر دیا ہے تاکہ لائحہ عمل کی تشکیل و ترتیب میں آسانی ہو اورکونسل آپ کے خیالات،تجربات،مشورے اور تجاویز کی روشنی میں کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچ سکے۔

قومی تعلیمی پالیسی2020 کے تناظر میں ابھرتے ہوئے سماجی وثقافتی رجحانات کے تحت مختلف عمر کے بچوں، نوجوانوںاور بالغان کے لیے مواد کی ضرورت کے مطابق، کچھ موضوعات کی نشاندہی کی جارہی ہے، جو درج ذیل ہیں:

تاریخی اور ثقافتی وراثت

( Historical and Cultural Heritage)

ہندوستان شاندار فن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے سیاحوں کو ہندوستان کے تاریخی مقامات، کھنڈرات اور آثار قدیمہ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخی عمارتوں کا طرز تعمیر، نقاشی، مختلف تاریخی واقعات کی داستان بیان کرتے ہیں۔

ہندوستان کی زبانیں، مذاہب، فنون لطیفہ میں رقص، موسیقی، فن تعمیر اور طرز معاشرت میں خوراک اور رسم و رواج ملک کے ہر حصے میں مختلف ہیں۔ہندوستانی ثقافت کے بہت سے عناصر، جیسے ہندوستانی مذاہب،روحانی و ثقافتی تصورات، ماکولات و مشروبات، تہوار، میلے زبانیں، رقص، موسیقی اور فلموں نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

عظیم تر ہندوستان کی تاریخ بھی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ اپنے تاریخی و ثقافتی ورثے پر تمام ہندوستانیوں کو ناز ہے۔ ہندوستان کی شاندار تاریخ اور تہذیب سے نئی نسل کو روشنا س کرانے کے لیے مضامین، افسانے اور دیگر اصناف میں اسے موضوع بنایا جاسکتا ہے تاکہ ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کے امتیازی نقوش سے آگہی کی ایک بہتر صورت نکل سکے۔

سائنس فکشن

(Science Fiction)

اردو میں سائنس سے متعلق ادب کا ایک بیش بہا ذخیرہ موجود ہے، لیکن یہ کتابیں زیادہ تر پرانے قارئین کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اس موضوع کا مقصد بچوں کے لیے سائنس کے مختلف تصورات اور ایجادات کو تخلیقی اور دلچسپ نقطہ نظر کے ساتھ متعارف کرانا ہے۔ اس میں کوڈنگ اور اے آئی (Artificial Intelligence)، روبوٹکس، کائنات، فلکیات وغیرہ جیسے ذیلی موضوعات شامل ہوسکتے ہیں۔

 نامور شخصیات

(Eminent Personalities)

ہندوستان زمانۂ قدیم سے ایسی عظیم ہستیوں کا گہوارہ رہا ہے جن کی شہرت اور شناخت عالمی سطح پر ہے مگر بہت سی نامور شخصیات ایسی ہیں جن پر اب تک ہمارے قلمکاروں نے توجہ نہیں دی ہے۔ بہت سےادیب، سائنس داں، داستان گو، صحافی،مورخ ، فنون لطیفہ اور لوک ادب سے جڑے ہوئے فنکارایسے ہیں جن کی شخصیت کو موضوع بنا کر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ان کے علم و فن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ بچوں کے ادب میں ان کی شخصیت کو اس طرح ابھارا جا سکتا ہے کہ بچے ان کو پڑھ کر ان سے متاثر ہوں اور اس شخصیت کے مثالی کردار کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کر سکیں۔ نوبل ، بھارت رتن، گیان پیٹھ ایوارڈ یافتگان اور مختلف شعبہ حیات کی ممتاز شخصیات کے بچپن کے احوال، ان کی زندگی کی جدوجہد، ان کی کامرانیاں اور اَن کہی کہانیاں جیسے موضوعات پر بھی کتابیں تیار کی جا سکتی ہیں۔

تہذیبی و لسانی تنوع

(Cultural and Linguistic Diversity)

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں چند کوس پر زبانیں بدلتی ہیں اور لوگوں کا کلچر الگ ہوجاتا ہے۔ رسم و رواج بدل جاتے ہیں، اس کثیر لسانی اور تہذیبی ملک میں ایسے ادب کو سامنے لانا ضروری ہے جو نوجوان نسل کو ہندوستان کے تہذیبی و لسانی تنوع اور شمولیت (Inclusiveness)کے تصور سے متعارف کرائے۔ اس میں کثیر لسانی شمولیات، امتیازی سلوک، نسلی تنوع، سماجی و ثقافتی دقیانوسی تصورات وغیرہ جیسے ذیلی موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

صنفی مساوات

(Gender Equality)

ہم عصر دنیا میں صنفی مساوات ایک اہم موضوع ہے ۔اس کے حوالے سے جو پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے، اس کی عکاسی نوجوانوں کے پڑھنے والے ادب میں ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس کے بارے میں بنیادی سطح پر بیداری پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ صنفی عدم مساوات کے دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ صنفی مساوا ت کے تصور کو عام کرنا آج کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس میں صنفی دقیانوسی تصورات،صنفی ضابطہ حیات، زندگی کے مختلف شعبوں میں صنفی مساوات وغیرہ کے موضوعات شامل ہوسکتے ہیں۔

انٹرنیٹ سیفٹی یا حفاظتی تدابیر

(Internet Safety)

آج کل انٹرنیٹ گوگل جنریشن کی روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کے جہا ں بہت سے فوائد ہیں وہیں نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ لہٰذا بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے انٹرنیٹ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بچوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس موضوع میں سائبر جرائم، انٹرنیٹ کا مناسب استعمال، انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت بچوں کی نگرانی، ڈیجیٹل ٹریلز، سوشل میڈیا کی خرابیاں، اسکرین ٹائم کا انتظام، آن لائن اجنبیوں سے محتاط رہنا، انٹرنیٹ پر حقائق اور افسانوں میں فرق کرنا وغیرہ جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

مالیاتی خواندگی

(Financial Literacy)

یہ سرمایہ کاری کا عہد ہے۔ اقتصادیات ہمارے عہدکا ایک اہم موضوع ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مالیاتی خواندگی نصاب کا ایک حصہ ہے۔ بچت اور سرمایہ کاری سے متعلق معلومات بچوں اور نوجوانوں کے لیے بہت ضروری ہیں تاکہ مالیاتی نظم و نسق کے بارے میں انھیں پتہ ہو اور بچے اور نوجوان مالی عدم تحفظ کے احساس سے بچ سکیں اور وہ معاشی سطح پر خودمختار بن سکیں۔ اس لیے یہ موضوع موجودہ عہد میں ایک لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کا مقصد بچوں کو مالیاتی خواندگی کے پیچیدہ تصورات کو آسان اور تفریحی انداز میں متعارف کرانا ہے۔ اس موضوع میں مالیاتی انتظام، بچت، سرمایہ کاری، بینک اور ان کی خدمات کا تصور، خطرات مول لینا اور فیصلہ سازی، بجٹ سازی، کنٹرول شدہ اور دانشمندانہ اخراجات، آمدنی اور اسے پیدا کرنے کے طریقے، کاروبار، ٹیکس، اثاثے اور واجبات وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔

جسمانی اثباتیت

(Body Positivity)

جسمانی اثباتیت دورِ حاضر کے اہم تصورات میں سے ایک ہے۔ اب اس نے ایک سوشل تحریک کی صورت بھی اختیار کرلی ہے۔ اس کا مقصد جسمانی ساخت اور سائز کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کے تصو رکو مسترد کرنا ہے اور معاشرے کو بتانا ہے کہ ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرنا غلط ہے۔ اس تصور کے ذریعے معاشرے میں ایک مثبت اندازِ فکر کو فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ نسل، صنف، جنسیت، اور جسمانی اہلیت کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے بلکہ انسانی جسم کی صحت اور فعالیت پر زور دیا جائے اور شکل و صورت کی بنیاد پر پیدا ہونے والے احساسِ کمتری کو دور کیا جائے اور ہر ساخت کے جسم کا احترام کیا جائے۔جسمانی اثباتیت کے بارے میں بات کرنا اور خاص طور پر چھوٹے بچوں میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔اس موضوع میں جسمانی شبیہ،صحت مند غذائیت اور ظاہری شکل کا مقبول ثقافتی نظریہ، غذائیت، حفظان صحت وغیرہ جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

رویہ جاتی مسائل

(Behavioural Issues)

آج کے بچے اور نوجوان ذہنی جذباتی فشار اور انتشار کے شکار ہیں۔ ان کے اندر چڑچڑا پن ، فرسٹریشن، والدین اور اساتذہ کی نافرمانی و سرکشی، منشیات کا استعمال، جارحیت، تشدد، مجرمانہ رویہ، خودکشی کا رجحان، جھوٹ اور ارتکاز کی کمی جیسے رویے عام ہیں اور یہ رویے والدین اور اساتذہ کو بہت سی پریشانیوں میں ڈالتے ہیں اس لیے بچو ںکے ان رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے ادب کی شدید ضرورت ہےجو انھیں ان نفسیاتی، ذہنی امراض سے باہر نکال سکے۔ اس موضوع میں اعصابی بیماریاں، بچوں کی نشوونما اور نفسیات اور بچوں کے درمیان باہمی رشتے جیسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

ہجرت

(Migration)

ہجرت آج کے عہد کا نہایت اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر سماجیات، سیاسیات میں ہجرت سے جڑے ہوئے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ جلاوطنی، پناہ گزینی، بے گھری آج کے بہت سے لوگوں کا مقدر ہے۔ ہجرت جبری ہو یا اختیاری اس کی وجہ سے انسان اپنی مٹی اور ملک کی جڑوں سے جدا ہوجاتا ہے اور ایک اجنبی اور غیر مانوس فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ فرسٹ جنریشن مائی گرینٹس ہوں یا سیکنڈر جنریشن مائی گرینٹس، سب کے ساتھ بہت سی سطحوں پر دقتیں اور دشواریاں ہیں۔ دیارِ غیر میں انھیں اجنبیت کا احساس ستاتا رہتا ہے اور اس ہجرت کے سب سے زیادہ منفی اثرات بچوں پر پڑتے ہیں کیونکہ ہجرت کی وجہ سے وہ اپنے وطن، خاندان اور اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، میلے ٹھیلے ہر چیز سے دور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی ہجرت کی اذیت سے گزری ہے جس کی وجہ سے وہ ایک طرح سے شناخت کے بحران، بیگانگی اور ناسٹلجیا کے شکار ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہجرت کے حوالے سے جو بھی مثبت اور منفی تصورات ہیں، بچوں تک ان کی ترسیل ضروری ہے۔ ہجرت کے حوالے سے عالمی ادب میں بہت سے افسانے اور ناول لکھے گئے ہیں مگر بچوں پر ہجرت کے اثرات کے حوالے سے لکھے جانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں اپنے ملک کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے آگہی ہو اور اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کا احساس پیدا ہو۔ اس موضوع میں تارکین وطن کے تجربات، ثقافتی جڑوں سے جذباتی وابستگی، کثیر لسانی ریاستوں اور قوموں میں خاندان (دادا دادی اور توسیع شدہ خاندان) کے ساتھ تعلقات وغیرہ شامل کیے جاسکتے ہیں۔

خاندانی نامیات

(Family Dynamics)

مشترکہ خاندانی نظام کی دورِ حاضر میں بڑی اہمیت ہے کیونکہ اسی کے ذریعے روایات و اقدار، یگانگت اور رشتوں کو مستحکم اور مضبوط رکھا جاسکتا ہے۔ خاندانی نظام اگر مضبوط ہو تو بہت سے نزاعی مسائل آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں اور اس طرح زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ جو خاندان رشتوں اور محبتوں سے جڑے رہتے ہیں اور جن کے دکھ درد مشترک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی ضرورت اور مسائل کو سمجھتے ہیں ، وہی خاندانی نظام سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے بچوں کے ذہن پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں کے اندر منفی احساس جنم نہیں لیتا بلکہ وہ ایک مثبت احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے رہتے ہیںاور زندگی میں بھی ایک توازن قائم رہتا ہے۔ مگر اب خاندانی رشتے بھی بکھراؤ کا شکار ہوتے جارہے ہیں جس کا منفی اثر بچوں کے ذہن پر پڑرہا ہے۔ اس لیے مشترکہ خاندانی نظام کی اہمیت اور معنویت کو بچوں کے ذہن میں نقش کیے جانے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ خاندانی نظام بکھراؤ کا شکار نہ ہو اور بچے ایک صحت مند خاندانی نظام سے جڑے رہ سکیں۔ اس موضوع میں والدین اور بچوں پر مشتمل خاندان (Neoclear Family)، بھائی بہن کی رنجشیں عداوتیں، رشتوں میں بکھراؤ، خاندان کے افراد کے درمیان صحت مند مکالمہ، طلاق، شادی سے جڑے ہوئے مسائل و موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں۔

قومی اردو کونسل نئی نسل کی ذہنی نشو و نما اور ان کے خوابوں کو پرواز عطا کرنے کے لیے مندرجہ بالا موضوعات کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ قومی اردو کونسل نے ادب اطفال کے عالمی معیار کے مطابق کتابوں کا فارمیٹ اس طرح طے کیا ہے کہ :

·           8  تا   10 سال کے بچوں کے لیے کتابیں ایک ہزار(1000 )سے پندرہ سو (1500 )الفاظ پر مشتمل ہوں۔

·          10 سے 12 سال کے بچوں کے لیے لائن ڈرائنگ؍ خاکے کے ساتھ ڈیمائی سائز میں کہانیاں؍ معلوماتی کتابیں تین ہزار (3000) سے پانچ ہزار (5000)الفاظ پر مشتمل ہوں۔

·          12 سے زائد عمر کے بچوں کے لیے پانچ ہزار(5000)الفاظ پر مشتمل کتابیں ہوں۔

 

1 تبصرہ:

  1. یہ ایک اچھی پہل ہے ،اس میں بچوں کی تخلیقی صلاحیت بڑھانے والے موضوعات جیسے کہانیاں،نظمیں ،مضامین وغیرہ لکھنے کی تربیت اور لائف اسکل مثلا ترسیلی مہارت جیسے موضوعات پر بھی کتابوں کی تصنیف کی شمولیت کی ضرورت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...