28/3/24

کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے امکانات کی تلاش کے ساتھ اقدامات پر بھی توجہ ضروری: پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

 

اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کے ممکنہ طریقوں پر غور و خوض کے لیے جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور کی اہم میٹنگ

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں اردو کتابوں کی اشاعت و فروخت کی صورتحال کو بہتر کرنے اور اس حوالے سے نئے امکانات پر غورو خوض کے لیے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا،جس میں ہندوستان بھر سے مرکزی و ریاستی جامعات کے شعبہ ہاے اردو کے صدور نے شرکت کی اور انھوں نے اپنی قیمتی رائیں اور تجاویز پیش کیں۔اس میٹنگ کی صدارت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، شعبۂ اردو کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی۔کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس میٹنگ کی غرض و غایت بیان کی اور کہا کہ قومی اردوکونسل سے ادب کے علاوہ تاریخ،سماجیات،سائنس،طب وغیرہ پر اب تک1433کتابیں شائع ہوئی ہیں،ان میں عام دلچسپی کے علاوہ  بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کی حیثیت حوالہ جاتی اور نصابی کتب کی ہے،جن کی ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کو ضرورت پڑتی رہتی ہے۔آج کی میٹنگ کا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں کو اردو اساتذہ،اسکالرز اور باذوق قارئین تک پہنچانے کے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جائے اور ان  کی فروخت کے نئے امکانات تلاش کیے جائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ جامعات کے اساتذہ اس حوالے سے  ہمارا خصوصی تعاون کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے مختلف سطح کے تعلیمی اداروں، تنظیموں اور قارئین کے ساتھ اس طرح کی میٹنگ آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔

اس میٹنگ کے شرکا  و مقررین کا متفقہ خیال  تھا کہ جدید ٹکنالوجی کے دور میں بھلے  ہی ایک بڑا طبقہ آن لائن فارمیٹ میں کتابوں کے مطالعے کی طرف منتقل ہوا ہے ،مگر مطبوعہ کتابوں کی اہمیت اب بھی برقرار ہے اور قومی اردو کونسل سے مختلف موضوعات پر ایسی کتابیں شائع ہوتی ہیں،جو اساتذہ اور اسکالرز دونوں کے لیے نہایت مفید  ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نئی کتابوں کی اشاعت تبھی ممکن ہے، جب پہلے سے چھپی ہوئی کتابوں کی نکاسی ہو اور اس میں اردو اساتذہ و طلبہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔شرکا نے کہا کہ اردو کتابوں کی اشاعت اور خریداری کو بڑھانے کے لیے یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے تعلیمی وظائف کا ایک حصہ کتابوں کے لیے ضرور مختص کریں۔چوں کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ ٹکنالوجی سے مربوط ہے ،اس لیے یہ رائے بھی سامنے آئی کہ  کتابوں کے ڈیجیٹائزیشن  پر توجہ دی جائے اور مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ان کی سافٹ کاپی کی فروخت کے لیے بھی ایک میکانزم تیار کیا جائے،اسی طرح قارئین تک پہنچنے کے لیے جدید تکنیکی ذرائع مثلاً سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا جائے۔ مقررین نے اس پر بھی زور دیا کہ کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ کلاس روم لیکچرز میں طلبہ کومطالعے کی طرف راغب  کیا جائے اورنصابی کتابوں کو عصری انداز میں شائع کیا جائے۔شرکا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طلبہ کے ساتھ اساتذہ کے درمیان بھی  کتابیں خریدنے کا عام رجحان فروغ پانا چاہیے،تاکہ طلبہ ان سے تحریک لیں۔ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ قومی اردو کونسل کی جانب سے تمام جامعات کے شعبہ ہائے اردو کو اس تعلق سے ایک خط بھیجا جائے جس پر شعبوں کے صدر اپنے رفقا اور اسکالرس کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے لائحہ عمل بنائیں گے۔

میٹنگ کے صدر پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے  اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ تمام شرکا و مقررین کی تجاویز اور مشورے اہمیت کے حامل تھے، اب ان پر عملی اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کی یہ میٹنگ لوگوں میں کتابوں سے قربت و دلچسپی پیدا کرنے کی تحریک  کاآغاز ہے، امید ہے کہ آپ حضرات کے تعاون سے یہ  تحریک کامیابی سے بھی ہم کنار ہوگی۔ انھوں نے اس کامیاب میٹنگ کے انعقاد کے لیے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال ، کونسل کے شعبہ خرید و فروخت کے انچارج جناب اجمل سعید اور متعلقہ اسٹاف کو مباکباد بیش کی۔ میٹنگ کے شرکا و اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر احمد محفوظ(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، پروفیسر نجمہ رحمانی(دہلی یونیورسٹی، دہلی)، پروفیسر قمرالہدی فریدی(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)،پروفیسر عارفہ بشری (کشمیر یونیورسٹی)، پروفیسرشمس الہدی دریابادی(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد)،پروفیسر شبنم حمید(الہ آباد یونیورسٹی)، پروفیسر شائستہ انجم نوری (پاٹلی پترا یونیورسٹی)،پروفیسر رضوان علی(رانچی یونیورسٹی)،پروفیسر سورج دیوسنگھ(پٹنہ یونیورسٹی)،پروفیسر اسلم جمشید پوری (چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ)،پروفیسر سید فضل اللہ مکرم (سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد)، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز (ممبئی یونیورسٹی)، ڈاکٹر جاوید رحمانی(آسام یونیورسٹی، سِلچَر)، ڈاکٹر زرنگار یاسمین(مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی، پٹنہ)، ڈاکٹر شاہد رزمی (مونگیر یونیورسٹی، بہار) اور ڈاکٹر خان محمد آصف (گوتم بدھ یونیورسٹی،نوئیڈا) شامل تھے۔  

محترمہ شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائرکٹر اکیڈمک)کے اظہار تشکر کے ساتھ میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔  

قومی اردو کونسل میں نئے کریمنل لا کے تئیں واقفیت پر خصوصی لیکچر سے متعلق اردو اخبارات میں شائع شدہ خبروں کے تراشے






 

27/3/24

بھارتیہ نیاے سنہتا2023 کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے قومی اردو کونسل میں پروفیسر نزہت پروین کا لیکچر

 

 نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں بھارتیہ نیاے سنہتا2023 کے تعلق سے واقفیت اور بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے ایک خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ اس اہم موضوع پر لیکچر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کی فیکلٹی آف لا کی سابق ڈین پروفیسر نزہت پروین نے دیا۔ اپنے لیکچر میں انھوں نے بھارتیہ نیاے سنہتا2023کے تینوں پہلووں،بھارتیہ نیاے سنہتا2023 ،بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا 2023 اور بھارتیہ ساکشیہ سنہتا 2023 پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ ان سے واقفیت تمام شہریوں کے لیے ضروری ہے،اس لیے کہ بھارتیہ نیاے سنہتا2023میں جرم و سزا  سے متعلق بہت سے قوانین سرے سے تبدیل ہوگئے ہیں،ان کی دفعات میں بھی ترمیم ہوئی ہے اور ان کی تعریف و توضیح بھی نئے سرے سے کی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ یہ تبدیلیاں اس لیے کی گئی ہیں کہ انڈین پینل کوڈ  1860 میں عمل میں آیا تھا اورتقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا تھا،اس کے بعد حالات بھی بہت بدل گئے ہیں،جرائم کی نوعیت اور طریقے بھی نئے نئے سامنے آرہے ہیں،اسی طرح پرانے کریمنل لا میں بہت سی دفعات ایسی بھی تھیں، جن پر عمل نہیں ہورہا تھا،اس لیے انھیں سرے سے ختم کردیا گیا ہے۔انڈین پینل کوڈکا نام اب بھارتیہ نیاے سنہتا2023 ،کریمنل پروسیجر کوڈ کا نام بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا 2023اورانڈین ایویڈنس کا نام بھارتیہ ساکشیہ سنہتا 2023 ہوگا ،پہلے انڈین پینل کوڈ کی کل دفعات 511تھیں ،جن کی تعداد حذف و ترمیم کے بعد اب356ہوگئی ہے۔

پروفیسر پروین نے کہا کہ پچھلے کریمنل لا میں بہت ساری سزائیں ایسی تھیں، جو اب نہیں دی جاتیں،نئے قانون میں  انھیں حذف کردیا گیا ہے،اسی طرح اس میں جرم کی سنگینی کے اعتبار سے سزاؤں میں بدلاؤ کیا گیا ہے۔ کچھ بڑی قانونی تبدیلیوں کے بارے  میں باخبر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب تک عمر قید کی مدت چودہ سال تھی ،مگر نئے قانون کے تحت اس کی مدت پوری زندگی ہوگی۔بھارتیہ نیاے سنہتا2023میں بچوں سے متعلق  جرائم پر بھی خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، ماب لنچنگ ،منظم جرائم ، قومی سلامتی ، خودکشی کی کوشش  اور چوری کی مختلف قسموں سے متعلق  بھی نئے قوانین  بنائے گئے ہیں۔ پروفیسر نزہت پروین نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریتوں میں حالات کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں،تعزیراتِ ہند سے متعلق قوانین میں یہ تبدیلی دراصل ایک ترقی پسندانہ بدلاؤ ہے، جسے ہم سب کو قبول کرنا چاہیے ، ابھی یہ اپنی ابتدائی شکل میں ہے،اس لیے کچھ کمیاں بھی ہوں گی،جنھیں آئندہ مزید غور و خوض کے بعد یقیناً درست کیا جائے گا۔ لیکچر کے اختتام پر سوال جواب کا سلسلہ بھی رہا۔ آخر میں محترمہ شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک) نے اظہار تشکر کیا۔ اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال کے علاوہ جناب محمد احمد (اسسٹنٹ ڈائرکٹر ایڈمین)، ڈاکٹر کلیم اللہ (ریسرچ آفیسر)، جناب شاہنوازمحمد خرم (ریسرچ آفیسر) اور کونسل کے تمام اسٹاف موجود تھے۔

21/3/24

اردو میں ماحولیات اور دیگر سائنسی موضوعات پر آسان زبان میں کتابیں شائع کی جائیں: پروفیسر تسنیم فاطمہ

 


قومی اردو کونسل میں نئے مسودات کی اشاعت کے حوالے سے میٹنگ


نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں آج ایک میٹنگ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں کونسل کو موصول ہونے والے مختلف مسودات/تراجم کی اشاعت کے سلسلے میں غور و خوض کیا گیا اورمیٹنگ میں شریک  ماہرین کی رائے لے کر اس حوالے سے حتمی فیصلے کیے گئے۔اس میٹنگ کی صدارت پروفیسر تسنیم فاطمہ نے کی اور کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ قومی اردو کونسل ایک معیاری ادارہ ہے،اس لیے ہمیں یہاں سے معیاری کتابیں ہی شائع کرنی چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کئی ایسے اہم موضوعات ہیں،جن پر اردو میں بہت کم مواد دستیاب ہے،اس لیے ادب کی اشاعت کے علاوہ ہمیں اس پہلو  پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کونسل سےعصری موضوعات پر دوسری زبانوں میں شائع شدہ اہم کتابوں کے اردو تراجم کی اشاعت کااہتمام کیا جائے گا۔ میٹنگ کی چیئرپرسن پروفیسر تسنیم فاطمہ نے  کونسل کے نومنتخب ڈائرکٹر کو مبارکباد پیش  کی اور کتابوں کی اشاعت کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو میں نئے موضوعات،خصوصاً سائنس،ماحولیات اور لائف سائنس کے دوسرے گوشوں پر آسان زبان میں کتابیں مہیا کروانا ضروری ہے،تاکہ نئی نسل ان سے بخوبی استفادہ کرسکے۔

میٹنگ کے دیگر ممبران میں پروفیسر عارفہ بشریٰ(ڈین اسکول آف آرٹس و صدر شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی)،ڈاکٹر سید مشیر عالم(سکریٹری اوڈیشا اردو اکیڈمی) اور جناب پی وی سوریہ نارائن مورتی(مہک حیدرآبادی،ڈپٹی نیوزایڈیٹرروزنامہ آندھرا جیوتی) آن لائن  شامل ہوئے۔ان کے علاوہ کونسل سے ڈاکٹر کلیم اللہ(ریسرچ آفیسر)، ذیشان فاطمہ(ریسرچ اسسٹنٹ) اور جاوید عالم(ٹیکنکل اسسٹنٹ) بھی موجود رہے۔افروز عالم نے تکنیکی سپورٹ فراہم کیا۔

19/3/24

ڈاکٹر شمس اقبال نے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر کا چارج سنبھالا

رخصت پذیر ڈائرکٹر پروفیسر دھننجے سنگھ نے انھیں چارج سونپتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا

 نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نئے ڈائرکٹر کے طورپر آج ڈاکٹر شمس اقبال نے چارج سنبھال لیا۔ اس موقعے پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا ، جس میں رخصت پذیر ڈائرکٹر پروفیسر دھننجے سنگھ نے ڈاکٹر شمس اقبال کو چارج سونپتے ہوئے گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا اور اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ کونسل کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے میرے سات آٹھ مہینے بہت یادگار تھے، نئے ڈائرکٹر کے طور پر ڈاکٹر شمس اقبال کا میں تہہ دل سے استقبال کرتاہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ کونسل جیسے اردو کے مرکزی ادارے کے لیے شمس اقبال صاحب سے بہتر انتخاب نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ برسوں سے حکومتِ ہند کے اہم ترین ادارے این بی ٹی میں ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور اس عرصے میں انھوں نے اردو زبان کے فروغ اور اردو کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ان کی سربراہی میں کونسل ترقیات کی نئی منزلیں طے کرے گی۔

 ڈاکٹر شمس اقبال نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں حکومتِ ہند اور وزارتِ تعلیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے قومی اردو کونسل جیسے اردو کے اہم ادارے کی ذمے داری مجھے سونپی۔ انھوں نے کہا کہ کونسل محض ایک ادارہ نہیں ہے، بلکہ قومی سطح پرشرحِ خواندگی کو بڑھانے اور کتاب کلچر کے فروغ میں کونسل کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ کونسل کی باوقار شناخت کو مزید مستحکم کیا جائے اور اس کے ذریعے چلائی جارہی فروغ اردو کی اسکیموں کو دور دراز تک پہنچایا جائے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر شمس اقبال اس سے قبل این بی ٹی میں ایڈیٹر رہ چکے  ہیں، قومی اردو کونسل میں بحیثیت پرنسپل پبلیکیشن آفیسر بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں اور طویل انتظامی تجربات رکھتے ہیں۔

اس موقعے پر کونسل کا تمام اسٹاف موجود رہا اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر جناب محمد احمد کے اظہارِ تشکر کے ساتھ استقبالیہ تقریب کا اختتام ہوا

13/3/24

مظہر امام کی خاکہ نگاری: مضمون نگار ابرار حسین

 
مظہر امام بہار کے شہر دربھنگہ میں 12مارچ  1928 کو پیدا ہوئے۔ آپ ایک ذی علم خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ والد کا نام سید امیر علی تھا اور والدہ کنیز فاطمہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی۔  1951 میں  بی۔ اے اور 1969 میں بہار یونیورسٹی سے فارسی میں اور 1971 میں مگدھ یونیورسٹی سے اردو سے ایم اے کیا۔ گریجویشن کے بعد کلکتہ میں صحافت اور درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 1975 میں سری نگر دوردرشن سے منسلک ہوئے اور وہیں سے سلیکشن گریڈ ڈائرکٹر کے منصب سے 19 میں ریٹائر ہوکر دہلی آگئے۔

اردو ادب کی دنیا میں مظہر امام شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے افسانے بھی لکھے لیکن ان کا خاص میدان شاعری تھا۔شاعری میں غزل، نظم، نظم معریٰ، آزاد نظم،ترائلے، سانیٹ ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ان کو شاعری کے ہئیتی تجربوں سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ کلام کی باقاعدہ اشاعت کا سلسلہ ’نقوش‘ لاہور (دسمبر1950) اور شاہراہ، دہلی (اکتوبر 1951) سے ہوا۔ ان کے کلام کے ترجمے انگریزی، روسی، عربی کے علاوہ ہندوستان کی تقریباً تمام اہم زبانوں مثلاً ہندی، بنگالی، آسامی، اڑیا، میتھلی، سندھی، گجراتی، مراٹھی، پنجابی، کشمیری اور ڈوگری وغیرہ میں ہوچکے ہیں۔

مظہر امام کا پہلا شعری مجموعہ ’ زخم تمنا‘1962 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’رشتہ گونگے سفر کا‘ 1974 اور تیسرا شعری مجموعہ ’پچھلے موسم کا پھول‘ 1988 میں منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ان کی تقریباً پچاس منتخب نظموں کا مجموعہ ’بند ہوتا ہوا بازار‘ 1992 میں شائع ہوا۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثری تخلیق قابل قدر ہیں۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’آتی جاتی لہریں‘ 1981، 1988 میں تحقیقی اشاریہ ’آزاد غزل کا منظر نامہ‘۔ ساہتیہ اکادمی نئی دلی کی جانب سے 1992  میں ’ہندوستانی ادب کے معمار‘ جمیل مظہری پر ان کا مونوگراف منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ادبی شخصیتوں کے خاکوں کا مجموعہ ’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے نام سے 1993 میں اشاعت پذیر ہوا۔

مظہرامام  نے 30 جنوری 2012 کو اس دار فانی سے داربقا کی طرف کوچ کیا۔

مظہر امام کے خاکوں کا مجموعہ ’اکثریاد آتے ہیں‘ 1993 میں منظر عام پرآیا۔ اس میں آٹھ خاکے شامل ہیں۔ جگر مرادآبادی، عبد الرزاق ملیح آبادی، اشک امرتسری، جمیل مظہری، پرویزشاہدی، کرشن چندر، اختر قادری اور خلیل الرحمن اعظمی ہیں۔ اس مجموعے میں اپنے اساتذہ کا تذکرہ، بعض بزرگوں کے نظریات، ان کی خوبیوں، کمزوریوں اور دوستوں کی کارستانیاں وغیرہ کے ذکر کے ساتھ مصنف نے طالب علمی کے دور کی کمزوریوں کی روداد بھی پیش کی ہے۔

مظہر امام نے جن آٹھ شخصیات پر اپنی یاد داشتوں کو قلمبند کیا ہے۔ ان میں بعض تاثراتی مضامین کا درجہ رکھتے ہیں اور بعض خاکے فنی معیار پر اترتے ہیں۔ 

افتخار اجمل شاہین کے نزدیک مظہر امام کے خاکے، خاکے کے فن پر کھرے نہیں اترتے بلکہ ان کے خاکے کو شخصی مضامین یا یادداشتوں کا نام دیا ہے لیکن حیدرقریشی نے مظہر امام کے ان مضامین کو ’آزاد خاکے‘ کانام دیا ہے جو بہت حدتک درست بھی ہے۔ مظہر امام ادب میں تجربے کے قائل ہیں۔ چنانچہ انھوں نے غزل سے آزاد غزل کا تجربہ کرکے اسے ایک باضابطہ شکل دی۔ اس وجہ سے انھیں آزاد غزل کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے خاکوں کی معروف اور مروجہ تعریفوں سے ہٹ کر آزاد خاکوں کا تجربہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حیدر قریشی ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے مضامین کو شاید خاکہ کی کسی لگی بندھی تعریف کے دائرے میں لانا مشکل ہو۔ اس کے باوجود ان مضامین میں خاکہ نگاری کے بیشتر اوصاف موجود ہیں۔ مظہر امام نے اپنے آٹھ ممدوحین کی صورت میں باری باری آٹھ آئینوں میں اپنے آپ کو دیکھا ہے۔ ہر آئینے میں ان کی شخصیت اپنے گزرے ہوئے کسی زمانے کو ساتھ لیے جلوہ گر ہے۔ پھر اسی زمانے کی خاک سے ان کے ممدوح ابھرتے ہیں اور مظہر امام کے ساتھ بتائی ہوئی اپنی زندگی پھر سے جیتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

بہرحال مظہر امام کے یہ مضامین خاکہ نگاری کے معیار پرکھرے اترتے ہوں یا نہ اترتے ہوں لیکن ان تحریروں میں مذکورہ شخصیتوں کے ضمن میں بعض ایسے پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے جن کا ذکر دوسری جگہ نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے مظہر امام کے یہ خاکے منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔

خاکہ نگار کو کسی شخصیت کا خاکہ لکھنے سے پہلے اس کے بارے میں پوری جانکاری رکھتا ہویا اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہو، تبھی وہ ایک اچھا خاکہ لکھ سکتا ہے۔ خاکہ نگار شخصیت کی تصویر اس وقت بنا سکتا ہے جب شخصیت کے تمام پہلوؤں کو غیر جانبدارہوکر پیش کرے۔ مظہر امام نے اپنے خاکوں میں جانبداری سے کام لیا ہے۔ وہ شخصیات کی ادبی قابلیت ان کے اخلاق و کردار اور سیرت کے صرف مثبت پہلوؤں پر ہی نظر رکھتے ہیںاور منفی پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

خاکے کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ خاکوں میں چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے شخصیت کے کردار،اخلاق اور سیرت وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں جس سے شخصیت اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔ لیکن مظہر امام کے خاکوں میں چھوٹے چھوٹے واقعات نظر نہیں آتے بلکہ وہ ایک تواتر سے شخصیت کی ادبی اور سماجی حیثیت کو بیان کرتے ہیں۔

تمام اصناف ادب کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے جس سے وہ صنف پہچانی جاتی ہے۔ خاکے کا بھی اپنا ایک اسلوب ہے۔ وہ یہ کہ خاکے کی تحریروں میں شگفتگی اور سنجیدگی کے ساتھ کہیں کہیں طنزو مزاح کے پہلو بھی نظر آئیں۔ مظہر امام کے یہاں وہ اسلوب کی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں تنقیدی اسلوب اختیار کیا ہے جس سے ان کی تحریر خشک نظر آتی ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے مزاح پیدا کرنے سے بھی قاصر  ہیں۔ ہمیں ان کے خاکوں میں انھی ساری کمیوں کاشدت سے احساس ہوتا ہے۔  

’اکثر یاد آتے ہیں‘ کا پہلا خاکہ جگر مرادآبادی کی شخصیت پر ہے۔ اس خاکے کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے۔

’’جگر صاحب کا نام بچپن سے ہی سنتا آیا تھا۔ میٹرک کا طالب علم تھا جب اپنے بڑے بھائی جناب حسن امام درد کے اصرار پر پہلی دفعہ کسی مشاعرے میں شرکت کا اتفاق ہوا۔''


(خاکہ جگر مرادآبادی، مشمولہ، اکثر یاد آتے ہیں، ص 5)

مظہر امام کو بچپن سے ہی جگر مرادآبادی سے ذہنی وابستگی رہی ہے۔ ان میں ادبی ذوق پیدا کرنے اور ان کو شاعری کی طرف راغب کرنے میں جگر مرادآبادی کی پرکشش شخصیت کا شعوری و غیر شعوری طور پر ایک اہم رول رہاہے۔ جگر صاحب سے کئی ملاقاتیں بھی رہی ہیں، اس کا ذکر مظہر امام نے خاکے میں کیاہے۔ چنانچہ انھوں نے جگر کی شخصیت کو پیش کرنے میں اپنی خاکساری، معتقدانہ اور سعادت مندانہ انداز اختیار کیا ہے۔

اشک امرتسری ایک شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ مظہر امام ان کے خاکے میں شاعری کے ذریعے ان کی شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ یہ مجموعے کا مختصر ترین خاکہ دس صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن ایک ایسے شخص سے متعلق معلومات سے پر ہے جسے غیر متغزلانہ زبان اور کھردرے موضوعات کی بنا پر شرفا کی بزم سخن میں شرکت کی دعوت نہ دی جاتی تھی لیکن صاحب کتاب ان کی خداداد صلاحیتوں اور ذاتی خوبیوں کی بنا پر ان سے رشتہ یگانگت استوار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مظہر امام جب کلکتہ گئے تو وہاں کے ادبی ماحول سے نا آشنا تھے۔ کلکتے میں اپنے دوستوں (انوار عظیم،ش مظفر پوری اور نشاط الایمان)کے علاوہ کسی سے شناسائی نہ تھی۔ اچانک ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ان کے پاس آیا۔ جب مشاعرے میں پہنچے تو پہلی بار اشک امرتسری پر نظر پڑی جو مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے اس وقت مظہر امام کے ذہن میں اشک امرتسری کا جو نقشہ ابھرا اس کو خاکے میں اس انداز سے بیان کیا ہے:

’’انور عظیم شعراکے نام پکار رہے تھے۔ سردار جعفری اور پرویز شاہدی کے قریب مسند صدارت پر ایک دبلا پتلا شخص موٹے شیشے کی عینک لگائے معمولی قمیص پائجامے میں ملبوس بیٹھا تھا۔ اندر کو دھنسے ہوئے رخسار،حد سے بڑھی ہوئی لمبی ناک،چہرے پر چیچک کے گہرے داغ، مہندی سے رنگے ہوئے بال، عمر پچاس کے لگ بھگ۔ بھلا ایسے صدر سے کون متاثر ہوتا! معلوم ہوا،آپ اشکــــــ امرتسری ہیں۔‘‘

(خاکہ اشک امرتسری،مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص28)  

مظہر امام نے خوش اسلوبی سے جمیل مظہری کا تفصیلی تعارف کرایا ہے اور ان کے متعلق بہت ساری معلومات بہم پہونچائی ہیں کہ وہ کلکتہ اور پٹنہ میں ان سے برابر ملتے اور قریب سے دیکھتے رہے۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو ان کی شخصیت سے وابستہ ہوکر مشہور ہوچکی ہیں اور ایسی باتیں بھی جن سے ان کے کردار کی عظمت نمایاں ہوتی ہے۔ جیسے شراب نوشی سے مکمل پرہیز اور اپنے ناداراقربا کی مالی امداد کرنا۔  

مظہر امام نے جمیل مظہری کے خاکے میں ان کے شاعرانہ اوصاف کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جمیل صاحب نے ایک عرصے تک شادی نہیں کی، اپنی پہلی محبت کو سینے سے لگائے رہے۔ دوستوں اور عزیزوں کے اصرارپر 40 سال کی عمر میں مٹیا برج کی ایک بیوہ سے شادی بھی کی تو ازدواجی زندگی کا سکھ انھیں نصیب نہ ہوسکا۔ حد تو یہ کہ ان کی بیوی کے یہاںآنا جانا بھی نہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ جمیل صاحب صاف صفائی کے معاملے میں قدرے بے پرواہ تھے، لیکن ایک درد مند طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بھائی اور بہن کے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ آمدنی کا زیادہ تر حصہ عزیز و اقارب پر خرچ کردیتے تھے۔ مظہر امام ان کی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جمیل مظہری دوسروں کی خوشی اور غم دونوں میں شریک ہوتے تھے۔ یہ وضع داری آج کی تیز رفتار زندگی میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ کہتے تھے! ’’اے گم شدگی! اے بے نیازی! تیرا نام جمیل مظہری ہے۔‘‘ایسے پراگندہ طبع لوگ کہاں ہیں۔ کاش ایسی گم گشتگی اور بے نیازی ہر ایک کو میسر ہو جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے، جو دوسروں کی خوشیوں پر اپنی محرومیوں کا سایہ نہ پڑنے دے۔‘‘ 

(خاکہ جمیل مظہری، مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں، ص 65)

اختر قادری پر تحریر کردہ خاکہ ایک لائق اور سعادت مند شاگرد کی جانب سے ایک خوبصورت خراج عقیدت ہے۔ مظہر امام اپنے استاد سے پہلی ملاقات، پھرملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہونے کی وجہ سے استاد سے بہت زیادہ قریب ہوگئے اوراس قربت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مظہر امام جو بھی تخلیق کرتے استاد کوبطور اصلاح ضرور دکھاتے۔ قادری صاحب اس تخلیق کی تعریف کرتے اور اصلاح بھی فرماتے۔ استاد سے اپنی شعری اصلاح کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’مجھے صحیح یاد نہیں،شاید 1946 میں اپنی  20-18 بالکل ابتدائی غزلیں میں نے ان کے پاس اصلاح ومشورہ کی غرض سے بھیجیں۔قادری صاحب نے حسب معمول انکساری سے کام لیتے ہوئے لکھاکہ آپ میں شعر گوئی کی خداداد صلاحیت ہے، وغیرہ وغیرہ اس لیے کلام پر اصلاح کیا معنی!البتہ آپ نے اتنی محبت سے یاد کیا ہے تو کہیں کہیں اپنے خیالات پیش کردوں گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادری صاحب نے بہت توجہ سے ان غزلوں کو دیکھا، کہیں کہیں ترمیم کے اسباب بھی بتائے،کچھ اشعار کو قلم زد بھی کیا،ایک حذف کردہ شعر یہ تھا ؎

ان دنوں ناراض ہے مجھ سے خدا

رازگار سر خوشی ہے آج کل

اس پر اختر قادری نے اتنا لکھا تھا:نعوذباللہ آپ نہیں جانتے،خدا کی ناراضی کیا ہے!‘‘

(خاکہ اختر قادری مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص139)

کرشن چند رکے خاکے کی ابتدا عقیدت مندانہ لب و لہجے سے کی گئی ہے۔ ان کے کئی افسانوں کے نام گنواکر ان کے مطالعے ہی کی نہیں بلکہ انھیں حرز جاں بنانے کی بات کی گئی ہے۔ پھر ان سے خط وکتابت اور کلکتہ میں ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی سے مظہر امام کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ یہ دونوں ایک عرصے تک ترقی پسند تحریک کے شہسواروں میں تھے، چنانچہ اس حوالے سے ان دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور ملاقات و تعلقات کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ مصنف نے اس تاثراتی خاکے میں خلیل الرحمن اعظمی کی یارباشی، ان کے اخلاق و محبت، ان کا حافظہ، معروف اور غیر معروف ادیبوں کی چیزوں کو پڑھنا، یاد رکھنا نیز ان کی شعری وادبی خدمات وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے ملاحظہ ہو:

’’خلیل الرحمن اعظمی شاعر اور نقاد کی حیثیت سے دو چار سال کے اندر ہی معتبر تسلیم کر لیے گئے اور ان کی نثری اور شعری تخلیقات ارباب نقدو نظر کی توجہ کا مرکز بننے لگیں۔ انھیں جائز طور پر نئی غزل کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کے مضامین میں جو بصیرت اور نظر ملتی ہے،خیالات کی جو صفائی،وضاحت اور انداز نظر کی جو معروضیت ہے وہ ہماری نئی تنقید کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔‘‘

 (خاکہ خلیل الرحمٰن اعظمی،مشمولہ اکثر یاد آتے ہیں،ص148)

مظہر امام کے خاکے شاہد ہیں کہ انھوں نے بحیثیت خاکہ نگاراپنے قلم کے جوہر دکھانے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں شخصیت کے حوالے سے ادبی اور تہذیبی دنیا کے ایک عہد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اپنے انداز سے خاکہ نگاری کی روایت میں توسیع بھی کی ہے۔ ان کے خاکے الگ الگ زمانے میں لکھے گئے مگر مجموعے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان آٹھ منفرد اور باکمال شخصیتوں کے درمیان تقریباًاسی معیار کی نویں شخصیت بھی اپنے پورے جمال وکمال کے ساتھ ابھری ہے اور وہ شخصیت خاکہ نگار کی ہے۔  ’اکثر یاد آتے ہیں‘ کے خاکوں کے مطالعے سے بلاتامل کہا جا سکتا ہے کہ ان خاکوں کو مصنف نے پوری دل سوزی اور خلوص کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ خاصے معلوماتی بھی ہیں اور دلچسپ بھی اور اردو کے شخصی خاکوں میں یاد رکھے جانے کے لائق بھی ہیں۔


Abrar Husain Azmi

Research Scholar, Delhi University

Delhi- 110007

Mob.: 9598910538


6/3/24

قومی یکجہتی کا نمائندہ شاعر: نظیراکبرآبادی:جواد حسین

 

بہت سارے باصلاحیت اور صاحب کمال لوگ کسی لابی یا گروپ کا حصہ نہیں بن پانے کی پاداش میں گمنامی کی زندگی گزارتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں جو معمولی صلاحیت کے باوجود باکمال لوگوں میں شمار ہی نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ہر محفل اور ہر جگہ صف اول کے مالک بنے بیٹھے ہوتے ہیں، یہیں پر ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ باکمال اور صاحب استعداد لوگوں کو چاہے زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل پائے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں، مگر بعد از مرگ ایسے لوگوں کے فن کا اعتراف دنیا ضرور کرتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اردو کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کے ساتھ بھی ہوا، انھوں نے معلم کی حیثیت سے زندگی گزاری اور پوری زندگی اردو شاعری کے گیسو سنوارتے رہے، لیکن اپنے زمانے میں چونکہ وہ کسی گروپ کا حصہ بن سکے، نہ ہی کسی امیر یا وزیر کی انھیں پشت پناہی حاصل ہوسکی، اسی لیے انھیں جو مقام و مرتبہ ملنا چاہیے تھا وہ ان کے حصے میں نہیں آسکا۔ رشید خاں نے انتخاب نظیر اکبر آبادی کے ’تعارف‘ میں لکھا ہے:

 ’’ایک بات اور، کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظیر کی سماجی حیثیت بھی، ان کے راستے کا پتھر بن گئی۔ وہ ایک معلم تھے جس کی پشت پر نہ تو کسی معروف خاندان کی درویشی، سیادت یاسپہ گری کا پشتارہ تھا اور نہ کوئی ایسی ذاتی وجاہت حاصل تھی، جس کو اس زمانے میں قابل لحاظ سمجھا جاتا ہو، باتیں کرتے تھے سوفی صدی عام لوگوں کی زبان میں اور کہتے تھے وہ باتیں جن کو گفتگو کا موضوع تو سمجھا جاتا تھا، شاعری کا موضوع نہیں بنایا جاتا تھا، اس عہد کے معروف شاعروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی نسبت ضرور شامل تھی جس کو سماجی سطح پر قابل توجہ سمجھا جاتا تھا اور ایسی نسبتوں نے شخصیت کے نقش کو ابھارنے میں بہت مدد دی ہے۔‘‘

نظیر کا زمانہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر سے انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی تک کا زمانہ ہے۔ وہ 1740 میں پیدا ہوئے اور نوے سال کے قریب عمر پاکر 1830 میں چل بسے۔ ان کا اصل نام ولی محمد تھا اور وہ محمد شاہ ثانی کے دور میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن احمد شاہ ابدالی کے حملے کے بعد وہ دہلی سے آگرہ چلے گئے اور یہاں تاج گنج میں انھوں نے سکونت ہی اختیار نہیں کی بلکہ پوری زندگی یہیں بسر کردی، یہاں تک کہ اُن کے اِس وطن ثانی کی نسبت ہی ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا جزو لاینفک بن گئی۔ نظیر فارسی کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت عربی بھی جانتے تھے، برج بھاشا سے بھی واقف تھے، درس و تدریس ان کا مشغلہ تھا اور یہی ذریعہ معاش۔ آخر عمر میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور یہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔ اس بات پر نظیر کے سارے سوانح نگار متفق ہیں کہ انھیںمجلسی زندگی بہت عزیز تھی:

’’وہ ایک یار باش آدمی تھے اور ہر طبقے اور مزاج کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ جوانی میں بڑے رنگین مزاج تھے۔ کھیل کود، پتنگ بازی، پیراکی، ورزش، کبوتر بازی ان کی دلچسپیوں میں شامل تھے۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کے تہواروں میں حصہ لیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ آزادانہ زندگی کی تصویروں نے ان کے کلام میں غیر معمولی وسعت اور رنگا رنگی پیدا کی ہے۔ روایتی شاعری کرنے کے علاوہ نظیر نے عوامی شاعری بھی کی۔ یہی ان کی پہچان بن گئی۔ ان کی عوامی نظموں میں ہندو مسلم روایات، تہواروں، مختلف مذہبوں کی برگزیدہ ہستیوں، ہندوستان کے مناظر، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں اور کھانوں کا غیر رسمی انداز میں ذکر ہوا ہے… نظیر کا ذخیرۂ الفاظ بھی حیرت انگیز حد تک وسیع تھا۔‘‘  (جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، ج1)

بلاشبہ نظیر کے یہاں ذخیرہ الفاظ کی یہ وسعت اور عوامی شاعری کی یہ شان و شوکت اسی لیے پیدا ہو سکی ہے کہ وہ قومی یک جہتی کے علمبردار تھے اور ہمارے شعر و ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی محنت اکارت نہیں گئی اور ان کے اسی مزاج اور رویے نے ان کو دائمی عزت، شہر ت اور شناخت بخش دی، یہاں تک کہ آج بھی نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں او ر یہ حقیقت بھی ہے چونکہ ان کے مضامین کو دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی زندگی، ماحول و معاشرت کی بحسن و خوبی ترجمانی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نسبت کے سہارے کے بنا ان کی شاعری کی مقبولیت اُس عہد میں بھی کم نہیں تھی اور آج بھی اس کی معنویت و مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

یہ بات پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے بھی بہت بڑے نمائندہ شاعر تھے۔ یہاں نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے حوالے سے ’قومی یکجہتی‘کی وضاحت سے قبل ’قومی یکجہتی‘ کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قومیت کا مشترکہ باطنی احساس ہی قومی یکجہتی کا اولین زینہ اور ستون ہے۔ آج سے برسوں پہلے اثر لکھنوی نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ــ’درس اتحاد‘ اس نظم میں انھوں نے ’قومی یکجہتی‘کا مرکب لفظ تو استعمال نہیں کیا ہے پر لفظ ’یکجہتی‘ کا مفرد لفظ ضرور استعمال کیا ہے۔اس نظم کو پڑھنے کے بعد یہ پوری طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ قومی یکجہتی کیا ہے؟اور عدم یکجہتی کی صورت میں شاعر کے قلم سے وجود میں آنے والے الفاظ شاعر کی اندرونی اور باطنی کیفیت کو بایں طور ظاہر کرتے ہیں کہ درد وکرب اور قلق و اضطراب کی پوری دنیا سامنے آجاتی ہے۔اثر لکھنوی کے اشعار ملاحظہ فرمائیں        ؎

الفت ہوئی رسم پارینہ

ہے اس کی جگہ دل میں کینہ

اگلوں کے چلن ہم بھول گئے

وہ رسم کہن ہم بھول گئے

آپس کی رواداری  اٹھی

 الفت اٹھی یاری اٹھی

وہ یوگ رہا نہ وہ پریت رہی

بس ایک نفرت کی ریت رہی

یکجہتی جب مفقود ہوئی

اور فکر زیان و سود ہوئی

وہ جذب کی طاقت سلب ہوئی

توفیق ہدایت سلب ہوئی

مذکورہ اشعار کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکجہتی کے لیے آپسی محبت و بھائی چارگی اور الفت و مودت نہایت ضروری ہے۔یہ یکجہتی کے قیام کا وہ جوہر نایاب ہے جسے کسی بھی صورت میں آپس سے رخصت نہیں ہونے دینا چاہیے۔چونکہ اس کے بغیر ہمارا قومی اتحاد واتفاق منتشر ہو جائے گا اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائے گا اور جب ایک ساتھ مختلف مذاہب اور عقائد کے مل جل کر رہنے والے افراد کے درمیان سے یہ چیزیں رخصت ہو جاتی ہیں تو نفرت،عداوت،دشمنی،بغض،کینہ اور آپسی بے زاری کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔اور یہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے حد درجہ نقصان کا باعث ہوجاتا ہے۔ جہاںتک ہمارے ملک کی بات ہے تو قومی یکجہتی اور آپسی رواداری کی ایسی مثال دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی مل سکے۔

ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس ملک میں صدیوں سے مختلف مذاہب اور مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں،کبھی اس ملک میں ہندوؤں کی حکومت رہی تو کبھی مسلمانوں کی، لیکن کبھی بھی کسی دور میں مذہب اور زبان کی بنیاد پر دونوں قوموں کا تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوا۔ اور جب اس ملک کو انگریزوں نے غلام بنایا  تو سبھی مذہب کے لوگوں نے مل کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔اور قومی یکجہتی کی ایسی مثال قائم کی کہ انگریزوں کو اس ملک سے جانا پڑا۔ اور اس ملک کی دو مشہور زبانیں ہندی اور اردو جو آپس میں سگی بہنیں ہیں ان دونوں نے قومی یکجہتی کے فروغ  میں خوب خوب جوہر دکھائے۔اردو نے تو اسے مضبوط ومستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اور آتش نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ         ؎

بت خانہ کھود ڈالیے مسجد کو ڈھائیے

 دل کو نہ توڑیے کہ خدا کا مقام ہے

اردو کے اور بھی کئی شعرا ہیں جنھوں نے قومی یکجہتی،مشترکہ تہذیب اور باہمی اتحاد و اتفاق پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار اپنی تخلیقات میں کیا ہے۔

 اگر انھوں نے عوامی جذبات و خیالات کا لحاظ کرتے ہوئے موسم برسات، جاڑے کی بہاریں، طفلی، جوانی، بڑھاپا، مفلسی، کوڑی نامہ، پیسہ نامہ، روٹیاں، چپاتی نامہ، آٹا دال، موت، فنا نامہ، فقیروں کی صدا، بنجارا نامہ، توکل، آدمی نامہ، دنیا، دنیا کے عیش و عشرت اور’دنیا دار المکافات ہے‘ وغیرہ جیسی نظمیں لکھی ہیں اور رنگا رنگ اور نوع بہ نوع مضامین پر طبع آزمائی کی ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک میں بسنے والے مختلف ادیان و مذاہب کے تیوہاروں پر بھی پوری توجہ دی۔ مثلا سکھ مذہب کے عظیم رہنما گرونانک شاہ کے بارے میں مسدس کی ہیئت میں پوری نظم ان کی کلیات میں موجود ہے۔ اس نظم کا پہلا اور آخری بند ملاحظہ فرمائیں          ؎

ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں، وہ پورے ہیں آگاہ گرو

وہ کامل رہبر جگ میں ہیں، یوں روشن، جیسے ماہ گرو

مقصود، مراد، امید، سبھی بر لاتے ہیں دل خواہ گرو

نت لطف و کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرباہ گرو

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو، واہ گرو

جو ہر دم ان سے دھیان لگا، امید کرم کی دھرتے ہیں

وہ ان پر لطف و عنایت سے ہر آن توجہ کرتے ہیں

اسباب خوشی اور خوبی کے گھر، بیچ انھوں کے بھرتے ہیں

آنند، عنایت کرتے ہیں سب من کی چنتا ہرتے ہیں

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو، واہ گرو

پوری نظم اور خاص طور سے مذکورہ دونوں بند پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سکھ دھرم کے ماننے والوں کی گرونانک کے تئیں جو گہری عقیدت اور محبت وابستہ ہے، اس کی بہترین عکاسی یہاں کی گئی ہے۔

 مذہبی شخصیات پر جب شاعر قلم اٹھاتا ہے تو عموماً یہ خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے کہ اس کا بیان مبادا اُس شخصیت کے ماننے والوں کو اعتراض کا موقع دے دے یا مقطع میں کوئی ایسی بات آپڑے جو خود شاعر کے ہم مذہب افراد کو انگشت نمائی کا موقع دے جائے، لیکن یہ نظیر کا بڑا کمال ہے کہ وہ اس راہ میں سلامت روی سے ہمکنار ہوئے ہیں اور عقیدے اور عقیدت کے فرق پر کسی طرح حرف نہیں آنے دیا ہے اور ایسا دراصل اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ انھوں نے بہر صورت قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے مزاج سے شعوری انداز میں کام لیا ہے۔ قومی یکجہتی کا اصل تقاضا احترام مذاہب ہے اور روایات و مذاہب کا احترام نظیر کی شاعری کے لفظ لفظ نہیں گویا حرف حرف سے ہیرے کی کنی کی مانند دمک رہا ہے۔

 ہندوستان کی کثیر مذہبی تہذیب و ثقافت اور تیوہاروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور آپسی محبت و بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اگر ایک طرف نظیر نے شب برات، عید الفطر، حضرت سلیم چشتی، عشق اللہ اور ’رہے نام اللہ کا‘ وغیرہ جیسے عنوان کے ساتھ متعلقہ مضامین کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے تو دوسری طرف بلدیوجی کا میلا، مہادیوجی کا بیاہ، ہولی، ہولی کی بہاریں، دوالی اور ’راکھی‘ جیسے عناوین کے ساتھ نظمیں لکھ کر قومی یکجہتی اور آپسی محبت و بھائی چارگی کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔

ہولی‘ برادران وطن کا ایک اہم تیوہار ہے۔ ہولی کے موضوع پر نظیر نے یکے بعد دیگرے تین نظمیں لکھی ہیں۔ پہلی نظم ’ہولی‘ مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی ہے، جب کہ دوسری نظمیں ’ہولی‘ اور ’ہولی کی بہاریں‘ مخمس کی ہیئت میں ہیں۔ ان تینوں نظموں کو پڑھنے کے بعد بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اس تیوہار کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ان کا اپنا ہی تیوہار ہے۔ ان کی اس تیوہار کی ساری جزئیات سے گہری واقفیت برادران وطن سے میل جول اور محبت کی عمیق نشانی اور علامت کو ظاہر کرتی ہے، ان تینوں نظموں کا ایک ایک بند ملاحظہ کریں        ؎

معمور ہیں خوباں سے گلی، کوچہ و بازار

اڑتا ہے ابیر اور کہیں پچکاری کی ہے مار

چھایا ہے گلالوں کا ہر اک جا پہ دھواں دھار

پڑتی ہے، جدھر دیکھو اُدھر رنگ کی بوچھار

ہے رنگ چھڑکنے سے ہر اک دنگ زمیں پر

ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

        (ہولی)

دوسری ’ہولی‘ نظم سے ایک بند دیکھیں          ؎

کچھ طبلے کھٹکے، تال بجے، کچھ ڈھولک اور مردنگ بجی

کچھ جھڑبیں بین، ربابوں کی، کچھ سا رنگی اور چنگ بجی

کچھ تار طنبوروں کے جھنکے، کچھ ڈھمڈھمی اور منھ چنگ بجی

کچھ گھنگھرو کھٹکے جھم جھم جھم، کچھ گت گت پر آہنگ بجی

ہے ہر دم ناچنے گانے کا یہ تار بندھایا ہولی نے

(ہولی)

تیسری نظم ’ہولی کی بہاریں‘ کا ایک بند بھی ملاحظہ کیجیے         ؎

گل زار کھلے ہوں پریوں کے، اور مجلس کی تیاری ہو

کپڑوں پر رنگ کے چھینٹوں سے خوش رنگ عجب کل کاری ہو

منھ لال، گلابی آنکھیں ہوں اور ہاتھوں میں پچکاری ہو

اس رنگ بھری پچکاری کو، انگیا پر تک کر ماری ہو

سینوں سے رنگ ڈھلکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

(ہولی کی بہار)

اس طرح نظیر اکبر آبادی نے دیوالی اور راکھی کے تیوہاروں کا بھی نہایت خوبصورت اور خوشنما منظر پیش کیا ہے، جو یقینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انھیں اس دیش کی قومی یکجہتی سے بہت گہرا پیار اور لگائو تھا اور وہ برادران وطن کے تیوہاروں اور ان کی تہذیب و ثقافت کو بہت ہی قریب سے جانتے تھے۔

 

Dr. Jawwad Husain

Asst Prof. Head Depf of Urdu

L N D College

Motihari- 845401 (Bihar)

Mob.: 9931689647

5/3/24

نظیر اکبرآبادی کی غزل گوئی:ڈاکٹرظفراللہ انصاری

ولی محمد نظیر اکبر آبادی )پیدائش 1735، وفات 1830) اردو کے مشہور شاعروں میں ہیں۔ ان کی شہرت عوامی شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ انھوں نے عوامی زندگی سے متعلق موضوعات پر اچھی خاصی تعداد میں نظمیں کہی ہیں اور یہی نظمیں انھیں عوامی شاعر بننے میں معاون ہوئیں۔ پروفیسر احتشام حسین اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

نظیر کا کلام پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود عوام میں سے تھے، انھیں میں سے اٹھے اور انھیں کے دکھ درد، ہنسی خوشی، افکار و تاثرات میں شریک رہے۔ ان کا فن تکمیل کے لحاظ سے ناقص ہے، ان کی شاعری تراش خراش کے لحاظ سے بہت نا مکمل ہے، ان کے اسلوب میں بے حد ناہمواری ہے۔ ان کے تفکر میں گہرائی کا نام نہیں، ان کے احساسات و تجربات میں ایک دہقان کی بھونڈی سادگی اور بھدی بے ساختگی ہے۔ لیکن پھر بھی نظیر اپنی دنیا کے تنہا مسافر تھے جس نے رابنسن کروسو کی طرح سب کچھ خود ہی کیا اور شاعری کے صحیح مصرف کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ انھوں نے احساسات اور جذبات کے لحاظ سے تقریبا ہر طبقے کے لوگوں کے تجربات اور تاثرات پیش کیے لیکن ان کی ہمدردیاں عوام ہی کے ساتھ تھیں۔

(تنقیدی جائزے، احتشام حسین، ادارہ  اشاعت اردو حیدرآباد، سنہ اشاعت ندارد، ص 169-70)

محولہ اقتباس سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ نظیر اکبر آبادی نے اگرچہ اپنی شاعری میں دیگر طبقات کے احساسات و جذبات اور خیالات و تاثرات کو  بھی  جگہ دی ہے لیکن ان کا بنیادی سروکار طبقہ عوام سے تھا اس لیے انھوں نے اپنی شاعری میں اسی کو ترجیحی حیثیت دی اور اس طبقے کو اپنی نظموں کے محور میں رکھا۔ احتشام صاحب نے ان کی شاعری کی جن کمزوریوں کا ذکر کیا ہے وہ اس لیے نہیں تھیں کہ وہ شاعری کے رموز سے ناواقف تھے یا انھیںزبان نہیں آتی تھی بلکہ بقول فرحت اللہ بیگ: علمی قابلیت یہ تھی کہ آٹھ زبانیں عربی، فارسی، اردو، پنجابی، باشا، مارواڑی، پوربی، ہندی جانتے تھے اور ایسے جانتے تھے کہ ان میں شعر کہتے تھے۔

(دیوان نظیر اکبر آبادی، مرتبہ فرحت اللہ بیگ دہلوی، انجمن ترقی اردو ہند، 1942، ص7)

شاعری سے متعلق نظیر کے لسانی رویے سے آشنائی کے بعد یہاں اس بات کا بھی اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ نظیر نے عوامی زندگی کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے لیکن ان کا خاندانی پس منظر اس امر کی شہادت پیش کرتا ہے کہ ان کا تعلق بھی اشرافیہ طبقے سے تھا۔ پروفیسر لطف الرحمن اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

نظیر کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ وہ عظیم آباد (پٹنہ) کے ایک نواب سے وابستہ تھے۔ نواب کے مشاہیر میں ان کا نام موجود ہے۔ ان کی شادی سلطان خان کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ سلطان خان آگرہ کے قلعہ دار تھے۔ نظیر والدین کے اکلوتے چشم و چراغ تھے۔ 1735 سن کذا: سنہ پیدائش ہے۔ دہلی میں قتل عام کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے بھی دہلی کو متعدد بار تاراج کیا تھا۔ نظیر کے خاندان نے اس پس منظر میں ہجرت کا فیصلہ کیا۔ نظیر کی عمر 22-23کی ہوگی۔ وہ نانی اور والد کے ساتھ دہلی سے آگرہ منتقل ہو گئے۔ نوری دروازہ کے پاس مکان لیا۔سکونت اختیار کی۔ ان کی شادی تہور النسا بیگم سے ہوئی۔ وہ رحمن خان کی صاحبزادی تھی۔ رحمن خان دہلی میں فوجی سالار تھے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ نظیر اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

(نظیر اکبر آبادی: ایک منفرد شاعر، مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوئی، غالب انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی، 2010، ص 122)

یہ بڑی بات ہے کہ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے عوامی شاعری کی اور اپنی شاعری میں اشرافیہ رنگ پیدا ہونے نہیں دیا اور عوامی مزاج و منہاج سے اپنی نظموں کو مزین کیا۔ آزاد اور حالی سے پہلے نظم نگاری کی داغ بیل نظیر کے ہاتھوں پڑتی ہے اس لیے انھیںنظم نگاری کا پیش رو تسلیم کیا گیا۔

نظیر نے کثیر تعداد میں نظمیں کہیں اور ان کی نظموں نے ایسی شہرت پائی کی ان کی غزل گوئی پردۂ خفا میں چلی گئی اور اس کو ثانوی درجے کی چیز سمجھ لیا گیا۔ کلیم الدین احمد نے جہاں ان کی نظموں کی تعریف کی ہے اور انھیں بہ نگاہ تحسین دیکھا ہے وہیں ان کی غزل گوئی کو بھی در خور اعتنا تصور کیا ہے۔ وہ نظیر کے تعلق سے لکھتے ہیں:

اردو شاعری کے آسمان پر نظیر اکبر ابادی کی ہستی تنہا ستارے کی طرح درخشاں ہے۔ نظیر کا وجود ہی اردو شاعری کی بے نظیر تنقید ہے۔ جب غزل گوئی عالم گیر تھی، جب غزل گوئی اور شاعری مترادف الفاظ تھے، ایسے زمانہ میں نظیر نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی اور آزادی فکر کا بیش قیمت نمونہ پیش کیا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نظیر نے غزلیں نہیں لکھیں لیکن انھوں نے غزل کو حاصل شاعری نہیں سمجھا۔ میر، سودا اور غالب کی طرح نظیر کو بھی غیر شعوری طور پر غزل اور شعر مفرد کی تنگ دامنی کا احساس ہوا لیکن انھوں نے چند قطعے لکھ کر اپنی تشفی نہ کر لی اور اپنی شاعری کا زیادہ حصہ وقف غزل نہ کرتے رہے۔ غزل کے ساتھ ساتھ مثلث، مخمس اور خصوصا مسدس سے بھی کام لیا اور ان صنعتوں میں اپنے خیالات اور شخصی تجربات کا مربوط و مسلسل بیان کیا۔ 

(اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، 2016، ص315)

محولہ بالا اقتباس میں اردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے نظیر سے متعلق جو خیالات پیش کیے ہیں اس کے پس پشت ان کا جو نظریہ کار فرما ہے وہ جگ ظاہر ہے وہ غزل کو اس بنا پر خارج کرتے ہیں کہ اس میں ریزہ خیالی ہوا کرتی ہے وہ مربوط خیالات کی متحمل نہیں ہوتی، سوائے مسلسل غزل کے۔ چونکہ نظیر نے اپنے عہد کی عام روش یعنی غزل کی روایت سے آگے بڑھ کر اپنی آزادیِ خیال کا ثبوت بہم پہنچایا اور غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی تشفی بخش تعداد میں کہیں یہی وجہ ہے کہ وہ نظیر سے متعلق یہ ریمارک دیتے ہیں کہ: اردو شاعری کے آسمان پر نظیر اکبر آبادی کی ہستی تنہا ستارے کی طرح ہے۔‘‘ جہاں تک نظیر کی غزل گوئی کا سوال ہے وہ بھی روایتی نہیں ہے۔ کلیم الدین احمد ان کی غزل گوئی کی تعریف کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’میں نے کہا نظیر نے غزلیں بھی لکھیں اور غزل میں بھی انھوں نے نئی راہیں نکالیں۔ غزل کی خصوصیت یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس میں ہر شعر ایک دوسرے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ نظیر نے بہت ساری مسلسل غزلیں لکھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نظیر اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے سے گھبراتے ہیں۔ انھیں مربوط و مسلسل کلام میں لطف خاص ملتا ہے... نظیر نے غزل میں نئی راہیں نکالیں، اس میں نئی وسعتیں پیدا کیں، اس میں نظم کی خوبیاں داخل کیں۔

(اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، ص 315)

پیش کردہ اقتباس میں کلیم الدین احمد نے نظیر کی غزل گوئی کو اس لیے سراہا ہے کہ ان کی غزلوں میں ربط و تسلسل پایا جاتا ہے اور وہ غزل کو اس لیے نیم وحشی صنف سخن مانتے تھے کہ اس میں ربط و تسلسل نہیں ہوتا۔ ہر مذہب اور متمدن قوم کی طرح غزل کو بھی اپنے آپ میں شائستگی اور ترتیب و تنظیم پیدا کرنی چاہیے۔

نظیر کا تعلق اگرچہ اشرافیہ طبقے سے تھا لیکن وہ طبعا اور فطرتا قلندر صفت انسان تھے اور ان کی شاعری ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ نظیر قلندر صفت انسان تھے اور وہ شہرت و ناموری کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے اور انھوں نے نہ خود اپنا کلام جمع کیا اور نہ کسی سے جمع کروایا۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کا کلام کس طرح محفوظ رہ پایا؟ اس سلسلے میں مرزا فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں:

اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ نظیر کا کلام کتنا تھا، کیوں کہ انھوں نے نہ خود اپنا کلام جمع کیا اور نہ جمع کرانے کی کوشش کی۔ حال یہ تھا کہ کوئی فقیر آیا صدا لکھوا کر لے گیا۔ کوئی بچہ آیا اپنے مطلب کا شعر لکھوا کر لے گیا۔ بھلا ایسے آدمی کا شعر کیا جمع ہو سکتا ہے۔ اس وقت جو ان کا کلیات طبع ہوا وہ بلاس رائے کے لڑکوں کی وجہ سے طبع ہوا ہے۔ یہ لڑکے نظیر سے پڑھتے بھی تھے اور استاد کا کلام جمع بھی کرتے جاتے تھے۔ اس طرح انھوں نے ایک ایسا کلیات جمع کر لیا جس میں تقریبا سات ہزار شعر ہیں۔ یہ کلیات مطبع الہی، کنبوہ دروازہ، میرٹھ میں طبع ہوا۔ بعد میں فحش اشعار اور قابل اعتراض بندوں کو نکال کر منشی نول کشور نے لکھنؤ میں اس کو چھپوایا۔ 1900 میں پروفیسر شہباز نے بڑی محنت سے ایک دوسرا کلیات مرتب کر کے نول کشور، لکھنؤ میں چھپوایا تھا مگر وہ اب ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا ہے۔ اس کلیات کے علاوہ نظیر کے تین مکمل دیوان تھے دو اردو میں اور تیسرا فارسی میں۔ اردو دیوانوں کی تو اکثر غزلیں باطن نے اپنے تذکرے میں دی ہیں مگر فارسی کے دیوان کا اب پتہ نہیں چلتا پھر بھی پروفیسر شہباز نے فارسی اشعار کے بہت سے نمونے دیے ہیں۔

(دیوان نظیر اکبر آبادی، مرتبہ فرحت اللہ بیگ،  ص 8)

بہرحال میرے زیر نظر ہندوستانی اکادمی، الہ آباد کی شائع کردہ کتاب گلزار نظیر مرتبہ سلیم جعفر (1951) اور اتر پردیش اردو اکادمی کی مطبوعہ کتاب روح نظیر مولفہ مخمور اکبر آبادی ہیں۔ اول الذکر کتاب میں نظیر کی زیادہ غزلیں شامل نہیں ہیں لیکن ثانی الذکرکتاب میں  کیفیت و کمیت کے لحاظ سے تشفی بخش غزلیں موجود ہیں۔ مخمور اکبر آبادی کی مرتبہ کتاب میں نظیر کی موضوعی غزلیں بھی شامل ہیں۔ موضوعی غزلوں کی مثال نظیر کے علاوہ قدیم و جدید شعرا کے یہاں نہیں ملتی۔ نظیر نے موضوعی غزل کا ایک انوکھا تجربہ کیا ہے جس سے ان کی ابداعی اور اختراعی قوت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد کو غزل کی جس ریزہ خیالی کی شکایت تھی اس کو رفع اس طرح کی غزلیں کر دیتی ہیں۔ یہاں ان کی ایک موضوعی غزل پیش کی جا رہی ہے جن میں وحدت تاثر کی فضا قائم ہے۔

جوانی

بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا

کہ عمر خضر سے بہتر ہے ایک ایک دم جوانی کا

نہیں بوڑھوں کی داڑھی میں  میاں یہ رنگ وسمے کا

کیا ہے ان کے ایک ایک بال نے ماتم جوانی کا

یہ بوڑھے گو کہ اپنے منہ سے شیخی میں نہیں کہتے

بھرا ہے آہ پر ان سب کے دل میں غم جوانی کا

یہ پیران جہاں اس واسطے روتے ہیں اب ہر دم

کہ کیا کیا ان کا ہنگامہ ہوا برہم جوانی کا

کسی کی پیٹھ کبڑی کو بھلا خاطر میں کیا لاوے

اکڑ میں نوجوانی کے جو مارے دم جوانی کا

شراب و گل بدن ساقی مزے عیش و طرب ہر دم

بہار زندگی کہئے تو ہے موسم جوانی کا

نظیر اب ہم اڑاتے ہیں مزے کیا کیا اہا ہا ہا

بنایا ہے عجب اللہ نے عالم جوانی کا

مخمور اکبر آبادی نے اس طرح کی ان کی پچیس غزلیں اپنی مرتبہ کتاب میں درج کی ہیں۔

نظیر کو سراپا نگاری کا ہنر آتا ہے۔ اس کی مثالیں تو ان کی نظمیہ شاعری میں بہ کثرت ملتی ہیں، لیکن غزل میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہیں۔ نظیر کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں انھوں نے محبوب کا ایک قلمی خاکہ کھینچا ہے       ؎

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبک رہا ہے

فلک پہ سورج بھی تھرتھرا کر منہ اس کا حیرت سے تک رہا ہے

کھجوری چوٹی ادا میں موٹی جفا میں لمبی وفا میں چھوٹی

ہے ایسی کھوٹی کہ دل ہر اک کا ہر ایک لٹ میں لٹک رہا ہے

وہ نیچی کافر سیاہ پٹی کہ دل کے زخموں پہ باندھے پٹی

پڑھی ہے جس نے کہ اس کی پٹی وہ پٹی سے سر پٹک رہا ہے

وہ ماتھا ایسا کہ چاند نکھرے پھر اس کے اوپر وہ بال بکھرے

دل اس کے دیکھے سے کیوں نہ بکھرے کہ مثل سورج چمک رہا ہے

وہ چین خود رو کٹیلے ابرو وہ چشم جادو نگاہیں آہو

وہ پلکیں کج خو کہ جن کا ہر مو جگر کے اندر کھٹک رہا ہے

غضب وہ چنچل کی شوخ بینی پھر اس پہ نتھنوں کی نکتہ چینی

پھر اس پہ نتھ کی وہ ہم نشینی پھر اس پہ موتی پھڑک رہا ہے

لب و دہاں بھی وہ نرم و نازک مسی و پاں بھی وہ قہر و آفت

سخن بھی کرنے کی وہ لطافت کہ گویا موتی ٹپک رہا ہے

وہ کان خوبی میں چھک رہے ہیں جواہروں میں جھمک رہے ہیں

ادھر کو جھمکے جھمک رہے ہیں ادھر کا بالا چمک رہا ہے

صراحی گردن وہ آبگینہ پھر آگے سینہ بھی جوں نگینہ

بھرا ہے جس میں تمام کینہ کہ جوں نگینہ دمک رہا ہے

نظیر خوبی میں اس پری کی کہوں کہاں تک ثنا بنا کر

صفت سراپا میں جس کے لکھے دل اب اسی سے اٹک رہا ہے

نظیر حسن حقیقی اور حسن مجازی دونوں کے شیدائی ہیں اس لیے ان کے یہاں دونوں کا بیان ملتا ہے۔ نظیر نے ایک حسین کی تصویر کشی کس انداز میں کی ہے ملاحظہ ہو          ؎

کل نظر آیا چمن میں اک عجب رشک چمن

گل رخ و گلگوں قبا و گلغدار و گل بدن

مہر طلعت زہرہ پیکر مشتری رو مہ جبیں

سیم بر سیماب طبع و سیم ساق و سیم تن

تیر قد نشتر نگہ مژگاں سناں ابرو کماں

برق ناز و رزم ساز و نیزہ باز و  تیغ زن

زلف و کاکل خال و خط چاروں کے یہ چاروں غلام

مشک تبت مشک چیں مشک خطا مشک ختن

نازنیں ناز آفریں نازک بدن نازک مزاج

غنچہ لب رنگیں ادا شکر دہاں شیریں سخن

بے مروت بے وفا بے درد بے پروا خرام

جنگجو قتال وضع و سرفراز و سر فگن

دوش و بر دنداں و لب چاروں سے یہ چاروں خجل

نسترن برگ سمن در عدن لعل یمن

مبتلا ایسے ہی خوش وصفوں کے ہوتے ہیں نظیر

بے قرار و دل فگار و خستہ حال و بے وطن

اس رنگ سے ان کی بہ کثرت غزلیں رنگین بنی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے بعض اشعار میں جنسی طلب کا بھی اظہار ملتا ہے۔ بعض لوگ اسے ابتذال یا سوقیانہ خیالات سے تعبیر کریں گے، لیکن یہ بدیہی حقیقت ہے کہ جنسی خواہشات انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

 نظیر کے یہاں عشق کے دونوں رنگ پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے ثباتی عالم کے مضامین بھی ان کی غزلوں میں پائے جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

دنیا ہے اک نگار فریبدہ جلوہ گر

الفت میں اس کے کچھ نہیں جز کلفت و ضرر

یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے با آب و تاب

اہل صورت کا ہے دریا اہل معنی کا سراب

ثروت و مال و منال حشمت و جاہ و جلال

کوئی اسے کچھ کہو ہم تو سمجھتے ہیں خواب

المختصر یہ کہ نظیر جہاں نظم کے کامیاب شاعر ہیں وہیں غزل کے بھی، لیکن ان کی غزلوں پر ناقدین نے کم توجہ دی ہے جس کے باعث ادب میں ان کی غزلوں کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کی وہ مستحق تھیں۔ ان کی غزلوں کے مضامین میں تنوع ہے اور ان کی فکر میں وسعت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے صنف غزل میں نئے نئے تجربے کئے جو نظیر سے پہلے نہیں ملتے۔ نظیر نے غزل میں جو راہیں سجھائی تھیں  ان کا تتبع بعد کے شعرا نے کیا ہوتا تو غزل کی صورت کچھ اور ہوتی۔

 

Dr. Zafrullah Ansari

Assistant Professor, Dept of Urdu

Allahabad University

Prayagraj- 211002 (UP(