7/4/21

اردو لسانیات کی روایت - مضمون نگار: محمد منہاج الدین

 



تلخیص

لسانیات کا موضوع زبان ہے ،زبان کا سائنسی مطالعہ ہی لسانیات ہے، زبان سے متعلق تمام موضوعات قواعد ،لغت، ترجمہ، رسم الخط، صوتیات، اسلوبیات، ساختیات، معنیات،وغیرہ سب زبان کے جدید طرز مطالعہ یعنی لسانیات کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔علمِ زبان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی علما اور مفکرین نے ہی سب سے پہلے زبان کے مطالعہ پر توجہ دی اور باقاعدہ اسے ایک علم کے طور پر پیش کیا۔اس ضمن میں قدیم ہندوستانی ماہرِ زبان’یاسک‘  اور اس کی کتاب ’نرکت ‘ کو اولیت حاصل ہے۔ گرچہ ہمارے یہاں ’یاسک‘ کی کتاب ’نرکت‘کو قواعد کی پہلی کتاب تسلیم کیا جاتاہے مگرعالمی منظرنامے پر مشہور ہندوستانی ماہرِ زبان ’پانینی‘ کی کتاب ’اشٹ ادھیائے‘ کودنیا کی پہلی باقاعدہ قواعد کی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ ہندوستان میں پانینی کے بعدقواعد اور پھر لغت کی تدوین کے کام کوہی ہندوستانی علما نے زبان کی ترقی،  فروغ اور بقا کے لیے سب سے اہم سمجھا اور ہندوستانی زبانوں پر کام کرتے رہے۔ مگرزبان کی تعریف، تاریخ اور ارتقا کے مسائل پر غور و فکر کا آغاز قدیم یونان میں فلسفیانہ مباحث کے ساتھ شروع ہوا، اس ضمن میں یونانی فلسفی ’سقراط‘ کو تقدم حاصل ہے۔ اس کے بعد کئی صدیوں تک لغت، قواعداورزبان کے متعلق فلسفیانہ آرا کا اظہار زبان کے اہم مسائل تصور کیے جاتے رہے، مگر 1786 میں انگریز مستشرق ’سر جان بیمز‘ نے ہندوستان میں قیام کے دوران ہی یوروپی زبانوں کا ہندوستان کی زبانوں سے موازنہ کر کے جب اعلان کیا کہ ہندوستان اور یورپ کی قدیم زبانوں میں ایک رشتہ ہے، تو یورپی علما زبان کے مطالعے کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوئے۔ دھیرے دھیرے زبان کے مطالعے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور انیسویں صدی میں اس نے باقاعدہ ایک علم کی صورت اختیار کر لی اور آج قواعد ،لغت، ترجمہ، رسم الخط کے علاوہ زبان کی ساخت، صوتیات، معنیات ، اسلوبیات وغیرہ کا سائنسی تجزیہ اور مطالعہ لسانیات کے ہی ضمن میںآتے ہیں۔

اردو کے لسانیاتی سرمائے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیںتو پتہ چلتا ہے کہ اپنی زبان میں بھی لغت،قواعد اور پھر زبان کی پیدائش اور ارتقاء پر فلسفیانہ اظہار ہی ہمارااولین سرمایہ ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ہمارے یہاں بھی انگریز مستشرقین اور انگریزی زبان کے توسط سے اپنی زبان کے مسائل پر سنجیدگی سے عالمانہ گفتگو کی طرف علما مائل ہوئے تو’ مولوی وحیدالدین سلیم ‘کی ’ وضع اصطلاحات ‘، ’حافظ محمود شیرانی ‘کی’پنجاب میں اردو‘ ، ’سید سلیمان ندوی‘ کی ’نقوش سلیمانی‘ منظر عام پر آئی اور اردو زبان کی پیدائش، ارتقا اور اس کی ساخت پر باقاعدہ باتیں ہونے لگیں۔ پھر 1928 میں ’ہندوستانی صوتیات‘ اور 1930 میں ’ہندوستانی لسانیات‘کی اشاعت کے ساتھ ’ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور‘نے اردو زبان کے باقاعدہ اور سائنسی مطالعے کی داغ بیل ڈالی تو اردوزبان کے جدید لسانی مطالعے نے بھی شعبۂ علم کی صورت اختیار کر لی اور ’اردو لسانیات‘ باقاعدہ موضوعِ مطا لعہ بنا۔ ڈاکٹرزور یورپ سے باقاعدہ لسانیات کی تعلیم حاصل کرکے ہندوستان آئے تو آپ اردو کے پہلے طالب علم تھے جس نے لسانیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ڈاکٹر زور کی ہندوستان آمد کے بعد اردو لسانیات نے اگرچہ برق رفتار ترقی نہیں کی لیکن آنے والی نسل کے لیے نئی راہیں ضرور ہموار ہوگئیں۔ ڈاکٹر زور کے بعد لسانیات کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والوں میںایک اہم نام ’ڈاکٹر مسعود حسین خاں ‘ کا آتا ہے۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے 1948 میں جب’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘ لکھا تو اردو لسانیات میں نئی جان آگئی، اب اردو والے بڑی تعداد میں لسانیات کا علم حاصل کرنے لگے اور اردو کے لسانی مسائل پر تحقیق کی رفتار تیز ہوگئی۔ ڈاکٹر گیان چند جین، ڈاکٹرعبدالغفار شکیل، ڈاکٹراقتدار حسین خاں، ڈاکٹر مغنی تبسم، ڈاکٹر عصمت جاوید، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹرنصیر احمد خاں، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ڈاکٹر علی رفاد فتیحی وغیرہ نے اردو کے لسانیاتی مسائل پر باقاعدگی سے جدید لسانیاتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اردو کے لسانیاتی سرمائے میں اضافہ کیاہے اور کر رہے ہیں۔

کلیدی الفاظ

زبان، علم زبان،علم السنہ، لسانیات، اردو لسانیات، سائنسی مطالعہ، قواعد، لغت، تقابلی قواعد، تقابلی لسانیات ،مستشرق،صوتیات، ساختیات، معنیات، اسلوبیات ، وضع اصطلاحات وغیرہ۔

——————

لسانیات کا موضوع زبان ہے ،زبان کا سائنسی مطالعہ ہی لسانیات ہے، زبان سے متعلق تمام موضوعات قواعد ،لغت، ترجمہ، رسم الخط، صوتیات، اسلوبیات، ساختیات، معنیات،وغیرہ سب زبان کے جدید طرز مطالعہ یعنی لسانیات کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔لسانیات وہ علم ہے جس کے ذریعہ زبانوں کی تخلیق اور ترقی کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور زبان کی پیدائش، ارتقا، ساخت اور فطرت کا تفصیلی وسائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے۔  زبان کی تاریخ، اس کی معنوی ساخت، اس کی اصوات کا مطالعہ ، تقسیم و گروہ بندی، اس کی قواعد اور الفاظ کے ماخذ و معنی کے متعلق چھان بین لسانیات کا دائرۂ کار ہے۔

علمِ زبان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی علماء اور مفکرین نے ہی سب سے پہلے زبان کے مطالعہ پر توجہ دی اور باقاعدہ اسے ایک علم کے طور پر پیش کیا۔اس ضمن میں قدیم ہندوستانی ماہرِ زبان ’یاسک ‘  اور اس کی کتاب ’نرکت ‘ کو اولیت حاصل ہے ، جس کا عہد چھٹی صدی ق م سے پانچویں صدی ق م تھا۔ اس نے اپنی مایہ ناز کتاب میں پہلی باربولی اور اس کے ا لفاظ،الفاظ کے مادے اور شرح پر گفتگو کی ہے اور اسی کتاب میں پہلی بار زبان کے آغاز اور ارتقاپر بھی بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد قواعد کی ایک اہم اور غیر معمولی کتاب ’اشٹھادھیائے‘ بانچویں صدی ق م سے چوتھی صدی ق م کے درمیان منظر عام پر آتی ہے، ’اشٹھا دھائے‘ مشہور سنسکرت اسکالر، قواعد داں ، ماہرِ زبان اور ماہرِصوتیات ’’پانینی( پانینی کا تعلق شمال مغربی ہندوستان(بر صغیر) کے قدیم شہر ’گاندھار‘ کے قصبہ ’سلاتْر‘ سے تھا ،اس کا پورا نام ’دکشی پْتر پانینی تھا)‘‘ کی اکلوتی دستیاب کتاب ہے (گرچہ پانینی نے متعدد کتابیں لکھیں مگروہ موجود نہیں ہیں)۔ ’اشٹھادھیائے‘ سنسکرت قواعد کی ایک منظوم کتاب ہے۔ اس کتاب میں سنسکرت قواعد کا مطالعہ اور اصوات کا جائزہ لیا گیا ہے، ویدک اور عوامی سنسکرت کا لسانی تجزیہ اور لفظوں کی ساخت کے اوپر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔

گرچہ’یاسک ‘ کی  ’ نِرْکت ‘ ہندوستان میں قواعد کی پہلی کتاب ہے مگر ’پانینی‘‘ کی سنسکرت زبان کی قواعد ’ اشٹھا دھیائے ‘ موضوعات اور مواد کی بنیاد پر روایتی قواعد کی سب سے معتبر تصنیف ہے ۔ پانینی کے اس عظیم کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے مشہور ماہرِ زبان اور استادِ لسانیات ’بلوم فیلڈ‘نے ’اشٹھادھائے‘ کو   movement of human intelligence" "Greatest کہا ہے ۔جبکہ جدید ماہرینِ لسانیات ’’رینس بوڈ‘‘ (Rens Bod)  نے ’پانینی ‘ کو علم السان کا موجد کہا ہے،وہ لکھتا ہے کہ:

"The history of linguistics begins not with Plato  or Aristotle but with Indian grammarian Panini."1

پانینی نے اپنی تصنیف ’اشٹھادھیائے‘ میں سنسکرت قواعد کوبڑے ہی منظم اور منضبط طریقے سے ترتیب دیا ہے ، جس کے اثر سے آج بھی سنسکرت زبان باہر نہیں آ سکی ہے۔پانینی کا کارنامہ ایسا تھا کہ اس سے زیادہ کوئی لکھ نہیں سکا، اس سے آگے کوئی نکل نہیں پایا، اس لیے اس کے بعد کے زمانے میں ہندوستانی قواعد نگاروں میں بیشتر پانینی کے ہی کارنامے پر تبصرہ اور تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

مغرب میں لسانیاتی مباحث اور تحریروںکا آغازیونانی مفکرین کے فلسفیانہ نظریوں سے ہوتا ہے۔ چوتھی صدی ق م میں مشہور یونانی فلسفی ’سقراط(469 سے  399 ق م)‘ نے زبان کی پیدائش کے تعلق سے اپنی فلسفیانہ رائے قائم کرتے ہوئے بتایا کہ فطری ضرورتوں کے تحت زبانیں وجود میں آئی ہیں۔ لفظ اور معنی کے بیچ پایا جانے والا تعلق طبعی نہیں ہے بلکہ شعوری کوششوں سے اشیا اور ان کے نام کا تعین کیا گیا ہے ۔ اپنے فلسفیانہ نظریے کی بنا پر سقراط نے زبان کے مطالعہ کی ایک نظیر تو قائم کر دی مگر غیر ملکی زبانوں سے لاعلمی یا عدم دلچسپی کی وجہ سے اس کے مطالعے کا دائرہ محدود تھا۔ اس لیے وہ کوئی حتمی نظریہ قائم نہیں کر سکا۔اپنے استادسقراط سے استفادہ کرتے ہوئے ’افلاطون(427 سے 347 ق م)‘ نے زبان کا فلسفیانہ مطالعہ کیا۔اپنی تصنیف کریٹیلس(Cratylus) سے افلاطون نے یونان میں زبان کے مختلف پہلوؤ ں پر غور و خوض کا آغاز کیا۔تیسری صدی ق م کے نصف اول میں یونان میں ہی ایک مشہور عالم ’زنوڈوٹس(Zenodotos)‘ کی تحریریںبھی یونانیوں کے لسانی شعور کا پتہ دیتی ہیں ۔اس نے پہلی بار یونانی زبان کا لسانی اصولوں پر مطالعہ کیا اور علمی نہج پر اس کی ایک لغت بھی تیار کی۔اسی زمانے میں افلاطون کے شاگرد ’ارسطو‘(385 تا 322  ق م) نے بھی زبان اور متعلقہ مسائل پر سنجیدہ کام کیا،اس کاسب سے بڑا لسانیاتی کارنامہ روایتی قواعد کی اصطلاح کا اختراع ہے۔ ارسطو نے ہی ’آ ٹھ اجزائے کلام (Parts of Speech)‘ کا تعین کیا تھا۔ ارسطو نے سب سے پہلے زبان کے متعلق قیاس آرائیوں کی روایت کو ختم کیا اور فلسفیانہ رائے قائم کرنے کے بجائے منطق کی بنیاد پر زبان کا سائنسی طرز سے تجزیہ پیش کیا جس سے صدیوں تک یونانی اور دوسرے ماہرینِ زبان نے استفادہ کیاہے ۔

ایک طرف جہاں ہندوستان اور پھر یونان میں زبان، اس کے قواعد اور لغت پر کام بڑی سنجیدگی سے ہو رہا تھا، وہیں دھیرے دھیرے دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی اپنی زبان کے آغاز و ارتقا، اس کے الفاظ اور اصوات کا مطالعہ کیا جانے لگا تھا، قواعدکی کتابیں لکھی جا رہی تھیں ،لغت کی تدوین کا عمل بھی جاری تھا۔ لاطینی،چینی اور عربی جیسی قدیم زبانوں کے علما بھی اپنی زبان کے لسانیاتی پہلوؤں کا مطالعہ کر رہے تھے ، جس کے کارآمد نتائج بھی برآمد ہوئے ۔

مسیحیت کے ظہور کے بعد لسانی مطالعے کا دائرہ وسیع ہونے لگا ،قوموں اور زبانوں کے اختلاط (میل جول) کا دور شروع ہوگیا، دنیا کے نئے نئے علاقوں کی تلاش اور تجارت کے باعث ایک قوم اور نسل کے لوگوں کا دوسری قوموں سے ملنا جلنا شروع ہوا،اسلام کے ظہور کے بعد اس میں مزید تیزی آئی، اب سیاحت اور تجارت کے علاوہ مذہب کی اشاعت بھی قوموں کا اہم فریضہ قرار پایا۔ اب تک جن علماکی توجہ صرف اپنی زبان کے الفاظ اور اصوات پر تھی اب دوسری غیر ملکی زبانیں بھی ان کے مطالعے میں آنے لگیں، گوکہ اب تک جو مطالعہ کا دائرہ تاریخی اور تجزیاتی نظر آتا ہے عیسائیت اوراسلام کے فروغ کے ساتھ زبان کے تقابلی مطالعے کا آغاز ہو تا ہے۔مذہب کی اشاعت اور فروغ کے لیے عہد نامہ قدیم (توریت مقدس)، انجیل مقدس اور قرآن مجید کے تراجم دوسری زبانوں میں کیے جانے لگے۔مبلغین اپنی باتوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے عوام کی زبان سیکھنے لگے، اس طرح زبان کے مطالعے کا دائرہ بڑھنے لگا۔ علما ایک سے زیادہ زبانوںکو پڑھنے اور سمجھنے لگے۔جب یونانی،لاطینی، عبرانی زبانوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا تو پہلی بار اس بات کا ندازہ ہوا کہ یونانی اور لاطینی ایک ہی خاندان کی زبانیں ہو سکتی ہیں۔ زبانوں کے تقابلی مطالعے کی ایسی ابتدائی کوشش یورپی سیاح ’نارمن پوسٹل‘ نے کی۔ اس نے مختلف زبانوں کے مطالعہ کے بعد ان میں رشتہ تلاش کرنے کی کوشش بھی کی، مگر اس کی کوشش قیاس آرائی سے آگے نہ جا سکی۔اس کے بعد بھی زبانوں کے خاندانی رشتے اور گروہ بندی پر خوب قیاس آرائیاں ہوئیں۔مگر زبانوں کی خاندانی گروہ بندی پرسب سے توانا اور معتبر تحریر ہندوستان کی سرزمیں سے ہی منظر عام پر آتی ہے جوعلم اللسان کے عالمی مطالعے کو ایک واضح سمت عطا کرتی ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک پر برطانوی تسلط نے یورپین کو دوسرے ملکوں میں پہنچایا، مختلف نئی نئی زبانوں سے ان کا واسطہ پڑا،مذہب کی اشاعت اور تجارت کے لیے اس ملک کی زبانیں سیکھنی پڑیں۔ ہندوستان میں بھی یورپی علما نے سنسکرت زبان پر خصوصی توجہ دی،قدیم اور کلاسکی ہندوستانی ادبیات کا انگریزی اور دوسری یوروپی زبان میں ترجمہ کیا۔ خاص طور سے سنسکرت اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے سرمائے کو جمع کرنے، مطالعہ،ترجمہ اور تحقیق کے غرض سے ’سرولیم جونز‘2؎ Sir William Jones))نے اپنے انگریزساتھیوں’چارلس ولکنز‘، ’ ہنری تھامس کولبروک‘  اور’نتھانائل ہلہیڈ‘کی مدد سے 15؍ جنوری 1784 کو کلکتہ میں ’ایشیاٹک سوسائٹی‘قائم کی۔ سوسائٹی کے ممبران کی سالانہ کارگزاریوں کے جائزے کے طور پر سالانہ جلسہ منعقد ہوا کرتا تھا ،اور ’ایشیاٹک ریسرچ‘ کے نام سے ایک جرنل بھی شائع کیا جاتا تھا۔ اسی سوسائٹی کے تیسرے سالانہ جلسہ (27؍ ستمبر1986، کلکتہ)میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے ’سر ولیم جونز‘ نے یورپی اور ایشیائی زبانوںکے عمیق مطالعے اور تحقیق کی بنا پر تیار کردہ اپنا تاریخی مقالہ پڑھا  اورچند جدید انکشافات کے ساتھ یہ کہہ کر لسانی مطالعہ کا باقاعدہ آغاز کیا کہ:

’’سنسکرت بلا لحاظ اپنی قدامت کی ایک نہایت عمدہ ہیئت کی زبان ہے ،یہ یونانی سے زیادہ تکمیل یافتہ اور لاطینی سے زیادہ جامع ہے اور ان دونوں کی نسبت لطیف اور شائستہ ہے، لیکن  پھر بھی ان دونوں زبانوں سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ افعال کے مخارج اور صرف و نحو کے لحاظ سے یہ اتنی زیادہ ملتی جلتی ہیں کہ اسے محض ایک اتفاق کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کوئی بھی محقق ان تینوں زبانوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتاکہ ان تینوں زبانوں کا سر چشمہ ایک ہی ہے گرچہ اب وہ سرچشمہ بذات خود معدوم ہو چکا ہے۔ نیز اس امر کے تسلیم کرنے کے لیے بھی کافی شواہد موجود ہیں کہ گاتھ قوم کی زبان اور کلٹی زبان بھی اسی سر چشمہ سے پھوٹی ہیں اور پھر قدیم فارسی کو بھی اس رشتہ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔‘‘3؎

ولیم جونز کے اس دعوی کہ۔۔۔ ’’ سنسکرت ، یونانی، لاطینی،جرمن زبانیںایک ماخذ سے نکلی ہیں، گوتھک اور کیلٹک زبانیں بھی اسی ماخذ سے ہیں اور قدیم فارسی کا بھی اس سے گہرا تعلق ہے‘‘، نے آریائی خاندان کی بڑی بڑی زبانوں میںمماثلت اور ان میں ایک رشتہ طے کر دیا۔ اس کے یہ انکشافات کئی معنوں میں نہایت اہم ہیں۔ اول تو یہ کہ ’ولیم جونز‘ کی تحقیق نے عالمی منظرنامہ پر سنسکرت زبان کی لسانی اہمیت سے علما کو متعارف کرایا،جس کے بعد یوروپ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں میں سنسکرت کی تعلیم کے مرکز قائم ہوئے۔ دوم یہ کہ’جونز‘ کی اس تحقیق نے زبان کے سائنسی مطالعہ کی ایک اہم شاخ ’تقابلی لسانیات‘ کی بنیاد ڈالی۔ پروفیسر گیان چند جین تو اس مستشرق کو جدید لسانیات کا موجد مانتے ہیں، ان کے مطابق اٹھارویں صدی کے اواخر کے اس عالم نے زبانوں کے خاندانی گروہ بندی کا کس قدر صحیح اندازہ کر لیا تھا۔

سرولیم جونز ‘کے انکشافات کایورپی عالموں پر گہرااثرپڑا، ’جونز‘ سے متاثر ہو کرجرمن فلسفی، شاعر، ادیب اور ماہرِ زبان ’فریڈرک شلیگل(Friedrich Schlegal)‘(1772تا 1829)نے سنسکرت کے مطالعے پر کافی زور دیا، اس نے 1803 میں پیرس جا کر ایک انگریز جنگی قیدی سے سنسکرت سیکھی۔ اس کے بعداس کی مشہور کتاب ’اہل ہند کی زبان اور حکمت (Language and wisdom of Indians)‘  1808 میں منظرِعام پر آئی ۔ جس میں ’ولیم جونز‘ کے نظریے کو فروغ دیتے ہوئے یورپی زبانوں کا سنسکرت سے تفصیلی موازنہ کیا گیا۔ ان زبانوں کے الفاظ اور صرف و نحوکی مماثلت کے مطالعہ کے بعد ’شلیگل ‘ نے بتایا کہ سنسکرت اور یورپ کی دوسری زبانوں میں کافی مماثلت اور یکسانیت ملتی ہے ، خاص طور سے سنسکرت، یونانی، لاطینی اور جرمن کے مابین ایک گہرا رشتہ موجود ہے۔ ’شلیگل‘ نے ہی پہلی بار اس کتاب میں ’تقابلی قواعد(Comparative Grammar)‘ کی اصطلاح وضع کی۔ اس کا خیال تھا کہ سنسکرت سے تعلق رکھنے والی زبانوں میں قوت نمو زیادہ ہوتا ہے، اس نے دنیا کی مختلف زبانوںکو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ زبانیں جن کا تعلق سنسکرت سے ہے اور دوسرا گروہ غیر سنسکرت زبانوں کا ۔چینی زبان کو اس نے کسی گروہ میں نہیں رکھا ۔

ایک اور جرمن فلسفی اور ماہرِزبان ’ولہِم وان ہمبولڈWilhelm von Humboldt))‘ کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے زبانوں کو شمولی، امتزاجی اور تصریفی میں با نٹا۔ وہ زبان کو الفاظ اور جملوں کابا معنی مجموعہ تصور نہیں کرتا بلکہ اس نے زبان کو ایک باضابطہ نظام حیات تصور کیا ہے۔ ’ہمبولڈ‘ کو تقابلی لسانیات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

ولیم جونز اور شلیگل کی تحریروں کے بعد سنسکرت زبان دنیا کے ماہرِزبان کے لیے لسانی مطالعہ کی بنیاد بن گئی تھی۔ لسانیات کے طالب علم کے لیے سنسکرت زبان کا مطالعہ نا گزیر تھا۔ یورپی عالموں نے قدیم ہندوستانی زبان کے سیکھنے کے لیے ہندوستان تک کا سفر بھی کیا،ایسے عالموں میں نمایاں نام ڈنمارک کے ماہرِ زبان ’ریزمس راسک(Rasmus Kristian Rask) ‘ (1787 تا 1832) کا ہے، راسک نے 1814 میں ’قدیم فارسی  یا آئس لینڈی زبانوں کے آغاز کی کھوج ‘ کے عنوان سے ایک تحریر لکھی جو 1818 میں شائع ہوئی۔انھوں نے ہندیورپی زبانوں کے صوتی نظام کو متعارف کرایا ، انھوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ہماری قدیم تہذیبی تاریخ کا مطالعہ بغیر زبانوں کے علم اور اس کے مطالعہ کے ممکن نہیں ۔

یوں توہندوستانی عالموں کے ذریعے لکھی گئی قواعد کی کتابیں ہی ہندوستان میں علمِ زبان کی روایت کا آغاز ہیں مگر ہندوستان میں علمِ زبان کا باقاعدہ آغاز یورپی عالموں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے ۔ ان میں ’سر ولیم جونز‘ کا نام سرِفہرست ہے ۔ ’جونز‘ نے 1786 میں سنسکرت اوردوسری یورپی زبانوں کے مطالعے سے جو نتیجہ اخذ کیا،  اسے باقاعدہ لسانیات کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے ،جس سے دنیا کی مختلف زبانوں کا خاص طور سے اس وقت یورپ کی زبانوں کی سنسکرت سے مطابقت کا احساس ہوا تومستشرقین ہندوستانی زبانوں کی طرف خصوصی توجہ دینے لگے،جس سے ہند یورپی زبانوں کے مطالعے کوخصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ 

گرچہ’ جونز ‘سے قبل اور اس کے بعد بھی ہندوستانی زبانوں میں یورپی عالموں کی دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی زبانوں کا خاص طور سے سنسکرت کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان کی تحریروں نے ہندوستانی عالموں کو کافی تقویت پہنچائی ہے، مگر ہندوستانی لسانیات کو ان مستشرقین سے زیادہ فائدہ ہوا جن لوگوں نے یہاں رہ کر یہاں کی زبانوں کا براہ راست مطالعہ کیا ۔ ہندوستان میں وارد ہونے والے غیر ملکی عالموں نے تجارتی اور سیاسی ضرورتوں کے تحت  ہندوستانی زبانوں کی قواعد اور لغت لکھے ہیں۔ شروع میں عیسائی مذہب کی اشاعت کے لیے مذہبی رہنماؤں اور پادریوں کے لیے ہندوستانی زبانوں کا سیکھناضروری ہوا توان لوگوں نے ہندوستانی زبانیں سیکھیں اور انھیں زبانوں کو ذریعۂ اظہار بھی بنایا، قواعد اورلغت پر بھی کام کیا۔اس کے بعد جب انگریزوں کے پیر ہندوستان میں جمنے لگے تب تجارتی اور سیاسی ضرورتوں کے تحت ہندوستانی زبانوںکا مطالعہ ان کے لیے ناگزیر ہو گیا، لہٰذا حکومت کی طرف سے ہندوستانی زبانوںکے خصوصی مطالعے کے لیے یورپی عالموں کو مامور کیا گیا۔ دوسری طرف اس بات کا ذکر پہلے ہی کیا جا چکا ہے کہ خطۂ ہند کی زبانیں خاص طورسے سنسکرت زبان یوروپی ماہرین لسانیات کے مطالعے کا اہم حصہ رہی ہیں ، گویا کہ حکومت کی ضرورتوں اور یورپی عالموں کی دلچسپی نے ہندوستانی زبانوں کے لسانی مطالعے یا یوں کہا جائے کہ ہندوستانی زبان کے سائنسی مطالعے کی داغ بیل ڈالی۔

1856 میں ’بشپ رابرٹ کالڈویل4؎ (B.R. Caldwell)‘ (1814 تا 1891)نے اپنی کتاب "A Comparative  Grammar of the Dravidian    or    South - Indian    Family   of    Languages"  میں پہلی بارجنوبی ہند کی زبانوں کے لیے دراویڈی (Dravidian) کی اصطلاح کا استعمال کیا اور جنوبی ہند کی زبانوں (تمل ، تیلگو، ملیالم اور تولو) کے ساتھ پاکستان اور افغانستان میں بولی جانے والی زبان (براہوی) کو دراویڈی خاندان کی زبان بتا کراس امر کا انکشاف کیا کہ دراویڈی زبانیں ہند آریائی سے الگ ہیں اور تورانی سے نزدیک ہیں۔5؎

ارنسٹ ٹرمپ (Ernest Trumpp)‘6؎(1828 تا 1885) کو  عیسائی مبلغین کے لیے ہندوستانی زبانوں کی لغت اور قواعد ترتیب دینے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔اس نے صرف چار سال کے لیے ہندوستان میں قیام کیا ۔ اس قلیل مدت میں اس نے پنجاب ، سندھ اور پیشاور کے علاقے کی بولیوں کا مطالعہ کیا اور سندھی زبان سیکھ کر سندھی کی پہلی قواعد "Sindhi Alphabet and Grammar" 1872 میں لکھی۔ 1837 میں اس نے پشتوزبان کی قواعد لکھی۔ اس نے افغانستان کے علاقے کی زبانوںکا سنسکرت اور شمالی ہند کی دوسری زبانوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ ٹرمپ کی کتابیں ہندوستانی زبانوں کے تقابلی مطالعے کی اہم کڑی ہے جن سے نئی راہیں ہموار ہوئیں۔

سر جان بیمز) (John Beames‘ 7؎(1837 تا1922)کو سنسکرت اور فارسی پر عبور حاصل تھا،وہ ہندوستانی زبانوں کا ماہر تھا ،ہندوستانی ادبیات اور تاریخ کااس کا مطالعہ بھی عمیق تھا۔’بیمز‘ 1861 میں بنگال میںتقرری کے بعدلگاتار ایشیاٹک سوسائٹی کے جلسوں میں شامل ہوتا اور اپنے مضامین پیش کرتا تھا۔ اس نے1867 میں" "An Outline of Indian Philologyلکھی ، گرچہ اس کتاب کو لسانی مطالعے میں اعتبار حاصل نہیں، باوجود اس کی تاریخی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ’سید احتشام حسین‘ نے ’ ’ہندوستانی لسانیات کاخاکہ‘ ‘  کے نام سے اپنے پر مغز مقدمے کے ساتھ اردو زبان میں ترجمہ کر کے شائع کروایا۔ ’ بیمز‘کا ہندوستانی لسانیات کے فروغ میں سب سے اہم اور نمایاں کام اس کی کتاب ــــ"Comparative Grammar of Indo-Aryan Languages"ہے، جس کی تین جلدیں بالترتیب 1872،1875 اور 1879 میں شائع ہوئیں۔اس کی پہلی جلدمیں ہندوستانی زبانوں کا صوتی جائزہ لیا گیا ہے ۔’بیمز‘ کاہندوستانی زبانوںکے اصوات کا جائزہ ہندوستانی زبانوںکے صوتی مطالعے کا آغاز تھا اور ہند آریائی کی زبانوں کو سامنے رکھ کر ان کے قواعد کا تقابلی مطالعہ ہندوستانی زبانوں کے تقابلی مطالعے کی اولین کوشش بھی تھی جولسانیات کے اصولوں کے اعتبار سے کی گئی تھی ۔

اے۔ایف۔آر۔ہارنلے(Augustus Frederic Rudolf  Hoernle) ‘8؎  (1841 تا 1918)  بھی ہندوستانی لسانیات کی تاریخ میںاپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اس نے لندن سے اعلی تعلیم حاصل کرنے اور پھر ہندوستان میں سکونت پذیر ہونے کے بعد اپنی عملی زندگی کے بیشتر اوقات ہند آریائی زبانوں کے مطالعہ میں لگا دیے، 1880 میں اپنی کتاب "Comparative Grammar of the Gaudian* Languages"  میںپہلی بار بہار کی زبانوں (جن میں خاص طور سے بھوج پوری اور ماگدھی)کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، اس نے آریوں کے نقل مکانی کے تعلق سے مشہور نظریہ بھی پیش کیا جسے "Two-wave Theory of Indo-Aryan migration" کہا جاتاہے۔ ’ہارنلے‘ کی تحریروں اور اس کے نظریے سے بعد کے عالموں نے خوب استفادہ کیا جن میں ’گریرسن‘ کا نام اہم ہے۔

یورپی عالموںمیں ’سرجارج ابراہیم گریرسن (George Abraham Grierson)‘ 9؎ (1851 تا  1941) اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں جنھیں حکومت نے 1898 میں ہندوستانی زبانوں کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن10؎ کا صدر منتخب کیا ۔ ’ گریرسن ‘ نے چند ہندوستانی اور انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے کام کو بحسن و خوبی انجام دیا اور 1928 میں حکومت کو  "Linguistic Survey of India" کی اُنیس  حصوں پر مشتمل گیارہ ضخیم جلدوں کی اپنی رپورٹ سونپی ۔ رپورٹ کی پہلی جلدمیں’ گریرسن‘ کا پر مغز مقدمہ ہے جس میں اس نے ہند آریائی زبانوں پر مفصل گفتگو کی ہے۔ اسی جلد کے دوسرے حصے میںہندوستانی زبانوں کا تقابلی فرہنگ تیار کیاہے۔ لسانی اعتبار سے "Linguistic Survey of India" میں کچھ کمیاں بھی ہیں، باوجود اس کے یہ کارنامہ ہندوستانی لسانیات کی تاریخ کا غیر معمولی ذخیرہ ہے جو آج بھی لسانیات کے علما کو بہترین مواد فراہم کرتا ہے۔ ’ گریرسن‘ ہمارے لیے اس لیے بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس نے اپنے بہار قیام کے دوران بہار کی زبانوں اور بولیوں کا مطالعہ کیا اور بہاری زبان کی مختصر قواعدلکھی۔ 1883سے 1887 کے بیچ تین جلدوں میں شائع ہونے والی کتاب  "Seven Grammars of the Dialects and Subdialects of the Bihari language" بہار کی زبانوں کے تقابلی مطالعے کے لیے اہم ماخذ بھی ہے۔’گریرسن‘ نے 1906میں پشاچی زبا نوںپر ایک کتاب "The Pisaca Languages of North-Westen India" لکھی۔1916 میں کشمیری زبان کی لغت کو مدون کیا اور1920 میں ایرانی بولیوں پر اہم کام کرتے ہوئے "Ishkashmi, Zebaki and Yazghulami: an Account of Three Eranian Dialects" لکھا۔گویا کہ ہندوستانی لسانیات کے تعلق سے ’گریرسن‘ کی  خدمات قابل صد احترام ہیں۔

 مذکورہ بالا مستشر قین کے علاوہ یوروپ اور امریکہ کے ماہرین میں کئی ایسے نام ہیں جنھوں نے ہندوستانی زبانوں کے لسانی مسائل پراظہار خیال کیا ہے، جن کی تحریریں ہندوستانی عالموں کے لیے رہنما ثابت ہوئیںاور انھوں نے ہندوستانی زبانوں کے سائنسی طرزِ مطالعہ کو فروغ دینے میں اہم کردار نبھایا۔ ان میں’میکس میولر‘، ’وھٹنی‘، ’جارج بیلی‘،’ ژولس بلوک ‘، ’ بلوم فیلڈ ‘وغیرہ کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔

ہندوستانی زبانوں پر جدید لسانی اور سائنسی طرز سے ہندوستانی عالموں کے ذریعہ کیے گئے کام پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلا نام ’رام کرشن گوپال بھنڈارکر11؎ (1837تا 1925)کا آتا ہے۔ ’بھنڈارکر‘ ایک مورخ اورمصلح کے طور پر زیادہ جانے جاتے ہیں مگرہندوستانی لسانیات کی تاریخ میں ایک ماہر ِزبان کے طور پر بھی ان کی اپنی الگ پہچان ہے۔ ’بھنڈارکر ‘ نے ہندوستان کی قدیم زبانوں سنسکرت، پالی اور پراکرت کا تاریخی تجزیہ کیا اور ان زبانوں کے باقاعدہ لسانی مطالعے کو فروغ دیا ہے۔ لسانیات کے موضوع پر یوں تو ان کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ملتی مگر  ’’ولسن فلولوجی لکچررشپ سیریز‘‘ 12؎ کے تحت دیے گئے ان کے سات لکچروں کی ایک کتاب"Wilson Philological Lectures : on Sanskrit and the Derived Languages"  ہے جو 1914میں شائع ہوئی۔ ان لکچروں میں سنسکرت ، پالی اور پراکرت کے آغاز و ارتقا اور ان زبانوں کی بولیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  زبانوں کی ساخت اور قواعد پر بھی عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔’ڈاکٹر بھنڈارکر‘ کے یہ لکچرکسی ہندوستانی کا پہلا لسانیاتی کام تھا،جس نے قدیم ہند آریائی کے لسانی مطالعے کی نئی راہیں ہموار کیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انیسویں صدی میں ہندوستانی لسانیات یا ہندوستانی زبانوں پر باقاعدگی سے یوروپی مستشرقین نے جو کام کیا وہی ہمارا اصل سرمایہ ہے، چند ہندوستانی علما بھی اس قبیل میں اہمیت رکھتے ہیں مگر ان لوگوں نے لسانیات کا باقاعدہ کوئی علم حاصل نہیں کیا تھا ، اس لیے اس وقت تک ہمارے علماء قواعد اور لغت تک ہی محدود تھے۔ اگر کسی نے زبان اور اس کے مسائل پر اظہار خیال کیا بھی تو ان کی باتیں عالمانہ ،مفکرانہ اور فلسفیانہ ضرور تھیں مگر سائنسی نہیں تھیں۔ہندوستانی عالموں میں ’بھنڈارکر ‘  پہلے شخص تھے جنھوں نے یوروپ میں دوران تعلیم زبان اور مسائل زبان کا  باقاعدہ مطالعہ کیا اور پھر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

ہندوستا نی زبا ن کی لسانی اہمیت کے اعتبار سے بے حد ضروری تھا کہ یہاں بھی باقاعدہ لسانیات کی تعلیم دی جائے ، لہٰذا 1904 میں ہندوستان میں لسانیات کی تعلیم کا پہلا مرکز قائم کیا گیا، کلکتہ یونیورسٹی (قائم 1857)میں 1904میں "Department of Comparative Philology" 13؎ قائم ہوا، جہاں تاریخی اور تقابلی لسانیات کا خصوصی درس دیا جاتا تھا۔اس طرح ہندوستان میں زبان کے مطالعے کو اپنی الگ پہچان حاصل ہوئی ۔اسی طرح 1939 میں ’’دکن کالج،پونا‘‘14؎  کے قیام سے ہندوستان میںجدید لسانیات اور زبان کے خالص سائنسی طرزِ مطالعہ کو فروغ حاصل ہوا ، بلکہ دکن کالج سے ہی ہندوستان میں جدید لسانیاتی مطالعے کا آغاز ہوتا ہے۔ بعد میں کالج کے ذریعہ موسم گرما اور موسم سرما کے لسانیاتی کورس بھی چلائے گئے جس سے ملک میں لسانیات کے علم کو مزید وسعت حاصل ہوئی اور یہاں کے فارغین نے ہندوستان میں لسانیات کے فروغ میں اہم کردار نبھایا ہے۔ کلکتہ اور پونا کے بعد علی گڈھ ، دلی ،مدراس ، حیدرآباد،گجرات اور مہاراشٹرا میں بھی لسانیات کا شعبہ قائم کیا گیا جس سے آج اس شعبۂ علم نے ترقی کی نئی منزلیں طے کر لی ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ہی ایک طرف جہاں دنیا میں خاص طور سے یوروپ،امریکہ اور روس جیسے ممالک میں لسانیات کا علم تیزی سے ترقی کر رہا تھا، وہیں ہندوستان میں بھی لسانیات ایک آزاد شعبۂ علم کی صورت اختیار کر چکا تھا ۔طلبہ نے زبان کے خصوصی اور سائنسی مطالعے کی طرف بھی توجہ دینی شروع کی اورلسانیات کی جدید اور اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا رخ کرنے لگے۔ ماہر اساتذہ سے لسانیات کی تعلیم حاصل کی، وہاں کی درسگاہوں اور لسانی تجربہ گاہوں نے جدید لسانی شعور کو وسعت عطا کی۔ یہ ہندوستانی لسانیات کی تاریخ کے اس باب کا آغاز تھا  جہاں سے اس شعبۂ علم نے ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے وہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ آج ہندوستانی ماہرین لسانیات کا شمار بھی دنیا کے صف اول کے ماہرین میں ہوتا ہے۔

جدیدہندوستانی لسانیات کی تاریخ کا ایسا ہی ایک نام ’ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی(1890تا 1977) ہے، جن کاذکر کیے بغیرہندوستانی لسانیات کی تاریخ کا باب ادھورا ہے۔ ان کا شمارنہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے صفِ اول کے ماہرین ِلسانیات میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر چٹرجی15؎ نے لندن میں رہ کر لسانیات کی تعلیم حاصل کی ۔’لندن یونیورسٹی‘ سے صوتیات کا ڈپلومہ کیا۔ پراکرت،فارسی،آیرش اور گوتھک زبانوں کا بھی مطالعہ کیا۔ 1922 میں مشہور ماہرِ لسانیات ’پروفیسر زیولس بلاک ‘ کی نگرانی میں پیرس کی ’سوربون یونیورسٹی‘ سے لسانیاتی تحقیق کی اور ڈی۔لٹ ۔ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہندوستان واپس آئے تو کلکتہ یو نیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔ 1926میں منظرِعام پرآئی ڈاکٹر چٹرجی کی پہلی لسانی تصنیف ’بنگالی زبان کا آغاز و ارتقا‘نے لسانیاتی مطالعے کو واضح سمت عطا کی ہے۔ ان کی دوسری اہم کتاب ’ہندآریائی اور ہندی‘ (م۔1942) میں جدید ہندآریائی زبانوں (اردو ،ہندی ،بنگالی وغیرہ)کی خاندانی گروہ بندی ،پیدائش و ارتقاء اور ان کے آپسی تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ انھوں نے ’گریرسن‘ کے لسانیاتی جائزۂ ہند کے اغلاط کی بھی نشاندہی کی ہے۔"Bengali Phonetic Reader" ڈاکٹر چٹرجی کی ایک اور اہم کتاب ہے جس میں بنگالی صوتیات پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی ہندوستانی لسانیات کا بڑااور معتبر نام ہے،جس کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر محی الدین قادری زور نے انھیں ’ہندوستانی لسانیات کا امام‘ کہا ہے۔‘‘16؎

 پروفیسر آئی۔جے۔ایس۔ تاراپوروالا(1884تا1956)‘اور’پروفیسرسیدمحی الدین قادری زور (1904تا 1962)‘بھی ہندوستانی لسانیات کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔کئی ہندوستانی، یورپی اور ایرانی زبانوں17؎  کے جانکار ’پروفیسرتاراپوروالا ‘ نے کیمبرج یونیورسیٹی سے وکالت کی اور ہندوستان میں بحیثیت وکیل کام بھی کرنے لگے مگر ماہر صوتیات ’پروفیسر کرسچین بارتھولوما‘سے ملاقات کے بعد ہند آریائی زبانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی تو جرمنی کے ’’ورزبرگ یونیورسٹی(Wurzburg University)‘‘ میں لسانیات کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے پی ایچ۔ڈی بھی کر لی۔ہندوستان واپسی کے بعد کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات میں تقابلی لسانیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔گرچہ ان کا اہم لسانی کام پارسی مذہب کی مقدس کتاب کی مقدس زبان ’ایوستا(Avesta)‘ کا مطالعہ ہے،مگر ان کی کتاب "Elements of the Science of Language"  اور "Sanskrit Syntax" لسانی مطالعے میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ1928 میں قائم ہوئے ہندوستانی لسانیاتی انجمن Linguistic Society of India") ـ(" 18؎ کے بنیاد گزاروں میں سے تھے۔ کلکتہ یونیورسٹی میں لسانی علوم کو فروغ دینے میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ کلکتہ یونیورسٹی کے بعد 1940میں دکن کالج ،پونا کے شعبۂ لسانیات (قائم۔1939)سے وابستہ ہو ئے جولسانیات کی تعلیم کا ملک کا اعلی تعلیمی ادارہ ہے۔پروفیسر محی الدین قادری زورکا بھی شمارملک میں جدید ہندوستانی لسانیات کے قافلہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ ایم اے کی اعزازی کامیابی کے بعد اعلی تعلیم کے لیے یوروپ جانے کا وظیفہ ملا تو آپ نے وہاں لسانیات کو اپنا موضوعِ مطالعہ اور موضوعِ تحقیق بنایا۔ اگرچہ ہندوستان واپسی کے بعد اپنی انتظامی مصروفیات کی بنا پر آپ لسانیات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے پائے، تاہم آپ کی کتا ب" "Hindustani Phonetics آج بھی لسانیات کے طالب علموں یہاں تک کہ ماہرین ِ لسانیات کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔

اب تک ہندوستان میں لسانیاتی مطالعہ کا دائرہ تاریخی اور تقابلی ہی تھا۔ مختلف لسانی اداروں کے قیام اور یورپ و امریکہ کی لسانی تربیت نے ہندوستان میں لسانی مطالعے کو مزید وسعت عطا کی اور 1930 کے بعد  زبانوں کے تجزیاتی اور توضیحی مطالعے کو فروغ حاصل ہوا۔زبانوں کے تقابلی مطالعے کے بجائے کسی ایک زبان کا خصوصی مطالعہ کیا جانے لگا، اس لیے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لسانیات کے علم نے خوب ترقی کی ہے ،آج عالمی منظرنامے پر ہندوستانی لسانیات کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔

جب ہم اردو لسانیات کی روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اردو میں بھی لسانیات کی عمومی روایت کے مطابق  زبان کے مطالعے کی اولین کوشش لغت کی ہی شکل میں نظر آتی ہے۔گرچہ جدید لسانیاتی مطالعے میں فرہنگ اور لغت کی تدوین کا کام زبان کے مطالعے سے متعلق نہیں مگر ان کی لسانی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ لغت صرف ذخیرۂ الفاظ اور معنی نہیں بلکہ زبان کی ترقی اور نشوو نما کے مختلف مراحل منعکس کرنے والا آئینہ ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو لغت الفاظ کے معانی و مفاہیم اور ان کی حیات کے بارے میں اساسی نوعیت کی معلومات بہم پہنچانے کی بنا پر لسانی اہمیت بھی اختیار کر جاتا ہے19؎ ۔اردو لغت کی پہلی تدوین ’ امیر خسرو (1253 تا 1325)‘نے کی۔ ’ امیر خسرو‘ کی منظوم لغت20؎  ’’خالقِ باری‘‘ کو اردو زبان کی پہلی لغت کا درجہ حاصل ہے، البتہ کتاب کے خالق کے تعلق سے محققین میں اختلاف بھی ہے21؎  مگر تقدم کے اعتبار سے اس کتاب کو اولیت حاصل ہے۔ ’خالقِ باری‘ کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کے تتبع میں کئی منظوم لغات لکھے گئے ۔اس کے علاوہ ’امیر خسرو‘ نے اپنی مثنویوں کے دیباچے میں زبان ہندوی کا ذکر اور اس کے صرف ونحو کی بھی  تعریف کی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ یورپی ہندوستان میں تجارت کی غرض سے تو آئے مگر جیسے جیسے ان کے پیر جمتے گئے وہ تجارتی تسلط کے ساتھ یہاں مذہبی اور سیاسی تسلط بھی قائم کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے لگے ۔ عیسائی مبلغین کو مذہب کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے ہندوستانی زبانوں کے سیکھنے کی ضرورت پڑی توانھوں نے لغت اور قواعد کی طرف خاص توجہ دی، اردو زبان کے تعلق سے ایسی ہی پہلی منظم کوشش سولھویں صدی کی آخری دہائی میں عیسائی مبلغ ’جیرونیمو زیویٔر (Jeronimo Xavier)‘ (1549 تا 1617)22؎  نے کی،اس نے اپنے آگرہ قیام کے دوران پرتگالی۔ ہندوستانی۔  فارسی لغت کا ایک مجموعہ"Vocabularium Potrugalico Hindustano Persicum"  مرتب کیا (قرین قیاس ہے کہ اس کی تصنیف 1599 سے قبل کی ہے)۔  اس کتاب کا شمار اردو کی قدیم ترین لغت اور قواعد اردو میں ہوتا ہے۔23؎

خالقِ باری ‘ کے خالق کے اختلاف اور ’جیرونیمو زیویٔر‘ کی پہلی لغت سے قطع نظر نامور محقق ’ڈاکٹر سید عبد اللہ‘ کی مانیں تو اردو میں فرہنگ نویسی کا باقاعدہ آغاز ’سراج الدین علی خان آرزو(1688 تا 1765)‘ کی کتاب ’’نوادر الالفاظ‘‘ (سنِ تصنیف 1165ھ /1743) سے ہوتا ہے24؎ ۔’نوادر الالفاظ ‘ کے تعلق سے اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کو ’خان آرزو‘ نے اس وقت لکھنے کا ارادہ کیا جب انھوںنے ’میرعبدالواسع ہانسوی‘کی اردو فارسی لغت ’غرائب اللغات(سن تصنیف1660)‘ 25؎کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب میں انھیں بہت زیادہ غلطیاں نظر آئیں۔ ’خان آرزو ‘نے اپنی کتاب ’نوادرالالفاظ‘ میں ’غرائب اللغات ‘ کے اغلاط کی تصحیح کرتے ہوئے اس وقت تک اردو میںمستعمل عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت اور دکنی کے الفاظ بھی شامل کر کے ان کے معنی کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔’ خان آرزو ‘ نے جس طرح اپنے عہد کی اہم زبانوں کے الفاظ کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے، اسے تقابلی لسانیات کی اولین کوشش کہا جا سکتا ہے ، بلکہ’ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ تو ’خان آرزو‘ کو تقابلی لسانیات کا موجد اور ہندوستان میں لسانیاتی مطالعے کا بنیاد گزار مانتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

’’ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے فارسی اور ہندی(یاسنسکرت) کی وحدت اور توافق کا راز دریافت کیا۔ تقابلی لسانیات کے سلسلے میں جرمن فضلانے بہت کام کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کارنامے کا سہرا عموماًانہی مستشرقین کے سر باندھا جاتاہے۔ مگر ہمارا گمان یہ ہے کہ ایرانی اور ہندوستانی زبانوں کی اصولی وحدت کا انکشاف سب سے پہلے خان آرزو نے کیا ہے۔‘‘26؎

آپ مزید لکھتے ہیں :

’’آرزو کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستانی زبان کی لسانی تحقیق کی بنیاد رکھی، ہندوستانی فیلالوجی کے ابتدائی قواعد وضع کیے اور زبانوں کی مماثلت کو دیکھ کر ان کے توافق اور وحدت کا راز معلوم کیا۔یہ اصول ان کی کتاب مثمر27؎ میں بہ تفصیل ملتے ہیں۔‘‘28؎

مشرقی اور مغربی علما اردو لغت کی تدوین کاکام تواتر سے انجام دے رہے تھے، یورپی تاجروں اور عیسائی مبلغین کی آمد کے بعد ہندوستانی زبانوں کی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں، یورپی خاص طور سے ڈچ، پرتگالیوں، فرانسیسی اور انگریزوں نے اپنے مقصد کے تحت(اپنے ہم وطنوں کے لیے ہندوستانی سیکھنے کی سہولت فراہم کرنا)ہی سہی پرہندوستانی زبانوں کے مطالعے کو خصوصی اہمیت دی، بقول ’ڈاکٹر مسعود ہاشمی‘ کہ:

’’ ہندوستان میں بھی اس قسم کے سیاسی حالات اور تہذیبی عوامل، یعنی اولاً مسلمانوں کی اور پھر یوروپی اقوام کی آمد، اردو لغت نویسی کی ابتدا اور ارتقا کا سبب بنے ۔ چنانچہ ایک طرف تو عربی اور فارسی لغت نویسی کی روایت نے اردو لغت نویسی کے لیے بنیاد کا کام کیااوردوسری طرف مستشرقین (یوروپیوں) کی ہندوستانی لغت نویسی نے اسے جدید ،سائنسی اور منطقی انداز سے ہم کنار کیا۔‘‘29؎

اس طرح اردوزبان کو سمجھنے کی غرض سے لغت کی تدوین عمل آئی۔ زبان کو سیکھنے اور سکھانے کے لیے قواعد کی تالیف کا کام انجام پانے لگا۔اردو قواعد کی تالیف کا کام سب سے پہلے یورپی عالم ’جان جوشوا کیٹلر (Joanes Josua Ketelear) ‘30؎ (1659 تا 1718)نے کیا ، پرتگالی سفیر’ جوشوا کیٹلر‘ نے لیٹن زبان میں ہندوستانی کی قواعد لکھی۔ ’کیٹلر‘ نے یہ کتاب آگرہ قیام (1696-97) کے دوران لکھی جس میں اس نے کئی بار ترمیم بھی کی اور بالآخر 1714 میں یہ کتاب مکمل ہوئی ۔ کتاب کوپہلی بار ’’ڈیوڈ ملس (David Millius)‘‘ (1692تا 1756) نامی ڈچ عالم نے 1743 میں اپنی کتاب  "Millius' Dissertationes Selectae"کے دوسری اشاعت میں شائع کی۔ ’ملس‘ نے ’کیٹلر‘ کی کتاب کی زبان ڈچ بتائی ہے۔ اس طرح اردو کی پہلی قواعد کی کتاب "Miscellanea de Lingua Hindustanica"   منظر عام پر آئی، جسے ’’کیٹلرکی ہندوستانی قواعد(Ketelaer Lingua Hindustanica) ‘‘کے نام سے بھی شہرت حاصل ہے۔’کیٹلر‘ نے اردو صرف و نحو کی لغت بھی مرتب کی ہے جو اسی کتاب کا ایک حصہ ہے۔ ’کیٹلر‘ کے اس کارنامے نے اردو زبان سے دیگر یورپی عالموں اور مستشرقین کو متعارف کرایااوران کی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس نے اردو زبان کے مطالعے کے اولین باب کا آغاز کیا جسے اردو زبان کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

ڈچ تاجر ’کیٹلر‘ کی اردو قواعد کے منظر عام پر آنے کے صرف دوسال بعد جرمنی نژاد عیسائی مبلغ ’بنجمن شیلزے(Benjamin Schultze)‘ 31؎ (1689 تا 1760) نے مدراس میں قیام کے دوران 1745 میں لاطینی زبان میں ہندوستانی (اردو) کی قواعد "Grammatica Hindostanica" لکھی (انگریزی ترجمہ کا نام "A Grammar of Hindustani Language" )۔ ’شیلزے‘ نے ہندوستانی الفاظ کو فارسی رسم الخط میں ہی لکھا ہے اور تلفظ کی ادائیگی کے لیے لاطینی زبان کا سہارا لیا ہے۔ چونکہ ’شیلزے‘ ایک مذہبی مبلغ تھا، اس لیے اس کے یہاں عام بول چال کی زبان کے الفاظ کی بہتات ہے۔اس کتاب میں قدیم دکنی اردو کے الفاظ اسی تلفظ اور املا میں موجود ہیں جس طرح اس عہد میںادا کیے جاتے تھے ، اس اعتبارسے ’شیلزے‘ کی کتاب کی لسانی اہمیت مسلم ہے۔

انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنا کر پہلی اردو قواعد انگریز عالم ’جارج ہیڈلی  (George Hadley)‘ 32 ؎ نے لکھی ۔قرین قیاس ہے کہ ’ہیڈلی‘ فوج میں تھا اور اس کے علاوہ دوسرے انگریز فوجی بھی ہندوستانی (اس وقت کی  اردو)سے عدم واقفیت کی بنیاد پر دقتوں کا سامنا کر رہے تھے۔’ہیڈلی‘ چاہتا تھا کہ انگریز ملازم بغیر کسی معاون (منشی) کے براہ راست اپنے ہندوستانی ملازمین کے رابطے میں رہیں، لہذا اس نے ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کے درمیان ترسیل کی اس پریشانی کو دور کرنے کے غرض سے خود بھی ہندوستانی سیکھی اور بعد میں اپنی کوششوں سے انگریز ملازموں کے لیے ہندوستانی کی ایک قواعد "A Compandious Grammar of the Dialect of Jorgan of Hindustan"  1765 میں مرتب کر لی،جو پہلی بار 1770 میں لندن سے شائع ہوئی، ’ہیڈلی‘ نے لندن پہنچ کر نظر ثانی کے بعد دوبارہ اسے 1772 میں لندن سے ہی شائع کروایا۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کے متعدد ایڈیشن ’ہیڈلی‘ کی زندگی میں شائع ہوئے، اور اس کی وفات کے بعد بھی کتاب کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ ‘مرزا فطرت لکھنؤی‘کے ذریعہ کچھ ترمیم اور تصحیح کے ساتھ ’ہیڈلی‘ کی قواعد کا اضافہ شدہ ایڈیشن 1802 میں شائع ہوا، لہٰذا کتاب کے نئے ایڈیشن کے سرورق پر ’مرزا فظرت لکھنوی‘ کا  نام بھی درج ہے۔’ہیڈلی‘ کی قواعد کی زبان انگریزی ہے جس میں اردو الفاظ فارسی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں، لہٰذا اسے انگریزی زبان میں اردو کی پہلی قواعد ہونے کا شرف حاصل ہے۔

اپنے سیاسی اور تجارتی ضرورتوں کے تحت ہی یورپیوں نے ہندوستانی (اردو کا ابتدائی نام)کے مطالعے کو فروغ دیااورزبان کے مطالعے کو جدید لسانی اصولوں سے ہم آہنگ کیا۔مذکورہ عالموں کے علاوہ یورپی عالموں کی بڑی جماعت ہے جنھوں نے اردو زبان کی قواعد اور لغات پر سنجیدگی سے کام کیاہے۔ ان میں ’جے۔ فرگوسن‘ کی کتاب "A Short Dictionary of the Hindustani Language" (م۔1773)، ’ہنری ہیرس‘ کی کتاب "Analysis Grammar and Dictionary of Hindustani Language" (م۔ 1790)، ’وائی رابرٹ‘ کی لغت"  "An Indian Glossary(م1800)، ’جان گلکرسٹ‘ کی متعدد کاوشیں اور کتابیں ’انگریزی اردو لغت‘ (م1786)، ’ہندوستانی زبان کی قواعد‘ (م 1794)، "Oriental Linguistics"  (م۔1798)، ’جارج ابراہیم گریرسن‘ کی  "Linguistic survey of india" (م۔ 1916)۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ کئی ایسے نام ہیں جنھوں نے اردو زبان کے خصوصی مطالعے کو فروغ دے کر اردو کے باقاعدہ اور منظم لسانی مطالعے کی داغ بیل ڈالی اور جب تک ہندوستان میں مستقل قیام رہا، ان یورپی ماہرین اور مستشرقین نے اردو کے لسانیاتی مطالعے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

ہندوستانی (اردو کا قدیم نام)کے لسانیاتی پہلو پر باضابطہ گفتگو کا آغاز یورپی علما نے کیا ، جن میں پرتگالی سفیر ’جان جوشوا کیٹلر‘ کو اولیت حاصل ہے، جس نے 1715 میں لیٹن زبان میں ہندوستانی کی پہلی قواعد لکھی۔ اس کے بعد یورپی عالموں کی اردو قواعد اور لغت پر خصوصی توجہ نے اردو زبان کو دوسری یورپی زبان سے منسلک کیا اور پھر یوروپی عالموں کی اردو زبان سے دلچسپی نے اردو زبان کے مطالعے کونئے زاویے سے آشنا کرایا ۔اردو زبان کے باقاعدہ لسانی مطالعے کاآغاز بھی انہی یورپی عالموں کے توسط سے ہوا جو ہندوستان کی زبانوں کا یورپ کی زبانوں کے ساتھ رشتۂ انسلاک تلاش کرنے کی تحقیق وجستجومیں لگے ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں ہندوستانی علما میں بھی زبان اور اس کے مسائل سے دلچسپی پیدا ہوئی ، توسب سے پہلے لغات ترتیب دیے گئے اور قواعد کی کتابیں لکھی گئیں ۔ ’’سراج الدین علی خان آرزو کی لغت کی کتاب ’نوادرالالفاظ‘ مطبوعہ 1743 اور ’انشاء اللہ خاں انشا‘ کی قواعد کی کتاب ’دریائے لطافت ‘ مطبوعہ 1807 اس سلسلے کی اہم کتابیں ہے۔ غور طلب ہے کہ جس طرح مستشرقین نے انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بناکر ترتیب و تدوین کا کام کیا، اسی طرح ہندوستانی علما نے فارسی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔

انشاء اللہ خاں انشا ‘کی شہرۂ آ فاق کتاب ’دریائے لطافت‘ کو اردو لسانیات کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ماہر لسانیات پروفیسر عبد الستار دلوی نے اس کتاب کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اردو میں جدید لسانیاتی شعور کا آغاز قراردیا ہے(بحوالہ انتساب ، اردو میں لسانیاتی تحقیق، مرتبہ عبدالستار دلوی )۔ اردو قواعد کی پہلی کتاب ’دریائے لطافت‘  گرچہ فارسی زبان میں لکھی گئی ہے مگر اس کا موضوع اردو قواعد اور الفاظ ہی ہیں ۔ انشا نے اس کتاب میں جس قدر اپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو قواعد، روز مرہ ، ضرب الامثال ، محاورے، حروف اور املا کے ساتھ ساتھ منطق، عروض، معانی اور بیان پر تفصیلی گفتگو کی ہے ،ان کے پختہ لسانی شعور کا مظہر ہیں۔ مذکورہ کتاب میں اردو اور اس کی بولیوں کا جس قدرمعروضی تجزیہ پیش کیا گیا اور ان کے تلفظ ، لہجہ و معنی کو وضاحت اور سراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے، اس کی لسانی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔

 انشا کے بعد اردو زبان کے لسانی مسائل پر اظہارِخیال کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔پہلی باراردو زبان کو وسیلۂ اظہار بنا کر اردو کے لسانی مسائل پر اظہارِ خیال سر سید احمد خاں نے کیا۔ سر سید نے 1840 میں اردو صر ف و نحو پر ایک رسالہ تالیف کیا ۔۔۔ ’قواعد صرف ونحو زبان ‘ ،یہ رسالہ مختصر ہے مگراردو لسانیات کی تاریخ میں اس کا ذکر ناگزیر ہے۔

یوں تو اردو زبان کی پیدائش اور ارتقاکے متعلق پہلی تحریر میر امن کی مشہور تصنیف ’باغ و بہار‘ مطبوعہ 1803 میں ملتی ہے جس میں اس نے اردو کی پیدائش کو اکبر کے عہد سے جوڑکر اسے مخلوط زبان قرار دیا ہے، مگر میر امن کی تحریرکو لسانی مسائل پر اظہار خیال کی شعوری کوشش نہیں قراردیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ’امام بخش صہبائی‘ نے جب اپنی کتاب ’قواعد صرف و نحواردو‘  مطبوعہ 1845 میں اردو زبان کے آغاز کے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا تواسے شعوری طور پر اردو کے لسانی مسائل پر اظہار خیال کا سلسلۂ آغاز سمجھا جانا چاہیے۔ اس کے بعد’مولوی سید احمد دہلوی، سر سید احمد خاں، مولوی کریم الدین، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی وحیدالدین سلیم ، مولوی عبد الحق، نصیر الدین ہاشمی، سیدسلیمان ندوی، پنڈت برج موہن دتاتریا کیفی وغیرہ نے اپنے نظریات اور تصانیف سے اردو لسانیات کی روایت کو مزید وسعت اور توانائی عطا کی۔

   بیسویں صدی کے ربع اول تک اردو لسانیات کے مطالعے کا دائرہ وسیع ہو چکاتھا ، قواعد کی تدوین ، لغت کی ترتیب اور وضع اصطلاحات کے علاوہ زبان اور اس کے متعلقہ مسائل پرسنجیدہ تحقیقی کارنامے سامنے آئے ۔ یورپ کی طرح ہندوستان میں بھی آزادانہ طور پر لسانیات کے مستقل علم کی صورت میں مطالعہ کیا جانے لگا۔زبان کا تاریخی ، تقابلی اور توضیحی مطالعہ جدید سائنسی طر ز سے کیا جانے لگا ۔ اردو میں اس جدید طرز مطالعہ کا آغاز ’حافظ محمود خاںشیرانی‘ کی کتاب ’پنجاب میں اردو ‘  مطبوعہ 1928 سے ہوتا ہے ۔ حافظ شیرانی پہلے محقق ہیں جنہوںنے اردو کے قدیم لسانی مواد کی مدد سے اردو اورپنجابی زبان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مدلل آرا قائم کی ہیں، (گرچہ بعد میں پروفیسر مسعود حسین خان نے پنجاب میں اردو کے نظریے کو قطعیت کے ساتھ رد کیا ہے)۔ محمود شیرانی نے پنجابی کو اردو کی اصل و اساس ثابت کرنے کے لیے پنجابی کی صرف و نحو اور اسما و افعال کاتفصیلی جائزہ لیا ہے ، ابتدئی اردو اور پنجابی میں لسانی اشتراک قائم کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے تحقیقی و تجزیاتی مطالعے نے اردو کی لسانیاتی تحقیق کو ایک نیا طرزعطا کیا ہے۔

 گرچہ اردو میں لسانیاتی مطالعے کے جدید طرز کا آغاز محمود شیرانی کی کتاب سے ہوتا ہے مگراردو زبان کے سائنٹفک مطالعہ(لسانیات) کی بنیاد ’ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ‘نے رکھی۔ ڈاکٹر زور جدید اردو لسانیات کے موجد ہیں، انہوں نے ہی اردو زبان کو لسانیات کے جدید اور سائنٹفک اصولوں سے متعارف کرایا نیزاردو لسانیات کے مطالعے کو وسعت دے کر توضیحی لسانیات کا اضافہ کیا ۔ اس ذیل میں ان کی دو کتابیں’ ہندوستا نی فونیٹکس‘  مطبوعہ 1930 اور ’ہندوستانی لسانیات‘  مطبوعہ1932 اولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ ’ہندوستانی فونیٹکس‘ اردو کے صوتیاتی پہلو پر عملی تحقیق کا اولین نمونہ ہے ۔ ڈاکٹر زور نے ہی زبان کے مطالعے میں آواز کی اہمیت کو روشناس کرایا ہے۔ مختلف حروف کی ادائیگی میں باریک سے باریک فرق کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا ، حسب ضرورت آواز کی ادائیگی کو نقشوں کے ذریعہ بھی سمجھایا ہے۔ اردو زبان کے ارتقا میں معاون شمال اور دکن کی بولیوں کا صوتیاتی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر زور کی دوسری اہم تصنیف ’ہندوستانی لسانیات‘ اردو میں لسانیات کے موضوع پر پہلی مستند کتاب ہے۔ دو حصوں میں منقسم اس کتاب میں پہلا حصہ عام لسانیات سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ تقابلی و توضیحی لسانیات سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے حصے میں جہاں لسانیات کی تعریف، تاریخ، ماہیت، آغاز وارتقا ، لفظوں کی ارادی اور غیر ارادی تشکیل ، صوتی تغیر و تبدل، زبانوں کے عالمی خاندان اور ان کی تقسیم و گروہ بندی کو موضوع بنایا گیا ہے، وہیں دوسرے حصے کی اہم بات گجراتی اور دکنی کا تقابلی جائزہ ہے۔ غورطلب ہے’ ڈاکٹر زور‘ پہلے اردوداں ہیں جنھوں نے لندن اور پیرس میں رہ کر باقاعدہ لسانیات کی تعلیم حاصل کی۔ یوروپ میں رہ کر انھوں نے لسانیات کے جدید اصولوںکا بغائر مطالعہ کیا ، تو ضیحی لسانیات اور اس کی اہم شاخ صوتیات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا توصوتیات کے مطالعہ کے لیے لسانی تجربہ گاہ (Language Laboratory) سے بھی استفادہ کیا۔ مگر افسوس کہ ڈاکٹر زور نے جس علمی استطاعت کے ساتھ اردو لسانیات کے نئے باب کا آغاز کیا تھا وہ اسے قائم نہ رکھ سکے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو کام انھوں نے یوروپ میں قیام کے زمانے میں کیا وہی ان کااصل سرمایہ ہے۔

ڈاکٹر زور اردو لسانیات کے جدید طرز تحقیق کی جس روایت کے قافلہ سالار تھے، پروفیسر مسعود حسین خاں اس کے قائد اور امیر ہیں ۔ پروفیسر مسعود حسین خان اور ان کی لسانیاتی تحقیق اردو لسانیات کی تاریخ کا سب سے روشن باب ہے۔ مسعود صاحب نے لندن ، فرانس اور امریکہ میں رہ کر لسانیات کی اعلی تعلیم حاصل کی ، جدید لسانیات کے رموز ونکات کا گہرا مطالعہ کیا ، لسانیاتی تحقیق کے جدید شعبوں سے واقفیت حاصل ہوئی تو اردو زبان کا مطالعہ جدید لسانیاتی طر ز سے کیا۔پروفیسر مسعود حسین خان کی لسانی تحقیق کا دائرہ وسیع ہے، جس کی تائید مرزا خلیل احمد بیگ نے بھی کی ہے:

 ’’ پروفیسر مسعود حسین خان کی لسانی خدمات کے کئی پہلو ہیں جن میں تاریخِ زبان اور صوتیات،اسلوبیات، دکنیات اور قدیم متون کے لسانی مطالعے کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان کے علاوہ مسعود صاحب نے زبان کی سماجی اورتہذیبی اقدار پر بھی کافی لکھا ہے اور زبان کے سماجی لسانیاتی پہلوئوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اس کے علاوہ تدوین لغت اوررسمِ خط کے مسائل سے بھی مسعود صاحب کو کافی دلچسپی ہے۔ ‘‘ 33؎

پروفیسر مسعود حسین خاں ‘کی لسانی تحقیق کی سب سے اہم اور مقبول ان کی پہلی کتاب ’مقدمہ تاریخ زبان اردو ‘  مطبوعہ 1948 ہے ۔ اردو زبان کے آغاز و ارتقا اور اس کی سلسلہ وار تاریخ پر جدید لسانیاتی تناظر میں جدید نقطۂ نظر سے لکھی گئی یہ ایسی جامع اور مستند تصنیف ہے جس کے ہم پایہ کوئی دوسری تصنیف آج تک منظرِ عام پر نہیں آ سکی ہے۔ اس کتاب میں اردو زبان کی پیدائش کے متعلق جوشواہداور دلائل پیش کیے گئے ہیںوہ سب سے زیادہ منطقی اور معتبر ہیں۔ زبان اردو کی پیدائش کے متعلق گذشتہ تمام نظریوں کی تردید کرتے ہوئے اردو کو دہلی اور نواح دہلی کی پیداوار بتایا جس کی تشکیل کھڑی بولی اور ہریانوی کے زیر اثر ہوئی۔علم الاصوات(Phonology) جو تکلمی آوازوں کی شناخت اور سائنسی مطالعہ کا جدید شعبۂ لسانیات ہے ۔ مسعود صاحب نے پیرس یونیورسٹی ، فرانس کے مشہور لسانی ادارہ "Institute de Phonetique" سے علم الاصوات کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کیا ۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد 1954 میں جب ان کا تحقیقی مقالہ "A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu" کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا تو اردو کے صوتیاتی مسائل پر ایک جامع تصنیف ثابت ہوئی۔1986 میںکتاب کااردو ترجمہ ان کے عزیز شاگرد مرزا خلیل احمد بیگ نے’اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزیاتی مطالعہ‘ کے نام سے کیا ۔ اس مسلسل کتاب کے علاوہ اردو کے صوتیاتی مسائل پرانھوں نے مضامین بھی لکھے ہیںجو ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ اطلاقی لسانیات کی اہم شاخ اسلوبیات (جودراصل ادب پر لسانیات کے اطلاق کا نام ہے )کو اردو میں سب سے پہلے مسعود حسین خان نے ہی متعارف کرایا۔ اس ذیل میں ان کا پہلا مضمون ’مطالعہ شعر؛ صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘ 1960 میں ہمارے سامنے آتا ہے، جو اس قبیل کے دوسرے مضامین کے ساتھ ان کی کتاب’شعر وزبان ‘ مطبوعہ 1966 کا حصہ ہے۔لسانیاتی تحقیق ،اسلوبیاتی تنقید، دکنیات،تدوین لغت، قدیم متون اوران کے لسانیاتی اختصاص کا جائزہ لیتے ہوئے از سر نو اشاعت غرض کہ ’پروفیسر مسعود حسین خاں ‘ کے لسانیاتی کارناموں کی طویل فہرست ہے جس نے اردو لسانیات کے معیار کو بلند کیااور اسے مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ 

 ڈاکٹر شوکت سبزواری ‘ ، ’ڈاکٹرابو اللیث صدیقی ‘اور ’ ڈاکٹر سہیل بخاری ‘ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہم  ماہرینِ زبان ہیں۔ پاکستان میں اردو لسانیات کی روایت کو مستحکم کرنے میں ان کی تخلیقات اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر سبزواری نے اردو کے ارتقاء کو علمی اور سائنسی بنیادوں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی۔ ابو اللیث صدیقی نے جدید علم ِ زبان کی روشنی میں اردو کی لسانی تشکیل کا مطالعہ کیا اور سہیل بخاری نے اردو زبان کے ارتقا، صوتیات، صرفیات اور نحویات پرخصوصی توجہ دی۔ شوکت سبزواری کی ابتدائی دو کتابیں ’اردوزبان کا ارتقا ‘ مطبوعہ 1956 اور ’داستانِ زبانِ اردو‘ مطبوعہ 1961 اردو کے ماخذ کی تلاش کے اعتبار سے ہماری دلچسپی کا باعث ہیں ۔ پہلی کتاب میں جہاں اردو زبان کا رشتہ پالی زبان سے جوڑتے ہیں، وہیں دوسری کتاب میں کھڑی بولی اور ہندوستانی کو ایک ہی زبان تصور کرتے ہیں اور اردو کو اس کی ادبی شکل مانتے ہیں ۔ان دونوں نظریوں پر غور کریں تو پہلی کے مقابلے دوسری کتاب میں ان کا لسانی شعور بالیدہ نظر آتا ہے مگر جدید لسانی تحقیق کے تقاضے کو پورا نہیں کرتا ۔ شوکت سبزواری تاریخی لسانیات کے مقابلے توضیحی لسانیات کے ماہر نظر آتے ہیں ،گرچہ صوتیات کے موضوع پر ان کی تحریریں مضامین کی صورت میں ہی ہیں مگران مضامین کی اہمیت لسانیات کی کسی بھی مستند کتاب سے کم نہیں ہے۔ ان کے مضامین اردو کے صوتیاتی مطالعے کو فروغ دینے میں نہایت معاون ثابت ہوئے ہیں۔ شوکت سبزواری نے اردو کے پرانے اور قدیم الفاظ کی تلاش کو بھی لسانی تحقیق کاحصہ بنایا،  انھوں نے گمشدہ الفاظ کے عہد بہ عہد ارتقاپر بڑی عرق بینی سے روشنی ڈالی ہے ۔ ’اردو قواعد‘ مطبوعہ 1986 لسانیات کے اصولوں کو بروئے کار لا کر لکھی گئی قواعد کی پہلی کتاب ہے جسے مکمل کیے بغیر آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی‘ نے زبانوں کے اشتراک کا مطالعہ کیا، اردو کے ترکی زبان سے رشتے کی تلاش اور دونوں زبانوں میں تعلق قائم کرنے کے ضمن میں ان کے مضامین بے حد اہم ہیں۔ انھوں نے ترکی اور اردو کے مشترک عناصر کی نشاندہی کا کام بڑی عرق ریزی سے کیا ہے۔ان کی پہلی لسانی تصنیف ’ادب و لسانیات‘ مطبوعہ1970 کئی اہم لسانی مضامین کا مجموعہ ہے جن میں اردو کی توضیح جدید لسانیات کی روشنی میں کی گئی ہے۔ ’لسانیات‘ اور ’جامع القواعد‘ بھی آپ کی لسانی تصنیف کا حصہ ہیں۔ ’بنجمن شیلز‘ کی اردو قواعد کا ترجمہ ’بنیادی اردو‘ کے نام سے اور روز مرہ کے الفاظ کی ایک جامع لغت کی تدوین بھی آپ کے لسانی کارنامے ہیں۔

اردو لسانیات کی تاریخ میں’ سہیل بخاری ‘کے کارنامے بھی لائق تحسین ہیں مگر اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے متعلق ان کے نظریے متضاد اور غیر منطقی ہیں جنھیں مرزا خلیل احمد بیگ نظریات نہیں مفروضات سے تعبیر کرتے ہیں ۔ سہیل بخاری کے دلائل شاید ان کے لیے اس لیے بھی تشفی بخش نہ ہوں گے کہ ان کے یہاں کافی تضاد بیانی ہے۔ غور کیجیے کہ ایک جگہ وہ ارد و کو ہند آریائی زبان ماننے سے انکار کرتے ہیں تو دوسری جگہ اردو کا رشتہ کھڑی بولی سے جوڑ بیٹھتے ہیں۔ کبھی اردو کی جائے پیدائش اڑیسہ کو بتاتے ہیں تو کبھی اردو کی مماثلت مراٹھی زبان سے کرتے ہیں اور اردو کو دراوڑی زبان ثابت کرنے میں اپنی قوت صرف کرتے ہیں۔ اردو کے آغاز اورارتقاکے نظریوں سے قطع نظر ان کی تمام لسانیاتی تصنیفات لسانیات کے مطالعے کے سائنسی طرز کو اساس بنا کر لکھی گئی ہیں۔ رسم الخط ، تشکیلات، معنیات اور صوتیات کو موضوع بنا کر لکھی گئیں ان کی تمام کتابوں کو لسانیاتِ جدید کی رہنما کتابوں میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

بہار میں اردو زبان کی تاریخ لکھنے والوں میں سب سے اہم نام ’پروفیسر اختر اورینوی ‘ کا ہے۔ آپ کی کتاب ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا ‘ 1957 میں منظرِعام پر آئی ۔ اختر اورینوی نے باضابطہ لسانیات کی تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی لسانیات کے موضوع پر انھوں نے مسلسل منہمک ہو کر کام کیا ہے ،مگر’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا‘کے ابتدئی دو ابواب اور چند لسانی مضامین ان کے پختہ لسانی شعور کا مظہر ہیں۔ ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا‘ میں زبان اور علم زبان ، زبان کی پیدائش اور اس کے ارتقا کے موضوع پر جامع گفتگو کی گئی ہے ۔ اختر اورینوی کے مطابق اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جس کی پیدائش اور ارتقا میں ہندوستان کے تمام صوبوں کا حصہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سرزمین بہار کی اہمیت کو اپنی دلیلوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔بھلے ہی اختر صاحب کی تحقیق کو اردو لسانیات کی روایت میںبہت زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے مگر بقول عبدالقادر سروری :

’’لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے علما کے لیے تحقیق اور تلاش کا باب بن سکتا ہے۔ ‘‘34؎

یوں تو ہندوستان میں1904 میں کلکتہ یونیورسٹی میں اور1939 میں دکن کالج ،پونامیں لسانیات کا شعبہ قائم کیا جا چکا تھا ، مگر اردو میںجدید لسانیات کا فروغ 1953 میں دکن کالج میں قائم کیے گئے لسانیات کے مختصر مدتی موسم سرما اورطویل مدتی موسم گرما اسکول کے آغاز سے ہوتا ہے۔ اب لسانیاتی مسائل پر اظہار خیال کرنے والوں میں بیشترویسے ماہرین سامنے آئے جنھوں نے باقاعدہ لسانیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔

1953 کے بعد اردو لسانیات کے منظر نامے پر ابھرنے والے کارناموں میں پروفیسر عبد القادر سروری کی کتاب ’زبان اور علمِ زبان‘ مطبوعہ 1956 کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ’زبان اور علم ِزبان‘ اردو میں عمومی یا عام لسانیات (دراصل عمومی لسانیات میںلسانیات اور اس کے تمام شعبوں کی مبادیات سے بحث کی جاتی ہے، لسانیات کے منظرنامے پر ابھرنے والے تمام نئے رجحانات اور جدید تحقیق کا بھی جائزہ لیا جا تا ہے) کی پہلی کتاب ہے ۔ گرچہ محققین اس کتاب کو جدید لسانی تحقیق کے اعتبار سے عام لسانیات کی فرسودہ کتاب مانتے ہیں مگر اس کتاب کی تاریخی اہمیت سے کسی کو انکار بھی نہیں ۔ کتاب کی تصنیف کے مقصد پر غور کیا جائے تو مذکورہ کتاب طالب علموں کو زیر نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو لسانیات کے ابتدائی علم سے روشناس ہونے میں یہ کتاب آج بھی نہایت مفید ہے۔ مذکورہ کتاب کی دوسری اہم خوبی کتاب کے آخری حصے میں شامل لسانیاتی اصطلاحات ہیں۔ سروری صاحب کثیر اللسان عالم تھے ،انھیں اردو ،ہندی، فارسی ، عربی اور انگریزی زبان پر یکساں عبور حاصل تھا۔ انھوں نے جس طرح ہندی ، انگریزی ، فارسی اور عربی زبان کی مدد سے اصطلاحات وضع کے ہیں، وہ اردو میں بالکل نئے تھے۔تقریباً 500 لسانیاتی اصطلاحیں اس کتاب کا اختصاص ہیں۔

اردو کے نامور محقق ، نقاد اور ماہرِ زبان ’پروفیسر گیان چند جین‘جدید اردو لسانیات کی اس روایت کے امین ہیں جس کا آغاز محی الدین قادری زور سے ہوتا ہے۔ ان کے لسانی کارناموں نے اردو کی لسانیاتی تحقیق کو وسعت عطا کی۔جب انہوں نے لسانیاتی تحقیق کے جدید رجحانات اور نئی تحقیقات کو سامنے رکھ کر لسانیات کے تمام شعبے کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے ہوئے1985 میں ’ عام لسانیات ‘ جیسی اعلیٰ معیار کی کتاب لکھی، تو ’مرزاخلیل احمد بیگ‘نے اسے دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی جانے والی عام لسانیات کی کتاب کے مدِمقابل رکھی جا سکنے والی کتاب کہا۔ ڈاکٹر گیان چند جین کی ایک اہم کتاب جو1973 میں شائع ہوئی جو ان کے لسانی مضامین کا مجموعہ ہے ۔۔ ’لسانی مطالعے‘ ہے۔ لسانی مطالعے کی افادیت ، زبان اور علم زبان کی تعریف و تاریخ ، صوتیات ، رسم الخط ، لفظیات اور معنیات کو موضوعِ تحقیق بنا کر لکھے گئے مضامین لسانیاتی مطالعے کی ذیل میں کارآمد اور مفید ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹر گیان چند جین کے لسانی مضامین کے مجموعے’حقائق‘ مطبوعہ 1978 ،’ذکر و فکر‘ مطبوعہ1980 اور ’کھوج‘مطبوعہ 1990، اردو لسانیات کے سرمائے میں اضافہ ہیں۔

جدید لسانیات کی ایک شاخ ’اطلاقی لسانیات ‘ہے ،لسانیات کی ترقی کے ساتھ لسانیات کی افادیت کا دائرہ بھی بڑھتا گیا ، لسانی مطالعے کی مدد سے لسانیات کا اطلاق دوسرے شعبوں میں بھی کیا جانے لگا ، ترقی پا کر اس علم کا لسانیات کے ایک شعبے کی حیثیت سے مطالعہ کا آغاز ہوا جسے ’اطلاقی لسانیات ‘ کا نام دیا گیا ، اسلوبیات ، لغت نویسی ، ترجمہ ،تدریسِ زبان وغیرہ اطلاقی لسانیات کی اہم شاخیں ہیں۔ گلوبلائیزیشن کے اس دور میںتدریسِ زبان کی اہمیت بھی بڑھی ہے، زبان کے معلم کی خدمات کا دائرہ اب صرف اسکول اور کالجوں تک محدود نہیں رہا ۔لہٰذا لسانیات اورتدریسِ زبان کا اشتراک لازمی ہو گیا ہے۔لسانیات کا علم تدریسِ زبان کو بہتر اور آسان بنا دیتا ہے۔ اسی کے مدنظر اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلوئوں پر کام کیا جانے لگا جس کی ابتدا پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کی۔1961 میں ان کی کتاب ’اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو‘ شائع ہوئی تو زبان کی تعلیم کا ایک نیا طریقہ وجود میں آیا۔ کتاب میں انھوں نے لسانیاتی تجزیے کو بنیاد بناکر تدریس زبان کو آسا ن بنانے کی کوشش کی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اصلاحِ زبان ،املا سازی، صوتیات اور معنیا ت پر بھی مضامین لکھے ہیں۔

اگر اسلوبیات کے تعلق سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی لسانی خدمات کا جائزہ لیں تو پروفیسر مسعود حسین خان کے بعدسب سے اہم نام ہے۔ ’ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘ میں شامل میر، انیس، اقبال اور فیض کی شاعری کا اسلوبیاتی تجزیہ اوردیگر اسلوبیاتی مضامین ان کے لسانیاتی درک کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کے لسانی کارناموں میں ’دہلوی اردو کی کرخنداری ‘ مطبوعہ 1961 اور ’ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ مطبوعہ 1993 کو اردو کے لسانیاتی مطالعے کے جدید رجحانات کو فروغ دینے میں اہم مقام حاصل ہے۔ گوپی چند نارنگ کی مذکورہ کتابوں کے علاوہ لسانیات کے موضوع پر کئی اہم مضامین ارد ومیں لسانیاتی تحقیق کا اہم حصہ ہیں ۔

عبدالستار دلوی، مغنی تبسم ،اقتدار حسین خان ،مرزا خلیل احمد بیگ ، علی رفاد فتیحی اور نصیر احمد خاں وغیرہ عہدِ حاضر کے سب سے معتبر ماہرین لسانیات ہیں۔جدید لسانیات کے تمام رموز و نکات پر قدرت رکھنے والے ان ماہرین نے با قاعدہ لسانیات کی تعلیم حاصل کی اور مستقل طور سے اس شعبۂ علم سے وابستہ رہے۔

پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ‘ نے پروفسر مسعود حسین کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ’زبان، اسلوب اور اسلوبیات‘ ،’اردو کی لسانی تشکیل‘، ’لسانی تناظر‘ ، ’اردو زبان کی تاریخ‘اور ’لسانی مسائل و مباحث‘جیسی مستند کتابوں کی تصنیف کی۔ادب کے لسانیاتی مطالعہ بہ معنی اسلوبیات پر آپ نے خصوصی توجہ دی، ’زبان، اسلوب اور اسلوبیات‘ مطبوعہ 1983 اسلوبیات کے مطالعہ کا درک رکھنے والے طلبہ کے لیے اسلوبیاتی نظریے اوراسلوبیاتی مطالعہ کے طریق کارکو سمجھنے میں معاون کتاب ہے۔ 2014 میں شائع ہوئی کتاب ’اسلوبیاتی تنقید : نظری و بنیادی تجزیے‘  اسلوبیاتی مضامین کا مجموعہ ہے،جس میں اسلوبیات کی تعریف و تشکیل اور توجیہہ کے ساتھ لسانیات اور ادب کے رشتہ کی نوعیت ، اہمیت وافادیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو میں اسلوبیاتی مطالعے کو طلبہ کے لیے سہل بنانے کی غرض سے مذکورہ دونوں کتابیں نہایت اہم ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ کا تاریخی،تقابلی، توضیحی ، عمومی اوراطلاقی لسانیات غرض کہ تمام قدیم و جدید شعبۂ لسانیات کا مطالعہ عمیق ہے ،لسانیات کے علم سے انھیں گہرا شغف ہے جس کا مظہر ان کی متعدد لسانیاتی مضامین اور کتابیں ہیں۔

پروفیسر نصیر احمد خاں‘ کا اہم کارنامہ ’اردو کی بولیاں اور کرخنداری کا عمرانی اور لسانیاتی مطالعہ‘  1979 میں منظرِعام پر آیا جو آپ کے Ph.D. مقالے کی توسیعی شکل ہے۔ آپ کی کتاب ’اردو ساخت کے بنیادی عناصر ‘اردو ساخت کو بنیاد بناکر لکھی گئی کتابوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔لغت کی ترتیب بھی آپ کا میدان عمل رہا ہے،  ان کی مرتب کردہ لغت ’جدید-ہندی اردو لغت‘ 2008 میں قومی کونسل کی جانب سے دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ابھی ان کی تازہ تدوین ’اردو کی صوتی لغت ‘ ہے۔

جدید لسانیاتی تناظر میں پروفیسر اقتدار حسین خاں کے کارنامے بھی اہم ہیں ۔ ان کی کتاب ’اردو صرف ونحو‘ مطبوعہ 1985 اردو قواعد کے حوالے سے جامع کتاب ہے جس میں اردو صر ف و نحو کا توضیحی لسانیات کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا گیاہے۔ 1985 میں ہی ان کی اہم کتاب ’لسانیات کے بنیادی اصول‘ شائع ہوئی،جو لسانیات کے عمومی مطالعے کی اہم کتاب ہے۔توضیحی لسانیات سے پروفیسراقتدار حسین خان کوخاص شغف ہے، ان کی کتاب ’صوتیات اور فونیمیات‘ مطبوعہ 1994 میں خالص سائنسی طرز سے اردو صوتیات اور فونیمیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں لسانی مطالعے کا آغاز یورپی عالموں کی تحقیقی کاوش کا نتیجہ ہے، انگریز مستشرقین سے تحریک پا کر اردو زبان کے علماء اور ماہرین نے بھی زبان کے مطالعہ کو اہمیت دی تو اردو کے لسانی مسائل پر غور وفکر اور تحقیق کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی زبان اور اس کے مسائل کے سائنسی مطالعے کے جدید طرز کا آغاز ہواجس کے تحت زبانوں کی ساخت کا توضیحی و تجزیاتی مطالعہ کیا جانے لگا۔ یورپی محقق ’فرڈ ِنینڈ ڈی سیور‘ اور امریکی اسکالر ’لیونارڈبلوم فیلڈ‘ وغیرہ کے لسانی کارناموں سے متاثرہو کر ہندوستانی علما بھی زبان کے مطالعہ کے جدید اور سائنسی طرز کو اپنی تحقیق کا محرک بنانے پر آمادہ ہوئے، لسانیات کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کا سفر کیا، عالمی شہرت یافتہ ماہرین لسانیات سے براہ راست استفادہ کیا اوران کی نگرانی میں زبان کے متعلق تحقیق بھی کی۔ جیسے جیسے علم لسانیات یورپ اور امریکہ میں ترقی کرتا گیا، ہندوستان میں بھی اسی طرز پر لسانیات کا علم فروغ پاتا رہاہے۔ اب اردو لسانیات بھی ترقی کر کے تاریخی اور تقابلی لسانیات کے علم سے توضیحی اورعمومی  لسانیات تک پہنچ چکی تھی۔ علم لسانیات کا دائرہ نفسیاتی ،سماجی ، اطلاقی اور فلسفیانہ لسانیات تک پھیلا تو اردو لسانیات کی طرف سے بھی علم لسانیات کے ان جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔     

سیدمحی الدین قادری زور کے بعد اردو میں لسانیاتی تحقیق کے سائنسی طرزِ مطالعہ کے جس خاص سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس میں پروفیسرمسعود حسین خاں سے لے کرمرزاخلیل احمد بیگ تک علمائے زبان کی ایک لمبی جماعت سامنے آتی ہے مگر افسوس ایسے ماہرین جن کی اولین دلچسپی لسانیات سے ہو ، اردو لسانیات ہی جن کے مطالعے اور تحقیق کا مرکز و محور رہی ہو ان کی فہرست مختصر ہے ، باوجود اس کے ہمارے ماہرینِ لسانیات نے اردو کے لسانی مسائل اور موضوعات پر جس قدر سنجیدگی سے غور وفکر کیا اور اپنے عمیق مطالعے و مشاہدے کی بنیاد پرایسی اعلیٰ پایہ کی مستند کتابیں اور مضامین لکھے ہیںوہ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے ماہرین کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں ۔

حواشی

1.        A new history of the humanities:The search for principles and patterns from antiquity to the present; Rens Bod; 2013)

.2         ولیم جونز‘(1746تا 1794) فورٹ ولیم کی سپریم کورٹ  (Supreme Court Of Judicature at Fort William in Bengal)  میں جج تھا اور ماہر زبان بھی ، انگریزی اس کی مادری زبان تھی مگر اسے لاطینی، جرمن ، فرانسیسی اور پرتگالی زبانوں پر عبور تھا اور عبرانی، عربی، فارسی،چینی اور سنسکرت جیسی قدیم ایشیائی زبانوں کا بھی جانکار تھا، اس نے نادر شاہ کی سوانح کو فرانسیسی زبان میں منتقل کیا ،فارسی کی قواعد لکھی، عربی قواعد کا انگریزی میں ترجمہ کیا، کالی داس کی مشہور زمانہ تخلیق ’شکنتلا ناٹک(ابھگیان شا کنتلم)‘ کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ جونز کی قائم کردہ ’ایشیاٹک سوساسٹی‘ کو ہندوستان میں ادبی اور لسانی تحقیق کا بنیاد گزار ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

.3         اردو زبان کی قدیم تاریخ:عین الحق فرید کوٹی ؛  م 1972 ؛  ص18

.4         کالڈویل ماہرِزبان اور جنوبی ہند میں عیسائی مبلغ تھا ، جسے 1877 میں ’ترونل ویلی‘  کا نائب بشپ بنا کر ہندوستان بھیجا گیا تھا،اس نے جنوبی ہند کی زبانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی زندگی اور معاشرت کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔

.5         عام لسانیات: گیان چند جین ؛  م2003 ؛  ص889

.6         ٹرمپ جرمن نزاد ماہرِ زبان اور عیسائی مبلغ تھا،1854 میں ہندوستان آیا ،اسے عیسائی مبلغین کے لیے ہندوستانی زبانوں کی لغت اور قواعد ترتیب دینے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔

.7           بیمز نے طالب علمی کے زمانے میں ہی سنسکرت اور فارسی زبانوں پر مہارت حاصل کر لی تھی، 1858 میں اسے آئی سی ایس (Indian Civil Servise) کے طور پر ہندوستان بھیجا گیا ،اس نے پہلے پنجاب اور پھر  بنگال میں اپنی خدمات دیں۔ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے والا بیمز چٹگانگ کا کمشنر بھی بنا اور 1893 میں اسی عہدے پر رہتے ہوئے سبکدوش ہوا۔

.8         ہارنلے‘ ایک عیسائی مبلغ کا بیٹا تھا، اس کی پیدائش آگرہ میں ہوئی،سات سال کی عمر میں اپنے دادا کے پاس بھیج دیا گیا،تعلیم لندن میں ہی  حاصل کی۔ سنسکرت زبان کا ماہر ہارنلے 1865 میں ہندوستان واپس آیا اور بنارس ہندو یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ بعد میں بنارس کے ہی جے نرائن اسکول کا پرنسپل بھی بنایا گیا اور پھر کلکتہ یونیورسٹی چلا آیا۔یہاں ایشیاٹک سوساسٹی کی سربراہی بھی کی۔

 *         Gaudian   بنگال(اس وقت بہار اور اڑیسہ بھی شامل تھے) کی زبانوں کو کہتے ہیں ،گیان چند جین نے گوڑی زبان کو ماگدھی زبان بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ہارنلے نے Gaudianسے مراد ہند آریائی کی زبانوں کو لیاہے۔(عام لسانیات؛ ص890)

.9         گریرسن نے 1871 میں آئی سی ایس (Indian Civil Service) کا امتحان نمایاں درجات کے ساتھ پاس کیا۔ چونکہ اسے ہندوستان میں برطانوی حکومت کی ملازمت کرنی ،تھی اس لیے اس نے دو سالوں تک ہندوستانی زبانوں کا مطالعہ کیا۔سنسکرت اور ہندوستانی (بولی جانے والی ہندی اور اردو) میں مہارت کے بعد 1873 میں بنگال کے افسر کے طور پر ہندوستان آیا ۔ بانکی پور (بہار)کے کلکٹر کے عہدے پراس کی پہلی تقرری ہوئی۔

.10      گریرسن ایشیاٹک سوسائٹی کا اہم رکن تھا، اسی حیثیت سے اس نے 1886میں وئینا(Vienna) میں منعقد ’اورینٹل کانگریس‘ کے جلسے میں شرکت کی اور ہندوستانی زبانوں کے تعلق سے اپنا نظریہ بھی پیش کیا۔  اس جلسے میں ماہرین (بشمول میکس میولر)نے پایا کہ ہندوستان کی کئی زبانیں ہیں جنھیں وہ لوگ جانتے بھی نہیں لہٰذا ہندوستانی زبانوں کا ایک خاکہ تیار کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے 1898 میں  "Linguist Survey of India" کو تشکیل دے کر گریرسن کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔1927 میں اس کی رپورٹ میں ہندوستانی زبانوں کی تعداد 344بتائی گئی تھی۔

.11      بھنڈارکر‘  مہا راشٹر کے رتناگری میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم مہاراشٹر میں ہی ہوئی،1862 میںایلفسٹن کالج سے مہاراشٹر کے پہلے گریجویٹ ہوئے،دکن کالج (پونا) سے ایم اے کیا۔گوٹنگن یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ممبئی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

.12      1877 میں اس لکچررشپ سیریز کی شروعات ہوئی تھی،جس کا پہلا لکچر ’ڈاکٹر بھنڈارکر ‘ نے دیا تھا۔

.13      کلکتہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ’اسوتوش مکھرجی ‘ کی کوششو ں سے یہ شعبہ قائم ہواجو بعد میں ہندوستان میں لسانی مطالعے کا اہم مرکز ثابت ہوا اور آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔’سنیتی کمار چٹرجی ‘ اور ’سوکمار سین‘ جیسے ماہرین اسی شعبے کے فارغین ہیں1912 میں پہلی ماسٹر ڈگری ’پروفیسر محمد شاہد اللہ ‘ کو ملی تھی۔

.14      دکن کالج پونا ، ماہرِلغت پروفیسر ایس۔ایم۔ کاترے نے قائم کیا ، شروع میں یہاں صرف تحقیق کا کام ہوتا تھا اور ڈاکٹریٹ (PhD) کی ڈگری دی جاتی تھی، 1958 میں لسانیات میں ایم۔ اے۔ کی شروعات ہوئی۔ملک میں سب سے پہلے اسی یونیورسٹی میں لسانی تجربہ گاہ قائم کیا گیا،یونیورسٹی کی کارکردگی اور شعبے کے اساتذہ کی کوششوں سے ملک کی دوسری یونیورسیٹیوں میں بھی لسانیات کا شعبہ قائم ہوا۔

.15      کلکتہ میں پیدا ہوئے سنیتی کمار چٹرجی نے1913 میں امتیازی مقام حاصل کرتے ہوئے انگریزی میں ایم اے کیا، اسی سال ’ودیا ساگر کالج کلکتہ‘ میں انگریزی کے لکچرر کے طور پر تقرری بھی ہو گئی۔ لسانیات سے شغف ہوا تو 1919 میں لندن کا سفر کیا اور ’لندن یونیورسٹی‘ اور پیرس کے’ سوربون یونیورسیٹی‘سے لسانیات کی اعلی تعلیم حاصل کر کے 1922 میں واپس آئے تو ’کلکتہ یونیورسٹی‘ میں شعبۂ لسانیات کے پروفیسر مقرر ہوئے، یہیں سے 1952میں سبکدوش ہوئے۔ ’پدم بھوشن ‘ اور’پدم ویبھوشن‘ جیسے ملک کے بڑے اعزازات سے نوازے گئے۔

.16      بحوالہ: اردو لسانیات کی تاریخ (تحقیق و تنقید) ؛  از ڈاکٹر درخشاں زریں؛  م2010  ؛  ص130

.17      سنسکرت،مراٹھی، گجراتی،بنگالی،اردو، جرمن،انگریزی،فارسی اور ایوستا وغیرہ زبانوں کے جانکار تھے اس لیے زبانوں کے  تقابلی مطالعہ  سے انھیں خاص شغف تھا۔

.18      1928 میں لاہور میں منعقد پانچویں اورینٹل کانفرنس میں اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر تاراپور والا نے Linguistic Society of India کی بنیاد رکھتے ہوئے سوساسٹی کے قیام کا مقصد اور اس کے عزائم پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔

.19      اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ: سلیم اختر ؛ ناشرایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ؛ م 2013؛ ص 150

.20      منظوم لغت :اردو کی ابتدائی اور منظوم لغت کو ’نصاب نامہ‘ بھی کہا جاتا ہے،یہ نصاب نامے دراصل تدریسی اور نصابی مقصد کے تحت لکھے گئے، جن میں ایک سے زائد زبانوں کے مترادفات ہوتے تھے، بعد کے زمانے میں بیت بازی میں ہندوستانی کے الفاظ کو فروغ دینے کے لیے بھی نصاب نامے لکھے گئے۔

.21        192 اشعار پر مشتمل اس منظوم لغت کو حافظ محمود شیرانی امیر خسرو کی تالیف نہیں مانتے بلکہ کسی ضیاء الدین خسرو کی تالیف بتاتے ہیں جس کا نام ’حفظ اللسان ‘ اور سن تالیف 1031ھ ہے(ملاحظہ ہو’’حفظ اللسان بہ معروف خالق باری‘‘، مرتبہ حافظ محمود شیرانی،ص1،  مطبوعہ1944)  جب کہ سید مسعود حسن رضوی ادیب ’خالق باری‘ کو امیر خسرو کی ہی تصنیف ثابت کرتے ہیں اور اس کی اولیت کا بھی اعتراف کرتے ہیں (ملاحظہ ہو ’اردو زبان کے لغت‘  مطبوعہ 1931)۔

.22      زیویر اسپین کی Companion of Jesus نامی تنظیم کا رکن تھا، عہدِ اکبر میں 1581 میں عیسائی مبلغ کے طور پر  ہندوستان کے گووا میںواردہوا، اکبرکے دور حکومت میں1586 میں شمالی ہند آیا،آگرہ میں قیام پذیر ہوا، عہد جہانگیر میں بھی وہ یہیں رہا۔1615 تک اپنی زندگی کے آخری ایام گووا میں ہی گذاری۔ اس نے ہندوستان کی مختلف زبانیں سیکھیں جن میں فارسی اور ہندوستانی اہم ہیں ۔

.23      اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ:سلیم اختر ؛ ناشر۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ؛ م 2013؛ ص 180

.24      مقدمہ ’نوادر الالفاظ‘ ؛ مرتبہ ۔ سید عبداللہ؛ ناشرانجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی؛ م 1951

.25      غرائب اللغت کو اردو کی پہلی باقاعدہ فرہنگ کہا جا سکتا ہے مگر اس کتاب میں بہ اعتبارِ لغت کچھ کمیاں بھی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اس میںہندوستانی(اردو فارسی رسم الخط میں) الفاظ کی تشریح فارسی میں کی گئی ہے۔

.26      نوادر الالفاظ،مرتبہ  سید عبداللہ؛ ناشر،انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی؛ م 1951 ؛ ص27

.27      مثمر ‘  ، خان آرزو کی فارسی تصنیف ہے جس میںان کے لسانی نظریات اورزبان وقواعد پر اظہار خیال کیا ہے۔

.28      نوادر الالفاظ  مرتبہ، سید عبداللہ؛ ناشرانجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی؛ م۔ 1051؛ ص13

.29      اردو لغت نویسی کا تنقیدی جائزہ: از  ڈاکٹر مسعود ہاشمی ؛ م۔2000 ؛ ص23

.30      پولینڈکا تاجر ’کیٹلر‘ 1683 میں’ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے سفیرکے طورپرسورت (مہاراشٹر، ہندوستان) آیا۔ اپنے آگرہ قیام (1696-97)کے دوران اس نے اردو قواعد کی کتاب لکھی،جس کی تالیف کا کام جنوری  1714 میں سورت میں مکمل ہوا۔

.31      شیلز 1726 میں مدراس میں مذہب کی اشاعت کی غرض سے بھیجا گیا۔ یہاں رہ کر اس نے مدراس میں عیسائی مشن کی بنیاد ڈالی، دراوڈی زبانوں پر مہارت حاصل کی اور تمل زبان میں انجیل مقدس کا ترجمہ بھی کیا، دکنی (جنوب میں اردو کا ابتدائی نام) پر بھی اسے دسترس حاصل تھی۔

.32      جارج ہیڈلی (متوفی 1798) 1763 میں برطانوی فوج میں شامل ہو کر بنگال آیا۔ اپنی کارکردگی کی بنا پر 1766 میں فوج میں کیپٹن بنا ،1771  میں ملازمت سے سبکدوش ہوا تو لندن واپس چلا گیا، لندن سے ہی اس کی اردو قواعد پہلی بار شائع ہوئی ۔

.33      مضمون ’پروفیسر مسعود حسین خاں کی لسانی خدمات‘ مرزا خلیل احمد بیگ ؛ مشمولہ ’’پروفیسر مسعود حسین خاں: دانشور اور نقاد؛ مرتبہ، شاہد ماہلی؛ م؛2010؛ص65

.34      مضمون’اختر اورینوی کا ادبی مقام‘ از عبدالقادر سروری؛ رسالہ ’مہ نیم روز‘؛ شمارہ اختر اورینوی نمبر1977؛ ص234


Md Minhajuddin

Ekta Nagar, Mithila Colony Danapur

Patna - 801503 (Bihar)

Mob.: 9304720184

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...