29/3/23

جدید غزل کا امام یاس یگانہ چنگیزی: وسیم فرحت


اردو غزل ’اسم ِ بامسمیٰ‘کا کردار نبھاتے ہوئے دو سو سال سے ایک ہی رنگ و آہنگ میں اپنا سفر طے کرتی آرہی تھی۔ خواجہ حالی کے بیانات محض کاغذی کارروائی کے طور پر ہی دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔عملی طور پر اردو شعرا اس وقت تک اسی گھسی پٹی روش پر گامزن تھے جس کی ابتدا ولی دکنی،عزلت سورتی،شاہ حاتم دہلوی وغیرہ سے ہوتی ہے۔غالب کے گزرنے کو 15 برس بیت گئے تھے اور غالب نے اردو شاعری میں جو انقلاب برپا کیا تھا، بس وہی ایک راستہ اہلِ اردو کے نزدیک ’جدید‘ باقی رہا تھا۔کل ملا کر ہندوستان بھرکے شعرا نے اسی ایک راستے کی تقلید ’فرضِ عین‘ تسلیم کر لی تھی۔ ایسے میں بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یگانہ چنگیزی نے ایک نئی عمارت کی بنا رکھی۔ ابتدا میں خواجہ آتش کے رنگ میں شعر کہنے کے بعد یہ شیوہ بھی یگانہ کو بہت زیادہ مفید نہ معلوم ہوا اور یہیں سے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ ’یگانہ‘ کی صورت میں ملتا ہے۔

اردو شاعری کو پہلی مرتبہ کسی شاعر نے محض واردات ِ قلب کی سطحیت سے آزاد کرنے کا نظریہ سامنے رکھا۔ گوشت پوست میں غرق اردو شاعری کو دقیانوسی زنجیروں سے آزاد کرنے کا ایک منضبط لائحۂ عمل یگانہ نے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کیا۔ وجودی شاعری کا زندہ اور توانا پہلو یگانہ  کے طفیل اردو شاعری کو نصیب آیا۔ فرد اور عظمتِ فرد کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شاعری کے میدان میں داخل کیا گیا اور یہ تسلیم کرنے پر اہل ِاردو مجبور ہوئے کہ شاعری محض عشقیہ معاملہ بندی ،سرمستیِ رندی اور قصیدہ خوانی تک محدود نہیں بلکہ اور بھی کچھ ہے۔اور اسی ’اور بھی کچھ‘ کو یگانہ نے شعری تہہ داری کے ساتھ غزل میں جائز مقام دلایا۔معرفت اور مجاز کے درمیان حد ِ فاصل کھینچنے میں مصروف شعرائے اردو کے لیے یگانہ کا وژن بالکل انوکھا رہا۔بلکہ اول اول ناقابلِ ہضم۔لیکن زمانہ جانتا ہے کہ جدید شاعری کے امام یگانہ چنگیزی کی قربانیاں داخلِ نصاب نہ ہوتیں توہمیں شکیب جلالی، زیب غوری، ندا فاضلی، شجاع خاور اور اسی قبیل کے دیگر شعرا کی شاعری قطعی پسند نہ آتی۔ نباضِ ادب، ماہرِ غالبیات آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے استاد اور شاگرد ِ داغ علامہ جوش  ملسیانی نے یگانہ کے کلام کے متعلق کیا نپی تلی رائے دی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

’’یگانہ کا نمایاںوصف یہ ہے کہ فلسفیانہ شاعری اور حقائق ِ زندگی کے دقیق مضامین کو موضوعِ سخن قرار دے کر وہ غزل کا انداز ِ بیان اور غزل کی زبان کسی شعر میں ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔کسی غزل میں کوئی شعر ایسا نظر نہیں آتا جو خشک سے خشک مضمون کو بیان کرنے کے باوجود غزل کے انداز سے بیگانہ ہو۔غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ شعر میں اس وصف کا پیدا کرنا اس میدان میں فی الحقیقت بہت مشکل کام ہے۔‘‘1

ایمان کی بات یہ ہے کہ یگانہ کی شاعری ہمیں زندگی جینے کا فن سکھاتی ہے۔کم زور لمحوں میں ہمیں حوصلہ بخشتی ہے۔ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔یہی یگانہ کی شاعری کا ماحصل ہے۔خود کے لیے نئی راہ تیار کرنے اور پھر اس کی عظمت و انفرادیت زمانے سے منوانے میں یگانہ کو بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔یگانہ کی کیفیت بقول خلیل فرحت کارنجوی مرحوم           ؎

ذوق  کے دور میں غالب کا طرفدار ہوں میں

بے تکلف مجھے سولی پہ چڑھایا جائے

کی سی ہے۔یگانہ کے وقتوں میں لکھنوی تہذیب اور لکھنؤ اسکول پر مرثیے کا کچھ اس طور غلبہ تھا کہ ہر صنفِ سخن سے ’مرثیہ پن‘ جھلکتا تھا۔ یاسیت، قنوطیت سے اردو شاعری لبریز تھی۔ ہر عاشق در ِ جاناں پر مرجانے کو زندہ رہنے پر مقدم جانتا تھا۔گلدستوں اورطرحی مشاعروںمیں محض پینترے بازی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے جنون نے اردو شاعری کی صورت ہی کچھ اور کردی تھی۔ یگانہ نے ان تمام گورکھ دھندوں سے پاک،صاف ستھری اور بامعنی شاعری سے اردو ادب کو روشناس کیا۔ایک ایسی شاعری جو انسانیت کے لیے اکسیر ہو، ایک ایسی شاعری جہاں فرد کے زخموں پر مرہم لگایا جاتا ہو۔میں عرض کر چکا ہوں کہ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کے متعینہ اصولوں کو اس وقت تک کسی نے خود پر منطبق نہیں کیا تھا۔یگانہ کی شاعری خواجہ حالی کے نافذ کردہ قوانین سے میلوں آگے بڑھ گئی۔ اہلِ زمانہ اس انقلاب سے چونک پڑے کہ،یہ کون حضرت ِ آتش کا ہم زباں نکلا۔

نیاز فتح پوری جیسے سخت ترین نقاد بھی یگانہ کی شعری روش کے قدردان رہے،فرماتے ہیں:

’’یگانہ پہلا شخص تھا جس نے لکھنؤ کے روتے اور بسورتے رنگ ِ تغزل پر کاری ضرب لگائی اور یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ یگانہ ہی نے سب سے پہلے اپنے زمانے کے لکھنوی شاعروں کے اس رنگ ِ تغزل کو بدلاجو اپنا اصلی رنگ چھوڑ کر بے تمیزی کے ساتھ غالب کی تقلید پر آمادہ ہوگئے تھے۔یگانہ نے غالب کے متعلق جو کچھ لکھا ،میں اسے ردِّ عمل سمجھتا ہوںاس شدید مخالفت کا جو لکھنوی مقلدین کی طرف سے یگانہ کے باب میں ظاہر کی گئی اور جسے یگانہ ایسے حساس آدمی کے دماغ کو واقعی بری طرح متاثر کرنا چاہیے تھا،ورنہ یگانہ کی فطرت شاید اس کو گوارا نہ کرتی۔ یگانہ کی شاعری حسن و عشق کا وہ مرقع نہیں ہے، جس میں محبت کی فتادگی،خواری وتذلل تک پہنچ جاتی ہے بلکہ اس میں ہمیں ایسے عشق ِخوددارکی جھلک نظر آتی ہے جس کا سینہ تو ضرور خونچکاں ہے لیکن لب پر آہ و فغاں نہیںہے۔ایسے جواہر ریزوں کی ان کے یہاں کمی نہیں ہے۔‘‘2

یگانہ کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی آواز اپنے پیش روئوں یا ہم عصروں ، سبھی سے جداگانہ ہے۔ یگانہ کا شعر کسی دوسرے کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا اسی لیے انتساب ِ شعر کے معاملے میں یگانہ کا کوئی ایک شعر بھی تاحال کسی اور شاعر سے منسوب نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے بر عکس آپ جگر، اصغر، سیماب، فانی، عزیز، ثاقب وغیرہ کے سیکڑوں اشعار یہاں وہاں خلط ملط پائیں گے۔ کلام کی یہی انفرادیت یگانہ کی شناخت کا وسیلہ ہے۔ان کی آواز ان کی اپنی ہے،وہ کسی کے لہجے کی جگالی نہیں کرتے۔ میرے مربی ندافاضلی صاحب یگانہ چنگیزی کے ساتھ ساتھ مرحوم خلیل فرحت  کارنجوی کے متعلق اکثر فرماتے ہیں کہ’بڑا شعر کہنا بڑی بات نہیںہے بلکہ اپنا شعر کہنا بڑی بات ہے۔‘

نریش کمار شاد یگانہ کی شاعرانہ عظمت کے یوں قائل ہیں:

’’میرزا یگانہ چنگیزی بلا شبہ اس دور کے نہایت عظیم غزل گو شعرا میں سے ہیں۔عظمت کا لفظ اگرچہ اس دور میں اپنی معنویت کھوچکا ہے لیکن میرزا یگانہ کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کے پیشِ نظر ان کی عظمت پر شک کرنا ادبی خیانت کے مترادف ہے۔ یاس کی غزلوں کا لب و لہجہ ہمارا ادبی و تہذیبی ورثہ ہے۔ہمیں نئی نسل کے شاعروں کو ان کے کلام کی صحت مند اور توانا روایات کو اپنانے کے لیے کسی تعصب اور بغض کے بغیر غیر متعلقہ امور کو بھلا کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ 3

یگانہ کی شاعری مردانہ آہنگ کی لَے بلند کرتی ہے۔ مردانہ اور دلیرانہ جذبات کو یگانہ کچھ اس ڈھب سے شعری جامہ پہناتے ہیں کہ قاری و سامع جوش و انبساط کی سی کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ یگانہ کے یہاں افسردگی، لاچارگی، یاسیت، شکست خوردگی وغیرہ حوصلہ شکن مضامین عنقا ہیں۔ اس کے بدلے یگانہ کی شاعری ولولہ، غیرت، خودداری، حوصلے کی تعلیم دیتی ہے۔ ہم فرد کے غموں کا مداوایگانہ کی شاعری میں تلاش کر سکتے ہیں اور یقین جانیے کہ اس تلاش میں مایوسی نہیں ہوگی۔حقائق ِ زندگی کے اظہار پر یگانہ کی زبردست گرفت ہے۔ اردو شاعری میں حقائق ِ زندگی کو اس بڑے پیمانے پر یگانہ سے قبل کسی نے بروئے کار نہیں لایا۔یگانہ کی فکری بلندی نے معاملات ِ زیست کی سطحیت کو بھی ارفع مقام عطا کیا ہے۔ان کے یہاں بہت چھوٹی سی بات بھی چھوٹی معلوم نہیں پڑتی۔ اظہار اور تخلیق پر یہی قدرت یگانہ کو سربلندی فراہم کرتی ہے۔ مصائب ِ زمانہ کے یگانہ شاکی ضرور ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا فن ان کی شاعری سے عیاں ہے۔حالات کی سختی اور ناہمواری وقت میں یگانہ کے اشعار ایک سچے دوست کا کردار نبھاتے ہیں۔اور محض ہمیں سنبھالا ہی نہیں دیتے بلکہ لب ِ ساحل تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں۔یہی بے پناہ انسیت یگانہ کی شاعری سے قاری کا رشتہ استوار کرتی ہے۔اور وہ حیرت،تاسف و گم گشتگی کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔یہی یگانہ کی شعری کامیابی ہے۔

پروفیسر مجنوں گورکھپوری یگانہ کی شاعری کا کس بل محسوس کرتے ہیں:

’’میزرا یاس یگانہ اردو غزل میں پہلے شخص ہیںجن کی شاعری میں وہ کس بل محسوس ہوتا ہے جس کو ہم صحیح اور توانا زندگی سے منسوب کرتے ہیں۔غزل کو جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہ نے زندگی کی شاعری بنا دیا ہے اور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز ا شارات کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے یہاں حسن و عشق سے متعلق اشعار نہیں ملتے،ملتے ہیں مگر ان میں بھی حسن و عشق کا احساس عام اور عالم گیر زندگی کے احساس میں سمویا ہوا ہوتا ہے۔‘‘4

تخیل کی بلندی، لہجے کی ندرت اور زبان پر قدرت، یہ تینوں صفات کسی ایک شاعر میں موجود ہوں،اردو شاعری میں اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس قبیل میں غالب، داغ ، امیر اور بلاشبہ یگانہ چنگیزی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ذوق دہلوی کے بعد اردو شاعری میں محاورے کے صرف ِ بامحل کا سہرا یگانہ ہی کے سر جاتا ہے۔ آپ یگانہ کی شاعری میں محاورات کا اصراف ملاحظہ فرمائیں، یوں لگتا ہے جیسے محاورہ ہی شعر کے لیے بنا ہو۔ محاورہ دراصل ایک بے جان شے کا نام ہے، ایک سچا فنکار اپنی برجستگی اور صرف ِ بامحل سے محاورے میں جان بھر دیتا ہے۔ یہی وصف یگانہ کی شاعری کو منتہائے خصوص تک پہنچا دیتا ہے۔ چنداں محاورے تو کچھ یوں نظم ہوگئے ہیں کہ اس کے بعد ممکن نہیں۔یگانہ کی حیات میں ان کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ فارسی، اردو اور انگریزی ادب کے کثیر مطالعے نے جہاں زبان کو پختگی بخشی وہیں بیان بھی پر اثر ہوگیا۔ ٹھیٹ اردو کے الفاظ بھی یگانہ ہی کے طفیل داخل ِ غزل ہوئے اور وہ بھی اس شان سے کہ باید و شاید۔عوام تو خیر جانے دیجیے،خواص اور اساتذئہ فن بھی اپنے روزمرہ میں جن الفاظ کا استعمال کرتے تھے انھیں غزل میں شریک کرنا گناہ ِ کبیرہ گردانتے تھے۔یگانہ نے روزمرہ کے الفاظ کو غزل میں یوں برتاکہ ایسے خشک اور سماعت پر بار محسوس ہونے والے الفاظ بھی مزہ دینے لگے۔  ایمان کی بات یہ ہے کہ عامیانہ الفاظ بروئے کار لانے پر بھی یگانہ کے ٹھیٹ اردو کے الفاظ ’بازاری‘ نہیں معلوم پڑتے۔عمر بھر کی مشاقی اور قادر الکلامی نے ایسے لفظوں کی ’ثقلیت‘ کو زائل کردیا۔اور غزل کی لفظیات میں ایک زبردست اضافے کا موجب ہوا۔

باقر مہدی نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے، او رکیا خوب فرمایا ہے:

’’یگانہ کا آرٹ مینا کاری کا آرٹ نہیں ہے۔ان کے یہاں نازک جذبات بھی زور ِ بیان کے تیکھے پن کے ساتھ آتے ہیں اور ان کا یہی کارنامہ ہے کہ انھوں نے آتش اور غالب کی زمین میں بلند پایہ غزلیں کہی ہیں جو نہ تو ان شعرا کی آواز ِ بازگشت ہیں اور نہ صدا بہ صحرا بلکہ ان میں آواز کی تیزی اور سوز و گداز کی آنچ کے ساتھ زندگی کا ولولہ بھی پایا جاتا ہے جسے ہم یگانہ آرٹ کہہ سکتے ہیں۔ یگانہ آرٹ سنگ تراشی کا آرٹ ہے۔ان جاندار پتھروں میں ذہن کے مختلف موڈل کی بے شمار کیفیتیں اور فکر کی تصویریں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ابھر آئی ہیں اور یہ بھی معجز نما شخصیت کا پرتو ہے۔ یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب’ارضیت کا عہد نامۂ  جدید ‘ ہے تو یگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے، جس کی بنیاد’مانگے کے اجالے‘ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت تھی۔اردو غزل میں میر اور غالب کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے،وہ یگانہ کا ہے۔‘‘5

اردو غزل کی تاریخ میں غالب، آتش اور اقبال کے بعد انفرادی لفظیاتی تشکیل صرف یگانہ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ زبان اور اس کا رچائو،اور ان دونوں خصوصیات کو اپنے قطعی نئے موضوعات میں خوش سلیقگی کے ساتھ جس طرح یگانہ نے برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حالانکہ محض ’زبان‘ کے نام پر اپنی دوکانداری چلانے والے شعرا کے یہاں ’لچھے دار زبان‘ تو ضرور مل جاتی ہے تاہم اس چکر میں شعری پہلو خشک ہوجاتا ہے۔اور شعر دیر پا اثر چھوڑنے سے قاصر رہتا ہے۔غالب، آتش اور یگانہ متذکرہ دونوں ہی صفات پر ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی شاعری کا جادو اتنے برس بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

مصرعوں کی ساخت پر یگانہ بے حد توجہ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں کوئی مصرعہ لکنت کا شکارمحسوس نہیں ہوتا۔ سجے سجائے اور ڈھلے ڈھلائے مصرعوں کو پڑھ کر طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ سلاست اور روانی کا وہ عالم ہے کہ گمان پڑتا ہے کہ جیسے پوری غزل غیب سے اتاری گئی ہو۔کہیں کسی شعر میں جھول، بے جا اضافتیں، نامانوس تراکیب، دور از قیاس استعارات وغیرہ کو دخل نہیں ہے۔ ان کے ہر شعر سے استادانہ شان جھلکتی ہے۔رموز ِ شاعری سے مکمل آشنائی نے یگانہ کی شاعری کو ’سند‘ کادرجہ دے دیا ہے۔ فن کی باریکیوں پر قدرت رکھنے کے باوجودان کی شاعری  بوجھل نہیں لگتی۔وگرنہ اس قماش کے بیش تر شعرا کے اشعار بطور ’سند‘ تو پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ’پسند ‘نہیں کیے جاسکتے۔

اردو غزل کے خد و خال اور اس کے تخلیق کاروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے سخت ترین نقاد محترم پروفیسر کلیم الدین احمد نے بھی یگانہ کی شاعری اور اس کے ابعاد کی عظمت ِ دوچند کو تسلیم کیا ہے،فرماتے ہیں:

’’یگانہ چنگیزی نے چند مخصوص وجہوں کے سبب صحتِ زبان،لطفِ محاورہ کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور اس میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ان کی شاعری کی دوسری خصوصیت زور،شگفتگی اور انبساط ہے۔قنوطیت کا نام و نشان نہیں۔ان کا لہجہ بلند اور آواز خوش آئند ہے۔‘‘6

اردو شاعری کی تثلیث رندی، عاشقی اور تصوف سے قطعی مختلف طرز ِ فکر رکھنے والے یگانہ نے اپنے بعد کی نسلوں کے لیے ایک نئی راہ فراہم کر رکھی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اعزاز اردو شاعری میں دو ہی شاعروں کے حصے میں آیا ہے۔ اول غالب دوم یگانہ۔غالب نے اپنے پیش روئو ں کے موضوعِ اظہار اور طرز ِ اظہار سے انحراف کیا۔ ٹھیک اسی طرح یگانہ نے غالب کے موضوعات اور طریقہ ہائے اظہار سے انکار کیا اور نئی طرز ایجاد کی۔ مطلب یہ کہ غالب نقشِ اول ہیں اور یگانہ نقشِ ثانی۔ غرض کہ یگانہ کی شاعری ’رجحان ساز‘ ثابت ہوئی اور اسی آواز کی گونج شاد عارفی و نئی نسل کے دیگر احتجاجی شعرا کے یہاں سنائی دی۔

یگانہ اظہار کو معنی پر مقدم جانتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار کی سطح پر ان کے یہاں مشاقی اور تازہ کاری دکھائی پڑتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کسی بھی شاعر کے ہر شعر میںکچھ نہ کچھ معنی تو نکل ہی آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ معنی کے علاوہ اظہار کی سطح پر بھی کچھ نیا پن ہے یا نہیں؟ ایک معمولی سے خیال کو مناسب و موزوں اظہارکے پیرائے میں پیش کیا جائے تو شعر دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ وگرنہ بلند خیال بھی پست اظہار کی بنا پر رفعت حاصل نہیں کرسکتا۔بلند آہنگی اور بیان کا زور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یگانہ اظہار کے معاملے میں سنجیدگی سے کام لیتے ہیں۔

ندا فاضلی فرماتے ہیں:

’’یا س سے یگانہ اور یگانہ سے چنگیزی بننے کا ادبی سفر خود یگانہ کی ادبی زندگی کاہی نہیں اردو ادب کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے۔ اس واقعے کی تشکیل میں کئی اہم چہرے شامل ہیں۔ یگانہ کی زندگی کے یہ مختلف ادوار جو ان کی غزلوں، رباعیوں اور مضامین میں نمایاں طور پر جھانکتے نظر آتے ہیں اب غالب کے بعد غالب جیسی تخلیقی توانائی کی دوسری مثال ہے۔ یگانہ کا عہد غزل کا سنہری دور تھا، حسرت، فانی، جگر، اصغر اس دور میں صنف ِ غزل کے روشن ستارے تھے۔ یگانہ کا امتیازی وصف یہی ہے کہ انھوں نے بھی غالب کی طرح اپنے دیکھے ہوئے اور اپنے جیے ہوئے پر اپنی شاعری کی بنیاد رکھی۔ یگانہ نے اپنے شعر کہے جو موضوع،برتائو اور اظہار کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں کے اجتماع میں الگ سے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مرکزی کردار زمین کی سختی اور آسمان کی دوری کو تصوف اور حسن و عشق کے کھلونے سے بہلاتا نہیں، ان سے آنکھ ملاتا ہے اور ٹکراتا ہے۔یگانہ کی شعری شناخت ان کے عہد میں ممکن نہیں تھی۔اس کو نئے دور کا انتظار تھا جو اب پورا ہوچکا ہے۔‘‘7

اردو شاعری میں رباعی یگانہ کی حاضری تک محض ادق مضامین،فلسفیانہ معاملات اور تشکیک و عقیدے کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ یگانہ نے پامردی کے ساتھ اس بیش قیمتی صنفِ سخن کا دائرئہ موضوعات وسیع کیا۔انسانی پراگندگی، زمینی مسائل، شکست و ریخت، سماجی افترا پردازیاں وغیرہ سے متعلقہ مضامین کو یگانہ نے اپنی رباعی میں شایانِ شان مقام عطا کیا۔موضوعات کا تنوع، مردانہ کس بل اور فکر کی انفرادیت نے یگانہ کی رباعیوں کو ایک خاص مرتبہ بخشا ہے۔

یگانہ کے رباعیوں کے مجموعے ’ترانہ‘ پر تبصرہ فرماتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے خوب رائے دی

’’میرزا یاس  عظیم آبادی اردو کے مشہور شعرا میں ہیں۔ یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ میرزا یاس یگانہ اپنے وقت کے ایک کامل شاعر ہیں ،ان کے خیالات بلند،زبان صاف ستھری،ترکیبیں چست اور کلام حشو و زوائد سے پاک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ لکھنو ٔ کے طرز ِ شاعری میں ان کے ہنگاموں کے باعث مفید انقلاب پیدا ہوا ہے۔غزلیات کے ساتھ ان کی ہر رباعی زبان کی صفائی اور روزمرہ اور محاورات کی برجستگی اور ترکیبوں کی چستی کے لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ایسا نہ سمجھا جائے کہ ان کی رباعیوں کے مضامین صرف ’فلسفۂ خودی‘کی تشریح پر مشتمل ہیں، بلکہ ’انفس‘ کے بعد ’آفاق‘ کا فلسفہ بھی ان میں جا بہ جا بیان کیا گیا ہے،کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں۔‘‘8

غرض کہ یگانہ چنگیزی کی شاعری آنے والے وقت کے لیے نوید ِ بہار کا کام کرتی رہی جو بہ زمانۂ خزاں دی جاتی ہو۔ پھر چاہے وہ غزل کے نصاب میں نئے موضوعات کی شمولیت ہو، یا ٹھیٹ اردو کے الفاظ کی شرکت، یا فرد کو مکمل اکائی کی طرح سمجھنے،اس کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور اس پر دست ِ ہمدردی پھیرنے کے ذیل میں ہو۔یگانہ کی خدمات سے اردو ادب انکار نہیں کرسکتا۔

حواشی

  1.        میرزا یگانہ چنگیزی ،مطبوعہ آجکل،یکم اپریل  1945، ص8
  2.        بزمِ نگار نمبر،ماہنامہ’ نگار‘ لکھنؤ،جنوری فروری 1941، ص 222
  3.        یاس کی خود پرستی،مطبوعہ ’نیا دور‘لکھنؤ ،جولائی   1961، ص 32
  4.        غزل اور عصر ِ جدید، مطبوعہ ’نگار‘ لکھنؤ،جنوری  1942، ص 50
  5.        یگانہ آرٹ،مطبوعہ ’آجکل‘دہلی، مئی   1956، ص 15
  6.        بزم ِ نگار،مطبوعہ ’نگار‘ لکھنؤ،جنوری   1942، ص 18
  7.        مکتوب ِ ندافاضلی بنام خاکسار محررہ 27 فروری   2014
  8.        تبصرہ بر ’ترانہ‘مطبوعہ ’معارف ‘اعظم گڑھ ،شمارہ نمبر4 جلد 33، اپریل 1934، ص نمبر314


Waseem Farhat (Alig)

Editor : Sah Mahi 'Urdu'

'Adabistan' Near Wahed Khan

Urdu, D, Ed, College, Walgaon Road

Amrawati  - 444601 (MS 

28/3/23

یاس یگانہ چنگیزی کی تخلیقی انانیت: ابو شہیم خان


 بیسویں صدی کے اوائل میں یہ تصور عام ہو رہا تھا کہ اردو شاعری کی آ برو یعنی غزل پر قدامت کا غلبہ ہے۔ یہ کسی قدر ہیئت اور موضوع کے مخصوص دائروں میں محبوس ہے۔ اس لیے اسے نئے ذائقے،نئے اظہار و انداز سے آشنا  ہونے کی ضرورت ہے۔ گرچہ اس تصور نے بعد میں تضحیک و استہزا  اور اینٹی غزل کی صورت بھی اختیار کر لی اور غزل کے بنیادی اوصاف اور شناخت نامے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔لیکن جن شعرا نے اس غیر ترجیحی ماحول میں بھی شاعری میں نئے تجربے کیے، شاعری کو تصنع سے آزاد کرنے اور فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیں۔ فکر کو رفعت ووسعت ا ور زبان و بیان کو سلاست عطا کی۔ گیسو ئے غزل کو مزیدتابدار کیا اورآخر کارغزل کی نئی کروٹ  یا بعض کے لفظوں میں نشاۃ الثانیہ کا سبب بنے ان میں علامہ اقبال،شاد عظیم آبادی،عزیزلکھنوی، صفی لکھنوی، نوبت رائے نظر، ریاض خیر آبادی، جلیل مانک پوری، فانی بدایونی، آرزو لکھنوی، حسرت موہانی، جگر مرادآبادی، سیماب اکبر آبادی اور فراق گورکھپوری وغیرہ کے ساتھ مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی  (1884تا  1956 )کا نام نا می بھی شامل ہے۔

 یاس یگانہ چنگیزی نے مختلف حوالوں سے پٹنہ،کلکتہ، لکھنؤ، لاہور، علی گڑھ، حیدر آباد، عثمان آباد، لاتور جیسے شہروں میں قیام کیا لیکن ان کی بیگانہ روی اور بیگانہ خوئی کو کہیں بھی قرار نہیں ملا۔ وہ پوری زندگی انانیت بنام انفرادیت کی،خود پرستی بنام حق پرستی کی، اصول پسندی بنام کلبیت پسندی کی جنگ لڑتے رہے۔ لوگوں کو میر و غالب سے اپنی ہمسری باور کراتے رہے اور خود ابو المعانی اور امام الغزل ہونے کا اعلان کر کے کہتے رہے کہ ع

جلوہ فرما حق ہوا باطل گیا

اور         ؎

شہرہ ہے یگانہ تیری بیگانہ روی کا

اللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی

 کون ہوں کیا ہوںمجھے دیکھ لیں اہل نظر  

آبروئے لکھنؤ خاک عظیم آباد ہوں

لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یگانہ کی شخصیت اور فن کے معدودے چند ہی قائل تھے۔ کلام میں تنوع، تغزل اور پابستگی رسم و رہ عام سے بے نیازی، آزادی،بانکپن اور پر زوری کے باوجود عام ناقدین فن کو ان کی ذات سے اور ان کی شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اعلی ترین مذہبی شخصیات پر اعتراض، مرزا غالب،علامہ اقبال،جوش ملیح آبادی اور اصغر گونڈوی،  حسرت موہانی اور اپنے اکثر معاصرین شعرا سے بداطمینانی یا شدید مخالفت اور غالب شکن وشہرت کاذبہ کے ماننددیگر ہنگامے اس پر مستزاد۔ حقیقت یہ ہے کہ یگانہ جب 5 190میں اکیس سال کی عمر میں عظیم آباد (پٹنہ) سے لکھنؤ آئے تواس وقت لکھنؤ میں صفی لکھنوی، ثاقب لکھنوی اور عزیز لکھنوی، محشر، آرزو وغیرہ  جیسے غالب ممدوحین کا اور نیاز فتح پوری، شاہد دہلوی، ماہر القادری اور عبد الماجد دریابادی وغیرہ  جیسے صاحب علم ادیبوں کا دور دورہ تھا۔ اس لیے بھی ان کی پذیرائی اس طرح نہیں ہوسکی جس کے وہ متمنی یا کسی حد تک مستحق تھے۔ حالانکہ ان کے ادبی کارنامے خصوصاً شعری طرز فکر، لہجے کی انفرادیت، بلند خیالی اور نئی غزل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششیں اور مختلف کتابیں  جیسے نشتر یاس (دیوان)، چراغ سخن (رسالۂ عروض و قوافی)، شہرت کاذبہ المعروف بہ خرافات عزیز،آیات وجدانی، ترانہ (مجموعہ رباعیات)، غالب شکن  (مکتوب  بنام سید حسن رضوی) اور گنجینہ وغیرہ ایسے کارنامے تھے کہ ان کا شمار اردو کے قابل ذکر شعرا میں کیا جانا چاہیے، لیکن ان کا معرکانہ اور معاندانہ تیور، ادبی معرکے کو مذہبی معرکے میں بدل دینا اور اس میں حد درجہ تجاوز کرجانا اورانانیت و تعلی کی ساری حدیں پار کرجانا (شہرت کاذبہ المعروف بہ خرافات عزیز اورغالب شکن جیسی کتابیں) ایسے اسباب ہوئے جو کسی بھی عقل سلیم رکھنے والے شاعر یا عام شخص سے متوقع نہیں تھے۔ یاس یگانہ چنگیزی کا تعلیانہ دعوی ملاحظہ کریں: 

’’ سچ تو یہ ہے کہ اس صدی میں یگانہ کے سوا اور کسی کو شاعر سمجھنا محض خود فریبی ہے۔‘‘

’’ اس دور نے میرا کوئی حریف پیدا نہیں کیا۔ موجودہ دور کی لاشوں سے ٹکرانامجھے پسند نہیں۔‘‘

( آیات وجدانی:  یاس یگانہ چنگیزی،  ناشر مبارک علی تاجرکتب  لاہور ص 11)

4 191 میں جب یگانہ نے اپنا دیوان ’نشتر یاس ‘ شائع کیا تو اس کے مقدمے میں تعلی سے کام لیتے ہوئے لکھا تھا کہ لکھنؤ کے معاصرین ِحال اور آئندہ نسلوں پر فرض ہے کہ یاس یگانہ چنگیزی کی زبان اور اجتہادی تصرفات سے سند لیں۔اس طرح انھوں نے ثاقب،صفی، عزیز اور دوسرے معاصرین سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں استاد فن تسلیم کرکے ان کی پیروی کریں۔ اس طرح کی تعلیوں اور ثاقب، صفی، عزیز کی ضد میں  اسدا للہ خاں غالب کے خلاف نازیبا اور نا شائستہ باتیں (رباعیاں)، علامہ اقبال (اکبال )سے نفرت،نبی کریمؐ  کی شان میں گستاخی، قرآن مجید پر اختلافی نوٹ نے یاس یگانہ چنگیزی کی زندگی کو اجیرن بنادیا تھا۔ بہرکیف چند صاحب نظر تھے جنھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کے ساتھ ہمدردانہ اور معتدل رویہ اپنایا اوربڑے سلیقے اور مستند حوالوں کے ساتھ جدید اردو شاعری میں ان کے مقام کا تعین کیا۔ جب شہر لکھنؤ یاس یگانہ چنگیزی کے خلاف تھا تب پروفیسرمجنوں گورکھپوری نے ان کے کلا م کا ہمدردانہ تجزیہ کیا اور ان کے کلام کی داد دی۔ وہ پہلے ناقد تھے جنھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کی قیمت کا تعین کیا۔ پروفیسرمجنوں گورکھپوری مشہور رسالہ ’نگار‘ جنوری 942 1 کے شمارے میں یگانہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یگانہ پہلے شاعر ہیں جو ہم کو زندگی کا جبروتی رخ دکھاتے ہیں اور ہمارے اندر سعی و پیکار کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ غزل کو جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہ نے زندگی کی شاعری بنا دیااور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز و اشارت کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا... یگانہ اس کشاکش اور تصادم کا احساس ہمارے اندر بڑی سہولت اور کامیابی کے ساتھ پیدا کردیتے ہیں جو زندگی کا اصل راز ہے اور جس کا احساس عصر جدید کا سب سے بڑا اکتساب ہے... ان کی غزلوں کی سب سے نمایاں خصوصیت مردانہ عزم و اعتماد ہے۔ انھوں نے غزل میں واقعی بت شکنی کی ہے۔روایتی موضوعات اور اسالیب دونوں سے انحراف کرکے ہم کو غزل کی امکانی وسعتوں سے آگاہ کر دیا ہے... یگانہ کی شاعری ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ زندگی اک جدلیاتی حقیقت ہے اور تصادم و پیکار اس کی نمو اور بالیدگی کے لیے ضروری ہے۔‘‘

(نگار]معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر[  مدیر :نیاز فتح پوری جنوری 1942)

پرو فیسرمجنوں گورکھپوری کے علاوہ اردو مرثیہ اور ڈراما کے بڑے محقق اور لکھنوی تہذیب  کے نمائندہ سید مسعود حسن رضوی ادیب بھی یگانہ کے فن کے قائل ہیں اور انھیں یگانہ کی ذات سے پوری ہمدردی ہے۔مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنی مایہ ناز کتاب ’ ہماری شاعری‘ جسے مقدمہ شعر وشاعری(حالی) کا جواب اور تتمہ بھی کہا جاتا ہے، میںاردو غزل کے دفاع اور اعلی اردو شاعری کی مثالوں کے لیے مختلف مقامات پر یگانہ کے اشعار نقل کیے ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب اور یاس یگانہ چنگیزی کے مابین دوستانہ مراسم  تھے۔دونوںایک دوسرے کا ہر سطح پر مکمل خیال رکھتے تھے۔حتی کہ لکھنؤ میںدونوں کی قبریں بھی ایک ہی قبرستان کربلائے منشی فضل حسین میں ہیں۔ یگانہ بھی خلاف فطرت مسعود حسن رضوی ادیب کی بڑی قدر کرتے تھے۔ 1930 میں ’ہماری شاعری ‘ پر صابر علی خاں نے اعتراضات کیے تو اس کے جواب میں یگانہ لکھتے ہیں کہ:

’’ وہ کون صاحب ہیں جنھوں نے ’ ادبی دنیا‘ میں سید مسعود حسن رضوی ادیب کی معرکۃ الآرا کتاب ’ہماری شاعری ‘ پرحاسدانہ حملے کیے ہیں۔ یہ تو وہ کتاب ہے جو یورپ زدہ اصحاب کی غلامانہ ذہنیت میں انقلاب پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘

سید مسعود حسن رضوی ادیب کے صاحبزادے اردو کے ممتاز ترین جدید افسانہ نگار اور ناقد نیر مسعود بھی یاس یگانہ چنگیزی کے فن کے قائل اور ہمدرد تھے۔انھوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے لیے ایک کتاب ’یگانہ احوال و آثار ‘ لکھ کر بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے۔منفی ردعمل، تنقید سے تنویر فن کے بجائے آمریت کے اظہار اور تعجیلی فیصلوں کے لیے مشہور باقر مہدی اپنے مضامین کے مجموعے ’آگہی و بے باکی‘ میں لکھتے ہیں کہ میر و غالب کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے وہ یگانہ کا ہے اور یگانہ کے بعد ان جیسا اب کوئی نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ وسیم فرحت علیگ نے بھی یاس یگانہ چنگیزی کے خطوط کو یکجا کرکے، ان پر تنقیدی و تحقیقی کتاب اور مونو گراف لکھ کر دنیائے ادب کے سامنے ان کی شخصیت کو کامیابی سے پیش کیاہے۔ راہی معصوم رضا نے بھی اپنے تحقیقی مقالے ’یاس یگانہ چنگیزی‘  میں ان کی شخصیت، اس کے منظر پس منظر،یاس عظیم آبادی سے یگانہ چنگیزی بننے کے سفر،حالات و کوائف اور جدید غزل میں ان کی اہمیت اور مقام ومرتبے کا تعین کرنے کی غیر جانب دارانہ کوشش کی ہے۔ راہی معصوم رضا  اس تحقیقی مقالے کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’ ’یگانہ ایک بحث طلب شخصیت ہیں۔ان کے بارے میں نہ تو ان کی زندگی میں غیر جانب داری اور ناقدانہ ہمدردی سے سوچا گیا  اور نہ ان کے مرنے کے بعد۔ ’غالب شکن ‘ اور ’شہرت کاذبہ‘کے ہنگاموں میں یہ بات تقریباً نظر انداز کر دی گئی کہ یگانہ شاعربھی تھے۔ اس کتاب کا مقصد یہی ہے کہ یگانہ اور ان کی شاعری کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ ان کی خوبیوں اورخامیوں کا تجزیہ کیا  جائے اور جدید اردو شاعری میں ان کے مقام کا تعین کیا جائے۔ میں نے غیر جانب دار رہنے کی کوشش کی ہے لیکن یگانہ سے اتنی ہمدردی ضرور کی ہے  جتنی ہمدردی کا تقاضا فریضۂ نقد کرتا ہے... میں نے کوشش کی ہے کہ بزم شعر میں یگانہ کو وہ جگہ مل جائے جس پر ان کا حق ہے۔‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967ص 8)

اس تحقیقی مقالے میں پہلے یاس یگانہ چنگیزی کی شخصیت اور ان کے حالات کا ذکر کیا ہے جنھوں نے یاس عظیم آبادی کو یگانہ چنگیزی او ر میر و انیس کے دلدادہ اور ’خاک پائے آتش ‘ کو امام الغزل،ابو المعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا دیا اور خود کے لیے The Arch Artist- Poet of India کا فرمان جاری کرنا پڑا۔اور ’غالب شکن ‘ کا انتساب ان الفاظ میں کرنا پڑا۔

    ’تحفہ غالب شکن'

بجناب ہیبت مآب،دیو تائے جلال و عتاب،پیغمبر قہر و عذاب،دشمن تہذیب پر فن،حق شناس باطل شکن مرد میدان بگیردبزن۔

شہشاہ نبی آدم،سرتاج سکندر وجم،حضرت چنگیز خاں، اعظم قہر اللہ‘‘۔اور ترانہ کی ایک جلد پر یہ عبارت لکھنی پڑی

"Omer Khyam challenged (as for as poetic Art is concerned )"

ان عبارتوں سے صرف ان کے مخاصمانہ اور معرکانہ رویے کا ہی اندازہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی ضد، اکھڑپن، بے خوفی،انانیت پسندی اور خود پرستی کے ساتھ احسا س کمتری اور احساس شکست کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے اندر منفی رویوں کو پروان چڑھانے میں صرف ان کی کج فہمیوں کو دخل نہیں تھا بلکہ وہ حضرات بھی اس کے ذمے دار تھے جنھوں نے ان کے ساتھ ہمیشہ مخاصمانہ،معاندانہ اور معرکانہ رویہ روا رکھا اور ان کے ساتھ علمی اورسماجی سطح پر نبرد آزما رہے اور ان کے ساتھ معتدل اور ہمدردانہ رویہ نہیں اپنایا۔

 یگانہ کوچنگیزی،خاک پائے میر و آتش کو امام الغزل، ابو المعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا نے والے عوامل و عواقب کا تجزیہ کرتے ہوئے راہی لکھتے ہیں کہ’’ یگانہ کی شخصیت میں بڑے بل تھے۔لکھنؤ والوں کی مخالفت،غیر ذمے دار نقادوں کی ناوک زنی،اور ذمے دار نقادوں کے تغافل نے ان بلوں کو اور سخت کردیا۔چنانچہ اپنی انا کے خلا میں ’ پر پھڑ پھڑانے والایہ فرشتہ‘ اسی خلا میں کھو گیا۔یگانہ اردو غزل کا المیہ ہے۔اس المیے میں ایک خاص طوالت بھی ہے، ابتدا، وسط اور انجام بھی ہے۔جلال بھی ہے اور تزکیہ بھی۔ارسطو نے بھی ا لمیہ سے اس کے علاوہ کوئی اور مطالبہ نہیں کیا۔‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967، ص32)

ناقدین فن یاس یگانہ چنگیزی کی شخصیت اور شاعری کے ’منظر و پس منظر ‘ کا محاکمہ کرتے ہیںاوراس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی تخلیق یا صنف کا مطالعہ اس کے گردو پیش اور سیاسی، سماجی ومعاشی سیاق میں ہی کیا جانا چاہیے۔ یاس یگانہ چنگیزی بھی دوسرے شعرا کی طرح اپنے گردو پیش سے باخبر تھے گرچہ حالات، نقادوں کی ناوک زنی، اور تغافل، قومی تحریکوں سے علاحدگی، احساسِ تنہائی و کمتری اور حد درجہ انانیت و خود پسندی نے ان کی شاعری کو ’جبروتی رخ ‘دے دیا تھا لیکن ایک معروضیت پسند اور غیر جانب دار نقاد کو ان سیاق اور حالات پر بھی نظر رکھنی ہوگی جن حالات میں وہ شاعری کر رہے تھے۔ یاس یگانہ چنگیزی نے اپنی شاعری کے بارے میں فراق گو رکھپوری کو لکھا تھا کہ ’’ہر جنس کا آرٹ خود اپنے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ پرانے معیار پر نہیں‘‘۔ مشہور شاعر و نثر نگار باقر مہدی بھی دوسرے ناقدین کی آرا کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ شاعری فقط سپاٹ حقیقت نگاری کا نام نہیں بلکہ حقیقت کو شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے۔‘‘  

  (آگہی وبے باکی: باقر مہدی،گوشۂ ادب ارکیڈیا بلڈنگ بمبئی ، ص 102)

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو ظالم پر سادگی برستی ہے

 ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا

کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا

 حسن بے تحاشہ کی دھوم کیا معمہ ہے

کان بھی ہیں نا محرم آنکھ بھی ترستی ہے

خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں

چلی آتی ہیں اب تک کشمکشیں شیخ و برہمن میں   

یاس یگانہ چنگیزی کے بہت سے اشعار اردو کی کلاسیکی شعری روایت اور عصری آگہی کا بہترین نمونہ ہیں۔ان اشعار کو کسی بھی کلاسکی یا جدید پیمانہ نقد پر جانچیںپرکھیں یاس یگانہ چنگیزی کے کمال فن کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ان کی شاعری لکھنؤ کی عام حرماں نصیبی،زندگی سے فرار اور بے زاری کے احساس کے برعکس پامردی، عزم و حوصلہ اور سعی و پیکار یا بقول مجنوں گورکھپوری ’مردانگی‘ کی نمائندہ ہے۔ یگانہ جس زمانے میں شاعری کر رہے تھے اس وقت اردو غزل نئی کروٹ لے کر ایک نئے سمت میں سفر کر رہی تھی اور معشوق، رقیب، شیخ، محتسب،کعبہ و بت خانہ جیسی غزل کی علامتیں جدید معنوں میں استعمال ہو رہی تھیں۔ غزل کی فارسی نژادیت ختم ہو رہی تھی اور ہندوستانی عناصر کا تناسب بڑھتا جا رہا تھا اور غزل خالص ہندوستانی صنف سخن بنتی جارہی تھی۔اسی سیاق میں یاس یگانہ چنگیزی، حسرت موہانی، علامہ اقبال، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی وغیرہ کی شخصیتیں بنی بگڑی ہیں اور اسی سیاسی، سماجی ومعاشی اور ادبی پس منظر میں یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

 مجنوںگو رکھپوری، مسعود حسن رضوی ادیب، راہی معصوم رضا، باقر مہدی اور نیر مسعود وغیرہ  یگانہ چنگیزی کے مختلف اشعار کے توسط سے ان کی نظریاتی کشمکش اور اہل لکھنؤ سے معرکہ آرائی کا جواز تلاش کرتے ہیںاور مختلف حوالوں سے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یگانہ چنگیزی کی طرح اسی انداز کی شاعری اور نثر دوسرے ادیبوں نے بھی تخلیق کی لیکن انھیںوہ اذیتیں اور رسوائیاں نہیں جھیلنی پڑیں جو یگانہ چنگیزی کے حصے میں آئیں۔ بہر کیف مندرجہ بالا ناقدین مختلف شعری حوالوں سے یگانہ چنگیزی کی فوقیت اور برتری ثابت کرتے ہیںاور یہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں کہ یگانہ چنگیزی ایک حساس،بے باک اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ اہل لکھنؤ کی طرح ان کے یہاں لفظی بازیگری نہیں ہے اور ان کی شاعری لفظوں اور سندوں کی محتاج نہیں ہے۔ وہ اور ان کی شاعری زمانے کے سردو گرم سے بے نیاز ہیں۔ وہ بت پرستی نہیںبت شکنی کے دلدادہ ہیں۔ اسی لیے قدیم سے قدیم اورمسلمہ شعری و فکری روایت سے انحراف میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے۔ یگانہ چنگیزی کی اپنی صلاحیتوں پر حد سے زیادہ اعتماد،بے جا خود داری و خود اعتمادی نے انھیں خود پرست اور انا پرست اورناقدین کی نظر میں ’کجرو‘ بنا دیاتھا۔یگانہ کے مخلص ناقدین ان کی نفسیاتی بوالعجبیوں کو،ان کے مزاج کی انفرادیت اور تیکھاپن کوجبروتی انداز اور مردانگی سے یا یگانہ آرٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان حالات و کوائف کا اور ان عوامل اور عواقب کا تجزیہ کرتے ہیں جنھوں نے یاس کو یگانہ،خود پرست،انا پرست اور کلبیت پسند بنایا اور اعلی تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہونے کے باوجود یگانہ چنگیزی کو احسا س کمتری اور احساس شکست جیسی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔انفرادیت اور انانیت کی بھول بھلیوں میں بھٹکا کر شاعرانہ منصب اور منہج سے بہت دور تاریکی میں پہنچا دیا جہاں مثبت تنقید بے کیف اور تنقیص حرزِ جاں ہو گئی اوریگانہ کوہر اس شخص کو اپنا حریف بنانے میں مزہ آنے لگا جو ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔اور بقول آل احمد سرور آخر کاریگانہ اپنے پہلے ہی شعر          ؎

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا  

کا بہترین تبصرہ بن کر رہ گئے۔ اسی طرح راہی معصوم رضا بھی یاس یگانہ چنگیزی کے معرکانہ اور مخاصمانہ تیور کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یگانہ تنقید سے زیادہ تنقیص پر تلے ہوئے ہیں اور بیشتر مقامات پر ان کا لہجہ غیر مہذب ہے اور ان کے الفاظ غیر شائستہ ہیں۔وہ جگر اور جوش کا ذکر’اشخاص‘ کہہ کر کرتے ہیں اور عزیز کو ’ میاں عزیز ‘ اور ’فضلتہ الشعرا‘ اور ’قصاب المعانی‘کہتے ہیں اور یہیں چپ نہیں رہتے بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ڈھاڑی نہیں نخاس کے کشمیری(یعنی بھانڈ) ہیں اور پھر خطابات دینے کے بعدوہ عزیز کے قصیدوں پر پچھتر ’وضوشکن‘ اعتراضات کرتے ہیں۔مولانا حسرت کو اوسط درجے کا شاعر کہتے ہیں اور مولانا بے خود کو ’ غالب کا دلچٹا مولوی ٹھینگا موہانی‘ کے خطاب سے یاد کرتے ہیں۔جوش کے ساتھ ’خان‘ لگاتے ہیں۔ترقی پسندشعرا کو ’غدار‘ کہتے ہیں اور انھیں گدھا جانتے ہیں...‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی: راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967، ص191)

ہم عصروں میں چند ہی لوگ تھے جن کی یگانہ چنگیزی تھوڑی بہت عزت کرتے تھے ورنہ ہر کس و ناکس سے ان کی معرکہ آرائی تھی۔ ان اعتراضات میں تنقیدی شعور کی کارفرمائی دور دور تک نظرنہیں آرہی ہے بلکہ تنقید کی جگہ معاندانہ آرا اور تنقیص نے لے لی ہے اور یہ اعتراضات کسی بانکے شاعر کی آواز نہیں بلکہ احساس شکست سے دوچار درماندہ رہرو کی صدائے بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔

بہر کیف جدید اردو غزل میںیگانہ چنگیزی کے صحیح مقام و مرتبے کے حوالے سے ان کے مخلص ناقدین کا ماننا ہے کہ یگانہ کی شخصیت، ان کے فن اور نظریہ فن کو ان کے زمانے اوران کے زمانے کی ادبی روایتوں کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔یگانہ کی شخصیت کے داخلی اور خارجی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی ان کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہیے کیوں کہ یگانہ کا سارا شعری سرمایہ صرف ’پیترے بازی‘ نہیں ہے یا صرف انفرادیت سے انانیت کا گمراہ کن سفر نہیںہے بلکہ رعنائی، توانائی، مردانگی جیسی قدروں پر مشتمل ایک تہہ دار اور قوت ایجادکے حامل شاعر کا تخلیقی سرمایہ ہے،  جس نے غزل اور رباعی جیسی مشکل صنف میں اپنے ہم عصروں بشمول جوش و فراق کو متاثر کیا۔اور لکھنؤ کی غزل کو سطحی جذباتیت اور لفظی بازی گری کے طلسم سے نکال کر اصل زندگی کا ترجمان بنایا اور جدید اردو غزل کوایک نیا لب و لہجہ عطا کیا۔ یگانہ ایک سچے کھرے،حق پرست اورخود پرست تھے۔انھیں، ان کی شاعری، ان کے فن اور نظریہ فن کوسمجھنے کے لیے ضروری  ہے کہ غالب شکن اور شہرت کاذبہ کے شان نزول کوسمجھا جائے اور ان کے لہجے کی جھلاہٹ اور کھردرے پن کے اندرجھانکا جائے۔عبرت اور بصیرت دونوں کو بروے کار لاکر ان کا ادبی مرتبہ متعین کیا جائے۔ جن ناقدین نے یگانہ چنگیزی کے کلام کا Total Criticism کے اصولوں کے تحت مطالعہ کیا ہے ان میں مجنوںگو رکھپوری، مسعود حسن رضوی ادیب، راہی معصوم رضا، باقر مہدی اور نیر مسعود،پروفیسر شمیم حنفی،سلیم احمد غیرہ کے ساتھ مشہور مورخ و ناقدڈاکٹرانور سدید اور پروفیسر سیدہ جعفر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹرانور سدید نے یگانہ چنگیزی کی غزلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

’’ یگانہ کی غزل ان کے ترکی مزاج کی آئینہ دار اور منفرد کیفیات کی مظہر ہے۔’آیات وجدانی ‘ میں وہ خیال کے ساتھ حسن مجسم کو بھی اڑا لے جاتے ہیں۔ان کی گہری اور کٹیلی طنز نا آسودہ حسرتوں کو جگاتی ہے۔وہ دکھی اور افسردہ دل تھے لیکن اپنی انا کو جھکنے نہیں دیا۔‘‘

(اردو ادب کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر انور سدید۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی  ص  354)

مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے

بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا ظ

 موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی

لے دعا کر چلے،اب ترک دعا کرتے ہیں

مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ ’آیات وجدانی ‘ میں بہت سے اشعار ہیں جو ڈاکٹر انور سدید اور ان کے ہم خیالوں کے دعوے کی دلیل میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ یگانہ چنگیزی کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ نثر میں ایک خاص اسلوب نگارش طنز ملیح اور طنز قبیح کے موجد و خاتم تھے۔ اسی طرح انھوں نے اردو غزل کو بھی ایک منفرد آواز عطا کی تھی۔ انھوں نے لفظی بازیگری اور شعری صنعتوں سے احتراز کرکے علامتوں کی ایک دنیا آباد کرنے کی کوشش کی۔ اردو شاعری کو اپنے منفرد مزاج اور عصری زندگی کا آئینہ دار اور مظہر بنایا۔کہا جاتا ہے یگانہ کے مزاج کا تیکھا پن اور زندگی سے بھر پور لہجہ خواجہ حیدر علی آتش کی یاد دلاتا ہے۔ جن ناقدین نے یاس عظیم آبادی کو یگانہ چنگیزی،خاک پائے میر وآتش کو امام الغزل، ابوالمعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا نے والے عوامل و عواقب کا اور ان کے کلام کا معروضی تجزیہ کیا اور ان کی شعری خدمات اور انفرادیت کو تسلیم بھی کیا  ان میںپروفیسر سیدہ جعفر بھی شامل ہیں۔وہ یگانہ کی پوری شخصیت اور شعری انفرادیت کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

’’یگانہ تنہا تھے اور مخالفین کی ایک بڑی جمعیت کا سامنا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میدان سے ان کے قدم اکھڑنے لگے۔یگانہ کو اپنی عظمت اور انفرادیت کا شدید احساس تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے لب و لہجے اور مزاج کو بدل دیا۔ روایت سے انحراف  کرکے مصنوعی آرائش و زیبائش، لفظ پرستی اور سطحیت کو تفکر،جدت طرازی اور تازگی خیال سے بدل دیا...زبان و بیان کے اعتبار سے یگانہ کا کلام اپنے کسی ہم عصر سے کمتر نہیں۔روز مرہ اور محاوروں کا استعمال،بے ساختگی،طرزادا کی سادگی اور روانی یگانہ کے انداز ترسیل کے پہچان بن گئے ہیں... رباعی کے فن پر یگانہ کو دسترس حاصل ہے...افکار و تصورات کی جدت اور زبان کی سادگی نے رباعیات یگانہ ( ترانہ) کو قابل توجہ بنا دیا ہے۔‘‘

(تاریخ ادب اردو: عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک  جلد چہارم ،  سیدہ جعفر  وی جی  پرنٹرس دلسکھ نگر حیدر آباد   ص  250   )


حوالہ جات

  1.       آیات وجدانی: یاس یگانہ چنگیزی، مبارک علی تاجرکتب لاہور، 1927
  2.               یگانہ احوال و آثار:نیر مسعود  انجمن ترقی اردو ہند دہلی 1991
  3.       نگار(معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر)  مدیر: نیاز فتح پوری  جنوری 1942
  4.               یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا : شاہین پبلشر الہ آباد  1967
  5.               آگہی وبے باکی:    باقر مہدی، گوشۂ ادب ارکیڈیا بلڈنگ بمبئی 1965  
  6.       اردو ادب کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر انور سدید۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی  2013
  7.      ہماری شاعری:  سید مسعود حسن رضوی، نظامی پریس لکھنؤ اترپردیش 1926
  8.       تاریخ ادب اردو: عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک  جلد چہارم:  سیدہ جعفر  وی جی  پرنٹرس دلسکھ نگر حیدر آباد 2002


Dr. Abu Shaheem Khan

Associate Professor, Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 7354966719

27/3/23

اردو میں تحشیہ و تعلیق:مسائل اور حل: شاداب شمیم

 


لغت میں تحشیہ کے کئی معنی ملتے ہیں جیسے حاشیہ چڑھانا، کسی کتاب وغیرہ کا حاشیہ لکھنا،کنارہ یا حاشیہ بنانا وغیرہ اورادبی اصطلاح میں کسی شعر، شہر، لفظ،کتاب اوراشخاص وغیرہ کے مختصربیان یا وضاحت کو کہاجاتاہے، عام طور پر حاشیہ میں وہی چیزیں تحریرکی جاتی ہیں جنھیںمتن کا حصہ نہیں بنایاجاسکتا۔ اس کامادہ ح و ش ہے۔قدیم زمانے سے اس کاچلن رہاہے۔ خاص طورپر عربی کی درسی کتابوں میں اس کا رواج تو عام ہے۔اس کے ذریعے اصل ماخذ کی نشاندہی اورمختلف نکات کی تو ضیح بھی کی جاتی ہے۔ حاشیہ کومتنی حواشی،غیرمتنی حواشی،ترتیبی حواشی میں تقسیم کیاگیا ہے اوران کی کئی ذیلی اقسام بھی ہیں۔ اسی طرح تعلیق کا استعمال بھی حاشیہ کی طرح ہی ہوتاہے۔ اس کے لغوی معنی لٹکانا،کسی چیز کو دوسری چیز سے متعلق کرنا، حاشیہ، فٹ نوٹ، وضاحت وغیرہ ہیں۔ اس کے تحت متن سے متعلق اضافی معلومات تحریرکی جاتی ہیں۔ اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ استشہادی تعلیق، ارتباطی تعلیق، اضافیاتی تعلیق اور افادیاتی تعلیق وغیرہ ۔بعض محققین تحشیہ اورتعلیق کو الگ الگ استعمال کرتے ہیں اور بعض نے ان دونوں کو مترادف بتایا ہے۔  ڈاکٹر نذیر احمد تصحیح و تحقیق متن میں لکھتے ہیں

 ’’فرہنگ نامہ دہخدا سے معلوم ہواکہ حاشیہ اور تعلیقہ بہ اعتبار معنی ومفہوم یکساں ہیں،لیکن استعمال کے لحاظ سے ان میں کچھ فرق ہے،تعلیقہ معقولات اورفلسفہ کی کتابوں کے حاشیہ کو کہتے ہیں اوردوسرے فنون کی کتابوں میں تعلیقہ یا تعلیقات، حواشی یا حاشیہ کہلاتے ہیں۔‘‘

(تصحیح و تحقیق متنص53)

حواشی و تعلیقات کے استعمال کے متعلق خلیق انجم لکھتے ہیں

’’اب تک تعلیقات اور حواشی کا جو مفہوم بیان کیاگیاہے اس سے حواشی اورتعلیقات کے مفاہیم میں فرق کرنا مشکل ہوجاتاہے،اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم لغوی،فرہنگی اورادبی امو ر کی وضاحتوں کے سلسلے میں کچھ لکھیں تو ہماری تحریریں حواشی کے دائرے میں آئیں گی اوراگر متن کے تاریخی،سماجی یا ادبی واقعات کی تفصیل بیان کی جائے یا ان افراد کے حالات بیان کیے جائیں جن کا ذکر متن میں آیاہے تو وہ تعلیقات کہلائے جائیں گیــ۔‘‘(متنی تنقید ص103.104 )

ادبی تحقیق میں تحشیہ ا ور تعلیق کی بہت اہمیت ہے۔ اس کے بغیر اچھی اور معیاری تحقیق کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آج  تحقیق کے نام پر تبصرہ، تنقید اور تجزیہ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم آج کی تحقیق کو ادبی تحقیق کے معیار پر جانچتے اورپرکھتے ہیں اور یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کے موضوعات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ واقعی اچھی اور معیاری تحقیق نہیں ہورہی ہے۔ہم خود نہیں چاہتے کہ عمدہ اور معیاری تحقیق سامنے آئے۔اسی لیے ہم ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر یا تو پہلے سے موادبکثرت موجود ہوتا ہے یا پھر چبے چبائے لقموں کو نئے الفاظ و انداز میں پیش کردیتے ہیں، اگر آج ریسرچ کا معیار گرا ہے اور دن بہ دن ادبی ریسرچ اپنا وقار کھوتی جا رہی ہے تواس کے ذمے دارجس طرح ریسرچ اسکالرز ہیں اسی طرح اساتذہ اور نگراں حضرات بھی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ آج ہر کوئی سہل پسند ہوگیا ہے، کتابوں کے مطالعے اور نئی نئی چیزوں کو اخذ کر نے کا ان کے پاس نہ تو جذبہ ہے اور نہ ہی وقت،اگریہی حال رہاتو وہ وقت دور نہیں جب ہماری تحقیق و ریسرچ کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہے گی اوراسے ردی کے حوالے کردیاجائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر وہ طریقہ اورراستہ اختیار کیاجائے جس سے معیاری اور عمدہ تحقیق ہمارے سامنے آسکے۔

آج کے اسکالر ز حواشی وتعلیقا ت کی طرف اس لیے بھی متوجہ نہیں ہوتے کہ حواشی وتعلیقات انہی کتابوں پر لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جوکلاسک کادرجہ رکھتی ہیں اور آج سے دوتین سوسال پہلے تصنیف یا تحریر کی گئی ہیں۔ اس وقت اردو زبان و ادب پر فارسی و عربی زبان کا غلبہ تھا، اس لیے اس وقت کی کتابوں اور تحریروں میں بھی ان زبانوں کا بکثرت استعمال ہواہے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کے زیادہ تر اردو اسکالرز فارسی و عربی زبان سے ناواقف ہیں اور اگر واقف ہیں تومحض کچھ لفظوں اور جملوں سے، اور ظاہر ہے کہ ان سے تو فارسی و عربی عبارت کو سمجھ پانا کافی مشکل ہے۔مثال کے طور پر مکاتیب سر سید،غبارخاطر اوراس طرح کی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت یہ احساس ہواکہ ان میں بکثرت فارسی و عربی الفاظ و جملوں کا استعمال کیا گیاہے اور سرسیدکے کچھ خطوط تو ایسے ہیں جو اردو سے شروع ہوتے ہیں اور پھر بیچ میں ایک طویل پیراگراف فارسی زبان میں ہے اور پھر آخر کا پیراگراف اردو میں ہے،)خط بنام محسن الملک،مکاتیب سرسیدجلد1،ص155)تو اس سے اندازہ لگا یاجاسکتا ہے کہ جو اسکالر فارسی زبان سے ناواقف ہوگا وہ تو سر سید کے خط کو بھی کما حقہ نہیں سمجھ سکتا،اس لیے یونیورسٹیز میں حواشی وتعلیقات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ہم اپنی کلاسیکی اور پرانی کتابوں سے خاطر خواہ استفادہ کر سکیں اورانھیں عوام کے لیے مفید اور قابل استفادہ بناسکیں۔

 ہاں یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ حواشی و تعلیقات تحریر کرنا ایک مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں،حواشی و تعلیقات تحریر کرتے وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے سب سے پہلے تو یہی سمجھنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے کہ حواشی و تعلیقات ہم معنی لفظ ہیں یا مترادف، اگر ہم معنی ہیں تو ان کا طریقہ ٔکار اور استعمال کہاں،کیسے اور کس طرح ہوتا ہے اور اگر مترادف ہیں تو پھر اس کا طریقۂ استعمال کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے،کہاں پر اور کیسے اس کو پیش کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یوجی سی کے ذمے داران نے کورس ورک میں حواشی وتعلیقات کو شامل کیا ہے۔طلبہ واساتذہ کو اسے بہتر طریقے سے پڑھنا اور پڑھانا چاہیے،جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسکالرز اس موضوع سے مانوس ہوجائیں گے اوربہتر طریقے سے اس کا حق اداکرسکیں گے۔

حواشی و تعلیقات پر کام کرنا دشوار گزار اس لیے بھی ہے کہ متعلقہ موضوع پر مواد مختلف انسا ئیکلوپیڈیاز اور علوم وفنون کی کتب کے اوراق پلٹ کر جمع کرنا ہوتا ہے،اور آج اسکالرز کی سہل پسندی اس چیز کی عادی ہے کہ مواد دوچار کتابوں میں زیادہ سے زیادہ مل جائے اور تحقیق کا کام آسانی سے کم وقت میںپورا ہوجائے۔حالانکہ مختلف علوم وفنون کی کتابوں کی ورق گردانی ریسرچ اسکالر ز کے لیے بہت مفید ہے،نئی نئی چیزوں سے واقفیت ہوتی ہے، مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات اور معلومات سے آشنائی ہوتی ہے اورریسرچ اسکالرز کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔

حواشی و تعلیقات تحریرکرنے کے لیے رسوم ورواج اور الفاظ و محاورات کی معلومات بھی بہت ضروری ہے، اس لیے کہ وہ کتابیں جو کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں ان میں اردو کے ساتھ عربی و فارسی الفاظ و محاورات کا بکثرت استعمال ہواہے،محقق کے لیے ضروری ہے کہ اس کی نگاہ ان تمام چیزوں پرہو،جس سے کہ ان کے متعلق لکھنے میں اسے کوئی دشواری نہ ہو،اسی طرح پرانے زمانے میں جو علوم اور رسم ورواج رائج تھے اور اس وقت کی تہذیب اور طرز معاشرت کیا تھی اس پر بھی خاطر خواہ نگاہ ہونی چاہیے، اس لیے کہ بہت سے ایسے طریقے اور رسوم و رواج ہیں جو اس وقت تو رائج تھے لیکن آج ان کا چلن نہیں ہے،اس وقت وہ انسانی تہذیب و کلچر کا حصہ تھے آج نہیں ہیں۔ اس لیے حواشی و تعلیقات تحریرکرنے لیے مختلف علوم وفنون سے واقفیت ضروری ہے۔

اسی طرح پہلے کی کتابوں میں جو نام مندر ج ہوتے ہیں ان میں سے کچھ تو بہت مشہور و معروف ہوتے ہیں جن کی تفاصیل حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔لیکن کچھ ایسے اسما بھی ہوتے ہیں جن تک رسائی بہت دشوار ہوتی ہے۔مثال کے طور پر مکاتیب سر سید کے مکتوب الیہم کچھ تو بہت مشہور ومعروف ہیں اور کچھ حضرات غیر معروف ہیں اسی طرح خط کے درمیان کچھ ایسے اصحاب کا نام آگیا ہے جو اس وقت مکتوب نگار اور مکتوب الیہم کے لیے معروف تھے لیکن آج ان کے سلسلے میں معلومات ملنا بہت مشکل ہے،اس لیے کہ امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ لوگ پردئہ خفا میں چلے گئے،اس عدم واقفیت کی بناپر ایسی تحریروں کو پڑھتے وقت قاری متفکر رہتا ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اور ان سے مکتوب نگار کا رشتہ یا تعلق کیا تھا۔اسی طرح کبھی کبھی صرف تخلص تحریر کیا جاتاہے اس سے بھی پریشانی ہوتی ہے کہ اگر صاحب تخلص مشہور ومعروف ہے تب تو اس کے متعلق معلومات آسانی سے مل سکتی ہیں لیکن غیر معروف ہونے کی صورت میں اس کی معلومات بہم پہنچانا کافی مشکل ہوجاتا ہے،اگر آج بھی ان شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں تو جو چیز معلوم کرنا آج مشکل ہے آنے والے دنوں میں وہی ناممکن ہوجائے گا اور پھر کسی بھی صورت ان اشخاص کی شناخت ممکن نہ ہوگی، اس سے اردو ادب کا بڑا خسارہ ہوجائے گا اورپتا نہیں حوادث زمانے کا شکار ہوکر کتنے علوم و فنون،اشخاص و مقامات ضائع ہوجائیں گے۔

حواشی و تعلیقات کا تعلق پرانی کتب اور اخبارات و رسائل سے بھی ہے۔ بہت سی کتابوں کا ذکر پرانی کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن آج وہ ناپید ہیں۔ اسی طرح مختلف اخبارات و رسائل جو اس وقت موجود تھے اور جن میں ادبا و شعراکی تخلیقات وغیرہ شائع ہوتی تھیں ان میں سے کچھ کے حالات و واقعات تو موجود ہیں اور کچھ کا ذکر صرف اس وقت کی کتابوں اور رسائل میں ہے،اگر ان کے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرناچاہیں تو پھر دوچار قدم چل کر ہی قلم خاموش ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔بہت سی اہم کتابوں کاعلم تو تذکرہ اورخطوط وغیرہ جیسی کتابوںکے مطالعے سے ہی ہوتا ہے۔

اس وقت کی تحریروں میں بہت سے حادثات، واقعات اورتحریکات کا ذکر ملتا ہے،اور ان کے متعلق بہت سے واقعات بھی مذکو ر ہیں، لیکن جب اس طرح کے واقعات وحادثات کی تحقیق کی جاتی ہے تو پھر راستے مسدود ہوجاتے ہیں اور چند قدم چل کر ہی محقق ہانپنے لگتا ہے۔ اس لیے کہ واقعات کا ذکر تو کتابوں میں ہے لیکن ان کی اصل تفصیل نہیں ملتی کہ یہ واقعہ کب، کہاں اورکیسے رونماہوا،اوراس کے اسباب وعلل کیاتھے۔اس لیے کہ جس طرح جستہ جستہ اردو زبان و ادب ترقی اور عروج کے منازل طے کر رہی تھی اسی طرح مغل حکمراں اورمغل حکومت اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ انگریزوں اور مغلوں میں بہت سی ایسی جھڑپیں ہوئی ہیں جن کا تذکرہ جابہ جا ملتا ہے اسی طرح 1857 کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے اور اس کے چشم دید تو غالب اور سر سید بھی ہیں لیکن پھر بھی ان کے مکاتیب میں کہیں کہیں کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تفصیل جانے بغیر مطلوب تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

ریسرچ اسکالر کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کا بھی ہوتا ہے اس لیے کہ بغیر وسائل کے تحقیقی کام کیا جانا ناممکن امر ہے اور حواشی و تعلیقات ایسا موضوع ہے جس کے وسائل تک پہنچنے کے لیے تحقیق کے طالب علم کو بہت زیادہ تگ و دو اور محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ان وسائل میں سب سے پہلے ذہن مواد کی فراہمی کی طرف منتقل ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، مواد کتابی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور رسائل و جرائد،اخبارات،قدیم مخطوطات،کتبے اور دیگر اشکال میں بھی۔اس لیے کہ کسی بھی کتاب پر تعلیقات یا حواشی لکھنے کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اصل مراجع و مصادر تک پہنچا جائے اور ان تک پہنچنے کا واحد ذریعہ مواد ہوتا ہے۔ یہاں طالب علم کو دو طرح کی دشواری ہوتی ہے پہلی تو مواد کی طرف نشاندہی کے سلسلے میں ہوتی ہے کہ ریسرچ اسکالر جس موضوع پر کام کر رہا ہے اس سے متعلق مواد تک کیسے پہنچے ؟ اور دوسری دشواری مواد تک پہنچنے کے بعدکی ہوتی ہے کہ اس مواد سے استفادہ کیسے کیا جائے ؟ کبھی تو وہ تحقیقی مواد اپنی زبان میں صاف و شفاف حالت میں مل جاتا ہے اور کبھی اس کی زبان کچھ اور ہوتی ہے یا اس کا خط کچھ اور ہوتا ہے جو اس زمانے میں رائج نہیں، اس وقت تحقیق کاطالب علم بہت سی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔

اسی طرح وسائل میں کتابیں بھی شامل ہیں اس لیے کہ تحشیہ اور تعلیق کے لیے بہت سی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پرانی کتابوں میں ہمیں کئی زبانوں کی اصطلاحات، رسوم و رواج اور واقعات ملتے ہیں، ان کی توضیح و تشریح اس زبان کی کتابوں کو پڑھ کر ہی ممکن ہے اس لیے کتابیں بہ سہولت فراہم ہونی چاہیئیں،تحقیق میں مواد کی فراہمی ہر جگہ ضروری ہوتی ہے مگر حواشی و تعلیقات میں بغیر مواد کے ایک قدم بھی نہیں چلاجا سکتا،جس شخصیت،کتاب یاواقعے کے بارے میں لکھاجارہا ہے اس کے مستند ہونے کے لیے حوالہ و مآخذ کی اشد ضرورت ہے۔

عصر حاضر میں جب کہ کتابوں کے پڑھنے کا رواج کم ہو رہاہے،ہر چیز ڈیجیٹلائز کی جارہی ہے ایسے میں حواشی و تعلیقات کی ضرورت و اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو اس بات کی طرف دھیان دیناچاہیے کہ عربی و فارسی سے واقف طلبہ کے سامنے حواشی و تعلیقات کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کریں اور انھیں اس سلسلے میںکام کر نے پر رغبت دلائیں۔ایم فل،پی ایچ ڈی کے انٹرویو میں طالب علم سے عربی و فارسی کی واقفیت دریافت کر کے کلاسیکی ادب کے حواشی و تعلیقات پر کام کرنے کا موقع فراہم کریں اورایسے اساتذہ جو عربی و فارسی سے واقف ہوں یا جنہوں نے قدیم متون پر کام کیا ہے وہ ایسے طلبہ کی رہنمائی کریں تاکہ ہمارے شعبوں کی تحقیق افسانہ و ناول تک محدود رہ کر آنے والے وقت میں خود افسانہ نہ بن جائے اور اس میں ان متون اور کلاسیکی ادب کی کوئی جگہ نہ رہے،جو اردو زبان و ادب کا گراںقدر اور اصل سرمایہ ہے۔

حواشی وتعلیقات پر کام کرنے والے ریسرچ اسکالرز  اور محققین کے لیے مختلف اداروں کے ذریعے تیار کی جانے والی انسائیکلوپیڈیاز جیسے اردو دائر ہ معارف اسلامیہ 25 جلدیں، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، اردو جامع انسائیکلو پیڈیا، ارد و انسائیکلو پیڈیا، جغرافیائی معلومات انسائیکلوپیڈیااوراسلامی انسائیکلوپیڈیا وغیرہ بڑی کارآمد ہوتی ہیں، لغات، تذکرے، تاریخ ادب اردو کی کتب وغیرہ بھی اس سلسلے میں اہم وسیلے ہیں،اس کے علاوہ قاموس المشاہیراورماہنامہ نقوش کا شخصیات نمبر، الاعلام للزرکلی (خیرالدین زرکلی)، اردو محاورے، اردو میں مستعمل محاورے اوردہلی میں محاورے وغیرہ اہم کتابیں ہیں جن کے ذریعے محقق حواشی وتعلیقات میں بھرپور استفادہ کر سکتا ہے،مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات و الفاظ کے سلسلے میں اس شعبے کے اساتذہ اورماہرفن سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، آج ہر یونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات موجودہیں ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم جس شعبے میں تحقیق کر رہے ہوتے ہیں دوسرے شعبے کے اساتذہ وماہرین کو اپنے موضوع سے غیر متعلق خیال کرتے ہیں مگر حواشی و تعلیقات میں ان سے اہم اور مفید معلومات فراہم ہو سکتی ہیں، لہٰذااس سلسلے میں ہمیں فراخدلی اور سیر چشمی سے کا م لینا چاہیے۔

مواد اور کتابوں کی دستیابی کے بعد ریسرچ اسکالر کا مرحلہ آسان ضرورہو جاتا ہے مگرمنزل ابھی بھی دور ہوتی ہے، مواد کی فراہمی کے بعد ضرورت ہوتی ہے تجربہ کار اور عالم و فاضل رہنماکی،حواشی و تعلیقات تحریرکرتے وقت ہرقدم پر نگراں کے مشورے اوران کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے کہ مواد کی تراش خراش اوراس کے انتخاب میں باریک بینی اوردقت نظری بہت اہم چیزہے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد شرط ہے کہ ریسرچ اسکالر محنت اور جانفشانی سے کام کرے اور زیادہ سے زیادہ و قت تحقیقی کام کو دے،یہ ایسا موضوع ہے جسے جتنا بھی وقت دیا جائے کم ہے،عام طورپر تحقیق کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بہت خشک ہوتاہے،اوراس کے لیے یکسوئی کی اشدضرورت ہوتی ہے۔اس کے بغیر عمدہ تحقیق کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔

حواشی و تعلیقات بہت ہی قدیم فن ہے،چونکہ اردو زبان کا تعلق عربی اورفارسی سے بہت گہراہے،یہی وجہ ہے کہ اردو نے عربی اورفارسی کے بہت سے اثرات قبول کیے ہیں،الفاظ و محاورات کے علاوہ بہت سی اصناف میں اردو نے ان زبانوں کی پیروی کی ہے۔عربی اور فارسی میں اس کا رواج بہت پہلے سے رہاہے۔خاص طورپر عربی کی درسی کتابوں کے حواشی بہت مقبول ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ حدیث کی تقریباً تمام کتابوں کے حواشی تحریرکیے گئے ہیں،اوربہت سے محشی صرف حواشی تحریرکرنے کی وجہ سے علمی و ادبی دنیامیں کافی مقبول و معروف ہوئے ہیں، علم حدیث میں امام ابن حجر عسقلانی نے تحفۃ الباری،نووی نے المنہاج فی شرح صحیح مسلم،علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری اوربدرالدین عینی نے عمدۃ القاری اورطبقات الشعرا وغیرہ کتابیں تصنیف کی ہیں، اسماء الرجال اورسوانح میں جمال الدین مزی نے تہذیب الکمال اورامام شمس الدین ذہبی نے سیراعلام النبلاء وغیرہ جیسی اہم کتابیںیادگارچھوڑی ہیں،اورعربی ادب میں ثعالبی نے یتیمہ الدھرفی محاسن اھل العصر اوراصمعی نے الاصمعیات اورفحول الشعرا وغیرہ کے نام سے حواشی تحریرکی ہے۔اسی طرح فارسی کی بہت سی کتابوں پر بھی اس کے محققین نے بہت ہی قیمتی اورنادر حواشی تحریرکیے ہیں، محمدمعین الدین نے حاشیہ چہار مقالہ،فتح اللہ مجتبائی نے حاشیہ طوطی نامہ،قاضی سجاد حسین نے حاشیہ دیوان حافظ اورمثنوی معنوی اورمحمدعلی فروغی نے حاشیہ گلستان سعدی وغیرہ تحریرکیاہے۔ان لوگوں نے بہت ہی محنت اورتحقیق کے بعد حواشی وتعلیقات تحریرکیے ہیں،اوربہت سی ایسی معلومات کو حواشی و تعلیقات کے ذیل میں یکجا کردیاہے جسے حوادث زمانہ نے بھلادیاتھا یا پھر اس پر گذرتے وقت کی دھول جم گئی تھی۔

اردو میں کئی محقق اورمتنی نقاد گذرے ہیں جنہوں نے بہت ہی اہم اورمعلوماتی حواشی و تعلیقات تحریرکیے ہیں، امتیازعلی خاں عرشی نے دیوان غالب اورمکاتیب غالب، مالک رام نے غبار خاطر، تذکرہ، رشیدحسن خاں نے باغ وبہار، سحرالبیان، گلزارنسیم، زہرعشق، پروفیسر نذیر احمدنے دیوان سراجی خراسانی اورخلیق انجم نے مکاتیب غالب کے حواشی وتعلیقات لکھے ہیں،ان لوگوں نے قابل تقلید نمونے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں،جس سے کہ ہم دیگر کلاسک کتابوں کے حواشی لکھ سکتے ہیں،مثال کے طورپر مکاتیب غالب( نسخہ عرشی) میں صفحہ نمبر61 پر ’’میاں انجو،جامع فرہنگ جہانگیری،شیخ رشید راقم فرہنگ رشیدی عظماء عجم میں سے نہیں‘‘لکھاہواہے،لیکن اس وقت کے قاری کے لیے انجو اوررشید نامعلوم ہیں،صرف انجو اوررشید سے شاید ہی کوئی ان کو پہچان سکے اوران کے کارنامے کو جان سکے،اس لیے ان کی تفصیل ضروری ہے، تاکہ قاری کو اندازہ ہوکہ یہ کون ہیں اور ان کی شناخت کیا ہے،اس لیے ان کے متعلق تعلیقے کے طور پر امتیاز علی خاں عرشی لکھتے ہیں

’’انجو کا نام جمال الدین حسین بن شاہ حسن انجوی شیرازی اورلقب عضدالدولہ ہے،ان کے آباو اجدادفارس کے شہرۂ آفاق شہر شیراز کے باشندے تھے، یہ وہیں پیدا ہوئے، بعد ازاںتلاش روزگار ہندوستان آئے اوربقول محمد حارثی بدخشی 1626 میں آگرے میں انتقال کیا، فرہنگ جہانگیر ی اکبر کے عہد میں شروع ہوکر نورالدین جہانگیر کی حکومت میں انجام کو پہنچی،اس لیے اس کے نام معنون کی گئی،انجو کو ازراہ تحقیر میاں لکھاہے،جیسے ایک جگہ فیضی کو لکھتے ہیں اہل ہندمیں سواخسرو دہلوی کے کوئی مسلم الثبوت نہیں، میاں فیضی کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے‘‘

’’رشید کانام عبدالرشید حسنی ہے،ان کے آباو اجداد مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے،یہ خود شہر ٹھٹھ میں پیدا ہوئے، منتخب اللغۃ اورفرہنگ رشیدی ان کی مصنفہ ہیں، شاعر بھی تھے اوررشیدی تخلص کرتے تھے،انھوں نے تحفۂ رشیدی کے نام سے شعراء فارسی کا ایک تذکرہ بھی لکھا ہے، اس کا ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے کرزن کلکشن میںمحفوظ ہے،مرزاامیر بیگ بنارسی کے تذکرہ حدائق الشعرا  کا یہ ماخذہے،خزانۂ عامرہ نولکشور پریس میں ان کا سال وفات 1866 لکھاہے،غالب نے انھیں حقارت کی راہ سے شیخ لکھاہے،ورنہ وہ جانتے تھے کہ عبدالرحمن حسنی سید ہیں۔ (مکاتیب غالب،امتیاز علی خاں عرشی،ص174,175)

مالک رام کا شمار ممتاز محقق اوراہم متنی نقاد میں ہوتا ہے، انھوں نے غبار خاطر پر حاشیہ لگایاہے،غبار خاطر کے خط نمبر پانچ میں ایک جملہ ہے’’تھکاماندہ قیام گاہ پر پہنچا، توصاحب مکان کو منتظر اورکسی قدرمتفکر پایا، یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں،اورایک طرح کی دماغی الجھن میں مبتلارہتے ہیں‘‘صاحب مکان کے متعلق مالک رام لکھتے ہیں

’’صاحب مکان سے مراد شری بھولا بھائی ڈیسائی ہیں،جن کے ساتھ مولاناٹھہرا کرتے تھے،ان کا 6 مئی 1946 کو دل کی حرکت بندہوجانے سے انتقال ہوا، آخری عمر میں وہ کچھ دماغی پریشانیوں کا شکار رہنے لگے تھے۔‘‘(غبارخاطر،مالک رام،ص295)

ان محققین کاذکراور ان کی کتابوں سے مثا ل دینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ نئے لوگ جو اس موضوع پرکام کرناچاہتے ہیں وہ دیکھیں کہ کس طرح حواشی و تعلیقات تحریرکیے جاتے ہیں،اورکن چیزوں کا ذکر کرنااس میں ضروری ہوتاہے، عہدحاضر میں حواشی و تعلیقات کی اہمیت و افادیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے،کیوں کہ جب ہم کلاسک کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں مصنف کے معاصرین اوران کے خاندان کے دیگرافرادکا ذکر ملتا  ہے ،قدیم زمانے کی تحریروں میں بڑی تعداد میں ایسے الفاظ، محاورات، اشخاص و مقامات، قرآنی آیات، عربی و فارسی کے الفاظ و محاورات، فقہی اصطلاحات اور عقلی و منطقی دلائل و براہین کا استعمال ہو ا ہے جن کو بہ آسانی ہر طالب علم نہیں سمجھ سکتا،نیز ان کتابوں میں استعمال شدہ بہت سے الفاظ و اصطلاحات اب متروک قرار پاچکے ہیں ایسے میں حواشی وتعلیقات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، ورنہ خدشہ ہے کہ یہ پرانی اور کلاسیکی کتابیں خود اردو والوں کے لیے ہی قصۂ پارینہ نہ بن جائیں۔نیزان کتابوں میں اس زمانے میں مستعمل کتب و رسائل، اشیا اور دیگر چیزوں کے نام ملتے ہیں جو بعد میں حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ناپید ہو گئی ہیں۔ اسی طرح اس زمانے کے بہت سے محاورات بھی آج کے لیے ناقابل فہم ہیں، تاریخی نقطہ ٔ نظر سے ان کی تفصیل و معلومات کو حاصل کرکے حواشی و تعلیقات میں جمع کرنے سے ہم تاریخی، فنی اور معروـضی اعتبار سے مضبوط و مالامال ہو جاتے ہیں، آج جب ہم مکاتیب غالب و سرسید اوراس جیسی دیگر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں موجود اسما،اماکن،کتب و حوادث کی از سر نو تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ فی زماننا اس کی زیادہ ترچیزیںپردئہ خفامیں ہیں، جن کی عدم تفہیم کی وجہ سے ہم غالب وسرسید کی تحریروں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کرسکتے،ا س لیے ضرورت ہے کہ حواشی وتعلیقات کے ذریعے نسل نو کے لیے ان کی تفہیم کو آسان بنائیں۔

n

Md Shadab  Shamim

D-35, Fourth Floor

Shaheen Bagh, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9643885605