28/3/23

یاس یگانہ چنگیزی کی تخلیقی انانیت: ابو شہیم خان


 بیسویں صدی کے اوائل میں یہ تصور عام ہو رہا تھا کہ اردو شاعری کی آ برو یعنی غزل پر قدامت کا غلبہ ہے۔ یہ کسی قدر ہیئت اور موضوع کے مخصوص دائروں میں محبوس ہے۔ اس لیے اسے نئے ذائقے،نئے اظہار و انداز سے آشنا  ہونے کی ضرورت ہے۔ گرچہ اس تصور نے بعد میں تضحیک و استہزا  اور اینٹی غزل کی صورت بھی اختیار کر لی اور غزل کے بنیادی اوصاف اور شناخت نامے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔لیکن جن شعرا نے اس غیر ترجیحی ماحول میں بھی شاعری میں نئے تجربے کیے، شاعری کو تصنع سے آزاد کرنے اور فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیں۔ فکر کو رفعت ووسعت ا ور زبان و بیان کو سلاست عطا کی۔ گیسو ئے غزل کو مزیدتابدار کیا اورآخر کارغزل کی نئی کروٹ  یا بعض کے لفظوں میں نشاۃ الثانیہ کا سبب بنے ان میں علامہ اقبال،شاد عظیم آبادی،عزیزلکھنوی، صفی لکھنوی، نوبت رائے نظر، ریاض خیر آبادی، جلیل مانک پوری، فانی بدایونی، آرزو لکھنوی، حسرت موہانی، جگر مرادآبادی، سیماب اکبر آبادی اور فراق گورکھپوری وغیرہ کے ساتھ مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی  (1884تا  1956 )کا نام نا می بھی شامل ہے۔

 یاس یگانہ چنگیزی نے مختلف حوالوں سے پٹنہ،کلکتہ، لکھنؤ، لاہور، علی گڑھ، حیدر آباد، عثمان آباد، لاتور جیسے شہروں میں قیام کیا لیکن ان کی بیگانہ روی اور بیگانہ خوئی کو کہیں بھی قرار نہیں ملا۔ وہ پوری زندگی انانیت بنام انفرادیت کی،خود پرستی بنام حق پرستی کی، اصول پسندی بنام کلبیت پسندی کی جنگ لڑتے رہے۔ لوگوں کو میر و غالب سے اپنی ہمسری باور کراتے رہے اور خود ابو المعانی اور امام الغزل ہونے کا اعلان کر کے کہتے رہے کہ ع

جلوہ فرما حق ہوا باطل گیا

اور         ؎

شہرہ ہے یگانہ تیری بیگانہ روی کا

اللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی

 کون ہوں کیا ہوںمجھے دیکھ لیں اہل نظر  

آبروئے لکھنؤ خاک عظیم آباد ہوں

لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یگانہ کی شخصیت اور فن کے معدودے چند ہی قائل تھے۔ کلام میں تنوع، تغزل اور پابستگی رسم و رہ عام سے بے نیازی، آزادی،بانکپن اور پر زوری کے باوجود عام ناقدین فن کو ان کی ذات سے اور ان کی شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اعلی ترین مذہبی شخصیات پر اعتراض، مرزا غالب،علامہ اقبال،جوش ملیح آبادی اور اصغر گونڈوی،  حسرت موہانی اور اپنے اکثر معاصرین شعرا سے بداطمینانی یا شدید مخالفت اور غالب شکن وشہرت کاذبہ کے ماننددیگر ہنگامے اس پر مستزاد۔ حقیقت یہ ہے کہ یگانہ جب 5 190میں اکیس سال کی عمر میں عظیم آباد (پٹنہ) سے لکھنؤ آئے تواس وقت لکھنؤ میں صفی لکھنوی، ثاقب لکھنوی اور عزیز لکھنوی، محشر، آرزو وغیرہ  جیسے غالب ممدوحین کا اور نیاز فتح پوری، شاہد دہلوی، ماہر القادری اور عبد الماجد دریابادی وغیرہ  جیسے صاحب علم ادیبوں کا دور دورہ تھا۔ اس لیے بھی ان کی پذیرائی اس طرح نہیں ہوسکی جس کے وہ متمنی یا کسی حد تک مستحق تھے۔ حالانکہ ان کے ادبی کارنامے خصوصاً شعری طرز فکر، لہجے کی انفرادیت، بلند خیالی اور نئی غزل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششیں اور مختلف کتابیں  جیسے نشتر یاس (دیوان)، چراغ سخن (رسالۂ عروض و قوافی)، شہرت کاذبہ المعروف بہ خرافات عزیز،آیات وجدانی، ترانہ (مجموعہ رباعیات)، غالب شکن  (مکتوب  بنام سید حسن رضوی) اور گنجینہ وغیرہ ایسے کارنامے تھے کہ ان کا شمار اردو کے قابل ذکر شعرا میں کیا جانا چاہیے، لیکن ان کا معرکانہ اور معاندانہ تیور، ادبی معرکے کو مذہبی معرکے میں بدل دینا اور اس میں حد درجہ تجاوز کرجانا اورانانیت و تعلی کی ساری حدیں پار کرجانا (شہرت کاذبہ المعروف بہ خرافات عزیز اورغالب شکن جیسی کتابیں) ایسے اسباب ہوئے جو کسی بھی عقل سلیم رکھنے والے شاعر یا عام شخص سے متوقع نہیں تھے۔ یاس یگانہ چنگیزی کا تعلیانہ دعوی ملاحظہ کریں: 

’’ سچ تو یہ ہے کہ اس صدی میں یگانہ کے سوا اور کسی کو شاعر سمجھنا محض خود فریبی ہے۔‘‘

’’ اس دور نے میرا کوئی حریف پیدا نہیں کیا۔ موجودہ دور کی لاشوں سے ٹکرانامجھے پسند نہیں۔‘‘

( آیات وجدانی:  یاس یگانہ چنگیزی،  ناشر مبارک علی تاجرکتب  لاہور ص 11)

4 191 میں جب یگانہ نے اپنا دیوان ’نشتر یاس ‘ شائع کیا تو اس کے مقدمے میں تعلی سے کام لیتے ہوئے لکھا تھا کہ لکھنؤ کے معاصرین ِحال اور آئندہ نسلوں پر فرض ہے کہ یاس یگانہ چنگیزی کی زبان اور اجتہادی تصرفات سے سند لیں۔اس طرح انھوں نے ثاقب،صفی، عزیز اور دوسرے معاصرین سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں استاد فن تسلیم کرکے ان کی پیروی کریں۔ اس طرح کی تعلیوں اور ثاقب، صفی، عزیز کی ضد میں  اسدا للہ خاں غالب کے خلاف نازیبا اور نا شائستہ باتیں (رباعیاں)، علامہ اقبال (اکبال )سے نفرت،نبی کریمؐ  کی شان میں گستاخی، قرآن مجید پر اختلافی نوٹ نے یاس یگانہ چنگیزی کی زندگی کو اجیرن بنادیا تھا۔ بہرکیف چند صاحب نظر تھے جنھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کے ساتھ ہمدردانہ اور معتدل رویہ اپنایا اوربڑے سلیقے اور مستند حوالوں کے ساتھ جدید اردو شاعری میں ان کے مقام کا تعین کیا۔ جب شہر لکھنؤ یاس یگانہ چنگیزی کے خلاف تھا تب پروفیسرمجنوں گورکھپوری نے ان کے کلا م کا ہمدردانہ تجزیہ کیا اور ان کے کلام کی داد دی۔ وہ پہلے ناقد تھے جنھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کی قیمت کا تعین کیا۔ پروفیسرمجنوں گورکھپوری مشہور رسالہ ’نگار‘ جنوری 942 1 کے شمارے میں یگانہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یگانہ پہلے شاعر ہیں جو ہم کو زندگی کا جبروتی رخ دکھاتے ہیں اور ہمارے اندر سعی و پیکار کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ غزل کو جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہ نے زندگی کی شاعری بنا دیااور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز و اشارت کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا... یگانہ اس کشاکش اور تصادم کا احساس ہمارے اندر بڑی سہولت اور کامیابی کے ساتھ پیدا کردیتے ہیں جو زندگی کا اصل راز ہے اور جس کا احساس عصر جدید کا سب سے بڑا اکتساب ہے... ان کی غزلوں کی سب سے نمایاں خصوصیت مردانہ عزم و اعتماد ہے۔ انھوں نے غزل میں واقعی بت شکنی کی ہے۔روایتی موضوعات اور اسالیب دونوں سے انحراف کرکے ہم کو غزل کی امکانی وسعتوں سے آگاہ کر دیا ہے... یگانہ کی شاعری ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ زندگی اک جدلیاتی حقیقت ہے اور تصادم و پیکار اس کی نمو اور بالیدگی کے لیے ضروری ہے۔‘‘

(نگار]معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر[  مدیر :نیاز فتح پوری جنوری 1942)

پرو فیسرمجنوں گورکھپوری کے علاوہ اردو مرثیہ اور ڈراما کے بڑے محقق اور لکھنوی تہذیب  کے نمائندہ سید مسعود حسن رضوی ادیب بھی یگانہ کے فن کے قائل ہیں اور انھیں یگانہ کی ذات سے پوری ہمدردی ہے۔مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنی مایہ ناز کتاب ’ ہماری شاعری‘ جسے مقدمہ شعر وشاعری(حالی) کا جواب اور تتمہ بھی کہا جاتا ہے، میںاردو غزل کے دفاع اور اعلی اردو شاعری کی مثالوں کے لیے مختلف مقامات پر یگانہ کے اشعار نقل کیے ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب اور یاس یگانہ چنگیزی کے مابین دوستانہ مراسم  تھے۔دونوںایک دوسرے کا ہر سطح پر مکمل خیال رکھتے تھے۔حتی کہ لکھنؤ میںدونوں کی قبریں بھی ایک ہی قبرستان کربلائے منشی فضل حسین میں ہیں۔ یگانہ بھی خلاف فطرت مسعود حسن رضوی ادیب کی بڑی قدر کرتے تھے۔ 1930 میں ’ہماری شاعری ‘ پر صابر علی خاں نے اعتراضات کیے تو اس کے جواب میں یگانہ لکھتے ہیں کہ:

’’ وہ کون صاحب ہیں جنھوں نے ’ ادبی دنیا‘ میں سید مسعود حسن رضوی ادیب کی معرکۃ الآرا کتاب ’ہماری شاعری ‘ پرحاسدانہ حملے کیے ہیں۔ یہ تو وہ کتاب ہے جو یورپ زدہ اصحاب کی غلامانہ ذہنیت میں انقلاب پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘

سید مسعود حسن رضوی ادیب کے صاحبزادے اردو کے ممتاز ترین جدید افسانہ نگار اور ناقد نیر مسعود بھی یاس یگانہ چنگیزی کے فن کے قائل اور ہمدرد تھے۔انھوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے لیے ایک کتاب ’یگانہ احوال و آثار ‘ لکھ کر بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے۔منفی ردعمل، تنقید سے تنویر فن کے بجائے آمریت کے اظہار اور تعجیلی فیصلوں کے لیے مشہور باقر مہدی اپنے مضامین کے مجموعے ’آگہی و بے باکی‘ میں لکھتے ہیں کہ میر و غالب کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے وہ یگانہ کا ہے اور یگانہ کے بعد ان جیسا اب کوئی نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ وسیم فرحت علیگ نے بھی یاس یگانہ چنگیزی کے خطوط کو یکجا کرکے، ان پر تنقیدی و تحقیقی کتاب اور مونو گراف لکھ کر دنیائے ادب کے سامنے ان کی شخصیت کو کامیابی سے پیش کیاہے۔ راہی معصوم رضا نے بھی اپنے تحقیقی مقالے ’یاس یگانہ چنگیزی‘  میں ان کی شخصیت، اس کے منظر پس منظر،یاس عظیم آبادی سے یگانہ چنگیزی بننے کے سفر،حالات و کوائف اور جدید غزل میں ان کی اہمیت اور مقام ومرتبے کا تعین کرنے کی غیر جانب دارانہ کوشش کی ہے۔ راہی معصوم رضا  اس تحقیقی مقالے کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’ ’یگانہ ایک بحث طلب شخصیت ہیں۔ان کے بارے میں نہ تو ان کی زندگی میں غیر جانب داری اور ناقدانہ ہمدردی سے سوچا گیا  اور نہ ان کے مرنے کے بعد۔ ’غالب شکن ‘ اور ’شہرت کاذبہ‘کے ہنگاموں میں یہ بات تقریباً نظر انداز کر دی گئی کہ یگانہ شاعربھی تھے۔ اس کتاب کا مقصد یہی ہے کہ یگانہ اور ان کی شاعری کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ ان کی خوبیوں اورخامیوں کا تجزیہ کیا  جائے اور جدید اردو شاعری میں ان کے مقام کا تعین کیا جائے۔ میں نے غیر جانب دار رہنے کی کوشش کی ہے لیکن یگانہ سے اتنی ہمدردی ضرور کی ہے  جتنی ہمدردی کا تقاضا فریضۂ نقد کرتا ہے... میں نے کوشش کی ہے کہ بزم شعر میں یگانہ کو وہ جگہ مل جائے جس پر ان کا حق ہے۔‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967ص 8)

اس تحقیقی مقالے میں پہلے یاس یگانہ چنگیزی کی شخصیت اور ان کے حالات کا ذکر کیا ہے جنھوں نے یاس عظیم آبادی کو یگانہ چنگیزی او ر میر و انیس کے دلدادہ اور ’خاک پائے آتش ‘ کو امام الغزل،ابو المعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا دیا اور خود کے لیے The Arch Artist- Poet of India کا فرمان جاری کرنا پڑا۔اور ’غالب شکن ‘ کا انتساب ان الفاظ میں کرنا پڑا۔

    ’تحفہ غالب شکن'

بجناب ہیبت مآب،دیو تائے جلال و عتاب،پیغمبر قہر و عذاب،دشمن تہذیب پر فن،حق شناس باطل شکن مرد میدان بگیردبزن۔

شہشاہ نبی آدم،سرتاج سکندر وجم،حضرت چنگیز خاں، اعظم قہر اللہ‘‘۔اور ترانہ کی ایک جلد پر یہ عبارت لکھنی پڑی

"Omer Khyam challenged (as for as poetic Art is concerned )"

ان عبارتوں سے صرف ان کے مخاصمانہ اور معرکانہ رویے کا ہی اندازہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی ضد، اکھڑپن، بے خوفی،انانیت پسندی اور خود پرستی کے ساتھ احسا س کمتری اور احساس شکست کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے اندر منفی رویوں کو پروان چڑھانے میں صرف ان کی کج فہمیوں کو دخل نہیں تھا بلکہ وہ حضرات بھی اس کے ذمے دار تھے جنھوں نے ان کے ساتھ ہمیشہ مخاصمانہ،معاندانہ اور معرکانہ رویہ روا رکھا اور ان کے ساتھ علمی اورسماجی سطح پر نبرد آزما رہے اور ان کے ساتھ معتدل اور ہمدردانہ رویہ نہیں اپنایا۔

 یگانہ کوچنگیزی،خاک پائے میر و آتش کو امام الغزل، ابو المعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا نے والے عوامل و عواقب کا تجزیہ کرتے ہوئے راہی لکھتے ہیں کہ’’ یگانہ کی شخصیت میں بڑے بل تھے۔لکھنؤ والوں کی مخالفت،غیر ذمے دار نقادوں کی ناوک زنی،اور ذمے دار نقادوں کے تغافل نے ان بلوں کو اور سخت کردیا۔چنانچہ اپنی انا کے خلا میں ’ پر پھڑ پھڑانے والایہ فرشتہ‘ اسی خلا میں کھو گیا۔یگانہ اردو غزل کا المیہ ہے۔اس المیے میں ایک خاص طوالت بھی ہے، ابتدا، وسط اور انجام بھی ہے۔جلال بھی ہے اور تزکیہ بھی۔ارسطو نے بھی ا لمیہ سے اس کے علاوہ کوئی اور مطالبہ نہیں کیا۔‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967، ص32)

ناقدین فن یاس یگانہ چنگیزی کی شخصیت اور شاعری کے ’منظر و پس منظر ‘ کا محاکمہ کرتے ہیںاوراس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی تخلیق یا صنف کا مطالعہ اس کے گردو پیش اور سیاسی، سماجی ومعاشی سیاق میں ہی کیا جانا چاہیے۔ یاس یگانہ چنگیزی بھی دوسرے شعرا کی طرح اپنے گردو پیش سے باخبر تھے گرچہ حالات، نقادوں کی ناوک زنی، اور تغافل، قومی تحریکوں سے علاحدگی، احساسِ تنہائی و کمتری اور حد درجہ انانیت و خود پسندی نے ان کی شاعری کو ’جبروتی رخ ‘دے دیا تھا لیکن ایک معروضیت پسند اور غیر جانب دار نقاد کو ان سیاق اور حالات پر بھی نظر رکھنی ہوگی جن حالات میں وہ شاعری کر رہے تھے۔ یاس یگانہ چنگیزی نے اپنی شاعری کے بارے میں فراق گو رکھپوری کو لکھا تھا کہ ’’ہر جنس کا آرٹ خود اپنے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ پرانے معیار پر نہیں‘‘۔ مشہور شاعر و نثر نگار باقر مہدی بھی دوسرے ناقدین کی آرا کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ شاعری فقط سپاٹ حقیقت نگاری کا نام نہیں بلکہ حقیقت کو شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے۔‘‘  

  (آگہی وبے باکی: باقر مہدی،گوشۂ ادب ارکیڈیا بلڈنگ بمبئی ، ص 102)

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو ظالم پر سادگی برستی ہے

 ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا

کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا

 حسن بے تحاشہ کی دھوم کیا معمہ ہے

کان بھی ہیں نا محرم آنکھ بھی ترستی ہے

خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں

چلی آتی ہیں اب تک کشمکشیں شیخ و برہمن میں   

یاس یگانہ چنگیزی کے بہت سے اشعار اردو کی کلاسیکی شعری روایت اور عصری آگہی کا بہترین نمونہ ہیں۔ان اشعار کو کسی بھی کلاسکی یا جدید پیمانہ نقد پر جانچیںپرکھیں یاس یگانہ چنگیزی کے کمال فن کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ان کی شاعری لکھنؤ کی عام حرماں نصیبی،زندگی سے فرار اور بے زاری کے احساس کے برعکس پامردی، عزم و حوصلہ اور سعی و پیکار یا بقول مجنوں گورکھپوری ’مردانگی‘ کی نمائندہ ہے۔ یگانہ جس زمانے میں شاعری کر رہے تھے اس وقت اردو غزل نئی کروٹ لے کر ایک نئے سمت میں سفر کر رہی تھی اور معشوق، رقیب، شیخ، محتسب،کعبہ و بت خانہ جیسی غزل کی علامتیں جدید معنوں میں استعمال ہو رہی تھیں۔ غزل کی فارسی نژادیت ختم ہو رہی تھی اور ہندوستانی عناصر کا تناسب بڑھتا جا رہا تھا اور غزل خالص ہندوستانی صنف سخن بنتی جارہی تھی۔اسی سیاق میں یاس یگانہ چنگیزی، حسرت موہانی، علامہ اقبال، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی وغیرہ کی شخصیتیں بنی بگڑی ہیں اور اسی سیاسی، سماجی ومعاشی اور ادبی پس منظر میں یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری کا بھی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

 مجنوںگو رکھپوری، مسعود حسن رضوی ادیب، راہی معصوم رضا، باقر مہدی اور نیر مسعود وغیرہ  یگانہ چنگیزی کے مختلف اشعار کے توسط سے ان کی نظریاتی کشمکش اور اہل لکھنؤ سے معرکہ آرائی کا جواز تلاش کرتے ہیںاور مختلف حوالوں سے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یگانہ چنگیزی کی طرح اسی انداز کی شاعری اور نثر دوسرے ادیبوں نے بھی تخلیق کی لیکن انھیںوہ اذیتیں اور رسوائیاں نہیں جھیلنی پڑیں جو یگانہ چنگیزی کے حصے میں آئیں۔ بہر کیف مندرجہ بالا ناقدین مختلف شعری حوالوں سے یگانہ چنگیزی کی فوقیت اور برتری ثابت کرتے ہیںاور یہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں کہ یگانہ چنگیزی ایک حساس،بے باک اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ اہل لکھنؤ کی طرح ان کے یہاں لفظی بازیگری نہیں ہے اور ان کی شاعری لفظوں اور سندوں کی محتاج نہیں ہے۔ وہ اور ان کی شاعری زمانے کے سردو گرم سے بے نیاز ہیں۔ وہ بت پرستی نہیںبت شکنی کے دلدادہ ہیں۔ اسی لیے قدیم سے قدیم اورمسلمہ شعری و فکری روایت سے انحراف میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے۔ یگانہ چنگیزی کی اپنی صلاحیتوں پر حد سے زیادہ اعتماد،بے جا خود داری و خود اعتمادی نے انھیں خود پرست اور انا پرست اورناقدین کی نظر میں ’کجرو‘ بنا دیاتھا۔یگانہ کے مخلص ناقدین ان کی نفسیاتی بوالعجبیوں کو،ان کے مزاج کی انفرادیت اور تیکھاپن کوجبروتی انداز اور مردانگی سے یا یگانہ آرٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان حالات و کوائف کا اور ان عوامل اور عواقب کا تجزیہ کرتے ہیں جنھوں نے یاس کو یگانہ،خود پرست،انا پرست اور کلبیت پسند بنایا اور اعلی تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہونے کے باوجود یگانہ چنگیزی کو احسا س کمتری اور احساس شکست جیسی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔انفرادیت اور انانیت کی بھول بھلیوں میں بھٹکا کر شاعرانہ منصب اور منہج سے بہت دور تاریکی میں پہنچا دیا جہاں مثبت تنقید بے کیف اور تنقیص حرزِ جاں ہو گئی اوریگانہ کوہر اس شخص کو اپنا حریف بنانے میں مزہ آنے لگا جو ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔اور بقول آل احمد سرور آخر کاریگانہ اپنے پہلے ہی شعر          ؎

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا  

کا بہترین تبصرہ بن کر رہ گئے۔ اسی طرح راہی معصوم رضا بھی یاس یگانہ چنگیزی کے معرکانہ اور مخاصمانہ تیور کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یگانہ تنقید سے زیادہ تنقیص پر تلے ہوئے ہیں اور بیشتر مقامات پر ان کا لہجہ غیر مہذب ہے اور ان کے الفاظ غیر شائستہ ہیں۔وہ جگر اور جوش کا ذکر’اشخاص‘ کہہ کر کرتے ہیں اور عزیز کو ’ میاں عزیز ‘ اور ’فضلتہ الشعرا‘ اور ’قصاب المعانی‘کہتے ہیں اور یہیں چپ نہیں رہتے بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ڈھاڑی نہیں نخاس کے کشمیری(یعنی بھانڈ) ہیں اور پھر خطابات دینے کے بعدوہ عزیز کے قصیدوں پر پچھتر ’وضوشکن‘ اعتراضات کرتے ہیں۔مولانا حسرت کو اوسط درجے کا شاعر کہتے ہیں اور مولانا بے خود کو ’ غالب کا دلچٹا مولوی ٹھینگا موہانی‘ کے خطاب سے یاد کرتے ہیں۔جوش کے ساتھ ’خان‘ لگاتے ہیں۔ترقی پسندشعرا کو ’غدار‘ کہتے ہیں اور انھیں گدھا جانتے ہیں...‘‘

(یاس یگانہ چنگیزی: راہی معصوم رضا، شاہین پبلشر الہ آباد  1967، ص191)

ہم عصروں میں چند ہی لوگ تھے جن کی یگانہ چنگیزی تھوڑی بہت عزت کرتے تھے ورنہ ہر کس و ناکس سے ان کی معرکہ آرائی تھی۔ ان اعتراضات میں تنقیدی شعور کی کارفرمائی دور دور تک نظرنہیں آرہی ہے بلکہ تنقید کی جگہ معاندانہ آرا اور تنقیص نے لے لی ہے اور یہ اعتراضات کسی بانکے شاعر کی آواز نہیں بلکہ احساس شکست سے دوچار درماندہ رہرو کی صدائے بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔

بہر کیف جدید اردو غزل میںیگانہ چنگیزی کے صحیح مقام و مرتبے کے حوالے سے ان کے مخلص ناقدین کا ماننا ہے کہ یگانہ کی شخصیت، ان کے فن اور نظریہ فن کو ان کے زمانے اوران کے زمانے کی ادبی روایتوں کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔یگانہ کی شخصیت کے داخلی اور خارجی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی ان کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہیے کیوں کہ یگانہ کا سارا شعری سرمایہ صرف ’پیترے بازی‘ نہیں ہے یا صرف انفرادیت سے انانیت کا گمراہ کن سفر نہیںہے بلکہ رعنائی، توانائی، مردانگی جیسی قدروں پر مشتمل ایک تہہ دار اور قوت ایجادکے حامل شاعر کا تخلیقی سرمایہ ہے،  جس نے غزل اور رباعی جیسی مشکل صنف میں اپنے ہم عصروں بشمول جوش و فراق کو متاثر کیا۔اور لکھنؤ کی غزل کو سطحی جذباتیت اور لفظی بازی گری کے طلسم سے نکال کر اصل زندگی کا ترجمان بنایا اور جدید اردو غزل کوایک نیا لب و لہجہ عطا کیا۔ یگانہ ایک سچے کھرے،حق پرست اورخود پرست تھے۔انھیں، ان کی شاعری، ان کے فن اور نظریہ فن کوسمجھنے کے لیے ضروری  ہے کہ غالب شکن اور شہرت کاذبہ کے شان نزول کوسمجھا جائے اور ان کے لہجے کی جھلاہٹ اور کھردرے پن کے اندرجھانکا جائے۔عبرت اور بصیرت دونوں کو بروے کار لاکر ان کا ادبی مرتبہ متعین کیا جائے۔ جن ناقدین نے یگانہ چنگیزی کے کلام کا Total Criticism کے اصولوں کے تحت مطالعہ کیا ہے ان میں مجنوںگو رکھپوری، مسعود حسن رضوی ادیب، راہی معصوم رضا، باقر مہدی اور نیر مسعود،پروفیسر شمیم حنفی،سلیم احمد غیرہ کے ساتھ مشہور مورخ و ناقدڈاکٹرانور سدید اور پروفیسر سیدہ جعفر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹرانور سدید نے یگانہ چنگیزی کی غزلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

’’ یگانہ کی غزل ان کے ترکی مزاج کی آئینہ دار اور منفرد کیفیات کی مظہر ہے۔’آیات وجدانی ‘ میں وہ خیال کے ساتھ حسن مجسم کو بھی اڑا لے جاتے ہیں۔ان کی گہری اور کٹیلی طنز نا آسودہ حسرتوں کو جگاتی ہے۔وہ دکھی اور افسردہ دل تھے لیکن اپنی انا کو جھکنے نہیں دیا۔‘‘

(اردو ادب کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر انور سدید۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی  ص  354)

مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے

بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا ظ

 موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی

لے دعا کر چلے،اب ترک دعا کرتے ہیں

مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ ’آیات وجدانی ‘ میں بہت سے اشعار ہیں جو ڈاکٹر انور سدید اور ان کے ہم خیالوں کے دعوے کی دلیل میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ یگانہ چنگیزی کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ نثر میں ایک خاص اسلوب نگارش طنز ملیح اور طنز قبیح کے موجد و خاتم تھے۔ اسی طرح انھوں نے اردو غزل کو بھی ایک منفرد آواز عطا کی تھی۔ انھوں نے لفظی بازیگری اور شعری صنعتوں سے احتراز کرکے علامتوں کی ایک دنیا آباد کرنے کی کوشش کی۔ اردو شاعری کو اپنے منفرد مزاج اور عصری زندگی کا آئینہ دار اور مظہر بنایا۔کہا جاتا ہے یگانہ کے مزاج کا تیکھا پن اور زندگی سے بھر پور لہجہ خواجہ حیدر علی آتش کی یاد دلاتا ہے۔ جن ناقدین نے یاس عظیم آبادی کو یگانہ چنگیزی،خاک پائے میر وآتش کو امام الغزل، ابوالمعانی اور یگانہ علیہ السلام بنا نے والے عوامل و عواقب کا اور ان کے کلام کا معروضی تجزیہ کیا اور ان کی شعری خدمات اور انفرادیت کو تسلیم بھی کیا  ان میںپروفیسر سیدہ جعفر بھی شامل ہیں۔وہ یگانہ کی پوری شخصیت اور شعری انفرادیت کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

’’یگانہ تنہا تھے اور مخالفین کی ایک بڑی جمعیت کا سامنا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میدان سے ان کے قدم اکھڑنے لگے۔یگانہ کو اپنی عظمت اور انفرادیت کا شدید احساس تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے لب و لہجے اور مزاج کو بدل دیا۔ روایت سے انحراف  کرکے مصنوعی آرائش و زیبائش، لفظ پرستی اور سطحیت کو تفکر،جدت طرازی اور تازگی خیال سے بدل دیا...زبان و بیان کے اعتبار سے یگانہ کا کلام اپنے کسی ہم عصر سے کمتر نہیں۔روز مرہ اور محاوروں کا استعمال،بے ساختگی،طرزادا کی سادگی اور روانی یگانہ کے انداز ترسیل کے پہچان بن گئے ہیں... رباعی کے فن پر یگانہ کو دسترس حاصل ہے...افکار و تصورات کی جدت اور زبان کی سادگی نے رباعیات یگانہ ( ترانہ) کو قابل توجہ بنا دیا ہے۔‘‘

(تاریخ ادب اردو: عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک  جلد چہارم ،  سیدہ جعفر  وی جی  پرنٹرس دلسکھ نگر حیدر آباد   ص  250   )


حوالہ جات

  1.       آیات وجدانی: یاس یگانہ چنگیزی، مبارک علی تاجرکتب لاہور، 1927
  2.               یگانہ احوال و آثار:نیر مسعود  انجمن ترقی اردو ہند دہلی 1991
  3.       نگار(معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر)  مدیر: نیاز فتح پوری  جنوری 1942
  4.               یاس یگانہ چنگیزی : راہی معصوم رضا : شاہین پبلشر الہ آباد  1967
  5.               آگہی وبے باکی:    باقر مہدی، گوشۂ ادب ارکیڈیا بلڈنگ بمبئی 1965  
  6.       اردو ادب کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر انور سدید۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی  2013
  7.      ہماری شاعری:  سید مسعود حسن رضوی، نظامی پریس لکھنؤ اترپردیش 1926
  8.       تاریخ ادب اردو: عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک  جلد چہارم:  سیدہ جعفر  وی جی  پرنٹرس دلسکھ نگر حیدر آباد 2002


Dr. Abu Shaheem Khan

Associate Professor, Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 7354966719

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں