31/1/18

مضمون: 1857 اور بہادر شاہ ظفر از سعدیہ پروین نہال احمد

1857 اور بہادر شاہ ظفر
سراج الدین ظفر خاندان تیموریہ کا آخری بادشاہ تھا، جس کی تقدیر میں کاتب ازل نے زندگی کی دیگر تلخیوں اور ناکامیوں کے علاوہ قید فرنگ بھی لکھ دی تھی، اس کے اسباب کئی طرح کے تھے جیسے ملّی کردار کا کمزور ہو جا نا، خاندان کی قدیم روایات جیسے بہادری، شجاعت، دلیری کو چھوڑ کر عیش و عشرت میں گم ہوجانا، معاملات حکومت کی طرف سے غفلت برتنا، رعایا پر ظلم و ستم ڈھانا۔ ذاتی مفاد کے لیے ملک و قوم کو غلامی کی زنجیروں کی نذر کرنا، جس کی وجہ سے زوال رونماہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی کمزوریاں تھیں جو اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل بادشاہوں میں پیدا ہو گئیں۔ ان چیزوں نے دیمک بن کرسلطنت عالم گیر کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ اورنگ زیب کے جانشین سلطنت کو سنبھالنے کے اہل نہیں تھے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد شہزادوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جیسے:بہادر شاہ اوّل نے 1707 سے 1712 تک حکومت کی اس میں راجپوتوں اور سکھوں نے بغاوت کر دی۔ فرخ سیر کے دور حکومت 1713 سے 1719 تک مسلمان امراء کے 2 حصے ہوگئے۔ ایرانی اور تورانی (شیعہ اور سنی) اس سے اسلامی حکومت کو شدید ضرب لگی۔

بہادر شاہ ظفر اوّل کے عہد 1712 سے بہادر شاہ ثانی کے عہد حکومت 1857 تک کی تاریخ سیاسی افراتفری اور زبوں حالی، خود غرضی و خانہ جنگی، قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کے ہولناک واقعات کی تاریخ ہے، بحیثیت مجموعی اس مدت میں جتنے بادشاہ برسر حکومت آئے، وہ عیش و عشرت کے بندے اور نفس کے غلام تھے، دشمن کمین گاہ میں تھا انھیں پرواہ نہ تھی۔

میدان کارزار میں داد شجاعت دینے والے، تلواروں کی جھنکار کو نغمہ و سرودِجنگ سمجھنے والے، ملک کے پاسبان، قوم کے رکھوالے، یعنی خود شاہان ذی وقار اپنے اسلاف کے کارنامے بھلائے آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھے۔ بزم عیش و طرب سجائے بیٹھے تھے۔

اسی اثنا  1775 میں بہادر شاہ ظفر سماۃ لال بائی کے بطن سے پیدا ہوئے ان کی پیدائش کے وقت 24 صوبوں پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کا وارث، ان کے والد اکبر شاہ ثانی اپنی آنکھوں سے محروم اور انگریزوں کا پنشن خوار ہو چکےتھے، اس جرم میں کہ وہ الٰہ آباد چھوڑ کے دہلی چلے آئے تھے، ان کی پنشن بند کر دی گئی، اسی بے بسی اوربیکسی میں بہادر شاہ ظفر کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں ہو سکتی تھی جیسی مرادو دانیال کی یا دارا شکوہ اوراورنگ زیب کی ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ظفر امور حکمرانی سیکھنے کی بجائے ادب و انشاء، تصوف و اخلاق، فقہ و حدیث، تفسیر، خوش نویسی اور فن شعر گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔

1837میں بہادر شاہ ظفر کے تخت نشین ہوتے ہی ہندوستان میں انگریزوں کا زور بہت بڑھ گیا، انگریز افسر لارڈ کینگ نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بعد خطاب شاہی ختم کر دیا۔شہنشاہ عالم گیر کے بعد بہادر شاہ ظفر تک کا دور سیاسی افراتفری اور اقتصادی بد حالی کا دور تھا، ایسی بد حالی جس میں بد نظمی، انتشار، لوٹ مار، قتل وغارت غرض کہ ایک عجب طرح کی بے اطمینانی اور بے سرو سامانی ہر طرف چھائی نظر آتی تھی، ہر شخص سراسیمہ تھا، عزت و ناموس اورجان کے لالے پڑے تھے،  فوج کی اقتصادی پریشانی کا یہ حال تھا کہ سپاہی تنگ آکر اپنی ڈھال اور تلوار تک گروی رکھ دیتے تھے، اس دور کے عوام یہاں تک کہ شعراکے یہاں بھی ان حالات و زمانہ اور گردش تقدیر کا رونا ملتا ہے، ہر خاص و عام انگریزوں کے ظلم و ستم سے عاجز آگئے تھے، کیا ہندو، کیا مسلمان، ہر کوئی سیاسی آزادی کا خواہاں تھا، خود بہادر شاہ ظفر بھی ایسا بادشاہ تھا.... ’’جس کی زندگی کی ایک ایک سانس اپنے غموں کی زنجیر سے الجھ رہی تھی۔‘‘
بقول نواب نصیر حسین خیال :
’’دنیا کی تاریخ میں ایسی نظیر ڈھونڈنے پر نہ ملے گی کہ کوئی حکمراں قوم اپنی زبان کو سلام کر کے رعایا کی زبان کو یوں تسلیم کرے کہ یہ رعایت و مروت اسی خاندان پر ختم ہوگئی۔‘‘ (بحوالہ مغل اور اردو)
30 ستمبر 1837 ہفتہ کے روز بہاد ر شاہ ظفر نے تخت نشینی اختیار کی، اسی کے ساتھ بادشاہ کو بھی انگریزوں کی طرف سے بے اثرو بے عزت کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں، خاندانی تنازعات ابھرتے گئے، کمپنی کی جانب سے دیے جانی والے تحائف (عیدین اور نوروز کے ) لارڈ البز نے بند کر دیے، 1843 میں پنشن بھی نہیں بڑھائی گئی، خرچ زیادہ ہونے لگے، اور آمدنی کا ذریعہ کم تھا، شہریوں کی نظر وں میں بادشاہ کو ذلیل کرنے کی سعی کی جانے لگی، اختیارات شاہی کو ختم کر نے کے لیے ذلیل حرکتیں کی جانے لگیں۔ہندوستانی مذہب کی بے حرمتی اور عیسائیت کی تبلیغ کی جانے لگی۔
مجموعی طور پر ہندوستانیوں کے دل میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ابھرنے لگی، چنانچہ سب سے پہلے بادشاہ نے فوجیوں کو طلب کیا جب اس بات کا علم لفٹننٹ گورنر کو ہوا تو اس نے تحقیقات شروع کی، اور فوجی لوگوں کا آئندہ بادشاہ سے مرید ہونا بند کرایا۔ (مقدمہ بہادر شاہ ظفر، ص103)
بقول مکند لال مجز:
’’ اس رو زسے بادشاہ اور فوج میں ایک قسم کا ارتباط ہوگیا تھا۔‘‘(مقدمہ بہادر شاہ ظفر، ص103)
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رلانے کے قابل
اجاڑے لٹیروں نے وہ قصر اس کے
جو تھے دیکھنے اور دکھانے کے قابل
نہ گھر ہے نہ در ہے، فقط اک ظفر ہے
فقط حال دہلی سنانے کے قابل
چنانچہ ہندو مسلم جنگ آزادی کے لیے اکٹھا ہو گئے، اور 11 مئی 3 بجے سہ پہر کے قریب بغاوت کا اعلان کیا گیا اور اس میں نعرہ لگایا گیا :
خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا ‘‘
اس نعرے کے ساتھ ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے لا ل قلعہ بغاوت کا مرکز بن گیا، فوجی سازش کا نتیجہ تھا کہ قلعہ میں کارتوس کے استعما ل سے سپاہیوں میں ناراضگی پیدا ہو گئی، اور 31 مئی 1857 اتوار کا دن بغاوت کا ہونا طے پایا اور طے ہوا :
(1)     تمام یورپین کو مار ڈالیں گے۔
(2)       خزانوں پر قبضہ کیا جائے جو ربیع کی فصل کی پیداوار سے بھرے ہوئے ہیں۔
(3)       جیل سے قیدی رہا کرائے جائیں جن سے پچیس ہزار سپاہیوں کی فوج تیار کی جائے گی۔
اس بات کی خبر جب انگریزوں کو ہوئی اور جب یہ خبر لفٹننٹ کرنل اسمتھ کو ہوئی تو انھوں نے تار کے ذریعے فوراً خبر پھیلا دی اور انگریز الرٹ ہوگئے۔  10 مئی 1857 کو میرٹھ میں بغاوت کی چنگاری اٹھی، اور اسی رات فوجی دہلی آئے، صبح جمنا ندی پر پہنچے اور ابتدا سلیم پور کی پرمٹ چوکی پر آگ لگانے سے کی، اس دوران کلکٹر کو قتل کر دیا گیا، جمنا کے پل کو پار کیا اور کلکتی دروازے پر پہنچے، بادشاہ نے پوچھا : کون؟تو لوگوں نے کہا:

 ’’ ہم انگریزوں کے ظلم سے عاجز آچکے ہیں، یہاں تک کہ اب محرب کارتوس میں چربی کا استعمال کیا جانے لگا، اب غدر کے چھڑنے کا رجحان ہم لے آئے ہیں۔
بادشاہ خاموش رہا، اس کے بعد انھیں جو انگریز دہلی میں ملتا اسے قتل کرتے چلے گئے، دین و دھرم کا نعرہ بلند ہو نے لگا، ہندو مسلمان ایک ساتھ جمع ہو گئے، فوجیوں نے بھی مدد کی، اور اس میں ہندو مسلم جنگ آزادی کے لیے شریک ہو گئے، اور نعرہ دیا، ’’خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا۔‘‘
بادشاہ نے بھی فوجی بھرتی کا اعلان کر دیا جب کہ دربار میں مخبروں کا جال پھیلا ہوا تھا، خاندانی اختلافات عروج پر تھے، درباری لوگوں میں اور شاہی قرابت داروں میں اتحاد و یک جہتی نہیں تھی، عوام کا کو ئی پرسان حال نہیں تھا۔لیکن! ان کی آزادی کے جذبے میں خلوص تھا، تحریک سے ہمدردی تھی، انگریزوں سے نفرت تھی، یہ جنگ آزادی کا نعرہ تقریباً 4 مہینے 4 دن جاری رہا۔جوابی کاروائی میں انگریزوں نے 13 ستمبر کو دہلی پر پانچ طرف سے حملہ کر دیا، اور 19 ستمبر کو دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ 
بادشاہ آخر میں ہمایوں کے مقبرے پر چلے گئے، ہڈسن ہمایوں کے مقبرے پر آیا، وعدے وعید کے بعد بادشاہ پالکی پر سوار ہوا، ساتھ میں جواں بخت، بیگم زینت محل، بیگم تاج محل، حکیم احسن اللہ خان، مزرا قیصر شکوہ، میر فتح علی، فوجدار، بقول مینول شاہی خاندان کے سات سو آدمی سوار ہوئے، بہادر شاہ ظفر جب شہر میں داخل ہو ئے تب انگریزو آفیسران نے طعن و تشنیع کی، (تواریخ اودھ، ص453)
’’20 ستمبر کو پوری دہلی پر انگریز قابض ہو گئے جامع مسجد کے صحن میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، اس قتل عام میں 27 ہزار عام مسلمان اور 8 ہزار فوج شہید ہو گئی، عورتوں کی عصمت کو ریزہ ریزہ کیا گیا‘‘ (قیصر التواریخ، 455)

ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا، جو بھی ملتا اسے سنگینوں سے ختم کردیا جاتا، خاوندوں نے اپنی عورتوں کو قتل کیا اور پھر خود کشی کی، ہزاروں مجاہدین پھانسی پر چڑھے، زندہ مجاہدوں کو سور کی کھال میں سیل کردیا گیا۔

Time of India کے مدیر Dr. lane Ireland اپنی رسل ڈائری مئی 1858 میں ص 43میں لکھتے ہیں:
’’زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنا، یا زندہ آگ میں جلانا یا ہندوستانیوں کو مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کریں ایسی مکروہ اور ظالمانہ حرکات کی دنیا کی کوئی بھی تہذیب کبھی اجازت نہیں دیتی۔‘‘

بہادر شاہ ظفرکے جانشیں مرزا خضر سلطان، مرزا مغل اور ابوبکر کو ہڈسن نے تین تین گولیاں قلب پر ماریں، شہ رگ کو سنگین سے چیر دیا، چلو میں لے کر ان کا خون بہایا، اور ان کے سر کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا، پھر کوتوالی چبوترے پر جا کر نعشوں کو زمین پر ڈال دیا، 3 دن بعد خواجہ باقی باللہ میں دفن کر و ا دیا۔(تواریخ اودھ، ص 454)

بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلا، 27 جنوری 1858 سے 9 مارچ 1858 پر ختم ہوا، اور جلا وطنی کی سزا ملی، کلکتہ سے فورا ً بحری سفر کے ذریعے رنگون بھیج دیا گیا، 7 نومبر 1862 بمطابق 14 جمادی الاول 1289ھ بروز جمعہ کو دنیائے فانی کو الوداع کہا، (واقعات دارا لحکومت دہلی، اول، ص 737)
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ایک سلطنت کا ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی روایت کا بھی خاتمہ ہو گیا، ایک ایسی روایت جسے مغلوں نے پروان چڑھایا، جس نے یہاں کی تہذیب کو آب و رنگ بخشا، جس نے اس تہذیب کو وسعت اور کشادگی عطا کی، لطافت اور نزاکت بخشی، یہ ایسی تہذیب تھی جس میں جلال بھی تھا اور جمال بھی تھا، جس نے آگرہ اور دلی کے سنگ سرخ کے قلعے اپنی یادگار چھوڑے، اور جس نے انسانی حسن کے تخیل کو تاج محل کی صورت میں جنم دیا،لیکن 1857 کے انقلاب نے اس ملک پر ایک ایسی قوم کو مسلط کیا جو پہلے پہل صرف تجارت اور کاروبار کی نیت سے اس ملک میں داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ مختلف تدبیروں سے اس نے ملکی سیاست اور حکومت پر ڈورے ڈالے، اس ملک کی بد قسمتی تھی کہ درباروں میں بغض و کینہ و حسد کا ایسا جال پھیلا کہ قوائے عمل بالکل مضمحل ہو گئے، اور دھرتی پر اس ڈوبتی ناؤ کو بچانے والا کوئی نہ رہا۔

لیکن!  آندھی چڑھتی ہے تو اترتی بھی ہے، طوفان اور سیلاب کتنا ہی زور کیوںنہ باندھے، اور کتنی ہی تباہی اور ہلاکت کیوں نہ پھیلائے ایک مدت کے بعد اسے بھی اپنا زور کھونا پڑتا ہے، بر صغیر ہندو پاکستان کی سیاسی حدود اسی زور کو توڑنے کی کوشش تھی، بلا شبہہ یہ ایک تنکے کی کوشش تھی، جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہوا تھا، لیکن آہستہ آہستہ ان تنکوں نے ہی اس طوفان کے دھاروں کو روکناشروع کیا، جس میں سر سید کی کاوشیں قابل تعریف ہیں  :
ہم دیکھ چکے خوب تماشائے زمانہ
اچھا ہے جو کچھ اور نہ دکھلائے زمانہ
ڈھونڈو تو زمانے میں نہیں مہرو محبت
کس طرح کا آیا ہے ظفر ہائے زمانہ

Prof. Sadiya Parveen Nehal Ahmed
Ass.Prof. Department of Urdu/persian, M.S.G. Arts, Science and Commerce College, Malegaon camp, Dist.: Nasik - 423203 (Maharashtra
Mobile No: 98605903002
email : zafershafeeque@yahoo.com

 یہ مضمون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے اگست 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





مضمون: قلم کا سپاہی: شاہد رام نگری از ڈاکٹر محمد رحمت اللہ


قلم کا سپاہی: شاہد رام نگری

شاہد رام نگری اصلی نام سراج الدین انصاری تھا۔ انھوں نے اترپردیش بنارس کے رام نگر کے علمی، دینی اور مذہبی گھرانے میں 1927میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد کا نام حافظ ابو محمد امام الدین رام نگری تھا۔ شاہد رام نگری کے والد بزرگوار صرف حافظ قرآن نہیں تھے بلکہ اپنے وقت کے جید عالم دین، مصنف اور شاعر تھے۔

انھوں نے کسی مدرسہ ، مکتب یا اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ ان کی ذہانت ، محنت لگن اور مطالعہ کتب نے انھیں حافظ، عالم اور شاعر بنادیا۔ امام الدین کی سات اولاد میں شاہد رام نگری کا تیسرا نمبر تھا۔ معاشی بدحالی کے سبب شاہد کی تعلیم مکتب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن والد کی تربیت اور خود اپنی محنت و لگن، اعلیٰ ذہانت، شوق مطالعہ اور کتب بینی نے شاہد رام نگری کو ملک کے مشہور و معروف صحافیوں کی صف میں شامل کردیا۔

شاہد کے والد نے جب 1946 میں بنارس میں ساڑیوں کا کاروبار شروع کیا تو اپنے بیٹے شاہد کو بھی اس کاروبار سے منسلک کرلیا۔ لیکن قسمت کی خرابی کہیے کہ 1948 میں یہ کاروبار ختم ہوگیا۔ اس کے بعد عبدالخالق سہارنپوری کے دواخانے میں معاون کے طور پر کام کرنے لگے۔ شاہد صاحب 1952 میں پہلی بار اسلامی ساہتیہ سدن کے کام (کتابوں کی توسیع) کے سلسلے میں بہار تشریف لائے۔ مولوی حفیظ اﷲ، پھلواری شریف، جو ’مساوات‘ نکالا کرتے تھے،ان سے ملاقات ہوئی۔ ’مساوات‘ شاہد صاحب کی صحافتی زندگی کے لیے دلچسپی کا باعث بنا۔ بعدہٗ محمد نور کے اخبار روزنامہ ’ساتھی‘ سے بحیثیت کاتب اور کاپی پسٹر سے ان کی وابستگی ہوئی۔ اعلیٰ ذہانت و فطانت نے انھیں ہندی اخبارات سے اردو ترجمہ اور ادارتی نوٹ لکھنے کا سلیقہ سکھا دیا۔ اور ایک وقت وہ بھی آیا جب ان کو ’ساتھی‘ کی ادارت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ وہ اس امتحان میں کامیاب و کامران ٹھہرے اور اداریہ بھی لکھنے لگے۔ حسب منشا پذیرائی نہ ہونے کے سبب انھوں نے ’الکلام‘ کا اجرا کیا۔ جلد ہی ’الکلام‘ کا شمار ریاست کے معیاری پرچوں میں کیا جانے لگا۔ معاشی تنگی کی وجہ سے یہ پرچہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا ۔ شاہد صاحب نے ایک بار پھر ہمت جٹائی اور ایک دوسرا اخبار منصہ شہود آیا۔ جس کا نام ’امروز‘ تھا۔ ’امروز‘ کا حشر بھی ’الکلام‘ جیسا ہی ہوا اور کچھ ہی دنوں کے بعد مالی تنگی کے سبب بند ہوگیا۔

معروف کانگریس لیڈر عبدالقیوم انصاری نے  ہفت روزہ اخبار ’مومن دنیا‘ نکالا تھا۔ اس کی ترتیب و تزئین میں شاہد صاحب نے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ یہ ہفت روزہ اخبار بھی ایک دو سال کے بعد بند ہوگیا۔ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے امیر شریعت اور مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا منت اﷲ رحمانی رحمۃ اﷲ علیہ کی مردم و جوہر شناس نگاہوں نے شاہد صاحب کی صحافتی دیانت داری اور بیباکانہ صلاحیت کو پہچان لیا۔ حضرت مولانا نے امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ ’نقیب‘ کی ادارت کی ذمے داری شاہد صاحب کے سپرد کردی۔ انھوں نے اپنے فرائض کے تئیں ایماندارانہ اور دیانتدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس ترجمان کو ایک وقار عطا کیا اور ملک و بیرون ملک میں اس اخبار کو شہرت دوام حاصل ہوئی اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہد صاحب کی ایمانداری اور وفاداری  ہفت روزہ ’نقیب‘ کے ساتھ ایسی رہی کہ وہ آخری دم تک اس کے مدیر رہے۔ ’نقیب‘ میں لکھے گئے شاہد صاحب کے اداریے اور مضامین آج بھی  قوم و ملت کے لیے مشعل راہ ہیں۔

عظیم آباد سے اس وقت نکلنے والے مختلف اخبارات ’سنگم‘؛ ’صدائے عام‘؛ ’ایثار‘ سے شاہد صاحب کے گہرے تعلقات رہے ہیں اور ان کے مضامین اور اداریے ان اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔   کثیرالاشاعت معروف روزنامہ ’قومی تنظیم‘ کی مجلس ادارت سے بھی شاہد صاحب آخری دم تک جڑے رہے۔ قوم و ملت کو ایک نئی سمت عطا کرنے میں ان کی تحریروں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

شاہد صاحب کبھی کسی مسئلے پر الجھے ہوئے نظر نہیں آئے، اپنے سامنے سخت و سست لہجے میں بولنے والوں کو اپنی شیریںبیانی سے مسخر کر لیتے تھے اور ان سے ملنے والا ہر شخص ان کا گرویدہ اور معترف ہوجاتا تھا۔مسئلہ چاہے جو ہو، ملی ہو، سماجی یا سیاسی ہو یا ثقافتی اور تعلیمی ہو یا مذہبی جب کبھی کسی موضو ع پر قلم اُٹھاتے، تو نہ صرف اس کا حق ادا کرتے بلکہ اس کا حل بھی ڈھونڈنکالتے تھے۔ انھیں زرد صحافت سے سخت ترین نفرت تھی۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے حق بیانی اور صاف گوئی کو ہی منظر عام پر لانا پسند کرتے تھے۔

شاہد رام نگری مزاجاً خاموش پسنداور بے باک صحافی تھے۔ دور اندیش ، حق پرست، مستند اور صاحب طرز ادیب تھے ۔ انھوں نے سب کچھ قربان کردیا اس فن کو زندہ رکھنے اور اسے وقار بخشنے کے لیے ان کے پاس دولت تو تھی نہیں لیکن جو کچھ تھا، تن، من ، دھن سب نچھاور کردیا اُردو صحافت کے لیے۔ جس نے خون کو خون نہ سمجھا او ر اگر سمجھا تو اسے جلادیا اردو کے لیے، جنھوں نے قربان کردیا خود کو وطن کے لیے جنھیں پڑھنے سے آج بھی قوم و ملت کے لیے تڑپ محسوس ہوتی ہے۔

شاہد رام نگری کی ایمانداری، دیانتداری، بیباکی اور حق گوئی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بھی بے حد متاثر کیا۔ پھلواری شریف کے ایک جلسے میں لالو پرساد نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیرمین کے عہدۂ جلیلہ کے لیے ان کے نام کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کا پورے مجمع نے تالیوں سے استقبال کیا او ر مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اتنا ہی نہیں وزیراعلیٰ موصوف نے شاہد صاحب کو اسٹیج پر بلا کر گورنر سے تعارف بھی کرایا۔ شاہد صاحب کے چیئرمین بنائے جانے کے اعلان نے مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و طلبا میں خوشی کی لہر دوڑادی۔ ان کی نامزدگی کے تعلق سے اخبارات نے جلی حروف میں خبریں بھی شائع کیں۔ چیئرمین کا عہد ہ پیش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بہار لالو یادو نے کہا تھا:
’’یہ عہدہ شاہد رام نگری کو اسلامیات کے واقف کار ہونے کے علاوہ ایک سینئر او رتجربہ کار صحافی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔‘‘

بہار قانون ساز کاونسل کے سابق چیئرمین پروفیسر جابر حسین اپنی ڈائری کے مجموعہ ’بے اماں‘ میں بہ عنوان ’ایک ایماندار آواز کی موت‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’وزیر اعلیٰ نے انھیں اس دن جلسہ کے اسٹیج پر بلایا تھا اور گورنر صاحب سے ان کا تعارف کرایا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے خود قبول کیا تھا کہ شاہد رام نگری کو یہ عہدہ اسلامیات کا واقف کار ہونے کے علاوہ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔‘‘
شاہد رام نگری بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین بنائے جانے کے اعلان کے بعداس عہدہ کو لے کر کافی پریشان تھے کہ جس ادارے کا انھیں چیئرمین بنایا گیا ہے، وہاں اچھے اچھوں کے پایۂ استقامت میں لغزش آجاتی ہے۔انھیں صحافتی زندگی سے ایسا لگائو تھا کہ وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھیں یہ اندیشہ تھا کہ وہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے وابستہ ہو کر اپنی شناخت کھو دیں گے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زندگی نے انھیں مہلت نہ دی اور وہ اس ذمے داری پر فائز ہونے سے قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

اﷲ رب العزت نے ان کے اس اندیشے کی لاج رکھ لی اور وہ ایک بے باک اور ایماندار صحافی کی حیثیت سے امر ہوگئے۔ ہفتہ وار نقیب میں شائع ایک تعزیتی مضمون کے الفاظ ہیں:
’’ا نھیں اندیشہ تھا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ ہو کر اپنی شناخت کھو دیں گے۔‘‘
30اکتوبر 1991 کی صبح شاہد صاحب ساڑھے سات بجے چائے اور  بسکٹ کا ہلکا ناشتہ لے رہے تھے کہ سینہ میں یکایک درد محسوس کیا او ر پونے آٹھ بجے یہ درد ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔

شاہد رام نگری کے انتقال کی خبر جب پروفیسر جابر حسین کو دی گئی تو وہ سکتے میں آگئے۔ انھیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شاہد صاحب گزر گئے۔ پروفیسر حسین نے شاہد صاحب کے انتقال کی خبر اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب لالو پرساد کو بذریعہ ٹیلی فون دی ۔ پروفیسر جابر حسین کے الفاظ میں:
’’آج سویرے ان سے ملنے کی بات تھی۔ ان کا فون آنا تھا۔ امارت شرعیہ سے فون تو آیا لیکن ان کی موت کی خبر لے کر آیا۔ ایک گھڑی کو لگا جیسے اپنے دل کی دھڑکن بھی رک گئی۔ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب خود فون پر نہیں ہوتے تو شاید یقین کرنے کو جی نہیں مانتا۔
پھلواری شریف کے راستے میں ایک جگہ رک کر میں نے فون پر ان کی موت کی خبر وزیر اعلیٰ لالو پرساد کو دی۔ وہ سن رہ گئے۔ میں نے ان کی آواز سے محسوس کیا، انھیں گہرا دھکا لگا ہے۔ ابھی کل ہی تو انھوں نے شاہد رام نگری کے لیے کابینہ وزیرکا درجہ اور سہولیات منظور کی تھیں۔ اور محکمے کو احکامات جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ایک غریب اور پسماندہ طبقہ کے قابل آدمی کو عہدہ اور منصب دے کر وہ خود بھی فخرمحسوس کر رہے تھے۔ ‘‘

پروفیسر جابر حسین نے اپنے مضمون میں شاہد رام نگری کو قلم کا سپاہی اور ان کے انتقال کو ایک ایماندار آواز کی موت قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’میرے لیے شاہد رام نگری ایک بڑے بھائی سے بھی زیادہ تھے۔ قلم کا ایک ایسا سپاہی جس نے نہ جانے کتنے موقعوں پر روایتی مسلم سیاست سے ہٹ کر سچائی کا ساتھ دیا تھا۔ جب جب مسلم سیاست پر فرقہ پرست موقع شناسوں کا شکنجہ کسنے لگتا، شاہد رام نگری بے خوف و خطر ان شکنجوں کو توڑنے کی مہم میں جٹ جاتے۔
وہ مجھے بے حد عزیز تھے، کیونکہ انھوں نے کبھی اپنے قلم کا، اپنی تحریر کا، اپنے الفاظ اور اپنے عقائد کا سودا نہیں کیا۔ نہ وہ کسی کی آستین کا سانپ تھے، نہ ان کی آستین میں سانپوں کے لیے کوئی جگہ تھی۔
ایک بے حد ایماندار آواز، ایک بے حد پر خلوص عبارت تھے، شاہد رام نگری۔
ان کی موت ایک ایماندار آواز کی موت ہے۔‘‘

میں نے شاہد رام نگری کے متعلق جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ طبعاً خاموش پسند اور سنجیدہ تھے۔ محنت، لگن اور حوصلہ ان کا شعار تھا، کسی بھی مسئلے پر ٹھہر ٹھہر کر اور ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولا کرتے تھے۔ وہ ایک بیباک انسان، دوراندیش، محب وطن، ایماندار، دیانتدار، حق گو اور قناعت پسند صحافی تھے۔ گرچہ ان کے تعلقات ریاست کے بڑے بڑے عہدیداروں سے تھے۔ انھوں نے اس تعلقات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے فقرو استغنا کو ترجیح دی۔ یہی ان کا شیوۂ حیات تھا۔ انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے ہی اردو صحافت میں اعلیٰ مقام بنایا اور وہ یہی عظیم دولت اپنے پسماندگان کے لیے چھوڑ گئے۔یہی وہ شاہد رام نگری تھے جو مرتے وقت بھی صحافیوں اور ادیبوں کے لیے عدیم المثال سند چھوڑ گئے۔ غریب اور ایماندار ہونے کی سند، جن کے بینک اکائونٹ میں صرف 325روپے کی رقم ملی۔ اور یہ وہ رقم تھی جو انھیں ایک ریڈیو پروگرام کے عوض میں ملی تھی۔ کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے:
کیا کروں گا میں شاہوں کا مقدر لے کر
ہاتھ  خالی  گیا  دنیا  سے  سکندر  لے کر

شاہد رام نگری بہار اور اردو دونوں کے یکساں طور پر عاشق تھے۔ بہار سے انھیں ایسا لگائو ہو گیا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہار کے ہو کر رہ گئے۔ بہار سے ایسے جڑے کہ اسی سرزمین پر دم توڑ دیا اور یہاں کی زمین نے انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے سینے سے لگا لیااور اردو صحافت کا یہ مینار اپنی روشنی آج بھی اسی صورت میں بکھیر رہا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں اور ان کے سیکھنے والوں کی تعداد آج بھی بہار کی صحافت میں اپنی شراکت کا احساس دلا رہی ہے ۔ بہار کی صحافت کا جب بھی ذکر ہوگا شاہد رام نگری کا نام فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔  انھوں نے صحافت کا جو معیار قائم کیا وہ باقی تو نہیں رہا لیکن ختم بھی نہیں ہوا اس سے لگتا ہے کہ شاہد رام نگری کے مزاج کی پاسداری کرنے والے اور ان کے موقف کو زندہ رکھنے والے صحافی ہنوز باقی ہیں۔
Dr. M Rahmatullah
Consulting Editor (Urdu), Doordarshan News, New Delhi 110049
Mob. No.: 9818462389

 یہ مضمون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے اگست 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




30/1/18

مضمون: نو آبادیاتی ہندستان اور اودھ پنچ کا مزاحمتی کردار ازرضی احمد



نو آبادیاتی ہندستان اور اودھ پنچ کا مزاحمتی کردار


ہندستان اپنی صنعت و حرفت، زرعی پیداوار اور تجارت کے اعتبار سے شروع سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے ، اسی وجہ سے دیگر ممالک کے بہت سے تاجروں اور کمپنیوں نے تجارتی مقاصد کے پیش نظر یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے باشندوں اور حکمرانوں نے ان سب آنے والوں کا استقبال کیا اور انھیں ہر طرح کی اعانت اور سہولتیں بہم پہنچائیں۔ ان ہی غیر ملکی کمپنیوں میں برطانیہ سے آنے والی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ بھی ہے جسے مغل حکمراں جہانگیر کے عہد میں تجارت کی منظوری دی گئی، اس کمپنی کے مالک اور اس سے منسلک دیگر عہدیداران انگریز تھے ، جن کا مقصد اصلی تجارت کے پس پردہ یہاں کی حکومت پر قابض ہونا تھا اور وہ اول دن سے اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے خاکے اور منصوبے تیار کرنے لگے ، اس خواب کی تعبیر جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی شکست کے بعد ملنی شروع ہو گئی،کمپنی کے ذریعے بنگال پر تسلط اور حکمرانی قائم کرنے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کا استحصال بھی شروع ہو گیا اور ہندستان کی دولت انگلستان منتقل ہونے لگی، انگلستان سے تیار شدہ مال ہندستانی بازاروں میں بڑی تعداد میں فروخت ہونے لگا اور ہندستان کی صنعت و حرفت تباہ و برباد ہو تی چلی گئی اورنتیجتاً ہندستان صرف ایک زرعی ملک بن کر رہ گیا۔ انقلاب 1857کے بعد حکومت برطانیہ نے ہندستانی حکومت کی باگ ڈور ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس طرح ہندستان برطانوی نو آبادیات کا حصہ بن گیا اور یہاں سے ہندستانی باشندوں اور یہاں کے مال و متاع کے استحصال کا ایک روح فرسا دور شروع ہوگیا۔ 

نو آبادیات کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک جو اپنے آپ کو مختلف جہات مثلا ًنسل، تہذیب، معیشت اور جدید ٹکنالوجی وغیرہ کے اعتبار سے برتر اور ترقی یافتہ سمجھتا ہے وہ ایک ایسے ملک پر قابض ہو کر اسے اپنی محکومی میں رکھتا ہے جسے وہ مذکورہ بالا امور میں کم تر اور پس ماندہ خیال کرتا ہے، اور یہ غیر ملکی اقلیت اس محکوم معاشرے اور قوم کو اس وقت تک اپنی محکومی میں رکھتی ہے جب تک کہ وہاں کی عوام اس نظام حکومت اور افراد حکومت کے خلاف قومی تحریک چھیڑ کر اور جان و مال کی قربانی پیش کر کے اپنے آپ کو آزاد نہ کرالیں۔ اس نو آبادیاتی طرز حکومت میں محکوم ملک کے باشندوں کو غیر ملکی حکمراں طبقہ اقتدار میں شریک نہیں کرتا، اس طرح وہ محکوم طبقہ حکمران جماعت کا حصہ بننے کے بجائے مکمل طور پر اس کا محکوم ہوتا ہے اور حکمراں طبقہ پوری محکوم آبادی کا استحصال کرتا ہے ، محکوم ملک کی معیشت اور وہاں کے مال و دولت کو اپنے ملک کی معیشت کے تابع بنا کر اپنے مقاصد اور مفاد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر مظہر مہدی نے مختصر الفاظ میں نو آبادیات کی تعبیر و تشریح ان الفاظ میں کی ہے:                                                                                                          
’’نسل، تہذیب، معیشت اور ٹکنالوجی کے معاملات میں برتر اور ترقی یافتہ سمجھی جانے والی غیر ملکی اقلیت بالخصوص یوروپیوں کا ان ہی معاملات میں ’کم تر‘ اور پس ماندہ خیال کی جانے والی، مختلف نسل کی اجنبی اکثریت علی الخصوص افریقی اور ایشیائی معاشروں کو سیاسی، معاشی، تہذیبی اور دانشورانہ محکومی کی حالت میں اس وقت تک رکھنا جب تک کہ وہاں کے عوام اس حکومت کے خلاف قوم پرست تحریک چھیڑ کر اپنے ملک کو آزاد نہ کرالیں، نوآبادیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔‘‘
( مظہر مہدی، اردو دانشوروں کے سیاسی میلانات، نو آبادیاتی ہندوستان، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1999 ص13)     
انگریزوں نے ہندستان کو اپنی نوآبادیات میں شامل کرنے اور ہندوستانی باشندوں پر اپنی سماجی، سیاسی اور تہذیبی برتری قائم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ، انھوں نے یہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان مذہب کے نام پر ہندو مسلم میں تفریق پیدا کی تو دوسری طرف ایک ہی مذہب کے لوگوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا، کیونکہ ان کے متحد ہونے سے ان کی حکومت کو خطرہ پیدا ہو سکتا تھا، انھوں نے ہندوستانیوں کو کہیں ذات کے نام پر تو کہیں علاقے کے نام پر بھی لڑانے کی کامیاب کوشش کی، انگریز حکمرانوں نے یہاں کے باشندوں اور ان کے تہذیب و تمدن کو غیر مہذب اور بد اخلاق و غیر شائستہ کہہ کر انھیں حقارت کی نظروں سے دیکھا، مقامی باشندوں کے اوپر یورپ سے لائے گئے تہذیب و تمدن کو تھوپنے ، اپنی نسلی، سماجی و سیاسی برتری کو قائم رکھنے اور اپنی عنان حکومت کو بنائے رکھنے کو نوآبادیات کا نام دیا۔ نو آبادیات پر حکومت کے زعم میں طرح طرح کی بندشیں عائد کیں اور نئے نئے قوانین نافذ کیے جن کی مدد سے ان کا برابر استحصال کیا جاتا رہا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا گیا۔   اسی رویے کی  زد میں صحافت بھی آئی۔ صحافت پر بھی بندشیں لگائی گئیں۔ ان پر پابندیاں عائد کی گئیں اسی وجہ سے اس وقت کے جدید و قدیم اخبارات یا تو حکومت کے ہمنوا اور طرفدار تھے اور جو نہیں تھے انھوں نے خوف واحتیاط کی وجہ سے اپنے انداز تحریر اور لہجے کو پست اور نرم کر رکھا تھا اور بڑے محتاط انداز میں خبریں اور مضامین شائع کرتے تھے، دھیرے دھیرے فضا معتدل ہوئی اور خوف و دہشت کا ماحول کم ہوا، اب جا کر اردو اخبارات نے حکومت کی بد عنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف لکھنا اور تبصرے شائع کرنا شروع کر دیا، لیکن اس طرح کے نظریات کے حامل اخبارات کی تعداد بہت کم تھی،اسی دور میں 16جنوری1877 کو منشی سجاد حسین کی ادارت میں لکھنؤ سے اودھ پنچ جاری ہوا۔ اس ہفت روزہ اخبار نے اردو صحافت میں جدید طرز نگارش کی بنیاد ڈال کر ایک معین اور مستحکم پالیسی کے تحت اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، جہاں اس نے مختلف میدانوں میں قابل قدر صحافتی اور ادبی خدمات انجام دیں۔ وہیں اس کا سب سے اہم اور نمایاں کارنامہ نو آبادیات مخالف کردار ہے۔

اودھ پنچ 16 جنوری 1877 کو جاری ہوا اور1934 میں بند ہو گیا، یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اپنے طرز کا پہلا اخبار تھا جس کی ایک معین پالیسی، مستقل  مقصد اور مسلک تھا، اس نے صحافت کی عام روش سے ہٹ کر طنز و ظرافت کا لب و لہجہ اختیار کیا اور سب سے پہلے نہ صرف اردو صحافت بلکہ اردو ادب میں مغربی طنز و ظرافت کو رواج دیا۔ یہ اخبار نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں اس وقت قومی اخبار تھا اور قومی خدمت کی غرض ہی سے نکالا گیا تھا۔ اس اخبار کی اشاعت کے ابتدائی ایام ہی میں عوام و خواص کے درمیان اسے شہرت و مقبولیت حاصل ہو گئی اور ملک کے کونے کونے میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اس دور کا نمائندہ اخبار ہو گیا اور اس دور کے بلند پایہ قلم کاروں اور ادیبوں کا قلمی تعاون حاصل رہا، اس اخبار کی کامیابی اور مقبولیت عام کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنی اشاعت کے ابتدائی دور سے ہی قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کر لیا، اس دور میں جب کہ دیگر عام اخبارات کی تعداد اشاعت دو، تین سو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، اودھ پنچ کی تعداد اشاعت تیرہ ہزار تک پہنچ گئی تھی، اس اخبار کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی نیز اس کے طرز نگارش سے عوامی دلچسپی نے اس طرز کی صحافت کا راستہ ہموار کر دیا اور ملک کے تقریباً 28شہروں سے 70کے قریب ’ پنچ‘ اخبارات منظر عام پر آئے۔

اودھ پنچ کا عہد نو آبادیاتی رہا ہے جو بہت ہی پر آشوب اور خلفشار و انتشار کا دور تھا، اس اخبار کے مدیر منشی سجاد حسین جیسا حساس اور نباض قوم اور مشرقی تہذیب و تمدن کا دلدادہ اس دور سے کیسے نبرد آزما نہ ہوتا، لہٰذا انھوں نے اس وقت کے دیگر نمائندہ قلم کاروں کی معاونت سے مغربی تہذیب اور اس کے مضر اثرات سے ہندوستانیوں کو آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ان کے اندر روح پھونک دی۔ انگریزوں کی طرف سے سیاسی، سماجی، تہذیبی، معاشی اور معاشرتی حملوں کا اس اخبار نے بھر پور مقابلہ کیا اور انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہندستانیوں کے ساتھ کی جانے والی تفریق اور ظلم و زیادتی کو ہدف تنقید بنایا۔          
                                                          
نو آبادیاتی ہندستان میں اس اخبار نے اپنی صحافتی ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے قابل تعریف کارنامہ انجام دیا، یہ اپنی نوعیت کا وہ نمائندہ بے باک صحیفہ تھا جس نے انگریزی حکومت کے دبدبے کا لحاظ کیے بغیر ہندستان میں سب سے پہلے جرأتمندانہ سیاسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور قومی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ اودھ پنچ کے مدیر اور دیگر نامہ نگاروں کی بے باکی، اس زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، بڑی ہمت کا کام تھا لیکن طنز و ظرافت کے پیرایۂ بیان نے اس مشکل اور نا خوشگوار کام کو آسان اور خوشگوار بنا دیا۔ یہ اخبار انگریزی حکومت کا مخالف، قومی یکجہتی کا حامی، امن و آشتی کا پیغامبر اور طنز و مزاح کا شاہ کار تھا۔                       
                                     
اس اخبار کی اشاعت جن مقاصد کے تحت عمل میں آئی تھی ان کے حصول میں اس نے قابل قدر کوشش کی اور برطانوی حکمرانوں کی بد عنوانی کو ہمیشہ اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، نوآبادیاتی ہندوستان میں حکومت کی غلط پالیسیوں اور طرز حکومت، مغربی تہذیب و تمدن کی مخالفت اور مشرقی طرز معاشرت کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس نے اردو صحافت میں جدید طرز نگارش کی بنیاد ڈالی، طنز و مزاح سے اردو صحافت کو متعارف کرایا، اردو اخبارات میں کارٹون کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور با مقصد صحافت کی ایک مضبوط بنیاد ڈالی۔ نظم و نثر میں طنز و مزاح نگاروں کی ایک جماعت کو تیار کیا اور اردو ادب میں طنز و مزاح کو رواج دیا۔                                                                                    
Razi Ahmad
New Delhi - 110025
Mob.: 9810758952

یہ مضمون ’’اردو دنیا‘‘ کے مئی 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  اگر آپ اس شمارے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:۔

29/1/18

مضمون : سر سید کا تصورِ علم از حافظ محمد جہاں گیر اکرم


سر سید کا تصورِ علم


بلاشبہہ سرسید احمد انیسویں صدی کے ان یادگارِ زمانہ عظیم ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی فکرِ عمیق سے قوم وملت کی عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ وہ مصلح اعظم بھی تھے،  قومی مدبر اور ماہر تعلیم بھی۔ وہ اردو نثر کے عہد زریں کے معمار بھی تھے اور صاحبِ طرز انشاپرداز بھی۔ وہ عزم مستحکم، یقیں محکم اورعمل پیہم دل میں لے کر اٹھے۔ وہ فرسودہ رسومات اور بے جا توہمات کی آندھیوں کے بیچ جدید علوم کی شمع اپنے ہاتھوں میں لے کر جہالت کی تیرگی کو رفع کرتے رہے اور اس طرح انھوں نے نفسِ سوختہ ٔ شام وسحر تازہ کرنے کا کام کیا۔

سرسید احمد خاں کے فکر وعمل کے میدان خصوصاً تین تھے مذہب، سیاست اور تعلیم۔ ان کے علاوہ اگر کچھ تھا بھی تو وہ انھیں نظریات وخیالات کے گر د گھومتا تھا۔ ان کی ادبی حیثیت گرچہ مسلّم اور ثابت شدہ ہے لیکن انھوں نے انشاء وادب کو کبھی مقصد نہیں بنایا بلکہ اپنے مقصد کی حصولیابی کے ضمن میں استعمال کیا۔جس طرح علامہ اقبال نے شاعری کو مقصد نہیں بنایا بلکہ مقصد کے لیے شاعری کی۔ اسی طرح ادب سرسید کے نزدیک محض تفریحی مشغلہ نہ تھا بلکہ خیالات ونظریات کے اظہار کا وسیلہ تھا۔ حالانکہ نثر میں ان کا طرزِ بیان اور ان کا کل سرمایہ تحریر اردو زبان وادب کا نادر اور ناقابلِ فراموش حصہ ہے لیکن وہ اصلاًمصلحِ قوم، سیاسی اور مذہبی مفکر تھے۔ لہٰذا ان کے تمام تصنیفی کارناموں کو ان کے عقائد سیاسی، تعلیمی مشن اور افکار دینی کی روشنی میں جانچنا وپرکھنا چاہیے کیوں کہ ان کی ادبی حیثیت انھیں چیزوں کے تابع ہے۔

سرسید جس صدی کی پیداوار ہیں وہ بحث ومناظرہ کی صدی ہے۔ اقدار مشرق ومغرب، قدیم وجدید، بدعت وسنت، مذہب وسائنس، جبلت وعقل تمام معاملات میں ایک طرح کا تصادم نظر آتا ہے۔سرسید ایک صاحبِ فکر اور اثر پذیر شخص تھے اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان تنظیموں اور ہنگاموں کو تماشا ئی بن کرایک تفریحی نظر ڈالتے اور آگے بڑھ جاتے۔ وہ ساحل سے طوفان کا نظارہ کرنے والوں میں سے نہیں تھے بلکہ اس میں کود کر سینہ سپر ہونے والے بہادروں میں سے تھے۔ اس لیے انھوں نے ہر مورچہ پر عملی حصہ لیا۔ خواہ عقل اور مذہب کی معرکہ آرائی ہو یا مذہب اور سیاست کا تصادم یا علم دین اور دنیوی کی سرد جنگ، ایک بہادر اور جانباز سپاہی کی طرح ہر مورچہ پر ہم انھیں سرگرم عمل پاتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا، نہ مال واسباب کے تلف ہونے کا۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا۔۔۔۔  جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بُڈھا کردیا اور میرے بال سفیدکردیے‘‘۔ (تہذیب الاخلاق)

سرسید احمد خاں یورپ سے درآمد فکر اور عقل پسندی سے بہت متاثر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ تسلیم کرلیا گیاتھا کہ حقیقت تک رسائی اور اس کے ادراک کا بڑا ذریعہ عقل ہے۔ اسی طرح قوانینِ فطرت یا نیچر کا مشاہدہ اور تجزیہ بھی اس صدی کا ایک اہم موضوع تھا۔ نیچر اور فطرت کی ا صطلاح نے یورپ کے ادیب ومفکر کو سرشار کر رکھاتھا اور یورپ کا یہ تحفہ جب ہندستان پہنچا تو یہاں بھی اس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ سرسید احمد اور ان کے رفقا نے اہلِ مغرب کی طرح نہ صرف اس کا استعمال کیا  بلکہ مدتوں اس کو سر آنکھوں پر رکھا۔ اس صدی کے ہندستان کی ترقی اور ارتقا کے مغربی نظریوں سے بھی سرسید بے حد متاثر ہوئے مگر یہ امر قابلِ غور ہے کہ ان کو ارتقا سے زیادہ ترقی کی اصطلاح زیادہ پسند تھی۔

اس عہد کے ہندستان میں اجتماعیت، سویلائزیشن، تہذیب اور کلچر کے مغربی تصورات کی ا شاعت میں سرسید اور ان کے رفقا نے خاص دلچسپی دکھائی اور جدید نظریۂ تہذیب کے ایک بڑے مبلغ اور داعی بن کر سامنے آئے۔ یہی وجہ تھی کہ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ میں تہذیب سے متعلق بہت سے مقالے لکھے گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ جہاں ان تصورات نے فکر ونظر کی حدود کو وسعت عطا کی وہاں ان سے زندگی کی جذباتی اور روحانی بنیادوں کو بہت ضعف پہنچا۔ اس کی وجہ سے نجات اخروی کی جگہ موجودہ زندگی کے اجتماعی راحت وآرام نے لے لی اور مذہب کے ساتھ ساتھ اکثر اخلاقی قدروں کے متعلق شک اور تردد پیدا ہوگیا۔

تعلیم کے معاملے میں سرسید کے خیالات ونظریات بے حد مقبول ہونے کے باوجود کچھ زیادہ جدید نہ تھے۔ سائنس وعلوم جدید اور انگریزی زبان کی تعلیم گرچہ اس زمانے میں بڑی کشش رکھتی تھی مگر وہ تعلیم کے معاملے میں اتنے انقلابی نہ تھے جتنا ان کو سمجھ لیا گیا ہے۔اکبر الٰہ آبادی نے سرسید کے انھی نظریات پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے :  
سید جو گزٹ لے اٹھے تو لاکھوں لائے
 ہم  قرآن  دکھاتے   رہے  پیسہ  نہ ملا
عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سرسید انگریزی تعلیم کے حق میں تھے اور اسے پھیلانا چاہتے تھے اورعلماے وقت انگریزی تعلیم کو دین کا دشمن سمجھتے تھے۔ مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ علما کو اختلاف سرسید کے مذہبی عقائد اور انگریزی تہذیب وتمدن سے تھا نہ کہ انگریزی تعلیم کے پھیلاؤ سے۔ اب چوں کہ سرسید انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب وتمدن کے بھی مداح تھے اس لیے بہت سے مغالطے پیدا ہوگئے۔ اسی طرح سرسید نے عربی تعلیم اور قدیم مدارس کے خلاف’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں کئی مضامین لکھے اس سے بھی ان کے خلاف فضا پیدا ہوئی۔
سرسید کے افکار کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قدیم کے مقابلے میں جدید اور ماضی کے مقابلے میں عہد حاضر سے زیادہ وابستہ نظر آتے ہیں۔ ان کا ذہن تجدد پسند تھا یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عہدِ حاضر کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ کی اور علم وادب کے جن موضوعات پر لکھا  ان میں خاص مقصد یہی تھا کہ جہاں تک ہو قوم وملک کی موجودہ حالت چست ودرست ہو۔مسائل حاضرہ سے سرسید کی دلچسپی کا اہم ثبوت’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے ان مضامین میں موجود ہے۔
سرسید احمد نئی تہذیب کو گلے لگانا چاہتے تھے۔ یہ حقیقت ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ فیشن پرست تھے اور تہذیبِ نو کی چمک دمک نے ان کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور یہ بھی نہیں تھا کہ انھیں اپنے دین ومذہب، معاشرت وروایت سے لگاؤ نہیں تھا بلکہ ان کی چاہت تھی کہ اپنے دین ومذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر اچھی بات اور ہر اچھی چیز کو اپنا لیا جائے جو ترقی کا زینہ بنے۔ وہ چیز خواہ وراثت سے آئی ہو یا پھرنئی تہذیب کے ذریعے۔ اسی طرح ہر بری چیز اور بیجا  رسومات کی پیروی جو ترقی میں رکاوٹ ہو  انھیں قطعی پسند نہیں تھی،   اس لیے سرسید نے مذہب کی فرسودہ باتوں کی مخالفت کی اور مذہب کو اس کے حقیقی رنگ میں پیش کرنے کی اصلاحی کوششیں کرتے رہے اور نئی تہذیب کی اچھی چیز کو اپنانے کی تلقین کرتے رہے اور معاشرے کو اس لائق بنانے کے لیے کوشاں رہے کہ اس کے افراد میں اچھے برے کی تمیز پیدا ہو سکے۔ وہ کھلے ذہن اور پوری آزادی کے ساتھ برائی کو اچھائی میں بدلنے کا ہنر لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی سعی کرتے رہے۔
تمام تر سرگرمیوں کے باوجود سرسید احمد اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے کچھ وقت نکال لیتے تھے ان کی ادبی دلچسپیوں کا دائرہ بہت ہی وسیع وہمہ گیر تھا۔ تاریخ، سیاسیات، آثار قدیمہ، صحافت، ادب، مذہب اور سائنس جیسے تمام موضوعات پر انھوں نے متاعِ لوح وقلم لٹائے۔ سرسید احمد پہلے شخص تھے جنھوں نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے آزادیِ رائے اور حریتِ خیال کارواج عام کیا۔ انھوں نے ایک ایسے مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی جس کے حلقے ودائرے میں عقل، نیچر، تہذیب اورمادی ترقی سبھی کچھ موجود اور محفوظ تھی۔ انھوں نے کھلے ذہن سے سوچنے وفکر کرنے اور سائنٹیفک طورپر کسی چیز کو پرکھنے اور جانچنے کا رجحان رائج کیا۔ اس طرح انھوں نے دین کو جلا بخشنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ادب کے معاملے میں انھوں نے کلاسیک اور رومان کے بیچ کی چیز کو اختیار کرکے ایک نئی روش کا رواج ڈالا۔ انھوں نے فکر وادب میں روایات واسالیب کو غیر ضروری قرار دیا۔ الغرض ادب میں جو فرسودگی، خشکی، تعطل اور جمود طاری ہوگیا تھا ان کی اصلاحی تحریک سے اس کا ازالہ ہوگیا۔ یہ ان کا انتہائی اہم کارنامہ تھا۔ وہ اردو زبان کے لیے مسیحا بن کر آئے۔ انھوں نے اردو ادب میں جدت، ہمہ گیری، ایک مقصد ادراک اور ایک خاص طرح کی معقولیت پیدا کی ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ادب وزندگی اور ادب ومعاشرے کے رشتے کو استوار کیا۔
’’سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ وبام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اورمتوسط طبقے کے دل ودماغ تک پہنچایا۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین میں سرسید اپنی فکر کی بلندی پر نظر آتے ہیں۔اس پرچہ نے قوم کی ذہنی قیادت، علما  اور رئیسوں کے بجائے متوسط طبقے کے ہاتھوں میں دے دی۔  اس نے دین کی خاطر دنیا کو بھی سنوارنے پر زور دیا۔ باوجود شدید مخالفت کے اس کا اثر ہوا اور لوگ سرسید کے پیام کی طرف تیزی سے متوجہ ہونے لگے‘‘۔ (مضامین سرسید انتخاب۔ ص9)
انگریزوں کے ہندستان پر تسلط واقتدار کے بعد مسلمانانِ ہند بے یارومددگار ہو کر رہ گئے۔ تعلیمی، معاشی واقتصادی، معاشرتی ملازمتوں اور روزگار وں غرض تمام سہولتوں سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں محروم وبے دخل کردیا گیا اور سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ ان کے دین ومذہب پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ عیسائی مشنری ومبلغین حکومت کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہوگئے اور سر ویلیم میور نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں اپنی کتاب ’لائف آف محمد‘ میں نا زیبا و نا شائستہ خیالات کا اظہار کیا جس کے جواب میں سرسید احمد نے ’خطباتِ احمدیہ ‘ لکھ کر ان تمام نظریات وخیالات کی تردید کی۔
سرسید چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو علوم جدیدہ حاصل کرکے مذہب کا دفاع کرنا چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے تمام سازشوں اورا سکیموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو ہندستان سے مذہب اسلام معدوم ہو جائے گا۔
مغربی تعلیم سے نوجوان مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر جو اثر پڑ رہا تھا سرسید اس سے پوری طرح باخبرتھے۔ مذہب کے تحفظ کے لیے دینیات کی تعلیم کے بھی وہ طرفدار تھے لیکن مسلمانوں کے یہاں جو کتابیں دینیات میں داخلِ نصاب تھیں سرسید کے خیال میں وہ اس مسئلے کا سدِ باب کرنے کے لیے ناکافی تھیں جو انگریزی تعلیم کے زیرِ اثر پیدا ہو رہا تھا اس لیے وہ درسی کتابوں میں ترمیم چاہتے تھے تاکہ اسے پڑھ کر دین کی حفاظت کا شعور پیدا ہو سکے۔
سرسید احمد نے شدت سے محسوس کیا تھا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم کی ضرورت ہے اس لیے اپنی تمام صلاحیت اور قوت اس کام کے لیے لگادی۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ ان کی قوم اس پر آسانی سے رضا مند نہیں ہو گی۔ اس کے لیے کافی محنت وکوشش درکار ہے اور اس محنت ومساعی سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرسید احمد راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ان کو اسلام کی صداقت کا یقین کامل تھا۔ ان کو قرآن کا کتابِ الٰہی ہونے اور حضورﷺ کے آخری نبی ہونے کا ایمان کامل تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ بے باک، بے خوف اور جرأت مند تھے اس لیے ان کے متعلق یہ رائے قائم کرنا کہ وہ انگریزوں کو خوش کرنے یا ذاتی مفاد کی خاطر بعض باتیں کرتے تھے جوحقیقت پرمبنی نہیں۔لہٰذا انھیں باتوں سے متعلق اپنے بے تکلف دوست سید مہدی علی خاں کو ایک خط میں اپنے دل کا حال لکھتے ہوئے سچائی کا اقرار کرتے ہیں:
’’میں سچ اپنے دل کا حال لکھتا ہوں اگر خدا مجھ کو ہدایت نہ کرتا اور تقلید کی گمراہی سے نہ نکلتا اور میں خود تحقیقات حقیقتِ اسلام پرمتوجہ نہ ہوتا تو یقینا مذہب کو چھوڑ دیتا‘‘۔ (حیاتِ جاوید۔مطبوعہ انجمن ترقی اردو، ص: 423)
سرسید کا تصورِ تعلیم سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی وعروج میں تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تنزلی اور زبوں حالی کی ایک خاص وجہ تحصیلِ علم سے بے اعتناعی ہے۔ علم نہیں ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسلمانوں کی کوئی عزت،قدر اور وقعت باقی نہیں رہ گئی ہے۔  وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ علم سے پرہیز اور دین سے دوری مسلمانوں کو ذلیل وخوار کرکے چھوڑے گی اور مسلمانوں کی حیثیت وہ ہو جائے گی جس کا ذکر علامہ اقبال نے اس طرح کیا ہے :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اسی راکھ کے ڈھیر میں پھر سے چنگاری جگانے کی کامیاب کوشش سرسید نے کر دکھائی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ چنگاری علم کے چراغ سے پیدا ہوگی اس لیے تعلیم کے فروغ کے لیے اور جدید علوم وفنون کی طرف مائل کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اصلاحی تحریک پر خاص طورسے زور دیا۔
سرسید نے دیکھاتھا اور سمجھاتھا کہ جدید علم وسائنس ہی ترقی کی راہیں دکھاتی ہیں لہذا عصرجدید میں سرسید کی ان تحریکوں کی بڑی اہمیت وافادیت ہے بلکہ اس کی معنویت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی اہمیت ومعنویت دائمی ہے۔ آج پورے عالم میں مسلمانوں پر جو خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں اس کا علاج جدید سائنسی علم وٹکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ جس کے سرسید قائل اور حامی تھے اس لیے مطالعہ سرسید کی اہمیت اور معنویت دائمی حیثیت کی حامل ہے۔
سرسید انگریزی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر اس لیے زور دیتے رہے کہ ان کے خیال میں سائنس، جغرافیہ، حساب وغیرہ کی تعلیم کے لیے اس زبان میں وافر مقدار میں کتابیں دستیاب ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انگریزی زبان بلا شبہ ایسی ہے کہ انسان کی ہر قسم کی علمی ترقی اس میں ہو سکتی ہے۔ حالانکہ حالی اس خیال سے کافی حد تک اختلاف رکھتے تھے۔ان کی یہ سوچ تھی کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہوتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمّی، فضو ل اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ بہر حال اس بحث سے جدا سرسید احمد کے اس موقف اور جذبے پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو انھوں نے اپنی قوم کی ترقی کے لیے اختیار کیا تھا۔ ا س لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے سرسید کی کوششوں کوان الفاظ میں خوش آمدید کہاہے:
’’اغلب خیال یہ ہے کہ عوام کے ذہنی رجحان پر جتنے ہمہ گیر اثرات ’تہذیب الاخلاق‘ نے چھوڑے ہیں ہندوستان (برصغیر پاک وہند) کے کسی اور رسالے نے نہیں چھوڑے‘‘۔
Hafiz Mohd Jahangir Akam
PGTUrdu, Kamran Model School, Chanda Patti, Lahirya Sarai
Darbhanga - 846004 Bihar

یہ مضمون ’’اردو دنیا‘‘ کے مئی 2017 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  اگر آپ اس شمارے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:۔