23/4/19

شکیل الرحمن... سیکولر رحمن مضمون نگار: قدوس جاوید


شکیل الرحمن... سیکولر رحمن

قدوس جاوید
شکیل الرحمن : اگر ’شکیل الرحمن‘ کے سانچے میں ڈھلے، اور اردو تنقید میں شکیل و جمیل زاویوں کا اضافہ کیا تو اس کا سبب ان کی فطری، سیکولر اور جمال پسندنفسیات کے علاوہ، کشمیر میں ان کاطویل المدتی قیام بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک سچ ہے کہ اگرشکیل الرحمن کا ورود اس وادی میں نہ ہوا ہوتا تو شاید ’نیاکشمیر‘ میں اردو زبان وادب کافروغ اس رفتار اور معیار سے نہ ہوا ہوتا، جس رفتار اور معیار سے کشمیر میں اردو زبان و ادب کی نشر و اشاعت، ڈاکٹر شکیل الرحمن کی آمد کے بعد ہوئی۔آج اگر ریاست جموں وکشمیر کو بھی اردو زبان وادب کاایک اہم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کے پس پشت شکیل صاحب کی برسوں کی محنت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو کی عوامی مقبولیت کی شہادتیں آج کشمیر کے گاؤں گاؤں میں ملتی ہیں۔ شکیل الرحمن کے شاگردوں اور ان شاگردوں کی ذُریات اس ریاست کے تینوں خطوں جموں، کشمیر،اور لداخ میں آج بھی اردو زبان وادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ شکیل الرحمن نے ’پٹنہ یونیورسٹی ‘سے اعلی تعلیمی سندیں حاصل کی تھیں۔
پروفیسر شکیل الرحمن کو ان کی ادبی خدمات کے لیے ہند و پاک کے کئی اداروں کی جانب سے ایوار ڈدیے گئے ہیں۔موصوف کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی رہے۔ شکیل الرحمن نے کم و بیش پچاس کتابیں تصنیف کیں،خود شکیل ارحمن کی شخصیت اور ادبی خدمات پر ایک درجن کے قریب کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ریاست جمو ں و کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ،ہندو مسلم اساطیر اور ’آرکی ٹائپس‘ خدا مرکز فکر و فلسفہ، تصوف اور بھکتی،انسان دوستی، مذہبی رواداری اور علم وآگہی کی روایات کے جذب و انجذاب سے عبارت ہے۔،اس اعتبار سے، گوتم بدھ اور حضرت شیخ شرف الدین یحی منیری کی سر زمین بہار کی خاک سے اٹھنے والے شکیل الرحمن کی شخصیت اور فن کی زمین کو آسمان کرنے میں کشمیر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ شکیل الرحمن کے خمیر میں رومانیت،روحانیت تو ابتدا سے ہی تھی لیکن کشمیر میں،از کاہ تا کوہ،اور قطرہ سے لے کر دریاؤں، چشموں اور جھیلوں تک حسن فطرت کی جلوہ آرائیوں نے ان کے وجود میں حسن و جمال کی شمعیں روشن کر دیں۔ساتھ ہی سنسکرت،فارسی اور کشمیری علما و فضلا اور صوفیا و اولیائے کرام کے کارناموں نے شکیل الرحمن کے دیدۂ بینا میں وہ نگاہ شوق بھی پیدا کردیا جس کے فیض سے انھیں مشرقی، خصوصاً ہندوستانی تہذیب، تاریخ، نفسیات اور فنون لطیفہ کی دنیاؤں کے اسرار و رموز اور امکانات و امتیازات کی تہوں اور طرفوں کو کھولنے میں انھیں ہمیشہ رہنمائی ہی حاصل ہوتی رہی۔اگر شکیل الرحمن کی شخصیت ادب اور زندگی کو ان کے’ کُل‘ (Totality) میں سمجھنا ہوتو، وجود آدم، تخلیق کائنات،ادب وثقافت، مذہب اورنفسیات، بندہ اور خدا اور جسم اور روح کی عام، رسمی اور مروجہ توضیحات کے وسیلے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
شکیل الرحمن کا وجود، کسی ’ ادبھُت‘ غیر معمولی صوفی سائیںیا جوگی کی طرح ’بھیدوں ‘بھر ا وجود تھا۔شکیل الرحمن (غالباً) جسم اور روح کے ا تصال کے قائل تھے۔جسم کے اندر روح کو بیدار اور متحرک کرنے کے امکان پر ان کا یقین تھا پورے وجود کے ساتھ محبت،بندگی یاعبادت کا مطلب ہی جسم اور روح کا اتصال Possession ہے۔ شکیل الرحمن خود کو ہی نہیں دوسروں کو بھی اپنا تابع بنانے، اپنے وجود میں شامل کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ سمجھنے کے لیے اسے Messmerism بھی کہہ سکتے ہیں۔ Mystical Experience سے لے کر Sexual Experience تک جسم ہی روح میں تحلیل ہوتا ہے اگر روح بیدار ہو۔ ’’عام معمولی خواہشوں سے ’تجربہ‘ حاصل نہیں ہوتا، خواہشوں کو وجود کی آنچ پر تپانا ہوتا ہے پھر ایسی آرزوئیں جنم لیتی ہیں جو ’تجربے ‘بخشتی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شکیل الرحمن کے بارے میں کشمیر میں مشہور تھا کہ ’وہ روحوں سے باتیں کرتے اور کرواتے ہیں۔ ان کی مبینہ روحانی قوتوں کی وجہ سے ہی لوگ اُنھیں ’بابا سائیں‘ بھی کہا کرتے تھے۔ شکیل صاحب اپنے بعض ذاتی خطوط میں اپنے نام کی جگہ ’باباسائیں‘ہی لکھا کرتے تھے ،واللہ اعلم بالصواب۔ 
شکیل الرحمن سنہ 1953 میں بہار سے کشمیر آئے اور گویا کشمیر کے ہی ہو کر رہ گئے۔کم و بیش چالیس سالہ قیام کے دوران شکیل الرحمن نے کشمیر کو بڑی گہرائی سے دیکھا، سوچا اور برتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر، اردو ادب کے جمالیاتی مطالعے کا ’محرک خاص‘ (Dominat) کشمیر بھی رہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کشمیر اپنے حسن و جمال کے لیے ایک عالم میں جتنا مشہورہے اس سے کہیں زیادہ علم و عرفان کے بے مثل مرکز کی حیثیت سے بھی یہ سر زمین اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سنسکرت زبان و ادب کے حوالے سے گراں قدر تصنیفات کشمیرِ قدیم میں ہی لکھی گئیں۔ 
( یوں تو سنسکرت زبان میں تصنیف و تالیف کے اصول و قواعد کے حوالے سے ’پاننی‘ (چار سو سال قبل مسیح) کی شہرہ آفاق تصنیف ’اشٹ ادھیائے‘ آج بھی علم اللسان کے تعلق سے ایک معجزہ تسلیم کی جاتی ہے،کہا جاتا ہے کہ ’’سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے لیکن پاننی کا لکھا ہوا غلط نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ لیکن سنسکرت شعریات و جمالیات پر سب سے زیادہ کام کشمیر کی وادی میں ہی ہوا۔ اس ضمن میں ابھینو گپت، آنند وردھن، ممٹ وغیرہ برہمن مفکرین کے کارنامے لازوال ہیں ان کے ساتھ ہی بودھ اور جین دانشوروں دِن ناگ،ناگ ارجن، بھامہ،اور دنڈن وغیرہ نے لفظ و معنی کے رشتے اور شاعری میں الفاظ کے برتاو کے سبب، صوت و آہنگ،تاثر اور کیفیت کے حضور اور غیاب سے متعلق جو ہمہ جہت عالمانہ بحثیں کی ہیں،شکیل الرحمن کی تحریروں میں ان کے سائے جگہ جگہ رقص کناں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سنسکرت اور کشمیری کے بعد انیسویں صدی کے اخیر تک اس ریاست کی سرکاری، درباری اور علمی و ادبی زبان کی حیثیت سے فارسی کا بول بالا رہا۔ شکیل الرحمن نے سنسکرت فارسی اور عربی کی ایسی ساری ادبی و علمی روایات کو اپنے اندر جذب کیا تھا ۔)
آزادی کے کچھ عرصہ بعدہی سنہ ،1953 میں شکیل صاحب ڈگری کالج بھدرک (اُڑیسہ) میں لکچرر ہو گئے تھے لیکن اسی بیچ دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے سکریٹری جناب اجمل خاں صاحب نے بتایا کہ ’’مولانا چاہتے ہیں کہ آپ کشمیر چلے جائیں، سو، شکیل صاحب کشمیر چلے آئے اور سرینگر کے مشہور ایس.پی. کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کشمیر یونیورسٹی کا قیام 1951میں عمل میں آچکا تھا۔ 1958 میں ڈوگرہ راج کے جانشین ڈاکٹر کرن سنگھ، سابق صدر ریاست جموں و کشمیر نے اپنی ملکیت میں سے ’نسیم باغ‘ سے متصل ’حضرت بل مسجد‘ کے بالمقابل، سیب اور ناشپاتی کے باغات یونیورسٹی کو عطیے کے طور پر دے دیے،جہاں بعد میں یونیورسٹی کی کئی خوب صور ت عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ ابتدا میں آرٹس کے چند ہی سبجیکٹس حضرت بل کے ’نسیم باغ‘ میں ملکہ نور جہاں کے قائم کردہ’ہفت چنار‘کی ایک عمارت میں پڑھائے جاتے تھے۔ جب ’جمو ں و کشمیر یونیورسٹی‘ میں شعۂ اردو قائم ہوا تو اس کی پہلی اینٹ شکیل صاحب نے ہی رکھی۔ شکیل الر حمن شعبہ اردوجموں وکشمیر یونیورسٹی کے بانی اور اولین سربراہ تھے۔ ان دنوں حامدی کاشمیری ایس پی کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے۔ شکیل صاحب نوجوان تھے اور تنہا شعبے اردو کی ساری ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شکیل صاحب کی صدارت بحال رکھی جاتی لیکن شیخ محمدعبداللہ نے حیدرآباد سے پروفیسر محی ا لدین قادری زور کو بلا کرشعبہ اردو کی صدارت سونپ دی،بعد میں شکیل صاحب اور زور صاحب کی کوششوں سے حامدی صاحب کی تقرری بھی شعبہ اردو میں ہو گئی۔ ان دنوں فیضی صاحب جموں وکشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے کچھ عرصے بعد تلسی باغ سری نگر میں واقع سرکاری کوٹھی میں، ایک دن اچانک ہی، زور صاحب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ شکیل صاحب پر پھر شعبہ اردو کی صدارت کی ذمے داریاں آگئیں لیکن ایک بار پھر شکیل صاحب کے ساتھ بے انصافی کی گئی اور حیدر آباد یونیورسٹی کے ہی شعبہ اردو کے سابق سربراہ پروفیسر عبد القادر سروری کو کشمیر بلا کر شعبہ اردو کی صدارت سونپ دی گئی۔ شکیل صاحب نے صبر کیا۔سروری صاحب برسوں اپنے منصب پر فائز رہے اور اس عرصے میں انھوں نے ’کشمیر میں اردو‘ جیسی معر کتہ الآرا کتاب تین جلدوں میں تصنیف کی۔
سروری صاحب نے بھی 1970 میں کشمیر میں ہی داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین سرینگر کے جو اہر نگر کے قبرستان میں ہوئی۔سروری صاحب کے بعد شعبہ اردو کی صدارت ایک بار پھر شکیل صاحب کو ہی سنبھالنی پڑی۔لیکن جب پروفیسر شپ کے لیے انٹر ویو ہوا تو، مخالفین کی سازش کی وجہ سے ایک بار پھر شکیل صاحب کی حق تلفی کی گئی، ڈاکٹر محمد حسن صاحب کو پروفیسر اردو منتخب کرلیا گیا اور شعبے کی صدارت بھی سونپ دی گئی۔شکیل صاحب سخت بد دل ہوئے۔ شکیل صاحب اپنی محبتوں اور خدمات کی وجہ سے طلبا میں بے حد مقبول تھے۔شکیل صاحب کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف طلبا نے زبردست احتجاج کیا۔شعبہ اردو کا ماحول پراگندہ ہو چکا تھا، محمد حسن بھی بد دل ہو چکے تھے اور آخر کار وہ نہرو فیلو شپ پر جواہر لال یونیورسٹی چلے گئے۔لیکن اس بار مخالفین کی ایک نہیں چلی اور شکیل الرحمن صاحب نے باضابطہ طور پر پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ شعبہ اردو یوں بھی شکیل صاحب کے دم سے ہی چل رہا تھا اب اس کی منصوبہ بند ترقی کی ر فتارمیں تیزی آئی، اور درس و تدریس اور تحقیق کامعیار بھی مزید بلند ہونے لگا۔ 
1983 میں شکیل صاحب کو بہار یونیورسٹی کاوائس چانسلر بنا دیا گیا جب وہاں کی وائس چانسلر شپ کی مدت ختم ہوئی تو انھیں 1988 میں للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ کی وائس چانسلر شپ کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔ در بھنگہ میں شکیل صاحب طلبا میں ہی نہیں سِول سوسائٹی اور افسران میں بھی بے حد مقبول تھے اس کی وجہ ان کی بیش بہا خدمات تھیں۔ شکیل صاحب طلبا اور تعلیم کے مفاد میں، یونیورسٹی کو ہر طرح کی بد عنوانی،بد نظمی اور سیاسی دخل اندازی سے پا ک کرنا چاہتے تھے۔لیکن مقامی لیڈر اور اس وقت کے وزیر تعلیم کو یہ پسند نہ تھا۔ شکیل صاحب کسی بھی طرح کی سفارش یا دباؤ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے شکیل صاحب اور وزیر تعلیم کا ٹکراؤ اتنا بڑھا کہ شکیل صاحب پر استعفیٰ دینے کا دباؤ ڈالا جانے لگا لیکن شکیل صاحب استعفیٰ دینے کی وجہ بتائے جانے پر اصرار کرتے رہے طلبا اورملازمین اور عام لوگ چاہتے تھے کہ شکیل صاحب کسی بھی قیمت پر استعفیٰ نہ دیں۔ لیکن سیاست کب شکست ماننے والی تھی، گورنر گووند نرائن گور نے شکیل صاحب کو وائس چانسلر شپ سے ہٹا دیا۔لیکن ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ پارلیمانی انتخاب کا وقت آگیا دربھنگہ کے طلبا اور عوام و خواص نے انھیں اصرار کرکے ’جنتا دل‘کا امیدوار بنایا۔ مقابلہ، ان کے کٹر مخالف ناگیندر جھا سے ہی تھا شکیل صاحب کے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ سیاست کا کوئی تجربہ، در بھنگہ کے لوگوں نے خود ہی پیسے اکٹھے کیے اور سارا انتظام بھی کیا شکیل صاحب کو دربھنگہ میں لوگ’سیکولر رحمن‘ کہتے تھے۔ الیکشن میں شکیل صاحب نے ناگیندر جھا کو اتنی بھاری اکثریت سے ہرایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے،جب مرکز میں چندر شیکھر جی کی حکومت بنی تو پرو فیسر شکیل الرحمن کو مرکزی کابینہ میں ’صحت عامہ اور خاندانی بہبود‘ Health&Family Welfare کا وزیر بنادیا گیا۔ چندر شیکھر حکومت کے زوال کے بعد شکیل الرحمن نے ’گُڑ گاؤں‘میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
اس پیش بندی کے بعد اب شکیل الرحمن کی ذاتی زندگی اور گھر آنگن میں بھی جھانکنا ہوگا اور اس کے لیے راقم کو اس قصے میں ’اِنٹری ‘لینی ہوگی۔ میں 15ستمبر سنہ 1977 کو سری نگر وارد ہوا۔لال چوک کے ایک ہوٹل میں ٹھکانہ کیا۔ ان دنوں پروفیسر رئیس احمد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر سیف الدین سوز (سابق مرکزی وزیر) رجسٹرار ہوا کرتے تھے۔ میں، 16 ستمبر 1977کو شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں شکیل رحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے Joining کروائی۔ اس وقت شکیل صاحب کے چیمبر میں حامدی کاشمیری، اسد اللہ کامل اور برج پریمی ایما بھی موجود تھے کشمیر کی روایتی مہما ن نوازی اور اخلاقیات کے مطابق سب نے بڑی گرم جوشی سے گلے لگا کر استقبال کیا۔ (خیر، خیریت، سفر، چائے اور دیگر دفتری رسومات کی ادائگی کے بعد شکیل الرحمن صاحب اٹھے اور مجھے ساتھ آنے کو کہا، مجھے لے کر وہ کلاس روم میں آئے، طلبا سے میرا تعارف کروایااور مجھ سے کہا کہ ان دنوں میں غالب پڑھا رہا ہوں، آج آپ پڑھائیں گے۔ میں ذرا دیر کے لیے پریشا ن ہوا کہ آتے ہی اولے پڑے لیکن صدر شعبہ شکیل صاحب کا حکم تھا،انکار کی نہ جرات تھی نہ گنجائش اور پھر یہ بھی کہ غالب میرا بھی محبوب شاعر ہے اس لیے میں نے طلبا سے کچھ رسمی گفتگو کے بعد غالب کی انفرادیت پر ایک تفصیلی لکچر دیا (اور خاص طور پر بتایا کہ میر،غالب اور اقبال تینوں عظیم شاعر ہیں لیکن کون کیوں عظیم ہے یہ سمجھنا ضروری ہے۔اور میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی۔) میں جب کلاس روم سے واپس آیا تو شکیل صاحب نے کہا ’’آپ فی الحال ڈاکٹر برج پریمی ایما صاحب کے ساتھ بیٹھیں گے ‘‘اتنا کہہ کر شکیل صاحب خود کلاس لینے چلے گئے۔اور میں شعبے کے دوسرے اساتذہ سے باتیں کرنے لگا خاص طور پر حامدی صاحب اور ایما صاحب سے ایسی بے تکلفی ہو گئی جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ کلاس لے کر شکیل صاحب اپنے کمرے میں آئے اور مجھے بلایا، انھیں طلبا نے میرے لیکچر اور رسمی بات چیت کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا شکیل صاحب خوش اور مطمئن تھے۔مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ’’کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ تم شادی شدہ ہو ؟کچھ دن خاموش رہتے،تماشہ دیکھتے۔پھر کہا )
شام کو میں شکیل صاحب کے ساتھ ہی شعبے سے نکلا۔ ان دنوں شکیل صاحب لال چوک کے عقب میں واقع پوش کالونی جواہر نگر میں اپنی مختصر فیملی (اہلیہ اور تین بچوں، انجم، رومی اور جُولی ) کے ساتھ رہتے تھے۔گھر پہنچے تو شکیل صاحب نے تعارف کروایا سب لوگ اتنی محبت سے ملے کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خوب باتیں ہوئیں شکیل صاحب کے چائے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد میں آٹو سے لال چوک اپنے ہوٹل آگیا۔ دوسرے دن شکیل صاحب کے حکم پر میں ہوٹل سے ان کے گھر منتقل ہوگیا۔ بھابھی نے کہا جب تک یونیورسٹی میں رہائش کا انتظام نہیں ہوتا یہیں ہمارے ساتھ رہوگے۔ اور میں مہینوں ان کے ساتھ رہا۔شکیل بھائی کو بہت قریب،بہت گہرائی سے جاننے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے ۔
’موتیہاری‘ شکیل الرحمن کے آبائی شہر کا نام ہے ر یاست بہار کے شمال میں ضلع چمپارن میں۔ چمپارن، نیپال کی سرحد ہے۔ کہا جاتا ہے، گوتم بدھ جب’ کپل وستو‘ سے چلے تو اس مقام پربھی رکے،کسی نے انھیں’ چمپا‘ کا زرد پھول پیش کیا اور پھر سارا علاقہ چمپاکے مہکتے ہوئے زرد پھولوں سے لد گیا۔اسی سے اس کا نام’چمپا...رن ‘ ہوا، یعنی چمپا پھولوں کی خوشبوؤں سے بھرا جنگل۔اسی مٹی پر ان کا جنم ہوا، 18تاریخ تھی،فروری کا مہینہ تھا اور سال تھا 1931 کا، وقت صبح پانچ بجے‘‘(آشرم ص21)۔ شکیل الرحمن کے والد،خان بہادر مولوی جان محمد کا شمار بہار کے معروف ترین وکیلوں میں ہوتا تھا اور وہ چھپرہ سے موتیہاری، آبسے تھے شکیل صاحب کے جد امجد لالہ روپ دون پرشاد سہائے’کائستھ ہندو تھے۔ان کے ایک پوتے اورشکیل صاحب کے دادا،شری لیلا پرشاد نے اسلام قبول کر لیا تھا (مسلم نام عبد الرحمن ) لیکن تایا دادا سری کانت پرشاد اور ان کا خاندان ہندو ہی رہا خاندان کے بہت سے افراد ہندو ہی رہ گئے تھے پھر بھی رشتے ناطے اسی طرح قائم تھے (ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد بھی ان کے ہندو رشتہ داروں میں سے تھے) اس طرح شکیل الرحمن دو مختلف مذاہب اور دو مختلف نظریہ حیات کے ایک بڑے خاندان میں پرورش پاتے رہے اور ایک انوکھے طرز زندگی سے آشنا ہوتے رہے۔ سب اس طرح رہتے تھے جیسے ایک ہی خاندان کے ہوں، اور تھے بھی ایک ہی خاندان کے۔ ’’سب ایک دوسرے کے تہواروں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ایک فرد کا غم دوسرے کا غم بن جاتا ‘‘ ہولی دیوالی دسہرہ،عید اور بقرعید کے تہواروں میں سب شریک ہوتے۔دو بڑے مذاہب کی تہذیبی اور تمدنی آمیزش نے شکیل الرحمن کی نفسیات، اور تخلیقیت کو اور علمی وادبی، تنقیدی و تجزیاتی شعور کو ایک ایسے مثالی سیکولر سانچے میں ڈھال دیا جس کی کوئی دوسری نظیر اردو میں مشکل سے ہی ملے گی۔ وقت کے ساتھ شکیل الرحمن کے وجود کے اندر کا ’ سیکولر رحمن‘، زمین پرہی نہیں کا غذ پر بھی، گوتم بدھ، شیخ العالم نُند رشی، اور لل عارفہ کی طرح انسانیت پرستی (Humanism) برتتا رہا۔ ابتدا سے لے کر انتہاتک ان کی تمام تحریروں میں ’سیکولرزم کی جمالیات‘ کی خوشبو رچی بسی نظر آتی ہے۔ ان کے والد کی مادری زبان بھوج پوری تھی لیکن گھرمیں بھوج پوری اور اردو دونوں زبانوں کا چلن تھا۔ گھر کے سبھی لوگ تعلیم یافتہ تھے اس لیے ضرورت کے مطابق سبھی لوگ انگریزی کا استعمال کرنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ ریڈیو کشمیر اور دور درشن کشمیر کے بعض افسران سے جو بھوج پور سے تعلق رکھتے تھے، ان کے ساتھ شکیل صاحب بھوج پوری میں بھی بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ بچپن سے ہی شکیل الرحمن کا فطرت سے ایک گہرا رشتہ قائم ہو گیا تھا ’’پہاڑوں، ندیوں، جھیلوں، تتلیوں پرندوں، درختوں، پودوں اور دنیا کے مختلف رنگوں نے انھیں اپنی مکمل گرفت میں لے لیا تھا ’’پہاڑوں اور خصوصاًہمالہ کی برف پوش چوٹیوں سے شکیل صاحب کا جو حسی اور جذباتی تعلق پیدا ہوا ان ہی سے ممکن ہے اساطیر اور قدیم مذاہب کے مطالعے کا شوق بیدار ہوا ہو... 
کشمیر میں شکیل صاحب کے گھر (155.جواہر نگر) سے یونی ورسٹی تقریباًًدس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ہم گھر سے نکل کرٹہلتے ہوئے کچھ ہی فاصلے پر کلچرل اکادمی کے سامنے واقع ’ناو گھاٹ ‘ پہنچتے۔یہاں ایک ایک روپیہ لے کر لوگوں کو ناؤ سے جہلم ندی کے اُس پار’’ ٹنڈل بسکو اسکول کے پیچھے گھاٹ پر اُتارا جاتا تھا۔گھاٹ سے چندگھروں کے فاصلے پر ہی لال چوک ہے جہاں سے درگاہ، حضرت بل/یونیورسٹی کے لیے بسیں ملتی تھیں زیادہ تر بسیں رعناواری،خانیار،حسن آباد ہوتے ہوئے درگاہ/ یونیورسٹی جاتی تھیں۔لیکن بعض بسیں ڈل لیک، شنکر آچاریہ، نہرو پارک، گرانڈ ہوٹل، گورنر ہاؤس،اور شالیمار باغ ہوتے ہوئے بھی درگاہ /یونیورسٹی تک جاتی تھیں ڈل لیک کا علاقہ سرینگر آنے والے سیاحوں کے لیے کئی اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس کے ایک طرف سستے اور مہنگے ہر طرح کے ہوٹلوں کا جال بچھا ہوا ہے سڑک کی دوسری جانب ڈل جھیل پر میلوں تک چھوٹے سے لے کر بڑے فا ئیو اسٹار’شکاروں‘ کا ایک طویل سلسلہ ہمہ وقت موجود نظر آتاہے۔ شام ڈھلے جب ان شکاروں پر چراغاں ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے پانی میں چراغوں کے پھول کھلے ہوں۔ (اب ڈل جھیل پر جگہ جگہ خوبصورت ترتیب کے ساتھ رنگ برنگے فوارے بھی لگادیے گئے ہیں )۔ یونیورسٹی جانے کا یہ راستہ ذرا لمبا ضرور ہے لیکن بے حد خوبصورت ہے۔اگر ہم (شکیل صاحب اور میں ) گھرسے ذراپہلے نکلتے تو ڈل لیک کی طرف سے جانے والی بس ہی لیتے۔پورے راستے شکیل صاحب کشمیر کی تاریخ، عروج و زوال، ادب و ثقافت، صوفیائے کرام، ہندو دھرم، اسلام، بودھ مت اور رشی ازم وغیرہ کے بارے میں بتاتے رہتے۔ شہمیری دور،مغل دور، سکھ دور اور ڈوگرہ دور حکومت قبائلی حملہ،پنڈت نہرو، مسٹر محمد علی جناح اور شیخ محمد عبد اللہ وغیرہ کے حوالے سے بعض وہ باتیں بتاتے جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر نہیں ملتا۔ پھر دوسری جنگ عظیم، قحط بنگال،بہار کا زلزلہ، مذہب، تصوف،تقسیم ملک، فسادات وغیرہ موضوعات پر شکیل صاحب کی ہر گفتگو ذات پات، سماج کی طبقاتی تقسیم سے ما ورا ہوتی تھی۔ شعبہ اردو کا ماحول بڑا دلچسپ تھا پروفیسر اسد اللہ کامل بس یونیورسٹی کے ایسے ملازم تھے جو گھر سے ’ٹفن ‘لے کر آتے اور آتے ہی کھانے بیٹھ جاتے، کلاس روم میں جاتے اور اللہ رسول کی بڑی ایمان افروز باتیں کرتے، ایک بار غلطی سے کہہ بیٹھے ’’غالب عظیم شاعر تھا لیکن شر اب پیتا تھا‘‘، ایک ذہین طالب علم نے شرارتاًسوال کرڈالا ’’غالب عظیم شاعر تھے اس کی دلیل کیا ہے؟کامل صاحب ادھر ادھر کی کچھ ہانکتے رہے لیکن وہ طالب علم اپنے سوال پر قائم رہا تو کامل صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ’’خدا رسول کی قسم غالب عظیم شاعر تھا ‘‘۔ حامدی صاحب جتنے اچھے انسان ہیں اتنے ہی اچھے استاد بھی تھے، لیکن عموماًً بھاگم بھاگ آتے، کلاس لیتے، اساتذہ کے ساتھ بیٹھتے، محبتیں بانٹتے اور چلے جاتے۔ برج پریمی شعبہ اردو کی ناک تھے شعبے کے ٹائم ٹیبل، خط و کتابت سے لے کر درس و تدریس تک ہر کام ذمے داری سے نبھاتے ’منٹو کی شخصیت ا ور فن ‘ پر ان کے کام سے دنیا واقف ہے۔ شکیل صاحب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے برج پریمی مجھ سے ایک آدھ سال پہلے شعبے میںآئے تھے۔
جب شکیل صاحب،میں اور برج پریمی تینوں ہی کیمپس میں رہنے لگے تو پھر ہم اکثر شام کو اور سردموسم میں دن کو شکیل صاحب کے لان میں بیٹھتے شکیل صاحب کا کوارٹر گرلز ہوسٹل کے سامنے تھا۔شکیل صاحب گھر پر گرمیوں میں کرتا پاجامہ اور کبھی کبھار لُنگی بنیا ن میں اور سردیوں میں گرم کپڑے اور گاوؤن پہن کر بیٹھتے بھابھی (عصمت شکیل) ایک مثالی بیوی اور ماں ہیں شکیل صاحب کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت،پسند اور ناپسند کا خیال رکھتی تھیں۔ طرح طرح کے پکوان بنانے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں اور پوچھ پوچھ کر کھلاتیں بھابھی کا تعلق بنگالی سماج اور تہذیب سے تھا،یونیورسٹی کیمپس کے سامنے ہی ڈ ل جھیل تھی ڈل کی مچھلیاں اپنی لذت کے لیے پورے جموں وکشمیر میں مشہور ہیں۔ کشمیر میں مچھلی کئی طرح سے پکائی جاتی ہے لیکن ہر تہوار میں ہندو مسلمان سب کے گھروں میں ’مچھلی اور ندرو ‘ (کمل ککڑی) کی ’ڈِش ‘ لازمی طور پر پکائی جاتی ہے شکیل صاحب کو چکن اور مٹن سے زیادہ ’،مچھلی ندرو‘ پسند تھا۔شعبے کے پیون غلام قادر شکیل صاحب کے لیے مچھلیاں خرید کر لاتے تھے۔شکیل صاحب کم خو راک تھے۔دن کا کھانا نہیں کھاتے، سگریٹ کی عادت نہیں تھی، شعبے میں چائے پیتے اور چائے کے بعد پان کھاتے۔ لال چوک میں ’شکتی سویٹس‘ کے پاس ہی ’میر صاحب ‘کی پان کی دوکان تھی شکیل صاحب وہیں سے پان منگواتے۔کشمیر میں پان کھانے کا رواج ان دنوں بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔لال چوک میںِ اکا دُکا ہی پان کی دوکانیں تھیں جو سیاحوں کے پان کے شوق کو پوری کرتیں۔کشمیر یونیورسٹی میں سال میں دو بار ’پکنک‘ پر جانے کارواج ہے ایک بار مارچ اپریل میں یونیورسٹی کھلنے کے بعد اور دوسری بار اکتوبر نومبر میں، سرما کی چھٹیوں سے پہلے۔ ہمارا شعبہ بھی جاتا، گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ اور ویری ناگ وغیرہ سیاحتی مقامات میں سے کہیں بھی جاتے طلبا و طالبات کے ساتھ اساتذہ،ریسرچ اسکالرز اور کلرک،پیون وغیرہ بھی ہوتے اکثر شکیل صاحب بھی بھابھی اور بچوں کے ساتھ پکنک میں شریک ہوتے۔ جب میری اہلیہ بھی کشمیر آگئیں تو وہ بھی پکنک میں شریک ہونے لگیں برج پریمی بھی اپنی بیگم کے سا تھ آتے۔ ڈاکٹر مجید مضمر اور ڈاکٹر سجان کور بالی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں۔سجان کور نے شکیل صاحب کی نگرانی میں ہی ’اردو تنقیدمیں غالب شناسی‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیاتھا اور کشمیر یونیورسٹی میں پہلی ’سکھ ‘پروفیسر تھیں۔  
شکیل صاحب شعبہ اردو کو ’ایڈوانس سینٹر‘ بنانا چاہتے تھے اس کے لیے انھوں نے ’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘سے بات بھی کر لی تھی۔ ہم لوگوں نے اس کے لیے ضروری کاغذات، یو جی سی کو بھیج دیے۔ پہلے مرحلے میں شعبہ اردو کو Department of Special AssisTance کا درجہ دیاگیا۔D.S.A کی عمارت کی تعمیر،لائبریری وغیرہ کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوئے متعلقہ پروفیسروں نے پانچ سال تک عیش کیے لیکن پانچ برسوں میں،پانچ سطریں بھی نہیں لکھ سکے۔U.G.C کی ایک ٹیم انسپکشن کے لیے آئی اور D.S.A کے پروفیسروں کےZero Contribution کی بنیاد پر D.S.A کو ایک سخت مذمتی نوٹ کے ساتھ بند کردیا گیا ۔یہ سب کچھ شکیل ساحب کی غیر حاضری میں ہوا کیونکہ 1983 میں شکیل صاحب ’بہار یونیورسٹی‘کے وائس چانسلر ہو کر مظفر پور چلے گئے تھے۔ وہاں کی وائس چاسلر شپ کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ کشمیر یونیورسٹی چلے آئے۔ لیکن پھر 1988 میں بہار کی ہی للت نرائن متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو کر دربھنگہ چلے گئے۔
کشمیر چھوڑنے کے بعد شکیل صاحب پھر کبھی لوٹ کر کشمیر نہیں آئے،لیکن ان کے خط اور ٹیلیفون برابر آتے رہے،میرے پاس اور برج پریمی ایما کے پاس اور ہم سے زیادہ مجید مضمر اور ڈاکٹر سجان کور کے پاس۔ 
مجید مضمر (مرحوم)ریسرچ اسکار تھے تب بھی اور لکچرر ہو گئے تب بھی ہمارے ساتھ ہی ہوتے۔ شکیل صاحب،مجید مضمر کو بہت عزیز رکھتے تھے۔شکیل صاحب جب کشمیر چھوڑ کر گئے تو اپنی لائبریری اور کئی نادر و نایاب مسودات،خطوط وغیرہ مجید صاحب کے حوالے کیے تھے ان میں مہاتما گاندھی کا اردو میں لکھا ہوا ایک رُقعہ اور شریمتی اندرا گاندھی کا اردو میں دستخط کیا ہوا ایک خط بھی تھا اس کے علاوہ شکیل صاحب کی ایک آدھ کتا ب کا ہاتھ سے لکھا ہوا مسودہ بھی تھا۔ مجید مضمر کے ناوقت انتقال کے بعد پتہ نہیں یہ چیزیں کیا ہوئیں۔ شکیل صاحب نے کشمیر کے بعد بقیہ زندگی دلی کے پاس گُڑ گاؤں میں ہی گذاری۔ فرصت تھی،جمالیات کے حوالے سے درجنوں کتابیں لکھیں،اور تا دمِ آخر لکھتے ہی رہے۔گُڑگاؤں میں ہی ایک طویل بیماری کے بعدتاریخ..... 2016 کو ان کا انتقال ہو گیا، اِنا للّٰہ و اِنا اِلیہ راجعون۔ اردو ادب کا بابا سائیں اب ہم میں نہیں لیکن ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان و ادب کی بات جب بھی کہیں چلتی ہے شکیل الرحمن کی خدمات کو ضرور یاد کیا جاتا ہے

Prof. A.Q. Jawaid 
Baitul-Zehra, 27, Green Hills Colony
Near Govt. Higher 
Secondary School, Bhatindi 
Jammu - 181152 (J&K)



ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

ندا فاضلی کا تخلیقی گاؤں مضمون نگار: کوثر مظہری



ندا فاضلی کا تخلیقی گاؤں
کوثر مظہری
(1)
ندا فاضلی کا نام تو کالج کے زمانے میں (1982-84) ہی سن رکھا تھا، لیکن چونکہ میں ا س زمانے میں B.Sc (علم نباتات) کررہا تھا، اس لیے ان کے حوالے سے، یا ان کی چیزیں پڑھنے کا یا انھیں سننے کا موقع کم ملا۔ البتہ دہلی آنے کے بعد ایک دو مشاعروں میں انھیں سننے کاا تفاق ہوا۔ ان کا شعر پڑھنے اور سنانے کا انداز بالکل جداگانہ تھاا ور پھر جب وہ دوہے سناتے تو دوسرے مصرعے کے اختتام پر دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لے جاتے ا ور تقریباً دونوں طرف سے سر کے سامنے اوپر تک لاکر چھوڑدیتے۔ لفظوں کو دہرانے کا بھی ان کا ایک خاص انداز تھا جس کی نقالی بعد کے کئی شعرا کے یہاں نظرآئی۔
ذاتی طور پر میری ان سے بہت قربت نہیں تھی، لیکن جب میں نے اپنا شعری مجموعہ ’ماضی کا آئندہ‘ اپنے دوست شکیل اعظمی کے ذریعے ان کو بھجوایا تو پورا مجموعہ پڑھ کر فوراً فون کیا اور دیر تک یوں باتیں کرتے رہے جیسے وہ مجھے ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتے ہوں۔ ’’کوثر صاحب آپ توبہت اچھی تنقید بھی لکھ رہے ہیں اور میں نے رسالوں میں آپ کی چیزیں پڑھی ہیں۔‘‘ ایسا تعریفی جملہ سن کر میرے حوصلے بڑھ گئے۔ اس کے بعد شعبۂ اردو کی طرف سے فراق میموریل لکچر انھوں نے پیش کیا جو کہ بہت ہی معلوماتی ا ور دل چسپ تھا۔ ان کی گفتگو اور مقالہ پیش کرنے کے انداز نے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اسی طرح جامعہ کلچرل کمیٹی کی طرف سے ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقدہ کیے جانے کی ذمے داری مجھے دی گئی۔ یہ نومبر 2009 کی بات ہے۔ فہرست میں سینئر شعرا میں بیکل اتساہی کے بعد ندا صاحب ہی کا نام تھا۔ مشاعرے کا کنوینر ہونے کے ناتے مجھے ہی ندا صاحب سے گفتگو کرنی تھی۔ میں نے جب انھیں فون کیا تو جامعہ میں مشاعرہ پڑھنے کے لیے وہ فوراً تیار ہوگئے۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں یونیورسٹی جو اعزازیہ پیش کرے گی اس کی رقم ’یہ‘ ہے۔ انھوں نے کہا151 ’’کوثر صاحب میں مشاعرے پڑھتا ہوں، لیکن جامعہ ملیہ میں مشاعرہ پڑھنا یہ خود میرے لیے اعزاز کی بات ہے، آپ اعزازیہ کی بات مت کیجیے۔‘‘ اس طرح وہ خوشی خوشی اس مشاعرے میں تشریف لائے۔ صبح جامعہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں کچھ نوجوان ادیب و شاعر ان سے ملنے آئے۔ میں بھی شریک تھا۔ ان میں جناب حقانی القاسمی، جناب عبدالقادر شمس، نعمان قیصر وغیرہ تھے۔ وہیں کینٹین میں ہم سب ندا صاحب کے ساتھ چائے پیتے رہے اور بہت دیر تک ادبی اور غیر ادبی (لیکن دل چسپ) باتیں کرتے رہے۔ وہ جس قدر خوب صورت تھے اسی طرح انھیں خوب صورت اندازمیں گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، البتہ ان کے شعری اور نثری متون ہمارے سامنے ہیں۔ ہم جب بھی ندا سے ہم کلام ہونا چاہیں ان کی نگارشات پڑھیں تو شاید ان کا عکس، ان کے تجربے، ان کے مشاہدے اور یہاں تک کہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہمارے سامنے کھُلتے جائیں گے اور حقیقت یہی ہے کہ اصل سرمایہ تو ان کی تخلیقات ہی ہیں۔

(2)
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو
ندا فاضلی کے شعری تناظر اور تخلیقی نہج کو سمجھنے کے لیے میں نے یہ شعر درج کیا ہے۔ ذرا اس شعر کو پڑھیے اور اس پر غور کیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کسی ترقی پسند شاعر کا شعر ہے۔ اس میں ہر ایک گھر میں روشنی اور اناج ہونے کی بات کی جارہی ہے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ا س کے لیے احتجاج کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے۔ ترقی پسندوں کا بھی کچھ یہی تقاضا تھا۔ لیکن بہت جلد ندا فاضلی کو احساس ہوگیا کہ ترقی پسندی کا جادو سرد پڑچکا ہے اور ایک جدید رجحان مدمقابل ہے۔ دوسری طرف تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے فسادات اور انسانی قدروں کی پامالی، غیرضروری سیاسی جوش اور ولولے، انسانی جذبوں کی تقسیم، نقل مکانی کے سبب بے مکانی، بے چہرگی اور انسانی وجود کی بقا کے لیے جدوجہد، یعنی یہ سب کچھ اور اسی نوع کے دوسرے مسائل اور عوامل ایسے تھے جو ندا کی تخلیقیت اور باطن دونوں میں ہلچل پیدا کررہے تھے۔ کبھی کبھی اس طرح کے تجربے سوہانِ روح بن جاتے ہیں۔ سنیے:
بیٹھے ہیں دوستوں میں ضروری ہیں قہقہے
سب کو ہنسا رہے ہیں مگر رو رہے ہیں ہم
اور پھر یہ نظم دیکھیے:
پیار، نفرت، دیا، جفا، احسان
قوم، بھاشا، وطن، دھرم، ایمان
عمر گویا/ چٹان ہے کوئی
جس پہ انسان کوہ کن کی طرح
موت کی نہر/کھودنے کے لیے/ سیکڑوں تیشے
آزماتا ہے/ ہاتھ پاؤں چلائے جاتا ہے
ندا فاضلی خود رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کے بھوگی رہے ہیں، لہٰذا وہ ان رشتوں کو اپنی شاعری میں سجاتے سنوارتے رہے ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر جو اتھل پتھل ہوتی ہے اسے بھی شاعر شعری پیکر عطا کرتا ہے۔ لیکن شاعر کا خلوص خواہ وہ دوستی کا ہو یا دشمنی کا، رشتوں کی الگنی پر دھوپ میں سوکھتے ہوئے زیادہ درخشاں اور پائندہ نظر آتا ہے۔ 
زمینی قربتوں اور فاصلوں کو ہمیشہ ندا فاضلی نے اپنی تخلیقی ہنرمندی کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے لسانی اظہار میں بھی سادگی کے ساتھ تازگی دیکھی جاسکتی ہے:
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
اسی انسانی رشتے کی حقیقت اور نسلی بُعد (Generation Gap) کو وہ اپنی ایک نظم میں اس طرح پیش کرتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اس نظم کے کرافٹ میں کیسی کرب آگیں تخلیقیت ضم ہوگئی ہے:
بیٹھے بیٹھے یونہی قلم لے کر
میں نے کاغذ کے ایک کونے پر
اپنی ماں/ اپنے باپ، کے دو نام
ایک گھیرا بنا کے کاٹ دیے
اور اس گول دائرے کے قریب
اپنا چھوٹا سا نام ٹانک دیا
میرے اٹھتے ہی، میرے بچے نے
پورے کاغذ کو لے کے پھاڑ دیا
یہاں کاغذ پھاڑنے کے ساتھ ساتھ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر کا دل بھی دو نیم ہوگیا ہے۔ یہی ہے وہ احساس کی لطافت جس میں شدت کی پھواریں ہیں اور یہی ہیں وہ پھواریں جو ندا کی شاعری کو ترفع (Sublimation) عطا کرتی ہیں۔
رشتوں کا تحفظ ہو یا اقدار انسانی کا، دونو ں انسانی معاشرے کے لیے اہم ہیں۔ سیاسی بازی گروں اور مذہبی ٹھیکے داروں نے بھی انسانی قدروں کو خراب و پامال کیا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سچے تخلیقی فنکار کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوتا ہے۔ ندا، خدا، سماج اور انسانی رشتوں پر کچھ اس طرح اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں:
کسی گھر کے کسی بجھتے ہوئے چولھے میں ڈھونڈ اُس کو
جو چوٹی اور داڑھی تک رہے وہ دین داری کیا
بندرابن کے کرشن کنہیا اللہ ہو
بنسی، رادھا، گیتا، گیّا اللہ ہوٗ
مولویوں کا سجدہ، پنڈت کی پوجا
مزدوروں کی ہیّا ہیّا اللہ ہوٗ
اتنی خونخوار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں
یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے
ندا فاضلی کے اس رویے کو مذہب مخالف نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس میں انسانی دردمندی اور عظمت آدم کو پس پشت ڈال کر مذہب کے نام پر لڑنے لڑانے والو ں کے لیے دور سے آتی ہوئی ایک کرن ہے۔ معاشرے کے تاریک سینے میں ندا نے ایک شمع روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہیں، یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ندا کی شاعری میں جہاں انسانی دردمندی کے نغمے ہیں وہیں بچوں کی معصومیت کے تحفظ کا گیت بھی ہے:
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہوجائیں گے
ہمیشہ مندر و مسجد میں وہ نہیں رہتا
سنا ہے بچوں میں چھپ کر وہ کھیلتا بھی نہیں
اسی طرح ان کی ایک مختصر سی نظم ’چھوٹی سی شاپنگ‘ ہے جس میں نہایت ہی سادگی کے ساتھ پانچ سال کی بچی کے لیے ایک گڑیا کی خریداری کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور پھر اس کی منظرکشی میں ندا نے جو تخلیقیت کے رنگ بھرے ہیں، اس سے وہ گڑیا رقص کناں ہوگئی ہے، ملاحظہ کیجیے:
گوٹے والی/ لال اوڑھنی/ اس پر/ چولی گھاگھرا
اسی سے میچنگ کرنے والا/چھوٹا سا اک ناگرا
چھوٹی سی!/ یہ شاپنگ تھی/ یا/ کوئی جادو ٹونا
لمبا چوڑا شہر اچانک/ بن کر ایک کھلونا
اتہاسوں کا جال توڑ کے
داڑھی، پگڑی، اونٹ چھوڑ کے
الف سے/ اماں/ بے سے/ بابا/ بیٹھا باج رہا تھا
پانچ سال کی بچی/ بن کر/ جے پور ناچ رہا تھا
دیکھیے کہ کس تخلیقی ہنرمندی کے سبب ’داڑھی پگڑی اور اونٹ‘ جو کہ جے پور (راجستھان) کی تہذیبی شناخت خلق کرتے ہیں ایک دم سے پانچ سال کی بچی کے لیے خریدی گئی گڑیا میں مبدل ہوکر ناچنے لگتے ہیں۔ یہ ان اشیا کی محض ظاہری تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس لطیف جذبے کی قلب ماہیت ہے جو شاعر کے دل میں اس بچی کے لیے پل رہا ہے۔ ندا نے رشتوں کے باطن میں اترنے اور انھیں محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی معصوم رشتہ جب گاؤں، گھر، خاندان کی طرف مراجعت کرتا ہے تو تخلیقی شعور کی کہکشاں آسمانِ شاعری پر یوں ابھرتی ہے:
میں برسوں بعد/ اپنے گھر کو تلاش کرتا ہوا
اپنے گھر پہنچا/ لیکن میرے گھر میں
اب میرا گھر نہیں تھا
اب میرے بھائی اجنبی عورتوں کے شوہر بن چکے تھے
میرے گھر میں/اب میری بہنیں
انجانے مردو ں کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھیں
اپنے اپنے دائروں میں تقسیم
میرے بھائی بہن کا پیار
اب صرف تحفوں کا لین دین بن چکا تھا
میں جب تک وہاں رہا
شیو کرنے کے بعد/برش، کریم، سیفٹی ریزر
خودد ھوکر اٹیچی میں رکھتا رہا/ میلے کپڑے
خود گن کر لانڈری میں دیتا رہا
اب میرے گھر میں وہ نہیں تھے
جو بہت سوں میں بٹ کر بھی
پورے کے پورے میرے تھے
جنھیں میری ہر کھوئی چیز کا پتہ یاد تھا
مجھے کافی دیر ہوگئی تھی/ دیر ہوجانے پر کھویا ہوا گھر
آسمان کا ستارہ بن جاتا ہے
جو دور سے بلاتا ہے/ لیکن پاس نہیں آتا ہے
(نظم: دور کا ستارہ)
اس نظم میں محض ’ندا‘ کا مشاہدہ یا نجی تجربہ نہیں بلکہ گھر خاندان کے افراد کا الگ الگ ہوکر زندگی گزارنا، بھائی بہنوں کی شادیاں ہونے کے بعد آنگن میں ’اجنبیت‘ کا آجانا، تحفے کا لین دین151 اس طرح دھیرے دھیرے قربتوں کا دوریوں میں بدل جانا سب کچھ شامل ہے۔ یہ بہت ہی سچا Landscape ہے جسے ندا فاضلی نے بنایا ہے۔
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ندا نے، اگر غلط نہیں، تو صرف رشتوں کی شاعری کی ہے۔ خاندانی افراد کے رشتوں کی، بہن بھائی اور ماں باپ کے رشتوں کی، پہاڑ اور چرند و پرند کے رشتوں کی یعنی مظاہر قدرت میں بھی وہ ایک طرح سے رشتوں کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ انھیں شاید رشتوں کی کہانی سنانے میں روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ایک ’نظم‘ جو کہ غزل کے فورم میں ہے ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ ندا نے ’ماں‘ کے روپ کو کس طرح پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے:
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسن چمٹا پھُکنی جیسی ماں
بانس کی کھرّی کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی، آدھی جاگی، تھکی دوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی
مرغی کی آواز سے کھُلتی گھر کی کنڈی جیسی ماں
بیوی، بیٹی، بہن، پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسّی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ، ماتھا، آنکھیں، جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ندا نے ماں پر پورا ایک ناول تحریر کردیا ہے۔ کتنی جہتیں ہیں۔ اردو شاعری میں ’ماں‘ کو طرح طرح سے عقیدتوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ غزل میں، نظم میں، لیکن فی الحقیقت ندا نے جس طرح کی نظم اور جس ڈکشن میں کہی ہے، میں نے ایسی نظم کہیں نہیں پڑھی۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایسی شاعری کا تجزیہ کرنے سے جذبہ و احساس کی لطافت ماند پڑجاتی ہے۔ آخر کے شعر میں تو ماں کے وجود کے بکھرنے یا یہ کہہ لیں کہ ماں کے اپنے وجود کو اپنی نئی نسل میں بانٹ کر خرچ کرکے مٹ جانے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ آپ ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح یہ شعر پورے Sensory Nerves میں سنسناہٹ پیدا کردیتا ہے:
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا، آنکھیں جانے کہاں گئیں
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
وارث علوی نے ندا پر لکھے گئے اپنے مضمون ’جدید شاعری کا معتبر نام۔ ندا فاضلی‘(مشمولہ ’ناخن کا قرض‘) میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ اقبال کی نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اچھی ہے مگر فلسفیانہ خیالات سے بوجھل ہے۔ پھر یہ لکھا ہے کہ:
’’میرے نزدیک اردو میں ’ماں’ کے موضوع پر صرف دو نظمیں یادگار رہیں گی۔ فراق کی نظم ’جگنو‘ اور ندا کی منقولہ بالا نظم۔‘‘ (ص 91)
حالانکہ ندا نے یہ نظم بغیر کسی عنوان کے کہی ہے اور غزل کی ہیئت میں کہی ہے۔ وارث علوی نے دو صفحات میں اسی نظم کے مختلف نقوش اور جہتوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ندا نے ایک ہندوستانی ماں کی تصویر ہندوستانی پس منظر میں خوبصورت لفظوں کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح ندا کی شاعری میں انسانی جذبوں کی سرشاری اور زندگی کی بالکل ہی سچی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انسانی زندگی اور انسانیت دونوں کو مستحکم کرنے والے جو بھی عوامل اور عناصر شاعری کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، ندا نے انھیں بہت ہی خوش اسلوبی سے استعمال کیے ہیں۔ پوری کائنات اور بالخصوص ہندوستانی زمین اور اس زمین پر تنے ہوئے نیلے شامیانے اور اس شامیانے میں جڑے ہوئے چاند سورج اور ستارے اور ان دونوں کے بیچ خلاؤں میں اڑتے ہوئے رنگ برنگ پرندوں کو ندا نے بہت ہی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ چاند، مانجھی، ندی، دریا، گوریا، پیپل کے پتے، برکھارُت، ساون، بھادوں، انگیٹھی، کٹیا، بگلوں کی ڈاریں، کٹورے سا تال، مٹکے کا پانی او ربھی ایسے نشانات و آیات جو ہماری ہندوستانی تہذیبی بساط کو خوب صورت بناتے ہیں، ندا نے انھیں اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ آپ ان الفاظ پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ بہت کم اُرد وکے شعرا ہیں جو ان کو اپنی شاعری میں جگہ دے پاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے، اپنی تہذیبی جڑوں سے دوری یا کم ازکم ان کی طرف توجہ کا فقدان۔ اگر یہاں الفاظ کے اچھے یا برے ہونے کی بحث چھیڑ دی جائے تو بات غیرضروری طور پر نظریاتی مباحث کی لیک پر چل نکلے گی اور ایسے میں ندا فاضلی کے شعری منشور سے چھن کر آنے والی ست رنگی شعاعوں سے ہمارے ذہن منور نہیں ہوسکیں گے، اس لیے اس بحث کو یہیں موقوف کیا جاتا ہے۔
اب تک جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی، ندا نے ان کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ شاعروں کا محبوب موضوع عشق بھی رہا ہے۔ عشقیہ مضامین اور ان کے ارتعاشات بھی ندا کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی نظم ’ایک ملاقات‘ دیکھیے:
نیم تلے دو جسم اجانے چم چم بہتا ندیا جل
اُڑی اُڑی چہرے کی رنگت کھلے کھلے زلفوں کے بل
دبی دبی کچھ گیلی سانسیں جھکے جھکے سے نین کنول
نام اس کا؟ دو نیلی آنکھیں
ذات اس کی؟ رستے کی رات
مذہب اس کا؟ بھیگا موسم
پتا؟ بہاروں کی برسات
نظم پڑھتے ہوئے آپ الفاظ و تراکیب میں قطعی نہیں الجھتے بلکہ اس کی روانی میں آپ بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ سچا جذبہ، سچا اور سیدھا اسلوب اظہار، یہی ہے ندا کی شاعری کا واضح نقش۔ فکری پیچیدگی سے پرے اور پیچیدہ اسلوب سے دور ندا کی شاعری الگ سے پہچانی جاسکتی ہے۔ ان کی شاعری میں عشق کا جذبہ کچھ یوں بھی اترتا ہے:
جب جب موسم جھوما ہم نے کپڑے پھاڑے شور کیا
ہر موسم شائستہ رہنا کوری دنیا داری ہے
ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے
محبت اک ضروری حادثہ ہے
تم سے چھُٹ کر بھی تمھیں بھولنا آسان نہ تھا
تم کو ہی یاد کیا تم کو بھلانے کے لیے
اکیلے کمرے میں گلدان بولتے کب ہیں
تمھارے ہونٹ ہیں شاید گلاب میں شامل
اب بھی یوں ملتے ہیں ہم سے پھول چنبیلی کے
جیسے اُن سے اپنا کوئی رشتہ لگتا ہے
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اُتر کیو ں نہیں جاتا
اور پھر ایک خوب صورت مشورہ کہ:
عشق کرکے دیکھیے اپنا تو یہ ہے تجربہ
گھر، محلہ، شہر، سب پہلے سے اچھا ہوگیا
اگر بغور دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ندا نے عشقیہ مضامین کو زیادہ وسعت نہیں دی ہے۔ چونکہ انھوں نے زندگی کے تلخ تجربے اور مشاہدے سمیٹے ہیں، ان کے گلے گلے دکھوں اور جدوجہد کا پانی آیا ہے، لہٰذا زمانے کے اندر اتر کر ان کی تخلیقی حسیت نے انھیں ایک ایسے شاعر کے روپ میں ابھارا ہے جو اپنے ہم عصروں میں مضامین اور اسالیب اظہار دونوں سطحوں پر الگ نظر آتا ہے۔
ایسے میں کبھی شان قلندری بھی پیداہوجاتی ہے او رکبھی زندگی کے مختلف اچھے برے نقوش بھی ابھرتے ہیں:
ہر اک آنگن میں دیواریں کھڑی ہیں
سبھی کے پاس کچھ پرچھائیاں ہیں
آنکھیں کہیں، نگاہ کہیں، دست و پا کہیں
کس سے کہیں کہ ڈھونڈو بہت کھو رہے ہم
رستوں کے نام وقت کے چہرے بدل گئے
اب کیا بتائیں کس کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
مسمار ہورہی ہیں دلوں کی عمارتیں
اللہ کے گھروں کی حفاظت نہیں رہی
خوشی منائیے آئینہ سامنے رکھ کر
خود اپنے کھونے کا ڈر بھی خیال میں رکھیے
او رپھر ندا ایک اُچٹتی سی نگاہ پوری کائنات پر ڈالتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں:
زمین پیروں تلے سر پہ آسماں کیوں ہے
جہاں جہاں جور کھا ہے وہاں وہاں کیوں ہے
بڑا شاعر، بڑا فنکار کائنات اور اشیائے کائنات پر سوالات قائم کرتا ہے۔ غالب کے یہاں تو اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لب بے سوال ہے
اسی طرح دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، والی پوری غزل سوالوں پر قائم ہے۔ اس غزل کے یہ اشعار:
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں 
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
اور دیوانِ غالب کی پہلی غزل کا مطلع ہی سوال قائم کرتا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
خیر، عرض یہ کرنا ہے کہ ندا فاضلی نے اس پوری کائنات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی بیشتر اشیا کو اپنے باطن میں اتارنے، سنوارنے اور پھر الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے نظموں اور غزلوں کو کم و بیش مساوی طور پر اپنی تخلیقات میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ایک خاص بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ ہے ان کا اپنی مٹی اور اس کی جڑوں سے پیار۔ بلکہ ایسا جیسے ان کے لہو میں اس دھرتی کا رنگ (Ochre) حلول کرگیا ہے۔ ان کے دوہے تو اس بات کی توثیق کرتے ہی ہیں، مفرس و معرّب الفاظ و تراکیب سے وہ تقریباً بچتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں صوفی سنتوں کے اقوال احساس کی حد تک اور ہندوستانی رنگ تنفس کی حد تک نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں Urban کردار کے بجائے ایک Rural اور دیہی کردار ابھرتا ہے اور اسی لیے انھوں نے اپنے کلیات کو بھی ’شہر میں گاؤں‘ سے موسوم کیا ہے۔ آخر میں یہ شعر ملاحظہ کیجیے جو میرے خیال سے ندا فاضلی کی شعری اساس تک پہنچنے کا راستہ دیتا ہے:
کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے
رنگ اڑائے، پھول کھلائے، چڑیوں کو آزاد کیا

Prof. Kausar Mazhari, 
Dept. of Urdu,
 Jamia Millia Islamia,
 New Delhi - 110025
Mob.: 9818718524
Email.kausmaz@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

م ناگ: کتاب جو پھٹی رہ گئی مضمون نگار: فرحان حنیف وارثی




م ناگ: کتاب جو پھٹی رہ گئی
فرحان حنیف وارثی
م ناگ کو میں پچھلے بائیس تئیس برسوں سے جانتا تھا۔ ان کی کہانیاں مجھے پسند تھیں۔ محض اس لیے نہیں کہ ان کا طرز تحریر اوروں سے ایک حد تک جداگانہ تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ عورت اور اس کے جسمانی حسن کو اتنی ہنرمندی سے لفظوں کے ساتھ گوندھتے تھے کہ قاری کہانیاں پڑھتے وقت اپنے اندرون میں ایک مقناطیسی کشش کا احساس کرتا تھا۔ گویا الٹے توے پر کوئی روٹی پکا رہا ہو۔ ڈاکو طے کریں گے، غلط پتہ اور ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ میں ایسی کئی کہانیاں قاری کو پڑھنے کے لیے مل جاتی ہیں۔ م ناگ نے گفتگو کے دوران ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’یہ قاری کے اپنے تاثرات ہیں، ورنہ میرا موضوع سیکس نہیں ہے۔ یعنی میں ڈائریکٹ سیکس کی بات نہیں کرتا۔ میں انسان کے بدلتے رشتوں پر لکھتا ہوں اور اس بنت کے دوران سیکس میرے اسلوب میں خود بخود شامل ہوجاتا ہے۔ میں نے دانستہ طور سے سیکس کو اپنی کہانی کا حصہ بنانے کی کبھی سعی نہیں کی۔ میری جن کہانیوں میں سیکس نہیں ہے وہاں شاید اس کی ضرورت نہیں رہی ہوگی۔‘‘
م ناگ نے ایک دفعہ اپنے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں بتایا تھا ’’ناگپور میں میرے والد صاحب پولیس انسپکٹر تھے۔ اسماعیل علی نام تھا ان کا۔ میں نے میونسپل کارپوریشن کے ایک اسکول میں چوتھی اور لشکری باغ کے قدوائی ہائی اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں صدر نامی علاقہ کے انجمن اسلام ہائی اسکول سے میٹرک (گیارھویں) کیا۔ ماریس کالج سے بی اے پارٹ وَن تک ہی پڑھ سکا اور بدلتے وقت نے مجھے چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے مجبور کردیا۔ ہمارا گھر پولیس لائن کے پاس پانچ باؤلی میں تھا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اور سب سے ناکام بھی کیونکہ اس دنیا میں وہی کامیاب کہلاتا ہے جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ میرے پاس تو افسانے ہیں، مضامین ہیں، خبریں ہیں، انھیں بیچ کر آج میں پیسے کی بجائے صرف روٹی کما رہا ہوں اور وہ بھی صرف آدھی۔‘‘
م ناگ کے گھر کا ماحول ادبی نہ تھا۔ والد صاحب نے غالب اور اقبال کو پڑھا تھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ادب کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بالکل دوست کی طرح بے تکلف تھے۔ م ناگ کا پہلا افسانہ ’بابا کی چھبیسویں‘ تھا۔ یہ افسانہ کامٹی کے ’تاج‘ نامی ہفت روزہ میں شائع ہوا تھا۔ م ناگ افسانے کی اشاعت پر بے حد خوش تھے اور اپنے دوستوں کو اخبار کی کاپی دکھاتے پھررہے تھے۔ ان کے والد صاحب نے بھی یہ افسانہ پڑھا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ میٹرک تک آتے آتے م ناگ کی کہانیاں ہفت روزہ تاج، شاخیں، مورچہ، برگ آوارہ، آب و رنگ، شمع، روبی اور بیسویں صدی میں شائع ہوچکی تھیں۔ م ناگ نے مجھ سے کہا تھا ’’مجھے یاد ہے کہ لکھنؤ کے ’کتاب‘ نامی میگزین میں میری کہانی ’بارود‘ چھپی تھی لیکن میرے پاس اس دور کی کہانیوں کی فائل موجود نہیں ہے۔ میں ایک افسانہ نگار بننے کے مراحل سے گزررہا تھا اور دوسری طرف روزی روٹی کے جگاڑ میں پریشان تھا۔ والد صاحب ریٹائرڈ ہوچکے تھے اور کچھ سال بابا تاج الدین اولیاؒ کی عرس کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے جہاں میرے تمام بھائیوں اور جان پہچان والو ں کے بچوں کو ذریعہ معاش سے جوڑنے میں کامیابی حاصل کی تھی وہیں وہ مجھے روزگار سے وابستہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انھیں اس ناکامی کا زندگی بھر ملال رہا۔‘‘
م ناگ نے ممبئی آنے سے پہلے کپڑے کی مل میں ملازمت کی۔ پانی کے ٹینکر میں بحیثیت کلینر وقت گزارا۔ کھاپر کھیڑا کے پاور ہاؤس میں کام کیا۔ وہاں پانی کا ڈریم بن رہا تھا اور ان کی ذمے داری ٹرک کے پھیروں کا ریکارڈ رکھنا تھی۔ اسی دوران ان کی فیملی ناگپور سے گوندیا منتقل ہوگئی۔ انھوں نے ایک روز والد صاحب سے ممبئی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ پہلے تو والد صاحب نے مخالفت کی، پھر راضی ہوگئے۔ اس طرح 34 روپے کا ٹکٹ اور آنکھوں میں خواب لے کر وہ ناگپور سے دادر آگئے۔
م ناگ نے مجھ سے کہا تھا ’’یہ شہر میرے لیے اجنبی تھا۔ صرف سلام بن رزاق سے خط و کتابت تھی۔ کسی رسالے میں میری اور ان کی کہانی ساتھ میں چھپی تھی اور اس طرح ایک تعلق بن گیاتھا۔ چمبور ناکہ پر ایک بیگرس ہوم تھا جہاں پولیس بھیک مانگنے والوں کو لاکر بندکردیتی تھی۔ ناگپور میں میرا ایک دوست تھا جس کا بہنوئی وہاں ملازم تھا۔ میں نے مہینے بھر اس بیگرس ہوم میں ان کے یہاں قیام کیا۔ انھوں نے آگے بتایا تھا ’’یہ 1975 کی بات ہے۔ مجھے ورانڈے میں سونے کی جگہ مل گئی تھی۔ وہیں سوتا اور ان کے راشن میں مفت میں حصہ داری کرتا۔ دوست کے جیجا جی لیبر افسر تھے اور ان کی بیوی بالکل سائرہ بانو کی طرح تھی۔ وہ آکاش وانی پر مراٹھی سگم سنگیت گاتی تھی۔ ویسے ہر ہفتے سائرہ بانو مجھے علامتی انداز میں آٹے اور دال کے خالی ڈبے دکھایا کرتی تھی۔ میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی چپ تھا کیونکہ ٹھونک بجا کر دیکھ چکا تھا کہ ناگپور کے سارے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ میں ورانڈے میں سوتا، رات بھر دنیا جہاں کی سیر کرتا لیکن صبح اٹھتا ورانڈے سے۔ ورانڈے سے لگا ہوا ان کا بیڈ روم تھا۔ وہ لوگ کھڑکی بھی بند نہیں کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی دو بچو ں کو لے کر مچھر دانی میں سوجاتے اور ان کی ننگی آوازیں مچھر مارتے ہوئے میں سنتا رہتا۔ پچ پچ، گھپ گھپ، چک چک، ہنسی، کھینچا تانی،دھک دھک، بوس و کنار، آوازوں کی بارش مجھ پر ہوتی اور میں اندر باہر سے بھیگتا رہتا۔ مچھر مجھے تنگ کرتے، لیکن میں بھاگا نہیں، کفن باندھ کرآیا تھا، صرف سر پر نہیں، ہر جگہ کفن۔‘‘
م ناگ روزانہ چمبور سے کرلا جاتے اور اسٹیشن کے پاس سنسار ہوٹل میں سلام بن رزاق، ابراہیم نذیر، مقدر حمید اور شعلہ صاحب کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھار ندا فاضلی بھی آجاتے۔ ادب پر گفتگوہوتی۔ انھوں نے بتایا تھا ’’اس دوران ایک بار میاں بیوی نے مجھ سے کہا کہ ہم جیجوری کے کھنڈوبا کے درشن کو جارہے ہیں۔ میں نے سوچا یہ مجھے بھگانے کا داؤ ہے۔ میں نے کہا جائیے۔ دو دن مجھے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سونا پڑا۔ کتا میرا منھ چاٹ کر گیا، میں کیا کرتا۔‘‘ سگریٹ سلگاتے ہوئے انھوں نے آگے بتایا تھا ’’کرلا گیا تو یہ واقعہ سلام بن رزاق سے بتایا۔ انھوں نے تقریباً دو ہفتوں بعد اپنے دوست انور قمر سے ملایا۔ انور قمر نے کہا ’’’کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔ میں نے اطمینان کی سانس لی اور اپنے خدا کا شکریہ ادا کیا۔ لگاتار چمبور سے سنسار ہوٹل (کرلا) جاتا رہا۔ سنسار ہوٹل میں دھوئیں کے مرغولے میں چائے پیتا رہتا اور چائے والا کھڑکھڑکی آواز سے ساسر بجاتا رہتا۔ پیسے تیزی سے ختم ہورہے تھے۔‘‘ م ناگ نے آگے کہا تھا ’’بالکل۔ پیسے نہ ہوں تو ادھار مانگنے کی ہمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ادھار مانگنے کی لت پڑتی ہے تو آدمی ڈھیٹ بن جاتا ہے۔ ایک بار اورنگ آباد میں پیسے ختم ہوگئے۔ میں نے دوست سے پوچھا ’’سنا ہے جوگندر پال یہاں کسی کالج میں پرنسپل ہیں‘‘ وہ بولا ’’ہاں! تو کیا تم ان سے پیسے مانگو گے؟‘‘ میں نے کہا ’’کیوں نہیں، ادھار مانگیں گے، وہ پرنسپل ہیں اور اوپر سے افسانہ نگار، ایک افسانہ نگار کو کیا دوسرا افسانہ نگار اُدھار نہیں دے گا۔‘‘
م ناگ کبھی مختار ناگپوری ہوا کرتے تھے، پھر چند دنوں کے لیے مختار سید بن گئے۔ مختار سید کے نام سے چند کہانیاں شائع ہوچکی تھیں۔ ناگپور کی سرزمین پر 1966 میں پہلی مرتبہ جدید شاعروں کا ایک مشاعرہ برپا کیا گیا تھا جس میں ممتاز راشد، ندا فاضلی، صادق، عتیق اللہ، شاہد کبیر، عبدالرحیم نشتر، مدحت الاختر، ظفر کلیم اور ضیاء انصاری وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کچھ ایسے رائٹرز رسائل میں چھپ رہے تھے جن کے نام کچھ ہٹ کے تھے۔ گلبرگہ کے بشیر باگ اور میسور کے اکرام باگ۔ م ناگ کو دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم بھی اپنا نام تبدیل کرلو، کیونکہ تمھارے لکھنے کا انداز بھی دوسروں سے مختلف ہے لہٰذا نام بھی منفرد ہونا چاہیے۔ سب نے اپنے اپنے طور سے نام سجھائے اور آخرکار مختا رکے ’م‘ اور ناگپوری کے ’ناگ‘ کو مخفف کرکے انھیں م ناگ بنا دیا گیا۔
م ناگ میں ’میم‘ اور ’ناگ‘ والی خوبیاں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی تھیں۔ وہ زیادہ تر چپ رہتے تھے لیکن چشمے کے کواڑوں سے ان کی بڑی بڑی آنکھیں سب کچھ بھانپ لیتی تھیں۔ ہر ناانصافی برداشت کرلیتے تھے اور سگریٹ کے دھوئیں میں غموں کو اڑا دیتے تھے۔ کسی کو ڈستے بھی نہیں۔ البتہ دوسروں نے انھیں ضرور ڈسا تھا۔ م ناگ کے دوسرے مجموعے’غلط پتہ‘ میں ساجد رشید نے لکھا تھا ’’م ناگ مجھے اپنے معاصر افسانہ نگار وں میں کئی معنوں میں مختلف نظر آتے ہیں، اتنے مختلف کہ ان کے افسانوی اسلوب کا موازنہ ان کے کسی ہمعصر سے تو کجا ان کے کسی پیش رو سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود وہ نظرانداز کیے گئے۔ یہ حیران کن واقعہ ہے اور افسوس ناک بھی۔ اس کی دو بڑی وجہیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ انھوں نے تواتر سے افسانے نہیں لکھے، دوسری وجہ ان کا قلندرانہ مزاج ہے جس میں ان کی بے ترتیب زندگی اور لاپرواہی کا بڑا دخل ہے۔ انھیں اپنے ہونے کا کبھی احساس بھی نہیں رہا۔‘‘ یہ ایک سچائی ہے جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں م ناگ کی اس بے نیازی کے قصور وار وہ نام نہاد نقاد اور مضمون نگار ہیں جو اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں کی فہرست کسی افسانہ نگار کے فن اور طرز تحریر کی بجائے چمچہ گیری سے خوش ہوکر تیار کرتے ہیں۔ م ناگ نے گوا میں قیام کے دوران نظمیں بھی کہی تھیں۔ ان کی کہانیوں کی طرح ان کی نظموں میں بھی جنس کی خوشبو موجود تھی۔ انھوں نے کئی نظمیں مجھے سنائی تھیں جس میں ایک نظم ’ایش ٹرے‘ بھی تھی۔ کرشن چندر، منٹو اور بیدی ان کے من پسند افسانہ نگار تھے۔ ممبئی کے افسانہ نویسوں میں انھیں سلام بن رزاق، انور قمر، ساجد رشید اور علی امام نقوی پسند تھے جبکہ نئے افسانہ نگاروں میں انھیں مظہر سلیم، اشتیاق سعید اور رحمان عباس کے یہاں اسپارک نظر آتا تھا۔ کچھ ٹھہر کے انھوں نے کہا تھا ’’دوستوں میں مجھے عارف خورشید اور نورالحسنین بھی پسند ہیں۔‘‘
م ناگ کی شخصیت اور ان کی کتابوں کی روشنی میں ندا فاضلی نے لکھا تھا ’’اردو کے افسانہ نگاروں میں م ناگ کا نام اس لیے اہم ہے کہ وہ موضوعات کے انتخاب کے ساتھ اپنی لفظیات سے بھی قارئین میں پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ سلام بن رزاق نے ایک جگہ لکھا تھا ’’سیکس پر لکھنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ ذرا چوکے اور فحاشی کے دلدل میں گرے، مگر م ناگ اس راستے سے خراماں خراماں یوں گزر جاتے ہیں جیسے کسی باغ کی روش سے گزر رہے ہوں۔‘‘ انور خان نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’’م ناگ کے افسانے میں طنز تو ہوتا ہی ہے اور ان کا ٹریٹ بھی بہت عمدہ ہے۔‘‘ میرے پوچھنے پر انھوں نے کہا تھا ’’فنی اعتبار سے کسی تبدیلی کا اندازہ ناقد ہی لگا سکتے ہیں جہاں تک میری بات ہے میں نے کسی طرح کی تبدیلی محسوس نہیں کی۔ جنس کا موضوع میری پہلی کتاب میں بھی تھا اور اس کتاب میں بھی ہے۔‘‘ انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’پریم چند آخر تک یہ کہتے رہے کہ ابھی میری شاہکار کہانی تخلیق نہیں ہوئی۔ اس طرح میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ابھی جو لکھ رہا ہوں آگے اس سے بہتر لکھوں گا یا نہیں۔‘‘ وہ کرشن چندر کو جادوئی اسٹائل کے کہانی کار سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ’’ان کے واقعات سننے کا ڈھنگ مجھے بھاتا تھا۔ منٹو کے یہاں جو جنسی لفظیات اور سفاک حقیقت ملتی ہے اس کا جواب نہیں۔‘‘
م ناگ نے ابن صفی کے ناول پڑھ کر اردو سیکھی تھی۔ موصوف کے مطابق ’’میں نے ابن صفی کے ناول پڑھ کر اردو سیکھی۔ یہ سیکھا کہ اردو کی نثر کس طرح لکھنا چاہیے۔ ناگپور مومن پورہ میں ایک لائبریری تھی جہاں میں نے کئی نایاب کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ آج کل لائبریری دکھائی نہیں دیتی اور اگر کہیں لائبریری ہے تو پڑھنے والے نہیں ہیں۔ بہرحال لائبریری کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔‘‘ م ناگ طویل صحافتی تجربہ بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے ودربھ نامہ، روزنامہ اردو ٹائمز، روزنامہ صحافت، روزنامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ (تعمیر (بیٹر) کے علاوہ ہندی اخبار ’جن ستہ‘ کے لیے بھی کام کیا تھا۔ روزنامہ ہندوستان، ہفت روزہ بلٹز، ہفت روزہ مسلم ٹائمز، روزنامہ انقلاب اور کئی دیگر اخبارات سے بھی کسی نہ کسی طور وابستگی رہی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔
م ناگ نے ایک طویل انٹرویو کے دوران مجھ سے کہا تھا ’’جہاں تک میرا خیال ہے، میں سمجھتا ہوں، تخلیق کار کے اندر سادگی، یقین، صداقت اور صبر کا مادہ ہی اس کی نجات کا راستہ ہے۔ زندگی میری استاد رہی ہے اور افسانہ میرے لیے ڈھال بنا ہے۔ زندگی میں جو کچھ بھی ختم ہوتا جارہا ہے ادب ا س کی آخری پناہ گاہ ہے اور میرا یقین ہے کہ زندگی کے اسرار و رموز اور بھول بھلیوں کو سمجھنے کے لیے ادب سے بڑی کوئی کلید نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے ’غلط پتہ‘ کے بیک فلیپ پر لکھا تھا ’’ممبئی ایک چوہا دان ہے جس میں روٹی کا ٹکڑا پھنسا ہے۔ یہ شہر للچاتا ہے۔ رات میں خواب دکھاتا ہے اور صبح اپنی راہیں تعبیریں ڈھونڈنے کے لیے کھول دیتا ہے۔ میں بھی للچایا، مگر جیسے ہی روٹی پانے اندر گیا، ساری دنیا باہر رہ گئی۔ بس پھر کیا تھا، تیسری گھنٹی بجی، پردہ اٹھا اور کھیل شروع ہوگیا۔ ممبئی سے پھر کہیں جانا ممکن نہ تھا، کیونکہ سڑک واپس نہیں جاتی تھی۔‘‘
م ناگ نے اس شہر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ یکم جولائی 1950 کو ناگپور میں جنم لینے والے اردو کے اس منفرد افسانہ نگار نے 21 اکتوبر 2016 کی شام بوریولی میں واقع اپنی کٹیا نما رہائش گاہ میں آخری سانس لی۔ افسوس کہ یہ گھر بھی ان کا اپنا نہیں تھا۔ ان کی موت نے ہر کس و ناکس کو غمزدہ کردیا۔ اسی شام انھیں ہندوستانی پرچار سبھا میں افسانہ سنانا تھا اور علالت کی وجہ سے انھوں نے اطہر عزیز کو اپنا افسانہ بھیج دیا تھا۔ شام ساڑھے چار بجے جس وقت ان کی روح جسم کا ساتھ چھوڑرہی تھی ٹھیک اسی وقت اطہر عزیز ان کا افسانہ پڑھ رہے تھے۔ گویا افسانہ موت کے وقت بھی ان کے ساتھ رہا اور ساتھ ہی گیا۔ اپنے تیسرے مجموعے ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ کی طرح وہ ساری زندگی چوتھی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ نہ تیسرا مسافر اٹھا اور نہ ہی انھیں بیٹھنے کے لیے پوری سیٹ ملی۔ ادبی رسالہ ’نیا ورق‘ میں ان کا سوانحی ناول ’دکھی من میرے‘ قسط وار شائع ہورہا تھا جواب نامکمل رہ گیا۔ انھوں نے افسانوں کے چوتھے مجموعے کا ٹائٹل ’پھٹی کتاب‘ طے کیا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ کتاب بھی پھٹی رہ گئی۔

Farhan Hanif Warsi 
Post Box No.: 4546,
 Mumbai Central Post Office
Mumbai - 400008 (MS)


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


’یہ کس مقام پہ تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ کا خالق اقبال مہدی مضمون نگار: نگار عظیم




’یہ کس مقام پہ تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ کا خالق

اقبال مہدی

نگار عظیم


2016 اردو دنیا کے لیے بہت خسارے کا سال رہا۔ اف! کیسی کیسی نامور، دانشور اور فعال ہستیاں ایک کے بعد ایک رخصت ہوتی چلی گئیں۔ انتظار حسین، زبیر رضوی، عابد سہیل، ندا فاضلی، جوگندرپال، شکیل الرحمن.. پوری ستاروں کی ایک کہکشاں آسمان کی وسعتوں میں کہیں کھوگئی۔ گزرنے اور بچھڑنے کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ چپکے سے اگلی نسل کی طرف منتقل ہوگیا۔ اپنے بزرگوں کے چلے جانے پر جس یتیمی کے احساس سے دوچار ہونا پڑا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ بزرگوں کے بعد ہمصروں کے جانے کی ابتدا اسی طرح اتنی تیزی سے ہوگی وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پیغام آفاقی دیکھتے ہی دیکھتے ایک تارہ بن کر کہیں گم ہوگئے اور سب ہکا بکا رہ گئے اور اب اقبال مہدی... زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے... اقبال مہدی کا پورا نام زبان پر آتے ہی خاموش متین، مسکین ، ہم نوا، غم نوا، سنجیدگی کا پیکر ایک ایسا چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے جسے دیکھ کر احساس ہوتا کہ زمانے بھر کا درد و غم ان کے انگ انگ سے رِس رہا ہو۔ معلوم نہیں ایسا کیوں تھا ان کی مسکراہٹ بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی تھی۔ میرے دل کی بے چینی ایک دن زبان بن گئی ’’لگتا ہے صغریٰ آپا کے رعب دبدبے اور خوف نے آپ کو کھلنے ہی نہیں دیا۔‘‘ ایک لمحہ کو چہرہ کھلا، مسکراہٹ نمودار ہوئی اور دوسرے ہی پل اندر کہیں وجود کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ تپاک سے بولے جس پر پڑتی ہے بس وہی جان سکتا ہے یہ تو خیر ایک مذاق تھا لیکن یہ ضرورہے کہ اقبال مہدی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت دیر سے پہچانے اور وہ بھی صغریٰ آپا کی بدولت۔
ادبی خانوادے کے دو بڑے نام صالحہ عابد حسین اور صغریٰ مہدی کے بعد تیسرا نام اقبال مہدی کا آتا ہے۔ 1999 میں پہلا افسانوی مجموعہ ’درد آتا ہے دبے پاؤں‘ منظر عام پر آتا ہے تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اقبال مہدی کے چہرے پر درد کی لکیریں یوں ہی نظر نہیں آتی تھیں۔ اقبال مہدی قلمکاروں کے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں قلمکار غم کھاتا ہے، درد سہتا ہے اور زہر پیتا ہے۔
بایوکیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنے کام اور فیلڈ میں ماسٹر ہونے کے بعد کوئی کیونکر آرٹسٹ اور رائٹر بن جاتا ہے؟ ظاہر ہے سماجی سیاسی اقتصادی ناہمواریاں جب ناقابل برداشت ہوجائیں اور دل پارہ پارہ ہونے لگے تو اظہار کے وسیلے تلاش کرنا انسان کی ضرورت بھی ہے، فطرت بھی اور کمزوری بھی۔ اقبال مہدی آرٹسٹ بھی بنے اور قلمکار بھی۔ انسانی رشتوں کی کچی ہوتی ٹوٹتی ڈور، بدلتی تہذیب میں اخلاقیات کا پیچھے چھوٹنا، مشترکہ خاندانوں کا بکھراؤ اور سیاست کا مکروہ چہرہ زمیندارانہ نظام کے اثرات جب حساس ذہن کو گرفت میں لے لیتے ہیں تو اقبال مہدی جیسے افسانہ نگار قلم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گھر کے ملازم سے لے کر عالمی سیاست تک اقبال مہدی کی رسائی ہے۔ تقریباً تین دہائی کی قلیل مدت میں چار افسانوی مجموعے اردو دنیا کو دیے یہ معمولی بات نہیں۔ ’درد آتا ہے دبے پاؤں‘ کے بعد ’تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے‘ اور پھر ’تم نے جفا بھی کی تو صنم مدتو ں کے بعد‘ ان کا آخری مجموعہ ’یہ کس مقام پر تنہائی سونپتے ہو مجھے‘ 2013 میں منظرعام پر آیا۔ یہ آخری مجموعہ ان کے پچھلے تینوں افسانوی مجموعوں سے ذرا منفرد اور زیادہ حساس ہے۔ دو اہم مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر اور صغریٰ مہدی کے قلمی چہرے افسانوی انداز میں پیش کیے تو مجھے منٹو کے ’گنجے فرشتے‘ یاد آگئے۔ کیونکہ انھوں نے منٹو کی ہی طرح دونوں شخصیات کا بڑے سلیقے سے مونڈن کیا ہے۔ یہ دونوں مضمون اقبال مہدی کا فنِ عروج ہیں۔ 
اقبال مہدی کی افسانوی کائنات بھی بڑی منفرد ہے۔ افسانوی مجموعوں کے عنوانات ہی اس قدر فکر انگیز ہیں کہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور پھر مجموعوں میں شامل افسانوں کے عنوان بھی توجہ طلب ہیں۔ یہاں ان کے افسانوں کے موضوعات پر یا کرداروں پر تبصرہ و تنقید کی گنجائش نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان جیسے لب و لہجے کی، زبان اور محاوروں کی نثر اب لکھنے والا کوئی نہیں... کوئی بھی نہیں۔ ایک طرف چاشنی ہے تو دوسری طرف تیر و طنز، شگفتگی اور احتجاج... موقع محل کے حساب سے وہ اپنی زبان دانی کے ہنر کو خوب کام میں لائے ہیں۔ افسانہ قرأت کرنے کا انداز بھی بڑا مؤثر منفرد اور واضح ہوتا تھا۔ اسی طرح انھوں نے رنگو ں کے کھیل سے بھی جادو جگایا ہے۔ شاید بہت کم حضرات واقف ہوں گے کہ اقبال مہدی ایک اچھے آرٹسٹ بھی تھے ان کے آرٹ کے کئی بہترین نمونے ان کے گھر کی زینت ہیں۔ باغبانی کے انتہائی شوقین جب بھی گھر جائیے خالی اوقات میں ذہن کو تازہ کرنے کے لیے وہ کھرپی کا استعمال قلم کی ہی طرح کرتے تھے151 اس کے نتائج بھی ان کے سرسبز و شاداب پیڑ پودوں اور پھولوں میں نظر آتے ہیں۔ یادیں باتیں اور ملاقاتیں تو بہت ہیں لیکن آخری دو ملاقاتیں ذہن کے پردے سے ہٹتی ہی نہیں۔ میرے غریب خانے پر میرے ساتھ فرش پر بیٹھ کر حلیم کھاتے ہوئے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے ’’بالکل آپا کی طرح ڈانٹ کر کھلاتی ہیں آپ اور وہ بھی حلیم جو مجھے اور انھیں بہت پسند تھا‘‘ یہ کہہ کر وہ آبدیدہ ہوگئے تھے اور مجھے بھی کردیا تھا۔ ہم دونوں ہی اپنے آنسو پی گئے تھے یقیناًاس میں صغریٰ آپا کی یاد اور میرے لیے محبت شامل تھی۔ دوسری ملاقات اس کے تقریباً کچھ ماہ بعد اور انتقال سے ڈیڑھ دو مال قبل بٹلہ ہاؤس قبرستان کے پاس وہ بھی کچھ خریداری کررہے تھے اور میں بھی۔ لیکن ہم دونوں بیمار تھے۔ ہم حکیم کی طرح وہ مجھے ہدایتیں دے رہے تھے اور میں انھیں۔ اگلی ملاقات کا وعدہ کرکے ہم دونوں رخصت ہوئے تھے لیکن وہ اگلی ملاقات... آہ... بس انتظار ہی بنی رہی151
پیڑ پودوں پھولوں قدرت اور مخلوق سے محبت کرنے والے انسان بہت نرم دل حساس اور حددرجہ خوددار ہوتے ہیں۔ یہی نرم گفتاری اور خودداری اقبال مہدی کا خاصہ تھی، جو مجھ جیسے ان کے بہت سے دوستوں کو یاد آتی رہے گی۔وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھے گا ادب اور تنقید اپنی رفتار سے۔ اقبال مہدی کا اردو ادب کے لیے جو بھی سرمایہ ہے وہ یقیناًقیمتی سرمایے میں شامل ہوگا اور ان کے فن اور شخصیت پر مزید گفتگو ہوتی رہے گی.. محروم تو ہم ہوئے ہیں نہ ہم نوالہ رہا نہ ہم پیالہ... ہم ایک ایسے انسان سے محروم ہوئے ہیں جس کا لفظِ مخاطب بھنّو اور بی بی ہوتا تھا... زندگی میں قدم قدم پر ساتھ نبھانے والی ان کی شریک حیات ’شمع قبلہ‘ کو خدا ہمیشہ روشن رکھے کہ اب وہی ان کی دو پیاری بیٹیو ں کے مستقبل کا چراغ ہیں151 بھلے ہی وہ ان کو ایسے وقت تنہائی سونپ گئے جب انھیں ان کی بے حد ضرور ت تھی151

Nigar Azeem, 
H-3, Batla House, 
Jamia Nagar, Okhla,
 New Delhi - 110025

ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے