23/4/19

م ناگ: کتاب جو پھٹی رہ گئی مضمون نگار: فرحان حنیف وارثی




م ناگ: کتاب جو پھٹی رہ گئی
فرحان حنیف وارثی
م ناگ کو میں پچھلے بائیس تئیس برسوں سے جانتا تھا۔ ان کی کہانیاں مجھے پسند تھیں۔ محض اس لیے نہیں کہ ان کا طرز تحریر اوروں سے ایک حد تک جداگانہ تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ عورت اور اس کے جسمانی حسن کو اتنی ہنرمندی سے لفظوں کے ساتھ گوندھتے تھے کہ قاری کہانیاں پڑھتے وقت اپنے اندرون میں ایک مقناطیسی کشش کا احساس کرتا تھا۔ گویا الٹے توے پر کوئی روٹی پکا رہا ہو۔ ڈاکو طے کریں گے، غلط پتہ اور ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ میں ایسی کئی کہانیاں قاری کو پڑھنے کے لیے مل جاتی ہیں۔ م ناگ نے گفتگو کے دوران ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’یہ قاری کے اپنے تاثرات ہیں، ورنہ میرا موضوع سیکس نہیں ہے۔ یعنی میں ڈائریکٹ سیکس کی بات نہیں کرتا۔ میں انسان کے بدلتے رشتوں پر لکھتا ہوں اور اس بنت کے دوران سیکس میرے اسلوب میں خود بخود شامل ہوجاتا ہے۔ میں نے دانستہ طور سے سیکس کو اپنی کہانی کا حصہ بنانے کی کبھی سعی نہیں کی۔ میری جن کہانیوں میں سیکس نہیں ہے وہاں شاید اس کی ضرورت نہیں رہی ہوگی۔‘‘
م ناگ نے ایک دفعہ اپنے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں بتایا تھا ’’ناگپور میں میرے والد صاحب پولیس انسپکٹر تھے۔ اسماعیل علی نام تھا ان کا۔ میں نے میونسپل کارپوریشن کے ایک اسکول میں چوتھی اور لشکری باغ کے قدوائی ہائی اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں صدر نامی علاقہ کے انجمن اسلام ہائی اسکول سے میٹرک (گیارھویں) کیا۔ ماریس کالج سے بی اے پارٹ وَن تک ہی پڑھ سکا اور بدلتے وقت نے مجھے چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے مجبور کردیا۔ ہمارا گھر پولیس لائن کے پاس پانچ باؤلی میں تھا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اور سب سے ناکام بھی کیونکہ اس دنیا میں وہی کامیاب کہلاتا ہے جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ میرے پاس تو افسانے ہیں، مضامین ہیں، خبریں ہیں، انھیں بیچ کر آج میں پیسے کی بجائے صرف روٹی کما رہا ہوں اور وہ بھی صرف آدھی۔‘‘
م ناگ کے گھر کا ماحول ادبی نہ تھا۔ والد صاحب نے غالب اور اقبال کو پڑھا تھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ادب کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بالکل دوست کی طرح بے تکلف تھے۔ م ناگ کا پہلا افسانہ ’بابا کی چھبیسویں‘ تھا۔ یہ افسانہ کامٹی کے ’تاج‘ نامی ہفت روزہ میں شائع ہوا تھا۔ م ناگ افسانے کی اشاعت پر بے حد خوش تھے اور اپنے دوستوں کو اخبار کی کاپی دکھاتے پھررہے تھے۔ ان کے والد صاحب نے بھی یہ افسانہ پڑھا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ میٹرک تک آتے آتے م ناگ کی کہانیاں ہفت روزہ تاج، شاخیں، مورچہ، برگ آوارہ، آب و رنگ، شمع، روبی اور بیسویں صدی میں شائع ہوچکی تھیں۔ م ناگ نے مجھ سے کہا تھا ’’مجھے یاد ہے کہ لکھنؤ کے ’کتاب‘ نامی میگزین میں میری کہانی ’بارود‘ چھپی تھی لیکن میرے پاس اس دور کی کہانیوں کی فائل موجود نہیں ہے۔ میں ایک افسانہ نگار بننے کے مراحل سے گزررہا تھا اور دوسری طرف روزی روٹی کے جگاڑ میں پریشان تھا۔ والد صاحب ریٹائرڈ ہوچکے تھے اور کچھ سال بابا تاج الدین اولیاؒ کی عرس کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے جہاں میرے تمام بھائیوں اور جان پہچان والو ں کے بچوں کو ذریعہ معاش سے جوڑنے میں کامیابی حاصل کی تھی وہیں وہ مجھے روزگار سے وابستہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انھیں اس ناکامی کا زندگی بھر ملال رہا۔‘‘
م ناگ نے ممبئی آنے سے پہلے کپڑے کی مل میں ملازمت کی۔ پانی کے ٹینکر میں بحیثیت کلینر وقت گزارا۔ کھاپر کھیڑا کے پاور ہاؤس میں کام کیا۔ وہاں پانی کا ڈریم بن رہا تھا اور ان کی ذمے داری ٹرک کے پھیروں کا ریکارڈ رکھنا تھی۔ اسی دوران ان کی فیملی ناگپور سے گوندیا منتقل ہوگئی۔ انھوں نے ایک روز والد صاحب سے ممبئی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ پہلے تو والد صاحب نے مخالفت کی، پھر راضی ہوگئے۔ اس طرح 34 روپے کا ٹکٹ اور آنکھوں میں خواب لے کر وہ ناگپور سے دادر آگئے۔
م ناگ نے مجھ سے کہا تھا ’’یہ شہر میرے لیے اجنبی تھا۔ صرف سلام بن رزاق سے خط و کتابت تھی۔ کسی رسالے میں میری اور ان کی کہانی ساتھ میں چھپی تھی اور اس طرح ایک تعلق بن گیاتھا۔ چمبور ناکہ پر ایک بیگرس ہوم تھا جہاں پولیس بھیک مانگنے والوں کو لاکر بندکردیتی تھی۔ ناگپور میں میرا ایک دوست تھا جس کا بہنوئی وہاں ملازم تھا۔ میں نے مہینے بھر اس بیگرس ہوم میں ان کے یہاں قیام کیا۔ انھوں نے آگے بتایا تھا ’’یہ 1975 کی بات ہے۔ مجھے ورانڈے میں سونے کی جگہ مل گئی تھی۔ وہیں سوتا اور ان کے راشن میں مفت میں حصہ داری کرتا۔ دوست کے جیجا جی لیبر افسر تھے اور ان کی بیوی بالکل سائرہ بانو کی طرح تھی۔ وہ آکاش وانی پر مراٹھی سگم سنگیت گاتی تھی۔ ویسے ہر ہفتے سائرہ بانو مجھے علامتی انداز میں آٹے اور دال کے خالی ڈبے دکھایا کرتی تھی۔ میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی چپ تھا کیونکہ ٹھونک بجا کر دیکھ چکا تھا کہ ناگپور کے سارے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ میں ورانڈے میں سوتا، رات بھر دنیا جہاں کی سیر کرتا لیکن صبح اٹھتا ورانڈے سے۔ ورانڈے سے لگا ہوا ان کا بیڈ روم تھا۔ وہ لوگ کھڑکی بھی بند نہیں کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی دو بچو ں کو لے کر مچھر دانی میں سوجاتے اور ان کی ننگی آوازیں مچھر مارتے ہوئے میں سنتا رہتا۔ پچ پچ، گھپ گھپ، چک چک، ہنسی، کھینچا تانی،دھک دھک، بوس و کنار، آوازوں کی بارش مجھ پر ہوتی اور میں اندر باہر سے بھیگتا رہتا۔ مچھر مجھے تنگ کرتے، لیکن میں بھاگا نہیں، کفن باندھ کرآیا تھا، صرف سر پر نہیں، ہر جگہ کفن۔‘‘
م ناگ روزانہ چمبور سے کرلا جاتے اور اسٹیشن کے پاس سنسار ہوٹل میں سلام بن رزاق، ابراہیم نذیر، مقدر حمید اور شعلہ صاحب کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھار ندا فاضلی بھی آجاتے۔ ادب پر گفتگوہوتی۔ انھوں نے بتایا تھا ’’اس دوران ایک بار میاں بیوی نے مجھ سے کہا کہ ہم جیجوری کے کھنڈوبا کے درشن کو جارہے ہیں۔ میں نے سوچا یہ مجھے بھگانے کا داؤ ہے۔ میں نے کہا جائیے۔ دو دن مجھے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سونا پڑا۔ کتا میرا منھ چاٹ کر گیا، میں کیا کرتا۔‘‘ سگریٹ سلگاتے ہوئے انھوں نے آگے بتایا تھا ’’کرلا گیا تو یہ واقعہ سلام بن رزاق سے بتایا۔ انھوں نے تقریباً دو ہفتوں بعد اپنے دوست انور قمر سے ملایا۔ انور قمر نے کہا ’’’کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔ میں نے اطمینان کی سانس لی اور اپنے خدا کا شکریہ ادا کیا۔ لگاتار چمبور سے سنسار ہوٹل (کرلا) جاتا رہا۔ سنسار ہوٹل میں دھوئیں کے مرغولے میں چائے پیتا رہتا اور چائے والا کھڑکھڑکی آواز سے ساسر بجاتا رہتا۔ پیسے تیزی سے ختم ہورہے تھے۔‘‘ م ناگ نے آگے کہا تھا ’’بالکل۔ پیسے نہ ہوں تو ادھار مانگنے کی ہمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ادھار مانگنے کی لت پڑتی ہے تو آدمی ڈھیٹ بن جاتا ہے۔ ایک بار اورنگ آباد میں پیسے ختم ہوگئے۔ میں نے دوست سے پوچھا ’’سنا ہے جوگندر پال یہاں کسی کالج میں پرنسپل ہیں‘‘ وہ بولا ’’ہاں! تو کیا تم ان سے پیسے مانگو گے؟‘‘ میں نے کہا ’’کیوں نہیں، ادھار مانگیں گے، وہ پرنسپل ہیں اور اوپر سے افسانہ نگار، ایک افسانہ نگار کو کیا دوسرا افسانہ نگار اُدھار نہیں دے گا۔‘‘
م ناگ کبھی مختار ناگپوری ہوا کرتے تھے، پھر چند دنوں کے لیے مختار سید بن گئے۔ مختار سید کے نام سے چند کہانیاں شائع ہوچکی تھیں۔ ناگپور کی سرزمین پر 1966 میں پہلی مرتبہ جدید شاعروں کا ایک مشاعرہ برپا کیا گیا تھا جس میں ممتاز راشد، ندا فاضلی، صادق، عتیق اللہ، شاہد کبیر، عبدالرحیم نشتر، مدحت الاختر، ظفر کلیم اور ضیاء انصاری وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کچھ ایسے رائٹرز رسائل میں چھپ رہے تھے جن کے نام کچھ ہٹ کے تھے۔ گلبرگہ کے بشیر باگ اور میسور کے اکرام باگ۔ م ناگ کو دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم بھی اپنا نام تبدیل کرلو، کیونکہ تمھارے لکھنے کا انداز بھی دوسروں سے مختلف ہے لہٰذا نام بھی منفرد ہونا چاہیے۔ سب نے اپنے اپنے طور سے نام سجھائے اور آخرکار مختا رکے ’م‘ اور ناگپوری کے ’ناگ‘ کو مخفف کرکے انھیں م ناگ بنا دیا گیا۔
م ناگ میں ’میم‘ اور ’ناگ‘ والی خوبیاں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی تھیں۔ وہ زیادہ تر چپ رہتے تھے لیکن چشمے کے کواڑوں سے ان کی بڑی بڑی آنکھیں سب کچھ بھانپ لیتی تھیں۔ ہر ناانصافی برداشت کرلیتے تھے اور سگریٹ کے دھوئیں میں غموں کو اڑا دیتے تھے۔ کسی کو ڈستے بھی نہیں۔ البتہ دوسروں نے انھیں ضرور ڈسا تھا۔ م ناگ کے دوسرے مجموعے’غلط پتہ‘ میں ساجد رشید نے لکھا تھا ’’م ناگ مجھے اپنے معاصر افسانہ نگار وں میں کئی معنوں میں مختلف نظر آتے ہیں، اتنے مختلف کہ ان کے افسانوی اسلوب کا موازنہ ان کے کسی ہمعصر سے تو کجا ان کے کسی پیش رو سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود وہ نظرانداز کیے گئے۔ یہ حیران کن واقعہ ہے اور افسوس ناک بھی۔ اس کی دو بڑی وجہیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ انھوں نے تواتر سے افسانے نہیں لکھے، دوسری وجہ ان کا قلندرانہ مزاج ہے جس میں ان کی بے ترتیب زندگی اور لاپرواہی کا بڑا دخل ہے۔ انھیں اپنے ہونے کا کبھی احساس بھی نہیں رہا۔‘‘ یہ ایک سچائی ہے جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں م ناگ کی اس بے نیازی کے قصور وار وہ نام نہاد نقاد اور مضمون نگار ہیں جو اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں کی فہرست کسی افسانہ نگار کے فن اور طرز تحریر کی بجائے چمچہ گیری سے خوش ہوکر تیار کرتے ہیں۔ م ناگ نے گوا میں قیام کے دوران نظمیں بھی کہی تھیں۔ ان کی کہانیوں کی طرح ان کی نظموں میں بھی جنس کی خوشبو موجود تھی۔ انھوں نے کئی نظمیں مجھے سنائی تھیں جس میں ایک نظم ’ایش ٹرے‘ بھی تھی۔ کرشن چندر، منٹو اور بیدی ان کے من پسند افسانہ نگار تھے۔ ممبئی کے افسانہ نویسوں میں انھیں سلام بن رزاق، انور قمر، ساجد رشید اور علی امام نقوی پسند تھے جبکہ نئے افسانہ نگاروں میں انھیں مظہر سلیم، اشتیاق سعید اور رحمان عباس کے یہاں اسپارک نظر آتا تھا۔ کچھ ٹھہر کے انھوں نے کہا تھا ’’دوستوں میں مجھے عارف خورشید اور نورالحسنین بھی پسند ہیں۔‘‘
م ناگ کی شخصیت اور ان کی کتابوں کی روشنی میں ندا فاضلی نے لکھا تھا ’’اردو کے افسانہ نگاروں میں م ناگ کا نام اس لیے اہم ہے کہ وہ موضوعات کے انتخاب کے ساتھ اپنی لفظیات سے بھی قارئین میں پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ سلام بن رزاق نے ایک جگہ لکھا تھا ’’سیکس پر لکھنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ ذرا چوکے اور فحاشی کے دلدل میں گرے، مگر م ناگ اس راستے سے خراماں خراماں یوں گزر جاتے ہیں جیسے کسی باغ کی روش سے گزر رہے ہوں۔‘‘ انور خان نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’’م ناگ کے افسانے میں طنز تو ہوتا ہی ہے اور ان کا ٹریٹ بھی بہت عمدہ ہے۔‘‘ میرے پوچھنے پر انھوں نے کہا تھا ’’فنی اعتبار سے کسی تبدیلی کا اندازہ ناقد ہی لگا سکتے ہیں جہاں تک میری بات ہے میں نے کسی طرح کی تبدیلی محسوس نہیں کی۔ جنس کا موضوع میری پہلی کتاب میں بھی تھا اور اس کتاب میں بھی ہے۔‘‘ انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’پریم چند آخر تک یہ کہتے رہے کہ ابھی میری شاہکار کہانی تخلیق نہیں ہوئی۔ اس طرح میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ابھی جو لکھ رہا ہوں آگے اس سے بہتر لکھوں گا یا نہیں۔‘‘ وہ کرشن چندر کو جادوئی اسٹائل کے کہانی کار سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ’’ان کے واقعات سننے کا ڈھنگ مجھے بھاتا تھا۔ منٹو کے یہاں جو جنسی لفظیات اور سفاک حقیقت ملتی ہے اس کا جواب نہیں۔‘‘
م ناگ نے ابن صفی کے ناول پڑھ کر اردو سیکھی تھی۔ موصوف کے مطابق ’’میں نے ابن صفی کے ناول پڑھ کر اردو سیکھی۔ یہ سیکھا کہ اردو کی نثر کس طرح لکھنا چاہیے۔ ناگپور مومن پورہ میں ایک لائبریری تھی جہاں میں نے کئی نایاب کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ آج کل لائبریری دکھائی نہیں دیتی اور اگر کہیں لائبریری ہے تو پڑھنے والے نہیں ہیں۔ بہرحال لائبریری کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔‘‘ م ناگ طویل صحافتی تجربہ بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے ودربھ نامہ، روزنامہ اردو ٹائمز، روزنامہ صحافت، روزنامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ (تعمیر (بیٹر) کے علاوہ ہندی اخبار ’جن ستہ‘ کے لیے بھی کام کیا تھا۔ روزنامہ ہندوستان، ہفت روزہ بلٹز، ہفت روزہ مسلم ٹائمز، روزنامہ انقلاب اور کئی دیگر اخبارات سے بھی کسی نہ کسی طور وابستگی رہی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔
م ناگ نے ایک طویل انٹرویو کے دوران مجھ سے کہا تھا ’’جہاں تک میرا خیال ہے، میں سمجھتا ہوں، تخلیق کار کے اندر سادگی، یقین، صداقت اور صبر کا مادہ ہی اس کی نجات کا راستہ ہے۔ زندگی میری استاد رہی ہے اور افسانہ میرے لیے ڈھال بنا ہے۔ زندگی میں جو کچھ بھی ختم ہوتا جارہا ہے ادب ا س کی آخری پناہ گاہ ہے اور میرا یقین ہے کہ زندگی کے اسرار و رموز اور بھول بھلیوں کو سمجھنے کے لیے ادب سے بڑی کوئی کلید نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے ’غلط پتہ‘ کے بیک فلیپ پر لکھا تھا ’’ممبئی ایک چوہا دان ہے جس میں روٹی کا ٹکڑا پھنسا ہے۔ یہ شہر للچاتا ہے۔ رات میں خواب دکھاتا ہے اور صبح اپنی راہیں تعبیریں ڈھونڈنے کے لیے کھول دیتا ہے۔ میں بھی للچایا، مگر جیسے ہی روٹی پانے اندر گیا، ساری دنیا باہر رہ گئی۔ بس پھر کیا تھا، تیسری گھنٹی بجی، پردہ اٹھا اور کھیل شروع ہوگیا۔ ممبئی سے پھر کہیں جانا ممکن نہ تھا، کیونکہ سڑک واپس نہیں جاتی تھی۔‘‘
م ناگ نے اس شہر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ یکم جولائی 1950 کو ناگپور میں جنم لینے والے اردو کے اس منفرد افسانہ نگار نے 21 اکتوبر 2016 کی شام بوریولی میں واقع اپنی کٹیا نما رہائش گاہ میں آخری سانس لی۔ افسوس کہ یہ گھر بھی ان کا اپنا نہیں تھا۔ ان کی موت نے ہر کس و ناکس کو غمزدہ کردیا۔ اسی شام انھیں ہندوستانی پرچار سبھا میں افسانہ سنانا تھا اور علالت کی وجہ سے انھوں نے اطہر عزیز کو اپنا افسانہ بھیج دیا تھا۔ شام ساڑھے چار بجے جس وقت ان کی روح جسم کا ساتھ چھوڑرہی تھی ٹھیک اسی وقت اطہر عزیز ان کا افسانہ پڑھ رہے تھے۔ گویا افسانہ موت کے وقت بھی ان کے ساتھ رہا اور ساتھ ہی گیا۔ اپنے تیسرے مجموعے ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ کی طرح وہ ساری زندگی چوتھی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ نہ تیسرا مسافر اٹھا اور نہ ہی انھیں بیٹھنے کے لیے پوری سیٹ ملی۔ ادبی رسالہ ’نیا ورق‘ میں ان کا سوانحی ناول ’دکھی من میرے‘ قسط وار شائع ہورہا تھا جواب نامکمل رہ گیا۔ انھوں نے افسانوں کے چوتھے مجموعے کا ٹائٹل ’پھٹی کتاب‘ طے کیا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ کتاب بھی پھٹی رہ گئی۔

Farhan Hanif Warsi 
Post Box No.: 4546,
 Mumbai Central Post Office
Mumbai - 400008 (MS)


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں