بر صغیر ہمیشہ سے دنیا کی نگاہ
میں پرکشش اور پراسرار رہاہے۔ اس کشش نے کئی قوموں اور نسلوں کو یہاں بسنے پر نہ
صرف مجبور کیا بلکہ انھوں نے اسے وطنِ ثانی بنالیا لیکن سترھویں صدی میں ایک ایسی
قوم نے سرزمین ہند پر قدم رکھا۔ جو تجارتی حدود کو پار کر کے دیکھتے ہی دیکھتے یہاں
کے سیا ہ و سفید کی مالک بن گئی۔ اور 1857
کے ناکام انقلاب کے بعد پوری طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اوراس طرح
برطانوی حکومت کا دور شروع ہوگیا۔ 1857 کے خونی انقلاب کے بعد ہندوستان کی سیاسی،
سماجی، معاشی، تہذیبی، اور اخلاقی و مذہبی زندگی دگر گوں ہو گئی۔ دوسرے لفظوں میں
کہا جائے کہ بساط ِ ہند پر اماوس کی کالی رات کی تاریکی چھا گئی۔ جسے ہر ہندوستانی
اپنا لہو دے کر آزاد کرانا چاہتا تھا۔ یعنی ملک کو انگریزوں کی غلامی کی زنجیر سے
آزاد کرانے کے لیے ہندومسلم نے یکجا ہوکر اپنے سر پر کفن باندھ لیا۔ اہل ہند کی
حب الوطنی اور اتحاد و اتفاق نے برٹش حکومت کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ یہی سبب ہے
کہ انگریزوں نے ایک نہایت گھٹیا پالیسی۔ ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ اپنائی جس کا
مکروہ چہرہ 1947 میں نظر آیا اور وہ مکروہ چہرہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کے بعد
رونما ہونے والے فساد ات تھے۔ ایک چہرے کا نام تھا ہندوستان اور دوسرے کا پاکستان۔
بر صغیر کے اس خط ِ فاصل نے جغرافیائی سطح پر کوئی لائن نہیں کھینچا تھا بلکہ
انسانی رشتے، ناطے، محبتیں اور یادیں، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت، جذبات، انسانیت گویا
سب کچھ کا بٹوارہ کردیا۔ اس خطِ تنسیخ کے اثرات نے دونوں ملکوں کی سیاسی، سماجی، و
اقتصادی زندگی کو تبا ہ و بر باد کر دیا۔ آزادی کے نام پر ہو نے والی تقسیم کی
تاریخ بے حد دل سوز واقعات وحادثات سے پر ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل نے
ہماری بر سوں کی مشتر کہ تہذیب پر سوالیہ نشان لگا دیا اور انسا نیت سرچھکاے سسکتی
رہ گئی۔سینہ ہندپر ایک ایسی آگ جل رہی تھی جو ہر چیز کو خاکستر کر دینے پر آمادہ
تھی۔ جان، مال عفت و نا موس اور اقدار غرض سب کچھ اس کی زد میں تھا۔ تقسیم کے بعد
ہجرت کے دوران بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورتوں کا بے دریغ قتل عام روز کا معمول بن
گیا تھا۔ سرسبز و شاداب کھیت کھلیان اجڑ کر شہر خمو شا ں میں تبدیل ہوگئے۔
تقسیم ہند کے بعد فسادات کے سیلاب
نے اپنی تمام تر تباہیوں اور بربادیوں کے ساتھ اخلاق و اقدار اور باہمی اخوت کا ایسا
جنازہ نکالا کہ دہائیوں تک کے لیے پنجاب کی گلیا ں ہیر اور رانجھا کے عشقیہ گیت سے
محروم ہوگئیں۔ وحشیانہ قتل عام کے اتنے دلدوز مناظر سامنے آئے کہ آج بھی ان کے خیال
سے لزرہ طاری ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ
اٹھتا ہے کہ کیا بر صغیر میں قتل و غارت گری یا جنگ و جدل کے واقعات اس سے قبل
وقوع پذیر نہیں ہوئے تھے؟دراصل بات یہ ہے کہ اس سے قبل خانہ جنگی نے زندگی کو اس
وسیع پیمانے پر نیست و نابود نہیں کیا تھا، دیکھا جائے تو دوسری عالمی جنگ میں ایٹم
بم کا استعمال ایک مخصوص خطے میں کیا گیا تھا۔ بیشک ایٹم بم نے لاکھوںانسانوں کی
زندگی کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ لیکن 47 کے بعد ہجرت کے نام پر قسطوں میں انسانی
زندگی کو تباہ کیا گیا۔ایسے پر آشوب ماحول میں اردو کے ادیبوں، شاعروں اور
دانشوروں نے، ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ جن افسانہ نگاروں نے فسادات اور
ہجرت کے مسائل اور اس کے کرب کو اپنے فن کے کینوس پر بکھیرا ان میںکرشن چندر،سعادت
حسن منٹو، مہندرناتھ، بلونت سنگھ، احمد ندیم قاسمی، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی،
راجندر سنگھ بیدی،قرۃ العین حیدر، حیات اللہ انصاری، انتظار حسین وغیرہ کے نام
قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے فسادات کے مختلف مسائل بالخصوص قتل و غارت گری،
عورتوںکی بے حرمتی، بے گناہ و معصوم افرادکا قتل، لاپتا افراد، نفسیاتی کشمکش، وغیرہ
کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔ کرشن چندر کا افسانہ ’پشاور ایکسپریس‘ تقسیم ہند
کے بعد نقل مکانی کے حالات کے دردو کرب کا مر قع ہے۔ وہ محض ایک ایکسپریس ٹرین نہیں
تھی جو لاہور سے چلی تھی ہندوستان کے لیے، اور ہندوستان سے پاکستان جانے کے لیے۔
دراصل یہ ٹرین لاشیں ڈھونے والی ایک ارتھی تھی۔ ہزاروں بے گناہ انسانوںکی لاشیں جیسے
پشاور ایکسپریس اپنے کندھے میں لاد کر چل رہی تھی۔ آزادی کے نام پر ملنے والی تقسیم
نے انسانی زندگی اور انسانیت دونوں کو تہس نہس کردیا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات نے
جن جن علاقوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ان میں خصوصاً پنجاب، دلی، لاہور،
بنگال، حیدر آباد ہیں۔ ان ریاستوں میں قتل و غارت، جنگ و جدال اور درندگی کی تمام
حدیں پار کردی تھیں۔ بقول فرمان فتح پوری :
’’ آزادی
کا دیاپوری طرح روشن بھی نہ ہونے پایا تھا کہ فسادات کے نام سے برق و باد نے گھیر
لیا۔ گائوں کے گائوں اور شہر کے شہر قتل و غارت کی آندھیوں میں تنکے کی طرح
اُڑگئے۔ بادلوں سے پانی کے بجائے خون برسنے لگا۔ گلی کوچے اور بستیاں ڈوب گئیں۔
آدمی کے روپ میں درندے نکل پڑے۔ برسوں کی یاری اور ہمسائیگی کچھ کام نہ آئی۔سارے
رشتے آن کی آن میںمنقطع ہوگئے۔‘‘ (اردو
افسانہ اور افسانہ نگار، ص 91)
کرشن چندر نے اپنے افسانے
’امرت سر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعدـ‘
میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اور انسانی زندگی کے اس کرب کو واضح کیا ہے
جہاں انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ انسان کا خون بہانا جیسے Fundamental Rightsہو۔ ہر کوئی حیوانیت کا سردار بن گیا تھا۔ بچوں بوڑھوں، جوان اور عورتوں کا
بے دریغ قتل کیا جا رہا تھا۔ افسانہ ’لالہ باغ‘ میں انسانی زندگی کی قیمت طے کی گئی۔
ایک انسان کو مارنے کی قیمت پچاس روپئے، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم یا سکھ۔ جبکہ ایک
گلاس پانی کی قیمت ایک سوروپیہ تھی۔ بقول کرشن چند ر :
’’پانی ہندوستان میں بھی تھا اور پانی پاکستان میں بھی
تھا۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا، کیونکہ آنکھوں کا پانی مرگیا تھا اور یہ دونوںملک
نفرت کے صحرا بن گئے تھے۔۔۔ جس دیس میں لسی اور دودھ پانی کی طرح بہتے تھے وہاں
آج پانی نہیں تھا۔ اس کے بیٹے پیاس سے بلک بلک کر مررہے تھے۔‘‘(ہم وحشی ہیں، ص95)
انتقام کی آگ نے صرف تباہی
وبربادی کو جنم دیا۔ اشفاق احمد کا افسانہ ’گڈریا‘ میں فرقہ وارانہ جھگڑے کے
واقعات کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نفرت کی آگ نیک انسان کو شیطان بنادیتی ہے
اور دوست کو دشمن۔ خواجہ احمد عباس نے اپنے افسانے ’’اجنتا‘‘ میں اس پہلو کو بطور
خاص اجاگر کیا ہے کہ انسانی عقل کس قدر نا قص ہے۔ مذہب کے نام پر تعصب کا ایک ایسا
کھیل کھیلا کہ انسانیت ایک بے معنی سی چیز بن گئی۔ اس افسانے کا ہیرو نر مل ایک
صحافی ہے۔ جو فسادات کی بر بریت اور حیو انیت کے زد میں آئے افراد کی مدد کے لیے
امن کمیٹی کی تشکیل میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتا ہے۔ لیکن اس کو اس بات کا شدید صدمہ
ہو تا ہے کہ امن کے پر چار کر نے والوں میں در ندے بھی مو جود ہیں تو وہ مایو سی
اور ذہنی تنائو کا شکا ر ہو جاتا ہے۔ خواجہ احمد عباس نے ’اجنتا ‘ میں نر مل کی
ذہنی کیفیت کی تصویر کشی یو ں کی ہے:
’’ اس
دبلے پتلے نو جوان کی صورت اب بھی میری آنکھوں کے سامنے پھرتی ہے۔ بھارتی ــ!اس
کی آخری چیخ اب بھی میرے کا نو ں میں گونج رہی ہے اور اس نے میری نیند اڑا دی ہے۔ رات کو سوتا بھی ہوں تو خواب میں دیکھتا
ہوں کہ میں ایک خون کے سمندر میں ڈوب رہا ہوں اور کو ئی میری مدد کو نہیں آتا۔‘‘
( اجنتا مجموعہ زعفران کے پھول ص نمبر37)
عزیز احمد کا افسانہ ’ کا لی
رات ‘ میں بر بریت اور حیو انیت اپنے بام عروج پرنظر آتی ہے، اس رات کی تا ریکی میں
انسانیت آخری دم تک درند گی سے مقابلہ کر تی ہے۔ بلوائی ریل کے ڈبے کو توڑکر نئی
نویلی د لہن کو اس کے شوہر کے سامنے قتل کردیتے ہیں۔حیات اﷲ انصاری کے افسانے ’شکر
گزار آنکھیں‘ میں بھی بربریت کے سامنے عز ت بچانے کی خاطر جان دینے کا دل سوز
واقعہ ہے۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے افسانے ’جلاوطن‘ میں لکھنؤ کی مشترکہ تہذیب کے
بکھرنے کے درد و کرب کو کہانی کا روپ بخشا ہے۔ بٹوارہ صرف ایک زمین کا نہیں ہوا
تھا بلکہ ایک تہذیب کا تھا، جس کا ماتم ہر ہندوستانی نے کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد
سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ہر انسان کو اپنی قوم پر ستی کا ثبوت دینا پڑ رہا تھا۔
افسانہ جلا وطن کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’پولیس ہر لمحے
ان کو تنگ کرتی۔ آپ کے بیٹے کا پاکستان سے آپ کے پاس کب خط آیا تھا۔ آپ
نے کراچی میں کتنی جائیداد خرید لی ہے۔ آپ خود کب جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ جو بابا کی ساری قوم پرستی تھی سارا جون
پور عمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلسٹ تھے۔ تب بھی پولیس پیچھا نہیں
چھوڑتی۔‘‘ (افسانہ جلا وطن، ص129,30)
فسادات کی آگ نے انسانی زندگی
کو تہس نہس کر دیا تھا۔ اس آگ کے شعلے نے انسان کی نفسیات کو چکنا چور کیا۔
افسانہ’ٹو بہ ٹیک سنگھ‘ میں بشن سنگھ کی دما غی کیفیت کی منٹو نے جو تصویر کشی کی
ہے بے حد درد ناک ہے۔ تقسیم ہند کے دو سال کے بعد دو نوں ملکوں کے سیا سی لیڈروں
کو مذہبی نقطہ نگاہ کی بنا پر یہ فیصلہ لینا پڑتا ہے کہ جو ہندو پا گل ہیں وہ
ہندوستان میں بھیج دیے جا ئیں اور مسلما ن پاگل پا کستان میں رہیں گے۔شاید حکومت
کا یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے مذہبی لیڈروں کو اپنا قد اونچا کر نے کا سنہرامو قع مل
گیا تھا۔ منٹو کے نزدیک یہ فیصلہ مذہب کے نام پر نہیں کیا گیا بلکہ انسان کو اپنی
زمین اور اپنی شناخت سے جدا کر نے کی ایک گھناونی سازش تھی جو 47 کے بعد کامیا ب ہوئی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
تقسیم ہند کے بعد فسادات کی آگ نے معاشرے کے ہر فرد کو نقصان پہنچایا۔ جانی و مالی
نقصانات سے لے کر روحانی تک، لیکن تقسیم ہند کے بعد ہجرت کے نام پر فسادات کی سب
سے بھاری قیمت خواتین نے اپنی جان وآبرو کی قربانی دے کر ادا کی۔ ان قیامت خیز
حالات میں مردوں نے اپنی جنسی تسکین کے لیے عورتوں کی آبرو کو تا ر تار کیا اور
جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔انھیں اغوا کیا گیا اور قحبہ خانوں کی زینت بننے پر
مجبور کیا گیا۔ یہاں تک کہ سربازار عورتوں کی بولی بھی لگائی گئی۔ تقسیم ہند کے
بعد سب سے بڑا کرب عورتوں کی حرمت کا المیہ ہے۔ خواتین نے مردوں کی زیادتی اور
استحصال کے ساتھ ساتھ درندگی اور حیوانیت کے بے شمار ستم برداشت کیے اس موضوع پر
منٹو کے افسانے کھول دو، ٹھنڈا گوشت، شریفن قابل ذکر ہیں۔ افسانہ شریفن میں بملا
اور شریفن کی عصمت کی بے حرمتی کی جامع تصویر ملتی ہے۔ افسانہ کھول دو میں ایک ایسی
لڑکی سکینہ کی کہانی ہے جو مشرقی پنجاب میں سکھ مردوں کی درندگی کا نشانہ بنتی ہے
تو پاکستان میں رضاکار بھائیوں کی دل بستگی کرتی ہے۔ رضاکاروں کے کردار میں منٹو
نے اس شیطانی چہرے کو ظاہر کیا ہے جو فرشتہ صفت بن کر عورتوں کی عصمت کو داغدار
کرتے ہیں۔ اسی طرح ’ٹھنڈا گوشت‘ میں ایشر سنگھ کی حیوانیت بامِ عروج پر نظر آتی
ہے۔فسادکے دوران ایک گھر کے تمام افراد کو قتل کردیاجاتاہے ایک درندہ صفت ایک لڑکی
کو اُٹھا کر لے جاتا ہے مگر جب اپنی حیوانی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو
معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکی پہلے ہی مرچکی ہے۔ اس طرح کے کردار کے ذریعے افسانہ
نگاروں نے عورتوں کی بے بسی اور لاچاری کے کرب کو واضح کیا ہے۔
مہندر ناتھ کا افسانہ ’پاکستان
سے ہندوستان تک‘ میں ایک بازیافتہ عورت کو اپنے گھر والوں کی نفرت اور حقارت کا
نشانہ بنتے دکھایا گیا ہے۔ افسانے کی ہیروئن پشپا اور صفدر ایک ہی گائوں میں رہتے
ہیں اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ لیکن گھر والوں کی خوشی کی خاطر پشپا سوہن
لال سے شادی کرلیتی ہے۔ کچھ عرصے بعد فرقہ وارانہ فساد شروع ہوجاتا ہے۔ سوہن لال
اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی ماں اور اپنے بچوں کو لے کر دلّی چلا آتا ہے۔ پشپا کو
تنہا دیکھ کر حملہ آوراس کے گھر پر حملہ کرتے ہیں۔
’’پھر پشپا کی باری آئی۔ لوٹنے والوں نے اسے بھی مال غنیمت
سمجھا۔۔۔۔۔۔ عورت کی حیثیت ہمارے معاشرے میں ایک تہائی کی سی ہے۔۔۔۔۔ یوں تو ہمارے
گرنتی صاحب میں، وید میں قرآن مجید میں عورت کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے لیکن
موقع ملنے پر ہم لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان نوجوانوںنے پشپاکو ایک
کوٹھری میں بندکردیااوراس کی تنہائی اور بے بسی کا فائدہ اُٹھایا۔‘‘ (افسانہ پاکستان سے ہندوستان تک، ص184)
راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ
’لاجونتی‘ ایک بد قسمت عورت کی کہانی ہے۔ جسے فساد میں اغوا کرلیا جاتا ہے۔ اور وہ
اپنے شوہر سندر لال سے بچھڑ جاتی ہے۔ کچھ دِنوں کے بعد لاجونتی کی ملاقات سندرلال
سے ہوتی ہے، لیکن اس ملاقات میںلاجو ایک پتنی کے روپ میں اپنے پتی سے نہیں ملتی
بلکہ ایک ناپاک جسم کے طور پر، یہاں پر بیدی نے سندرلال اور لاجو کے اس ذہنی کرب
اور نفسیاتی کشمکش کو اجاگر کیا ہے جو عورتیں بازیاب ہوکر اپنے گھروں میں واپس آتیں
ہیں۔ ان کے اپنے انہیں اپنانے سے انکار کردیتے ہیں۔ جبکہ ان خواتین کی بے گناہی کے
چشم دید گواہ ان کے بھائی، رشتے دار خود ہیں۔
دراصل تقسیم ہند کے بعد قیامت خیزحالات نے خواتین کی زندگی کو جہنم زار
بنادیا تھا۔ ایک مصیبت سے نکلتی تو فوراً دوسرے مصائب کا شکار ہوجاتی تھی۔
قدرت اﷲشہاب کا افسانہ ’ یا
خدا ‘ میں عورت کی ٹریجڈی بڑی درد ناک نظر آتی ہے۔ دلشاد پا کستان کی سر زمین کو
مقدس سمجھ کر آتی ہے جہاں اس کے زخموں پر مر ہم رکھنے والے بھا ئی ہو ں گے مگر
بھا ئی کے روپ میں در ند ے ملتے ہیں۔ اس طر ح ممتاز مفتی کا افسانہ ’گوبر کے ڈھیر
پر‘ اور سید انور کا ’ ظلمت ‘ اور شکیلہ اختر کا
’آ خر ی سہارا ‘ میں عورتوں کی ٹریجیڈی کی منہ بولتی تصویریں ہے۔عورت اپنے
ہی وطن میں اپنے ہی رشتے داروں کے ہا تھوں ظلم و ستم سہنے وا لی کٹھ پتلی بن جا تی
ہے افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوںمیں عورتوں کے اپنے ہی وطن میں ان کے خوابوں کو
ٹو ٹتے اور بکھرتے دکھا یا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ تقسیم ہند کا سب سے
بڑا درد اور کرب کسی نے اگر جھیلا ہے تو وہ خواتین ہیں۔ عورتوں کا سب سے بڑا المیہ
یہ تھا کہ معاشرے میں مقام اور عزت کا مسئلہ تھا۔ کہ اس کی حیثیت کیا تھی؟ وہ ایک
ناپاک جسم تھا یاد ل شکستہ آئینہ تھا۔‘‘ جسے سماج سنبھال کر رکھنا نہیں چاہتا
تھا۔ جس خاموشی اور جواں مردی کے ساتھ عورتوں نے تقسیم ہند کے کرب کو سہا ہے شاید
ہی اس آگ میں کوئی اور جھلسا ہو۔
رام لعل نے اپنے افسانے ’نئی
دھرتی پرانے گیت‘ میں ان افراد کی سماجی اقتصادی زندگی کے درد و کرب کو واضح کیا
ہے جو اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا بستے ہیں اور مہاجر کے نام سے پکار ے
جاتے ہیں۔ اس افسانے میں رام لعل نے نئی بستیوں میں بسنے والوں کی شناخت کے کرب کو
پیش کیاہے۔ سیاست کے مفاد پرست اماموں نے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے صرف غیر
دانشورانہ عمل کا ثبوت ہی نہیں پیش کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کتاب ِ زیست میں بر
بر یت اور درندگی کا ایک ایسا باب بھی رقم کیا۔ جس کی قیمت آج تک ہم اپنے لہو سے
ادا کر رہے ہیں۔
الغرض تقسیم ہند کے عنوان پر
لکھے جانے والے افسانے فنی اعتبار سے اپنے فن کی معراج سے تعبیر کیے جا سکتے ہیں
اور یہی افسانے موضوعاتی اعتبار سے اپنے دور کی وہ تصویر یں پیش کرتے ہیں جہاں
انسان اور انسانیت کی قبائیں تار تار ہوجاتی ہیں وہ خوبصورت ملک ہندستان جنت نشان
جہاں ہر ہندستانی نے اپنے ملک عزیز کی آزادی کے لیے انقلاب اور ولولہ انگیز جذبوں
کے درمیان اپنے جانوں کی قربانی پیش کرکے ملک کی نئی صبح کی امید کی تھی وہ صبح تو
آئی ضرور لیکن اس قیامت کے ساتھ ٓائی کہ آسمان امید پر شفق کی لالی کی جگہ انسانی
جذبوں اور جسموں کا خون چڑھاہوا تھا۔ ایسے دور کے میں لکھے گئے افسانے ا ٓج بھی ان
خون آشام دن اور رات کی قیامت خیز کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ؎
لہو میں ڈوب کے پہنچے ہیں جو
کنارے تک
وہ جانتے ہیں کہ یہ
راہ کس قدر تھی کٹھن
Dr. Sajid Ali
Qadri
Ho.D, Urdu &
Research Guide (KBC NMU)
S.P.D.M. College
Shirpur, Dist:
Dhulia - 425405 (MS)
Mob.: 9423288786