26/10/21

الیاس احمد گدی کی سفرنامہ نگاری : لکشمن ریکھا کے پار ’ کے حوالے سے - مضمون نگار: فیروز عالم




 الیاس احمد گدی نے 1968میں بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش(اس وقت کا مشرقی پاکستان) کا سفر کیا تھا۔ اس  حیرت انگیز لیکن پُر خطر سفر کی روداد انھوں نے دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔اس زمانے میں کچھ ایجنٹ تھے جو معقول معاوضہ لے کر لوگوں کو سرحد پار کرایا کرتے تھے۔ اس طرح سرحد پار کرنے کے طریقے کو ’گَردَنیا پاسپورٹ‘کہا جاتا تھا۔ایجنٹ پولیس والوں سے ملے ہوتے تھے۔ پولیس والے آنے جانے والوں کو اس انداز میں گردن پکڑ کر سرحد کے اُس طرف دھکیل دیتے تھے جیسے وہ اُدھر سے ہی اِدھر آنے کی کوشش کر رہے ہوں۔عام طور سے یہ سفر پدما ندی کے چیک پوسٹ سے ہوتا تھا جس کے ایک طرف ہندوستان تھا اور دوسری طرف مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش)۔ سرحد کے دونوں طرف دیہات میں رہنے والوں کے درمیان آپس میں رشتے داریاں تھیں۔ تقسیم کی فرضی لکیر خون کے رشتوں اور دلوں کی محبت کو ختم نہیں کر سکی تھی اور دونوں طرف کے لوگوں کا آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ نیا ملک بننے کے باوجود آپس میں شادی بیاہ کا سلسلہ بھی تھا۔ مشرقی پاکستان سے لڑکو ں کی ٹولیاں کولکاتہ آتیں اور فلم دیکھ کر واپس چلی جاتیں۔ دونوں طرف کے بارڈر والوں کو اس کے بارے میں معلوم تھا اس لیے کوئی تعرض نہ کرتا۔لوگ آرام سے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس موقع کا فائدہ الیاس احمد گدی اور ان کے دو دوستوں انعام اور صادق نے اٹھایا۔ جھریا میں الطاف نام کا ایک نوجوان آیا ہوا تھا جو اجرت لے کر لوگوں کو سرحد پار کراتا تھا۔الیاس احمد گدی کے دوستوں کو معلوم ہوا تو انھوںنے فوراً یہ ایڈونچر بھرا پروگرام بنا لیا اور انھیں بھی اس میں شامل کر لیا۔ الیاس احمد گدی کو بھی ڈھاکہ جانے کا شوق تھا کیونکہ ان کے سگے ماموں وہاں جاکر بس گئے تھے اور ان سے ملے زمانہ گزر گیا تھا۔ ڈھاکہ جانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ اس سرزمین کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے جس کی حسن و دلکشی کے ذکر سے شعروادب کی کتابیں بھری پڑی تھیں۔

’’میں دراصل ’افکار ‘کے ایڈیٹر صہبا لکھنوی کی ’میرے خوابوں کی سرزمین ‘ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں قرۃ العین حیدر کے اس ابوالمنصور سے ملناچاہتا تھا، نائو کھیتے ہوئے جس کی پیٹھ پر بید سے ٹھوکا دے کر اس کا انگریز آقا نائو تیز چلانے کے لیے کہتا ہے تو وہ اس کو دیکھ کر سرجھکا لیتا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ابوالمنصور کیاآج بھی ویسا ہی ہے۔ کیا اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور میں دیکھنا چاہتا تھا ستیہ پیر کے بھکتی گیتوں میں رچا بسا، مرشدی نغموں میں نہایا بنگال… بنگال جس کے اَن گنت تالابوں میں سبز پتوں کے آسن پرسرخ کنول سر اٹھائے جھومتے رہتے ہیں۔ جس کی ندیوں میں چاندی جیسی مچھلیاں جل پری کی طرح تیرتی رہتی ہیں۔ جس کے سبز درختوں کے جھنڈ میں بے شمار پرندے الٰہیاتی نغمے الاپتے رہتے ہیں۔جہاں سبز میدانوں اور روپہلی ندیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اور جہاں حسن بخشتے وقت فطرت بڑی فیاض ہوگئی تھی۔‘‘ (لکشمن ریکھا کے پار، ص 12-13)

بہرطور پروگرام بن گیا اور آناً فاناً تینوں دوست الطاف کی قیادت میں مشرقی پاکستان کے سفر پر نکل پڑے۔  آگے چل کر الطاف کا دوست اماج الدین بھی ان کے ساتھ ہو گیا جو اصل ایجنٹ تھا۔ اگرچہ یہ سفر بے حد مشکل تھا لیکن اماج الدین کی سوجھ بوجھ اور مختلف مقامات پر اس کے تعلقات کی وجہ سے کسی طرح بہ خیرو عافیت تینوں دوست ڈھاکہ پہنچ گئے۔ ڈھاکہ پہنچ کر انھوںنے اپنے مختلف رشتے داروں، دوستوں، جاننے والوں اور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں۔ان تمام کا ذکر الیاس احمد گدی نے دلکش انداز میں کیا ہے۔

اس سفرنامے کا عنوان ’لکشمن ریکھا کے پار‘ بے حد معنی خیز ہے۔ خدا کی بنائی زمین پر ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی جو نظر نہیں آتی لیکن اسے پار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لوگ جو صدہا سال سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے تھے،انھیں مذہب کے نام پر دوملکوں کے باشندوںمیں بانٹ دیا گیا۔ایک ہی خاندان کے کچھ لوگ ہندوستان میں رہ گئے اور کچھ لوگ پاکستانی قرار پائے۔ اس غیر منطقی تقسیم نے نہ جانے کتنے خاندانوں کو اجاڑ دیا اور کتنی بستیاں ویران کردیں۔الیاس احمد گدی لکھتے ہیں:

’’ٹرین کی کھڑکی سے باہر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا ملک پھیلا ہوا تھا۔ مشرقی پاکستان، وہی خوبصورت، زندہ، پرسکون بنگال جس کے بیچ میں ایک سیکڑوں میل لمبی لکشمن ریکھا کھینچ دی گئی۔ تم مشرق ہو۔ ہم مغرب ہیں۔ مگر تہذیب جو کسی غیر جغرافیائی تقسیم کو کبھی تسلیم نہیں کرتی اس لکیر کو بھی نہیں مانتی۔ سیکڑوں لوگ ادھر سے ادھر ہوتے ہیں۔ کتابوں کے حروف ہواؤں کے دوش پر کہاں سے کہاں پہنچتے ہیں۔‘‘ (ایضاً،  ص50-51)

لکشمن ریکھا کے پار‘ میں بنگال کی تہذیب و ثقافت، اس کی سنہری تاریخ، شاندار ماضی اور بدتر حال، عوام کی غربت، شناخت کا مسئلہ، اردو اور بنگلہ کی کش مکش، مغربی پاکستان کے ذریعے مشرقی پاکستان کے عوام کا استحصال، ان پر زبردستی اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان تھوپنے کی کوشش، بنگالیوں کا اس پر شدید احتجاج،بنگالیوں اور بہاریوں (تمام مہاجرین کو وہاں بہاری کہا جاتا ہے)میں بڑھتی غلط فہمیاں، ایک دوسرے کے تئیں شک،عداوت اور نفرت اور اس کے اسباب، بنگالیوں میں اپنے آپ کو ٹھگے جانے کا احساس،ہند و پاک جنگ، بنگلہ دیش کے قیام کا پس منظروغیرہ سے بہ خوبی واقف کرایا گیا ہے۔سفرنامہ نگار نے اس میں چوری چھپے سرحد پارکرنے والوں کو راستے میں درپیش خطرات،ان کی خوف زدگی اور احتیاط، رکشے والوں کی مکاری اور طے شدہ سے زیادہ رقم کا مطالبہ، پولیس والوں کی عیاری اور قدم قدم پر رقم اینٹھنے کی کوشش، مقامی غنڈوں اور داداؤں اورسرحد کے آس پاس کے گاؤوں کے لوگوں کے ذریعے آنے جانے والے مسافروں کو لوٹنے کی کوششوں سے بھی پوری طرح واقف کرایا ہے۔ اس سفرنامے میں اپنی مٹی، اپنی زبان اور تہذیب سے محبت، اپنے لوگوں سے ملنے کی خوشی اور ان سے بچھڑنے کے غم کا اظہار بھی الیاس احمد گدی نے بے حد جذباتی انداز میں کیا ہے۔ڈھاکہ پہنچنے کے بعد جس والہانہ انداز میں الیاس احمد گدی اور ان کے دوستوں کا ہر جگہ استقبال کیا گیا اور جھریا کے پرانے باشندوںنے جس طرح  انھیں ڈھاکہ میں بس جانے کی دعوت دی اس سے ان کے خلوص اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔الیاس احمد گدی جب لالہ چچا سے ملے جو ڈھاکہ کے بڑے کاروباری بن گئے تھے تو انھوں نے بھی یہ پیش کش کی۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’سامنے ایک بڑا آفس ٹیبل جس پر آٹھ دس ٹیلی فون قرینے سے رکھے تھے۔ ایک نوجوان ٹیبل پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ہر دو ایک منٹ پر کسی نہ کسی فون کی گھنٹی بج اٹھتی۔ نوجوان کبھی دا ہنی طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے فون اٹھا کر ایک آدھ جملہ کہتا پھر رکھ دیتا۔یہ سارا منظر فلموں جیسا تھا۔ لالہ چچا کہہ رہے تھے:

’’بیٹا۔ہم لوگ یہاں آکے بہت پیسہ کمایا۔کاروبار اتنا پھیل گیا ہے کہ خود ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا کاروبار کہاں کہاں چلتا ہے۔یہ سارا کاروبار تمھارا یہ بھائی دیکھتا ہے۔اس نے ٹیبل والے نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔تم لوگ وہاں کیاکر رہے ہو؟میری بات مانو تویہاں آجاؤ۔ پورے سید پور کے سول ایجنٹ بن جاؤ۔جتنا مال چاہو اٹھا لو اور بیچ کر پیسہ دو۔ تم لوگوں کے لیے رقم لگانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لمبا کام ہے۔ ٹھیک سے کر وگے تو سال چھ مہینے میں بڑے آدمی بن جائو گے۔‘‘  (ایضاً، ص 115)

اس سفرنامے میں مغربی اور مشرقی پاکستان میں جاکر بسے افراد کی اس ذہنیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ عموماً ہندوستانی مسلمانوں کو ترحم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان باکل غیر محفوظ ہیں۔ہندوستان میں ان کا مذہبی تشخص اور ان کی تہذیب و ثقافت خطرے میں ہیں۔

بنگال کی روشن تاریخ اور یہاں کی عظیم تہذیب و ثقافت کا ذکر مصنف نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔پوری دنیا میں جس کی دھوم تھی۔جس کی حسینائوں، ندیوں، آبشاروں،گیتوں اور قصے کہانیوں کے ذکر سے کتابیں بھری پڑی تھیں۔الیاس احمد گدی نے جب اس خوابوں کی سرزمین کا سفر کیا اور وہ مقامات تلاش کرنے کی کوشش کی اور وہ سب کچھ دیکھنا چاہا جس کا اتنا ذکر سنا تھا تو انھیں شدید مایوسی ہوئی۔لکھتے ہیں:

’’یہ ایک ایسی دنیا تھی جس کے متعلق انگنت قصے اور کہانیاں، واقعات اور حادثات سنے تھے۔جس کے متعلق ڈھیروں کتابیں پڑھی تھیں۔جو ’سونار‘ بنگلہ تھا۔ جو سین اور پال راجائوں کا دیس تھا۔ جو راگ راگنیوں کا ملک تھا۔ جس کی ہوائوں میں مرشدی اور چنڈی نغمے رچے تھے۔جس کے گلی کوچوں میں، دیہاتوں میں، بنوں میں اور ندیوں پرنغموں کی پھوہار گر رہی تھی۔ اکتارے پر باول گانے والے جوگیوں کی ٹولیاںاس گائوں سے اس گائوں، اس شہر سے اس شہر، اس گھاٹ سے اس گھاٹ چلاکرتی تھیں۔اور بغیر بلائوز صرف ساڑی میں لپٹی بڑی بڑی آنکھوں اور لمبے بالوں والی لڑکیاں پیتل کی گاگریں اٹھائے تالابوں کے منڈیروں پر اترتی چڑھتی دکھائی دیتی تھیں۔مگر یہ سب کہاں تھا؟ کہاں تھا یہ سب…!‘‘ 

(ایضاً،  ص:120)

مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) کی بدحالی کی تصویریں ’’لکشمن ریکھا کے پار میں جا بجا ملتی ہیں۔ پہلے انگریزوں نے اسے لوٹا، یہاں کی بہترین صنعت کو برباد کردیا اور اسے معاشی اعتبار سے کھوکھلا کردیا۔

’’یہ وہی ملک تھا جہاں کی مصنوعات خاص طور پر کپڑے دور دراز کے ملکوں کی منڈیوں میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ بُنکروں نے ہاتھ کرگھے سے وہ کمال دکھلایا تھا کہ دنیا حیرا ن تھی۔ڈھاکے کی ململ کی کتنی ہی کہانیاں مشہور ہیں۔مگر بھلا ہو …ایسٹ انڈیا کمپنی کے بدھاتائوں کا کہ جنھوں نے تمام خام مال پر کنٹرول عائد کرکے سارا مال بازار سے غائب کر دیا۔…بنکروں اور صنعت کاروں کو مال ملنا بند ہوگیا۔ وہ بھوکوں مرنے لگے اور کاشت کاری کی طرف دوڑے اور ادھر خام مال بڑی بڑی نائووں پر لدا چاٹگام کی بندرگاہ سے بڑے بڑے جہازوں میں بھر کر یورپ کی منڈیوں میں پہنچنے لگا۔‘‘ (ایضاً، ص 67)

انگریزوں سے نجات ملی تو اپنے لوگوں نے بھی منافقانہ رویہ اختیار کیا اور مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کی اجارہ داری قائم رہی۔بنگالیوں کو ہمیشہ نیچی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان کی زبان اوران کی تہذیب و ثقافت کو کبھی وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے:

’’پہچان بچانے، زندہ رہنے اور اس کڑے امتحان سے گزر جانے کی جدوجہد میں مصروف۔جس کا اکتارہ چھین لیا گیا تھا اور جو اپنے نغموں، اپنے گیتوں،اپنے ادب، اپنے فلسفے اور اپنے کلچر پر ہوئی یلغار سے پریشان تھا۔جو لاتعداد اجنبی انجانے لوگوں میں اپنے آپ کو گم ہونے سے بچا رہا ہے۔ یہ اجنبی انجان لوگ، یہ نامعلوم ملکوں کے لوگ جو سیکڑوں میل لمبی سرحد سے درآئے تھے اور آہستہ آہستہ چھائے جا رہے تھے۔‘‘ (ایضاً، ص 121)

یہ وہی بنگالی ہیں جنھوں نے تقسیمِ ملک کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے اپنے گھروں کے ساتھ دلوں کے دروازے بھی کھول دیے تھے۔ ان لٹے پٹے لوگوں کو اپنی زمینیں دی تھیں، ان سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کردی تھیں،انھیں اپنے کاروبار میں حصہ دار بنایا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان احسانات کے بدلے انھیں دھوکہ کھانا پڑا۔

’’وہ ایک عجیب عالم تھا، بٹوارے کے فوراً بعد کا۔ ہندوستان سے جوق در جوق مہاجرچلے آرہے ہیں۔ لٹے ہوئے، برباد، تباہ حال،فسادات کے کچلے ہوئے اور ادھر مشرقی پاکستان کی سرحد پر ہزارہا لوگ ان کے استقبال کو کھڑے ہیں۔آشو آشو آمادیر بھائی بھائیآشچے۔ گاؤں گاؤں کھانا بن رہا ہے۔ گھر گھر بچوں اور عورتوں کے لیے بستر لگایا جا رہا ہے۔بینا پل سے ڈھاکہ اور چاٹگام تک مہاجروں کا قافلہ گزر رہا ہے۔لوگ گلے مل رہے ہیں رو رہے ہیں۔ چھلکتی آنکھوں سے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ آیشو آیشو تو می امار بھائی آچھو، آمار خون آچھو،امادیر مسلمان بھائی۔ کی چائی ؟ زومین؟ کی چائی چاکری، کی چائی بھات.....

انھوں نے مہاجرین کو زمینیں دین اور ان کوآباد کرنے میں ہر ممکن تعاون بہم پہنچایا۔یہاں تک کہ اپنی لڑکیاں بھی دھڑا دھڑ بیاہ دیں۔شہروں میں سیکڑوں کیمپ لگے اور ہزارہا نوجوان بازوؤں پر والنٹیئر کے پٹے باندھے ان کی خدمت گزاری میں لگ گئے۔اور بنگال کا وہ معصوم جولاہا جو پہلے بھی سیاسی بساط پر پٹ چکا تھا ایک بار اور مات کھا گیا کہ جب یہ مہاجر اور یہ مسلمان بھائی ان کی زمینیں ہڑپنے لگے اور پہلے کسان اور پھر چھوٹے چھوٹے زمیندار بننا شروع ہوئے اور ادھر شہروں میں جب انھیں اپنی لیاقت سے تین گنی اونچی نوکریاں دی گئیں۔ تمام سرکاری ٹھیکوں اور کاروبار پر، تمام اونچی اور اہم نوکریوں پر تمام عیش و عشرت پر جب بہاریوں کا قبضہ ہوگیاتو اقتدار کا نشہ ان پر ایسا چڑھا کہ غریب بنگالی انھیں کم تر درجہ کے انسان نظر آنے لگے۔ انھوں نے ہندوستان  سے اپنی منکوحہ اور چھوڑی ہوئی عورتوں کو بلوا لیا اور جس تیزی سے انھوں نے بنگالی لڑکیوں سے شادی کی تھی اسی تیزی سے انھیں طلاقیں دینی شروع کیںاور وہ غریب مسلمان بھائی جس نے اپنی عزت تک ان کے قدموں میں ڈال دی تھی، اب ڈبڈبائی آنکھوںسے، غم و غصہ سے اور نفرت سے انھیں دیکھتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 78-79)

دراصل یہی وہ پس منظر ہے جس نے مہاجرین اور مقامی لوگوں میں نفرت کی دیوار کھڑی کی۔ اقتدار مغربی پاکستان کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھا جو اپنے لوگوں اور مہاجرین کو ہر ممکن فائدہ پہنچا رہے تھے۔بنگالیوں کو کمتر سمجھا جاتا تھا اور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ملازمتوں میں بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا تھا اور ان کی جگہ غیر بنگالیوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔اس صورتِ حال میں بنگالیوں نے اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کیا اور ایک وقت آیا کہ انھوں نے مغربی پاکستان سے نجات حاصل کر نے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

ڈھاکہ کے مختلف علاقوں مثلاًمحمد پور، میر پور، سید پور، نیو مارکیٹ، نیو کیپٹل، بیت المکرم وغیرہ کی سیرکا احوال بھی بیان کیا ہے۔اس ضمن میں ڈھاکہ یو نی ورسٹی بھی زیر بحث آئی ہے اور اس کی علمی  حیثیت کے ساتھ ساتھ ظلم و نا انصافی کے خلاف اس کے احتجاجی رویے سے بھی مصنف نے واقف کرایا ہے:

’’ڈھاکہ یونی ورسٹی جو ایک درس گاہ ہی نہیں ایک اہم سیاسی مرکز بھی ہے۔ ایک ایسا مرکز جس نے ہر دور میں سیاسی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پون صدی سے جس کے طالب علموںکا نام ہر احتجاج میں شامل رہا ہے اور آج بھی لال ہوتے سیاسی افق پر انھیں کے نام جگمگارہے ہیں۔‘‘   (ایضاً، ص 100)

اس سفرنامے میں اس عہد کے سماج اور معاشرے کی مختلف جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ پیڑ کے نیچے لالٹین کی روشنی میں پڑھتے ہوئے بچے، بیل گاڑی کا سفر،رکشے کی سواری، رکشے والوں کے ذریعے اجنبی مسافروں کو ٹھگنے کی کوشش، بھاپ کے انجن والی ٹرین کا سفر، لہلہاتے کھیت، کچی سڑکیں اور اس طرح کے بہت سارے نظارے مصنف نے اس میں دکھائے ہیں۔مہمان نوازی،  اپنے وطن کے لوگوں سے لگاو، اپنی زبان بولنے والوں سے محبت، انسانی جذبات و احساسات وغیرہ کی بھی عکاسی بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔ مختلف مقامات کی منظر نگاری بھی الیاس احمد گدی نے دلکش انداز میں کی ہے۔ منظر نگاری کی ایک مثال دیکھیے:

’’اب پَو پھٹ رہی تھی اور آہستہ آہستہ سفید دودھیا روشنی تمام چیزوں کو اجالتی جا رہی تھی۔اندھیرے میں جو سیاہ دھبے نظر آتے تھے وہ اب درختوں اور جھاڑیوں کی شکل میں دکھائی دینے لگے تھے۔جگہ جگہ گڈھوں میں چمکیلے پانی کی جھلک بھی ملنے لگی تھی۔کبھی کبھی پرندوں کے بولنے کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔‘‘   (ایضاً، ص 100)

اپنی زبان بولنے والوں سے اپنائیت اور اپنی پسند کا کھانا ملنے پر جو طمانیت حاصل ہوتی ہے اس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ لوگ آپس میں اردو میں بات چیت کر رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر عجیب طرح کی اپنائیت کا احساس ہوا۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی اطمینان ہوا کہ ہم لوگ گھور بنگالی علاقوں سے نکل آئے تھے۔ہم لوگوں نے وہیں ریلوے کینٹین میں کھانا کھایا۔

کینٹین چونکہ بہاری کا تھا اس لیے مرغ اور پراٹھے مل گئے۔ خدا کا شکر ہے۔ چاول اور مچھلی کھاتے کھاتے ہم اوب چکے تھے۔‘‘ (ایضاً، ص 51)

اردو سے محبت کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح ایک بنگالی سیٹھ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں تین لوگ آئے ہیں جن کی زبان اردو ہے تو اس نے انھیں اپنے یہاں بلوایا اور خوب آؤ بھگت کی۔جب مصنف نے پوچھا کہ آپ نے اردو کہاں سیکھی تو ان کا جواب تھا:

’’لاہور  میں میری ایک مرشدآبادی سلک کی دکان ہے۔ میں وہاں کافی عرصہ رہا ہوں۔وہیں مجھے اس زبان کی چاٹ لگی۔… یہاں کا یہ عالم ہے کہ برسوں اردو کا جملہ نہ سننے کو ملتا ہے اور نہ کہنے کی نوبت آتی ہے۔ اسی وجہ سے آج جب یہ معلوم ہو ا کہ تین بہاری یہاں آکر پھنسے ہیں تو میں اپنے آپ کو روک نہ سکا۔‘‘  (ایضاً، ص47)

انھوں نے نہ صرف انھیں رات میں اپنے یہاں ٹھہرایااور ان کی خوب خاطر مدارات کی بلکہ چلتے وقت اپنے لڑکے کو ان کے ساتھ اسٹیشن بھی بھیجا تاکہ کوئی بدمعاش انھیں تنگ نہ کر سکے۔ 

سفرنامے میں ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات کا حال بھی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ایک ایک لفظ سے خلوص ٹپکتا ہے۔ الیاس احمد گدی جب نظیر صدیقی سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ وہ اپنا نام پتہ بتا کر چلے آئے۔ صبح جب یہ لوگ ناشتہ کر رہے تھے اسی وقت نظیر صدیقی ان سے ملنے آگئے۔ان کے علاوہ شہزاد منظرسے ان لوگوں نے ملاقات کی۔  احمد سعید جنھوں نے بمل مترا کے شہرہ آفاق ناول ’کوری دیے کِنلام‘ (جس پر گرودت نے مشہور فلم ’’صاحب، بی بی اور غلام‘‘ بنائی)  کا اردو ترجمہ کیا تھااور جو اس وقت ’نقوش‘ لاہور میں قسط وار چھپ رہی تھیں سے ملاقات کی تفصیلات بھی درج کی ہیں۔

’’لکشمن ریکھا کے پار‘‘درجنوں دلچسپ واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ ہر واقعے کا بیان الیاس احمد گدی نے اس قدر دل نشیں انداز میں کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بھی ان کے ساتھ اس سفر میں شریک ہیں۔اس کی زبان بالکل آسان اور سادہ ہے اور کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کوئی بھی واقعہ غیر فطری یا مبالغہ آمیز نہیں ہے۔ بالکل فطری انداز میں وہ سفر کا حال بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ کہیں کہیں وہ حال کی بدحالی دیکھ کر ماضی میں کھو جاتے ہیں اور پھر ان کے اندر کا افسانہ نگار بیدار ہوجاتا ہے۔اس سفرنامے کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ شروع سے آخر تک کہیں بھی قاری کی دلچسپی میں کمی نہیں آتی بلکہ تجسس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس پر کسی مہماتی ناول کا گمان ہوتا ہے۔ آخری حصے میں جب الیاس احمد گدی اپنے دوستوں اور ایجنٹ کے ہمراہ ہندوستان واپس آرہے تھے تو پولیس کی چیکنگ سے بچنے کے لیے انھیں ایک جنگل سے گزرنا پڑا۔وہ اس وقت کے احساسات یوں بیان کرتے ہیں:

’’اس گھنے اور خوف ناک جنگل میں ہم چلے جارہے تھے۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات تھی کہ ہمیں جنگلی درندوں کا ڈر نہیں تھا۔ سیکڑوں قسم کے حشرات الارض، کیڑوں، مکوڑوں، سانپوں، بچھوئوں،سے ہم خائف نہیں تھے بلکہ ہمیں ڈر تھا تو صرف انسانوں سے۔ ہم دعا کر رہے تھے کہ ہمیں کوئی آدمی نہ ملے۔‘‘ (ایضاً، ص 51)

واقعی خدا کی بنائی اس دنیا میں انسانوں نے ہی انسانوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔اور یہی وجہ تھی کہ مصنف اور ان کے ساتھی راست بھر یہ دعا کرتے رہے کہ انھیں کوئی آدمی نہ ملے۔ 

تحیر آمیز فضابندی، دلکش منظر نگاری، دلچسپ واقعات، بہترین اندازِ بیان اورافسانوی طرز کی وجہ سے ’لکشمن ریکھا کے پار‘ اردو کے سفرناموں میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ مصنف کے پرخلوص لہجے اور تمام بنی نوع انسان سے یکساں محبت کا احساس ہمیں اس سفرنامے کے مطالعے کے درمیان قدم قدم پر ہوتا ہے۔ان کا بنیادی سروکار انسان اور انسانی رشتے سے ہے اور وہ انسانوں کو غیر فطری سرحدوں میں بانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے حد درجہ دکھی نظر آتے ہیں۔

 

Dr. Firoz Alam

Asst. Professor, Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli

Hyderabad - 500032 (Telangana)

Email.: firozdde@gmail.com

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2021

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...