3/3/25

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

 اردو دنیا، جنوری 2025


تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں

بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں

اکبر الہ آبادی دنیائے شاعر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ہندو پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے کافی معروف ہیں۔ اکبر کی شاعری سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اکبرالہ آبادی کو وہ قدور منزلت نصیب نہ ہوئی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ ان کو صرف اور صرف طنز و مزاح کا شاعرتصور کیا گیا۔ لیکن اکبر کی شاعری ہمیں ایک تاریخ کی طرف اشارہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اکبر کی شاعری ہندوستانی تہذیب و تمدن کی علمبردارہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات و واقعات سے پہچانی جاتی ہے۔ قومیں اپنے اوصاف کی بقا کے لیے بھر پور کوششیں کرتی ہیں۔ یقینا کسی بھی قوم کی بقا اورعظمت اس کی تہذیب اور ثقافت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام تر زندہ قومیں اپنی تہذیب اور روایتی ورثے سے بہت محبت کرتی ہیں اور اس کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتی ہیں۔

اکبر الہ آبادی نے عوامی ذہنیت کو پستی میں گرنے سے بچانے کی کوشش کی۔ نوآبادیاتی نظام یعنی (Neocolonialism) کے ذریعے ہونے والے نقصانات سے ہندوستانی عوام کو آگاہ کیا۔ اردو ادب کی پوری تاریخ میں اس  نوآبادیاتی نظام کے خلاف شعوری طور پرجن لوگوں نے رد عمل ظاہر کیا ان میںاکبرالہ آبادی کا نام سر فہرست ہے۔

 اکبر نے عوامی ذہنیت کو بلندی پر لے جانے کے لیے اور ان کو پستی سے باہر لانے کے لیے ضروری سمجھا کہ عوام کو آہستہ آہستہ ان کے برتر ہونے کا احساس دلایا جائے۔دوسری جانب انھوں نے نئے خیالات اور نئی فکر کو اپنی کڑی تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا اور جہاں کہیں ان کی نگاہ میں کسی نئی فکر اور نئے خیالات میں مضر اثرات ابھرتے تو انہوں نے فوراً اپنی شاعری کی ذریعے سے ہندو ستا نیوں کو آگاہ کیا۔

ا کبر جب ہندوستانیوں کو مشرقی تہذیب وتمدن کے اوصاف سے خالی اور مغرب کی اندھی تقلید میںمبتلا دیکھتے تو ان کو مشرقی تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایت ملیا میٹ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اکبر الہ آبادی مشرقی تہذیب وتمدن کے علمبر دار تھے۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ یہ چیز یں جو انگریزوں کی طرف سے آرہی ہیں یہ ہمارے لیے غلامی کی علامت ہیں۔ ریل، انجن ، بھاپ، برقی لیمپ، مشین ، کلیسا اور موٹر وغیرہ ان تمام چیزوں کو اکبر علامت کی سطح پر لے رہے تھے اور ان سب کو غلامی کی علامت سمجھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے ذریعے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنایا جا رہا ہے۔  اکبر الہ آبادی کو اس سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تہذیب کو خود ہی ملیا میٹ کرنے کا خوف ستار ہا تھا۔

شمس الرحمن فاروقی اکبرالہ آبادی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اکبر کی پہلی عظمت اس بات میں ہے کہ (مہاتما گاندھی اور اقبال دونوں نے مغرب اور اس کی تہذیب و تعلیم کو براہ راست اور بہت قریب سے دیکھا تھا) لیکن اکبر نے ملک کے باہر جائے بغیر اس تہذیب اور تعلیم کی علامتوں اور مضمرات کو سمجھ لیا۔‘‘

(اکبر الہ آبادی: نوآبادیاتی نظام اور عہد حاضر: شمس الرحمن فاروقی، ص 8)

اکبرالہ آبادی بنیادی طور پر مشرق پر ست تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشرق ہی میں سب کچھ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر انسان کو اپنی پرانی چیزوں سے محبت ہوتی ہے اور اگر اکبر الہ آبادی نے مشرقی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لیے مغربی تہذیب و تمدن کو تسلیم کرنے سے انکا ر کیا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے نقادوں نے اکبرالہ آبادی کو قدامت پرست اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے۔ جدید تعلیم کے نام ہماری مشرقی تعلیم،  روحانی اقدار اورتہذیبی روایات کو کس طرح مٹایا اورتعلیم کو صرف مادیت پرستی کی طرف لے جایا جا رہا، ان امور کو پوری شدت کے ساتھ اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔

اکبرکے تصور مشرق کو ان کے اشعار کی روشنی میں بہتر انداز سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے اشعار میں مشرق و مغرب کے تہذیبی اقدار ، تعلیمی نظام، نئے پرانے کی آمیزش اور تعلیم نسواں کو بڑی شدت کے ساتھ پیش کیا ہے        ؎

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

جب نئی تعلیم دی جانے لگی تونئی کتابیںیعنی نئے نصاب کی ضرورت بھی ہوئی۔ اس بات کی طرف اکبرنے اشارہ کیا ہے کہ ایسی کتابوں کوپڑھ کر بچے اپنے والدین کو پاگل، مجنوں اور خبطی سمجھنے لگتے ہیں اور ایسی کتابیں جن سے لوگوں کے ذہن اور سماجی اقدار میںتنزل آجائے تو انھیں ضبط کر لینا ہی بہترہے        ؎

شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

مذکورہ شعر میں لفظ ’شیخ‘ کو ایک کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی شیخ کو مشرقی اقدارکے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں یعنی اپنی پرانی چیزوں پر چلنے والا۔ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ شیخ صاحب نے درست کہاتھاکہ تعلیم کے بدل جانے سے دل بھی بدل جاتے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے سے انسان کوکسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے اس بات کو اکبر الہ آبادی بخوبی دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ اس کے برعکس یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ تعلیم انسانوں کے اذہان کو بدل دیتی ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال ہمیں اپنے آس پاس دیکھنے کو مل جائے گی۔

اکبر الہ آبادی نے جہاں ایک طرف مشرقی تعلیمی نظام، مشرقی تہذیب و تمدن اور مشرقی روایات کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور ان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا تو وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب و تمدن کواپنی شاعری کے ذریعے سے طنز کا نشانہ بھی بنایا۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری سے مشرقی تہذیب وتمدن کو سمجھا جا سکتا ہے      ؎

مل کا آٹا ہے نل کا پانی ہے

آب و دانہ کی حکمرانی ہے

بظاہر یہ بہت عجیب شعر معلوم ہوتا ہے لیکن اس شعر میں پورا تہذیبی  انہدام دیکھنے کو ملتاہے۔’ مل کا آٹا‘ یعنی چکی کے بجائے مشین کے ذریعے سے گیہوں پیسا جا رہا ہے۔ ’چکی‘ مشرقی تہذیب کا حصہ ہے۔ ’نل کا پانی‘، ہمارے یہاں قدیم دور میں نل کا تصور نہیں تھا بلکہ لوگ پانی حاصل کرنے کے لیے کنواں کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں ایسا نہیں ہے۔ کنویں کی تہذیب پورے طریقے سے مٹ چکی ہے۔ نل کے آجانے سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ پہلے ہم اپنی مرضی سے جب جی چاہا پانی نکال لیے، لیکن اب ہم کسی کے تابع ہوگئے      ؎

پائپ کوئی کھلا نہیں گھر میں لگی ہے آگ

اب بھاگنا ضرور ہوا غور کیا کریں

یہاں لفظ ’پائپ‘ کا استعمال شاعر نے طنزکے طور پر کیا ہے۔کیونکہ اس کے پس پردہ ہماری پوری کنویں کی تہذیب خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ یہ کہاجا ئے تو غلط نہ ہو گا کہ کنویں کی تہذیب پورے ہند و ستانی سماج سے غا ئب ہو چکی ہے۔ پائپ سے پانی ایک وقت تک ہی آتا ہے، اس کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ اس لیے شاعر طنز کستے ہوئے کہتا ہے کہ تمام پائپ بند ہیں اور گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ دوسرے مصرعے میں اشارہ ہے کہ ایسی صورت حال میں اب انسان صرف ادھر ادھر ہی بھاگ سکتا ہے۔  وہ غور و فکر کرنے کے بھی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے۔ اگر کنواں ہوتاتوشاید آگ پر قابو پا لیا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ پائپ کی وجہ سے کنویں کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔

قمر الدین احمد بدایونی لکھتے ہیں کہ اکبر نے مذکورہ شعر کی تو جیہ حسب ذیل بیان کی ہے:

’’ اکبر نے فرمایا کہ تھوڑا عرصہ ہوا چوک کی دکان میں آگ لگ گئی۔ اس وقت پائپ بند ہونے کی وجہ سے رعایا کا سخت نقصان ہوا۔ میں نے مذکورہ شعر اس خیال سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ اگر اس وقت زمانۂ سابق کی طرح کنویں ہوتے تو آگ بر وقت قا بو میں لائی جا سکتی تھی۔ شہروں میں ترمیم دیکھو کہ حکمران طبقہ اور امرا سول لائن میں ہیں۔ غربا کے لیے زیست کے دن گزارنے کے واسطے شہر کے گندے گوشے علاحدہ ہیں۔ مراد اس سے یہی ہے کہ نہ امیر و غریب یکجا ہوں گے، نہ ایک دوسرے کے دکھ درد سے ہمدردی ہوگی۔‘‘

(بزم اکبر: مولوی قمرالدین بدایونی، ص 20)

اس کے علاوہ اکبر کے تعلق سے لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہے کہ اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ وہ عورتوں کی آزادی کے خلاف تھے۔ اس آزادی کے خلاف تھے جس آزادی کی بات انگریز کرتے تھے۔ اس تعلیم کے خلاف تھے جس تعلیم کی بات انگریز کرتے تھے۔ ہمارے سماج میں عورتوںکو دیوی جیسے پاک لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی تہذیب نے عورتوں کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ اس بات کو بھی اکبر کے کلام کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا واقعی اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے یا صرف اور صرف اکبر کے ساتھ اس تہمت کو لگا دیا گیا ہے      ؎

 حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی

اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

جب تک حامدہ نے مغربی تعلیم حاصل نہیں کی تھی یعنی انگریزی نہیں سیکھی تھی، اس وقت تک اس کے چمکنے کا تصور ہی نہیں تھا، یعنی وہ گھر کا چراغ تھی، لیکن جب اس نے انگریزی کی تعلیم حاصل کرلی تووہ شمع انجمن ہونے لگی۔ محفل میں زیادہ اہمیت کی حامل بن گئی۔ ہماری مشرقی تہذیب میں لڑکیوں کو گھر کے چراغ کی مانندسمجھا جاتا ہے اور ان کو پردے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن انگریزی تعلیم کی وجہ سے آج کی تاریخ میں ہماری لڑکیاں شمع محفل بنی ہوئی ہیں۔ اس تعلیم نے ہمارے تہذیبی اقدار کو پامال کر دیا ہے        ؎

تعلیم دختراں سے یہ امید ہے ضرور

ناچے دلہن خوشی سے خود اپنی برات میں

مغربی تعلیم جولڑکیوں کو دی جا رہی ہے یا مغرب سے جو تعلیم ہمارے یہاں آئی ہوئی ہے، اس تعلیم سے صرف بے حیائی اور برائی کے علاوہ اچھائی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ جو دلہن ہے وہ خود اپنی شادی میں ناچ رہی ہے۔ ہمارے یہاں آج بھی لڑکیاں شادی کی بات سن کر شرم سے دور چلی جاتی ہیں، لیکن جب سے ہمارے یہاں کی لڑکیوں نے مغربی تعلیم حاصل کی ہے ان کے اندر سے شرم و حیا با لکل ختم ہو چکی ہے۔

مذکورہ بالا جو اکبر الہ آبادی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہرگز نہیں نکا لی جا سکتی ہے کہ اکبر عورتوںکی تعلیم کے خلاف تھے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکبر اس تعلیم کے خلاف تھے جو معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو جنم دے۔ایک سچے اور محب قوم کی حیثیت سے اکبرالہ آبادی کی دور بیںاور گہری بصیرت ہر لحاظ سے قابل داد ہے۔ اکبر الہ آبادی نے مشرقی تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہر آنے والی مصیبتوں سے ہندوستانیوں کو بیدار کیا ہے۔ اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں بتایا ہے۔ اکبرالہ آبادی انگریزوں کی چال بازیوں کے خلاف تھے۔ انھیں اس بات کا پورا احساس ہو گیا تھا کہ یہ لوگ ہماری صدیوں پرانی تہذیب وتمدن کو پامال کر دیں گے ،ہمیں غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیں گے اور ہمیں ذہنی غلام بنا دیں گے اور یہی ہوا بھی کہ ہندوستانی قوم ایک طرح سے ذہنی غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔

 اکبر الہ آبادی کبھی بھی ترقی کے خلاف نہیں تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ غلامی کی زندگی جینے سے بہتر ہے کہ کچھ صنعت و حرفت کی طرف توجہ دی جائے۔جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ دور میں خاص طور سے نئی تعلیمی پالیسی میںVocational Education یعنی پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف ہماری حکومتیں خاص توجہ کر رہی ہیں، جبکہ اس بات کی طرف اکبر نے پہلے ہی اپنے اشعار کے ذریعہ بتایا تھا کہ ہمیں ان چیزوں کو سیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے جو کہ نا صرف ناموری کا ذریعہ ہوں بلکہ ان سے زندگی کو با مقصد اور آسان بھی بنایا جا سکے۔ نظم کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو، جس میں وہ نوجوانوں کو صاف صاف تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں         ؎

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو

اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو

بڑھائو تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو

خواص خشک و تر سیکھو، علوم بحر و بر سیکھو

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکبر الہ آبادی کی شاعری ہندوستانی تہذیبی اقدار کا نوحہ ہے۔ اکبر کی اسی ناقدانہ بصیرت اور ماضی و مستقبل شناسی کے مد نظر انھیں ایک عہد ساز شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

Ameer Hasan

Research Scholar

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 7503551548

ameerhasan2013@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...