اردو دنیا، فروری 2025
ہندوستان کثیر آبادی والا
جمہوری ملک ہے جو عالمی سطح پر بڑی اقتصادی طاقت بننے کی جانب گامزن ہے۔ قومی تعلیمی
پالیسی 2020 کے مسودے کے مطابق نئے قومی،
تعلیمی، ایجنڈے کے مقاصد و اہداف میں عالمی تعلیم کے ترقیاتی ایجنڈے کو بھی ملحوظ
رکھا گیا ہے تاکہ ’’جامع اور مساوی معیار کی تعلیم کو یقینی بنایا جائے اور تدریس
و آموزش کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔‘‘
مشینی لرننگ اور مصنوعی ذہانت
(Artificial
Intelligence) جیسی روز افزوں سائنسی و تکنیکی ترقیات کے سبب عالمی سطح
پر زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی امور میں بھی جو اہم تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں
انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تبدیل شدہ نئے حالات کے تناظر میں آموزگاروں کو
عصری مسائل سے ہم آہنگ کرنے، منطقی اور تخلیقی ذہن کے ساتھ سوچنے، بین العلومیت کی
اہمیت و ضرورت کو سمجھنے اور حاصل شدہ نئی معلومات کا نئے حالات کی روشنی میں
استفادہ کرنے کے مواقع میسّر آسکیں اس کے لیے طریقۂ تعلیم و تدریس کو مزید
تجرباتی انکشافی، جامع، منضبط، پُرلطف، مؤثراور مفید بنانے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی پالیسی ایسی ہو جو طلبہ
کی ہمہ جہت صلاحیتوں کے فروغ کے ساتھ ان کی کردار سازی، جذبۂ حب الوطنی، انسان
دوستی اورانہیں اچّھا شہری بنانے میں معاون ثابت ہو اور وطن پرستی، زبان و تہذیب و
ثقافت کے تئیں نہ صرف بیداری اور حساسیت پیدا کرے بلکہ ماضی کی شان دار روایات کے
تحفظ کے احساس کے ساتھ مستقبل کے معاملات و مسائل و حالات کی چنوتیوں کے تئیں مثبت
تعمیری اقدامات کا سبب بن سکے۔ ’قومی تعلیمی پالیسی 2020‘ میں طلبہ کی تخلیقی اور
تفکیری صلاحیتوں کو فروغ دینے پر خاص زور اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ علم، دانش وری
اور حق کی تلاش کو ہندوستانی فکری اور فلسفیانہ روایات میں ہمیشہ اہمیت دی جاتی رہی
ہے۔ ہندوستان میں عہدِ عتیق ہی سے حصولِ علم یا تعلیم کا مقصد محض روزگار اور تعلیم
حاصل کرنا ہی نہیںبلکہ اعلیٰ انسانی صفات اور ادراکِ نفس کی صلاحیت کا حصول بھی
رہا ہے۔ نالندہ، تکشلا اور لبّھی جیسے عالمی معیار کے اداروں نے تعلیم و تدریس کے
مختلف شعبوں میں تدریس و تحقیق کی اعلیٰ مثالیں پیش کرکے مقامی اور غیر مقامی طلبہ
کو مستفیض کیا تھا۔ یہی وہ نظامِ تعلیم ہے جس نے چرک، آریہ بھٹ، بھاسکراچاریہ،
برہما گپت، چانکیہ، پانینی، پتنجلی، ناگارجن، شنکردیو وغیرہ ماہرین علوم دانشوروں
کو جنم دیا۔ جنھوں نے ریاضی، فلکیات، علم طب و تکنیک ، فنِ تعمیر، یوگ اور فنون لطیفہ
میں ایسی اہم ترین خدمات انجام دی ہیں کہ ان کے اثرات آج بھی دیکھے اور محسوس کیے
جاسکتے ہیں۔ چنانچہ قومی تعلیمی، پالیسی اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ نئی نسل کے
طلبہ ان پر نہ صرف تحقیق کریں بلکہ ان کی فتوحات کو قائم رکھنے اور آگے بڑھانے میں
اپنا کردار ادا کریں۔
’قومی تعلیمی
پالیسی 2020‘ میں استاد کی اہمیت، ضرورت اور مرکزیت کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے
بلکہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے بموجب فروغ دینے میں ہر ممکن
کوشش کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔
یہ تعلیمی پالیسی ہر طبقے کے
طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پُرزور سفارش کرتی ہے تاکہ اس کے ذریعے سماج میں
مساوات کی فضا، باہمی شراکت و شمولیت کی عادت اور بہتر معاشرتی اور معاشی صورتِ
حال پیدا ہو اور ملک و قوم کو ہر شعبے میں پائداری اور استحکام حاصل ہوسکے اور آئین
کی پاسداری اور اس کی تکثیریت کو عملی شکل دی جاسکے۔
اس تعلیمی پالیسی کا وژن
ہندوستانی اقدار اساس نظام تعلیم کا نفوذ ہے جس کے تحت معیاری تعلیم فراہم کرکے
تعلیمی امور میں ہندوستان کو عالمی معیار عطا کرکے ایسا مثالی صحت مند علمی معاشرہ
بنانا ہے جس پر ہر ہندوستانی فخر محسوس کرے اور یہ عملاً اس کے افکار و اعمال اور
رویوں میں بھی ظاہر ہو اور وہ حقوقِ انسانی کی پاسداری اور عالمی فلاح و بہبود کے
تصور کے ساتھ عملی زندگی گذار سکے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی - 2020‘ میں جہاں تمام صحت مند قدیم
روایات و اقدار کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہیں تعلیم کے جدید عالمی معیار کے ان تمام
پہلوئوں پر بھی خاص توجہ صرف کی گئی ہے جو کہ ماضی کا رشتہ حال اور مستقبل سے
منسلک کرکے عصرِ حاضر کی نسلِ نو کو باعمل اور بہتر انسان بنانے اور تعلیم کی عالم
گیر رسائی کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
موجودہ ثقافتی اور سماجی تناظر
میں قدیم و جدید کی صحت مند روایات و اقدار کا تحفظ اور ان پر عمل پیرا ہونا اس لیے
ضروری ہے تاکہ ہمارے آج اور آنے والے کل کو سنوارنے اور بہتر بنانے میں خاطر
خواہ مدد مل سکے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی - 2020‘میں جو اہم سفارشات اور تجاویز شامل ہیں، ان میں قومی تشخص مرکز
قائم کرنے اور جنرل ایجوکیشن کونسل (GEC) کے
تحت نیشنل پروفیشنل اسٹینڈرڈ سیٹنگ باڈی (NPSSB) کی تشکیل کے ذریعے عمومی گائڈ لائن مرتب کرنے نیز تعلیمی
اہداف کے حصول کے لیے خصوصی تعلیمی علاقہ (Special education zone) ،صنفی شمولیاتی فنڈ کے قیام و نفاذ کی تجاویز شامل ہیں تاکہ پائدار
ترقیاتی مقاصد (SDG-4) کی جانب پیش رفت کی جاسکے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی - 2020‘ کا مطمح نظر علوم جدیدہ کے
حصول کے ساتھ ہندوستانی اقدار اساس نظام تعلیم کا ایسا نفاذ ہے جو مقامیت یا
ہندوستانیت کے ساتھ عالم گیر تعلیمی معیار کو بھی یقینی بناسکے تاکہ ’عالمی سوچ
اور مقامی عمل‘ کے منصوبے پر عمل درآمد ہوسکے اور ہمارا تعلیمی معیار بہتر اور
مثالی بن جائے اور وسیع تر آزادانہ تعلیم (Liberal Education)
کا تصور، عملی شکل
اختیار کرسکے۔
مذکورہ بالا امور و اہداف کی
حصول یابی کے لیے تمام تعلیمی اداروں اور کمیونٹی اور سول سوسائٹیز کے مابین باہمی
شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے حکومت اور اداروں سے وابستہ ذمے داران کا عملی
تعاون ضروری ہے تبھی حاشیے پر رہنے والے سماج کے کمزور طبقات کی تعلیمی اصلاح و
فلاح کے کام کی جانب پیش رفت ہوسکے گی۔
’قومی تعلیمی
پالیسی - 2020‘ میں جہاں بچّوں کے ذہنی و
تعلیمی نشوو نما پر توجہ دی گئی ہے وہیں نصابی، تدریسی اور امتحانی نظام میں
اصلاحات کے ساتھ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کی سفارش بھی کی گئی ہے اور اس کے تحت
زبان کی تعلیم، بالخصوص مادری زبان کے ذریعے تعلیم کے حصول پر خاص توجہ دی گئی ہے
کیونکہ زبان ترسیل خیالات کا اہم و مؤثر وسیلہ ہے۔ مادری زبان میں تدریس و آموزش
اس لیے ضروری ہے کہ اس کے سبب طلبہ کم محنت اور کم وقت میں باآسانی نہ صرف حصول
علم کرسکتے ہیں بلکہ ان کی ہمہ جہت ترقی نیز شخصیت و تشخص کی تعمیر و تشکیل میں بھی
مدد ملتی ہے اور حصولِ تعلیم کے بنیادی مقاصد کی بھی تکمیل ہوتی ہے۔ باہمی رابطہ
قائم کرنے، اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے میں مادری زبان اہم کردار ادا کرتی
ہے۔
مخصوص قدیم تہذیب و تمدن و ثقافت نیز کثیرالادیان
اور کثیر اللسان ہونے کے سبب ہندوستان کو زبانوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان
میں متعدد علاقائی بولیاں اور زبانیں رائج ہیں۔ دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈیول میں
جو اہم اور مقبولِ عام ہندوستانی زبانیں مندرج ہیں، اُن میں اردو بھی شامل ہے۔
تمام ماہرینِ تعلیمات اور لسانیات
اس امر پر متفق ہیں کہ بچّوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان ہی میں دی جانی
چاہیے۔ دستورِ ہند کے سیکشن '350-A' کے
ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی کمیشنوں، قومی تعلیمی پالیسیوں، این سی ای آرٹی کے درسیاتی
خاکوں RTE-2009
اور دیگر تعلیمی دستاویزات میں بھی طلبہ کی مادری زبان میں تعلیم و تدریس کی
اہمیت اور ضرورت پر اصرار کیا گیا ہے۔ سابقہ قومی تعلیمی پالیسیوں کی طرح نئی ’قومی
تعلیمی پالیسی ۔2020‘ میں بھی مادری زبان میں تعلیم و تدریس کی اہمیت نیز جدید
ذرائع ترسیل و ابلاغ کو اختیار کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی۔2020‘ کا خاص مقصد ہندوستانی نظامِ تعلیم میں مطلوبہ اصلاحات نیز تبدیلیوں
کے ذریعے اُسے 21 ویں صدی کے تعلیمی تقاضوں اور ضروریات کے عین مطابق بنانا ہے
تاکہ ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجات میں خواندگی اور عددی ماحصل کو نہ صرف
فروغ حاصل ہوسکے، ڈراپ آئوٹ کی شرح میں کمی واقع ہوسکے بلکہ اعلیٰ تعلیمی نظام میں
کثیر شعبہ جاتی بین العلومی طرزِ رسائی کی ایسی سہولیات بھی بہم ہوسکیں جو کہ طلبہ
کی ہمہ جہت صلاحیتوں کو فروغ دینے اور ان کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں معاون ثابت
ہوں۔
زبان یوں تو زندگی کے ہر شعبے
میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن تعلیم و تدریس و آموزش کے سلسلے میں اسے بنیادی حیثیت
حاصل ہے۔ مضمون خواہ کوئی بھی ہو اس کی تدریس زبان کے ذریعے ہی عمل میں آتی ہے۔
بچّہ جب اسکول میں پہلی بار آتا ہے تو وہ کئی الفاظ کا ذخیرہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔
جو زبان اس کے گھر اور اطراف میں بولی جاتی ہے دراصل وہی اس کی مادری زبان ہوتی ہے
جس میں وہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں بآسانی اکتسابِ علم کرسکتا ہے۔
زبان و ادب کی تدریس و آموزش
کے ساتھ دیگر سماجی، سائنسی اور تکنیکی علوم کی تدریس و آموزش میں بھی ماری زبان
کی لفظیات، مصطلحات اور تراکیب زیادہ مؤثّر اور معاون ثابت ہوتی ہیں۔
’قومی تعلیمی
پالیسی۔2020‘ میں اسکولی تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور دیگر مختلف تعلیمی معاملات و
حکمتِ عملی کو چار زمروں میں منقسم کیا گیا ہے۔ ’قومی تعلیمی پالیسی۔ 2020‘ کے
مسودے کی شق نمبر 4.11 میں چھوٹے بچوں کی مادری زبان / گھر کی زبان میں جہاں تدریس
و آموزش کی سفارش کی گئی ہے وہیں جن بچّوں کی مادری زبان ذریعۂ تعلیم نہیں بن سکی
ہے ان کے لیے ذولسانی ذریعۂ تعلیم یا طرزِ رسائی کی تجویز شامل ہے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی۔2020‘ کی شق 4.12 میں کثیر لسانیت
کی بات کہی گئی ہے تاکہ طلبہ میں دو سے آٹھ سال کی عمر کے درمیان، ایک سے زیادہ
زبانیں سیکھ لینے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اسی کے ساتھ مادری زبان کے ساتھ دیگر
زبان کے سیکھنے، زبان کی تدریس دلچسپ مکالماتی انداز میں کیے جانے اور جدید تکنیکی
ذرائع وسائل کا استعمال کیے جانے کی تاکید کی گئی ہے اور تین زبانوں میں کسی ایک
ہندوستانی زبان کو پڑھنا لازمی قرار دیا ہے۔
’قومی تعلیمی
پالیسی۔2020‘ کی شِق نمبر 4.16 میں ہر طالبِ علم کے لیے ’دی لینگویج آف انڈیا‘ پر
ایک ایسا پروجیکٹ تیار کرنے کی تجویز شامل ہے جس کے ذریعے ہندوستانی زبانوں کے مابین
باہمی ربط پیدا کرنے اور آدی باسی زبانوں کی ساخت اور نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی
جائے تاکہ مشترکہ ہندوستانی ثقافت کی اہمیت واضح ہوسکے۔
شق نمبر : 4.17 میں کلاسیکی ہندوستانی زبانوں اور ان کے ادب کی
اہمیت کے پیشِ نظر خاص توجہ دیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔
شِق نمبر22.9 میں ہندوستانی
زبانوں اور ان کے ادب کے مابین تقابلی مطالعے اور دیگر فنونِ لطیفہ کی بات بھی
شامل ہے۔
شق نمبر 4.20 میں غیر ملکی
ثقافتوں کی تفہیم کے لیے غیر ملکی زبانوں کے مطالعے کے تئیں رہنمائی فراہم کی گئی
ہے۔
شق نمبر 2.8 میں مختلف
ہندوستانی زبانوں کی تدریس میں پُرلطف آموزش کے لیے دلچسپ ادبِ اطفال کو شامل کیے
جانے، کتب خانوں میں حسبِ ضرورت کتابیں مہیا کرانے اور تکنیکی ذرائع سے معیاری
تراجم کی تجویز شامل ہے۔
شق نمبر 4.21 اس لیے اہم ہے کہ اس میں زبان کی تدریس و
آموزش کو معیاری، دلچسپ اور مؤثر بنانے کے لیے جدید تکنیکی طریقوں اور شمولیاتی
طرزِ رسائی پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ زبان کے لسانیاتی اور ثقافتی پہلوئوں کو مستحکم
بنانے کے لیے جدید تر تکنیکی ذرائع و وسائل مثلاً : مختلف Apps، پورٹلس،
انٹرنیٹ، فلم، کمپیوٹر، ویب سائٹس، CD's، ٹوئٹرس، فیس
بک، یو-ٹیوب، تعلیمی چینلس، ای لائبریری وغیرہ کے ذریعے تعلیم کو حقیقی عصری زندگی
سے جوڑنے، تعلیمی نظام کو مؤثر اور تجرباتی بنانے پر اصرار کیا گیا ہے۔ اس جدید
تکنیکی عمل میں شمولیاتی طرزِ رسائی کے لیے خصوصی ضروریات کے حامل بچّوں یا نابینا
بچّوں کے لیے اشاراتی زبان کی تکنیک کو فروغ دینے کی خاطر خصوصی درسیاتی مواد تیار
کرنے کا مشورہ بھی شامل ہے۔
شق نمبر 22.19 کے مطابق ہندوستانی زبانوں کی تدریس و آموزش کے لیے
مختلف ویب سائٹس پر مبنی پلیٹ فارم / پورٹل یا وکی پیڈیا پر درسی مواد کی فراہمی ویڈیوز
اور رکارڈنگ وغیرہ کی سہولت دستیاب کی جائے گی اور ترجمہ نگاری کی صلاحیت کو فروغ
دیا جائے گا تاکہ ہندوستانی زبانوں کے ادب پاروں کے علاوہ غیر ملکی زبانوں کے ادبی
شاہکار اور تدریسی مواد کو آموزگاروں کو فراہم کیا جاسکے۔ اس اہم کام کے لیے
"Institute of
Translation and Interpretation"(ITI) قائم کرنے کی تجویز بھی
شامل ہے۔
اردو زبان و ادب کے فروغ کی
غرض سے جن سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے اردو ویب سائٹس بناکر عوامی مقبولیت
حاصل کی ہے، ان میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، انجمن ترقی اردو ہند، ریختہ
آرگ/ ای باکس اور مختلف ریاستی اردو اکادمیوں کے علاوہ تعلیمی اداروں میں NCERT، CIET، NCTE، NIOS، CBSE، جامعہ اردو، علی گڑھ، اے ایم یو علی گڑھ، جامعہ
ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد، Ignou، زکوٰۃ
فائونڈیشن آف انڈیا، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد، انجمن اسلام
ممبئی، اعظم کیمپس پونہ و غیرہ کے ذریعے اہم خدمات انجام دی جارہی ہیں۔
NCERT کی تیار کردہ پہلی سے بارہویں جماعت کے طلبہ
و طالبات کے لیے تمام مضامین کی درسی کتب معاون درسی کتب، ہندی، اردو، انگلش میڈیم
میں دستیاب ہیں۔
NCERT کے تکنیکی شعبے CIET کے ریڈیو
اور ٹی وی کے ذریعے بھی درسی مواد براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ حکومتِ
ہند کی جانب سے کئی نئے خصوصی ویب سائٹس، پورٹلس اور لرننگ مینجمنٹ پلیٹ فارم پر
مختلف جماعتوں اور مضامین کے طلبہ و طالبات کی تدریس و آموزش کے لیے جو آن لائن،
براہ راست خصوصی تعلیمی پروگرام نشر کیے جارہے ہیں، اُن میں ’ای۔پاٹھ شالا‘، ’ای۔مترا‘،
’دِکشا‘، ’سہیوگ‘، ’کشور منچ اور پورٹل NISHTHA ‘ (National Initiatives for School Heads &
Teachers Holistic Advancement) اور MOOC (Massive
Open Online Courses) ، "SWAYAM
PRABHA" (Study Webs of Active
Learning for Young Aspiring Minds) وغیرہ کے نام بہ طور خاص قابلِ ذکر ہیں جن کے
تحت "e-content"
اور "e-Resources"
درسی مواد کی نشریات
کو قومی تعلیمی پالیسی ۔ 2020 کے مطابق، ماہرین کے ذریعے براہ راست پیش کیا جاتا
ہے۔
کئی اردو پورٹل مثلاً : urdu sukhan.com، urdu dost.com، urdu life.com، sherosukhan.com
، universal urdu post.com، adab.com، urdu manzil.com وغیرہ کے اہم کردار ادا
کرنے کے سبب اردو کے سائبر اسپیس میں خاصی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔اردو طلبا، رسرچ
اسکالرس، اساتذہ خاطر خواہ استفادہ کرکے اردو زبان و ادب کو نئی جہتوں سے ہم کنار
کررہے ہیں۔ اردو بھی اب سائبر اور کمپیوٹر کی زبان بن گئی ہے۔ اردو میں بھی e-book، e-box اور ڈیجیٹل لائبریری کی دستیابی نے فاصلاتی
نظامِ تعلیم کے لیے بھی راہیں ہموار کردی ہیں۔ ذرائع ابلاغ ICT نہ صرف تعلیمی اور سماجی ترقی کا پیمانہ بن چکے
ہیں بلکہ دنیا یک قطبی یا عالمی گائوں میں تبدیل ہوچکی ہے اور سمٹ کرہمارے ڈرائنگ
روم یا کلاس روم میں آگئی ہے۔
عصرِحاضر میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر
یا موبائل ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہماری روزمرّہ زندگی کا جزوِ لاینفک بن گیا
ہے۔ یونی کوڈ فارمیٹ اور ویب سائٹس نے دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان و ادب کی ترسیل
و ابلاغ کو بھی آسان تر بنادیا ہے۔
اردو سائبر اِسپیس نے نئے
امکانات کے ساتھ ایک نیا جہانِ معانی پیدا کردیا ہے۔ تکنیکی ذرائع ابلاغ نے اردو
زبان و ادب اور اس کی تعلیم و تدریس کو انقلاب آفریں ترقیات سے ہم کنار کرکے اس کی
مقبولیت اور دائرۂ اثر میں نہ صرف خاصی وسعت پیدا کردی ہے بلکہ اردو زبان کو Global Language کا درجہ عطا کردیا ہے۔
Mohammad
Nauman Khan
204, Gulshan-E-Dasnavi
Green
Valley, Airport Road
Bhopal
- 462030 (M.P.)
Mob.
: 9891424095
mnkhanncert@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں