اردو دنیا، فروری 2025
آج کے زمانے میں جس تیزی کے ساتھ مختلف علوم کی ترقی
ہورہی ہے ماضی میں اس کی مثال ذرا مشکل سے ہی ملے گی۔ ایک وقت تھا کہ علوم کی کمیت،
کیفیت اور اس کا حجم کہیں دو چار صدیوں میں دو گنا ہوتا تھا اور اب حالت یہ ہو گئی
ہے کہ نئے علوم کی تخلیق و ترسیل کی موجودہ رفتار سے صرف ایک دہائی کے اندر موجود
علوم کا حجم دو گنا ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور ان کی مادری زبانوں میں
ہورہی علوم کی یہ تیز رفتار ترقی، جسے عالمی سطح پر پھیلانے اور ان کی عوامی پذیرائی
کے لیے دوسرے ملکوں کی زبانوں میں ان کا ترجمہ اور ترسیل کا آسان ہونا بھی ضروری
ہے۔ اسی سیاق میں اہل علم کے درمیان اشتراک علوم
(Knowledge sharing) کا چلن و ترغیب
آج کے آسان اور کم خرچ مواصلاتی دور میں بالکل عام ہے۔ مختلف طرح کے علوم کی
وسعت وترقی اور عوامی رسائی کے لیے ماہرین علم بلا تردد اپنی تحقیقات اور خیالات سماجی
ذرائع ابلاغ کے صفحات پر شائع کرتے ہیں جو ہر خاص وعام کے لیے بغیر قیمت ہر جگہ
دستیاب ہوتے ہیں۔ اسی ضمن میں علمی تعاون، اشتراک علوم اور تبادلہ خیال کے لیے
مختلف ملکوں اور زبانوں کے علم وحکمت پر مبنی ادبی شہ پاروں، سائنسی تحقیقات اور دیگر
مفید عام تحریروں کا ایک دوسرے کی زبانوں میں تر جمہ کرنا اور اسے اپنے ہم زبان
عوام کے علم و تخیل میں اضافہ کے لیے قابل عمل بنانا بھی شامل ہے۔ مسلم تمدن کے
سنہری دور میں ہندوستانی، یونانی و دیگر علوم کا عربی زبان میں ترجمہ اور مسلمانوں
کی تدوین شدہ جدید سائنس، ادب اور معاشرتی علوم کا یوروپی زبانوں میں ترجمہ علم کی
وسعت و ترقی اور یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بنیاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے
مغل دور حکومت میں فارسی مخطوطات کا سنسکرت اور ہندی میں ترجمہ اور ہندوستانی
زبانوں کے علمی کارناموں کا فارسی اور عربی میں ترجمہ بھی ہندوستان میں جدید علوم
کی ترقی کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح برطانوی دور حکومت میں فورٹ ولیم
کالج نے اردو زبان کی وسعت کے لیے جہاں ماہرین زبان سے اردو کی کتابیں تصنیف کروائیں
وہیں بہت ساری کتابوں کا اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو اور فارسی میں ترجمہ
بھی کروانے کا کام کیا۔
عالمگیریت اور عالمی وحدت کے جدید تصورات نے ترجمے کی
اہمیت کو مزید واضح اور اسے عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے
تاکہ عالمی پیمانے پر ہونے والی سیاسی و معاشی تبدیلیوں اور منصوبوں کی مختلف
علاقوں اور ممالک میں تشہیر کی جا سکے۔ عالمی اداروں کے ذریعے ترقی یافتہ اور ترقی
پذیر ممالک کے لیے کی جانے والی مختلف زمروں کی منصوبہ بندی اور ان کے عالمی اثرات
کی کما حقہ جانکاری دنیا بھر کے عوام اور اور پالیسی ساز اداروں کو ان کی اپنی
زبان میں حاصل ہو سکے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی
علاقے کی سماجی و معاشی ترقی زبان وادب، فن بلاغت کی ترقی اور اظہار مدعا کی پختگی
کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ زبان وادب کی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دوسری
زبانوں کے ادبی اور تمدنی علوم کا گہرا مطالعہ بہت اہمیت کے ساتھ کیا جائے جودوسری
زبان کے علم اور اپنی زبان میں اس کے ترجمے کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن
نشیں رہنی چاہیے کہ ترجمہ نگاری ایک پیچیدہ فن ہے جس میں ہر دو زبانوں کا وسیع و
عمیق مطالعہ، اس کا علم، الفاظ، محاورے اور ادبی قواعد کی جانکاری کے ساتھ ترجمہ
نگار کا ذاتی تجربہ ، اور حالات کو پرکھنے کی صلاحیت اور وسعت نظر ی بھی بہت ضروری
ہے کہ بغیر اس کے ترجمانی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
ترجمہ نگاری اپنے آپ میں صرف کسی ایک زبان کی تخلیقات و
تصنیفات کو دوسری زبان میں ہو بہو منتقل کردینے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خود ایک
تخلیقی کارنامہ اورایک بہترین تخلیقی ذہن ہی ایک عمدہ ترجمانی کے فرائض انجام دے
سکتا ہے۔ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے شروعاتی ادوار میں تحت اللفظ یا ایک زبان
کے الفاظ کو بالکل اسی طرح دوسری زبان میں منتقل کردینے کو ایک بہتر طریقہ مانا
جاتا تھا۔ جہاں یہ ترجمے کی صداقت اور حقانیت پر دلیل ہے، وہیں اس کا ایک نقصان یہ
تھا کہ اس لفظی ترتیب کو بالکل ویسے ہی قائم رکھنے کی وجہ سے ترجمے کی زبان اور
عبارت بھی بالکل نامانوس، ادق اور بار گراں ہوجاتی تھی جسے پڑھنے اور سمجھنے میں
قاری کو نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بعد کے دور میں اہل علم نے ترجمے کی
اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے اسے تحت اللفظ کے بجائے عبارت اور جملوں کے مفہوم کی
ادائیگی کو اہمیت دی جس کی وجہ سے زبان آسان اور پر لطف ہونے کے ساتھ قاری کو
دوسری زبان کی تصانیف اور ادبی لٹریچر کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوگیا، لیکن اس
طرح کی ترجمہ نگاری کے لیے زبان پر عبور ہونے کے ساتھ ترجمہ نگار کا ادبی ذوق اور
تخلیقی ذہن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
ترجمہ نگاری جہاں ایک علم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا
اہم مقام بنا چکی ہے، وہیں یہ ایک فن کے طور پر بھی اہل زبان کے درمیان مقبولیت
حاصل کر رہی ہے جس میں آزاد برجستہ اور با محاورہ ترجمے کو تحت اللفظ کے مقابلے زیادہ
مقبولیت اور عروج حاصل ہوا اور اب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ نگاری کافی دنوں
سے اسی طرز پر کی جارہی ہے۔ دنیا کا بیشتر نثری اور شعری ادب دنیا کی دیگر زبانوں
میں ترجمہ ہوکر خاص وعام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
اردو میں ترجمہ نگاری کی شروعات کب سے ہوئی اور پہلا
ترجمہ کس کتاب کا کب کیا گیا، یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کچھ محققین اسے مشہور صوفی
بزرگ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے عبد اللہ حسینی سے جوڑتے ہیں جنھوں سب سے
پہلے ایک عربی کتاب ’نشاۃ العشق‘ کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن یہ بات بالکل حتمی
طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ کچھ محققین ملا وجہی کی ’سب رس‘ کو شاہ جی نیشاپوری کی
فارسی کتاب ’دستور عشاق‘ کا اردو ترجمہ مانتے ہیں، کچھ لوگ فضل علی فضلی کی کتاب
’کربل کتھا‘ کو ملا حسین واعظ کا شفی کی فارسی کتاب ’روضتہ الشہداء‘ کا اردو ترجمہ مانتے ہیں۔ ان سب باتوں میں محققین
کے درمیان اختلاف تو ممکن ہے، لیکن ایک بات جو خاص طور سے اور وثوق سے کہی جاسکتی
ہے مذکورہ کتابیں اگرچہ آزاد ترجمہ نگاری کے ضمن میں آسکتی ہیں لیکن ہندوستانی
زبانوں میں ترجمہ و تلخیص کے کام میں بھی فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو اولیت حاصل
ہے۔ اردو زبان کی خاصیت ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو سمیٹنے اور جذب
کرنے کی بہت گنجائش اور وسعت موجود ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب زبان میں
الفاظ، محاورے، ذومعنی جملوں کی کثرت ہو اور اس کا زبانی تخلیقات میں استعمال بھی
عام طور پر ہوتا ہو۔ اردو اگر چہ اس معاملے میں بہت امیر اور الفاظ و تراکیب سے
مالا مال ہے لیکن اس سمت اور بطور خاص یوروپین زبانوں میں موجود ادبی اور سائنسی
لٹریچر کا اردو میں ترجمے کی جانب اہل علم کی توجہ بہت کم ہے، اور ساری ادبی خصوصیات
اور اضافی لسانی فوائد کے باوجود اردو زبان میں ترجمے کا کام موجودہ دور کی علمی
ضرورت سے کم ہورہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زبان کی وسعت وترقی میں
جہاں ایک طرف احوال و واقعات میں ماحول کی منظر کشی اور بیانیہ کی ندرت اہمیت کی
حامل ہے، وہیں تخیل اور توصیفی کلمات کی ادائیگی کے لیے منظوم قصائد کی کشید بھی
عوام کے دلوں میں زبان کی لطافت اور پسندیدگی کے لیے بنیادی اصول کی حامل ہے۔ جس
طرح کی وسیع اللسانی اور متنوع کیفیت نگاری کے لیے حرف و الفاظ اردو زبان میں
موجود ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ دوسری زبانوں کے علمی و ادبی ذخائر کو اس میں
منتقل کیا جائے کیونکہ دیگر زبانوں کی ترجمانی اور اسے اپنے دامن میں جذب کر لینے
کی گنجائش اس زبان میں بدرجہ اتم موجود ہے، ساتھ ہی صوتی اور لسانی ہم آہنگی کے
ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ کے لیے جذب و اختلاط کے لیے مناسب ذخیرۂ الفاظ اس
زبان میں موجود ہے۔
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، سوسال سے زائد عرصے
سے جس طرح ایک ادارے کے طور پر علمی، ادبی مذہبی حلقوں میں جس طرح کی عظمت اور
وقار کے ساتھ علمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہا ہے، اس کے لیے کسی مزید تعارف اور
شناخت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ادارہ برصغیر کا شاندار علمی ورثہ ، علم وادب، مشرقی
علوم، تاریخ و سیرت کی کتابوں کی تصنیف اور اشاعت کے ساتھ رسالہ معارف کی وقیع تحقیقی
اشاعت کے لیے بھی قابل تعریف ہے کہ 1916 میں اپنی پہلی اشاعت سے لے کر آج تک اس
علمی رسالے کی ماہانہ اشاعت میں ایک بھی تاخیر یا ناغہ درج نہیں ہے خواہ حالات
کتنے ہی غیر موافق رہے ہوں۔ علامہ شبلی نعمانی کی مشہور عالم سیرت النبی کے ساتھ
الفاروق، المامون، الغزالی، شعر العجم، موازنۂ انیس و دبیر، علم کلام اور علم
الکلام جیسی نادر تصنیفات کی اشاعت کے علاوہ علامہ سید سلیمان ندوی،
مولاناعبدالسلام ندوی، مولانا شاہ معین الدین ندوی، مسعود عالم ندوی، سید صباح الدین
عبد الرحمن اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی
جیسے اور بھی دیگر علما اور محققین کی بے شمار تصنیفات اس ادارے سے شائع ہو کر
مقبول عام ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ ادارہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی مالی وسائل کی کمی
سے دوچار ہے اس کے باوجود بھی اس ادارے نے اپنے بنیادی مقصد اور علمی وقار سے کبھی
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ملک میں مشرقی علوم ، تاریخ اور ادب کی تحقیقات کے لیے جو
چند ادارے جانے جاتے ہیں ان میں دارالمصنّفین آج بھی سر فہرست ہے۔ دارالمصنّفین
کا سارا ادبی اور تحقیقی لٹریچر اردو زبان میں ہے ماسوائے علامہ شبلی اور سید سلیمان
ندوی کی چند فارسی کتب اور عربی رسائل کے۔ اگرچہ شبلی اکیڈمی کی تمام تر تصنیفات
اعلیٰ پائے کی تحقیق اور اس کے مسلمہ اصولوں پر کھری اترتی ہیں نیز اپنے موضوعات
اور مخصوص زبان و ادب کے زمرے میں عالمی شہرت کی حامل ہونے کے باوجود ان تمام تصنیفات
کے تراجم اور دیگر ملکی یا غیر ملکی زبانوں میں ان کی اشاعت و توسیع پر بہت کم
توجہ دی گئی ہے۔
آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جب کہ دنیا کے مخصوص
زبان وادب کے علوم، منظوم لٹریچر، فکشن، خاکوں اور سفر ناموں کے ساتھ اعلیٰ پائے کی
سائنسی تحقیقات دیگر علمی و ادبی تصنیفات اور علم کے ذخائر کا ترجمہ دنیا کی تمام
زندہ زبانوں میں ہوکر اپنی اپنی سطح پر قبولیت حاصل کرنے کے علاوہ معیاری علوم و
تحقیقات میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا
بھر میں ترجمہ اور علوم کی دیگر زبانوں میں منتقلی کے کام کو آسان تر کر دیا ہے لیکن
جس سطح اور طرز پر تراجم کا کام دنیا کی دیگر زبانوں میں ہورہا ہے، دنیائے اردو
ابھی اس سطح پر پہنچنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ دارلمصنفین
نے اردو اور فارسی زبان وادب کے مشرقی علوم اور تاریخ پر جس طرح کا علمی اور
محققانہ کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، لیکن اتنے اعلیٰ پائے کی علمی تصانیف کا
ترجمہ انگریزی یا دنیا کی دیگر زندہ زبانوں میں کرنے پر بھر پور توجہ نہیں دی گئی
اور آج بھی ادارہ ترجمے کی صنف میں بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے۔
تمام تر تکنیکی سہولتوں کے باوجود بھی ترجمے کے بنیادی اصولوں اور اوریجنل تصنیف
کے معیار و مقصد اور مصنف کی منشاکے مطابق کام کرنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی
بہت اہم ہے جس کی وجہ سے بھی ادارہ اس طرح کے کام کو بہت آگے تک لے جانے کے لیے تیار
نہیں ہے۔
دارالمصنّفین نے علامہ شبلی کے علمی کارناموں کی اشاعت
کا کام بڑے پیمانے پر کیا ہے اور علامہ شبلی کی کچھ مخصوص کتابوں کے تراجم بھی
ہوئے ہیں۔ علامہ شبلی کی تصنیف کردہ سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں اپنے آپ میں ایک
شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں اور سیرت کی یہ کتاب اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا
ترجمہ انگریزی کے ساتھ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی کیا جائے لیکن شبلی اکیڈمی کی
جانب سے اس سمت میں کوئی قابل ذکر کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔ سیرت النبی کی ان دو
جلدوں کا ترجمہ ہندوستان میں طیب بخش بدایونی نے کیا تھا جسے قاضی پبلی کیشنز نے
شائع کیا تھا۔ آج کی جدید تکنیکی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امیزن جیسے تجارتی
ادارے بھی سیرت النبی کا انگریزی ترجمہ شائع کرکے فروخت کررہے ہیں، لیکن یہ کتنا
مستند اور قابل اعتبار ہے اس پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ علامہ شبلی کی دیگر تصانیف میں
الفاروق کا ہندی زبان میں ترجمہ ادارے کی جانب سے جناب عبد اللہ دانش نے کیا ہے
اور دوسرا ترجمہ بہ زبان ہندی اعظم گڑھ کی معروف شخصیت فیض احمد ایڈوکیٹ نے اپنے
شوق، علم دوستی اور علامہ شبلی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر کیا ہے جو ایک
عمدہ گٹ اپ اور جلد و جیکٹ کے ساتھ 2019میں لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے۔ الفاروق کا
عربی ترجمہ ڈاکٹر سمیر عبدالحمید ابراہیم نے کیا ہے جو ریاض سے شائع ہوا ہے۔
الفاروق جیسی مایۂ ناز کتاب کے کسی انگریزی یا دیگر یوروپین زبان میں ترجمے کی
کوئی جانکاری شبلی اکیڈمی سے نہیں مل سکی۔ اس کے علاوہ علامہ کی مشہور تصنیف اورنگ
زیب عالمگیر پر ایک نظر کا انگریزی زبان میں ترجمہ عالمگیر کے نام سے شبلی اکیڈمی
کے سابق ناظم جناب صباح الدین عبدالرحمن نے کیا ہے۔ علامہ شبلی کی دیگر مایۂ ناز
کتب کا دیگر زبانوں میں ترجمہ شبلی اکیڈمی کے محدود وسائل اور انتظامی دشواریوں کے
سبب ابھی ممکن نہیں ہے، ہوسکتا ہے مستقبل میں اس اہم کام کی کوئی سبیل پیدا ہو
جائے۔
علامہ شبلی کے بعد دارالمصنّفین کی دوسری اہم شخصیت ان
کے شاگرد رشید جناب سیدسلیمان ندوی کی ہے جنھوں نے علامہ کے بہت سارے ادھورے علمی
کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ سید سلیمان ندوی کا سب سے منفرد اور اعلیٰ
کارنامہ علامہ شبلی کی تصنیف ’سیرت النبی‘ کی تکمیل ہے، جس کے لیے ان کی خدمات کو
کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ ’سیرت النبی‘ کے بعد کی پانچ جلدیں انھیں کے زور قلم
کا نتیجہ ہیں۔ ان کا دوسرا وقیع علمی کارنامہ حیات شبلی اور مکاتیب شبلی کی ترتیب
و تدوین ہے۔ سید سلیمان ندوی کی کتابوں میں کچھ کے تراجم ہندی زبان میں ہوئے ہیں
جن میں خطبات مدراس کا ترجمہ اکیڈمی کی جانب سے جناب عبداللہ دانش نے کیا ہے، اسی
کتاب کا ہندی ترجمہ ڈاکٹر ڈی این چترویدی نے اپنی جانب سے کیا ہے جسے ستیہ مارگ
پرکاشن لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔ سید صاحب کی دوسری اہم کتاب عرب و ہند کے تعلقات کو
بھی عبداللہ دانش اور بابو رام چندر ورما دہلی نے الگ الگ ہندی کا جامہ پہنایا ہے۔
’سیرت عائشہ‘ ہندی میں عبد اللہ دانش اور عربی زبان میں عمر رضا کحالہ نے ترجمانی
کی ہے۔ اسی طرح رحمت عالم جو سید سلیمان ندوی کا ایک مختصر کتابچہ ہے اسے محمد الیاس
الاعظمی نے ہندی میں منتقل کیا ہے جبکہ عربوں کی جہازرانی، جو سید صاحب کی مشہور
کتاب ہے، کا ترجمہ Arab Navigation
کے نام سے سید صباح الدین عبد الرحمن نے کیا ہے۔ سید صاحب کی دو مشہور تصانیف تاریخ
ارض القرآن اور بہادر خواتین اسلام کا ترجمہ دارالمصنّفین کی جانب سے دی گئی
معلومات کے مطابق اب تک کسی زبان میں نہیں ہوا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں
کتابیں اس پائے کی ہیں کہ ان کا یوروپین زبانوں میں ترجمہ اور اشاعت ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالسلام ندوی نے شبلی اکیڈمی میں رہتے ہوئے بہترین تصنیفی کام کیا جس میں
اقبال کامل، حکمائے اسلام اور ابن خلدون خاص طور سے قابل ذکر ہیں لیکن ان کا بھی
کسی دیگر ہندوستانی، عربی اور یوروپین زبان میں اب تک ترجمہ نہیں ہوسکا اور علم کا
اتنا بڑا اور نایاب کام صرف اردو جاننے والے قارئین تک محدود ہے۔ مسلمان حکمرانوں
کی مذہبی رواداری سید صباح الدین عبد الرحمن کی مشہور زمانہ کتاب ہے جس کا ہندی
ترجمہ عبد اللہ دانش نے کیا ہے اور جسے دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی نے شائع کیا ہے
جبکہ اسی کتاب کا دوسرا ہندی ترجمہ رضا لائبریری رامپور سے شائع ہوا ہے۔ ہندوستان
کی تاریخ پر ان کی دیگر کتب بھی اس پائے کی ہیں کہ ان کا ہندوستانی یا دنیا کی دیگر
زبانوں میں ترجمہ ہو لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر دارلمصنفین کے ذریعے یہ کام
اب تک نہیں ہو سکا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ اگرچہ دارالمصنّفین شبلی
اکیڈمی مشرقی علوم اور مستشرقین پر تحقیقی کام کرنے کے لیے نہایت مناسب اور مثالی
جگہ ہے، لیکن محدود مالی وسائل اور جدید سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ ادارہ اب
اس پائے کا تحقیقی کام نہیں کر پارہا ہے جو ماضی میں اس کا طرۂ امتیاز ہوا کرتا
تھا۔ موجودہ دور کی علمی ضروریات اور تحقیق کے جملہ لوازمات کی تکمیل کے لیے تکنیک
کا استعمال اب بالکل عام ہوچکا ہے۔ اداروں اور کتب خانوں میں علمی اشتراک، حواشی کی
تلاش، لٹریچر سروے اور اسی ضمن کی دیگر علمی ضروریات کے لیے انٹر نیٹ ، لیپ ٹاپ ،
کمپیوٹر، پرنٹر اور فوٹو کاپی مشینوں کی سہولت کے بغیر اب کسی طرح کا تحقیقی یا
ترجمہ نگاری کا کام نہیں ہوسکتا۔ مالی وسائل اور جدید سہولیات کے فقدان کی وجہ
دارالمصنفین بھی انھیں مسائل سے نبرد آزما ہے۔ شبلی اکیڈمی کی تمام تر تصنیفات اس
اعلی پیمانے کی ہیں کہ ان کا دنیا کی سبھی ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمے کے ذریعے
منتقل کیا جانا چاہیے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس طرز کا علمی کام شبلی اکیڈمی کے
دائرہ کار میں نہیں ہے، اسی لیے اس پر کام بالکل نا کے برابر ہو رہا ہے۔ترجمہ نگاری
کا کام اب تجارتی بنیاد پر بھی کیا جارہا ہے جس میں مغربی علوم کی محققانہ کتابوں
کا مشرقی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کیا جارہا ہے۔ تجارتی بنیاد پر ان کتب کو
فروخت کر کے آمدنی بھی پیدا کی جارہی ہے۔ شبلی اکیڈمی میں ان خطوط پر بھی ترجمہ
نگاری کا کام فروغ دیا جا سکتا ہے۔
Mohd Khalid Azmi
Dept of Economics
Shibli National College,
Azamgarh- 276001 (UP)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں