اردو دنیا، فروری 2025
سید شرف الدین بوعلی شاہ قلندر کے والد سید سالار
فخرالدین عراقی، شاہ نعمت اللہ ہمدانی کے مرید تھے، جو 600ھ یعنی1203 عیسوی میں
عراق سے ہندوستان تشریف لائے اوریہیں604ھ میں صوبہ ہریانہ کے شہر پانی پت میں بو
علی شاہ قلندر پیدا ہوئے۔ قتال قطب ابدال، عاشق الٰہی رومی ثانی اور بخشی ہند آپ
کے القاب ہیں۔ آپ کی والدہ بی بی حافظہ جمال سیدالسادات شاہ نعمت اللہ ہمدانی کی
ہمشیرہ تھیں۔ فارسی آپ کی مادری زبان تھی۔ آپ والد کی طرف سے حسنی سید ہیں،سلسلہ
نسب چند واسطوں سے امام حسن مجتبیٰ بن علی سے ملتا ہے۔
قلندر صاحب ایک روایت کے مطابق قطب جمال مجرد ہانسوی کے
خالہ زاد بھائی اور مرید تھے۔ قلندر اوائل عمر میں مروجہ علوم مولانا سراج الدین
مکی سے حاصل کرکے چالیس سال تک پانی پت میں علم فقہ و حدیث کا درس دیتے رہے۔ مزید
تعلیم کے لیے دار الحکومت دہلی کا رخ کیا اور مدرسہ بام بہشت میں وقت کے جید علما
کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور تقریبا بیس سال تک مسجد قو ت الاسلام میں مفتی کے
فرائض انجام دیتے رہے۔ اس و قت دہلی اہل علم و ادب اور سیاست کا بڑا مرکز تھا اور
قلندر سے اس عہد کے سلاطین مثلا سلطان غیاث الدین بلبن، جلال الدین خلجی اور علاء
الدین خلجی بڑی عقیدت و احترام سے پیش آتے تھے۔
آپ کے معاصرین مشائخ اور علما میں مولانا ضیاء الدین
سنامی، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی، شیخ
جلال الدین کبیر الاولیا، خواجہ نجم الدین قلندر، خواجہ نظام الدین اولیااور امیر
خسرو قلندر سے محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ جیسا کہ مشہور ہے امیر خسرو سلطان علاء الدین
خلجی کے تحائف کے ساتھ قلندر کے یہاں حاضری دی اور ان کو اپنے اشعار سنائے تھے اور
ان کا کلام بھی سنا تھا۔ خسرو نے جو غزل سنائی تھی اس کا مطلع حسب ذیل ہے ؎
ای کہ گوئی ہیچ سختی جز فراق یار نیست
گر امید وصل باشد آ نچنان دشوار نیست
ترجمہ : ’’اے یہ کہنے والے شخص کہ کوئی مصیبت یار کے
فراق جیسی نہیں ہے۔ اگر وصل کی امید ہوتو یہ اس قدر سخت بھی نہیں ہے۔
قلندر نے خسرو کی یہ غزل سن کر ان کو دادوتحسین کے
کلمات سے نوازا اور پھر خود فی البدیہہ غزل پڑھی ؎
دیہیم خسروی برما نعل استر است
خسرو کسیکہ خلعتِ تجرید دربر است
سیمرغ وار روئی نہفتم بقاف عشق
کز ہر دو کون دانہ روحم نہ درخوراست
وحدت ورای کنگرہ کبریا کشد
کو عارفی کہ منظر او عرش اکبر است
مائیم کوی عشق وخرابات بی خودی
وین رسم وسیرتیست کہ خاص قلندر است
درس شرف نبود ز الواح ابجدی
لوح جمال دوست اورا در برابر است
ترجمہ:
’’بادشاہی تاج ہمارے نزدیک خچرکے نعل کے برابرہے۔ حقیقی بادشاہ وہ ہوتا ہے
جس نے تجرید کا لباس زیب تن کیا ہو۔ میں نے سیمرغ کی طرح عشق کے کوہ قاف میں اپنے
چہرے کو چھپا رکھا ہے، کیونکہ میری روح کی غذا کے لیے دونوں جہان کا خزانہ بھی
مناسب نہیں ہے۔ وحدت تو سالک کو ذات کبریا کے کنگرے کے بھی اس پا ر لے جاتی ہے ایسا
عارف کہاں ہے جس کے نظارے کا مقام عرش اکبر ہے۔ ہم ہیں اور عشق کا کوچہ ہے اورپھر
بیخودی کا میخانہ بھی ہے۔ یہ وہ طور طریقے ہیں جو قلندر کے لیے خاص ہوتے ہیں۔ شرف کا سبق ابجد کی تختیوں کے ذریعے نہیں ہوتا،
بلکہ اس کے سامنے تو محبوب حقیقی کے حسن وجمال کی تختی ہوتی ہے۔
بو علی صر ف ایک مجذوب صوفی کامل اور قلندر کی حیثیت ہی
سے معروف نہیں بلکہ ایک اچھے عالم، صاحب قلم اور عمدہ شاعر کی حیثیت سے بھی اہمیت
کے حامل ہیں۔ نثر میں مکتوبات بنام اختیار الدین اور حکم نامہ شرف الدین کا ذکر
ملتاہے:
بقول
شاہ عبدالحق محدث د ہلوی :’’ او را مکتوب است بہ زبان عشق ومحبت مشتمل بر معارف
وحقائق توحید و ترک دنیا وطلب آخرت و محبت مولی۔‘‘ (اخبار الاخیار، ص 125)
قلندر نثر سے کہیں زیادہ نظم میںجیسے نعت، قصیدہ، غزل، رباعی اورمثنوی میں دسترس رکھتے
تھے۔ وہ خود کو ایک پر گو شاعر ا ور نظامی گنجوی اورخاقانی شروانی کا مد مقابل
سمجھتے تھے ؎
شرف در عشق روی تو کلام از قدس آوردہ
نہ چون نظم نظامی وآن نہ چون اشعار خاقانی
ترجمہ : ’’ شرف تیرے چہرے کے عشق میں عالم قدس سے کلام
لایااس کے شعر نہ نظامی کی نظم کی طرح ہیں نہ خاقانی کے اشعار کی طرح کسبی بلکہ
وہبی ہیں۔ قلندر نے متقدمین شعرا جیسے
سلمان ساوجی اور ظہیر فاریابی کے کلام کا مطالعہ کیا تھااور ان کی تقلید پر افتخار
بھی کرتے ہیں ؎
برادریم من وساوجی زما ہریک
ہمان قدر کہ بود جامگی مناسب برد
کر دم مطابقت بہ ظہیر آنکہ گفت او
شرح غم تو لذت شادی بہ جان دہد
قلندر ہندوستان میں پیدا ہونے کے ساتھ ہندپرست بھی تھے
لیکن عراقی ہونے پر فخرکرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ ان کی ولایت اور شاعری کی شہرت
ہندوستان کے باہر روم و خراسان میں بھی پہنچ گئی ہے ؎
شرف بہ ہند در عارفی کشاد و فشرد
ولی بہ روم و خراسان ولایتش دانند
مراگلہ زہندوستان است ہندوی
شرف بہ ہند پرست ولیکن عراقیست
ان کے آثار میں دو مثنویاں اور ایک کلیات یادگار ہیں ۔
یہ مثنوی کنزالاسرار اور رسالہ عشقیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ کنزالاسرار مختلف حکایات
کا مجموعہ اور رسالہ عشقیہ تین سو باسٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ کلیات میں تقریبا سترہ
سو اشعار ہیں، جس میں قصیدہ، رباعی، قطعہ اور غزل کے عمدہ نمونے ہیں۔ عشقیہ قلندر کی مشہور ترین مثنوی ہے۔ بقول شخصے: ’’ہربیتش از متاع عرفان معمور و ہر
شعرش عارفان را موجب وجد وسرورـ‘‘ ترجمہ:قلندر کا ہرشعر معر فت سے پر وجدو سرور کا
موجب ہے۔
قلندر نے مقدمین شعرا میں عطار نیشاپوری کی مثنویــ
منطق الطیر کی زمین میںاور اسی بحر رمل مسدس مخذوف میںایک مکمل مثنوی ـ’گل
بلبل‘ کے نام سے کہی جس کے چند شعر بطور نمونہ پیش ہیں ؎
مرحبا ای بلبل
باغ کہن
ازگل رعنا بگو با
ما سخن
مرحبا ای ہد ہد
فرخندہ فال
مرحبا ای طوطی
شکر مقال
ترجمہ: ’’آوآو اے !بلبل پرانے باغ کی خوشنما گل کی
بات ہم سے کر، شاباش اے ہمارے تیززبان
قاصد، تو ہردم ہمارے یار کی خبر دیتا ہے ۔‘‘
قلندرکا کلام پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے
اپنے عہد کے معروف شعرا جیسے سعدی شیرازی
اور مولانا بلخی کی پیروی میں اشعار کہے جیسے سعدی کی غزل ؎
امشب سبکتر می زنند این طبل بی ہنگام را
یاوقت بیداری غلط بود است مرغ بام را
اسی زمین اور اسی بحر میں قلندر نے کہا ؎
ساقی ما از شراب کہنہ پر کن جام را
خاک برسرکن چو بینی زاہدان خام را
عاشق بی ننگ و نامم نعرہ خوش می زنم
من نخواہم ننگ را ومن جویم نام را
ترجمہ: ’’اے! ساقی ہمارے لیے پرانی شراب کو جام میں
ڈالو اور جہاں کہیں تمھیں خشک اور خام زاہد ملیں ان کے سر پر مٹی ڈالو۔ اس شعر میں
شراب کہنہ سے یوم الست کے اسرار مراد ہیں۔ میں بے ننگ و نام عاشق ہوں اور خوشی کا
نعرہ ماررہا ہوں۔ میں اپنے ناموس کا طالب ہوں نہ اپنی شہرت کا۔
مولانا رومی کا اثر ان کے بیشتر اشعار میں موجود ہے۔
خاص طور رسالہ عشقیہ اور مثنوی کنزالاسرارکے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے بلکہ
بعض اشعار پر تو گمان ہوتا ہے کہ وہ مولانا کے کہے ہوئے ہیں۔ رومی کی مثنوی کی
منظوم حکایتوں کی جھلک قلندر کی مثنوی میں نظر آتی ہے۔ مثلا: ’داستان ماہی و مگر
،‘ ’الماس وپسرمالدار‘، ’استاد وشاگرد احول‘
اور ’داستان قلندر‘ وزیر ماکر چھودان کہ درمیان نصرانیان فساد انگیخت ’محقق
نصر الدین و افضل ‘، ’مرد جاہل در محفل دانایان ‘، ’دونابینا و چھار رقیقان کہ
ثبوتی یافتند‘ اور’ شاعر پسر بوالہوس و شیخ سادہ لوح و مریدان ‘
اس کے علاوہ رسالہ عشقیہ میں بعض عنوانات جیسے حکمت
عارفان، عشق و عاشق، ایمان کامل، ظاہر وباطن، علم الیقین و عین الیقین وحق الیقین،
حقیقت ذات حق، خود شناسی وغیرہ نظم میں بیان کیے ہیں۔ اگر ہم ان کی گہرائی اور گیرائی میں جائیں تو
مولانا کی صدائے باز گشت صاف سنائی دیتی ہے۔
قلندر کی مثنوی کے وہ اشعار جن میں مولانا کے خیالات کا
عکس نظر آتا ہے۔ ذیل میں دلیلوں کے پیش
خدمت ہیں۔ مولانانے عشق کو جالینوس اور
افلاطون قرار دیا ہے۔ دیکھیے قلندر اسے کس
طرح پیش کرتے ہیں۔
عشق می داند ہمہ بازی و پیچ
غیر عشق آخر چہ باشد ہیچ ہیچ
عشق شور انگیز باشد در جہان
او خبر دارد ز خورشید نہان
چیست اسرار نہان عشقت وبس
کی شناسد عشق را بوالہوس
عشق چون مستی کند ای ہوشیار
صد ہزاران می کشد دریای دار
ترجمہ : ’’ زندگی اور دنیا کا سارا سوزوساز عشق پر مبنی
ہے بغیر عشق کے کچھ نہیں۔ عشق شرابی کی طرح ہے۔ اے! ہوشیار یہ سیکڑوں، ہزاروں کو
مارتا ہے۔‘‘
قلندر نے اپنے کلام میں مولانا کے الفاظ، کلمات اور محاورات کو استعمال کرکے اپنے کلام کی
زینت بنایا اور بعض اصطلاحات کوبغیر کسی تبدیلی کے اپنے کلام میں موزوں کیاہے۔
مولانا کے ایک لفظ ـ’سوفسطائی‘
کو قلندر نے اس طرح استعمال کیا ہے۔ بیت
؎
گفت سوفسطائی آن دانائی دہر
کین جہاں وہم و خیال ست در نگر
ترجمہ: ’’انھوں
نے کہا خردمندی، دانشوری زمانے کی حکمت ہے۔
دنیا وہموں سے بھری پڑی ہے ۔ ‘‘
قلندر کے ان خیالات کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ
اندازہ ہوگا کہ وہ مولانا کے ہم خیال ہی نہیں بلکہ ان کے افکار وخیالات کے ترجمان
ہیں۔ وہ تمام جذبات و مستی، شور ہیجان،
ہمہمہ وولولہ اور وجدانی کیفیت جو مولانا کے اشعار میں ہے قلندر کے کلام میں اس کا
پرتو نظر آتا ہے۔
بو علی قلندر کی غزلیات بھی فارسی زبان وادب میں خاص کر
متصوفانہ شاعری میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں ان کی اعلی غزل گوئی، معنی آفرینی،
قادر الکلامی اور شاعرانہ عظمت کی دلیل ہیں۔ انھوں نے مثنوی کی طرح اپنی غزلیات میں
بھی فلسفہ عشق کو موضوع سخن بنایا ہے۔ ان کے کلام میں عشق حقیقی کی گرمی شدت سے
محسوس ہوتی ہے اور وہ فنا فی اللہ نظر آتے ہیں ؎
گر عشق نبودی وغم عشق نبودی
چندین سخن نغز کہ گفتی کہ شنودی
گر عشق نبودی بخداکس نرسیدی
حسن ازلی پردہ زرخ بر نکشیدی
ترجمہ:
’’اگرعشق اور غم عشق نہ ہوتا تو ایسی پیچیدہ باتیں کون کہتا اورکون سنتا۔
اگر عشق نہ ہوتا تو کوئی خدا تک نہ پہنچتا اور حسن ازلی چہرے سے پردہ نہ اٹھاتا۔
قلندر کا خیال ہے اگر عشق نہ ہوتا تواس دنیا کا وجود نہ ہوتا اس کائنات میں ہر
آدمی عشق کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے اور خدا تک رسائی کا یہی واحد ذریعہ
ہے۔ غرض ان کی نظر میں عشق الٰہی ہی کمال
معراج ہے۔
اس کے علاوہ قلندر کے تمام اشعار میں صنائع وبدائع پائے
جاتے ہیں۔ جیسے تشبیہات، استعارہ، کنایہ، اشتقاق، ترصیع، تکرار، قطار البعیر،
مراعات النظیر، تضاد اور تلمیحات کا بر
ملا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے غزلیات میں
تاریخی واقعات کو قلمبند کر کے کلام میں معنویت اور اثر پیدا کر دیا ہے۔ انبیاء علیہم
السلام سے منسلک تاریخی اور مذہبی واقعات و معجزات کو کمال خوبی سے نظم کیاہے،
مثلا حضرت آدمؑ، حضرت موسی ؑ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے معجزات وخصوصیات
کو عشق حقیقی کے سراپا میں جلوہ گر کیا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے
اورحضرت یوسف ؑاور زلیخا کے حسن وعشق کی جانب اشارہ ہے ؎
رخ او نور مقدس لب او روح مصفا
جعداوافعیٔ موسی کف او چو ید بیضا
مریم از قدس
لبش حاملۂ روح اللہ
آدم ازپرتو رویش
ز گلی یافتہ احیا
یوسف از عکس جمالش نگزیدی در خواب
مست وسرگشتہ شدی چوبر او بود زلیخا
ترجمہ: ’’اس کا
چہرہ نور مقدس ہے اور لب روح مصفا اس کی
زلف عصاے موسی ہے اورہاتھ ید بیضاہے۔ اس
شعر میں قلندرنے محبوب کے روے پرنور لب پر پرکیف اور زلف پر شکن کی توصیف باحسن
الوجوہ بیان فرمائی ہے۔ مریم اس کے لبوںکی پاکیزگی سے روح اللہ کی حامل بنیں آدم
اس کے چہرے کے پرتو سے مٹی سے زندہ ہوئے۔ یوسف
اس کے جمال کا عکس خواب میں دیکھتے تو بیخود ہوجاتے جس طرح ان پر زلیخاتھی۔‘‘
غزل کی طرح قلندر کی رباعیات بھی ان کے صوفیانہ عشق کی
حامل ہیں۔ ایک مقام پر وہ حضرت امام علیؑ
سے غائبانہ اور والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ؎
بنوشتہ چو بوعلی بطغرای منست
در حیدر یان
بلند تر جای منست
مولامنم آن
را بولا و بوفا
آن حیدر کر رار کہ مولای منست
ترجمہ: ’’جو بو
علی نے لکھا وہ میرا طغرا ہے ۔ حیدریوں میں وہ اونجامقام بس میرا ہے ۔ وہ میرا
مالک ہے عش و وفابھی۔ وہ حیدرکرار جومیرا
مختار ہے۔ ‘‘
غر ض متقدمین ومعاصرین شعرا کی پیروی کو پیش نظر رکھ کر
قلندر پانی پتی نے شاعری کی ہر صنف میں شاعرانہ جوہر دکھاتے ہوئے اپنے صوفیانہ
مسلک کو کمال خوبی سے بیان کیا ہے۔ قلندر کے کلام میں سادگی، سلاست، روانی، رنگ
وآہنگ، سوز وگداز، جوش وخروش، جذب واستغراق اور کشش اس قدر پائی جاتی ہے کی قاری
اور سامع کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ بلکہ عرفان کا ایسا گہرا سمندرہے جس میںعشق،
معرفت، استغنا، توحید، ترک دنیا، طلب
آخرت، محبت مولا، فنا اور وصل کے موتی پائے جاتے ہیں۔ ان کے تمام اشعار تصوف
اوراخلاق، عشق توحید، مدح حضرت رسول اکرم ؐوامام علی ؑمیںسرشار ہیں ۔
حوالہ جات :
1 الخاموشی
بشیر انصاری، تذکرہ اولیاء کرام پانی پت، قلندر چوک، پانی پت، 1974،ص10,11
2
دہلوی عبد الحق محدث، اخبار الاخیار، انجمن آثار مفاخر فرہنگی، تہران 1383ھ ص125
3 شبلی
محمد صدیق خان، ترجمہ دیوان بو علی قلندر مع مثنوی، ترکمان گیٹ، دہلی 2005،ص 16,37
4
عباس امیر، مطالعہ انتقادی شعر بو علی شاہ قلندر پانی پتی، (ایم فل، ڈیزرٹیشن )مانو، حیدرآباد2017،ص 135,136
4 طاہر
میر: دیوان سید شرف الدین بو علی قلندر، تکنہ خاکسار، تہران، چاپ دوم، 1360ھ/ ش۔ص
5
5
محمد اقبال ڈاکٹر، فارسی ادب کے ارتقا میں پانی پت کا حصہ، دریاگنج ، دہلی 1996،ص 131,141,142,149
6
نظامی ، محمد عطا و حبیب اللہ مظہر، مفتاح الغیب شرح دیوان بو علی قلندر،سیالکوٹ،
1933،ص313, 320
Dr. Ameer Abbas
71-B, Near Chappar
Wali Masjid
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi- 110025
Mob.: 9793214180
Email.: abbasameer59@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں