اردو دنیا، فروری 2025
تذکیر وتانیث کا اختلافی مسئلہ اردو زبان میں بہت پہلے
سے ہے، اس حوالے سے اکابرین و ماہرین کے نظریات اور مطالعے سامنے آتے رہے، اور اب
بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اردو املا، حروف تہجی اور تذکیر وتانیث کا مسئلہ ہمیشہ ہی
سے مختلف فیہ رہا ہے، لیکن زبان کا معیاری نمونہ شعر وادب ہے، اس حوالے سے جب کلاسیکی
متن کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ مسئلہ وہاں بھی درپیش نظر آتاہے۔ اس اختلافی
مسئلے میں لوگوں نے اپنی رائے ضرور پیش کی ہے، لیکن مکمل طور پر ایک رائے نہیں بن
سکی۔ جلال لکھنوی نے ’مفید الشعرا‘ میں اس کے متعلق لکھتے ہوئے دبستان لکھنؤ اور
دبستان دہلی دونوں کو پیش نظر رکھا، لیکن ترجیح دبستان لکھنؤ کو دی۔
جلال لکھنوی نے اپنے اس رسالے (مفید الشعرا) کی اشاعت
ثانی کے لیے اہم ترمیم واضافے کیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود لکھاہے:
’’...اس
ہیچمداں کی تالیفات سے جو پہلے رسالہ کارآمد شعرا بحث وتذکیر وتانیث میں 1293 میں
طبع ہوا تھا وہ ناقص وناتمام اور نہایت غلط چھپا تھا۔‘‘
(مفید
الشعرا، ص 2)
اس رسالے میں جلال لکھنوی نے اسمائے غیر ذوی العقول کی
تذکیر وتانیث کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ اسمائے ذوی العقول اس بحث سے اس لیے خارج ہیں
کہ ذوی العقول جو مذکر ہے اس کا اسم ہر حال میں مذکر ہی آئے گا اور جو مونث ہے اس
کا اسم لازماً مونث ہو گا۔ اس سلسلے میں اہم مسئلہ غیر ذوی العقول کا ہے۔ جلال نے
اسی حوالے سے گفتگو کی ہے، لیکن کہیں کہیں ذوی العقول کے متعلق بھی بات کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں انھوں نے خود لکھا ہے:
’’...الا
غیر ذوی العقول کے اسما کے کہ وہ البتہ حاجت تذکیر وتانیث کے بیان کی رکھتے ہیں کہ
مذکر یا مونث حقیقی نہیں۔ بلکہ مجازی یعنی فرضی ہیں۔ پس اسمائے غیر ذوی العقول کی
تذکیر وتانیث کی بحث بتاتمہ کی گئی ہے۔ ‘‘ (مفید الشعرا،ص4)
جلال لکھنوی نے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ جن
لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں متفق ہیں، اس کو محض بیان کردیا
ہے، اس کی مثال نہیں دی ہے، جب کہ جن لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں
متفق نہیں ہیں، اس کو مع مثال پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ
جلال نے مثال پیش کرتے ہوئے معتبر شعرا کے کلام اور لکھنؤ کے زبان دانان کی مثال
دی ہے، جب کہ دوسرے اسکول(دبستان دہلی)کو یا تو نظر انداز کیا ہے یا فوقیت نہیں دی
ہے۔ اس سلسلے میں جلال نے دبستان لکھنؤ کو ترجیح دی ہے ، جب کہ زبان کا مسئلہ یکساں
ہونا چاہیے، ایسے میں اہل لکھنؤ اور دہلی میں جو اختلاف کی صورت در آئی ہے، اسے
اپنے اپنے طور پر صحیح تصور کیا جائے گا۔ جلال نے لکھاہے:
’’جن
الفاظ کی تذکیر خواہ تانیث میں فصحا کا اتفاق ہے ان کو بے اسناد ونظائر لکھا ہے
اور جن میں اختلاف ہے۔ یعنی جو الفاظ بعض فصحا کے نزدیک مذکر ہیں اور بعضوں کے عندیہ
میں مونث ہیں۔ یا اس اعتبار سے مختلف فیہ ہیںکہ ایک معنی پر اپنے مذکر بولے جاتے ہیں اور دوسرے معنی پر مونث آتے ہیں یا جن کی تذکیر
وتانیث میں ابہام ہے وہ بیشتر ساتھ اسناد ونظائر کے لکھے گئے ہیں اور اسناد ونظائر
کے اشعار کلامِ اساتذہ معتبر وشعرائے نامور اور اردو زبان دانانِ لکھنؤ سے اخذ
کرکے درج کیے گئے ہیں۔‘‘ (مفید الشعرا،ص4)
جلال لکھنوی کے خیال میں زبان کے جتنے نام ہیں سب مونث
ہیں۔ اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ لیکن جلال نے اردو کو مذکر لکھا ہے۔ جب کہ اردو
اپنے استعما ل کے اعتبار سے تذکیر وتانیث میںبدلتی رہتی ہے۔ اردو اگر اسم نکرہ
استعمال ہے تو مذکر اور اسم معرفہ تو مونث۔ اس سلسلے میں جلال نے کوئی مثال نہیں پیش
کی ہے، جبکہ یہ بالکل واضح ہے کہ اردو کی تذکیر وتانیث اسم نکرہ اور معرفہ کے ساتھ
مختلف ہے۔جلال لفظ اردو کی تذکیر کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’
زبان کے جتنے نام ہیں مانند عربی، یونانی، عبرانی، رومی،
ترکی، فارسی، انگریزی، ہندی، بھاکا، پشتو، سنسکرت وغیرہ سب مونث بولے جاتے ہیں۔
سوا اردو کے کہ یہ مولف ہیچمداں کے عندیہ میں مذکر ہے۔‘‘
(مفیدالشعرا،ص6)
اردو کے متعلق نوراللغات میں مذکر و مونث دونوں لکھا
ہے، لیکن مصحفی کے جس شعر کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے، اس میں لفظ اردو مونث
استعمال ہے۔شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر ومرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
اس تعلق سے داغ کا شعر بھی ملاحظہ کیجیے جس سے اردو کی
تانیث ہی مستفاد ہوتی ہے ؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس سلسلے میں ماہر لسانیات پنڈت دتاتریہ کیفی کے بھی
دوشعر ملاحظہ کیجیے ؎
اردو بنی ہے مسلم وہندو کے میل سے
دونوں نے صرف اس پہ دماغ اور دل کیے
——
اردو ہے جس کا نام ہماری زبان ہے
دنیا کی ہر زبان سے پیاری زبان ہے
مذکورہ اشعار پر غور کریں توواضح ہوتا ہے کہ تمام اشعار
میں ’اردو‘ کا لفظ بطور اسم زبان استعمال کیا گیا ہے اور بقول جلال زبان کے جتنے
نام ہیں سب مونث بولے جاتے ہیں کے عین مطابق ہے۔ البتہ جلال نے جو یہ کہا کہ ’’سوا
اردو کے کہ یہ مولف ہیچمداں کے عندیہ میں مذکر ہے‘‘ کی کچھ وضاحت نہیں ہوتی۔ یعنی یہاں
یہ واضح نہیں ہوتا کہ جلال کے نزدیک ’اردو‘ بطور اسم زبان مذکر ہے یا اپنی اصل کے
اعتبار سے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بطور اسم زبان ’اردو‘ کا استعمال بہت بعد میں
شروع ہوا۔ اس سے پہلے یہ لفظ شہر، دارالحکومت، قصر، قلعہ اور خیمے کے معنوں میں
رائج تھا اور ان تمام معنوں میں اردو کا استعمال مذکر ہی ہے۔ بہر حال جلال کا عندیہ
غیر واضح ہے۔ جلال نے محض مذکرکہا ہے، جبکہ دونوں صورتوں کی وضاحت ضروری تھی ۔ دلی
ہو یا لکھنؤ دونوں جگہ کے شعرا نے اردو کو بطور اسم زبان مونث ہی استعمال کیا ہے۔
لہٰذا اگر یہ واضح بھی ہوجائے کہ جلال کے نزدیک لفظ اردو بطور اسم زبان مذکر ہے تو
اسے جلال کا تفرد سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے گا۔ لہٰذا اس لفظ کے تعلق سے ہماری
زبان میں تذکیر و تانیث کا کوئی حقیقی اختلاف نہیں رہ جاتا۔
چونکہ زبان کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے، اردو میں یہ
مسئلہ کئی صورتوں میںہے مثلاً حروف تہجی اور رسم الخط وغیرہ۔ ایسے میں مسئلۂ تذکیر
وتانیث بھی بہت الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ کیونکہ بعض الفاظ ایسے ہیں جو دبستان دہلی
میں مذکر تو دبستان لکھنؤ میں مونث بولے جاتے ہیںاور دونوں درست ہیں۔ جلال نے اس
مسئلے کو بہت خوبی سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
جلال لفظ املا کی تذکیر کے قائل ہیں، لیکن اسے مختلف فیہ
بھی قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لکھنؤ کے استاد شاعر میر رشک نے
املا کو مونث استعمال کیا ہے۔رشک کا شعر ملاحظہ کیجیے ؎
نامۂ جاناں ہے کیا لکھا مری تقدیر کا
خط کی انشا اور ہے لکھنے کی املا اور
مندرجہ بالا شعر سے املا کی تانیث مستفاد ہوتی ہے۔ اب ایسے
میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس لفظ کو جلال لکھنوی مذکر کہہ رہے ہیں، اسے دبستان
لکھنؤ کی شاعری کو بام عروج عطا کرنے والے میر علی اوسط رشک مونث استعمال کررہے ہیں۔
رشک کا شعر اس سلسلے میں اوپر نقل کیا گیا ہے۔ نوراللغات میں ’املا‘ کو مذکر لکھا
ہے۔ترجیح بھی تذکیر کو ہی دی گئی ہے۔ مولف نور اللغات نے بھی تانیث کے لیے رشک کا
وہی شعر نقل کیا ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے، لیکن تسلیم کا یہ شعر بھی نقل کیا گیا
ہے، جس میں لفظ املا کا استعمال مذکر ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
عالم وحشت میں جب لکھا کوئی خطِ فراق
ربط بگڑا میری انشا کا غلط املا ہوا
صاحب فرہنگ آصفیہ نے املا کے تعلق سے کسی اختلاف کا
ذکر نہیں کیا اور اسے اسم مذکر قرار دیا ہے۔ جلال لکھنوی نے ایسے الفاظ کو مونث
قرار دیا ہے جن کے آخر میں الف آئے بہ استثنائے چند الفاظ۔ معلوم ہوتا ہے کہ رشک
اس سلسلے میں کسی استثنا کے قائل نہیں تھے اور انھوں نے روزمرۂ اہل زبان کے خلاف
جاکر اصولی طور پر ’املا‘ کو مونث نظم کیا ہے۔ چونکہ رشک نہ صرف ایک استاد شاعر
،بلکہ ماہر زبان اور فصحائے زبان میں سے بھی تھے، اس لیے جلال نے ان کے تفرد کی
بنا پر پاس ادب کے خیال سے اس لفظ کو مختلف فیہ قرار دیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے
کہ لفظ املا کااختلاف تذکیر وتانیث کے سلسلے میں ضرور ہے، لیکن ترجیح تذکیر کو ہی
حاصل ہے، کیونکہ یہی کثیر الاستعمال ہے۔
لفظ مالا کا استعمال بھی مختلف فیہ ہے، لکھنؤ میں مالا
کا استعمال عام طور پر مذکر ہے، لیکن فصحائے دہلی اس لفظ کی تانیث کے قائل ہیں۔
ناسخ کا شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں انھوں نے مالا کو مذکر استعمال کیا ہے ؎
تیرا مالا موتیوں کا قتل کرتا ہے مجھے
اے پری مالا سروہی کا یہ مالا ہوگیا
جلال نے تذکیر وتانیث کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جس
طرح کی دلیل پیش کی ہے، وہ یقیناً اہم ہے، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیاہے کہ
فصحائے لکھنؤ کو ترجیح دی ہے۔ مالادہلی میں مونث اور لکھنؤ میں مذکر استعمال ہے۔
لفظ مالا دونوں اسکولوں( دہلی اور لکھنؤ) میں تذکیر وتانیث کے اختلاف کے ساتھ
مستعمل ہے اور دونوں رائج بھی ہے۔
لفظ آب کو جلال نے مذکر لکھا ہے اور اسی کے قائل بھی ہیں۔
لفظ آب/آبہ فارسی اور سنسکرت دونوں زبان میں مستعمل ہے۔ اردو میں یہ لفظ فارسی
سے آیا۔ یہ لفظ کثیر الاستعمال مذکر ہی ہے اور مولف نور اللغات نے بھی مذکر ہی
لکھا ہے۔ دبستان لکھنؤ کے دو عظیم شاعر تذکیر وتانیث میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔
ناسخ نے مونث استعمال کیا ہے تو آتش نے مذکر۔ اس ضمن میں پہلے ناسخ کا شعر ملاحظہ
فرمائیں ؎
دانت تیرے دیکھتے ہی ہوگیا ناسخ شہید
ہائے کیا ان موتیوں میں آب ہے شمشیر کی
اس ضمن میں آتش کا شعر دیکھیں جس میں لفظ آب کا
استعمال مذکر کیا ہے ؎
آتش نشہ ہی میں یا الٰہی میکشوں کو موت دے
کیا گُہر کی قدر جب آبِ گہر جاتا رہا
فصحائے لکھنؤ میں بھی اس لفظ کے متعلق اختلاف ہے، لیکن
جلال کا خیال ہے کہ لفظ آب جہاں پانی کے معنی پر مستفاد ہے وہ مذکر بولا جائے گا
اور جہاں آبداری یا مرادف تاب ہے وہ مونث استعمال ہوگا۔ اب مذکورہ دونوں شعر پر
غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ناسخ نے آب بمعنی چمک استعمال کیا ہے اسی لیے ناسخ
کے شعر میںلفظ آب مونث ہے، جبکہ آتش نے آب بمعنی پانی استعمال کیا ہے، اسی لیے
آتش کے شعر میں آب مذکر استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں میر کے اشعار ملاحظہ فرمائیں،
جہاں آب بمعنی پانی استعمال ہے وہاں مذکر اور جہاں آبداری کے معنی میں ہے، وہاں
مونث۔
دل لے گیا تھا زیر زمیں میں بھرا ہوا
آتا ہے ہر مسام سے میرے کفن میں آب
——
مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سر شک آبدار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب
ان مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ آب بمعنی پانی مذکر اور
بمعنی آبداری یا تاب مونث استعمال ہے۔ جلال نے اپنا عندیہ جو پیش کیا ہے، وہ اس
اعتبار سے کافی اہم ہے کہ انھوں نے لفظوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ معنی کے حوالے
سے بھی گفتگو کی ہے۔
مفید الشعراجلال لکھنوی کا ایک بڑاکام ہے، جسے انھوں نے
بڑی دقت نظر سے کیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جلال کی زبان دانی کا اندازہ ہوتا ہے۔اس
رسالے کے حوالے سے کئی مضامین منظرعام پر آئے، جن میں ایک مضمون عبدالباری آسی
کا بھی ہے۔ مفید الشعرا کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:
’’کسی
مختلف فیہ لفظ کے لیے اس کی تذکیر وتانیث کا فیصلہ کرنا اور یہ بھی نہ بتانا کہ
لکھنؤ میں یوں ہے، اور دہلی میں یوں، یا دونوں جگہ ایسا ہی ہے، یا ایک جگہ مختلف
فیہ ہے، ایک جگہ نہیں، سواے اس کے کہ دیکھنے والوں کو غلطیوں اور گمراہیوں کا سبق
دیا جائے اور کیا ہے۔ مولف دہلی کی زبان کے ماہر نہ تھے تو یہی کہہ دیتے کہ یہ صرف
لکھنؤ کی زبان ہے، تو ایک حد تک ان کی ذمہ داری کم ہوجاتی۔‘‘ (عبد الباری آسی، ص53)
عبدالباری آسی اس مضمون کی ابتدا میں مفید الشعرا کی
اہمیت سے انکار بھی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں:
’’بہر
حال یہ رسالہ سنہ1301ھ میں پہلی مرتبہ چھپا۔ اور چونکہ دوسرے رسالے اس وقت نہ ملتے
تھے، اہل ضرورت نے اس کو غنیمت سمجھ کر اسی سے کام لینا شروع کیا۔‘‘ (ایضاً،ص51)
عبد الباری آسی کے مذکورہ اقتباس سے صاف معلوم ہوتا ہے
کہ انھوں نے اس کتاب کا اس طرح سے مطالعہ ہی نہیں کیا یا جان بوجھ کر قارئین کو
گمراہ کیا۔ اس کا اعتراف تو وہ کرتے ہیں کہ اس حوالے سے دوسری کوئی کتاب نہیں ملتی
تھی، گویا کہ اس حوالے سے جلال کا یہ ابتدائی کام تھا، جلال کی یہ ابتدائی کوشش
دراصل ایک بڑے کام کا پیش خیمہ تھی۔ جلال نے بالکل واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ
وہ الفاظ جن میں اختلاف نہیں ہے، اسے محض بیان کردیا گیا ہے، لیکن جس میں اختلاف
ہے، اس کی مثالیں پیش کی گئی ہیں اور دہلی میں اس لفظ کو مذکر یا مونث استعمال
کرتے ہیں اس کی بھی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ جلال نے صاف لکھا ہے کہ فصحائے لکھنؤ کو
ترجیح دی گئی ہے۔ ایسے میں آسی نے جو باتیں لکھی ہیں وہ بربنائے حقیقت نہیں ۔
جلال لکھنوی کے اس
کارنامے کا اختلاف کے باوجود سب نے اعتراف کیا ،اس ضمن میں مخالفین اور موافقین کی
قید نہیں۔اس رسالے کے بعض مندرجات سے اختلاف کیا گیا، لیکن اس کی اہمیت اور افادیت
سے انکار نہیں کیا گیا۔جلال نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اس لیے قابل غور ہیں کہ انھوں
نے تذکیر وتانیث میں لفظ کے استعمال اور معنی پر زور دیا، جیسے لفظ آب بمعنی پانی
مذکر لیکن یہی آب جب کسی اور معنی میں استعمال ہوا تو مونث۔ اس لفظ پر اس زمانے
کے کئی اہم استاد نے اپنی رائے ظاہر کی تھی، جس میں امیر مینائی بطور خاص ہیں۔
جلال کے اس کارنامے پر تب بھی لکھا گیا اور اب بھی لکھا جارہا ہے۔ اختلاف کے
باوجود جلال کی اس کاوش کی ہمیشہ پذیرائی ہوئی۔ تذکیر وتانیث کا مسئلہ ابتداسے ہے
اور اب بھی ہے، لیکن ہمارے کلاسیکی شعرا نے جو استعمال کیا ہے، وہ ہمارے لیے
رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
Dr. Shahnewaz Faiyaz
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Deli- 110025
Mob.: 9891438766
sanjujmi@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں