31/12/20

جدید میتھلی اور ہندی کا قطب نما: باباناگارجن - مضمون نگار: مشتاق احمد



جدید ہندی اور میتھلی ادب کی تاریخ میں جن تخلیق کاروں کو قدآوری حاصل ہے ان میں بابا ناگارجن کی امتیازی حیثیت ہے۔وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی اور مضمون نگار تھے۔ وہ خود کو بنیادی طورپر میتھلی زبان کا شاعر اور ادیب کہتے تھے۔ یہ ان کی مادری زبان سے والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ادبی ذخیرہ میتھلی زبان سے کہیں زیادہ ہندی میں موجود ہے اور ان کا شمار ہندی کی جدید شاعری کے جنم داتاؤں میں ہوتا ہے۔

ناگارجن کا اصل نام بیدناتھ مشر تھا۔ ان کی پیدائش صوبہ بہار کے دربھنگہ ضلع کے ایک گائوں ترونی میں 1911 میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سنسکرت پاٹھشالہ میں ہوئی۔ ابھی وہ صرف ساڑھے تین سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا اس لیے اپنے گاؤں میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے۔ ان کے والد ایک پیشہ ور پنڈت تھے۔ ہمیشہ گھر سے باہر رہا کرتے تھے اس لیے ان کو گنگولی سنسکرت پاٹھشالہ میں داخل کردیا گیا۔ وہاں سے وہ بنارس چلے گئے اور پھر وہاں سے کلکتہ۔ اس طرح وہ سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے مدراس جا کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں سے انھوں نے ’اچاریہ ‘ کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1930میں ہوا۔ جب ان کی پہلی نظم’متھلا‘(لہریاسرائے) میں شائع ہوئی۔ انھوں نے پہلے اپنا قلمی نام بدیہہرکھا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد قلمی نام بدل کر ’یاتری‘ کے نام سے لکھنے لگے۔ 1930 تک ہندی اور میتھلی دونوں زبان میں ’یاتری‘ کے نام سے ہی لکھتے رہے۔ جب وہ سری لنکا گئے اور بدھ ازم کی طرف مائل ہوگئے تو اپنا نام بدلا اور ’ناگارجن‘ کے نام سے ہندی میں لکھنے لگے مگر میتھلی میں وہ اپناقلمی نام یاتری ہی لکھتے رہے اور بعد کے دنوں میں ان کی پہچان ’ناگارجن‘ سے ہی مستحکم ہوئی۔

ہندی ادب کی تاریخ میں ناگارجن کوغیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا شمار ہندی ادب کو نئی سمت دینے والوں میں ہوتاہے۔ جہاں تک میتھلی زبان وادب کا سوال ہے تو ودیاپتی، پنڈت ہرش ناتھ، پنڈت سیتا رام جھااور چنداجھا کے بعد ان کا نام لیاجاتاہے۔ انھوں نے نہ صرف میتھلی شاعری کو نئے افکار ونظریات سے آشنا کیا بلکہ میتھلی ناول نگاری کو اعتبار کا درجہ عطا کیا۔ افسوس صد افسوس کہ آسمانِ ادب کا یہ درخشاں ستارہ 5؍ نومبر1998 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔لیکن ان کی تخلیقات کا ذخیرہ ان کی ابدی شہرت کا ضامن ہے۔ان کے بغیر جدید میتھلی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہندی کی جدید شاعری کا ذکر ہی ناگارجن کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے۔

میتھلی ان کی مادری زبان تھی۔ اس زبان میں وہ اپنی بات کہنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ میتھلی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’چترا اور پترہین نگن گاچھ ہیں۔ ’پترہین نگن گاچھ‘ پر انھیں1967 میں شاعری کا میتھلی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔’پارونوتوریا اور ’بلچنما ان کے مشہور ناول ہیں۔راقم الحروف نے ان کے ناول ’بلچنما‘ کا اردوترجمہ 2005 میں کیا تھاجسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ہندی میں نئی پود، رتی ناتھ کی چاچی، برون کے بیٹے، اُگرتارا، امرتیا کومبھی پاک، بابا بٹیشور ناتھ، پارو، دکھ موچن، غریب داس، جمنیا کا بابا اور ’ہیرک جینتی‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ تالاب کی مچھلیاں، یُگ دھارا، تم نے کہا تھا، پرانی جوتیوں کا کورس اور ’ہزار ہزار بانھوں والی‘ قابلِ ذکر شعری مجموعے ہیں۔

ادب ہی ان کا ذریعہ معاش تھا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں قلم لیے ہوتے تھے۔ ان کی نگاہ بہت بلند تھی، مشاہدہ بہت گہرا تھا، کوئی بھی موضوع ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کافی لکھا ہے۔ ویروکرم،ترکو کا کھیل، ندی بول اٹھی، بانر کماری بچوں کے لیے لکھی گئی قابلِ ذکر کتابیں ہیں۔ ’پریم چند کی جیونی‘ اور ’ایک ویکتی ایک یُگ‘ ہندی ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ناگارجن نے سنسکرت زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی تیس نظموں کا مجموعہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے بنگلہ میں بھی شاعری کی ہے۔ وہ میتھلی، ہندی اور بنگلہ کے علاوہ گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ملیالم اور تیلگو زبان بھی جانتے تھے۔

ناگارجن خاموشی کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کو کبھی اس بات کا خیال نہیں رہا کہ دنیائے ادب میں انھیں کون کیا کہہ رہاہے۔ بس وہ لکھتے رہے۔ اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنے فن میں ڈھالتے رہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک سچے عکاس تھے۔ آخر کار دنیائے ادب کو ان کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا اور 1967میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، مدھیہ پردیش کا اچاریہ میتھلی شرن گپت ایوارڈ، یوپی حکومت کا ’بھارت بھارتی‘ انعام اور بہار سرکار کا ’راجندر شکھر سمّان ‘ ملا۔

ناگارجن کے لیے مذہب کوئی دیوار نہیں تھی۔ وہ ایک ہندو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بدھ ازم کو اپنایا، جین ازم کی طرف مائل ہوئے اور پھر ناستک ہوگئے۔ درحقیقت ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔اگر ان کا کوئی مذہب تھا تو وہ مذہب انسانیت کا تھا۔ وہ انسانیت کے پجاری تھے۔ان کی تمام شاعری انسان کے دکھ درد کی کہانی ہے۔ ان کے ناول انسان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی انسان کے لیے تھی، وہ خود بھی ایک اعلیٰ انسان تھے۔ راقم الحروف کو ان سے ملنے کا بارہا موقع نصیب ہوا ہے۔ وہ میرے گاؤں کے پڑوسی یعنی بس دوکلومیٹر دور کے رہنے والے تھے۔ اس لیے انھیں ذاتی طورپر بھی خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ اپنی بات کہتے رہے، وہ اپنے طنزیہ لہجے کی وجہ سے بھی ہندی ادب میں جانے پہچانے جاتے تھے۔

ناول’بلچنما‘ بابا ناگارجن کا ایک شاہکار ہے۔ اس ناول میں آزادی سے قبل کے متھلانچل بالخصوص دربھنگہ، مدھوبنی اور سمستی پور کے زمینداروں کے ذریعے گاؤں کے مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں پر جو ظلم وستم ڈھائے جا رہے تھے، ان کی عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کا ہیرو بلچنما دراصل ایک علامت ہے ظلم کے خلاف بغاوت اور طبقاتی کشمکش کی، جو زمینداروں کے ظلم اور غیرانسانی فعل کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ بلچنما اسی زمیندار کے یہاں مجبوراً بھینس چرانے کی نوکری کرتاہے جس زمیندار نے اس کے باپ کو محض ایک آم توڑنے کے جرم میں ایک کھمبے سے باندھ کر اس قدر ماراپیٹا کہ موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ لیکن ایک دن بلچنما ان بے رحم اور قصائی صفت زمینداروں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نہ صرف خود زمینداروں کے شکنجے سے آزاد ہوتا ہے بلکہ گائوں کے سیکڑوں کسانوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنی تحریک کا حصہ بناتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن غلامانہ زندگی گذارنے والے کسان اور مزدور زمینداروں کے چنگل سے نجات پاتے ہیں۔

بابا ناگارجن نے ہمیشہ ان طاقتوں کے خلاف آوازِ بغاوت بلند کی جو ہندوستانی عوام کی آزادی کی راہ میں حائل تھے۔انھوں نے ہندوستانی گاؤں میں رہنے والے پسماندہ طبقے کے لوگوں کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ہندوستانی معاشرت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں طبقاتی کشمکش کے ساتھ ساتھ آزادی کی تحریک کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ ان کے کرداروں کا فطری ارتقا ہی ان کی ایک بڑی انفرادیت ہے۔ ’بلچنما‘ میں تمام کردار فعال ومتحرک نظر آتے ہیں۔ بابا ناگارجن کی مثالیت پسندی کی ایسی مثال کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔بلچنما، چنی، رادھا بابو، سوامی جی، پھول بابو، برج بہاری عرف بچو اور اور جانکی سب مثالی کردارہیں۔ان کرداروں کو چوتھی دہائی کے ہندوستان اور اس کے خاص سیاسی اور معاشی پسِ منظر میں دیکھیے تو ہر ایک کردار کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔

جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو ان کی شاعری کا موضوع بھی جبر واستبداد رہاہے۔ وہ ہر طرح کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود مارکسی نظریے کے تھے لیکن مارکسی حکومت کے خلاف بھی آوازِ بغاوت بلند کرتے رہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں وہ ایک باغی ادیب وشاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فنکار کی فکر ونظر کا محور انسانی معاشرے کی بدحالی اور استحصال ہوگا اسے کوئی بھی حکمراں جماعت قبول نہیں کر سکتی۔

 ان کی نظم’ان کو پرنام‘ تو میتھلی اور ہندی دونوں میں ایک شاہکار نظم تسلیم کی گئی ہے       ؎

جو نہیں ہو سکے پورن کام/میں ان کو کرتا ہو ں پرنام

کچھ کنٹھت او لکچھ بھرشٹ

جن کے ابھیمنترت تیر ہوئے

رَن کی سماپتی کے پہلے ہی

جو بیر رکت تو نیر ہوئے

ان کو پرنام!

جو چھوٹی سی نیّا لے کر

اترے کرنے کو اُددھی پار

من کی من میں ہی رہی سوینگ

ہوگئے اسی میں نرا کار

ا ن کو پرنام!

جو اونچ شکھر کی اور بڑھے

رہ رہ نو نو اُتساہ بھرے

پر کچھ نے لے لی ہیم سمادھی

ان کو پرنام!

ایکاکی اور اکنچن ہو

جو بھو پریکرما کو نکلے

ہوگئے پنگو پرتی پد جن کے

اتنے ادرشٹ کے دائو چلے

ان کو پرنام !

کرت کرت نہیں جو ہو پائے

پرتیوت پھانسی پر گئے جھول

کچھ ہی دن بیتے ہیں پھر بھی

یہ دنیا جن کو گئی بھول

ان کو پرنام!

تھی عمر سادھنا پر جن کا

جیون ناٹک دکھانت ہوا

یا جنم کال میں ہی سنگھ لگن

پرکوسمے ہی دیہانت ہوا

ان کو پرنام!

دریڈھ برت اور دودرم ساہس کے

جو اُداہرن تھے مورتی منتر

پر نربدھی بندی جیون میں

جن کی دُھن کا کردیا انت

ان کو پرنام!

جن کی سیوائیں اتولنیہ

پروگیاپن سے رہے دور

پرتی کول پرستھیتی نے جن کے

کردئے منورتھ چورچور

ان کو پرنام!

یہ مذکورہ نظم پانچ دہائی پہلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن عصری تناظر میں بھی اس نظم کی قرأت ذہن کے دریچوں کو وا کرتی ہے اور ایک عظیم فنکار کی تخلیق اپنی عصری معنویت بر قرار رکھتی ہے اس کا بھی خلاصہ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی نظم ’میری بھی آبھا ہے اس میں‘ ملاحظہ کیجیے     ؎

نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہاہے

یہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہے

میری بھی آبھا ہے اس میں

بھینی بھینی خوشبو والے

رنگ برنگے

یہ جو اتنے پھول کھلے ہیں

کل ان کو میرے پرانوں میں نہلایا تھا

کل ان کو میرے سپنوں نے سہلایا تھا    

پکی سنہری فصلوں سے جو

اب کی یہ کھلیان بھر گیا

میری رگ رگ کی سونت کی بوندیں

اس میں مسکراتی ہے

نئے گگن میں نیا سورج جو چمک رہا ہے

یہ وشال بھوکھنڈ جو دمک رہاہے

اس نظم میں بھی جدید ہندوستان کی تعمیر میں مزدور طبقے کی قربانیوں کو شعری پیکر میں ڈھالا گیاہے اور کس طرح حاشیائی طبقے کو نظر انداز کیا گیاہے اس کو علامتی انداز میں پیش کیا گیاہے۔

مختصر یہ کہ ناگارجن نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں صرف ہماری سماجی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی ہے بلکہ سماجی زندگی کے ایسے تاریک گوشے کو موضوع بنایا ہے جس سے ان کے بنیادی نقطۂ نظر کی مکمل عکاسی ہوتی ہے۔ان کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ہی آس پاس کی زندگی کی ترجمانی کی ہے، اپنے ہی ماحول کی عکاسی کی ہے۔دوسرے شعراء کی طرح ان کا رنگ مصنوعی نہیں اور نہ ان کے موضوع مانگے کا اجالا ہیں۔ غرض کہ ناگارجن ادب برائے زندگی کے علمبردار ہیں اور اپنے قلم کی جنبش سے فرسودہ سماج کے تمام ہوائی قلعوں کو منہدم کرکے ہمیں اس دنیا سے روشناس کراتے ہیں جس میں ہم بستے ہیں اور اپنی آنکھوں سے انسانی زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں۔

Dr. Mushtaque Ahmad

Principal, CM College

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9431414586

Email.: rm.meezan@gmail.com




اس شکل سے گزری غالب: حقائق اسا س ڈرامہ - مضمون نگار: پرویز شہریار

 



اردو ادب میں ڈرامے کے رجحان کا غلبہ دیگر اصناف کے مقابلے میں ا گرچہ زیادہ نہیں رہا ہے۔ تاہم اندر سبھا کے ڈراموں کی روایت واجد علی شاہ کے زمانے سے کافی مشہور اور مقبول رہی ہے۔ اردو میں اسٹیج ڈرامے اور ریڈیائی ڈرامے دونوں ہی لکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، یک بابی ڈرامے بھی تعلیم و تدریس کے اغراض و مقاصد کے تحت لکھے جاتے رہے ہیں۔

اردو کے مشہور ڈراموں میں’انار کلی‘ کا خاص طور سے ذکر کیا جاتا ہے۔اصلاحی ڈراموں میں عابد حسین کے ڈرامے ’پردۂ غفلت‘ اور آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ’یہودی کی لڑکی ‘کا ذکر ہوجاتا رہاہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں پارسی تھیٹر نے ڈرامے کے کرافٹ کو بام عروج تک پہنچایا۔اسے اردو ڈرامے کا سنہرہ دور کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بولتی ہوئی جدید فلموں کی آمد سے تھیٹر کا زور کم پڑ گیا اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ فلموں نے لے لی۔

لیکن، دوسری طرف ہوا یہ کہ ڈرامے کو اسٹیج سے ہٹ کر ریڈیو میں جگہ مل گئی اور ریڈیائی ڈرامے کی مقبولیت نے بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کو اپنی طرف متوجہ کر نا شروع کر دیا۔ ان میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر،  راجندر سنگھ بیدی، اپیندر ناتھ اشک اور ریوتی سرن شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ دورِ جدید میں اِپٹا (IPTA) اور دوسری غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے پیش کیے گئے ڈرامے قابل تعریف رہے ہیں،جن میں صفدر ہاشمی کے ڈرامے بھی شامل ہیں۔

ادبی اصناف میں ڈرامہ ایک ایسی صنف ہے جس میں ناظرین براہِ راست کرداروں سے رو برو ہوتے ہیں۔ اس میڈیم کو سب سے زیادہ موثر ذریعۂ ترسیل سمجھا جاتا ہے۔ کتابی ڈراموں میں بہت ساری باتیں اَن کہی رہ جاتی ہیں، لیکن جب ہم اسٹیج پر کرداروں کوآپس میں متصادم دیکھتے ہیں تو ان کے جذبوں کا رنگ کرداروں کے چہروں سے عیاں ہوتاہے۔جس کی گرماہٹ جلسہ گاہ  یا ہال میں موجود تماش بین آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ آواز کے اُتار چڑھاؤ اور مکالموں کی تیزی و ترشی ہم اسٹیج ڈراموں میں بخوبی محسوس کر لیتے ہیں۔

جہاں تک غالب پر کھیلے گئے ڈراموں کاسوال ہے۔ اس موضوع پر بھی وقتاً فوقاً ڈرامے اسٹیج کیے جاتے رہے ہیں۔ اس قسم کے ڈرامے ایوانِ غالب کی ثقافتی و تہذیبی اکائی ’ہم سب ڈرامہ گروپ‘ کے ذریعے پیش کیے جاتے رہے ہیں، جن میں غالب شناسی کے پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتاہے۔ اس میں اب تک جو ڈرامے پیش کیے جا چکے ہیں، ان میں سے چند مشہور ڈرامے ہیں، سید محمد مہدی کا ڈرامہ ـ’غالب کون‘، منجو قمر کا ڈرامہ ’مرزا غالب‘، حبیب تنویر کا ڈرامہ ’میرے بعد‘، اے آر کاردار کا ڈرامہ ’ غالب کی واپسی‘، اور محمد حسن کے ڈرامے ’ تماشہ اور تماشائی‘ اور’کہرے کا چاند‘، نیز ابن کنول کا ڈرامہ ’بزم داغ‘ وغیرہ۔

پروفیسر صادق نے اپنے ڈرامے، ’اس شکل سے گزری غالب‘ کے لکھنے کے جواز کے طور پر نیشنل بک ٹرسٹ سے شائع شدہ اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مجھے مروجہ ڈرامے دیکھنے کے بعداکثر کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی رہی ہے۔اس تشنگی سے مجھے ترغیب ملی کہ مرزا غالب کے معرکہ آرا  واقعے کو ڈرامہ کے طور پر پیش کر دیا جائے جو سچے واقعات پر مبنی ہواور پھر اس کو اسٹیج پر کھیلا بھی جاسکے۔ اسی منصوبے کے تحت پروفیسر صادق نے ’اس شکل سے گزری غالب‘ کے ذریعے مرزاغالب کے کردار، اُس عہد کی تہذیب، اس دور کی سیاسی چال بازیوں اور غالب کے خلاف رچی گئی سازشوں اور بے انصافیوں سے ناظرین کو متعارف کرایا ہے اور اس شعر کو عملی جامہ پہنانے  میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے       ؎

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا  یاد کریں گے کہ خدا رکھتے  تھے

ڈرامے کا اصل موضوع یہ ہے کہ پنشن میں ہوئی بے انصافیوں سے غالب پہلے ہی پریشان تھے لیکن جب اخراجات حد سے زیادہ بڑھ گئے۔مہا جنوں اور ساہو کاروں سے لیے گئے، سودی قرض کی رقم حد سے تجاوز کرنے لگی اور جب غالب کے تایا سسر نواب احمد بخش کے صرف دلاسہ دینے سے بات بنتی نظر نہ آئی تو     غا لب نے کلکتے کے سفر کا قصد کیا تاکہ وہاں جاکے کمپنی سرکار کے گورنر جنرل سے اپنی عرضی گزار سکیں۔ اُس وقت ان کی عمر تقریباً  30 سال رہی ہوگی۔ اس سفر کی پوری روداد اس ڈرامے میں موجود ہے۔ دورانِ سفر غالب نے لکھنٔو، بنارس اور عظیم آباد،وغیرہ میں قیام کیا تھا۔اس عرصے میں ان کی طبیعت بھی خراب ہوئی اور تنگ دستی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔لیکن کلکتے میں ان کے دشمن افضل نے ان کے خلاف وہاں کے عوام اور خواص یعنی وہاں کے مقامی لوگوں اور انگریزی افسران دونوں طبقے کے لوگوں کو غالب کے خلاف بھڑکادیا اور غالب کو چار وناچار،وہاں سے خالی ہاتھ اور بے نیل ومرام دلّیـ واپس آنا پڑا۔

غالب کے چچا نصراللہ بیگ کو انگریزی سرکار سے ملی جاگیر کے ضبط ہوجانے کے بعددس ہزار روپے مہینہ کا وظیفہ جاری ہو گیا تھا، لیکن ایک ماہ کے بعداس میں خواجہ حاجی نے سازش رچی اور اس پنشن کا تین فریقین میں بٹوارہ ہوگیا۔خواجہ حاجی، غالب اور غالب کی دادی۔اس پہ مستزاد یہ کہ پنشن کی رقم منہا کر کے پانچ ہزار کر دی گئی تھی۔ بڑے حصے پرخواجہ حاجی خود قابض ہو گیا۔ اسے دو ہزار روپے مہینہ وظیفہ اور بقیہ تین ہزار کی رقم میں سے غالب اور غالب کی دا دی ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار روپے پنشن کے حقدارقرار دیے گئے تھے۔جبکہ چچا نصراللہ بیگ کے وارثین میں ان کی تین سگی بہنیں یعنی غالب کی پھوپھیاں اور ایک بھتیجا یعنی غالب کا چھوٹا بھائی مرزا یوسف جس کی عمر سات سال تھی، وہ بھی شامل تھے۔ لیکن ان چاروں میں سے کسی کا نام تک اس سرکاری دستاویز میں شامل نہ تھا۔

نواب احمد بخش سے غالب کا سسرالی رشتہ تھا۔ وہ ان کے چچا سسر تھے۔ لہٰذا، ان سے اس موضوع پر کبھی کھل کر بات نہیں ہو سکی تھی اور چچا مرحوم کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا تھا۔چناں چہ، پنشن کی رقم کم پڑنے لگی تو مرزا نوشے میاں نے قرض لینے کی شروعات کر دی۔ آمدنی تو بڑھی نہیں۔ قرض دن بہ دن بڑھتا  چلاگیا۔

یہ ڈرامہ پنشن کے سلسلے میں غالب کی ایک طویل جد و جہد اور نا مساعد حالات کے سچے واقعات پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے غالب نے جتنے بھی اسفار کیے اور اس کی صعوبتیں برداشت کیں اور جن سازشوں کا انھیں قدم قدم پر سامنا کرنا پڑا، وہ سب اس ڈرامے میں دستاویزی حقائق کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔

 واقعہ یہ ہے کہ تین سال کے لیے غالب کی پنشن بند ہو گئی تھی۔ 1857میں غدر کے بعد دوبارہ پنشن جاری ہوئی۔ گھر میں کھانے والے بیس افراد تھے اور ساٹھ روپے آٹھ آنے مہینہ کی پنشن تھی۔ والیِ  رام پور سے ماہانہ سو روپے کا وظیفہ آجاتا تھا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں غالب نے اپنی زندگانی کا سفر طے کیا۔ لیکن ان کے اندر کا ایقان اور استقلال انھیں نچلا بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے اخیر تک انصاف کی جنگ جاری رکھی۔ حتیٰ کہ برطانیہ کی ملکہ ٔ معظمہ کو بھی خط لکھا اور حق بات پر سینہ سپر ہوکر ڈٹے رہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو غالب کی ججھار و شخصیت کے اس وصف کو نمایاں کرتے ہیں کہ ان کے اندر رجائیت تھی۔زندگی کے تئیں ان کا یہی مثبت رویہ تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی کسی چیز کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتے تھے۔یعنی انھوں نے اپنے نصب العین سے کبھی روگردانی نہیں کی اور اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے تمام عمر سعی کرتے رہے۔ یہ بات بھی قابل ِغور ہے کہ انھیں اپنی قسمت پر کبھی بھروسہ نہیں تھا۔ سیاہ بختی اور طالع خفتہ کا احساس تمام عمر ان کے دامن گیر رہا،وہ اپنے ساتھ ہوئی اس بے انصافی اور حق تلفی کے لیے داورِ محشرسے بھی فریاد رسی کے متمنی تھے۔

غالب کی زندگی کے مذکورہ واقعات کو ڈرامے میں بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ 12 ایکٹ اور مرزا یوسف اور ہمزاد سمیت تقریباً 15 کرداروں پر مشتمل یہ ڈرامہ دہلی اردو اکادمی کے ذریعے شری رام سینٹر، منڈی ہاؤس، نئی دہلی میں  28، نومبر 2019 کو شام 6:30  بجے پیش کیا گیا تھا۔ میں اس ڈرامے کا فی نفسہ ایک ناظر رہا ہوں۔مرزا غالب کے کردار میں ایک تو اُس نوجواں غالب یعنی مرزا نوشہ کو دکھایا گیا ہے جس کی عمر تیس سال تھی۔جوانی کی رعنائیاں اور ان کے جوش و خروش کو اسٹیج پر بہت پر کشش طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

بعدازاں، غالب کے بڑھاپے کی حالت کو جب مرزا غالب چھڑی کی مدد سے چلتے پھرتے تھے، بہت ہی ضعیف اور ناتواں، بلکہ نیم جاں والی حالت کو اسٹیج پر بڑے موثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ غالب کی زوجہ امراؤ بیگم کا کردار بہت جاذب نظر اور خوش باش طور پر دکھایا گیا ہے۔ ان کے بھی ایام شباب کو اور پھر ڈھلتی ہوئی عمر کے ٹھہراؤ کو بحسن و خوبی اسٹیج کیا گیا ہے۔

اسکرپٹ رائٹر کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو پروفیسر صادق نے اس میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یہاں، مثال کے طور پر ان کی اس فن پر استادانہ گرفت کی بات کی جائے تو ماہرین ڈرامہ جانتے ہیں کہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہم خارجی، مادّی یا تاریخی واقعات کو تو آسانی سے ناظرین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن معاملہ جب قلبی واردات کا ہو تو اس میں خود کلامی سے کام لیا جاتا ہے۔Monologue اور Soliloquy  مکالمے کے دو بہت مؤثر ذرائع اظہار مانے جاتے ہیں۔لیکن پروفیسر صادق، چونکہ خود بھی رنگ منچ سے ایک اداکار کی حیثیت سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے انھوں نے ادا کارکی سہولیت، رنگ منچ کی رنگا رنگی اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے مرزاغالب کا ہمزاد تخلیق کر دیا۔ ان کا یہ تجربہ بہت زبردست ثابت ہوا۔ اداکاروں نے جس روانی کے ساتھ برجستہ اور بے ساختہ انداز میں مکالمات ادا کیے، وہ دیکھتے ہی بنتا تھا۔ہمزاد کے تلخی آمیز مکالموں کی ادائیگی نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ پروفیسر صادق کے مکالمات نے قصیدہ اور غزل میں بیان ہونے والی سچّی اور جھوٹی تعریف کے فلسفے کو طشت از بام کر دیا ہے۔پہلی بار ایسا ہوا کہ مرزا اپنے ہمزاد کے آگے لاجواب ہو کر بغلیں جھانکتے نظرآئے ہیں۔ اس مقام پر ناظرین نے دل کی گہرائیوں سے داد دی ہوگی۔ میں، ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ شور مچانا یا خوشی سے تالیاں بجانا رنگ منچ کی تہذیب کے منافی ہوتا ہے۔ لہٰذا، اُس وقت کے دورانیہ میں پن ڈراپ خاموشی اس بات کی دلیل تھی کہ ناظرین زبان ِحال سے اس کی پذیرائی کر رہے تھے۔

اس ڈرامے کی ڈیزائننگ اور ہدایت کاری میں پرتیبھا سنگھ نے بھی اپنے فن کا دل کھول کے مظاہرہ کیا ہے۔ اشعار کے پس منظرمیں چل رہے رقص کی موومنٹ نے جو منظر کشی کی ہے، وہ بہت دلکش معلوم ہوتی تھی اور نظروں کو باندھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔ اس کے علاوہ، انگریز کردار خواہ وہ پچاس سالہ افسرسائمن فریزر ہو یا برٹش حکومت کا چیف سکریٹری پچپن سالہ انگریز سوئن ٹن یا پھراس کا ماتحت، پچاس سالہ انگریز ہنری، ان سب کی برٹش لب و لہجے (Accent) میں اردوکے ڈائیلاگ سماعت فرمانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس میں دلّی کے نوجوان اداکاروں نے اپنے جذبات اور اپنی توانائیاں جھونک دی تھیں۔جس سے مکالمات کے بے ساختہ اورفطری ہونے کا زبر دست احساس ہوتا تھا۔کرداروں کے ملبوسات، حقہ اور پاندان اور نشست و برخواست کے فرشی انتظامات، کلو میاں کا بار بار ازاربند میں گرہ لگانا یہ ایسے عمل تھے جس سے مغلیہ عہد کی طرز معاشرت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔اس ڈرامے کی کامیابی یہ ہے کہ ڈھائی گھنٹے کے لیے ہر تماش بین ذہنی طور پر غالب کے زمانے میں خود کو سیر کرتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔

  پروفیسر صادق نے مرزا غالب کی والدہ عزت النسا بیگم کو ایک پر وقار خاتون کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی کردار سازی بہت محنت سے کی گئی ہے۔ اس ڈرامے میں ان کے بال سفید اور ملبوسات بھی سفید دکھائے گئے ہیں، جس کی ستائش نہ کرنا فنکار کی حق تلفی کے مترادف سمجھا جائے گا۔  ڈومنی نواب جان کے رقص کوبھی بنارس کی شام میں یادداشت کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے جس کے بغیرعام ناظرین کے لیے غالب کے ڈرامے میں دلچسپی کے فقدان کو محسوس کیے جانے کا احتمال بر قرار رہ جاتا۔ڈرامہ کی ڈائریکٹر نے جابجا رقص، موسیقی اور بیک ڈراپ میں مصوری کے ذریعے مختلف تہذیبی مناظر کو پیش کرکے ناظرین کی دلچسپی بنائے رکھنے میں بڑا زبردست کام انجام دیاہے۔

کلو میاں کا لنگِ پا ہونا، لونڈی وفادار کی تتلاہت اور رائے چھجمل کی یاری، مداری خان کی چھوٹی چھوٹی خدمت گزاری، افضل بیگ اور عبدالکریم کی مکاری اور دغا بازی، انگریزافسران کی مستعدی و ہشیاری اور ان سب سے بڑھ کے ہمزاد کی تنہائیوں میں ہم کلامی سب یاد رہ جاتی ہیں۔ ناظرین کے حافظے کا حصہ بن کے اسٹیج سے باہر جانے پر بہت دیر تک اپنی گل کاریاں کرتی رہتی ہیں۔

اسٹیج ڈرامے کے کرافٹ میں متعدد ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں، جو ڈرامے کے مسودے کا حصہ نہیں ہوتیں، مگر زیب ِ داستان اور ناظرین کی حسِ سماعت و بصارت کو باندھے رکھنے کے لیے ہدایت کار اپنی طرف سے کچھ چیزوں کا اضافہ کردیتا ہے۔لہٰذا، اس ڈرامے کا موضوع کافی گمبھیر تھا مگر ہدایت کار پرتیبھاسنگھ نے اسے پر لطف اور دلچسپ بنانے کے لیے جا بجا تفریحی عناصر کا استعمال کیا ہے۔ جس طرح شیکسپیئر نے سب سے پہلے یونان کے المیہ ڈراموں کے اصول کے بر خلاف اپنے ڈراموں میں  Comical elements کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح پر تیبھا نے اپنے اسٹیج کرافٹ کے تجربے کو بروئے کار لاکر اس کی المناکی کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے،جسے ذاتی طور پر میں بھی مستحسن سمجھتا ہوں۔ ان طربیہ عناصر کا فائدہ یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی تماش بین اس ڈرامے سے بے حد محظوظ اور لطف اندوز ہوکر اُٹھتے ہیں۔ ایسے بہترین ڈرامے روز روز نہیں اسٹیج کیے جاتے،جن میں ڈرامے کی تینوںہی اکائیاں اپنے عروج وکمال پر ہوں یعنی ٹائم، اسپیس اور ایکٹ اور ان میں ایسا زبردست تال میل شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

Dr. Perwaiz Shaharyar

Flat No: 4/48, NCERT Campus

Sri Aurobindo Marg

New Delhi - 119916




29/12/20

ہندوستان میں فارسی لغت نگاری: ایک تعارف - مضمون نگار: قمر حیدر

 



دنیا کی کسی بھی زبان کو جاننے اور پہچاننے کے لیے اس کے الفاظ وقواعد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، انھیں الفاظ ومحاوروں کو ابجد کی ترتیب کی رعایت کے ساتھ کتابی شکل میں جمع کردینا لغت نویسی کہلاتا ہے اور ترتیب شدہ مجموعے کو لغت،فرہنگ،ڈکنر ی اور شبد کوش کے نام سے یادکیا جاتاہے۔لغت میں در حقیقت روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ، محاورات کی تشریح اور ضرب الامثال کی توجیہ وتوضیح درج ہوتی ہے۔لفظ کس زبان کا ہے اس کی اصل کیا ہے ،اس کی قواعدی نوعیت کیا ہے یہ ساری چیزیں لغت میں مذکور ہوتی ہیں۔

اس مقام پر یہ بات ذہن نشین کرانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لغات اور دائرۃ المعارف میں کچھ بنیادی فرق ہوتے ہیں، ان میں اہم ترین فرق یہ ہے کہ لغات میں بنیادی طور پر لغت ومعنی کو مدنظر رکھا جاتاہے جبکہ دائرۃ المعارف میں مختلف موضوعات پر اجمالی معلومات درج کی جاتی ہیں۔

لغت نویسی نہایت ہی صبر آزما، دقت طلب اور طاقت فرسا فن ہے جس کا تعلق لسانیات اور علم زبان سے ہے اس کے لیے وسیع معلومات، الفاظ کا ذخیرہ، اس کے طریقہ استعمال سے آگہی، معنی، تلفظ واملا سے واقفیت وغیرہ درکار ہوتی ہے، نیز زمانے کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کسی حد تک آشنائی بھی ضروری ہے۔

کتب لغات کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لغت کی کتابیں مختلف النوع ہوتی ہیں، کچھ ایسی لغات ہوتی ہیں جس میں صرف اسی زبان کے الفاظ کے معنی،محل استعمال اور طریقہ استعمال کو بیان کیا جاتاہے ،عموماً اردو فارسی لغات میں حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے کلمات والفاظ کی تشریح وتوضیح درج ہوتی ہے۔

کچھ لغات ایسی بھی نظر آتی ہیں جس میں دوزبانوں کا استعمال ہوتا ہے مثلا اردو سے عربی یا عربی سے اردو ،یا فارسی سے عربی وعربی سے فارسی میں الفاظ کی تشریح وتوضیح نیز معنی وغیرہ درج کیا جاتا ہے۔

بعض لغت میں کئی کئی زبانوں کا استعمال ہوتا ہے، الفاظ کے معنی وطریقہ استعمال کو چند زبانوں میں بیان کیا جاتاہے،دور حاضر میں اس قسم کی لغات زیادہ مرسوم ہیں، ہرزبان کی لغت چند مختلف زبانوں میں ترتیب پا رہی ہے۔

لغت کی ایک قسم عصر حاضر میں یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی علم یا موضوع سے متعلق کلمات واصطلاحات کی تشریح وتوضیح سے مختص ہیں مثلا سائنسی علوم سے متعلق لغات، علم نجوم یا حکمت وفلسفے کی اصطلاحات پر مشتمل لغت۔

ہندوستان میں فارسی لغات کی تدوین:

فارسی زبان اپنی قدامت کے اعتبار سے متعدد ادوار سے گذری ہے اور ہر دور پچھلے دور کے بہ نسبت زیادہ ہی تابناک رہا ہے چونکہ کسی بھی زبان کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا ایک ذریعہ لغات ہیں بلکہ ادبی منابع میں سے ہے اس لیے ہر دور میں ادبا ودانشوروں نے اس پر خاطر خواہ توجہ دی ہے ،فارسی لغت نویسی کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے درمیانی مراحل سے فارسی لغت نویسی کا آغاز ہوچکا تھا ،چنانچہ ڈاکٹر معین اپنی لغت فرہنگ معین کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

ایسے شواہد دستیاب ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لغت نویسی کا آغاز پانچویں صدی ہجری کے وسط میں ہو چکا تھا ممکن ہے اس سے پہلے بھی یہ کام ہواہو لیکن حوادث تاریخی کے ہاتھوں ضائع وتباہ ہوگیا اور اس کے اثرات نہیں ملتے ہیں۔(مقدمہ فرہنگ معین)

فارسی زبان کی قدیم ترین لغت کے عنوان سے دواہم نام قابل ذکر ہیں (1) فرہنگ پہلو یک (2) فرہنگ اوئیم۔  ان دونوں لغات کا تعلق فارسی میانہ سے تھا لیکن باقاعدہ فارسی لغات کی تدوین کا کام بظاہر پانچویں صدی ہجری سے شروع ہوا اس صدی کی دواہم کتابیں قابل ذکر ہیں۔ (1) رسالہ ابو حفص سغدی (2) تفاسیر لغۃ الفرس مؤلفہ شرف الزمان قطران بن منصور ارموی۔پانچویں صدی کے مشہور شاعر تھے ،سردست یہ دونوں کتابیں نایاب ہیں(فرہنگ فارسی معین،ص39)

اس سلسلے میں قدیم ترین کتاب جو دستیاب ہے۔ فرہنگ اسدی یا لغت فرس اسدی مؤلفہ اسدی طوسی ہے۔ اس کے بعد ایک عرصہ دراز تک اس قسم کی کتابیں ترتیب نہیں دی گئیں یہاں تک کہ آٹھویں صدی میں شمس الدین محمد ہندوشاہ کے ذریعے صحاح الفرس لکھی گئی اس کے بعد متعدد لغات اسی صدی میں معرض وجود میں آئیں۔

ساتویں صدی ہجری میں شبہ جزیرہ ہند میں لغت نویسی کا آغاز ہوا کیونکہ ایرانیوں سے راہ ورسم بڑھے اور ایرانی تمدن کو ہندوستان میں رونق حاصل ہوئی، بڑھتے بڑھتے فارسی زبان ایران کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور رائج زبان قرار پائی ،چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ تمام سلاطین وہندوستانی راجاؤں نے فارسی زبان سے بخوبی آشنائی حاصل کرلیا ،چوتھی صدی عیسوی سے ہندوستانی حکام سے ساسانیوں کے خاص روابط ومراسم تھے (فرہنگ نویسی فارسی در ہند وپاکستان، مولفہ  ڈاکٹر شہریار تقوی)

تاریخی حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں ایرانیوں نے فرہنگ نویسی اور لغت نگاری میں کوتاہی کا مظاہرہ کیاہے۔جس کا شکوہ عظیم لغت نگار ڈاکٹر محمد معین کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

چونکہ ایرانیوں کی مادری زبان تھی لہذا انھوں نے لغت نگاری کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی جیسے عرب نے عربی لغت نگاری میں تساہلی سے کام لیا تھا مگرچونکہ عربی زبان ایرانیوں کی مذہبی زبان تھی لہٰذا ایرانیوں نے عربی لغت تدوین کرنے کا بیڑا اٹھایا…..ایرانیوں کی اسی عدم توجہی کے باعث ہندوستانی دانشوروں نے چونکہ ان کی سرکاری زبان فارسی تھی لہٰذا فارسی لغات کی تدوین کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے تالیف کا عمل شروع کیا گرچہ ان کا یہ اقدام قابل تحسین ہے لیکن چونکہ اہل زبان نہ تھے لہٰذا غلطیاں بھی بہت نظر  آتی ہیں۔

(مقدمہ لغتنامہ علی اکبر دھخدا،ص41)

ہند وپاک کے دانشوروں کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے جلال الدین ہمائی رقمطراز ہیں:پرانے ہندوستان کے دانشوروں نے لغت نگاری کے حوالے سے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ایرانیوں سے کہیں زیادہ ہیں…یہ خدمات ویسے ہی ہیں جیسے عربی زبان کی ایرانیوں نے خدمت کیاتھا۔(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان مولفہ ڈاکٹر شہریار تقوی،ص11)

قدیم ہندوستان میں مورخین کے بیان کے مطابق ساتویں صدی ہجری سے لغت نویسی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا تھا اور مسلسل اس تعلق سے دانشوروں نے خدمات انجام دیں لیکن اس سلسلے کا سب سے زرین دور گیارہویں صدی کو کہا جاسکتاہے جس میں یہ کام بام عروج پر پہنچا۔

ہندوستان میں لغت نگاری کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

.1        ساتویں صدی سے نویں صدی ہجری تک:اس دور میں لغت نگار دانشوروں نے الفاظ جمع کرنے پر زیادہ توجہ اور جدیت سے کام لیا اور یہ کوشش کرتے تھے کہ ہر نئی لغت مواد کے اعتبار سے پرانی لغت سے جدا وممتاز رہے، اس دور کے مولفین چونکہ شعر سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے لہٰذا شاہد مثال کے طور پر اشعار زیادہ درج کیا ہے۔

.2         مغلیہ دور سے تیرہویں صدی تک: اس دور میں لغت نگاری میں اک نیا طریقہ پیدا ہوا، الفاظ کی جمع آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق وتنقید پر بھی توجہ مبذول کی گئی، چنانچہ اس دور میں فارسی کو کافی حد تک ارتقا حاصل ہوا۔

.3         دور جدید یعنی چودہویں صدی ہجری:اس دور میں چونکہ مغلیہ سلطنت کی بنیادیں متزلزل ہو گئی تھیں اور ہندوستان پر انگلستان کا قبضہ بڑھتا جا رہا تھا سیاسی اتھل پتھل نے مسلمانوں کے تمدن،زبان اور فارسی ادب کو بھی متاثر کردیا کیونکہ انگریز فارسی کے بجائے اپنی زبان رائج کرنا چاہتے تھے لیکن یہ کوشش مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی مسلمانوں نے اپنی زبان وتمدن کو انگریزوں کے عفریتی پنجوں سے بچا لیا جس کے نتیجے میں متعد دزبانوں کا ایک مجموعہ اردو کے نام سے سامنے آیا۔(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان مولفہ ڈاکٹر شہریار تقوی،ص24)

ہندوستان میں پہلی لغت جو فارسی زبان میں لکھی گئی وہ فرہنگ قواس ہے جس کو علاء الدین محمد شاہ کے درباری شاعر مولانا محمد فخرالدین مبارک شاہ غزنوی معروف بہ کمانگر یا قواس نے تالیف کیا تھا یہ کتاب نو سوچالیس صفحات پر مشتمل ہے جو بھوپال کی حمیدیہ لائبریری میں موجود  ہے یہ نسخہ مولانا نظام الدین فرماندار احمدآباد گجرات کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے۔

(نامہ فرہنگستان، ج1،شمارہ60،مقدمہ برہان قاطع،ص74)

مجلہ آئینہ میراث ،ص106 پر علیم اشرف خان کا یہ جملہ اس کی تائید کرتا ہے: ہندوستان کے مشہور دانشور قاضی عبد الودود کے بقول ہندوستان میں تالیف ہونے والی قدیم ترین فارسی لغت’فرہنگ فخر قوامی‘ ہے لیکن ابھی ماضی قریب میں پروفیسر نذیر احمد نے ایک نئی لغت کا انکشاف کیا ہے جو اس سے بھی زیادہ قدیمی ہے  جس کا نام ’فرہنگ قواس‘ ہے۔

(روزنامہ اطلاعات،16مرداد،سال1392)

ہم یہاں پر چند اہم قدیم ترین کتب لغت کے اسما   درج کررہے ہیں:فرہنگ قواسی مولفہ محمد فخرالدین مبارک شاہ،دستورالافاضل مولفہ مولانا رفیع دہلوی،بحر الفضائل مولفہ مولانا فضل الدین محمد بن قوام،مؤید الفضلا  مولفہ مولانا محمد ابن لاد، ادات الفضلا مولفہ قاضی بدرالدین دہلوی، مجموع اللغات مولفہ ابوالفضل، فرہنگ جہانگیری مولفہ جمال حسین اینجو، برہان قاطع مولفہ محمد حسین برہان تبریزی، فرہنگ رشیدی مولفہ عبد الرشید تقوی،لغات عالم گیر فاضل محمد دہلوی، سراج اللغات سراج الدین علی خان آرزو، چراغ ہدایت سراج الدین علی خان آرزو۔

چند فارسی لغات کا تعارف:

ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا رواج صدیوں پرانا ہے، فارسی زبان کے رائج ہونے کے بعد لغت نویسی کی ضرورت کے پیش نظر ہندوستانی دانشوروں نے نہایت تن دہی سے اس کام کو انجام دیا، سلاطین ہند کی ادب نواز اور علم پرور طبیعت نے دل کھول کر ایسے افراد کی حمایت واعانت کی جس کے نتیجے میں آسودہ خاطر ہوکر بڑے وسیع پیمانے پر یہ کام انجام پایا اورلغات کی ایک طویل فہرست فارسی ادب کی کتابوں میں ملتی ہے ،ہر ایک کتاب کے جداگانہ تعارف کے لیے پوری ایک کتاب نا کافی ہوگی مگر مضمون کی افادیت کے پیش نظر کچھ کتب کا اجمالی تعارف  ہدیہ قارئین کرام کیا جارہاہے۔

.1  بہار عجم:دوسرے دور میں ہندوستان میں تالیف ہونے والی یہ لغت لالہ ٹیک چند بہار نے مرتب کیا تھا اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تقریبا دس ہزار مفردات، مرکبات ومثالوں کو درج کیا ہے اور اکثر معنی بیان کرنے میں اشعار سے استفادہ کیا ہے۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بعض امثال،کنایات اور فارسی عبارات ایسی ہیں جو اس سے قبل کی لغات میں مذکور نہیں ہیں۔

مقدمہ میں لالہ ٹیک چند نے تحریر کیا ہے:یہ ذخیرہ ہے لغت واصطلاحات کا جس کو مروجہ کتب،معتبر شروح متقدمین کے دیوان ومثنویات سے حاصل کیا ہے۔

(پژوہشنامہ علوم انسانی،ص28)

شاید اسی تحقیق وجستجو کا نتیجہ تھا کہ یہ لغت بعد کے لغت نویس دانشوروں کے لیے عظیم سرچشمہ علم قرارپائی جس کے سبب مولف کی زندگی میں ہی متعدد مرتبہ طبع ہوئی۔ مولف آصف اللغات بہار عجم کی جامعیت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:متعدد مفردات اور بہت سے مرکبات درج کیا ہے ،اکثر الفاظ میں متقدمین ومتاخرین سے متعدد اسناد ذکر کیے ہیں جس سے مرکبات میں تازگی نظر آتی ہے...اس کی جامعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے اساتذہ فن کے کلام یکجا کردیا ہے۔

(آصف اللغات،ج1،ص5)

اس کتاب کی عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تکمیل تدوین سے لے کر ہمیشہ یہ کتاب ادبی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی، متاخرین نے اس کتاب سے بھر پور استفادہ کیا ہے، فرہنگ آنند راج، لغتنامہ دھخدا، فرہنگ نفیسی ،فرہنگ معین جیسی عظیم کتابوں میں بہت سے مفردات ومرکبات کی تشریح کو من وعن نقل کردیا گیاہے۔

سراج اللغات:سراج الدین علی خان آرزو نے تالیف کیا ہے ،ہندوستان میں فارسی لغت نگاری کے ارتقا میں اہم رول ادا کیا ہے، انھیں نے  سب سے پہلے زبان شناسی کے فارمولے اور فارسی وسنسکرت زبان کے درمیان کے روابط کو واضح کیا اور نہایت اہم اقدامات کیے۔

آپ نے دو کتابیں علم لغت میں تالیف کیا تھا۔ (1) چراغ ہدایت (2) سراج اللغات ،اول الذکر کتاب مختصر مگر دوسری کتاب محمد شاہ کے دور میں 1147ھ میں تالیف کیا۔

ڈاکٹر شہریار تقوی تحریر کرتے ہیں: سراج اللغات باوجودیکہ اہم وعظیم اور نہایت قیمتی لغت تھی مگر کبھی طبع نہیں ہو سکی کہا جاتا ہے کہ کرناٹک کے ایک نواب کے دور میں طبع ہوئی تھی مگر اس کا کوئی نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔

(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان،ص112)

اس لغت میں مولف نے ثقافتی مباحث کے ساتھ ساتھ اعلام جغرافیائی اور تاریخی  بھی درج کیے ہیں۔

فرہنگ آنند راج: مولفہ محمد بادشاہ فرزند غلام محی الدین ،یہ کتاب آنند نامی بادشاہ کی تشویق پر ترتیب پائی تھی اس میں اس دور میں استعمال ہونے والے عربی، فارسی، ترکی، مغلی اور ہندی الفاظ درج ہیں ،کتاب کی تدوین میں گذشتہ مصنّفین کے تجربات وطریقوں سے خوب استفادہ کیا ہے۔

الفاظ کا تلفظ،قواعدی مباحث،مختلف معانی کو جدا جدا لکھنا،معنی مجازی وکنایہ کی تشخیص ،عروض وبدیع کی اصطلاحات کا اندراج اس کی اہم خصوصیات ہیں۔

یہ لغت تئیس ابواب پر مشتمل ہے،اس کتاب میں الف ممدودہ اور ہمزہ کے درمیان کا امتیاز نظر نہیں آتا ہے، مولف نے الفاظ فارسی کے ریشہ واصل کے بیان پر زیادہ توجہ دیا ہے مگر بعض مقامات پر اصل بیان کرنے میں سہو کے مرتکب ہوگئے ہیں اور علمی مباحث سے گریز کرتے ہوئے صرف گمان پر بھروسہ کیاہے۔

فرہنگ جہانگیری: 1017ھ میں تالیف ہوئی جو ایک بہترین وجامع ترین لغت ہے،مصنف جمال الدین حسین اینجو اکبر بادشاہ کے دربار کے امرا  میں سے تھے ،اس میں ترپن لغات سے استفادہ کیا گیا ہے،اور بعض الفاظ ومفردات جو خود ان کی تحقیق کا نتیجے ہیں درج ہیں۔وہ خود بیان کرتے ہیں:میں نے بعض ایسے کلمات بھی درج کیے ہیں جس کا وجود دیگر کتب لغت میں نہیں ملتا ہے اس کے لیے تحقیق کی ضرورت تھی کہ ان مناطق میں بسنے والے ادبا سے استفسار کیا جائے۔

لغت کی ترتیب پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر کلمہ کے دوسرے حرف کو باب اور پہلے حرف کو فصل کا عنوان دیا ہے اسی وجہ سے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں کی جاتی ہے (www.fa.wikipedia,org/wiki/) فارسی زبان در ہند)

فرہنگ رشیدی: عبد الرشید حسینی  سند ھ کے رہنے والے تھے انھوں نے فارسی کلمات ومفردات کے بارے میں  اچھی تحقیق پیش کیا ہے وہ خود تحریرکرتے ہیں:

چونکہ میں نے دوعظیم لغت کا مطالعہ کیا ’فرہنگ جہانگیری‘ و’سروری‘ دونوں میں ایسے امور نظر آئے جن سے اجتناب ضروری تھا۔ (1) دونوں لغت میں بے جا تفصیل، بے حاصل عبارات کی تکرار اور غیر ضروری اشعار کی کثرت سے پر ہیں۔ (2) بعض الفاظ کی تصحیح، اعراب کی وضاحت ،معنی کی تنقیح کما حقہ نہیں کی گئی ہے  جو ضروری تھی۔(3) اغلاط واشتباہات کی زیادتی۔

(فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان،ص102)

برہان قاطع: مولفہ محمد حسین متخلص بہ برہان ،1062 ھ میں ترتیب حروف تہجی کی رعایت کے ساتھ تدوین عمل میں آئی ہے،اس کتاب کو مصنف نے گولکنڈہ کے بادشاہ سلطان عبد اللہ قطب شاہ کے نام سے معنون کیا ہے،اس لغت کو خوب شہرت ملی اور کئی مرتبہ طبع ہوئی۔

قاطع برہان: 1278ھ میں اسد اللہ خان غالب نے برہان قاطع کی تصحیح کے عنوان سے ترتیب دیا تھا، در اصل غدر کے ایام میں جب غالب خانہ نشینی پر مجبور ہوگئے تو ان کے پاس صرف برہان قاطع نامی کتاب تھی لہٰذا اسی کے مطالعے میں مصروف ہوگئے اوردوران مطالعہ جہاں کہیں بھی برہان قاطع کے مندرجات سے اختلاف کرتے تھے یا جہاں کہیں بھی اعترا ض نظر آتا اس کی اصلاح کی غرض سے حاشیہ نویسی شروع کردیا اور بغیر کسی لغت کے سہارے ذاتی معلومات کی بنیادپر ایک سو انیس غلطی کی نشاندہی کیا۔

منابع

.1        آصف اللغات۔

.2         پڑوہش نامہ علوم انسانی

.3         روزنامہ اطلاعات

.4         فرہنگ معین

.5         فرہنگ نویسی در ہند وپاکستان

.6         مقدمہ لغتنامہ دھخدا

.7         مقدمہ برہان قاطع

.8         مجلہ آئینہ میراث

.9         نامہ فرہنگستان

.10      زبان فارسی درہندwww.fa.m.wikipedia.org/wiki


Qamar Haider

46 E, Barhamputra Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9910786441