24/11/21

قرۃالعین حیدر: اپنی تخلیق کے آئینے میں - مضمون نگار: ڈاکٹر محمد شارب

 



          بیسویں صدی کی خواتین فکشن نگاروں میں قرۃ العین حیدر کا نام سب سے نمایاں ہے۔انھوں نے اپنی ہمہ جہت تخلیق کے ذریعے ادب کے قاری کو باور کرایا کہ اردو افسانہ نویسی ہو یا نا ول نگاری، ناولٹ کا ذکر ہو یا ترجمہ نگاری گویا تمام اصناف ادب میں وہ ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ان کی تحریر وںمیں زبان و بیان ، تصورو خیال کے ساتھ ساتھ اسلوب میں بھی جدت پائی جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں بڑی معنیٰ خیز اور تہہ دار ہوتی ہیںجن سے قاری کو بصیرت و رسائی حاصل ہوتی ہے۔روایت سے انحراف عینی کا خاص وصف ہے۔انھوں نے اپنی راہ الگ بنائی جہاں وہ اپنے فکری و علمی تجربات کی بنیاد پر قاری کو حصار میں لیے رہتی ہیں۔ان کے اسلوب و بیان نے نہ صرف اردو ادب کو جدت عطا کی بلکہ فکشن کی سمت و رفتار بھی متعین کی۔ان کے فکشن میں موضوعات کا تنوع بدرجۂ اتم موجود ہے۔

          قرۃ العین حیدر کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں20؍ جنوری 1927 کو علی گڑھ میں ہوئی۔مصنفہ خود اپنے نام کے متعلق بتاتی ہیںہے کہ ’’ان کے دو ماموں حسنین اور الن نے اذان و اقامت ان کے کانوں میں پھونکی اور جب وہ چھ دن کی تھیں تو نام نیلوفر رکھا گیالیکن ان کے خالو میر فضل علی نے تاج طاہرہ کے اسم گرامی پر نام ’’قرۃالعین حیدر‘‘ رکھا۔‘‘یہ بہت زیادہ باتونی تھیں اور اسی مناسبت سے انھیں پیار سے ’’طوطا‘‘بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام سجاد حیدر یلدرم اور والدہ کانذر زہرہ بیگم تھا جو 1912 میں شادی کے بعدنذر سجاد حیدر کہلائیں۔دونوں پایہ کے اردو ادیب گزرے ہیں۔ان کا خاندان علم و ادب کا گہوارہ تھااس لیے لکھنے پڑھنے کا فن انھیں ورثہ میں ملاتھا۔ سجاد حیدر یلدرم کے یہاں چھ بچوں کی ولادت ہوئی۔ چار بچے بچپن میں ہی اس دنیاسے رخصت ہوئے۔ ایک بیٹا مصطفیٰ حیدر عرف چھبوا اور ایک بیٹی قرۃالعین حیدر عرف عینی کے نام سے معروف رہیں۔ان کے والد نے علی گڑھ کے ایم۔اے۔او کالج سے گریجویشن کیا۔ اس وقت یہ کالج الہٰ آبادیونیورسٹی سے ملحق تھا۔ جب اس کالج نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ1920 میں حاصل کیا توان کے والدکواس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ قرۃالعین حیدر کا بچپن پورٹ بلئیر میں گزرااور ابتدائی اور ثانوی تعلیم دہرادون، لاہوراور لکھنؤ میں ہوئی۔ دہرادون کے غیر سرکاری اسکول سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔میٹرک پاس کرنے کے بعدانٹرمیڈیٹ کاامتحان 1941 میں ازبیلا تھبرن کالج، لکھنؤ سے پاس کیا۔والد کے انتقال کے بعد بھائی کو دہلی میں ملازمت مل گئی اور سبھی لوگ دہلی آگئے۔بی۔ اے کاامتحان 1945 میں اندر پرستھ کالج، دہلی یونیورسٹی سے کرنے کے بعدلکھنؤ یونیورسٹی سے 1947 میں ایم۔اے انگریزی میں کیا۔جدید انگریزی ادب کاکورس 1952 میں کیمبرج یونیورسٹی سے کیا۔اس کے بعد آرٹ کی تعلیم گورنمنٹ اسکول آف آرٹ لکھنؤ سے حاصل کی۔صحافت کی تعلیم ریجنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنک لندن سے حاصل کی ۔ انھیں تصنیف وتخلیق کے ساتھ ساتھ مصوری کا بے حد شوق تھا مشہور ایل ایم سین سے انھوں نے جاپانی واش تکنیک بھی سیکھی۔لندن میں پنچ تنتر پر بنائی ان کی الیسٹریشن کی نمائش بھی ہوئی۔عینی کے مذہب و مسلک کے اعتبار سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مجیب احمد خاں رقمطراز ہیں کہ:

’’میرے والد سنی اور والدہ شیعہ تھیں مگر میری والدہ شیعہ حضرات کی مجالس میں کم ہی جاتی تھیں اور تبرہ کی سخت مخالف تھیں۔ البتہ میں سنی مسلک کی پیروی کرتی ہوں۔‘‘

(قرۃ العین حیدر(ذات و صفحات)، صفحہ: 11؍12)

          قرۃالعین کی پہلی کہانی 1939 میں ’بی چوہیاکی کہانی‘بچوں کے رسالے ’پھول‘لاہور سے شائع ہوئی۔ان کا پہلا افسانہ ’’ایک شام‘‘ فرضی نام ’لالہ رخ‘ کے نام سے’ادیب‘ نومبر 1942میں شائع ہوا۔پھر ان کا دوسرا افسانہ’’یہ باتیں‘‘ بنت سجادحیدر یلدرم کے نام سے رسالہ ’ہمایوں‘کے مئی 1943 میں شائع ہوا۔تیسرا افسانہ ’’ارادے‘‘ قرۃالعین حیدر کے نام سے جون 1944شائع ہواجس پر انھیں بیس روپے کا انعام بھی ملاتو ان کے چچا مشتاق احمدزاہدی نے کہا کہ اب تم افسانہ نگاربن چکی ہو۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے ‘‘ ہے جو 1947 میں خاتون کتاب گھر ، دہلی سے شائع ہوا۔انھوں نے انگریزی رسائل و اخبارات میں بھی متعدد مضامین لکھے ۔ان کا پہلامضمون جارج برناڈ شاپر پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا۔انھوں نے مختلف شخصیات پر خاکے بھی رقم کیے ہیں جن میں عزیز احمد، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، شاہد احمد دہلوی، صدیق احمد صدیق، چودھری محمد علی رودولوی، ابن انشا، مولانا مہر محمد خان ملیر کوئلوری،واجدہ تبسم وغیرہ کے نام نامی شامل ہیں۔

          قرۃ العین حیدر کی خوشحال زندگی کو 1947 تک آتے آتے زبردست دھکا لگا۔ ایک تو ان کے والدکا انتقال تھااور دوسرا تقسیم ملک کے بعد ہجرت کا سلسلہ۔ان دونوںالمیوں نے ان کے ذہن ، کردار اور قلم پر عمیق چھاپ چھوڑی۔ یہ بھی اس ہجرت کے قافلے میں شریک ہو کر دسمبر 1947 میں پاکستان چلی گئیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے فکشن میں ذہنی اور جذباتی طور پر تقسیم ہند کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔پاکستان میں قیام کے دوران وہ محکمہ اطلاعات ونشریات میں بحیثیت اسیسٹینٹ ڈائریکٹر کام کرتی رہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان انٹرنیشنل ایر لائن (PI A)میں1955 سے 1956تک انفارمیشن افسر رہیں اور کچھ وقت کے لیے ’’پاکستان کوارٹر‘‘ کی قائم مقام ایڈیٹر بھی رہیں۔لندن میں1960میں ایک ملاقات کے دوران جواہر لال نہرو نے انھیں ہندوستان واپس لوٹ آنے کو کہا۔1961 میں وہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان آگئیں اور بمبئی کی سکونت اختیار کر لی اور یہاں وہ بیس سال مقیم رہیں۔واپسی کی وجہ وہ دل و دماغ کی مشرق زدگی اور دقیانوسیت سے بیزاری بتاتی ہیںجہاں اس ماحول میں انھیں گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ہندوستان میں اپنا ادبی سفر کامیابی سے آگے بڑھایا۔بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل سے کئی سال وابستگی رہی۔ انگریزی صحافت سے بھی ان کا رشتہ رہا۔بمبئی میں وہ السٹریڈ ویکلی آف انڈیا کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہوگئیں اور آٹھ سال کام کیا۔اس دوران ادیبہ پر جو گزری وہ ان کی تحریروںاور کہانیوںمیں ظاہر ہوتی ہے۔

           قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں رومانوی نقطۂ نظر حاوی ہے جس میں اعلیٰ طبقے کی زندگی اور جاگیردارانہ ماحول کو خصوصیت کے ساتھ پیش کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان پر ’پوم پوم ڈارلنگ‘ کے جملے چسپاں کیے گئے۔  68۔ 1964 تک امپرنٹ بمبئی کی کریئر ایڈیٹر رہیں۔ 86۔ 1977تک ساہتیہ اکادمی جنرل کونسل کی اردو ایڈوائزری بورڈ کے رکن کے طور پر کام کیاجس سے دولت اور شہرت دونوں ملیںبعد ازیں جامیہ ملیہ اسلامیہ میں  1981-82پھرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 84 ۔1982میں ویزیٹنگ پروفیسر کے عہدے پر بھی کام کیا۔ اردو ادب میں ہیئتی تجربوںکی بابت انھیں ورجینا ولف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔انھوں نے دہلی میں مکمل سکونت اختیار کر لی۔اپنی زندگی کے آخری کچھ سال نوئیڈا میں گزارے۔مزاج کے اعتبار سے سخت تھیں لیکن جن سے دوستی ہو جاتی ان سے بہت فراخدلی اور شفقت سے پیش آتیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ادبی دنیا میں ’عینی آپا‘کے لقب سے مشہور ہوئیں۔80 سال کی عمر میں نوئیڈا کے کیلاش ہاسپٹل میں12؍ اگست 2007 کواپنے مالک حقیقی سے جاملیں ۔ ان کی تدفین بعد نماز عصر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے قبرستان میں عمل میں آئی ۔

          قرۃالعین حیدر کی شخصیت اور ان کے فن پر مختلف فنکاروں نے اپنی تخلیقیت کے جوہر دکھائے ہیں جن میںان سے انٹر ویوز کا مجموعہ ’نوائے سروش‘ (مرتب جمیل اختر)،’داستان عہد گل‘(مرتب آصف فرخی)،     ’قرۃ العین حیدر کے خطوط‘(مرتب خالد حسن)،’انداز بیاں‘(مرتب جمیل اختر)، ’گل صد رنگ‘( مرتب محمد حبیب خان) ،’آئینہ جہاں‘،’کلیات قرۃالعین حیدر‘(مرتب جمیل احمد)،’آئینہ حیات‘ کے عنوان سے ان کے چاروں ناولٹ کا مجموعہ(مرتب جمیل اختر)،’قرۃ العین حیدر کا فن‘(ڈاکٹر عبدالمغنی)،’قرۃ العین حیدر کے ناولوں میںتاریخی شعور‘ (خورشید انور)، ’قرۃ العین حیدر شخصیت اور فن‘( ڈاکٹر صاحب علی)اور قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ‘(مرتب پروفیسر ارتضیٰ کریم)وغیرہ کے علاوہ پروفیسر عبدالمغنی، امجد طفیل، اسلم آزاد اور عامر سہیل کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

قرۃالعین حیدر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں مختلف ادبی اعزازات سے نوازا گیا جو درج ذیل ہیں:

٭      تیسرے افسانوی مجموعے ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ پر صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکر حسین کے ہاتھوں1967 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔

٭      چند روسی ناولوں کے اردو تراجم پر محترمہ اندرا گاندھی وزیر اعظم ہندکے ہاتھوں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ 1968میں ملا اور روس کی سیرکرنے کا موقع

٭      مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے پرویز شاہدی کل ہند ایوارڈ1981 میں ملا۔

٭      مجموعی خدمت کے لیے اتر پردیش اردو اکیڈمی ایوارڈبرائے مجموعی ادبی خدمات 1982میں حاصل ہوا۔

٭      غالب ایوارڈ 1984 میں ملا۔

٭      پدم شری ایوارڈ1984 میں عطا کیا گیا۔

٭      اقبال سمان ایوارڈ(حکومت مدھیہ پردیش)1988 میں ملا۔

٭      گیان پیٹھ ایوارڈبدست چندر شیکھر،وزیراعظم ہند 1989 عطا کیا گیا۔

٭      بھائی ویر سنگھ انٹرنشنل ایوارڈ بدست ڈاکٹر شنکر دیال شرما، نائب صدر جمہوریہ ہند ،1991 میں ملا۔

٭      بھارت گورو،روٹری انٹرنیشنل ایوارڈ(غیر معمولی خدمات)1991 میں ملا۔

٭      فیلو آف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ1996 میں نوازا گیا۔

٭      کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ(اردو اکادمی دہلی)بدست علی محمد خسرو 2000میں دیا گیا۔

٭      پدم بھوشن ایوارڈسے 28؍ مارچ2005 کو سرفراز کیا گیا۔

          قرۃالعین حیدر کثیرالتصانیف شخصیت تھیں جنھوں نے کثرت سے لکھا، پڑھااور زندگی کے بیشتر اوقات مطالعے،مشاہدے اور تجربے میں گزارے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تاریخ کے نبض پر ہاتھ رکھ کر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ادب پر چھاگئیں۔ ان کی تقریباً سبھی تخلیقات میں تقسیم ہندکادرداور ہجرت کا کرب نمایاں ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن نے انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیاتبھی ان کے نوک قلم نے ایسے جوہر دکھائے کہ اپنے معاصرین میں سب سے پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے ادبائ ودانشوران اردو اپنی تحریروں میں انھیں بطور حوالہ کے پیش کرتے ہیں اور ان کی تحریروں کو قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کام میں سب سے زیادہ شہرت ناول نگاری کو ہی ملی۔اگرکلی طور سے ان کے ادبی سرمایہ پر نظر ڈالی جائے تو درج ذیل تصاویر ابھر کر سامنے آتیں ہیںجن سے ان کی عظمت اور شخصیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔میں نے ان کی ادبی خدمات کو ناول، ناولٹ، افسانوی مجموعے، تراجم وغیرہ کے زمروں میں منقسم کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔

          ناول نگاری

           قرۃ العین حیدر نے اپنے کل آٹھ ناولوں کے ذریعہ اردو فکشن میںاپنی عمیق چھاپ چھوڑی ہے جن پر مختصر روشنی ذیل میں ڈالی جا رہی ہے۔ انھوں نے اردو ناول نگاری کی سمت کو متعین کیا ۔ان کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زندگی کا جمود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ بہائو اور رفتار ہے جس کے آگے انسان کا کوئی چارہ نہیں۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شعور کی رو کی تکنیک نے انھیں دیگر فنکاروں میں انفرادیت عطا کی ہے۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تاریخ، تہذیب اور وقت کو مرکزیت حاصل ہے جن کے توسط سے مصنفہ کے تخیل و تصور کو تقویت ملتی ہے اور وہ آگے بڑھتی ہیں۔چوتھی خصوصیت ان کے ناولوں کی یہ ہے کہ ان میں ماضی کی بازیافت اور اعلیٰ طبقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہوتا ہے جو تمام خصوصیات پر بسیط ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ مغربی ادیب جیمس جوائس اور ورجینا وولف کو اپنے پیچھے چھوڑ آتی ہیں۔کیوں کہ یہ دونوں اپنی تحریروں میں مغربی حدود کو پار نہیں کر پاتیں اس کے برعکس عینی نے نہ صرف برصغیر کو اپنے فکشن میں سمیٹا ہے بلکہ یورپ کو بھی اپنی احاطہ تحریر میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

          (1)’’میرے بھی صنم خانے‘‘اپریل 1949 میںمکتبہ جدید ، لاہور سے منصئہ شہود پر آیا جس میں قرۃالعین حیدر نے تقسیم ہند کا منظرنامہ پیش کر ایک نظیر قائم کی ہے جو اوروں کے لیے باعث تقلید بنی۔اس میں جاگیر دارنہ طبقے کے زوال کا بیان ہے۔مصنفہ کا یہ پہلا ناول ہے جو لاہور، پاکستان کے مکتبہ جدید سے شائع ہوا۔جیسا کہ میں نے قبل میں ہی بتایا ہے کہ ان کا قوت مطالعہ وسیع ہے۔انھیں فکشن کی روایت اور شاعری کی قرأت کو سمجھنے کا سلیقہ تھا جس بنیادپر انھوں نے اقبال کی شاعری :

میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے

دونوں  کے صنم خاکی دونوں  کے صنم  فانی

          سے اثر لے کر یہ شعرمستعار لیا اور اس کا نام ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ رکھا۔یہ شعر اقبال کے دوسرے مجموعے ’بال جبریل‘(1935)میں شامل ہے۔ ناول کے متعلق خود مصنفہ کا قول ہے کہ ’’تقسیم ہند کے صدمے نے۱۹۴۷ئ کے آخر میںساڑھے انیس سال کی عمر میں مجھ سے ’میرے بھی صنم خانے ‘ لکھوایاجو میرا پہلا ناول ہے۔‘‘

          (2)’’سفینۂ غم دل‘‘دوسرا ناول ہے جو 1952 میںمکتبہ جدید، لاہور سے منظر عام پر آیا۔اس کاعنوان فیض احمد فیض کی نظم ’صبح آزادی‘سے مشتق ہے جو اگست 1947 میں لکھی تھی۔

          (3)’’آگ کا دریا‘‘دسمبر 1959میںمکتبہ جدید ، لاہور سے قرۃالعین حیدرکے پاکستان میں قیام کے دوران منظر عام پر آیا جس کا موضوع انسانی زندگی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے وقت کی رفتار کو بنایا گیا ہے اور دکھایا ہے کہ جس طرح دریاکسی کی پروا کیے بغیر اپنی روانی کے ساتھ بہتا ہواا ٓگے نکلتاہے اسی طرح وقت بھی اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جاتا ہے،وہ کسی کا انتظار نہیںکرتا۔اس ناول کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کے ڈھائی ہزار سال کو اپنے دامن میں سمیٹے ہو;ے ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے مطابق ’ آگ کا دریا30 فیصد شاعری ہے اور 70 فیصد نثر ہے‘۔

          یہ ناول642 صفحات اور 101ابواب پر مشتمل قرۃالعین حیدر کا شاہکار ناول ہے جس کا آغاز ٹی۔ ایس ایلیٹ کی نظم’’ The West land‘‘ کے چھوٹے سے ٹکڑے سے ہوتا ہے۔ابواب 13۔۱ تک شراوستی ، ابواب 17۔14تک پاٹلی پترا کی تاریخی حسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ابواب 25۔18 تک بہرائچ،جون پور اور بنارس،ابواب 56۔26 تک کلکتہ اور لکھنئو کا تہذیبی منظرنامہ بیان کرتے ہیں۔ ابواب 57اور 58 میں قدیم و جدید تاریخ کا حسین امتزاج ہے ۔ابواب 96۔59 یورپ سے متعلق ہیں ، ابواب 97 اور98عصر حاضر کے تغیرات سے تعلق رکھتا ہے ۔ ابواب 99 اور 100 میںہندوپاک کو محور میں رکھا گیا ہے اور آخر باب میں خالص جدید ہندوستان کا بیان موجود ہے۔اس میں کئی کردار ہیں لیکن چارکردار جن میںگوتم،  چمپک، کمال اور ہری شنکر خصوصیت کے حامل ہیں۔دیگر کرداروں میں نرملا،سرل ایشلے ،عامر رضا، تہمینہ، ریکھا،شانتا، روشن ، مسز سنیلا مکھرجی وغیرہ ہیں۔ مصنفہ نے وقت کو دریا سے تعبیر کیا ہے جس کااستعمال علامت کے طور پر کیا گیا ہے ۔اس میں ڈھائی ہزار سال قبل کی برصغیر کی تہذیب وتاریخ مضمر ہے جو آریہ تہذیب کے ادوار سے ہوتے ہوئے گوتم بدھ اور اشوک کے بھارت کے درشن کراتا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد،عربوں،ترکوں،پٹھانوں اور مغلوںکے ساتھ اس دھرتی پر آنے والی اسلامی تہذیب اور ہندو سنسکرتی کے اتصال سے جنم لینے والے مشترکہ تمدنی ماحول کی زندہ مثال ہے۔

          اگراس ناول کے کرداروں کے حوالے سے بات کریں توقدیم عہد کا ’گوتم‘ فلسفیانہ مزاج لیے ہوئے اپنے دور کا نمایاں طالب علم ہے جو اپنے ہاتھوں کی انگلیاںمگدھ کی لڑائی میں جو پہلے عہد کے دوسرے حصے میں ہوتی ہے گنواں دیتا ہے۔دوسرا نسوانی کردار ’چمپک‘ ہے جو بعد کے عہدمیں چمپا اور چمپابائی کا روپ دھارتی ہے، وہ گوتم سے سرجو ندی کے کنارے ملتی ہے، یہ ہندوستانی عورت کی تہذیب کی علمبردار ہے اور خواندہ طبقے کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے جس میں گوتم جیسے فلسفی مرد سے بحث و مباحث کرنے کی قوت بدرجۂ اتم موجود ہے۔یہ چندر گپت موریہ سے جنگ کے دوران گرفتار ہو کر پاٹلی پترا جاتی ہے۔

          دوسرے دور میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے اختلاط سے ہندوستانی تہذیب میں آئی تبدیلیوں کا ذکر ہے۔اس دور میں’ کمال‘نامی تیسرا کردار ہے جو بعد میں ابو المنصور کمال الدین کی صورت میں قارئین کے سامنے آتا ہے جو حسین شرقی کے کتب خانے کا نگراں ہے اور تہذیبی حوالے سے اہم رول ادا کرتا ہے۔اس کی ملاقات چمپا سے ہوتی ہے جو پہلے دور میں چمپک تھی۔

          تیسرے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کاقیام ،انگریزوںکے پیر جمانے اور مغلیہ سلطنت کے بکھرتے شیرازے کی داستان ہے۔اسی دور میں گوتم کا دوسرا روپ گوتم نیلمبر سامنے آتا ہے ۔اسی میں سرل، ایشلے کا بھی کردار ہے۔اسی دور میں چمپک کا تیسرا روپ طوائف کی صورت میں چمپا بائی کے نام سے لکھنئو میں روشناس ہوتا ہے اور اسی دور میں کمال الدین منصور کا دوسرا کردارنواب کمن کے نام سے سامنے آتا ہے جو بعد میں کمال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔

          چوتھے دور میں ہندوستان اور یورپ کے انتظامی امور اور حکمت عملی کی جھلک ملتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ جو نسل لکھنؤ میں تیسرے دور کے آخر میں متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہی تھی لندن، پیرس میں نظر آتی ہے اور پانچواں دورملک کی تقسیم اور ہندوپاک کی معاشرتی و تہذیبی بحران سے وابستہ ہے۔ مختصر یہ کہ اس ناول میں منظر نگاری کی عمدہ مثالیں موجودہیں جس میں قرۃ العین حیدر نے چندرگپت موریہ ، چانکیہ، شیر شاہ، شاہ حسین مشرقی، ہمایوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام، غدر کی ہنگامہ آرائی، برجیس قدر، راجہ رام موہن رائے کی تحریک، رابندر ناتھ ٹیگوراور شانتی نکیتن، تقسیم ہند کا المیہ اور قیام پاکستان، ہندو مسلم فرقہ واریت و فسادات نیز ڈھائی ہزار سال کے تبدیل شدہ حادثات و واقعات کی مکمل داستان ہے۔

          (4)’’آخر شب کے ہم سفر‘‘1979 میں لکھااور ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں وقت کی بالادستی اور انسان کے خوابوں کی شکست کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ریحان اور دیپالی اس کے مرکزی کردار ہیں۔اس کا عنوان فیض کی غزل سے مستعارلیا گیا ہے:

 آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئے

 رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی

          یہ ناول کمٹمنٹ اور پھر اس سے انحراف کی کہانی بیان کرتا ہے جس پر ترقی پسندوں نے اپنی ناراضگی کا اظہا ر بھی کیا ہے۔یہ ناول ۴۶ ابواب پر مشتمل ہے۔

          (5)’’کار جہاں دراز ہے‘‘مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے جس کا حصہ اول1977، حصہ دوم 1979 اور حصہ سوم’ شاہراہ ہریر ‘کے نام ہے جو 2002 میں شائع ہوا۔ اسے قرۃ العین حیدر کا خود نوشت، سوانحی ناول قرار دیا جاتاہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی سے جڑے کئی پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔اس کو Family sagaکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

          (6)’’گردش رنگ چمن‘‘1987میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی سے شائع ہواجس کا پس منظر صوفی سنت اور طوائفوں کا ڈیرہ ہے۔اس کا موضوع قدیم و جدید کے درمیان کشمکش ہے جس کے نتیجے میں مختلف افراد ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار عندلیب بیگ، ڈاکٹر منصور کا شغری، دلنواز بانو، مہرو اور نواب فاطمہ ہیں۔اس میں علامتی زبان کا استعمال زیادہ پایا جاتا ہے۔

          اس کا موضوع دراصل قدیم و جدید کے درمیان کشمکش ہے جس کے نتیجے میں مختلف افراد ذہنی کشمکش میں مبتلاہو جاتے ہیں۔ اس میں علامتی زبان کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔یہ ناول لکھنؤتہذیب کو آشکارا کرتا ہے جہاں سے مصنفہ کا ایک والہانہ تعلق تھا۔اس کے متعلق مصنفہ کا کہنا تھا کہ’’اگر اس ناول کا انگریزی ترجمہ کیا جائے تو’دی ڈیتھ آف اے سیٹیـ‘ہوگا۔

          (7)’’چاندنی بیگم‘‘ 1990 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے شائع ہوا۔اس میں مصنفہ نے اپنے دیگر ناولوں کے بر عکس شعری طرز اظہارسے دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔ بعض نقادوں نے اس ناول کو قرۃ العین حیدر کا آخری ناول قرار دیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ایک اور ناول ’شاہراہ حریر‘‘ ۲۰۰۲ میں مصنفہ کی حیات میں ہی منظر عام پر آ کر داد تحسین حاصل کر چکا ہے ۔یوں تو ان کے بیشتر ناولوں میں وقت کی کارفرمائی ہوتی ہے لیکن اس ناول کے مطالعے کے بعدقاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ قرۃالعین حیدرکو دیگر موضوعات پر بھی دسترس حاصل تھی۔لیکن بعض ناقدین نے اس کا موضوع زندگی ، زمانہ، زمین ،وقت اور موت کو بتایا ہے ۔اس ناول میں 1947 کے بعد مسلم خاندان کے جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح کی المناک صورت حال سے اشرافیہ طبقے کے لوگ دو چار ہوئے ۔ خاص طور پر پاکستان ہجرت کرنے کی وجہ سے معاشرتی توازن بگڑا۔ لڑکیوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ زمینداری کے خاتمے کی وجہ سے بہت سے المیوں نے جنم لیاجن میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا یا اچھے لڑکوں کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔اس ناول کو عمرانیاتی تناظر میںبھی پڑھا جا سکتا ہے۔کیوں کہ اس میں شیخ اظہر علی کی کوٹھی ، ریڈروز اور راجہ انوار حسین کی کوٹھی تین کٹوری ہاؤس یہ محض عمارتیں نہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی علامتیں بھی ہیں۔

          (8)’’شاہراہِ حریر‘‘قرۃ العین حیدر کا آخری ناول ہے جو 2002 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ، دہلی سے شائع ہوا۔

          ناولٹ:

          قرۃالعین حیدر نے جہاں سات ناول لکھے وہیں چھ ناولٹ کی بھی تخلیق کی ہیں جن میں:

          (1)سیتا ہرن۔1960میں  نیا دور ، کراچی سے شائع ہوا۔ اس کا موضوع عورتوں کا استحصال ہے۔    

          (2)چائے کے باغ۔1964 میں حلقئہ ادب، بمبئی سے شائع ہوا۔ یہ مشرقی پاکستان(بنگال)کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصال کے خلاف درد ناک تحریرہے ۔

          (3)ہاؤسنگ سوسائٹی۔1966 میں شائع ہوا۔مجموعہ پت جھڑ کی آواز میں شامل ہے۔ اس میں جاگیردارانہ نظام کے زوال کو مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

          (4)اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔1977 میں بیسویں صدی ، دہلی سے شائع ہوا۔

          اس میں عورت ذات کی زبوں حالی اور معاشرے کے ایک المیے کو اس اندازمیں بیان کیا کہ یہ بیان کا لا فانی حصہ بن گیاہے۔

          (5)دل ربا۔1976، اس میں تھیٹر اور مختلف زمانے میں تبدیل ہوتی تہذیب کو فوکس کیا گیا ہے۔

          (6)     فصل گل آئی یا جل آئی۔

          افسانوی مجموعے:

          (1)’’ستاروں سے آگے‘‘(پہلاافسانوی مجموعہ) 1947  

          (2)’’شیشے کے گھر‘‘ 1954میں مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا۔    (3)پت جھڑ کی آواز:۔ یہ مجموعہ مکتبہ جامعہ، دہلی سے 1965 میں شائع ہوا اور1966 میں اردو کاساہتیہ اکادمی ایوارڈملا۔اس میں کل آٹھ افسانے شامل ہیں ۔ 

          (4)روشنی کی رفتار:۔ یہ مجموعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے1982 میں شائع ہوا۔اس میں کل اٹھارہ افسانے شامل ہیں (5) جگنوئوں کی دنیا1990(6)کف گل فروش(7)داستان عہد گل(8)پکچر گیلری۔ یہ عینی کے اردو مضامین کا مجموعہ ہے۔

          (9)قندیل چین (نیا افسانوی مجموعہ، مرتب جمیل اختر) 2007

          رپورتاژ:

(1)     لندن لیٹر۔اسے عینی نے 1953 میں لکھا جو’شیشے کے گھر‘ میں 1954 میں شامل ہوا۔

(2)     ستمبر کا چاند۔ جون؍ 1958 میں نقوش ، لاہور سے شائع ہوا  (اس نام سے رپورتاژ کا پہلامجموعہ 2002 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے منظر عام پر آچکا ہے، اس میں چار رپورتاژ شامل ہیں)

(3)     چھٹے ا سیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔1966 میں اپریل؍جون کے شمارے نقوش ، لاہور سے شائع ہوا۔       

(4)     درچمن ہرورٖقئی دفتر حال دیگر است۔1968 نقوش میں شائع ہوا۔

 (5)      کوہ دماوند۔آج کل ، دہلی سے1978(اسی نام سے دوسرا مجموعہ بھی 2000 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہو چکا ہے جس میں چھرپورتاژ شامل ہیں۔)

(6)     قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہندآتی ہے۔1983میں ادب لطیف، لاہور سے شائع ہوا۔یہ رپورتاژ ایران کے انقلاب پر مبنی تھا جس کا عنوان مرزا سلامت علی دبیر کے مرثیے سے اخذ کیا گیا ہے۔عینی نے ایک مضمون ’ عالم آشوب‘ کے نام سے لکھاتھا جو مذکورہ مضمون کے ایک ذیلی عنوان کا نام ہے۔

(7)     گلگشت۔ مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔

(8)     جہان دیگر۔ یہ بھی مکتبہ اردو ادب ، لاہور سے شائع ہوا۔

(9)     خضر سوچتا ہے دولرکے کنارے

(10)  دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں۔ اس کا عنوان ملا وجہی کے ایک مصرع سے مشتق ہے۔یہ عینی کے سفر حیدرآباد کی یاد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے پروفیسر ابولکلام قاسمی کے اسرار پر رسالہ ’ انکار‘ کے پہلے شمارے کے لیے لکھا تھا۔

(11)  پدماندی کے کنارے

          تراجم:

(1)     ہمیں چراغ ہمیں پروانےPortrait of a lady on fire by Henry Games)  1958 مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور(

(2)     ڈنگو،ناول آرفریرمین،آسٹریلیا،مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

(3)     آلپس کے گیت ،ناولواسل بائی کوف،روس، 1969 مطبع: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

(4)     کلیسا میں قتلMurder in the Cathedral by T.S Eliot          

(5)     تلاشBreakfast Tiffany by Truman Capote

          بچوں کے لیے کہانیاں:انگریزی سے اردو ترجمہ

          (1)لومڑی کے بچے(2)    بہادر گھوڑے(3)میاں ڈھینچو کے بچے(4)شیر خان(5)بھیڑیے کے بچے(6)ہرن کے بچے (7)ڈینگو                        

          متفرقات:(تریتب شدہ کتابیں)

(1)     دامانِ باغباں (خطوط کا مجموعہ)2003میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی۔

(2)     کف گل فروش (حصہ اول)سیاہ سفید تصاویر کا البم ہے جو2004میں اردو اکادمی ، دہلی سے شائع ہوئی۔

(3)     کف گل فروش(حصہ دوم)رنگین تصاویر کا البم  ہے جو 2004میں اردو اکادمی، دہلی سے شائع ہوئی۔

(4)     استاد بڑے غلام علی خاں ہز لائف ۔ مالتی گیلانی کے ساتھ انگریزی میں ترتیب دی جو ہر آنند پبلی کیشنز، اینڈ میوزک ، دہلی سے 2003 میں شائع ہوا ۔

(5)     ہوائے چمن میں خیمئہ گل (کلیات نذر سجاد حیدر)ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے 2004 میں منظر عام پر آئی۔

          قرۃ العین حیدر کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ بھی بڑھتا گیا۔ ان کی ذہنی پختگی نے خواب و خیال کی دنیا کو آباد کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے حقیقت کی ترجمانی کرنے پر آمادہ کیا جس کا واضح اثر ان کی بعد کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی تحریروں کی یہ تبدیلیاں ان کے ذہنی شعور کی پختگی اور بالیدگی کا پتہ دیتی ہیں۔ان کی شخصیت بے نظیر تھی اسی لیے ان کے تعلقات کا دائرہ بھی وسیع تھا۔ وہ تمام موضوعات پر کھل کر بحث و مباحثہ میں حصہ لیتیں ساتھ ہی کچھ ناگوار گزرنے پر اپنے ساتھیوں کو بھی آڑے ہاتھ لینے سے گریز نہیں کرتیں۔انھوںنے تصوف کے رموزو اسرارکا گہرا مطالعہ کیااوراس کو خوب باریکی سے سمجھا بھی۔یہی سبب ہے کہ ان کی تحریروں میں صوفیائے کرام کی عظمت اور ان کا احترام جابجا نظر آتا ہے۔ انگریزی شاعری سے بھی ان کی دلچسپی تھی جہاں انھوں نے تجریدی اور علامتی نظموں پر زور آزمائی کی ہے۔انھوں نے اردوادب میں جدت و ندرت کے ساتھ حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر اوروں کے لیے مشعل راہ بنی۔جب انھوں نے قلم اٹھایا تب تاریخی حقیقت نگاری کی جانب کم لوگوں کا رجحان تھا۔ عینی نے نہ صرف اپنی تحریروں میں تاریخ کا بھرپور استعمال کیا بلکہ اس میں تخیلات و تصورات کے عناصر شامل کر کے انھیں اور بھی حسین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول و افسانوں میںتاریخی فضا، رومانی تخیل، نفسیاتی ماحول اور فلسفیانہ فکر کا حسین امتزاج نمایاں ہے۔قرۃالعین حیدر تاریخ وتہذیب کی کامیاب تخلیق کار تھیں جنھیں حسن اسلوبی کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر آتاتھا۔وہ عہد حاضر کی اس تہذیب کی پروردہ تھیں جس سے ہم محروم ہوتے

جا رہے ہیں۔

 

Dr. (Mr.) Md. Sharib

Vill. Mandeya, Masihani

P.O.& P.S- Chhattarpur

Dist. Palamu- 822113 (Jharkhand)

Mob. 9835938234




22/11/21

منٹو کے افسانوں میں تانیثی عناصر - مضمون نگار: ڈاکٹرہردے بھانو پرتاپ


 


اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو اردو ادب کا ایک بڑا افسانہ نگار ہے۔اس نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں اردو ادب کو جن مسائل سے روشناس کرایا اس کی عکاسی شاید صدیوں تک ممکن نہیں ہوپاتی اگر منٹو اس میدان میں اپنا قدم نہ رکھتا۔حالانکہ وہ اردو ادب کا سب سے بدنام افسانہ نگار بھی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن وہیں دوسری طرف وہ اپنے مخصوص اندازِ بیان کی وجہ سے بے مثال بھی ثابت ہوا ۔منٹو کی نظروں کے سامنے جو حالات تھے ،جن میں اس کی زندگی کی نشو و نما ہوئی، کہیں نہ کہیں وہ ایک انقلابی دور تھا، ہندوستان کی تحریک آزادی زوروں پر تھی اور اردو ادب کے نامور مصنفین اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہے تھے۔منٹو کا ذہن بھی اس فضا میں الجھ کر رہ گیا۔لہٰذا جب منٹو نے تخلیق کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ سارے واقعات اس کے ذہن میں ایک کولاج کی صورت میں موجود تھے۔اس لیے منٹو نے سماجی و سیاسی ، معاشی و معاشرتی مسائل کے درمیان سے ایک ایسے پہلو کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جو ہمارے سماج میں آئے دن آتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارا سماج اور ہمارے نظامی اقدار اسے اپنی ذمہ داری کے حصے سے پرے سمجھتے ہیں۔منٹو نے سماجی و سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں کا محور بنایا۔عورتوں کی زندگی اس کے افسانوں میں اس قدر رچ بس گئی کہ پھر اسے عورتوں کا افسانہ نگار سمجھا جانے لگا۔  ڈاکٹر اطہر پرویز اپنی کتاب ’منٹوکے نمائندہ افسانے‘ کے پیش لفظ میں لکھتے  ہیں کہ:

 ’’ منٹو کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ حقیقتاََ’ عورت‘ کا افسانہ نگار ہے۔عورتوں کے لیے منٹو کے دل میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ جیسا کہ عام خیال ہے منٹو عورت کے صرف جنسی پہلو کو دیکھتا ہے۔یہ منٹو کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے۔ منٹو کی عورتیں ہی منٹو کی ہمدردیاں حاصل کرتی ہیں۔وہ چاہے زینت ہو یا جانکی، موذیل ہویابرمی عورت، ممی ہو یا نیلم۔۔اس کے نزدیک عورت کا سب سے مقدس لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس کے اندر ما ں کی مامتا جاگتی ہے اور یہیں ہمیں منٹو کا اصل روپ نظر آتا ہے۔ شاردا نذیر سے بے تعلق رہتی ہے، اس سے چڑھتی ہے لیکن جس وقت نذیر اس کے اندر کی ماں کو چھوتا ہے تو عورت نذیر کو بھی پیار بھری نظر سے دیکھتی ہے۔جب اس بچے کو دیکھ کر نذیر کہتا ہے کہ اس بچے کی ماں تو میں ہوں تو وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتی ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ابھی اس عورت نے نذیر کو پیار کرنے کی وجہ سے زمین پر تین بار حقارت سے تھوکا تھا۔غصے میں غالباََ گالیاں دینے والی تھی کہ اس کے بچے کی رونے کی آواز آئی اور شاردا ماں بن گئی اور جب نذیر پوچھتا ہے کہ آپ کہاں جا رہی ہیں تو وہ ماں بن کر کہتی ہے ’منی رو رہی ہے، دودھ کے لیے‘ ……یہ نذیر نہیں بلکہ منٹو کہہ رہا ہے کہ ’یہ دودھ … ماں بننا اچھا ہے۔مردوں کی کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورت کھاتی بھی ہے اور کھلاتی بھی ہے۔اپنے بچے کو پالنا کتنی شاندار چیز ہے۔ یہ دودھ ،یہ سفید آبِ حیات ہے۔‘‘

(صفحہ نمبر23-24منٹو کے نمائندہ افسانے)

گرچہ منٹو کے افسانوں میں طوائفوں یا پھر سماجی وتہذیبی زندگی گزارنے والی گھریلوں عورتوں کی زندگی کی حقیقت کو پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود منٹو کاثابقہ کبھی Feminismسے نہیں ہوا اور یہ بات وارث علوی نے اپنی کتاب ’منٹو: ایک مطالعہ‘ میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:

 ’’منٹوکے یہاں مظلوم عورتوں کی بپتا کی کہانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر وہ Feministادیب کبھی نہیں رہا۔بے شک اس کے یہاں زندگی کا المیہ احساس ہے اور مرد کے ہاتھوں عورت کی زبونی کا بھی لیکن وہ عورت اور مرد کو زندگی کے پیکار میں خیر و شر کی آمازگاہ کے طور پر دیکھتا ہے۔‘‘

(صفحہ نمبر-81، منٹو ایک مطالعہ)

لیکن آج جب ہم تانیثی ادب کی بات کرتے ہیں تو ان کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔منٹو کو تانیثیت کے حوالے سے سمجھنے سے پہلے ہمیں تانیثی ادب پر تھوڑی سی روشنی دالنے کی ضرورت ہے۔در اصل تانیثی ادب بھی دلت ادب کی طرح روایت سے بغاوت کی ایک تحریک ہے۔ کیونکہ چند ایسے فرسودہ رسم و رواج ہمارے سماج میں موجود ہیں جن کی وجہ سے غیر برابری اور استحصال جیسے مسائل مسلسل ہمارے جمہوری نظام فکر کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔آج جب عورتیں تعلیم حاصل کر کے اونچے اونچے پائدان پر تخت نشین ہو رہی ہیں تو انھیں اپنی آزادی کا بھی احساس ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بھی۔آج وہ عورتوں کے وجود کو ایک ایسے چشمہ سے دیکھ رہی ہیںجہاں Patriarchyنظام فکر کے کسی سہارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔آج ان کی اپنی پہچان ہے۔لوگ اپنے افکار بدلنے پرمجبور ہو رہے ہیں۔لوگ ایک عورت کو اس کے والد یا بھائی یا شوہر یا بیٹے کے سبب نہیں بلکہ اس کے خود کے وجود اورذاتی پہچان کے سبب بھی جانتے اور پہچانتے ہیں۔تانیثی ادب کا مرکز و محور ایک عورت ہی ہے۔یہاں مرکزی کردار میں عورتیں نظر آتی ہیں۔منٹو تانیثی ادب کے اس اصول یا پیمانے سے واقف تھے یا نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں،لیکن اس کے باوجود وہ عورتوں کا افسانہ نگار ہے۔منٹو صرف ایک افسانہ نگار ہے کسی تحریک کا بنیاد گزار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ Feminismسے کوسوں دور ہے۔لیکن منٹوں کی کہانیاں قاری کے ذہن پر ایک سوالیہ نشان ضرور قائم کرتی ہیں۔افسانہ ’سرمہ‘ کی کردارفہمیدہ اگر Patriarchyنظام کی قید سے باہر ہوتی تو شاید وہ موت کو گلے نہ لگاتی۔دوسری طرف افسانہ’اولاد‘ کی زبیدہ اگر نسوانی حسّیت کی قید سے باہر ہوتی تو شاید وہ بھی اپنی زندگی کو اس طرح نہ مٹاتی۔

منٹو کے دونوں افسانوں’ سرمہ‘ اور’ اولاد‘ دونوں میں عورت کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ان دونوں افسانوں میں عورت اور ان کی عمر اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اہمیت کے حامل ہیں۔’فہمیدہ کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر انیس برس سے زیادہ نہ تھی۔‘انہی الفاظ کے ساتھ افسانہ ’سرمہ‘ کا آغاز ہوتا ہے۔در اصل یہ وہ عمر ہے جو قانوناََ لڑکیوں کو بالغ قرار دیتی ہے اور ہمارا سماج بھی اسے شادی کے لیے بہتر موقع سمجھتا ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی لڑکی زیادہ عمر کی ہوگی تو اس کے خیالات بھی زیادہ پختہ ہوں گے۔ پھر اس پہ حکم چلانا آسان کام نہ ہوگا ۔اس لیے منٹو نے بھی اپنے اس افسانے میں محض انیس برس کی فہمیدہ کو ہی اپنے افسانے کا کردار بنایا ہے۔فہمیدہ جو بچپن سے ہی سرمہ کی بہت شوقین ہے اور جب اس کی شادی ہوتی ہے تو اپنی ماں سے باقاعدہ کہہ کر خاندانی چاندی کا سرمہ دان لے جاتی ہے۔شوہر سے پہلی ملاقات کی خوشی میں جب وہ تیار ہوتی ہے تو بڑے ہی شوق کے ساتھ سرمہ بھی آنکھوں میں لگاتی ہے۔ لیکن پہلی ہی ملاقات میں شوہر کو فہمیدہ کی سرمہ دار آنکھیں پسند نہیں آتی ہیں اور بے ساختہ فہمیدہ سے پوچھتا ہے

’’تم اتنا سرمہ کیوں لگاتی ہو؟

فہمیدہ جھینپ گئی اور جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔

اس کے خاوند کو یہ ادا پسند آئی اور وہ اس سے لپٹ گیا لیکن فہمیدہ کی سرمہ بھری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کالے کالے آنسو بہنے لگے۔‘‘

شوہر کے بارہا کوشش کے باوجود فہمیدہ نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایک گلاس پانی مانگ کر اچھی طرح سے آنکھوں کو دھویا اور یہ بھی کہا کہ آج کے بعد کبھی سرمہ نہیں لگاؤں گی۔جبکہ اس کے شوہر نے بارہا اسے سمجھایا کہ اسے فہمیدہ کا سرمہ لگانا برا نہیں لگتا وہ تو بس اتنا کہنا چاہ رہا تھا کہ کوئی بھی چیز ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے سے اس کی اصل خوبصورتی جاتی رہتی ہے۔میاں کا ایک سوال فہمیدہ کے سامنے لاتعداد سوالات کھڑاکر دیتا ہے۔کیوں کہ اسے اپنے سماج کے نظام کے مطابق پتا تھا کہ اسے تو شوہر کا ہر حکم بجا لانا ہے۔ فہمیدہ کو اچھی طرح پتا ہے کہ وہ صرف فہمیدہ نہیں ہے وہ کسی کی بیوی بھی ہے۔فہمیدہ نے سرمہ نہ لگانے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن وہ سرمے دانی اور سرمچو کو دیکھتی اور افسوس جتاتی کہ کیوں یہ دونوں اس کی زندگی سے جدا ہو گئے۔پھر اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہونے لگے

’’صرف اس لیے کہ اس کی شادی ہو گئی؟

صرف اس لیے کہ وہ کسی کی ملکیت ہو گئی ہے؟

یا ہو سکتا ہے کہ اس کی قوت ارادی سلب ہو گئی ہو۔‘‘

طرح طرح کے سوالات ذہن میں آتے لیکن فہمیدہ اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرتی لیکن سرمہ سے اس کا رشتہ کسی قدر کمزور نہیں پڑا۔ وقت گزرا، فہمیدہ کے گھر میں چاند جیسا بچّہ آیا اور چالیس دن پورے ہوتے ہی فہمیدہ نے اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا اور راحت کی سانس لی۔ مانو اس کی صدیوں سے نامکمل خواہش پوری ہو گئی ہو۔ اس کا شوہر یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن اس نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔فہمیدہ خوش رہنے لگی مانو اس کی سرمہ لگانے کی تمنّا اس کے بچے کی آنکھوں کے سہارے پوری ہو رہی تھی۔آخر بچے کی برسی کا دن آیا اور فہمیدہ  بڑے شوق کے ساتھ بچّے کا جنم دن منانے کی تیاریوں میں لگ گئی ۔ دو دن پہلے ہی بچے کو ڈبل نمونیا ہو گیا جس کے سبب بچّہ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔فہمیدہ کی خواہش اب مٹتی ہوئی معلوم ہونے لگی اور وہ پاگل سی ہو گئی ۔یہ پاگل پن اس کے بچّے کے مرنے سے کہیں زیادہ اس کی خواہش کے ادھورے پن کی وجہ سے تھا۔فہمیدہ نے اپنے شوہر سے سرمہ کی خواہش ظاہر کی۔ سرمہ بازار سے لایا گیا،لیکن فہمیدہ کو شوہر کا لایا ہوا سرمہ پسند نہیں آیا نتیجاََ وہ خود بازار جاکر سرمہ لے آئی۔ رات میں اس نے سرمے کو اپنی آنکھوں میں لگایا اور سو گئی ۔صبح میں اس کا شوہرجب اسے جگانے گیا تودیکھا کہ فہمیدہ مر چکی تھی اور وہ بالکل ایسے سوئی تھی جیسے وہ اپنے بیٹے عاصم کے ساتھ سوتی تھی۔اس کے پاس میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا تھا۔

فہمیدہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوال صرف فہمیدہ کے نہیں ہیں وہ ہر اس عورت کے سوال ہیں جو اپنے شوہر کی پسند نا پسند کا خیال رکھنے کے سبب اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ وہ نہ توخود کی زندگی جی پاتی ہے اور نہ ہی شوہر کے مطابق…۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب Feminism اردو ادب سے دور تھاتب بھی منٹوںنے اپنے کرداروں کے ذریعہ سماج کی برائیوں کی طرف اشارہ کیا۔ منٹوں نے جن افسانوں میں جنسی پہلو کو مرکز بنایا ہے ان میں بھی عورت کسی قدر گنہگار نظر نہیں آتی بلکہ قاری کو منٹو کے کرداروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ ’سرمہ ‘ منٹو کے آخری دور کا افسانہ ہے۔یہاں منٹو کا فن اور بھی پختہ نظر آتا ہے۔اس دور میں منٹو عورت کے اندر چھپے ذاتی احساسات کو محسوس کرتا ہے، اس کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے جو یہاں ہم ’سرمہ‘ میں فہمیدہ کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

اولاد ‘ بھی منٹو کے آخری دور کا بہت کامیاب افسانہ ہے۔اس افسانے میں ’زبیدہ ‘سماج کی ایک ایسی متوقع نتیجہ کا شکار ہو جاتی ہے جس پر اس کا کوئی زور نہیں تھا۔ہمارےPatriarchy سماج میں ایک عورت کی پہچان اس کے باپ ، بھائی، شوہر یا اولاد سے ہوتی ہے۔اس کے اپنے وجود کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔زبیدہ کی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی۔دو سال گزرنے کے بعد بھی جب اس کے گھر میں بچوں کی کلکاریاں نہیں گونجی تو اس کی اپنی ماں سے لے کر دنیا والے تک سوال کرنے لگے۔ زبیدہ کی ماں کو اس بات کی فکر تھی کہ کاش کوئی بچہ ہوتا تو اپنی ساری رقم اور زیورات اس کو سونپ دیتی۔ظاہری طور پر زبیدہ کے چہرے پر اپنی ماں کے ارادے کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن ذہنی طور پر اسے الجھن محسوس ہوئی اور اس کے دماغ میں بچہ نہ ہونے کا خیال زور پکڑنے لگا۔وہ اپنے طور پر پوری کوشش کرنے لگی۔لاکھ دعا اور دوا، پیر وں فقیروں کے نسخے آزمائے گئے، لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر کار تنگ آکر زبیدہ نے اپنی ماں سے کہا کہ

’’چھوڑو اس قصے کو…بچہ نہیں ہوتا تو نہ ہو

اس کی بوڑھی ماں نے منہ بسور کر کہا،’بیٹا …یہ بہت بڑا قصہ ہے…تمہاری عقل کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے…تم اتنا بھی نہیں سمجھتی کہ اولاد کا ہونا کتنا ضروری ہے…اسی سے تو انسان کی زندگی کا باغ ہرا بھرا رہتا ہے۔‘‘

زبیدہ کو حقیقت پتا ہے کہ اس نے تو کسی قدر کوشش میں کمی نہیں کی، سب کچھ تو کر کے دیکھ لیا۔ اس لیے وہ اپنی ماںکو بہت ہی آہستہ سے جواب دیتی ہے اور کہتی ہے’’میں کیا کرو…بچہ نہیں پیدا ہوتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے‘‘۔

سماج میں اوالاد کی اہمیت کو سمجھ کر زبیدہ ہر پل اولاد کے بارے میں خواب دیکھنے لگی ۔آخرکار اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا۔ اسے چاروں طرف بچے دکھائی دینے لگے۔ شوہر سے اپنے خیالی بچوں کے لیے کپڑے اور جوتے منگاتی اور وقت بے وقت بچوں کے رونے کی آواز سن کر بے چین ہو اٹھتی۔اپنی بوڑھی ماں سے ، شوہر سے بچوں کی شرارت کے بارے میں بات کرتی ۔اس کا شوہر بیوی کی یہ حالت دیکھ کر دوکان پر جانا بند کر دیتا ہے اسے بہت پیار ومحبت سے رکھنے کی کشش کرتا ہے، اس کا علاج کرواتا ہے، لیکن زبیدہ پر کسی بھی دوا ،دعا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اسی بیچ اس کے شوہر کی ملاقات ایک دوست سے ہوتی ہے جو اپنے معشوقہ کے حمل ٹھہر جانے سے پریشان تھا  کیوں کہ وہ ابھی کو ئی بچہ نہیں چاہتا تھا۔ زبیدہ کے شوہر نے اس موقع کو مناسب سمجھ کر دوست کے بچے کو اپنا بنانے کی ترکیب نکال ہی لی اور اپنی بیوی کے حاملہ ہونے کی جھوٹی خبر سنا دی۔دوست کے یہاں جب بچہ پیدا ہوا تو زبیدہ کے شوہر نے اسے چپکے سے زبیدہ کے پاس سلا دیا اور زبیدہ کو جگاتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے ایک بچے کو جنم دیا ہے ۔جبکہ زبیدہ کو یقین تھا کہ اس کے چار بچے پہلے سے ہی ہیں ۔زبیدہ اسے اپنا بچہ سمجھ کر بہت پیار سے پالتی ہے۔لیکن ایک صبح کو اس کا شوہر دیکھتا ہے کہ زبیدہ کاجسم لہولہان ہے ،خون بستر پر پھیلا ہوا ہے اور زبیدہ استرے سے اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔اس نے دوڑ کر اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا اور پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟

’’زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا’ساری رات بلکتا رہا ہے… لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا…لعنت ہے ایسی……‘۔

زبیدہ نے اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلی بچے کے منہ میں لگادی، اور خود ہمیشہ کی نیند سو گئی۔‘‘

ہمارے سماج میں نہ جانے کتنی زبیدہ ایسے ہی اپنی زندگیاں قربان کر دیتی ہوں گی، کیوں کہ ان کی اپنی زندگی کا اس دنیا میں کوئی مول نہیں ، کوئی مطلب نہیں۔زبیدہ کی خاموشی کے سبب اس کے اندر پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت اسے ذہنی طور پر غیر متوازن بنا دیتی ہے۔شاید اسے پتا تھا اس حالت میں ،جب اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے تو اس کا جینا کس کام کا۔ اولاد کی فکر نے زبیدہ سے اس کی زندگی چھین لی۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زبیدہ کے ذہن میں اس طرح کی فکر پیدا ہی کیوں ہوئی ۔ اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے      ذمہ داراور وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی اعلیٰ مخلوقات کو بھی اپنا ایک خاص تمغہ دے دیا ہے۔

فہمیدہ نے تو واضح طور پر خود سے سوال کیا آخر کیوں اس کی اپنی تمنائیں اپنی نہیں رہ گئیں ، صرف اس لیے کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔ زبیدہ کو اولاد کس لیے ضروری تھی اپنے لیے یا پھر اس سماج کے لیے، جہاں ایک عورت کو تبھی ایک عورت سمجھا جا سکتا ہے جب اس کے بطن سے کم از کم ایک اولاد ہو۔کیا اس سماج میں فہمیدہ جیسی عورتیں تبھی زندہ رہ سکتی ہیں یا تبھی اچھی اور سلیقے مند بیوی کہی جا سکتی ہیں جب وہ اپنی ذاتی خواہشات کو مسمار کر کے اپنے شوہر کے حکم کو بجا لائیں گی۔یہاں منٹو نے محض ایک کہانی لکھی ہے ۔اس نے کسی سے کسی طرح کا کوئی سوال نہیں کیا ہے ۔لیکن منٹوں کی یہ کہانیاں تانیثی ادب کی طرح اپنے قارئین کے ذہن پر ایک سوال قائم کرتی ہیں۔ عورتوں کا پیکر ، ان کی زندگی، ان کی خواہشات ، ان کی پہچان، ان کا مرتبہ اس Patriarchyنظام کے جبراََ تھوپے ہوئے اصولوں کا محتاج کب تک بنا رہے گا ۔ کب تک فہمیدہ اور زبیدہ جیسی عورتیں دوسروں کی خواہشات پورا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں فنا کرتی رہیں گی۔گرچہ منٹو Feminist یا Feminismکے پروردہ نہیں تھے لیکن ان کے آخری دور کے افسانوں میں ان کے خیال کی پختگی اردو ادب میں تانیثی ادب کی آمد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

Dr. Hriday Bhanu Pratap

Assistant Professor

Department of Urdu

Zakir Husain Delhi College

University of Delhi

Mob. No. 7701845217

Email- bhanujnu@zh.du.ac.in