28/12/23

گلزار دہلوی کا شعری انفراد:سجاد احمد نجار

 

پنڈت آنند کمار زتشی جو اردو دنیا، خاص کر اردو شعر و ادب، میں گلزار دہلوی کے قلمی نام سے معروف تھے 12 جون بہ روز جمعہ 94 سال کی طویل عمر پا کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔گلزار دہلوی کشمیری برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ولادت دہلی میں 1926 میں ہوئی۔ گلزار دہلوی کے والد پنڈت تر بھون ناتھ ’ زتشی زاردہلوی‘ کے بارے میں یہ بات کتابوں میں درج ہے کہ وہ داغ  دہلوی کے پہلے شاگرد رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ اور ماموں بھی شعرو شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔جن کا خاندان شعر و شاعری کے رنگ میں ابتدا ہی سے رنگا ہوا ہو ایسے میں اس خاندان کی نئی نسل کیسے اپنے آپ کو شعر و شاعری سے دور رکھ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلزار دہلوی کی زندگی اردو شعرو ادب کے لیے وقف ہوئی تھی اور اس کا ثبوت انھوں نے تا دمِ مرگ دیا۔ گلزار دہلوی کی زندگی کی کہانی میں طرح طرح کے رنگ سمائے ہوئے ہیں۔بچپن ہی سے محبِ وطن ثابت ہوئے اور وطن کے لیے نظمیں کہنے لگے۔

گلزار دہلوی نے شعر گوئی کا سفر 1933 کے آس پاس سے شروع کیا۔ شاعری میں انھیں پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، نواب سراج الدین خان اور پنڈت امرناتھ مدن ساحر وغیرہ کی شاگردی کا شرف نصیب ہوا۔ انھوں نے اردو شاعری کو اس انداز سے برتا کہ ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ بن گئی۔ گلزار کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر کا ایک خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً اردو شعر و ادب کے ایسے آخری بزرگ تھے جن کے یہاں تہذیبی تجربوں کے عمدہ نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مشترکہ تہذیب کے حسن و جمال اور خوبیوںکے اظہار کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ان کے یہاں امن و شانتی، بھائی چارہ اور مساوات کا عمدہ میلان پایا جاتا ہے۔ وہ ہر ایک مذہب کی ناموس کا خاص خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب وہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں تو تمام مذاہب کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں       ؎

خوابِ غفلت سے جوانوں کو جگانے کے لیے

جنگ  کے  فتنہ کو  دنیا سے مٹانے کے لیے

حامیانِ  امن  کی  اس بزمِ رنگا رنگ سے

ہر  عدوئے  امن کو  آیا ہوں میں للکارنے

مذکورہ اشعار گلزار دہلوی کی ایک طویل نظم ’ نغمۂ انسانیت‘ میں شامل ہیں۔ اس نظم میں وہ خدا، پیغمبر، اوتار، عیسیٰؑ، موسیٰ، قرآن، محمد صلعم، وید گیتا، رام، رحمان کے بعد باقی عظیم ہستیوں جیسے سوامی ویر، گرو نانک،گاندھی وغیرہ کی قسمیں دے کر اتحاد و اتفاق کی بات کچھ اس طرح سے کرتے ہیں           ؎ 

دہر کو پھر جنگ کے شعلوں پہ گرنے سے بچاؤ

اب  سفینہ آدمیت  کا کنارے سے  لگاؤ

متفق  ہو جا ؤ  دنیا  کو جگانے  کے لیے

دہر میں امن و اماں کے گیت گانے کے لیے

جب کبھی  یہ  نغمہ انسانیت کا گاتا ہوں میں

ہر  عدوئے  امن کو گلزار   شرماتا ہوں میں

ان کے یہاں ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی نقوش کی جو تصویریں ملتی ہیں ان کی مثال لا مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی کی ٹھیٹھ اردو ان پر آکے رکتی ہے۔ ان کے منفرد انداز اور فصاحت کے یہ نمونے دیکھیے     ؎

       تہذیب  اور تمدن  ایمان اور عقیدت

      قائم رہے گا سب کا امن و اماں رہے گا

      یہ وہ گلزار ہستی ہے یہاں دریا تو ملتے ہیں

       دلوں کی  موج کا لیکن کہیں سنگم نہیں  ملتا

    ایک  ہی نغمہ اذاں کا زمزمہ ناقوس کا

    سرد مہری کی فضا میں گرمیاں  پیدا کریں

گنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے گفتار و کردار کے ساتھ ساتھ اپنے کلام کے ذریعے بھی قومی اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب کی بقا اور اس کے فروغ کی نمائندگی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں ایسی بھی نظمیں ہیں جن میں عید، ہولی، دیپاولی، شب قدر، رمضان المبارک اور ہندوستانی موسموں کو اپنے خوب صورت اور دلکش اسلوب میں پیش کر کے اپنی انفرادی شان کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا ہے۔ گلزار دہلوی کی شاعری میں حیدر آباد، لکھنؤ، علی گڑھ اور کشمیر وغیرہ جیسی جگہوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان جگہوں کی تعریف میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے        ؎

چشمِ نرگس کی طرح وہ عشق کا بیمار ہے

ہاں علی گڑھ دہر میں تہذیب کا گلزارہے

دہر میں دائم رہیں اللہ اس کے رنگ و بو

لکھنؤ والو مبارک تم کوجشنِ لکھنؤ

چپہ  چپہ  گلشنِ کشمیر  کا  رنگین  ہے

کان قدرت کا یہ لعل بے بہا رنگین ہے

گلزار دہلوی نے غزل، نظم، نعت،منقبت، رباعی اور قطعہ وغیرہ میں طبع آزمائی کر کے اپنے کمالات کا خوب مظاہرہ کیاہے۔ ان تمام شعری اصناف میں انھوں نے ایسے تجربے پیش کیے ہیں جو ان کی انفرادیت قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔ گلزار ایک خاص لب و لہجے اور اندازِ فکر کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جمالیات، فطرتِ کائنات، حب الوطنی، قومی یکجہتی،مذہبی مساوات، سیکولرازم، عشق و عاشقی، عصری حسیت،وغیرہ جیسے مضامین کا انوکھا اظہار ملتا ہے۔

گلزار دہلوی نے اردو غزل اور نظم میں جہاں ایک طرف اپنے احساسات و جذبات کا بے ساختہ اظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب انھوں نے حمد،نعت، منقبت و مناجات کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خوبیوں کو بھی پیش کر کے ہندستانی تہذیب کو پیش کیا ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں قطعات و رباعیات بھی شامل ہیں اور ان کے موضوعات بھی وہی ہیں جو ان کی باقی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کی رباعیات اور ان کے قطعات میں مذہبی، اصلاحی،جمالیاتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ملی، اور اس طرح کے دوسرے جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ موصوف اردو کی شان اور اس کی عظمت کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں         ؎

ادیان کے سنگم کا نشاںہے اردو

یکجہتی عالم کی  زباں  ہے  اردو

شائستہ تہذیب  جو مرکز  تھا کبھی

اس دلی مرحوم کی جاں  ہے اردو

گلزار دہلوی کو امیر خسرو کی ذات و صفات اور ان کی شعری کائنات کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا۔ وہ امر خسرو کے کلام کو حدیثِ خسرو کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور اس کی وضاحت تفسیرِ گلزار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے علاوہ گلزار دہلوی کو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ بھی گہری عقیدت تھی۔ اسی عقیدت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی کا استعمال کیا کرتے تھے۔گلزا ر دہلوی کے مراسم اردو کے بلند پایہ شعرا اور ادبا کے ساتھ ہے۔ ان فن کاروں میں قاضی عبدالغفار، خواجہ حسن نظامی، چکبست، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، پروفیسر نثار احمدفاروقی اورڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ شامل ہیں ان تمام ادبی شخصیات نے گلزار دہلوی کی شعری عظمتوں کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور بھی گلزار دہلوی کی انفرادیت کے قائل ہیں۔ وہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ میں تو آپ کی ادب دوستی، ذہانت، شاعری اور فن تقریر کا 1946 جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلورجوبلی  کے دور ہی سے قائل ہوں۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعرہی نہیںبلکہ اردو کے محسن ہیں۔ آپ اردوکے ممتاز اہلِ زبان کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ فن آپ کا خاندانی ہے۔علامہ زار زتشی دہلوی یادگار داغ اور  نواب سائل نے آپ کی تربیت کی ہے۔ گلزار دہلوی بجا طور پر ان کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں۔‘‘

(گلزارِ غزل، گلزار دہلوی، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،3)

گلزار دہلوی صحیح معنوں میں اردو شعرو ادب کے ایسے سالار تھے جنھوں نے تا دمِ مرگ اس زبان کے ادب کا ساتھ دیوانہ وار نبھایا۔  گلزار  دہلوی کی انتھک کوششوں کے صلے میں دلی سے کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ حکومتِ ہند نے سائنس کو عام فہم اور آسان بنانے کے ضمن میں ان کی ادارت میں ’’ سائنس کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ شائع کیا۔ یہ رسالہ بر صغیر ہندو پاک کا واحد ایسا رسالہ تھا کہ جو کسی اردو شاعر کی نگرانی میں نکلتا تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گلزار ایک منجھے ہوئے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب، صحافی اور سائنس کے پاس دار بھی تھے۔

وہ اردو کے ایک سچے عاشق تھے۔ انھیں اس زبان سے بے پناہ محبت تھی اس کا اظہار ان کی اس رباعی سے خوب ہوتا ہے        ؎

دنیا  میں تو اونچا ہے کلامِ  اردو

عقبیٰ میں بھی اونچا ہے نامِ اردو

جب  حشر میں ہو نام شماری آقا

منظور کہ کہلاؤں   غلامِ  اردو

 میر مشتاق نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گلزار کو ’علامہ اور بابائے سائنسی صحافت‘ کا مقام حاصل ہے۔ وہ انھیں دلی کی اور اردو کی آبرو بھی سمجھتے ہیں۔تابش دہلوی انھیں ’نادر الوجودِ چمنستان‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا عتیق الرحمان عثمانی انھیں ’ اردو اور اردو والوں کی امانت‘ قرار دیتے ہیں۔مولانا احمد سعید اسیر دہلوی ان کو ’اردو کے شیدائی اور ادب کے فدائی‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔مولانا حفیظ الرحمٰن نے انھیں ’ اردو کا مرد، مجاہد‘ کہا ہے۔ خواجہ نظامی ان کو ’ چکبستِ ثانی‘ سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح کئی ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے گلزار دہلوی کی اردو ادبی خدمات کے اعتراف میں لب کشائی کر کے انھیں خراج پیش کیا ہے۔آفتاب عالم نائب ایڈیٹر روزنامہ ہندی’’نر بھے پتھک‘‘ گلزار کی شان میں کہتے ہیں:

 ’’ ...اے مجاہد اردو تیری کیا تعریف کروں، سچ مچ ہم نے سپنے میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کشمیری پنڈت بے لوث بے غرض طور سے اردو زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے اتنا کام کر سکتا ہے جتنا کہ پنڈت آنندموہن زتشی گلزار نظامی دہلوی نے اپنی ذات سے اکیلے ہی کیا...گلزاردہلوی اردو کے درخت ہیں جو سوکھ تو سکتے ہیں لیکن کبھی مرجھا نہیں سکتے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ میں اردو کی ایک انجمن ہیں تو کوئی غلط نہیں ہوگا۔‘‘

(گلزار دہلوی، گلزار غزل، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،39,40)

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو گلزار دہلوی ہر لحاظ سے منفرد رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کی کوششیں نہ صرف ملک و قوم کے لیے فیض رساں ہیں بلکہ وہ آنے والی نسل کے لیے راہِ عمل بھی ہیں۔گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک عجیب تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ اسی زبان کے گیت گاتے رہے اور ہمیشہ اس کے فروغ کے لیے منہمک رہے۔

آپ اردو سے اس قدر دیوانہ وار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس کے لیے ہر پل بے تاب نظر آتے ہیں۔ اردو کی شان میں جتنے اشعار گلزار دہلوی نے کہے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے اشعار پیش کیے ہوں۔ آپ انسانیت کے محب، قوم کے سپاہی، تہذیب و تمدن کے وارث، مذہبی رواداری کے عاشق اور اردو شعر و ادب کے شیدائی کے طور پر ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں مشہور ہیں۔ گلزار نے اردو شعرو ادب میں ایسی چھاپ چھوڑی ہے جس کو ہمیشہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے؟      ؎

میں وہ ہندو ہوں کہ نازاں ہیں مسلمان  جس پر

دل میںکعبہ  ہے مرے دل ہے صنم خانوں میں

جوش   کا  قول  ہے  اور  اپنا عقیدہ  گلزار

ہم  سا  کافر  نہ  اٹھا  کوئی  مسلمانوں  میں

 

Sajad Ahmad Najar

R/O Azad Colony Washbugh

Pulwama- 192301 (J&K)

Mob.: 9858667464

27/12/23

فروغِ نقاش کا شاہکار: مہابھارت:محمد اسرار

 

مہابھارت ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ایک طویل جنگ ہے۔اس تاریخی واقعہ پر اردو ادب میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ نظم میں بھی اور نثر میں بھی۔ اس جنگ کے مختلف کرداروں کو اردو کے شاعروں نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ مثلاً کرشن، یدھشٹر، کرن،  دروپدی وغیرہ۔ یہ لڑائی بھی حق و باطل کا معر کہ قرار پائی۔آخر فتح سچائی کی ہوئی اور جھوٹ ہار گیا۔ اسی کہانی کو مکمل طور پر اردو شاعری میں ڈھالنے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے فروغ نقاش نے۔ عبدالحفیظ فروغ نقاش شہر ناگپور کے ایک کلاسیک شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں بھی ان کا رجحان اس جانب نہیں گیا۔ وہ مکمل طور سے کلاسیک ہی رہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی شاعری میں بھی حسن و عشق کے علاوہ بہت کچھ ہے لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو وہ ایک رومانی شاعر معلوم ہرتے ہیں۔

فروغ 1922میں ناگپور میں پیدا ہوئے۔1 وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ناگپور میں جو مسلم خاندان مومن پورہ میں آباد ہیں۔ ان میں سے اکثر کا پیشہ پارچہ بافی رہا ہے۔ فروغ کے خاندان کا بھی یہی پیشہ تھا۔ ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد نوجوانی کے ابتدائی زمانے میں ہی انھیں شاعری سے شغف ہوگیا۔ وہ مصوری بھی کرتے تھے۔ شاعری اور مصوری کے درمیا ن یوں بھی ایک رشتہ ہے۔ اکثر شاعروں کے کلام پر مصوروں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ غالب ان میں سے ایک ہیں۔ فروغ نے شروع ہی سے رومانی لہجہ اختیار کیا اور آخر تک اس پر قائم رہے۔  اس بات سے فروغ کو ملک کی تاریخ رقم کرنے کا خیال دل میں آیا اور انھوں نے طویل نظم لکھنے کا ارادہ کرلیا۔ اس نظم کا عنوان ’شاہنامۂ ہند‘ طے پایا۔ اس میں ہزاروں سال کی تاریخ کو نظم کیا گیا ہے۔ منظوم مہابھارت بھی اسی نظم کا ایک حصہ ہے۔

ناگپور میں ایک بہت مشہور تجارتی خاندان ہے۔ بیدھ ناتھ فرم ان کی ملکیت ہے۔ جو آیورویدک دواؤں کی بڑی فرم ہے۔ اسی فرم کے مالکان نے شاہنامۂ ہند کے ایک حصے ’مہابھارت‘ کو شائع کرنے کے لیے ہونے والے اخراجات کی ذمے داری لی۔ یہ ضخیم نظم اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں1997 میں شائع ہوئی۔ دونوں رسم الخط میں شائع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسے ہندی والے بھی پڑھ سکیں۔ اسی نظم کے شائع ہونے پر فروغ نقاش کو ملک کے کئی قلم کاروں اور سیاست دانوں نے مبارکباد کے خطوط لکھے یا ان سے مل کر انھیں مبارکباد پیش کی۔ فروغ اپنی دھن میں مست رہنے والے انسان تھے۔ انھوں نے کسی بھی گروپ یا گروہ سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ صرف اپنے فن پر توجہ رکھتے تھے۔

مہابھارت جیسی طویل نظم لکھنے کے لیے انھیں تاریخ کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ انھوں نے کئی کتابوں سے استفادہ کیا۔ ان کی کوشش رہی کہ تمام واقعات کو تسلسل کے ساتھ پیش کریں۔ اس میں انھیں خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے فروغ کے اس شاہکار کے متعلق لکھا ہے۔  ’’اب تک جو حصے مکمل ہوچکے ہیں ان میں اشعارکی مجموعی تعداد سات ہزار ہے۔ پہلاحصہ مہابھارت کی تاریخ پر مشتمل ہے۔

 عرض مصنف کے عنوان سے فروغ لکھتے ہیں ’’شاہنامہ چالیس سال سے شاہنامۂ ہند کے نام سے قومی یک جہتی کے نقطۂ نگاہ سے لکھا جارہا ہے جس میں جین دھرم، بدھ دھرم  اور سناتن دھرم کے ساتھ ساتھ اسلام دھرم کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اب تک اس کی سات جلد یں مکمل ہوچکی ہیں۔ جن میں بیس ہزار اشعار مغل بادشاہ شاہجہاں تک لکھے جاچکے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ اردو مہابھارت ہے جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ قدیم ہندوستان تہذیب وتمدن اور سناتن دھرم کی یہی داستان آئینہ دار ہے۔ جس کو میں نے ہندی اور سنسکرت کے مشہور عالم پنڈت جواہر پرساد مشرامرادآبادی کی مہابھارت بھاشا سے بڑی جانشانی اور پوری دیانتداری سے نظم کیا ہے۔ اس داستان کو ہند کی بڑی اکثریت پورے یقین اور دل کی گہرائیوں سے ساتھ سچ سمجھتی ہے۔ تومجھے یا کسی اور کو اسے فرضی داستان کہنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ ‘‘ 2

اس نظم میں فروغ نے واقعی شاعری کا حق ادا کیا ہے۔  نہایت رواں اور آسان لفظوں کو برتا ہے۔ کوئی بھی اس نظم کو بلا تکلیف پڑھ سکتا ہے۔ اس میں ایک طرح کی نغمگی ہے۔ پوری نظم میں مختلف عنوانات کے تحت واقعات نظم کیے گئے ہیں۔ یدھشٹرکی گرفتاری کا منصوبہ کے عنوان سے لکھا ہے         ؎

اسی شب میں درونہ اور دریودھن نے اک ایسا

بنایا مل کے منصوبہ یدھشٹر کو پکڑنے کا

شریک مشورہ تھے ان میں کچھ ابلیس کے چیلے

فساد وفسق کے پیکر شکونی جیدرت جیسے

علاوہ اس کے ارجن کے لیے سوچی گئیں گھاتیں

محاذ جنگ سے اسکو ہٹانے کی ہوئیں باتیں

اس میں چکرویو کا مسئلہ بھی سامنے آیا

درونہ نے بڑی تفصیل سے اس فن کو سمجھایا

یہ ایک منصوبۂ ساز ش تھا جس کا مقصد حاصل

فقط یہ تھا نہ پانڈو رہ سکیں اب جنگ کے قابل

یدھشٹر چونکہ اپنے بھائیوں میں سب سے سربر ہے

متانت اور ذہانت میں بھی افضل اور برتر ہے

اسی اک وجہ سے ہے پانڈوؤں میں جوش اور ہمت

یہ ان کا عزم وپامردی یہ استقلال یہ جرأت

یدھشٹرکی گرفتاری سے جرأت آزمائی کا

اتر جائے گا نشہ پانڈؤوں کی خودستائی کا

یہ ایسی ضرب ہوگی تاب جس کی لا نہیں سکتے

وجے پانڈو ہمارے سامنے پھرپا نہیں سکتے

بالآخر مشورہ کے بعد کوروؤں سوگئے جاکر

عمل پیرا انھیں ہونا تھا کل میداں میں سازش پر 3

اس طرح کی روانی اور تسلسل مکمل نظم میں موجود ہے۔ فروغ نے مہابھارت کے ہر چھوٹے بڑے کردار کو شامل کیا ہے۔ جہاں جہاں انھیں محسوس ہوا کہ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہیے وہاں انھوں نے تفصیل سے بھی کام لیا ہے۔ ضرورت کے مطابق فٹ نوٹ بھی لکھا ہے۔ ہندی رسم الخط میں یہ خیال رکھا کہ اگر کوئی مشکل لفظ ہے تو حاشیے میں اس کے معنی لکھ دیے ہیں۔ تاکہ ہندی میں پڑھنے والوں کو آسانی ہو جائے۔ اس جنگ کے ایک اہم کردار کرن کاشاعرنے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ کرن کی خواہش کہ اسے ایسی جگہ جلایا جائے جہاں ابھی تک کسی کی بھی آخری رسم ادا نہ کی گئی ہو اس خواہش کو کرشن نے یوں پورا کیا کہ اپنی ہتھیلی پر کرن کی لاش کی آخری رسوم انجام دی۔ کرن کو مہابھارت کی تاریخ میں نہایت ہی اہم حیثیت حاصل ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ صرف دوستی نبھانے کی خاطر کوروؤں کے ساتھ تھے۔ یہ نظم فروغ کی شاعرانہ قدرت کا نمونہ ہے۔ افسوس کہ اس کتاب کو خاطر خواہ قبول عام حاصل نہیں ہوا۔ یہ کتاب ہندوستانی تہذیب اور قومی یک جہتی کی ایک مثال ہے۔

فروغ کو ادبی حلقوں میں وہ پذیرائی نہیں ملی، جس کے وہ مستحق تھے۔ اتنا بڑا کام کرنے کے باوجود مخصوص لوگوں تک محدود رہ گئے۔ اس کی وجہ شاید یہی رہی کہ وہ کسی خاص ادبی گروہ سے وابستہ نہیں تھے۔ اخبارات اور رسائل میں بھی وہ بہت شائع نہیں ہوئے۔ خود انھوں نے بھی اپنی تخلیقات کو شائع کروانے کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ان کے بہی خواہوں نے انھیں کئی بار یہ مشورہ دیا کہ ان رسائل کو غزلیں اور نظمیں اشاعت کے لیے دیں جوکچھ معاوضہ دیتے ہیں یا نذرانہ دیتے ہیں۔ یہاں فروغ کی لاابالی طبیعت آڑے آجاتی اور وہ باتوں کو ٹال دیتے۔ کچھ اربابِ اقتد ارایسے تھے جو ان سے ملاقات کی غرض سے آئے اور کسی بہانے ان کی مالی امداد کرنا چاہتے لیکن ان کی غیور طبیعت یہ گوارہ نہیں کرتی۔ فروغ تجارت کرتے تھے اور اس سے گزر بسر ہوتی تھی۔ ان کے تمام بچے صاحب روز گار ہیں۔

فروغ کی غزلیں بھی نہایت اعلیٰ معیار کی ہیں۔ غزلوں میں ان کا رجحان حسن و عشق کی جانب صاف معلوم ہوتا ہے۔ ان کے قلمی مخطوطہ میں جو غزلیں ہیں ان سے چند مثالیں پیش ہیں          ؎

مری عاشقی کے چرچے تجھے اب نہ ہوں گوارا

مرے عشق نے ہی ورنہ ترے حسن کو سنوارا

تری برق سے یہ سازش مرے آشیاں کی خاطر

تجھے ہاتھ تاپنا ہے میں سمجھ گیا اشارا

شبِ غم فروغ اپنی اسی کشمکش میں گزری

کبھی دل نے ہم کو مارا کبھی ہم نے دل کو مارا 4

کلاسیکی شعرا کی غزلوں کا یہی انداز رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فروغ کی نوجوانی کے عالم میں ناگپور میں کوئی ادبی تحریک یا رجحان نہیں تھا۔ ایسا بالکل نہیں۔ یہاں ترقی پسند تحریک کی پیروی بھی کی گئی۔ شاطر حکیمی اس کی مثال ہیں۔ جدید تحریک تو یہاں کے شاعروں اور ادیبوں کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی۔ بیشتر شعرا وادبا اس تحریک سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ اس رجحان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید یونس، ضیا انصاری، شاہد کبیر، شریف احمد شریف، مدحت الاختر وغیرہ اس تحریک کے یہاں نمائندہ شاعررہے۔ لیکن فروغ نقاش مزا جاً ہی کلاسیکی تھے۔ وہ ان تمام تحریکوں سے قطعی متاثر نہیں ہوئے۔ ہاں وطن پرستی کا عنصر ان کے کلام میں اکثر ملتا ہے۔ یہ ان کی نظموں میں ایک اہم خیال کے طور پرنظر آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام اردو شاعروں کی طرح ان کے دل میں بھی وطن سے بے پناہ محبت تھی۔

فروغ کی نظم مہا بھارت زبان وبیان پر ان کی مہارت کا زندہ ثبوت ہے۔ دل نشیں انداز اور سلاست وروانی اس طویل نظم کی اہم خوبیوں میں سے ایک ہیں۔ مہابھارت کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب دورپدی کو دربار میں بلایا جارہا تھا تو انھوں نے سختی سے انکار کیا اور بھرے دربار میں جانے کو اپنی بے عزتی خیال کیا۔ اس بات کو فروغ نے یوں نظم کیا ہے     ؎

یہ باتیں سن کے پنچالی یہ بولی خیر کچھ بھی ہو

مگر میری طرف سے بھیشم سے تم جاکے یہ پوچھو

جہاں موجود ہوں اک بھیشم جیسے مردفولادی

ہوا کردی ہو جس نے خودگروکی اپنی استادی

اب ان کے سامنے کیا لاج اک ابلا کی جائے گی

اور اس کے بعد بھی مطلق نہ غیرت ان کو آئے گی

علاوہ اس کے ان سے یہ بھی کہنا نیرتاباں

بجائے شرق، نکلے غرب سے باصد جلال وشاں

جو متھادھرم ست بولے تو کہنا یہ بھی ہے ممکن

دُھلے پاتک، نہ گنگا سے تو کہنا یہ بھی ہے ممکن

مگر پنچال کی دختر نہ اس محفل میں جائے گی

جبیں پربے حیائی کا نہ ٹیکہ وہ لگائے گی 5

فروغ نے بلا تکلف ہندی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ یہ ہونا بھی تھا کیونکہ کہانی ہندوستان کے پس منظر کی ہے لہٰذا ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا استعمال بالکل جائز ٹھہرتا ہے۔ یہ تمام الفاظ قطعی غیر ضروری یا ٹھونسے ہوئے نہیں لگتے۔ اگر ایسا ہوتا تو روانی میں کمی آجاتی اور کہیں نہ کہیں سکتہ ضرور ہوتا۔ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ نظم بلا تکلف پڑھی جاسکتی ہے۔ ان باتوں سے شاعر کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ غزلوں میں بھی وہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ رواں الفاظ ہوں اور آسان بحر ہو تا کہ قاری کو آسانی ہو۔ ایک غزل کے تین اشعار پر غور کیجیے۔

یوں رخِ تاباں پہ ان کے زلف لہرائی کہ بس

چاند چھپ کر رہ گیا ایسا گھٹاچھائی کہ بس

آئینے میں لے رہے تھے، اف وہ انگڑائی کہ بس

خود کو دیکھا، دیکھتے ہی، ایسی شرم آئی کہ بس 

ایک اشارے پر تمھارے مثلِ پر وانہ فروغ

جان دے دیتا ہے وہ، ہے ایسا شیدائی کہ بس6

فروغ خوب مطالعہ کرتے تھے۔ یہ عادت آخر عمر تک رہی۔ ریڈیوسننا اور پڑھنا یہ ان کی خاص عادت تھی۔ آخر میں جب آنکھیں کمزور ہو گئیں اور خود سے پڑھنے کے قابل نہیں رہے تو کسی کو کہتے تھے کہ پڑھ کر سنا دے۔ محدب عدسہ کا بھی استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے قلم سے جو کچھ لکھا وہ بڑے حرفوں میں ہے۔ ان کی شدید خواہش کے باوجود شاہنامے کے تمام حصے شائع نہیں ہوسکے اس بات کا رنج انھیں ہر حال میں رہا۔

بہر حال اتنی عظیم کتاب کا شاعر کی زندگی میں شائع ہونا ہی اہم ہے۔ فروغ نقاش کا انتقال2002 میں ہوا۔ تب سے اب تک بقیہ حصے اشاعت کے انتظار میں ہیں۔

 

حواشی

  1. ناگپور میں اردو: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، 1993، ص 140
  2. ہندی اردو مہابھارت، مہابھارت سے متعلق:  فروغ نقاش
  3. ایضاً، ص، 186
  4. قلمی مخطوطہ :فروغ نقاش      
  5. ہندی اردو مہابھارت: فروغ نقاش، ص 131
  6. قلمی مخطوطہ: فروغ نقاش                      

 

Mohammad Asrar

Assistant Professor, Urdu Department

S.K. Prowal College of Art, Science & Commerce, Kamptee,

Dist. Nagpur- (Maharashtra)

Mob.9822724276

Email : asrarmohammad1977@gmail.com  

کرشن بہاری نور کا رنگ سخن:عمیر منظر

 

کرشن بہاری نور (1926-2003) کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں کیا جاتا ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ روانی اور برجستگی ان کے اشعارکی نمایاں خوبی ہے۔لکھنؤ کے عام ادبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی۔ بچپن سے ہی انھیں شعرو ادب سے گہرا لگائو تھابلکہ ایک حد تک وارفتگی کا یہ جذبہ کبھی کبھی دیوانگی کی منزلوں تک پہنچ جاتا۔ جس طرح سے انھوں نے صاف اور سادہ شعر کہے ہیں اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں کی شعری سرگرمی کی کہانی بھی بیان کی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس قدر توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ بلکہ کسی قدر جانفشانی کے ساتھ شاعری کی مشق بہم پہنچائی۔ ان کو یہ تقویت اپنے گھر سے ہی ملی کیونکہ ان کے ماموں گوکرن پرشاد کرن لکھنوی شاعری کے دلدادہ تھے اور مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے، جب کہ ان کی خالہ تو باقاعدہ شاعری کرتی تھیں اور اساتذۂ سخن کے رابطے میں رہتی تھیں۔کرشن بہاری نور کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ان کا پہلامجموعۂ کلام ’دکھ سکھ‘ کے نام سے 1977 میں شائع ہوا۔ دوسرا ’حسینیت کی چھانو‘ 1980میں۔ تیسرا ’تپسیا‘کے نام سے 1982 میں منظر عام پر آیا۔چوتھامجموعہ کلام ’سمندر مری تلاش میں ہے‘ 1994میں شائع ہوا۔ انھیں اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی ادبی خدمات پر بھی انعام سے سرفراز کیا تھا۔واضح رہے کہ کرشن بہاری نور پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف محکمہ میں ملازم تھے اوروہیں سے سبکدوش ہو ئے۔

کرشن بہاری نور نے ابتدائی چند غزلوں تک بیدار صاحب سے مشورہ کیا، پھر انھیں کے کہنے پر فضل نقوی (1913-1991)  سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ فضل نقوی کے بارے میں انھوں نے جس تفصیل سے اپنے رابطے اور تعلق کی کہانی کو بیان کیا ہے،اس سے اس زمانے کی عام استادی و شاگردی کی روایت پر روشنی پڑتی ہے۔ نیزاساتذہ کا شاگردوں کے تئیں رویہ اور خود شاگرد کسی طرح اپنے اساتذہ سے رابطے میں رہتے تھے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مبتدی شعرا اپنے اساتدہ سے استفادے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے تھے کچھ یہی حال کرشن بہاری نور کا بھی تھا۔انھوں نے اپنے استاد فضل نقوی سے شاعری اور اس کی فنی باریکیاں سیکھیں۔ فضل نقوی خود بڑے عالم اور شعروادب پر غیر معمولی دسترس رکھنے والے تھے۔ لکھنؤکی ادبی بہار کے بالکل آخری دور میں جن لوگوں نے قدیم اساتذہ کی یاد تازہ کررکھی تھی ان میں فضل نقوی کا شمار ہوتا تھا۔فضل نقوی سے کسب فیض کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ فضل نقوی بے حد مصروف انسان تھے مگر اس کے باوجو د وہ نہایت توجہ سے کرشن بہاری نور کا کلام دیکھتے۔ اصلاح دیتے اور فنی رموز سے انھیں آگاہ بھی کرتے رہتے۔فضل نقوی کے بارے میں کرشن بہاری نو ر کا یہ دلچسپ بیان ملاحظہ کریں:

ــ’’در اصل بات یہ تھی کہ استاد اس زمانے میں بھی بے حد مشغول رہتے تھے میں تو روز ہی دیکھا کرتا تھا ایک انجمن والا نوحہ کہلا کے لے گیا تو دوسری انجمن کا صاحب بیاض کھڑا اپنا دکھڑا رو رہا ہے وہ گیا تو کا تب آجاتا یہ مضمون نہیں ملا مراقبہ تو لکھ دیجیے فلاں کالم میں اتنی جگہ بچ گئی ہے اس کو کیسے پر کیا جائے اِس صفحہ پر کیا ہو اُس صفحہ پر کیا ہو گا ان سے نجات ملتی تو نئے پرانے شاگردوں میں سے کوئی نہ کوئی آجا تا غزلوں پر اصلاح،نوحوں پر اصلاح، قصیدوں پر اصلاح،غرض ایک جاتا تو دوسرا آجا تا میں تو روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس دن وہ فرصت سے ہوتے موصوف ’نظارہ‘ کے آفس ہی میں بیٹھے بیٹھے تمام کام انجام دیتے رہتے جب بہت تھک جاتے تو چند لمحوں کے لیے اندر جا کر آرام فرما لیتے مگر یہ آرام بھی کبھی وہ اپنی مرضی کے مطابق نہ کر پاتے کبھی کوئی راجہ صاحب یاد فرما رہے ہیں تو کبھی کوئی مجتہد اپنی طرف کھینچ رہا ہے کبھی مذہبی بحث میں الجھے رہتے تو کبھی سیاسی گفتگومیں منہمک پائے جاتے کبھی ادبی سرگر میوں میں ڈوب جاتے تو کبھی یاد ایام گزشتہ گھیر لیتی۔ کبھی گھر والوں کی سنتے کبھی باہر والوں سے بات کرتے۔ میں اکثر سوچا کر تاکہ یہ دماغ جو بیک وقت کئی کئی سمتوں میں بٹ جاتا ہے اگر صرف ایک طرف مائل ہو جاتا تو شاید وہ دنیا کے ان لوگوں میں ہوتے جن کا شمار انگلیوں پر کیا جاتا ہے۔

)دکھ سکھ،کرشن بہاری، اسرار کریمی پریس الہ آباد1983 ،ص 13(

اس اقتباس سے فضل نقوی کی استادانہ صلاحیتوں کا ہی اعتراف نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کرشن بہاری نور نے شاعری کی دنیا میں جو مقبولیت حاصل کی اور ان کے بعض اشعار کی جو آج تک گونج ہے ان میں استاد کی تربیت کا غیر معمولی کردار ہے۔کرشن بہاری نور نے اس کا اعتراف اپنے پہلے شعری مجموعہ ’دکھ سکھ‘ میں کیا ہے۔

کرشن بہاری مشاعروں کے بے حد مقبول شاعر تھے۔ مشاعروں میں وہ بہت اعتماد اور اہتمام سے  کلام پڑھتے تھے۔اگرچہ تحت میں پڑھتے تھے مگر اپنے ایک مخصو ص انداز کی وجہ سے جب وہ اپنا کلام  پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔ان کے اساتذہ کا فیض اور لکھنؤ کے عام ادبی ماحول کا اثر ہی تھا کہ ان کے بہت سے اشعار اردو کے مشہور اشعار میں شمار کیے جاتے ہیں بلکہ ان میں بعض کی حیثیت زبان زد خا ص و عام کی ہوگئی ہے۔اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ کریں           ؎

میں تو غزل سنا کے اکیلے کھڑا رہا

سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھوگئے

میں جس کے ہاتھوں میں اک پھول دے کے آیا تھا

 اسی کے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے

اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری

گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں

عجیب طرح کے بس حادثے گزرتے ہیں

بنیادی طور پر کرشن بہاری نور عام فہم اور سادہ اندازمیں شاعری کرتے تھے۔درج بالا اشعار کی روانی اور ایک خاص کیفیت سننے والے کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ مشاعروں میں جب وہ پڑھتے تو بسااوقات  ان کے اشعار جادو کا اثر رکھتے۔کیفیت اور روانی کے علاوہ یہ اشعار سہل ممتنع کے حامل ہیں۔یعنی نہ ان میں کوئی مشکل لفظ ہے اور نہ کوئی مرکب لفظ بلکہ سیدھے سیدھے انداز میں شعر کہہ دیا ہے مگر شعر کی بنت اور لفظوں کی نشست برخاست اس فنکاری سے کی گئی ہے ان کی معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔پہلا شعر تو اردو کے مشہور ترین اشعار میں ہے۔کون ہوگا جسے یہ شعر یاد نہ ہو۔دوسرے شعر میں بے وفائی یا احسان ناشناسی کا مضمون ہے۔مگراس کے لیے جس انداز کو اختیار کیا گیا ہے وہ قابل ذکر ہے۔بقیہ اشعار کو بھی اسی ذیل میں دیکھا جاسکتاہے کہ کس طرح کرشن بہاری نور نے زندگی کے عام تجربوں کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ان اشعار کا سادہ اندازاور فن کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شاعری کا جادو جگایا ہے۔

کرشن بہاری نور کی شاعری میں زندگی کا حسن اپنی تمام تر جمالیات کے ساتھ موجود ہے۔انھوں نے ایک طرف جہاں عشقیہ مضامین کو برتا ہے وہیں زندگی اور اس کی نیرنگیوں کوبھی شاعری کا لباس عطا کیا ہے۔انھیں اپنے زمانے اور حالات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔زندگی کو کسی ایک رخ سے دیکھنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں پر نظر ہے        ؎

اس سزا سے تو طبیعت ہی نہیں بھرتی ہے

زندگی کیسے گناہوں کی سزا ہے یارو

زندگی ٹھوکریں کھاتی ہے بچھڑ کر تجھ سے

تیرے پازیب کے ٹوٹے ہوئے گھنگھرو کی طرح

جہاں تک زندگی اور موت کے طوفان و ساحل تھے

وہیں تک ناخدائے کشتی عمررواں ہم تھے

نشہ کا یہ عالم ہے سچ ہی سچ لگے سب کچھ

زندگی کی صہبا ہے میکدہ ہے خوابو ں کا

زندگی پھر زندگی پھر زندگی

کچھ نہیں بس تہہ بہ تہہ تنہائیاں

اس سلسلے کا مشہور ترین شعر تو یہ ہے

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

ان اشعار کا غالب پہلو امکانات کی تلاش ہے۔ زندگی سے فرارممکن نہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ سزا، گناہ، ٹھوکر، طوفان اور تہہ بہ تہہ تنہائیاں زندگی کی مختلف شکلوں کو ان اشعار میں پیش کیا گیا ہے۔زندگی کی ان مختلف شکلوں سے اس کے تنوع اور بے شمار تجربوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ کہیں نظریہ،کہیں مشاہدہ تو کہیں کسی اور پہلو سے ظاہر ہوکر غزل کے مضامین کا حصہ بنتا رہا ہے۔صدیوں پرانی اس روایت اور غزل کے روشن تجربے کو کرشن بہاری نو رنے بھی درج بالا اشعار میں برتنے کی کوشش کی ہے۔

کرشن بہاری نور کی غزلوں میں گیان دھیان بھی ہے۔یعنی وہ صرف محبت نہیں بلکہ عرفان محبت کے قائل ہیں۔زندگی کو اسی رخ سے دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی اکتاہٹ یا بے چینی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تہہ بہ تہہ تنہائیاں سمیٹ رکھتے ہیں۔ان کے یہاں تلاش خیر کا پہلونمایاں ہے۔ہم اسے تعمیری فکر سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں وہ کہتے ہیں         ؎

زندہ رہنے کی ہوس تو ہے ضرور

اے مرے پروردگار اچھائیاں

وہ یہ بھی کہتے ہیں          ؎

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری

گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

تو دراصل ان کے اسی جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔عرفان صدیقی نے ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

کرشن بہاری نور کی شاعری سچ کی ایک ایسی اکائی ہے جس میں ایک جوگی کا بیراگ، ایک صوفی کا عرفان، ایک محبت کرنے والے دل کی وسعت اور ایک دردمند انسان کا گداز حل ہو کر ان کا ہنر بنا ہے۔ ان کی شاعری اس حقیقت کی سب سے بڑی اور سب سے سچی گواہ ہے کہ شاعر نے اپنے لفظوں کے حسن اور اپنے جذبے کے گداز کا مول اپنے خوابوں اور اپنی امیدوں اور اپنے تجربوں سے چکایا ہے۔ ہم عصر آوازوں کے شور میں نور کی آواز کا پہرا ہماری سماعت کے وسیلے سے ہمارے احساس کو متحرک اور ہماری فکر کو متوجہ کرتا ہے اپنی نرمی اور لطافت کے باوجود یا انھیں خصوصیات کی بنا پر انھوں نے زندگی کے دکھ سکھ سچ مچ جھیلے ہیں اور اپنے تجربوں کی روشنی اور گرمی سے اپنے شعر کا چہرا د مکایا ہے دنیا کے اتھاہ سمندر میں اپنے وجود کی دریافت اور پھر اس کی حفاظت بڑی جرأت اور بڑے ریاض کا تقاضا کرتی ہے وہ خود اس اگنی پر یکشا سے گزرنے کے بعد ہی یہ کہنے کے قابل ہوئے ہیں۔(تپسیاص،کرشن بہاری، نور ص122 )

اردو کی غزلیہ شاعری میں زندگی تنہائی کے حسن سے عبارت ہے۔جدید فکرو خیال کے شعرا کے یہاں تنہائی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔تنہائی صرف تنہائی نہیں ہے بلکہ بے بسی اور بیکسی کا استعارہ بھی ہے جسے شہری زندگی نے جنم دیا ہے۔اسی وجہ سے تنہائی جدید معاشرے میں فرد کی بے سمتی اور بے گھری قرار دی گئی۔تنہائی اور تنہا ہونے پر جدید فکر وخیال کے حامل شاعروں نے خوب سے خوب پہلو نکالے ہیں اورشعری مضامین باندھے ہیں۔ کرشن بہاری نور نے بھی اس مضمون کو برتا ہے۔ کرشن بہاری نور ِ روایت پسند شاعر ہیں۔انھوں نے لکھنؤ کی شعری روایت کے سانچے میں اپنی شاعری کو سجایا سنوارا تھا۔اس لیے ان کے یہاں زبان وبیان کا لطف اور پہلے سے بیان کیے ہوئے مضامین نئے پیرہن میں ملتے ہیں۔روایت سے استفادے کی خوب صورت مثالیں ان کے یہاں موجود ہے        ؎

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ و روپ ہے

وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہادکھائی دے

اب یہاں تنہادکھائی دینے کا کیا مطلب ہے۔حسن وجمال نے اسے تنہا کیا ہے یا وہ اپنے رنگ و روپ کی وجہ سے یکہ وتنہا ہوگیا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ یہاں دوسرے پہلو کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔یعنی کرشن بہاری نور نے اس مضمون کو ایک اور زاویہ دینے کی کوشش کی ہے۔ایک شعر اور ملاحظہ کریں        ؎

ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھرا رہتا ہوں

ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہاکیسے

محبوب کی محفل میں اسی کے حسن و جمال کا جادو رہتا ہے کسی دوسرے کی مجال نہیں کہ کچھ عرض کرسکے۔اگر وہ نہ ہو تو محفل سونی سونی لگتی ہے۔کلاسیکی شاعری کا یہ نہایت عمدہ مضمون ہے اور اس پر بے شمار بلکہ لاکھوں شعر کہے گئے ہیں اور آئندہ بھی کہے جائیں گے۔کرشن بہاری نور کا شعر ہے         ؎

کہا ں یہ ہوش باقی تھا کہ عرض مدعا کرتے

زباں رکھتے ہوئے محفل میں تیری بے زباں ہم تھے

محبوب کی جستجو اور طلب ہی عاشق کی معراج ہے مگر یہ منزل ملتی نہیں بلکہ جب کبھی مدعا ہاتھ آتا ہے تو ہوش و حواس ہی نہیں بحال رہتے          ؎

جستجو میں تری یہ تماشا ہوا

ہوش جب کھوگئے مدعا مل گیا

محبوب کے بہت سے نام ہیں ان میں ایک نام کافر بھی ہے۔یعنی وہ عاشق کی ہر خواہش کو ٹالتا رہتا ہے انکار کرتا رہتا ہے۔دیوانے اس کے گرد چکر لگاتے رہتے تھے مگر انکار کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔کرشن بہاری نور نے اس کو بھی اس طرح نبھایا ہے کہ وہ انھیں کا حصہ کہا جاسکتا ہے      ؎

یوں ہی تو نہیں تجھ کو سب کہنے لگے کافر

کیا جانیے کتنوں کے ایمان گئے ہوں گے

اس طرح کے بے شمار پہلو ان کی شاعری میں ہیں۔واضح رہے کہ غزلوں کے علاوہ قطعات اور نظمیں بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ان کی نعتیں ایک عجب احساس کی حامل ہیں جن پر الگ سے گفتگو کی جانی چاہیے۔کرشن بہاری نور کو جن لوگوں نے مشاعروں میں سنا ہے اور جنھوں نے ان کو کتابوں میں پڑھا ہے دونوںاس بات کے قائل ہیں کہ ان کی شاعری میں اثر انگیزی کی ایک کیفیت ہے۔کریم الاحسان نے اس بات کو زیادہ بہتر انداز میں لکھا ہے۔

 یہ بات کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے کہ ان کو سنا بھی جاتا ہو اور ان کے اشعار پر لگا کر سرحدوں کو پار بھی کر جاتے ہوں۔ یہی حال نور صاحب کے اشعار کا ہو رہا ہے، جب وہ مشاعرے میں آتے ہیں تو فرمائشوں کا ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان کے کلام میں جان ہے، ایک پیغام ہے۔ انفرادیت ہے۔دہ لکھنؤ اور دلی کے روایتی گورکھ دھندوں کے پا بند نظر نہیں آتے سیدھے سادے اشعار کہتے ہیں اور ان میں بلا کی کشش اور تاثیر ہوتی ہے میں نے ان کے اشعار نہ جانے کتنے لوگوں سے سنے ہیں اور یہ بات کچھ آسان نہیں ہوتی ایک مدت ایک عرصہ ایک محنت ایک ریاض کے بعد بھی کتنے ہی شعرا  اس شہرت اور ہر دل عزیزی سے محروم ہی رہتے ہیں۔(تپسیا ص 155)

اب یہاں چند اشعار کسی تبصرے کے بغیر نقل کیے جارہے ہیں         ؎

نہ کوئی وعدہ تھا ان سے نہ کوئی پابندی

تمام عمر مگر ان کا انتظار کیا

یہی نہیں کہ ہمیں انتظارکرتے رہے

کبھی کبھی تو انھوں نے بھی انتظار کیا

اتنی توجہ اتنی عنایت

اب دھوکا ہونے والا ہے

ختم ہی ہے ہستی کا فسانہ

قرض ادا ہونے والا ہے

ان کو پاکر سوچتا ہوں

خواب تھا بہتر یا تعبیر

دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

پھر بھی اطمینان نہیں ہے

فن کو سنوار دیں جو کہیں دل کی دھڑکنیں

پتھر بھی آئینوں کی طرح بولنے لگے

بظاہر ان اشعار میں ایسا کوئی بڑا مضمون نہیں باندھا گیا ہے اور نہ اس طرح سے شعر کہا ہی گیا ہے جس پر کسی بڑے رمز کا گمان ہو، لیکن ان اشعار کو پڑھتے ہوئے قاری ایک کیفیت سے ضرور گزرے گا۔کس قدر سہل اور سادہ انداز میں شعر کہا گیا ہے۔اور یہی سادگی ان اشعار کا حسن ہے۔

اس مختصر مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کرشن بہاری نور کی شاعری ہماری شعری روایت کے گہرے شعور سے عبارت ہے۔انھوں نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ سیکھا تھا اسے سلیقے کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی اور ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ شاعری زبان وبیان کے گہرے شعور کے بغیر ناممکن ہے۔اسی لیے انھوں نے اس روایت سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اساتذۂ سخن کے ساتھ ساتھ اپنے معاصرین اور احباب سے سرگرم شعری سلسلہ جاری رکھا۔اس کا اندازہ ان کے مجموعہ کلام ’دکھ سکھ‘ سے ہوتا ہے۔مجموعہ کلام کے آغاز میں ’شاہ راہ ادب‘کے نام سے ایک سفرنامہ لکھا ہے جو دراصل ان کی شعری زندگی کے ابتدائی احوال پر مشتمل ہے۔اس سفرنامہ میں انھوں نے اپنے معاصرین کے اشعار کو کثرت سے نقل کیا ہے جو انھیں پسند تھے۔شاعری کے لیے یہ خاص لگاؤاور سرگرمی ہی دراصل کرشن بہاری نور کی مقبولیت اور محبوبیت کی علامت ہے۔

 

Omair Manzar

04/122 Tagore Marg, Near Shabab Market,

MANUU, Lucknow Campus, Maulana Azad National Urdu University

Lucknow- 226020  (UP)