اردو ناول میں ثقافتی نوحہ گری: خالد اشرف

 

ناول کو اس کی وسعت، وضاحت اور جزئیات کی بنا پر ام الاصناف کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے ڈی ایچ لارنس (1885-1930) نے کہا تھا کہ ’’چونکہ میں ایک ناول نگار ہوں، اس لیے میں اپنے آپ کو کسی سنت، کسی فلسفی، کسی سائنس داں اور کسی بھی شاعر سے برتر سمجھتا ہوں، جو انسان کے مختلف حصوں کے ماہر ہیں، مگر پورے انسان تک نہیں پہنچتے۔ ناول ایک ایسا ارتعاش ہے جو پورے زندہ انسان کے اندر لرزش پیدا کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو شاعری، فلسفے، سائنس یا کسی اور کتاب کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘

ناول کی وسعت کی بنا پر عموماً اس کو نفسیات سے زیادہ سماجیات کا آئینہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ملکوں، خطوں، طبقوں اور قوموں کی زندگی کی آئینہ داری میں انسانی  ذات کے گہرے داخلی، مسائل اس کی جنسی محرومی، اس کی تنہائی اور اس کے ارادو ںکی شکستگی جیسے داخلی مسائل کہیں دنیاوی مسائل کے بالمقابل دب جاتے ہیں۔ تاہم ایسے کامیاب ناول کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو صرف افراد کے بجائے اقوام  اور طبقات پر مرکوز رہے اور فرد کی داخلی اتھل پتھل اور جنسی تبدیلیوں کو نظرانداز کردے۔ یعنی ایک اچھے ناول کی اچھائی یہ ہے کہ علامت اور تجرید کے جنجال میں زیادہ ملوث ہوئے بغیر انسانی زندگی کے اطراف اور داخل دونوں پر بھرپور روشنی ڈالے۔

یہاں ہم نسبتاً قریب کے زمانے کی اردو ناول نگاری کے چند شاہکاروں کا جائزہ لے کر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان قریبی زمانوں کا سب سے بڑا نام قرۃ العین حیدر کا ہے جنھوں نے تقسیم کے زمانے میں فکشن لکھنا شروع کیا تھا اور تقریباً پچاس برس تک لکھتی رہیں۔ ان کے تھیم زیادہ متنوع نہیں تھے اور وہ زیادہ تر مشترکہ ثقافت کے زوال، ہجرت سے پیداشدہ جذباتی مسائل اور تاریخ کی بے رحم قوتوں کے آگے انسانی ارادوں کی بیچارگی وغیرہ کو موضوع بناتی رہیں۔ یہاں ان کے آخری دور کے ایک نمائندہ ناول ’گردش رنگ چمن‘ (1987) کا اجمالی جائزہ لیا جائے گا۔ یہاں پرانی اور مٹ چکی جاگیردارانہ تہذیب اور نودولتیوں کی چمک دار اور بآواز بلند تہذیب کے فرق کو سامنے رکھ کر کہانی تشکیل دی گئی ہے۔ کہانی کیا ہے، ماضی کی بازیافت بلکہ ماضی پرستی کی رام کتھا ہے جس کو شعری و شیریں زبان کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ایک طرف عندلیب بیگ، عنبریں بیگ، منصور کا شعری اور وکی میاں ہیں تو اسپیکٹرم کے دوسرے سرے پر صاحبزادی شہوار خانم، نگار خانم اور ان کے تاجر پیشہ بھائی ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی ہمدردیاں مٹتے ہوئے مشترکہ کلچر کے نمائندو ںکے ساتھ ہیں لیکن گھریلو ملازموں اور کھیت مزدوروں پر ڈھائے جانے والے ان کے مظالم کو وہ زیربحث نہیں لاتی ہیں۔ یہاںتک کہ واجد علی شاہ جیسے نااہل حکمراں کا دفاع تک کرتی ہیں

’’آخری مغل بادشاہ اور اودھ کے فرمانروا اگر عیش پرست، ظالم اور لغو تھے، محمد شاہ محض رنگیلے اور واجد علی شاہ صرف ناچاگایا کرتے تھے تو سارے ہندوستان میں دولت اور تجارت کی یہ فراوانی  کیسے رہی؟ سلطانِ عالم جب مٹیابرج لے جائے گئے تو اودھ کا بچہ بچہ اشکبار تھا۔ بھلا کوئی جابر اور نکمے بادشاہوں کے لیے روتا ہے؟‘‘

(گردش رنگ چمن، دہلی 1987، ص 52)

کچھ انہی نوعیت کی ثقافتی ناول نگاری انتظار حسین کیا کرتے تھے، ان کا ناول ’بستی‘ (1980) کافی حد تک ایک سیاسی قصہ تھا، لیکن قدیم ہند اسلامی ثقافت کی عکاسی کے ضمن میں ان کا تیسرا ناول نما قصہ ’تذکرہ‘ (1986) قدیم جاگیرداری ثقافت کی نوحہ گری میں قرۃ العین حیدر کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ ’تذکرہ‘ کی کہانی اس قدر ہے کہ اخلاق (یا انتظار حسین) مع اپنی والدہ بوجان یوپی کے ایک قصبے سے ہجرت کرکے لاہور آبستا ہے۔ ایک دن پرانے کاغذات میں اخلاق کو ایک تذکرہ ملتا ہے جس میں آبا و اجداد کے حالات درج ہیں۔ چراغ حویلی کے یہ مکین اپنے رویوں میں قدیم جاگیرداری اقدار کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کے تمام معمول معین اور سخت ہیں۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ جو معاشرتی اتھل پتھل ہوئی، اس میں یہ بزرگ اپنی جامد زندگی کے طے شدہ اصولوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں،لیکن وقت ان کا ساتھ نہیں دیتا

’’دنیا ناپائیدار ہے، یہاں کس چیز کو قرار ہے۔ ابھی تخت پر بیٹھے ہیں، ابھی تابوت میں لیٹے ہیں— یہ ہیچ پوچ چراغ علی اپنی مثال لاتا ہے۔ ان دو آنکھوں نے اس عمر میں کیا کیا کچھ دیکھ لیا۔ تیموری بساط کو لپیٹتے دیکھا، جہان آباد کو اجڑتے دیکھا۔ تایا حضور کو دار پر بلند ہوتے دیکھا اور اہلِ جہان آباد نے زیر آسمان کیا کیا دیکھا۔ جس بادشاہ کو تخت شاہی پر لباس شاہانہ میں رونق افروز دیکھا تھا، اسی کی ننگی لاش جمنا کی ریتی پر پڑی دیکھی۔ تایا حضور نے ایک روز یہ احوال بیان کیا اور اتنا روئے کہ ریش مبارک ان کی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ ایسا ان پر اثر ہوا کہ جینے سے جی سرد ہوا، رنگ چہرے کا زرد ہوا۔‘‘

(تذکرہ، لاہور، 1987، ص 187)

تقریباً یہی کیفیت بوجان کی بھی تھی، وہ اخلاق کے ساتھ مجبوراً پاکستان آگئی تھیں، لیکن یہاں آکر وہ اس بادشاہ کی طرح بے بس ہوجاتی ہیں، جس کی مملکت چھن گئی ہو کیونکہ چراغ حویلی والا تحکم اور دبدبہ لاہور میں ممکن نہ تھا۔ ان سبھی عزیزوں کا المیہ یہ تھا کہ وہ لاہور کے لیے کلچر کو اپنانے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے اور یوپی کے جاگیردارانہ کلچر کی نام نہاد برتری کے احساس کا شکار تھے۔

یہی ثقافتی احساس برتری خدیجہ مستور کے ناول ’آنگن‘ (1962) کے کچھ کرداروں کے اطوار میں نظر آتا ہے، لیکن خود مصنفہ اس قسم کی ذہنیت کے خلاف ہیں۔ بڑے چچا کا متوسط مسلم گھرانہ قدیم جاگیرداری  نظام کے زوال کا آئینہ دار ہونے کی بنا پر داخلی و خارجی سطح پر شدید انتشار کا شکار ہے۔ اسی آنگن میں تہمینہ کو ان سخت گیر اور انسان دشمن قدروں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، جب نجابت اور اعلیٰ نسبی کے نام پر اس کو صفدر جیسے ذہین انسان سے شادی کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اسی جاگیرداری درجہ بندی کے شکار اسرار چچا ہیں جو ایک داشتہ کی اولاد ہونے کی بنا پر مردود ہیں۔ اسرار میاں زندگی بھر سارے کنبے کی خدمت کرتے رہے، لیکن اس کے صلے میں انھیں باسی روٹیاں اورجھوٹا سالن ملتا تھا۔ کچھ اسی نوعیت کی ظالمانہ صورت حال قاضی عبدالستار، کرشن چندر اور جیلانی بانو کے ناولوں میں بھی نظر آتی ہے، تاہم خدیجہ مستور، کرشن چندر اور جیلانی بانو کا پرانی تہذیبی اقدار کے بارے میں رویہ تنقیدی ہے، تحسین آمیز نہیں۔

لیکن جاگیرداری اقدار کی پیداکردہ ثقافت کے تئیں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور قاضی عبدالستار والا تحسینی رویہ نسبتاً دو نئے ناول نگاروں شمس الرحمن فاروقی اور سید محمد اشرف کے یہاں بھی نظر آتا ہے جنھوں نے اکیسویں صدی میں ناول تصنیف کیے، لیکن قدیم جاگیردارانہ کلچر کو فراموش نہ کرسکے۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوں بالخصوص ’گردش رنگ چمن‘ اور شمس الرحمن فاروقی کے ضخیم ناول ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ (2006) میں ثقافتی بوجھ (Cultural Load) اس قدر زیادہ ہے کہ ناول کی روانی مجروح ہوتی ہے۔ دراصل ہر ناول کسی نہ کسی حد تک اطلاعات (Informations) پر مبنی ہوتا ہے، مثال کے طور پر چارلس ڈکنس کے ناولوں کو پڑھ کر ہم وکٹورین عہد کے انگلینڈ کی عوامی زندگی کے بارے میں نہایت باریک تفصیلات سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح عزیز احمد کا ناول ’آگ‘ پڑھ کر تقسیم سے قبل کے کشمیر کے افلاس اور عوامی زندگی کی ذلتوں کی جیتی جاگتی تصویریں فراہم ہوتی ہیں، لیکن ناول، کسی بھی قسم کی اطلاعات کا بار ایک حد تک ہی برداشت کرسکتا ہے، ورنہ وہ معلومات کی خشک اور بھاری بھرکم کھتونی بن جاتا ہے۔ یہی گردش رنگ چمن کے ساتھ ہوا اور یہی انجام ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کا ہوا،لیکن چونکہ قدیم جاگیرداری کلچر کا ایک خوشنما پہلو اردو ثقافت بھی تھی، اس لیے ان دونوں ناولوں کی کمزوریوں کو عموماً زیربحث نہیں لایا گیا۔ آئیے ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کے ثقافتی بوجھ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کی جائیں۔

ناول کے ابتدائی چہارم میں فاروقی صاحب قاری کو بتاتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے کالونیل ہندوستان میں قومِ انگریز کے لیے سب سے اعلیٰ نوکریاں تھیں

’’ریزیڈنٹی/ پولیٹیکل ایجینٹی، پھر افواجِ مسلح میں افسری، پھر محاصل جن میں مالگذاریاں، کروڑ گیری پرمٹ Custom اور Excise وغیرہ۔ ریزیڈنٹی اور پولیٹکل ایجنٹی میں عموماً دس میں سے نو عہدے بہت چنیدہ فوجی افسروں سے  اور باقی غیرفوجی محاصلات کے محکموں سے پرکیے جاتے تھے۔ اپنے اپنے ضلعوں میں افسرِ محاصل و دیوانی و فوجداری یعنی کلکٹر/ ڈپٹی کمشنر کی شان سب سے اعلیٰ تھی۔ محنت کرنے اور ذمہ داری  اٹھانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنا  اختیارات کا روزانہ استعمال،  مشکل معاملات سے ہر وقت نپٹنا اور کمپنی کی شان اور دبدبہ قائم رکھنا۔‘‘

(کئی چاند تھے سر آسماں، دہلی، 2006، ص 177)

فاروقی صاحب نے یقینا یہ تمام تفصیلات ریسرچ کے ذریعے  حاصل کی ہوں گی، جن کو قاری تک پہنچانا انھوں نے اس لیے ضروری سمجھا کہ قاری اٹھارہویں صدی کے سیاسی و سماجی پس منظر سے واقف ہوسکے۔

1829 کے کرسمس کا ذکر کرتے ہوئے فاروقی صاحب ’ڈالی‘ کے تحفے کی اصل بیان کرتے ہیں کہ ڈالی کا تعلق پھولوں یا پھلوں سے نہ تھا بلکہ ڈالی ان چھوٹی چھوٹی کشتیوں یا ٹوکریوں کو کہتے تھے جن میں پھل رکھ کر لائے جاتے تھے۔ عموماً دو کشتیوں یا ٹوکریوں کو ایک ساتھ باندھتے تھے اور ایک ڈالی میں ایک ہی طرح کا پھل ڈالتے تھے۔ انگریزوں کے یہاں تحفے میں پھل بھیجنے کا اتنا رواج تھا کہ آہستہ آہستہ ’ڈالی‘ کے معنی ہی ’پھلوں کا تحفہ‘ او رپھر ’تیوہاروں پر حکام کے یہاں بھیجنے کا تحفہ‘ ہوگئے۔‘‘ (کئی چاند تھے سر آسماں، ص 196)

مزید معلومات کے ضمن میں فاروقی صاحب سواریوں کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بناوٹ کے لحاظ سے رتھ اور پالکی بہت مشابہ تھے،  لیکن رتھ میں جگہ زیادہ ہوتی تھی اور وہ چار پہیوں کی سواری تھی جسے دو یا چار بیل کھینچتے تھے۔ اس کے برخلاف پالکی میں پہیے نہ تھے، پالکی کی طرح اسے بھی کہار اٹھاتے تھے جو عام طور پر آٹھ ہوتے تھے۔ پالکی کے  ساتھ سونٹا سردار اور کبھی کبھی چوبدار بھی ہوتے۔ پالکی ایک رتھ کی طرح چھوٹا سا حجرہ ہوتی تھی اور اس  کا دروازہ لکڑی  کا ہوتا تھا۔‘‘ (کئی چاند تھے سر آسماں، ص 234)

شمس الرحمن فاروقی اردو فارسی شعریات کے آخری بڑے اسکالر تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع اور علم وقیع تھا۔ وہ بنیادی طور پر اردو-فارسی کلچر کے پروردہ اور نقیب تھے۔  ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ جیسا ضخیم ا ور Intense ناول ان کی تمام زندگی کی فارسی- اردو اور انگریزی علمیت کا نچوڑ تھا اور بلاشبہ وہ اپنی تمام تر علمیت کو کاغذ پر منتقل کرکے مستقبل کے لیے محفوظ کردینے کی گہری خواہش رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کو محفوظ کرنے کا یہی جذبہ ناول میں بھی اکثر نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا صہبائی کی عروض پر مہارت، میر شمس فقیر کی کتاب ’حدائق البلاغت‘ کا ترجمہ، فن معما پر ان کا ادق رسالہ ’گنجینۂ رموز‘ وغیرہ کا ذکر فاروقی صاحب نے مفصل کیا ہے۔

ایک مقام پر رفاعی سلسلے کے بارے میں فاروقی صاحب پھر معلومات کا دریا بہاتے ہیں

’’مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی اصلاً دلی والے نہ تھے۔ وہ قوم کے شیخ فاروقی اور مولداً بڑودہ، گجرات کے تھے۔ ان کے والد شیخ دین محمد نے بڑودہ میں حضرت سید نورالدین سیف اللہ الرفاعی (دفات 1225ھ مطابق 1810) کے  دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک مدت انہی کے آستانے پر مراقب و معتکف رہے۔ رفاعی سلسلے کے بانی شیخ احمد الرفاعی (1106-1182) عربی النسل تھے، لیکن انھوں نے عمر کا بہت بڑا حصہ جنوبی عراق کے دلدلی علاقے کی ایک چھوٹی سی بستی بطائح میں گذارا۔ وہ خود قادری سلسلے میں بیعت تھے، لیکن ان کے ماموں شیخ منصور البطائحی نے انھیں سلسلۂ رفاعیہ یا بطاالحیہ کا سجادہ اور شیخ مقرر کردیا۔ ابن خلدون نے حضرت شیخ احمد الرفاعی کا مفصل ذکر کیا ہے۔ رفاعی سلسلے کی مقبولیت مالدیپ اور سراندیپ ہوتی ہوئی ملک دکن و ہند اور جزائر لکھن دیپ تک پہنچی۔ ابن بطوطہ نے مالدیپ کی رفاعی خانقاہوں اور اس سلسلے کے فقرا کا ذکرکیا ہے۔‘‘

(کئی چاند تھے سر آسماں، ص 742)

یہ اور اسی قسم کی بہت سی تاریخی اور ثقافتی معلومات سے ناول بھرا پڑا ہے۔ فاروقی صاحب نے فکشن نگاری کا آغاز افسانوی مجموعہ ’سوار‘ (2001) سے کیا تھا اور انجام ضخیم ریسرچ ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ (2006) پر کیا اور اپنی زندگی کا تمام مطالعہ ’زوال زدہ مغلیہ عہد کی تاریخ اور اردو- فارسی شاعری کے تغیرات کے انضمام سے کیا تھا لیکن یہاں فکشن کی روانی اور زبان کی توانائی مجروح ہوئی، کیونکہ فاروقی صاحب کی زبان تخلیقی کم، تنقیدی اور محققانہ زیادہ ثابت ہوئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ میں ’شب خون‘ کی مروجہ علامت نگاری اور تجرید یکسر غیرموجود ہے اور قصے کا سارا اسٹرکچر سادہ بیانیہ پر ٹکا ہوا ہے ،جس کو وہ ’پریم چندی بیانیہ‘ کہہ کر مذمت کیا کرتے تھے، افسوس کہ ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ میں وہی کمزوری حاوی رہی، جس کو فاروقی صاحب خود ناقابل تحسین قرار دے چکے تھے۔ الہ آباد کے ایک ادبی اجتماع میں خود انھوں نے شکایتاً کہا  تھا کہ

’’آج اردو ناولوں کی دنیا سمٹ گئی ہے۔ اطلاعات پر زیادہ لکھا جارہا ہے، لیکن اس سے بڑا سچ نہیں بنتا۔‘‘

(بحوالہ پروفیسر علی احمد فاطمی، دہلی، 2016، ص 50)

انتظار حسین، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر، قاضی عبدالستار اور شمس الرحمن سبھی یوپی کے پرانے جاگیردارانہ اردو کلچر کے پر وردہ تھے اور اسی لیے انھوں نے اہم کلچرل ناول تخلیق کیے۔ اسی کلچرل تخلیقیت کو اگلی نسل کے فکشن نگار سید محمد اشرف (پ 1957) نے اپنے ناول ’آخری سواریاں‘ (2016) کے ذریعے آگے بڑھایا۔

کہانی کا راوی اپنی بیوی سے اپنے پر دادا کا روزنامچہ اور بیوہ کا ذکر کرتا ہے۔ اس روزنامچے میں عہد وسطیٰ کی جنگی فتوحات اور بالخصوص مغل خاندان کے عروج کا عقیدت مندانہ تذکرہ کیا گیا ہے اور اس عہدکی گنگا جمنی  ثقافت کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر

’’ہمارے ملک میں خوشبو کا شوق ہمیشہ سے ہے۔ … جائفل، دارچینی، لونگ، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، یہ سب اشیائے خوردنی اپنے دیگر خواص کے ساتھ ساتھ خوشبو کا وصف بیش از بیش رکھتی ہیں۔ لگانے کی خوشبو یعنی عطر مختلف علاقوں کے ہوتے ہیں، مشک کشمیراور دیگر پہاڑی علاقوں کے ہرن کے نافے سے حاصل ہوتا ہے۔ عود عربوں کو بہت پسند ہے۔ عنبرمچھلی سے حاصل ہوتا ہے اور ساحلی علاقوں سے ہمارے پاس آتا ہے۔ خس کی جھاڑی ہوتی ہے۔ کیوڑے کی بال ہوتی ہے۔ یہ سہسوان میں بہت ہوتا ہے۔ گلاب اصلاً ایران کا عطرہے۔ عطر گل مٹی کے برتنوں کو ابال کر کشید کرتے ہیں۔ حنا لکھنؤ میں بہت اچھا بنتا ہے لیکن اس کے مصالحے ملک کے مختلف حصوں سے منگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح شمامہ بھی مختلف مصالحوں سے مل کر بنتا ہے۔‘‘

(آخری سواریاں، دہلی، 2016، ص 157)

’آخری سواریاں‘ میں یوپی کے گاؤں کے بیرونی ہندو- مسلم کلچر کے انسانی مظاہر کے زیرسایہ ایک معصوم سی عشقیہ واردات بھی پہلو بہ پہلو چلتی ہے لیکن پرانی ثقافت کے جمالیاتی و انسانی پہلوؤں کے خاتمے اور اس معدوم ہوتی ہوئی ثقافت کے تحفظ کا جذبہ سید محمد اشرف کے یہاں بھی قرۃ العین حیدر اور شمس الرحمن فاروقی کے فن پاروں کی طرح ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزوں کے رحم و کرم پر روز و شب بسر کرنے والے بے کس بادشاہ ظفر کی ہزیمت و ذلت کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کے بجائے سید محمد اشرف بادشاہ کے دسترخوان کا منظر بیان کرتے ہیں

کہاریاں، کشمیر میں دوڑیں، نعمت خانہ کھڑا کیا، خاصے والیوں نے پہلے سات گز لمبا، تین گز چوڑا، چمکیلا چمڑا بچھایا، اس پر سفید دسترخوان، خاصے کے خانے چوکی پہ لگائے گئے کھانا چنا گیا۔

چپاتیاں، پھلکے، روغنی، برئی، بیسنی، خمیری نان،  شیرمال، گاؤدیدہ، کلچہ، باقرخانی، بادام، پستے، چاول، گاجر اور مصری کی روٹی، نان پنبہ، نانِ گلزار، نانِ قماش، نانِ تنکی، نان خطائی۔ یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نرگس پلاؤ، سبزی پلاؤ، انناس پلاؤ، نکُتی پلاؤ، فالسی پلاؤ، آبی پلاؤ، زمردی پلاؤ، زعفرانی پلاؤ، مُزعفر، طاہری، زردہ، سوئیاں، من و سلوا، یاقوتی، فرنی، بادام کی کھیر، کدو اور کنگھی کی کھیر، نمش، شاخیں، کھجلے، قتلے، دودھ کا دُلمہ، بینگن کا دُلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال،کباب  سیخ، شامی کباب، گولی کباب، تیتر، بٹیر، لوزات خطائی، حلوے، مربّے، بادام، پستے،خشخاش اور سونف کی نقل، موتی پاک، دُربہشت۔‘‘

(آخری سواریاں، دہلی، ص 193)

یہ اور اس قسم کی مزید کلچرل معلومات ہیں جنھوں نے کئی مقامات پر قصے کو بوجھل بنا دیا ہے اور واقعات کی روانی کو گزند پہنچائی ہے۔ اس قسم کی تفصیلات ’گزشتہ لکھنؤ‘ جیسی تاریخ کے لیے موزوں ہوسکتی ہیں، فکشن کے لیے نہیں۔

انیس اشفاق تنقید سے فکشن کی راہ پر آئے ہیں۔ ان کا کلچرل ناول ’خواب سراب’ 2017 میں منظرعام پر آیا تھا۔ اس میں ’امراؤ جان ادا‘ (1899) کو بنیاد بنا کر پرانی لکھنوی ثقافت کی عکاسی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر لکھنؤ کے معروف حاجی مراد علی عرف ٹنڈے کبابی، اپنے کبابوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ قصے میں محرم کی رسومات کا ذکر بھی بڑی وسعت کے ساتھ کیا گیا ہے، لیکن ہولی اور دیوالی یکسر ندارد ہیں۔

ایک مقام پر انیس اشفاق رقم طراز ہیں

’’میرے پاؤں اٹھتے رہے اور میں گومتی کے کنارے چلتا رہا۔ چلتے چلتے میں نے سوچا اسی طرف سے نجم النسا عرف امراؤ جان کے بابا کا بجرا دلکشا کی طرف جاتا ہوگا۔ جہاں میں تھا اسی کے آگے بیگم کوٹھی تھی، جس کے احاطے میں غدر سے کچھ پہلے شرف النسا نے ایک امام باڑہ اور مسجد بنوائی تھی۔ شرف النسا، نصیرالدین حیدر کی انگریز بلکہ ولایتی بیگم کی بڑی بہن تھیں۔ بیگم کوٹھی کے آگے دریا کے بالکل قریب سعادت علی خاں کی بنوائی ہوئی کوٹھی فرح بخش تھی۔ اسی نواح میں ان انگریز افسروں کی قیام گاہیں بھی تھیں جنھوں نے اودھ کی حکومت کو ٹھیک سے چلنے نہیں دیا تھا۔ ریزیڈنٹ نے جب ریڈنسی میں رہنا شروع کیا تو یہ تین منزلہ عمارت ریزیڈنسی کہلائی۔ یہاں طعام خانے، چوکیاں، توپ خانے اور ہسپتال، ڈاک خانہ، گرجاگھر، جیل خانہ اور مطبخ، جانورخانہ، باغات، فوارے اور بہت کچھ تھا۔ میںاس زمانے کے اس فرنگی شہر میں گھوم گھوم کر کھنڈر بن جانے والے حصوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا، غدر میں کیسا گھمسان کارن پڑا ہوگا یہاں!‘‘

(خواب سراب، لکھنؤ، 2017، ص 202)

متذکرہ بالا پانچ ناولوں کی زمرہ بندی یہاں ’کلچرل ناول‘ کے طور پر کی گئی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر اچھا ناول ایک گھنے جنگل کی طرح ہوتا ہے جس کی اندرونی ساخت کو سمجھنا، اس کے بنیادی تھیم تک پہنچنا اور کرداروں کی داخلی نفسیات کو پہچان پانا ایک دقت طلب اور تفصیل طلب مرحلہ ہے۔ ایک مختصر مقالے میں کسی اہم ناول کے ایک سے زیادہ پہلو کا احاطہ کرنا خاصا دشوار ہے۔ یہاں متذکرہ پانچ ناولوں میں پرانی جاگیردارانہ ثقافت کی نشاندہی کرنے کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ ان کے مصنّفین پرانے کلچر کے تئیں ایک قسم کی ناسٹلجیا کے دباؤ میں تھے، جس کی بنا پر بار بار وہ معذرت آمیز لہجے میں سنہرے ماضی Glorious Past کا سہارا لیتے ہیں۔ گویا

ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

تاہم ان ناولوں کو صرف کلچرل ناول قرار دے کر مباحثے کو ختم کردینا، ان مصنّفین کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ یہ سبھی اردو کی نئی تخلیقیت کے نمائندہ شاہکار بھی ہیں اور پرانی ثقافت کے علاوہ پرانی اور نئی زندگی کے سیکڑوں گوشوں کو منور بھی کرتے ہیں اور ع

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے


Prof. Khalid Ashraf

4414/7, Darya Ganj

New Delhi- 110002

Mob.: 8800489012

اردو صحافت کی تین بھولی بسری خاتون اور قومی تحریک آزادی:اسعد فیصل فاروقی


اردو صحافت کی تین بھولی بسری خاتون اور قومی تحریک آزادی

اردو میں نسائی صحافت کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوتا ہے،جب آگرہ سے’مفید عام‘ نام کا پندرہ روزہ اخبار فروری 1869 میں احمد خاں صوفی کی ملکیت میںجاری ہوا۔ایک عام معلوماتی اخبار ہونے کے باوجود، مفید عام اپنے دیگر ہم عصروں سے اس لیے منفرد تھا کہ اس نے اپنے آٹھ نکاتی مقاصد میںنسائی مضامین کو بھی ترجیحی بنیاد پر شائع کرنے کا اعلان کیا۔ پندرہ روزہ ’مفید عام‘ کاتذکرہ اختر شاہنشاہی میں بھی درج ہے نیز علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بابت 19مارچ 1869کے پرچہ میں بھی اس کا اشتہار شائع ہوا۔ اختر شاہنشاہی (1888) کے مطابق ’’ مدارس دختراں کے واسطے بہت عمدہ عمدہ مطالب و مضامین مفید عام میں لکھے جاتے ہیں،جس سے فی الواقع یہ اخبار اسم بامسمی ہورہا ہے۔‘‘ مفید عام کی اشاعت کے پندرہ برس بعد 5مارچ 1884 کولکھنؤ سے مسیحی مشنری،پادری کریون نے’رفیق نسواں‘ کے نام سے ایک نسوانی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کی مدیرہ مسز ہیڈلی تھیں اور یہ میتھوڈسٹ پبلشنگ ہائوس سے شائع ہوتا تھا۔

 اردو میں نسائی صحافت کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک پورے ملک(ہندو پاک) سے جاری ہونے والے نسائی رسائل و جرائد کی تعداد جہاں صرف نو تھی، وہیںبیسویں صدی کے آغاز (1901)  سے ملک کی آزادی (1947) تک یہ تعداد سو سے زائد تجاوز کرچکی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کامقصد خواتین میںتعلیم کو فروغ دینااور ان کی علمی،ادبی اورسماجی اصلاح کرنا تھا۔ اس زمانے کے چند اہم نسائی رسائل وجرائد جنھوںنے خواتین کونہ صرف متاثر کیا بلکہ سماج پر مثبت اثر ڈالا اور تبدیلی کی  ایک روش ڈالی،ان میں شریف بیویاں(لاہور، 1893)، معلم نسواں(حیدرآباد دکن، 1894)، تہذیب نسواں(لاہور، 1898)، خاتون (علی گڑھ، 1904)، پردہ نشیں (آگرہ، 1906)، عصمت (دہلی، 1908)، ظل السلطان (بھوپال، 1913) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جرائد خواتین کے اندر سے اندھی تقلید اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے میں بھی معاون بنے۔ ان جرائد نے خواتین قلم کاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا، ان کے اندر بیداری پیدا کی، ان کی ادبی تخلیقات کو جگہ دی اور،ان کے خیالات کو شائع کیا۔ ایسا نہیں کہ اس دور میں خواتین سے متعلق جو جرائد جاری ہوئے، وہ سب کے سب مو ضوعاتی طور پر صرف تعلیمی، سماجی، مذہبی اور اصلاحی ہی تھے، بلکہ ا ن کے علاوہ بھی،بیسویں صدی کے پہلے نصف میں چند ایسے اختصاصی تحریکی جرائدجاری ہوئے، جو موضوع کے اعتبار سے کلی طور پر سیاسی تھے اور جن کا مقصد خواتین میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور قومی تحریک آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانا تھا۔ البتہ ایسے جرائد اور ان کے مالکان اور مدیروں کو حکومت کا عتاب ضرور جھیلنا پڑا۔

ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں جہاں مردوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں خواتین نے بھی شانہ بہ شانہ ان کا ساتھ دیا۔ بیگم حضرت محل(1820-1829) ہوں یا رانی لکشمی بائی (1828-1856) یاپھر بی اماں (1850-1924)  ہوں یا نشاط النساء بیگم (1884-1937) ایسی خواتین مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے مردانہ وار طریقے سے ہندوستانی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ تاریخ صحافت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ اردو کی ایسی خاتون صحافیوں، قلم کاروں اور ادیبوں کا بھی حصہ رہا ہے،جنھوں نے اپنے قلم سے مختلف اردو اخبارات اور رسائل میں سیاسی و سماجی مسائل اور جنگ آزادی کے تناظر میں قومی سیاست پر مضامین تحریر کیے اور اپنے تخلیقی فن پاروں میں بھی انگریزی راج کے ظلم و ستم اور استبدادی رویے کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ ان میں چند اہم نام نذر سجاد حیدر (1894-1937)، زخ شروانیہ(1894-1922) ، رشید جہاں (1905-1952)، عصمت چغتائی (1951-1991) وغیرہ ہیں۔ اس طرح ان خواتین قلم کاروں اور صحافیوں نے ہندوستانی جنگ آزادی کی تحریک میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔

تحریک آزادی کے دوران چند خواتین مجاہدین آزادی ایسی بھی تھیں، جنھوں نے خود کے ا پنے سیاسی اور تحریکی جرائد جاری کیے اور ان کے وسیلے سے خواتین کے اندر تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعور اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن عام طور پر لوگوں کو ان کے اور ان کی خدمات کے بارے میں واقفیت نہیں ہے یا کم ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں ایسی ہی تین بھولی بسری مسلم خواتین مجاہدین آزادی اور ان کی صحافت پر گفتگو کی جائے گی، جن کی ادارت میں سیاسی جرائد اردو میں جاری ہوئے۔ ان جرائد کے وسیلے سے انھوں نے تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھایا، عورتوں میں خود اعتمادی پیدا کی، ان کے اندر سماجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا شعور بھی پیدا کیا،ان کو قومی یکجہتی اور امن کا پیغام دیا اور ان کو ان کی قومی ذمے داری اور فرائض کا احساس دلایا۔ ان اخبارات و رسائل نے آزادی کے بعد کے نئے ہندوستان میں خواتین کو کس طرح کی ذمے داری اداکرنی ہے اس پر بھی گفتگو اورمباحثہ کیا۔ ان خواتین میں بیگم خورشید خواجہ (1894-1921)  جو معروف کانگریسی لیڈر عبدالمجید خواجہ (1885-1964) کی زوجہ تھیں،نے علی گڑھ سے 1920 میں ہفت روزہ ’ہند‘ جاری کیا۔ کلثوم سایانی (1900-1987) کی ادارت میں 1942 میںبمبئی سے ہفت روزہ ’رہبر‘ نکلا۔ اور ہاجرہ بیگم(1910-2003)  نے 1945 میں ماہنامہ’روشنی‘ اپنی ادارت میں بمبئی سے جاری کیا۔

 یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ تاریخ ا ردو صحافت کے متعلق اب تک جو تحقیقی کام ہوئے ہیں، ان میںمذکورہ تینوںجرائد و رسائل کے بارے میں تذکرہ نہیں ملتا۔ تاریخ اردو صحافت کے محققین بشمول امداد صابری، عتیق صدیقی، اورڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی اپنے تحقیقی کاموں میںان جرائد کو موضوع گفتگو نہیں بنایا ہے۔ البتہ پروفیسر عابدہ سمیع الدین ( ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، پٹنہ 1990) اور ڈاکٹر جمیل اختر(اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، 2016) نے ثانوی ماخذ کو بنیاد بناکر ہفت روزہ ’ ہند‘کا رسمی تذکرہ تو کیا ہے، لیکن ان کے یہاں ’رہبر‘ اور’روشنی‘ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ ذیل کی سطور میں ان تین گمنام خواتین مجاہدین آزادی کی قومی اور صحافتی خدمات کا معروضی محاکمہ ان کی ادارت میں جاری ہوئے جرائد کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین کوان خواتین صحافیوں کی جنگ آزادی میں کردارکے بارے میں معلوم ہوسکے۔

بیگم خورشید خواجہ اور ان کا اخبار ہفتہ وار’ ہند

بیگم خورشید خواجہ ہماری جدوجہد آزادی کا ایک نمایاں چہرہ تھیں۔ وہ 1894 میں نواب سربلند جنگ حمیداللہ خاں کے یہاں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ممتاز آزادی پسند اور قوم پرست رہنما عبدالمجید خواجہ سے ہوئی تھی۔عبدالمجید خواجہ نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف گاندھی جی کی عدم تشدد کی مزاحمت کی فعال حمایت کی تھی۔ بیگم خورشید خواجہ نے اپنے شوہر کے ساتھ جدو جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔انھوں نے علی گڑھ سے ایک اردو ہفتہ وار ’ہند‘ جاری کیا تاکہ مسلم خواتین کو جدوجہد آزادی میں حصہ لینے اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ علی گڑھ میں انھوںنے آزادی کی جدوجہد، خاص طور پر سودیشی تحریک میں بھی جوش و خروش سے حصہ لیا، اور1920 میں علی گڑھ میں کھادی بھنڈار بھی قائم کیا تھا۔  انھوں نے مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی انتھک کوششیں کیں اور 1932 میں الہ آباد میں حمیدیہ پرائمری اسکول قائم کیا، جو 1975 میں حمیدیہ ڈگری کالج بن گیا۔ بیگم خورشید خواجہ کا انتقال جولائی 1981 کو ہوا۔

ہفتہ وار ہند کی ادارت

ہفتہ وار’ہند‘ایک اہم قوم پرست اردواخبار تھا، جو جدوجہد آزادی کے پس منظر میں شائع ہوتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سیاسی اخبار تھا، جسے ایک مسلمان خاتون بیگم خورشید خواجہ نے ایڈٹ کیا تھا۔اس ہفتہ وار نے خواتین میں علمی بیداری کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہندوستانی مسلم خواتین کی رائے کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اس اخبار کے وسیلے سے مسلم خواتین کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا اور یہ بتایا کہ وہ اس اخبار کے وسیلے سے اپنے قومی احساسات اور جذبات کو پیش کر سکتی ہیں۔ اس اخبار میں خواتین کی تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے پر بھی توجہ دی گئی۔ یہ 16 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا،اور اس میں مضامین اور خبریںتین کالم میںدرج ہوتی تھیں مطبع ملیہ میں بہ اہتمام علی محمد خاں چھپتا اور دفتر ہند سے سعید الدین خاں پبلیشر شائع کرتے تھے۔ اس اخبار کی قیمت سالانہ چھ روپیہ اور سہ ماہی دو روپیہ تھی۔

 ہفتہ وار’ہند‘ کا سرورق دو حصوں میں منقسم ہوتا تھا، اوپر کا  نصف حصہ یعنی ماسٹ ہیڈ ٹائٹل سے مزین ہوتا تھا۔ ٹائٹل میں ہندوستان کا نقشہ اور دائیں بائیں (گجرات اور آسام ) حصے میں کانگریس کانقشہ مع چرخہ چھپا ہوتا تھا نیز پیٹ میں جلی حروف میں اخبار کانام ’ہند ‘ اور اس کے اوپر’ اللہ اکبر‘ درج ہوتا تھا نیز اس سے اوپر سورج کی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ا وپر دائیں اور بائیں دونوں کناروں پریہ اشعار درج ہوتے تھے۔ع

خدا نے آج تک  اس قوم کی حالت نہیں  بدلی

 نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

مذہب  نہیں  سکھاتا  آپس میں  بیر رکھنا

 ہندی ہیں ہم  وطن  ہے ہندوستاں   ہمارا

 سرورق کے نیچے کے حصے میں آزادی کے متوالوں کی نظم پیش کی جاتی تھی،دراصل ہفتہ وار ہندایک سیاسی اخبار تھا جس کا مقصد خواتین میں سیاسی اور علمی بیداری کو تحریک دینا اور ان کو عالمی طور پر ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا تھانیز ان کے اندر جدوجہد آزادی کے تئیں جذبہ بیدارکرنا تھا۔ اخبار کے صفحات پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سیاسی قلمی کاوشیں جابہ جا دیکھنے کو ملتی تھیں، جن کو’’ عالم نسواں‘‘ کے عنوان سے ایک علیحدہ گوشے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ نیز یہ اخبار دیگر قومی اخباروں اور رسائل سے بھی سیاسی مضامین اخذ کرتا تھا مثلاًمسلم آئوٹ لک، لاہور، جوہر، زمانہ،کانپور،ہمدم، وکیل وغیرہ۔

ہند‘ کی اولین جلد کے شمارہ نمبر 16بابت27 ستمبر1922 میں جو مشمولات درج ہیں ان میں افادات آزاد ( نظم مولانا آزاد سبحانی)،ایڈیٹوریل مشرق قریب، انور پاشا، انگورہ کی فوجی مدد، اکالی سکھ، ہمارے اعتدال پسند، مولانا رشید احمد صاحب کی وفات(خورشید خواجہ)، کوائف، عالم نسواںبہنوں سے دو دو باتیں، زنانہ دعا و نماز شکریہ سولن میں(نذر سجاد حیدر)، سوراج کب ملے گا (رضویہ خاتون )،’اوبرا مرگائو‘ یوروپ کی عیسائیت سے وابستگی کا خلوص (م ح ف )، اصلی اور نقلی مجنوں، باسفورس اور درہ دانیال کی آزادی، رئیس وفد عرب فلسطین کا خط عالی جناب سیٹھ چھوٹانی کے نام،ایڈیٹر چہرہ نما (فارسی اخبار )سے ملاقات( مسلم آئوٹ لک لاہور، بحوالہ کانگرس )، یونانی مظالم کی دردناک داستاں (ایک فرانسیسی جریدہ نگار کے قلم سے، بحوالہ زمانہ )، غازی مصطفے کمال پاشا اور درہ دانیال و شا ح زریں( بحوالہ ہمدم)،  ہندوستان کی مشہور درسگاہیں( جناب سعید متعلم تاریخ،  بحوالہ جوہر)، بعد از انکشاف ( بحوالہ وکیل )صلح جویوں کی آزمائش،انقلاب امریکہ پر ایک اجمالی نظر مصطفے کمال پاشا، تازہ خبر، بلوہ ملتان مراسلات،مکتبہ جامعہ ملیہ علی گڑھ، اشتہارات:

اسی طرح جلد ۱شمارہ 28 بابت20 دسمبر1922 میں درج تحریروں کے عناوین یہ ہیں نظم(رشحات جو ہر )، اڈیٹوریل، برقیات، عالم نسواں، شری متی پاربتی ہندوستانی خاتون پرزور،شری متی پاربتی جی کا پر جوش تحریری بیان، مسئلہ مشرق قریبہ، ہندوستان کا دور جدید، اقتباسات:

 ہفتہ وار’ہند‘کے27ستمبر 1922کے پرچے میں ’افادات آزاد‘ کے عنوان سے مولانا آزاد سبحانی کی نظم شائع ہوئی،جس کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے        ؎

کبھی یہ گھر بھی تھا آباد یعنی عشق کا گھر تھا

تمھیں تم دل میں تھے او ر غیر یعنی میں بھی باہر تھا

خوشا  ایام  وصل  و  کامرانی جب کہ جان من

ترا  در  تھا  میر ا سر  تھا  ترا سر  تھا  مر ا د ر  تھا

گرا  قصر  تمنا  ایک  آہِ    نامرادی    میں

 جو  قصر  آہنیں سمجھا  گیا  تھا  ریت کا گھر  تھا

حر یفو  خوش  نہ  ہو  یہ گردش  چشم زمانہ ہے

کبھی  اس  آ ستان  ناز  پر  اپنا  بھی بستر  تھا

مبارک تم کو  عیش  و  کامرانی  اہل  خوش بختی

گوارا  کرلیا  ہم نے  بھی  جو  اپنا  مقدر  تھا

گل افتادہ رکھ کر سامنے بلبل یہ کہتی تھی

ابھی یہ نو بلادیدہ ذرا پہلے گل تر تھا

ہوس کاری  نے کھودی آبروئے عشق  دنیا سے

 یقین  مانو  مقام عشق  اس  سے  پہلے  برتر تھا

جہان دل کی قطع راہ  اک تفسیر  وحدت  تھی

کہ  دل ہی راہ  تھا  رہرو تھا  اور رہرو کا رہبرتھا

کہاں تک کوئی سنتا سننے والے تھک اٹھے آخر

   ترا  آزاد  اک  حرف الم  طو مار  دفتر تھا

 پرچے کے اڈیٹوریل اور مضامین کو پڑھ کر مدیرہ کے سیاسی فہم وادراک کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ خورشید خواجہ نہ صرف ایک قوم پرست بلکہ ایک منجھی ہوئی سیاست داں تھیںاوراپنے وقت کے قومی اور بین الاقوامی واقعات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔

جیسا کہ اس ہفت روزہ کا ایک مقصد خواتین کے اندربھی سیاسی فہم وشعور اورجدوجہد آزادی کا جذبہ بیدار کرنا تھا اسی وجہ سے مدیرہ ’ عالم نسواں‘ کے گوشے کے تحت ’بہنوں سے دو دو باتیں ‘ کے عنوان سے خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کرتی اور ان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے شوق اور حوصلہ دلاتیں تاکہ ہماری خواتین قومی سیاست سے متعلق مضامین لکھنے کے لیے آمادہ ہو سکیں، مدیرہ 27 ستمبر 1922 کے پرچے میں ’دو دو باتیں‘ کے تحت رقمطراز ہے:

’’اس عرصہ میں اگرچہ عدم موجودگی کی وجہ سے اخبار اور بالخصوص عالم نسواں پر اس قدر توجہ نہ کرسکی جیسی کہ ضرورت تھی لیکن یہ سمجھتی تھی کہ فتح سمرنا کی خوشی میں اکثر مضامین بہنوں کے موصول ہوں گے اور بالخصوص نظمیں اس لیے کہ اس سے قبل خلاف توقع اکثر نظمیں آتی تھیں لیکن اس مرتبہ ایسانہ ہوا۔

آئندہ ہفتہ میں ملک کے مسلمہ لیڈر مہاتما گاندھی کے سالگرہ اگرچہ میری غیر حاضری کے سبب خاص نمبر کا انتظام دشوار ہے لیکن چاہتی ہوں کہ بہنیں ضرور اپنے صفحات کے لیے مہاتما کی سالگرہ کی تقریب میں خاص مضامین عنایت کریں اگرچہ مہاتما گاندھی کے احسانات تمام عالم پر ہیں اور ہندوستان کا توکہ دمہ ان سے واقف ہے لیکن طبقہ نسواں بالخصوص ان کا ممنون احسان ہے۔

اخبار انڈپنڈنٹ الہ آباد کی حق پسندی نے شیخ مبشر حسین صاحب قدوائی کی تجویز حمایت انگورہ کو عملی جامہ پہنایا ہے اور اخبار موصوف نے تجویز کیا ہے کہ ایک مختصر فوج ہندوستانی مسلمانوں کے ترکوں کی مدد کے لیے روانہ کی جائے،اس سلسلہ سے بڑی مسرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ ہماری دو بہنوں یعنی بیگم قدوائی اور ان کی صاحبزادی نے بھی اپنے نام اس فوج میں بہ حیثیت نرس دیے  ہیں۔ اس اعلان کو بلا شبہ ہماری جدید قومی تاریخ میں ایک نایاب سمجھنا چاہیے۔ ‘‘  (مدیرہ) (ص6)

ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘میں’ ہند‘ کو  ہفت روزہ اخبار کے بجائے ماہانہ جریدہ لکھا ہے جو غلط ہے، دراصل ان کی رسائی اصل اخبار تک نہ ہو سکی تھی بلکہ ان کی اس معلومات کا ماخذ پروفیسر جمال خواجہ کا خط تھا۔ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین رقمطراز ہیں:

’’انھوں نے علی گڑھ میں ایک کھادی بھنڈار بھی قائم کیااور1921 میں علی گڑھ سے ہی ’ہند‘ نام کا ایک ماہانہ جریدہ بھی شروع کیا جس کی ادارت کے فرائض بھی انھوں نے خود ہی انجام دیے اپنے ایک پوسٹ کارڈ میں گاندھی جی نے انھیں لکھا تھا کہ وہ انھیںاردو میں اپنا سب سے پہلا خط لکھ رہے ہیں۔‘‘

(ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ، ص161)

امۃ الحمید خانم مرزا اپنے مضمون ’ زنانہ اخبارات ورسائل ‘ میں اس اخبار کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں

’’ہند سیاسی ہفتے وار اخبار محترمہ خورشید خواجہ صاحبہ کی ایڈیٹری میں علی گڑھ سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ سال بھر بعد اشاعت کا انتظام ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ سنا تھا پھر جاری ہوگا۔ معلوم نہیں کہاں تک ٹھیک ہے۔ سالانہ چندہ چھ روپے۔ خبریں، ایڈیٹوریل اور مضامین زیادہ ہوتے تھے۔ دوصفحے عالم نسواں کے عنوان سے نسوانی مضامین کے لیے مخصوص تھے جو خواتین کی عنایت سے بہ مشکل پر ہوتے تھے۔‘‘

تہذیب نسواں، لاہور 20 دسمبر1923، ص 839،)

قومی جنگ آزادی سے متعلق علی گڑھ سے جاری ہونے والے رسائل و اخبارات میں  ہفت روزہ ’ہند‘ کا شمار ایک اہم نیشنلٹ کے اخبار کے طور پر ہوتا ہے جس نے گاندھی جی کی سرپرستی میں آزادی کی تحریک کے لیے عوامی رائے بنانے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ خواتین کی حصے داری کو بھی ممکن بنایا اور ان کے خیالات اور آراکو بھی فوقیت سے شائع کیا۔

کلثوم سایانی اور ان کا پندرہ روزہ اخبار’رہبر

ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی گمنام خواتین میں کلثوم سایانی(1900-1987) کا نام بھی شامل ہے۔ وہ گاندھی جی کے قریبی رفیق اور ذاتی معالج ڈاکٹر رجب علی پٹیل کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر رجب علی پٹیل کا تعلق مسلمانوں کے سنی خوجہ جماعت سے تھا۔ کلثوم سایانی کی پیدائش 21اکتوبر 1900کو ہوئی۔ ان کا خاندان قومی سرگرمیوں کے لیے ممتاز تھا اس وجہ سے وہ بھی بچپن سے ہی قوم پرستانہ اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ان کی شادی ڈاکٹر جان محمد سایانی سے ہوئی تھی جو کہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رحمت اللہ سایانی (1847-1902) کے بھتیجے تھے۔ڈاکٹر سایانی خود بھی قومی تحریک میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے معالج خصوصی بھی تھے۔ انھوں نے کلثوم سایانی کو بھی قومی، سیاسی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔ کلثوم سایانی نے تعلیم خصوصی طور پر تعلیم بالغان میں اپنی دلچسپی کی وجہ سے اپنا زیادہ تر وقت بمبئی کے لوگوں کو چرخہ کلاسس میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے وقف کیا۔ وہ 1930 میں یونٹی کلب کی سکریٹری مقرر ہوئیں، جس کا مقصد عوامی شعور کو بیدار کرنا تھا۔انھیں 1938 میں کانگریس حکومت کی جانب سے قائم کردہ پہلی قومی پلاننگ کمیٹی کی خاتو ن رکن کے طور پر نامزد کیا گیا، انھوں نے اس موقع کا بہترین استعمال کیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت  اہم اقدامات اٹھائے۔انھوں نے گھریلو تعلیم کی اسکیم تیار کی اور مسلم خواتین کے درمیان کام کرنا شروع کیا۔ بیگم کلثوم سایانی نے بمبئی میں بی جی کھیر(1888-1957) کی قیادت میں قائم  1937  کی حکومت میں تعلیم بالغان کی جو کمیٹی بنی تھی وہ پہلے اس کی رکن کے طور پر نامزد کی گئیں اور بعد میں اس کی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔ وہ ہنسہ مہتا (1897-1995)کی گرفتاری کے بعد آل انڈیا ویمنس کانفرنس کی 1943 میں ایکٹنگ جنرل سکریٹری مقرر ہوئیں اور 1944 تا 1946 کے درمیان انھوں نے باقاعدہ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن،نئی دہلی کی آغاز سے ممبر تھیں۔اس کے علاوہ وہ ہندوستانی پرچار سبھا کی بھی شروع سے ہی ممبر رہیں، جس کے تحت انھوں نے متعدد تعلیمی لیکچر اور سمیناروں کا انعقاد کیا۔اور اس طرح  انھوں نے گاندھی جی کے مشن کو آگے بڑھایا۔

کلثوم سایانی نے آزادی کے بعدنئے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو کئی کمیٹیوں اور اداروں میں ممبر کی حیثیت سے جگہ دی، مثلاً جسٹس آف پیس، بچوں کی عدالت کی آنریری مجسٹریٹ، سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن، قومی یکجہتی کانفرنس، ریڈیو ایڈوائزری بورڈ، بمبئی اور فلم سنسر بورڈ بمبئی۔اس کے علاوہ انھوں نے تعلیم بالغان سے متعلق کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت کی۔وہ یونسکو کی تعلیم بالغان کی مشاورتی کمیٹی میں ہندوستانی کی نمائندہ تھیں۔ بیگم سایانی کو  1959 میں حکومت ہند نے پدم شری ایوارڈسے نوازا اور 1969 میں انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن کی جانب سے ان کو نہرو لٹریسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بیگم سایانی کا انتقال 28مئی 1987کو چھیاسی برس کی عمر میں ہوا۔

رہبر کا اجرا

1940 میں انھوں نے سادہ ہندوستانی میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’رہبر‘ جاری کیا۔ رہبر کے زیادہ تر مضامین سماجی، تعلیمی، اصلاحی اور سیاسی ہوتے تھے اس کا مقصد وہ لوگ جو نئے پڑھے لکھے ہیں، ان کو ہندوستانی زبان میں تعلیم دینا تھا۔یہ ایک قوم پرست اخبار تھا اور یہ اردو کے علاوہ دیو ناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی شائع ہوتا تھا۔ 16جنوری 1945 کو لکھے گئے خط میں گاندھی جی نے سایانی کو بیٹی کلثوم کے نام سے مخاطب کیا اور ان کے پندرہ روزہ اخبار کی تعریف کی۔ انھوں نے لکھا ’’ مجھے رہبر کا ہندی اور اردو کو متحد کرنے کا مشن پسند ہے، میں اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں‘‘۔ 1942 میں سیکڑوں مجاہدین آزادی جو کہ سیاسی قیدی کے طور پر ملک بھر کے جیلوں میں بند تھے، رہبر کا مطالعہ کرتے تھے۔  اس زمانے میں اس نے مختلف زبان بولنے والے سیاسی قیدیوں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم دی۔کلثوم سایانی نے پندرہ روزہ رہبر کو 20 برس 1940 تا 1960تک جاری رکھا اور وہ پوری طرح اس کی ادارت سے منسلک رہیں۔ رہبر کے وسیلے سے انھوں نے گاندھی جی کے ہندوستانی زبان کے نظریے کو فروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیم بالغان کے مشن کو بھی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

راقم الحروف کو پندرہ روزہ ’رہبر‘ کی جلد7 نمبر 15,15 فروری 1947 کے پرچے کا پہلا صفحہ ردی کی دوکان سے حاصل ہوا۔ اس کے سرورق کا جائزہ لینے پر یہ معلومات حاصل ہوتی ہے کہ یہ رسالہ دو کالموں میں ٹیبلائیڈ شکل میں چھپتا تھا۔ جس کی قیمت فی پرچہ ڈیڑھ آنہ تھی۔  سرنامے پر ’بالغوں کا پندرہ روزہ اخبار‘ اورپھر اس کے ذیل میں جلی حروف میں ٹائیٹل ’رہبر‘ درج ہے۔ اس کا مقصد نو آموز بالغوں میں تعلیمی اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانا تھا۔ رہبر کے مضامین ہلکے پھلکے ہوتے تھے اور ان کی زبان آسان ہندوستانی ہوتی تھی۔

 مذکورہ پرچے کا جائزہ لینے پر یہ پتا چلتا ہے، کہ اخبار کا آغاز’ نیک بات‘ کی سرخی سے ہوتا ہے، جس کے تحت یہ حدیث درج ہے’ عالم کی سیاہی کی بوند شہیدوں کے خون کے برابر ہے‘۔ اس کے بعد اپنی باتیںکے تحت قومی، سیاسی، اور سماجی خبریں درج ہیں۔ بیرسٹرآصف علی کے امریکہ میں پہلا سفیر مقرر ہونے کی خبر ہے نیز مولانا ابوالکلام آزاد کے وزیر تعلیم مقرر کیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک خبر سبھاش چندر بوس کے جنم دن پر لوگوں کی ہلڑ بازی پر ہے اور اس پر سخت اعتراض جتایا گیا ہے۔ بمبئی میں  ہوئے فساد پر بھی ایک خبر ہے، جس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اخبار میں خواتین کی اصلاح کے لیے مضامین بھی شامل ہیں۔

ہاجرہ بیگم اور ان کا ماہنامہ’ روشنی

ہاجرہ بیگم (1910-2003) کا تعلق رامپور کے ایک معروف خانوادے سے تھا۔ ان کی پیدائش سہارنپور میں 24دسمبر 1910 کو ہوئی۔ والد ریاست رام پور میں نائب تحصیلدار تھے۔ والدہ کا  انتقال بچپن میں ہوا۔ ابتدائی روایتی تعلیم گھر پر ہوئی1926 میں کوئنیز میری کالج، لاہور سے میٹری کولیشن کیا۔ پہلی شادی خاندان میں ہوئی لیکن شوہر سے نبھی نہیں اور انھوں نے 1932 میں طلاق لے لی۔ 1933 میں وہ اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ لندن گئیں جہاں انھوں نے مانٹی سوری کالج ٹیچرس کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ لندن میں وہ سجاد ظہیر(1899-1973) اور دیگر ہندوستانی طلبا کے ساتھ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئیں۔  واپس آنے کے بعد وہ کرامت حسین کالج، لکھنؤ میں ٹیچر انچارج کی حیثیت سے منسلک ہوگئیں جہاں ان کا تقرر ٹیچر انچارج جونیئر اسکول ہوا۔لکھنؤ میں ہی انھوں نے سجاد ظہیرکے ساتھ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے انعقاد کے لیے کام کیا۔اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کے لیے پی سی جوشی (1907-1980) کے ساتھ بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہی تھیں۔ 1935 میں ہی انھوں نے معروف کمیونسٹ لیڈر زیڈ اے احمد(1908-1999) کے ساتھ دوسری شادی کی۔یہ شادی سجاد ظہیر کے مکان پر ہوئی۔شادی کے فوراً بعد دونوں نے الہ آباد میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ ہاجرہ احمد نے پارٹی کے حکم سے انڈین نیشنل کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت بھی حاصل کی۔ اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرم ممبر کے طور پر بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہیں۔ اس خفیہ کام کرنے والوں کی ٹیم میں زیڈ اے احمد اور کنور محمد اشرف(1903-1962)بھی شامل تھے۔1936  میں انھوں نے کانگریس کے ماس کانٹیکٹ پروگرام کے تحت خصوصی طور پر خواتین کے لیے کام کیا اور 1937 کے ضمنی انتخابات میں سرگرم رول ادا کیا۔وہ کانگریس کے فیض پور، ہری پور اور رام نگر کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوئیں۔ 1940 میں ہاجرہ بیگم اور زیڈ اے احمد کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ہاجرہ بیگم نے 1940 میں آل انڈیا وومینس کانفرنس کی آرگنائزنگ سکریٹری کے طور بھی خدمات انجام دی۔و ہ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار’قومی جنگ‘ کی مستقل مضمون نگار تھیں۔ انھوں نے اس دوران ٹریڈ یونین تحریکوں اور خواتین کی تنظیموں میں نمایاں کام کیا،قومی یکجہتی اور امن پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا نیز پنڈت سندر لال کی رہنمائی میں امن دستوں میں شامل ہوکر فرقہ وارانہ فسادات ختم کرانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ آزادی سے قبل اور بعد میں ملک میںپیدا ہوئے فرقہ وارانہ حالات کا انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور پنجاب اور سرحدی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تدارک کے لیے دیگر خواتین کے ساتھ دورے کیے، علاقائی امن کمیٹیاں قائم کیں اور آپسی بھائی چارے کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران انھوں نے ہندوستان اور پاکستا ن میں پھنسی ہوئی خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے ساتھ بازیابی کروائی اور ان کو ان کے خاندان والوں تک بحفاظت پہنچایا۔ 1949 میں حکومت کے کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈائون میں ان کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ پانچ برس لکھنؤ جیل میں قید رہیں۔ ہاجرہ بیگم کا انتقال 20جنوری 2003 کو ہوا۔

 ماہنامہ روشنی کا اجرا اور اس کی ادارت

ماہانہ روشنی ہاجرہ بیگم نے بمبئی سے 1946میں جاری کیا تھا۔یہ انجمن خواتین ہند( آل انڈیا وومین کانفرنس) کا ماہانہ رسالہ تھا اور یونائیٹیڈ فائن آرٹ لیتھو، مازگائوں، ممبئی سے چھپتا تھا۔ یہ رسالہ 34 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس رسالے کا مقصد خواتین کو معاشی طور پرخود اختیار بنانا تھا اور اس کی اصلاح کی تدابیرکرنا تھا نیز ان کے اندر قومی معاملات سے متعلق سوجھ بوجھ پیدا کرنا تھا۔ تاکہ وہ بعد آزادی  ہندوستان کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔اس کی مجلس ادارت میں لیڈی راما رائو، بیگم معصومہ حسین علی خاں، مسز وجے لکشمی پنڈٹ، مسز رامیشوری نہرو، بیگم کلثوم سایانی اور راج کماری امرت کور شامل تھیں۔  ریختہ کی ویب سائٹ پر راقم الحروف کو روشنی کے تین پرچے دستیاب ہوئے ہیں، جن میں دو آزادی سے قبل کے اور ایک آزادی کے بعد کا ہے۔ان تینوںپرچوں کا معروضی جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ا س رسالے نے آزادی سے قبل اور بعد میں فرقہ وارانہ حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور خواتین کو سیاسی طور پر بیدار کر نے میں بھی اس کی کوششیں بہت نمایاں تھیں۔ ان شماروں کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف خواتین قلم کاروں کے مضامین ہی شامل ہوتے تھے۔

ہمارے سامنے جلد 1 کا شمارہ چار بابت اگست 1946  موجود ہے جس کا اداریہ ’کانفرنس کی نئی تجویزیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر نے انجمن خواتین ہند کی کانفرنس میں جو تجویزیں پاس کی ہیں ان پر گفتگو کی ہے نیز ہندوستان کے سماجی وسیاسی منظرنامے پر جو تبدیلی آرہی تھی، اس پر بھی روشنی ڈالی، اداریے کا یہ اقتباس دیکھیں:

’’آج ہندوستا ن میں صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی ہل چل نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں بھی ایک نئی بیداری پائی جاتی ہے جو ابھی تک آزادی کی لڑائی سے بہت دور رہتے تھے۔کارخانوںکے ضروری نہیں بلکہ کلرک،ڈسٹرکٹ بورڈ کے ٹیچر میونسپلٹی کے مہتر حتیٰ کی اینگلو انڈین اور عیسائی لڑکیاں، پولس اور فوج کے سپاہی تک نڈر ہوکر اپنی حالت بہتر کرنے کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ اسی طرح ایسی ریاستوں کے رہنے والے جو ابھی تک باقی ہندوستان کے رہنے والوں سے الگ رکھے جاتے تھے ایسا راج اپنی ریاستوں میں قائم کرنے کی تحریک کررہے ہیں۔جس میں ان کی بھی شنوائی ہو۔ جہاں ان کو اختیار دیے جائیں اور جہاں صرف راجہ اور نواب کی نادر شاہی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کے صلاح مشورے سے کام کیا جائے۔‘‘

 ایک مضمون ’ہماری غلہ کی دوکان‘ کے عنوان سے بھی اس شمارے میں شامل ہے، جس میں بڑودہ میں انجمن خواتین نے غریب لوگوں کے لیے راشننگ کا جو نجی طورپر انتظام کیا تھا اس کی تفصیل درج کی گئی ہے۔اسی طرح ایک مضمو ن صوبۂ بمبئی کی کوآپریٹو سوسائٹی کی تجویز پر ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی کوآپریٹو سوسائٹیوں سے خواتین کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور خواتین کو امپاور کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں کس طرح مدد کی ہے۔ اسی شمارے میں ایک مضمون معروف سماجی کارکن رامیشوری نہرو (1886-1966)  اور ان کے خواتین کے لیے اصلاحی کارناموں پر ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت اور ان کی تربیت پر بھی کالم ہے۔ خبروں کے تحت ریاست سانگلی میں میونسپلٹی اور دوسری چنی ہوئی کمیٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی پر بات کی گئی ہے۔ایک مضمون ’اٹلی کی عورتیں‘ کے عنوان سے بھی شامل ہے۔

روشنی کے جلد2 نمبر1، 2 بابت مئی جون 1947 کے پرچے میں اداریہ پنجاب میں فساد پر ہے جس میں انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہ جس طرح خواتین کو زود کوب کیا گیا ہے وہ ہندوستانیوں کے لیے افسوس ناک بات ہے۔ تقسیم کے وقت فسادات میں سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوئے۔ہاجرہ بیگم اس سے بہت متاثر تھیں۔ وہ اپنے اداریے میں لکھتی ہیں

’’جو نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ تو یہی کہ آج کی سیاست ہماری ترقی،تعلیم، سماج سدھار، قومی ایکے اور سیاسی آزادی کی سب ہی سوالوں کودن بہ دن زیادہ مشکل بنائی جارہی ہے اور ہمارا عزم کہ ہم ہندوستان کی عورتوں کو ایک مضبوط کڑی کی باندھ دیں گے اور اس کا سلسلہ دنیا کی عورتوں کی تحریک سے ملادیں گے۔روز بروز زیادہ دشوار ہوتا جارہاہے۔ مگر ہماری انجمن نے عورتوں کی خدمت اور امداد،ان کی تنظیم اور آزادی کا کام جو ہاتھ میں  لیا ہے۔اس کو ہم نہ چھوڑیں گے ہندوستان ہو یا پاکستان ہو۔عورت ذات کی مجبوریاں اور ضرورتیں بدستور قائم ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش ہم جاری رکھیں۔

پنجاب کی دکھی عورتوں کے ساتھ ہماری گہری ہمدردی ہے ساتھ ہی ہم اپنی ان بہادر بہنوں کو مبارک باد دیتے ہیں جو کہ نفرت اور انتقام کے جذبوں سے بالاتر ہیں۔وہ سیکڑوں مسلمان بہنیں جنھوں نے اپنی جان پر کھیل سکھ عورتوں اور بچوں کو پناہ دی اور ان کی امداد کی، وہ ہمت والی سکھ اور ہندو عورتیں جنھوں نے مسلمان مرد اور عورتوں کی جان اور عزت کو بچایا۔

ہماری انجمن کی بہنیں پنجاب میں اب بھی پوری تند ہی سے کوشش کررہی ہیں کہ پنجاب کی عورتیں سمجھ جائیں کہ آپس میں لڑوانے والا کون ہے اور ہندو مسلمان اور سکھ کی لڑائی سے کس کی طاقت مضبوط ہوتی ہے، تاکہ ان کا غم اور غصہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردینے کی بجائے مل کر اپنے دشمن سے لڑنے پر تیار کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش نؤبے کار نہ جائے گی اور پنجاب اور ہندوستان بھر میں وہ اس ایکے کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جس کے بغیر ہم اپنے پیروں پرکھڑے نہیں ہوسکتے اور ملک کوصحیح معنوں میں آزاد نہیں کرواسکتے۔‘‘

 اسی پرچے میں معروف سماجی مصلح اور مجاہد آزادی کملا دیوی چٹوپادھیا (1903-1988) کا ایک مضمون بعنوان ’انجمن کو کیا کرنا ہے؟‘شامل ہے، جس میں انجمن کے مقاصد کے بارے میں درج کیا گیاہے اور اس کو عملی طور پر فعال بنانے کے لیے اقدامات بتائے گئے ہیں۔ ’پنجاب کے فساد اور ہمارا کام‘ کے عنوان سے ایک تحریر پورن مہتا کی بھی ہے۔ چوڑیاں بنانے والی کے عنوان سے ایک مضمون حسنہ بیگم انصاری کا ہے، جس میں انھوں نے ان خواتین کی حالت زار اور ان کی غربت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو اس صنعت سے وابستہ ہیں نیز ا ن کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی جانب اقدام کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا جائزہ ہے۔ ایک مضمون ’کرناٹک میں کستوربا فنڈ کا کام‘ اومابائی کنڈا دیوی کا ہے۔ آخیر میں تھیٹر کی معروف شخصیت اور پنجابی زبان کی معروف شاعرہ شیلا بھاٹیہ (1916-2008) کی ایک طویل پنجابی نظم ’ہندیو !بے خبرو‘ پیش کی گئی ہے۔

روشنی ‘آزادی کے بعد لکھنؤ سے شائع ہونے لگا۔ اس کا شمارہ 10، جلد 2 بابت فروری 1948 گاندھی جی کی شہادت پر خصوصی شمارہ تھا۔ جس میں مدیرہ ہاجرہ بیگم نے 8 صفحات پر مشتمل ایک طویل تعزیتی اداریہ گاندھی جی کی یاد میں تحریر کیا۔ مدیرہ نے اپنی اس تحریر میں گاندھی جی کی خواتین کو بیدار کرنے کی سمت میں جو خدمات رہی ہیں، اس پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی ہے۔مدیرہ اپنے اس اداریے میںرقمطراز ہیں:

’’ہندوستان کی عورتوں کو آزادی کی تحریک میں شریک کرنے میں گاندھی جی کا بڑا ہاتھ تھا۔ہر تحریک میں انھوں نے ملک کی رہنما خواتین کو اپنے مشوروں میں شریک کیا اور ان کے لیے خاص کام اور خاص جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔پہلی ستیہ گرہ کمیٹی میں مسز سروجنی نائیڈو اور انسوما بہن ان کی شریک تھیں۔ ہریجن کام میں مسز رامیشوری نہرو اور راجکماری امرت کور کو انھوں نے اپنے ساتھ رکھا،خلافت تحریک میں ہزاروں مسلمان عورتیں ان کا پیغام سن کر آگے بڑھیں اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوئیں کستوربا کے مرنے پر ان کی یادگار میں انھوں نے دیہاتی عورتوں اور بچوں کی امداد کا ادارہ قائم کیا۔ ہندوستان کی عورتوں کو انھوں نے سپاہی بننا سکھایا، دیش سیویکا بنا یا، وردی پہنوا کر میدان عمل میں لاکھڑا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی عورتیں رورہی ہیں کہ ان کا ایک بڑا سرپرست اور معاون دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘

 ایک ایسے دور میں جب عام طور پر ہندوستانی مسلمان خواتین کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ وہ گھریلو ہوتی ہیں نیز ان کا کام خاندان کوسنوارنا اور ان کی خدمت کرناہوتا ہے،اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بیگم خورشید خواجہ، بیگم کلثوم سایانی اور ہاجرہ بیگم کی زندگیاں قومی آزادی کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔انھوںنے ا پنی روشن خیالی، اپنی قوت ارادی، اپنے عمل سے پرانی دقیانوسی رسوم وروایات کو توڑا اوراپنے جرائد اور اپنی صحافت کے وسیلے سے جدوجہد آزادی کی تحریک میںروشن مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف آزادی کی لڑائی میں پیش پیش رہیں بلکہ انھوں نے صنف نسواں میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری، اور شعور پیدا کرنے اور ان کو بااختیار بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

 

 ماخذ ات و حوالے

  1. نقوی،سید محمد اشرف، اختر شاہنشاہی، لکھنؤ، 1888
  2. صابری، امداد، تاریخ صحافت اردو، حصہ دوم، حصہ سوم،حصہ چہارم، حصہ پنچم، دہلی1953،1974، 1983
  3. خورشید، ڈاکٹر عبدالسلام، کاروان صحافت، انجمن ترقی اردو، کراچی، 1966
  4. ارشد، محمد(مرتب)،ہندوستانی صحافت۔ محمد عتیق صدیقی کے صحافتی مضامین، 2001
  5. فاروقی،محبوب الرحمن اور کاظم، محمد(مرتبین)، آج کل اور صحافت، پبلی کیشن ڈویزن، دہلی، 2000
  6. سمیع الدین، ڈاکٹرعابدہ،ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ،  ادارہ تحقیقات اردوپٹنہ1900
  7.  اختر،ڈاکٹر جمیل،اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، جلد اول، دہلی، 2016
  8. چندن، جی، ڈی، اردو صحافت کا سفر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی، 2007
  9. فاروقی، اسعد فیصل، علی گڑھ میں اردو صحافت، علی گڑھ،2016
  10. دہلوی، انور علی، اردو صحافت، اردو اکاڈمی، دہلی، 1987
  11.  ماہنامہ، تہذیب نسواں، لاہور 20 دسمبر 2913
  12. ہفت روزہ ’ہند‘، علی گڑھ( جلد۱،شمارہ نمبر 16 بابت27 ستمبر1922 )
  13. پندرہ روزہ ’’رہبر‘‘، بمبئی(جلد7 نمبر 15، بابت 15 فروری 1947 )
  14. ماہنامہ ’’روشنی‘‘، بمبئی، لکھنؤ( جلد ۱، شمارہ4،اگست 1946، جلد 2، شمارہ 1، 2، مئی جون 1947، جلد 2، شمارہ10، فروری 1948)
  15. https://www.s-asian.cam.ac.uk, interview Kulsum Sayani

 

Dr. Asad Faisal Farooqui

Dept of Mass Communication

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 9412595891

Email.: asadfaisalamu@gmail.com