28/12/23

گلزار دہلوی کا شعری انفراد:سجاد احمد نجار

 

پنڈت آنند کمار زتشی جو اردو دنیا، خاص کر اردو شعر و ادب، میں گلزار دہلوی کے قلمی نام سے معروف تھے 12 جون بہ روز جمعہ 94 سال کی طویل عمر پا کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔گلزار دہلوی کشمیری برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ولادت دہلی میں 1926 میں ہوئی۔ گلزار دہلوی کے والد پنڈت تر بھون ناتھ ’ زتشی زاردہلوی‘ کے بارے میں یہ بات کتابوں میں درج ہے کہ وہ داغ  دہلوی کے پہلے شاگرد رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ اور ماموں بھی شعرو شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔جن کا خاندان شعر و شاعری کے رنگ میں ابتدا ہی سے رنگا ہوا ہو ایسے میں اس خاندان کی نئی نسل کیسے اپنے آپ کو شعر و شاعری سے دور رکھ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلزار دہلوی کی زندگی اردو شعرو ادب کے لیے وقف ہوئی تھی اور اس کا ثبوت انھوں نے تا دمِ مرگ دیا۔ گلزار دہلوی کی زندگی کی کہانی میں طرح طرح کے رنگ سمائے ہوئے ہیں۔بچپن ہی سے محبِ وطن ثابت ہوئے اور وطن کے لیے نظمیں کہنے لگے۔

گلزار دہلوی نے شعر گوئی کا سفر 1933 کے آس پاس سے شروع کیا۔ شاعری میں انھیں پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، نواب سراج الدین خان اور پنڈت امرناتھ مدن ساحر وغیرہ کی شاگردی کا شرف نصیب ہوا۔ انھوں نے اردو شاعری کو اس انداز سے برتا کہ ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ بن گئی۔ گلزار کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر کا ایک خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً اردو شعر و ادب کے ایسے آخری بزرگ تھے جن کے یہاں تہذیبی تجربوں کے عمدہ نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مشترکہ تہذیب کے حسن و جمال اور خوبیوںکے اظہار کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ان کے یہاں امن و شانتی، بھائی چارہ اور مساوات کا عمدہ میلان پایا جاتا ہے۔ وہ ہر ایک مذہب کی ناموس کا خاص خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب وہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں تو تمام مذاہب کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں       ؎

خوابِ غفلت سے جوانوں کو جگانے کے لیے

جنگ  کے  فتنہ کو  دنیا سے مٹانے کے لیے

حامیانِ  امن  کی  اس بزمِ رنگا رنگ سے

ہر  عدوئے  امن کو  آیا ہوں میں للکارنے

مذکورہ اشعار گلزار دہلوی کی ایک طویل نظم ’ نغمۂ انسانیت‘ میں شامل ہیں۔ اس نظم میں وہ خدا، پیغمبر، اوتار، عیسیٰؑ، موسیٰ، قرآن، محمد صلعم، وید گیتا، رام، رحمان کے بعد باقی عظیم ہستیوں جیسے سوامی ویر، گرو نانک،گاندھی وغیرہ کی قسمیں دے کر اتحاد و اتفاق کی بات کچھ اس طرح سے کرتے ہیں           ؎ 

دہر کو پھر جنگ کے شعلوں پہ گرنے سے بچاؤ

اب  سفینہ آدمیت  کا کنارے سے  لگاؤ

متفق  ہو جا ؤ  دنیا  کو جگانے  کے لیے

دہر میں امن و اماں کے گیت گانے کے لیے

جب کبھی  یہ  نغمہ انسانیت کا گاتا ہوں میں

ہر  عدوئے  امن کو گلزار   شرماتا ہوں میں

ان کے یہاں ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی نقوش کی جو تصویریں ملتی ہیں ان کی مثال لا مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی کی ٹھیٹھ اردو ان پر آکے رکتی ہے۔ ان کے منفرد انداز اور فصاحت کے یہ نمونے دیکھیے     ؎

       تہذیب  اور تمدن  ایمان اور عقیدت

      قائم رہے گا سب کا امن و اماں رہے گا

      یہ وہ گلزار ہستی ہے یہاں دریا تو ملتے ہیں

       دلوں کی  موج کا لیکن کہیں سنگم نہیں  ملتا

    ایک  ہی نغمہ اذاں کا زمزمہ ناقوس کا

    سرد مہری کی فضا میں گرمیاں  پیدا کریں

گنگا جمنی تہذیب کے آخری سفیر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے گفتار و کردار کے ساتھ ساتھ اپنے کلام کے ذریعے بھی قومی اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب کی بقا اور اس کے فروغ کی نمائندگی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں ایسی بھی نظمیں ہیں جن میں عید، ہولی، دیپاولی، شب قدر، رمضان المبارک اور ہندوستانی موسموں کو اپنے خوب صورت اور دلکش اسلوب میں پیش کر کے اپنی انفرادی شان کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا ہے۔ گلزار دہلوی کی شاعری میں حیدر آباد، لکھنؤ، علی گڑھ اور کشمیر وغیرہ جیسی جگہوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان جگہوں کی تعریف میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے        ؎

چشمِ نرگس کی طرح وہ عشق کا بیمار ہے

ہاں علی گڑھ دہر میں تہذیب کا گلزارہے

دہر میں دائم رہیں اللہ اس کے رنگ و بو

لکھنؤ والو مبارک تم کوجشنِ لکھنؤ

چپہ  چپہ  گلشنِ کشمیر  کا  رنگین  ہے

کان قدرت کا یہ لعل بے بہا رنگین ہے

گلزار دہلوی نے غزل، نظم، نعت،منقبت، رباعی اور قطعہ وغیرہ میں طبع آزمائی کر کے اپنے کمالات کا خوب مظاہرہ کیاہے۔ ان تمام شعری اصناف میں انھوں نے ایسے تجربے پیش کیے ہیں جو ان کی انفرادیت قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔ گلزار ایک خاص لب و لہجے اور اندازِ فکر کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جمالیات، فطرتِ کائنات، حب الوطنی، قومی یکجہتی،مذہبی مساوات، سیکولرازم، عشق و عاشقی، عصری حسیت،وغیرہ جیسے مضامین کا انوکھا اظہار ملتا ہے۔

گلزار دہلوی نے اردو غزل اور نظم میں جہاں ایک طرف اپنے احساسات و جذبات کا بے ساختہ اظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب انھوں نے حمد،نعت، منقبت و مناجات کے علاوہ دوسرے مذاہب کی خوبیوں کو بھی پیش کر کے ہندستانی تہذیب کو پیش کیا ہے۔ کلیاتِ گلزار دہلوی میں قطعات و رباعیات بھی شامل ہیں اور ان کے موضوعات بھی وہی ہیں جو ان کی باقی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ یعنی ان کی رباعیات اور ان کے قطعات میں مذہبی، اصلاحی،جمالیاتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ملی، اور اس طرح کے دوسرے جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ موصوف اردو کی شان اور اس کی عظمت کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں         ؎

ادیان کے سنگم کا نشاںہے اردو

یکجہتی عالم کی  زباں  ہے  اردو

شائستہ تہذیب  جو مرکز  تھا کبھی

اس دلی مرحوم کی جاں  ہے اردو

گلزار دہلوی کو امیر خسرو کی ذات و صفات اور ان کی شعری کائنات کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا۔ وہ امر خسرو کے کلام کو حدیثِ خسرو کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور اس کی وضاحت تفسیرِ گلزار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے علاوہ گلزار دہلوی کو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ بھی گہری عقیدت تھی۔ اسی عقیدت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی کا استعمال کیا کرتے تھے۔گلزا ر دہلوی کے مراسم اردو کے بلند پایہ شعرا اور ادبا کے ساتھ ہے۔ ان فن کاروں میں قاضی عبدالغفار، خواجہ حسن نظامی، چکبست، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، پروفیسر نثار احمدفاروقی اورڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ شامل ہیں ان تمام ادبی شخصیات نے گلزار دہلوی کی شعری عظمتوں کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور بھی گلزار دہلوی کی انفرادیت کے قائل ہیں۔ وہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ میں تو آپ کی ادب دوستی، ذہانت، شاعری اور فن تقریر کا 1946 جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلورجوبلی  کے دور ہی سے قائل ہوں۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعرہی نہیںبلکہ اردو کے محسن ہیں۔ آپ اردوکے ممتاز اہلِ زبان کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ فن آپ کا خاندانی ہے۔علامہ زار زتشی دہلوی یادگار داغ اور  نواب سائل نے آپ کی تربیت کی ہے۔ گلزار دہلوی بجا طور پر ان کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں۔‘‘

(گلزارِ غزل، گلزار دہلوی، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،3)

گلزار دہلوی صحیح معنوں میں اردو شعرو ادب کے ایسے سالار تھے جنھوں نے تا دمِ مرگ اس زبان کے ادب کا ساتھ دیوانہ وار نبھایا۔  گلزار  دہلوی کی انتھک کوششوں کے صلے میں دلی سے کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ حکومتِ ہند نے سائنس کو عام فہم اور آسان بنانے کے ضمن میں ان کی ادارت میں ’’ سائنس کی دنیا‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ شائع کیا۔ یہ رسالہ بر صغیر ہندو پاک کا واحد ایسا رسالہ تھا کہ جو کسی اردو شاعر کی نگرانی میں نکلتا تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گلزار ایک منجھے ہوئے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ادیب، صحافی اور سائنس کے پاس دار بھی تھے۔

وہ اردو کے ایک سچے عاشق تھے۔ انھیں اس زبان سے بے پناہ محبت تھی اس کا اظہار ان کی اس رباعی سے خوب ہوتا ہے        ؎

دنیا  میں تو اونچا ہے کلامِ  اردو

عقبیٰ میں بھی اونچا ہے نامِ اردو

جب  حشر میں ہو نام شماری آقا

منظور کہ کہلاؤں   غلامِ  اردو

 میر مشتاق نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گلزار کو ’علامہ اور بابائے سائنسی صحافت‘ کا مقام حاصل ہے۔ وہ انھیں دلی کی اور اردو کی آبرو بھی سمجھتے ہیں۔تابش دہلوی انھیں ’نادر الوجودِ چمنستان‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا عتیق الرحمان عثمانی انھیں ’ اردو اور اردو والوں کی امانت‘ قرار دیتے ہیں۔مولانا احمد سعید اسیر دہلوی ان کو ’اردو کے شیدائی اور ادب کے فدائی‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔مولانا حفیظ الرحمٰن نے انھیں ’ اردو کا مرد، مجاہد‘ کہا ہے۔ خواجہ نظامی ان کو ’ چکبستِ ثانی‘ سے یاد کرتے ہیں۔ اس طرح کئی ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے گلزار دہلوی کی اردو ادبی خدمات کے اعتراف میں لب کشائی کر کے انھیں خراج پیش کیا ہے۔آفتاب عالم نائب ایڈیٹر روزنامہ ہندی’’نر بھے پتھک‘‘ گلزار کی شان میں کہتے ہیں:

 ’’ ...اے مجاہد اردو تیری کیا تعریف کروں، سچ مچ ہم نے سپنے میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کشمیری پنڈت بے لوث بے غرض طور سے اردو زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کے لیے اتنا کام کر سکتا ہے جتنا کہ پنڈت آنندموہن زتشی گلزار نظامی دہلوی نے اپنی ذات سے اکیلے ہی کیا...گلزاردہلوی اردو کے درخت ہیں جو سوکھ تو سکتے ہیں لیکن کبھی مرجھا نہیں سکتے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ میں اردو کی ایک انجمن ہیں تو کوئی غلط نہیں ہوگا۔‘‘

(گلزار دہلوی، گلزار غزل، مکتبہ الیوم دہلی، 2000، ص،39,40)

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو گلزار دہلوی ہر لحاظ سے منفرد رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کی کوششیں نہ صرف ملک و قوم کے لیے فیض رساں ہیں بلکہ وہ آنے والی نسل کے لیے راہِ عمل بھی ہیں۔گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک عجیب تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ اسی زبان کے گیت گاتے رہے اور ہمیشہ اس کے فروغ کے لیے منہمک رہے۔

آپ اردو سے اس قدر دیوانہ وار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس کے لیے ہر پل بے تاب نظر آتے ہیں۔ اردو کی شان میں جتنے اشعار گلزار دہلوی نے کہے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے اشعار پیش کیے ہوں۔ آپ انسانیت کے محب، قوم کے سپاہی، تہذیب و تمدن کے وارث، مذہبی رواداری کے عاشق اور اردو شعر و ادب کے شیدائی کے طور پر ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں مشہور ہیں۔ گلزار نے اردو شعرو ادب میں ایسی چھاپ چھوڑی ہے جس کو ہمیشہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے؟      ؎

میں وہ ہندو ہوں کہ نازاں ہیں مسلمان  جس پر

دل میںکعبہ  ہے مرے دل ہے صنم خانوں میں

جوش   کا  قول  ہے  اور  اپنا عقیدہ  گلزار

ہم  سا  کافر  نہ  اٹھا  کوئی  مسلمانوں  میں

 

Sajad Ahmad Najar

R/O Azad Colony Washbugh

Pulwama- 192301 (J&K)

Mob.: 9858667464

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...