30/9/24

نسل نو کی نفسیات: ہندوستانی معاشرتی تناظر میں، مضمون نگار: محمد علم اللہ

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024


نوے کی دہائی میں جنم لینے والی نسل آج جذباتی تنہائی اور اداسی میں گرفتار ہے۔عہد جدید میں وقت کی رفتار نے اشیاکو اتنا متغیر کردیا ہے کہ یہ پر تغیر حالات اور مشینی دنیا سے الگ خود کو ایلیئن اورکسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھنے لگی ہے۔جدید اصطلاح میں انھیں ’جنریشن می‘ (یعنی ’میری ذات پہلے‘ کی سوچ رکھنے والی نسل) کہا جاتا ہے۔ ان کی نفسیات، جذبات و خیالات، اور رویوں پر موجودہ زمانے میں کئی آرا  سامنے آرہی ہیں۔

اس موضوع پر ماہر نفسیات جین ٹوینج نے اپنی کتاب (جنریشن می) میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب 20ویں صدی کے اواخر اور 21ویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے افراد کے رویوں اور طرز عمل کو آشکارا کرتی ہے، جنھیں ہزار سالہ اور جنریشن زیڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ٹوینج کا استدلال ہے کہ یہ نسل، پچھلی نسلوں کے بالمقابل مختلف سماجی، معاشرتی اور ثقافتی عوامل، جیسے کہ والدین کے رویے، ٹیکنالوجی اور معاشی حالات کی وجہ سے زیادہ خود انحصار، اور انفرادیت پسند ہوتی ہے۔ اس کتاب نے نسلی اور زمانی فرق سے آنے والی تبدیلیوں اور رویوں کے بارے میں مفید بحث کی ہے، اور معاشرے پر اثر انداز ہونے والے اسباب سے باخبر کیا ہے۔

اس مضمون میں ہم اسی حوالے سے گفتگو کریں گے کہ ہندوستان کے معاشرتی تناظر میں ان کی نہ تو مناسب طریقے سے ہمت افزائی کی جاتی ہے اور  نہ ہی ان کی کوششوں کو سراہا جاتا ہے بلکہ عام طور پر انھیں غیر ذمے دار اور بے حس و بے فکر نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں اس حوالے سے ان نوجوانوں کے احساس و جذبات پر کئی مطالعات سامنے آئے ہیں، جس پر میڈیا کی دلچسپی لائق تحسین اور خوش آئند بات ہے۔

جدید تحقیق کے مطابق اس جنریشن میں بے مصرف پیسہ خرچ کرنے کی بری لت ہے، ساتھ ہی مادیت سے مرعوب اور خوف زدہ ہو کر یہ ڈپریشن کی بھی شکار ہے،جس کی وجہ سے  نئی نسل میں خود کشی کا میلان فروغ پا رہا ہے۔ مرکزی دھارے سے فرار اور بغاوت اس کی ضد ہے، روایتی طرز فکر سے اسے شدید نفرت ہے، یہ نسل تلخی تضاد اور تشدد کا آمیزہ ہے۔اس نسل کے افراد تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی معاشرے میں پلے بڑھے ہیں اور اپنے والدین اور دادا دادی کے برعکس خود بلوغت کے عبوری دور سے گزر رہے ہیں۔ نتائج میں یہ بھی کہا گیا کہ ترقی کے بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نسل خود کو جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھال بھی رہی ہے۔ تحقیقات کے مطابق بیس سال کی عمر کے یہ نوجوان نفسیاتی تبدیلیوں کے ایک اہم مرحلے سے گزر رہے ہیں جن کو استہزا سے زیادہ حمایت، تائید اور بے خوف بنانے کی ضرورت ہے۔

اس صدی کے آغاز میں، عوامی نفسیات میں بے شمار بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں اور سمجھنے اور حل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش امریکہ میں ہوئی ہے جس میں ابھرتی ہوئی بالغ نسل کے حوالے سے ایک نظریہ پیش کیاگیا ہے۔ اس بحث میں 18 سے 29 سال کی عمر کی اس نسل کو زندگی کے ایک نئے مرحلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً جنسی تغیر و تبدیلی، معیشت کی طرف منتقلی، ہائی اسکول سے فارغ اور بالغ ہونے کے درمیان فرق کا بڑھنا وغیرہ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ معیارات جو بالغ ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں (معاشی آزادی، مستقل ملازمت، اور شادی) ہر کلچر میں مختلف ہوتے ہیں اور اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے جہاں ایک طرف مغربی ممالک میں اس پر کافی کام ہو رہا ہے، مشرقی ممالک خاص طور پر ہندوستان میں اس پر تحقیقی کام اب شروع ہوا ہے۔

ہندوستان میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں نوے کی دہائی میں ترقی کے آغاز کے بعدسماجی اور ثقافتی میدان میں تیزی سے تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔ صنعت کاری اور جدیدیت کے طوفان کی وجہ سے اکثریتی طبقے پر اس کا خاصا اثر پڑا۔ امریکہ کی طرح، یہ رجحان ہندوستان میں بھی نظر آتا ہے۔ بنیادی طور پر ہندوستان کی آبادی کے متوسط اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے مالداروںمیں یہ رجحان تعلیم، اعلیٰ ملازمتوں، محبت اور شادی وغیرہ میں آزادی کی وجہ سے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ نسل بہتر مواقع کی تلاش میں بڑی تعداد میں دیہات سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں سماجی نقل وحرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ذات پات کے نظام کی گرفت بھی کسی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ یوں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس رویے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔

پچھلی دہائی میں متوسط ہندوستانی گھرانوں میں تبدیلی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے،  جس میں گلوبلائزیشن، شہرکاری اور بدلتے ہوئے سماجی ماحول کے مطالبات کے ساتھ، اس نسل کو بہت سے مشکل چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فکری آوارگی کے ساتھ ہی ساتھ منتقلی کے اس تجربے میں بنیادی تبدیلی بھی آئی ہے۔ مختلف ثقافتوں میں اس مرحلے کا سب سے بڑا پیرامیٹر اور معیار یہ ہے کہ جب تک بچے بڑے ہوتے ہیں، عمر کے اس مرحلے میں اپنی ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر تمام امور میں اہم فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ فیصلے ان کی مستقبل کی زندگی پر خوش گوار اثر ڈالتے ہیں، مادی کامیابی اور خوش حال زندگی گزارنے کی وجہ بنتے ہیں۔ کسی کی پسند کی وجہ سے کیے گئے فیصلوں میں اکثر کئی قسم کے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

تاہم اب مابعد سامراجی یورپ اس تغیر پذیر منظر نامے کے درمیان، ہندوستانی نوجوان اپنی شناخت، اور اس کی تلاش کے ساتھ ساتھ اپنے لیے نئی سوچ کا تعین کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں نیو کلیئر خاندانوں میں اضافے کی وجہ سے خاندانوں کا نظریہ بھی مختلف ہونے لگا ہے اورنئی نسل، والدین اور بچوں کے درمیان فیصلہ سازی کے عمل سے فاصلہ بڑھنے لگا ہے۔ اس حوالے سے وقت رہتے اس پر کام کرنے اور ان سماجی و ثقافتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نیز ہموار زندگی کے سفر کی قیادت کرنے کے اخراجات میں توازن پیدا کرنے کے لیے خصوصی مہارتیں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان میں اس بابت ایک حالیہ تحقیق کے مطابق نوجوان، زندگی کے اس مرحلے پر اپنے خاندانوں سے آزاد اور خود مختار ہونے کے باوجود، اپنے والدین کے تئیں اپنی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں.ان اخلاقی اقدار کو سب سے اہم سمجھتے ہیں اور اپنے فرائض منصبی خوش سلیقگی سے پورا کرتے ہیں۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنے والدین کے تئیں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ ماں باپ کے سلسلے میں روایتی طرز عمل کو پسند کرتے ہوئے،پرانے خیال کے ہو جاتے ہیں، ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، اور اپنی پسند کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے والدین کی دیکھ بھال کی ذمے داری سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہندوستان میں یہ طبقہ اپنی علیحدہ شناخت بنانے اور خود کفیل بننے کو ترجیح دیتا ہے۔ خود انحصاری کی طرف بڑھتے ہوئے بھی اپنے روایتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کا یہ رجحان ہندوستانی عوام کے تغیر پذیر منظر نامے کی بالکل درست اور حقیقی نمائندگی کرتا ہے۔

اس حوالے سے معاشی تحفظ، تعلیم اور کیریئر و روزگار کو بھی اس نسل نے اہمیت دی ہے۔ ایک بہتر مستقبل کے لیے معلومات پر مبنی معیشت، اعلیٰ درجے کی ڈگری، ذاتی نظریات اور بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی بہت سنجیدہ اور اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر اٹھائے گئے اقدامات لگتے ہیں۔ افسانوی ادب، عشق و عاشقی کا لٹریچر عام ہوا ہے، حقائق کی جستجو، اور مقاصد کی تلاش میں سرگرمی لائق اعتنا ہے، جو ہندوستانی شادیوں میں مغربی اور ہندوستانی طریقوں کے بڑھتے ہوئے مخلوط رجحان کو ظاہر کرتا ہے جو نوجوانوں کو اس طرح کے تعلقات میں اپنی بات رکھنے کی اجازت اور آزادی دیتا ہے۔ سماجی روایات اور مذہبی عقائد پر فعال طور پر عمل کرنے کے بجائے نوجوان والدین،معاشی تحفظ، تعلیم اور کیریئر کے لیے اپنی ذمے داریوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ حالانکہ کئی لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ نتائج سامراج کے بعد کے عالمگیر دورکی نشاندہی کرتے ہیں جس میں یہ لوگ رہتے ہیں۔

تاہم ان نتائج کو صحیح سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔متعدد تحقیقات بتاتی  ہیں کہ اب بھی دیہی علاقوں اور دور افتادہ گاؤں اور بستیوں میں رہنے والے بہت سے نوجوان ہندوستانیوں کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ جس سماجی و اقتصادی تناظر میں یہ نسل پروان چڑھی ہے اور جس طرح ان کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور گلوبلائزیشن تک رسائی ہے، وہ انھیں پچھلی نسلوں اور اپنے زیادہ تر دیہی ساتھیوں سے بہت مختلف بناتا ہے۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نسل کے لیے ان سب کا کیا مطلب ہے؟ مغرب کے مقابلے میں ہندوستان میں ابھرتی ہوئی یہ نسل مختلف نظر آسکتی ہے اور مختلف خیالات کی حامل ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ مفروضہ قائم نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی لوگوں کی تحقیق سے ہم ان لوگوں کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ عالمی سطح پر بھی منطبق ہوتا ہو۔ آج کی نسل کو جس طرح مقبول میڈیا میں سست اور لاپرواہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے بڑی حد تک یہ مفروضہ حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ کیوں کہ ہندوستان کی یہ نسل نہ صرف اپنے والدین کی اہمیت کو سمجھتی ہے، بلکہ  اپنے طرز زندگی میں خاندان کے تئیں اپنی ذمے داریوں کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ مذہبی فکر مشرقی تہذیب و ثقافت میں رچی بسی ہے، اور اس نے کئی موقعوں پر تشدد کی راہ بھی اختیار کی ہے۔اسی لیے مغربی افکار کی تیز و تند ہوا  بھی روایت سے رشتہ کمزور نہ کرسکی۔

ان لوگوں کے لیے اس سے زیادہ اہم اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس نسل کے لوگوں کو مختلف موڑ پر زندگی کی تلخ حقیقتوں، متضاد رویوں اور مخالف افکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور مکمل معلومات کے ساتھ ان کا سامنا کریں، اور درست فیصلہ کریں۔ بغاوت اور مزاحمتی رویوں سے خود کو دور رکھیں۔

نفسیاتی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ زندگی کے یہ فیصلے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ کچھ فیصلے ان کی اپنی بقا سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ فیصلے زیادہ عملی ہوتے ہیں، جن کے لیے انھیں اپنی حیثیت و شخصیت کا بار بار جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ کون سا رویہ سازگار ہے یا کون سا عمل بے سمت، ثقافتی طور پر مشترکہ زندگی کے اہداف کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ جسے آج ’نارمل‘ یا معمول کے مطابق سمجھا جاتا ہے وہ گزشتہ دہائیوں میں ’عام‘ سمجھی جانے والی چیزوں سے کئی اہم طریقوں سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ، مغربی افکار میں یا گزشتہ دہائی کی پرانی نسل کے ہندوستانیوں کی طرف سے جو چیز عام سمجھی جاتی تھی وہ آج کے ہندوستان کی نسل سے مطابقت نہیں رکھتی۔

بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے، ہندوستان میں اس نسل کی فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ محض سروے کے وقت ایک چیک مارک لگانے سے ممکن نہیں ہوگا۔ خاص طور پر ہندوستان جیسے کمیونٹی پر مبنی معاشرے کے لیے، ہمیں اس ایجنسی کو پہچاننے کی ضرورت ہے جو کسی کی زندگی کے مقاصد کے لیے فیصلہ سازی کے عمل سے وابستہ ہو۔ اس بابت کامیابی کی پیمائش کے پیمانے میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔

اس سوال کا جواب کہ آیا اس زمرے کے لوگوں کی صلاحیت کی صحیح نشاندہی کی گئی ہے یا نہیں، اس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔ میڈیا میں انھیں کس طرح پیش کیا جاتا ہے، ان کے جذبات و احساسات، تنہائیوں اور اداسیوں کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کو سمجھنے کی کوششیں کتنی مخلصانہ ہیں، اور ان کے نظریات اور اہداف اصل میں کیا ہیں، اس میں ابھی متضاد آرا  پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا، مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں اہداف کی درست اور حقائق پر مبنی نمائندگی پر زور دینا بھی ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ہندوستان نے آج کی ابھرتی ہوئی نسل کی  قائدانہ صلاحیت کو سراہا ہے، اور مستقبل میں مضبوط کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے اور جب تسلیم کر لیا تو اس کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے میں ہی بھلائی ہے۔

آج کی نسل نفسیاتی الجھنوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، متضاد رویوں  اور مشینی دور نے  ان کے کردار کو بے سمت کردیا ہے، مخالف رجحانات نے انہیں زمانے سے متنفر کردیا ہے اوروہ روایتی طرز عمل سے نالاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ مسلّم حقائق کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان خود ساختہ اصولوں پر اسے پرکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور اہداف کے تعین، اور مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ایسے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ معاشرے میں ان کے مقام کا تعین اور ان کی افادیت و انفرادیت کو تسلیم کرکے ان کے متنوع کردار کو سراہا جا رہا ہے، ان کے فطری اور حقیقی مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے، اگر معاشرہ  اپنی پسند و ناپسند کو نئی نسل پر تھوپنے سے احتراز کرے، تو بہت حد تک رشتے استوار ہوں گے اور ان کی جذباتیت میں یکسانیت دکھائی دے گی۔ ان کی خواہشوں اور منصوبوں میں فکری صلاح، استحکام و اعتماد اور فلاح نظر آئے گی۔

 

Mohd Alamullah

New Delhi - 110025

Cell.: 9911701772

alamislahi@gmail.com

 

 

 

 

دنیا کی آبادی اور غذائیت کا مسئلہ، ماخذ: زراعتی جغرافیہ، مصنف: محمد شفیع

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

اٹھارویں صدی (1798) کے اختتام پر ایک برطانوی پادری نے ایک کتابچہ شائع کیا جس کا عنوان تھا ’ایک مضمون آبادی کے اصول پراور کس طرح وہ سوسائٹی کے بہتر مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے‘ اس برطانوی پادری (جس کا نام تھامس رابرٹل مالتھس) کی کتاب کا لب لباب یہ تھا کہ آبادی اگر روکی نہ جائے تو وہ جیومیٹرک تناسب میں بڑھتی ہے، یعنی 1:2:4:8:1600000000 اور غذائی پیداوار ارتھمیٹک تناسب میں بڑھتی ہے (یعنی 1:2:3:4:5000000) مالتھس کا یہ نظریہ تھا کہ آبادی اس حد تک بڑھتی رہتی ہے جس حد تک غذا کی پیداوار اس کی کفیل ہوسکتی ہے اور جب وہ اس سے تجاوز کرتی ہے تو جنگ، قحط، وبا کے ذریعے آبادی کا بڑھنا رک جاتا ہے۔ مالتھس کا یہ نظریہ تھا کہ آبادی میںا ضافے کی اتنی زبردست قوت ہے کہ ہر پچیس سال میں اپنی دوگنی ہوسکتی ہے، لیکن خوراک کی پیداوار اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی۔

مالتھس نے جس وقت اپنا نظریہ پیش کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ انیسویں صدی میں نئی زمینوں کی دریافت، زراعت میں حیرت انگیز ٹکنیکی ترقی اور یورپ کے صنعتی انقلاب سے غلے کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا اور اس کے نظریے کا مذاق اڑایا جائے گا اور اسے قنوطیت پسند فلسفی کہا جائے گا۔ فصلوں کی ادلا بدلی کی وجہ سے پرتی زمین کے رقبے میں کمی ہوئی اور زمین کی بارآوری میںا ضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ یوروپ میں پہلی مرتبہ کھیتوں کے گھیرنے کا نظام رائج ہوا۔ اس طور پر زرعی انقلاب نے پہلی مرتبہ غلے کی پیداوار کے منظم طریقوں میں اضافہ کیا۔

زرعی انقلاب کے بعد صنعتی انقلاب کی وجہ سے نئی نئی مشینیں ایجاد ہوئیںا ور کھیت پر کام مشینوں سے لیا جانے لگا اور وہ فاضل مزدور جو کھیت پرکام کرتے تھے اب صنعت و حرفت میںکام کرنے لگے۔ رسل و رسائل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور غلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بہت آسانی سے اور کم مدت میں بھیجا جانے لگا اور اس طور پر قحط کا وہ خوف جو مالتھس نے پیدا کیا تھا تقریباً دور ہوگیا۔ صنعتی انقلاب نے تحقیق کا وہ دور پیدا کیا جس کی بنا پر نئی اور موثر ادویات کی ایجاد ہوئی اور وبائی بیماریوں کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوگیا۔

درحقیقت صنعتی انقلاب کے بعد حفظان صحت سے متعلق انقلاب آیا۔ اس میں جسم کا بغور مطالعہ، بیماریوں کے اسباب اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر تحقیق و تدقیق پر خوب کام ہوا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں پاسچر اور دوسرے سائنس دانوں نے علم میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔

مالتھس کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ شمالی امریکہ کے براعظم پر آئندہ صدی میں اتنی حیرت انگیز ترقی ہوگی اور غلے کی پیداوار میں اتنا غیرمعمولی اضافہ ہوگا کہ شاید کچھ عرصے کے لیے لوگ اس کے نظریہ کو بھول جائیں گے۔

بیسویں صدی میں جب ہم زرعی پیداوار اور آبادی میں مستقل اضافے پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کم ازکم صاف ہوجاتی ہے کہ نئی زمینوں کی دریافت باقی نہیں رہی اور دوسری طرف آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔

1830 میں دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ دنیا کی آبادی کو 1830 تک ایک ارب پہنچنے میں تقریباً دو لاکھ سال لگے، لیکن 1930 میں دنیا کی آبادی دو ارب ہوگئی۔ یعنی مزید ایک ارب کے اضافے میں کل سو سال لگے۔ 1960 میں یہ آبادی بڑھ کر تین ارب ہوگئی، یعنی تیسرے ارب کے اضافے میں کل تیس سال لگے اور 1975 میں یہ آبادی بڑھ کر چار ارب ہوگئی یعنی چوتھے ارب کے لیے صرف پندرہ سال اور غالباً پانچویںا رب کے لیے دس سال یا اس سے بھی کم اور اگر آبادی کے اضافے کی ایک صدی تک یہی صورت حال رہی تو شاید ایک ارب کے اضافے کے لیے ایک ہی سال درکار ہوگا اور چار سال میں اتنا اضافہ ہوجائے گا جتنا اس وقت کل دنیا کی آبادی ہے شایدا سی وجہ سے آبادی کے اس حیرت انگیز اضافے کو آبادی کے دھماکے سے تعبیرکیا گیا ہے۔ اس غیرمعمولی اضافے کی وجہ میڈیکل سائنس کی ترقی اور زراعتی سائنس داں کی قابلیت پر ہے۔ میڈیکل سائنس نے اپنی تحقیقات کی بنا پر بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پالیا ہے اور زراعتی سائنس نے زراعتی پیداوار میں غیرمعمولی خوراک کے اضافے کی سبیل نکالی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی آبادی میں سال بہ سال یکساں اضافہ نہیں ہوتا۔ دو ممالک چین اور ہندوستان ایسے ہیں جہاں دنیا کی سالانہ ا ٓبادی میں وہ نصف سے کچھ ہی کم اضافہ کرتے ہیں اور دوسرے نصف میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہیں مثلاً 72ء میں دنیا کی کل آبادی میں سات کروڑ دس لاکھ کا اضافہ ہوا اور اس میں چین اور ہندوستان کا اضافہ دو کروڑ اکسٹھ لاکھ کا تھا۔  اگر چین اور ہندوستان کے اضافے میںا نڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، برما، تھائی لینڈ اور فلپائن کے اضافے کو جوڑ دیا جائے تو وہ دنیا کی آبادی کے سالانہ اضافے میں نصف سے کچھ زائد ہوگا یعنی جنوبی اور جنوبی مشرقی ا یشیا کے صرف آٹھ ممالک دنیا کی آبادی میں نصف سے زائد سالانہ اضافہ کرتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے کے مطابق 2000 میں دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ ارب ہوجائے گی، لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کل آبادی ڈیڑھ ارب ہوگی اور ترقی پذیر ممالک میں پانچ ارب ہوگی۔ افریقہ میں یہ آبادی 1980 میں 53 کروڑ سے بڑھ کر 83 کروڑ ہوجائے گی اور جنوبی امریکہ میں 37 کروڑ سے بڑھ کر 62 کروڑ ہوگی۔ ایشیامیں یہ آبادی ڈھائی ارب سے بڑھ کر پونے چار ارب ہوجائے گی لیکن شمالی امریکہ میں 24 کروڑ سے30 کروڑ اور یورپ میں 48 کروڑ سے بڑھ کر 54 کروڑ ہوگی۔

انیسویں صدی میں آبادی 5ء0 فیصدی  کے حساب سے بڑھ رہی تھی اور بیسویں صدی کے شروع نصف حصہ میںا ٓبادی میں اضافہ 08ء فیصدی کے حساب سے ہوا لیکن 1950 سے 1960 تک یہ بڑھ کر 108 فیصدی کے حساب سے اور 1960 سے 1970 میں 1,9 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ یہ اندازہ ہے کہ 1985 تک آبادی میںا ضافہ 2 فیصدی سالانہ کے حساب سے ہوگا اور 2000 میں یہ امکان ہے کہ گھٹ کر 107 فیصد رہ جائے گا۔

بین الاقوامی اندازے کے مطابق 1970 سے 2000 تک دنیا کی آبادی میں 77 فیصدی کا اضافہ ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میںا ضافہ ان کی آبادی کا 26 فیصدی ہوگا اور ترقی پذیر ملکوں میں 99 فیصد کے اضافے کی شرح کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس صدی کے آخر میں آبادی ترقی پذیر ملکوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے تناسب سے اضافہ 307 اور اکا ہوگا جب کہ 1970 میں یہ 203 اور اکا تھا۔

دنیا میں آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ یہ مناسب ہوگا کہ عمر کی ساخت میں تبدیلی کے امکانات پر بھی غور کرلیا جائے۔

1970 میں پندرہ سال سے کم کی عمر کے بچوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں کی کل آبادی کا 2657 فیصدی تھی لیکن ترقی پذیر ملکوں کی کل آبادی کا 05ء40 فیصدی تھی۔ا س طور پر 1970 میں کام کرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں میں 15-64 برس کی عمر تک کے لوگ 64 فیصدی تھی جب کہ ترقی پذیر ملکوں میں یہ تعداد کل 56 فیصدی تھی۔ 2000 میں ترقی یافتہ ملکوں میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد 26 فیصدی سے گھٹ کر 23 فیصدی رہ جائے گی اور ترقی پذیر ملکوں میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد گھٹ کر 36 فیصد ہوجائے گی اور کام کرنے والوں کی تعداد 56 فیصد سے بڑھ کر 59 فیصد ہوجائے گی۔

بین الاقوامی اندازے کے مطابق 2125 میں دنیا کی آبادی بارہ ارب سے کچھ زائد ہوگی اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں آبادی کی تعداد کا فرق بہت زیادہ ہوگا۔ 1970 میں ترقی پذیر ملکوں میں آبادی تقریباً ڈھائی ارب یا کل دنیا کی آبادی کا ستر فیصدی تھی۔ یہ تعداد بڑھ کر 3000 میں پانچ ارب ہوجائے گی، یعنی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 80 فیصدی اور 2125 میں ترقی پذیر ملکوں کی آبادی تقریباً گیارہ ارب ہوگی  یعنی پوری دنیا کی آبادی کا تقریباً 87 فیصدی۔ 1970 اور 2125 کے درمیان دنیا کی آبادی میںا ضافہ بین الاقوامی تخمینے کے حساب سے کوئی ساڑھے آٹھ ارب کا ہوگاجس میں سے آٹھ ارب یا تقریباً 94 فیصدی اضافہ ترقی پذیر ملکوں میں ہوگا، لہٰذا اس سے ظاہر ہے کہ مستقبل میںا ٓبادی میں اضافہ کا انحصار ترقی پذیر ملکوں پر ہے۔

جنوبی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ وہ خطے ہیں جہاں آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ ان میں جنوبی ایشیا کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ بین الاقوامی اندازے کے مطابق 1970 سے 2125 میں جنوبی ایشیا کی آبادی ایک یا سو ارب سے بڑھ کر سوا پانچ ارب تک پہنچ جائے گی اور افریقہ میں 35 کروڑ سے بڑھ کر 2125 میں تقریباً ڈھائی ارب ہوجائے گی۔


ماخذ: زراعتی جغرافیہ، مصنف: محمد شفیع، سنہ اشاعت: جنوری تا مارچ 1984، ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

 

 

 

اردو معنیات، ماخذ: اردو لسانیات، مصنف: علی رفاد فتیحی

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست2024


لسانیات کی بعض اہم شاخوں میں سے ایک معنیات ہے۔ معنیات لسانیات کا اہم نواحی شعبہ ہے۔ معنیات کے نقطۂ نظر سے سلسلۂ کلام کو جن اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے وہ ’لفظ‘ ہے۔ یعنی معنیات لفظ کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر لفظ کو اکائی ماننا ہی سب سے اہم عملی قدم ہے۔ جملے میں الفاظ ’خاص‘ اور ’امدادی‘ طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ خاص لفظ لغوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل جملے میز پر کتاب ہے۔ پر ہم توجہ دیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس جملے میں ’میز‘، ’کتاب‘ اور ’ہے‘ خاص لفظ ہیں جب کہ ’پر‘ امدادی لفظ ہے جو اس جملے کی نحوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ کسی بھی زبان میں خاص الفاظ لغوی معنیات کا کام دیتے ہیں تو دوسری جانب امدادی لفظ نحوی معنیات کا۔ خاص لفظ کے معنی کو کلام کے سیاق کے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر سیاق لفظوں کے مختلف معنی کو متعین کرتا ہے گویا سیاق معنی کا پورا سلسلہ قائم کردیتا ہے سیاق کے بغیر مفرد لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں گویا لفظ ’شے‘ کی صوتی علامت ہے۔

مشہور ماہر لسانیات ’فرڈی ننڈ ڈی ساسیور‘ (Ferdinand Saussure) لسانی علامت کو Signifiant اور Signifie میں تقسیم کرتا ہے۔ Signifie اور Signifiantکے رشتے کے عدم استحکام کی وجہ سے لفظ و معنی کی مندرجہ ذیل صورتیں پیدا ہوتی ہیں:

1        مترادفات Synonymy)

2        کثیر معنویت Polysymy)

3        ہم اسمی Homonymy)

لسانی ترسیل خیال مکمل اور بامعنی ہوتی ہے، یعنی موضوعاتی اور ہیئتی سطح پر ’ترسیل‘ ایسا روپ اختیار کرتی ہے کہ اس میں معنیاتی تہہ داری و بوقلمونی کے ساتھ ساتھ اثرپذیری بھی شامل ہوجاتی ہے۔ کسی بھی لسانی اظہار میں معنیاتی تہہ داری اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک خیال کی ترسیل کے لیے مناسب پیرہن اختیار نہیں کیا  جاتا۔ اگر ہم اردو زبان کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ اردو میں ’معنیاتی تہہ داری‘ کی بے شمال مثالیں ملتی ہیں یعنی اردو شاعری، اردو ترسیل عامہ، اور اردو صحافت کی زبان میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں جہاں ’خیال‘ کو ایسا لسانی پیرہن عطا کیا جاتا ہے کہ ایک خیال ملتے جلتے دوسرے کئی خیالات کو جنم دینے کا کام کرتا ہے اور اس طرح ایک خیال جس کو مرکزی خیال بھی کہا جاسکتا ہے کے گرد خیالات کا ہالہ بن جاتا ہے۔ لسانی اظہار کایہ انداز مرکزی خیال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور ’خیال‘ کی تفہیم میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترسیلی، ادبی اور صحافتی زبان ایسے الفاظ کا استعمال کرتی ہے جو اس کی ترسیل کا حق ادا کرے مثلاً موت جیسی ایک حقیقت کو پیش کرنے کے لیے اردو زبان میں کئی الفاظ ہیں۔ مرگ، انتقال، وصال، جاں بحق، ہلاک وغیرہ لیکن جب اردو ترسیلی زبان مرگ، انتقال اور موت کی جگہ ’جاں بحق‘ یا ’ڈھیر‘ کا استعمال کرتی ہے تو اس سے جہاں موت کا مفہوم پوری طرح ادا ہوجاتا ہے وہاں کئی دوسرے ایسے مفاہیم بھی ادا ہوتے ہیں جو موت کو معنیاتی تہہ داری کے ساتھ ترسیلی قوت سے بھی ہمکنار کردیتے ہیں۔ اگر ہم مندرجہ ذیل مثالوں پر نظر ڈالیں تو ان کی ترسیلی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔

صحافتی زبان:

1        بی جے پی کی سیاسی موت        (راشٹریہ سہارا)

2        بس حادثے میں دس مسافر جاں بحق(قومی آواز)

3        پولس کارروائی میں دہشت گرد ڈھیر(راشٹریہ سہارا)

4        کارگل کی کارروائی میں دو جوان شہید(قومی تنظیم)

ان سرخیوں میں ’موت‘ کے لیے مستعمل ’جاں بحق‘، ’ڈھیر‘ اور ’شہید‘ کا استعمال خبروں کو معنیاتی تہداری سے ہمکنار کرتا ہے۔

ادبی زبان

اس کے برعکس پہلی سرخی بی جے پی کی سیاسی موت میں ’موت‘ کا استعمال ایک طرف معنیاتی تہہ داری کا حق ادا کرتا ہے تو دوسری طرف جمالیاتی تسکین اور زندگی و موت سے متعلق کئی حقائق سے آشنا کرکے بصیرت سے ہمکنار کرتا ہے۔

ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ کاا نتخاب بذات خود ایک بڑا فن ہے۔ خبرنگاری میں صحیح لفظ کا استعمال ’خیال‘ کی ترسیلی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ لہٰذا زبان میں لفظ کی معنوی تہہ داری کی اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ انتخاب الفاظ کے فن تک رسائی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ’راسل‘ اور ’مرسل‘ لفظ کے نباض ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حسی اثر پذیری کے جوہر سے بھی آشنا نہ ہوں۔ ان حقائق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ’الفاظ‘ کسی ساز کے ان تاروں کی طرح ہوتے ہیں جن سے مضراب کے چھو جانے سے طرح طرح کے نغمے پھوٹتے ہیں۔ زبان میں یہ نغمے معنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ترسیل خیال میں لفظ و معنی کی اس اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ  لفظ و معنی کے اسی رشتے میں ’سیاق‘ کی اتنی اہمیت ہے۔ ایک لفظ کے سیاق تقریر کی وجہ سے مختلف معنی متعین ہوسکتے ہیں گویا سیاق معنی کا سلسلہ قائم کردیتا ہے۔ سیاق کے بغیر لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم مندرجہ بالا مثالوں میں سے پہلی سرخی ’بی جے پی کی سیاسی موت‘ کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ لفظ ’موت‘ اپنے روایتی معنی سے بالکل الف استعمال ہوا ہے۔ گویا لفظ کا سیاق لفظ کے معنی سے وسیع تر ہوتا ہے اس لیے معنی کا انحصار سیاق تقریر پر ہوتا ہے۔ ترسیل معنی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمیں ایک طرف تو ’راسل‘ اور اور ’مرسل‘ کی اہمیت دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف علامت کے دو رخوں کی اہمیت، لسانی علامت کا ایک رخ خارجی ہوتا ہے۔ خارجی رخ لفظ کی صوتی شکل ہے۔ دوسرا رخ داخلی ہوتا ہے جسے Signifiedیا مرموز کہہ سکتے ہیں۔

 محولہ تصور

Referenc

 محولہ شے

Reference

 علامت

Symbol

ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ و معنی کا رشتہ مہمل (Vague) ہوتا ہے یعنی اس کی حدود قطعی نہیں ہوتیں۔ لفظ و معنی کے اس رشتے میں ابہام کی ایک اہم وجہ مترادف (Synonymy)ہے۔

مترادفات (Synonymy)

زبان میں مترادفات وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی سچی ہم معنویت نہیں ہوتی کیونکہ زبان میں لفظ کے معنی کا انحصار سیاق پر ہوتاہے۔ بہ الفاظ دیگر لفظ کا مفہوم بالکل متعین اور قطعی نہیں ہوتا اور اس میں ابہام کا دخل ہوتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل سرخیوں پر نگاہ ڈالیں:

1        فوجی کارروائی میں دس دہشت گردہلاک  (قومی آواز)

2        کشمیر میں فوج اور انتہا پسندوں میں جھڑپ (قومی آواز)

3        سری لنکائی فوج کی نظر تمل ملٹنٹ پر (راشٹریہ سہارا)

4        سری لنکا میں تین شدت پسند گرفتار (آل انڈیا ریڈیو)

5        کشمیری مجاہدین شہید (ریڈیو پاکستان)

6        وادی میں دو انتہا پسندوں سمیت آٹھ ہلاک (ہندسماچار)

تو محسوس ہوتا ہے کہ ’دہشت گرد‘ ’انتہا پسند‘ ’ملٹنٹ‘ ’شدت پسند‘ اور ’مجاہد‘ وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہیں لیکن ان میں لغوی معنی کے علاوہ کسی نہ کسی قسم کا جذباتی لہجہ بھی شامل ہے۔گو کہ ان الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ بے تکلف استعمال کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں سچی ہم معنویت نہیں ہے کیونکہ اگر ہم ان کے ترسیلی ماحول کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا ترسیلی ماحول ہے جس کی وجہ سے ایک لفظ دوسرے لفظ سے زیادہ موزوں ہوجاتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ آخری سرخی ’کشمیری مجاہدین شہید‘ کا ترسیلی ماحول دیگر سرخیوں کے ترسیلی ماحول سے مختلف ہے۔ پاکستانی ریڈیو کی یہ سرخی ترسیلی سطح پر ’مجاہدین‘ کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتی ہے جب کہ دوسری تمام سرخیوں میں ہمیں اس ’ہمدردی‘ کا احساس نہیں ہوتا۔ تقریباً یہی کیفیت مندرجہ ذیل سرخیوں میں بھی نظر آتی ہے:

1        سری لنکا میں مذاکرات کے تعطل سے ناروے ناامید (راشٹریہ سہارا)

2        سری لنکا میں بات چیت ختم (آل انڈیا ریڈیو)

3        سری لنکا میں امن کے  لیے گفت و شنید (قومی آواز)

ان سرخیوں میں بھی ’مذاکرات‘ ’بات چیت‘ اور ’گفت و شنید‘ وہ ترکیبات ہیں جن کے معنی بظاہر یکساں ہیں لیکن ان مثالوں میں بھی مترادف جوڑوں کا پہلا لفظ ’مذاکرات‘ برجستہ ہے۔ بعض صورتوں میں مترادفات عقلی لحاظ سے قابل متبادل ہوتے ہیں لیکن ترسیلی لحاظ سے نہیں۔ جب کہ بعض صورتوں میں مترادف جوڑوں کو مترادف کہنا بھی ٹھیک نہیں، انھیں ہم معنی کہا جاسکتا ہے۔ ان مثالوں کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مترادفات بعض صورتوں میں ’خبر‘ کی ترسیلی قوت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بعض دوسری صورتوں میں ابہام (Vagueness) کا سبب بنتے ہیں۔ اردو ترسیل عامہ کی زبان میں مستعمل مترادفات پر اگر ہم نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان مترادفات کی ایک اہم وجہ ’مستعاریت‘ ہے۔ مستعاریت ایک زبان میں دوسری زبان سے الفاظ مستعار لیے جانے کا عمل ہے۔ مستعاریت کے اس عمل کی وجہ سے بھی مترادفات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً مندرجہ بالا سرخیوں میں ’دہشت گرد‘ ’انتہا پسند‘ اور ’شدت پسند‘ کے ساتھ ساتھ ملٹنٹ (Militant) کا استعمال حصولی زبان میں مترادف لفظ میں اضافے کی عمدہ مثال ہے۔

کثیر معنویت (Polysemy)

ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ کسی لفظ کے معنی کی تین قسمیں ہوتی ہیں (1) مرکزی معنی (2) اطلاقی معنی (3) جذباتی معنی۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے جذباتی معنی سے صرف نظر کرلیا  جائے تو زبان میں دو قسم کے معنی ہی بچتے ہیں۔ ایک مرکزی معنی اور دوسرا اطلاقی معنی۔ مرکزی معنی کو بالعموم لغوی معنی کہا جاتا ہے جب کہ اطلاقی معنی کو عام فہم زبان میں سیاقی معنی کہا جاتا ہے۔ مرکزی معنی یا لغوی معنی کا تعلق زبان یا لانگ Langue سے ہے جب کہ اطلاقی یا سیاقی معنی کا تعلق تکلم یا Parole سے ہے۔ زبان میں الفاظ اپنے لغوی معنی کے ساتھ ساتھ اطلاقی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں جو کثیر معنویت کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کثیر معنوی الفاظ کے متعلق یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ انھیں ایک لفظ تصور کیا جائے کہ کئی الفاظ کیونکہ لفظوں کے تاریخی ارتقا کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مرکزی مفہوم سے کئی مفہوم پھوٹتے جاتے ہیں جو کثیر معنویت کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح لفظوں کا معنوی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔ کثیر معنویت ترسیل خیال میں اگر ایک جانب معاون ثابت ہوتی ہے تو دوسری جانب اس سے ابہام Vagueness کا پہلو بھی نکلتا ہے۔

اردو زبان کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو زبان میں کثیر معنویت الفاظ کا استعمال خوب ملتا ہے۔ اردو ادب کی زبان میں بھی کثیر معنویتی الفاظ کا استعمال عام طور سے نظر آتا ہے۔

اگر  ہم مترادفات اور ہم معنی الفاظ کا بغور جائزہ لیں تو ہم معنی الفاظ یا مترادفات میں ایک لطیف سا معنوی فرق نظر آتا ہے مثلاً چاند، قمر یا ہلال میں معنوی یکسانیت کے باوجود ایک لطیف سا معنوی فرق دستیاب ہے۔ بہرکیف مترادفات کا یہ بنیادی تصور معنوی یکسانیت پر انحصار کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اگر الف ب کی ترجمانی کرتا ہے اور ب الف کی تو الف اور ب مترادفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم مندرجہ ذیل جملوں کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان جملوں میں معنوی یکسانیت موجود ہے:

وہ دیوانہ ہے،

وہ پاگل ہے

وہ مجنوں ہے

ان تفصیلات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مترادفات میں مندرجہ ذیل خصوصیات نظر آتی ہیں:

1        ان میں معنوی یکسانیت ہوتی ہیں

2        مترادفات ایک دوسرے کے متبادل ہوتے ہیں

لہٰذا کسی معنوی فرق کے بغیر کسی ایک لفظ کی جگہ دوسرے کا انتخاب ممکن ہے اور اسلوبیاتی ترجمے میں یہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور ماہر معنیات جان لائنس John Lyonsکے خیال میں مترادفات کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1        حقیقی مترادفات

2        ذیلی مترادفات

حقیقی متردافات معنوی اعتبار سے تقریباً یکساں ہوتے ہیں جب کہ ذیلی مترادفات ذیلی مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مثلاً قمر اور ہلال کی معنوی یکسانیت ذیلی مترادفات کے زمرے  میںا ٓتی ہے کیونکہ ہلال نوزائدہ چاند کو کہتے ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان معنوی رشتہ ذیلی رشتہ ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مترادفات میں درجاتی فرق نظر آتا ہے۔اگر الف معنوی مثال کے طور پر قمر اور مہتاب معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں تو ضروری نہیں کہ قمر اور ہلال کے مابین بھی وہی معنوی یک رنگی دستیاب ہو۔

مترادفات کے دائرے میں مترادفات Cognative کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ مترادفات Cognativeکا بھی تعین یکساں خیال کی ترجمانی کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ آہ بظاہر تکلیف اور درد کا مترادف نہیں ہے لیکن مترادفات Cognative کے اصولوں کے مطابق اسے ہم تکلیف اور درد کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے اردو زبان کے بعض اخبارات میں مستعمل بابری مسجد متنازعہ ڈھانچہ کو مترادف Cognative کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان فرق صرف پیشکش کا ہے۔ بابری مسجد ایک حقیقت کا بیباکانہ اظہار ہے تو متنازعہ ڈھانچہ اس حقیقت کا مصلحتی اظہار۔

ضد (Antonym)

دو الفاظ کے مابین معنوی تضاد سے اضداد کی تشکیل ہوتی ہے۔ گویا اضداد ایسے لفظی جوڑے ہوتے ہیں جو معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کا کوئی ایک لفظ اگر اثبات کا پہلو ظاہر کرتا ہے تو اس کے برعکس دوسرا نفی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گویا کسی شبہے یا حقیقت کے سبب اور منفی، تدکیر و تانیث اور اس طرح کے دوسرے متضاد پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے لفظی جوڑے متضاد الفاظ بناتے ہیں۔ متضاد الفاظ بالعموم دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ حقیقی تضادا ور درجاتی تضاد۔

حقیقی تضاد

متضادالفاظ کے ایسے جوڑے جو حتمی متصاد صورتوں کی عکاسی کرتے ہوں حقیقی تضاد کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرنا اور جینا، رات اور دن وغیرہ یہ جوڑے قطعی اور حتمی طور پر ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی درجاتی فرق نہیں ہے۔ لہٰذاا نھیں حقیقی تضاد کہا جاتا ہے۔

درجاتی تضاد

درجاتی تضاد کے زمرے میں ایسے تضاد کا شمار ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے متضاد تو ضرور ہیں لیکن اس تضاد میں درجاتی فرق حائل ہوتا ہے۔ کتنا اور کیسا جیسے استفہامی الفاظ سے اس تضاد پر سوالیہ نشان بنائے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سرد و گرم، لمبا اور ناٹا۔ شیریں اور تلخ کے درمیان درجاتی تضاد کا سوال اٹھایا جاسکتا۔ اردو زبان میں مترادفات اور اضداد کا استعمال عام ہے۔ مثال کے طور پر اردو اخبارات کی زبان میں انگریزی لفظ Militantکے لیے ... جنگجو، انتہا پسند، دہشت پسند، عسکریت پسند، مجاہد وغیرہ مترادفات کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی لفظ Militant کے ان اردو مترادفات کے تجزیاتی مطالعے سے یہ حقیقت بخوبی عیاںہوجاتی ہے کہ یہ لفظی جوڑے اگر ایک جانب مترادف ہیں تو بعض اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ یہ الفاظ مترادف محض اس لیے ہیں کہ یہ کسی ایک شے شخص یا حقیقت کی نشاندہی کے لیے مستعمل ہیں لیکن معنوی اعتبار سے ان میں قطبین کا فرق ہے۔ مثلاً لفظ مجاہد اور دہشت گرد میں قطبین کا فرق ہے۔ بہرکیف ان مترادفات میں سے کسی ایک لفظ کا انتخاب راسل کے ذہنی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اردو اخبارات کی بعض سرخیوں کے جائزے سے راسل کے ذہنی رویوں اور مرسل تک ایک ہی حقیقت کو مختلف انداز و اثرات کے ساتھ پہنچانے کی سعی کا اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ بعض سرخیوں میں جنگجو سے مخاصمت کاا ظہار ہوتا ہے، تو بعض دوسری سرخیوں سے راسل کے محتاط رویے کا اندازہ ہوتا ہے جب کہ چند اور سرخیاں جنگجو کی براہِ راست حمایت اور ہمدردی کی ترجمان ہیں۔ سطور بالا سے ظاہر ہے کہ اسلوب بیاں کی تشکیل میں مترادفات اور اضداد کا بنیادی رول ہوتا ہے۔ یہ مترادفات اور اضداد نہ صرف یہ کہ معنی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ راسل کے ذہنی رویے کی غمازی بھی کرتے ہیں۔

پراگمیٹکس (Pragmatics)

ماحول، حوالے، محل وقوع کی تبدیلیاں الفاظ کے متعین معنی و مفہوم میں تغیرات رونما کرتی ہے۔ ان تغیرات کا مطالعہ Pragmatics کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ الفاظ کے معنی و مفہوم کے تعین میں لفظ بنیادی رول انجام دیتے ہیں۔ مثلاً جاں بحق ہونا، ہلاک ہونا، شہید ہونا، جہنم واصل ہونا، فنا کے گھاٹ اترنا وغیرہ اس میں سے ہر لفظ جہاں موت یا مرنے کی خبر دیتا ہے وہیںا ن کے استعمال سے پیدا ہونے والے تاثرات میں خاصا فرق آجاتا ہے۔ علم لسانیات میں مترادفات اور ان کے استعمال کے متعلق مسائل کا مطالعہ اس علم کی دو شاخوں (1) معنیات (Semantics) اور (2) پراگمیٹکس کی روشنی میں کیا جاتا ہے:

1        جیسا کہ ہم سب واقف ہیں علم لسانیات کی اس شاخ معنیات (Semantics) میں لفظ اور معنی کے باہمی رشتے سے بحث کی جاتی ہے۔ اگر یہ بحث محض لفظ اور معنی کے باہمی رشتے تک محدود رہتی ہے تو اسے ہم لفظی معنیات (Lexical Semantics) کا نام دیتے ہیں۔ بصورت دیگر اسے معنیات کہتے ہیں۔

پراگمیٹکس میں مترادفات کا مطالعہ لفظ اور اس کے استعمال کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ باہمی رشتہ معنوی ہم آہنگی اور تضاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس طرح الفاظ کو ہم مندرجہ ذیل دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

الفاظ کی معنوی ہم آہنگی مترادفات کا تصور پیش کرتی ہے۔ قواعد کی روایتی اصطلاحوں میں ایسے تمام لفظی جوڑے مترادفات کے زمرے میںا ٓتے ہیں، لیکن پراگمیٹکس مترادفات کے بنیادی تصور کی منکر ہے۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ مترادفات میں ظاہری طور پر تو یقینا ایک معنوی یکسانیت نظر آتی ہے، لیکن اگر بہ نظر غائر جائزہ پیش کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لفظ دراصل علامتوں کا صوتی اظہار ہے اور انسانی ذہن میں علامتوں کی تشکیل ایک ایسا ذہنی عمل ہے جس کی بنیاد حرکت پر قائم ہوتی ہے۔

باب کا خلاصہ

*        معنیات لسانیات کا ایک نواحی شعبہ ہے۔

*        معنیات کے نقطۂ نظر سے سلسلۂ کلام کو جن اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے وہ ’لفظ‘ ہے۔ یعنی معنیات لفظ کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔

*        جملے میں الفاظ ’خاص‘ اور ’امدادی‘ طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

*        خاص لفظ لغوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔

*        امدادی لفظ جملے کی نحوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

*        کسی بھی زبان میں خاص الفاظ لغوی معنیات کا کام دیتے ہیں تو دوسری جانب امدادی لفظ نحوی معنیات کا۔

*        خاص لفظ کے معنی کو کلام کے سیاق کے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر سیاق لفظوں کے مختلف معنی کو متعین کرتا ہے۔

*        سیاق معنی کا پورا سلسلہ قائم کردیتا ہے سیاق کے بغیر مفرد لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں، گویا لفظ ’شے‘ کی صوتی علامت ہے۔

*        لفظ و معنی کا رشتہ مہمل Vagueہوتا ہے۔ یعنی اس کی حدود قطعی نہیں ہوتیں۔

*        زبان میں مترادفات وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہوں۔

*        لفظ کے معنی کی تین قسمیں ہوتی ہیں (1) مرکزی معنی (2) اطلاقی معنی (3) جذباتی معنی۔

*        مرکزی معنی کو بالعموم لغوی معنی کہا جاتا ہے جب کہ اطلاقی معنی کو عام فہم زبان میں سیاقی معنی کہا جاتا ہے۔

*        حقیقی مترادفات معنوی ا عتبار سے تقریباً یکساں ہوتے ہیں۔ جب کہ ذیلی مترادفات ذیلی مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔

*        اضداد ایسے لفظی جوڑے ہوتے ہیں جو معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کا کوئی ایک لفظ اگر اثبات کا پہلو ظاہر کرتا ہے تو اس کے برعکس دوسرا نفی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

*        ماحول، حوالے، محل وقوع کی تبدیلیاں الفاظ کے متعین معنی و مفہوم میں تغیرات رونما کرتی ہیں۔ ان تغیرات کا مطالعہ Pragmatics کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔

ماخذ: اردو لسانیات، مصنف: علی رفاد فتیحی، دوسری طباعت: 2018، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

25/9/24

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے(ڈاکٹر کہکشاں پروین کی یاد میں) مضمون نگار: محمد مکمل حسین

 ماہنامہ اردو دنیا،اگست 2024

کہکشاںپروین عہد حاضر کی ایک معروف افسانہ نگار کی حیثیت سے ادبی حلقوں میںمقبول تھیں۔ وہ گزشتہ چار دہائیوںسے خاموشی کے ساتھ پرورش لو ح وقلم اورگلشن ادب کی آبیاری میںمشغول تھیں۔ وہ ادبی دنیا میں کئی حیثیتوںسے پہچانی جاتی تھیں۔  انھوںنے اردو ادب میںایک معروف افسانہ نگار ہونے کے ساتھ تحقیق وتنقید میں بھی ایک انفرادی مقام حاصل کیا تھا۔ جب انھوںنے افسانہ لکھنے کا آغاز کیا تو جدیدیت کا دور تھا اور جب اپنی پہچان بنائی وہ مابعد جدیدیت کا عہد تھالیکن انھوںنے کسی رحجان کا تتبع نہیں کیا بلکہ آزادی سے لکھا۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے سے لے کر ملازمت سے سُبکدوش ہونے تک لمبی مسافت طے کی اور اس دوران نئے تجربات ومشاہدات سے گذریں جنھیں اپنے افسانوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی کا جوہر، منظر کشی ، تاثراتی پہلو، پلاٹ، زبان، کردار نگاری اور اسلوب سب کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانے اُن کے ذاتی تجربات ومشاہدات کی عکاسی کرتے ہیں۔وہ عام واقعات یا تصورِ زندگی کے کسی پہلو کو فنکارانہ انداز میںپیش کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے اپنے ہر افسانہ میں اپنے گہرے مشاہدات اور بھرپور مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میںایک خاص پس منظر کو دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں زندگی میںپیش آنے والے مختلف واقعات ، مشاہدات اور تجربات خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک سیدھی سادی کہانی کو عام فہم زبان میں افسانوی رنگ میں تحریر کرنے کا فن انھیں آتاہے۔ اپنے اِردگرد بسنے والے حقیقی کرداروں کو تخلیقی نظر سے دیکھنا اور اپنے کرداروں کوتجربات اور مشاہدات کی کسوٹی پر رکھ کر ایک خوبصورت افسانہ تخلیق کر نا بلاشبہ ایک بڑی فن کاری ہے۔ مجموعی طورپر یہ کہاجائے کہ کہکشاںپروین کے افسانوں میں پسماندہ طبقے کی تلخ حقیقت بیانی اور سنگلاخ زمین میں بسے آدی باسی سماج کے طورطریقے ، رہن سہن کے علاوہ عورتوں کی بدحالی ،جسمانی، جذباتی اوراحساس کی سطح پر اُن خواتین کا استحصال ان کے خاص موضوعات ہیں۔

معروف ناقد وادیب حقانی القاسمی کہکشاںپروین کے فکر وفن پر یوں رقمطراز ہیں:

’’افسانہ نگار کی حیثیت سے کہکشاںپروین کی شناخت مسلّم ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میںان موضوعات کو مَس کیا ہے جن سے ان کا گہرا ذہنی اور جذباتی رشتہ ہے، خاص طورپر ’عورت ‘ ان کا موضوعی مرکز ہے جس میں عورتوں کی زندگی سے جڑی ہوئی تمام نفسی ذہنی کیفیات ،آلام وآزار کو بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میںعصری حسیت کے ساتھ ذہنی اور جذباتی حساسیت بھی نمایاںہے۔ حاشیائی طبقات کو بھی اپنے افسانوی بیانیے کے مرکز میں انھوںنے خاص جگہ عطا کی ہے۔ ان کے افسانے واقعی بہت اہمیت اور قدروقیمت کے حامل ہیں۔ ‘‘

کہکشاں پروین کی بنیادی شناخت افسانہ نویسی سے ہے جس کا اعتراف اس عہد کے ناقدین نے بھی کیا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ:

’’کہکشاں پروین کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔وہ مسائل ان کی نگاہوں میں ہیں جو ہمارے اِردگرد بکھرے ہوئے ہیں۔وہ ایک حساس فنکار کی طرح ان کے بارے میں اپنا موقف رکھتی ہیں اوراس پس منظر میں افسانے تخلیق کرتی ہیں۔ لہٰذا ان کے افسانے محض تفریح کا سامان نہیں بلکہ ہماری بصیرت کا موجب بھی ہیں۔ ان کے افسانے اختتام پر فکر کی ایک دنیا آباد کر دیتے ہیں اوراہم مسائل پر از سرنو غور کرنے کے لیے اپنے آپ کوآمادہ پاتے ہیں۔‘‘ (ایک مٹھی دھوپ ،ٹائٹل پیج)

 پروفیسر قمرجہاں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کہکشاںپروین نے افسانے کو ایک چھوٹے سے کینوس سے شروع کر کے ایک بڑے کینوس پر پہنچا دیاہے اور پھر افسانوی ادب میںوہ کمال فن کی اس بلندی پر پہنچ گئیں جہاں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ پروفیسر قمر جہاں رقم طراز ہیں:

’’۔۔۔ اسلوب دلکش ہے۔ موضوعات بھی نیرنگ سامان ہیں۔ ویسے پسماندہ طبقے کی تلخ حقیقتیں، سنگلاخ زمین پر زندگی بسر کر نے کے طور طریقے کے علاوہ عورتوں کی عمومی بدحالی جسمانی، جذباتی اور احساس کی سطح پر خواتین کا استحصال ان کے افسانوں کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان تمام موضوعات ومسائل کو پیش کرنے میں عام طورپر وہ کامیاب ہیں کیونکہ وہ ایک بیدار حس خاتون ہیں۔ نظر بھی تیز ہے ،گفتگو میںوہ خاموش طبع ہیں۔‘‘  (مژگاں، ص397)

کہکشاں پروین ذہین وفطین، حساس فطرت کی مالک، ایک مسلم الثبوت استادکے ساتھ افسانہ نگاری اور تنقید نگاری میںمنفرد پہچان رکھتی تھیں۔ ان کی پیدائش  26؍فروری 1958 میں ریاست بنگال کے ضلع پرولیا میں ہوئی تھی۔ ان کا بیک وقت تین ریاستوں سے تعلق ہے۔پیدائشی لحاظ سے ریاست بنگال(ضلع پرولیا) اور رشتہ ازدواجی کی حیثیت سے بہار( ضلع پٹنہ )سسرال ہے اور تعلیم وتعلّم کی حیثیت سے جھارکھنڈ (ضلع رانچی ) ہے اور تاحیات ان کا قیام رانچی میں رہا۔ان کی ابتدائی تعلیم گھر پرہوئی۔ اس کے بعد پرولیاضلع میںمیٹرک کے بعد رانچی ویمنس کالج ،رانچی میں انٹر اور بی اے تک کی تعلیم حاصل کی اورپھر رانچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردوسے ایم اے (اردو) کیا۔ اس کے بعد 1985 میں ارد و کے ممتاز نقاد اور مستند محقق ڈاکٹر شان احمد صدیقی کی نگرانی میں ’صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر رانچی یونیورسٹی سے Ph.Dکی ڈگری حاصل کی اورتعلیمی سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ’پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں’منٹو او ربیدی تقابلی مطالعہ‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی اوروہ دونوں تحقیقی مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا ۔ان کی تقرری 1988  میں بوکارو مہیلا کالج میں بطورلیکچرر ہوئی اور تقریباًنوسال تک اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد 1996 میں بہار یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعے باضابطہ لیکچرر بحال ہوئیں اور لیکچرر کی حیثیت سے ڈورنڈا کالج میںجوائن کیا اور تقریباً ایک طویل مدت تک اسی کالج کے شعبۂ اردو سے وابستگی رہی۔ سال2015 میں ان کا تبادلہ شعبۂ اردو رانچی یونیورسٹی، رانچی میں بطور صدر شعبۂ اردوہوا اورتقریباًآٹھ سال تک شعبۂ اردو میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے کر 28؍فروری 2023 کو  ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔

 کہکشاں پروین کو مطالعے کا شو ق بچپن سے تھا۔ کم عمری میں انھوںنے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کا مطالعہ کیا۔ خاص طورپر کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندرسنگھ بیدی، واجدہ تبسم اورامرتاپریتم جیسے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تخلیقات نے متاثرکیا اورلکھنے کا شوق پیداہوا۔ کہکشاں پروین نے باقاعدہ طورپر اپنے ادبی سفر کا آغاز 1978سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ رانچی ویمنس کالج، رانچی کی میگزین میں 1978 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ایک اور افسانہ ’چارہ گر‘ 1980میں اخبار ’محرک‘ میں شائع ہوا اور مسلسل ملک وبیرون ملک کے معیاری رسائل اورجرائد میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے۔ اس کے بعد انھوںنے پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ان کی تقریباًایک درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میںپانچ افسانوی مجموعے ’ایک مٹھی دھوپ (1986)، دھوپ کا سفر (1990)، سرخ لکیریں(1998)، پانی کا چاند (2009) اور ’مورکے پائوں(2019)‘ ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق وتنقید میں صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار(1991)، منٹو اور بیدی :تقابلی مطالعہ (2014)،  شیشۂ افکار (2015)، منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ (2022) اور ’کیا رشتہ ہے میرا؟ (2010)‘ (نثری نظمیں)قابل ذکر ہیں۔

افسانوی مجموعے میںایک افسانہ ’ایک مٹھی دھوپ‘ جسے کتاب کانام بھی دیاگیاہے۔ ایک خوبصورت افسانہ ہے۔ اس میںافسانہ نگار نے محبت اور اس کے خوبصورت احساس کو یاد دلایاہے۔ محبت بھرے جذبا ت رکھنے والے کردار کو بہت عمدہ اور خوبصورت انداز میں بیان کیاہے۔ اس میں مرکزی کردار بھولاہے۔ افسانہ کے آغاز میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ کہانی گھریلو زندگی بسرکرتی عورت کی مشکلات کی طرف رجوع کرتی ہے۔ افسانے میں عام سماجی حالات کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کو بھی پیش کرنے کی کوشش ہے۔

اس افسانے میں بھولا اور اس کی بیوی ہیرا مرکزی کردار ہیں، جس کے اِردگردپوری کہانی گھومتی رہتی ہے۔ اس میں شوہر بیوی دونوں کا ایک خوشگوار اور محبت بھرا رشتہ دکھائی دیتاہے۔ افسانے میں بھولانے اپنی بیوی ہیرا کی دبی چھپی خواہشات کوابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ازدواجی زندگی کے تعلق سے ہر وہ درد ومحبت اور فکر واحساس کو ظاہر کیاہے جو افسانے میں کردار کے کسی نہ کسی پہلو میںچھپا ہواہے۔ مجموعے کے بیشتر افسانے عورت کے مختلف روپ کے اردگرد گھومتے ہیں۔ جس کو بڑی فنکارانہ چابکدستی سے اُجاگر کیاگیاہے۔ ہر افسانے میں زبان وبیان کی دلکشی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔  اس کے علاوہ بیشتر افسانے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں جن میں ٹھنڈی چائے، بکھری ہوئی عمارت، تواپرکی عورت، شناخت، پانی کاچاند، مورکے پائوں، گرتی ہوئی عمارت، آسمان کاچاند، گرم چھائوں، کہاں ہوتم، ’لاک ڈائون، بسیرا، کھیل کھیل میں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

افسانہ نگاری کے علاوہ انھوںنے تحقیق وتنقید کے میدان میں کئی اہم کارنامے انجا دیے، جن میں ایک کتاب ’صالحہ عابدحسین بحیثیت ناول نگار‘ کے نام سے ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ ہے جو1991 میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔ پوری کتاب 252 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنفہ نے کتاب کاانتساب والدہ محترمہ آسیہ خاتون کی مامتا کے نام کیاہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں عرضِ حال کو چھوڑ کر تحریرکردہ عنوانات کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن اصلاً کتاب درج ذیل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلاباب ’صالحہ عابدحسین کے حالات زندگی‘سے متعلق ہے۔ دوسراباب ’ناول سماجی تنقید کا آئینہ دار‘ ہے۔ تیسرا باب’ارود ناول کا ارتقا (صالحہ عابدحسین تک)‘ پر مختص ہے۔چوتھاباب ’صالحہ عابدحسین کے ناولوں میں سماجی وتہذیبی احوال‘ ہے۔ پانچواں باب ’صالحہ عابدحسین کا ہندوستانی عورت کے متعلق نقطہ نظر‘ہے۔ چھٹا باب ’صالحہ عابدحسین کے ناولوں میں ماجرا نگاری‘ پر ہے۔ ساتواںباب ’صالحہ عابد حسین کے ناولوں میں کردارنگاری‘ کا احاطہ کرتا ہے۔ آٹھواں اورآخری باب ’صالحہ عابد حسین کااسلوب‘ ہے۔ آخر میں حرف آخر اورکتابیات پرختم ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ ہے جو تحقیق و تنقید کے موضوع پر انفرادیت واہمیت کا حامل ہے۔ مصنفہ نے کتاب کوتحریر کرتے ہوئے اپنی ہنر مندی اور صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیاہے۔صالحہ عابدحسین کی شخصیت، کردارنگاری، اسلوب نگارش اور ان کے عظیم الشان کارناموںپر اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔  اس سلسلے میں ڈاکٹر کہکشاں پروین لکھتی ہیں:

’’صالحہ عابدحسین کی جامع شخصیت، ان کی وضع قطع، ان کی گفتگو، ان کا لب ولہجہ، ان کی چال ڈھال میں فطری نفاست اورشائستگی موجو دہے۔ وہ مجسم اخلاق، ہمدرد اور دردمند دل خاتون ہیں۔ ان کی شخصیت میں اسلامی زندگی، شرعی ماحول، مشرقی معاشرہ اورخاندانی روایات کا گہرا اثر ہے۔ وہ مذہب کی پابند ہیں اوران میں خلوص ومتانت بدرجہ اتم موجود ہے۔ تہذیب و ثقافت کاجو مفہوم نفاست اور نزاکت کے ساتھ ہمارے یہاں مروج ہے۔ وہ صالحہ عابدحسین نے روایتی طورپر پایا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو موضوع فن کا ایک لازمی جزو بنادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں ناہمواری نہیں پائی جاتی ۔‘‘(226)

ان کی ایک اور کتاب ’منٹو اوربیدی: تقابلی مطالعہ‘  کے عنوان سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے 2014 میں شائع ہوئی۔یہ ایسی واحد کتاب ہے جس میں دو بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں اورناولوں میںپلاٹ، کردار اور اسلوب نگارش کا تحقیق وتنقید کی روشنی میںجائزہ لیاگیاہے اور اپنی ادبی بصیرت سے کام لے کر ان دوبڑے افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے واضح نتیجہ اخذ کر نے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے فکری وفنی پہلوئوں کا بھی خاصی تفصیل سے جائزہ لیاہے۔

کتاب میں منٹو اور بیدی کی شخصیت اور افسانوی موضوعات کے اثرات کاجائزہ لینے کے ساتھ ساتھ دونوں کے تقابلی مطالعے نے ایک انفرادیت اورمقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب کے سلسلے میں ڈاکٹر اعجاز علی ارشد نے ’کتاب سے پہلے‘ میں مختصر اورجامع تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کہکشاںپروین کی تنقیدنگاری کاجائزہ لیاہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’منٹو اور بیدی کے سلسلے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے محترمہ نے اس حقیقت کا اظہار کیاہے کہ بعض جنسی اورنفسیاتی امور ان دونوں کے یہاں فنی رکھ رکھائو کے ساتھ ایک خاص انداز میںابھرے ہیں مگر جنسی احوال کی پیشکش میںبیدی کی بہ نسبت منٹو زیادہ بیباک رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میںجنس ایک ناگزیر صورت بن کر ابھرتی ہے جب کہ بیدی کے یہاں یہ زیریں لہروں کی شکل میں موجود رہتی ہے۔‘‘ (منٹو اوربیدی تقابلی مطالعہ ص10)

’شیشۂ افکار‘ کہکشاںپروین کی تیسری تنقیدی کتاب ہے۔ یہ کتاب تنقیدی مضامین کے انتخاب پرمشتمل ہے۔ کتاب 2015میںایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں نئے اورپرانے مضامین شامل ہیں جو ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہیں اورکچھ ایسے بھی مضامین ہیں جو اپنے اساتذہ کرام اور ادبا وشعرا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مجموعے میں کل 25 مضامین شامل ہیں۔ کہکشاںپروین نے ان مضامین میں ادب اور زندگی سے متعلق ان تمام چیزوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو انسان اورسماج کے تابع ہو تے ہیں۔

کہکشاںپروین کی کتاب ’منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ‘ کے نام سے 2022 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے شائع ہوئی۔ کتاب کل 208صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر نوشابہ پروین اورڈاکٹر فوزیہ پروین کی محبتوں کے نام ہے۔ کتاب میں کل چار مضامین منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کردار، واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کی طبقاتی زندگی کے خاکے، منٹو اور واجدہ تبسم کے افسانوں کا جائزہ  اور’منٹو اور واجدہ تبسم کی افسانہ نگاری‘ہیں۔ کہکشاںپروین کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں اپنی باتیں(پیش لفظ)کے تحت کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب ’پانی کاچاند‘ میںبھی پیش لفظ نہیںہے۔ کتاب میں منٹو اورواجدہ تبسم کے نمائندہ افسانوی کارناموں کا جائزہ لیاگیاہے جن کے ذریعے منٹو اور واجدہ تبسم کی شخصیت اورفن کو کافی حدتک سمجھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ان کی تخلیقات کے نسوانی کرداروں کے نفسیاتی تجزیے پر تفصیلی وضاحت ملتی ہے۔ 

کہکشاںپروین نے جہاں افسانہ نگاری اور تحقیق وتنقید میں اپنا مقام بلند کیا ہے وہیں نثری نظموں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا  اکلوتا شعری مجموعہ ’کیا رشتہ ہے میرا؟‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے سال2010میں اردو اورہندی دونوں رسم الخط میں شائع ہوا ہے ۔ کتاب کا انتساب شاعرہ نے اپنے بھائی سید شکیل احمدکے نام معنون کیا ہے، جس کو موصوفہ نے اپنی مرحومہ امی کے خوابوں کا مرکز قراردیاہے۔پوری کتاب نثری نظموں پر مشتمل ہے۔نظموں کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔ کیارشتہ ہے میرا؟، بدھیا زندہ ہے، لمحوں کا کرب، خواب اک آئینہ، تلاش مسلسل، یادوں کی دھوپ،  رہگزر، کسک۔ اس کے علاوہ د و صفحات پر اپنی باتیں کے عنوان سے پیش لفظ ہے۔ کہکشاں پروین نے شعری مجموعے میں اپنی شاعری کے حوالے سے لکھاہے:

’’میری شاعری میرے جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ محض ہے۔ مجھے احساس ہے کہ شاعری کی زمین صاف چٹیل میدان کی طرح سیدھی اورہموار نہیں ہوتی ہے۔یہاں کچھ قیودہیں، کچھ بندزنجیریں ہیں جو قدموں کو تنگ کرتی ہیں۔ میرے الفاظ اورمیری شاعری (جو کہہ لیجے)میںآشیانے کاتنکا تنکا سمیٹ کر رکھنے کا ایک جذبہ ہے۔ خوشی اورغم کے تصادم میںپل پل زخمی ہوتی مسکراہٹوں کا بیان ہے۔‘‘(اپنی باتیںص6)

اس شعری مجموعے میں پہلی نظم ’کیارشتہ ہے میرا؟‘ کے نام سے ہے اورکتاب کا ٹائٹل بھی ہے۔نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو           ؎

اکثر میں نے یہ سوچا ہے /تجھ سے کیارشتہ ہے میرا

اس دنیا میںکتنے چہرے/اپنے بھی بیگانے بھی ہیں

جانے بھی ہیںانجانے بھی ہیں

چہروںکی اسی جھرمٹ میںہے

تیرا چہرہ ایساچہرہ

ذہن کے آئینہ خانے میں روزازل سے جورہتاہے

سپنوں کے سانچوں میںڈھل کر

رنگ بدل کر روپ بدل کر/آتاہے

مذکورہ بالانظم میں لفظ ’رشتہ ‘پر غور کر نے کی بات کہی گئی ہے جس کو شاعرہ نے اپنی نظم میں ذکر کیا ہے کہ رشتے ناطے، احساسات سے جڑے ہوئے ہیں۔ احساس ہی ایسا امر ہے جو انسان کے دکھ ودرد اور محبت و پیار کو نبھاتاہے۔ رشتے کا تعلق انسان پیداہو نے کے بعد سے شروع ہوتاہے اور انسان کی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ رشتے میںتبدیلیاں پیداہوجاتی ہیں۔ہر انسان ایک بچے کی شکل میں دنیا میں آتا ہے اوروہیں سے رشتے کا تانا بانا شروع ہوجاتاہے ۔ ماں باپ اور اولاد کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اولاد بڑی ہوتی ہے تو استاد واحباب کارشتہ ہوتاہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تاہے تواس میںایک رشتہ قائم ہو تاہے۔ وقت گزرتاجاتاہے اور ایک بچہ ماں باپ بن جاتاہے اور پھر اس کے ماں باپ دادادادی بن جاتے ہیں۔ غرض رشتہ چاہے روحانی یاجسمانی ہو، ہمیں ان کی محبت اور توجہ ہماری بے رخی کے بعد بھی مسلسل ملتی رہتی ہے۔ وہ کبھی ہمیں خود سے الگ نہیں ہو نے دیتے اس لیے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم دوسروں سے کس قدر بیگانہ ہوگئے ہیں۔ ہم ان کی قدرنہیں کرتے۔ ہم انھیں پیار نہیں دیتے۔ انھیں وہ عزت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔اس لیے ان تمام رشتوں میںاحساس کا ہونا بے حدضروری ہے اوراحساس نہ ہو تو ہر رشتہ بے معنی ہوجاتاہے۔ جس کو شاعرہ نے اپنی نظم میںبیان کیا ہے۔

الغرض کہکشاںپروین اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ بحیثیت افسانہ نگار، تحقیق و تنقیدنگار اور بالخصوص استاد کے ناطے اپنے شاگردوں میں بے حدمقبول اور قابل احترام تھیں وہ نہ صرف اپنے شاگردوں کی علمی وادبی شعبوں میں رہنمائی کر تی تھیں بلکہ زندگی کے نشیب وفراز سے واقف بھی کراتی تھیں اور ہر ممکن مالی تعاون بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تدریسی فرائض سے سبکدوش ہو نے کے باوجود اپنے شاگردوں کے ہر وہ پروگرام خواہ ادبی ہوں یاغیر ادبی کی دعوت پر نہ صرف لبیک کہتی تھی بلکہ کئی سمیناروں میں صدارت کی ذمے داری بھی نبھاتی رہی۔ انھیں شاگردوں میں ایک نام خاکسار کابھی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے فکری وفنی پہلوئوں پر خاکسار کی ایک کتاب ’کہکشاںپروین: فکری وفنی جہات‘ بھی منظرعام پر آچکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پانچویں مجموعوں کو خاکسار نے ’جہان کہکشاں‘ کے عنوان سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع کرایا ۔ کتاب پریس میں ہی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ کی طبیعت بگڑ تی چلی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کتاب شائع ہوگئی لیکن مصنفہ نے اس کتاب کا دیدارنہ کیا اور 17جون 2024بروزسموار رات کے گیارہ بج کر25 منٹ کو66سال کی عمر میں اپنے پیچھے شوہرسید حسین فاطمی اور تین بچے دو لڑکے (رازل حسین اور عاطف حسین) اور ایک لڑکی (خوباں حسین)کو چھوڑ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئی ۔

Dr.  Md.Mokammal Hussain

Urdu Section,

Jharkhand Legislative Assembly

Ranchi- 834004 (Jharkhand)

Mob: 8084494916

Email- mokammal2018@gmail.com

تازہ اشاعت

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024   غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہی...