30/9/24

اردو معنیات، ماخذ: اردو لسانیات، مصنف: علی رفاد فتیحی

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست2024


لسانیات کی بعض اہم شاخوں میں سے ایک معنیات ہے۔ معنیات لسانیات کا اہم نواحی شعبہ ہے۔ معنیات کے نقطۂ نظر سے سلسلۂ کلام کو جن اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے وہ ’لفظ‘ ہے۔ یعنی معنیات لفظ کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر لفظ کو اکائی ماننا ہی سب سے اہم عملی قدم ہے۔ جملے میں الفاظ ’خاص‘ اور ’امدادی‘ طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ خاص لفظ لغوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل جملے میز پر کتاب ہے۔ پر ہم توجہ دیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس جملے میں ’میز‘، ’کتاب‘ اور ’ہے‘ خاص لفظ ہیں جب کہ ’پر‘ امدادی لفظ ہے جو اس جملے کی نحوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ کسی بھی زبان میں خاص الفاظ لغوی معنیات کا کام دیتے ہیں تو دوسری جانب امدادی لفظ نحوی معنیات کا۔ خاص لفظ کے معنی کو کلام کے سیاق کے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر سیاق لفظوں کے مختلف معنی کو متعین کرتا ہے گویا سیاق معنی کا پورا سلسلہ قائم کردیتا ہے سیاق کے بغیر مفرد لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں گویا لفظ ’شے‘ کی صوتی علامت ہے۔

مشہور ماہر لسانیات ’فرڈی ننڈ ڈی ساسیور‘ (Ferdinand Saussure) لسانی علامت کو Signifiant اور Signifie میں تقسیم کرتا ہے۔ Signifie اور Signifiantکے رشتے کے عدم استحکام کی وجہ سے لفظ و معنی کی مندرجہ ذیل صورتیں پیدا ہوتی ہیں:

1        مترادفات Synonymy)

2        کثیر معنویت Polysymy)

3        ہم اسمی Homonymy)

لسانی ترسیل خیال مکمل اور بامعنی ہوتی ہے، یعنی موضوعاتی اور ہیئتی سطح پر ’ترسیل‘ ایسا روپ اختیار کرتی ہے کہ اس میں معنیاتی تہہ داری و بوقلمونی کے ساتھ ساتھ اثرپذیری بھی شامل ہوجاتی ہے۔ کسی بھی لسانی اظہار میں معنیاتی تہہ داری اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک خیال کی ترسیل کے لیے مناسب پیرہن اختیار نہیں کیا  جاتا۔ اگر ہم اردو زبان کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ اردو میں ’معنیاتی تہہ داری‘ کی بے شمال مثالیں ملتی ہیں یعنی اردو شاعری، اردو ترسیل عامہ، اور اردو صحافت کی زبان میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں جہاں ’خیال‘ کو ایسا لسانی پیرہن عطا کیا جاتا ہے کہ ایک خیال ملتے جلتے دوسرے کئی خیالات کو جنم دینے کا کام کرتا ہے اور اس طرح ایک خیال جس کو مرکزی خیال بھی کہا جاسکتا ہے کے گرد خیالات کا ہالہ بن جاتا ہے۔ لسانی اظہار کایہ انداز مرکزی خیال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور ’خیال‘ کی تفہیم میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترسیلی، ادبی اور صحافتی زبان ایسے الفاظ کا استعمال کرتی ہے جو اس کی ترسیل کا حق ادا کرے مثلاً موت جیسی ایک حقیقت کو پیش کرنے کے لیے اردو زبان میں کئی الفاظ ہیں۔ مرگ، انتقال، وصال، جاں بحق، ہلاک وغیرہ لیکن جب اردو ترسیلی زبان مرگ، انتقال اور موت کی جگہ ’جاں بحق‘ یا ’ڈھیر‘ کا استعمال کرتی ہے تو اس سے جہاں موت کا مفہوم پوری طرح ادا ہوجاتا ہے وہاں کئی دوسرے ایسے مفاہیم بھی ادا ہوتے ہیں جو موت کو معنیاتی تہہ داری کے ساتھ ترسیلی قوت سے بھی ہمکنار کردیتے ہیں۔ اگر ہم مندرجہ ذیل مثالوں پر نظر ڈالیں تو ان کی ترسیلی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔

صحافتی زبان:

1        بی جے پی کی سیاسی موت        (راشٹریہ سہارا)

2        بس حادثے میں دس مسافر جاں بحق(قومی آواز)

3        پولس کارروائی میں دہشت گرد ڈھیر(راشٹریہ سہارا)

4        کارگل کی کارروائی میں دو جوان شہید(قومی تنظیم)

ان سرخیوں میں ’موت‘ کے لیے مستعمل ’جاں بحق‘، ’ڈھیر‘ اور ’شہید‘ کا استعمال خبروں کو معنیاتی تہداری سے ہمکنار کرتا ہے۔

ادبی زبان

اس کے برعکس پہلی سرخی بی جے پی کی سیاسی موت میں ’موت‘ کا استعمال ایک طرف معنیاتی تہہ داری کا حق ادا کرتا ہے تو دوسری طرف جمالیاتی تسکین اور زندگی و موت سے متعلق کئی حقائق سے آشنا کرکے بصیرت سے ہمکنار کرتا ہے۔

ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ کاا نتخاب بذات خود ایک بڑا فن ہے۔ خبرنگاری میں صحیح لفظ کا استعمال ’خیال‘ کی ترسیلی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ لہٰذا زبان میں لفظ کی معنوی تہہ داری کی اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ انتخاب الفاظ کے فن تک رسائی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ’راسل‘ اور ’مرسل‘ لفظ کے نباض ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حسی اثر پذیری کے جوہر سے بھی آشنا نہ ہوں۔ ان حقائق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ’الفاظ‘ کسی ساز کے ان تاروں کی طرح ہوتے ہیں جن سے مضراب کے چھو جانے سے طرح طرح کے نغمے پھوٹتے ہیں۔ زبان میں یہ نغمے معنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ترسیل خیال میں لفظ و معنی کی اس اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ  لفظ و معنی کے اسی رشتے میں ’سیاق‘ کی اتنی اہمیت ہے۔ ایک لفظ کے سیاق تقریر کی وجہ سے مختلف معنی متعین ہوسکتے ہیں گویا سیاق معنی کا سلسلہ قائم کردیتا ہے۔ سیاق کے بغیر لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم مندرجہ بالا مثالوں میں سے پہلی سرخی ’بی جے پی کی سیاسی موت‘ کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ لفظ ’موت‘ اپنے روایتی معنی سے بالکل الف استعمال ہوا ہے۔ گویا لفظ کا سیاق لفظ کے معنی سے وسیع تر ہوتا ہے اس لیے معنی کا انحصار سیاق تقریر پر ہوتا ہے۔ ترسیل معنی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمیں ایک طرف تو ’راسل‘ اور اور ’مرسل‘ کی اہمیت دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف علامت کے دو رخوں کی اہمیت، لسانی علامت کا ایک رخ خارجی ہوتا ہے۔ خارجی رخ لفظ کی صوتی شکل ہے۔ دوسرا رخ داخلی ہوتا ہے جسے Signifiedیا مرموز کہہ سکتے ہیں۔

 محولہ تصور

Referenc

 محولہ شے

Reference

 علامت

Symbol

ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ و معنی کا رشتہ مہمل (Vague) ہوتا ہے یعنی اس کی حدود قطعی نہیں ہوتیں۔ لفظ و معنی کے اس رشتے میں ابہام کی ایک اہم وجہ مترادف (Synonymy)ہے۔

مترادفات (Synonymy)

زبان میں مترادفات وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی سچی ہم معنویت نہیں ہوتی کیونکہ زبان میں لفظ کے معنی کا انحصار سیاق پر ہوتاہے۔ بہ الفاظ دیگر لفظ کا مفہوم بالکل متعین اور قطعی نہیں ہوتا اور اس میں ابہام کا دخل ہوتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل سرخیوں پر نگاہ ڈالیں:

1        فوجی کارروائی میں دس دہشت گردہلاک  (قومی آواز)

2        کشمیر میں فوج اور انتہا پسندوں میں جھڑپ (قومی آواز)

3        سری لنکائی فوج کی نظر تمل ملٹنٹ پر (راشٹریہ سہارا)

4        سری لنکا میں تین شدت پسند گرفتار (آل انڈیا ریڈیو)

5        کشمیری مجاہدین شہید (ریڈیو پاکستان)

6        وادی میں دو انتہا پسندوں سمیت آٹھ ہلاک (ہندسماچار)

تو محسوس ہوتا ہے کہ ’دہشت گرد‘ ’انتہا پسند‘ ’ملٹنٹ‘ ’شدت پسند‘ اور ’مجاہد‘ وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہیں لیکن ان میں لغوی معنی کے علاوہ کسی نہ کسی قسم کا جذباتی لہجہ بھی شامل ہے۔گو کہ ان الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ بے تکلف استعمال کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں سچی ہم معنویت نہیں ہے کیونکہ اگر ہم ان کے ترسیلی ماحول کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا ترسیلی ماحول ہے جس کی وجہ سے ایک لفظ دوسرے لفظ سے زیادہ موزوں ہوجاتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ آخری سرخی ’کشمیری مجاہدین شہید‘ کا ترسیلی ماحول دیگر سرخیوں کے ترسیلی ماحول سے مختلف ہے۔ پاکستانی ریڈیو کی یہ سرخی ترسیلی سطح پر ’مجاہدین‘ کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتی ہے جب کہ دوسری تمام سرخیوں میں ہمیں اس ’ہمدردی‘ کا احساس نہیں ہوتا۔ تقریباً یہی کیفیت مندرجہ ذیل سرخیوں میں بھی نظر آتی ہے:

1        سری لنکا میں مذاکرات کے تعطل سے ناروے ناامید (راشٹریہ سہارا)

2        سری لنکا میں بات چیت ختم (آل انڈیا ریڈیو)

3        سری لنکا میں امن کے  لیے گفت و شنید (قومی آواز)

ان سرخیوں میں بھی ’مذاکرات‘ ’بات چیت‘ اور ’گفت و شنید‘ وہ ترکیبات ہیں جن کے معنی بظاہر یکساں ہیں لیکن ان مثالوں میں بھی مترادف جوڑوں کا پہلا لفظ ’مذاکرات‘ برجستہ ہے۔ بعض صورتوں میں مترادفات عقلی لحاظ سے قابل متبادل ہوتے ہیں لیکن ترسیلی لحاظ سے نہیں۔ جب کہ بعض صورتوں میں مترادف جوڑوں کو مترادف کہنا بھی ٹھیک نہیں، انھیں ہم معنی کہا جاسکتا ہے۔ ان مثالوں کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مترادفات بعض صورتوں میں ’خبر‘ کی ترسیلی قوت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بعض دوسری صورتوں میں ابہام (Vagueness) کا سبب بنتے ہیں۔ اردو ترسیل عامہ کی زبان میں مستعمل مترادفات پر اگر ہم نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان مترادفات کی ایک اہم وجہ ’مستعاریت‘ ہے۔ مستعاریت ایک زبان میں دوسری زبان سے الفاظ مستعار لیے جانے کا عمل ہے۔ مستعاریت کے اس عمل کی وجہ سے بھی مترادفات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً مندرجہ بالا سرخیوں میں ’دہشت گرد‘ ’انتہا پسند‘ اور ’شدت پسند‘ کے ساتھ ساتھ ملٹنٹ (Militant) کا استعمال حصولی زبان میں مترادف لفظ میں اضافے کی عمدہ مثال ہے۔

کثیر معنویت (Polysemy)

ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ کسی لفظ کے معنی کی تین قسمیں ہوتی ہیں (1) مرکزی معنی (2) اطلاقی معنی (3) جذباتی معنی۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے جذباتی معنی سے صرف نظر کرلیا  جائے تو زبان میں دو قسم کے معنی ہی بچتے ہیں۔ ایک مرکزی معنی اور دوسرا اطلاقی معنی۔ مرکزی معنی کو بالعموم لغوی معنی کہا جاتا ہے جب کہ اطلاقی معنی کو عام فہم زبان میں سیاقی معنی کہا جاتا ہے۔ مرکزی معنی یا لغوی معنی کا تعلق زبان یا لانگ Langue سے ہے جب کہ اطلاقی یا سیاقی معنی کا تعلق تکلم یا Parole سے ہے۔ زبان میں الفاظ اپنے لغوی معنی کے ساتھ ساتھ اطلاقی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں جو کثیر معنویت کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کثیر معنوی الفاظ کے متعلق یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ انھیں ایک لفظ تصور کیا جائے کہ کئی الفاظ کیونکہ لفظوں کے تاریخی ارتقا کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مرکزی مفہوم سے کئی مفہوم پھوٹتے جاتے ہیں جو کثیر معنویت کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح لفظوں کا معنوی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔ کثیر معنویت ترسیل خیال میں اگر ایک جانب معاون ثابت ہوتی ہے تو دوسری جانب اس سے ابہام Vagueness کا پہلو بھی نکلتا ہے۔

اردو زبان کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو زبان میں کثیر معنویت الفاظ کا استعمال خوب ملتا ہے۔ اردو ادب کی زبان میں بھی کثیر معنویتی الفاظ کا استعمال عام طور سے نظر آتا ہے۔

اگر  ہم مترادفات اور ہم معنی الفاظ کا بغور جائزہ لیں تو ہم معنی الفاظ یا مترادفات میں ایک لطیف سا معنوی فرق نظر آتا ہے مثلاً چاند، قمر یا ہلال میں معنوی یکسانیت کے باوجود ایک لطیف سا معنوی فرق دستیاب ہے۔ بہرکیف مترادفات کا یہ بنیادی تصور معنوی یکسانیت پر انحصار کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اگر الف ب کی ترجمانی کرتا ہے اور ب الف کی تو الف اور ب مترادفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم مندرجہ ذیل جملوں کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان جملوں میں معنوی یکسانیت موجود ہے:

وہ دیوانہ ہے،

وہ پاگل ہے

وہ مجنوں ہے

ان تفصیلات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مترادفات میں مندرجہ ذیل خصوصیات نظر آتی ہیں:

1        ان میں معنوی یکسانیت ہوتی ہیں

2        مترادفات ایک دوسرے کے متبادل ہوتے ہیں

لہٰذا کسی معنوی فرق کے بغیر کسی ایک لفظ کی جگہ دوسرے کا انتخاب ممکن ہے اور اسلوبیاتی ترجمے میں یہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور ماہر معنیات جان لائنس John Lyonsکے خیال میں مترادفات کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1        حقیقی مترادفات

2        ذیلی مترادفات

حقیقی متردافات معنوی اعتبار سے تقریباً یکساں ہوتے ہیں جب کہ ذیلی مترادفات ذیلی مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مثلاً قمر اور ہلال کی معنوی یکسانیت ذیلی مترادفات کے زمرے  میںا ٓتی ہے کیونکہ ہلال نوزائدہ چاند کو کہتے ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان معنوی رشتہ ذیلی رشتہ ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مترادفات میں درجاتی فرق نظر آتا ہے۔اگر الف معنوی مثال کے طور پر قمر اور مہتاب معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں تو ضروری نہیں کہ قمر اور ہلال کے مابین بھی وہی معنوی یک رنگی دستیاب ہو۔

مترادفات کے دائرے میں مترادفات Cognative کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ مترادفات Cognativeکا بھی تعین یکساں خیال کی ترجمانی کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ آہ بظاہر تکلیف اور درد کا مترادف نہیں ہے لیکن مترادفات Cognative کے اصولوں کے مطابق اسے ہم تکلیف اور درد کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے اردو زبان کے بعض اخبارات میں مستعمل بابری مسجد متنازعہ ڈھانچہ کو مترادف Cognative کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان فرق صرف پیشکش کا ہے۔ بابری مسجد ایک حقیقت کا بیباکانہ اظہار ہے تو متنازعہ ڈھانچہ اس حقیقت کا مصلحتی اظہار۔

ضد (Antonym)

دو الفاظ کے مابین معنوی تضاد سے اضداد کی تشکیل ہوتی ہے۔ گویا اضداد ایسے لفظی جوڑے ہوتے ہیں جو معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کا کوئی ایک لفظ اگر اثبات کا پہلو ظاہر کرتا ہے تو اس کے برعکس دوسرا نفی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گویا کسی شبہے یا حقیقت کے سبب اور منفی، تدکیر و تانیث اور اس طرح کے دوسرے متضاد پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے لفظی جوڑے متضاد الفاظ بناتے ہیں۔ متضاد الفاظ بالعموم دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ حقیقی تضادا ور درجاتی تضاد۔

حقیقی تضاد

متضادالفاظ کے ایسے جوڑے جو حتمی متصاد صورتوں کی عکاسی کرتے ہوں حقیقی تضاد کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرنا اور جینا، رات اور دن وغیرہ یہ جوڑے قطعی اور حتمی طور پر ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی درجاتی فرق نہیں ہے۔ لہٰذاا نھیں حقیقی تضاد کہا جاتا ہے۔

درجاتی تضاد

درجاتی تضاد کے زمرے میں ایسے تضاد کا شمار ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے متضاد تو ضرور ہیں لیکن اس تضاد میں درجاتی فرق حائل ہوتا ہے۔ کتنا اور کیسا جیسے استفہامی الفاظ سے اس تضاد پر سوالیہ نشان بنائے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سرد و گرم، لمبا اور ناٹا۔ شیریں اور تلخ کے درمیان درجاتی تضاد کا سوال اٹھایا جاسکتا۔ اردو زبان میں مترادفات اور اضداد کا استعمال عام ہے۔ مثال کے طور پر اردو اخبارات کی زبان میں انگریزی لفظ Militantکے لیے ... جنگجو، انتہا پسند، دہشت پسند، عسکریت پسند، مجاہد وغیرہ مترادفات کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی لفظ Militant کے ان اردو مترادفات کے تجزیاتی مطالعے سے یہ حقیقت بخوبی عیاںہوجاتی ہے کہ یہ لفظی جوڑے اگر ایک جانب مترادف ہیں تو بعض اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ یہ الفاظ مترادف محض اس لیے ہیں کہ یہ کسی ایک شے شخص یا حقیقت کی نشاندہی کے لیے مستعمل ہیں لیکن معنوی اعتبار سے ان میں قطبین کا فرق ہے۔ مثلاً لفظ مجاہد اور دہشت گرد میں قطبین کا فرق ہے۔ بہرکیف ان مترادفات میں سے کسی ایک لفظ کا انتخاب راسل کے ذہنی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اردو اخبارات کی بعض سرخیوں کے جائزے سے راسل کے ذہنی رویوں اور مرسل تک ایک ہی حقیقت کو مختلف انداز و اثرات کے ساتھ پہنچانے کی سعی کا اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ بعض سرخیوں میں جنگجو سے مخاصمت کاا ظہار ہوتا ہے، تو بعض دوسری سرخیوں سے راسل کے محتاط رویے کا اندازہ ہوتا ہے جب کہ چند اور سرخیاں جنگجو کی براہِ راست حمایت اور ہمدردی کی ترجمان ہیں۔ سطور بالا سے ظاہر ہے کہ اسلوب بیاں کی تشکیل میں مترادفات اور اضداد کا بنیادی رول ہوتا ہے۔ یہ مترادفات اور اضداد نہ صرف یہ کہ معنی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ راسل کے ذہنی رویے کی غمازی بھی کرتے ہیں۔

پراگمیٹکس (Pragmatics)

ماحول، حوالے، محل وقوع کی تبدیلیاں الفاظ کے متعین معنی و مفہوم میں تغیرات رونما کرتی ہے۔ ان تغیرات کا مطالعہ Pragmatics کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ الفاظ کے معنی و مفہوم کے تعین میں لفظ بنیادی رول انجام دیتے ہیں۔ مثلاً جاں بحق ہونا، ہلاک ہونا، شہید ہونا، جہنم واصل ہونا، فنا کے گھاٹ اترنا وغیرہ اس میں سے ہر لفظ جہاں موت یا مرنے کی خبر دیتا ہے وہیںا ن کے استعمال سے پیدا ہونے والے تاثرات میں خاصا فرق آجاتا ہے۔ علم لسانیات میں مترادفات اور ان کے استعمال کے متعلق مسائل کا مطالعہ اس علم کی دو شاخوں (1) معنیات (Semantics) اور (2) پراگمیٹکس کی روشنی میں کیا جاتا ہے:

1        جیسا کہ ہم سب واقف ہیں علم لسانیات کی اس شاخ معنیات (Semantics) میں لفظ اور معنی کے باہمی رشتے سے بحث کی جاتی ہے۔ اگر یہ بحث محض لفظ اور معنی کے باہمی رشتے تک محدود رہتی ہے تو اسے ہم لفظی معنیات (Lexical Semantics) کا نام دیتے ہیں۔ بصورت دیگر اسے معنیات کہتے ہیں۔

پراگمیٹکس میں مترادفات کا مطالعہ لفظ اور اس کے استعمال کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ باہمی رشتہ معنوی ہم آہنگی اور تضاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس طرح الفاظ کو ہم مندرجہ ذیل دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

الفاظ کی معنوی ہم آہنگی مترادفات کا تصور پیش کرتی ہے۔ قواعد کی روایتی اصطلاحوں میں ایسے تمام لفظی جوڑے مترادفات کے زمرے میںا ٓتے ہیں، لیکن پراگمیٹکس مترادفات کے بنیادی تصور کی منکر ہے۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ مترادفات میں ظاہری طور پر تو یقینا ایک معنوی یکسانیت نظر آتی ہے، لیکن اگر بہ نظر غائر جائزہ پیش کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لفظ دراصل علامتوں کا صوتی اظہار ہے اور انسانی ذہن میں علامتوں کی تشکیل ایک ایسا ذہنی عمل ہے جس کی بنیاد حرکت پر قائم ہوتی ہے۔

باب کا خلاصہ

*        معنیات لسانیات کا ایک نواحی شعبہ ہے۔

*        معنیات کے نقطۂ نظر سے سلسلۂ کلام کو جن اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے وہ ’لفظ‘ ہے۔ یعنی معنیات لفظ کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔

*        جملے میں الفاظ ’خاص‘ اور ’امدادی‘ طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

*        خاص لفظ لغوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔

*        امدادی لفظ جملے کی نحوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

*        کسی بھی زبان میں خاص الفاظ لغوی معنیات کا کام دیتے ہیں تو دوسری جانب امدادی لفظ نحوی معنیات کا۔

*        خاص لفظ کے معنی کو کلام کے سیاق کے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر سیاق لفظوں کے مختلف معنی کو متعین کرتا ہے۔

*        سیاق معنی کا پورا سلسلہ قائم کردیتا ہے سیاق کے بغیر مفرد لفظ کے معنی محض نظریاتی ہوتے ہیں، گویا لفظ ’شے‘ کی صوتی علامت ہے۔

*        لفظ و معنی کا رشتہ مہمل Vagueہوتا ہے۔ یعنی اس کی حدود قطعی نہیں ہوتیں۔

*        زبان میں مترادفات وہ الفاظ ہیں جن کے معنی یکساں ہوں۔

*        لفظ کے معنی کی تین قسمیں ہوتی ہیں (1) مرکزی معنی (2) اطلاقی معنی (3) جذباتی معنی۔

*        مرکزی معنی کو بالعموم لغوی معنی کہا جاتا ہے جب کہ اطلاقی معنی کو عام فہم زبان میں سیاقی معنی کہا جاتا ہے۔

*        حقیقی مترادفات معنوی ا عتبار سے تقریباً یکساں ہوتے ہیں۔ جب کہ ذیلی مترادفات ذیلی مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔

*        اضداد ایسے لفظی جوڑے ہوتے ہیں جو معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کا کوئی ایک لفظ اگر اثبات کا پہلو ظاہر کرتا ہے تو اس کے برعکس دوسرا نفی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

*        ماحول، حوالے، محل وقوع کی تبدیلیاں الفاظ کے متعین معنی و مفہوم میں تغیرات رونما کرتی ہیں۔ ان تغیرات کا مطالعہ Pragmatics کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔

ماخذ: اردو لسانیات، مصنف: علی رفاد فتیحی، دوسری طباعت: 2018، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...