28/4/20

الیکٹرانک میڈیا میں بذریعہ اردو روزگار کے مواقع مضمون نگار: شاہ رشاد عثمانی


الیکٹرانک میڈیا میں بذریعہ اردو روزگار کے مواقع
شاہ رشاد عثمانی

اردو  میں  روزگار کا سوال اس عہد کا ایک سلگتا ہوا سوال ہے، جس نے اردو تعلیم کے سلسلے میں کئی  اہم  سوالات  پیدا  کر دیے  ہیں۔ جیسے کہ ہم  اردو کیوں  پڑھیں؟ اردو  پڑھ کر ہم کیا کریں گے؟ اردو پڑھ کر نوکری ملے گی یا نہیں؟  میرے  نزدیک  یہ تمام سوالات  لاحاصل  اور  بے معنی  ہیں۔ میں  اصولی  طور  پر  اردو  زبان کو  روزی روٹی  سے  جوڑنے  کا  قائل  نہیں  ہوں۔ اردو  زبان  ہی  نہیں،  دنیا کی کسی  بھی  زبان،  ادب  اور علم  کے حصول کا  اصل  مقصد کیا  ہے،  پہلے  یہ  جاننا  ضروری  ہے۔  دیکھیے تعلیم  کے حقیقی رازداں علامہ اقبال اس  بارے  میں کیاکہتے  ہیں        ؎
علم سے عزت بھی ہے شہرت بھی دولت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سرغ
یعنی جو لوگ علم حاصل کرتے ہیں انھیں عزت، شہرت اور دولت تینوں ملتی ہے جس کا انسان ہمیشہ سے حریص رہا ہے۔ مگر یہ علم کا مقصد نہیں ہے، اگر ہے بھی تو ذیلی ہے بنیادی نہیں ہے۔ علم کا اصل مقصد اور غرض و غایت تہذیب نفس ہے، عرفانِ ذات ہے، خودشناسی اور خداشناسی ہے جسے اقبال نے خودی سے تعبیر کیا ہے۔ ’اپنا سراغ یا سراغ زندگی‘ کا پانا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد رہا ہے، کیونکہ اس کے بعد ہی سچی کامیابی اور حقیقی مسرت و شادمانی ممکن ہے۔
دراصل  تعلیم  کا   مقصد  انسان  کی  ظاہری   و  باطنی  شخصیت کی تعمیر (Personality development)  ہے۔ خاص طور سے اردو تعلیم کے ذریعے انسان کے اندر تہذیب آتی ہے،  اردو کی تعلیم سے انسان کی شخصیت میں ایک ایسی چمک پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے اٹھنے بیٹھنے، طورطریقہ اور انداز گفتگو  میں  وہ نکھار آجاتا ہے جس سے سامنے والا بے حد متاثر ہو تا ہے اور یہی زندگی کی  راہ  میں کامیابی کا پہلا قدم ہے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جہاں تک روزی روٹی،رزق  اور روزگار کا معاملہ ہے  تو اس کا تعلق تما م تر تقدیر پر ہے۔ انسان کے چاہنے اور اس کی صلاحیتوں اور کوششوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ خد ا کی مشیت ہے،رزق جب جتنا اور جہاں سے ملناہے اسے مل کر رہے گا۔ اس کے لیے یقینا محنت و تگ و دو کرنی چاہیے مگر اس کا تعلق زبان اور علم سے کسی طورپر نہیں ہے۔ اور جہاں تک لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اردو پڑھنے والا نکما رہتاہے، اردو سے روزگار نہیں ملتا،تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے، روزگار کا اصول بالکل دوسراہے، مانگ ہوگی تو مانگ کو پوراکرنے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مانگ پید ا کیجیے تو روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ اردو کی مانگ، اردو بولنے والے ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اردو پڑھ کر صرف ابتدائی، ثانوی اسکول اور یونیورسٹی کی اعلیٰ سطح کے تدریسی و تعلیمی شعبے میں جگہ ملتی ہے یہ تو ہے ہی، علاوہ ازیں اردو صحافت، پرنٹ میڈیا کے مختلف شعبوں ترجمہ نگاری، اشتہار نویسی اور طباعت و اشاعت کے مختلف شعبوں میں روزگار کے بڑے مواقع آج سامنے آئے ہیں۔ ہم اردو کے وسیلے کے ساتھ معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو ان مواقع میں مزید توسیع ہوگی۔جہاں ایک طرف یہ بات درست ہے کہ آج ملک میں اردو جاننے والوں کے تناسب میں ان کے لیے مواقع کی کمی ضرور ہے لیکن دوسری طرف جو مواقع موجود ہیں ان سے پورا پورا اور بہتر سے بہتر صلاحیت کے ساتھ فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہے۔جس حد تک ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہورہاہے، اس کے لیے آپ کا اس زبان میں مہارت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ صرف ٹوٹی پھوٹی اور کام چلاؤ اردو زبان سے آپ کام لیں گے تو پھر بات نہیں بنے گی۔ ٹوٹی پھوٹی اور کام چلاؤ ہندی اور انگریزی سے بھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر لوگ یہ سمجھ لیں کہ اردو مضمون لے کر امتحان میں آسانی سے اچھے نمبر مل جاتے ہیں تو بغیر قابلیت اور استعدادکے اچھے نمبر حاصل کرلینے سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ آگے چل کر مایوسی ہی ہوگی۔ اس سہل پسندی کی وجہ سے عام لوگوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا ہے کہ اردو میں پڑھنے لکھنے والے کوئی خاص محنت نہیں کرتے اور وہ دوسرے سماجی علوم اور سائنسی موضوعات میں بھی اچھی معلومات نہیں رکھتے۔ اسی لیے ایسے دوسرے درجے کے لوگوں کوآج کوئی نہیں پوچھتا۔ لہذا ہمیں پہلے ارد وزبان میں اچھی قابلیت اور مہارت پیدا کرکے اوراردو کو اعلیٰ علمی ضرورتوں کا وسیلہ بنا کر اس کھوئے ہوئے اعتماد کو پھر سے بحال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ذہین طالب علموں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے سا تھ اردو زبان کی طرف  متوجہ ہونا ہوگا تاکہ وہ اپنے آپ کو روزگار کے بہتر مواقع کا اہل ثابت کرسکیں۔
اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں اردو زبان کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ (Electronic Media) کی ایجاد نے سب سے پہلے ساری دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل کر دیا اور اب اس عالمی گاؤں میں جمہوریت کے چوتھے ستون ذرائع ابلاغ کی حکمرانی قائم ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل خصوصاًانفارمیشن ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقی نے تمام عالم انسانیت کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ آج ریڈیو، سنیما، ٹیلیویژن،کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل، ویب سائٹس، ریڈیو کانفرنسنگ، سیٹلائٹ چینلوں، فیکس اور سیلو لر فون کادور دورہ ہے۔ آج کے معاشرے کو پوری طرح ایک معلوماتی معاشرہ (Information Society) بنانے میں جدید الکٹرانک وسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں میں نہیں بلکہ موبائل کے ایک چھوٹے سے simمیں سمٹ آئی ہے، بقول منور رانا      ؎
اب فاصلوں کی کوئی حقیقت نہیں رہی
دنیا سمٹ کے چھوٹے سے اک سم میں آگئی
الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے استعمال اور روزگار کے مواقع پرجب ہم ایک سر سری نگاہ ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے ریڈیو کا ذکر ضروری معلوم ہوتاہے جس کا آغاز تقریباً ایک سو سال قبل ہوا تھا۔ پھر جیسے جیسے ٹکنالوجی نے ترقی کی اسی مناسبت سے ریڈیو کو بھی فروغ ہوا۔ ریڈیو پر ہر دور میں ادبی، تعلیمی اور تفریحی پروگرام اردو زبان میں بھی نشر ہو تے رہے۔ ریڈیو کے تقریباًتمام مراکز سے اردو نیوز، حالات حاضرہ پر تبصرے، مشاعرے اور ڈرامے وغیرہ اردو سروس کے تحت نشریات میں شامل رہے ہیں۔ یہاں بڑے پیمانے پر جزو وقتی اور کل وقتی پروڈیوسر اور پروگرامر کی جگہیں نکلتی ہیں۔ اور اردو قلم کاروں کو کام کے کافی مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
ہندوستان کا قدیم الیکٹرانک ماس میڈیا ریڈیو کے ساتھ سینما بھی ہے۔ گزشتہ صدی میں ان دونوں ذرائع عامہ یعنی ریڈیو اورسینما نے بے پناہ ترقی کی ہے۔آج ہندوستان کی مختلف زبانوں میں فلم پر و ڈکشن کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری نے جو غیر محسوس طور پر اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے وہ قابل ستائش ہے، اس نے اردو زبان اور کلچر کو عوام کے ذہنوں میں زندہ اور محفوظ رکھا‘ گر چہ آج یہ فلمیں ہندی کے نام پر ریلیز ہو رہی ہیں مگر ان کے گیت‘ ٹائٹل‘مکالمے‘ وغیرہ سب نوے فیصد 90%اردو میں ہیں اور اس کے لکھنے والوں میں تقریباًتمام اردو کے ادیب وشاعر ہیں۔ ظاہر ہے سنیما کے ڈائرکشن سے لے کر ایکٹنگ تک کے مختلف شعبوں میں اردو والوں کے لیے لامحدود امکانات ہیں۔
ٹیلی ویژن نیٹ ورک گزشتہ بیس پچیس برسوں سے بڑی سرعت کے ساتھ وسعت پذیر ہورہا ہے۔ دور درشن نے پورے ملک میں اپنے کئی طرح کے ٹرانسمیٹر نصب کر رکھے ہیں اور تنصیبات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس طرح ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں بھی دور درشن کے پروگرام دیکھے جا رہے ہیں۔ ریڈیو کی طرح ٹی وی پر بھی مختلف مراکز سے اردو پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں۔مختلف کیبل اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ذریعے اردو نیوز مشاعرے ڈرامے اور سیر یلز وغیرہ بڑے پیماے پر ٹیلی کاسٹ کیے جارہے ہیں، خصوصاً ڈی ڈی اردو،نیوز 18اورذی سلام جو صرف اردو زبان میں ہی اپنے تمام پروگرام نشر کرتا ہے ان سے اردو زبان کی مقبولیت اور فروغ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آج ماس میڈیا کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے‘ جس میں اردو زبان کی ضرورت  و اہمیت مسلّم نہ ہو‘ اخبار ہو یا ریڈیو‘ فلم ہو یا ٹیلی ویژن۔ اردو زبان کی قوت، اس کی ہمہ گیری‘ گہرائی وگیرائی‘ شیرینی‘ حسن‘ فصاحت وبلاغت اور اشارت وشعریت ہر جگہ کام آتے ہیں۔ خصوصاً الیکٹرانک میڈیامیں اردوکی اہمیت اور ضرورت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ٹی وی کی نجی کاری (Privatisation) کے بعد اردو زبان کا چلن ا ور بھی بڑھا ہے۔ اس لیے کہ عوامی رابطے کے لیے اُنہیں اس زبان کی ضرورت ہے۔ اردو تاریخی اعتبار سے اپنی پیدائش سے ہی عوامی رابطے کی زبان  (LinkLanguage)  رہی ہے،  اور اثر پذیری اس کی خصوصیت ہے۔ اس لیے میڈیا کو یہ ہمیشہ راس آئی ہے۔
آج انسان کے پاس فرصت کے لمحات بہت کم ہیں‘ ضروریات زیادہ ہیں۔ اردو اپنی جامعیت کی وجہ سے اختصار کے ساتھ موثر ہونے پر قادرہے۔اس کی ایک مثال ٹی وی پر اشتہارات کی مقبولیت ہے۔ ظاہر ہے ٹی وی کے لیے اشتہارات تیار کرنے اور پھر اسے ٹیلی کاسٹ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ایسی صورت میں کم وقت میں ضروری مواد پیش کرناہوتا ہے۔ اس جامعیت اور اختصار کے لیے اردو زبان بہت کام آتی ہے۔کسی بھی وقت ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارا ت کو غور سے سن لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ استعمال کیے جانے والے لفظوں میں غالب عنصر اردو کا ہے‘ مثال کے طور پر چند اشتہارات دیکھیے: کر لو دنیا مٹھی میں (ریلائنس فون) کھولے گا تو بولے گا (کولڈ ڈرنکس)سب سے تیز (آج تک نیوز) آپ کو رکھے آگے (اسٹار نیوز) دل مانگے مور (پیپسی ڈرنک)اپنا خیال رکھنا (گارنیر کاسمٹک) دیش کی دھڑکن (ہیرو ہونڈا) وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹی وی کے لیے اشتہار لکھنا ایک پروفیشنل معاملہ ہے اور بڑی حد تک تکنیکی بھی۔ مگر ایسے لوگوں کے لیے جو خیال کو لفظوں میں ڈھالنے کے ہنر سے واقف ہیں کوئی مشکل کام نہیں، وہ پیشہ ورانہ بنیاد پر اسے حصول روزگار کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
 انٹر نیٹ‘ ویب سائٹس اور آن لائن میڈیا کی بات کریں تو وہاں بھی اردو کے حوالے سے روزگار کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ہند وپاک کے مختلف شہروں سے اردو میں شائع ہونے والے بڑے بڑے اخباروں کے ویب سائٹس ہیں، جن پر ویب ایڈیشن نکل رہے ہیں، اب ای نیوز پیپر نکالنا بہت آسان ہوگیا۔ اگر ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوجاتی ہے تو Google Adsense کے ذریعے اس پر اشتہارات بھی مل جاتے ہیں۔ اردو کی پرنٹ میڈیا میں جہاں ریڈر شپ کا بازار نہایت سکڑا ہوا ہے وہیں ویب سائٹ پر یہ اخبارات لاکھوں قارئین کے ذریعے پڑھے جارہے ہیں۔ اسی طرح ادبی ویب سائٹ، اردو کتابوں کی ویب سائٹ، طب، صحت اور نفسیا تی مسائل پر کونسلنگ کے ویب سائٹس چلائے جارہے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بلاگسBlogs بنا کر بھی خوب کمار ہے ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ کا ایک اہم حصہ یوٹیو ب ہے، یوٹیوب پر مفت وڈیو اپ لوڈUp Load کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے خبروں کا چینل، مشاعرہ کا چینل، مزاحیہ ڈراموں کا چینل، ادب اطفال کے مختلف پروگراموں کا چینل وغیرہ  وغیرہ۔ جب ان چینلس کو دیکھنے والوں کی تعداد گوگل کے حساب خاصی بڑھ جاتی ہے تو وہ آپ کے چینل پر اشتہارات پوسٹ کرتاہے اور یوں آپ کو بھی اپنے نفع میں شریک کرتاہے۔ سوشل میڈیا، فیس بک، ٹیوٹر اور واٹس اپ کا استعمال بھی اردو والے بطور روزگار کررہے ہیں۔ اردو سافٹ وئیر اور اردو ایپس بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اردو آن لائن شاپنگ سنٹر س بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل ڈیجیٹل ورلڈ میں زبان کی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ زبان کے ساتھ ٹکنالوجی کا ملاپ ہونا زیادہ ضروری ہے۔ اردو Key Padکی ایجاد نے یقینا اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں داخل کردیا ہے۔ مگر اس کا خوب تر استعمال اردو والوں کی اپنی استعداد اور دلچسپی پر منحصر کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ الیکٹرانک میڈیا جہاں عالمی سطح پر اردو زبان کے فروغ میں اپنا موثر کردار ادا کررہاہے، وہیں اردو زبان میں روزگار کے نئے نئے مواقع بھی پیدا کررہاہے، جس نے یقینا ہمارے لیے امیدو امکانات کی وسیع دنیا کے دلکش دروازے کھول دیے ہیں۔

Dr. Shah Rashad Usmani
Retd. Asso. Prof. & Head Dept of Urdu
Anjuman Degree College & PG Centre
Bhatkal - 581320 (Karnataka)



ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

27/4/20

ادب و صحافت کی باکمال شخصیت- جمیل مہدی مضمون نگارـ اطہر حسین


ادب و صحافت کی باکمال شخصیت- جمیل مہدی
 اطہر حسین

اردو کے وہ صحافی جنھوں نے قوم وملت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کررکھاتھا ان میں ایک نام جمیل مہدی کا بھی ہے۔جمیل مہدی کا تعلق دیوبند سے تھا۔ انھوں نے وہاں سے کسب فیض کرنے کے بعد لکھنؤ کو اپنی عملی زندگی کے لیے منتخب کیا۔ایک عرصے تک یہاں لوح وقلم کی پرورش کرتے رہے۔لکھنؤ کی ادبی وتہذیبی زندگی کو قریب سے دیکھا،شہر نگاراں کی بھری پڑی زندگی ان کو مہمیز تو کرتی رہی لیکن ایک عرصے تک صحافت کے بے لوث خادم کی طرح انھوں نے خود کو دنیاوی آلائشوں سے محفوظ رکھا۔ یہیں انھوں نے شعور کی آنکھیں کھولیں، ادب  وصحافت کی معتبر شخصیات کو قریب سے دیکھا  اور ان سے قلم وکتاب کے رشتے کو سیکھا۔
دیوبند کی سرزمین مذہب وتہذیب کے تناظر میں عالمی شناخت کی حامل ہے۔وہاں کی مٹی میں علم وادب کی خوشبو ہے۔جس خوشبو سے انھوں نے خود کو معطر کر رکھا تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق تو بچپن سے تھا۔قومی اور ملی مسائل پر ان کا قلم خوب چلتا تھا۔اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کتابوں کے ساتھ ساتھ دیوبندمیں چلتے پھرتے سیکھ رکھی تھی۔مسلمانوں کے سماجی اور ثقافتی معاملات اور پس منظر سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔زندگی کے ان ابتدائی نقوش نے انھیں عملی زندگی میں کافی فائدہ پہنچایا۔ اخذ نتائج اور حالات کے تجزیے میں مذہبی اور تاریخی تناظر کی گہری واقفیت نے ان کے قلم کو کبھی بھٹکنے نہیں دیا۔ حالانکہ ان کویہ احساس تھا کہ انھیں اعلی تعلیم کے مواقع بہت کم ملے ہیں اور جو کچھ انھوں نے روایتی طریقہ تعلیم سے سیکھا ہے اس سے وہ بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے لیکن ان کا یہی اضطراب ان کی علمی کارگزاریوں کا ایک اہم سبب بن گیا۔جمیل مہدی کا تعلیمی سفر نہ کے برابر ہے انھوں نے روایتی تعلیم کے علاوہ کوئی ڈگری نہیں حاصل کی۔بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق،کتابوں کا مطالعہ اورقومی وملی مسائل پر قلم اٹھانا ان کا مشغلہ تھا۔اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے سیاسی وسماجی پس منظر پر ان کی گہری نظر تھی،جس کے سبب بہت جلد ان کی تحریروں نے منفرد اسلوب کی حیثیت اختیار کرلی اپنے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں: 
میری تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے،کیونکہ مڈل اور میٹرک اور عربی فارسی کی ابتدائی اور متوسط کتابوں کی تعلیم کو میں تعلیم نہیں مانتا،ویسے ساٹھ سال کے قریب میری طویل عمر میں ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا کہ کسی نے میری رسمی تعلیم پوچھی ہو یا کوئی سرٹیفکیٹ طلب کیا ہو... میری زندگی کا سب سے بڑا تجربہ یہ ہے کہ علم کتابی نہیں ہوتا سماعی اور تجرباتی ہوتا ہے۔مجھے مولانا سندھیؒ نے حجتہ اللہ البالغہ سبقا سبقا اس وقت پڑھانی شروع کی جب کہ میں عربی کا ایک لفظ نہیں جانتا تھا،لیکن آگے چل کر کان میں پڑے ہوئے وہ تمام الفاظ نہ صرف روشن ہوئے بلکہ آگے کی راہ کے لیے مشعل ہدایت بھی ثابت ہوئے۔
(پیش لفظ، افکار و عزائم، مرتبہ ڈاکٹر ذکی کاکوروی، میر اکادمی لکھنؤ 1989(
ان سطور سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا قلم اپنے بارے میں کسی مصلحت یا مبالغے کا شکار نہیں ہوتا تھا۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ زندگی کے ہنگاموں نے انھیں یہ فرصت ہی نہیں دی کہ وہ اپنے بارے میں کچھ لکھتے۔عین ممکن ہے کہ ان کے نزدیک اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ ہو۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے اور لوگوں کو بتانا بھی تاکہ بعد کی نسل یہ جان سکے کہ اس آباد خرابے میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں اور انھوں نے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔اسی احساس کے پیش نظر یہ چند سطور رقم کی جارہی ہیں۔اس احساس کے ساتھ کہ جمیل مہدی کی شخصیت اور ان کے فن پر بہت کم لکھا گیا ہے۔
جمیل مہدی کی بنیادی حیثیت ایک معتبر صحافی کی ہے مگر انھوں نے متعدد مضامین اور خاکے بھی لکھے ہیں ان کے خاکوں میں ”مولانا آزاد کی یاد میں،شکیل بدایونی، روش صدیقی بھی چلے گئے، مولانا عبد الماجد دریابادی، ڈاکٹر فریدی، مقبول احمد لاری،عرب دنیا بے چراغ ہوگئی اور ایک ہاتھ کا آدمی“ وغیرہ قابل ذکرہیں۔یہ تمام خاکے اپنی تمام تر صفات کے ساتھ خاکوں کے لوازمات پر کھرے اترتے ہیں۔ ’ایک ہاتھ کا آدمی‘ جمیل مہدی کے بھائی عقیل مہدی کا خاکہ ہے جو جذباتی اور تاثراتی نوعیت کا خاکہ ہے۔انھوں نے اس نفاست سے لکھا سے کہ بھائی عقیل مہدی کی شخصیت،سیرت،خوبیاں خامیاں غرض زندگی کے ہر پہلو ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔وہ اپنے بھائی عقیل مہدی کے متعلق لکھتے ہیں:
کیسا عجیب آدمی تھا،کتنا بہادر،کتنا شریف،کتنا باہمت، کیسا متحمل مزاج،منکسر اور صلح کل انسان تھا۔کیسا سعادت  مند بیٹا،کیسا فرماں بردار بھائی،کیسا وفا شعار شوہر، کیسا شفیق باپ اور کیسا وفادار دوست۔ایک ایک بات یاد آتی ہے، ایک ایک نشتر چبھتا ہے۔چالیس برس وہ طویل زندگی جس کے ایک ایک دن پر اس کی رفاقت کے نقوش ثبت ہیں سامنے آتی ہے تو ہر چیز بے معنی اور اپنا وجود بے مصرف دکھائی دینے لگتا ہے۔
(افکارو عزائم، مرتبہ ڈاکٹرذکی کاکوروی، 1989ص 504)
جمیل مہدی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز رسالہ ’شاعر‘ سے کیا۔یہ رسالہ ممبئی سے نکلتا تھا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔اس کا شمار اردو کے اہم ادبی رسائل میں کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ممبئی ہی سے نکلنے والے روزنامہ ’جمہوریت‘ کی بھی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ ’ہندوستان‘ اور روزنامہ ’خلافت‘ میں بھی اداریے لکھے۔ ان کے بھائی عقیل جو خود بڑے پایے کے شاعر تھے اور ایک سہ روزہ اخبار ’مرکز‘ نکالتے تھے جس سے جمیل مہدی بھی وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ سہارنپور سے’بیباک‘ اور دیگر بڑے رسائل واخبارات سے منسلک رہے اور خدمات انجام دیتے رہے۔
جمیل مہدی کا مطالعہ وسیع نظر عمیق اور حافظہ بہت قوی تھا۔ پرانی سے پرانی خبریں تفصیل کے ساتھ یاد ہوتی تھیں۔ان سب کے پیچھے ان کی لگن اور کڑی محنت تھی۔جمیل مہدی حضرت مولانامحمدمنظور نعمانیؒ کی مسلسل سفارش پرلکھنؤ آئے اور ’قائد‘ اور ’ندائے ملت‘کی ذمے داری سنبھالی۔ 1968میں عزائم نکالا جو دس سال تک ہفت روزہ رہا پھر عزائم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے روزنامہ کردیا گیا۔ یہی اخبار آگے چل کر جمیل مہدی کی شہرت اور شناخت کا سبب بنا۔نسیم اختر شاہ قیصرجمیل مہدی کی شخصیت کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جمیل مہدی صاحب اردو کے دور حاضر کے صف اول کے صحافی ہیں ان کے مضامین میں غیر معمولی علمی، ادبی، تہذیبی،اور معلوماتی خوبیوں کے علاوہ سب سے بڑی بات بلند نظری،وسیع المشربی،حقائق پسندی اور بین الاقوامی معاملات کی پرکھ ہے جس نے ان کی صحافت کو عام اردو صحافت سے بہت بلند بہت کارآمد اور معیاری بنادیا ہے۔
)نسیم اختر شاہ قیصر،میرے عہد کے لوگ،ازہر اکیڈمی شاہ منزل محلہ خانقاہ دیوبند، 2005ص176(
جمیل مہدی عاجزی وانکساری کے پیکر تھے بڑے حسن خوبی کے ساتھ اپنے اخباری فرائض کو انجام دیتے تھے۔وہ خود اپنے صحافتی سفر کے متعلق لکھتے ہیں:
مصنف بننے کی حرص، ستائش اور داد حاصل کرنے کا شوق، قابلیت اور صلاحیت کی سند اور اعتراف کی تگ ودو اور نمود ونمائش کا جذبہ کسی زمانے میں بھی، جوانی کے زمانے میں بھی جو اس طرح کی چیزوں کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے میرے نزدیک لائق توجہ نہیں رہا  بلکہ افتاد طبیعت اس کے اس درجہ خلاف رہی کہ تعریف وتوصیف کے مراسلوں تک کی اشاعت کبھی ’عزائم‘میں مناسب نہیں سمجھی بلکہ وقتا فوقتا اس طرح کے مراسلوں پر پابندی کے فیصلے کا اعلان بھی کیا جاتا رہا ہے۔
)نوائے خاموش، معصوم مرادآبادی، ایم آر پبلی کیشنز نئی دلی، 2019 ص135(
جمیل مہدی کے اداریوں کو اپنے عہد کی دستاویزی تاریخ قرار دیا جاسکتا ہے نیز یہ بھی کہ انھوں نے اپنے اداریوں سے اردو صحافت کی روایت کو فروغ اور اداریہ نویسی کو اعتبار بخشا۔ عزائم میں انھوں نے قومی،ملی،سیاسی اور دیگر موضوعات پر مسلسل اداریے لکھے جس کا ایک انتخاب ان کی زندگی ہی میں ڈاکٹر ذکی کاکوروی نے ’افکار وعزائم‘ کے نام سے شائع کیا۔ ان کے اداریوں میں جاذبیت، پختگی، عصری آگہی،سماجی بصیرت اور ایک طرح کی کشش نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ سب سے بڑی خوبی جمیل مہدی کا جارحانہ اسلوب اور جرأت مندانہ انداز تحریر ہے۔ وہ تلخ سے تلخ حقائق پر بھی قلم اٹھانے سے نہیں گھبراتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی دفعہ بعض دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔انھوں نے عزائم میں اداریے لکھ کر قارئین کی ذہن سازی میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے اس کی صدائیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔ مشہور افسانہ نگار رام لعل جمیل مہدی کے متعلق لکھتے ہیں:
بطور صحافی جمیل مہدی کا مرتبہ میرے نزدیک مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریابادی اور بعض دوسرے دانشوروں  کے بعد خاصا اہم رہا ہے۔جمیل مہدی صاحب کے بارے میں،میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ ایک چھوٹے اخبار کے بڑے ایڈیٹر تھے۔لیکن بعض کم تعداد میں چھپنے والے  اور ظاہری شان وشکوہ سے عاری اخبار بھی محض اپنے اداریوں کی وجہ سے اہم تصور کیے جاتے رہے ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان اخبارات کی فائلیں عرصہ دراز تک مختلف کتب خانوں اور ذاتی لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں۔
)جمیل مہدی کے اداریے، نیادور،فروری۔مارچ1990(
لکھنؤ سے جمیل مہدی کی قربتوں کا سبب اردو اخبارات تھے۔یہاں کے اہم اخباروں میں ندائے ملت بھی تھا جس کے مدیر حفیظ نعمانی تھے۔اس اخبار کے تاریخ ساز نمبر’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر‘کے سلسلے میں حفیظ نعمانی نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی اٹھائی تھیں،جس کی ایک الگ داستان ہے۔اس کا تفصیلی مطالعہ ان کی کتاب ’روداد قفس‘ میں کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ ابتدا میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ جمیل مہدی کی سوانح اور شخصیت کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔حفیظ نعمانی جو کہ ان کے دوست اور ساتھی تھے خود صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں وہ جمیل مہدی سے نہ صرف قریب تھے بلکہ ان سے خوب واقف تھے۔حفیظ نعمانی نے ایک طویل خاکہ جمیل مہدی پر لکھا ہے اس سے جمیل مہدی کو باسانی سمجھا جاسکتا ہے۔حفیظ نعمانی کے بقول:
مارچ1962میں جب ندائے ملت نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو قلمی معاونین کی جو فہرست بنی ان میں دیوبند سے ایک نام جمیل مہدی کا بھی تھا۔دوسرا نام مولانا حامداللہ انصاری غازی کا تھا۔لیکن ان سے کچھ لکھوا کر بھجنا جمیل بھائی کی ذمے داری تھی۔اخبار نکلتا رہا جمیل بھائی کا مضمون مہینہ میں کم از کم ایک آجاتا تھا۔
)بجھے دیوں کی قطار،مرتب محمد اویس سنبھلی،تنویر پریس لال باغ لکھنو، 2010ص105(
حفیظ نعمانی اور جمیل مہدی دونوں بنیادی طور پر قلم کے سپاہی تھے۔ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد کے پرآشوب دور میں ملت کی رہنمائی کے لیے قلم کو وسیلہ اظہار بنایا اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بے تکان اور مسلسل لکھا۔اخبار نویسی ان کے یہاں ذریعہ معاش نہیں بلکہ ایک مشن اور نصب العین تھا۔اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ نصب العین کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے جوکہ انھوں نے دی بھی۔جمیل مہدی کے بارے میں حفیظ نعمانی کی کتاب ’بجھے دیوں کی قطار‘ میں ایک خاکہ موجود ہے جس سے جمیل مہدی کی شخصیت اور ان کے کارناموں سے کس قدر واقفیت ہوتی ہے۔اس خاکے سے ان دونوں کی دوستی ہی نمایاں نہیں ہوتی بلکہ ان کی زندگی کے نشیب وفراز سامنے آتے ہیں۔اس خاکے سے پتہ چلتا ہے کہ صحافت اور صحافتی زندگی جمیل مہدی کی زندگی کا جزولاینفک تھی۔زندگی کے کڑے سے کڑے وقت میں بھی نصب العین سے گریز کی کوئی صورت نہیں تھی۔اقتباس ملاحظہ ہو:
میرے پاس دو بجے دن میں والد ماجد کا فون آیا انھوں نے بتایا کہ بھائی جمیل کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تم فوراً ان کے پاس چلے جاؤ۔میں نے ہلواسیہ جاکر دیکھا تو بیٹھے ہوئے اداریہ لکھ رہے تھے۔میرے ساتھ چند باتیں ہوئیں،میں نے معلوم کیا کہ کیا پروگرام بنایا؟کہنے لگے دہرہ شام کو سات بجے جاتی ہے اس وقت تک رونے سے بہتر یہ ہے کہ دوچار اداریے لکھ دوں باقی تم کر لینا،نہ معلوم کب واپسی ہو یا ہو بھی نہ۔
)بجھے دیوں کی قطار،مرتب محمد اویس سنبھلی، تنویر پریس لال باغ لکھنؤ،  2010،ص116,117(
مذکورہ اقتباس سے جمیل مہدی کی شخصیت، محنت، لگن اور فکر کا بخوبی انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ والد کے وصال کی خبر موصول ہوجانے کے باوجود اداریہ لکھنا نہ بھولے کہ کہیں عزائم کا کوئی شمارہ اداریے سے محروم نہ رہ جائے۔ایسے فرض شناس صحافی کی ادبی خدمات کا اعتراف بہت ضروری ہے جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اردو ادب و صحافت کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے اپنی صحافتی خدمات سے اردو صحافت کو جو فروغ اور اعتبار بخشا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔اردو کے صحافتی ادب کی جب بھی تاریخ مرتب کی جائے گی عزائم اور جمیل مہدی کے کارناموں کو ضرور یاد کیا  جائے گا۔
حوالے:
.1      افکاروعزائم، مرتبہ ڈاکٹر ذکی کاکوروی،میراکادمی لکھنؤ1989
.2      نسیم اختر شاہ قیصر، میرے عہد کے لوگ،ازہر اکیڈمی شاہ منزل محلہ خانقاہ
.3      بجھے دیوں کی قطار،مرتب محمد اویس سنبھلی، تنویر پریس لال باغ لکھنؤ 2010
.4      لکھنؤ کے بھولے بسرے صحافی،عبد النافع قدوائی،صدق فاؤنڈیشن لکھنو،2016
.5      نیادور،لکھنؤ فروری۔مارچ1990
.6      نوائے خاموش،معصوم مرادآبادی،ایم آر پبلی کیشنزنئی دلی، 2019


Athar Husain
MANUU Lucknow Campus
504/122 Tagore Marge Near Shadab Market
Lucknow - 226020 (UP)
Mob.: 8074378735

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

22/4/20

علامہ شوق نیموی کی غزل گوئی مضمون نگار:نسیم احمد نسیم





علامہ شوق نیموی کی غزل گوئی
نسیم احمد نسیم
سرزمین بہار زمانۂ قدیم سے باکمال اور نابغۂ روزگار شخصیات کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین نے ہر عہد میں اَن گنت علما، فضلا اور علوم و فنون کے گوہر نایاب پیداکیے لیکن صدحیف کہ ہم میں سے اکثر ان کے مابہہ الامتیاز کارناموں سے ناواقف ہیں۔ آج ایک عام چلن رائج ہے کہ جامعات کے تحقیقی مقالوں کو ہدف ملامت بنایا جائے اور معیار تحقیق کو زوال پذیر قرار دے دیا جائے لیکن سچ یہ ہے کہ آج انہی جامعات کے ذریعے گمشدہ اور گمنام ادبا، شعرا، علما اور دانش وران کو منظر عام پر لانے کا کام ہورہا ہے۔ ورنہ اس خودنمائی اور خود تشہیری کے ماحول میں متقدمین، متوسلین اور دوسرے اہالیان علم و فضل کو کون خاطر میں لاتاہے۔
علامہ شوق نیموی کا شمار ایسے ہی مشاہیر میں ہوتا ہے۔ وہ ایک معروف عالم دین تھے اور علم حدیث میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی مذہبی اور ادبی خدمات کو ان کے عہد میں کھلے دل سے سراہا گیا۔ لیکن آگے چل کر رفتہ رفتہ انھیں فراموش کردیا گیا۔اردو دنیا احسان مند ہے ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی صاحب کی کہ انھوں نے بہت ہی عرق ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ تحقیق کرکے علامہ کے حالات زندگی اور ان کی متنوع اور منفرد علمی، دینی اور ادبی خدمات کو منصہ شہود پر لانے کی پہل کی۔ علامہ کی حیات و خدمات پر ان کی دوکتابیں اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ قاسمی صاحب نے علامہ کی شاعری اور ان کی زبان دانی کے متعلق لکھا ہے کہ:
”…… وہ اردو زبان کے مستند شاعر اور محقق و زبان داں تھے۔ ان کی شعری خوبیوں کو داغ   دہلوی، تسلیم لکھنوی، حسرت عظیم آبادی اور احسن مارہروی جیسے نامور شعرا نے سراہا اور مولانا ابوالکلام آزاد اور ضیا عظیم آبادی نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا اور ان کی شاگردی پر فخر کیا۔ اس کے علاوہ زبان دانی کے میدان میں جلال لکھنوی جیسے اہم شاعر کو شکست فاش دی اور ’جگنو وجگن‘ اور ’چھان بین‘ کی تحقیق میں دہلی اور لکھنؤ کے اساتذہ سے اپنی زبان دانی کا لوہا منوایا۔
(علامہ شوق نیموی حیات و خدمات، ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی۔ سخنہائے گفتنی، مطبع مجلس علمی پٹنہ1987ء ص:90)
واضح ہوکہ علامہ کو شاعری کی مختلف اصناف پر قدرت حاصل تھی اس لیے انھوں نے جس صنف میں کہا، خوب کہا۔ انھیں عربی، فارسی اور اردو پر یکساں عبور حاصل تھا اس لیے ان کی شاعری میں لسانی سطح پر رنگارنگی اور بوقلمونی کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یوں تو انھوں نے حمد و نعت، مناقب ومثنوی اور قطعات و رباعیات بھی تخلیق کی لیکن ان کی غزلیہ شاعری کی شان ہی نرالی ہے۔ میری دانست میں ان کے جوہر غزل میں ہی کھل کر پورے طور پر سامنے آتے ہیں۔ علامہ کی غزلوں کے غائر مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی خاص ادبی اسکول یا ادبی رجحان کے قائل نہیں تھے بلکہ انھوں نے ہر اسکول کی خصوصیات پر نظر رکھی۔ ان کے یہاں قدماء کا رنگ تغزل ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر مقام پر ان کی فنی مہارت اساتذہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ان کے اکثر اشعار میں ظریفانہ رنگ بھی جھلملاتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ اس قبیل کے اشعار ہمیں غالب کی یاد دلاتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کریں       ؎
دل شوق حسینوں سے لگانا نہیں اچھا
ہوجاؤگے بدنام زمانہ نہیں اچھا
دامن کبھی جھلتے ہیں کبھی ملتے ہیں وہ ہاتھ
اے شوق ابھی ہوش میں آنا نہیں اچھا

مجھے بھی عشق کا دعویٰ ہے اور غیر کو بھی
جو آپ چاہتے ہیں امتحان بہت اچھا
کلام شوق وہ سن کر پھڑک کے بول اٹھے
زباں ہے بہت اچھی، بیان بہت اچھا

کبھی کہیں کی، کبھی کی، یہاں وہاں کی بات
نکالی حضرتِ ناصح نے بھی کہاں کی بات
جوفکر کرتی ہے میری بلندیِ پروازی
تو شوق جوش میں کہتی ہے لامکاں کی بات

خزاں نے باغ لوٹا، پھول توڑے، دستِ گلچیں نے
بریشاں بوئے گل ہے بلبلوں کے گھر اجڑتے ہیں
کسی شمشادِ گلزارِ سخن کا پڑگیا سایہ
کہ آج اے شوق اپنی نظمِ موزوں پر اکڑتے ہیں

پروانے سے یہ کہتی ہے رو روکے شمع آج
سوزِدروں نے پھونک دیا سرسے پاؤں تک
روشن اسی سے ہے کہ ہمارا چراغِ دل
اے شوق ہے جو نور خدا سر سے پاؤں تک

حیرت زدہ ہیں اہل نظر بولتے نہیں
سب کچھ یہ دیکھتے ہیں مگر بولتے نہیں
پائیں گے کیا عدو مرا رنگ کلام شوق
زاغ و زغن ہزار کا گھر بولتے نہیں
یہ اشعار ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی صاحب کے مونوگراف (مطبع بہار اردو اکادمی) سے ماخوذ ہیں۔ مونوگراف میں شامل 55 غزلیں، دیوان شوق مطبوعہ مطبع سیدی، پٹنہ سے ڈاکٹر صاحب نے نقل کیے ہیں۔ ان غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ ایک بہت ہی خوش گو اور پُرگو شاعر ہیں۔ زبان شستہ اور شگفتہ، زبان دانی کا کمال اور استادانہ رنگ و آہنگ کا جمال ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن اس اختصاص کے ساتھ کہ کہیں سلاست اور شعریت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ علامہ کے یہاں بھی ان کے عہد کا شعری مزاج اور مستعمل موضوعات ملتے ہیں، ان کے یہاں بھی معشوق کی ستم گری اور عشوہ طرازی کا گلہ شگوہ ہے، لیکن اس قبیل کے اشعار کے بین السطور میں وہ اشارے اور کنایے بھی موجود ہیں جو ہمیں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا اشعار میں بھی عشق کے روایتی احوال و کوائف بہ کثرت موجود ہیں لیکن اوروں کے عشق اور علامہ کے عشق میں ایک فرق یہ ہے کہ وہ محبوب کے آگے کلی طور پر سپردگی کے قائل نہیں۔ وہ معشوق کو اپنی اہمیت اور مرتبے کا احساس بھی کرانا چاہتے ہیں۔ وہ رقیب کو روسیاہ اور فریبی نہیں کہتے بلکہ اس کے روبرو ہو کر مرحلہ شوق کو سرکرنا چاہتے ہیں۔ وہ معشوق سے صرف دل لگی نہیں کرتے بلکہ اَٹھکھیلیاں بھی کرنا جانتے ہیں۔ غالب نے کہاتھا         ؎
عاشق ہوں مگر کام ہے معشوق فریبی
مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
علامہ کے یہاں غالب کا یہ رنگ اور یہ رویہ اکثر مقام پر دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
اردو شاعری میں ناصحین اور واعظین شعرا کے خاص اہداف رہے ہیں۔ علامہ نے بھی ان کی خبرلی ہے اور ان کی ناصحانہ باتوں کو لایعنی اور غیر ضروری قراردیا ہے۔ ساتھ ہی اپنی فکری پرواز کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکاں ہی نہیں لامکاں تک رسائی کا موجب تصور کرتے ہیں۔ شمع جلتی ہے اور پروانے اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں لیکن شمع کے سوزِدروں کو کون محسوس کرتا ہے۔ شاعر کے یہاں علامتی پیرا ئے میں اس دردوکرب کو اجاگر کیا گیا ہے جو ہر دور کے اصحابِ شوق کا مقدر رہے ہیں۔ اس غزل کے دوسرے شعر میں شاعر نے قدرت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ہستی اور اس کی شادمانی و کامرانی کو خدا کے نور کا طفیل بتایا ہے۔ اور آگے کے دونوں اشعار ہر عہد کا پرتو نظر آتے ہیں۔ شکست و ریخت اور انتشار سے اکثر زمانوں کو گزرنا پڑا ہے۔ لیکن ان ناموافق حالات میں بھی شاعر حزن و یاس کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ ضبط و تحمل سے کام لیتا ہے اور اپنے حالات و کیفیات کو بہ طریقِ احسن فخریہ طور پر موزوں کرنے پر قادر نظر آتاہے۔ شاعر آگے چل کر حددرجہ بڑھتی ہوئی مصلحت پسندی پر گہرا طنز کرتا ہے۔ اس کے مطابق ہر طرح کے ظلم و ستم اور ناانصافی دیکھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرنا سراسر ظلم کی حمایت ہے، اس لیے انسان اور انسانیت کے تحفظ اور بقا کے لیے اس رویے سے فوری نجات لازمی ہے۔ اخیر میں چند اشعار اور دیکھیں       ؎
جو تم کو جانتے ہیں اور بھی ہیں مشکل میں
یقین والوں سے بہتر گمان والے ہیں
کسی غریب کی فریاد کو وہ خاک سنیں
بلند قدر ہیں، اونچے مکان والے ہیں

زمانے نے دگرگوں کردیا یاروں کی مجلس کو
پریشاں آج اپنے حال میں ہے دیکھیے جس کو
وہی اشعار جن میں لطف کچھ رہتا ہے، رکھتے ہیں
غزل میں شوق ہم بھرتے نہیں رطب و یابس کو

ملا یہ نسخۂ نایاب حالِ کیمیا گر سے
رہا مفلس جسے ہے حرص دامن گیر چاندی کی

مرا لوہا عدوئے سنگ دل نے جان سے مانا
جو دیکھی دیدہئ انصاف سے تحریر لوہے کی

ہوا جب جل کے سرمہ، بڑھ گئی توقیر پتھر کی
کیا چشم بتاں میں گھر، زہے تقدیر پتھر کی
نہایت کاوشِ دل سے جو میں نے یہ غزل لکھی
زمینِ شعر میں اے شوق کی، تعمیر پتھر کی
غور طلب ہے کہ یہ اشعار معاملاتِ عشق اور احوال معشوق سے بالکل الگ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ابتدا کے تین اشعار میں جہاں نام نہاد دانش مندوں پر طنز و استہزا کے تیر چھوڑے گئے ہیں، وہیں کم علم اور سادہ لوح لوگوں کی سادگی اور معصومیت کو ستائش کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں اپنے گردوپیش میں رہنے والے ان اشخاص کو طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا ہے جو اعلیٰ مقام و منصب والے تو ہیں لیکن ان کی سوچ اعلیٰ نہیں، ان کا ذہن و قلب وسیع اور فراخ نہیں۔ اس لیے شاعر کے مطابق ان کے آگے فریاد لے کے جانا عبث ہے۔
علامہ کے اشعار کے اس مختصر انتخاب کے اخیر میں چاندی، لوہا اور پتھر کو بطور ردیف استعمال کرکے علامتی طور پر اپنی ذات اور کائنات کی تفہیم کی بہت ہی فنکارانہ اور استادانہ کوشش کی گئی ہے۔ یہاں شاعر نے چاندی، لوہے اور پتھر کو مختلف معافی اور مختلف کوائف میں پیش کرکے جہاں ایک طرف خدا کی قدرت اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا ہے وہیں اس کے ذریعے اپنے ماضی اور حال کی عقدہ کشائی کا کام بھی لیا ہے۔
مختصر یہ کہ علامہ شوق نیموی جیساکہ عرض کیا گیا کہ مختلف علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے۔ وہ اپنے عہد کی اہم ترین علمی، ادبی اور دینی شخصیت تھے۔ ہم عصر مشاہیر نے ان کا اعتراف بھی کیا۔ لیکن آگے چل کر رفتہ رفتہ ہم نے انھیں بھی اپنے دوسرے مشاہیر اور اسلاف کی طرح فراموش کردیا اور ان کے کارنامے چند ایسی کتابوں میں دبے رہ گئے جو عام قارئین اور طلباء کے ہاتھ اکثر نہیں لگ پاتیں۔

Naseem Ahmad
Near Mirshikari Toli Masjid Kali Bagh
Bettiah. 845438
Mob. 7011548240


ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

21/4/20

یگانہ چنگیزی: جدید غزل کا ایک بنیاد گزار مضمون نگار: س ش عالم




یگانہ چنگیزی: جدید غزل کا ایک بنیاد گزار

 س ش عالم

اردو کے تنک مزاج، انا پرست، ضدی، سخت گیر، شعلہ خواور باغیانہ تیور رکھنے والے شعرا کی فہرست تیار کی جائے تو یگانہ چنگیزی کا نام یقینا سر فہرست رکھا جائے گا۔ زندگی بھر اپنی ذات اور سماج سے الجھنے والا یہ شاعرکبھی مذہبی حوالے سے جھنجھلاہٹ آمیز اظہار پر معتوب ہوا، کبھی انانیت کی حد تک دراز ’خود شناسی‘ کے سبب طنز وتضحیک کا شکار بنا، کبھی بے وجہ شعراے متقدمین کی کھال کھینچنے پر لوگوں سے جھگڑتا رہا، کبھی فکروفن میں یکتائی کے دعوے نے کسی سے ذہن ملنے نہیں دیا اور کبھی کشمکشِ حیات سے ایسا نبردآزما ہوا کہ خود میں ہی الجھ کر رہ گیا .....  غرض متضاد ومتنازعہ کیفیات وواقعات کا عمر بھرشکاررہنے والا یہ شاعر اردو زبان وادب میں اپنی انفرادیت کے ایسے نقوش چھوڑ ہی گیا کہ ناقدینِ ادب کو کم از کم یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑا کہ یگانہ واقعی یکتاویگانہ تھا۔
مرزافضل علی بیگ المعروف واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی اردو ادب کا ایک معروف اور بڑا نام ہے۔ ان کی پیدائش27 ذی الحج 1301 ہجری مطابق17 اکتوبر 1884 میں پٹنہ کے محلہ مغلپورہ میں ہوئی۔ بعض اہلِ قلم نے ان کا سنہ پیدائش 1883 بتایا ہے جو غلط ہے۔ان کے والد مرزا پیارے کا تعلق ایک ایسے جاگیردار خاندان سے تھاجو عرصۂ دراز سے عظیم آباد میں مفتخر ومعتبر رہا تھا لیکن مرزا پیارے تک آتے آتے جاگیرداری کا سورج افلاس کی ظلمت میں گم ہوچکا تھا، البتہ روایات اور اقدار باقی تھیں، تعلیم کا رواج اور ادب دوستی مزاج کا حصہ تھی اسی لیے یگانہ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی، غیر معمولی ذہانت کے سبب انھوں نے تعلیمی مراحل نمایاں کامیابی کے ساتھ طے کیے،1903  میں محمڈن اینگلو عربک اسکول عظیم آباد سے انٹرنس پاس کیا۔ 1904 میں کلکتہ پہنچے۔ یہاں وہ نواب واجد علی شاہ کے فرزندمحمد مقیم کے پسران محمدیعقوب علی مرزااور محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے استاد مقرر ہوئے لیکن کلکتہ کا ماحول اور آب وہوا راس نہ آنے کے سب جلد ہی طبیعت اوب گئی اور پٹنہ واپس آگئے، 1905  میں علاج کی غرض سے لکھنؤ کا سفر کیا اور سرزمینِ لکھنؤ نے ایسے قدم جکڑے کہ تا عمرلکھنؤ کے ہی اسیر رہے۔1913 میں لکھنؤ کے نامور حکیم مرزا محمد شفیع کی دختر کنیز حُسین سے شادی ہوئی۔ لکھنؤ میں اودھ اخبار کے کچھ عرصہ مدیر بھی رہے لیکن چپقلشوں میں الجھے رہنے کے سبب ذہنی انتشار، افسردگی اور بے روزگاری نے کبھی اٹاوہ کے کسی اسکول میں مدرسی کے فرائض انجام دینے پر مجبور کیا، کبھی ریلوے میں ملازمت کرنا پڑی اور کبھی حالات سے تنگ آکرلاہور،علی گڑھ اور حیدر آباد کا رخ کیا۔لاہور میں ان کا قیام کافی عرصہ رہا اور وہاں انھوں نے کافی شہرت حاصل کی نیز تمام اہم رسائل واخبارات میں ان کا کلام بھی شائع ہوتا رہا۔ اکثر علامہ اقبال سے بھی ملاقاتیں کرتے تھے (یہ 1926) کے لگ بھگ کی بات ہے، بعد کے دور میں یگانہ علامہ اقبال کے بھی مخالف ہوگئے تھے۔1933 میں وہ عثمان آباد میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہے، پھر لاتور چلے آئے، 1938  میں سَیلو میں رہے اور 1941  میں وہ یادگیر میں مقیم تھے۔ چونکہ زمانہ سازی اور مصلحت اندیشی سے یکسر ناواقف تھے اس لیے کسی جگہ یگانہ کی نہ بن سکی، مختصر سی مالی آسودگی کے بعد بار بار تنگ حال اور بے روزگار ہوکر پھر انجامِ کار لکھنؤ لوٹ آتے تھے اور یہاں وہی معاصرانہ چشمکوں میں الجھ جاتے، ویسے حقیقت یہ بھی ہے کہ لکھنؤ سے باہر رہ کر بھی وہ اہالیانِ لکھنؤ سے سوال وجواب کا سلسلہ نثر ونظم میں جاری ضرور رکھتے تھے۔ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میری زندگی کچھ ایسے تلخ وناگوار واقعات کے سلسلہئ لامتناہی میں جکڑی ہوئی ہے اورایسی بے سروسامانی،  تنگ دستی،پراگندہ دلی و مکروہاتِ گوناگوں اور صعوباتِ روز افزوں کا سامنا رہتا ہے کہ جمعیتِ خاطر کی امید بڑھتی (بندھتی) نہیں دکھائی دیتی.....  اطمینان وفراغ نہ پہلے حاصل تھا نہ اب میسر ہے۔،، (کلیاتِ یگانہ، مرتبہ: مشفق خواجہ، ناشر فرید بکڈپو، دہلی 2005، عکسی لاہور ایڈیشن)
1942 میں حیدر آباد میں سب رجسٹرار کی ملازمت ختم ہونے کے بعد پندرہ روپے ماہوار پنشن مقرر ہوئی جس سے گزارہ بہت مشکل تھا اس لیے دوبارہ مزید مالی استحکام کے لیے حیدر آباد، بمبئی اور کبھی دیگر شہروں کا رخ کیا لیکن کوئی قابلِ اطمینان صورت پیدا نہ ہوسکی جس سے مایوس ہوکر 1949 میں مستقل طور سے لکھنؤ آگئے، اور یہیں انتہائی سخت حالات میں 2 فروری 1956 کو انتقال کیا۔ کچھ محققین نے تاریخ وفات4 فروری بھی تحریر کی ہے البتہ کثرت سے 2 فروری پر ہی اتفاق نظرآتا ہے۔
تمام تکالیف اور سختیوں کے باوجود یگانہ کو لکھنؤ سے گویا عشق تھا،حالانکہ حالات تو یہ تھے کہ   ؎
وطن کو چھوڑ کر جس سرزمیں سے دل لگا یا تھا
وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہوکر
لیکن پھر بھی لکھنؤ سے روحانی وابستگی کا عالم یہ تھا      ؎
کششِ لکھنؤ ارے توبہ
پھر وہی ہم، وہی امین آباد
ابتدا میں شعرائے لکھنؤ کے ساتھ یگانہ کے تعلقات کافی خوشگوار رہے اور وہ اکثر ان کے ساتھ مختلف مشاعروں اور طرحی نشستوں میں شریک رہتے تھے لیکن اخلاص ومحبت کی یہ فضا زیادہ دیر تک سازگار نہ رہ سکی اور معاصرانہ چشمکوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا جو یگانہ کی آخری سانس تک جاری رہا۔لکھنؤ میں اس وقت ایک سے ایک بڑا استادِ فن موجود تھا،لکھنؤ والے پہلے سے اِ س مرض میں مبتلا تھے کہ وہ اپنے علاوہ زبان وادب کے حوالے سے کسی کوذرا مشکل ہی سے مستند مانتے تھے، اِدھر مرزا یاس انانیت کے پیکراور فکروفن کی انفرادیت کے مدعی ہوکر پہنچے، بس اہلِ لکھنؤ سے ٹھن گئی اور ایسی ٹھنی کہ یگانہ نے گویا جواب الجواب کے قصے کو ہی صبح وشام کا مشغلہ بنالیا۔خوب خوب معرکے گرم رہے، حد ہوئی کہ مرزا واجد حسین یاس عظیم آبادی کے ’مرزائی خون، نے ایسا جوش مارا کہ وہ تخلص تبدیل کرکے ’یگانہ چنگیزی‘ بن گئے، گویا کہ مخالفین کو مرعوب کرنے کے لیے’چنگیزیت‘ کا سہار اتک لے لیا۔ البتہ یہ بھی ہوا کہ ان چپقلشوں اور معرکوں سے جہاں ایک طرف اہلِ فکرونظر اور طالبانِ علم وادب کو فائدہ ہوا وہیں یگانہ کی شاعری کا ایک منفرد رنگ بھی ابھر کر سامنے آگیا۔ خود یگانہ کو بھی اس کا کسی قدر احساس ہوچلا تھا اوراسی لیے شاید انھوں نے کہا ہے        ؎
یگانہ   وہی    فاتحِ  لکھنؤ     ہیں
دلِ سنگ وآہن میں گھر کرنے والے
مخالفت یا معاصرانہ چشمک کا آغاز شعرائے لکھنؤ کے معمولی اعتراضات سے ہوا تھا لیکن پھر یہ معاملہ زمانہ بہ زمانہ طول پکڑتا ہی گیا۔ شعرائے لکھنؤ غالب کے مقلد تھے اس لیے یگانہ کوان کی ضد میں غالب شکنی کاایسا جنون سوار ہوا کہ انھوں نے ایک طرف تو ’نشترِ یاس‘ لکھی اور دوسری طرف خود کو آتش کا مقلد کہنے لگے۔پھر ’چراغِ سخن‘ میں غالب اور معترفینِ غالب کی خوب خوب دھجیاں اُڑائیں۔ انھوں نے ہاپوڑ کے رسالہ ’خیال‘ کے لیے ’آتش وغالب‘ کے عنوان سے غالب کے خلاف پہلا مضمون لکھا جو نومبر1918  کے شمارے میں شائع ہوا اور پھر یہ سلسلہ گویا چل نکلا۔  بقول مشفق خواجہ:
نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ کسی بھی موضوع پر لکھتے،تان غالب  پر ٹوٹتی۔ 1927  میں جب ’آیاتِ وجدانی‘ کاپہلا ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں بھی جابجا غالب پر مشقِ ستم کی گئی تھی اور یہ مشق اس حد تک بڑھی کہ انھوں نے اپنے ہمزاد مرزا مراد بیگ شیرازی کی زبان سے یہ اعلان کردیا”اب دیوانِ غالب میزانِ انصاف وخرد میں کلامِ یاس کے برابر نہیں تُل سکتا“......  اس سلسلے کی انتہا وہ رسالہ تھا جو ”غالب شکن،،کے نام سے پہلی مرتبہ 1934میں اور اضافوں کے ساتھ دوسری مرتبہ 1935  میں شائع ہوا۔
(کلیاتِ یگانہ، مرتبہ: مشفق خواجہ ایضاً)
یگانہ نے محض اہلِ لکھنؤ کو نیچا دکھانے کے لیے عرصے تک غالب کی مخالفت کا عَلَم بلند کیے رکھا، اِ س سے بہر حال غالب اور غالب پرستوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا البتہ خود یگانہ اپنی شاعری پر ایسی توجہ نہ دے سکے جس کی وہ مستحق تھی۔اس عرصے میں جہاں یگانہ خود ذہنی انتشار اور کسی قدر ذہنی مَرَض کی زد میں رہے وہیں احباب ومتعلقین اور اہلِ خانہ سے بھی ان کے معاملات کافی تلخ وترش رہے۔
لکھنؤ میں وارد ہونے سے لے کر اہلِ لکھنؤ میں اعتبار حاصل کرنے یعنی یاس عظیم آباد ی سے یگانہ چنگیزی بننے تک کا طویل ترین عرصہ کافی ہنگامہ خیز رہا۔چونکہ یگانہ از خود میر وآتش  سے انتہائی متاثر تھے اس لیے شاعری پر اساتذہئ لکھنؤ کے معمولی اور جزوی اعتراضات نے رنگ بدل کر ’عروضی معرکہ‘ گرم کردیا۔ عزیز لکھنوی اور ثاقب لکھنوی جیسے اساتذہ سے عروض دانی میں امتیازپر ٹھن گئی اور طرفین اپنے اپنے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔یگانہ بھی اپنے حریف اساتذہ سے ہر موضوع پر چومکھی لڑنے لگے۔پھر بات غالب شکنی تک پہنچی اوراس کے بعد عقائد کے حوالے سے بھی معتوب قرار پائے۔ غرض ان کی زندگی نہایت ہنگامہ خیز اور تضادات سے بھری ہوئی تھی۔
یگانہ  بیک وقت صحافی، ادیب، ناقد، عروض داں اوربلند پایہ شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے کمالِ فن کے جائزہ سے قبل تصانیف کا ذکر بے محل نہ ہوگاجو درجِ ذیل ہیں:
(1)  نشترِ یاس (حصہ اول) شعری مجموعہ (2) چراغِ سخن (اردو نثر/ رسالہ عروض وقوافی) (3)  کارِ امروز (ادبی ماہانہ رسالہ) چھ شمارے شائع ہوئے۔ (4)  صحیفہ (ادبی ماہوار رسالہ) ایک شمارہ شائع ہوا۔ (5) شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز(عزیز لکھنوی کی شاعری پر اعتراضات)۔(6)آیاتِ وجدانی بمع محاضرات (شعری مجموعہ)۔(7)  ترانہ(مجموعۂ رباعیات)۔ (8) غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)۔  (9) غالب شکن دو آتشہ۔ (10)گنجینہ (مجموعۂ غزلیات ورباعیات)۔(11) کلیاتِ یگانہ (مرتب بقلم خود بفرمائش علی سجاد ظہیر)۔
اس کے علاوہ بھی کثرت سے نثری مضامین جن میں اکثر کے موضوعات عروضی بحث اور غالب کی مخالفت تھی، مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے۔نثری مضامین کی طرح ان کا کلام بھی اس دور کے تمام رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ مذکورہ تمام کتب کے ہندوپاک سے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، علاوہ ازیں تحقیقی مقالات اور انتخاباتِ کلام الگ ہیں۔
یگانہ نے یاس عظیم آبادی کی حیثیت سے شاعری کا آغاز عظیم آباد میں ہی کردیا تھا،اور سید علی خاں بیتاب اور شادعظیم آبادی سے تلمذ کا شرف حاصل رہا۔ لکھنؤ میں قیام کے ابتدائی دور میں پیارے صاحب رشید سے بھی اصلاحِ سخن کا سلسلہ رہا۔ 1905 میں لکھنؤ آنے سے قبل وہ یاس عظیم آبادی کے نام سے کافی شہرت حاصل کرچکے تھے حتیٰ کہ لکھنؤ کے شعرا کے درمیان بھی ان کی شناخت قائم تھی۔آتش پرستی کا غلغلہ اگرچہ اہالیانِ لکھنؤ کی ضد میں اُٹھایا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ آتش سے بہت متاثر بھی تھے اور کسی قدر آتش کی تقلید کا رنگ بھی اختیار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آتش کے علاوہ میر کی شاعری سے یگانہ کو خاصی موانست تھی، میر سے وہ بیحد متاثر ضرور تھے لیکن میر کی طرح رنج وغم جمع کرکے دیوان بنانے کے خلاف تھے اسی لیے عمر بھر سخت ترین حالات کے باوجود ان کے اندر کا حوصلہ مندشخص وشاعر زندہ رہا          ؎
فریبِ آرزو کب تک،  امیدِ سخت جاں کب تک
مجھے خود بھی تعجب ہے رہے گا دل جواں کب تک
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
حالانکہ یگانہ کی شہرت ان کی غزل گوئی کے سبب زیادہ ہے لیکن انھوں نے مروجہ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کے جوہر دکھا ئے ہیں، ا نھوں نے رباعیات، منظومات، قطعات، سہرے وغیرہ بھی کہے جو بہر حال ان کے اوجِ سخن کا نمونہ کہلانے کے مستحق ہیں۔
یگانہ کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ادبی فضاؤں میں عموماً علامہ اقبال کی منظومات کی گونج تھی اور خالص غزل گو شعرا بھی نظم پر خصوصی توجہ دے رہے تھے البتہ غزل گوئی کے حوالے سے اُس دور کے نامور معاصرشعرا میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی، فراق گورکھ پوری اور شاد عارفی موجود تھے۔ حسرت اور فانی عمر میں چند سال فوقیت رکھنے کے سبب سینئر اور باقی لگ بھگ ہم عمر یا تھوڑے سے جونیئرتھے۔ ان تمام میں یگانہ کا رنگِ سخن سب سے زیادہ شاد عارفی کے قریب نظر آتا ہے، ممکن ہے حالات اور طبیعتوں کے امتزاج کے سبب ایسا ہوالبتہ دونوں کے شاعرانہ مزاج میں نمایاں فرق ضرور تھا، انانیت پسندی، ضدی طبیعت، خودداری اورکشکمشِ حالات کے معاملے میں یگانہ اور شاد یکساں تھے البتہ فن اور اظہارِ شخصیت وفن کے معاملے میں جزوی فرق ضرور تھا۔ شاد کے تخیل کو حالات کی سنگینی اور مصائب نے ایسا تلخ وترش کردیا کہ وہ غزل گوئی کو یکسر ترک کرکے خالص طنز یہ شاعری کرنے لگے لیکن طنز کی کاٹ نے خود ان کی شخصیت کے وقار کو مسخ نہ ہونے دیا۔ تمام مخالفتوں، اعتراضات اور معاصرانہ چشمکوں کے باوجود بھی شادعارفی زندگی بھر نہ صرف شعرائے متقدمین کے فکروفن کے معترف رہے بلکہ اُن معاصر شعرا کی فنی خوبیوں کی تعریف بھی کی جووقتاً فوقتاًشاد سے چھیڑ خانی کرتے رہتے تھے۔ یگانہ کے یہاں حالات وواقعات کے زیرِ اثراظہارِ فن دو خانوں میں بٹ گیا، یعنی شاعری میں تو انھوں نے بہت زیادہ تلخی یا تُرش روئی کا مظاہرہ نہیں کیا البتہ شخصی طور پر متقدمین ومعاصرین کی کھال کھینچنا شروع کردی۔بیان کردہ اختلافِ فکرونظر کے باوجود یگانہ اور شاد کی شاعری کے رنگ کافی یکسانیت کے حامل نظر آتے ہیں مثلاً یگانہ کہتے ہیں         ؎
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
یہی انداز شاد صاحب کے یہاں اس طرح نظر آتا ہے      ؎
نظر بچا کے اُس کو میں، وہ مجھ کو دیکھتا رہا
   تبھی تو کہہ رہا ہوں کامیاب مدعا رہا
شاد اور یگانہ کے یہاں لاتعداد اشعار ایسے ہیں جو تیور اور بیان کی برجستگی کے اعتبارسے انتہائی قریب ہیں۔
جہاں تک لکھنؤ کے ہم عصر شعرا کی بات ہے تو یگانہ کے نزدیک اُن میں بیشتر کی شاعری بے جان وبے رنگ تھی۔فانی بھی یگانہ کے اہم معاصرین میں تھے لیکن ان کا اندازِ غم یگانہ کو پسند نہیں تھا کیونکہ وہ معترف ہونے کے باوجود بھی میر کے اظہارِ غم سے محض اس لیے اختلاف رکھتے تھے کہ”مجھے اے یاس مایوسی سے گھبرانا نہیں آتا“ کے مصداق انھیں حوصلہ مندی زیادہ پسند تھی، فانی پر اکثر یگانہ  نے اعتراضات کیے ہیں البتہ فانی اُن کی بہت قدر وعزت کرتے تھے، اسی طرح اعتراضات کے باوجود جوش بھی یگانہ کے قدردان ومعترف تھے۔ بہرحال حسرت،  فانی، اصغر، جگر، فراق اور شاد عارفی جیسے منفرد غزل گوشعرا کی موجودگی میں معتبر ومفتخر مقام حاصل کرلینا یقینا ادبی حوالے سے بڑا کارنامہ کہلانے کا مستحق ہے اور یگانہ نے یہ کارنامہ کردکھا یا ہے۔ یگانہ کے یہاں ادراکِ ذات کی بہت شدت نظر آتی ہے مثلاً ذیل کے اشعار      ؎
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا  بنے  تھے  یگانہ مگر  بنا  نہ گیا
بلند  ہو  تو  کھلے   تجھ  پہ  راز  پستی  کا
بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خداہی جانے یگانہ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
یگانہ سماجی نظام سے سخت بیزار تھے،غالباً اپنے افکار کے سبب معتوب ہونے کے بعد یہ بیزاری مزید شدت اختیار کرگئی تھی         ؎
دنیا کے ساتھ دین کی بیگار  الاماں
انسان  آدمی  نہ  ہُوا  جانور  ہوا
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرادے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا
جیسے دوذخ کی ہوا کھاکے ابھی آیا ہو
کس قدر واعظِ مکار ڈراتا ہے ہمیں
اب بات کرتے ہیں یگانہ کی شاعرانہ انفرادیت کی؛ یگانہ کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات میں بھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے یعنی اُن کی امید افزائی کا سورج ہمیشہ روشن رہتا ہے، اسی لیے ا ن کے اشعار میر اور فانی کے رنگ میں ڈوبے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ اس معاملے میں وہ تمام تر ناپسندیدگی اور اعتراضات کے باوجود غالب کے ہم مزاج نظر آتے ہیں۔غالباً اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ غالب شکن ہونے کے باوجود لاشعوری طور پر غالب اور ان کے فکروفن سے متاثر تھے۔ یگانہ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں معاصر شعرا سے استفادے کا پہلو کم سے کم ہے، انھوں نے اپنے رنگِ سخن کوشعوری طور پر معاصر شعرا کی تقلید سے بچائے رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے لیے مضامین وموضوعات خود وضع کیے اور انھیں اپنے فکروفن کے وسیلے سے اردوادب کی زینت بنایا۔
یگانہ کا امتیازِسخن یہ ہے کہ انھوں نے روایتی غزل کی پاسداری کے ساتھ جدت کے طور پر اردو غزل کو باغیانہ تیور سے آشنا کیا، موضوعات کی مروجہ روایت سے انحراف کے معاملے میں وہ متقدمین ومعاصرین سے کسی قدر ممتاز اور کشادہ ذہن معلوم ہوتے ہیں         ؎
امید وبیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیروحرم گھر کا راستہ نہ ملا
پہنچی یہاں بھی شیخ وبرہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
مزہ گناہ کا جب تھا کہ باوضو کرتے
بتوں کو سجدہ بھی کرتے تو قبلہ رُو کرتے
بندے نہ ہوں گے جتنے خدا ہیں خدائی میں
کس کس خدا کے سامنے سجدہ کرے کوئی
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دُعا کرچلے، اَب ترکِ دعا کرتے ہیں
یگانہ نے موضوعات کے حوالے سے اگر چہ روایت کی پاسداری کی ہے لیکن اُن کا خلاقانہ ذہن روایت میں تجدید کے پہلو تلاش کرکے اشعار کو انفرادیت سے ہم کنار کردیتا تھا۔ بندش کی چستی، لفظیات کا انتخاب، خیالات کی دلکشی وشائستگی اور زور کلام کے سبب یگانہ کے اشعار صاف پہچانے جاسکتے ہیں۔
یگانہ اپنی شاعرانہ خصوصیات کے سبب واقعی یگانہ ہی تھے۔ انھوں نے اپنے قدآور معاصرین سے کسی قدر آگے بڑھ کر اپنے فکر وفن کی راہیں ہموار کیں۔ جدید اردو غزل کے بنیاد گزاروں میں اُن کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
استفادی کتب
.1      میرزا یگانہ شخصیت اور فن: مرتبین: مشفق خواجہ، پاشا رحمن، آمنہ مشفق،1992  آصف پبلی کیشنز علی گڑھ
.2      میرزا یاس یگانہ چنگیزی: حیات اورشاعری از تمثیل احمد، 2006  ہارون نگر، پھلواری شریف پٹنہ۔
.3      مونوگراف یگانہ چنگیزی از وسیم فرحت کارنجوی، اردو اکادمی، دہلی 2015
.4      یگانہ احوال وآثار از نیر مسعود 1991  انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی

Seen Sheen Alam
Chairman: Saulat Public Library
Rampur - 244001 (UP)
Mob.: 9412454786



ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020