28/4/20

الیکٹرانک میڈیا میں بذریعہ اردو روزگار کے مواقع مضمون نگار: شاہ رشاد عثمانی


الیکٹرانک میڈیا میں بذریعہ اردو روزگار کے مواقع
شاہ رشاد عثمانی

اردو  میں  روزگار کا سوال اس عہد کا ایک سلگتا ہوا سوال ہے، جس نے اردو تعلیم کے سلسلے میں کئی  اہم  سوالات  پیدا  کر دیے  ہیں۔ جیسے کہ ہم  اردو کیوں  پڑھیں؟ اردو  پڑھ کر ہم کیا کریں گے؟ اردو پڑھ کر نوکری ملے گی یا نہیں؟  میرے  نزدیک  یہ تمام سوالات  لاحاصل  اور  بے معنی  ہیں۔ میں  اصولی  طور  پر  اردو  زبان کو  روزی روٹی  سے  جوڑنے  کا  قائل  نہیں  ہوں۔ اردو  زبان  ہی  نہیں،  دنیا کی کسی  بھی  زبان،  ادب  اور علم  کے حصول کا  اصل  مقصد کیا  ہے،  پہلے  یہ  جاننا  ضروری  ہے۔  دیکھیے تعلیم  کے حقیقی رازداں علامہ اقبال اس  بارے  میں کیاکہتے  ہیں        ؎
علم سے عزت بھی ہے شہرت بھی دولت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سرغ
یعنی جو لوگ علم حاصل کرتے ہیں انھیں عزت، شہرت اور دولت تینوں ملتی ہے جس کا انسان ہمیشہ سے حریص رہا ہے۔ مگر یہ علم کا مقصد نہیں ہے، اگر ہے بھی تو ذیلی ہے بنیادی نہیں ہے۔ علم کا اصل مقصد اور غرض و غایت تہذیب نفس ہے، عرفانِ ذات ہے، خودشناسی اور خداشناسی ہے جسے اقبال نے خودی سے تعبیر کیا ہے۔ ’اپنا سراغ یا سراغ زندگی‘ کا پانا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد رہا ہے، کیونکہ اس کے بعد ہی سچی کامیابی اور حقیقی مسرت و شادمانی ممکن ہے۔
دراصل  تعلیم  کا   مقصد  انسان  کی  ظاہری   و  باطنی  شخصیت کی تعمیر (Personality development)  ہے۔ خاص طور سے اردو تعلیم کے ذریعے انسان کے اندر تہذیب آتی ہے،  اردو کی تعلیم سے انسان کی شخصیت میں ایک ایسی چمک پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے اٹھنے بیٹھنے، طورطریقہ اور انداز گفتگو  میں  وہ نکھار آجاتا ہے جس سے سامنے والا بے حد متاثر ہو تا ہے اور یہی زندگی کی  راہ  میں کامیابی کا پہلا قدم ہے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جہاں تک روزی روٹی،رزق  اور روزگار کا معاملہ ہے  تو اس کا تعلق تما م تر تقدیر پر ہے۔ انسان کے چاہنے اور اس کی صلاحیتوں اور کوششوں سے کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ خد ا کی مشیت ہے،رزق جب جتنا اور جہاں سے ملناہے اسے مل کر رہے گا۔ اس کے لیے یقینا محنت و تگ و دو کرنی چاہیے مگر اس کا تعلق زبان اور علم سے کسی طورپر نہیں ہے۔ اور جہاں تک لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اردو پڑھنے والا نکما رہتاہے، اردو سے روزگار نہیں ملتا،تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے، روزگار کا اصول بالکل دوسراہے، مانگ ہوگی تو مانگ کو پوراکرنے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مانگ پید ا کیجیے تو روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ اردو کی مانگ، اردو بولنے والے ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اردو پڑھ کر صرف ابتدائی، ثانوی اسکول اور یونیورسٹی کی اعلیٰ سطح کے تدریسی و تعلیمی شعبے میں جگہ ملتی ہے یہ تو ہے ہی، علاوہ ازیں اردو صحافت، پرنٹ میڈیا کے مختلف شعبوں ترجمہ نگاری، اشتہار نویسی اور طباعت و اشاعت کے مختلف شعبوں میں روزگار کے بڑے مواقع آج سامنے آئے ہیں۔ ہم اردو کے وسیلے کے ساتھ معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو ان مواقع میں مزید توسیع ہوگی۔جہاں ایک طرف یہ بات درست ہے کہ آج ملک میں اردو جاننے والوں کے تناسب میں ان کے لیے مواقع کی کمی ضرور ہے لیکن دوسری طرف جو مواقع موجود ہیں ان سے پورا پورا اور بہتر سے بہتر صلاحیت کے ساتھ فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہے۔جس حد تک ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہورہاہے، اس کے لیے آپ کا اس زبان میں مہارت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ صرف ٹوٹی پھوٹی اور کام چلاؤ اردو زبان سے آپ کام لیں گے تو پھر بات نہیں بنے گی۔ ٹوٹی پھوٹی اور کام چلاؤ ہندی اور انگریزی سے بھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر لوگ یہ سمجھ لیں کہ اردو مضمون لے کر امتحان میں آسانی سے اچھے نمبر مل جاتے ہیں تو بغیر قابلیت اور استعدادکے اچھے نمبر حاصل کرلینے سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ آگے چل کر مایوسی ہی ہوگی۔ اس سہل پسندی کی وجہ سے عام لوگوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا ہے کہ اردو میں پڑھنے لکھنے والے کوئی خاص محنت نہیں کرتے اور وہ دوسرے سماجی علوم اور سائنسی موضوعات میں بھی اچھی معلومات نہیں رکھتے۔ اسی لیے ایسے دوسرے درجے کے لوگوں کوآج کوئی نہیں پوچھتا۔ لہذا ہمیں پہلے ارد وزبان میں اچھی قابلیت اور مہارت پیدا کرکے اوراردو کو اعلیٰ علمی ضرورتوں کا وسیلہ بنا کر اس کھوئے ہوئے اعتماد کو پھر سے بحال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ذہین طالب علموں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے سا تھ اردو زبان کی طرف  متوجہ ہونا ہوگا تاکہ وہ اپنے آپ کو روزگار کے بہتر مواقع کا اہل ثابت کرسکیں۔
اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں اردو زبان کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ (Electronic Media) کی ایجاد نے سب سے پہلے ساری دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل کر دیا اور اب اس عالمی گاؤں میں جمہوریت کے چوتھے ستون ذرائع ابلاغ کی حکمرانی قائم ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل خصوصاًانفارمیشن ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقی نے تمام عالم انسانیت کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ آج ریڈیو، سنیما، ٹیلیویژن،کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل، ویب سائٹس، ریڈیو کانفرنسنگ، سیٹلائٹ چینلوں، فیکس اور سیلو لر فون کادور دورہ ہے۔ آج کے معاشرے کو پوری طرح ایک معلوماتی معاشرہ (Information Society) بنانے میں جدید الکٹرانک وسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں میں نہیں بلکہ موبائل کے ایک چھوٹے سے simمیں سمٹ آئی ہے، بقول منور رانا      ؎
اب فاصلوں کی کوئی حقیقت نہیں رہی
دنیا سمٹ کے چھوٹے سے اک سم میں آگئی
الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے استعمال اور روزگار کے مواقع پرجب ہم ایک سر سری نگاہ ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے ریڈیو کا ذکر ضروری معلوم ہوتاہے جس کا آغاز تقریباً ایک سو سال قبل ہوا تھا۔ پھر جیسے جیسے ٹکنالوجی نے ترقی کی اسی مناسبت سے ریڈیو کو بھی فروغ ہوا۔ ریڈیو پر ہر دور میں ادبی، تعلیمی اور تفریحی پروگرام اردو زبان میں بھی نشر ہو تے رہے۔ ریڈیو کے تقریباًتمام مراکز سے اردو نیوز، حالات حاضرہ پر تبصرے، مشاعرے اور ڈرامے وغیرہ اردو سروس کے تحت نشریات میں شامل رہے ہیں۔ یہاں بڑے پیمانے پر جزو وقتی اور کل وقتی پروڈیوسر اور پروگرامر کی جگہیں نکلتی ہیں۔ اور اردو قلم کاروں کو کام کے کافی مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
ہندوستان کا قدیم الیکٹرانک ماس میڈیا ریڈیو کے ساتھ سینما بھی ہے۔ گزشتہ صدی میں ان دونوں ذرائع عامہ یعنی ریڈیو اورسینما نے بے پناہ ترقی کی ہے۔آج ہندوستان کی مختلف زبانوں میں فلم پر و ڈکشن کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری نے جو غیر محسوس طور پر اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے وہ قابل ستائش ہے، اس نے اردو زبان اور کلچر کو عوام کے ذہنوں میں زندہ اور محفوظ رکھا‘ گر چہ آج یہ فلمیں ہندی کے نام پر ریلیز ہو رہی ہیں مگر ان کے گیت‘ ٹائٹل‘مکالمے‘ وغیرہ سب نوے فیصد 90%اردو میں ہیں اور اس کے لکھنے والوں میں تقریباًتمام اردو کے ادیب وشاعر ہیں۔ ظاہر ہے سنیما کے ڈائرکشن سے لے کر ایکٹنگ تک کے مختلف شعبوں میں اردو والوں کے لیے لامحدود امکانات ہیں۔
ٹیلی ویژن نیٹ ورک گزشتہ بیس پچیس برسوں سے بڑی سرعت کے ساتھ وسعت پذیر ہورہا ہے۔ دور درشن نے پورے ملک میں اپنے کئی طرح کے ٹرانسمیٹر نصب کر رکھے ہیں اور تنصیبات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس طرح ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں بھی دور درشن کے پروگرام دیکھے جا رہے ہیں۔ ریڈیو کی طرح ٹی وی پر بھی مختلف مراکز سے اردو پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں۔مختلف کیبل اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ذریعے اردو نیوز مشاعرے ڈرامے اور سیر یلز وغیرہ بڑے پیماے پر ٹیلی کاسٹ کیے جارہے ہیں، خصوصاً ڈی ڈی اردو،نیوز 18اورذی سلام جو صرف اردو زبان میں ہی اپنے تمام پروگرام نشر کرتا ہے ان سے اردو زبان کی مقبولیت اور فروغ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آج ماس میڈیا کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے‘ جس میں اردو زبان کی ضرورت  و اہمیت مسلّم نہ ہو‘ اخبار ہو یا ریڈیو‘ فلم ہو یا ٹیلی ویژن۔ اردو زبان کی قوت، اس کی ہمہ گیری‘ گہرائی وگیرائی‘ شیرینی‘ حسن‘ فصاحت وبلاغت اور اشارت وشعریت ہر جگہ کام آتے ہیں۔ خصوصاً الیکٹرانک میڈیامیں اردوکی اہمیت اور ضرورت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ٹی وی کی نجی کاری (Privatisation) کے بعد اردو زبان کا چلن ا ور بھی بڑھا ہے۔ اس لیے کہ عوامی رابطے کے لیے اُنہیں اس زبان کی ضرورت ہے۔ اردو تاریخی اعتبار سے اپنی پیدائش سے ہی عوامی رابطے کی زبان  (LinkLanguage)  رہی ہے،  اور اثر پذیری اس کی خصوصیت ہے۔ اس لیے میڈیا کو یہ ہمیشہ راس آئی ہے۔
آج انسان کے پاس فرصت کے لمحات بہت کم ہیں‘ ضروریات زیادہ ہیں۔ اردو اپنی جامعیت کی وجہ سے اختصار کے ساتھ موثر ہونے پر قادرہے۔اس کی ایک مثال ٹی وی پر اشتہارات کی مقبولیت ہے۔ ظاہر ہے ٹی وی کے لیے اشتہارات تیار کرنے اور پھر اسے ٹیلی کاسٹ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ایسی صورت میں کم وقت میں ضروری مواد پیش کرناہوتا ہے۔ اس جامعیت اور اختصار کے لیے اردو زبان بہت کام آتی ہے۔کسی بھی وقت ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارا ت کو غور سے سن لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ استعمال کیے جانے والے لفظوں میں غالب عنصر اردو کا ہے‘ مثال کے طور پر چند اشتہارات دیکھیے: کر لو دنیا مٹھی میں (ریلائنس فون) کھولے گا تو بولے گا (کولڈ ڈرنکس)سب سے تیز (آج تک نیوز) آپ کو رکھے آگے (اسٹار نیوز) دل مانگے مور (پیپسی ڈرنک)اپنا خیال رکھنا (گارنیر کاسمٹک) دیش کی دھڑکن (ہیرو ہونڈا) وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹی وی کے لیے اشتہار لکھنا ایک پروفیشنل معاملہ ہے اور بڑی حد تک تکنیکی بھی۔ مگر ایسے لوگوں کے لیے جو خیال کو لفظوں میں ڈھالنے کے ہنر سے واقف ہیں کوئی مشکل کام نہیں، وہ پیشہ ورانہ بنیاد پر اسے حصول روزگار کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
 انٹر نیٹ‘ ویب سائٹس اور آن لائن میڈیا کی بات کریں تو وہاں بھی اردو کے حوالے سے روزگار کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ہند وپاک کے مختلف شہروں سے اردو میں شائع ہونے والے بڑے بڑے اخباروں کے ویب سائٹس ہیں، جن پر ویب ایڈیشن نکل رہے ہیں، اب ای نیوز پیپر نکالنا بہت آسان ہوگیا۔ اگر ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوجاتی ہے تو Google Adsense کے ذریعے اس پر اشتہارات بھی مل جاتے ہیں۔ اردو کی پرنٹ میڈیا میں جہاں ریڈر شپ کا بازار نہایت سکڑا ہوا ہے وہیں ویب سائٹ پر یہ اخبارات لاکھوں قارئین کے ذریعے پڑھے جارہے ہیں۔ اسی طرح ادبی ویب سائٹ، اردو کتابوں کی ویب سائٹ، طب، صحت اور نفسیا تی مسائل پر کونسلنگ کے ویب سائٹس چلائے جارہے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بلاگسBlogs بنا کر بھی خوب کمار ہے ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ کا ایک اہم حصہ یوٹیو ب ہے، یوٹیوب پر مفت وڈیو اپ لوڈUp Load کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے خبروں کا چینل، مشاعرہ کا چینل، مزاحیہ ڈراموں کا چینل، ادب اطفال کے مختلف پروگراموں کا چینل وغیرہ  وغیرہ۔ جب ان چینلس کو دیکھنے والوں کی تعداد گوگل کے حساب خاصی بڑھ جاتی ہے تو وہ آپ کے چینل پر اشتہارات پوسٹ کرتاہے اور یوں آپ کو بھی اپنے نفع میں شریک کرتاہے۔ سوشل میڈیا، فیس بک، ٹیوٹر اور واٹس اپ کا استعمال بھی اردو والے بطور روزگار کررہے ہیں۔ اردو سافٹ وئیر اور اردو ایپس بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اردو آن لائن شاپنگ سنٹر س بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل ڈیجیٹل ورلڈ میں زبان کی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ زبان کے ساتھ ٹکنالوجی کا ملاپ ہونا زیادہ ضروری ہے۔ اردو Key Padکی ایجاد نے یقینا اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں داخل کردیا ہے۔ مگر اس کا خوب تر استعمال اردو والوں کی اپنی استعداد اور دلچسپی پر منحصر کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ الیکٹرانک میڈیا جہاں عالمی سطح پر اردو زبان کے فروغ میں اپنا موثر کردار ادا کررہاہے، وہیں اردو زبان میں روزگار کے نئے نئے مواقع بھی پیدا کررہاہے، جس نے یقینا ہمارے لیے امیدو امکانات کی وسیع دنیا کے دلکش دروازے کھول دیے ہیں۔

Dr. Shah Rashad Usmani
Retd. Asso. Prof. & Head Dept of Urdu
Anjuman Degree College & PG Centre
Bhatkal - 581320 (Karnataka)



ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...